اللہ میاں کے مہمان

563

Click here to load reader

Upload: aijazubaid9462

Post on 27-Jul-2015

551 views

Category:

Documents


255 download

DESCRIPTION

اعجاز عبیدhttp://kitaben.urdulibrary.org/AllBooks.html.

TRANSCRIPT

Page 1: اللہ میاں کے مہمان

اللہ میاں کے مہمان

ء کا سفر نامہ ہلکے پھلکے رنگ میں1997حج

اعجاز عبید

Page 2: اللہ میاں کے مہمان

فہرست

6پہلی بات

7پس و پیش )لفظ(

10ہم پائے کے ادیب ہیں

11کیا ہم سنجیدہ ہو سکیں گے؟

11ہم ہندوستان میں رہتے رہتے حاجی ہو گئے

11بنگلور حج کیمپ

13حاجی بنگا

آا گئی ہے منزل۔۔۔ 14رہ شوق کے مسافر، تری

15لوٹ پیچھے کی طرف....

16بنگلور حج کیمپ ۔پہلے د و د ن

حSت بھی... 17کمزور ہے میری ص

حYل کی ، لکھا نی سے با ٹا تک 19داستان چ

20ہم مSرم ہو گئے

Page 3: اللہ میاں کے مہمان

حدہ پرواز نمبر 711121بنگلور۔ج

حر ر ح^ف متک 22تSذ یر ۔ تو

23پرواز جاری

26 کئے گئے‘نقل’ہم

بd نظر چاہئے 28تا

30عمر ے کا طو ا ف ا و ر سعی

34د ا ستا ن ہما ر ی کھا نسی کی

حلہ 34مریض ال

ب ن یی میں د و د حم القر 35اا

بل سیا ست جا نیں....... 36وہ ا ہ

37ر و ز کے معمو لا ت

37ہم عربی سیکھ رہے ہیں

39آاخر ہم ہندوستانی ہیں

بب عامر کے ^یدی 39شع

Page 4: اللہ میاں کے مہمان

41مد ینے کا مسا فر

41مد ینے میں ہما را ا ستقبا ل

42....کہ خا ک شد ہ

43.....سفا رت بھی ہے ^بو ل

بر مد ینہ کی پہلی شا م 43دیا

44 پر ملیں‘ممنو ع ا لتد غین’اd کے ہم بچھڑیں تو

45حا جی مفت خو ر

45تلاش مکتبۂ نبوی کی

46ا سرا ر میا ں ا لو ر ی/ کرا چو ی / مد نی

47مد ینے کی زیا رتیں

حفہ یا کچھ اور...!! 50ص

51تین پا کستا نی

53پاکستانی ہوٹل

ت پر ہیں 54اd ہم و

Page 5: اللہ میاں کے مہمان

54کھانسی اور بازار

56مکتبہ نبو ی د و ر نیست

57جے بنگلہ دیش

58 ریال2۔2ہر ما ل

بد نبوی کے با رے میں 59کچھ مسج

60مکتبے کی تلاش بے سود رہی

بدنبوی کی با^ی باتیں 61مسج

62آاج ہم سست ہیں

63پاکستانی لنگوٹی

64وہی دن وہی رات

بع کوچۂ و بازار... 65...متا

حجد مجبوری تو نہیں؟؟ 66تہ

67آاٹے دال کے علاوہ ہر چیز کا بھاؤ

حنت مکانی 69عارضی ج

Page 6: اللہ میاں کے مہمان

حھر ہی لے چلیں 69آائے ہیں اس گلی میں تو پت

ا ادھر کی بادھر 71مزید کچھ

72کچھ اور ارضیات

73...... شیطان کھڑا دام لگائے

73کچھ کھجوروں کے بارے میں

ب� اموات کم ہو گئی ہے 74شر

75خریداری جاری ہے

76تندوری پراٹھے

آاج جانا پڑا... 76...موہے پی کے نگر

77کچھ اختلافات

بد نبوی سے وداع 78مسج

حلیاں 79کبوتر اور ب

آاج کی تفصیل 79کچھ

80نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم...

Page 7: اللہ میاں کے مہمان

حلہ تک بر نبی سے جوار بیت ال 81دیا

82 بدل گیا‘نقشہ’ کا ‘شہر’دو روز میں ہی

حنار 83عذاd ال

90حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

حرر ارشاد 91پھرمک

یی واپسی 92عرفات سے من

آاثار کیا ہوئے 93یا رd ترے عذاd کے

94شیطانوں کو سزا

95 حجامت‘ایکسYریس’

96خیر سے ہم حاجی ہو گئے

یی کا طعام 99من

100حرام وحلال ۔ بیغم کا خیال

100پھر لا حول ولا اور حرم کو واپسی

حکہ بر م 104تندو

Page 8: اللہ میاں کے مہمان

حکہ دربار ہوٹل 105طازج فقیہ عرف م

106لوٹ کا مال

107حرم کے شب و روز

حجا ج کے با ر ے میں 108کچھ بین ا لا ^و ا می ح

109سعدی و حافظ

111بلا عنوان

113ہدایت نامہ حاجی

118ہد ا یت نا مہ )گزشتہ سے پیوستہ(

120ہد ا یت نا مہ حا جی برا ئے خو رد و نو ش

121کچھ خبریں

حد ہ حکے تک بر ا ہ ج حکے سے م 123م

حد ے کے شب و ر و ز 124ج

حد ہ 125شہر ج

آاو ر ز’آاگیا بت نما ز‘پیک 128 میں بھی اگر و

Page 9: اللہ میاں کے مہمان

130ہمارا مطالعہ )اور ہمارا موضوع سے بہکنا(

ات حر 132بلا عنوان ۔ متف

ح ہ میں ہیں 133ہم ا d بھی جد

135دو ر و ز میں ہی )حرم(کا عا لم بد ل گیا

بگنتی... 3136اا لٹی

140الٹی گنتی .... .د و

143االٹی گنتی... ا یک

146اا لٹی گنتی.... صفر

آائے 146لوٹ کے حا جی گھر کو

Page 10: اللہ میاں کے مہمان

بات پہلی

حدا� نہیں۔ ہم بھی ان کے خوشہ چینوں میں سے رہے ہیں۔ لیکن مشتاق یوسفی کا کون م

ابناوٹ )مائنڈ سیٹ( ان کا سا ہے۔ کچھ اس خوش فہمی کے ساتھ کہ در اصل ہماری ذہنی

اگر چہ ہم نے شعوری کوشش کبھی نہیں کی کہ ان کی نقل کی جاۓ۔ اگر ہم جھوٹ نہیں

بول رہے ہوں تو ہم نے اپنے پیسوں سے جو پہلی کتاd خریدی وہ ’چراغ تلے‘ تھی۔ اس کے

اچرائی۔ اا لی اور نہ م سے خریدی، نہ کسی سے عاریت بعد "خاکم بدہن" بھی ہم نے اپنی ہی ر

آائی تو ہمارے گھر میں ہمارے، بلکہ ہماری نصف بہتر کے بھانجے تیسری کتاd جب سامنے

افتخار بھی تھے۔ وہ خود بھی یہ کتاd خریدنا چاہتے تھے اور سوچا کہ ٹھیک ہے، گھر میں

اگم‘ پڑھ کر بھول گۓ۔ افتخار dب آا ’ dتو رہے گی ہی۔ چنانچہ اس طر� ہم یہ کتا dایک کتا

dبم روزگار میں یہ یاد نہیں رہا کہ ایک کتا بھی دوسرے گھر میں شفٹ ہو گۓ اور ہمیں بھی غ

میں حج کے لۓ گۓ تو یہ1997اور بھی ہماری ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ اس کے بعد ہم جب

بش لفظ کو وہی نام دے دیا بم خود( سفر نامہ تخلیق کیا۔ اور اس کے پی حج کا دلچسپ )بزع

بش لفظ‘۔ اور عرصے تک خیال بھی نہیں رہا۔ جب اپنی ہی کتاd پڑھتے تو اس لفظ ’پس و پی

سے لطف اندوز ہوتے۔

Page 11: اللہ میاں کے مہمان

آاخر میں ایک دوسرا سفر در پیش ہوا، امریکہ کا۔ ہیوسٹن2005خدا کی کرنی یہ ہوئی کہ کے

میں تو ہمارا بیٹا کامران ہی رہائش پذیر ہے، ^ریب ہی ڈیلاس میں افتخار کے پاس بھی جانا ہوا

بلکہ دو دن وہاں رہائش کے دوران افتخار میاں نے وہی کتاd ہم کو پیش کی کہ دو پہر میں

بو خواd ہوں تو ہم اس سے لطف اٹھا لیں کہ ہم دن میں سوتے نہیں۔ Sجب تک با^ی عوام م

عرصے بعد جب یہ کتاd دوبارہ پڑھی تو شروع کے صفSات نے ہی چونکا دیا۔ اور تب

بش لفظ‘ مSفوظ رہ گیاتھا جو ’اللہ احساس ہوا کہ کہیں لا شعور میں اس کتاd کا ’پس و پی

آایا کہ ہم خود اd تک اسے اپنی ترکیب سمجھ ت اس طر� سامنے میاں کے مہمان‘ لکھتے و

بش لفظ ہے کہ اگرچہ بش لفظ کا پی کر خوش ہوتے رہے۔ یہ چند سطریں مSض اس پس و پی

ہمیں اd اس دیباچے کو استعمال کرنے میں پس و پیش ہے، لیکن اس عرصے میں ہم نے اس

اجدا کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ ^در اسے اپنا سمجھ لیا ہے کہ اd خود سے

dپھر حاضر ہے۔ یہ کتا dاس اردو ویب ایڈیشن میں اس حلف نامے کے ساتھ مکمل کتا dا

اd تک اردوستان ڈاٹ کام سے ^سط وار شائع ہوتی رہی ہے۔ لیکن تصویروں کی صورت میں۔

اd تSریری شکل کے لۓ ہم اپنے ہی شکر گزار ہیں۔

اعجاز عبید

2006 اپریل 8

Page 12: اللہ میاں کے مہمان

)لفظ( پیش و پس

ہم عرصے سے اس پس و پیش میں تھے کہ اس سفر نامے یا روزنامچے میں ، اگر کبھی شائع

بش لفظ لکھ کر پہلے ہی ^ارئین کو خبردار کر دیں یا پس لفظ لکھ آائے تو، پی کرانے کی نوبت

عات رکھی ہوں گی ہم سے۔ پس و کر ان سے معذرت کر لیں کہ انھوں نے نہ جانے کیا کیا تو

پیش یہ بھی تھا کہ اسے شائع بھی کروائیں یا نہیں بلکہ لکھیں بھی یا نہیں۔ بہرحال جب

پس و پیش جاری رہا تو ہم نے عارضی طور پر اوپر والا عنوان دے کر انگریزی مSاورے کے

مطابق گیند کاتب صاحب کے پالے میں ڈال دی ہے کہ وہ کتاd کے شروع میں اس تSریر

آاخر میں ۔ یہ تو امید رکھتے ہیں کہ کاتب صاحب کو اس میں تو پس و پیش نہ کو رکھیں یا

’ کب کتابت کریں ا ور ’پس لفظ ‘ کہاں۔ یہ جملہـ‘ پیش لفظ ـہوگا کہ اس تSریر کا عنوان

dت ا آاج کل تو ہم ارلکھتے و آایا کہ و والے بھی خدا کے فضل اور امریکہ کے کرمدھی خیال

سے کمYیوٹر کے دور میں داخل ہو گئے ہیں اور کاتب دور ماضی کی یادگار ہوتے جا رہے

اردو ( پر انگریزی حروف پر انگلیاں رکھ کرKeyboard ’ کلیدی تختے‘ )ـــہیں ۔

حروف پیدا کرنے والے جادوگر کو کیا کہنا چاہیے ^ارئین اس پر ضرور غور کریں ۔

آاپ اس کو جو بھی،گذارش احوال وا^عی کے طور پر کچھ باتیں گوش گذار کرنی تھیں dا

نام دیں۔ اصل میں تو یہ ہمارا حلفیہ بیان ہے۔

Page 13: اللہ میاں کے مہمان

شروع وہاں سے ہی کریں جہاں سے بات شروع ہونی چاہئے ۔

آاگئی کہ کا حج نصیب ہو گیا۔ وا^عہ سنا تھا کہ کو1997جانے ہماری کون سی نیکی کام

بحبیک’ئی بزرگ تھے جو تلبیہ پکارتے تھے بل بحم اہ یحل با بحبیک میں حاضر ہوں میرے اللہ ، میں’ ۔ ‘بل

آاتی تھی ‘حاضر ہوں بحبیک’ ، تو ا ن کو غیب سے صدا بل با بل ۔ ان کی حاضری ہی ^بول نہ‘

یمن ورحیم کا رحم ہے کہ ہمارا حرح تھی۔ مرحبا کہ نہ صرف ہمارا سفر ممکن ہو سکا بلکہ اس ال

حبیک بھی ^بول کیا گیا، حج کے ارکان بھی اللہ نے بخوبی ادا کروائے اور ہم کو ہر ہر بلا سے ل

مSفوظ بھی رکھا۔ جب اللہ میاں نے ہم کو مہمان بنانا ^بول کر ہی لیا تو پھر خاطر تواضع

بھی خاطر خواہ کرنی ہی تھی۔ لوگ کیا کہتے کہ پہلی بار کے مہمان کے ساتھ بھی کیسا

سلوک کیا۔ اd یہ ہم خود ہی گواہی دیتے ہیں کہ ہم مSض سوکھے ہی نہیں ٹرخائے گئے ہیں،

آائے ہیں۔ رحمتوں کی بارش سے شرابور بھیگے ہوئے

یہ بھی بتا دیں کہ ہم مان نہ مان میں تیرا مہمان ^سم کے خودساختہ مہمان نہیں تھے۔ ہمارا

یی کے مہمان بن حج اللہ تعال اشارہ اس حدیث کی طرف ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ عازمی

حکے میں ہماری عمارت نمبر ’ہیں۔ ح ۔ م یمن بب عامر میں ہی468ضیوف الرح کے ^ریب شع

آاپ مانیںـ ـغذائی سامان کی ایک دوکان تھی، اس کا نام ہی تھا یمن ‘‘(۔ ’’بقالہ ضیوف الرح

حلف ^سمیا نہ مانیں، ہم تو خود کو اللہ میاں کے مہمان ہی سمجھتے رہے بلکہ بہت بے تک

حلف میں ذوق صاحب کو ہی نہیں ہم کو بھی سراسر تکلیف ہی ہوتی۔ اسکے۔ کہ تک

ے امیدوار بھی رہے ا ور ^طعی ناکام نہیں لوٹے۔ مراد یہپروردگار کی طرف سے ہم نوازشوں ک

آائیں، ساری تکلیفات دور ہو گئیں یا ہماری کھانسی دمے نہیں ہے کہ ہماری ساری مرادیں بر

Page 14: اللہ میاں کے مہمان

کی تکلیف میں افا^ہ ہو گیا۔ یہ بھی ہو جاتا تو مزید رحم و کرم ہی ہوتا، مگر یہی کیا کم ہے

کہ ہم کو نہ جانے کیوں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم خالی ہاتھ نہیں لوٹے ہیں۔ کیا خدا کا یہ کرم

بھی کم ہے کہ اس نے یہ سعادت ہمارے لئے لکھ دی۔

دوسری ایک اہم بات یہ عرض کرنی ہے کہ اللہ میاں کی مہمانی ^بول کرنے والے کو ، بلکہ

یوں کہیے کہ جسے اللہ میاں مہمان بنانا ^بول کریں ، اسے تو بہت منکسرالمزاج ہونا چاہیے

’ما بدولتوں‘ کی طر� خود کو صیغۂ جمع میں لکھ رہے ہیں۔ حلفیہـتھا۔ اور یہاں ہم ہیں کہ

دیتے ہیں کہ ہم ما بدولت ^طعی نہیں ہیں ، بس ایک روایت کا احترام کر رہے ہیں جوبیان

حم کے لئے جمع کا صیغہ کیا اا پطرس مرحوم سے شروع ہوئی تھی۔ پطرس نے واحد متتکل غالب

استعمال کیا کہ یہ اd ہر طنزومزا� نگار کی پہچان بن گیا ہے۔ شوکت تھانوی ہوں یا وجاہت

یی حسین ، سبھی یہ صیغہ اس سندیلوی، مشتاق احمد یوسفی ہوں کہ یوسف ناظم اور مجتب

طر� استعمال کرتے ہیں کہ نثر کے طنزومزا� میں ہم کو خود یہ ضروری مSسوس ہونے لگا ہے۔

نہ لکھیں تو کچھ کمی سی مSسوس ہو گی، چنانچہ عام بو ل چال میں چاہے ہم اپنے کو

بن خاردار زیادہ ہے( ^دم‘ہم’ بت زعفران میں )جو میدا نہ کہیں مگر جب ^لم اٹھا کر اس کش

برعروض کے ماہرین معاف فرمائیں( S( لکھنے‘ہم’)؎ ڈبویا ہم کو رکھتے ہیں تو بے ساختہ )ب

ہم تو ’ہم ‘ لکھتے۔ ^ارئین کرام سے بھی معذرت۔ـ نے، جو لکھتے

بدن ہی جو کچھ تSریر کیا ہے اس تیسری بات یہ کہ ہم نے اس سفرنامے /روزنامچے کے پہلے

آا گئی ہے۔ مگر کیوں کہ اصل پیش لفظ یہی ہے اس لئے یہاں‘پیش لفظیت’میں بھی کچھ

کہنا چاہئے۔ مگر ^ارئین کرام تو پہلی بار یہ‘دہرانا‘ دیں )یہ تSریر بعد کی ہے . اس لئے ‘پہلا’

Page 15: اللہ میاں کے مہمان

میں انہیں یہ‘کیا ہم سنجیدہ ہو سکیں گے’ اور ‘ہم پائے کے ادیب ہیں’بات جان رہے ہیں؛

^سم کی کتاd لکھنے کا‘حج گائڈ’مSسوس ہوگا کہ ہم یہ بات دہرا رہے ہیں( کہ ہمارا ارادہ

سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش‘حج گائڈ’تو نہیں تھا۔ اگر کسی ^اری نے اسے

حمہ دار ہوگا۔ اگر توفیق ہوئی تو بن انشا نتائج کا خود ذ کے طور پر‘پس پس لفظ’کی تو بقول اب

ضمیمہ ضرور شامل کیا جا سکتا ہے جس میں وہ باتیں شامل ہو سکیں جو حج گائڈ میں ہونی

م کرتے رہیں گے )لو� و ^لم چاہئیں۔ ہماری کوشش تو یہی تھی کہ جو ہم پر گزرے گی، ر

کی پرورش ہو نہ ہو( اور ہماری دعا ہے کہ جو ہم پر گزری ہے وہ سب پر گزرے،یعنی سب کو

یی کی حج نصیب ہو،مگر جو ہم نے نظارۂ بد دیکھا وہ خدا کسی کو نہ دکھائے ۔ یعنی من

آاگ کا حادثہ۔

اا تلاش ین حضرات فور اس سلسلے میں بھی کچھ عرض کرنی ہے۔ گرما گرم خبروں کے شو

آاگ کا چشم دید حال ہم نے لکھا ہوگا، رننگ کمنٹری ) یی کی کریں گے کہ من

Running Commentary ببرننگ کمنٹری’( بلکہ‘(Burning

Commentaryدی ہو گی ، مگر ان کو مایوسی ہی ہوگی؛ ہم کو تو خوشی ہے کہ )

ہم اس عذاd کو وا^عی چشم دید نہیں کر سکے۔ لوگوں کی بھاگ دوڑ اور دھوئیں کے

حی سے معلوم ہوا تھا کہ آانکھوں میں مSفوظ ہیں۔ اسی بھیگی بل مرغولوں کے مناظر ہی ہماری

عے پر بھی مزا� کا شکار ہو گئے۔ باہر بارش ہو رہی ہے۔ لیجئے، ہم اس مو

مختصر یہ کہ ہم نے جو کچھ دیکھا ہے، وہ سفر نامہ ہی کچھ زیادہ ہے۔ نہ حج گائڈ نما

بجن کو‘کہانیاں’کتاd ہے اور نہ اس میں صSافیوں والی کہا جاتا ہے( ۔ شروع تو‘اسکوپ’ )

Page 16: اللہ میاں کے مہمان

ہم نے کیا تھا کہ اسے ہلکے پھلکے انداز میں ہی غیر سنجیدگی سے لکھیں گے، مگر بعد

میں اکثر جگہ یہ سفرنامہ مSض ہو کر رہ گیا ہے۔ وجہ مSض یہی رہی کہ ہم کو روزانہ لکھنے

ت ملا تو طبیعت راغب نہیں ہوئی۔ اور کافی بعد میں جو پچھلی باتیں ت ملا اور و کا نہ و

ت کے ساتھ دوڑانا پڑا کہ نہ ہنسنے کی مہلت ملی لکھتے رہے تو پھر ^لم کو اس تیزی سے و

بس مزا� کو بھی اسی طر� پیچھے چھوڑ دیا جس طر� ملکھا سنگھ کے نہ ہنسانے کی۔ ح

بارے میں لطیفہ مشہور ہے کہ موصوف چور کو رنگے ہاتھوں پکڑنے گئے، اس کے پیچھے

بھاگتے بھاگتے اس سے دوڑ کا مقابلہ جیتنے کی کوشش کرنے لگے اور جیت کر بہت خوش

ہوئے ۔ ہمارا یہی حال کبھی سنجیدگی کے ساتھ ہوتا ہے، کبھی حس مزا� کے ساتھ۔ یہاں

تو خیر یہ شرط بھی تھی کہ وا^عات بھی سارے لکھے جائیں ؛ اگرچہ کہیں سرسری ہی رہ

آاپ کے سامنے ہے اس میں کہیں جذبۂ شوق کی کارفرمائی بھی ہے جائیں۔ بہر حال جو چیز

آاپ کو بھی ہماری طر� رلا دے )ہم خود بھی کہیں کہیں لکھتے لکھتے جوممکن ہے کہ

آاپ کو ہنسنے پر مجبور کر دے؛ کبھی بم پر نم ہو گئے ہیں( تو کبھی کچھ اور بات چش

، جیسے‘ہر مال دو ریال’مSض کچھ معلومات ہی حاصل ہوں۔ کچھ ایسی ہی چیز ہے کہ

آاوازیں لگاتے ہیں۔ یہ کتاd بھی ایسی ہی دوکان بن مدینے اور جدہ ایر پورٹ کے اکثر دوکان دار

؎ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتےگئی ہے۔ )جو(^بول افتد زہے عزوشرف۔ اور یہ کہ

ہیں۔

اعجاز عبید

1997 جون 2

Page 17: اللہ میاں کے مہمان
Page 18: اللہ میاں کے مہمان

ہم پائے کے ادیب ہیں

ء ۔ 97 مارچ 27بنگلور ۔

بجے دو پہر1 ۔ 40

بہت سے ^ارئین کرام نے شاید ہمارا نام بھی پڑھا یا سنا نہ ہوگا اور اگر یہ کتاd بھی شائع نہ

آائندہ بھی نہ سنیں گے۔ مگر یقین مانئے کہ ہم پائے کے ادیب ہیں۔ ‘پائے کے ادیب ’ہوئی تو

کا ارتقاء، ہمارا مطلب ہے اس مSاورے کا ارتقاء کس طر� ہوا، ہمارا نا^ص علم اس سلسلے

سے کیا مراد ہے ؟ ویسے پائے بھی کئی ^سم کے ہوتے‘پائے’میں معذور ہے۔ واللہ اعلم یہاں

بم حیوانات کے دو پایوں اور چار پایوں کے علاوہ، جن میں ہمارا بھی شمار ہونا چاہئے ہیں۔ عال

حول الذکر میں(۔ بقول مشتاق یوسفی، ایسے بھی پائے ہوتے ہیں جن کو چوڑی دار )مطلب ا

پاجامہ پہنانے کو جی چاہے۔ ہمارا، بلکہ مشتاق یوسفی کا اشارہ چارپائی کے پایوں کی طرف

ہے اور ان ہی کے بقول وہ پائے بھی ہوتے ہیں جن کو انھوں نے سریش سے تشبیہ دی ہے اور

جسے ان کے یار غار اور ہمزاد مرزاعبدالودود بیگ دہلں کی تہذیب کی نشانی گردانتے ہوئے

بش جان کرتے ہیں۔ یہ نہاری پائے تو ہم کو بھی عزیز ہیں بشرطیکہ اس میں کام و دہن کی نو

آاپ بھی اس کے آازمائش نہ ہو۔ بہرحال اd ہم نے جب یہ فقرہ لکھ ہی دیا ہے تو امید ہے کہ

Page 19: اللہ میاں کے مہمان

معنی وہی سمجھیں گے جو ہم نے مراد لئے ہیں۔ اور اگر نہ سمجھیں تو ہماریے لئے وہی مثال

ہو گی کہ نہ پائے ماندن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہو گیا۔ خدا نہ کرے کہ یہ کتاd ہی معترضہ‘پیرا معترضہ ’معاف کیجئے، جملہ معترضہ کچھ

ہو جائے۔

ہمارا مطلب دراصل یہ ہے کہ نظم و نثر میں خامہ فرسائی کرتے ہوئے اس حقیر فقیر بندہ پر

سال گزر چکے ہیں۔ جو لکھا اس میں مشتے از چھYا بھی ہے چنیدہ30تقصیر کو کم و بیش

چنیدہ رسائل )یعنی جن رسائل نے ہم کو چنا( میں۔ احباd کو بہر حال علم ہے کہ ہماری

امت میں کمی وا^ع نہیں ہوتی۔ بطور شاعر ہم تخلیقات چھYیں یا نہ چھYیں، ہمارے ادبی ^دو

ضرور زیادہ جانے پہچانے گئے ہیں مگر نثر .....اللہ اکبر۔ افسانہ ناول کے علاوہ ہم چاہے

تنقید لکھیں، خاکے لکھیں )یا اڑائیں( ، تاریخ یا سائنس کے موضوع پر ^لم اٹھائیں، ہماری

بگ جان سے ^ریب ہی کوئی رگ وا^ع بس مزا� بری طر� پھڑک جاتی ہے۔ بلکہ در اصل یہ ر ح

ہوئی ہے جو دھڑکن کے ساتھ دھڑکتی ہے۔

آا یا کہ سفر بیت اللہ کے تاثرات پر مبنی کچھ لکھا جائے۔ چار پانچ دن پہلے ہی یہ خیال

ت کے رپورتاژ، سفر نامہ، ڈائری۔ جو بھی کہہ لیجیے ۔ جب حرمین میں داخل ہوں گے اس و

تاثرات ممکن ہے کہ سنجیدہ ہوں، لیکن عام حالات میں )ابھی تو احرام سے بھی باہر ہیں۔

..... مگرـــویسے مزا� تو احرام کی حالت میں بھی حرام تو نہیں ہو گا( سنجیدگی کا دامن

کون ہے......؟یہ سنجیدگی

Page 20: اللہ میاں کے مہمان

کیا ہم سنجیدہ ہو سکیں گے؟

حچے ادیب بن ^لم سے ادا ہونا چاہئے۔ یہی س آاتا ہے تو جیسا موڈ ہوگا، وہی زبا جب ^لم ہاتھ میں

یی بھی کرنے لگے؟(۔ ہم عام حالات میں بھی طنزومزا� کے کی پہچان ہے )کیا ہم یہ دعو

شکار اسی طر� رہتے ہیں جیسا کھانسی اور دمے کے۔ کیسی بھی پریشانی اور تکلیف ہو ،

حدت کا اثر زائل ہوکر جیسے ہی نارمل ہوتے ہیں، سنجیدگی دامن چھڑا کربھاگ اس کی ش

جاتی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ اس ماڈرن لڑکی کا نام ہے جس کے پیچھے پیچھے یا ساتھ ساتھ

آاجائے تو تھامے رہنے ( کی کوشش کرتے بھاگتے بھاگتے ہم اس کا دامن پکڑنے )اور اگر ہاتھ

آا کر رکتے ہی چل دیتی ہے اور ہم انگریزی آاجاتا ہے اور متعلقہ نمبر کی بس ہیں کہ بس اسٹاپ

بس نہیں چلتا۔ ب مس پر بھی ب بمس کر دیتے ہیں اور اس ببس بھی مSاورے کے مطابق

ت کے تاثرات میں شاید مزا� دامن ااس و جب ہم حج کے اجتماع کا حصہ بن جائیں گے تو

چھڑا کر بھاگ جائے )ویسے اس کی امید کم ہی ہے(۔ اپنی طرف سے یہ کوشش تو کر ہی

سکتے ہیں کہ جو کچھ اس سفر میں لکھتے جا رہے ہیں، بعد میں فرصت نکال کر کانٹ

ییSدہ ، بصیرت افروز حصے حج گائڈ پڑھنے والوں کے لیے عل چھانٹ کریں۔ معلومات والے ح

حصوں کا الگ انتخاd کریں اور رطب و یابس کو الگ چھان پھٹک کر )اور بصیرت انگیز( ح

نکال دیں )کنول مگر کیچڑ میں ہی کھلتا ہے(۔ لیکن اگر کوشش نہ کی جا سکے تو بھی

عے پر جو چاہیں ^ارئین خود سمجھ دار ہیں، یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں کہ جس مو

Page 21: اللہ میاں کے مہمان

پڑھیں۔ یہ بات تو بہر حال طے ہو گئی کہ ہم پائے کے ادیب ہیں، جو بھی لکھیں گے، اس

کے معیاری ہونے میں چہ شک!!

ہم ہندوستان میں رہتے رہتے حاجی ہو گئے

اا دو ماہ سے ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے پیارے اردو اخبار والے بن حج‘ اورـتقریب ’زائری

بج کرام‘ بن حج‘)جو بلا شک و شبہ ہم ہیں( کے علاوہ ہم جیسے مسافروں کو ’حجا ’عازمی

کے نام سے یاد کئے‘حاجیاں’ بنگلور کے حج کیمپ میں ہی جا بجا لگے پوسٹروں پر بلکہ

جانے لگے ہیں جو کہ ہمارا مستقبل ہے دراصل، بلکہ انشاء اللہ۔ مگر حج سے پہلے ہم کو

آانے والی کاروں کا حاجی بنا دیا گیا ہے۔ یہ کچھ غوروفکر کا مقام ہے۔ یہی حال یہاں نظر

بج کرام’ہے جس پر اردو میں اور ہندیHaj Pilgrims لکھا ہے )انگریزی میں ‘حجا

(۔ خدا ان کی نیک دعائیں ہمارے حق میں ^بول کرے اور ہم وا^عی‘حج یاتری’میں مSض

بج کرام‘ بج‘حجا بن حج کو حجا بن کر لوٹیں۔ مگر یہ سوال اپنی جگہ با^یست کہ کیا عازمی

کرام کہا جا سکتا ہے؟

بنگلور حج کیمپ

Page 22: اللہ میاں کے مہمان

( ڈی لکسHi tech یاHigh Techآاج صبح ہم شمیم ٹریولس کی ہائی ٹیک )

حبی’بس جس کی عرفیت اڈ آاباد سے بنگلورSubmarine )‘پن ( تھی ، سے حیدر

سیدھے ڈکنسن روڈ پر وا^ع مسلم یتیم خانے اور الSصنات کالج کیمYس میں سجائے گئے

آابادسے بنگلور سفر کے لئے بنگلور کے شمیم ٹریولس والوں حج کیمپ پہنچ گئے ہیں۔ حیدر

بل فخر ا^دام ہے۔ یہاں ہم اپنے انٹر نے مفت انتظام کیا ہے جو کرناٹک حج کمیٹی کے لئے ^اب

نیشنل ^اریوں کو اطلاع دے دیں کہ شہر بنگلور ہندوستان کی ریاست کرناٹک کی راج دھانی

اف برداخلہ و او ہے۔ حج کمپ اور بسوں کے انتظام کا سہرا کرناٹک کی حکومت کے وزیر امو

حعال جنتا دل )سیاسی پارٹی جو یہاں آار.روشن بیگ کے سر ہی ہے۔ یہ جواں سال اور ف dجنا

زیرا^تدار ہے( کے لیڈر کرناٹک حج کمیٹی کے چیر مین بھی ہیں۔ ان کی کوششوں سے ہی

حدہ تک بنگلور سے راست پرواز کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔1996سال گزشتہ سے حج کے لئے ج

بجا دیا ہے کہ یہ، کا خطاd دیا ہے‘خادم الSجاج’جس نے بھی روشن بیگ صاحب کو

خطاd دراصل انھوں نے پہلے ہی اپنے لئے پسند کر لیا تھا، کوئ دے یا نہ دے۔ یہاں حج

حلی بخش ہوں آاج،کیمپ کے انتظامات بھی تس اس امر کا بھی انہوں نے کافی خیال رکھا ہے۔

شام کو روشن بیگ صاحب کے دیدار بھی ممکن ہیں کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے پنڈال میں

آاباد کے کسی صاحب حاجی مSمد عمر صاحب کی کتاd، جو اعلان کیا گیا ہے کہ حیدر

کے اجراء کے لیے روشن صاحب ہی تشریف لا رہے ہیں۔،سورۂ عصر کی تفسیر ہے

یہاں کا انتظام وا^عی عمدہ ہے۔ اگر کسی کو شکایت ہو تو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ہزاروں

کے انتظام میں بد نظمی بلکہ بد امنی تک کا خطرہ ہو سکتا ہے، اور اس حد تک بد انتظامی

Page 23: اللہ میاں کے مہمان

یہاں ^طعی نہیں ہے۔ یہ مSض امکان کی بات کر رہے ہیں ہم۔ ویسے اd تک کسی کو

شکایت کرتے ہوے نہیں دیکھا ہے۔ مختلف کاؤنٹرس ہیں ، پہلے استقبال، ایک طرف کلوک

روم۔ رہائش اور طعام کے کوپنوں کے کاؤنٹرس ، یہ سب باہر کی سمت، اندر پنڈال میں نماز

حصہ خواتین کے لئے بھی مخصوص۔ اگرچہ مسجد اور اجتماعات کا انتظام، اسی کا ایک ح

کی سمائی اس مسجد میں کہاں ممکن؟‘منی حج ’بھی اسی کیمYس میں ہے، مگر اس

بم تSریر، پنڈال میں جمعے ت، د چنانچہ ابھی جمعے کی دو جماعتیں ہوئی ہیں، بلکہ اس و

بز جمعہ سے فارغ ہو کر بجے2کا خطبہ شروع ہو رہا ہے، جب کہ ہم اصل مسجد میں نما

ع غنیمت جان کر ^لم لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ صابرہ، ہماری نصف آا کر یہ مو سے کافی ^بل

بہتر، پنڈال کی جماعت میں ہیں۔ لنچ کے کوپن مSترمہ کے پرس میں ہیں۔ پہلے سوچا تھا

آانے آاکر کوپن لے جا کر لنچ سے فارغ ہو جائیں، صابرہ کے کہ نماز کے بعد اپنے کمرے

آاتا۔ بجے سے3تک، پھر اطمینان سے یہ ڈائری لکھیں گے۔ مگر اd یہ ممکن نظر نہیں

پہلے وہاں نماز کی تکمیل مشکل ہی ہے۔ اس لئے ابھی یہ کام شروع کر دیا ہے۔

یعنی ^یمت ادا کر کے‘^یمتی’پنڈال کے ہی ایک طرف وضو کا انتظام ہے۔ باہر کی طرف

روپئے پیالی چائے مل رہی ہے، وہی ہم2خریدی جانے والی طعامی اشیاء کی دوکانیں ہیں۔

3' کے اسٹال پر ہی مشروd مSض Thums Upصبح سے دو بار پی چکے ہیں۔ '

آائس کریم کے علاوہ با ^اعدہ کھانے کی بھی ہوٹلیں‘دہن یاd’روپئے میں دستیاd، بلکہ ہے۔

بن حج کے رشتے داروں اور احباd کے لئے، جن کو کیمپ میں جگہ نہ دی اا عازمی ہیں، غالب

جا سکی ہو۔ ویسے کیمپ کے ^وانین میں لکھا تو تھا کہ ہر پارٹی میں دو عدد غیر عازمین

Page 24: اللہ میاں کے مہمان

بھی حج کیمپ میں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ مگر ان کے کھانے کا انتظام نہیں رکھا گیا ہے۔

ظاہر ہے کہ ان کے طعام کے لئے ہوٹلوں کی ضرورت ہوگی ہی۔

حے کا الگ احاطہ ہے، اسی میں اسYتال، کچن، ڈائننگ ہال، مردوں اور عورتوں کے رہائشی حص

ییSدہ غسل خا نے ا ور بیوت الخلاء) عورتوں کے لئے تین جگہوں پر(، ان کے علاوہ لئے عل

یی ہال، صفا ہال، مروہ ہال، مختلف رہائشی ہال ہیں۔ ذرا ان کے نام بھی سن لیجئے..... من

بنمرہ ہال۔ ویسے عرفات ہال، فردوس ہال، اور ہم جس ہال میں خوش حال ہیں، اس کا نام ہے

ہم ہر حال میں خوش حال ہیں۔

حاجی بنگا

آاتش کو تو ^بر رسیدہ ہوئے بھی صدیاں گزر چکی35۔30یادش بخیر، بت سال ^بل جب حضر

dحچوں کے لئے ایک کتا تھیں، مگر ہم جوان نہیں، جوان ہونے کے خواd دیکھ رہے تھے، ب

بم تعلیم‘ میں ^سط وار شائعــچھYی تھی ’’حاجی بمبا کی ڈائری‘‘ جو دہلی کے ماہنامہ ’پیا

بم تعلیم سے ہی کتابی صورت میں شائع ہو ئی تھی۔ہونے کے بعد مکتبہ جامعہ یا شاید مکتبہ پیا

اا یوسف ناظم، مگر صSیح معلومات کے لئے حنف کا نام بھی ذہن میں نہیں)غالب اd مص

حنف‘کتاd نما’ دیکھنا پڑے گا، اگر اd بھی یہ کتاd دستیاd ہے تو(۔ موصوف، مطلب مص

ح ، اس لئے حاجی بمبا کہے جاتے تھے کہ حج کے ارادے نہیں، اس کتاd کے واحد متکلم

Page 25: اللہ میاں کے مہمان

آاگے سفر کی زحمتوں سے گھبرا گئے سے حضرت بمبئ تک تو پہنچ گئے، مگر اس کے

برحج کا نہیں تھا۔ موصوف بمبئ میں ہی رک گئے اور اس شاید۔ یوں بھی وہ زمانہ ہوائی سف

طر� کئی زحمتوں سے مSفوظ اور بے شمار رحمتوں سے مSروم رہے، وہ الگ، مگر حاجی

آاج کے زمانے حنف شاید کے لقب سے مSروم نہ رہے۔ وہ حاجی بمبا کہلائے جانے لگے، مص

اممبا’میں یہ داستان لکھتے تو ان کا نام 3۔4 ہوتا کہ عروس البلاد بمبئ کا پچھلے ‘حاجی

بش تصور دو ڑنے لگا ہے۔ اس سال ہماری حج کمیٹی نے اممبئ نام ہے۔ اd ہمارا رخ سال سے

بج کرام کو روانہ کرنے کا انتظام کیا ہے۔ دہلی، ممبئ، چینئ )سابق پانچ جگہوں سے حجا

حدہ کے لئے راست پروازیں ہیں۔چنانچہ ان مقامات مدراس(، کلکتہ اور بنگلور، جہاں سے ج

آاندھرا پردیش کی تیلگو زبان میں حچنا )جو امبا، حاجی سے ہی لوٹنے والوں کو بالترتیب حاجی م

آاج کا نہیں؟؟( اور یہاں بنگلور‘چھوٹے میاں’ کا ترجمہ ہو جائے گا(، حاجی کلکا) کل کا،

کے لئے حاجی بنگا کہا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ہم لمSۂ موجود تک حاجی بنگا تو ہو ہی

آاپ پڑھ رہے ہیں( اگر چہ بنگلور سے لوٹنے کی نوبت‘حاجی بنگا کی ڈائری’چکے ہیں )اور

آائے۔ حاجی تو ہم دو ماہ ^بل سے ہی پکارے جا رہے ہیں، آائی ہے اور خدا نہ کرے کہ تو نہیں

آاج صبح حی’ بجے سے، یعنی جب سے ہماری 7جیسا کہ لکھ چکے ہیں۔ اور یہاں‘پن ڈب

یی اور عرفات میں گھومتے بھی رہے ہیں اور صفا )ہال( اور مروہ )ہال( کے درمیان اتری ہے، ہم من

سعی بھی کرتے رہے ہیں۔

آاج صبح رجسٹریشن وغیرہ اور ^یام وطعام کے انتظامات اور ضروریات کے بعد پہلا جو ناشتہ کیا

ع آالو کا شوربہ تھا۔ اd رات یا کل جب لکھنے کا مو ہے وہ نمکین سویاں تھیں جن کے ساتھ

Page 26: اللہ میاں کے مہمان

بن انشاء سے لوگوں ملے گاتو دو پہر اور رات کے کھانے کا احوال بھی لکھ دیں گے۔ مرحوم اب

بن بطوطہ کے تعا^ب میں ’کو یہ شکایت تھی کہ موصوف چاہے ‘دنیا گول ہے’ نکلیں یا ‘اب

کو ثابت کرنے، ہر غیر ملک میں ہوٹلوں کے غسل خانے ہی ناپتے رہتے تھے، ہمارے اس سفر

نامے میں شاید طعام کا ذکر غسل خانوں سے زیادہ ہی ہوگاکہ ہمارے نزدیک پیٹ کی اہمیت

یی کا لباس کہیں مل نہ سکا ورنہ بدن کی ظاہری صفائی کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ بازار میں تقو

بب تن کئے رہتے۔ در اصل ہم رو� اور ضمیر کی صفائی کے ^ائل ہیں اور اس اسی کو زی

حھے کھانے کے بعد جو فرحت آاپ کا پیٹ بھرا ہوا ہو۔ اچ آاتا ہے جب صفائی کا خیال جب ہی

حاصل ہوتی ہے، اسی حالت میں رو� کی بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ اd کیوں کہ دوپہر کے تین

بجنے والے ہیں، اس لئے ممکن ہے کہ یہ سطریں ہم سے بھوک لکھوا رہی ہو۔ اd پیٹ بھرنے

کے بعد ہی لکھیں گے کہ ^لم سے ندیدہ پن تو نہ ٹYکے!!

آا گئی ہے منزل۔۔۔ رہ شوق کے مسافر، تری

حکہ، یکم اپریل۔ بجے صبح10۔50م

ت حرم شریف میں حرمہ پہنچ کر زیادہ تر و حکہ مک تین دن سے ہم کچھ نہیں لکھ سکے۔ یہاں م

dت با آائے ہیں اور اس و آاج لے کر گزر رہا ہے۔ اd تک ^لم کاغذ لانابھول جا رہے تھے،

یعی یی اور مطاف کے درمیان کے دالان میں بیٹھے ہیں۔ مس یع السلام سے اندر داخل ہو کر مس

Page 27: اللہ میاں کے مہمان

صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کا راستہ ہے اور مطاف وہ دائرہ جس میں طواف کیا جاتا

بن حرم سے لے کر باہری پہلے دالان تک ہے۔ کعبۃاللہ سامنے ہے۔ جی Sہے اور جو اندرونی ص

نہیں چاہتا کہ اس کے سامنے سے نظریں ہٹائی جائیں۔ حج کے سلسلے میں جو کتابیں ہماری

نظر سے گزریں، سبھی میں احادیث درج ہیں کہ مSض کعبۃاللہ کو دیکھتے رہنے سے بھی

اور طواف کرنے والوں پر ساٹھ، یعنی40 رحمتیں نازل ہوتی ہیں، یہاں نماز پڑھنے والوں پر 20

( رحمتیں۔ یہ گنتی اللہ میاں ہی جانیں کہ ان رحمتوں کے نزول کا120کل ایک سو بیس )

مطلب کیا ہے۔ مگر ہم جو سامنے کعبۃاللہ کو دیکھے جا رہے ہیں تو اسی گھر کے مالک کی

^سم! ہم ان رحمتوں کے طلب گار نہیں ہیں۔ ہماری رو سیاہی کے باوجود خدائے رحیم ہم پر

اتنی ہی، یا کچھ کم زیادہ، رحمتیں نازل کرے تو بات دوسری ہے۔ ہم کو اس سے غرض

آاخر اس سیاہ بہ شوق کا معاملہ ہے۔ نہیں۔ یک گونہ بے خودی ہمیں دن رات چاہئے۔ یہ تو نگا

آاتے ہیں، وہ ایسے ہی حھر نظر غلاف پوش عمارت میں کیا کشش ہے ؟ غلاف کے نیچے جو پت

آاباد میں ، مکان کی بنیاد میں گرینائٹ کے ہیں جن سے ہر جگہ نہیں تو کم از کم حیدر

آایات بلاکس کی چار دیواری بنائی جاتی ہے۔ سیاہ غلاف اور اس پر سنہری کام، اور جو

کشیدہ کی گئی ہیں، وہ خوd صورت ضرور ہیں، مگر پھر بھی ایسی مثالیں نایاd تو نہیں۔

حول کی نشانی کے علاوہ کون اا دو ٹن وزنی خالص سونے کا دروازہ ہے۔ مگر اس میں تم تقریب

سی ایسی خاصیت ہے، اکثر مSلوں کے دروازے سونے کے ہوا کرتے تھے۔ ایک کونے میں

حھر کے ٹکڑے جڑے ہیں۔ یہ22ایک چاندی کا حلقہ ہے جس میں کسی سیمنٹ میں ایک پت

حنت الفردوس حھر ج بگ اسود ہے۔ ہاں، یہ ضرور کہیں نہیں ملے گا کہ کہا جاتا ہے کہ یہ پت سن

Page 28: اللہ میاں کے مہمان

برشعبہ، ہماری مراد مادر درس گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سے لایا گیا تھا۔ ہمارے صد

شعبۂ ارضیات کے صدر مرحوم پروفیسر فخرالدین احمد سے ہے جو ہماری طالب علمی کے

بd ثا^ب کا ٹکڑا ہوگا۔1975زمانے میں تک صدررہے،ان کا خیال تھا کہ یہ ضرور کسی شہا

طر� اس کا کوئی ٹکڑا مل جائے تو خوردبین سے پرکھا جائے۔ ہمارے فخرالدین احمد توکسی

حھر وا^عی حنت مکانی ہو گئے۔ مطلب یہ کہ اگر یہ پت اسی خواہش کو لئے سال گزشتہ ہی ج

حرہ ارض پر ابھی بھی موجود ہیں، کم از بd ثا^ب ہے بھی، تو ایسے لاکھوں ٹکڑے اس ک شہا

کم ہر ارضیاتی میوزیم میں۔

بف کعبہ بھی آائیے۔ مان لیا کہ حج فرض ہے، اور حج میں طوا حھا ۔ اd دین کی طرف بھی اچ

فرض ہے۔ حضرت ابراہیم کے زمانے سے جب اس کی تعمیر ہوئ تھی، تب سے لوگ حج

آائے ہیں۔ لیکن حج تو مخصوص دنوں میں ہے، صرف ان دنوں میں حج کی وجہ سے کرتے

اس کی اہمیت ہونی چاہئے تھی۔ ہاں، نماز کے لئے اس کا استقبال ضروری ہے یعنی اس کی

اا ت مSض عادت حیت کرتے و طرف رخ کرنا۔ حالاں کہ ہم میں سے بیش تر لوگ نماز کی ن

مگر اس سے تو صرف یہی بات معلوم ہوتی‘ منہ میرا کعبے شریف کی طرف’کہتے جاتے ہیں

عنی ساری دنیا کے مسلمانوں؎ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے مSمود و ایاز۔ یہے کہ

آاپ کسی بھی نقطۂ ارض پر ہوں، میں یکسانیت بلکہ یک جہتی کے احساس کے لئے کہ

حر کی عمارت کی طرف۔ نماز پڑھیں گے تو اسی پتھ

ان ساری حقیقتوں کو ایک ساتھ بھی ملا لیجئے اور مSض دماغ سے سوچئے، دل کے

حل کر دیجئے اور سوچئے کہ کیا اس کا جواز ہے کہ لاکھوں کروڑوں لوگ یہاں دروازے کو مقف

Page 29: اللہ میاں کے مہمان

بن عقل کوکبھی کبھی ہی نہیں، ہمیشہ تنہا چھوڑ دینے آاتے ہیں۔ یہ بات پاسبا کھنچے چلے

کی ہے۔ اس سیاہ غلاف پوش عمارت میں کیا کشش ہے کہ ہر ملک کے مسلمان...طر�

طر� کے لباس...^سم ^سم کے چہرے...سینکڑوں زبانیں...اd سامنے ہی دیکھئے، کئے

آاتے ہیں ؎ شوق کھینچے لئےجا رہے ہیں طواف کے بعدطواف ۔ بس اسی کے لئے لوگ چلے

آاتا ہوں۔ آاتا ہے، چلا

لوٹ پیچھے کی طرف....

بن کرام بے صبر نہ ہوں کہ ہم اچانک بنگلور حج کیمپ پہنچ کر /مارچ کی دو پہر کے28^ارئی

بعد سے اd تک کچھ نہ لکھ سکے اور اd تک خاموش رہے ہیں اور درمیان کا کچھ حال

نہیں لکھا ہے۔ دراصل ابھی جب ^لم اٹھایا ہے تو بے اختیار سامنے کے نظارے نے ہوش گم

کر حال کی باتیں کرنے لگے۔ لوٹ پیچھے کی طرف... آا میں ‘حال ’کر دئے اور ہم

چنانچہ اd شروع سے شروع کرتے ہیں، یعنی جہاں سے بات ختم کی تھی۔ پہلے ایک ممکنہ

dاف جنا برداخلہ اور او بر امو غلطی یا غلط فہمی کا ذکر کر دیں۔ ریاست کرناٹک کے وزی

روشن بیگ صاحب کے بارے میں۔ ہم نے ان کے لئے خادم الSجاج کا خطاd بنگلور کے

لگا دیکھاBannerایک روزنامے میں پڑھا تھا۔ مگر حج کیمپ میں ہی ایک جگہ

آار. روشن بیگ کو مSسن الSجاج کا خطاd مبارک ہو’’ dپنڈال میں بھی ایک‘‘جنا

Page 30: اللہ میاں کے مہمان

صاحب نے تقریر میں یہی خطاd دیا گیا تھا جو وا^عی صSیح بھی ہے۔ ظاہر ہے روشن

صاحب خود کو چاہے خادم کہہ لیں مگر ان کی تکریم کے لئے تو یہ خطاd غلط ہے۔ اخبار

میں چھYی بات کو ہم مستند سمجھے۔ اسی لئے اس اخبار کا نام بھی نہیں لکھ رہے ہیں جو

کہ حج کیمپ میں مفت تقسیم ہوا تھا۔ اگر روشن بیگ صاحب ہی کبھی یہ تSریر پڑھ سکیں

بہ دل سے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں تو ہم بھی اس خطاd پر ان کو مبارک باد دیتے ہیں اور تہ

کہ وا^عی عازمین حج کے لئے جو بنگلور حج کیمپ میں انتظامات کئے گئے تھے، ان میں

اا شکرئیے کے مستSق ہیں۔ ان کا بہت ہاتھ تھا اور اس کے لئے یقین

بنگلور حج کیمپ ۔پہلے د و د ن

دہلی میں ، کم از کم جن دنوں میں ہماری نظروں سے یہ پرچہ گزرتا تھا، اس‘شمع’رسالہ

مختصر مختصر’میں ایک دو افسانے ایسے ہوتے تھے جن کے سرنامے پر لکھا ہوتا تھا

۔ پہلے تو ہم نے بھی یہی سوچا کہ ہم بھی بنگلور‘کہانی ، ایک ہی صفSے میں مکمل

کیمپ کا احوال اسی طر� ختم کر دیں۔ اd دیکھئے کتنا طویل ہوتا ہے۔

آائیں تو ہم نے کھانے اس دن دو پہر کو ہمارے تSریر کرنے کے بعد صابرہ رہائشی ہال میں

کے کوپن لئے اور کھانے کے لئے گئے۔ اd ڈائننگ ہال دیکھئے۔ اس میں چھہ طویل میزیں

تھیں ، سامنے مردوں کے لئے اور اندرونی حصے میں عورتوں کے لئے۔ ہم نے گنیں تو نہیں،

اا اا 25مگر ہر میز پر تقریب ت بیٹھنے300 کرسیاں ضرور ہوں گی یعنی تقریب لوگوں کے لئے بیک و

Page 31: اللہ میاں کے مہمان

ہزار عازمین کے لSاظ سے چھہ نشستوں میں ہی2کا انتظام۔ بنگلور سے روانہ ہونے والے

کھاناممکن تھا۔ یہی وجہ تھی ^طار لگنے کی۔ ایک طرف ڈرم میں پینے کے پانی کے پاؤچ یا

( رکھے تھے۔ صاف شدہ پانی )منرل واٹر( کے مہر بند پیکٹ۔ میزوںSachetسیشٹ)

پر بھی ہر پلیٹ کے پاس پانی کے پیکٹ۔ پہلے دن دوپہر کے کھانے میں پلیٹ میں گوشت

کی بوٹیاں پہلے سے ہی رکھی تھیں ، مSدود مقدار میں اس لئے کہ سب کو مل سکیں،

اگرچہ یہ مقدار مSدود یعنی کم نہیں تھی۔ اس کے ساتھ سبزی کی بریانی اور رائتہ ، جسے

حھا تھا ۔ والنٹئرس بھی اچھی مدد کر رہے دکن میں دہی کی چٹنی کہا جاتا ہے، ذائقہ بھی اچ

تھے۔ صابرہ تو کھا چکی تھیں، ہم اکیلے تھے۔ یوں بھی خواتین کا انتظام الگ تھا اس لئے

آاباد سے لایا ہوا کھانے کا ایک ہی میز پر ساتھ ساتھ تو نہ ہوتے۔ بہر حال ہمارے پاس حیدر

ٹفن ساتھ تھا جس میں کچھ کباd اور ٹماٹر کا سالن با^ی تھا، چنانچہ اس کو بھی ختم کیا

حبہ کھلنے میں مشکل ہو رہی تھی تو اس کے لئے بھی ایک والنٹیر نے اپنی خدمات پیش گیا۔ ڈ

آاٹھ حاجیوں )ہم بھی اd سب کو حاجی ہی لکھیں گے کہ یہاں آاس پاس کے سات کیں۔

ہی کہا جا رہا ہے ( کو بھی کباd اور سالن تقسیم کیا۔‘حاجی ’سب کو

آارام کر کے ہم دونوں باہر نکلے۔ شام کی چائے پی۔ حج کیمپ کے کھانا کھا کر کچھ دیر

کی ضرورت کی اشیاء کا ہی۔ ہم کو بھی ایک‘حاجیوں’باہر سڑک پر بھی بازار لگا تھا۔

بیلٹ لینا تھا جسے احرام کی کمر والی چادر پر لYیٹ سکیں تاکہ اسے بار بار سنبھالنا بھی نہ

م یا ضروری کاغذات بھی بیلٹ کے خانوں میں مSفوظ رہیں۔ چنانچہ ایسا ہی پاؤچ پڑے اور ر

والا بیلٹ ہم نے خریدا۔ پھر اگرچہ ہم نے کچھ سامان پر نام لکھ رکھا تھا مگر مزید مSفوظ

Page 32: اللہ میاں کے مہمان

آائندہ جو سامان لیا جائے، اس پر بھی نشانی رکھنے کے لئے کاغذی بنانے کے لئے بھی اور

ٹیپ اور مارکر ^لم خرید لیا۔ ہم نے پہلے سوٹ کیسوں پر صرف نام لکھا تھا اd دوسروں کا

۔2/331 بھی ہر عدد پر لکھ دیا۔ اے پی۔‘کور نمبر ’لکھا دیکھا تو حج کمیٹی کا

بک عصر کی نماز پنڈال میں پڑھی جماعت سے ہی۔ وہاں ہی مغرd تک تقریر ہوتی رہی مناس

حج کے بارے میں۔ مغرd کے بعد ہم دونوں کچھ دیر باہر احاطے میں ہی رہے، کولڈ ڈرنکس

روپئے کی مل رہی تھی، مگر کولڈ ڈرنکس2 یعنی ‘بازار کے بھاؤ’پئے۔ وہاں چائے تو ضرور

نصف ^یمت پر۔ فاؤنٹین ڈرنکس ، یعنی مشین میں لگے نلوں سے جو گلاس بھر کر دئے

روپئے، اور بوتلیں مSض چار روپئے، کوئی سی بھی لیجئے۔ ہہاں تک3جاتے ہیں، وہ مSض

ببسلیری منرل واٹر’کہ 5 روپئے کی جگہ صرف 12۔10 یعنی معدنی پانی کی بوتلیں بھی ‘

روپئے میں۔ عشاء بلکہ اگلے دن کی بھی ساری نمازیں ہم نے جماعت سے پنڈال میں ہی

پڑھیں۔ پہلے دن ہی ایک کارروائی اور ہوئی تھی، ہوائی جہاز کے ٹکٹوں کی بکنگ کی۔ اس

( اگر چہ جمعےConfirmation Cardکنفرمیشن کارڈ )’کے لئے حج کمیٹی کا

3 ۔‘بورڈنگ پاس’ بجے لے لیں 3کی نماز سے پہلے ہی دے دیا گیا تھامگر کہا گیا تھا کہ

آاخر سات بجے یہ حاصل5 بجے، پھر 4بجے معلوم ہوا کہ کارروائی مکمل نہیں ہوئی۔ بجے،

اور207ہو سکا۔ یعنی کنفرمیشن کارڈ پر ہی ہم دونوں کے لئے دو اعداد تSریر کر دئے گئے۔

۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ جہاز کے سیٹ نمبرس ہیں۔ مگر ہمارے علم کے مطابق208

حجی کے نہیں ہوتے۔ یہ صرف نمبر شمار ہی ہوں گے۔ بف تہ جہاز کے سیٹ نمبر بغیر حر

Page 33: اللہ میاں کے مہمان

آادھے گھنٹے بعد نمبر لگا۔ کھانے میں پلاؤ ) یا رات کو کھانے کے لئے ^طار میں لگے تو

مقدار‘مSدود’بگھارے چاول( اور مSض شوربے کے ساتھ کچھ مرغ کی بوٹیاں جو پلیٹ پر

االٹے کاما پر غور کریں، کم کے معنے نہ لئے جائیں(۔‘مSدود’میں پہلے ہی رکھی تھیں ) کے

آانکھ کھل گئی۔ ضروریات اور فجر کے بعد٢٩ / مارچ کی صبح فجر کی اذان سے پہلے

بک حج کے بارے میں ہمارے ساتھ تھیں، پھر کچھ کتابوں کا سرسری مطالعہ کیا۔ جو مناس

Lemon )‘لیمن رائس’ناشتہ کیا۔ ناشتے میں جو ڈش تھی ، اسے یہاں انگریزی میں

Rice حنڑ میں الگ الگ نام ہیں۔ ‘چتراننا’ اور ‘پھلی ہارا’( کہتے ہیں، اگرچہ تیلگو اور ک

بالترتیب۔ اس کے ساتھ ناریل اور مونگ پھلی کی سفیدچٹنی۔ اس جنوبی ہندی ناشتے کے

آارام، کچھ مطالعہ، کچھ آاکر چائے خرید کرپی۔ اس کے بعد کچھ باتیں، کچھ بعدہم نے باہر

کیمپ کی سیر۔ کسی ایم ایل اے یا ایم پی نے بھی اس دن کیمپ کا معاینہ کیا۔ روشن

حکر لگا کر گئے۔ )اd انشاء اللہ بعد میں لکھیں گے۔( بیگ بھی ایک چ

حSت بھی... کمزور ہے میری ص

بجے سہ پہر۔3/ اپریل، 2

Page 34: اللہ میاں کے مہمان

ب ^لم کو کچھ کسرت کرائی جائے۔ باتیں پرانی ت ملا ہے تو سوچا کہ رخش ...)ابھی کچھ و

حثر ہوتی جا رہی ہے۔ وا^عات کی ترتیب صSیح ہے یا نہیں، یہ ہوتی جا رہی ییں ۔ یادداشت متا

اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔(

ت تھا جب پاسYورٹ وغیرہ11/مارچ کی صبح 29 بجے ہی حج کمیٹی کے دفتر کھلنے کا و

بب معمول صبح بجے سے ^طار میں لوگ لگنا شروع ہو گئے۔ ہم نے7۔8مل سکتے تھے۔ حس

دیکھا کہ عورتوں کی ^طار بڑی نہیں ہے۔ ہماری طبیعت ویسے بھی خراd ہی رہتی ہے، صبح

ت بھی کھانسی اٹھ رہی تھی۔ اd درمیان میں اس موضوع پر بھی ت تو ہمیشہ۔ اس و کے و

آاپ کو کچھ بتا دیں۔ ہم دو تین سال سے دمے کے مریض ہیں اور دن میں دو تین بار سے لے

کے دورے پڑتے ہیں۔ اور‘سانسی’ بار تک کھانسی اور کبھی کبھی 5۔6کر کبھی کبھی

کچھ نہیں تو کسی دورے میں مSض گلا خراd ہو جاتا ہے۔ اور پچھلے سال سے ہمارا

آادھے گھنٹے میں اا مشاہدہ رہا ہے کہ ہماری پاؤچ کی سگریٹ رول کر کے پینے سے تقریب

اان پانچ آاجاتی ہے۔ ورنہ پھر پہلا دورہ ہی دن بھر جاری رہتا ہے۔ جیسا کہ طبیعت معمول پر

چھہ ماہ تک چلتا رہا تھا جب ہم نے سگریٹ مکمل طور پر چھوڑ دی تھی۔ اd بھی ہم

کوشش کرتے ہیں کہ اسموکنگ سے حتی الامکان گریز بلکہ پرہیز کریں۔ ^ارئین گھبرائیں

ت سے فلاں نہیں ، ہم روزانہ لکھیں گے بھی تو اس کا ذکر زیادہ نہیں کریں گے کہ فلاں و

ت تک نارمل رہی۔ بہر حال طبیعت کی ت تک ہماری طبیعت خراd رہی اور پھر فلاں و و

حمہ داری ہماری اہلیہ مSترمہ، خدا ان کو وجہ سے ہم نے پاسYورٹ وغیرہ کے حصول وغیرہ کی ذ

آاخرت بھی نیک توفیق دے اور ان کی جائز خواہشات پوری کرے اور ان کی دنیا کے ساتھ

Page 35: اللہ میاں کے مہمان

بجے اعلان کیا گیا کہ ائر لائنس نے ٹکٹ بنا کر11سنوار دے، صابرہ کے سYرد کر دی۔

اگڈ فرائی ڈے کی چھٹی کی وجہ سے دفتر میں کام نہیں ہوا بدن نہیں بھیجے ہیں۔ پچھلے

آاخر ڈھائی تین بجے پاسYورٹ اور جہاز کے ٹکٹ مل سکے۔ مSترمہ بغیر تاخیر کے )اور تھا۔

ت ہماری طبیعت معمول پر تھی۔ ساتھ ہی ایر انڈیا آائیں اگر چہ اس و بغیر کسی ^طار کے( لے

اا ایک ایک چھاتا )خود کار، ( اور ایک ایک مختصرAutomaticکی طرف سے تSفت

dحج گائڈ‘‘ اور ایک کتابچہ ’’تلبیہ‘‘ ۔ ایکــبیگ۔حج کمیٹی کی طرف سے ایک کتا’’

بل حج و عمرہ ‘‘کے نام اور کتابچہ بنگلور کے ایک دینی ادارے کی طرف سے ہدیہ ’’مسائ

حدہ سے بنگلور یعنی15۔50/ مئی کو 10سے۔ ٹکٹ ملنے پر پتہ چلا ہماری واپسی کا ٹکٹ ج

حدے50 بج کر 3م شا ت کون سا ہے، ج منٹ کی اڑان سے ہے، یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ و

ت۔ پاسYورٹ بھی مل گئے اور فی کس 2316یعنی سعودی عرd کا یا ہندوستان کا معیاری و

ریال کے ڈرافٹ بھی۔

آاپ کو بتاتے چلیں کہ ہم نے حج کمیٹی کی درخواست اd یہاں یہ بات بے مSل نہ ہوگی کہ

کے ساتھ پانچ ہزار روپئے تو بطور پیشگی )سعودی عرd میں رہائش کے انتظامات کے لئے( ہی

حکہ میں حج ہاؤس کی تعمیر کے بوس چارجیز اور م ادا کئے تھے۔ )اس کے علاوہ ان کے سر

ہزار روپئے فی کس حج کمیٹی کے مرکزی12لئے چندہ وغیرہ بھی شامل تھا(، اس کے بعد

دفتر، ممبئی ڈرافٹ کے ذریعے بھیجے تھے جو ہوائی ٹکٹ کے لئے تھے۔ اس کے بعد تیسری

آا 4600^سط میں م تقریب ریال4600 ہزار روپئے ممبئی بھیجی تھی۔ اسی 45 ریال کی متبادل ر

آامدورفت کیے لئے بسوں کے میں سے ہمارے سعودی عرd میں ^یام کے دوران ہماری ضروری

Page 36: اللہ میاں کے مہمان

یی وغیرہ کے ^یام کے اخراجات کے حکہ مدینہ عرفات اور من حلم کی فیس اور م 2284کرائے ، مع

یہی کر کے با^ی آاپ کو2316ریال من ریال ہم کو دے دئے گئے تھے کہ حاجی صاحب!

م کا سونا وغیرہ خرید م چار دن میں کھا پی کر ختم کر دیں یا ساری ر آاپ یہ ر اختیار ہے کہ

م واپس ہی بچا لائیں۔ حج کیمپ، بنگلور میں ہی لائیں، یا کچھ بھی نہ خرچ کریں، ساری ر

آاپ م دے کر متبادل سعودی ریال یا3ایک بنک کاؤنٹر اور بھی تھا جہاں ہزار تک کی ر

بر مبادلہ، خیر، ہم کو اس کی ضرورت نہیں امریکی ڈالر خرید سکتے تھے۔ ^انونی طور پر ز

تھی۔

حکر ہی چل رہا تھا۔ اسی لئے ہم اس ذکر میں ان کے صبح سے پاسYورٹ کے حصول کا چ

ت یعنی بجے تک کی چھلانگ لگا گئے۔ کھانے کا ذکر ہم نہیں چھوڑنے٣حصول کے و

والے۔ دوپہر کو کھانے میں مرغ کی بوٹیاں تھیں اور سبزی کے پلاؤ کے ساتھ شوربہ۔ اور رات

آالو ^یمہ اور پلاؤ یا بگھارے چاولوں کے ساتھ یعنی لوکی وغیرہ اور شاید گوشت‘دالچہ’کو پھر

آابادی ^ارئین تو حٹی دال یادال کاشوربہ )حیدر حڈیوں کے ساتھ کھ ’اور‘چاول بگھارے ’اور ہ

میں ترجمہ کرنا‘اردو’ کی اصطلا� سمجھ جائیں گے، شمالی ہند کے ^ارئین کے لئے ‘دالچہ

پڑ رہا ہے(۔ خیر، یہ تو دو پہر کا ذکر کیا تو شام کے کھانے کا بھی کر دیا ورنہ ابھی ڈنر

حکام کے ساتھ کی بھی چنداں ضرورت آائی ہے جس کے لئے ہم کو ح کھانے کی نوبت کہاں

( کی طر� ^وم کا غم ہم کو بھی کم نہیں ہے۔نہیں۔ )ویسے اکبر

حYل کی ، لکھا نی سے با ٹا تک داستان چ

Page 37: اللہ میاں کے مہمان

حYل پہنے جا رہے تھے جس کے انگوٹھے کی دو تین بار ہم اتنے دن سے باٹا کی وہی پرانی چ

حکہ پہنچ کر اسے سلائی کروا چکے تھے۔ سوچا تھا سفر میں اسی کو چلنے دیں گے، م

حYل پھر ٹوٹ گئی، ہم کسی طر� شام تک29رخصت کر دیں گے۔ مگر / کی صبح ہی یہ چ

58 کی سب سے مہنگی والی ‘لکھانی’گھسیٹتے رہے۔ حرم کے نیک ارادے سے ہم نے

آاس پاس حYل خریدی تھی۔ سوچ رہے تھے کہ اسے ابھی نہ نکالیں، روپئے کی کم وزن ہوائی چ

حYل پھر سلوالیں۔ مگر بنگلور کے ڈکنسن گھوم کر دیکھتے رہے کہ کوئی موچی ہو تو وہی چ

روڈ پر یا تو کوئی موچی بیٹھتا نہیں تھا، یا بیٹھتا بھی تھا تو ہمارا )یا پھر، خدا کرے، کسی

بنمرہ ہال کی نذر حYل ہم نے حج کیمپ کے ہمارے آاخر یہ چ اور کا( نام سن کر بھاگ لیا تھا۔

حYل پہن لی۔ کر دی۔ پاسYورٹ وغیرہ کے مطالعے کے بعد نہا دھو کر باہر نکلے تو یہی نئی چ

حدت کے بعد جب بہت کچھ مزید حYل کی داستان لکھ رہے ہیں )اور کافی م اd کیوں کہ چ

حYل نے بھی ہمارا ساتھ مSض گھنٹے26۔25وا^ع ہو چکا ہے( اس لئے یہ لکھ دیں کہ اس چ

ت دے گئی۔ بغ مفار آانے کے بعد حرم کے پہلے ہی دورے میں دا حرمہ ہی دیا کہ مکۃالمک

dعوں پر‘حج کا ساتھی’ہم نے مولانا عبدالکریم پاریکھ کی کتا میں پڑھا تھا کہ ایسے مو

م خرچ کر کے بار بار آاپ ر مایوس ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے اور نہ ضرورت ہے کہ

حYلیں زیادہ جمع ہو جاتی ہیں یا ان کا ڈھیر راستے میں حYل خریدتے رہیں۔ حرم میں جب چ چ

حائل ہو جاتا ہے تو حرم کے صفائی کرنے والے ملازمین دروازوں کے باہر یا کوڑے دانوں میں

آاپ کوئی آائیں، حYلوں کے ڈھیر نظر حYل نہ ملے تو جہاں لاوارث چ آاپ کو بھی چ ڈال دیتے ہیں۔

Page 38: اللہ میاں کے مہمان

حYل نکال کر پہن لیجئے۔ ہمارے ساتھ جو مظہر صاحب تھے، انھوں نے بھی یہی بھی چ

مشورہ دیا بلکہ ایک ڈھیر کی طرف اشارہ بھی کیا۔ ہم خوش ہوئے کہ چلو اس بہانے

حYل کے بدلے میں کوئی عمدہ، باہر کی، مطلب بامYورٹیڈ’ہندوستانی چ حYل مل جائے گی‘ چ

چین، جاپان یا سنگاپور وغیرہ کی۔ مگر اس ڈھیر میں دیکھا تو کوئی جوڑا مکمل نہ تھا جو

حYل ایسی تھی جسے آاتا۔ لے دے کر ایک جوڑ چ کہا جا سکتا تھا۔‘زوجین’ہمارے پیروں میں

ت تو ہم نے اندھیرے میں بغیر دیکھے ہی پہن لیں، بعد حYلیں۔ اس و بلکہ زوجین ہی تھیں یہ چ

آاکر دیکھا تو یہ چYلیں باٹا کی تھیں۔ میں ^یام گاہ میں

حYلیں صرف ہندوستانی ہوتی ہیں۔ ت ہم کو غلط فہمی تھی کہ باٹا کی چ )پس تSریر:لکھتے و

حدہ میں باٹا کی کچھ حYلیں پہنے دیکھا اور ج لیکن بعد میں پاکستانیوں کو بھی باٹا کی چ

حبوں پر حYلوں کے ڈ (بھی لکھا دیکھا۔ چنانچہMade in Cyprus) ‘میڈان سایYرس’چ

آابادی زبان میں حYلوں پر ہندوستان کا ہی ٹھیکہ )حیدر حتہ’پتہ چلا کہ باٹا کی چ (نہیں ہے۔ اس‘گ

حYل حYل پاکر ہم کو مایوسی ہوئی تھی ۔ بعد میں خوش بھی ہولئے کہ ممکن ہے کہ یہ چ ت چ و

حYل بھی، اگرچہ سلامت تھی اور پورے ^یام کے دوران ^برص یا کہیں اور کی ہو۔بہر حال یہ چ

آائے، جان حکے کی عمارت میں چھوڑ ت م آاتے و ہمارا ساتھ نبھاتی رہی ، مگر ہم وطن واپس

بوجھ کر۔(

ہم مSرم ہو گئے

Page 39: اللہ میاں کے مہمان

ہاں، یہ لکھنا بھول گئے کہ پاسYورٹ وغیرہ کے حصول ا ور ساڑھے چار پانچ بجے نہانے کے

دوران ہی کلوک روم سے ہمارے سوٹ کیس وغیرہ بھی نکال کر کسٹم اور امیگریشن اور سامان

کے ناپ تول وغیرہ کے جھگڑوں سے بھی فارغ ہو چکے تھے۔ غسل بھی عصر سے ^بل ہی

ت ضائع کرتے رہے۔ مغرd سے پہلے ہی پنڈال کر لیا تھا مگر احرام نہیں باندھا تھا۔ یوں ہی و

میں میں اعلان ہوا کہ رات کی فلائٹ سے جانے والے عشاء سے ^بل ہی کھانے سے فارغ ہو

dاا بعد ایر پورٹ کے لئے روانگی ممکن ہو سکے۔ یوں ٹکٹ کے حسا لیں کہ عشاء کے فور

ت 30سے ہماری فلائٹ کی تاریخ مارچ شروع ہوتے ہی۔ اس30 تھا یعنی 00۔05 مارچ مگر و

/مارچ کی رات کہا جا رہا تھا۔ ہم نے بھی یہی کیا کہ عشاء سے ^بل ہی کھانا29لئے اسے

آائے اور ضروریات سے فارغ ہو کھا لیا۔ اس کا ذکر پہلے ہی کر چکے ہیں۔ پھر عشاء پڑھ کر

آاباد سے ہی خریدی ہوئی اور بنگلور سے خریدے‘ہرک‘کر وضو کر کے احرام باندھا۔ حیدر

بیلٹ کے ساتھ۔ یہ ڈھائی میٹر اوپر اوڑھنے اور پونے تین میٹر نیچے لYیٹنے کی بغیرسلی چادریں

حتہ بیلٹ لگایا جا سکتا ہے۔ ہوتی ہیں احرام میں جس میں گرہ لگانا یا پن ٹانکنا نا جائز ہے۔ الب

آابادمیں دھو کر بھی چلے تھے کہ کسی کتاd میں لکھا تھا کہ بغیر احرام کا یہ کYڑا حیدر

دھلا اور کلف لگا احرام بار بار پھسلتا ہے۔ ہمارا تجربہ تو یہ ہوا کہ ہمارا دھلا ہوا احرام بھی

رکوع اور سجود میں ضرور ڈھلک جاتا تھا۔ احرام باندھ کر دو رکعتیں واجب الاحرام نماز بھی

باندھ‘احرام’پڑھیں۔ ادھر ہماری مSترمہ نماز سے فارغ ہو کر ہال بھر کی عورتوں کے سروں پر

رہی تھیں۔ ویسے عورت کا احرام صرف یہ ہے کہ چہرے پر کYڑا نہ لگے جو کہ مردوں کے

کے غلط نام )‘احرام’احرام میں بھی شرط ہے۔ عام طور پر ایک تکونا کYڑا عورتوں کے

Page 40: اللہ میاں کے مہمان

Misnomerسے مشہور ہے جو سر کو باندھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ عورت)

کا سر اور بال تو در اصل اس کے ستر میں شامل ہیں چنانچہ یہ کYڑا احرام نہیں بلکہ لباس اور

برصغیر کی عورتیں سر کے ڈھکنے کا خیال حجاd یعنی پردے کی پابندی ہے۔ عام طور پر ب

نہیں رکھتیں، اس کا خیال رکھنے کے لئے لوگوں نے اسے احرام کا نام دے دیا ہے کہ کم از

کم حج کے دوران اس کی پابندی ہو سکے۔ احرام کی حد تک یہ کہہ سکتے ہیں کہ احرام

کی حالت میں کنگھا کرنا جائز نہیں ہے اور اس بات کا بھی خیال رکھنا ہے کہ بال )سر کے

سے عورتوں کے بالوں کی حفاظت‘احرام’اور مردوں کے چہرے کے بھی( نہ ٹوٹیں۔ تو اس

ضرور ہو جاتی ہے۔ احتیاط یہ ضروری ہے کہ سر پر یہ کYڑا اس طر� باندھیں کہ نہ بال ہی نظر

آائیں، نہ چہرے یا پیشانی کے کسی حصے کو کYڑا لگے کہ اس کی بھی مردوں اور عورتوں

(کے ساتھ ساتھHair Lineدونوں کے لئے ممانعت ہے۔ یہ کYڑا بالکل بالوں کی لکیر)

تو ہماری مSترمہ باندھتی رہیں مگر خود ان کے احرام میں‘احرام ’باندھا جائے۔ دوسروں کے

چہرے پر کYڑا لگنے پر ہم ہی ان کے سر کا کYڑا پیچھے سرکاتے رہے اور یہ جھنجھلاتی رہیں۔

خیر، خدا ان کا احرام ^بول کرے مگر ہم سے بھی بھولے سے دو چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہو

گئیں احرام کی حالت میں۔ بے خیالی میں ہوائی جہاز میں سامنے کی سیٹ کی پشت پر

پیشانی ٹیک دی جس پر کYڑے کا غلاف لگا تھا۔ اگرچہ جلد ہی غلطی کا احساس ہو گیا۔

حدے کے ^ریب ہم نے گردن کے پاس کھجانے کی کوشش اسی طر� صبح ہوتے ہوتے یعنی ج

برغلط یعنی احرام کے منافی تھا۔ یوں بے خیالی میں یہ کی تو میل نکلنے لگا۔ یہ بھی کا

Page 41: اللہ میاں کے مہمان

دے دیں گے یعنی جزا کے طور پر ایک ایک‘دم’غلطیاں ہوئیں پھر بھی احتیاط کے طور پر

حھی اناج، جو اd تک تو دے سکے ہیں۔ مٹ

بہر حال احرام باندھ کر اور اپنا سامان لے کر ہم لوگ چلے۔ کلوک روم میں رکھے سوٹ کیس

اور ایک بڑا بیگ تو سہ پہر کو ہی ایر انڈیا کے لگیج کاؤنٹرپر دے دئے تھے اور یہ شاید پانچ

بجے تک ایر پورٹ پر چلے بھی گئے تھے۔ یہ ایسے پتہ چلاکہ ساری شام پنڈال کے مائک پر

بل اعتراض اشیاء کا اس ^سم کے اعلانات ہوتے رہے کہ فلاں صاحب کے سامان میں کچھ ^اب

پتہ چلا ہے اور وہ لوگ پہلے ہی ایرپورٹ پہنچ کر اس کا تدارک کریں۔ یعنی سب کے سامان

ب اعتراض کی جانچ بھی ہو چکی تھی۔ ہم اس پکار سے بچے رہے کہ خود ہمارے علاوہ ^ابل

کوئی شے ہمارے پاس تھی ہی نہیں۔

آائے تو ہم کو کلوک روم کے سامنے دو رویہ کرسیوں پر بٹھایا احرام باندھ کر پنڈال کی طرف

گیا۔ اس راستے کے دونوں طرف ہم کو رخصت کرنے والے والنٹیرس اور بنگلور کے مقامی لوگ

آائے ہوں گے، دوسرے تھے جن میں سے بیشتر تو اپنے کسی رشتے دار کو رخصت کرنے ہی

عازمین کو بھی رخصت کرنے کھڑے ہو گئے تھے۔ ایک صاحب نے سب کو ایک ایک

حا دیا۔ بعد میں کھول کر دیکھا تو اس میں پھل تھے..کیلے، سنترے اور پیکٹ بھی تSفت

اا س و ^ت کوئی اہم شخصیت ہم کو رخصت کرنے کے لئے موجود نہیں سیب۔ اتفاق سے

تھی۔ روشن بیگ صاحب پہلے ہی جا چکے تھے شاید ابتدا میں ہی کچھ لوگوں کو رخصت

کر کے۔ تین بسوں کے روانہ ہونے کے بعد ہمارا نمبر لگا۔ ایک مقامی مولانا )ان کا نام پوچھنا

Page 42: اللہ میاں کے مہمان

آاپ کو آاپ کو بتا سکتے( تلبیہ پڑھاتے رہے اور سفر کی دعائیں بھی۔ تلبیہ تو چاہئے تھا کہ

آاپ کو بتا دیں۔ معلوم ہی ہو گا۔ چلئے یہ بھی

بک ’ بری بش با اک۔ ل ال ام ال بوا بک بل اہ بت بم بنع ال بو ا بد ام Sب اال بحن با بحبیک۔ بل بک بل بک بری بش با بحبیک ل بل بحبیک۔ بل بحم اھ یل بل با حبیک بل

‘بلک۔

ب غفیر رخصت کرنے کے لئے موجود تھا۔ نہ جانے حم بس کے باہر بھی مقامی مسلمانوں کا ج

آاداd کے مطابق کہا کہ دعاؤں میں انھیں یاد رکھیں۔ ہم نے انشاء اللہ کتنے لوگوں نے دکنی

آا کر ہم کسی کو بھولے نہیں ہیں۔ حج کمیٹی، حج کیمپ بنگلور کے کہا اور وا^عی یہاں

کار کنان، روشن بیگ اور جن جن لوگوں نے بنگلور میں دعائیں مانگنے کا کہا، ان سب کی

جائز دعائیں ^بول کرنے کے لئے ہم نے ضرور دعائیں کی ہیں، حطیم میں بھی۔

حدہ پرواز نمبر 7111بنگلور۔ج

پر ہی جہاز کے اندر لے11۔35 پر فلائٹ تھی مگر 12۔5آاخر سواگیارہ بجے ایر پورٹ پہنچے۔

ت کر دیا گیا ہے۔ اس وجہ12۔35جایا ۔ حالاں کہ اعلان کیا گیا تھا کہ اd فلائٹ کا و

حھروں سے مSفوظ رہے کہ تاخیر سے ایر پورٹ پہنچے اور سے بنگلور ایرپورٹ کے ^وی ہیکل مچ

حھریہاں بھی داخل ہو چکے تھے۔ فلائٹ کی روانگی سے جلد ہی جہاز کے اندر۔ مگریہ مچ

آاتے رہے حھرنظر حھرمار دوا چھڑکی گئی۔ اگرچہ بعد میں بھی کچھ مچ کچھ ^بل جہاز میں مچ

Page 43: اللہ میاں کے مہمان

مگر ان کی تکلیف زیادہ مSسوس نہیں ہوئی، شاید اس دوران ان کے ڈنک کی تیزی غائب ہو

حھا ہوتا۔ چکی تھی۔ ایسی کوئی دوا انسانوں کے لئے بھی ہوتی تو کتنا اچ

امدر سمراٹ’ تھا اور اس کا نام 747جہاز بوئنگ تھا۔ معلوم نہیں ہوائی جہاز کا نام سمندر‘س

10، یعنی ایک ^طار میں 4۔4 سیٹیں تھیں اور درمیان میں 3۔3سے موسوم کیوں؟ دونوں طرف

تھا۔37 ^طاریں۔ خود ہماری ^طار کا نمبر 46نشستیں اور شائدپورے جہاز میں ایسی

dمارچ ختم ہو رہی ہے اور جہاز میں داخلے اور روانگی کے بعد29اس احوال کے مطابق ا/

/مارچ شروع ہو چکی ہے مگر حال کی بات یہ ہے کہ مدینے کے لئے چل چلاؤ لگ رہا30

ب س لئے اd ساڑھے چھ بجے شام ختم کرتے ہیں، بعد میں ہی لکھیں گے۔ ہے۔ا

حر ر ح^ف متک تSذ یر ۔ تو

حکہ۔ بجے6۔20/اپریل، صبح 3م

حکے کی بسوں کی پشت پر لکھا ہوتا ہے حرر۔ )عربی میں ( اور اس کا’یہاں م ح^ف متک تSذیر۔ تو

Warning, Frequentترجمہ انگریزی میں لکھتے ہیں )

stoppagesب ^لم کا ہے۔ حال کی اتنی بات لکھ (یہی حال ہمارا بلکہ ہمارے رخش

اا آائی ہے تو لکھ ہی دیں کہ تSریر حکے میں ہیں۔ ایک بات ابھی اس لفظ پر یاد دیں کہ ہنوز م

Page 44: اللہ میاں کے مہمان

بن مالوف )اندور، مدھیہ پردیش ، ویسے ہماری پیدایش اور خاص مSفوظ ہو جائے۔ ہمارے وط

وطن ریاست جاؤرہ، ضلع رتلام،مدھیہ پردیش ہے(میں ، جہاںہم نے ہائر سیکنڈری کا امتSان

.ء میں پاس کیا تھا، وہاں اسلامیہ کریمیہ اسکول میں )جو بعد میں ڈگری کالج ہو گیا1966

آاٹھویں جماعت میں داخل ہوئے تھے( ، جب ہم چوتھی تھا جب ہم دوبارہ اس ادارے میں

بمل صاحب تھے۔ بعد میں یہ بب علم تھے تو ہمارے اردو کے استاد کا پانچویں کلاس کے طال

توں کے سخن فہم حضرات بد مرحوم کے دوست بھی تھے، اگلے و بزرگ مرحوم ہو گئے، وال

سے وا^ف نہیں تھے جب‘ہنوز'’میں سے تھے، بہر حال چوتھی کلاس میں ہنوزہم اس لفظ

بمل صاحب نے کسی سبق کے معانی میں کے معنی نہ لکھا‘اd تک’تک کہ خدا بخشے کا

بدم ’ اور نوکر کے معنی ‘اجرت’دئے۔ مزدوری کے معنی بھی ان سے ہی سیکھے۔ اس پر ہم‘خا

الفاظ عام بات چیت میں‘مشکل ’ جیسے ‘مزدوری’ اور ‘اd تک’کو فخر ہونے لگا تھا کہ ہم

بم فاضل بن گئے تھے۔ بہر حال اd تک بھی ہم یا‘اd تک’استعمال کرنے کی حد تک عال

الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ، مرحوم کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔‘ہنوز’

dبج ضروریہ سے فارغ ہو کر بیٹھے ہیں، مگر ا ہم ابھی حرم میں فجر پڑھ کر لوٹے ہیں اور حوائ

پھر ماضی کی طرف لوٹتے ہیں کہ ابھی تو ہم جہاز سے اترے ہی نہیں ہیں، ^ارئین کو یہی تو

اح^ف ہوتا جا رہا ہے اسی لئے ^ارئین کو تSذیر دیتے جا رہے ہیں۔ معلوم ہے!۔ بار بار تو

Page 45: اللہ میاں کے مہمان

پرواز جاری

ت کے مطابق ت کے مطابق سوا بارہ بجے )اور نہ جانے کہاں کے و 20جہاز ہندوستانی و

ت ات میں30منٹ ^بل ہی۔ کہ و حرر کر دیا گیاتھا ، اور12۔35/مارچ کے ابتدائی او بجے مق

ت کے بعد ہوتا ہے( اڑا۔ سامنے ہی اسکرین پر پہلے ت توہمیشہ و ہندوستانی معیاری و

ت یعنی ایمرجینسی کی ہدایات دکھائی گئیں، انگریزی اور ہندی میں۔ جہاز اٹھتے و

Take off ت، یعنی ت اور اترتے و ت کیا کچھ کیا جائے،landingکے و کے و

سیٹ بیلٹ باندھنے کی ترکیب، استفراق کا خدشہ ہو تو اس کے لئے تھیلیاں سامنے رکھی

آاکسیجن ماسک ) آاکسیجن کی کمی ہونے پر (کس طر�Oxygen Maskہیں،

بگر جائے تو سیٹ کے نیچے کہاں استعمال کیا جاتا ہے۔ خدا نخواستہ اگر جہاز سمندر میں

رکھی ہے اور اسے کس طر� استعمال کیا جائے، سیٹ پر لگے بٹنوں کی‘لائف جیکٹ’

بب استعمال بھی دکھائی گئی۔ ٹافیاں دی گئیں، ٹھنڈا تفصیل تو چھوڑئیے، ٹائلیٹ کی ترکی

پانی اور مشروd دئے گئے۔

ت )فیض آاسمان سے دیکھا۔ بلکہ کسی بھی شہر کو رات کے و آابنگلور کو پہلی بار کی یاد

عہ ملا تھا تو دن میںگئی؎ یہاں سے شہر کو دیکھو ...(اس سے پہلے جب پروازوں کا مو

ہی سفر کیا تھا۔ راتوں کو ہر شہر عجیب منظر پیش کرتا ہے، سڑکوں پر ^طار اندر ^طار ایک

سیدھ میں لگی ہوئی سٹریٹ لائٹیں۔ نیان لائٹیں۔ سارا شہر جگ مگ جگ مگ۔

Page 46: اللہ میاں کے مہمان

ت کا کھانا کہا جائے۔serve)‘ سرو’ایر ہوسٹس نے ناشتہ (کیا، نہ جانے اسے کس و

ناشتہ کیا، با^اعدہ کھانا ہی تھا۔ اعلان بھی کیا گیا کہ یہ کھانا حج کمیٹی کا منظور شدہ ہے

بج کرام ہچکچائیں نہیں کہ اس میں بریانی بھی تھی۔ پوریاں تھیں، اچار تھا،دہی اس لئے حجا

بھی تھی۔ رات کا کھانا، ڈنر، تو ہم کھا ہی چکے تھے اور پیٹ بھرا تھا، پھر بھی بریانی کی

اچگ ہی لیں۔ دہی میں شکر ڈال کر کھا لی۔ با^ی یوں ہی بعد کے لئے کچھ بوٹیاں چن کر

بچا کر رکھ لیا ۔

آائی آاواز آاف کے تھوڑی دیر بعد ہی مائک سے آاپ سے مخاطب’ٹیک میں روشن بیگ

بج کرام کو مبارک باد کے ساتھ اور کرناٹک حج‘ہوں... یہ ریکارڈ کیا ہوا پیغام تھا۔ تمام حجا

کمیٹی کے چیرمین کی حیثیت سے بنگلور حج کیمپ میں اگر کچھ کوتاہی ہو گئی ہو تو اس

کی معذرت کے لئے۔ اور یہ کہ ان کو اور حج کمیٹی کے دوسرے ممبران کو دعاؤں میں یاد

رکھا جائے۔ خدا روشن بیگ کو اجر عطا کرے، انھوں نے جہاز کی روانگی کے بعد بھی

حاجیوں کو یاد رکھا۔

آادھے آاتی ہے، پھر بھی کوئی ہم کو بسوں کی یا جہاز کی سیٹوں پر مشکل ہی سے نیند

بع احرام حرکت ہو گئی جس کا ذکر آانکھ لگ ہی گئی جس میں وہ ممکنہ مان گھنٹے کے لئے

کر ہی چکے ہیں۔

حتہ تھوڑی تھوڑی دور آایا الب رات کے اندھیرے میں جہاز کی کھڑکیوں سے سمندر تو نظر نہیں

بر عرd کے جزیرے ہی ہوں گے۔ Sتاریکی میں روشنیوں کے جزیرے ضرور دکھائی دئے جو ب

Page 47: اللہ میاں کے مہمان

ت( ہم طوفان سے بھی گزرے۔ ہر طرف بجلیاں چمک رہی رات ساڑھے تین بجے )ہندوستانی و

تھیں۔ اعلان کیا گیا کہ سیٹ بیلٹس باندھ لیں خطرے کے پیش نظر۔ عام طور پر ہم اس

آاف کے بعد بھی کھولتے ہی ت ہی عمل کئے رہتے ہیں کہ سیٹ بیلٹ ٹیک ہدایت پر ہر و

بت اا پھر باندھ لیتے ہیں کہ بو اا فور آا کر احتیاط نہیں۔ ضروریات کے لئے اٹھتے بھی ہیں تو واپس

آائے۔ ضرورت کام

ت6صبح بجے، مگر باہر تاریکی ہی تھی، ہماری گھڑیوں میں چھہ بجے تھے ہندوستانی و

حدہ تھا۔ وہی جگمگاتا ہوا منظر آائیں۔ یہی ج کے مطابق، باہر ایک بڑے شہر کی روشنیاں نظر

ت ائر لائنس کی طرف سے ایک اور جو کبھی دائیں طرف ہو جاتا کبھی بائیں طرف۔ اسی و

حدہ ایر پورٹ پر استعمال کے لئے’پالی تھین بیگ دیا گیا جس پر اردو میں بھی لکھا تھا ۔‘ج

( کی بوتل کے علاوہ دو کھانے کے پیکٹMineral Waterاس میں منرل واٹر )

تھے۔ دونوں میں کھیرے اور ٹماٹر کے سینڈوچ، کباd، نمکین کاجو کے پیکٹ، مٹھائی کے

ت دئے گئے ناشتے کے علاوہ رات دو ٹکڑے اور ایک پنیر سینڈوچ بھی۔ کھانا اتنا تھا )اس و

حدہ ایرپورٹ پر دو بار تھوڑا تھوڑا ناشتہ کرنے کے بعد دو پہر تک کا بھی کھانا ساتھ تھا( کہ ج

بب خیر کے دئے پھل بھی تھے۔ بہر حال۔ آایا۔ پھر وہ بنگلور میں کسی صاح کام

ت کے مطابق صبح کے6۔35 حدہ ایر پورٹ پر اتر رہے ہیں۔ مقامی و پر اعلان کیا گیا کہ ہم ج

ڈگری سیلسیس ہے۔20چار بج کر پانچ منٹ ہوئے ہیں اور باہر کا درجۂ حرارت

Page 48: اللہ میاں کے مہمان

حج ٹرمنل پر جہاز رکا۔ یہاں دوسرے جہازوں کے اترنے کی اجازت نہیں ہے۔ صرف حج کے

عہ پر ہی ٹرمنل تین ماہ کے لئے کام کرتا ہے۔ جہاز کی کھڑکیوں سے ہی کئی دوسرے مو

آائی۔اے۔ اور سیرین ایر لائنس کے نام تو ہم نے سن رکھے تھے، مگر آائے۔ پی۔ جہاز نظر

دوسرے کئی جہازوں پر لکھے نام ہمارے لئے انجانے ہی تھے۔

جہاز پر سیڑھیاں لگانے کی بجائے کچھ ایسا انتظام کیا گیا تھا کہ ہم سیدھے ہوائی جہاز کے

دروازے سے نکل کر ایر پورٹ کی عمارت میں اس طر� داخل ہو گئے کہ جہاز نا شناس کو

یہ بھی نہ معلوم ہوتا کہ جہاز کب ختم ہو گیا اور عمارت کہاں شروع۔ عمارت سے ملانے والا

اا خود کار تھا جسے کسی سوئچ سے سرکا کر جہاز کے دروازے یہ ائر کنڈیشنڈ کاریڈور غالب

سے بالکل ملا دیا گیا تھا۔

ت ہی5صبح ت ہے ، اd ظاہر ہے ہم نے گھڑیاں اترتے و بجے کے ^ریب )اور یہ سعودی و

ت ہے۔ حدہ میں یہ و ڈھائی گھنٹے پیچھے کر لی تھیں جب جہاز میں اعلان کیا گیا تھا کہ ج

ت ہی لکھیں گے(۔ ایر پورٹ میں داخل ہوئے۔ پہلے ہال میں پاسYورٹ آائندہ سعودی و dا

چیک کئے گئے۔ اسی ہال میں ضروریات کے کمرے بھی تھے۔ یہاں ہی کافی دیر ہو گئی۔

ااکے11اس ہال میں اا و سہل آامدید کہا گیا تھا۔ عربی میں اہل زبانوں میں حاجیوں کو خوش

آامدید’علاوہ بنگلہ میں بھی کہ یہ ہندوستان کے علاوہ بنگلا دیش کی بھی زبان ہے۔ تو‘خوش

حتہ نہیں تھا۔ انگریزی کے علاوہ اور بھی اردو اور فارسی دونوں میں مشترک ہو گیا۔ ہندی میں الب

اا انڈونیشی اور ملیشین۔ کئی زبانوں مگر رومن رسم الخط میں، غالب

Page 49: اللہ میاں کے مہمان

پھر درمیانے ہال میں لے جائے گئے۔ وہاں کسٹم کی ابتدائی چیکنگ ہوئی۔ پاسYورٹ پر کچھ

آائے۔ یہاں جہاز سے اتارا مہریں ثبت کی گئیں، اس کے بعد اس سے ملSق تیسرے ہال میں

گیا ہمارا سارا سامان موجود تھا۔یہی در اصل کسٹم کی چیکنگ تھی کہ ہم ساتھ میں۔

سیاسی کتابچے، غیر اسلامی یا فSش لٹریچر اور تصاویر، خشخاش یا اچار ^سم کی اشیاء تو

نہیں لائے ہیں۔ کسٹم کے ملازمین ہر سامان کھول کھول کر دیکھ رہے تھے۔ ہمارے سوٹ

کیس وغیرہ اوپر کے کYڑے وغیرہ ہٹا کر نیچے بھی اور ادھر ادھر کی چھوٹی موٹی اشیاء بھی

چھو کر یا اٹھا کر دیکھی گئیں۔

اچھری خاص طور پر دیکھی گئی کہ ^انونی سائز حرر۔ ساڑھے نو بجے صبح( ایک ح^ف متک )تو

سے زیادہ بڑی تو نہیں ، پھر منظوری دے دی گئی۔ اس سارے کام میں نو بج گئے۔ ہم

اا اا سامان ٹرالیوں میں رکھ کر جانے کہاں لے جایا گیا، یہ ہم کو فور آائے تو فور سامان لے کر باہر

معلوم نہ ہو سکا۔ باہر کی مزید ^طاروں میں ہم کو لگنا پڑا۔ پاسYورٹ پر مختلف مہریں لگیں،

بپن کی گئی.. یہ dریال کی ^یمت405اسٹکرس لگائے گئے، بس کے ٹکٹوں کی ایک کتا

حدہ واپسی کے۔ حکے سے ج حکہ اور م حکہ سے مدینہ، واپس م حکہ ، م حدہ سے م کے ٹکٹ تھے.. ج

ااس کے بعد آامدورفت کے بھی۔ یی، عرفات اور مزدلفہ وغیرہ کی حکے سے ،من اور حج کے دوران م

حصے میں لایا گیا جہاں ^ونصل کا کاؤنٹرتھا اور جگہ جگہ ترنگے ہم کو باہرہندوستان کے ح

لگے تھے۔ یہاں ہی ہمارا سامان موجود تھا۔

اd جا کر مہلت ملی کہ ایرپورٹ کی عمارت دیکھی جائے۔ بے شمار خیموں کے نمونے کی

حصے کے جہاں بح ااس بسوائے چھت ہے جو مSض ستونوں پر ^ایم ہے۔ دیواریں نہیں ہیں،

Page 50: اللہ میاں کے مہمان

آافس، بنک وغیرہ، با^اعدہ عمارت کی ضرورت تھی، یعنی ایرپورٹ ، کسٹم یا ایر لائنس کے

وہاں ایک منزلہ عمارتیں اس اونچی چھت کے تلے تعمیر کی گئی تھیں یا اس سے باہر۔

آائے تو مظہر بھائی مل گئے۔ ان سے بنگلور میں ہمارا تعارف ہوا تھا اور معلوم ہم باہر کی طرف

آاباد سے آاندھراپردیش، حیدر کلو میٹر دور ایک ضلع اور شہر( کے100ہوا تھا کہ مSبوd نگر )

حھی حدین کے شاگرد تھے اور صابرہ سے اچ حید شمس ال ہی ہیں اور ہمارے سسر مرحوم مولوی س

اان کے پڑوسی رہ چکے تھے)یہاں یہ بات بے مSل نہ ہوگی کہ ہماری طر� وا^ف تھے کہ

مSترمہ کا کچھ پس منظر بھی دے دیا جائے۔ ان کا خاندان ویسے یو.پی. کا ہے اور ان کے

آائے تھے اور مSبوd نگر آاباد ضلعے سے ہجرت کر کے دکن والد ہی نظام کے زمانے میں الہ

آاباد میں کہتے برٹائر ہوئے، یا جیسے حیدر کے ملٹی پرپز ہائی اسکول کے ہیڈماسٹر کے طور پر

ہیں کہ وظیفہ یاd ہوئے(۔ چنانچہ وہاں صابرہ کی ان سے اور بھابھی سے ملا^ات ہوئی اور تب

سے ہم لوگ ساتھ ساتھ ہی ہیں۔

حصے میں پاسYورٹس پر مزید اسٹکرس لگائے گئے تو معلوم ہوا کہ ہمارے ہندوستانی ^ونصل کے ح

حلم کا نمبر حکہ میں ہماری رہایشی عمارت کا نمبر53مع ہے جسے مکتب نمبر کہتے ہیں اور م

م 468 ' کو ‘4’( یہ تو ہم کو معلوم تھا کہ عربی میں 468 )عربی کے حساd سے عمارت ر

پہلی بار دیکھا۔‘٦’ اور ‘٢’ کو بالترتیب ‘6’ اور ‘2’ لکھا جاتا ہے مگر ‘٧’ کو ‘7’ اور ‘٤

م201کمرہ نمبر بھی لکھا تھا۔ (۔۲۰۱ )عرفہ ر

Page 51: اللہ میاں کے مہمان

پہلے بنک جا کر ڈرافٹ ان کیش کرایا اور سعودی ریال حاصل کئے۔ پھر وہاں ہی فرش بلکہ

م کا استعمال کر ^الین پر بیٹھ کر ناشتہ کیا۔ پھر ہم چائے خرید کر لائے، پہلی بار سعودی ر

آادمیوں نے وہاں حلم کے کے، اور چاروں نے پی، پھر بس کے لئے ^طار میں بٹھا دئے گئے۔ مع

حدہ میں ہی ان سے حرکت کرنے نہ دی حالاں کہ اd دم لینے کے بعد صابرہ کا ارادہ تھا کہ ج

آا اان کو فون کیا جائے۔ سامنے ہی فون بوتھ نظر کے بہنوئی کے چھوٹے بھائی با^ر رہتے ہیں،

آانے والی ہے۔ حالانکہ اس کے لئے رہے تھے مگر ان لوگوں نے اجازت نہ دی کہ ابھی بس

اا بجے تک انتظار کرنا پڑا۔ اورمسافروں کے بیٹھنے اور بس کی چھت پر سامان رکھنے10تقریب

حکے کے لئے روانگی ممکن ہو سکی۔ تک پونے گیارہ بج گئے تب ہی م

Page 52: اللہ میاں کے مہمان

کئے گئے‘نقل’ہم

یی بنقل الSجاج’ تھی جس پر لکھا تھا 768یہ بس نمبر حم القر یی.. شہروں کی‘شرکۃ ا حم القر ۔ ا

بشرکہ کہتے ہیں، یہ بعد میں حکے کی عرفیت ہے ۔ شرکۃ )جسے بول چال میں ماں..یہ تو م

معلوم ہوا( کا مطلب کارپوریشن یا کمYنی ہوگا اور حجاج کی نقل مطلب حمل و نقل۔ چنانچہ

حدہ ایرپورٹ سے ہمارا نقل )مکانی( ہوا۔اd ہم بھی فخر سے کہ سکتے ہیں کہ ان بسوں میں ج

( کرنے کا خطرہQuoteہم نقل کئے گئے۔ ورنہ کس مصنف نے ہماری تSریر کو نقل )

حلقات بھی حقاد حضرات نے، جن سے ہمارے تع مول لیا ہے۔ ویسے ہم کو یاد ہے کہ دو چار ن

تھے ..جیسے برادرم عمیق حنفی مرحوم، ہمارے اشعار کی ضرور مثالیں دی ہیں۔ بشیر بدر نے

بھی جدید غزل پر اپنی تھیسس میں ہمیں یاد رکھا۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر عنوان چشتی نے

ہماری دوہے والی غزل کے اشعار ضرور اپنے مضمون )اور اپنی ڈاکٹریٹ کی تھیسس( میں نقل

آاپ نے تو نہ سنی ہوگی ؎کئے تھے، وہی غزل جو

ڈھونڈھیں گے پھر ہم کہاں، ساگر ساگر پھول : اگلے برس جانے کہاں جائے گا بہہ کر پھول

؎اور

پھینکے بھی تو اٹھائے کون۔ بانٹے بھی تو کسے : دھن شاعر کے پاس کیا، ہوا، سمندر، پھول

Page 53: اللہ میاں کے مہمان

آایا۔ مگر سچ مانئے، ہم اپنے آاپ بھی سوچیں گے کہ شاعر اپنے شعر سنانے سے باز نہیں

حتہ اور ہے۔ بات کہاں سے اشعار بہت کم سناتے ہیں، یاد بھی نہیں رہتے۔ تSریر کی بات الب

ہمارے ذہن میں دو ہی مطلب پیدا کرتا ہے۔ امتSان کے‘نقل‘کہاں نکل گئی۔ در اصل لفظ

پرچے میں کی جانے والی نقل۔ جس سے خدا کا شکر کہ ہم ہمیشہ مSفوظ رہے، یا پھر

امستند جیسے ہمارے یہاں کے اکثر تنقیدی مضامین ہوتے ہیں.. انگریزی ادیبوں اور اردو کے

حقادوں کے مقولے )اور شاعری پر مضمون ہو تو شاعر مذکور کے اشعار کی مثالیں( جنہیں اگر ن

خارج کر دیا جائے تو مضمون میں کچھ با^ی ہی نہیں بچتا۔ یہ دوسری نقل ہوئی۔ جسے

کرنا کہتے ہیں۔ حالاں کہ حمل و نقل بھی سامنے کے الفاظ ہیںQuoteانگریزی میں

آاباد میں گھر سے بسیں تبدیل3۔4 کلو میٹر دور 26مگر ان کا یہ استعمال...! روزانہ ہم حیدر

آاتے جاتے ہیں مگر ہم کو کبھی احساس ہی نہ ہوا کہ ہم نقل ہو رہے ہیں..!! کرتے ہوئے دفتر

بچک پائنٹس )عربی میں خدا خدا کر کے ہماری نقل شروع ہوئی مگر تھوڑی تھوڑی دور پر اتنے

( تھے کہ ایک گھنٹے بعد بھی ہماری بس جہاں کھڑی تھی‘نقطۂ تفتیش’ہر جگہ لکھا تھا

آا رہے تھے۔ بس کے بارے میں لکھتے چلیں کہ ائر‘خیمے’وہاں سے ایر پورٹ کے نظر

کنڈیشنڈ تھی۔

اd ہم نے سعودی عرd کی اس شاہراہ کے مشاہدات شروع کئے۔ تلبیہ بھی جاری ہی رہاساتھ

بز بلند خود آاوا ساتھ۔بلکہ ہم نے ہی دوسرے مسافروں کو پڑھوایا بھی کہ پہلے دو حضرات نے ب

پڑھ کر دوسروں کو دہرانے کی دعوت دی تو وہ خود غلط پڑھ رہے تھے۔ لوگوں کو اd تک

Page 54: اللہ میاں کے مہمان

حتفاق سے یہ بچYن سے ہی یاد تھا کہ ہماری والدہ حج کے ایام میں بھی یاد نہ تھا۔ہم کو ا

سعودی عرd ریڈیو لگا دیتی تھیں جہاں مستقل تلبیہ چلتا رہتا تھا۔بہر حال۔

آانے کے لئے، تین جانے کے لئے۔lanes گلیاں )3۔3سڑک کے دونوں طرف ( تھیں۔ تین

( کہاجاتا ہے۔ سڑک کے دونوںExpress High wayاسے ایکسYریس ہائی وے )

آائے، اس کے بعد مSض گرینائٹ اور طرف اکثر پہاڑ تھے ، شروع میں لاوے کے پہاڑنظر

نائس چٹانوں کے۔ یہ ہم بطور ارضیات داں لکھ رہے ہیں، بلکہ لاوے کی بجائے بھی بیسالٹ

بمگمیٹائٹ )Gneiss( اور نائس )Basalt Flowsکے بہاؤ ) (کو بھی در اصل

Migmatite حلہ’(لکھنا چاہئے تھا۔راستے میں جگہ جگہ ال بن ا Sی اب یحلہ’،‘اس بلل اد ام Sب ال با یحلہ’، ‘ ال با ا

ار بب اک ببی’ اور‘با حن ب بی ال بعل او حل بص لکھا تھا اور ہم بھی اس پر عمل کرتے جا رہے تھے۔ کہیں کہیں‘

بلنا’عربی، انگریزی اور اردو میں بھی بالترتیب لکھا تھا۔ اف بر بش حجاج Sا Service‘ خدمۃ ال

to Haj pilgrims is our privilege حاجیوں کی خدمت ہمارا’ ۔ اور

۔‘شرف ہے

آاگے غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع پھر حرم کی حدود شروع ہوئیں جہاں کے نقطۂ تفتیش کے

حدہ ہے۔ بلکہ ان کے لئے راستہ دوسری طرف ہے جو دوسرے شہروں کی طرف جاتا ہے۔ ج

حکہ کا فاصلہ حدہ شہر سے 91 ۔ 92ایرپورٹ سے م کلو میٹر( جدہ77کلو میٹر ہے )اگرچہ ج

آاباد ہے اور جسے انگریزی میں اا کم شہر کا وہ علا^ہ اس شاہراہ پر ضرور وا^ع ہے جو نسبت

Suburbanاا یہ بائی پاس ہو گا۔ کہہ سکتے ہیں۔ غالب

Page 55: اللہ میاں کے مہمان

آائیں۔ اکثر ایک مینار کی ۔ اور یہ راستے میں تھوڑی تھوڑی دور پر خوd صورت مسجدیں نظر

واحد مینار مسجد کے اندر ہی وا^ع۔ دراصل تھوڑی تھوڑی دور پر ایسے کامYلیکس تھے جہاں

پٹرول پمپ، غذائی اشیاء کی دوکانیں، ہوٹل یا کم از کم چائے اور کولڈ ڈرنکس کے اسٹال،

اور ہر کامYلیکس میں مسجد بھی۔ تاکہ راہ گیروں کو ہر سہولت مل سکے۔

بف ت یہ مشاہدہ ہو گیا کہ کسی اشتہار میں صن راستوں میں اشتہاری بورڈ بھی تھے اور اسی و

آایا، بلکہ مزید غور کرنے پر معلوم ہوا کہ کسی جان دار کی تصویر بھی نازک کا چہرہ نظر نہیں

نہیں ہے۔

حجاج’ایک بجے کے ^ریب ہم لوگ اح زم زم کولنگ’ میں پہنچے جو در اصل ‘مرکز استقبالیہ

اا( کمYنی یا شرکۃ کا نام ‘کامYلیکس بفس’تھا۔اس سرکاری )غالب آا یا عربی میں‘زم زم یونائٹیڈ

مکتب زمازمۃ الموحدتھاا۔ یہاں ہی نماز کے لئے احاطہ تھا اگرچہ با^اعدہ مسجد نہیں تھی۔

بلٹر کی زم زم کی مہر بند بوتل صاف ستھرے غسل خانے اور پاخانے تھے۔ ہر حاجی کو ڈیڑھ

اا دی گئی، ویسے وہاں ہی ٹھنڈے زمزم کے بے شمار نل لگے تھے۔ جتنا چاہیں پئیں اور تSفت

رکھنا چاہیں تو ساتھ رکھ لیں۔یہاں بس پون گھنٹہ کھڑی رہی، ظہر کی نماز بھی پڑھی گئی۔

حکے پہنچے۔ اس کے بعد روانہ ہوئے تو م

ہماری بس میں ہماری عمارت کے علاوہ بھی دوسری عمارت کے مسافر تھے جو ہمارے ہی

حلم )مکتب( کے علاوہ ایک اور مکتب نمبر سے بھی متعلق تھے۔ دونوں مکتبوں کے54مع

آاخر میں دفتروں پر بھی بس رکتی رہی اور دوسری عمارتوں میں دوسرے حاجیوں کو اتارتی ہوئی

Page 56: اللہ میاں کے مہمان

ہماری عمارت پر پہنچی۔ اور جب ہم منزل پر پہنچے تو ساڑھے تین بج گئے تھے۔ ان مکتبوں

حٹے بھی جو عام طور پر لوگوں نے پر ہم کو ہمارے شناختی کارڈ بھی دئے گئے۔اور شناختی پ

کنگن کی طر� پہن لئے۔ جیسا ان سے کہا گیا تھا، مگر ہماری نازک کلائی کی وجہ سے

ہم نے اسے بازو بند بنا لیا۔

م بب عامر۔شمال۔ ’،468ہماری عمارت ر بب عامر تو پورے‘48۔2شمال۔1شع پر وا^ع ہے۔شع

حکہ جانیں۔ ہم تو اتنا بن م علا^ے کا نام ہو گا، ان سمتوں اور اعداد کا کیا مطلب ہے، یہ اہلیا

جانتے ہیں کہ یہ عمارت سڑک سے اندر کی طرف ہے۔تیسری منزل پر ہمارا کمرہ ہے، یعنی

حاجیوں کا انتظام ہے مگر ہم14سیکنڈ فلور پر۔ اس میں لگی فہرست کے حساd سے یہاں

افراد کا ایک گروپ ہے، ایک بزرگ میاں بیوی ہیں اور ایک ہم بزرگ میاں5ہیں یہاں نو ہی۔

بیوی۔

سامان ٹھیک ٹھاک کر کے ضروریات سے فراغت کے بعدکچھ کھانا کھایا، جو ساتھ تھا

آانے والا ہے۔ یہ کھانا بحلم کی طرف سے کھانا ت مع 5اسے ختم کیا۔ اگرچہ معلوم ہوا کہ اس و

آایا جب ہم حرم کے لئے نکلنے کی تیاری کر رہے تھے۔ چنانچہ اسے یوں ہی رات کے بجے

لئے رکھ لیا۔

بd نظر چاہئے تا

Page 57: اللہ میاں کے مہمان

حرم کی طرف چلے تو مظہر بھائی اور ان کی اہلیہ ساتھ تھیں۔ مSبوd نگر کے ہی دو جوڑے

حتار صاحب اور دونوں کی بیویاں۔ مظہر بھائی پہلے بھی نہ حبار صاحب اور س اور بھی تھے۔ ج

آاٹھ سال رہ چکے تھے، اس لئے ہم نے ان کو صرف حج کر چکے تھے بلکہ یہاں یہ سات

کو یہاں بول‘ق’اپنا ^ائد یا گائڈ بنا لیا ) یہ گائڈ کہیں ^ائد لفظ سے ہی برامدہ تو نہیں ہے؟۔

آابادی اسے ‘گ’چال میں اکثر سے(۔‘خ’ سے بدل دیتے ہیں جیسے حیدر

ااس طرف حرم کے احاطے کے باہر ہی غسل خانوں کا کامYلیکس بجس طرف سے ہم گئے،

ہے۔ سینکڑوں غسل خانے اور پاخانے )مشترکہ( اور وضو خانے بھی۔ مردوں کے الگ، عورتوں

۔ انگریزی میں‘دورات میاہ للرجال’کے الگ۔ مردوں کے غسل خانوں پر عربی میں لکھا تھا

میں لکھا ہے کہ انگریزی‘حج کا ساتھی ’بھی۔ مگر ہمارے عبدالکریم پاریکھ صاحب نے

آایا، ممکن ہے کہیں اور کے غسل‘LAKI-LAK’میں لکھا گیا ہے، یہ تو وہاں نظر نہیں

خانوں میں یہ لکھا ہو، مگر یہ انگریزی نہیں، رومن رسم الخط میں کسی اور زبان میں لکھا

ہوگا )شاید انڈونیشی میں، یہ ہم کو بعد میں معلوم ہوا(۔ ہمارا داخلہ تو ایک طرف سے ہی ہوا

تھا۔ حرم کے چاروں طرف ہی ایسے ہی غسل خانے ضرور ہوں گے۔ ہماری طرف کا احاطہ

بہت وسیع تھا۔ سڑک کی طرف پہلے سلاخوں کی دیوار جس میں کئی دروازے، ان دروازوں

حYلوں کی اجازت ہے لیکن بگ مرمر کا۔ یہاں اگرچہ جوتوں چ سے اندر باہر صSن ہے، سفید سن

حھر کی دائرے وار لکیریں نصب ہیں۔ یوں کہئے کہ صفوں اور ^بلے کی نشان دہی کے لئے پت

حصہ در اصل صفا اور مروہ کے درمیان کا ہے، اس حھر کی جا نمازیں بچھا دی گئی ہیں۔ یہ ح پت

آاپ کو یہ تو لئے حرم کی دیوار ایک سیدھ میں چلی گئی ہے۔ اس میں کئی دروازے ہیں۔

Page 58: اللہ میاں کے مہمان

یمعیل کو معلوم ہوگا کہ صفا اور مروہ وہ پہاڑیاں تھیں جن کے درمیان حضرت ہاجرہ حضرت اس

حچے کو اکیلا چھوڑ کر گئی تھیں چھوڑ کر پانی کی تلاش میں نکلی تھیں بلکہ شیر خوار ب

یمعیل کے پیر مارنے سے زم زم کا وعے کے بعد ہی حضرت اس اس لئے دوڑی تھیں۔ اس و

dچشمہ خدا کے کرنے سے پھوٹ نکلا تھا۔ ان پہاڑیوں کے درمیان ہی سعی کی جاتی ہے۔ ا

بہ بڑھایا جا سکے، جو کئی بار یہ پہاڑیاں تو مٹا دی گئی ہیں کہ حاجیوں کے لئے حرم کا ر

آاخری تعمیر ابھی حال ہی میں شاہ فہد نے کروائی ہے۔ اور اd سعی کا یہ علا^ہ بڑھ چکا۔

حرم کے احاطے کے اندر ہی شامل ہو گیا ہے۔ خیر۔

پہنچنے کو تو ہم لوگ اس صSن میں ساڑھے پانچ بجے پہنچ گئے تھے۔ عصر کی نماز بھی

ت ت با^ی تھا، مگر یہ و عمارت سے پڑھ کر نکلے تھے اور مغرd میں سوا گھنٹے سے زیادہ و

آارام عمرے کے طواف اور سعی کے لئے کافی نہیں تھا۔ اس لئے مظہر بھائی نے مشورہ دیا کہ

ت اندر جگہ ملنی مشکل ہوگی کہ بیشتر لوگ برd باہر ہی پڑھ کراندر چلیں گے، اس و سے مغ

عصر کی نماز پڑھ کر مغرd تک جگہ پر ^بضہ کئے رہتے ہیں۔ دوسری نمازوں کے لئے بھی

گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے سے صفیں بن جاتی ہیں۔ ہم کو بھی باہر ہی کچھ دیر رکنا نہ صرف

گوارا بلکہ ^بول ہوا۔ یہ احساس کہ پہلے اس احاطے کے پر نور نظارے سے تو مسSور ہو لیں۔

بd نظر کہاں! حمت ٹھکانے کر لیں، ابھی بیت اللہ دیکھنے کے لئے تا کچھ دیرہ

حکہ گونجنے لگا۔ اللہ اکبر کی پہلی صدا نے6۔36 پر مغرd کی اذان ہوئی اور لگا کہ سارا م

ہی بدن کو جھنجھوڑ دیا۔ بیت اللہ کی پہلی اذان جو ہمارے کانوں میں پڑی ہے )ویسے عصر

آاواز پہنچی ضرور ت بھی ہم ہماری عمارت میں ہی تھے اور وہاں بھی اذان کی کی اذان کے و

Page 59: اللہ میاں کے مہمان

ت ہم نے دھیان نہیں دیا تھا کہ سیٹل ) ااس و (ہونے میں لگے تھے یاsettleہو گی، مگر

شاید یہ سمجھے ہوں کہ کہیں اذان ہو رہی ہے۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ ہماری عمارت میں

آاتی ہے۔ آاواز صاف بھی، جو اگرچہ ایک کلو میٹر سے زیادہ ہی دور ہوگی حرم سے، اذانوں کی

بم مکہ کی بھی(۔ بجن کی بھی اور حر بد مسج

اا نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے۔ ہم کو عجیب شک اذان ختم ہوتے ہی ہم نے دیکھا کہ لوگ فور

ہوا کہ شاید یہاں حرم کے باہری احاطے تک جماعت نہیں ہوتی اور ہم کیسے بد ^سمت ہیں

آاخر ہم ارک کر کہ حرم میں موجود ہیں اور وہاں کی باجماعت نمازسے مSروم۔ کچھ لSظہ

برd کی نماز کے لئے کھڑے ہو گئے، ابھی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ بھی انفرادی طور پر مغ

اا اذان ہوتے ہی لوگ آائی۔ یہ بھید اd تک تو نہیں کھلا ہے کہ عموم آاواز مائک پر ا^امت کی

برd کی جماعت سے پہلے کون سی نماز پڑھتے ہیں، ہم نے تو یہی سنا تھا کہ عصر اور مغ

مغرd کے درمیان سوائے ^ضا نمازوں کے اور کوئی نماز نہیں پڑھی جاتی۔ بہر حال ہم نے بھی

جلدی جلدی اپنی نمازختم کر کے جماعت کا ساتھ دیا۔ نماز سے فارغ ہو کر اندر چلنے کی

حمت کی۔ ہ

ارخ پر باd السلام کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اکثر جنازوں کو بھی ادھر سے لے جایا باس

حسلام سے داخل ہوں، آانے والوں کے لئے بھی یہی افضل ہے کہ باd ال جاتا ہے۔ پہلی بار

Pigeon )‘کبوتر خانوں’چنانچہ اسی دروازے سے ہم بھی داخل ہوئے ۔یہاں یہ باہر

holesلیں رکھ دیں اور اندر داخل ہوئے۔جیسا کہ لکھYح (کے ایک خانے میں ہم نے اپنی چ

یعی ہے، یعنی سعی کرنے کا راستہ یا انگریزی میں ) ارخ پر مس چکے ہیں کہ اسی

Page 60: اللہ میاں کے مہمان

Corridorکہہ لیجئے۔ دائیں طرف مروہ ہے اور بائیں جانب صفا۔یہاں بھی سعی کرنے)

والوں کی بھیڑ تھی جو ہماری طر� عمرہ کرنے والے ہوں گے۔ ان کے درمیان سے جگہ بناتے

آائے۔ اور اس کے بعد ایک اور دالان میں۔ اور تب کعبۃاللہ پر ہوئے پہلے اندرونی دالان میں

ہماری پہلی نظر پڑی...

بم کعبہ کی شان و شوکت، جاہ و جلال جو دیکھ آائے تھے، مگر حر اd تک تصویریں دیکھتے

کر مSسوس کیا جا سکتا ہے وہ تصویروں میں کہاں ممکن؟ احادیث میں ہے کہ کعبے پر

آامد دعا تو یہی ہے پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے، ^بول ہوتی ہے۔ اور سب سے کار

آائندہ ہم جو بھی دعا مانگیں۔ جائز ہو تو اسے ^بولیت کا درجہ بخش۔ یہ دعا ^بول کہ یا اللہ ۔

آاتے ہیں۔ آاثار نظر نہیں آا گیا۔ ویسے اd تک تو اس کے ہو گئی تو سمجھئے کہ پارس ہاتھ

ہماری بیماری ابھی بھی جاری ہے۔ وہی معمول کے مطابق دن بھر میں کھانسی کے تین چار

دورے، جس کا علاج سگریٹ سے ہی ممکن ہے۔ بعد میں ہم نے زمزم سے بڑے شوق اور

عقیدت سے اپنے چہرے اور ہاتھ کے علاوہ سینے بلکہ پھیYھڑوں پر بھی ملا ہے۔ ممکن ہے کہ

؎ دوا یہ کرے گی اثر دھیرے دھیرے ، یا ، دعا یہ کرے گی اثر دھیرے دھیرے ۔

عمر ے کا طو ا ف ا و ر سعی

Page 61: اللہ میاں کے مہمان

بن کعبہ میں داخل ہوئے۔ Sاندر کی طرف دوسرے دالان کی سیڑھیاں اتر کر پھر اندرونی ص

بگ مرمر کا فرش ہے، عمرے کے طواف کے لئے چلے کعبے کی یہاں بھی وہی سفید سن

حتار بھائی بھی ساتھ تھے اور ان تینوں کی بیویاں حبار بھائی اور س طرف۔ مظہر بھائی کے علاوہ ج

حمت خاتون ہیں اس لئے ہماری مSترمہ نے بھی۔ مظہر بھائی کی بیوی بے حد کمزور اور کم ہ

آائے۔ یہ ایک براسود کی لکیر کی طرف ان کا ہاتھ تھام لیا اور سب لوگ ساتھ ہی چلے ۔ حج

حھر سے بنائی گئی لکیر ہے جو حجر اسود کی سیدھ میں ہے۔ کیوں کہ طواف حجر بھورے پت

اسود سے شروع کیا جاتا ہے اور مطاف )یعنی طواف کے دائرے( میں اس کی سیدھ میں

کے ساتھ شروع‘استلام’کہیں سے بھی طواف شروع کیا جا سکتا ہے اور یہاں سے ہی طواف

اور ختم کیا جاتا ہے، اس کی پہچان کے لئے یہ لکیر بنا دی گئی ہے۔ یہاں سے ہی طواف

بگنے جاتے ہیں۔ استلام حجر اسود کا 7کے سات ) حکر )شوط( ہوتا ہے۔ اگر بوسہ‘سلام’( چ

نصیب ہو تو کیا کہنے! ورنہ دور سے ہی اس کی طرف ہاتھ بڑھا کر ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو

چوم لیا جاتا ہے۔ حجر اسود سینے کی اونچائی تک ہی ہے اور اسی لSاظ سے ہاتھ پھیلانا

آاپ نے بھی آاتا ہے، چاہئے اس کی طرف دیکھ کر۔ اس کا حلقہ تو دور سے بھی نظر

تصویروں میں دیکھا ہی ہوگا۔ چمک دار چاندی کا پان یا دل کی شکل کا حلقہ ہے جس میں

ٹکڑے نصب کر دئے گئے ہیں۔ خیر۔22سیاہ سیمنٹ میں حجر اسود کے شاید

۔4حج کمیٹی والوں نے سات دانوں کی تسبیح دے رکھی تھی، اس پر اپنے شوط گنتے رہے۔

ت طواف کرنے والوں میں3 حٹہ اس و اشواط تک تو ہم سب ساتھ ہی رہے۔ صابرہ کا سبز دوپ

آاخر وہ آاخر آارہا تھا کہ ہم الگ الگ رہتے ہوئے بھی ان کو پہچان سکتے تھے۔ مگر نمایاں نظر

Page 62: اللہ میاں کے مہمان

اگم ہو گئے کہ با^ی لوگ تو ساتھ ہی نہ جانے کہاں بچھڑ گئیں۔ بلکہ کہنا چایئے کہ ہم کہاں

رہے جو ہمیں بعد میں معلوم ہوا۔ یہ البتہ پہلے سے ہی طے تھا کہ کبھی کبھی بچھڑ جانے کی

صورت میں باd السلام کے باہر انتظار کیا جائے۔اس لئے فکر تو نہیں تھی۔ البتہ یہ خیال

ضرور تھا کہ یہ لوگ شاید ہمارے لئے فکرمند ہوں۔ ابھی ارکان بھی ادا کرنے تھے۔

بم ب کعبہ کی ہی طرف مقا dبر اسود کا استلام کر کے طواف مکمل کیا۔با آاخری چکر پر حج

پپ نے وہیں کھڑے ہوابراہیم ہے۔ حضرت ابراہیم آا پکے کھڑے ہونے کی جگہ۔ کہا جاتا ہے کہ

حھرکر کعبے کی تعمیر کی تھی اور ان آاج کل یہ پت کے دونوں پیروں کے نشان مSفوظ ہیں۔

آاپ کو ایک شیشے اور سنہری دھات )ممکن ہے سونا ہو، ہمیں ٹھیک سے معلوم نہیں، کیوں

بہکائیں( کی گنبد نما عمارت )یا انگریزی میں کہئے( میں رکھا ہے۔ یہStructureب

یی۔ تو وہاں نماز ادا کرنی تھی۔ دو رکعت حل ا بص ام بم بی یاہ ابر با بم بقا ام ان بم او اذ بخ حت ب بوال آان کا حکم ہے کہ ^ر

اب الطواف۔ وہ ہم نے پڑھی۔ نظریں مگر سامنے سے ہٹتی نہیں تھیں۔ الفاظ زبان نے ادا کر واج

آارہا تھا۔ کبھی ا^بال ؎ دنیا کے بت کدے میں پہلا یہدئے مگر ذہن میں نہ جانے کیا کیا

گھر خدا کا۔ وغیرہ وغیرہ۔

آاگے3۔10/ اپریل، 3) ح^ف کئے بغیر چلئے ح^ف جاری ہے، مگر تSریر میں تو بجے دو پہر۔ تو

مارچ کے ہی جار ی ہیں(30بڑھیں۔ حالات ابھی

پہلے تین چکروں میں اصطباغ اور رمل کیا جاتا ہے۔ اصطباغ یعنی احرام کی چادر کو دائیں

بغل سے نکال کر بائیں شانے پر ڈالنا اس طر� کہ دایاں کندھا عریاں ہو جائے۔ رمل سے مراد

Page 63: اللہ میاں کے مہمان

ہے کہ پہلوانوں کی طر� مونڈھے ہلا ہلا کر اکڑ کر اور تیز تیز اور بھاری ^دموں سے چلیں۔ یہ

دونوں مردوں کے لئے افضل ہیں مگر صرف پہلے تین شوطوں میں۔ عورتوں کا تو احرام بھی

نہیں ہے یعنی چادروں والا لباس کہ اصطباغ کریں، اور نہ رمل ہے ان کے لئے، بہت سے لوگوں

کو وہاں دیکھا کہ مستقل اصطباغ کئے رہتے ہیں یہاں تک کہ احرام کی حالت میں نماز بھی

پڑھتے ہیں تو دایاں کندھا کھلا رہتا ہے جو کہ غلط ہے۔ ہم نے بھی مغرd کی نماز کی

اا بعد باd السلام سے داخل ہوتے ہی اصطباغ شروع کر دیا تھااور طواف کے جماعت کے فور

حتہ رمل کرنا ممکن نہ ہو سکا۔ اا بعد کاندھا ڈھک لیا کہ بھول نہ جائیں۔ بھیڑ میں الب فور

یوں کتابوں میں طواف کے ہر چکر کی الگ دعا دی گئی ہے مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ یہی

بہ یحل بلل اد ام Sب اال بو بہ یحل اال بن Sی اسب دعائیں پڑھی جائیں۔ استلام کے بعد پہلے یہ کلمہ پڑھنا ہی کافی ہے..

ام با بسل ال بوا Áا با حصل ال با بم۔ اس کے بعد ای بظ بع ال احی ا بل بع ال بہ ا حلی ال ببا حا ب بال Áب حو ا^ با بو ل بل او بح با بو ل ار، بب اک با اہ یحل ال بوا اہ یحل ال با بہ یل با با بو ل

ایم اور پھر درود پڑھ لیں۔ وہ تسبیح بھی پڑھی جا سکتی ہے جو عیدین میں پڑھتے بر بک ال بحی ا بب بن یی بعل

امد Sب ال بہ ا یحل بلل بو ار بب اک با اہ یحل ال با ار بب اک با اہ یحل ال بوا اہ حل ب ال با بہ یل با با ار . ل بب اک با اہ یحل ال با ار بب اک با اہ یحل ال با آاپ کرناـ ـہیں یعنی ورنہ جو دعا

چاہیں، جو بھی پڑھنا چاہیں، سب صSیح ہے۔ اگر اذان ہو رہی ہو تو اس کا جواd دینا افضل

آاپ تیسرے ہے۔ بہر حال یہ دونوں کلمات بیت اللہ کے دو کونوں تک، اس کے بعد جب

بن یمانی‘ کہتے آائیں جسے ’رک ہیں )چوتھا کونا حجر اسود کا ہی ہے( تو اس کونے پرکونے پر

آاپ کو یاد ہی بنا پڑھتے ہیں۔ یہ تو بت یا بنا حب ب بر ارکہہ کر اس کے بعد حجر اسود تک بب اک با اہ یحل ال با ایک بار

حتہ اس کے بعد اس کا اضافہ ہے کہ اار’ہوگی، الب بر اب با اال بع بم بۃ حن ب بج ال بنا ا ال بخ اد اا ـبوا بی از ای بز بع اا بی dاح بر اا بی ار۔ حفا ب بغ

این۔ بم بل اا بع ال ‘ا

Page 64: اللہ میاں کے مہمان

واجب الطواف نماز کے بعد صابرہ کی طرف نظر دوڑائی کہ ساتھ ساتھ ہی طواف شروع کیا

آاس پاس بم ابراہیم کے ت مقا آا ہوئے ہوں گے اور اس و ااساتھ ساتھ ہی اس سے عہدہ بر تھا تو تقریب

ہی کہیں یہ لوگ بھی نماز پڑھ رہے ہوں گے، مگر مایوسی ہوئ۔ خیر۔ اس کے بعد زم زم کی

آا گیا تھا۔ ایک گول دائرے نما دیوار کے اوپر بورڈ لگا تھا آانا تھا جو سامنے ہی نظر بئر’طرف

۔ بس یہی دو زبانیں وہاں تھیں۔ یہ تو پڑھ رکھا تھا کہ‘زم زم کا کنواں’ اردو میں بھی ‘زمزم

اصل کنواں نیچے ہے ۔ اس لئے سوچا کہ یہ پانی کی ٹنکی ہے اور اس کی گول دیوار کے

بمک جگ ) ( رکھے ہیں جن پرThermic jugsساتھ جو ^طار سے کئی بڑے بڑے تھر

حرف بہ زم زم‘سقیاء زم زم’ لکھا لکھا ہے، وہاں سے ہی زم زم پیا جاتا ہو گا۔ ہم اسی طر� مش

ہوئے )حالاں کہ بعد میں معلوم ہوا کہ زم زم کے لیے دوسری طرف سیڑھیوں سے نیچے اتر کر

جاتے ہیں اور زم زم پیا جاتا ہے۔( مگر صابرہ کی پریشانی میں ، مطلب ہمارے بچھڑ جانے کی

حم اھ یحل ال با آاپ کو بھی بتاتے چلیں۔ آا گئی ہے تو فکر میں زم زم پینے کی دعا بھول گئے۔ اd یاد

ااء ۔یعنی اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا بد حل ب اک بمن بء بفا بش بو بعہ بس اا بو ا^ از بر بو اۃ بع بف اا بن ال ام ا ال بع بک ال بئ اس با بی حن با ب

ہوں، نفع دینے والے علم ، وسیع رزق اور ہر بیماری سے شفا کا۔

زم زم کے لئے بھی بمشکل جگہ بنا کر گئے تھے اور اسی اثناء میں عشاء کی اذان ہو گئی اور

حصے میں ہی ^ید ہو گئے تھے۔ اس ہم صف بندی میں حصہ ہی نہ لے سکے۔ زمزم والے ح

اپر ہو چکی تھیں۔نماز شروع ہو آاگے تھیں اور سب طرف عورتوں کی صفیں تھیں، مردوں کی

حصے میں ہی کھڑے گئی اور ہم کو کہیں صف میں جگہ نہیں مل سکی، بلکہ عورتوں کے ح

رہ گئے اور نماز ہی ادا نہ کر سکے۔ سجدہ ہوتا تو ہم دو عورتوں کے درمیان کی جگہ میں

Page 65: اللہ میاں کے مہمان

کھڑے ہو جاتے اور جب وہ کھڑی ہو جاتیں تو زم زم کی دیوار سے لگ کر کھڑے ہو جاتے۔

‘باd الفتح ’آاس پاس نظریں بھی دوڑاتے رہے ۔ ہم جہاں کھڑے تھے وہاں سے کچھ ہی دور پر

حٹہ نظر بن حرم کی سیڑھیوں کے پیچھے اس دالان کی صف میں صابرہ کا ہرا دوپ Sلکھا تھا۔ ص

آاگیا اور یقین ہو گیا کہ مSترمہ وہاں ہیں مگر جیسے ہی عشاء کی نماز ختم ہوئی اور پھر بھی

بزجنازہ بھی، ہم اس طرف جگہ بناتے ہوئے دوڑ کر پہنچے، مگر وہ پھر غائب تھیں۔ بعد میں نما

اا بعد وہ لوگ عشاء کی جماعت کے لئے صف میں بم ابراہیم پر نماز کے فور معلوم ہوا کہ مقا

آاگئے تھے کہ بعد میں جگہ نہیں ملتی ہے اور نماز تک انھوں نے کچھ نہیں کیا۔ زم زم کے

لئے بھی نماز کے بعد گئے۔ وہ لوگ زم زم کے کنوئیں کے اندر بھی گئے اور وہاں نفل نماز

بھی پڑھی اور خوd سیر ہو کر زم زم پیا بھی، اور جسم پر ملا بھی۔ مظہر بھائی کا حج کا

ت گزارا تھا۔ اتنا کہ ہم ان کی تلاش پچھلا تجربہ جو ان کے ساتھ تھا۔ وہاں انھوں نے کافی و

کے بعد اور عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد سعی میں صفا مروہ کے چھہ چکر لگا چکے تھے،

آائے۔ باہر کی تب ان سے ملا^ات ہوئی۔ بہر حال ہم جماعت کی نمازوں کے بعد بمشکل باہر

طرف نماز کے لئے جگہ مل گئی تو ہم نے بے جماعت عشاء کی نماز پڑھی اور صفا کی

آائے، نہ جانے کس طرف سے۔ بچھڑ جانے کی فکر میں ساری کتابی معلومات ذہن سے طرف

نکل گئیں کہ باd الصفا سے داخل ہونا افضل ہے سعی کے لئے۔ ہم پہنچ تو گئے صفا پر مگر

سوچاکہ سعی کرنے سے ^بل ذرا ان لوگوں کو پھر ایک بار دیکھ لیا جائے کہ یہ لوگ بھی سعی

کر رہے ہوں گے )حالاں کہ یہ لوگ کافی بعد میں پہنچے تھے(۔ جس طر� بی بی ہاجرہ پانی

کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑی تھیں، ہم ہماری بی بی ہاجرہ، مطلب بی بی

Page 66: اللہ میاں کے مہمان

( ہے، صفا سے مروہOne way )‘ون وے’صابرہ کی تلاش میں ہی دوڑتے رہے۔ یہ راستہ

آانے والوں کا دوسری طرف۔ ہم نے یہ ترکیب کی کہ آانے والوں کا ایک طرف اور مروہ سے صفا

آاجائیں۔ ڈرتے ڈرتے کہ کہیں پولس چالان نہ کر آاسانی سے نظر حکر لگائے کہ یہ لوگ االٹے چ

دے۔ ہمارے ملک میں تو لوگ پھر بھی رشوت دے کر چھوٹ جاتے ہیں۔ یوں بھی ہم کبھی

رشوت نہیں دیتے ہیں اور پھر اللہ کے گھر میں!! ان دونوں راستوں کے درمیان دو پتلے گلیارے

اور بھی ہیں، وھیل چئرس کے لئے۔ ہم نے ٹریفک کے ^انون کو مSض اس لئے توڑا کہ اس

طر� شاید صابرہ کے دیدار ہو جائیں۔ دو چکر کر بھی لئے اور بی بی صابرہ نہیں ملیں تو ہم

نے پھر با^اعدہ سعی کر نے کا ارادہ کیا اور پھر صفا پر پہنچے کہ اd سیدھے راستے سے

سعی ہی کرلیں۔ ہاں، اس درمیان باd السلام کے دو چکر بھی لگا چکے تھے کہ شاید ہماری

آائی ہوں کہ ہم وہاں بی بی صابرہ ہمارے فراق میں اپنی سعی بھول کر اس سعی میں وہاں چلی

مل جائیں تو ہم پھر ساتھ ہی سعی کر کے عمرہ مکمل کر لیں۔ مگر لگتا ہے کہ مSترمہ ہمیں

بھولی ہی رہیں۔

اس پریشانی میں یہ بھی بھول گئے کہ سعی میں کیا پڑھا جاتا ہے، اور کوئی مخصوص دعا ہے

یحلہ۔ اال بر بئ اا بع بش بمن Áب بو ار بم ال بوا اا بف بحص اال بحن با آایت یاد تھی، اسی کو دہراتے ہوئے چلے۔ یا نہیں۔ بس یہ

یی میں دو سبز ستون ہیں اور دونوں جگہ چھت پر بھی نشانی کے لئے سبز پٹی بنا دی مسع

کہلاتے ہیں اور ان کے‘میلین اخضرین’گئی ہے اور اس پر سبز ہی ٹیوd لائٹیں روشن ہیں۔ یہ

درمیان مردوں کو تیز دوڑنا چاہئے۔ در اصل یہ حصہ نشیب میں تھا اور جہاں بی بی ہاجرہ صفا

یمعیل آاتے تھے توپر حضرت اس آائی تھیں، نشیب کی وجہ سے وہ نظر نہیں دوڑپ کو چھوڑ کر

Page 67: اللہ میاں کے مہمان

کر مروہ پر چڑھتی تھیں، یہی نشیب وہ جگہ ہے جسے میلین اخضرین کہتے ہیں۔ ہم حضرت

حنت پوری کرتے رہے اور جب ہمارے چار چکر ہو گئے تو صابرہ مع دوسرے ہاجرہ کی یہ س

ت سعی کے لئے پہنچے تھے اور جیسا کہ پہلے ہی ساتھیوں کے مل گئیں۔ یہ لوگ اسی و

ت صرف کیا تھا۔ ہم نے پھر ساتھ ہی سعی لکھ چکے ہیں کہ زم زم پر انھوں نے کافی و

شروع کی۔ تب معلوم ہوا کہ اگر چہ اd ان دونوں پہاڑوں، صفا اور مروہ کو ہموار کر دیا گیا ہے

اور یہ اd ایر کنڈیشنڈ سڑک بن گئی ہے، مگر چوٹیوں کی نشانیوں کے طور پر صفا اور مروہ

حھر ننگے )یہ شائد ہماری بول رہی ہے( چھوڑ دئے گئے ہیں،Geologyدونوں پر کچھ پت

وہاں چڑھا جائے تو بہتر ہے۔اور صفا پر کعبۃاللہ کی طرف دیکھ کر ، بلکہ جہاں سے ^بلہ نظر

آائے، وہاں دعا مانگنا چاہئے۔ مروہ پر مSض ^بلہ رو ہو کر۔ ہم نے صSیح ^اعدے سے سعی

نہیں کی تھی، اس لئے ان چار چکروں کو بھی گنتی میں شامل نہیں کیا اور پھر ان لوگوں

چکرہو گئے، دو چکروں13کے ساتھ شروع سے سات چکر مکمل کئے )اس طر� ہمارے

االٹی گنگا بہائی تھی، چار چکروں میں سعی کے صSیح نہ ہونے کا شک تھا، اور سات میں

صSیح طریقے سے کئے(۔

ویسے مروہ پر ہی )کیوں کہ سعی کے سات چکر وہاں ہی پورے ہوتے ہیں، صفا سے مروہ تک

ایک اور مروہ سے صفا تک دو، یعنی ایک طرفہ فاصلہ طے کرنے کو ہی ایک چکر مانا جاتا

آاپ کے بالوں کی ایک لٹ کاٹ لیں )جو حجام مستعدی سے کھڑے تھے کہ ہے( بہت سے ح

کچھ مسلکوں کے لSاظ سے درست ہے(۔ بہت سے لوگ اسی طر� کترواتے بھی ہیں، مگر

یعنی ہیئر کٹنگ سیلون پہنچے ۔ کم از کم چوتھائی سر کے بال‘صالون’ہم سعی کے بعد

Page 68: اللہ میاں کے مہمان

آادھ عمرہ اتروانا افضل ہے۔ ہم نے سوچا کہ پہلی بار مSض بال چھوٹے کروالیں گے، پھر ایک

ااسترا پھروا لیں گے۔ عے پر اور کریں گے تو سر پر مشین پھروالیں گے، اور پھر حج کے مو

صالون میں ہم نے حجام کو یہی بات سمجھانے کی کوشش کی کہ بھائی چوتھائی بال کاٹ

دو مگر وہ اللہ کا بندہ سمجھا نہیں۔ اس نے مشکل سے ڈیڑھ منٹ میں بجلی کی مشین سر

۔ چناں چہ سر سے پاؤں تک اس عمرے کی یادگار ہو‘لائیے تین ریال’پر پھیر دی اور کہا

حصہ ہم حYلیں غائب پائیں، اس کا ^ آائے تو چ گئے۔ پاؤں سے اس طر� کہ جب ہم حرم سے باہر

لکھ ہی چکے ہیں۔ غرض احرام سے فراغت ہو گئی، بال کٹوائے تھے اس لئے سر تو ہم نے

آاکر نہائے(۔ ان سب کاموں میں رات کے وہاں غسل خانے میں ہی دھو لیا )عمارت میں

حتار حبار و س آاکر ہوٹلوں کی طرف گئے۔ مظہر بھائی اور ج ساڑھے دس بج گئے تھے۔ باہر

حلم کی طرف کا لایا صاحبان نے چاول، مرغی کا سالن اور سالم مرغی خریدی۔ ہمارا ارادہ تو مع

ہوا کھانا کھا کر سو جانے کا تھا۔

رہائش گاہ پر پہنچے تو ساڑھے گیارہ بج گئے تھے، نہا دھو کر کھانے کا ارادہ کیا تو ساتھیوں

اا ملے پھل اور نے مدعو کر ہی لیا، چنانچہ ہمارے ساتھ کا کھانا، بنگلور حج کیمپ میں تSفت

ان لوگوں کا لایا کھانا سب مل جل کر کھا کر فارغ ہوئے تو اپنے بستر تک پہنچنے میں

ااٹھنا تھا، ہم کو لیٹنے تک مگر دو بج حجد کے لئے ساڑھے بارہ بج گئے تھے۔ تین بجے پھر تہ

حصہ مگر دوسرا ہے۔ گئے، اس کا ^

د ا ستا ن ہما ر ی کھا نسی کی

Page 69: اللہ میاں کے مہمان

آایا یہ تو ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ ہماری تکلیف کا اd تک ایک ہی علاج ہم کو راس

بولس یا کیYسٹن کے تمباکو کا پاؤچ لیں، تمباکو نکالیں، کیYسٹن ہے کہ اپنے ہاتھ سے

(نکالیں یعنی کاغذ اور تمباکوleaf(سے ایک لیف )leafletسگریٹ پیYر کے لیفلیٹ )

رول کر کے چYکا کر اپنی سگریٹ بنا لیں اور نوش فرمائیں )پھر بھی فائدہ نہ ہو تو ڈاکٹر سے

آادھے پون گھنٹے میں ہم نارمل صلا� لینے کی چنداں ضرورت نہیں(۔ سگریٹ ختم ہونے کے

ہو جاتے ہیں۔ یہ جادو کسی ریڈی میڈ سگریٹ میں نہیں ملتا۔

آاٹھ بجے سے کھانسی اٹھنا شروع ہوئی تھی جب احرام باندھا29 مارچ کی شام ساڑھے سات

تھا۔ علاج کے لئے سوچا کہ سگریٹ بنا کر پی جائے۔ بلکہ پینا شروع بھی کر دی تھی مگر

آاندھرا پردیش اور کرناٹک کے حجاج نے اعتراض شروع کیا کہ احرام کی حالت میں سگریٹ

آاداd کے پینا حرام ہے۔ یہ ہمارے حساd سے غلط بات تھی۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ احرام کے

خلاف ضرور کہی جاسکتی ہے مگر اسے حرام کہنا غلط ہوگا۔ حرام شے ہر حالت میں حرام

رہتی ہے اور کسی کو احرام کی حالت کے لئے مخصوص سمجھنا ہمارے نزدیک صSیح

نہیں۔ یوں گناہ سے پرہیز ضروری سہی مگر سگریٹ نوشی گناہ!! ہمارا خیال ہے کہ یہ

بت گناہ کے حذت نہیں بلکہ لذ حضرات خود بھی سگریٹ پیتے ہوں گے تو سگریٹ کی ل

باعث۔ اس لئے کہ ایک منع کرنے والے صاحب کو خود ہم نے سگریٹ پیتے دیکھا تھا۔ ہم

آائے نے یہ ضرور سوچا کہ بزرگوں اور وہ بھی دینی بھائیوں کو جو حج کے پاکیزہ مقصد سے

ہوں، تکلیف دینا ضرور اس سے کہیں بڑا گناہ ہے، مSض اس وجہ سے ان کی بات مان کر

Page 70: اللہ میاں کے مہمان

آائے۔ جہاز میں اگرچہ سگریٹ نوشی صرف سگریٹ بجھا دی۔ ایر پورٹ تک بھی اسی طر�

جہاز کے چڑھتے اور اترتے ہوئے ممنوع ہوتی ہے، مگر ہمارے بائیں طرف صابرہ تھیں جن کے

^ریب ہم یوں بھی سگریٹ نہیں پیتے، اور بائیں طرف وہی معترض حاجی صاحبان۔ جہاز میں

حدہ ایر حدت میں کمی ہو گئی مگر گلا ویسے ہی خراd رہا۔ یہ تکلیف ج اگرچہ کھانسی کی ش

حدہ ایر پورٹ پر جب سب لوگ بس کی لائن آاخر ج پورٹ پر پھر کھانسی میں تبدیل ہو گئی۔

عہ نکال کر بازار کا جائزہ لینے کے بہانے نکلے اور صبح کے ساڑھے نو میں لگے تو ہم مو

بجے کے بعد، یعنی پورے چودہ گھنٹے بعد10بجے جا کر سگریٹ پی سکے جس سے

آائے ہیں تو تب سے ہی دیکھ رہے ہیں کہ ہماری حالت نارمل ہو سکی۔ لیکن جب ہم حرم میں

اا کم مگر دوسرے ممالک کے لوگ احرام کی حالت میں ہندوستانیوں اور پاکستانیوں میں نسبت

بھی بے جھجھک سگریٹ نوشی کر رہے ہیں۔

حلہ مریض ال

آا کر ایک نئی بیماری ہو گئی ہے۔ یہ تو خیر ایک پرانی بیماری ہی ہے کہ جب کسی بھی یہاں

آا جائیں یا ناک بہنا شروع ہو جائے تو بلغم کی ایسی پیدائش شروع ہو جاتی باعث چھینکیں

شروع ہو جاتی ہے۔ خانۂ کعبہ میں طواف ہی کیا، نماز بھی پڑھتے‘سانسی’ہے کہ کھانسی یا

آانسو ح^ت کا عالم اس طر� طاری ہوتا ہے کہ بر ہیں تو جی چاہتا ہے کہ ^بلے سے نظریں نہ ہٹیں۔

آائے گا، آائے گی، خم بہنے لگتے ہیں، پھر ناک بہنے لگتی ہے اور کھانسی شروع!صراحی

Page 71: اللہ میاں کے مہمان

آائے گا۔ یعنی آانسو، بہے گی ناک، پھر کھانسی شروع ہوگی۔ اd استب جام ؎ بہے

مصرعے پر گرہ لگایئے۔

اگرچہ پڑھا تھا کہ طواف میں زور زور سے کچھ نہ پڑھا جائے، مگر لوگوں کو دیکھا کہ سبھی

ااٹھاتا ہے اور سب دہراتے ہیں۔ آاواز حلاکر پڑھ رہے ہیں، گروپ میں ایک بچ حلا بچ زور زور سے بلکہ

آایا، سب کی نقل ہی کرنے لگے۔ کچھ پہلی شام اور اگلے دو ایک دن ہم کو بھی خیال نہیں

زور سے پڑھنے میں جذبے کی شدت کا بھی احساس ہوتا تھا، کچھ ریلے میں بہنے کی وجہ

بز بلند آاوا اادھر ب آانسو بھی بہتے، بنا’سے بھی۔ ادھر بت یا بنا حب ب بر یحلہ اور بلل اد ام Sب اال بو بہ یحل اال بن Sی اسب کی گردان‘

ہوتی اور کھانستے بھی رہتے۔ کل ہی پھر کتابوں میں دوبارہ پڑھا کہ زیر لب پڑھنا افضل ہے تو

کل مغرd کے بعد ہم دونوں نے طواف کیا )ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر جیسا کہ ساتھ رہنے

ح^ت کم ہوتی ہے اور آارہے ہیں( تو مSسوس کیا کہ دھیرے پڑھنے سے ر پر اگلے دن سے کرتے

اض اللہ ہو آاکر ہم مری حدت بھی کچھ کم ہوتی ہے۔ اس لئے کہنا چاہئے کہ یہاں کھانسی کی ش

گئے ہیں۔

Page 72: اللہ میاں کے مہمان

ب ن یی میں د و د حم القر اا

dتک )یہ ا dبدنوں کی تفصیل شاید ا آاکر لکھ5/اپریل کی شام 3ان دو بجے حرم سے واپس

/کی صبح تک تو یاد ہے کہ صابرہ تو تہجد کے لئے31رہے ہیں( کچھ گڈ مڈ ہو گئی ہے۔

ااٹھتے ہی ضروریات سے3صبح ااٹھ سکے اور بجے ہی حرم چلی گئی تھیں، ہم سوا چھہ بجے

فارغ ہو کر چلے حرم کی طرف۔

صابرہ سے حرم میں ملا^ات تو مشکل ہی تھی۔ اس لئے راستے میں ہم نے تنہا فروٹ کیک کا

ایک ریال کا پیکٹ خریدا اور حرم کے باہر ہی ہوٹلوں سے ایک ریال کی چائے خریدی اورناشتہ

کیا۔ کھانس رہے تھے اس لئے ناشتے کے بعد پہلے سگریٹ پی، پھر حرم کے غسل خانوں

میں وضو کر کے فجر کی ^ضا اور کچھ اور ^ضا نمازیں پڑھیں اور پھر طواف کیا۔ ساڑھے دس

آائے تھے تو صابرہ وغیرہ پھر حرم کے لئے نکلنے بجے تک وہاں ہی رہ کر پھر واپس رہائش گاہ

آا گئی تھیں اور ساتھیوں کے ساتھ ناشتہ کر کے کچھ کو تیار تھیں۔ یہ سات بجے تک واپس

آاتی، بس بدن میں ہمیں نیند نہیں آارام حرام ہے۔ آارام کر چکی تھیں۔ مگر ہمارے لئے تو دیر

آارام ہوتا ہے کہ کوئ رسالہ یا کتاd لے کر بیٹھ جائیں یا لیٹ جائیں یا کچھ لکھتے رہیں۔ یہی

ت لکھ رہے ہیں، اسی آارام کرنے کا ارادہ ہوتا توشاید جو تSریر ہم اس و ت صابرہ کا اگر اس و

ت لکھ چکے ہوتے۔ بہر حال صابرہ نکل ہی رہی تھیں تو ہم پھر ان کے ساتھ ہی دو بارہ و

حرم کی طرف نکل گئے۔ طواف کیا اور پھر ظہر کی نماز کے لئے انتظار میں کچھ ^ضا

Page 73: اللہ میاں کے مہمان

نمازیں پڑھتے رہے، کچھ اللہ کی رحمتیں حاصل کرتے رہے..مSض بیٹھے بیٹھے یا کعبۃ اللہ

کو دیکھتے دیکھتے۔ ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر باہر نکلے اور باہرکی ہوٹلوں میں ہی چیز

( اور کیک خرید کر اور چائے پی کر اس ناشتے کو لنچCheese pastryپیسٹری )

بل حرم۔ عصر کی نماز یہاں پر ہوتی ہے۔ ویسے روزانہ ایک3۔50کا نام دے دیا۔ اور پھر داخ

آاج ات میں، پر( عصر3۔49 پر تو کل 3۔48دو منٹ کا فرق ہوتا رہتا ہے ہر نماز کے شروع او

کے بعد کچھ دیر رہائش گاہ پر لوٹے ، چائے پیتے ہوئے اور پھر شام کو چھہ بجے نکل گئے

/ کی صبح ہی زم زم کا کنواں ہم نے31مغرd کے لئے۔ پھر عشاء تک طواف کیا۔ ہاں،

ع ملا۔ حرم کے صSن میں یہ ایک ٹینک دریافت کر لیا اور وہاں بھی نفل نماز پڑھنے کا مو

نما دائرہ ہے جو صرف ایک طرف سے کھلا ہے، جہاں سے زیر زمین جانے کے لئے سیڑھیاں

اترتی ہیں۔ نیچے کنواں اور پانی کی سYلائی کا انتظام ہے۔ اس کی مشینیں شیشے کی دیوار

بہ زم زم کی جہاں بی بی ہاجرہ نے چشمہ ابلتے دیکھ آاتی ہیں۔ یہی جگہ ہے چا کے پار نظر

یعنی ٹھہر جا، ٹھہرجا۔ اور وہ اس طر� ٹھہر گیا کہ اd لاکھوں کروڑوں‘زم! زم!’کر کہا تھا

لوگوں کی پیاس بجھا رہا ہے اور شفا عطا کر رہا ہے ڈھائی تین ہزار سال سے۔ ایک مکتبہ

ححد ہے یعنی آافس’زمازمۃ المو ۔ مکتب کا یہاں مطلب دفتر ہے، اردو فارسی والا‘زم زم یو نائیٹیڈ

بب عشق بھی نہیں جو ہندوپاک کے مکتبوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ پھر شاعری میں تو ایک مکت

بب عشق ہوتا ہے جہاں مستقبل کے فرہاد درس لیتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ یہاں بھی کوئی مکت

آاپ آاجائے تو ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر راستہ چلتے ہمیں کوئی مکتب عشق الموحدہ کا بورڈ نظر

آا ہی جائے، دیدۂ بینا چاہئے۔ ہاں تو اس مکتب نے حطلاع دیں گے۔ ہو سکتا ہے نظر کو ضرور ا

Page 74: اللہ میاں کے مہمان

اا حرم میں بھی۔ ویسے اس کیCooling Plantکولنگ پلانٹ ) ( لگا رکھا ہے غالب

حدہ کے راستے میں۔ یہاں حرم میں ٹھنڈا پانی فراہم )سYلائی ییSدہ ہے ج باٹلنگ کمYنی تو عل

آاباد میں نہ جانے سYلائی کا ترجمہ آا گئی کہ ہمارے حیدر کے معنوں میں، یہاں یہ بات یاد

آاباد کے سربراہوں کو معلوم نہ ہوں‘سربراہی’ کیوںکیا جاتا ہے جس کے اصل معنی شاید حیدر

گے، یا پھر یہ ہماری ہی کم مائیگی ہے کہ ہم نے یہ لفظ ان معنوں میں پہلے کبھی نہ سنا

آابادی ^ارئین معاف فرمائیں( کیا جاتا ہے بے شمار کولروں کے ذریعے سے۔ حرم کے تھا۔ حیدر

بمک جگس ) طار تھر ( ہیں جن کا ہم پہلے لکھ چکےThermic jugsاندر ^طار اندر

کے نام سے موسوم ہیں۔ مکتب زمازمۃالموحدہ کی طرف سے ہی ہر‘اسقیا زم زم’ہیں کہ

رہائشی عمارت میں پلاسٹک کے بڑے بڑے جری کینوں میں عازمین کے لئے روزانہ صبح زم زم

فراہم کیا جاتا ہے۔

بل سیا ست جا نیں....... وہ ا ہ

آائے ہیں کہ اd مدینے میں رہ کر4 / اپریل، دو پہر ڈھائی بجے )^وسین میں وہی جو لکھتے

حکے کی باتیں کر رہے ہیں، اس لئے اس سطر کو پڑھ کر تاریخ بھی بھول جائیں تو بہتر ہوگا( م

راستوں سے گزرتے ہوئے یہاں کے دو ایک انگریزی اخبار بھی نظر سے گزرے۔ عرd نیوز اور

حدہ میں ایک اردو اخبار بھی دیکھا تھا. اردو نیوز۔ عرd دنیا کا اردو کا پہلا بج بریاض ٹائمس۔

Page 75: اللہ میاں کے مہمان

مارچ کے اخبار میں پہلے یہ خبر ملی کہ ہمارے یہاں متSدہ مSاذ کی31اخبار۔ بہر حال

سرکا رکو کانگریس پارٹی نے تعاون دینا بند کر دیا ہے اور صدر کانگریس اور پارلیمانی لیڈر سیتا

یی پیش کیا ہے۔ اگلے دن کی خبر تھی کہ صدر شنکر رام کیسری نے حکومت بنانے کا دعو

/اپریل کو دیوے گوڑا سرکار کو اپنی اکثریت ثابت کرنے کا حکم دیا ہے7دیال شرما نے

( کا اردو ترجمہ فرش صSیح اور مناسب ہے نا !!(، اfloordپارلیمنٹ کے فرش پر ) فلور

بل سیاست جانیں، لگتا ہے ہمارے نکلنے کا انتظار بن عزیز میں یہ اہ کیا کچھ ہوتا ہے ہمارے وط

آائے اور ہم ہی تھا کیسری جی کو۔ مباداکہیں ہم سے اجازت طلب کرنے کی ضرورت پیش

منع فرما دیں۔

ر و ز کے معمو لا ت

حجد کے لئے حرم شریف گئے تھے، ورنہ ہمارا یحلہ صابرہ کے ساتھ ہی تہ اد لل کل تو ہم بھی الSم

/ کو تو فجر بھی نکل گئی تھی۔ یکم اپریل کو31معمول وہی ہے کہ فجر کے لئے جاتے ہیں۔

/ کو غسل3/ کو حرم کی فجر کی جماعت مل گئی اور 2تہجد کے بعد حرم میں ہی تھے،

آانکھ کھل خانے ہی ڈھونڈھتے رہ گئے۔ یہاں یعنی رہائشی عمارت میں پانی نہیں تھا، اگرچہ

ت نہ گئی تھی ہماری ساڑھے چار بجے ہی۔ مگر ضروریات اور وضو کے لئے حرم جانے کا و

ابل ڈوزر سے زمین ہموار آاج کل ااتار پر )اس ڈھلان پر سڑک بنانے کا پلان ہے، تھا۔ یہاں ہی

بجن’کی جارہی ہے( بد بجنوں کو نماز پڑھائی تھی۔‘مسج آاں حضرت نے ہے۔ وہی جگہ جہاں

Page 76: اللہ میاں کے مہمان

وہاں پہلی بار ہی گئے تھے تو دیکھا کہ غسل خانے یا وضو خانے ندارد ہیں۔ ہم نے لاکھ

آازمائی۔ جن صاحب سے فرانسیسی میں ‘توالہ’عربی، فارسی، اردو، انگریزی اور فرانسیسی

آاتی تھی۔ اان کوفرانسیسی نہیں سبھی کچھ کہتے رہے۔‘بول و براز’ ‘طہارہ’، ‘حوائج’کہا،

آاخر میں ایک صاحب سے پھر انگریزی میں ٹائلیٹ کہا تو انھوں نے انگریزی میں ٹایلیٹ بھی۔

,Oui فرانسیسی میں۔ ہم نے مSض گردن ہلا دی کہ کہیں ‘توالہ ؟’الٹا سوال کیا

monsieurکہہ کر پچھتانا نہ پڑ جائے۔ تب انھوں نے اشارہ کیا کہ مسجد کے پاس ہی

جو کئی منزلہ عمارت ہے۔ اس میں فرسٹ فلور پر کاروں کی پارکنگ سے اوپر ٹائلیٹ ہیں۔

مسجد میں مSض وضو کا انتظام تھا۔ وہاں جب تک ضروریات سے فارغ ہوئے، فجر کی

جماعت ختم ہو چکی تھی۔ چنانچہ مسجد جن میں پھر وضو بھی نہیں کیا اور سیدھے حرم

آا گئے کہ وہاں جا کر ہی وضو کر کے فجر پڑھ لیں گے، انفرادی تو پڑھنی ہی کی طرف ہی

تھی۔

نماز کے بعد وہی معمولات، طواف، ناشتہ، پھر کچھ ^ضا نمازیں۔ دس بجے سے ساڑھے

گیارہ بجے تک اپنی عمارت میں ، پھر ظہر کے لئے حرم۔ اس کے بعد دو پہر کا کھانا جو

آارام۔ پھر عصر، مغرd اور عشاء کے لئے حرم میں ڈھائی تین بجے تک چلتا تھا۔ درمیان میں

آاتے ہیں۔ روزانہ چار پانچ طواف اور ^ضا‘ضرورت’ہی۔ درمیان میں چائے وغیرہ کی کے لئے باہر

نمازیں حرم کا معمول ہے جماعت کی نمازوں کے علاوہ۔ پھر عشاء کے بعد کچھ روٹی سالن

آاتے ہیں رات کے کھانے کے لئے اور اسے ساتھیوں کے ساتھ مل بانٹ کر لیتے ہوئے واپس

کھاتے ہیں۔

Page 77: اللہ میاں کے مہمان

ہم عربی سیکھ رہے ہیں

آاتی ہے عربی میں، واحد ریال اور اربع ریال تو خوd بولتے ہیں۔ ’گنتی تو ہم کو پہلے ہی

ریال‘تلاتہ ’ریال کی جگہ ‘ ثلاثہ ’ کہہ کر ^یمت بھی پوچھ لیتے ہیں اور جواd میں ‘بکیف

کا ایک نقطہ حذف کرنے کی عادت ہے عربوں کی( سن کر بھی سمجھ‘ث’)بولنے میں

لیتے ہیں کہ اس کی ^یمت تین ریال ہے۔ اگرچہ سبھی لوگ اردو بھی سمجھ لیتے ہیں، کم از

آافس کو عربی میں کیا کہتے ہیں، یہ کم دوکان دار۔ مگر کل پھر بھی مشکل ہو گئی۔ پوسٹ

معلوم نہیں تھا۔ ڈاک خانہ، لیٹرس، خطوط، مراسلہ، سب کچھ کہہ کر پوچھنے کی کوشش

کی۔ یہاں ہماری فرانسیسی بھی جواd دے گئی۔ بعد میں ایک اردو بولنے والے دوکان دار

آافس۔ حرم کے ^ریب ہی ایک بڑی عمارت ہے، جس پر سے پتہ چلا کہ کہ کہاں ہے پوسٹ

ا برید‘وزارت البرق والہاتف والبرید’لکھا ہے برق ٹیلیگراف یا ٹیلی گرام کو، ہاتف ٹیلی فون کو اور

آافس کو کہتے ہیں۔ ہاتف تو ہم سیکھ چکے تھے کہ ٹیلی فون بوتھس پر یہی لکھا پوسٹ

بف غیبی کی صدا سنی تو نہیں مگر اس کا ذکر ضرور سن رکھا تھا۔ یہاں دیکھا تھا اور ہات

Fax بھی تھا مگر e-mailسے یہ لوگ لا علم ہیں، نہ جانے کیوں، ورنہ خیال تھا کہ

آافس والے گھر فون کر دیتے تو آافس کے پتے پر ای۔ میل ہی بھیج دیں جہاں سے صابرہ کے

آافس کیوں کہ شہر سے باہر ہے اس کامران، ہمارے بیٹے، جا کر حاصل کر سکتے تھے۔ ہمارا

لئے یہ مشکل تھا اور ہمارے گھر کے کمYیوٹر میں یہ سہولت نہیں ہے کہ انٹر نیٹ )

Page 78: اللہ میاں کے مہمان

Internetآافس میں معلوم ہوا کہ لفافے پر لگانے آاخر خط ہی لکھا۔ پوسٹ (نہیں ہے۔

آافسوں میں ملتے ہیں۔ بڑے ابریدوں’کے لئے ٹکٹ صرف چھوٹے پوسٹ میں لفافہ کاؤنٹر پر‘

اس ^یمت کی مہر لگا کر اپنے پاس‘برید دار’دیجئے، ڈاک خرچ کے پیسے ادا کیجئے اور

رکھ لے گاکہ خط پوسٹ ہو گیا۔ بچوں کو لفافے پر ٹکٹ لگا کر بھیجنے کا ارادہ تھا کہ یہ

ییSدہ ہے۔ مہر لگانے والے کاؤنٹر پر تو لوگ ٹکٹ جمع کر لیں، معلوم ہوا کہ اس کا کاؤنٹر عل

بھیڑ لگی تھی مگر ٹکٹ والے کاؤنٹر کے شیخ ہی غایب تھے۔ شاید اس کا رواج یہاں نہیں

حمی کے لئے سوچا تھا کہ انھیں2ہے۔ بہر حال ریال کے ٹکٹ لگتے ہیں ہندوستان کے لئے۔ ا

ایروگرام لکھ دیں گے، وہ بھی وہاں دستیاd نہیں تھا، ان کے لئے بھی ٹکٹ خرید کر رکھ

لئے مگر سادہ لفافے کی تلاش میں اd تک سر گرداں ہیں کہ سادہ لفافے مل جائیں تو خط

حمی حچے بھی فکر مند ہوں گے اور علی گڑھ میں ا آاباد میں ب لکھ کر پوسٹ کر دیں، حیدر

بھی۔

آابادیوں‘شارع المسجد الSرام’یہ وزارت البرید آافس، بقول حیدر حکے کا بڑا پوسٹ پر وا^ع ہے۔ م

حYہ خانہ’کے ۔ شارع روڈ کا ترجمہ ہے کہ یہ زیادہ نمایاں شاہراہ ہے۔ ہم جس راستے سے‘صدر ٹ

ہے۔ دونوں متوازی سڑکیں ہیں مگر طریق‘طریق المسجد الSرام’حرم جاتے ہیں، اس کا نام

ہیں، ہمارے راستے میں دو‘ ^صر ’کچھ پتلی ہے، اسے سٹریٹ کہئے۔ عمارتوں کے نام اکثر

۔‘صالون’ ہیں اور ہیئر کٹنگ سیلون ‘مطعم ’ ۔ ہوٹلیں ‘^صر شاہین’ اور ‘^صر الرایان’^صر ہیں

بتف ’ بھی لکھتے ہیں اور حتلفون’ٹیلی فون نمبروں کے لئے بھی۔ پھر انھوں نے ایک نیا حرفح ہا

آاوازجرمنیVبھی ایجاد کیا ہے، جو انگریزی کے حرف " " کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس کی

Page 79: اللہ میاں کے مہمان

)‘سیون ’( اور Caravan )‘کاروان’ کی ہوتی ہے، یہاں ‘ ف ’وغیرہ میں ضرور

Seven بولتے ہیں بلکہ لکھتے بھی اس نئے حرف سے‘سفن’ اور ‘کارفن’( کو نہ صرف

ایک مشروd کا‘سون اپ’۔ ‘ڤ’ پر دو مزید نقطے لگا کر لکھا جاتا ہے۔یعنی‘ف’ہیں جو

آاواز‘پ’۔ یہاں ‘سفن اd’نام ہے، اسے لکھتے ہیں اسی نئے حرف سے سے بدل‘d ’ کی

لکھتے ہیں۔ جو‘ صن توd’ ایک اور مشروd ہے، اسے Suntopجاتی ہے۔۔ چنانچہ

کہتے ہیں، ممکن ہے یہ‘توd’لباس یہاں مرد پہنتے ہیں یعنی ٹخنوں تک کا لمبا کرتا، اسے

یعنی انگریزیVice versa کا بگڑا )یا سدھرا ( ہوا روپ ہو۔ یا Topبھی انگریزی

آایا ہو۔ ویسے مSض لباس کے لئے بھی عربی میں یہی لفظ ہے اور نہ صرف یہ میں عربی سے

بھی اسی سے برامد ہوا ہو۔ پےپسی )‘ٹاپ’ ہے بلکہ انگریزی ‘توd’مخصوص لباس

Pepsi ہی پینی‘ بیبسی’ ہے۔ جب بے بسی کا عالم ہو تو ‘ بیبسی’(نام کا مشہور ڈرنک

اور اسے زبر سے‘اجرت’ لکھا ہے ورنہ زیادہ تر ‘تاکسی ’پڑتی ہے۔ ٹیکسیوں پر کہیں کہیں

حمہ‘ـبولا جاتا ہے، ہماری طر� أاجرت عا ااجرت ‘ نہیں۔ کہیں کہیں ’ بھی لکھتے ہیں۔ ’

آاخر ہم ہندوستانی ہیں

/ اپریل، ساڑھے دس بجے رات5

Page 80: اللہ میاں کے مہمان

ہم اس روزنامچے یا سفر نامے میں چار دن لیٹ چل رہے ہیں۔ یکم اپریل کی تفصیل بھی پوری

حورہ نہیں لکھ سکے تھے، کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے تھے نا! اd یہ سطریں مدینہ من

آاج سے آاج دوسرا دن ہے۔ بس یہاں پہنچنے کی داستان سنا دیں، پھر سے لکھ رہے ہیں۔ یہاں

آاپ کو کھلائیں۔ یوں بھی بیت تازہ بہ تازہ لکھا کریں گے انشا ء اللہ۔ باسی روٹی کب تک

ت گزارا جا رہا تھا اور جس طر� شب و روز گزر رہے تھے اور جو مشاہدات ہو اللہ میں جو و

رہے تھے، اd ہفتے بھر بعد وہی معمولات پھر ہوں گے۔ اگر تازہ بہ تازہ لکھتے رہے تو

اے ہماری عادت آائے تھ مشاہدات کا ذکر ہی زیادہ کریں گے جو کہ اd تک ذہن میں لکھتے

آاپ سے کریں اور الفاظ آاتا ہے کہ اس کا ذکر یہی ہے کہ کوئی بات نئی معلوم ہوئی تو خیال

اجملے تک ذہن میں بن جاتے ہیں۔ مگر ہم تو ہندوستانی ٹھہرے، ہمیشہ کے لیٹ لطیف۔ اور

ت پر کہنے والے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ٹرین پورے چوبیس گھنٹے بھی لیٹ ہو تو صSیح و

ت کی ^در کرنے کے لئے مشہور ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ضائع نہ ہو۔ لیکن اا ہم و عادت

بد نبوی ، ت وا^عی ملتا نہیں ہے۔ بیت اللہ ہو یا مسج یہاں کے معمولات ایسے ہیں کہ و

حھی جگہ مل جاتی ہے تو سب کی آاس پاس جب صف میں اچ ت کے نمازوں کے و

حھا نہیں لگتا کہ جھولے سے ہم اپنا یہ رجسٹر نکال کرلکھنا شروع کر دیں۔ موجودگی میں اچ

بم کعبہ میں جو لکھ سکے تو وہ اس باعث حالاں کہ ساتھ ضرور رکھتے ہیں۔ دو ایک دن حر

کہ کافی دور پر دالان میں یا چھت پر تنہائی دیکھ کر بیٹھے تھے۔ مگر وہ جگہیں نماز کے

ااٹھا ات میں عورتوں کے لئے مخصوص ہو جاتی ہیں۔ اس لئے نماز سے گھنٹہ بھر ^بل ہی او

ااٹھ جاتے تھے۔ آابرو خود ہی آابرو، یا با دئے جاتے تھے۔ بے

Page 81: اللہ میاں کے مہمان

بب عامر کے ^یدی شع

حکے میں ہماری رہائش گاہ کے علا^ے کا نام ہے بب عامر’م ، شمال۔1 گلی نمبر شمال۔‘ شع

آاں حضرت2/41 بر ^ریش جو شائد ہم لکھ چکے ہیں۔ ایک زمانے میں آا اور ایمان والوں کو کف

بب ابی طالب میں ^ید کر دیا تھا ایمان لانے کے ’ / اپریل کو ہم اپنی2 میں۔ ‘جرمنے شع

حلم صاحب انعام عبد بب عامر میں مSصور ہو گئے۔ ہوا یوں کہ ہمارے مع رہائش گاہ وا^ع شع

/ کو عصر کی نماز کے بعد مدینے2الہادی میاں جان نے یکم کی شام کو نوٹس لگا دیا کہ

کے لئے روانگی ہوگی اور ہم لوگ تیار رہیں اور کہیں باہر نہ جائیں۔ چنانچہ سامان ٹھیک ٹھاک

کر کے ظہر کی نمازضرور حرم میں پڑھ لی اور پھر کھانا وغیرہ کھا کر ہم لوگ تیار ہو گئے۔

حدے میں ہی پتہ چل گیا تھا4عصر کی نماز بجے رہائش گاہ پر ہی ^صر کر کے پڑھ لی )ج

زیارت المدینہ ^بل’کہ دو چار دن میں ہی مدینے جانا ہے، یہ اندراج پاسYورٹ میں ہی تھا کہ

حطلاع دیتے‘الSج اس لئے تنہا پڑھنے پر نمازوں میں ^صر کرنا تھا( عمارت میں تعینات لڑکے ا

آائے گی، پھر 5رہے کہ بس آائے گی،6 بجے بجے کی خبر ملی۔ پھر یہ کہ مغرd کے بعد

dت ہی مغر آائے گی، ہم نے مسافر ہونے کے ناطے ^صر کر کے مغرd کے و عشاء کے بعد

اور عشاء کی نمازیں ملا کر پڑھ لیں کہ مبادہ عشاء کی نماز سفر میں چھوٹ جائے۔ جو لوگ

وہاں کھانا پکا رہے تھے۔ وہ بھی دو پہر کو کھانے کے بعد ہمارے دفتر کی اصطلا� میں

بند کر چکے تھے۔ چناں چہ رات کا کھاناسب کو باہر سے خرید کر کھانا پڑا۔‘بکچن باکس’

Page 82: اللہ میاں کے مہمان

/اپریل کی صبح معلوم ہوا کہ بس3 بجے تک انتظار کر کے سوئے، 11کھانا کھا کر بھی

آا کر10نہیں مل رہی ہے اور مدینے کے پاس بند ہو گئے ہیں۔ / بجے کے ^ریب حرم سے واپس

آافس بھی گئے، برانچ نمبر ۔ یہاں کے اسسٹنٹ حج7ہم ہمارے علا^ے کے ہندوستانی حج

ح ۔ اصل میں کیرالاکے مسلمان مگر دہلی میں سکونت رکھتے ہیں۔ ان حٹی آافیسر ہیں ابراہیم ک

حکے حلم سے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ م سے معلومات کی گئی اور انھوں نے ہمارے مع

آامدورفت حکومت کی طرف سے بند کر دی گئی ہے اور اd حج کے بعد ہی سے مدینے کی

حم کوشش تو کر رہے ہیں کہ اجازت مل جائے کیوں شاید مدینے جانا ممکن ہو سکے گا۔ معل

کہ وہ پچھلے دن کا وعدہ نہیں نباہ سکے تھے۔ ممکن ہے کہ ان کی کوششوں سے بسوں کا

انتظام ہو جائے اور جانے کی اجازت مل جائے اور شاید عصر تک کچھ طے ہو سکتا ہے۔

حلم صاحب اپنی کوششوں میں کامیاd ہو گئے ہیں اور عصر کے بعد وا^عی معلوم ہو گیا کہ مع

آارام سے عصر، مغرd اور عشاء کی آاجائیں گی۔ چناں چہ پھر عشاء کے بعد بسیں ضرور

آا اا ہم مغرd کے بعد عمارت پر واپس نمازیں حرم میں ہی جماعت سے ادا ہوئیں، مگر احتیاط

مغرd کے بعد بھی حرم میں ہی رہیں اور عشاء پڑھ کر ہی‘ بیغم’گئے۔ ویسے ہماری بیگم یا

آا کر حالات کا جائزہ لے کر پھر عشاء کے لئے گئے۔ یہاں پھر کچھ بات ^طع لوٹیں ہم واپس

کلامی کی ہو جائے۔ عربی میں یہ لوگ بیغم ہی لکھتے اور بولتے ہیں۔ ان مSترمہ کا نام

کاغذات میں ہر جگہ صابرہ اعجاز لکھا ہے مگر ایک جگہ اردو میں صرف صابرہ لکھ دیا گیا

حدہ ایر پرٹ پر جو کاغذات اور کارڈس ہم کو ملے، ان میں اندراج عربی میں ہے۔ چناں چہ ج

بن صفی کے ^اسم صاحب کی ہے اور وہاں ان کو صابرہ بیغم کر دیا گیا ہے۔ اس پر ہم کو اب

Page 83: اللہ میاں کے مہمان

بن صفی کے جاسوسی ناول پڑھے آاپ نے اب آاجاتی ہیں۔ )معلوم نہیں بیوی چYاتی بیغم ضرور یاد

آارتھر کانن ڈائل کا نام بفکشن میں ہیں یا نہیں، مگر ہم کو یہ افسوس ہے کہ جب انگریزی

بن صفی کا کیوں نہیں۔ ان کے ساتھ ہم اردو والے حرd مصنفین میں شامل ہے تو اردو میں اب مق

آائے ہیں(۔ بہر حال ہماری بیگم بے غم ضرور رہتی ہیں مگر نہ ^اسم کے کچھ زیادتی ہی کرتے

حساd سے چYاتی بیغم )^اسم کے ڈیل ڈول کے مقابلے میں( ہیں نہ بیگم ^اسم کی طر� ہمہ

ت شوہر کی طرف سے شک میں مبتلا۔ و

اا ساڑھے گیارہ بجے مدینے کے لئے روانہ ہو سکے۔ تب سے3بہر حال / کی رات کو ہی تقریب

حفر وارثی کا یہ شعر ذہن میں گونجتا رہا ہے اا مظ ؎غالب

آاتی ہے کہ وہ پہنچا ، میں رہا جاتا ہوں جب مدینے کا مسافر کوئی پا جاتا ہوں : حسرت

آاخر ہم پہنچ گئے حدت دو دن رہی اور بب عامر میں مSاصرے کی م ہماری حسرت کی اور شع

مدینے۔

Page 84: اللہ میاں کے مہمان

مد ینے کا مسا فر

حکے سے نکلتے نکلتے بط تفتیش تھے جہاں 12م ‘پاس’ بج گئے تھے کہ راستے میں کئی نقا

حلم نے بھجوا دئے تھے، پاس کیا، با^اعدہ شناختی چیک کیے گئے۔ یہ پاس عصر کے بعد مع

حلم نمبر کے سارے مسافر نیم خوابی کے عالم میں53کارڈ س تھے۔ دو بسوں میں ہم مع

کاغذات دکھاتے رہے۔ پونے چار بجے تک پھر بس متSرک رہی اور پھر ایک پٹرول پمپ

کامYلیکس میں روکی گئی۔ یہ وادئ ستارہ کا علا^ہ تھا۔ یہاں ضروریات اور چائے میں پون

آادھے گھنٹے بعد ہی ت گزارا گیا۔ ساڑھے چار بجے یہاں سے روانہ ہو کر گھنٹہ کے ^ریب و

بم ت ہو چلا تھا۔ مسجد بھی تھی اور کیوں کہ حر پھر ایک اور مقام پر جادہ کیا۔ فجر کا و

ات کا علم تھا، اس لئے ہم سب نے فرض کر لیا کہ اذان ہو چکی ہوگی کعبہ میں نماز کے او

بم حج نے نماز آاخر ہمارے ہی ایک ساتھی عاز آایا۔ مگر وہاں مقامی کوئی شخص نظر نہیں

آاگے چلیں گے۔ تب پھر اذان dپڑھائی اور ہم نماز سے فارغ ہو کر بس میں بیٹھے تھے کہ ا

آائی۔ اس مسجد کے آاواز آائے تھے اور ہم سمجھے کہ یہ راستے‘ریگولر’کی dمؤذن اور امام ا

آاتے ہوں گے۔ مسافروں میں بSث ہوئی کہ اd دوبارہ کی مسجد ہے تو یہاں ہم جیسے لوگ ہی

نماز پڑھنے کا کیا جواز ہے۔ کچھ لوگوں نے یہ سوچ کر بس سے نہ اترنے کا فیصلہ کیا مگر

ہماری نا^ص رائے تھی کہ اگر نماز ہو بھی چکی ہو اور دوبارہ کسی جماعت میں شامل ہونے

ع مل جائے تو دوبارہ پڑھنا بہتر ہے۔ ایک نماز نفل بن جائے گی۔ اس میں ثواd ہی ہے۔ کا مو

Page 85: اللہ میاں کے مہمان

اس لئے ہم دوبارہ بھی فجر کی جماعت میں شامل ہوئے۔ پھر بس میں بیٹھے۔ ڈرائیور صاحب

آانے کے بعد ہی بس چلی۔ بھی نماز میں شامل تھے۔ اس لئے ان کے

مد ینے میں ہما را ا ستقبا ل

حھا خاصا ایک پہر بیت گیا یعنی پونے نوبجے ہماری بس ذو لیجئے صبح ہو گئی۔ صبح کیا، اچ

الSلیفہ کے پاس ہی ہمارے استقبال کے لئے روکی گئی۔ اگر چہ شاہ فہد ہمارے استقبال کے

حلی دے لی کہ یہ سارے انتظامات تو شاہ کے لئے موجود نہیں تھے مگر ہم نے دل کو تس

حکم سے ہی ہوئے ہوں گے۔ ہم ابھی خوش ہو ہی رہے تھے کہ معلوم ہوا کہ ہمارے اتراتے پھرنے

آابرو ہی کیا ہے۔ کہنے کو تو یہ بز استقبال ’سے کچھ حاصل نہیں، ہماری اس شہر میں ‘مرک

آاپ تھا مگر لگتا تھا کہ سب کو باز رکھنے کی کوشش تھی۔ مدینے والے کہتے تھے کہ ہم

کو ہمارے شہر میں گھسنے ہی نہ دیں گے جب تک ہم سے پوری طر� مطمئن نہ ہو جائیں۔

خدایا! یہاں کے انصار کہاں گئے؟

حھا رہا، وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں Cheapالبتہ ایک لSاظ سے یہ استقبال بہت اچ

and bestحکے کے مقابلے میں کہ یعنی کم خرچ بالا نشیں کہہ لیجئے۔ وہاں ہر چیز م

حکہ میں ایک ریال میں تھی، یہاں ایک ریال میں نصف داموں میں دستیاd تھی۔ ہروہ چیز جو م

Page 86: اللہ میاں کے مہمان

بت دو عدد۔ چناں چہ ہم نے ناشتے کا بہت سا سامان لے لیا کہ چاہے سند نہ رہے، مگر و

آائے۔ ضرورت کام

بن مدینہ کی اجازت حاصل کرتے کرتے جب ہمارے ہوٹل پہنچے مدینے میں تو، بج12اہلیا

ت ہو رہا تھا۔ ت ^ریب تھا۔ جمعہ نہ بھی ہوتا تو ظہر کا و گئے تھے اور جمعے کی نماز کا و

چناں چہ سامان رکھتے ہی نہانے کے لئے ^طار میں لگ گئے اور ہوٹل کا ٹھیک سے جائزہ بھی

نہیں لیا اور نہا کر جمعے کے لئے چلے گئے۔

آارام کیا اور یہ روزنامچہ لکھا۔ آا کر سامان ٹھیک ٹھاک کیا اور عصر تک نماز کے بعد واپس

آارام ہے۔ عصر کی نماز پڑھ کر بڑے شوق سے روض ا^دس کی طرف گئے مگر اےۂہمارا یہی

آارزو ...... بسا

....کہ خا ک شد ہ

ببلا تSذیر(٦)اتوار حرر، ح^ف متک /اپریل، ساڑھے نو بجے صبح۔تو

dب ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ عصر کے بعد روضے کی طرف گئے۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ با

جبرئیل سے داخلہ افضل ہے۔ مگر یہ باd بند تھا۔ داخلے کی اجازت نہیں تھی کہ ادھر سے

تھا ۔اس کے دائیں طرف والے دروازے سے داخلExitلوگوں کی واپسی کا انتظام تھا، یہ

Page 87: اللہ میاں کے مہمان

آان پڑھ رہے تھے یا دعائیں اور درود و سلام۔ وہ لوگ کس طر� کئے گئے۔ اندر متعدد لوگ ^ر

ٹریفک’پہنچ کر بیٹھے تھے ، کب سے بیٹھے تھے، یہ بھید اd تک نہ کھل سکا۔ ہم کو تو

آاگے بڑھانا شروع کیا، ادھر لوگ رکنا چاہ رہے تھے چناں چہ‘پولس حکے دے دے کر نے دھ

آاگے بڑھتے ہوئے حکوں کی وجہ سے آاپ کو سنبھالتے اور مSض دھ افراتفری کا عالم تھا۔ اپنے

بd جبرئیل کے باہر کھڑے تھے۔ ہم کو معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ کہاں آایا تو ہم با جب ہوش

آاں حضرت آارام گاہ اس کےکیا تھا۔ ایک جالی والی دیوار بھی دیکھی تھی شاید کی

زیارت بھی کی یا نہیں۔ اور یہ باتپیچھے ہوگی۔ مگر یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے

حکا دے کر زائرین کو گرانے کی کام یاd کوشش کی تو ہم بھی یاد ہے کہ جب پولس نے دھ

آاگئی ہے اگرچہ احترام کے اا ایک بات یاد ان گرنے والے شہ سواروں میں شامل تھے۔ مقابلت

بر ظلمات یعنی ممنوع مقام میں دوڑتا Sحور کو کیا کیجیے کہ ہر ب بش تص خلاف ہے، مگر اس رخ

آاباد یا علی گڑھ )اور بطور خاص علی گڑھ نمائش کی ’ہے۔ ہندوستانی نمائشوں جیسے حیدر

( میں ٹکٹ لے کر تماشہ دکھایا جاتا ہے جیسے لومڑی کے بدن والی لڑکی‘ہائے بیلا کی گلی

ہوتا ہے جہاں‘ہنسی گھر ’جس کا چہرہ انسان کا اور بدن لومڑی کا ہوتا ہے ۔ یا ایک

آاپ کا عکس آائینے میں آائینہ خانے کے کسی آائینے لگے ہوتے ہیں، اس مختلف ^سم کے

آاپ خود پر ہنستے رہتے ہیں، یہ تماشے دیکھتے ہوئے لمبوترا ہو جاتا ہے تو کسی میں چYٹا اور

آاپ ایک طرف سے داخل ہوں اور دوسری طرف سے نکل جائیں، چنانچہ روضۂ ا^دس کے اس

دورے میں بلکہ اس دورے کے بعد ہم اپنے پراسی طر� ہنستے رہے بس اتنا ہوش ضرور رہا کہ

آاگئے اور اپنے کمرے میں۔5کم از کم ہر لمSہ درود پڑھتے رہے زیرلب۔ منٹ میں باہر

Page 88: اللہ میاں کے مہمان

.....سفا رت بھی ہے ^بو ل

بد نبوی لے گئے آاپ کو بھی اپنے ساتھ مدینہ پہنچتے ہی جمعے کی نماز کے لئے مسج ہم

ہیں۔ در اصل اپنی رہائش گاہ کا جائزہ خود ہم نے بعد میں لیا۔ اس لئے یہاں ہی اس کا

ع ہے کہ بارے اس عمارت کا کچھ بیاں ہو جائے۔ صSیح مو

بز سفیر’یہ ہے۔ شاید ہم کو ہندوستان کی سفارت کا شرف بخشا گیا ہے جو ہمیں‘ مرک

حکے کی عمارت سے کئی گنا بہترہے، بلکہ بے468بخوشی ^بول ہے۔ یہ رہایش گاہ یعنی م

آارام دہ ہے۔ اس میں‘دور الثانی’ منزلہ عمارت میں ہم تیسری منزل یعنی سیکنڈ فلور ۔ 7حد

ہے جیسا کہ ہوٹلوں کا ^اعدہ ہے کہ کمروں کے نمبر فلور205ہیں۔ اس لSاظ سے کمرہ نمبر

حکے میں کمرہ نمبر تھا اور وہی دور الثانی۔ یہ مگر بے201نمبر سے شروع کئے جاتے ہیں۔ م

بگ مر مر کی، فرش بھی صاف حد صاف ستھری اور خوd صورت عمارت ہے۔ سیڑھیاں سن

حھر، کہیں موزیک اور کہیں سیرامک کے ٹائلس۔ کمرے میں سبز دبیز ^الین، ستھرا، کہیں پت

اا لوگوں کے سونے کا انتظام۔ اگر چہ6 عدد بستر، یعنی 6 کے کمرے میں 15 ضرd 20تقریب

ساتھ رہنے کی کوشش کرنے والوں کی وجہ سے یہاں دو عدد مزید بستر لگ گئے ہیں اور

حھا6( میں مSض 206مظہر بھائی کے کمرے )نمبر لوگ رہ گئے ہیں۔ ائر کنڈیشنر بھی اچ

کام کر رہا ہے۔ غسل خانے بھی نہ صرف یہ کہ صاف ستھرے ہیں بلکہ ہر منزل پر تین عدد،

( کے جبJaccuzziدو دیسی یعنی ہندوستانی اور ایک مغربی معہ باتھ ٹب یا جاکوزی )

Page 89: اللہ میاں کے مہمان

برج اور کہ ہرمنزل پر چار ہی کمرے ہیں۔ ایک کمرہ کچن کے لئے مخصوص ہے جس میں ف

کولربھی ہے، اگر چہ کولر کام نہیں کر رہا۔ اس کمرے میں بھی واش بیسن ہیں اور غسل

بد نبوی سے کوئی چار سو میٹر دور خانوں اور باہر کاریڈور میں بھی ۔ یہ عمارت حرم یعنی مسج

آائے ہیں۔ یہاں یہ غلط فہمی ہے۔ ہاں، یہ بتا دیں کہ اd تک ہم کعبۃ اللہ کو ہی حرم کہتے

بد نبوی کو بد نبوی کو بھی حرم کہتے ہیں اور کعبے اور مدینے کی مسج دور کر دیں کہ مسج

ملا کر حرمین شریفین کہا جاتا ہے ) جیسے شاہ فہد خود کو خادم الSرمین شریفین کہتے ہیں

بم مدینہ۔ چناں چہ جب ہم مدینے کے ^یام کے دوران حرم لکھیں حکہ اور ایک حر بم م ( ایک حر

بے اور اسی سڑک سے بائیں حکڑ پر ہی یہ عمارت ہ ان بد نبوی مراد لیں ۔ سڑک کے تو ^ارئین مسج

بد نبوی ہے۔ اس سڑک کا نام آاگے سیدھے جانے پر مسج امڑ کر ‘ طریق المطار النازل ’طرف

بہ لکھا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ سڑک یہاں کے مطار یعنی ایر پورٹ جاتی ہو۔ ہماری نگا

حسس یہ بھی تو ڈھونڈھتی رہتی ہے کہ کس سڑک کا کیا نام ہے اور کہیں نہ کہیں یہ تج

حطلاع بھی مل ہی جاتی ہے۔ ا

بر مد ینہ کی پہلی شا م دیا

بد نبوی کے احاطے کے بالکل سامنے ایک نئی عمارت ہے جس کا انگریزی نام کمرشل’مسج

لکھا ہے۔ اس کے‘ مرکز التجارÁ’ اور عربی میں ‘تجارتی مرکز’ ہے۔ اردو میں اسے ‘سینٹر

اا انڈونیشین یا ملیشین ہو گی۔ ہر اہم علاوہ ایک زبان اور بھی ہے رومن رسم الخط میں جو غالب

Page 90: اللہ میاں کے مہمان

حکہ میں کم از کم تین زبانوں میں ضرور ہے۔ انگریزی اور عربی کے بعد سائن بورڈ یہاں یا م

حدہ ایر پورٹ پر اور کہیں دو ایک جگہ اور چھہ چھہ زبانوں میں تیسری زبان اردو ضرور ہے ) ج

حدہ ایر پورٹ پر تو خیر ہندی بورڈ لگے ہیں۔ وہاں یہ دو مزید زبانیں ہیں بنگلہ اور فرانسیسی۔ ج

آافس کےsvaagatam)'‘سواگتم’میں بھی ' ( لکھا ہے اور ہندی ہمیں ہندوستانی حج

آائی(۔ علاوہ کہیں نظر نہیں

یہ تجارتی مرکز ہمہ منزلہ نئی عمارت ہے۔ اس کا ثبوت ہی یہ تھا کہ اس کے دو طرف ) ممکن

آا گئی ہے کہ چاروں طرف ، ہم نے دو ہی سمتیں دیکھی تھیں۔اس پر مشتاق یوسفی کی یاد

آاپ کا کہ انھوں نے ایک صاحب سے ایک مSترمہ کے حسن کی اس طر� تعریف کی ہے کہ

بایاں کان بہت خوd صورت ہے۔ کیوں کہ جہاں وہ بیٹھے تھے وہاں سے انھیں ایک ہی کان

آاتا تھا۔ اس سے ہم نے یہ سبق سیکھا کہ جھوٹ بولنے میں بھی بجک’نظر ( کاlogic)‘لا

اردو میں اور‘تجارتی مرکز اd کھل چکا ہے’دامن نہیں چھوڑنا چاہئے(سائن بورڈ لگے ہیں

Commercial Centre nowاسی کا ترجمہ انگریزی میں کہ '

openedت بھی '.پہلے دن عصر کے بعد ہم کو کھانسی اٹھ رہی تھی۔ ادھر چائے کا و

تھا۔ سوچا کہ پہلے چائے پی جائے پھر سگریٹ۔ سوچا کہ مدینے کے راستے میں نصف ریال

کی طر� شاید یہاں بھی نصف ہی ریال میں چائے مل جائے۔ یہ بھی مرکز تو ہے، استقبال کا

نہ سہی۔ چناں چہ اس مرکز کے اندر چائے کی دوکان ڈھونڈھی۔ ایک چائے خانہ تھا جس کا

آاف دونت’نام انگریزی میں ہی لکھا تھا ۔ یہاں دو ریال کی چائے ملی۔ بہر حال چائے‘ہاؤس

ممنوع نہیں تھی )یہ سائن بورڈ بھی جگہ جگہ تین‘تدغین’پی اور کچھ دور جا کر جہاں

Page 91: اللہ میاں کے مہمان

( وہاں جا کر‘ممنوع التدغین’ اور ‘سگریٹ پینا منع ہے’۔ ‘ نو اسموکنگ’زبانوں میں لگا ہے

بش جان کی۔ پھر مغرd کے لئے حرم میں اور عشاء اپنی طبیعت کا علاج کیا یعنی سگریٹ نو

بر جرم کر لیں۔ ہم پچھلے بء عمری پڑھی۔ اd یہاں اور کچھ ا^را ت گزارا۔ ^ضا تک وہاں ہی و

آاٹھ دس سال سے تو نماز کے پابند ہیں اور روزانہ ہر نماز کے ساتھ روز کی ^ضا نمازیں پڑھتے

رہے ہیں۔ سال میں پانچ چھہ مہینے ضرور اپنے فیلڈ کیمYوں میں نماز پڑھا کرتے تھے ) وہ بھی

یی۔ اس طر� ایک اندازے حل فجر اور عشاء شاذ ہی( مگر ہیڈ کوارٹر کے ^یام میں اللہ اللہ خیر ص

سال کی نمازیں ^ضا ہوئی ہوں گی۔ ادھر حرمین میں ایک نماز کا١٨کے مطابق کم و بیش

ثواd ہزاروں نمازوں کے برابر ہے تو دونوں حرمین میں ہم دن میں کم از کم ہفتے بھر کی ^ضا

بء عمری.. یعنی سات نمازیں فجر کی، پھر سات نمازیں نمازیں ضرور پڑھ رہے ہیں بطور ^ضا

ظہر کی وغیرہ وغیرہ۔ اd یہاں سے حاجی ہو کر جائیں گے تو اس امید سے کہ اللہ ہماری

ساری ^ضائیں ^بول کر لے گا اور با^ی کچھ ہوں گی تو معاف کر دے گا۔ شائد ضرورت سے

زیادہ ہی ادا ہو جائیں گی اس دوران انشاء اللہ۔ حرمین میں کم از کم لیٹ فیس کے ٹکٹ تو

لگ جائیں گے۔

پر ملیں‘ممنو ع ا لتد غین’اd کے ہم بچھڑیں تو

بیت اللہ میں اگر چہ مرد اور عورتیں ایک ساتھ یا ^ریب ^ریب نماز پڑھ سکتے تھے۔ ہم کوشش

آاخر کرتے تھے کہ صابرہ عورتوں کی صف میں سب سے پیچھے اور ہم مردوں کی صف میں

Page 92: اللہ میاں کے مہمان

بد نبوی با^اعدہ مسجد ہے۔ آاسانی سے مل سکیں۔ مگر مسج میں رہیں تاکہ نمازوں کے بعد

ییSدہ ہے بلکہ دروازے بھی الگ ہیں۔ چناں چہ صابرہ یہاں عورتوں کا انتظام نہ صرف بالکل عل

نو’سے ملا^ات مشکل تھی ۔ ہم نے ایک کھمبا نشانی کے لئے مقرر کیا ہے جس پر

کا بورڈ ہے۔ ہم نے صابرہ کو یہی نشانی بتا دی ہے کہ ہم‘ممنوع التدغین’ اور ‘اسموکنگ

آا جائیں تو وہ۔ مگر پہلی ہی رات کو عشاء کے یہاں ان کے منتظر رہا کریں گے۔ یا وہ پہلے

اا منٹ تک ان کا انتظار کیا مگر نہ ملیں تو ہم کو شک ہوا کہ یہ شاید بہت15بعد ہم نے تقریب

حچھا نہیں پہلے ہی کسی وجہ سے نکل گئی ہوں یا شاید ان کو وہاں کھڑے رہ کر انتظار کرنا ا

آا گئے مگر یہ ہوٹل میں ہم سے منٹ بعد پہنچیں۔7۔5لگا ہو۔ بہر حال ہم دھیرے دھیرے ہوٹل

آاتا ہے ، ٹھنڈا اور وہ بھی زم بد نبوی کے کولروں میں بھی زم زم کا ہی پانی معلوم ہوا کہ مسج

زم کا، چناں چہ وہ اپنی واٹر باٹل لے کر بھرنے میں لگی تھیں اور وہاں بھیڑ تھی۔ انھیں کافی

دیر میں پانی حاصل ہو سکا۔ بہر حال ہم نے اd ممنوع التدغین والی جگہ تبدیل کر دی ہے ،

حرر کی ہے وہ عورتوں کے دروازے کے ^ریب ہی ہے۔ کل سے انشا ء اللہ وہاں اوراd جو جگہ مق

ملا^ات ہو سکے گی۔

حا جی مفت خو ر

اف لنا’ ف ہے۔ کم از کم سرکاری طور پر یا کاغذی حد‘خدمت الSجاج شر یہ عربوں کا مو

آا رہے تھے کہ اللہ کے بن خیر کہاں نہیں ہوتے۔ جمعے کے بعد یہ ہم دونوں تک۔ ویسے اہلیا

Page 93: اللہ میاں کے مہمان

آا ایک مقامی بندے نے ہم دونوں کو ایک بڑی روٹی اور ایک مہر بند کپ پیش کیا۔ کمرے

کر دیکھا تو کپ میں بہت نفیس دہی تھی۔ ہم سامنے کے پاکستانی ہوٹل سے جا کر سبزی

کروا لائے اور سیر ہو کر کھانا کھایا۔ کل صبح صابرہ کو فجر کے بعد ایک‘پارسل’کی پلیٹ

اابلے ہوئے انڈے کا پیکٹ اسی لمبا والا بن )بعد میں معلوم ہوا کہ اسے سلومی کہتے ہیں(اور

طر� ملا تھا۔ کل صبح ہم نے ناشتے میں وہی بن اور دہی کھایا۔ اپنی ہندوستانی شکر کے

حدام الSجاج کو جزائے خیر دے ۔ ضرورت نہ ہونے پر ساتھ جو ساتھ لائے تھے۔ خدا ان خ

بھی تSفے کو ٹھکرانا نہیں چاہئے اور سنا ہے کہ منع کرنے پر لوگ ناراض ہوتے ہیں۔

تلاش مکتبۂ نبوی کی

بد نبوی میں مکتبۂ نبوی تلاش کر رہے ہیں۔ ہمارے دفتر کے دوست بشیر کل سے ہم مسج

بن کریم کا ایکBelgiumمSمد شاہ کو بیلجیم ) آا (کے سعودی سفارت خانے سے ^ر

انگریزی ترجمے والا بے حد خوd صورت چھYانسخہ ملا تھا۔ ان سے ہی معلوم ہوا کہ اسے

کہتے ہیں۔ مگر ہمارے بشیر میاں کا نسخہ ان کے غیر مسلم باس ،‘شاہ فہد ایڈیشن’

مطلب ڈائرکٹر نے زندگی بھر کے لئے ^رض لے لیا اور وہ خالی ہاتھ رہ گئے۔ یہ ڈائرکٹر موصوف

برٹائر بھی ہو چکے۔ ہم کو بھی اس نسخے کا دیدار نصیب نہیں ہو سکا تھا۔ان کی فرمایش

تھی کہ کسی بھی طر�، مانگ کر، خرید کر )یا چرا کر بھی( یہ نسخہ ان کے لئے لائیں، اور

آاباد میں ہی اپنے سالے منظور کے پاس بھی چاہے ان کے لئے کچھ نہ لائیں۔ پھر ہم نے حیدر

Page 94: اللہ میاں کے مہمان

کسی حاجی کے ہی دیئے گئے تSفے کے طور پر شاہ فہد اردو ایڈیشن بھی دیکھا تھا، یعنی

معہ ترجمہ و تفسیر۔ یہ نسخے چھYے بھی مکتبہ نبوی کے ہیں۔ مدینے کے بازاروں میں ہم نے

یی۔ اگر خدا نخواستہ اردو یا انگریزی ترجمے حر دیکھا تو شاہ فہد ایڈیشن تو بہت ہیں مگر مع

یی خرید لیں گے مگر پہلے کم از کم مکتبے میں حر آاخر میں یہی مع والا نسخہ نہیں ملا تو

ترجمے والے نسخوں کی دستیابی کی کوشش تو کر لیں۔ اگر اردو اور انگریزی دونوں زبانوں کے

کاپیاں لے لیں گے۔ گھر میں بھی رکھیں گے کم از کم ایک3۔4مل جائیں تو کیا کہنے!

اردو اور ایک انگریزی۔

حدے حبع بہنوئی، یعنی بہنوئی کے بہنوئی، بہنوئی اسکوئیر( اشفاق بھائی نے جو ج صابرہ کے مر

آا میں ہی سکونت رکھتے ہیں) اور مدینے کے لئے روانگی والے دن ہی ہم کو ڈھونڈھتے ہوئے

بد نبوی کر مل گئے تھے( سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ مکتبہ نبوی مدینے میں ہی اور مسج

آان کے نسخے تقسیم ہوتے حررہ دن ^ر کے اندر ہی وا^ع ہے۔ اور ہر ہفتے عازمین حج کو کسی مق

یی مگر معلوم کریں اور کوشش کریں تو انگریزی یا اردو ترجمے والا بھی مل حر ہیں۔ عام طور پر مع

سکتا ہے، خریدنے پر نہیں ملیں گے۔ یہ تقسیم کے لئے ہی چھYوائے جاتے ہیں۔ بازار میں جو

اا بالی الSرم’ملتے بھی ہیں ان پر بیچنے والے ہی فور ف حYا لگا دیتے ہیں۔ یعنی خرید‘ و کا ٹھ

کر گھر لے جانا سرکاری طور پر ممنوع ہے، خریدئے بھی تو حرم میں لے جا کر رکھ دیجئے۔

یہاں مدینے میں پہلے ہی دن عصر یا مغرd کی نماز جہاں ہم نے پڑھی تھی، وہاں ہی

ت تو ہم نہ جا‘مکتبۃالنبوی’ کا سائن بورڈ لگا دیکھا تھااور تیر کا بائیں طرف نشان تھا۔ اس و

سکے۔ یوں بھی نمازوں کے بعد ریلے کے ساتھ بہنا پڑتا ہے اور ریلے کا رخ باہر کی جانب ہوتا

Page 95: اللہ میاں کے مہمان

ہے جب کہ مکتبہ اندر ہی تھا۔ مخالف سمت میں بڑھنا مشکل۔ اس دن کے بعد وہ جگہ ہی

بھول گئے جہاں وہ بورڈ دیکھا تھا۔ کئی بار ادھر ادھر گھومے۔ حرم میں صفائی کرنے والے

حر صغیر کے ہیں اور اردو سے وا^ف۔ ان سے معلومات کی تو ہر شخص نے الگ الگ زیادہ تر ب

م( ،34 ، کسی اور نے بتایا کہ 37خبر دی۔ کسی نے کہا کہ دروازہ نمبر )عربی میں باd ر

کہا۔ مگر ہر دروازے سے یہ سائل9 تو کسی اور اللہ کے بندے نے دروازہ نمبر 18کسی نے

dخالی ہاتھ ہی لوٹا کہ مکتبہ ہنوز دور است۔ ایک جگہ مکتبۂ صوفیہ دیکھا جو بند بھی تھا۔ ا

آاج پھر گزشتہ سے پیوستہ کریں گے۔ انشاء اللہ یہ تلاش ہم

ا سرا ر میا ں ا لو ر ی/ کرا چو ی / مد نی

پرسوں رات سے ہی ایک صاحب جن کا نام اسرارہے، اصرار کر رہے تھے کہ مدینے کی زیارتیں

ریال۔ بس اسی سرائے سے روانہ ہوگی۔ اردو دانی کی10 ۔ 10ان کے ساتھ دیکھیں۔ فی کس

ریال میں ہی ٹیکسیاں10 ۔ 10وجہ سے ہم نے بھی ان کو ترجیح دی ورنہ معلوم ہوا تھا کہ

اا سبھی عرd ہیں، کچھ ہم کو بتا آارام دہ ہوتی ہیں مگر یہ ٹیکسی والے تقریب جاتی ہیں جو زیادہ

نہیں سکیں گے۔ چنانچہ کل صبح سات بجے نکلنے کا طے ہوا۔ انھوں نے دو دن میں اسی

سے رابطہ ^ائم کر کے، بہلا پھسلا کر‘سفیروں’سرائے کے ہماری طر� ہندوستانی پاکستانی

بس بھر کے مسافر تو جمع کر لئے تھے مگران سب کے جمع ہونے تک، یعنی بس میں

آا گئے۔ زیارتوں میں کیا کیا دیکھا، یہ تو12 بج گئے تھے اور ہم 8بیٹھنے تک بجے تک واپس

Page 96: اللہ میاں کے مہمان

ہم بعد میں بتائیں گے، فی الSال اس اسرار پر پردہ ہی رہنے دیں، پہلے ان اسرار میاں کا

ادعا ہو تعارف کرا دیں۔ راستے میں ان سے کافی گفتگو رہی۔ اور کل شام سے تو با^اعدہ سلام

آاج صبح تو انھوں نے ہم کو اپنی نمائندگی کا شرف بخشا ہے ۔ یعنی کہا ہے گئی ہے۔ بلکہ

کہ اور بھی دوسرے ساتھی جانا چاہیں تو ہم ان کا کمرہ نمبر وغیرہ نوٹ کر کے رکھیں اور ان

کو بتا دیں۔

بن مالوف ان صاحب کا راجستھان ملک ہند ہے۔ والد الور کے بہر حال ان سے معلوم ہوا کہ وط

آاباد کے تھے(، مگر اور والدہ اجمیر کی تھیں )اجداد تو ہمارے بھی اجمیر کے ^ریب نصیر

آائے۔ وآازادی اور ملک کی تقسیم کے بعد سال کراچی5۔4الدین ہجرت کر کے کراچی چلے

حھی بول لیتے آائے اور اسرار میاں کی پیدائش مدینے کی ہی ہے۔ اردو اچ میں رہ کر مدینہ چلے

حلامہ ا^بال کو خود حفظ پر راجستھان یا کراچی کی بجائے لاہور کا اثر زیادہ ہے کہ ع ہیں مگر تل

کی طر�‘گ’ کو بھی ‘ق’ اور ‘غ’ بولتے ہیں اور عربوں کی طر� ‘اکبال’علامہ کی طر�

بد گمامہ بد غمامہ پہنچی تو انھوں نے مسج بولتے ہیں۔ جب سب سے پہلے ان کی بس مسج

‘گ’ اور ‘ج’کا اعلان کیا۔ ہم کو پہلے شک ہوا کہ شائد یہ مسجد جمامہ ہو۔ عربوں میں

حفظ کا پھیر بدل ہوتا ہے۔ جمال ناصر کو گمال ناصر کہتے ہیں مگر بعد میں اسرار میں بھی تل

بد غمامہ ہے۔‘غ’میاں نے خود خالص آاواز بمشکل اداکر کے ثابت کیا کہ یہ مسج کی

مد ینے کی زیا رتیں

Page 97: اللہ میاں کے مہمان

بد نبوی کے مغرd میں اور ^ریب ہی ہے۔ اسرار میاں نے بتایا بد غمامہ مسج یہ مسجد یعنی مسج

آاں حضرت یی بھی کہتے ہیں۔ اسکہ حل بد مص یہاں عیدین کی نمازیں پڑھتے تھے۔اسی کو مسج

بز استسقا ر نے یہاں ^Sط کے دور میں نما کے بارے میں دو روایتیں ہیں۔ ایک یہ کہ حضو

ت بادل )غمامہ( چھا گئے اور بارش شروع ہو گئی۔ دوسری یہ کہ ایکپڑھا ئی تھی اور اسی و

آاپ حدت میں اسی جگہ پر بادلوں نے سایہ کیا تھا۔بار دھوپ کی ش

بد ابو بکر بد غمامہ کے پاس ہی تین اور مسجدیں خلفائے راشدین کے نام پر ہیں۔ مسج مسج

حدیق ۔ یہ مSض اس وجہ سے کہ ان بزرگوں نے یہاںص ق اور مسجد علی ، مسجد عمر فارو

کچھ نمازیں ادا کی تھیں۔

بب بلال میں داخل ہوئی۔ اس کے بعد ہماری بس اسرار میاں مدنی )حال( کی رہنمائی میں شع

آابادی حضرت بلال ل بھی ہے۔یہ پوری کے نام سے موسوم ہے اور یہاں ہی مسجد بلا

آاں حضرت بد جمعہ لے گئے۔ اس مسجد میں کے دور اسلام میںپھر اسرار میاں ہم کو مسج

ااس زمانے میں یہ بنو سالم کا ا^با کے راستے میں ہے۔ بد پہلا جمعہ ادا کیا گیا تھا۔ یہ مسج

پ نے اسی مسجد میں پہلی آا پ وہاں گئے ہوئے تھے کہ سورۂ جمعہ نازل ہوئی اور آا علا^ہ تھا۔

جمعے کی ادا کی۔ یہ مسجد زیادہ تر بند رہتی ہے۔ صرف جمعے کے دن کھلتی ہے ا ورنماز

بد ^با سے ت۔ کبھی نماز ہوتی ہے اور کبھی نہیں۔ کیوں کہ یہ مسج کبھی کبھی عصر کے و

ا^با میں ہی نماز پڑھنا بہیر مSض دو ایک فرلانگ پر ہی وا^ع ہے، اس لئے لوگ یہاں کی بجائے

Page 98: اللہ میاں کے مہمان

بفل کا ثواd بھی ایک عمرے ا^با میں دو رکعت ن بد سمجھتے ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ مسج

کے برابر ہے۔

ا^با تک تو اسرار میاں بس روکے بغیر یہ کمنٹری دیتے رہے۔ ^با کے پاس ہی بس پہلی بد مسج

جگہ روکی ۔ ہماری بس کی طر� ہی اور کئی بسیں تھیں، سبھی پیلی شیورلے۔ ہم نے اس بس

م ’کا م کر لیا تھا، اd بھی یاد ہے ‘ ر ۔ مگر اسرار میاں9000741)نمبر (بھی حافظے میں ر

نے پہچان کے لئے اس کے بونٹ پر ایک بڑا جری کین رکھ دیا کہ لوگ اسے دیکھ کر جلد

آاجائیں۔ ہم بھی اترے اور اور دو نفلوں کے علاوہ چار رکعتیں اور بھی ہی صSیح بس میں واپس

پڑھ لیں یعنی دو رکعت فجر کی مزید ^ضا نمازوں کی نیت سے۔

آاں حضرت ^بیلہ بنو عوفیہ مسجد مسلمانوں کی پہلی مسجد کہلاتی ہے۔ ہجرت کے بعد

کے پاس ٹھہرے تھے اور اپنے ہاتھ سے ان کے ہی علا^ے میں اس مسجد کی تعمیر شروع کی

حتفاق سے کل سنیچر کے دن ہی ہمیں تھی۔ یہاں عبادت کے لئے سنیچر کا دن افضل ہے اور ا

بجد سفید ہے۔ بلکہ یہ مسجد ہی کیا، ساریاس مسجد میں عبادت کا م ع ملا۔ پوری مس و

اا باہر سے سفید ہی ہیں۔ اندر سے بھی کافی خوبصورت ہے۔ خوبصورت مسجدیں ہی عموم

حھر۔ یہاں ہم کو منبر کے ^ریب ہی حھر کا فرش، دیواروں پر بھی خوش نما پت پالش کئے ہوئے پت

بد فتح میں بھی۔ ع نصیب ہوا اور بعد میں مسجد ^بلتین اور مسج نماز ادا کرنے کا مو

بد نبوی سے بسیں بھی چلتی ہیں۔ کوئی آانے کے لئے مسج کلو میٹر ہو گی یہ مسجد5یہاں

وہاں سے۔ ایک ایک ریال بس کا کرایہ لگتا ہے، بلکہ معلوم ہوا کہ کہیں بھی جانے کے لئے

Page 99: اللہ میاں کے مہمان

کرایہ کم سے کم اتنا ہی ہے۔ ہم نے کہیں بھی ایک ریال سے کم کی کوئی چیز دیکھی ہی

حکے دیکھنے حکے حاصل کئے تو پہلی بار س نہیں ۔ بعد میں ٹیلی فون کرنے کے لئے بمشکل س

ریال10 مسجدوں کا دیکھنے کا پلان ہو تو ہمارے اسرار میاں کی 10۔12کوملے۔ بہر حال

بن خود کی رہنمائی ہی بہتر ثابت ہوسکتی ہے۔ کی بس معہ اسرار میاں بطور گائڈ بزبا

مسجد ^با سے نکلنے کے بعد تھوڑے ہی فاصلے پر اسرار میاں نے کھجوروں کا ایک باغ

ر نے عجوہ ^سم کی کھجورکےدکھایا کہ یہ باغ حضرت سلمان فارسی کا ہے۔ یہاں ہی حضو

دو پودے لگائے تھے اور اس کی نسل سے یہ کھجور کئی جگہ پھیل گئی۔ یہ کھجور سب

ں کہ ہر مرض کے لئے شفا کا اثربھی رکھتی ہے۔ دوکانوںسے مہنگی بھی ہے اور کہتے ہی

میں ابھی تک پوچھا تو نہیں مگر لوگ بتاتے ہیں کہ سو ریال یعنی ایک ہزار روپئے کلو ہے۔

پھر بس کو لمSہ بھر کے لئے ٹھہراتے ہوئے ایک کنواں بھی دکھایا گیا ۔ یہاں اسرار میاں کے

آاں حضرت بل میت دیا گیا^ول کے مطابق )کہ ہم نے کسی کتاd میں پڑھا تو نہیں( کو غس

بل میت کے بعد یہ کنواں ہی خشک ہو گیا۔ تھا اورغس

آاپ ع پر ادہاd بھی دکھائی۔ غزوۂ خندق کے مو بد کااسی طر� گزرتے ہوئے ایک اور مسج

بن ^ریش سے مورچہ لیا تھا۔ آاپ نے مشرکی خیمہ یہاں نصب تھا اور

بل احد کے دامن میں ایک گول آائے۔ پہاڑ یعنی جب اس کے بعد ہم شہدائے احد کی طرف

دیوار بنائی گئی ہے اور اس احاطے میں ہی شہدائے احد کے مدفن ہیں بشمول حضرت امیر

ان شہداء کو سلام کر کے ہم نے یہاں چائے بھی پی۔ یہاں ایک نبی بوٹی نام کی کے۔ حمزہ

Page 100: اللہ میاں کے مہمان

بم کعبہ میں بھی ہم نے یہ شے دیکھی تھی ان دوکانوں پر جہاں مسواکیں چیز ملتی ہے۔ حر

وغیرہ ملتی ہیں مگر در اصل یہ بوٹی احد پہاڑ کے جنگلوں میں ہی ملتی ہے۔ اس بوٹی کے

بب ’بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ، اس کی مراد بر‘ طلب ہو‘اولاد’ سے ‘انصاف’ جو صاح

آاتی ہے۔

بد ^بلتین کی طرف روانہ ہوئے۔ اس کے راستے میں بئرعثمان ن کااd مسج یعنی حضرت عثما

کنواں بھی اسرار میاں نے دکھایا۔ یہ کنواں پہلے ایک یہودی کا تھا جو اس کا پانی فروخت

ن کو پتہ چ لا تو انھوں نے یہ کنواں ہی خرید لیا اور مفت پانی کی تقسیمکرتا تھا۔حضرت عثما

کا انتظام فرمایا تھا۔

آاپ حرd ^ارئین جانتے ہوں گے کہ اسی مسجد میں تھےمسجد ^بلتین کے بارے میں ہمارے مق

آایت نازل ہوئی تھی۔ ابتدا میں کہ بیت المقدس کی جگہ کعبے کو ^بلہ مقرر کرنے کی

آاپمسلمان بیت المقدس کی کو معراج بھی وہاں سے طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔

d ماہ تک وہی ^بلہ رہا۔ مگر مدینے میں وہ مہاجرین جو3۔2ھی ہی ہوئی تھی۔ ہجرت کے

آاں حضرت حنا یہی تھی^ریش تھے ، ان کا دلی لگاؤ کعبۃاللہ سے تھا۔ خود کی بھی دلی تم

آاپکہ اسی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں۔ یہ علاق یہاں مہمانہ بنو سلمہ کا تھا اور ایک دن

ت ہو گیا۔ بنو سلمہ آاپتھے اور ظہر کا و ظہر کی نماز پڑھانے کی کی اسی مسجد میں

غرض سے بیت المقدس کی طرف ہی رخ کر کے کھڑے ہوئے ، یعنی شمال کی جانب۔ دو

آایت نازل ہوئی..144رکعتیں اسی طر� ادا ہوئی تھیں کہ البقرہ کی لو ہم تمھارا رخ اسی’ ویں

آاپ‘^بلے کی طرف پھیرے دیتے ہیں جسے تم پسند کرتے ہو اا یہ حکم بجا لائے۔ اس اور فور

Page 101: اللہ میاں کے مہمان

آاپ آاخریطر� ظاہر ہے کہ با^ی دو رکعتوں کے کئے آانا پڑا ہوگا اور کو صفوں کے پیچھے

)جس سمتصف پہلی صف بن گئی ہوگی اور سبھی مقتدیوں کو نہ صرف جنوd کی طرف

حکہ ہے مدینے سے( گھومنا پڑا ہوگا بلکہ کافی حرکت بھی کرنی پڑی ہوگی۔ مسجد میں پرانے م

آایت بھی کنداں ہے۔ یہاں نفل نماز ^بلے کی بھی نشان دہی کی گئی ہے اور وہاں دیوار پر وہی

آاگے بڑھے۔ پڑھ کر ہم پھر

آاخری پڑاؤ غزوۂ خندق کے علا^ے کی طرف تھا۔ اسے سبع مساجد بھی کہتے ہیں کہ یہاں

بد فتح ہے جو سب سے اونچائی پر سات مسجدیں ہیں۔ یہاں کی نمایاں ترین مسجد مسج

آاپ ع پر بد احزاd بھی کہتے ہیں۔ غزوۂ خندق کے مو نے یہاں اللہ سےہے۔ اسی کو مسج

آا پ کو فتح کی خوش خبری دی تھی۔ اس مسجد کے جنوd کیدعا فرمائی تھی اور اللہ نے

، مسجدجانب با^ی چھہ مساجد ہیں مسجد سلمان فارسی ر، مسجد عمر ، مسجد ابو بک

ی۔ ابتدا مسجد فاطمہ سے کی جاتی ہے اور ہ اور مسجد ابو سعید خدر ی، مسجد فاطمہ زہر عل

آاخر بددائیں طرف دوسری مساجد میں نفلیں ادا کرتے ہوئی آاتے ہیں۔ مسج بد فتح میں میں مسج

پسی میں نماز پڑھی۔ ساری مسجدوں میں جو نفلیں ہم نے البتہ تھوڑی الگ ہے۔ وہاں واعمر

حیۃ المسجد تھیں۔ Sپڑھیں وہ در اصل ت

slowبس کے سارے ساتھی ہندوستانی پاکستانی تھے اور ہمارے یہاں کی عورتیں بہت

آاپ تو جانتے ہی ہوں گے۔ جہاں اسرار میاں پندرہ منٹ دیتے تھے وہاں عورتیں ہوتی ہیں۔ یہ

آادھا گھنٹہ ضرور لگا دیتی تھیں بس تک پہنچنے میں اور خندق کے علا^ے میں تو گھنٹہ بھر

لگ گیا۔

Page 102: اللہ میاں کے مہمان

ت ^ریب تھا چناں چہ بس نے حرم اور ہمارے )مراد‘سفارت خانے’واپسی ہوئی تو ظہر کا و

آائے ہیں اور پہلے سامان‘مرکز سفیر’ ( کے درمیان اتار دیاکہ جو لوگ زیادہ خریداری کر کے

کمروں پر لے جا کر رکھنا چاہیں تو رکھ دیں اور جو نماز کے لئے سیدھے حرم جانا چاہیں، وہ

وہاں چلے جائیں۔ حالاں کہ ہم نے بھی مسجد ^با کے پاس ایک کلو کھجوریں خریدی تھیں،

آا گئے۔ مگر اور کچھ سامان نہ تھا۔ اس لئے ہم حرم ہی

آائے۔ ظہر کے بعدنشان زدہ جگہ پر صابرہ سے ملا^ات ہو گئی۔ اور ہم اپنی سرائے کی طرف

بب‘سمیر ہوٹل’راستے میں ایک پاکستانی آائے تو صابرہ حس میں کھانا کھایا اور کمرے پر

حچوں کو ع غنیمت جان کر والدہ اور ب بd خرگوش کے مزے لینے لگیں اور ہم مو معمول خوا

آاباد خطوط لکھنے بیٹھ گئے۔ تین بجے ہم پھر اٹھے اور عصر کے بالترتیب علی گڑھ اور حیدر

لئے حرم روانہ ہو گئے۔ صابرہ کا ارادہ عشاء تک وہاں ہی رہنے کا تھا۔

حفہ یا کچھ اور...!! ص

اپریل۔ دو پہر ڈھائی بجے۔6

عصر کی نماز پڑھ کر حالاں کہ پھر کھانسی اٹھنی شروع ہو گئی تھی مگر سوچا کہ پہلے

مکتبے کی تلاش کی جائے۔ تلاش کرتے کرتے روضۂ ا^دس کی طرف گزر ہوا تو وہاں پھر ^طار

Page 103: اللہ میاں کے مہمان

فٹ10۔8میں لگ گئے۔ کل کی ^طار سے اس بار کچھ لمبا دائرہ تھا۔ اس میں ایک جگہ

بگ مرمر کے۔ آادم بڑے ستون تھے، سن ب حد حبع کا ایک چYوترہ سا بنا تھا جس کے چاروں طرف ^ مر

آا کر ساتھ لائی حفہ بیٹھا کرتے تھے؟ واپس بd ص خیال ہوا کہ یہ وہ چبوترہ تو نہیں جہاں اصSا

حفہ کے چYوترے کا سائز بd ص حبع 40ہوئی کتابیں دیکھیں تو اصSا لکھا تھا۔ ہم کو تو فٹ مر

فٹ کی ہوں گی۔ مگر اس کتا8d۔8یہ لگا کہ جو چبوترہ ہم نے دیکھا اس کی چاروں سا^یں

حبع سے ہم یہ سمجھے ہیں کہ سبھی سا^یں 40کے آاپس میں برابر ہوں40 فٹ مر فٹ کی اور

حنف کو حبع فٹ اور 40گی اور مص آاپ کو بھی اتنا40 مر حبع کا فرق معلوم نہ ہوگا۔ فٹ مر

آاتا ہوگا کہ حبع فٹ ہوتا ہے۔ واللہ معلوم ہم40 فٹ کا علا^ہ بھی 8 فٹ ضرd 5حساd تو مر

نے یہ کون سا چبوترہ دیکھا تھا۔

آاں حضرت آا گئی جہاں بر ا^دس کی سنہری جالی والی دیوار نظر حتہ اس بار ہم کو مزا کےالب

آارام فرما ہیں۔ اس بار حضور ر بھی ر اور عم ساتھ ان کے دونوں گہرے دوست حضرات ابو بک

ح^ت ع ملا۔ کچھ دیر ر س کے علاوہ ان بزرگوں کی خدمت میں بھی سلام گزارنے کا مو ا^د

آا گئے۔کے ساتھ دعا حکا دیا تو باہر بھی مانگی۔ جب پولس نے زیادہ دھ

حنت حتہ اس بہانے ج آائی۔ الب آا کر پھر مکتبے کی تلاش شروع کی، مگر مایوسی ہی ہاتھ باہر

البقیع کی زیارت ضرور ہو گئی کسی کی رہنمائی کے بغیر۔ ایک احاطے میں تین حصوں میں

لا تعداد ^بریں ہیں بے نام و نشاں۔ ان سینکڑوں مدفنوں میں کون کون سو رہا ہے، خدا ہی بہتر

جانتا ہے۔ لوگوں کے کہنے کی بات اور ہے۔ نہ جانے کتنے اکابر صSابہ اور صSابیات یہاں

( سا سلام ہی عرض کرنا پڑا۔ ویسےGeneral )‘جنرل’ہوں گی۔ ان سب کو ایک

Page 104: اللہ میاں کے مہمان

ضروری نہیں کہ ان مرحومین میں سارے ہی ایمان والے صSابہ ہوں، کچھ مشرکین بھی ضرور

آاں حضرت آاپ وہاں اکثر جہوں گے۔ بہر حال حنت پوری کی۔ اتے تھے۔ اس طر� ہم نے یہ س

کے زمانے کے مدفون حضرات تو زیادہ تر مشرکین ہی ہوں گے۔ عبرت ضرور حاصل کی ہم

نے۔ یہاں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے اسلامی ^انون کے مطابق۔وہ مSض باہر کی جالی سے

دیدار کر سکتی ہیں۔

آائے۔ چائے اور پھر سگریٹ پی کر اپنا کیا۔ جہاں سگریٹ پی‘علاج’اس کے باہر بازار میں

حغے نما کرتے جو یہاں عرd مرد پہنتے‘توd’رہے تھے وہاں ہی ایک اچ کی دوکان تھی۔ لمبے

آاستین کے تھے، اگرچہ کشیدے15۔15ہیں۔ دوکان دار آادھی آاواز لگا رہا تھا کہ یہ ریال کی

والے تھے۔ سارے سفید اور کریم رنگ کے۔ خریداری تو ہم نے کچھ نہیں کی، گھنٹہ بھر

ت گزاری ضرور کی بلکہ ( یا اورWindow Shopping )‘کھڑکی خریداری’و

۔4، 3۔3 کہ وہاں ہی بازار زیادہ گرم ہوتا ہے۔ ‘فٹ پاتھ شاپنگ’صSیح لفظ استعمال کریں تو

حYلیں مل رہی تھیں۔ 4 حYلیں، مردانہ10۔10 ریال کی ہوائی چ ریال کی سنتھیٹک ہلکی ہلکی چ

بھی اور زنانہ بھی۔ پھر ضروریات سے فراغت کے بعد مغرd اور عشاء مسجد نبوی میں ادا

کیں اور ہر دو نمازوں کے درمیان ^ضائیں پڑھیں۔

تین پا کستا نی

Page 105: اللہ میاں کے مہمان

کل مغرd کے بعد ہماری ملا^ات تیسرے پاکستانی سے ہوئی کہ اس سے پہلے دو اور

پاکستانیوں سے ہو چکی ہے۔ اd ذکر نکلا ہے تو بالترتیب تینوں کا ذکر کرتے چلیں۔

حکے کے ^یام کی پہلی ہی صبح ملا۔ ہم طواف اور ^ضا کے بعد چائے پہلا پاکستانی ہم کو م

پی کر غسل خانوں کی چھت پر )جو با^اعدہ بالکنی ہے اور ضرورت پڑنے پر یہاں بھی صفیں

بن جاتی ہیں۔( سگریٹ پی رہے تھے کہ ایک صاحب نے ہماری سگریٹ کو بیڑی سمجھ کر

آاپ کو بتایا نہیں کہ ہم پاؤچ کی سگریٹ پیتے ہیں کہ یہی ہم سے بیڑی مانگی۔ شاید

سگریٹ ہماری کھانسی دمے کی دوا کا کام کرتی ہے۔ پیکٹ کی ریڈی میڈ سگریٹ سوائے

مزید پیسے خرچ کروانے کے اور کچھ کام نہیں کرتی۔ بہرحال ان بیڑی کے خواست گارکو

آاتا ہے، کاغذ الگ۔ کاغذ میں تمباکو تشریح کرنی پڑی کہ یہ بیڑی نہیں ہے ۔ تمباکو الگ

آائے گا۔ اور یہ سگریٹ آائے گا، تب جام اخم آائے گی، لYیٹ کر سگریٹ بنانی پڑتی ہے صراحی

بنانا ہم جیسے دیدہ وروں کا ہی کام ہے۔ بہر حال ہمارے پاؤچ میں ایک سگریٹ کا ہی

رکھتے ہیں۔ اس میں سے دو ایک دن‘ماسٹر پاؤچ’تمباکو اور تھا۔ ہم یوں کرتے ہیں کہ ایک

کی ضرورت کا تمباکو نکال کر دوسرے پاؤچ میں استعمال کے لئے رکھ لیتے ہیں اور ماسٹر

پاؤچ کو ٹےپ لگا کر سیل کر کے رکھ لیتے ہیں۔ ہمارے پاس تو مہینے بھر سے زیادہ ہی پاؤچ

چل جاتا ہے کہ کھانسی کا اوسط دن میں تین چار بار کا ہے اور اتنی ہی سگریٹیں پی جاتی

دن میں ہی تمباکو سوکھنے لگتا10۔8ہیں۔ پورا پاؤچ ساتھ رکھنے پر ، بلکہ کھلا رکھنے پر

ہے۔ اس سے سگریٹ بنانے میں مشکل ہوتی ہے، وہ الگ ، اورپینے میں الگ کہ تمباکو جھڑنے

حھیOffer )‘آافر’لگتا ہے۔ کسی کو سگریٹ (بھی کرنی ہو تو کاغذ میں تمباکو بھر کر اچ

Page 106: اللہ میاں کے مہمان

بd دہن ادھار نہیں‘رول’طر� کر کے دیتے ہیں کہ بھیا ! تھوک اپنا استعمال کر لو۔ ہم اپنا لعا

دیتے کسی کو۔ بہر حال ذکر تھا ان پاکستانی صاحب کا اور بات کرنے لگے ہمارے پاؤچ

آاپ کو نہیں بتا پائے تھے کہ یہ صاحب پاکستانی تھے۔ کی، بلکہ اd تک تو ہم یہ بھی

آاپ عقل مند ہیں، انٹلکچوئل بھی ہوں گے )ورنہ ہماری یہ کتاd ہی کیوں پڑھ ویسے ماشاء اللہ

رہے ہوتے( سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ جب ہم نے پاکستانیوں سے ملا^ات کا پیش لفظ باندھا

ہے تو یہی پہلے پاکستانی ہوں گے۔ بہر حال ان کو ہم نے سگریٹ بنا کر پیش کی اور گفتگو

آاباد۔ پیشہ مزدوری۔ کبھی ^لی گیری کرتے شروع کی۔ پتہ چلا کہ نام عبدالغفور ۔ وطن فیصل

آانے کا ایک طرفہ کرایہ حکے ہیں کبھی عمارتی مزدوری۔ کسی طر� پیسے پس انداز کر کے م

جمع کر لیا اور پہنچ گئے۔ ایک جھولے میں ضروریات کا سامان رکھتے ہیں۔ رات ہوئی یا جب

حمے۔ ہم سے بن خیرکے ذ آائی، حرم میں ہی جہاں جگہ ملی، سو رہے۔ کھانا پینا اہلیا بھی نیند

م تو دے دی مگر شک ہوا کہ واللہ5بھی ییSدہ۔ ہم نے ر ریال مانگ لئے۔ بیڑی سگریٹ عل

اعلم، ان کی باتیں کہاں تک سچ تھیں۔

اا اسی مقام پر دوسرے پاکستانی ملے۔ یہاں ہم دونوں یعنی ہم اس کے دو تین دن بعد ہی تقریب

چائے پی رہے تھے۔ یہ بزرگ عبدالSمید صاحب تھے۔ موضع چوریاں، ضلع‘بیغم’اور ہماری

آاباد ہے۔ ہم نے اپنا مسکن علی گڑھ ^صور، معلوم ہوا کہ در اصل مہاجر ہیں۔ اصل وطن غازی

بتایا تو بڑے خوش ہوئے کہ ان کا سسرال بھی علی گڑھ کے ^ریب ہی اور اسی ضلعے کا

اترولی نا م کا ^صبہ ہے۔

Page 107: اللہ میاں کے مہمان

تیسرے پاکستانی جو ابھی حال ہی میں مدینے میں ملے ہیں مگر ہم ان کا نام بھول گئے ہیں۔

بت خدا ااد دا بھر حال ان صاحب کو اپنی مملک پر بڑا ناز تھا۔ نوجوان ہی تھے۔ بتایا کہ اصل

آاپ کی تو ہندو حکومت ہے۔ حج میں کاٹھیاواڑ کے ہیں۔ حال مقیم کراچی۔ فرمانے لگے کہ

ہمارا’بڑی مشکل ہوتی ہوگی۔ پاسYورٹ وغیرہ بمشکل ملتا ہوگا۔ سفر بھی بہت مہنگا پڑتا ہوگا۔

اد ‘ ہزار میں حج ہو جا رہا ہے۔75 للہتو الSم

بر مبادلہ آاپ غیر ملکی ز انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں حج کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ

آاپ کے کوئی غیر بر مبادلہ م ادا کریں اور سعودی ریال حاصل کریں، بشرطیکہ یہ ز میں ہی ر

آاپ کو آاپ نہیں، یعنی وہ (کریں۔Sponsor )‘اسYانسر’ملکی رشتے دار ادا کریں، خود

آاپ پاکستانی روپئے ہی دیں۔ ان صاحب نے پہلا طریقہ بت پاکستان کو دوسرے یہ کہ حکوم

ریال6800 ڈالر کا ڈرافٹ بھجوایا تھا جس سے ان کو 1900اپنایا تھا۔ کسی رشتے دار نے

مل گئے تھے، یہ صرف یہاں کے اخراجات کے لئے۔ ساڑھے پندرہ ہزار روپئے )پاکستانی(

ییSدہ ہے۔ان ریال کا حساd بھی انھوں نے بتایا کہ ایک ہزار6800جہازکا دو طرفہ کرایہ عل

حلم کو دئے ہیں، حکہ، مدینہ، عرفات اور500 ریال اس کی فیس اور 500ریال مع حدہ، م ریال ج

آامدورفت کے لئے۔ یی وغیرہ کی ریال ماہانہ ہوٹل کے کمرے کا کرایہ ہے، فی کس1200من

ہزار ریال کرایہ دے رہے ہیں مدینے میں رہائش کے لئے ان کو فی کس6 لوگ مل کر 5یعنی

)سیکولر حکومت کو بھی‘غیر مسلم’ ریال کا حساd پڑا ہے دس دن کا۔ ہم نے ہماری 350

بہر حال غیر مسلم تو کہا ہی جا سکتا ہے( کی حج کمیٹی کی تفصیل بتائی کہ ہمارا جہاز

ہی ہونا3/2 ہزار روپئے ہے، وہ بھی بنگلور سے )کراچی سے تو اور6کا کرایہ دو طرفہ )رعائتی(

Page 108: اللہ میاں کے مہمان

م سے جہاز کے کرائے،58چاہئے فاصلے کے لSاظ سے(۔ ہمارے جمع شدہ ہزار کی ر

حکے مدینے میں رہائش کے انتظامات کے اخراجات میں کل آامد ورفت اور م حعلم، ریال2287م

م، فی کس ریال ہم کو واپس دے دی گئی ہے ہمارے کھانے پینے2316لگے ہیں، با^ی ر

م کا ڈرافٹ ہم کو بنگلور میں ہی دے دیا گیا تھا جو اور دوسر ے اخراجات کے لئے۔ اس ر

حدہ ایرپورٹ پر بھنا لیا ہے۔ ہاں، اس سے پہلے پانچ ہزار روپئے اور بھی رہائش کے لئے ہم نے ج

ہزار میں شامل ہیں( اسے بھی شامل کر لیں تو یہ کل58ایڈوانس کے طور پر ادا کئے تھے)جو

م ہم کو دی گئی ہے وہ ہمارے اختیار میں ہے کہ چاہے2800خرچ ریال کا ہی ہے۔ جو ر

م بچا کر لے جائیں آابادی کے طریقے پر عمل کر کے ساری ر بھوکے رہ کر یا عبدالغفور فیصل

، چاہے دو دن میں اڑا ڈالیں۔ خوd سی شاپنگ کر کے رشتے داروں کو خوش کر دیں یا سب

عوں پر ہم کو اپنے وطن پر ناز کو ناراض کر کے خود ہی خوش ہوتے رہیں۔ بہر حال ایسے مو

ہی ہوتا ہے۔ ایر انڈیا کمYنی ہی سہی، مگر ہے تو نیم سرکاری۔ جہاز کے کرائے کا ہی مقابلہ

کر لیجئے۔ رہائش کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، ممکن ہے کہ ان کی رہایش گاہ

آادمی’( ہو۔ یہ صاحب بقول کسے Poshبہت نفیس ) تھے، خرچ میں ہاتھ‘بزنیس مین

خلاصہ تھا۔ حالاں کہ کاٹھیاواڑی تھے مگر بالکل بنئے نہ تھے۔

پاکستانی ہوٹل

Page 109: اللہ میاں کے مہمان

یہ بات دوسری ہے کہ ہم نے ابھی ہندوستان پاکستان کی جنگ کرا دی ہے، مطلب مقابلہ۔ اور

اس میں ہندوستان کو فتح دلا دی ہے مگر کھانے کے لئے ہم پاکستانی ہوٹل ہی ڈھونڈھتے

بم الطیب بز سفیرکے پاس ہی کے مطع ہیں۔ پرسوں رات کو ، یعنی مدینے کی پہلی رات کو مرک

)اس پر بھی اردو میں پاکستانی ہوٹل کا ہی بورڈ لگا ہے( سے مکسڈ ویجیٹیبل کری کی پلیٹ

حدو۔‘پارسل’ حدو )مراد گول ک کروا کے لے گئے تھے۔ کل دوپہر کو پاکستانی ہوٹل سمیر میں ک

حدو کہتے ہیں(کا سالن اور روٹیاں کھائی تھیں۔ رات آاباد میں لوکی کو بھی ک ویسے ہمارے حیدر

آاتے، اس لئے الطیب کو صابرہ سے ملا^ات نہیں ہو سکی ورنہ راستے میں کہیں کھاتے ہوئے

سے وہی مکسڈ ویجی ٹیبل کری پیک کروا کر لے گئے تھے، روٹیوں کے ساتھ۔ اd ایک بات

آا گئی ہے تو لکھ ہی دیں۔ اور یاد

حکے کے ^یام میں تو ہم خوd مرغیاں کھا رہے تھے، زیادہ تر سینڈ وچ یا برگر ^سم کی م

حکے سے رخصت کرتے ہوئے بتایا کہ مقامی ذبیSہ تو چیزیں۔ مگر اشفاق بھائی نے ہم کو م

صSیح ہوتا ہے مگر دوسرے غیر ممالک سے جو گوشت برامد کیا جاتا ہے، وہ بھروسے کے

ببل نہیں ہے۔ اور یہ کچھ سستا بھی ہوتا ہے اس لئے چھوٹے موٹے ہوٹلوں میں، بطور خاص جو ^ا

چھوٹے چھوٹے کاؤنٹر لگا کر ہوٹلیں سجا لیتے ہیں جہاں برگر اور سینڈوچ ^سم کی اشیاء ملتی

ہیں، ممکن ہے کہ یہ سستا گوشت استعمال کیا جاتا ہو۔ اگرچہ حکومت مطمئن ہے مگر

اشفاق بھائی وغیرہ کو شک ہے۔ اس لئے وہ پرہیز کرتے ہیں۔ ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ جہاں

ساری دنیا کے مسلمانوں کی نظریں لگی ہوں، وہاں یہ غیر شرعی حرکت ممکن تو نہیں مگر

Page 110: اللہ میاں کے مہمان

ہماری صابرہ بیغم کا کہنا ہے کہ اگر ہم لوگ بھی احتیاط کریں تو کیا حرج ہے! مدینے سے

روانگی والی شام کو یہ گفتگو ہوئی تھی اس لئے مدینے میں ہم سبزی خور ہو گئے ہیں۔

آاپ ہوٹل میں ہی کھانا کھائیں تو روٹیاں ان پاکستانی ہوٹلوں میں یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اگر

لے‘پارسل’مفت میں ملتی ہیں، مگر کچھ حد ضرور ہے ان کی تعداد کی۔ پیک کروا کر

حکے مدینے میں تو گوشت مرغی سب جگہ ریال کی٦۔٦جائیں تو روٹیاں خریدنی پڑتی ہیں۔ م

٣ ریال کا ہے۔ سبزی چار ریال اور دال ٨پلیٹ ہے، شوربے والے سالن کی۔ گرلڈ اور روسٹ

ریال کی۔

پاکستانی ہوٹلوں کے بارے میں ایک بات اور لکھ دیں۔ ان میں سے کچھ ہوٹل ہندوستانیوں کے

‘غریب نواز’ یا ‘بسم اللہ’بھی ہیں۔ مگر کیوں کہ جیسے ہندوستانی ہوٹلوں میں اگر ہوٹل کا نام

آاگے مسلم ہوٹل لکھا ہو تو ہمارے مومن بھائی بلا یا پہلا نام کچھ بھی ہو، اگر اس کے

جھجھک جا کر گوشت کھا لیتے ہیں کہ ضرور حلال ہوگا۔ غیر ممالک میں ہندوستانی ہوٹل

ہے اور گوشت مرغی کے سالنوں کے لئے پاکستانی ہوٹل ہی مشہور ہیں‘کری’سے مراد صرف

کا بورڈ لگا دیتے ہیں۔‘پاکستانی ہوٹل’چناں چہ یہاں کے ہندوستانی بھی ہوٹل کھولتے ہیں تو

حکے اور مدینے میں بنگلہ‘ہندوستانی پاکستانی ہوٹل ’ایک جگہ ہم نے بھی لکھا دیکھا۔ م

دیشی ہوٹل بھی ہیں جن پر بنگالی میں بورڈ لگاتے ہیں جو ہم پڑھ سکتے ہیں اور بول سکتے

حتہ الگ ہی ہے۔ وہاں تو ہی ملے گا۔‘ماچھ بھات’ہیں۔ مگر وہ کلچر تو الب

Page 111: اللہ میاں کے مہمان

کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر ساڑھے دس بجے رات تک ہم یہ ڈائری یا سفر نامہ لکھتے رہے۔

حچوں کے نام خطوط لکھ دئے ہیں آانے لگی تو سوا گیارہ بجے سو گئے۔ صابرہ نے بھی ب نیند

اور ہم نے لفافے بند کر کے پوسٹ کرنے کے لئے رکھ لئے ہیں۔

ت پر ہیں اd ہم و

بد نبوی کے صSن میں عمارت کی جنوبی دیوار سے لگ ت ہم مسج اتوار کا دن ہے اور اس و

ت ہو رہا ہے بجے شام۔ صبح سے ہی اd تک کی6۔20کر بیٹھے یہ سطریں لکھ رہے ہیں۔ و

آاج دن بھر اسی نیک کام میں مصروف رہے ہیں۔ صبح ناشتے کے بعد تفصیل با^ی ہے کہ ہم

فے کے علاوہ( ہم نے ،‘مدینے کی زیارتیں’ سے ‘...کہ خاک شدہ’سے ظہر تک )کچھ و

پھر ظہر اور دوپہر کھانے کے بعد ڈھائی بجے سے عصر کے لئے نکلنے)ساڑھے تین بجے(

آاگے بڑھایا ہے عصر کے بعد پونے چھہ بجے سے تک اسے ہندوستان پاکستان کے مقابلے تک

ت گھومنے پھرنے میں برباد کرنے کے علاوہ( اسی نشست میں پاکستانی )درمیان میں کچھ و

ت ^ریب ہے ۔ اس لئے صف باندھ کر بز مغرd کا و ہوٹلوں کا احوال لکھا ہے۔ اd کیوں کہ نما

ت پر ہیں۔ بیٹھ جاتے ہیں۔ با^ی انشاء اللہ رات کو لکھیں گے۔ یہی کیا کم ہے کہ اd ہم و

کھانسی اور بازار

Page 112: اللہ میاں کے مہمان

بجے رات(١١)وہی دن۔

حٹی ہوتی ہے۔ ہندوستان یوں تو اتوار کا دن ہمارے لئے خاصی اہمیت رکھتا ہے کہ اس دن چھ

میں اور دوسرے ممالک میں )مسلم ممالک کو چھوڑ کر، جہاں یہ فضیلت جمعے کو حاصل

ہے( بہت سی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ ہمارے لئے تو اکثر سنیچر اور اتوار ) کہ ہمارے دفتر میں

حٹیاں کہنے میں شرم حاں ہوتی ہیں( کو اتنے کام جمع ہو جاتے ہیں کہ ان کو چھ دونوں دن چھٹی

آاتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ دفتر نہیں جاتے۔ مگر سنیچر کو بازار کے مختلف کام ہوتے ہیں

آافس جانے والے دنوں اور اتوار کو گھر کے کہ اس دن بازار بند ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ

ح کے دن کا کوئی بھروسہ نہیں۔ وہاں بھی حرر ہیں مگر چھٹی ات مق میں ہماری کھانسی کے او

آاج رہا ہے۔ ح کے دن طبیعت زیادہ ہی خراd رہتی ہے، یہی حال مدینے میں بھی ہمارا چھٹی

ممکن ہے کہ کچھ دخل اس میں مدینے کے ٹھنڈے موسم کا بھی رہا ہو، صبح سے مستقل

ہماری ناک بہہ رہی ہے اور مستقل کھانسی بھی اٹھ رہی ہے۔ سگریٹ پینے سے بھی ایک ڈیڑھ

آارام ملتا ہے یعنی کھانسی کم ہو جاتی ہے یا ہم بالکل نارمل ہو جاتے ہیں، اور پھر گھنٹے کا

آاپ کہیں گے کہ آاپ‘کھانسی اور بازار’شروع ہو جاتی ہے۔ کا عنوان چہ معنی دارد؟ یہ تو

آاپ بھول رہے ہوں تو...(‘تدغین’کو شروع میں ہی بتا چکے ہیں کہ )یعنی اسموکنگ، اگر

’تدفین‘ تک پہنچ جاتی ہوگی مگر ہماری طرفہ طبیعت میںـسے دوسروں کی نوبت بھلے ہی

بد نبوی میں ’ممنوع التدغین‘ کے نشان سے دور جا کر بھی سگریٹ افا^ہ ہی ہوتا ہے۔ مسج

سے منع کرتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ کہاں تک اس کی حد بندی ہے۔پیتے ہیں تو لوگ اشارے

Page 113: اللہ میاں کے مہمان

بد نبوی کے مغرd میں ہی ایک بازار ہے۔ یہ دریافت سگریٹ پینے کے آاج معلوم ہوا کہ مسج

حکر میں ہم کو اس لئے جگہ کی تلاش کے دوران ہوئی۔ وہاں گھوم پھر کر سگریٹ پینے کے چ

آائڈیا ) حچھا ( ہو گیا ہے کہ انجان لوگوں کی رہنمائی کر سکتےIdeaعلا^ے کی شاپنگ کا ا

یی آاج کی مصروفیت کا ذکر اور کر دیں۔ دعو ہیں۔ اس بازار کا ذکر بعد میں کریں گے، پہلے

آاج ہی آاج کا حال ت ہو گئے ہیں یا ہونے جارہے ہیں کہ بد و تو کر رہے تھے کہ ہم اd پابن

آاگئی ہے‘لکھنے کی آاپ کو شب بخیر‘نوبت مگر مSض کھانسی اور سیربازار کا ذکر کر کے

آاج صبح حلہ بل اد آاثار ہیں۔ اس لئے بس اتنا اور لکھ دیں کہ الSم آانے کے کہنے جا رہے ہیں۔ نیند

حجد کے لئے مسجد روانہ آانکھ کھل گئی تھی اور ہم دونوں میاں بیوی جب تہ سوا تین بجے

ہوئے تو اذان بھی نہیں ہوئی تھی )حرمین میں تہجد کی اذان ضرور پابندی سے ہوتی ہے مگر

حجد اور پھر کچھ ^ضا نمازیں پڑھیں۔ با جماعت نماز نہیں( راستے میں اذان ہوئی۔ہم نے تہ

اا 5۔40 منٹ بعد ہی نماز۔ ساڑھے پانچ بجے ہی ہم6۔5 پر فجر کی اذان ہوئی اور اس کے فور

آاپ کو یاد ہے نا کہ یہاں ہمارا ^یام آاگئے ) بز سفیر’گھر، یا ہمارے سفارت خانے واپس میں‘مرک

ہے( ۔ صابرہ وہاں ہی رک گئیں۔ دراصل روضۂ مبارک میں داخلے کے لئے مردوں اور عورتوں

ات مقرر ہیں کہ وہ صبح حرر ہیں۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ صرف عورتوں کے او ات مق 7کے او

بجے اور پھر دوپہر دو بجے سے تین بجے تک زیارت کر سکتی ہیں، با^ی سارے9بجے سے

آاکر تنہا ہی ناشتہ کیا۔ بریڈ ات مردوں کے لئے ہی مخصوص ہیں۔ چناں چہ ہم نے واپس او

وغیرہ کی نوعیت کی جو چیزیں رکھی تھیں، وہ کھائیں اور چائے کے لئے باہر نکلے۔ پچھلی

رات کو دو خطوط پوسٹ کرنے کے لئے تیار رکھے تھے، وہ بھی ساتھ لئے۔ سامنے کے مطعم

Page 114: اللہ میاں کے مہمان

الطیب میں چائے پی اور وہاں ہی ہوٹل والے پاکستانی صاحب سے پوچھا کہ بھائی لیٹر باکس

کہاں ہے، کس طرف ہے اور کدھر ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ بھی صنم کی کمر کی طر� ہی ہے۔

آافس( جانا پڑے گا جو بب برید )پوسٹ گلی کوچوں میں لیٹر باکس یہاں نہیں ہیں۔ وہی مکت

مسجد نبوی کے ^ریب ہی ہے۔ یہاں لگتا ہے کہ لوگ خطوط لکھتے ہی نہیں، مSض فون کر

دیتے ہیں۔

بجے6۔10/ اپریل، صبح 7پیر،

ادھوری بات کو اd مکمل کر یں۔ جب مکتب البرید کی ضرورت ہوئی تو ہم نے ^یاس کیا کہ

وہیں ہوگا جہاں سے ہم نے پچھلے دن سادہ لفافے لئے تھے، پھر بھی ان پاکستانی ہوٹل والے

آاخر ہم عربی بولنے لگے ہیں، جو ہماری شد بد والی سے پوچھا کہ اور کوئی مکتب البرید؟ )

دسویں زبان ہے اللہ کے فضل سے(۔ چائے تو ہم نے پی لی تھی کہ کھانسی کا علاج بھی

کرنا تھا )چائے کے بعد سگریٹ اور زود اثر ہوتی ہے( جو بازار میں گھومتے پھرتے اور جلدی

حھی ہوتی ہے۔ مگر سوچا کہ پہلے ضروری کام سے فارغ ہو لیا جائے یعنی خطوط پوسٹ کر اچ

دئے جائیں اور اسی تلاش میں بازار گھومتے رہے اور اس کام سے فارغ ہو کربھی سگریٹ پیتے

آانکھوں سے کیا کیا دیکھیں اور جب ہوئے گشت جاری رہا۔ اور حیران رہ گئے کہ ان دو

خریدیں تو کیا کیا خریدیں؟ بقیع کا بھی ایک چکر لگایا اور مکتبے کی تلاش بھی جاری

ہے، وہاں معلوم19 یا 18 کے پاس دروازہ نمبر ‘باd العثمان’رہی۔ ایک صاحب نے پتہ دیا کہ

Page 115: اللہ میاں کے مہمان

کریں۔ مسجد نبوی کے چاروں طرف گھوم کر باd عثمان دیکھتے رہے مگر نہیں ملا۔ ممکن

ہے کہ یہ تعمیر جدید سے ^بل کا ہو جو اd موجودہ باہری دروازوں کے اندر چلا گیا ہے۔ بہر

آاگئے اور پھر یہی ڈائری10حال مکتبہ نبوی کی تلاش بے سود رہی۔ بجے کے ^ریب واپس

حجب اور خوشی دونوں لکھتے رہے بازار کے بارے میں اتنا ضرور لکھ دیں کہ اس بات پر تع

ہوئیں کہ صبح صبح ہی یہاں بازار لگ جاتا ہے اور فجر سے ہی دوکانیں کھل جاتی ہیں اور

بجے کے بعد11فٹ پاتھ کا بازار بھی۔ ممکن ہے کہ یہ مSض حج کے دوران ہوتا ہو۔ پھر

بد نبوی۔ پھر حرم گئے یعنی مسج

مکتبہ نبو ی د و ر نیست

ظہر کے لئے اگرچہ دیر ہو گئی تھی پھر بھی اندر مسجد میں نہ صرف جگہ مل گئی بلکہ

حلی دور ہو آایا۔ خوشی ہوئی کہ د جہاں جگہ ملی، وہاں ہی سامنے مکتبۂ نبوی کا سائن بورڈ نظر

تو ہو ، اور یہاں سے تو ہے بھی، مکتبۂ نبوی دور نہیں۔ سائن بورڈ پر بائیں طرف کے تیر کے

بر ممنوعہ بھی ہے۔ یہ عورتوں نشان کی طرف نظریں دوڑائیں تو دیکھا کہ تھوڑی دور پر ہی شج

حصے کی دیوار تھی جسے انگریزی میں پارٹیشن ) ( کہتے ہیں۔ اس دیوارPartitionکے ح

حفان بھی لکھا تھا۔ ثابت ہو گیا کہ یہ آایا جس پر باd عثمان بن ع کے ساتھ ہی ایک دروازہ نظر

م 34اندرونی دروازہ ہی ہے۔ باہر تو وہی ، مگر یہ دیکھ چکے تھے کہ34 تا 1 دروازے ہیں۔ ر

کہ ان مSراd دار بڑے دروازوں پر جو نمبر پڑے ہیں وہی نمبر دو بڑے دروازوں کے درمیان کے

Page 116: اللہ میاں کے مہمان

چھوٹے دروازوں کے بھی ہیں۔ بہر حال ظہر کے بعد صابرہ سے ملنا تھا اور ساتھ کھانے3۔4

آاگئے۔ وف کر دیا اور نماز کے بعد سیدھے باہر کے لئے جانا تھا اس لئے مکتبے کا ارادہ مو

آاگے بڑھے۔ روزانہ سڑک کے داہنی طرف چلتے ہیں کہ حررہ جگہ پر مSترمہ مل گئیں اور ہم مق

یہاں ٹریفک کا اصول دائیں طرف کا ہی ہے، مگر سڑک کی اس سمت کی ہوٹلوں کا

آاگئے۔ دو ہوٹلوں میں‘سروے’ آاج سڑک پار کر کے دوسری طرف کر چکے تھے چناں چہ

داخل بھی ہوئے جہاں پاکستانی ہوٹل کا بورڈ لگا تھا، مگر دونوں میں جگہ نہ تھی۔ اور ایک

بنگلہ دیشی پاکستانی’ اور بنگلہ میں ‘پاکستانی بنگلہ دیشی ہوٹل ’جگہ دیکھا تو اردو میں

لکھا تھا۔ اس میں جگہ مل گئی۔ یہ در اصل بنگلہ دیشی ہوٹل ہی تھی۔ ہر طرف بنگلہ‘ہوٹل

آاخر ہم لسان الملک وا^ع ہوئے ہیں، شروع ہو گئے بنگالی میں۔ اردو ہندی اور بولی جارہی تھی۔

اا۔ بنگلہ کا نمبر چوتھا ہے ہماری مہارت کے لSاظ انگریزی تو ہماری مادری زبانیں ہیں تقریب

حنڑ آانے والی زبانوں میں پنجابی، گجراتی تیلگو اور ک سے۔ اس کے بعد کچھ کچھ سمجھ میں

آابائی زبان ہے اور پھر عربی۔ دس زبانیں تو یہ ہو گئیں۔ ہندوستانی زبانیں ہیں، فارسی ہماری

لیجئے، ہم فرانسیسی تو بھولے جا رہے ہیں۔ یہ تو ہم نے بی۔ ایس سی۔ میں با ^اعدہ ایک سال

کے کورس میں پڑھی تھی۔ پھر بھی اہلیت کے حساd سے بنگالی کے بعد فارسی کا ہی نمبر

اا ایک ہی سطح کا ہے، یعنی سطSی۔ آاتا ہے۔ با^ی سب زبانوں کا علم تقریب

جے بنگلہ دیش

Page 117: اللہ میاں کے مہمان

بنگلہ دیشی ہوٹل سے بات ہماری ہمہ دانی یا ہمہ زبانی کی چھڑ گئی اور ہم رعب بگھارنے

حتہ کی بنگلہ اور یہ لوگ تھے بنگلہ دیشی۔ ان لگے۔ بہرحال ہم سیکھے ہوئے تھے ہمارے کلک

آارہے تھے۔ در اصل ہماری بنگالی کا لہجہ اور لفظیات ہماری سمجھ میں پوری طر� نہیں

یعنی ہندوستانی یا مغرنی بنگال کی بنگالی ہی فصیح سمجھی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش میں پانی

بب معمول‘جول’کو پانی ہی کہتے ہیں )سبزی( منگوائی۔‘شوبجی’ نہیں۔ بہر حال ہم نے حس

آارام اا ایک پلیٹ میں ہم دونوں آالو بینگن کی تھی اور مقدار میں بہت کم تھی۔ عموم یہ سبزی

)دال( بھی منگوانا پڑی۔ چنے کی دال تھی اور روٹیاں تو‘ڈال’سے کھا لیتے ہیں۔ مگر یہاں

آایا کہ یہاں کبھی کبھی مچھلی بھی کھائی جا ساتھ میں مفت تھیں ہی۔ ہوٹل دیکھ کر خیال

سکتی ہے، بکری اور مرغ سے تو ہم احتیاط برت رہے ہیں۔

آاگئے۔ بلکہ صابرہ کو تو ہم نے سفارت خانے کے باہر ہی چھوڑا اور کھانا کھا کر کمرے واپس

آاکر ڈیڑھ بجے سے... خود کھانسی کے علاج کے لئے باہر ہی رہ گئے۔ اس کے بعد کمرے

ت پر ہیں’مگر ہم یہ دوبارہ کیوں لکھیں۔ سرسری طور پر دیکھ لیجئے۔ تھوڑی دیر یہ‘اd ہم و

سفر نامہ لکھ کر عصر کے لئے حرم چلے گئے اور نماز کے بعد مکتبہ نبوی گئے۔

مکتبے میں نیچے دارالمطالعہ تھا مگر صرف عربی کی کتابیں تھیں۔ وہاں ہی لائبریرین نما

آایا وہ اردو انگریزی سمجھتے ہیں، انھوں نے ایک دوسرے صاحب کی صاحب سے پوچھا کہ

آان معہ ترجمہ اور تفسیر چاہئے طرف اشارہ کیا۔ ان سے ہم نے ما فی الضمیر بیان کیاکہ ہم کو ^ر

دو تین اردو اور انگریزی نسخے۔ انھوں نے اردو میں جواd دیا کہ ترجمے والے نسخے تو شاید

حرر ہیں ات مق آان تقسیم ہوتے ہیں جس کے او تا10ختم ہو چکے ہیں اور بغیر ترجمے کے ہی ^ر

Page 118: اللہ میاں کے مہمان

۔ اور جو ہوں بھی تو میں وہاں ہی پڑھنا پسند کروں گا یا ساتھ لے جانا؟ ہم نے سوچا کہ12

پہلے انگلی تو پکڑی جائے۔ اس لئے کہہ دیا کہ ساتھ لے جانا پسند کروں گا ۔انھوں نے ایک

اور عرd صاحب کو بلوایا اور عربی میں کچھ ہدایت دی۔ یہ صاحب ہاتھ پکڑ کر تیسری منزل

پر لے گئے۔ جہاں کچھ مطبوعات مفت تقسیم کے لئے رکھی تھیں۔ اور یہ صاحب واپس

آان کے نسخے تو کچھ نہیں تھے، کچھ کتابچے تھے حج کے چلے گئے۔ مگر وہاں ^ر

طریقوں پر۔ اردو اور انگریزی کا ایک ایک لے لیاپھر جو صاحب وہاں تھے ان سے گفتگو کی

آان کے کئی نسخے حرکات کے طور پر ^ر تو ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ ہو گیا ۔ بہرحال وہاں تب

حطاطی کے خوبصورت بط کوفی کے، اور خ رکھے تھے بطور نمائش۔ مصSف عثمانی کے، خ

نمونے بھی۔

حتہ کچھ کمYیوٹر آائے تو وہ اردو داں صاحب بھی غائب! دوسری منزل پر الب پھر نیچے واپس

آایا کہ وہاں لوگ انگریزی سمجھتے ہوں گے۔ معلوم ہوا کہ یہ کمYیوٹر رکھے دیکھے تھے۔ خیال

( ڈیسک ٹاپ پر نظرWindows'95 )95‘بونڈوز’بھی عربی سمجھنے والے تھے۔ عربی

‘شیخ’آارہی تھی۔ بہر ایک صاحب انگریزی داں نکلے۔ انھوں نے کہا کہ اگلے دن ان کے

بجے کے درمیان ہی ملتے ہیں۔2 سے 8سے ملوں جو

پھر مغرd تک یہ روزنامچہ لکھا اور مغرd اور عشاء کے درمیان کھانسی کے علاج کے لئے

بازار گئے۔

Page 119: اللہ میاں کے مہمان

ریال2۔2ہر ما ل

ریال کا ملتا ہے۔ یہ دوکانیں ہم کو پسند2۔2اس بازار میں کئی دوکانیں ہیں جن میں ہر مال

آائیں۔ پوچھئے کیوں؟ ارے صاحب، اتنے عربی داں تو ہم نہیں ہو گئے کہ دوکان دار بولے کہ

ریال میں سودا چکائیں۔ سودے یہاں ایسے ہی12 ریال سے شروع کر کے 8پندرہ ریال اور ہم

اچکا کر۔ عربی کی طویل گفگتو میں یہ معلوم نہیں ہوتا ہندوستان کی طر� ہی ہوتے ہیں مول

حوزہ ^یمت پر راضی ہے یا نہیں اور اسے بھی یہ کہ ہم کواس کی یہ آایا دوکان دار ہماری مج کہ

آاواز لگا رہی تھی ، ^یمت ^بول ہے یا نہیں۔ ایک اسکارف کی دوکان پر عورت عشرہ ریال کی

ریال۔ اس نے کچھ گفتگو کی اور پھر خود ہی6 ریال کہا پھر 5 ریال۔ صابرہ نے 10یعنی

ریال ہم کو8 ریال دے کر سوچ رہے تھے کہ 20شاید دو اسکارف باندھ کر دینے لگی۔ ہم

آاخر صابرہ اسکارف25 ریال اور مانگ رہی تھی، یعنی کل 5واپس ملیں گے، مگر وہ ریال۔

ریال مانگ رہی تھی۔25واپس رکھنے لگیں تو پتہ چلا کہ یہ تین اسکارف تھے جس کے وہ

ریال ہی واپس4 نہیں تو 5ہم نے لاکھ کہا کہ ہم کو تین نہیں چاہئیں دو ہی رہنے دو اور بہن

کر دو۔ مگر اس اللہ کی بندی نے دو اسکارف واپس رکھ لئے اور ایک ہی ہمیں زبردستی پکڑا

آاواز لگانے والی10دیا اور پھر اا لینا پڑا۔ یہ تو پھر عشرہ ریال کی ریال واپس کر دئے۔ مجبور

آاپ کو وہ شے مل6 ریال بولیں اور 20تھی، دوسری دوکانوں پر تو ممکن ہے کہ ریال میں

جائے۔ اس وجہ سے ہم سودا چکانے والی بات سے ڈرنے لگے ہیں اور اس لSاظ سے ایسی

ریال والی2۔2دوکانیں بہتر ہیں جہاں مال کی ایک ہی ^یمت ہے۔ اسی سبب ہم کو یہ

Page 120: اللہ میاں کے مہمان

آائیں۔ کچھ ریال کے سامان کی بھی ہیں۔ سب اشیاء10۔10 اور کچھ5أا5دوکانیں پسند

سامنے سجی ہیں۔ دوکان میں گھومئے پھرئیے، کچھ لینا ہو تو اٹھا لیجئے، نہیں تو ایسے ہی

آایئے۔ لیا ہو تو باہر کے دروازے کے پاس دوکاندار کھڑا ہوگا، اسے اشیاء گنوا دیجئے واپس نکل

م ادا کر دیجئے اا۔ ان دوکانوں پر گھڑیاں تک تھیں،2اور ر اا و سہل کا پہاڑہ پڑھ کر۔مرحبا، اہل

ریال والی دوکانوں میں15۔10( تو Digital ریال والی دوکانوں پر معمولی ڈیجیٹل )2۔2

کوارٹز گھڑیاں بھی۔ سبھی چینی۔

حررہ جگہ پر۔ مظہر بھائی کی بیوی اور ایک اور صاحبہ ان عشاء پڑھ کر صابرہ کا انتظار کیا مق

آائیں۔ پھر ہم دونوں آائی تھیں مگر بچھڑ گئی تھیں، صابرہ ان کو تلاش کرتی ہوئی کے ساتھ ہی

ان عورتوں کو ادھر ادھر دیکھتے رہے۔ دراصل ان خواتین کے بارے میں شک تھا کہ کہیں

حبار صاحبان، سبھی نے اپنی اپنی بیویوں کو صابرہ حتار اور ج بھٹک نہ جائیں۔ مظہر بھائی، س

حمید ہے کہ یہ عورتیں ہر لSاظ سے مSفوظ رہیں کی نگرانی میں دے رکھا ہے کہ اس طر� ا

آاخر مایوس لوٹے اور اس پریشانی کی وجہ سے کھانے9۔20گی۔ تک ان کی تلاش کر کے

آائے اور ان کے کمرے میں گئے تو ساری کے لئے راستے میں رکے بھی نہیں، سیدھے سرائے

اا بعد آارام سے کھانا کھانے میں مشغول تھے۔ معلم ہوا کہ نماز کے فور بیویاں اور ان کے شوہران

آاگئی تھیں۔ جب یہ فکر ہی مظہر بھائی خود ان کو مل گئے اور ان کے ساتھ ہی یہ لوگ واپس

دور ہوئی تو پیٹ کی فکر ہوئی۔ صابرہ کہنے لگیں کہ کچھ پیٹ میں درد مSسوس ہو رہا ہے

اس لئے پھر باہر کھانا کھانے نہیں گئے۔ سامنے ہی مطعم الطیب سے صابرہ کے لئے ایک

آالو، مٹر، گاجراور فرنچ‘مکسڈ ویجیٹیبل کری’ریال کی دہی کا پیکنگ اور اپنے لئے وہی یعنی

Page 121: اللہ میاں کے مہمان

بینس کا شوربہ معہ روٹیوں کے۔ ساڑھے دس بجے تک کھانے سے فارغ ہو کر کچھ لوگوں سے

آاج پیر کو صبح12باتیں کیں، کچھ دیر یہ ڈائری لکھی اور بجے کے ^ریب سوئے ہیں تو

آانکھ کھلی ہے۔ فجر کی جماعت تو نہیں مل سکی ہے مگر ساڑھے پانچ بجے کے بعد ہی

آائے ہیں تو پچھلے سوا گھنٹے سے بدنبوی ہی گئے تھے اور پھر نماز پڑھ کر نماز کے لئے مسج

آاپ سے بھی۔صابرہ اd تک مسجد سے نہیں آاپ سے ہی یہ گفتگو ہو رہی ہے۔ بلکہ اپنے

حجد کے لئے گئی تھیں۔ ساڑھے سات بج رہے ہیں، اd ناشتہ کریں گے3لوٹی ہیں، بجے تہ

ت کی ایسی آاگئے ہیں۔ خدا ہم کو و ت پر بد نبوی جائیں گے۔ دیکھئے اd ہم و اور پھر مسج

ہی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

بد نبوی کے با رے میں کچھ مسج

بجے رات10۔10/ اپریل۔ 77

آاپ کو ملواتے ہیں، ہم یوں بھی ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ کبھی پاکستانیوں سے

حکہ کی سیر کراتے ہیں تو کبھی مدینے کے بم م کبھی مکتبہ نبوی کے شیخ سے۔ کبھی حر

ت پر نہیں رہ پاتے۔ حکر میں بھی ہمارا روزنامچہ رہ جاتا ہے اور ہم و بازاروں کی۔ اور اکثر اس چ

بدنبوی آاج صبح ساڑھے سات بجے سے اd تک کے حالات لکھنے سے پہلے کچھ مسج dا

آائے۔ بت ضرورت کام کی تفصیل لکھ دیں تاکہ سند رہے اور بو

Page 122: اللہ میاں کے مہمان

جنوd کی طرف سے ہم جس راستے سے داخل ہوتے ہیں ، وہی خاص دروازہ ہے۔ یہاں درمیان

میں دو بڑے دروازے ہیں اور ان کے درمیان چار عدد چھوٹے دروازے بھی۔ دائیں طرف اور

بائیں طرف بھی بڑے چھوٹے دروازے ہیں مگر یہ دروازے عورتوں کے لئے مخصوص ہیں۔ یہ

ییSدہ کر دیا گیا حصہ باہری صSن میں سنہری جالی دار دیوار یا اسکرین سے عل مخصوص ح

حصے میں سفید پلائی ووڈ کا پارٹیشن ہے جس کا ہم ہے۔ مگر مسجد کے اندر عورتوں کے ح

ذکر کر چکے ہیں۔ سامنے کے حصے میں نیلے سفید گنبد ہیں۔ سارے میناروں پر بھی سفید

اور خاکستری )گرے( رنگ سے کندہ کاری کی گئی ہے۔ہماری ارضیات کے حساd سے یہ

حصے کو باہر سے پار کر کے حھر گرینائٹ۔ عورتوں کے ح بگ مر مر ہے اور گرے پت حھر سن سفید پت

حکہ آائیے تو اسی طر� کئی دروازے ہیں۔ ^بلہ شمال کی جانب ہے کہ مدینہ م مغرd کی طرف

کے جنوd میں وا^ع ہے۔ اس لئے اس طرف بڑے دروازے نہیں ہیں۔ مگر اس کے ہی مغربی

گوشے میں روضۂ مبارک ہے جو کہ کچھ سامنے کی طرف نکلا ہوا ہے تاکہ کسی کا سجدہ

حصے میں تین دروازے ہیں۔ اس جانب نہ ہو کہ شرک کا دروازہ کھل جائے۔ اس نکلے ہوئے ح

حت البقیع کی طرف ہے( اور ایک اور دروازہ جس کا نام بd بقیع )کہ یہ دروازہ جن بd جبرئیل، با با

عدد۔41ہم ابھی بھول رہے ہیں۔ مغرd کی طرف بھی چھوٹے دروازے ہیں۔ کل ملا کر یہاں

م م 1ان پر باd ر تک نمبر دئے گئے ہیں۔41 سے باd ر

حصے کو چھوڑ کر وہی رنگ ہیں۔ گرے اور سفید اور سنہری مینا کاری اندر بھی روضے کے ح

بح زمین سے فٹ کی اونچائی تک سفید سنگ مرمر ۔ سنہری جالی15۔12ستونوں پر۔ سط

حصے میں چھت کے ^ریب اور کہیں کہیں کے ہی لیمپ شیڈس ہیں۔ ستونوں کے اوپری ح

Page 123: اللہ میاں کے مہمان

لکھے ہوئے شیشے کا خول ہے۔ بیچ بیچ میں دائرے کی شکل‘اللہ’نیچے بھی۔ روشنیوں پر

حصہ کے فانوس ہیں، یعنی کئی فانوس دائرے کی شکل کی لڑی کے روپ میں۔ باہری ح

بدنبوی کی تازہ ترین شاہ فہد کی تعمیر ی توسیع ہے۔ اس کے بعد پچھلی توسیع کی حد مسج

حصے بd عثمان کے ^ریب ہی کچھ ح بd عثمان وغیرہ۔ با پر پھر اندرونی دروازے ہیں جیسے با

کو خالی چھوڑ دیا گیا ہے، یعنی یہاں چھت نہیں ہے اور دن میں دھوپ ہونے پر یہاں ایک

حدے کا چھاتا چھتری تان دی جاتی ہے۔ یہ بڑا خوd صورت سفید اور نیلے کسی سنتھیٹک ما

ہے جسے ضرورت پڑنے پر کھولا جا سکتا ہے اور رات کو بند کر دیا جاتا ہے۔ ہم تو اسے

آاج شام کو ہی مظہر بھائی نے بتایا ۔ اd کل پھر غور سے چھت ہی سمجھے تھے، بعد میں

دیکھیں گے انشاء اللہ۔

راستوں کو چھوڑ کر سارے فرش پر سرخ ^الین بچھے ہیں۔ دونوں کناروں پر وہی بیت اللہ کی

بمک جگ رکھے ہیں اور بیچ بیچ میں سنہری کام والے‘اسقیا زم زم’طر� کے بڑے بڑے تھر

آایا ہے تو ذرا موضوع بدلیں۔Shelvesشیلفوں ) آان مجید کا ذکر آان مجید۔ اd ^ر ( میں ^ر

مکتبے کی تلاش بے سود رہی

10 بجے ہم مکتبے کی طرف پھر گئے، جن صاحب نے ہم سے کہا تھا کہ 10آاج صبح

آان تقسیم ہوتے ہیں اور جو واحد شخص انگریزی سمجھتے تھے، وہ12بجے سے بجے تک ^ر

Page 124: اللہ میاں کے مہمان

ت ڈیوٹی ہوتی ہے۔ بہر حال مدیر صاحب آاج نہیں ملے۔ معلوم ہوا کہ ان کی عصر کے و

)شیخ( سے ملے تو وہ صرف عربی داں ہی نکلے۔ انھوں نے کسی ہندوستانی یا پاکستانی ملازم

کو بلا کر ہمارا مقصد دریافت کیا، جو ہم نے پھر بیان کیا۔ یہ تو شاید ہم لکھ ہی چکے ہیں

کہ شاہ فہد ایڈیشن جو ہے وہ شاہ فہد نے چھYوایا ہے مفت تقسیم کے لئے ہی کہ ہر نسخے

ف المساجد۔ اگر ہم کو یاNot for Saleپر انگریزی میں بھی لکھا ہے۔ مSض و

بم مکہ میں بھی کسی کو کسی مسجد میں رکھنے کے لئے چاہئے تو شاید مل سکتا تھا۔ حر

تقسیم ہوتے تھے، پتہ چلا کہ رمضان تک ہوئے تھے، پھر بند کر دئے گئے اور اd شاید حج

کے بعد پھر شروع ہوگی ان کی تقسیم۔ کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ یہ بازار میں اپنی ضرورت کے

لئے بھی دستیاd نہیں ہیں۔ ہمارے دوست بشیر کو بیلجئم کے سفارت خانے سے وہ نسخہ

ملا تھا جو اd ان کے پاس نہیں رہا تھا۔ بہرحال ان مدیر صاحب نے کچھ دوسری کتابیں

دے کر بہلا دیا۔ یہ انگریزی کے کتابچے تھے، عربی کتابوں کے ترجمے۔ ان کی فہرست بھی

آاپ کو بتا ہی دیں۔ عے سے خارج تو نہیں ہے اس لئے حمہ’دینا مو اا تالیف‘الکروس المھمۃالعامۃال

The Importantعبدالعزیز عبداللہ بن باز، اس کا انگریزی میں نام دیا گیا ہے '

Lessons for Muslim Ummah ہے dدیث’ ' دوسری کتاSآان وال ‘والقر

The Quran andتالیف ڈاکٹر موریس بوکالی۔ انگریزی میں اس کا نام ہے '

Modern Science ہے dعن الاسلام’' ۔ تیسری کتا Áمود‘رسالہ موجزSتالیف م

دلیل’' لکھا گیا ہے۔ ایک اور کتاd ہے Islam in Briefمراد جسے انگریزی میں '

حج والمعمر ,A Guide to Hajj جس کا انگریزی ترجمہ بہت مختلف ہے یعنی '‘الSا

Page 125: اللہ میاں کے مہمان

Umrah and Visiting the Prophet's Mosqueاس'

آان کی بھی ڈھونڈھ کر نکال دو اردو آادھ کاپی ^ر ہندوستانی کارکن سے لاکھ کہا کہ بھیا ایک

نمبر گیٹ پر18یا انگریزی ترجمے والی مگر اس اللہ کے بندے نے ڈھونڈھ کر نہ دی کہ

نمبر کے دروازے والے دفتر پر گئے مگر وہاں کے شیخ صاحب بھی18پوچھو۔ ہم پھر

انگریزی داں نہ تھے۔ ایک اور کارکن ہندوستانی یا پاکستانی تھے، انھوں نے بتایا کہ ترجمے

حرہ بچے ہیں جو رمضان تک تقسیم ہوئے والے تو پچھلے سال ہی ختم ہو چکے تھے ، صرف مع

اا تقسیم کئے تھے اور اd حج کے بعد پھر ہوں گے۔ پچھلے سالوں میں ایرپورٹ پر بھی تSفت

حمید رکھنے میں گئے تھے، اگر اس سال بھی ہو سکا تو تقسیم کئے جائیں گے۔ اd ہم کو یہ ا

خطرہ ہی مSسوس ہوتا ہے کہ اگر تب نہ ملے تو پھر کہاں سے حاصل کر سکیں گے؟ پریس

کا پتہ اور فون نمبر بھی نہ مل سکا جہاں کچھ معلومات کی جا سکے۔ ایک صاحب نے بتایا

ریال میں ٹیکسی والا پریس میں چھوڑ دے گا، مگر ہم سوچتے ہیں کہ پہلے یہ تو معلوم10کہ

روپئے(خواہ مخواہ خرچ ہو جائیں گے۔ اگر200 ریال )20ہو جائے کہ ہیں بھی یا نہیں، ورنہ

آان ملنے کی گارنٹی ہو تو ہم ریال بھی خرچ کرنے کے40 کیا 20اردو یا انگریزی تفسیر والا ^ر

dدلیل’لئے راضی ہیں۔ بہر حال اس سیکشن والوں نے بھی ہم پر یہ کرم کیا کہ ایک اور کتا

حج والمعمر بت نبوی’کا اردو ترجمہ بعنوان ‘الSا ہم کو عنایت کی۔‘رہنمائے حج و عمرہ و زیار

حرک ہے۔ اا ہم کو ہر شے ^بول ہے کہ مدینے کا تب حزوشرف۔ اور یقین گر ^بول افتد زہے ع

بدنبوی کی با^ی باتیں مسج

Page 126: اللہ میاں کے مہمان

ستونوں کی بات تو ہم نے لکھ دی ۔ ہر ستون پر زمین کے ^ریب جالی دار گول چبوترہ ہے، اس

بگ مرمر ہے اور درمیان میں در اصل ایر کنڈیشنر کے سوراخ ہیں۔ سارے صSن میں سفید سن

حھر ہیں۔ مگر باہری صSن میں گرینائٹ بگ مرمر کے ہی ڈیزائن والے پت میں بھورے اور سیاہ سن

ہے۔ باہری دیواریں بھی گلابی گرینائٹ کی ہیں، کچھ اونچائی تک پالش کئے ہوئے اور اس

کے اوپر بغیر پالش کے۔ دروازوں پر بھی سنہری کام کیا ہوا ہے۔

یہاں بھی غسل خانے اور بیت الخلا بیت اللہ کی طر� ہی ہیں، مگر کیوں کہ یہاں جگہ کم

تھی اس لئے اس لئے یہ چار منزل تک انڈر گراؤنڈ ہیں)معلوم نہیں تہہ خانے کی منزلوں کو کیا

کہنا چاہئے(۔ اکہری منزل پر اترنے کے لئے سیڑھیاں ہیں اور دو دو منزلوں پر اترنے لے لئے

لکھا گیا ہے۔ اندر ہی‘سفل کہہ ربائی’( ہیں جنھیں عربی میں Escalatorsاسکیلیٹر )

وضو کے علاوہ ہر فلور پر چالیس چالیس ٹائلیٹس ہیں مگر یہ بیت اللہ سے سائز میں کچھ

چھوٹے ہیں۔ یہاں بھی شاورہے اور بیت اللہ کی طر� بیت الخلاؤں میں ٹونٹی والے پائپ ہیں۔

نل کھولئے اور پائپ کو جس طر� چاہے استعمال کیجئے۔

سامنے والے جنوبی دروازے )عام( کے باہر ایک طرف وہی مرکز طیبہ مرکز التجاري ہے جس کا

یعنی انگریزی میں رایل اندلس‘الاندلس رویال’ہم ذکر کر چکے ہیں۔ دوسری طرف ہوٹل ہے

حفظ ہے Royalہوٹل ) رایل یا 3(، اس علا^ے میں سبھی ‘رویال’ کا عربی بلکہ فرانسیسی تل

یعنی مدینہ‘مدینہ اوبروئ’ ستارہ ہوٹلیں ہیں۔ کچھ زیر تعمیر ہیں۔جنوd مشرق کی طرف 4یا

اوبیرائے ہے ۔ جو زیر تعمیر ہیں وہ ہیں مدینہ ہلٹن اور طیبہ شیرٹن، جسے عربی میں بالترتیب

Page 127: اللہ میاں کے مہمان

مدینہ ہلتون اور طیبہ شیراتون لکھا گیا ہے۔ مدینہ اوبیرائے کے پاس ہی گرین پیلیس ہوٹل ہے۔ اور

سے‘^صر’ لکھتے اور بولتے ہیں۔ اکثر کے نام ‘خندق’بھی کئی ہوٹلیں ہیں جن کو عربی میں

یعنی بازار ہیں، جن کے نام میں‘اسواق’ہیں مشرق اور جنوd مشرق کی جانب بہت سے

لفظ سوق ضرور شامل ہے۔ یہاں دوکانیں ہی دوکانیں جن کا احوال ہم لکھ چکے ہیں۔

آاج ہم سست ہیں

آاج کل۔ ایک تو مستقل بع نظر ہم کو دو تکلیفیں اور بھی ہیں ہماری کھانسی وغیرہ سے ^ط

حلیں پہنے رہنے کے باعث دائیں ایڑی میں ^اشیں بن گئی ہیں پھٹ کر۔ دوسرے اسی پیر Yچ

حٹہ بن گیا ہے اس لئے چلنے میں تکلیف ہوتی ہے۔ پھر میں چھوٹی انگلی کے نیچے ایک گ

آاج صبح ادھر ویسے بھی تھکن اور کم خوابی چل رہی ہے اور بدن میں درد ہے۔ چناں چہ

آانکھ ت کب کا نکل چکا تھا پھر بھی5۔40ہماری پر کھلی۔ فجر کی جماعت کا و

بد نبوی میں نماز پڑھنے کی ہے۔ اس لئے ضروریات سے فارغ ہو کر بھاگے فضیلت تو مسج

آاخر آا گئے۔ اور پھر یہ روزنامچہ لکھتے6مسجد کی جانب اور بجے نماز ادا کر کے واپس

آائیں تو ہم نے اکیلے ہی رہے اور صابرہ کا انتظار کر تے رہے۔ ساڑھے سات بجے تک یہ نہیں

آائے۔ کھانسی تو اٹھ ہی رہی تھی اس لئے باہر ہی ناشتہ کیا اور باہر جا کر چائے پی کر

آائیں تو ان کو پھر ناشتہ کرایا۔ کچھ دیر لوگوں سے باتیں کیں۔اس سگریٹ بھی پی۔ تب صابرہ

بد میں ساڑھے نو بج گئے۔ ہم اd پھر باہرگئے۔ پہلے مکتبہ نبوی کی تلاش کی اور پھر مسج

Page 128: اللہ میاں کے مہمان

آاں حضرت آاج کی خدمتنبوی گئے۔ کچھ دیر ^ضائیں پڑھیں اور پھر روضے کی طرف گئے۔

آا ع ملا۔ حھا مو ج جالیاں اور اور ان کے سوراخوں میں سے جھانک بھیمیں سلام کرنے کا اچ

بجے واپس12کی طرف گئے۔ پھر ‘اسواق’سکے۔ ساڑھے گیارہ بج گئے تو پھر سگریٹ پینے

آاگئی ہوں گی۔ یہ سوچ مسجد ظہر کے لئے۔ صابرہ مرکز سفیر سے دوسری خواتین کے ساتھ

حررہ جگہ پر۔ کر نماز کے بعد ان کا انتظار کیامق

آاس پاس کے علا^ے کا کل یا پرسوں ہمارے سگریٹ پیتے ہوئے ہمارے سفارت خانے کے

آاج صبح ہی جب باہر سگریٹ پی رہے تھے سروے کررہے تھے تو ایک تندور دریافت ہوا تھا۔

کہ اندر سے مظہر بھائی نکلے جو ناشتے کے انتظام کے لئے نکلے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ

آاگاہ کیا۔ بلکہ کوئ تندور مل جائے تو گرم گرم روٹیاں مل سکتی ہیں۔ ان کو اپنی دریافت سے

ساتھ ہی ہم بھی گئے۔ معلوم ہوا کہ اس افغانی تندور میں تین طر� کی روٹیاں ملتی ہیں۔

جو گودی‘بسکوت’ جو ہمارے یہاں کی تندوری روٹی کی طر� ہوتی ہے، پراٹھا اور ‘چYاتی’

ہوئی سوراخ دار تندوری روٹی ہوتی ہے اور زیادہ خستہ۔ یہیں دال اور شوربہ بھی ملتا ہے۔

آاج ہم نے یہ نیا تجربہ کیا ہے۔ مSض سستا ہونے کی وجہ سے نہیں۔ بلکہ الطیب کے چنانچہ

آالو بینس کے شوربے )جسے مکسڈ ویجی ٹیبل کری کا شاہانہ نام دیا گیا ہے( سے بچنے کے

لئے۔ ادھر صابرہ کی طبیعت بھی کچھ گڑبڑ چل رہی ہے، ان کو دہی چاہئے تھی۔ چناں چہ

ہم گرما گرم روٹیاں لائے۔ صرف ایک ریال کی مسور کی دال اس افغانی تندور سے اور ہماری

گرام )یا غرام( دہی کا پیالہ۔ یوں کھانا ہو گیا۔ دال200پرانی ہوٹل الطیب سے ایک ریال کا ہی

Page 129: اللہ میاں کے مہمان

سبزی اس تندور میں شاید زیتون کے تیل میں بنائی جاتی ہے اس لئے مزے میں کچھ فرق

آایا۔ مSسوس ہوا مگر برا نہیں لگا۔ دہی ملاکر کھانے سے مزہ ہی

آارام کرلیں پھر اٹھ کر نہائیں گے دھویئں گے اورعصر آائے تو سوچا کہ کچھ دیر کھانا کھا کر

کے لئے جائیں گے۔ ڈھائی تو بج گئے تھے۔ مگر بڑے مغربی غسل خانے میں جہاں نہانا اور

کYڑے دھونے کی بہتر سہولت ہے ایک صاحبہ نے دھوبی گھاٹ بنا رکھا تھا۔ اسی انتظار میں

ہم لیٹ گئے اور یہ وہ نایاd دن نکلا کہ ہم دن میں سو گئے جو ہر گز ہماری عادت نہیں۔

آانکھ کھلی بھی مگر بدن ٹوٹ رہا تھا اور حرارت بھی تھی۔ بہر حال اٹھے تو سوا ایک بار

آا رہی آاواز بدنبوی کی جماعت کی مائک کی آایا تو مسج چار بج رہے تھے۔ جیسے ہی ہوش

حسلام وعلیکم و رحمت اللہ ’تھی آاج اس بدنصیب کی فجر اور عصر دو نمازوں کی‘ا ۔ چنانچہ

جماعت چھوٹ گئی۔ اٹھ کر ضروریات سے فراغت کے بعد نہائے بھی، کرتا پاجامہ دھویا

بھی) یہ ہم میاں بیوی کا بلا تSریری معاہدہ ہے کہ اپنے اپنے کYڑے دھوئیں گے(۔ پھر حرم

گئے اور عصر کی نماز پڑھی، چائے پی اور کھانسی کے علاج کے لئے سگریٹ پی۔ پھر

آالو مٹر کی سبزی ریال4مغرd کے لئے اندرگئے اور ^ضائیں پڑھیں اور عشاء پڑھ کر تندور سے

آائے ہیں۔ روٹیاں تو دو پہر کو دو عدد لائے تھے وہ اd تک ختم نہیں ہوئی تھیں، کی لے کر

اور دہی لیا ہے اور کھانے کے بعد یہ گفتگو ہو رہی ہے۔

( تو ہم نے سو کر اٹھتے ہی کھا لی تھی اور پھر نہانے دھونےAnalginایک انل جین)

dہم کچھ بہتر ہیں جو یہ روزنامچہ لے کر بیٹھے ہیں اور ا dآا گئی ہے تو ا سے کچھ تازگی

آا ساڑھے گیارہ بجے تک لکھے جا رہے ہیں بلکہ اd ختم کرنے جا رہے ہیں۔ ایک بات اور یاد

Page 130: اللہ میاں کے مہمان

گئی ہے وہ اور لکھ دیں۔گھنٹہ بھر سے گلا پھر خراd ہو رہا ہے اس کا علاج کر کے سوئیں

آاپ کو بتا دیں کہ یہاں ماچسیں نہیں ملتی ہیں۔ ہماری سگریٹ آایا کہ گے۔ اس پر یہ بھی یاد

ت باریک آاباد میں خریدتے و آاج کل پائپ کے موٹے تمباکو سے بن رہی ہے کہ حیدر فائن’بھی

بولس جو کیYسٹن نہ ملنے پر ہم‘کٹ تمباکو نہیں ملا تھا نہ کیYسٹن ، جو ہمارا برانڈ ہے، نہ

تیلیوں کی سوختہ8۔10لے لیتے ہیں۔ اس لئےپائپ والے اس تمباکو سے بنی ایک سگریٹ

آائے تھے اور کیوں کہ پاؤچ کی4^ربانی چاہتی ہے اور ہم یہاں صرف عدد ماچسیں لے کر

سگریٹ کو تیلی سے پیک کرنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے اس لئے کچھ تیلیاں تو چاہئیں ہی۔

( لائٹر لے کر گھومتے ہیں، ایک ریال کا خریدا،Disposable)‘ڈسYوزیبل’یہاں تو سب

آاج لائٹر خرید لیا ہے کہ استعمال کیا ، گیس ختم ہوئی، پھینک دیا اور دوسرا لیا۔ ہم نے بھی

با^ی تیلیوں سے تمباکو پیک کرنے کا کام لیں گے اور سگریٹ لائٹر سے جلائیں گے۔

پاکستانی لنگوٹی

آاج حکر کیا تو2۔2اس خریداری کے ساتھ ہی ہم نے ریال ہر مال کی دوکانوں کا بھی ایک چ

آائی کہ ایک انڈروئر بھی خریدا ہے جو پاکستان کا مصنوعہ ہے۔ اس کی ضرورت اس لئے پیش

حکے میں ہی چھوڑا تھا اور تھوڑا سامان لانے کے لئے جب ت زیادہ تر سامان م آاتے و یہاں

حکے میں ہی رہ گئے۔ اd تک جو ہم پہنتے رہے پیکنگ کر رہے تھے تو غلطی سے انڈروئر م

تھے، اسی کو نہا تے تو دھو کر پہن لیتے۔ بہر حال یہ خریداری اس لئے بھی کی کہ ہمارے

Page 131: اللہ میاں کے مہمان

بش جان حرک نو پاس پاکستان کی بھی کچھ یادگار رہ جائے۔ جیسے کل بنگلہ دیشی ہوٹل کا تب

بر صغیر کی تہذیبی وحدانیت کے ^ائل ہیں دراصل۔ ان تینوں ملکوں کا کردار، حب کیا تھا۔ ہم

وراثت ایک سی ہیں، پھر یہ اختلافات کیسے؟ عوام کی حد تک تو اختلافات بالکل نہیں ہونے

چاہئیں۔ جس طر� ہمارے پاکستانی دوست ہندوستانی فلموں، گیتوں اور ساریوں کے لئے ترستے

ہیں، اسی طر� ہم ہندوستانی پاکستانی ادبی رسالوں اور کتابوں کے لئے۔ کسی کے پاس

کا تازہ شمارہ مل جائے، پھر دیکھئے اس کی مانگ کم از کم ادبی حلقوں‘ فنون’ یا ‘نقوش’

آاج ہم نے پاکستانی لنگوٹی خرید لی ہے۔ میں۔ بھاگتے بھوت کی سہی ، سو

وہی دن وہی رات

بجے رات10۔40/ اپریل، 8

آاج کا دن بھی روز کی طر� ہی گذرا ہے۔ رات کو سونے تک ڈیڑھ دو بج گئے تھے ۔ صابرہ

آا گئی اور ساتھ ہی ہمارے ایک اور حجد کے لئے جانا یاد ہے )حسرت موہانی کی یاد کا تہ

آانا یاد ہے‘۔ غلام علی صاحب اگر’پاکستانی دوست غلام علی کی وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں

بض مSال یہ پڑھ رہے ہوں تو پریشان نہ ہوں کہ ان کو دوست ہم مجازی معنوں میں لکھ رہے بفر

ہیں، ان مSترم سے ہمارے کوئی ^ریبی تعلقات نہیں ہیں، یاد اللہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ان کے

آانکھ کھلی۔4۔50لئے بھی دعائیں کر سکتے ہیں اللہ سے(۔ مگر ہم پھر سو گئے تو پھر پر

Page 132: اللہ میاں کے مہمان

بم مدینہ بھاگے۔ جماعت تو مل گئی مگر باہر سڑک جلدی جلدی ضروریات سے فارغ ہو کر حر

آا گئے اور برش وغیرہ کر کے مکتبۂ نبوی کی پر جگہ مل سکی۔ نماز پڑھ کر سیدھے واپس

آائیں اور کہنے لگیں کہ مظہر بھائی، ان کی بیوی کتابیں پڑھتے رہے۔صابرہ سات بجے واپس

)حالت یہ ہو گئی ہے کہ اd انگریزی میں سوچنے لگے ہیں اور‘جوڑے’اور دوسرے دو اور

آایا جس کا صSیح اردو ترجمہ افسوس کہ نہیں ہے سوائے اسCoupleپہلے لفظ ذہن میں

کے(مدینے کی زیارتوں کے لئے جا رہے ہیں، ہم جس دن گئے تھے تو یہ لوگ‘جوڑے’لفظ

ساتھ نہیں تھے۔ صابرہ نے بتایا کہ مظہر بھائی بضد ہیں کہ کم از کم صابرہ ان کے ساتھ

عورتوں کی لیڈر بن کر جائیں ورنہ ان عورتوں کے گم ہو جانے کا خطرہ ہے، اپنی بس ہی

پہچان نہ سکیں گی۔ بہر حال ہم رہ گئے اور صابرہ چلی گئیں، بعد میں صابرہ نے بتایا کہ ہم

حھی تشریح کی ہی خوش نصیب تھے کہ اسرار میاں کے ساتھ گئے تھے جنھوں نے اردو میں اچ

تھی۔ ان لوگوں کا عربی ڈرایؤرتھا جو ظاہر ہے کہ اردو میں کیا تفصیل دیتا، بس جگہ کی نشان

دہی کر دیتا۔ خود مظہر بھائی اور صابرہ ہی )اسرار میاں کے حوالے سے( اس وفد کے لئے بہتر

گائڈ ثابت ہوئے۔ادھر اسرار میاں کا داخلہ ہمارے سفارت خانے والوں نے بند کر دیا ہے۔ کل

باہر ان سے ملا^ات ہوئی تو پتہ چلا۔ حالاں کہ انھوں نے ہوٹل والے کو کمیشن بھی دیا تھا ان

حطلاع دیتے ہی چلی گئیں کہ باہر ہی ناشتے کے ہی بیان کے مطابق۔ بہر حال صابرہ تو صبح ا

کاارادہ ہے۔ ہمارے لئے دہی رکھی تھی، روٹی رکھی تھی اور شکر تو رہتی ہی ہے۔ ہم نے دہی

بد نبوی کی روٹی کھا کر باہر جا کر چائے پی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر مسج

طرف نکل گئے۔ ^ضا نمازیں وہاں ہی پڑھتے ہیں، ^ضائے عمری۔ کہ وہاں کی ایک نماز ہزار

Page 133: اللہ میاں کے مہمان

نمازوں کے برابر ہے۔ نمازوں اور درود اور روضۂ ا^دس پر سلام کے بعد ہم حرم کے پیچھے

یعنی جنوd کی طرف گئے جہاں اd تک نہ گئے تھے۔سنا تھا کہ اسی طرف مدینے کی

مرکزی کھجور مارکیٹ ہے۔ خیال تھا کہ پہلے خود راستہ وغیرہ دیکھ لیں کہ کہاں ہے، کس

طرف ہے اور کدھر ہے، پھر بعد میں صابرہ کے ساتھ جا کر خرید لائیں گے۔ یہ مارکیٹ

۔‘ونڈو شاپنگ’ کی طرف نکل گئے۔ کچھ شاپنگ کی مگر زیادہ تر ‘اسواق’دیکھی اور پھر

آائے، ادھر ۔11 ریال والی چھوٹی چھوٹی چیزیں کچھ اور خرید لیں۔ 2۔2 بجے ادھر ہم واپس

صابرہ بھی پہنچیں۔ کچھ دیر ان سے اس ٹرپ کی باتیں کیں )جس کا احوال ہم لکھ چکے

ہیں پہلے ہی(، پھر ہم دونوں ظہر کے لئے نکل گئے۔ نماز کے بعد اسی افغانی تندور ) پہلے

ہم اسے عربی تندور سمجھتے تھے، مظہر بھائی نے بتایا کہ یہ دوکانیں یا ہوٹلیں افغانی ہیں(

سے ایک ریال کی روٹی اور ایک ریال کی دال لی اور ہمارے الطیب پاکستانی ہوٹل سے ایک

ت ہم کچھ سبزی بھی11ریال کی دہی کا پیکنگ لیا۔ ہاں، بجے بازار سے واپسی کے و

خرید لائے تھے۔ کھیرے، ٹماٹر اور پیاز۔ سب ملا کر پانچ ریال کے۔ چناں چہ کچھ سلاد اور

کچھ رائتہ بنایا اور خوd مزے سے کھایا۔روٹی پہلے کی بھی رکھی تھی، اس لئے اd بھی

روٹی بچ گئی۔

آاج بھی وہی انھونی بات کھانے کے بعد ہم لیٹ کر مکتبہ نبوی والی کتابیں پڑھ رہے تھے کہ

آاج عصر کے بعد صابرہ کو آادھے گھنٹے کے لئے۔ آانکھ لگ گئی۔ کوئی ہو گئی کہ ہماری

حرر کر لی تھی جہاں بھی بازار دکھانے کا ارادہ تھا۔ اس لئے بازار کی سمت ہی ایک جگہ مق

آاج بھی ونڈو شاپنگ نماز کے بعد مل سکیں۔ یہ مل گئیں تو پہلے چائے پی پھر بازار گئے۔

Page 134: اللہ میاں کے مہمان

2۔2ہی زیادہ کی۔ کچھ سفری بیگ دیکھے، کچھ اسکارف دیکھے، مگر خریدے نہیں۔وہی

ریال کے سامان.. کچھ پاکستانی طغرے، کچھ لڑکیوں کی مطلب کی چیزیں، کنگھے، برش

کے سیٹس وغیرہ۔ اسی میں چھہ بج گئے۔ پہلے صابرہ مسجد چلی گئیں۔ ہم کو کھانسی اٹھ

آائے۔ اس سے رہی تھی، اس لئے ہم نے پہلے سگریٹ پی پھر حرم گئے۔ نماز پڑھ کر پھر باہر

ریال کی دوکانوں میں کچھ چیزیں دیکھی تھیں مگر وہ دوکانیں صابرہ کے ساتھ2۔2پہلے

آائی تھیں، ان کو ڈھونڈھا۔ دو ٹوپیاں اور ایک ٹارچ خریدی اور ریال کی8جانے میں نظر نہیں

آائی تو لے حYل بھی لی۔ ایک ہوٹل میں فرائڈ مچھلی بھی نظر ایک دوکان سے کوریا کی ایک چ

آانے سے پہلے ایک روٹی اور لی اور پھر عشاء کے لئے پہنچ گئے۔ نماز کے بعد کمرے میں

ایک دال کی پلیٹ اور خرید لائے اسی تندور سے گرما گرم اور کھانا کھا کر اور سگریٹ پی

آاج کا دن بھی روز کی طر� ہی گزرا۔ اd سوچ رہے کر اd یہ سب لکھ رہے ہیں۔ چناں چہ

ہیں کہ دوپہر میں لکھنا زیادہ بہتر ہوگا۔ رات کو دیر تک لکھتے رہیں تو نیند خراd ہوتی ہے

اور دو پہر کو سونا ہم کو پسند نہیں ہے کہ اس سے اور بھی تھکن اور سستی بڑھ جاتی ہے۔

آاتی دن کو سو جانے سے۔ تازگی نہیں

بع کوچۂ و بازار... ...متا

بجے رات۔10 2/1/ اپریل 9

Page 135: اللہ میاں کے مہمان

ت کم ہی رہا تو پھر وہی رات ہو آاج دو پہر کو و آا ج دو پہر کو لکھیں گے مگر سوچا تھا کہ

گئی ہے۔ ویسے روز کے معمولات کے علاوہ بس یہی بات اہم ہے کہ ہم نہ نہ کرتے بھی

حکے مدینے جاؤ تو اللہ میاں سے لو خریداری میں لگے رہے۔ لاکھ کتابوں میں پڑھا کہ بھائی م

حکے سے زمزم مفت لگاؤ۔ خریداری کے چکر میں مت پڑو۔ بس مدینے کے خرمے خریدو اور م

بن دنیا داری تو سب جگہ ملتا ہے، حرمین اور کہاں ؟۔ حاصل کرو اور وطن لے جاؤ، ساما

حکے اور مدینے۔ مگر ان لوگوں کو کیا کہیں جو ہم کو صSیح ہے ناصح.. آاوازم ہار؎تری

پھول پہنا کر رخصت کر کے اd ہمارے انتظار میں دن گن رہے ہیں!خیر، خدا نخواستہ

حمید پر ہم سے حلے والے مSض ہمارے تSفوں کی ا Sاور م dہمارے سارے رشتے دار، احبا

بر عقیدت کرتے رہے ہوں۔مگر ہمارا فرض بھی تو بنتا ہے کہ ان لوگوں کے حبت اور اظہا Sبر م اظہا

لئے چھوٹے موٹے تSفے تو لے ہی لیں۔ سبھی جا نمازیں، تسبیSیں اور سرمہ تو لیتے ہی ہیں

حچوں کے لئے؟ ان کے لئے تو ہم بزرگوں کے لئے، کھجوریں اور زم زم سب کے لئے، مگر ب

حمید ہوں گے اور ہمیںForeign )‘فارین’مSض ( جا کر لوٹیں گے۔ یہ لوگ بھی تو پر ا

سب کو بھی تو خوش کرنا ہے۔ اور پھر ہم کوئی فرج، ٹیپ ریکارڈر اور ایسی اشیاء تو خرید

اا ت گنوا رہے ہیں۔ ہم تو عموم نہیں رہے ہیں اور نہ عبادتوں میں حرج کر کے خریداری میں و

اپنی طبیعت کے علاج کے لئے سگریٹ ،اور اکثر اس سے پہلے چائے، کے لئے باہر نکلتے

ہی ہیں اور اسی سگریٹ نوشی کے دوران ایسی خریداری کر رہے ہیں۔ اس لئے ہمارا ضمیر

آاج با^اعدہ خریداری کی مہم رہی۔ با^اعدہ اس لئے کہ ہماری صابرہ بیغم بھی مطمئن ہے۔ہاں،

بجے حرم جانے کا معمول ضرور بگڑ گیا جس کا9اس میں شریک رہیں۔ اس طر� ہمارا صبح

Page 136: اللہ میاں کے مہمان

حجد کے لئے بھی جا آاج ہم تہ حلہ بل اد کچھ افسوس ضرور ہے، مگر یہ اطمینان بھی ہے کہ الSم

سکے تھے۔

حجد مجبوری تو نہیں؟؟ تہ

حجد کے لئے گئے۔ یہاں آاج ہم بھی ساڑھے تین بجے اٹھ بیٹھے تھے اور صابرہ کے ساتھ تہ

حجد کی اذان تو ہوتی ہے۔ ماشاء اللہ بیشتر لوگ تہجد گذار ہیں )یا ہو بھی بیت اللہ کی طر� تہ

گئے ہیں(، مگر نعوذ باللہ ہم کو کبھی شک گزرتا ہے کہ یہ کہیں لوگوں کی مجبوری تو نہیں؟

آاپ کو حرمین میں اندر نماز کے لئے صف میں جگہ چاہئے جہاں یہاں ہو یا بیت اللہ۔ اگر

آارام سے بیٹھ سکیں ، تو آاپ مخملی ^الین پر، جو دونوں حرموں میں جانماز کا کام کرتے ہیں،

پر ہوتی4۔50آاپ کو اذان سے بھی کم سے کم ڈیڑھ گھنٹہ ^بل پہنچنا ہوگا۔ فجر کی اذان

اا ساڑھے تین بجے پہنچنا ضروری ہے، اس لئے اندر صف میں جگہ حاصل کرنے کے لئے تقریب

حجد کی نماز مفت میں مل حھی جگہ کی کوشش میں تہ حجد کا۔ اور اچ ت ہے تہ ہے۔ اور یہی و

جاتی ہے کہ چچا غالب کا مشورہ ہے۔ جیسے سبزی لینے جائیں تو سبزی والا تھوڑا ہرا دھنیا یا

کہتے ہیں(۔ اسی طر� لوگوں کو‘اول’ہری مرچ مفت میں اوپر ڈال دیتا ہے )کہیں کہیں اسے

حجد مفت مل جاتی ہے۔ اور پھر اندر صف میں بلکہ ^الین پر جگہ ملنے کا ایک اور فائدہ تہ

بھی دیکھا۔ کئی حضرات فجر کے بعد ان ^الینوں پر لمبی تان لیتے ہیں اور اپنی نیند پوری

حکہ میں ایک اور سہولت یہ بھی ہے کہ رہایشی عمارتوں میں ضروریات کے بم م کرتے ہیں۔ حر

Page 137: اللہ میاں کے مہمان

م حفی بخش نہیں ہیں، کم از کم ہماری عمارت ر کا تو یہی حال تھا۔ لوگ468انتظامات تش

زیادہ اور بیت الخلاء کم۔ اس کا حرمین میں بہت معقول انتظام ہے۔ یہاں مدینے میں ہمارے

حکہ میں تو ہم خود ضروریات کے لئے بم م سفارت خانے میں تو یہ نظم بہت بہتر ہے، مگر حر

ات سے کافی پہلے حرم آاپ کو نماز کے او حرم جانا پسند کرتے ہیں۔ اس کے لئے بھی

مردانہ اور10 اکائیاں )وحدتیں( ہیں، شاید 14پہنچنا ضروری ہے۔ یہاں بھی غسل خانوں کی

زنانہ۔ دورات میاہ للرجال اور دورات میاہ للنساء۔ ہر ایک زیر زمین چار منزلہ۔ زنانہ کا واللہ اعلم4

مشترکہ غسل40۔40)صابرہ سو گئی ہیں ورنہ ان سے پوچھ لیتے( مگر مردانہ میں ہر اکائی میں

آاپ نماز کے لئے ایک گھنٹہ ^بل بھی جائیں تو ہر منزل پر کسی خانے اور بیت الخلاء ہیں۔

حول۔ یعنی پہلی منزل یا بر ا آاپ کا ^طار میں چوتھا یا پانچواں نمبر ہوگا )دو بھی غسل خانے میں

آاپ نماز حتہ جگہ جلدی مل سکتی ہے۔ ہاں ، اگر آاٹھواں دسواں(۔ وضو کے لئے الب فلور پر تو

آاپ کا نمبر لگنے میں اتنی دیر ممکن5سے مSض منٹ ^بل پہنچیں تو وضو کے لئے بھی

آاپ وضو کر کے پہنچیں تو جماعت ختم ہو چکی ہو۔ خوش ^سمت رہے تو شاید ہے کہ جب

آاپ خود کو جماعت میں شریک سمجھ سکیں۔ پھر آاخری رکوع نصیب ہو جائے جس سے

حرر نہیں ہیں کہ سال کا کوئی بھی دن ہو، یہ ات بھی ہمارے ہندوستان کی طر� مق نماز کے او

طے ہے کہ ظہر کی اذان ایک بجے اور جماعت ڈیڑھ بجے۔ حرمین ہی نہیں، دوسری

آاج ظہر اا ت کی شروعات کے مطابق۔ مثل حرر ہیں، و ات مق مسجدوں میں بھی اذان کے او

ت تھا منٹ بعد جماعت ہو جاتی ہے۔ دونوں حرموں4۔5 دو پہر۔ اور اذان کے 12۔23کاو

ت گھڑی کی شکل کے کئی سائن بورڈوں میں دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ آائندہ اذان کا و میں

Page 138: اللہ میاں کے مہمان

منٹ4۔3جمعے کا بھی یہی عالم ہے۔ پہلا جمعہ یہاں ہی ادا ہوا ہے اور اس میں اذان کے

اا بعد نماز4بعد ) جس میں ہم حنتیں بمشکل پڑھ سکے( خطبہ شروع ہو گیا اور اس کے فور س

فہ دیا جاتا ہے۔ ہاں عشاء کی ا^امت۔ فجر میں بھی اذان اور جماعت کے درمیان بہت کم و

dحجب ہوگا کہ مغر آاپ کو جان کر تع اا پندرہ منٹ کا ہوتا ہے۔ یہ بھی فہ تقریب ت یہ و کے و

فہ دیا جاتا ہے کہ لوگ تہیۃ المسجد پڑھ لیں۔ یہ معلوم4۔5کی اذان کے بعد بھی منٹ کا و

وف بن گئے تھے، جس کا لکھ چکے ہیں۔ نہ ہونے ہر ہم حرم میں پہلے دن ہی بے و

آاگئی۔ اd تک ہم روضۂ پاک پر بار جا چکے ہیں مگر اس کا4۔5ہاں، ایک بات اور یاد

یی نبی اور ریاض آایا ہے۔ منبر تو ہم نے دیکھ لیا ہے مگر مصل جغرافیہ اd بھی سمجھ میں نہیں

حنت میں جائے گا( حصہ ^یامت کے بعد سیدھاج حنہ )جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ح الج

کہاں ہیں، معلوم نہیں ہوا۔ بے خبری کا عالم وہی ہے۔

آاٹے دال کے علاوہ ہر چیز کا بھاؤ

آاج فرق ہوا ہے اس کا آاج دن بھر کی تفصیل لکھیں تو وہی سب کچھ دہرانا ہو جائے گا۔ جو

آاٹھ بجے ہی جو خریداری کے لئے نکلے تو ذکر کر چکے ہیں کہ صبح ناشتے کے بعد ساڑھے

سوا گیارہ بجے ہی واپسی ہوئی۔ اور سامان پٹک کر ظہر کے لئے چلے گئے۔

Page 139: اللہ میاں کے مہمان

حکہ مدینہ گائڈ )حج گائڈ بھی نہیں(کے طور پر پڑھ رہے ہیں، ان کو جو ^ارئین اس کتاd کو م

ایک گر بتا دیں خریداری کا۔ یوں تو بہت سے عربی دوکان دار بھی ہندوستانی پاکستانی

حاجیوں کواردو میں ہی ^یمت بتاتے ہیں، مگر پھر بھی کچھ غیر اردو داں ہیں ہی۔ اگر دوکان

آاپ ’خمسہ )7’ سبع )دار ( ریال‘ بولیں اور وہ لمبی تقریر عربی میں شروع کر5(ریال‘بولے اور

آاپ میں اتنا صبر اور دے تو سمجھ لیجئے کہ سودا ممکن نہیں ہے۔ ممکن ہو بھی تو ہم میں

آاپ اپنی ^یمت پر مطمئن کر سکیں )جو ناممکن تو نہیں مگر کارےصلاحیت کہاں کہ اسے

بم اللہ’دارد ہے(۔ اور اگر جواd ملے حلاص۔ بس ۔ اور اس سے‘پٹ گیا’ تو سمجھئے کہ سودا ‘خ

آاپ جھٹ سے پیسے، مطلب ریال نکال لیجئے اور دوکان دار پہلے کہ وہ اپنا ارادہ بدل لے،

آاپ م کو روپؤں میں تبدیل کر کے ^یمت پر غور کئے بغیر۔ یا اسی مثال میں کو دے دیجئے۔ر

آاپ آایا تو پھر بھی حتہ )’کو یا دوکان دار کو سودے بازی میں مزہ نہیں کہہ سکتے‘( ریال6بس

آاپ اگر اتنا بہت کچھ کہنا چاہیں کہ ہیں تو ممکن ہے کہ دوکان دار راضی ہو جائے۔مگر

ریال7بھائی ہم ایک درجن لیں گے اور اس صورت میں تو کم سے کم ٹھیک دام لگادو اور

آاپ لاکھ عربی بولنا چاہیں کہ کہ ہم کو حتین’لے لو، تو چاہے دے دو۔ مگر‘درجن فی الس

آاگے بڑھ جائیں آاپ بور ہو کر آاگے جاؤ۔ دوکان دار اپنی عربی دانی بھول جائے گا اور کہے گا

آائی ہے۔ ہر مال ال’ریال۔ 2أا2گے۔ ہم کو تو اس سے بچنے کی ایک ہی ترکیب سمجھ میں اک

،10، 5 ۔ خیر یہ تو کم سے کم ^یمت والی دوکانیں ہیں مگر یہاں ہی ہر مال ‘شےء ریالین

آاپ کو ^یمت معلوم50 اور 20، 15 ریال کی بھی دوکانیں ہیں۔ اس میں یہی فائدہ ہے کہ

حجت کرنے کی ضرورت نہیں۔ خود ہی فیصلہ کر لیجئے کہ اس ^یمت پر ہے، اس کی کچھ ح

Page 140: اللہ میاں کے مہمان

حچوں یہ شے مناسب ہے یا نہیں۔ ویسے ہم اتنا اور اشارہ کر دیں کہ اس ^سم کی دوکانوں پر ب

کے کام کی چیزوں )کھلونوں، تعلیم کی ضرورت کی اشیاء اور ملبوسات وغیرہ( کے علاو ہ

، عورتوں کے لئے بغیر سلے‘میکسیاں’مردوں کے شرٹس، عورتوں کے خواd گاہی ملبوسات اور

آاپ کرتے شلواریں بنائیں یا میکسیاں۔ ریڈی میڈ شلواریں4۔3 میٹر لمبائی کے کYڑے، جن سے

کے نیچے )اور توd بھی اسی طر� دستیاd‘توd’جو یہاں مرد عورتیں دونوں پہنتے ہیں۔ مرد

ہیں۔ اس کے پیکٹوں پر عربی میں ثوd لکھا ہوتا ہے، جیسا کہ ہم شاید پہلے بھی ذکر کر

آایا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک مقامی صاحب کو ماہ ربیع الثانی کو چکے ہیں۔ اس پر یاد

آاستین کے دس اور ‘ربیع التانی’بھی آادھی dریال میں اور پوری15 بولتے سنا ہے ہم نے۔ تو

ریال کی10۔10 ریال میں ( اور عورتیں کرتوں کے ساتھ۔ یہ زیادہ تر 20 اور 15آاستین کے

ریال میں مل سکتے ہیں۔ کم20 اور 15 میٹر کے کYڑوں کے ٹکڑے 4۔3دوکانوں میں ہیں۔

40 سے 15 ریال کی ہیں۔ گھڑیاں بھی 20 اور 15 ریال اور بڑی 10 جانمازیں ‘سنگل’چوڑی

ال ساعات ’ریال تک کی ہیں، ان دوکانوں پر بھی اردو اور عربی میں لکھا ہوتا ہے ۔‘ ریال20اک

آاج پوچھا تو 20 کو عشرہ اور 10 ریال فی کلو110 کو عشرین بولتے ہیں۔ عجوہ کھجورکا

ریال کلو تک ہیں مختلف ا^سام کی۔ اd اور کچھ بھاؤ15 سے 8ہیں۔ دوسری کھجوریں

بھی بتا دیں۔ روٹیاں ایک ریال کی تین یاچار )بیکری کی دوکانوں یا کھانے پینے کی اشیاء کے

کہا جاتا ہے( سے ایک ریال کی ایک )ہوٹلوں اور‘بقالہ ’ڈیYارٹمینٹل اسٹورس میں جنھیں

حتہ درجن کے حساd سے5 تا 4تندوروں میں(ہر پھل اور تمام سبزیاں ریال فی کلو۔ کیلے الب

ریال درجن۔ چائے اور اس کے ساتھ کھانے کے لوازمات یعنی مختلف ا^سام کے10۔8ہیں

Page 141: اللہ میاں کے مہمان

کیک، بسکٹ، بن وغیرہ سبھی ایک ایک ریال۔ کولڈ ڈرنک بھی سب ایک ایک ریال۔ چاہے

۔300 ملی لیٹر کی شیشے کی بوتل لیں یا پلاسٹک کی )پیٹ( بوتلیں، یا 250 یا 200آاپ

ملی لیٹر کے ٹن۔ چاہے کوئی بھی برانڈ ہو۔ پیYسی اور کوک کے375 بلکہ کوئی کوئی 330

ریال2علاوہ یہاں سیون اپ بھی عام ہے، ایک لٹر )اور کچھ برانڈس میں سوا لٹر( کی بوتلیں

ریال3 ملی لیٹر مزید مفت۔ یعنی سوا دو لٹر( 250 لٹر )اس میں بھی کسی برانڈ میں 2اور

میں۔

آاٹے دال کا بھاؤ معلوم کرنے کی اd تک یہ بھاؤ تو معلوم ہو گئے کہ یہی کھاتے پیتے ہیں۔

آاپ کو ضرور بتائیں گے۔ ضرورت نہیں پڑی ہے، معلوم ہوئے تو

حنت مکانی عارضی ج

بجے دوپہر2/ اپریل، 10

حنت کی حنت مکانی بننے میں کامیاd ہو گئے اسی دنیا میں۔ ویسے بخدا ہم کو ج آاج ہم ج

حنت عطا کرے تو یہ اس کا کرم ہے۔ ہم بd رحیم و کریم بخش دے اور ج آارزو نہیں ہے۔ ر ایسی

حنۃ میں نمازیں اور سلام پڑھنے کی بڑی فضیلت کو تو بس اس بات کا خیال تھا کہ ریاض الج

ہے۔ اd تک ہم چار بار توروضۂ پاک پرجا چکے تھے مگر وہاں کے چوکی دار داخل ہونے

Page 142: اللہ میاں کے مہمان

آاگے بڑھا دی جاتی تھی۔ اس نہیں دیتے تھے کہ اندر ہمیشہ بھیڑ تھی اور باہر ہی باہر سے ^طار

آاخر معلوم ہوا۔ حالاںکہ ریاض آاج لئے اd تک ہم جغرافیہ نہیں سمجھ سکے تھے وہاں کا۔

ت تھا، مگر ت ان کا بھی و حنہ کا کچھ حصہ عورتوں کے لئے بھی مخصوص تھا اور اس و الج

آاج ہم سوا دس یاساڑھے دس خاص روضۂ پاک تک نہیں۔ وہاں شاید ان کو اجازت نہیں ہو۔

ت ختم ہو گیا ہوگا، مگر تب10بجے اس طرف گئے۔ خیال تھا کہ بجے تک عورتوں کا و

تک بھی جاری تھا۔ ہم بھی یہی سوچ رہے تھے کہ عورتوں کا ^بروں پر جانا منع ہے پھر روضے

آایا کہ در اصل یہاں ^بر تو اندر ہی ہے، تک انھیں کیسے اجازت ملتی ہے؟ پھر یہ بھی خیال

حنت البقیع گئے تھے تو جالیوں تک ان کو بھی اجازت ضرور ہوگی۔ اسی طر� جب ہم ج

حجہ!’سیڑھیاں چڑھتے میں جو عورتیں جانے کی کوشش کر رہی تھیں، انھیں پولس والے حا

حجہ! کہہ کر روک رہے تھے، وہاں بھی انھیں باہری جالیوں تک جانے کی اجازت ہے۔ اس‘حا

حرر ہیں اس لئے کہ ہم بعد میں ات مق بجے گئے تو دیکھا کہ عورتیں بلا روک10کے بھی او

حجب ہوا، پھر بعد میں معلوم ہوا کہ ان کی حد مSض ٹوک جا رہی ہیں۔ ہم کو پہلے تو تع

باہری جالیوں تک ہے۔عورتیں باہر سے ہی زیارت کر سکتی ہیں اور فاتSہ وغیرہ پڑھ سکتی ہیں

اگر چاہیں تو۔ وہاں بھی پولس کا معقول انتظام تھا۔ پہلے سنا تھا کہ وہاں اور روضۂ پاک پر

حنت کے۔ اd اس بدعت پر بھی ہندوستانی پاکستانی عورتیں دھاگے وغیرہ باندھ دیتی تھیں م

روک لگانے کے لئے پولس رہتی ہے۔

حصے آاج روضے کے اس ح حطلاع دینی تھی کہ ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ مSض اتنی ا

حنہ کہا جاتا ہے۔ میں کچھ عبادت کر سکے ہیں جسے ریاض الج

Page 143: اللہ میاں کے مہمان

حھر ہی لے چلیں آائے ہیں اس گلی میں تو پت

آاپ کو بتائیں نہیں کہ ہم تعلیم اور پیشے کے لSاظ سے آاپ کو تو کیا معلوم ہوگا جب تک ہم

آانم کہ من ماہر ارضیات یعنی جیالوجسٹ وا^ع ہوئے ہیں ، ویسے ایسے زیادہ ماہر بھی نہیں، من

آادھے گھنٹے ^بل ہمارے یمعیل بیگ صاحب کے صاحب زادے‘ہم کمرہ’دانم۔ ویسے ابھی اس

)‘سینڈ سٹون’بھی جیالوجسٹ بننے کی کوشش کر رہے تھے۔ فرمانے لگے کہ یہاں ہر طرف

Sandstoneہے اسی لئے سینڈ یعنی ریت بہت ہے اور یہ علا^ہ ریگستان ہے۔ ان کے)

(کی ضرور داد دینی چاہئے۔ اd ہم کو یہCommon Sense )‘کامن سینس’

حھر میں بھی ایک معدن کوارٹز ) (ہوتا ہے) وہیQuartzتکنیکی راز بھی بتا دیں کہ جس پت

کوارٹز جس کا کرسٹل کوارٹز گھڑیوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور جس کی مختلف شکلیں

حھر اور نگینے بھی ہوتے ہیں( وہ ایسا سخت جان وا^ع ہوا ہے کہ بارش اور موسم کے ^یمتی پت

گرم و سرد سے دوسرے معدنیات تو سب ٹوٹ بکھر کر اور گھل کر ختم ہو جاتے ہیں اللہ کے

نام کے علاوہ بچتا ہے تو یہی معدن کوارٹز۔ اور اسی کے دانے بڑے بڑے ہوں تو اسے ریت

کہتے ہیں۔ ہم پہلے بھی یہ لکھ چکے ہیں کہ حرمین میں کیسا کیسا گرینایٹ اور سنگ مرمر

حکے سے مدینے کے راستے میں بھی ہم نے ہر طرف گرینائٹ ہی گرینائٹ یا استعمال ہوا ہے۔ م

( دیکھے ہیں۔Migmatite( اور مگمیٹائٹ )Gneissاسی کے دوسرے روپ نائس)

Page 144: اللہ میاں کے مہمان

خاکستری )گرے( اور گلابی بھی۔ اس میں بھی کوارٹز بہت ہوتا ہے اور جوموسم کے زیر اثر

حتہ یہاں کہیں نہیں ہے۔ ریت میں بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ سینڈ اسٹون الب

حھرکاچھوٹا حھا نمونہ مل جائے تو لیتے چلیں گے۔ اس پت حھر کا اچ ہم کو خیال تو تھا کہ کسی پت

آادھ کلو سا ٹکڑا ہی سہی )کہ ہماری صابرہ بیگم کو بھی اعتراض نہ ہو کہ خواہ مخواہ ایک

آاج ہی آاس پاس دیکھتے ہوئے چلتے تھے۔ بد نبوی بنائی گئی ہے۔ وزن بڑھا لیا( جس سے مسج

کھانستے کھانستے صبح ساڑھے نو بجے مسجد کی طرف جا رہے تھے اور اور راستے سے ہٹ

آاس پاس نئی کر رایل اندلس ہوٹل کے پیچھے کی طرف بیٹھ کر سگریٹ پی رہے تھے ۔ یہاں

نئی عمارتیں بن رہی ہیں)جس کا ذکر کر چکے ہیں( یا توسیع ہو رہی ہے۔ اور یہاں سامنے ہی

کا ٹکڑا تھا۔ ہم نےx10"2ہماری نظر گلابی گرینائٹ کے ایک پالشڈ ٹکڑے پر پڑی۔ یہ لمبا

اس کا بھی نصف لیا ہے اور سگریٹ ختم کر کے مسجد کی طرف گئے تو دربانوں نے اس

اس ٹکڑے پر بھی اعتراض کیا۔ معلوم نہیں کیوں اسے بھی ممنوع ^رار دیا۔ کھانے پینے کی

چیزوں کو اندر لے جانے کی پابندی ہے، وہ تو ٹھیک بھی ہے۔ حالاں کہ یہ بھی مSض ہمارا

حھر حھر سے یہ دوسری عمارتیں بن رہی ہیں۔ وہی یعنی اسی مقام کے پت ^یاس ہی ہے کہ جس پت

بم مدینہ کی تعمیر ہوئی ہوگی، اگرچہ ^سم تو وہی ہے گلابی گرینایٹ کی۔ بہر حال اس سے حر

ت اس ٹکڑے کو بیگ سے نکال کر ایک کونے میں دیوار کے پاس رکھ دیا کہ اندر جانے و

کا بھی جی چاہ رہا تھا۔ بعد میں ہم اگرچہ ^ضا نمازوں کے بعد روزے کی طرف جا کر

حنت کی سیر کرنے کے بعد۔، مگر اس مدینہ دوسرے درواازے سے باہر نکل گئے تھے ج

حھروں کو ان کے مقام کے نام سے یاد کرتے ہیں(کے گرینائٹ )جی ہاں، ہم جیالوجسٹ پت

Page 145: اللہ میاں کے مہمان

بل مسجد ہو کر اسی دروازے سے باہر یہ دعا کرتے ہوئے نکلے کہ یہ ٹکڑے کے لئے پھر داخ

ٹکڑا مSفوظ ہو۔ مگر افسوس کہ وہ ٹکڑا پھنکوا دیا گیا تھا۔ ہم کو اس کا ماخذ تو یاد تھا۔

آاگئے ہیں ہمارے استاد ناصر آادھا ٹکڑا لے کر اس لئے ہم پھر اسی مقام پر پہنچے اور وہی با^ی

کاظمی مرحوم )انھیں بھی ہم مجازی طور پر اپنا استاد کہہ رہے ہیں جس طر� غلام علی کو

اپنا دوست کہا تھا( کا مصرعہ دہراتے ہوئے جسے اس باd کا عنوان بنایا ہے۔

آاج بھی اس بد نصیب کی فجر کی جماعت نکل گئی۔ اگرچہ آاج کی بقیہ تفصیل یہ ہے کہ

پر نکل سکے تھے ۔ بہرحال ہم نے حرم میں ہی اپنی انفرادی نماز پڑھی، پھر سورج5۔20

منٹ بعد تک۔ جب اشراق کا25۔20نکلنے تک وہیں درود شریف وغیرہ پڑھتے رہے۔ بلکہ اور

آائے۔ صابرہ ت ہوا تو اشراق کی نماز پڑھ کر اور کچھ ^ضا نمازیں پڑھ کر سات بجے واپس و

آاکر سو بھی گئی تھیں۔ ان کے اٹھنے کا انتظار کر آاگئی تھیں۔ ہم لوٹے تو یہ نماز پڑھ کر ہی

بجے ناشتے کے لئے باہر نکلے۔ سامنے کے پاکستانی ہوٹل ہی ۔ پھر کچھ دیر باتیں8کے

کرتے رہے، مگر کھانسی تو اٹھ ہی رہی تھی صبح سے ہی۔ اس لئے ساڑھے نو بجے پھر نکل

گئے اور مدینہ گرینائٹ کی دستیابی کے سلسلے میں با^ی تفصیل لکھ ہی چکے ہیں۔ گیارہ

ریال کی2۔2بجے سے پون گھنٹے بازار میں گھومے کہ خریداری کا کچھ پلان بنا سکیں۔

خرید لئے کہ دوستوں کو دے سکیں اور پھر ظہر کے لئے مسجد‘^بلہ نما’دوکانوں سے کچھ

آالو مٹر کی سبزی لائے ہیں اور دہی۔ ابھی پونے دو بجے تک آاکر اسی افغانی تندور سے واپس

آایا کہ یہ کہہ کر گئی تھیں کہ نماز کے بعد روضے کی طرف صابرہ کا انتظار کیا پھر یاد

Page 146: اللہ میاں کے مہمان

حصہ کھلتا ہے اور ہم ان کا انتظار نہ3 سے 2جائیں گی کہ بجے تک بھی عورتوں کے لئے یہ ح

کریں اور کھانا کھا لیں۔ چناں چہ کھانا کھا کر یہ لکھنے بیٹھ گئے ہیں۔

ا ادھر کی بادھر مزید کچھ

آاٹو موبایل شاپس ہیں یعنی موٹروں کے سامان ہماری لاج جس علا^ے میں ہے اس مین سب

dحکر میں بھی لگایا کہ شاید یہاں بھی ہمارے پنجا حکر مSض اس چ کی دوکانیں، ایک چ

آاجائیں ۔ ہندوستان میں تو ہر شہر میں اس بازار میں ان کا ہی ^بضہ ہے۔‘دے’ سردار جی نظر

کی دوکان میں ہم کسی دار جی کو‘سامان سیارات’مگر اس سڑک پر مایوسی ہوئی۔ کسی

آاکال کر کے گل 'نہیں کر سکے۔سیارہ یہاں موٹر گاڑیوں کو کہتے ہیں۔ معلوم’ست سری

نہیں کیوں انھیں سیارہ کہتے ہیں۔ کاریں تو یہاں چھلاوہ ہیں اور سیارے تو اپنی رینگتی چال

کے لئے مشہور ہیں جب کہ یہاں کی کاریں برق رفتار ہیں یعنی اس تیز رفتاری سے سڑکوں پر

دوڑتی ہیں کہ ہم نے ہندوستان میں کہیں نہیں دیکھیں۔ یہاں تک کہ مقامی بسیں اور نجی

حکہ مدینہ کی کلو میٹر452گاڑیاں )جو غیر ملکی حاجیوں کے علاوہ مقامی لوگوں کی ہوں( م

حتہ سب 5کی دوری پا بہ بریک' رہتے ہیں۔’ گھنٹے میں طے کر لیتی ہیں۔ حاجیوں کے لئے الب

آاپ کو جگہ ضرور آاپ اپنی مرضی کے مطابق سڑک پار کر سکتے ہیں۔ ڈرائیور حکے میں تو م

آاتا دیکھ کر رک گئے تو وہ اپنی گاڑی روک کر اشارہ کرے آاپ کسی گاڑی کو دے گا۔ اگر

اف لنا۔ مدینے میں حجاج شر بت ح آاپ پہلے گزر جائیے جناd حاجی صاحب کہ خدم گا کہ

Page 147: اللہ میاں کے مہمان

بد نبوی اور ہماری لاج کے درمیان ایک چوراہا پڑتا ہے اس پر پولس کھڑی رہتی ہے اور حتہ مسج الب

حجاج کو اپنی مرضی سے سڑک پار کرنے نہیں دیتی۔ ح

جب بات کاروں اور ٹریفک کی ہو رہی ہے تو کچھ جان کاری پڑھنے والوں کو اور دے دی

جائے۔ ایک تو یہ کہ یہاں سڑک کے دائیں طرف چلنے کا رواج ہے امریکی نظام کے مطابق۔

' ہیں یعنی اسٹئیرنگ بائیں طرف ہے۔۔ اور یہئیولیفٹ ہینڈ ڈرا’اور اسی وجہ سے زیادہ تر گاڑیاں

کہ یہاں گاڑیوں کے نمبر سات ہندسی ہیں، اس سے پہلے اے،بی،سی،ڈی کچھ نہیں ہوتا

جیسے کہ ہندوستان میں نمبروں میں پہلے ریاست اور پھر شہر کا کوڈ ہوتا ہے۔ یہاں اوپر

السعودیہ اور اس کے بعد ایک ڈیش کے بعد نجی گاڑی ہونے سے لکھتے ہیںـلکھتے ہیں

نقل'۔ بسوں کے لئے’خصوصی' اور سرکاری گاڑی ہونے سے اس کے مSکمے کا نام جیسے ’

أاجرتحافلہ' لکھتے ہیں۔ ٹیکسیوں )تاکسیوں (کے لئے ’ آاک ایک’'، ایمبولینس ’ اسعاف' ہے۔

"کے لئے عربی میں لکھا تھاAccessoriesترجمہ بھی مزے کا دیکھا۔ "

آاواز کے لئے ہم تین نقطوں کی Vالاکسسوار'۔ وی )’ ف' کا ذکر پہلے بھی کر چکے’(کی

ویڈیو' کے لئے یہ حرف استعمال نہیں کیا گیا ہے۔’ہیں مگر یہاں سامنے کی دوکان میں ہی

تلفزیون'’فیدیو' اور ’الالکترونیات' )الکٹرانکس( کی دوکان میں ’اور نہ ٹیلی ویژن کے لئے۔ اس

آاتی ہیں۔ ریسٹوراں کے لئے تو مختلف لکھا گیا ہے۔ انگریزی میں اکثر املا کی غلطیاں نظر

آاباد کی ایرانی ہوٹلوں میں۔ یہاں آاتے ہیں خاص کر حیدر حجے ہندوستان میں بھی نظر لانڈری'’ہ

یاLondry لکھا ہے تو کہیں اور Launderyکا بھی یہی حال ہے۔ کہیں

Page 148: اللہ میاں کے مہمان

Landry تنظیف المبالس' لکھتے ہیں۔ لفظ ملبوسات شاید’مغسلہ' یا ’ ۔عربی میں اسے

صرف ہندوستان کی اردو فارسی میں ہے، یہاں لباس کی جمع مبالس ہے۔

کچھ اور ارضیات

حٹان ہوتی ہے جسے ارضیات کی اصطلا� میں کانگلومریٹ' )’ایک چ

Conglomerateاا ندیوں میں ( کہتے ہیں۔ اس کی بناوٹ اس طر� ہوتی ہے کہ مثل

حھر ) ( ہوتے ہیں،وہ کسی بھی جگہ جمع ہو کرPebblesجو مختلف ^سم کے گول پت

حھر حھروں کی بستگی ہو جائے تو یہ پت مٹی وغیرہ سے ڈھک جائیں یا کسی اور طریقے سے ان پت

حھر کی خصوصیات اور جغرافیائی حیثیت کے مطابق اس کا نام دیا بنتا ہے۔ ارضیات میں ہر پت

حھر۔ حھروں کوکڈاپہ گروپ کے پت آاندھرہ پردیش میں کڈاپہ ضلعے کے رسوبی پت جاتا ہے۔ جیسے

حلی حھروں کو بھی نام دیا جاتا ہے جیسے بنگنا پ اسی طر� کانگلومریٹ اور دوسرے پت

آاباد میں مشہور ہیں۔ یہ آام حیدر حلی اسی مقام کا نام ہے جہاں کے ^لمی کانگلومریٹ )بنگنا پ

مقام جنوبی ہند کی ارضیات میں اپنے کانگلومریٹ کے لئے مشہور ہے(۔

آا گیا یہ تمہید ہم نے اس لئے باندھی کہ ارضیات کی ایک انگریزی کتاd کا ایک کارٹون یاد

برارضیات ایک پرت کا معائنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بئر کین’تھاجس میں ایک ماہ

حھروںBeer can Conglomerateکانگلومریٹ') حھر میں گول پت ( کہ اس پت

Page 149: اللہ میاں کے مہمان

آاج کے کسی سمندری ساحل کے مستقبل کی حبے بھرے تھے۔ یہ دراصل کی جگہ بئیر کے ڈ

حھر میں تبدیل طرف اشارہ تھا۔ اd سے لاکھوں سال بعد اگر یہاں کی مٹی اس ^سم کے پت

کانگلومریٹ' کہا جائے گا کیوں کہ یہاں ہر طرف پےپسی اور دوسرے پےپسی’ہوگی تو اسے

آاتے ہیں۔ ویسے یہ بکھرے تو نہیں رہتے کہ سڑکوں کی صفائی کا حبے نظر بڈ کولڈ ڈرنکس کے

آایا کہ جس دن ہم نے حتہ یہ اس لئے یاد بہت عمدہ انتظام ہے۔دن بھر صفائی ہوتی رہتی ہے۔ الب

حکے میں ^دم رکھا، وہاں اور پھر مدینے میں بھی ہر سڑک پر کچھ حلقے' لگے ہوئے’م

دیکھے۔ ہم پہلے سوچتے رہے کہ یہ کیا شے ہے جس سے سڑک بنانے میں مدد لی جاتی ہے۔

حبہ کھولنے کے لئے ایک حلقہ بنا ہوتا حبوں میں ڈ غور کیا تو معلوم ہوا کہ ان کولڈ ڈرنک کے ڈ

حصہ کٹ آاپ ڈرنک پینے کے لئے اس حلقے میں انگلی ڈال کر کھینچیں تو ایک تکونا ح ہے۔

حبہ کھل جاتا ہے۔ صفائی کرنے والے ایک برش اور ایک بڑا بڈ اسکوپ' لئے گھومتے’جاتا ہے اور

آاسانی سے سما جاتے ہیں مگر یہ حلقے حبے اور پالی تھین پیکٹ اس میں رہتے ہیں۔ بڑے ڈ

چھوٹ جاتے ہیں، گرمی کی وجہ سے سڑک کا کولتار بہتا ہے تو یہ حلقے سڑک میں پیوست

آانے جانے والی گاڑیاں مزید روڈ رولر کا کام کرتی ہیں۔ سعودی عرd والے کسی ہو جاتے ہیں۔

سڑک کو ایکسYریس ہائی وے، کسی کوایکسYریس وے، اور کسی کو مSض ہائی وے کہتے

پےپسی کین وے'کہنا بجا ہوگا۔ ہم نے ارضیات کی’ہیں مگر سچ پوچھئے تو ہر سڑک کو

سرخی لگائی اور پٹری سے اتر گئے۔ مگر دراصل پٹری سے اتر کر اسی سڑک پر چلنے کے

آاپ تو سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ لئے ہی ہم نے یہ سرخی لگائی تھی۔

اd با^ی پھر لکھیں گے سوا تین بج رہے ہیں اd عصر کے لئے نکلیں گے۔

Page 150: اللہ میاں کے مہمان

...... شیطان کھڑا دام لگائے

/ اپریل ۔ساڑھے دس بجے رات11

dحج کا ساتھی' میں لکھی ہے’ہمارے مولانا عبدالکریم پاریکھ صاحب نے جو بات اپنی کتا

ات میں شیطان کسی آائے، مولانا نے لکھا ہے کہ اکثر نماز کے او اس پر ہم کل ایمان لے

دوکان دار کی صورت میں کھڑا ہو جاتا ہے اور عام طور پر کسی شے کے نصف دام لگا کر

آاوازیں لگاتا ہے اور اپنا دام پھیلاتا ہے۔کل ہم یہ روزنامچہ لکھ کر عصر کے لئے نکلے تھے کہ

آاواز لگائی جا رہی تھی ریال کے تین10’سڑک پار کرتے ہی ایک دوکان میں کھجوروں کی

کلو'۔ اd یہاں یہ جملۂ معترضہ ^سم کی بات لکھ دیں کہ اکثر دوکانیں کھلی ٹویوٹا کاروں یا

وینوں میں ہوتی ہیں، بغیر چھت کی۔ صرف ڈرایؤر کے سر پر چھت ہوتی ہے اور پیچھے کے

حصے میں جہاں حمل و نقل کے سامان کی جگہ ہوتی ہے، وہاں دوکان سجائی جاتی ہے، ح

کھجوروں کی یہ ایسی ہی دوکان تھی۔ یہ تو ہم لکھ چکے ہیں کہ حرمین میں کھانے پینے کی

ت خریدنا بیکار تھابہرحال کچھ اور چیزیں لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس ۔لئے اسی و

آاواز لگا رہا تھا۔ پھر حرم کے حچہ چار ریال کی ایک درجن تسبیSوں کی آاگے بڑھے تو ایک ب

آاستین کے۔ ہم نے’ ریال کے 10۔10^ریب ہی ایک حبشی توd' بیچ رہا تھا، وہ بھی پوری

ت ^ریب ہے، بعد میں دیکھیں گے کہ عصر اور مغرd کے درمیان سوا دو سوچا کہ نماز کا و

Page 151: اللہ میاں کے مہمان

آایا آائے تو نہ وہ توd والا نظر فہ ہوتا ہے۔ عصر کے بعد ہم پھر اسی طرف ڈھائی گھنٹے کا و

آائے تو وہی کھجور والا )یا شاید اسی جگہ حتہ سفارت خانے کی طرف اور نہ تسبیSوں والا۔ الب

حچھی طر� نہیں دیکھی پر کوئی دوسرا دوکان دار، ہم نے پہلے دوکان دارکی شکل تو اتنی ا

dکے لئے چلے گئے۔5تھی( ا dت تو ہم پھر مغر ریال فی کلو کھجور بیچ رہا تھا۔ اس و

10بعد میں عشاء کی نماز کے بعد ہم نے اسی دوکان دار سے پوچھا بھی کہ بھائی پہلے تو

ریال کے تین کلو بیچ رہے تھے۔ اس اللہ کے بندے نے یہ بات ^بول کرنے کی بجائے یہ کہا

dفوظ4کہ اSریال کے بھاؤ سے لے لیں۔ ہم نے یہی کیا اور اس طر� شیطان کے داؤ سے م

رہے۔

کچھ کھجوروں کے بارے میں

ویسے مدینے کی کھجوریں تو مشہور ہیں ہی، ان میں ایک عجوہ کھجور بہت مشہور ہے جس

آاں حضرت نے اپنے ہاتھکے بارے میں کئی احادیث ہیں اور کہا جاتا ہے کہ کھجورکی یہ ^سم

آاپ نے دو ہی پودے آائی تھی۔ سے مدینے میں لگائی تھی اور اس کی ^لم کہیں باہر سے

ی مدینے بھر میں اور پھر سارے عرd میں یہ ^سم پھیل گئی۔ اسلگائے تھے اور ان سے ہ

کھجور میں کئی بیماریوں کے لئے شفا ہے۔ شایداسی لئے یہ کھجور بہت مہنگی ہے۔مدینے

مرکزی سوق التمر' ) تمر اd کھجور کو ہی کہتے ہیں، خرمہ نہیں۔ یہ بھی شاید’میں ایک

حفظ ہے جیسا کہ جدید عربی میں ’لفظ ت' کر دیاجاتا ہے(۔ اس’ث' کو ’ثمر' کا بگڑا ہوا تل

Page 152: اللہ میاں کے مہمان

آائے تھے۔ وع ایک دن دیکھ کر بل و Sکے بارے میں ہم لکھ چکے ہیں جب ہم اس کا م

8ویسے حرم کے مشرق میں جو بازار ہے، اس میں بھی انواع و ا^سام کی کھجوریں ملتی ہیں

آارہے ہیں۔25سے لے کر ت ہم کو ان ^سموں کے نام بھی یاد نہیں ریال فی کلو تک۔ اس و

ہم کو سستی کھجوروں کی تلاش تھی کہ وطن زیادہ سے زیادہ لے جا سکیں۔ عجوہ

کھجوروں کے لئے بھی مظہر بھائی سے کہہ دیا ہے کہ وہی پہچان کر ہمارے لئے لے لیں۔

یہاں پہنچنے کے اگلے دن ہی جب ہم اسرار میاں کی معیت یا رہنمائی میں مدینے کی زیارتیں

بد ^با اور شہدائے احد کے بازاروں سے ریال فی کلو سے6 اور 5دیکھنے گئے تھے تو مسج

ت ہم کو بازار کے بھاؤ کا کچھ اندازہ نہیں بڑی تازہ تازہ کھجوریں لے لی تھیں، مگر اس و

تھا اور خریداری کی مہم شروع نہیں کی تھی۔ اd پچھتا رہے ہیں کہ صرف تین کلو ہی کیوں

ریال کلو کی بھی کافی سوکھی10 اور 8خریدیں اس دن، اور زیادہ لے لینی تھیں۔ یہاں

آارہی ہیں بازاروں میں۔ کسی دن کوئی اور احد کی طرف جانے والا ملے ورنہ ہم کھجوریں نظر

حدے میں’خود ہی آائیں گے، ورنہ پھر بعد میں ج تاکسی' میں جا سکیں تو وہاں سے ہی لے کر

دیکھیں گے کہ حج کے بعد وہاں بھی جانے کا ارادہ ہے۔ صابرہ کے بہنوئی کے چھوٹے

بد ^با حدت سے مدعو کر گئے ہیں۔ مسج بھائی با^ر اور اور ان کے بہنوئی اشفاق بھائی کافی ش

میں بھی نماز پڑھنے کا ثواd عمرے کے برابر ہے۔ اگر ہو سکا تو اگلے سنیچر کو )شاید اسی

نمازیں مکمل ہونے کے بعد( کہ وہاں سنیچر کو نماز زیادہ40دن یہاں سے روانگی ہوگی

افضل کہی جاتی ہے۔

Page 153: اللہ میاں کے مہمان

ب� اموات کم ہو گئی ہے شر

حج و عمرہ کی کتابوں میں اکثر لکھا ہوا دیکھا ہے کہ حرمین میں ..یعنی بیت اللہ اور مسجد

آاپ dبز جنازہ ہوتی ہے۔ ا نبوی دونوں جگہ اکثر فرض نمازوں کے بعد کسی نہ کسی کی نما

آاتی ہی نہیں تھی، خدا بھلا کرے ان بز جنازہ پڑھنی سے جھوٹ کیا بولیں۔ ہم کو پہلے نما

حکے میں جو حج گائڈس لکھنے والوں کا کہ ان کتابوں سے ہی ہم نے یہ نماز سیکھی ہے۔م

بز جنازہ ضرور ہوئی۔ یہاں چار دن تھے اور جتنی نمازیں حرم میں ادا کیں، ہر نماز کے بعد نما

دن تک وہی معمول چلا ہے۔ مگر کل یہ انھونی بات ہوئی کہ عصر اور پھر مغرd کے6بھی

آاج بھی عصر اور عشاء کی نمازوں کے بعد بعد بھی کوئی جنازے کی نماز نہیں ہوئی ہے۔

بز جنازہ حرم میں پڑھی جاتی ہے۔ نہ جانے ان یہی ہوا۔ خوش ^سمت ہیں وہ لوگ جن کی نما

میں کتنے غیر ملکی حاجی بھی رہے ہوں گے۔ ہم شروع سے ہی یہ دعا کرنے لگے تھے کہ اللہ

حمل ان حجاج کرام کو موت سے فی الSال مSفوظ رکھے کہ بے چارے کم از کم حج تو مک

عے پر بھی ہم نے یہ دعا کی تھی جو کل سے ^بول ہونی کر لیں۔ شاید ^بولیت کے کسی مو

ب� اموات کم ہو گئی ہے۔ شروع ہوئی ہے کہ شر

Page 154: اللہ میاں کے مہمان

خریداری جاری ہے

آاج ہماری صابرہ بیغم کو بھی ساتھ کل ہم نے عصر کے بعد اکیلے کچھ خریداری کی ہے اور

ریال کے سامان کی ایک دوکان دئکھی تھی، وہاں سے انھیں کے5۔5لے لیا ہے۔ کل کچھ

آاباد کی زبان میں ہیانڈ بیاگ ' لکھیں گے(لیا تھا’لئے ایک پرس یا لیڈیز ہینڈبیگ )اسے حیدر

جو ^یمت اور کوالٹی کے حساd سے مناسب ہی لگا۔ مگر رات کو صابرہ نے جو غلطی

ڈی' کی شکل کا ہے اور’بتائی۔ اس کی طرف ہمارا دھیان نہیں گیا تھا۔ یہ انگریزی حرف

ہماری بیغم کا کہنا تھا کہ اس میں سامان کس طر� رکھا جا سکتا ہے۔ جو رکھیں گے،

آاجائے گا۔ پانی پانی کر گئی ہم کو ^لندر کی یہ بات۔ مصرعہ صSیح فٹ ڈھلک کر بیچ میں

نہیں ہوا شاید۔ ا^بال تو ا^بال ہی ٹھہرے، ان کا واسطہ ^لندروں سے ہی پڑا تھا شایدبیغموں سے

ریال کی دوکانوں میں بھی15 اور 10نہیں۔ بہر حال ہم نے تلافی کی غرض سے کہا کہ ہم

آاج ان مSترمہ کو آائے ہیں۔ آاگیا ہے تو وہ بھی لے لیا10پرس دیکھ کر ریال کا ایک پرس پسند

10 اور با^ی نصف چیزیں 5 ریال والی تھی، یعنی نصف چیزیں 10 اور 5ہے۔یہ بھی ہر مال

(ChipsچYس' چھاپ )’ ریال کی اطالوی سینڈل 20ریال کی۔ کل ہم نے اپنے لئے

حYلیں دیکھیں آاج صابرہ نے بھی چ خریدی جو بہت ہلکی پھلکی اور مضبوط معلوم ہوتی ہے۔

حتہ تSفوں کے لئے کافی سامان خرید لیا جیسے آائیں۔ الب ریال کا ایک5مگر ان کو پسند نہیں

(جس میں ایک ^لم )بال پین(، ایک تسبیح ایک انگوٹھی اورGift Setگفٹ سیٹ')’

Page 155: اللہ میاں کے مہمان

ت Calculatorایک کیلکولیٹر ) آائے’اے' اور ’( تھا۔ انگوٹھی پر اس و بی' حروف نظر

ا بی' حرف والی انگوٹھی والا سیٹ لیا۔ اسیـتھے تو ہم نے ہمارے دوست بشیر میاں کے لئے

آایا کہ ہمارے دوسرے دوست ثناء اللہ کے لئے حرف ’ ایس' کی انگوٹھی والا بھی شام یاد

ایک سیٹ لے لیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سیٹ یا کم سے کم انگوٹھی بنانے والوں نے

ت تک صرف ’سی' تک انگریزی پڑھی تھی۔ کہ ہر انگوٹھی میں یہ تین ہیانگوٹھی بناتے و

( ہو توSolarسولار')’حروف تھے۔ایک کیلکولیٹر اور لیا۔ دوکان دار سے پوچھا کہ بھائی

شمسی۔ شمسی'۔’دکھاؤ، مگر وہ سمجھا نہیں۔ ایک اور خریدار نے ہماری مدد کی ۔ کہا

آایا کہ کا دوکان‘ شمسی کالکولیتر’واہ۔ اتنی سامنے کی بات تھی۔ مگر ہم کو خیال نہیں

ریال کا ہے مگر عام ^سم کا ہے۔ سائنسی نہیں جس میں کئی10والے سے کہیں۔ یہ بھی

Functions ریال کی2۔2 ہوں۔صابرہ کچھ لڑکیوں کا سامان بھی دیکھ رہی تھیں۔

عدد دست بند بھی الگ الگ طر� کے پسند کر کے خرید لئے۔اس کے علاوہ3دوکانوں سے

حYل۔ جو دراصل بیڈ روم سلیYر کہلاتی ہے۔ آائی۔ کYڑے کی چ ریال کی یہ2ایک چیز اور نظر

حھر کے فرش پر طواف کرنے اور آایا کہ بیت اللہ میں پت بھی خرید لی ہے۔ اس کا خیال یوں

ویسے بھی کافی چلتے رہنے کی وجہ سے ہمارے دائیں پیر میں چھوٹی انگلی کے نیچے

Mountکافی تکلیف دینے لگا ہے۔ ویسے تو ان فرائض اور dحٹہ ہو گیا ہے۔ یہ ا پر ایک گ

واجبات کی ادائیگی میں جتنی زیادہ تکلیف ہو، اتنا ہی زیادہ ثواd ہوتا ہے۔ مگر ہم سوچتے

ہیں کہ جب اس ثواd کا وزن اتنا ہو جائے گا کہ اٹھائے نہ بنے تو ہم یہ سلYرس استعمال کرنے

کا ارادہ رکھتے ہیں۔

Page 156: اللہ میاں کے مہمان

تندوری پراٹھے

آایا تھا کہ وہاں کل دوپہر کو ہم ایک بات لکھنا بھول گئے تھے۔ تندور پر سننے میں

'بسکوت'اور چYاتی کے علاوہ پراٹھے بھی بنتے ہیں جو ہم نے اd تک نہیں دیکھے تھے۔ کل

سامنے کی ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ کچھ لوگ کاغذ میں لYٹے ہوئے خستہ

آائے اور چائے کے ساتھ کھا رہے تھے۔ہم نے سوچا کہ شاید افغانی تندور خستہ پراٹھے لے کر

میں بھی یہی پراٹھے ملتے ہوں گے۔ چناں چہ کل ناشتے کے لئے ہم اپنے تندور کی طرف گئے

تو پوچھا۔ پراٹھے مل تو گئے مگر یہ کسی اور ^سم کے نکلے جو چائے کے ساتھ کھانے کے

^ابل نہیں تھے، انھیں ہم نے دوپہر کے لئے رکھ لیا اور چائے کے لئے ہوٹل گئے تو پھر وہاں

آایا۔ اس سے ہی کیک کے ساتھ ناشتہ کیا۔ اس پراٹھے کو دوپہر کھانے میں کھایا تو پسند

میں اندر گھی یا تیل کی وجہ سے پتلی پتلی پرتیں بن جاتی ہیں اور کافی نرم ہو جاتا ہے۔

حکے میں چناں چہ ہم کل سے یہی پراٹھے لا رہے ہیں اور دعا کر رہے ہیں کہ ایسا ہی تندور م

آائی تھی۔ یہ بھی دریافت ہو جائے ۔ اd پرسوں وہاں واپس جانا ہے۔وہاں مچھلی بھی نہیں نظر

آاکر ہم نے مرغی گوشت چھوڑ دیا تھا۔ ہاں ،ایک بار تو ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ مدینہ

آاج بطور خاص ڈھونڈھ کر لائے کہ پھر معلوم نہیں کہ 'نان ویجی ٹیرین مچھلی مل گئی تھی۔

حلم مگر چھوٹی تلی ہوئی مچھلی ملی تھی ایک3'کھاناکب نصیب ہوتا ہے۔یہاں ریال کی مس

پاکستانی ہوٹل میں ہی۔

Page 157: اللہ میاں کے مہمان

آاج جانا پڑا... ...موہے پی کے نگر

ت تک بحللہ39کل رات ہماری رخصتی ہے۔ اس و اد نمازیں یہاں پڑھ چکے ہیں اور الSم

ت 40شایددو نمازوں کو چھوڑ کر ساری نمازیں جماعت سے ادا ہوئی ہیں۔ کل فجر کے و

نمازیں پوری ہو جائیں گی جیسا کہ مدینے کے ^یام کا ^اعدہ ہے اور کل عشاء کے بعد روانگی

حکے کے ت م حلم کی طرف سے۔ چناں چہ ہم کل اس و کا نوٹس لگا دیا گیا ہے ہمارے مع

الSلیفہ کی عہ ہے۔ ذو ا راستے میں ہوں گے اور احرام میں ہوں گے۔ ایک اور عمرے کا مو

ت بچے گا۔اگر چہ احرام بد میقات کی بجائے یہاں سے ہی احرام باندھ کر چلیں تو و مسج

اSلیفہ میں پڑھیں گے، سنا ہے کہ بس والے وہاں غسل اور نماز کی نیت اور واجب نماز ذو ال

حکے پہنچتے ہی پہلے عمرہ کر لیں گے۔ چناں چہ کل کے لئے روکتے ہیں۔ اتوار کی صبح م

بل پاک سے رخصت ہوناہے۔ لیکن ہم کو مSسوس ہوتا ہے کہ ہم اللہ والے زیادہ ہو گئے رسو

ہیں۔ جو حالت ہماری بیت اللہ میں ہوتی ہے وہ بات یہاں نہیں۔ بلکہ خوشی ہی ہو رہی ہے کہ

عہ ملے گا اور پھر خوd طواف کریں گے۔ پھر بیت اللہ دیکھنے کا مو

Page 158: اللہ میاں کے مہمان

کچھ اختلافات

بجے دن2۔20/ اپریل، 12

آا رہی کل سے ہی ہماری سرائے میں ہمارے ہندوستانی ساتھیوں کو بہت سی مشکلات پیش

آائے تھے آاپ کو بڑا عالم فاضل سمجھتے ہیں ، اختلافات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہم بھی اپنے

مگر دو سوالات ہمارے ذہن میں بھی اٹھ رہے ہیں، ان کا ذکر بعد میں کریں گے، پہلے ایک

مسئلے کے بارے میں۔

حجہ شروع پونے سے پہلے Sآائے ہوتے اور ذوال ایک صاحب کا خیال ہے کہ اگر ہم مدینہ پہلے

حکے جاتے تو ضرور عمرہ کرتے اور اس کے سارے واجبات معہ حلق )یعنی سر کے بال واپس م

آاج ہی حمل کرتے۔ مگر حجہ ہے اور حج یا ^ربانی کرنے والے کو3منڈوانے یا کٹوانے ( مک Sذوال

بال کٹوانا منع ہے اس ماہ میں ^ربانی کرنے تک۔ اس وجہ سے ہم کو یہ عمرہ کرنا ضروری نہیں

حمل نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے نزدیک بال نہ کٹوانا یا ناخن نہ ہے کہ اس کی ایک شرط مک

حنت پر حنت ہے جب کہ عمرے کے لئے بال کٹوانا واجب ہے اور اسے پورا کرناس کاٹنا در اصل س

عمل کی بہ نسبت زیادہ ضروری ہے۔ کہ اس کی اہمیت واجبات سے کم ہی ہے۔ اس لئے

حکے حتہ اس ضمن میں ایک صاحب کا یہ نکتہ ہے کہ واجب عمرہ تو ہم م عمرہ کرنا بہتر ہے۔الب

پہنچتے ہی ادا کر چکے۔ اd سارے عمرے نفلی ہیں اور کرنے ضروری نہیں۔ )ہمارے خیال

Page 159: اللہ میاں کے مہمان

آاپ جتنی بار بھی حرم کی حدود میں داخل ہوں گے، عمرہ واجب ہی ہوگا(۔ ان کے میں تو

خیال میں اd جب اس عمرے کی نوعیت جو مدینے سے واپسی میں پھر میقات میں داخلے

کی وجہ سے کیا جائے، نفلی ہے تو اس کی شرائط بھی نفلی ہوں گی۔اس لئے کیا بھی جائے

آاپ نفل نماز کی نیت کریں بل ^بول نہیں۔ تو بال کٹوانے ضروری نہیں۔ مگر یہ دلیل ہم کو ^اب

تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے واجبات اd ضروری نہیں رہے۔اسی طر� نماز میں

سجدے رکوع نہ کریں یا سورۂ فاتSہ نہ پڑھیں اور ضد کریں کہ یہ نماز نفلی ہے اور اس کا

یمعیل صاحب کوئی جز فرض یا واجب نہیں تو کیا اسے نماز کہا جائے گا؟ہمارے 'ہم کمرہ' اس

dکا ارادہ نہ احرام باندھنے کا ہے اور نہ عمرہ کرنے کا۔ فرماتے ہیں' ایک عمرہ ہو چکا ہمارا، ا

بار بار کیوں کریں؟ اd حج ہی کریں گے'۔ خیر یہ صاحب تو اd تک پہلے عمرے کی ہی

آاتے ہی بیمار پڑ گئے تھے اور مدینے میں یعنی حرم میں ان بیچارے تھکن اتار رہے ہیں کہ یہاں

کی اd تک ایک نماز بھی ادانہیں ہوئی ہے۔ حالاں کہ دو تین دن سے ہم کو تو یہ صاحب

حچھا کھا پی رہے ہیں، سگریٹیں پی رہے ہیں۔ خیر۔ آارہے ہیں، ا ٹھیک ٹھاک نظر

آاج شام کو اd ہمارے ذہن میں پیدا سوالات۔ وہ یہ کہ عمرے کا ارادہ تو ہم کر ہی رہے ہیں۔

احرام باندھیں گے اور کل عمرے کا طواف اور سعی کریں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہمارا ارادہ

آافا^ی کے لئے بھی )یعنی جو یہ عمرہ اپنی والدہ کے نام سے کرنے کا تھا۔ہمارا خیال ہے کہ

آاج کل ہو گئے ہیں( میقات میں داخل ہونے پر میقات کی حدود سے باہر رہتا ہو اور جو ہم

آاپ دوسرے کے نام کا عمرہ واجب ہوتا ہے۔ تو ہم پر بھی یہ عمرہ واجب ہوگا، عام طور پر

آاپ کے لئے نفلی ہوگا اور جس کے نام کا کیا جائے، ان کا واجب پورا عمرہ کریں تو یہ عمرہ

Page 160: اللہ میاں کے مہمان

ہوگا۔ اd جب کہ یہ عمرہ ہم پر ہی واجب ہے تو دوسرے کے نام کا کس طر� ادا ہو سکتا

حیت اس طر� کریں گے کہ ہم بل غور ہے۔ ہمارا ارادہ تو یہ ہے کہ ن ہے؟ علماء کے لئے یہ نکتہ ^اب

پر وجوd پورا ہونے کے ساتھ ساتھ اگر ^بول ہو سکے تو یہ ہماری والدہ کی طرف سے بھی مانا

اا اور عمرہ بھی کر لیں گے۔ ایک عمرہ والد کی جائے۔ ویسے بعد میں ہم ان کے نام کا احتیاط

حدہ بھی جانا ہے جیسا کہ لکھ چکے طرف سے ادا کرنے کا بھی ارادہ ہے۔ حج کے بعد ج

ہیں اور وہاں سے واپسی میں بھی ایک عمرہ ہوگا، مگر اس کی نوعیت بھی اسی ^سم کی

حکے سے بھی اکثر لوگ بطور ہوگی کہ ہم پر بھی میقات سے گزرنے کے باعث واجب ہوگا۔ م

آاکر عمرہ حکہ بد عائشہ جا کر احرام باندھتے ہیں اور پھر م خاص وہاں کی ایک میقات مسج

کرتے ہیں تو اس طر� بھی یہ لوگ خود پر عمرہ واجب کر لیتے ہیں۔ پھر نفلی عمرہ ہو ہی کس

طر� سکتا ہے؟ بہر حال ہم نے اپنے ارادے کا لکھ ہی دیا ہے۔ خدا ^بول کرے، ہمارے لئے

حتہ ہمارا یہ مسئلہ ضرور ہے کہ اس حکم کی نوعیت کیا ہے کہ بھی اور والدین کے لئے بھی۔ الب

آان میں تو نہیں ہے، اس حکے کے جوار میں معہ احرام کے ہی داخل ہوں اور عمرہ کریں۔ ^ر م

حنت۔ سلسلے کی احادیث ہی ہوں گی۔ معلوم نہیں کہ اسے واجب کہیں گے یا س

بم تشریق ) یعنی حجہ ( میں ہی بال اور ناخن10، 8،9دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مSض ایا Sذوال

کاٹنا منع ہے یا عشرے کے تمام دس دنوں میں؟ اور اس حکم کی نوعیت کیا ہے، واجب،

حنت یا مSض احسن یا افضل۔اگر واجب نہیں جس کا ہمارا خیال ہے تو اس پر عمل کرنے س

کی ضرورت نہیں۔

Page 161: اللہ میاں کے مہمان

بد نبوی سے وداع مسج

بد نبوی سے وداع لے لیں اd تھوڑی دیر میں ہم عصر کے لئے جائیں گے تب ارادہ ہے کہ مسج

آاج صبح گے اس لئے کہ عصر کے بعد نہانا دھونا ہے اور احرام کی تیاری کرنی ہے۔ ویسے

حنۃ میں زیادہ سکون سے عہ مل گیا تھا اور ریاض الج رکعت نماز ادا2روضۂ پاک پرجانے کا مو

حنۃ میں نہ صرف ^الین یا جا نمازیں سفید آایا ہے کہ ریاض الج کرسکے تھے۔ اd یہ سمجھ میں

حھروںکی ڈیزائن اور سبز رنگ کی ہیں بلکہ اس کے ستونوں پر سنہری اور سرخی مائل بھوری پت

بد نبوی ہے اس لئے حصہ ہی ^دیم ترین مسج بھی دوسرے ستونوں سے مختلف ہے۔ روضے کا ح

حصہ ایر کنڈیشنڈ بھی نہیں ہے۔ یہاں لا تعداد پنکھے لگے ہیں جو چلتے رہتے ہیں۔ روضے یہ ح

حصہ ہے جہاں وہ چھتری کی چھت ہے۔بلکہ اور بعد کی نئی عمارت کے درمیان ہی وہ کھلا ح

حصے میں پڑھی حصے دو عدد ہیں۔ کل شام کو ہی ہم نے مغرd کی نماز اس ح ایسے کھلے ح

اور پہلی بار ان چھتریوں کو بند دیکھا۔ بند صورت میں یہ بھی میناروں کی شکل کی ہیں اور

یی کے علاوہ دوسرے ستونوں بد خضر ان پر بھی ویسی ہی سفید اور نیلی دھاریاں ہیں جیسی گنب

پر ہیں۔

حنت البقیع میں بھی جانا ہے۔ صبح ہم روضے سے باہر اس طرف نکلے ضرورتھے مگر وہ ج

ت عورتوں کے لئے مخصوص تھا اس لئے ^برستان کی جالیاں بند کر دی جاتی ہیں اور اندر و

جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

Page 162: اللہ میاں کے مہمان

حلیاں کبوتر اور ب

بدنبوی میں بھی کافی ہیں، مگر اس علا^ے میں کبوتروں کی بہتات ہے ۔ کبوتر ویسے مسج

بد نبوی میں نہیں۔ اس کے لئے ہر طرف گیہوں بیچنے یہاں ان کو دانہ ڈال سکتے ہیں، مسج

حچے کھڑے رہتے ہیں۔ ایک ایک ریال اور ریال کے پیکٹ فروخت5۔5کے لئے عورتیں اور ب

حکہ میں بھی دانہ بیچا جاتا ہے۔ بم م کرتے رہتے ہیں، اسی طر� حر

حلیاں یہاں آاگئی ہے جس کا ذکر کرتے چلیں۔ ب کبوتروں کے ذکر پر ہم کو ایک اور بات یاد

آاگئی ہیں، حرÁ العین حیدر یاد حلیاں ہی ہوں گی، ^ آاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ عربی ب گلیوں گلیوں نظر

آا رہا، کچھ فارسی میں ہی تھا انھوں نے اپنے ایران کے سفر نامے میں )اس کا عنوان یاد نہیں

اہد تھا( لکھا تھا کہ اہد آاج کل' رسالے میں ^سط وار چھYا تھا۔ اس کا ایک 'کردار ' اا ' اور غالب

اا حنفہ نے جواب حلیاں!' تو فاضل مص حلیاں دیکھ کر کہا تھا کہ 'دیکھو ایرانی ب ایران میں کسی نے ب

حلیاں ہیں تو چوہے حلیاں ہوں گی؟۔ اd ب حلیاں نہیں تو کیا ہندوستانی ب کہا تھا کہ ایران میں ایرانی ب

حلیوں کی غذا بھی ضرور ہوں گے اگر چہ ہمارا ان سے واسطہ نہیں پڑا۔ یا ممکن ہے کہ عربی ب

کچھ اور ہو یا عربی چوہے کسی اور ^سم کے ہوں۔

آاتی ہیں۔اس پر یہ بھی حلیاں سڑکوں سے دور رہتی ہیں اور صرف رہائشی علا^وں میں نظر یہ ب

حدہ حکے میں نہ مدینے میں۔ ج حتا ایک بھی نہیں دیکھا ہے، نہ م لکھ دیں کہ اd تک ہم نے ک

Page 163: اللہ میاں کے مہمان

حتے بش زمین پر ک کے ائر پورٹ پر بھی نہیں تھے، شہر تو ہم نے اd تک دیکھا نہیں ہے۔ فر

حوے بھی نہیں یہاں۔ کبوتروں کے علاوہ اور کوئی پرند ہم نے نہیں دیکھا آاسمان میں ک نہیں اور

بد ہے۔ ظاہر ہے کہ دوسرے پرندے درختوں میں رہتے ہیں جو یہاں مفقود ہیں۔ شاہین اور مر

آاشیانہ۔ کبوتر مSض روشن دانوں ، چھتوں کے کویلوؤں شاہین کی بات اور ہے جو بناتا نہیں

آارام کر لیتے ہیں یا ضرورت پڑنے پر گھونسلہ بنا لیتے ہیں، ان کو اور ٹی.وی کے اینٹینا پر

درخت کی بنیادی ضرورت نہیں ہوتی۔ شاید ان کی حکومت اور ہاؤسنگ بورڈ مجبور کرتا ہو تو

بت داخلہ'۔ یہاں درخت نایاd نہ ہوں کمیاd ضرور ہیں۔ گھونسلہ بناتے ہیں یا پھر ان کی 'وزار

حدے کے راستے میں سڑکوں پر صرف جھاڑیاں ہیں یا پھولوں کے پودے، بڑے پیڑ ندارد۔ ہاں، ج

ہم نے ببول اور سرو کے درخت ضرور دیکھے تھے۔

آاج کی تفصیل کچھ

آانکھ کھلی۔بغیر جماعت کے پڑھی5۔20آاج ہماری فجر کی جماعت نکل گئی کہ صبح پر

بدنبوی میں ہی کہ ہزار نمازوں کا ثواd تو ملے۔ چناں چہ اٹھ کر ضروریات سے50مگر مسج

آا کر کافی دیر کمرے پر ہی رہے۔پھر ناشتے کے اا ہی واپس فارغ ہوتے ہی بھاگے تھے۔ پھر فور

بد نبوی میں ^ضائیں پڑھیں، درود پڑھے اور آاٹھ پر دوبارہ نکلے اور مسج آاٹھ یا ساڑھے بعد سوا

حYل اور روضے پر سلام کر کے ریاض الجنۃ میں مزید نوافل پڑھ کر بازار کی طرف گئے۔ ایک چ

یی' کھجوریں5خریدی اور کھجوریں بھی۔ بھاؤ تاؤ کر کے 12 ریال کلو سے ایک کلو 'صغر

Page 164: اللہ میاں کے مہمان

آادھا کلو 'صقعی'کھجوریں اور آادھا25ریال فی کلو سے ریال کلو کی 'رومانہ'کھجوریں بھی

کلو خریدیں۔ اور دوسرے ^سموں کے نام ہیں'لبانا' جو چھوہارے نما ہوتی ہیں سوکھی سوکھی؛

یی عام ^سم کی ہے جیسی یی'۔ صغر 'مبروم' جو پیلے سر کی ہوتی ہیں اور سبزی مائل 'خضر

ہندوستان میں بھی ملتی ہے۔۔ صقعی سیاہ رنگ کی نرم نرم ہوتی ہے۔ساڑے دس بجے تک

آاگئے تھے۔اس کے بعد سامان باندھنے میں لگے، پھر وہ اختلافی مسائل کی باتیں چلتی واپس

رہیں مختلف کیمYوں میں۔ ظہر کی نماز کے بعد کھانے سے فارغ ہو کر ہم ساتھ کی کتابیں

دیکھنے لگے کہ کچھ ان مسائل کا حل ملے اور اd یہ روزنامچہ لکھ رہے ہیں۔ صابرہ اd تک

آائی نہیں ہیں ۔ ان کا کھانا ان کا منتظر ہے۔ دال اور لوبیا دونوں لائے تھے۔ ہاں، یہ لکھنا ہم

بھول گئے تھے کہ دال اور سبزی )اور گوشت( کے علاوہ ان تندوروں میں لوبئے کے بیجوں کا

ایک سالن بھی ملتا ہے جس کی دریافت کچھ بعد میں ہوئی۔ یہ ہمارے راجما جیسا اور کچھ

آائے تھے آاج سبزی ختم ہو گئی تھی تو دال اور لوبیا دونوں لے ویسے ہی مزے کا سالن ہوتا ہے۔

ورنہ پہلے کبھی دال اور کبھی لوبیا لاتے تھے۔ دال مسور کی تھی۔ کبھی بلکہ اکثر چنے کی

ت آاخری سلام کے لئے گئی ہیں۔ ویسے تو و ت روضے کے بجے3ملی تھی۔صابرہ اس و

آاتی ہیں یا پھر عصر پڑھ کر ہی۔ یا پھر عشاء کے تک رہتا ہے۔ اd معلوم نہیں کہ جلد ہی

اا کھانے کی فکر کم ہی رہتی ہے۔ بعد۔ ان کو عموم

حکے میں لکھیں گے عمرہ کرنے کے بعد۔ اd انشاء اللہ م

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم...

Page 165: اللہ میاں کے مہمان

یی۔سنیچر حجہ12/ اپریل، 19من Sذی ال

ساڑھے نوبجے صبح

آایا ہے، کیا لکھیں، کہاں سے شروع کریں۔ ^لم ہاتھ اd ایک ہفتے بعد کاغذ ^لم ہاتھ میں

میں لے کر سوچتے رہ گئے ہیں، ایک ہفتے کی داستان لکھی جانی با^ی ہے اور یہ ہفتہ بھی

؎نہ کوئی حادثہ گزرا نہ کوئیایسا ویسا نہیں جیسا ہمارے اخترالایمان مرحوم کہہ گئے ہیں

آاگ کا حادثہکام ہوا۔ ی یی کی ہ ہفتہ پر ازہنگام رہا۔ بہت سر گرم بلکہ گرم گرم بھی کہ من

آا رہا ہے کہ بھی اسی دوران گزرا۔ اd اتنے ہنگاموں کے بعد سکون ملا ہے تو سمجھ میں نہیں

اپر شور') یہ بر وعوں کی فہرست بنا لی جائے تاکہ کچھ ہم 'فک Loudکیا لکھیں، پہلے و

thinking:کا ترجمہ کرنے کی کوشش ہے ہم نے(کر سکیں

/ اپریل کو بعد عشاء روانگی12۔ مدینے سے 1

بد میقات میں ^یام۔ ہم نے بھی پھر وہاں ہی3۔ ذوالSلیفہ میں ایک بجے سے 2 بجے تک مسج

بلیفہ' ) اح احرام باندھا۔ اسے پہلے ہم 'خلیفہ' پڑھتے تھے،یعنی 'خلی فا ' بعد میں معلوم ہوا کہ یہ '

Hulaifaہے۔)

م 3 حکے میں اسی عمارت ر آامد، 468۔ م بجے۔11 اپریل، صبح 13 میں

۔ عصر کے بعد عمرہ۔ عشاء تک اس سے فراغت۔4

Page 166: اللہ میاں کے مہمان

اپریل کی رات کو ہی حج کے ارکان کے لئے روانگی کا اعلان مگر تیاری کے باوجود14۔5

روانگی ممکن نہیں۔

آامد ساڑھے نو بجے صبح7 ذو الSجہ کو صبح 8/اپریل، 15۔ 6 یی میں بجے روانگی، من

آاتش زدگی، 7 بجے تک افراط وتفریط کا عالم4۔

۔ اسی شام عرفات کے لئے روانگی۔8

اپریل، مغرd کے کافی دیر بعد تک۔16۔ عرفات میں ^یام، 9

/ اپریل کی فجر کے بعد تک مزدلفہ میں ^یام۔17 اپریل کی رات، 16أا۔ 10

یی کے لئے پیدل واپسی۔7 اپریل مزدلفہ سے صبح 17۔ 11 بجے من

حکہ۔12 بف زیارÁ کے لئے م ۔ ^ربانی، رمی جمار۔ رات طوا

یی واپس۔ فون کی تلاش کہ ہمارے مSفوظ ہونے کی گھر٤/ اپریل صبح 18۔ 13 بجے پھر من

حطلاع دے دیں۔ ا

یی میں ہی ^یام۔18۔ 14 ۔ کو بھی رمی جمار، من

آاج آاپ سے مخاطب ہیں۔ اوپر کے 19اور یی سے ہی ( میںPoints نکتوں )14 اپریل کو من

وعے کا ذکر ت ہی بتائے گا۔ پہلے اہم ترین و کس سے کتنا انصاف کر سکیں گے، یہ تو و

ہی کریں۔

Page 167: اللہ میاں کے مہمان

حکے عہ ہے۔ اd م ت زیادہ مو ت بھی نہیں لکھ سکے اور نہ اس و ااس و رات ساڑھے نو بجے۔

پہنچ کر ہی لکھیں گے جہاں کل ظہر کے بعد واپسی ہے۔

حلہ تک بر نبی سے جوار بیت ال دیا

پہلے کچھ وہ احوال لکھ دیں جس کا ذکر چھوٹ گیا ہے۔ یعنی مدینے سے واپسی سے

شروع کریں۔

بز سفیر'، ہماری سرائے یا سفارت خانے پہنچے12 / اپریل کو مسجد نبوی میں عشاء پڑھ کر 'مرک

تو دیکھا کہ کئی لوگ سامان کمروں سے اتار کر نیچے لا چکے ہیں اور بسیں بھر رہی ہیں،

اا تیار ہی تھا، ہاں، کھانا کھانا تھا۔ جلدی سے تندور سے کھانا لے کر ہمارا سامان بھی تقریب

آاپ کھائيے، میں سامان رکھواتی ہوں، آائے۔ صابرہ نے تو کھایا بھی نہیں۔ کہنے لگیں کہ

پہلے یہ بھی معلوم کرنا تھا کہ ہماری بس کون سی ہے۔ مدینے کے پاس یا شناختی کارڈ پر

اس کا اندراج کروانا تھا، اس میں بس نمبر لکھا جاتا تو پھر اس بس میں سامان رکھواتے۔ ہم

نے جلدی جلدی کھانا زہرمار کیا اگرچہ اتنی جلدی کی ضرورت نہیں تھی، صابرہ بھی کھانا

کھا سکتی تھیں۔ بہر حال سامان رکھواکر ساڑھے دس بجے سفارت خانے سے نکل سکے۔

بط تفتیش۔ ہر جگہ بس رکی مگر کسی کو اترنے کی اجازت نہیں سفر میں وہی کئی جگہ نقا

حجاج' پر۔ یہاں کچھ اشیائے خوردنی پیش کی گئیں 'مدینے دی گئی۔ پھر اسی 'مرکز استقبال ح

Page 168: اللہ میاں کے مہمان

آاپ کے لئے رخصتی تSفہ' پیکٹ پر تSریر تھا اردو میں۔ ہر پیکٹ کے عوام کی جانب سے

کھجوریں اور کچھ کیک۔ ایک بجے10۔8میں ایک دودھ کا پیکٹ، ایک شربت کا پیکٹ۔

کے ^ریب ذوالSلیفہ پہنچے۔

بم مکہ میں داخلے کا پروانہ ہاں، بعد میں ہم کو معلوم ہو گیا کہ ہمارا خیال صSیح تھا کہ حر

آاپ حجہ8احرام ہی ہے جسے عمرہ کر کے ختم کیا جاسکتا ہے یا حج کر کے)اگر Sذی ال /

حکے میں داخل ہوں تو(۔ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ کچھ ساتھیوں کا ارادہ نہیں تھا کے بعد م

آاگئے تھے۔ جو لے کر گئے تھے ان کا ارادہ حکے میں چھوڑ کر عمرہ کرنے کا اس لئے احرام م

تھا کہ سب باندھیں گے تو ہم بھی باندھیں گے۔ ہمارا ارادہ تو تھا ہی باندھنے کا۔ رات ایک

آادھے گھنٹے میں نہا دھو کر احرام باندھ بد میقات پہنچی تو پہلے کہا گیا کہ بجے بس مسج

کر واجب الاحرام نماز پڑھ کر بس میں واپس پہنچ جائیں۔ جن کے پاس احرام نہیں تھے ان

کو احرام کے حصول کی فکر ہوئی۔ وہ تو شکر کہ وہاں بھی احرام کی دوکانیں تھیں ان کو

آاباد کا ہی تھا اور پہلے ہی عمرے کے بعد20۔15 ریال خرچ کرنے پڑے۔ ہمارا احرام تو حیدر

ت لگا اور ح^ت نہیں ہوئی ، لوگوں کو کافی و دھو کر تیار کر رکھا تھا۔ اس وجہ سے ہم کو د

پونے تین بجے وہاں سے پھر نکل سکے۔ پھر دو گھنٹے بعد ہی ایک جگہ فجر کے لئے روکی

حچھی نہیں تھی۔ نہ غسل خانے صاف تھے اور نہ پانی کی سہولت۔ ہوٹل گئی بس۔ یہ جگہ ا

کے واش بیسن سے پانی لے کر وضو کیا۔ کچھ لوگ ضروریات سے بھی فارغ ہوئے۔نماز پڑھ

آافس کے کامYلیکس میں کر چائے پی کر چلے تو ساڑھے سات بجے پھر اسی زم زم یونائیٹیڈ

رکے۔ یہاں بھی بس کافی دیر رکی رہی۔ ہر حاجی کو ٹھنڈے زم زم کی ایک لٹر کی بوتل

Page 169: اللہ میاں کے مہمان

حلم کے مکتب پر بھی بس حکے میں ہی ہمارے مع ت م پیش کی گئی۔ اس کے بعد کافی و

م بجنے والے تھے۔اس دیر کی وجہ11 پر پہنچے تو 468رکی اور جب ہم ہماری عمارت ر

سے ظہر کی جماعت چھوڑ کر ہم نے سامان ٹھیک ٹھاک کیا اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہو

بجے حرم کے لئے عمرے کے ارادے سے نکلے۔وہاں ہی پہلے ظہر ادا کی، اس کے2کر

آاکر چائے پی اور پھر ت نہیں ہوا تھااس لئے باہر ت تک عصر کا و بعد طواف اور سعی۔ اس و

آاگئے۔ صابرہ کے بال ہم نے ہی عصرکے لئے گئے۔ نماز کے بعد سر پر مشین پھروا کر باہر

کاٹ لئے۔

دو روز میں ہی 'شہر' کا 'نقشہ' بدل گیا

حکہ اچانک بدلا ہوا لگا۔ یا تو حرم میں ہی نہیں، سڑکوں پر بھی صفائی حکے پہنچے تو م ہم م

آاپ ایک کونے میں کھڑے ہو کر مشاہدہ کرتے تو معلوم ہوتا کوئی صاحب کا یہ عالم تھا کہ

حبے اا ہی دیکھتے کہ اس ڈ آاپ فور چلتے چلتے پےپسی کا کین سڑک پر پھینک گئے ہیں اور پھر

آادمی )بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کام بھی پرائیویٹ کمYنی کے سYرد ہے۔ کو میونسYلٹی کا کوئی

حلہ اور یہ کام وہاں کی میونسYلٹی کا بدن اور د ببن لا حکہ اور مدینہ میں، بلکہ دو کمYنیاں ہیں م

حکہ بدلا ہوا لگا۔ دور کی نہیں( اپنے بڑے سے کارٹن میں بھر کر اٹھا لے جاتا۔مگر اس بار م

سڑکوں پر تو پھر صفائی دیکھی مگر حرم کے ^رd وجوار میں سڑک پر لاتعداد ٹوٹی ہوئی پانی

ا فروٹیTetrapackکی بوتلیں اور کولڈ ڈرنکس ،بوتلیں اور' ٹیٹرا پیک ' ) ، ہندوستان کی

Page 170: اللہ میاں کے مہمان

آائے۔ غسل '^سم کے( پیکٹس۔ فٹ پاتھوں پر بھی لوگ چٹائی بچھا کر کیمپ کئے ہوئے نظر

آاس پاس کے حاجی تھے غریب خانوں کی راہداریوں میں بھی ہر طرف کیمپ تھے۔ یہ

ا حاجی چٹائی' جس میں ایک ہوائی تکیہ بھی سلا ہوتا ہے، بچھائی، سرہانے غرباء۔ ۔بس ایک

آاگیا ؎اپنا تام جھام رکھ لیا، اور سو رہے۔ ہم کو اپنا ہی شعر یاد

اٹھا اور اٹھ کے ترے کوچے میں ہی جادہ کیا: سفر تو پاؤں میں تھا، اہتمام کیا کرتا

؎اور

اپر ہے اور تن پہ لباس: ترے بغیر میں کچھ تام جھام کیا کرتا یہی بہت ہے شکم

نماز کی جماعت ہوئی، انھیں چٹائیوں پر صفیں بن گئیں ^بلہ رخ۔ ورنہ جس طر� بچھانے کی

جگہ ملی، ویسی ہی بچھائی گئیں۔ یہاں وہ امراء بھی تھے جن کو کسی ہوٹل میں جگہ نہ مل

سکی تھی۔ کچھ اس ^سم کے زایرین کی کاریں بھی تھیں جو سڑک پر پارک تھیں، کاریں

نہیں بلکہ جنہیں انگریزی میں کارواں کہا جاتا ہے کہ لوگوں کی انھیں میں رہائش تھی۔

حرم میں بھی ہر طرف بے حد بھیڑ۔ پہلے ہی دن ہم چاہ رہے تھے کہ اس طر� صف میں

آاگے ہوں اورہم مردوں بیٹھیں )جیسے پہلے کوشش کرتے تھے( کہ صابرہ عورتوں کی صف میں

آاسانی سے ساتھ ساتھ نکل سکیں۔ مگر آاخر اور ان سے ^ریب کہ بعد میں کی صف میں

ممکن نہ ہوا۔ عورتوں کے لئے جگہ بنانے کی کوشش میں بار بار اٹھا دئے جاتے یہاں تک کہ

آاگئی تو ہم اوپر ہی چلے گئے۔ نماز پڑھ کر کافی دیر رکے بھی کہ سیڑھیوں پربیٹھنے کی نوبت

بھیڑ چھٹ جائے اور جب ساڑھے سات بجے نکل سکے تب بھی سڑکوں پر بھیڑ کا وہ عالم

Page 171: اللہ میاں کے مہمان

تھا جیسے ابھی جماعت ختم ہوئی ہے۔یہاں سے وہان تک نئی نئی دوکانیں۔ اور مہنگائی بھی

حکے پہنچ زیادہ ہو گئی ہے۔ اd حجامت کو ہی لیجئے۔ پہلے دن جب ہم نے ہندوستان سے م

کر پہلا عمرہ کیا تھا تو مشین سے بال کٹوانے کے تین ریال دئے تھے، تب ہی معلوم ہوا تھا

ریال اور مSض ^ینچی سے بال کٹوانے کی اجرت ایک ریال5کہ استرے سے بال منڈوانے کے

حجہ کو مدینے سے واپسی کے بعد کے عمرے کے بعد سر6ہوتی ہے۔ مگر اس دن، Sذی ال

ریال10 ریال دئے۔ حجامت کی اجرت اd تین اور استرے کی اجرت 5پرمشین پھروائی تو

حجام صاحب کو مہلت نہ تھی، کہنے تھی۔ ہمارا ارادہ استرے سے ہی منڈوانے کا تھا مگر ح

آائیے۔12لگے کہ یہ نیک ارادہ ہو تو بجے کے بعد

حنار عذاd ال

یی کے لئے روانہ ہوناچاہئے تھاکہ وہاں اس دن ظہر8ویسے تو / ذی الSجہ کو فجر کے بعد من

سے اگلی صبح فجر تک کی پانچ نمازیں پڑھنے کی

حلم حضرات بعد میں حنت ہے مگر کیوں کہ زائد پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اس لئے اکثر مع س

رش سے بچنے کے لئے ایک رات پہلے ہی پہنچ جانے کا اہتمام کر تے ہیں۔ ایسا ہی ہمارے

اا لوگ کمر کس کر تیار ہوتے ہیں، حج یہاں اعلان کیا گیا، یعنی کہ اd احرام باندھ لو۔ عموم

آاجائے گی تب ہی احرام باندھیں کے لئے احرام کس کر تیار ہونا تھا۔ ہم نے سوچا کہ بس

Page 172: اللہ میاں کے مہمان

آاگئے تھے۔سامان تیار تھا۔ بس احرام باندھ کر برشام ہی نہا دھو کر رکعت2گے۔ حرم سے س

آائیں ، یہی ڈر تھا ہمیں ہمیشہ۔ نماز واجب الاحرام ادا کر کے نکل جانا تھا۔ مگر بسیں نہیں

یی کے خیموں3رات کو ت یہ لوگ من آارہی ہیں۔ اس و آائے کہ بسیں بجے معلم کے کارکن

آائیں تو ٹھیک ساڑھے سات بجے۔ ہم لوگ کمروں پر کے نمبر بھی الاٹ کر گئے۔ مگر بسیں

ہی فجر کی نماز پڑھ چکے تھے۔ جلدی جلدی ناشتہ کیا، وضو کیا، احرام باندھا، نماز پڑھی

کلو میٹر کا راستہ9اور گاڑیوں میں بیٹھ گئے۔ٹریفک کا رش بہت تھا راستے میں چناں چہ یہ

یی اپنے کیمپ پہنچ آاٹھ بجے نکلے تو سوا نو بجے من ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا یعنی پونے

سکے۔

/اپریل ۔صبح پونے سات بجے20

یی میں ایک ایک خیمے میں لوگوں کا انتظام تھا مگر جو لوگ پہلے پہنچ چکے30۔25من

لوگوں نے ہی(20۔15تھے انھوں نے اپنی چوڑی چوڑی چادریں اور چٹائیاں پہلے ہی بچھا کر )

پورے پورے خیمے بھر لئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہاں جگہ نہیں ہے، دوسرے خیمے میں

تھا ۔ یہ لوگ کہہ رہے تھے کہ اسی نمبر کا کوئی دوسرا خیمہ117جائیے۔ ہمارا خیمہ نمبر

53بھی ہوگا جس میں ہماری رہائش کا انتظام ہوگا الاٹمنٹ کے مطابق۔ ہمارے مکتب نمبر

آادمی بھی وہاں تھے اور یہ وا^عی ہمارے مکتب کا ہمارا ہی خیمہ تھا۔ بہرحال جگہ بنائی کے

گئی۔

Page 173: اللہ میاں کے مہمان

صبح ہم تو ناشتے کے ساتھ چائے پی چکے تھے، صابرہ نے نہیں پی تھی، اس کے لئے پھر

باہر نکلے۔ صابرہ نے کہا کہ دوپہر کے لئے بھی کچھ کھانا خرید ہی لاؤں۔ یہ کام کیا۔ ہم

بج گئے۔اd ظہر کے لئے وضو کی تیاری کرنے کے لئے11نے بھی چائے پی۔ اسی میں

بد نمرہ جانے کا ارادہ تھا۔ ہم بھی اس میں شامل خیمے سے باہر نکلے۔ کچھ لوگوں کا مسج

تھے۔اگرچہ صابرہ کے لئے ہم اس کے حق میں نہیں تھے۔ بہر حال غسل خانوں کی طرف

آاگ لگ گئی ہے۔اس اا پتہ چل گیا کہ کہیں آایا۔ فور نکلے تو جنوd کی جانب دھواں نظر

حطلاع دینے پھر اندر خیمے میں گئے تو پتہ چلا کہ صابرہ بھی عورتوں کے بت حال کی ا صور

غسل خانوں کی طرف نکل گئی ہیں۔کچھ دیر خیمے میں ان کا انتظار کیا۔ اس اثناء میں باہر

آانے لگیں۔ ہم بھی پھر باہر نکلے اور حالات کا جائزہ لینے لگے۔ ادھر آاوازیں انتشار کی

آاگ ضرور لگ گئی ہے مگر اس پر ^ابو پایا جا رہا ہے۔ سب لاؤڈسYیکر پر اعلان ہونے لگا کہ

لوگ اپنے خیموں سے باہر نہ نکلیں اور پریشان نہ ہوں۔ اور یہ بھی کہ سب لوگ دعا کریں۔ بیچ

بیچ میں خیمے میں جا کر صابرہ کو بھی دیکھتے رہے مگر وہ نہ جانے کہاں غائب تھیں۔

ت پھر اعلان ہوا جیسے ہی صابرہ ملیں، ہم نے ارادہ ظاہر کیا کہ باہر نکلا جائے۔ مگر اسی و

آاگ پر ^ابو پا لیا گیا ہے، ہم لوگ سکون سے اپنے خیموں میں رہیں۔ چناں چہ ہم نے سامان کہ

جو ہاتھوں میں اٹھا لیا تھا، پھر رکھ دیا ۔ چٹائیاں بھی اٹھا لی تھیں وہ پھر بچھا دیں کہ جگہ

آاگ آا کر حالات پر غور کرتے رہے۔ کبھی وا^عی مSسوس ہوتا کہ پر ^بضہ نہ ہو جائے۔ اور باہر

آاگ اا ہی نزدیک ہی کہیں اور دھواں دکھائی دیتا۔ہم کو خیموں کی کم ہو گئی ہے مگر پھر فور

منٹ میں پورا بڑا خیمہ3۔2کا تجربہ تھا۔ ہماری ٹریننگ کے دوران ہم نے رائے پور میں مSض

Page 174: اللہ میاں کے مہمان

راکھ ہوتے دیکھا تھا۔ ہم جیالاجسٹ لوگوں کو خیموں میں رہنے پر کتنی احتیاط کی ضرورت

آاتش پڑتی ہے، اس کا ہمیں پتہ تھا مگر لوگوں کو اندازہ نہیں تھا۔ بلکہ کل تک اس ہولناک

آائے اور زدگی کے باوجود لوگ خیموں کی دیواروں سے لگ کر بیڑی سگریٹ پیتے ہوئے نظر

ت بھی یہی اعلان ہوتا رہا کہ ہراس کی ضرورت نہیں، مگر ہم نے آائے۔ بہر حال اس و بازنہ

فیصلہ کیا کہ باہر نکل جانے میں ہی عقل مندی ہے۔ چناں چہ ہم نے اd چٹائیاں بھی وہیں

آائے تھے اس کا پیکٹ بھی چھوڑ دیا اور مSض اپنے تین عدد چھوڑیں۔ دال روٹی جو لے کر

ت ہمارے خیمے میں آا گئے۔ اس و بیگ اور پانی کی تھرمک بوتلیں لے کر سکون سے باہر

کوئی نہیں تھا۔ سب کا سامان اندر ہی تھا یعنی کسی نے خیمہ خالی نہیں کیا تھا مگر سب

آائے تو پتہ چلا کہ افراط و تفریط کا کیا عالم حالات کا جائزہ لینے باہر ہی تھے۔ جب ہم باہر

آاگ لگی تھی، وہاں سے سب شمال مغرd کی طرف ہے۔ جنوd مشرق کی طرف جہاں

حکے کی سمت۔ ہم بھاگے نہیں ہوش مندی اور سکون سے چلتے رہے۔خدا بھاگ رہے تھے۔ م

آائے ہوئے گھنٹہ بھر ہی ہوا تھا اس یی کے فضل سے ہم دونوں عقل مند وا^ع ہوئے ہیں۔ ابھی من

لئے جغرافیہ اور راستے معلوم نہیں ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے ہم باہر نکل کر راستوں کے

( دیکھتے ہوئے چلے کہ واپسی میں بھٹکیں نہیں۔Landmarksمخصوص نشانات )

مگر جو لوگ وا^عی جان بچا کر بھاگے تھے ان کا عالم دوسرا ہی تھا۔ ساری سڑک پر بھاگنے

حٹے تک پڑے ہوئے ملے۔ گرمی کے حYلیں، چھاتے۔ احرام اور عورتوں کے دوپ والوں کے جوتے چ

آاگے جانے پر ایک سایہ دار راستہ باعث کچھ عوریں بے ہوش ہوتی رہیں۔ کوئی ڈیڑھ کلو میٹر

ت تک جغرافیہ معلوم نہ تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ شیطان تھے جہاں کنکریاں آایا) اس و نظر

Page 175: اللہ میاں کے مہمان

مارنے کے لئے دو منزلہ فلائی اوور بنائے گئے ہیں۔ یہ اسی فلائی اوور کی چھت تھی۔ یہیں

آاتے جاتے ہیں( سوچا یی حکے کے لئے انڈر گراؤنڈ راستہ بھی جاتا ہے جس پر لوگ پیدل من سے م

آاگ کے وہاں یہاں پناہ لی جائے کہ یہاں خیموں کی ^طاریں ختم ہو گئی تھیں اور اس طر�

تک پہنچنے کا سوال ہی نہ تھا۔ مگر یہاں پولس سائے میں یعنی چھت کے نیچے داخل ہونے

نہیں دے رہی تھی۔ اس کی وجہ بھی بعد میں معلوم ہوئی۔ انھیں راستوں سے ایمبولینس اور

پولس کی گاڑیاں دوڑ رہی تھیں اور اگر بھاگنے والے یہ راستہ بھی بند کر دیتے تو فلا� کے

کاموں میں اور مشکل پیدا ہوتی۔ فائر انجن بھی گزر رہے تھے۔ کچھ دیر یہاں رکے مگر پھراور

آاگے جانے پر معلوم ہوا کہ یہ آاگے چلے کہ کہیں اور سائے دار جگہ ملے تو وہاں رکیں۔

یی ' بمن جمرات کا علا^ہ ہے۔ جب تینوں شیطان پار کر لئے تو ایک بورڈ پر نظر پڑی۔'نھایۃ

آاگے تو جائیں گےMina ends hereانگریزی میں ہم وہیں رک گئے کہ اس سے

یی کا ^یام ضروری ہے کہ یہ حج کے نہیں۔ معلوم نہیں تھا کہ وہاں کب تک رکنا پڑے۔ من

ت کے لئے باہر جا سکتے ہیں مگر زیادہ واجبات میں سے ہے۔ اگرچہ ضرورت ہو تو تھوڑے و

اا الجزائر کی ایک عورت دیر تک نہیں۔کچھ دیر دھوپ میں کھڑے رہے۔ اس عرصے میں غالب

حنت سماجت کی۔ پولس تب بھی بلٹانے کے لئے لوگوں نے م آا گیا تو اسے سائے میں کو غش

نہ مانی تو لوگوں نے ایک ریلہ بنایا اور پولس ،جو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اور ڈنڈے پکڑے

گھیرا ڈال کر کھڑی تھی، کی ^طار کو دھکیل کر سائے میں بیٹھ گئی۔ پولس کو ہار ماننی

پڑی۔ ہم کو بھی سکون ملا۔ ہم لوگ پونے بارہ بجے اپنے خیمے سے نکلے تھے اور اس ڈیڑھ

بج گئے تھے۔ پانی کی بوتلیں بھی خالی ہو گئی تھیں2کلو میٹر کی دوری تک پہنچنے میں

Page 176: اللہ میاں کے مہمان

بجے سے ہم نے دیکھا کہ لوگوں نے واپسی کے لئے حرکت کرنی شروع کر دی۔ کچھ3۔

لوگوں نے وہاں ہی مختصر جگہ میں ظہر کی نماز شروع کر دی۔ ہم لوگ بھی دس منٹ بعد

آاگ سے بچ2ہی اٹھ گئے اور واپسی کا سفر شروع کیا۔ یہ بھی ایک ریلہ تھا مگر بجے تک

کر بھاگنے والوں کی بھیڑ ختم ہو گئی تھی۔ اس لئے اd یک طرفہ 'ٹریفک' ہی تھا۔ اس ریلے

کو بھی پولس نے جگہ جگہ روک کر پو لس اور ایمبولینس کی گاڑیوں، فائر انجنوں اور پانی

آامد و رفت کے لئے جگہ بنائی۔جب اس علا^ے میں پہنچے جہاں سے کے ٹینکروں کی

آاخر کی لائن کے ایک خیمے شروع ہوتے تھے تو دیکھا کہ اس سڑک )سوق العرd( پر بالکل

آادھ کیمپ کے خیموں کو چھوڑ کر سب راکھ ہو چکے تھے۔ سامان سڑکوں پر بکھرا پڑا تھا،

اا سامان کو بچانے کی کچھ جلا ہوا ، کچھ ادھ جلا۔ ہر طرف کیچڑ پانی کی وجہ سے۔ غالب

بل استعمال نہ رہا آامد و رفت کے باعث یہ اd ^اب حیت سے باہر پھینکا گیا تھا مگر لوگوں کی ن

حYلیں، کYڑے، احرام، واٹر باٹلس، جا نمازیں، چٹائیاں، بیگ تھا۔ ہم بھی لوگوں کے جوتے، چ

آاگ کے خطرے آاگے بڑھتے رہے۔ ویسے ہر کیمپ میں اور سوٹ کیسوں تک کو روندتے ہوئے

( میں بڑے بڑے پانی کے نل لگے تھے۔Towersکے پیش نظر اونچے اونچے میناروں)

حوارے تھے جو در اصل فضا کو ٹھنڈا رکھنے کے مقصد سے سڑکوں کی دونوں جانب بھی ف

استعمال کئے جا رہے تھے، ان سب کا پانی بھی استعمال کیا گیا ہوگا اور پھر فائر انجنوں اور

ٹینکروں سے بھی پانی ہر طرف چھڑکا گیا تھا، کچھ حفاظت کی غرض سے بھی۔ ہر طرف

آاگ بجھانے والے سلنڈر بھی لگے تھے۔ اپنی پناہ گاہ سے ہم نے ہیلی کوپٹروں کو بھی کچھ

کیمیائی شے چھڑکتے ہوئے دیکھا تھا۔غرض انتظام میں کوئی کمی تو نہیں تھی، مگر ہونی

Page 177: اللہ میاں کے مہمان

کو کون روک سکتا ہے۔جب اللہ کا عذاd نازل ہوتا ہے تو ہو کر ہی رہتا ہے۔ حکومت اور

انتظامیہ کو برا بھلا کہنا بھی غلط ہے۔

حور کر رہے ہم راستے میں خیموں کی حالت دیکھ کر وہی حالت اپنے خیموں کی بھی تص

بت حال تھی۔53تھے۔ مگر جب ہم ہمارے مکتب نمبر کے کیمپ پہنچے تو عجیب صور

آاگ نے چھوا بھی نہیں تھا۔ اس کے دونوں طرف کے خیمے ہمارے بلاک کے خیموں کو

حکی عمارتوں کی ^طار تھی، پوری طر� جل چکے تھے۔ درمیان میں غسل خانوں کی ایک پ

اس کے ایک ہی طرف عذاd نازل ہوا تھا۔ بایئں طرف کے سارے خیمے مSفوظ تھے۔ اس

آاگ سے12أا۔10بلاک کے آاگ بجھانے بلکہ خیموں کو صرف یہ نقصان پہنچا تھا کہ

حفاظت کے لئے اوپر سے پانی چھڑکا گیا تھا، اس وجہ سے چھتیں بھاری ہو کر یہ خیمے گر

گئے تھے یا با^اعدہ گرا دئے گئے تھے۔ ہم کو اپنا خیمہ ڈھونڈنے میں کوئی مشکل پیش نہیں

آائی )اور نہ اس سے پہلے اپنے کیمپ کا راستہ ڈھونڈنے میں۔ اکثر لوگ اس افراط و تفریط میں

بھٹک بھی گئے تھے( اندازے سے خیمے کا کYڑا اٹھا کر دیکھا تو ہماری چٹائیاں بھی مSفوظ

تھیں۔ ہمارا صرف اتنا نقصان ہوا کہ دال روٹی کا پیکٹ دd کر پھٹ گیا تھا اور کھانا بکھر

حلم کے ایک کارکن آاتے ہی ہم نے اپنے مع گیا تھا جس سے چٹائیاں خراd ہو گئی تھیں۔

آاتش زدگی کا احوال پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ اللہ کا سے)جو عرd ہی تھا مگر انگریزی داں(

شکر ہے کہ جانی نقصان کچھ نہیں ہوا ہے۔ حالاں کہ بعد میں معلو م ہواکہ یہ مSض جھوٹی

حلی تھی کہ لوگ ہراساں نہ ہوں۔ تس

Page 178: اللہ میاں کے مہمان

ہمارے خیمے کے لوگوں میں ہم ہی پہلے پہنچے تھے۔ مSبوd نگر کے جو تینوں صاحبان

حتار بھائی، ان کا اور ان کی بیویوں کا کہیں پتہ نہیں حباربھائی اور س تھے یعنی مظہر بھائی، ج

تھا۔ ہاں، صبح ہی مظہر بھائی کے دو بیٹے اور ان کی بیویاں ریاض سے حج کے لئے وہاں

پہنچے تھے مگر ان کا مکتب دوسرا تھا، مگر وہ لوگ صبح اپنے والدین کے ساتھ ہی تھے۔

آا گئیں تو ہم لوگوں نے خیمے کی حبار بھائی اور ان کی اہلیہ فاطمہ بھی تھوڑی ہی دیر میں ج

چھت پر ہی ظہر کی ^ضا اور عصر کی نماز پڑھی۔ ویسے کچھ مسلکوں میں سفر میں ظہر

اا اس کی اجازت اور عصر کی نمازیں ملانے کی اجازت ہے۔ ایسے ہنگامی حالات میں تو یقین

ت پر ہی یعنی ادا مانی ہونی چاہئے، اس لئے ظہر کی ^ضا بھی امید ہے کہ اللہ کے نزدیک و

جائے گی۔وہ تو یوں بھی نیت ہی پہلے دیکھتا ہے۔

ادھر اعلان ہونے لگا کہ کیوں کہ یہ علا^ہ رہائش کے لئے ٹھیک نہیں رہا ہے اس لئے سب

لوگوں کو ابھی عرفات لے جایا جائے گا۔ وہاں جو اگلے دن کی رہایش کے انتظامات تھے وہ

مکمل کر لئے گئے ہیں۔جو لوگ تیار ہیں اور جن کا سامان مل گیا ہے وہ چاہیں تو مزدلفہ تک

یی میں ٹریفک کی وجہ سے بسوں کا پیدل چلے جائیں کہ وہیں بسیں کھڑی ہیں۔ فی الSال من

آانا ممکن نہیں۔ حالاں کہ ہمارا سامان تو مSفوظ تھا اور ہم بھی مSفوظ تھے، مگر ہم

حتار ساتھیوں کے منتظر رہے۔ ساڑھے پانچ بجے کے ^ریب مظہر بھائی ، ان کے بیٹے بہو ،اور س

آائے۔ معلوم ہوا کہ انھوں نے بالکل دوسری سمت میں پہاڑ کے اوپر پناہ لی تھی۔ اور وہاں بھائی

آائے حتار بھائی کی بیوی صفیہ کو وہیں چھوڑ کر کافی جگہ تھی۔ مظہر بھائی اپنی بیوی اور س

ہیں اور ان کا ارادہ اپنی طور پر اگلی صبح ہی عرفات جانے کا ہے۔ ہم ان سے کہہ رہے تھے

Page 179: اللہ میاں کے مہمان

آائیں اور یہاں سے ساتھ ہی سب عرفات کے لئے نکلیں، مگر کہ وہ لوگ سب کو یہاں ہی لے

ان کا کہنا تھا کہ ہم بھی ان کے ساتھ ہی جائیں۔ ان کا دراصل خیال تھا کہ ابھی ہی عرفات

یی کے ^یام کی شرط پوری نہ ہوگی۔ ہمارے معلم کے انھیں کارکن کے لئے روانہ ہونے میں من

یی کا ^یام نے ہم کو اور دوسروں کو حدیث سنائی بھی کہ اصل حج عرفات کا ^یام ہے، من

حنت کو چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہمارا بھی یہی حنت ہے اور ان حالات میں س مھض س

خیال تھا۔ مظہر بھائی مگر یہاں پانچ نمازیں پوری کرنے کا ارادہ ہی رکھتے تھے، چاہے کتنی

ہی تکلیف کیوں نہ ہو۔ بہر حال پھر دونوں حضرات اپنی بیویوں کو بلانے چلے گئے، مظہر

بھائی کی بہو کوہمارے پاس ہی چھوڑ دیا گیا۔ مگر سات بجے تک ان لوگوں کا پتہ ہی نہیں

آانی شروع ہو گئی تھیں۔ ہم سب فکر مند تھا۔ مغرd سے کیمپ کی طرف ہی بسیں بھی

آائے اور ہم ان کا انتظار کریں یا نہیں۔ فکر یہ تھی کہ تھے کہ مظہر بھائی وغیرہ کیوں نہیں

آائے تھے، یا پھر کہیں مظہر بھائی ہی وہ جگہ تو نہیں بھول گئے ہیں جہاں عورتوں کو بٹھا کر

آاخر وہ دونوں کارکنوں نے عورتوں کو وہاں سے ہٹا دیا ہو اور وہ کہیں اور چلی گئی ہوں۔

حھی جگہ مل گئی ہے اور انھوں نے اپنا کیمپ آائے کہ ان دونوں کے خاندان کو اچ حضرات ہی

تو بنا لیا ہے مگر شاید ہم سب بھی وہاں پہنچ جائیں تو جگہ تنگ ہو سکتی ہے۔ اس لئے ہم

چاہیں تو بسں میں چلے جائیں۔ وہ لوگ صبح فجر پڑھ کر ٹیکسی سے عرفات پہنچ جائیں

گے۔ ہمارے پاس ایک بیگ کچھ وزنی بھی تھا، اس لئے بھی ہم نے وہاں بسوں سے ہی

ت عرفات جانے کا طے کر لیا۔ آا ہی رہی7اوراسی و بجے سے ایک کے بعد ایک بسیں

یی کیمپ میں ابھی بھی8تھیں۔ بجے کے ^ریب ہم بھی ایک بس میں بیٹھ گئے، اگرچہ من

Page 180: اللہ میاں کے مہمان

افرا تفری کا عالم تھا، کسی کا شوہر ابھی تک نہیں پہنچا تھا تو کسی کی بیوی۔ بیشتر اپنے

کیمپ کا پتہ بھول گئے تھے۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جن کو اپنے کیمپ کا

نمبر تک معلوم نہ تھا۔ جو پہنچ گئے تھے، ان کو اپنا سامان نہیں مل رہا تھا۔ مظہر بھائی کے

تھا، ان کو اپنا بیگ ملا ضرور مگر مکمل جلا ہوا۔ ان کا کچھ54بیٹوں کے کیمپ کا نمبر

سامان مSفوظ نہیں رہا تھا۔ بہر حال ہم تو رات ساڑھے نو بجے تک عرفات پہنچ گئے تھے،

آامد اگلے دن دوپہر بجے تک بھی جاری تھی جب کہ عرفات فجر کے3۔2مگر لوگوں کی

dاا بعد پہنچنا چاہئے تھا۔ وہاں ظہر اور عصر کی نمازیں ملا کر پڑھنی ہوتی ہیں اور پھر غرو فور

آافتاd کے بعد اور عشاء سے پہلے مزدلفہ کے لئے نکلنا ہوتا ہے جہاں عشاء پڑھنے کا حکم

ہے اور رات بھر جتنی عبادتیں ہو سکیں۔

ت ہم عرفات پہنچے تب تک بہت ہی کم لوگ وہاں پہنچ سکے تھے۔ اس کے علاوہ جس و

کیوں کہ وہاں رات کا ^یام نہیں ہوتا ہے اس لئے روشنی کا بھی معقول انتظام نہیں تھا۔ ویسے

خیموں کے باہر راستوں کی روشنیاں ، جو شاید ہمیشہ ہی رہتی ہوں گی، جل رہی تھیں۔ کیوں

کہ یہ خیمے کھلے ہوئے تھے، یعنی چھتیں تھیں مگر چاروں طرف دیواریں نہیں، اس لئے

ت تک پانی کا انتظام صSیح نہیں ہو سکا تھا۔ کم از کم ااس و تھوڑی روشنی تو تھی۔ مگر

پینے کا۔ ہاں، وضو کے لئے نلوں میں پانی تھا۔ جب سکون ملا تو ہم نے عشاء کی نماز پڑھی

آا کر دیکھا تو حمید تو نہیں تھی کہ وہاں کھانا مل سکے گا۔ باہر اور پھر باہر نکلے۔ اگر چہ ا

آاتے ہیں مگر جو لوگ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں تو دو منٹ میں صفایا کچھ لوگ روٹی سالن لے کر

ہو جاتا ہے۔ کچھ دیر تو ہم نے بھی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ ہاں، کچھ بنگلہ

Page 181: اللہ میاں کے مہمان

آائے تو وہ ہم نے پی، رات کے بجے، یعنی پورے بارہ11دیشی خیموں میں ہی چائے لے کر

حکے7 بجے صبح ہم نے چائے پی تھی، صبح 11گھنٹے بعد کچھ پیٹ میں گیا۔ ) بجے م

اا ملنے والی مقدار سے ناشتہ کر کے نکلے تھے(۔ چائے ایک ایک ریال کی ہی تھی مگر عموم

سے نصف۔ شاید خالی پیٹ رہنے کی وجہ سے ہمارے سر میں بھی درد ہو رہا تھا۔ صابرہ تو

اا سو گئیں، ہم ہی ٹہلتے رہے کہ سر درد کی حالت میں ہم سے لیٹا ہی نہیں جاتا۔ فور

حرر۔ رات ح^ف متک اپریل کی رات ہی۔(20، 9۔50)تSذیر، تو

آائی۔ پالی تھین پیکٹس میں یہ ' حتہ برف کی ایک گاڑی رات کو ایک بجے پانی تو نہیں الب

آائے اور واٹر باٹلس میں بھر لئے۔ پہلےIce Cubesمکعبات الثلج' ) ( تھے ہم بھی لے کر

تو انھیں کو چوس کر پیاس بجھاتے رہے۔ جب کچھ پگھل گئے تو اس کا پانی پیا۔ اسی اثناء

میں خیموں کے باہر تھرمک جگس بھی رکھ دئے گئے مگر دیکھا کہ انتظامیہ والے برف کے

کیوبس میں وضو والا پانی ملا کر جگ بھر رہے ہیں۔ ہم خواہ مخواہ رات ڈیڑھ بجے تک پیاس

آانے لگی تو ہم آاخر کسی طر� نیند برداشت کرتے رہے۔رات ڈھائی بجے پھر ایک بار چائے پی۔

بجے کے ^ریب سوئے ہوں گے کہ سردی کی وجہ سے سوا پانچ4ساڑھے تین بجے لیٹے۔

آانکھ کھل گئی۔ فجر کے لئے اٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں ہی صابرہ بھی اٹھ گئیں۔ نماز بجے

کے بعد ناشتے اور کھانے پینے کے انتظام کے لئے باہر نکلے کہ پچھلی صبح ناشتے کے بعد

حتہ ایک جگہ سے کچھ کھانے کو نہیں ملا تھا۔خریدنے کو تو صرف چائے ہی تھی۔ الب

چھاچھ مفت بنٹ رہی تھی۔ اس کے پیکٹ تھے جس پر لکھا تھا ' لبن طازج' انگریزی میں

Page 182: اللہ میاں کے مہمان

لکھا تھا۔ یہاں چھاچھ کو ) جسے اپنے یہاں بٹر ملک )Fresh Labanبھی

Butter Milkحھگے '( لبن ہی حنڑ میں' مج حھگا ' اور ک ( کہتے ہیں، تیلگو میں ' مج

کہتے ہیں۔ یہ دراصل نمکین چھاچھ ہوتی ہے۔یہی جمع کر کے لائے۔تھوڑی دیر بعد ایک

آالو گوشت کا سالن اور روٹی تھی۔ یہ خرید سکے اگرچہ بھیڑ کی آائی جس میں گاڑی بھی

وجہ سے پہلے شک تھا کہ شاید یہ بھی ہمیں ملنے سے پہلے ختم ہی ہو جائے۔ہم اگرچہ

ناشتے میں سالن وغیرہ نہیں کھاتے ہیں، بس، نخرے ہی ہیں کہ صرف میٹھا کھاتے ہیں یا

اا نہ صرف وہ گوشت کا سالن کھایا بلکہ اd تک جو ت مجبور آاملیٹ۔ اس و زیادہ سے زیادہ

ذبیSے میں شک کی وجہ سے گوشت مرغی سے پرہیز کر رہے تھے اسے بھی بالائے طاق رکھ

آاخر چوبیس گھنٹے سے چائے کے علاوہ کچھ نہیں کھایا تھا۔ بعد میں ایک بار اور ' لبن' دیا۔

ملی۔)یا ملا۔ اس کی تذکیر و تانیث کے بارے میں ہمارا علم خاموش ہے(۔ ٹھنڈے پانی کی

آائے جس بوتلیں بھی تقسیم ہو رہی تھیں۔ ایک بار ہم اور صابرہ نکلے تو پورا کارٹن اٹھا کر لے

آادھے لٹر کی بوتلیں تھیں۔ کچھ لوگوں میں تقسیم کیا اور اپنی دونوں واٹر باٹلس میں24میں

آائے تھے، اس میں با^ی بھر کر رکھا۔ ایک برف کے مکعبات )کیوبس( کا پیکٹ بھی لے کر

بوتلوں کو دبا کر رکھ دیا کہ پانی ٹھنڈا رہے۔ اس کے باعث شام تک نہ صرف ہم کو بلکہ

آاسانی ہو گئی۔ بعد میں عرفات میں جب بھیڑ ہمارے خیمے والے کئی لوگوں کو پانی کی

بڑھنے لگی تو یہ مفت کی چیزیں بھی حاصل کرنا کارے دارد ہو گیا۔ خریدنے والی چیزوں کا

بن خیر کی جانب سے مفت تقسیم کا ہی بھی یہی حال تھا۔ یہ یوں بھی بیت کم تھیں۔ اہلیا

بازار زیادہ گرم تھا۔ ایک بار بہت دیرتک ہم کولڈ ڈرنک کے لئے کھڑے رہے مگر لوگ ہاتھوں

Page 183: اللہ میاں کے مہمان

سے جھYٹ لے رہے تھے۔ تقسیم کرنے والا بھی اچھال اچھال کر پھینک رہا تھا۔ کچھ لوگ

چھاتے الٹے کر کے پیکٹ ' کیچ' کر رہے تھے۔ اس میں کئی کاغذی پیکٹ زمین پر گر رہے

عے پر تھے اور بھگدڑ میں یہ پھٹ جارہے تھے۔ اسی طر� ایک جگہ لبن کی تقسیم کے مو

حکم دیکھا کہ زمین پوری سفید ہو گئی ہے لبن کے پیکٹ پھٹنے کی وجہ سے۔ ہم سے نہ دھ

حکا ہوتی ہے نہ چھینا جھYٹی۔ چناں چہ مایوسی ہی ہاتھ لگی۔ دوپہر میں ایک بجے کے دھ

ت شروع ہوتا ہے،کھانے کے پیکٹ بھی تقسیم ^ریب جب کہ عرفات میں ^یام کا اصل و

آاسیا'۔ )معلوم نہیں ہوئے۔ اس پر لکھا تھا 'الموسسۃ الا ہلیۃ البSرییۃ لمطوفی حجاج وول جنوبی

بط شکست' میں تھی اور ابھی ہم کہاں تک اسے صSیح پڑھ اور لکھ سکے ہیں کہ یہ تSریر 'خ

ہم عربی کے ماہر تو نہیں ہو گئے۔ پتہ چلا کہ یہ بشمول ہند و پاک جنوd ایشیائی) جنوبی

حلموں کی تنظیم ہے۔ )یہاں یہ جملہ معترضہ ضرور ہے آاسیا( ملکوں کی خدمات کرنے والے مع

آاپ کو بھی کچھ اپنی عربی کی معلومات میں شریک کر لیں۔ ' آاگئی ہے بات تو مگر یاد

مؤسسۃ'یہاں کی دوکانوں کے ناموں میں بھی ہے اور اس کا انگریزی ترجمہ

Establishmentکیا جاتا ہے، اسی وجہ سے ہم نے یہاں اسے تنظیم لکھا ہے جو

کا ترجمہ ہے۔ اس کے علاوہ کمYنیاں یاOrganisationدر اصل ہمارے یہاں

حفظ میں 'بیانک' نہیں ' آاباد کے تل کارپوریشن 'شرکۃ' ہیں، اسٹورس ' بقالۃ' ہیں۔ بنکوں کو حیدر

البنک' لکھتے ہیں(۔ بہر حال اس ادارے کی جانب سے جو پیکٹ تقسیم کئے گئے، ان میں

گرام(، ایک موٹا کھجور کا ہی بسکٹ )جس میں100ایک نمکین بسکٹ کا چھوٹا پیکٹ )

( کا چھوٹاJamاندر کھجور بھری ہوتی ہے(، دو عدد کریم بسکٹ، دو توس، ایک جام )

Page 184: اللہ میاں کے مہمان

سا کپ، خوبانی کے جام کا، ایک موسمبی جو یہاں سنگترے کے رنگ کی ہوتی ہے یہاں۔

آاپ کہہ فرق یہ ہے کہ اگر اس ^سم کا کوئی پھل ہاتھ سے چھل جائے تو بغیر چکھے بھی

اا موسمبی ہوگی۔ اور ایک بڑا سا کیک کا سکتے ہیں کہ یہ سنگترا ہے، نہ چھل سکے تو یقین

ٹکڑا۔ سب پالیتھین میں سیل کئے ہوئے۔ ہم باہر جا کر کچھ کھانا بھی خرید لائے۔ اس کے

بعد ظہر کی نماز خیمے میں ہی جماعت سے پڑھی گئی۔ ویسے خطبہ جبل الرحمۃ پر ہوتا ہے

بد نمرہ میں ظہر اور عصر کی نماز ایک اذان اور دو ا^امتوں کے ساتھ ملا کر پڑھی اور مسج

حمت نہیں تھی۔ سنا تھا کہ صبح بجے سے ہی مسجد بھر9جاتی ہے، مگر وہاں جانے کی ہ

گئی تھی۔ہماری جماعت مSض ظہر کے لئے کھڑی ہوئی تو ہم بھی اس میں شامل تھے۔

حنفی مسلک کے حساd سے جہاں حاکم یا حکومت کا کوئی نمائندہ خود نماز

پڑھائے،جیسا کہ مسجد نمرہ میں ہوتا ہے، وہاں سفر میں ظہر اور عصر ملانا جائز ہے ورنہ

ییSدہ پڑھنا بہتر ہے۔ ہم یوں تو سفر میں ^صر کی نمازیں پڑھتے ہیں تو اکثر ظہر عصر ملا ہی عل

لیتے ہیں مگر جب جماعت سے نماز پڑھی جائے تو اس میں یوں بھی پوری نماز پڑھی جاتی

ہے کہ امام اکثر مقیم ہوتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی کر نے میں ہمارے نزدیک کوئی حرج تو نہیں

ح^ت سے دعائیں مانگیں۔ تھا مگر جماعت کا ساتھ دینا بھی بہتر سمجھا۔ خیر۔ امام نے بڑی ر

ہم نے نماز کے بعدپہلے کھانا کھایا اور پھر ^ضا نمازوں، مختلف وظائف اور دعاؤں میں لگے

ت۔ سبھی نے زیادہ تر کھڑے ہو کر عہ تھا اور ^بولیت کا و رہے کہ یہی تو حج کا اصل مو

ییSدہ ہوئی۔ ہر خیمے میں دو یا زائد جماعتیں دعائیں مانگیں۔ پھر عصر کی جماعت بھی عل

ہوئیں۔

Page 185: اللہ میاں کے مہمان

آا گئی جس کا ہم نے یہاں مشاہدہ کیا۔ وہ یہ کہ یہاں ہمارے ہندوستان ہاں ایک بات اور یاد

آاd و گیاہ میدان کا نیم کا درخت ہر طرف اگا کر ہریالی پیدا کر دی گئی ہے اور اd یہ بے

آایا ہو کہ یہ ہمارے ملک کا ہی نہیں، سر سبز علا^ہ ہے۔ ممکن ہے کہ نیم ہندوستان سے ہی

پیڑ ہے۔

بس عنصری سے ہمارے خیمے میں ہی ظہر کے لئے وضو کرتے ہوئے ایک صاحب کی رو� ^ف

بجے تک میت وہیں پڑی4پرواز کر گئی۔ یہ صاحب تنہا تھے۔ ایمبولینس کے انتظار میں شام

رہی۔ ان کے احرام سے ہی ان کو ڈھک دیا گیا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے لواحقین

آارہے ہیں۔ اسی شام حیت5ہندوستان سے بجے کے ^ریب سامنے کے خیمے سے بھی ایک م

حنار میں جو شہید ہوئے وہ الگ۔ حیتیں تھیں۔ عذاd ال برامد ہوئی۔ یہ ہماری دیکھی ہوئی دو م

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

عرفات میں افضل ہے کہ کھڑے کھڑے دعائیں مانگیں، عبادت کریں، اور بہتر ہو کہ دھوپ

آاں حضرت حمت کی بخشش کے لئے اسی طر� دعائیں مانگتے تھےمیں۔ اا دھوپ میں اپنی

آاپ کی ر ح^ت اور بڑھ جاتی تھی۔عصر کی اذان بھی وہاں خیمےاور خاص کر عصر کے بعد

میں ہی دی گئی پونے چار بجے اور اور با جماعت نماز اور دعاؤں کے بعد بھی ہماری دعائیں

جاری رہیں اور وظیفے بھی، اگرچہ کھانسی اٹھ رہی تھی کافی دیر سے۔ چناں چہ ہم نے

Page 186: اللہ میاں کے مہمان

آائیں پھر ساڑھے چار پونے پانچ بجے ایک 'بریک' لیا۔ پانی وغیرہ پی کر باہر گئے کہ چائے پی

dتک پھر جم کر عبادت کریں گے کہ عرفات کا میدان مغر dچائے اور سگریٹ کے بعد مغر

آابادی کم ہوتی جا رہی کے بعد ہی چھوڑا جا سکتا ہے۔ باہر نکلتے ہی دیکھا کہ خیموں کی

آائے تو دیکھا کہ بہت سے لوگ واپسی کے لئے بسوں یں بیٹھ بھی چکے ہے۔دروازے سے باہر

ہیں اگرچہ کوئی بس مغرd سے پہلے جانے والی نہیں تھی مگر بہت سی بسیں وہاں لا کر

چھوڑ دی گئی تھیں۔ لوگوں نے سوچا تھا کہ شاید پھر جگہ نہ ملے اور ٹھیک ہی سوچاتھا

بف عرفات بسوں میں ہی کر رہے تھے اور و جیسا کہ ہمیں بعد میں پتہ چلا۔ غرض یہ لوگ و

ساری بسیں پر ہو چکی تھیں۔ پھر بھی ہم چائے کی دوکان دیکھ رہے تھے کہ مظہر بھائی مل

آاؤ ورنہ جگہ نہیں حتار بھایؤں کے اور کہنے لگے کہ جلدی سامان لے کر حبار اور س گئے معہ ج

ملے گی۔ چناں چہ سب عبادتیں اور چائے سگریٹ بھول کر ہم واپس خیمے گئے اور سارا

سامان سمیٹ کر نکلنے تک سوا پانچ بج گئے اور غروd سے ڈیڑھ گھنٹہ ^بل ہی ہم سڑک پر

بف عرفات کرتے رہے۔مگر بجائے گڑگڑا کر اللہ سے دعائیں مانگنے کے و آاگئے اور وہاں ہی و

ت۔ مگربس والوں سے یہ گزارش کرتے رہے کہ ؎ مہرباں ہو کہ بٹھا لو ہمیں پیارے اسی و

ت ہم اللہ سے ہی کچھ مانگنے میں صرفکسی اللہ کے بندے نے یہ نہ سنی۔ کا ش کہ یہ و

آاخرت۔ غرض کرتے تو وہ شاید ہماری کچھ اور سن لیتا۔ بس میں جگہ کی نہ سہی تو دنیا اور

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ سامان لے کر ادھر سے ادھر دوڑ جاری رہی۔ اور مغرd ہی کیا

یہی عالم رات ساڑھے دس بجے تک رہا اگر چہ مغرd کے بعد زیادہ دیر تک عرفات میں رکنا

منع ہے، مگر کیا کیا جائے، مجبوری تھی۔ مزدلفہ کے لئے جو بسوں کی پہلی کھیپ گئی

Page 187: اللہ میاں کے مہمان

آانے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ادھر ٹیکسی والے ریال مانگ رہے تھے۔40۔40تھی، وہ

ریال ہو گیا تو ہم ایک ٹیکسی10۔10خیر۔ یہ بھاؤ کم ہوتے ہوتے رات ساڑھے دس بجے تک

آا گئے۔ رات بجے پہنچ سکے۔ مزدلفہ میں مغرd اور عشاء کی نمازیں ساتھ11میں مزدلفہ

بب ^در پڑھنی ہوتی ہیں چاہے کتنی ہی دیر کیوں نہ ہو جائے۔ اور پھر یہ رات کہتے ہیں کہ ش

سے زیادہ ^یمتی رات ہے۔ یہاں پہلے تو مغرd اور عشاء کی نمازیں پڑھی گئیں، پھر کھانا

کھایا گیا۔ ان لوگوں نے ہی کھایا ور صابرہ نے ان کا ساتھ دیا۔ ان سے بSث کی بات بعد

میں لکھیں گے بہر حال ہم نے کھانا نہیں کھایا۔ مSض بیٹھے رہے۔ جہاں چٹائیاں بچھائی

گئی تھیں۔ وہاں اتنی جگہ نہیں تھی کہ ہم سو سکتے۔ کھانے کے بعد سب لوگ تو سونے

کے لئے لیٹ گئے۔ ہم یوں بھی دن میں دو دو نمازوں کی ^ضاء ہمیشہ پڑھتے رہے ہیں اور یہاں

سات سات نمازوں کی ^ضاء کا معمول بنایا تھا حرمین میں اور سوچا تھا کہ عرفات اور مزدلفہ

میں بھی یہی سلسلہ رکھیں گے۔ مگر یہاں لوگوں نے سونے میں ہمارے لئے نماز کی جگہ

بھی نہ چھوڑی تھی۔ اس لئے مSض ٹہلتے رہے، صابرہ بیچاری نے کسی کے سامان سے ایک

جانماز نکال کر دی کہ کہیں بچھا لو تو ہم نے نمازیں شروع کیں۔

حرر ارشاد پھرمک

کچھ ^ضاء نمازیں پڑھ کر بریک لیا۔ صابرہ نے ہمارے لئے کچھ بسکٹ اور توس نکال کر

رکھے تھے کہ چائے کے ساتھ کھا لیں۔ چائے جو وہاں شروع میں پی تھی۔ وہ دو ریال کی

Page 188: اللہ میاں کے مہمان

حتہ سادہ یا کالی چائے ایک ریال کی تھی۔ ہم کو ایک ریال کی20تھی یعنی روپئے کی۔ الب

چائے بھی مہنگی ہی لگتی ہے اور ہم اکثر ایک پیالی )یا گلاس( ہی خریدتے رہے ہیں اور اسی

آائے ہیں۔ مگر اd کھانے کے بدل کے طور پر دو ریال کی ہی آادھی بانٹ کر پیتے آادھی کو

12دودھ والی چائے خریدی ا ور کیک بسکٹ توس کھا کر اسے کھانے )یا ڈنر( کا نام دیا۔

یوÁ التسبیح بھی پڑھنے کا ارادہ تھا۔ بج چکے تھے۔ اس کھانے کے بعد اور نمازیں پڑھیں۔ صل

یوÁ التسبیح پڑھ کر پھر سو حجد اور صل صابرہ شروع میں سو گئی تھیں ، پھر دو بجے اٹھیں اور تہ

ت ہے آاخر و آاخر ت ت میں ۔ مزدلفہ میں دعاؤں اور عبادتوں کا افضل و آاخر و گئی تھیں۔ مگر

ت ہم کو پیشاd کی حاجت ہوئی۔ سوچا کہ ضرورت سے آاس پاس۔ اس و فجر کی ابتدا کے

یوÁ التسبیح اور پھر فجر پڑھیں گے۔ ساڑھے فراغت کے بعد وضو کر کے پھر تر و تازہ ہو کر صل

تین بج رہے تھے۔ جا نماز کا کونہ پلٹ کر اس مقصد سے عوامی ٹائلیٹس کی طرف گئے

اور... وہاں ہی صبح ہو گئی۔جی ہاں، ہر ٹائلیٹ کے باہر اتنی لمبی ^طار تھی کہ ہمارا نمبر

آانے تک پانچ بج گئے۔ اس ڈیڑھ گھنٹے میں ہم ^طار میں کھڑے کھڑے اونگھتے رہے۔ بلکہ

تین چار بار نیند کے جھونکے میں گرتے گرتے بھی بچے۔اس دوران پیشاd کی ضرورت ختم

آایا تو دونوں بھی ہو گئی تھی مگر اd اجابت مSسوس ہو نے لگی تھی۔ بعد میں جب نمبر

'پریشر' غائب۔ کچھ دیر بیٹھنا پڑا لوگوں کی دستکوں کے باوجود۔ بہر حال باہر نکل کر وضو

آائے تو یہاں سب لوگ سامان باندھ کر چلنے کے انتظار میں ہمارے منتظر تھے۔ نماز کر کے

ت کم تھا نماز کا اس لئے ہم نے بھی جلدی جلدی فجر کی نماز کب کی ہو چکی تھی۔ و

یی کے لئے روانہ ہو گیا۔ غرض افسوس کہ یہ پڑھی اور چھہ بجے کے ^ریب ہمارا ^افلہ پیدل ہی من

Page 189: اللہ میاں کے مہمان

حرر عرض یا ارشاد ہے کہ حق تو یہ ہے کہ ت بھی ضائع ہو گیا۔ وہی مصرعہ مک ایک اور اہم و

حق ادا نہ ہوا۔

Page 190: اللہ میاں کے مہمان

یی واپسی عرفات سے من

/ اپریل پونے دو بجے دن21

ت تو مظہر بھائی کی رہنمائی میں ہمارا ^افلہ چل پڑا۔ پہلے تو ہم سوچ رہے تھے کہ اس و

بسیں مل سکیں گی مگر شاید مظہر بھائی کو حقیقت معلوم تھی کہ بسوں کے انتظار میں

آاگے دیکھتے ہیں کہہ کر انھوں نے پیدل چلنا شروع کیا۔سبھی ت ہی ضائع ہوگا۔ چناں چہ و

نے اپنا اپنا سامان ساتھ لیا اور چلنے لگے۔ ویسے سامان بھی ہلکا ہی تھا سب کا۔ ^افلے میں

دو حضرات اور بھی تھے۔ ان لوگوں میں سے ہی کسی کے رشتے دار۔ اور وہ ایسے اعتماد سے

ہمیں لے جا رہے تھے جیسے راستہ انھیں 'زبانی' یاد ہے۔ ویسے تو ہم کو بھی کافی اندازہ تھا۔

یی اور مزدلفہ ہوتے ہوئے سیدھی عرفات جاتی آاتی ہے، وہ من حکے سے ایک مین روڈ جو دراصل م

یی کے علا^ے میں کئی متوازی ہے۔ یہ سڑک جمرات تک تو سیدھی جاتی ہے۔ اس کے بعد من

یی میں رہنے والا ہر سڑکوں میں بٹ جاتی ہے اور مزدلفہ کی طرف پھر واحد ہو جاتی ہے۔من

شخص یہی سمجھتا ہے کہ اس کے کیمپ کی سڑک سیدھی مزدلفہ جاتی ہے حالاں کہ یہ

غلط فہمی ہے۔ بس اس سیدھی سڑک کی ہی تلاش تھی جو ہم بغیر رہنمائی کے بھی

حمے ڈھونڈھ سکتے تھے مگر کیوں کہ رہنما ساتھ تھے، اس لئے یہ کام ہم نے انھیں کے ذ

ت تو صرف رخ چھوڑ دیا۔ یہاں بھٹکنے کا اس طر� 'معقول انتظام' ہے کہ مزدلفہ جاتے و

یی داخل ہو جائیں گے تو جس آاپ من متعین کرنے کی ضرورت ہے، مگر واپسی میں جب

Page 191: اللہ میاں کے مہمان

یی پہنچ کر تو ہم اپنے آاپ کا کیمپ نہیں ہوگا۔ من آاپ اپنی سمجھیں گے، اس پر سڑک کو

' تھا۔اور54کیمپ پہنچ سکتے تھے کہ کیمپ میں اونچے ستونوں پر نمبر لکھا تھا جو ہمارا '

وع پہلے ہی دن اچھی طر� ذہن میں مSفوظ کر لیا تھا۔ ہم نے اس کا مSل و

ح^ت بھیڑ تو تھی ہی۔ سڑکوں پر کاروں اور بسوں کا ٹریفک بھی تھا۔سب کے ساتھ چلنے میں د

تھی اس کا علاج مظہر بھائی نے یوں کیا کہ وہ تلبیہ پکارتے جا رہے تھے اور ان کے تابعین

آاواز بھی گویا سمت نما تھی۔ ادھر ہماری صابرہ بیغم کا سبز لباس بھی دہرا رہے تھے، اور یہ

آا رہا تھا۔راستے میں ایک آاسانی سے پہچاننے میں دوسری خواتین سے کافی مختلف تھا اور

کار ٹریفک میں پھنسی رکی ہوئی تھی۔ صابرہ اس کے دائیں طرف سے نکلیں اور ہم بائیں

طرف سے۔ ہم نے صابرہ کو مڑتے ہوئے بھی صاف دیکھا۔ مظہر بھائی بھی بائیں طرف تھے۔

آاگے ایک اور بس پار کر کے دیکھا تو صابرہ اور مظہر بھائی دونوں غائب! نہ تلبیہ اس کار کے

آاگے بڑھ کر دیکھا، مایوسی۔ پھر کچھ حٹہ۔ کچھ تیزی سے آاواز تھی نہ صابرہ کا ہرا دوپ کی

آائے ہوں مگر ہنوز مایوسی۔ کیا ہوا تھا، یہ راز تو اd تک آاگے نکل رکے کہ ممکن ہے کہ ہم ہی

نہ کھلا۔ ان لوگوں کو دیکھنے کی کوشش میں اور بھیڑ کے ریلے میں ہم ایک سڑک پر بائیں

مڑ گئے تو اچانک پایا کہ ہمارے سر پر چھت ہے۔ یہ وہی شیڈ والی سڑک تھی جس نے ہمیں

حصے نے(۔ یہ راستہ سمجھ گئے اور اسی پر آاگے کے ح آاگ سے بچایا تھا )مگر اس کے کافی

یی میں آاگے جا کر اپنا کیمپ دیکھیں گے۔ یہ بھی یاد تھا کہ ہم نے من چلتے رہے کہ کچھ

غسل خانوں کی طرف سے دیکھا تھا کہ ہمارے کیمپ کے ایک طرف پہاڑ ہی تھا یعنی اس

لمبی سڑک سے دائیں مڑنے پر ہی ہمارے کیمپ کی سڑک ہونی چاہئے۔ ایک دو لوگوں سے

Page 192: اللہ میاں کے مہمان

پھر بھی پوچھ لیا کہ سوق العرd کدھر ہے مگر یہ لوگ ہم سے بھی زیادہ ناوا^ف تھے۔ مڑتے

آائے، کیمپ نمبر آاگیا اور یہ ہم کو یاد تھا کہ55ہی جب ہم ایک متوازی سڑک پر لکھا نظر

آائے کہ ہمارے کیمپ کا نمبر بھی55 سے 51 آاگے نمبر تک لائن سے کیمپ ہیں۔ کچھ ہی

آاگیا۔ بجے جب پہنچے تو یہاں کوئی نہیں پہنچا تھا۔8ستون پر نظر

آاثار کیا ہوئے یا رd ترے عذاd کے

آاگ لگی آاثار نہیں تھے کہ یہاں کبھی یی کیمپ تھا؟ حیران رہ گئے۔کہیں کوئی یہ کون سامن

گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے اور سارے خیمے48تھی۔ اس جگہ کو تباہ و برباد دیکھے ابھی

آاٹھ بجے تک تو ہم وہاں ہی تھے، وہاں کچھ نہیں ہوا تھا، آاگ والے دن رات لگے ہوئے تھے۔

آاگ کے46ہاں، بھیگے ہوئے اور گرے ہوئے خیمے ہٹائے جا رہے تھے۔ اور ان dگھنٹوں میں ا

آاگ کا اثر یہ ضرور تھا کہ اس بار یہاں حتہ آاثار نہیں تھے۔ سارے خیمے لگے تھے۔ الب کوئی

بھی خیمے چھت والے نہیں، کھلے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اd بجلی بھی نہیں تھی اندر۔

صرف باہر روشنیوں کا انتظام تھا۔ یہ عرفات کے خیموں کی طر� تھے، بلکہ وہاں تو پھر ^نات

آاپ ایک سرے سے یی میں اd خیموں کی دیواریں بھی نہیں تھیں۔ کی دیواریں تھیں، من

دوسرے سرے تک کسی سمت میں بھی جا سکتے تھے اور لوگوں کو پھلانگنے کے جرم میں

گالیاں سن سکتے تھے۔ دوکانیں پہلے کی ہی طر� لگ چکی تھیں۔ بس ،سڑک پر اd بھی

آاجاتا تھا۔ہاں، چائے کی حYل یا تولیہ نظر کونوں میں کہیں ٹوٹی ہوئی چھتری، کسی کی چ

Page 193: اللہ میاں کے مہمان

یی ہو گئی تھی، تھی تو دو ریال کی، وہ بھی مشکل ہو گئی تھی۔ دودھ والی چائے عنق

یی میں مہنگائی زیادہ ہی تھی، اd اور بڑھ گئی تھی۔ ایک ڈھونڈھنے پر۔ویسے پہلے بھی من

ریال والے کولڈ ڈرنک ڈیڑھ ریال کے مل رہے تھے۔

اس بار خیموں کے نمبر بھی نہیں تھے اور ^ناتوں کی دیوار بنانے کی بجائے ان کا فرش بنا دیا

آاپ نے دیکھیں ہوں گیا تھا اس لئے چٹائیاں بچھانے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔^ناتیں تو

گی۔ ان میں کYڑے کے نیفے میں بانس اڑسے ہوئے ہوتے ہیں تھوڑی تھوڑی دور پر۔ یہاں ان

^ناتوں میں بانس لگے چھوڑ دئے گئے تھے۔ اس وجہ سے دو بانسوں کے درمیان کوئی ڈھائی

/ ذی الSج کو لوگوں8فٹ کی جگہ ہی با^ی تھی جس میں بستر لگایا جا سکتا تھا۔ کہاں

نے دریوں پر اپنی چوڑی چوڑی چٹائیاں اور چادریں ڈال کر جگہیں گھیر لی تھیں، اd ہر

شخص دو بانسوں کی درمیانی جگہ میں اپنا بستر بچھانے کے لئے مجبور تھا چاہے کتنی ہی

بم شنیدن چاہے جتنا پھیلائیے، اس پر پابندی نہیں، مگر اور چوڑی چادر اس کے پاس ہو۔ دا

کوئی دام پھیلانے کی جگہ ندارد۔

ہم نے بھی ایک جگہ خالی دیکھ کر ^بضہ جما لیا، اگر چہ ہمارے پاس ایک بیگ ہی تھا،

آائے نہیں تھے۔ ہم انتظار کرتے رہے۔ ایک دوسرا بیگ صابرہ کے پاس تھا، اور وہ لوگ اd تک

آائے۔ یہ لوگ معہ مظہر بھائی وغیرہ کے بار جا کر اکیلے ہی ناشتہ کر کے چائے بھی پی کر

ساڑھے نو بجے پہنچے۔ معلوم ہوا کہ یہ ہم سے زیادہ ہی بھٹکے۔ ان لوگوں نے دوسری جگہ اپنا

سامان رکھ کر جگہ بنا لی تھی، اس لئے پھر ہم نے بھی اپنا سامان وہاں سے ہٹا کر اسی طرف

Page 194: اللہ میاں کے مہمان

بجے تک ہی وہاں پہنچ11رکھ لیا۔ وہاں بھی کافی جگہ تھی۔ اس لئے بھی کہ بیشترلوگ

سکے تھے۔

شیطانوں کو سزا

ب ^رباں مناتی ہے مگر ہماری اصل عید، یعنی حج کا10یہ دن حجہ کا تھا جب دنیا عید Sذی ال /

آاج مگر دوسرے ارکان تھے۔ بڑے شیطان یعنی بف عرفات تو ہو ہی چکا تھا۔ و اصل رکن۔ و

حمار کہتے ہیں اس عمل کو یا مSض رمی(۔ پھر ^ربانی ی کو کنکریاں مارنا )رمئ ج جمرÁ عقبی

پھر حلق یعنی بال کٹوانا۔

حتار بھائی حبار بھائی، س بسم اللہ رمی سے کی۔ اس میں مظہر بھائی تو ساتھ نہیں تھے مگر ج

حتار بھائی کی بیوی کے رشتے دار جعفر اور ان کی بیویاں اور ہم دونوں ساتھ تھے اور ساتھ ہی س

حکے میں بھی ان سے ملا^ات ہوئی تھی۔ انھوں نے ہی آادمی ہیں۔ م صاحب بھی جو مقامی

^ربانی کا انتظام کیا تھا۔اگرچہ ان کا ارادہ تھا کہ جب رمی کے لئے نکلیں تو جمرات تک

حکہ چلے جائیں اور وہیں کوئی ڈیڑھ کلومیٹر تو پیدل ہی چلیں اور وہاں سے ٹیکسی کر کے م

^ربانی دے لیں اور پھرطواف بھی مکمل کر لیں۔ اس سے ^ربانی کا گوشت بھی وہاں ان لوگوں

آاجائے۔ ^ربانی کے بعد حرم میں ہی بال کے رشتے داروں اور دوسرے ملا^اتیوں کے کام میں

آاجائیں۔ اگرچہ حرج تو اس میں بھی نہیں تھا۔ یی واپس بف زیارÁ کر کے من کٹوا کرنہا دھو کرطوا

Page 195: اللہ میاں کے مہمان

یی میں یی میں ہی ^ربانی بہتر ہے ۔ یہ توثابت نہیں ہو اتھاکہ من مگر ہر کتاd میں لکھا ہے کہ من

ت ہی ^ربانی واجب ہے اوراگر چہ کہیں اورکرائی جائے تو یہ واجب ادانہ ہوگا۔ کیوں کہ اس و

بد یی میں ہی ^یام پذیر ہوتے ہیں اس لئے بھی وہاں ہی ^ربانی کرائی جاتی ہے۔ مسج سب لوگ من

نبوی میں جو حج کا کتابچہ ہم کو ملا تھا، اس میں ہنبلی مسلک )جو سعودی عرd کا

سرکاری مسلک ہے( کے مطابق وضاحت تھی کہ ^ربانی کہیں بھی کرائی جا سکتی ہے۔مگر

پھر بھی لوگوں کو شبہ تھا کہ حنفی مسلک کے حساd سے ادا ہوگی یا نہیں۔ چناں چہ پھر

یی میں ہی ^ربانی کرنے کا پلان بنایا اور جعفر صاحب نے وہاں بھی انتظام کرنا سب نے ہی من

آاج یی پر جہاں حمے لے لیا، بلکہ خود اپنے لئے بھی وہیں ^ربانی کرنا طے کر لیا۔ جمرÁ عقب اپنے ذ

رمی کرنی تھی، ہمیں اس طر� دو دو کر کے بھیڑ میں جگہ بناتے ہوئے ساتھ لے گئے کہ ہم

فٹ کی دوری سے رمی کر سکے۔اور وہ بھی نیچے سے جہاں6۔5لوگ اس ستون پرمSض

آاج کل دو سطSوں پر ہے، شیڈ کے عام طور پر بہت بھیڑ ہوتی ہے۔کنکریاں مارنے کا انتظام

نیچے والی سڑک پرتو ہے ہی جہاں سے ہم نے ماریں، اوپر فلائی اوور پر بھی ہے۔ وہاں بھی

یف نما سیمنٹ کا ایک ایک گول سوراخ کر کے اوپر تک یہی ستون لے جایا گیا ہے۔ اوپر

دائرہ یا مSیط ہے جس کا ڈھال اندر مرکز کے اندر اس طر� ہے کہ کنکریاں ڈالنے پر نیچے ہی

گرتی ہیں۔ ہاں، یہ تو لکھنا ہی بھول گئے کہ اس کام کے لئے مزدلفہ سے ہی کنکریاں چن کر

حکی سڑک یا فرش ہے یا پھر ریت اور یی میں تو ہر طرف پ لائے تھے بڑے چنے کے برابر۔ من

آاسانی سے ادا ہو گیا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ جہاں اور مٹی۔ بہر حال یہ واجب بھی بہت

حھر پھینک' فاصلے ) ( سے کنکریاں مارتےStone throw distanceلوگ 'پت

Page 196: اللہ میاں کے مہمان

( سے کنکریاں ماریں۔Hand shake distanceہیں، ہم نے 'ہاتھ ملا' فاصلے )

یوں کہئے کہ بڑے شیطان سے ہاتھ ملایا۔ وہان لوگوں کے پاس دیکھا کہ کنکریوں کی بجائے

حمار کیا، شیطان موذی کو سنگسار کر رہے تھے۔ بعد میں حھر مار رہے تھے۔ رمی ج با^اعدہ پت

آاپ حھر پھینک' فاصلہ بڑھ جاتا ہے، یعنی حھروں سے 'پت ہم کو اس کی وجہ معلوم ہوئی کہ بڑے پت

حمید کم ہوتی ہے۔ حھر مار سکتے ہیں، خطا ہونے کی ا زیادہ دوری سے بھی صSیح نشانے پر پت

آاتی اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ لگی بھی یا چھوٹی کنکری دور سے مارنے پر نظر بھی نہیں

آاس پاس کے دائرے میں ضرور گرنی نہیں۔ ستون کو چاہے یہ کنکری نہ لگے، مگر ستون کے

ت تو ہم نے اتنے ^ریب سے 'سنگساری' کی کہ ساری کنکریوں کو خود ستون پر چاہئے۔ اس و

لگتے دیکھا، لیکن اگلے دو دن کی رمی کا نہیں کہہ سکتے، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ خیر،

جیسا کتابوں میں لکھا تھا، ہم نے ویسی ہی چھوٹے کنکریاں ماریں، اd شیطان کو ان کی

حیت تو اس موذی کو زیادہ سے زیادہ ایذا چوٹ پہنچی یا نہیں، ہم تو مطمئن ہیں کہ ہماری ن

حھاہے، معاف کر دینا بہتر ہے۔ دینے کی تھی، اگر چہ اسلام میں سزا بھی کم سے کم دینا اچ

حھروں سے اس لیکن حکم کی تعمیل بھی ضروری ہے۔ اور یوں بھی کہئے کہ ان کنکریوں یا پت

حمارہ کو گر مارا۔موذی کو مارا بھی تو کیا مارا، کہ بس ع ؎بڑے موذی کو مارا، نف

یی کے مسلخ گئے جو ہم سب کی حبار بھائی کو لے کر من اس کے بعد جعفر صاحب ج

آائے۔ سب کے ملا کر حصے ہو گئے14نمائندگی کر رہے تھے اور دو اونٹ کاٹ کر ح

تھے)کچھ لوگ اور بھی شامل ہو گئے تھے(۔ چناں چہ ادھر ^ربانی کرواکر یہ لوگ لوٹے، ادھر

ہم بالوں کی ^ربانی کے لئے نکلے۔ یہ کام ^ربانی سے پہلے نہیں کیا جاتاہے۔

Page 197: اللہ میاں کے مہمان

'ایکسYریس' حجامت

بجے دو پہر2/اپریل، 22

حجام نے اپنی دوکان میں ساین بورڈ لگا رکھاتھا کہ آاپ نے سنا ہی ہوگا کہ ایک ح وہ لطیفہ تو

' لوگوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ وہـ'یہاں ایکسYریس ٹرین کی طر� حجامت بنائی جاتی ہے

آاپ جلدی ہی فارغ ہو سکتے ہیں۔ ایک صاحب نے نہایت تیز رفتاری سے بال کاٹتا ہوگا اور

آائینہ دیکھاتو شکایت کی کہ بھائی تم نے یہاں وہاں بہت سے بال اس سے حجامت بنوا کر

اا جواd دیا۔ حجام نے فور آاـچھوڑ دئے ہیں۔ ح آاپ کو معلوم ہونا چاہئے' پ نے بورڈ نہیں دیکھا؟۔

کہ ایکسYریس ٹرین چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں پر نہیں رکتی'۔

حجاموں کی کافی بھیڑ لگی ہے۔سوچا دوپہر کو ہم رمی کے لئے گئے تھے تو وہاں دیکھا کہ ح

تھا کہ شاید حجامت کے لئے وہیں جانا ہوگا۔ کھانا کھا کر کیمپ سے نکلے تو دیکھا کہ

حجام بیٹھے ہیں، بلکہ تھوڑی ہی دور پر جہاں پانی کے نل یا واٹر کولر لگا ہے، تین چار ح

کھڑے ہیں اور لوگوں کی حجامت بنا رہے ہیں اور پکار رہے ہیں۔ مرحبا الSاج۔ مرحبا الSاج۔

اا چلے جا رہے ہیں۔ ہم بھی ایک اخی کے پاس چلے گئے۔ عرض کی کہ اا و سہل اور لوگ اہل

آائینہ تو وہاں تھا نہیں۔ اا اپنی ایکسYریس ٹرین اسٹارٹ کر دی۔ استرا پھروانا ہے۔ اس اخی نے فور

منٹ میں فارغ ہوکے کہا3۔2ہم کو ان اخی پر ہی کامل اعتماد تھا۔ موصوف نے مشکل سے

Page 198: اللہ میاں کے مہمان

کہ نل پر سر دھو لو۔ وہ تو دھونا ہی تھامگر اس سے پہلے سر پر ہاتھ لگایا تو خون مSسوس

حجام تو کہیں کٹ جانے پر پہلے معذرت کرتے ہیں، پھر روئی سے ہوا۔ ہمارے ہندوستانی ح

زخم صاف کر کے ٹالکم پاؤڈر لگاتے ہیں، پھٹکری ملتے ہیں۔ کوئی کوئی تو ڈیٹال بھی لگاتے

بش گردن سے جواd دے دیا، ہیں۔ ان مSترم کو اپنا زخم دکھایا تو اخی نے مSض ایک جنب

یا واللہ اعلم ہم ہی یہ مطلب سمجھے کہ کر لو جو چاہے کرنا ہے۔ کرنا تو ہم کو بس یہی تھا

کہ نل پر سر دھو لینا تھا اور خمسہ ریال، کہ نصف جس کے ڈھائی ریال ہوتے ہیں، اخی کی

بت عالیہ میں پیش کر دیناتھا۔ خدم

'فارغ البال' ہو کر کیمپ پہنچے تو پہلے صابرہ نے ہی نشان دہی کی کہ بال تو کئی جگہ

بخ انور ملاحظہ کرنے کے بعد یہ بات آائینہ ملا تو ر آائینے کی تلاش کی۔ اا چھوٹ گئے ہیں۔ فور

االٹے آائی۔ ویسے بھی ہم کو بیغم کی بات پر بے اعتباری تو نہیں تھی۔ حقیقت سے پر نظر

یی کی بھیڑ میں سیدھے پیروں بھی چلنے پیروں )یہ تو مSاورہ ہے، ورنہ حقیقت تو یہ تھی کہ من

کی جگہ کہاں تھی جو کوئی الٹے پیروں چل سکتا(پھر اخی کے دربار میں حاضری دی اور

بتایا کہ دیکھو کتنے بہت سے بال چھوٹ گئے ہیں، انھیں برابر تو کر دو۔ موصوف نے پہلے

تو کہا

آاپ ہمارے پاس بال کٹا کر ہی نہیں گئے، کہیں اور کٹوائے ہوں گے'۔ '

'تم سے جھوٹ بول کر کیا کریں گے بھائی' ہم نے عرض کی۔'ابھی تو کٹا کر گئے ہیں، جا

آارہے ہیں'۔ آائینہ دیکھ کر دوڑے چلے کر ابھی

Page 199: اللہ میاں کے مہمان

آاپ پیسے دئے بغیر چلے گئے تھے۔ پہلے لایئے آایا، اا نیا ہی پینترا بدلا 'ہاں، یاد اخی نے جواب

آایا، اس لئے ہم نے بھی کہہ ہی دیا 'بال ٹھیک نہیں کرنا ہے تو حصہ تو بہت خمسہ ریال' غ

صاف کہہ دو، جھوٹا الزام تو مت لگاؤ'۔ تو موصوف نے جھٹ ایک طرف استرا پھر چلا دیا

اور ایک طرف کے بال تو کم از کم ٹھیک سے صاف ہو گئے۔

خیر سے ہم حاجی ہو گئے

حجہ کے با^ی پروگرام ہو چکے تھے۔ یعنی مزدلفہ سے واپسی، رمئ جمار بلکہ10 Sذی ال /

یی کو کنکریاں مارنا، ^ربانی اور پھر حلق۔ اd ایک رکن بجا تھا جو اگرچہ صرف جمرÁ عقب

بف12 حجہ تک کر سکتے تھے مگر بتدریج گھٹتی ہوئی افضلیت کے ساتھ، یعنی طوا Sذی ال /

یی کا ^یام اور اور تینوں جمرات کی رمی بھی کرنی ہوتی ہے مگر زیارÁ۔ ویسے تو دو دن اور من

بف افاضہ بھی کہتے ییں(ہے اور جس کے اصل رکن یہی طواف زیارت یا زیارہ یا زیارÁ )اسے طوا

بعد سعی بھی شامل ہے، مگر سعی کے بعد دوبارہ بال کٹوانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس

آانا تھا۔ طواف کے لئے حرم جانا اور پھر واپس

ت ساڑھے پانچ یا پونے چھہ بج رہے تھے۔پہلے مظہر بھائی کا ہی یہ مشورہ تھا کہ حرم ااس و

میں ہی چل کر نہایا جائے اور سب کYڑے لے کر چلیں جسے سب نے ^بول کر لیا تھا،

عہ پر خود مظہر بھائی غائب ہو گئے اور پتہ چلا کہ ان کا ارادہ عورتوں نے بھی۔ مگر عین مو

Page 200: اللہ میاں کے مہمان

حتار بھائی اور حبار اور س نہا کر چلنے کا ہے، ان کا انتظار کرنا پڑا۔ اور ان کا ساتھ دینے میں ج

مظہر بھائی کے لڑکے بھی وہیں رک گئے۔ ہم اپنے ارادے پر ^ایم رہے۔ وہ تو بھلا ہوا کہ

عورتوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا ورنہ ہمیں اور بھی دیر ہو جاتی۔ غرض اس میں ساڑھے چھہ بج

گئے اور پھر طے ہوا کہ مغرd پڑھ کر ہی سب لوگ نکلیں۔ اس میں سوا سات بج گئے۔ ایک

مقامی صاحب اور مظہر بھائی کو مل گئے تھے، ان کو بھی ساتھ لیا کہ وہ رہنمائی کر سکیں

اپل )یا کوہری، یہ پل کے لئے عربی کا لفظ کہ بس کہاں سے ملے گی۔ انھوں نے ملک خالد

آاگے حاجیوں کے کیمپ شروع ہو بد خیف کا پیدل کا راستہ لے لیا۔تھوڑا آاگے مسج ہے(کے

یی کا بج کرام اپنی چٹائیاں بچھائے بیٹھے تھے۔یہی ان کا من حجا گئے۔یہاں جہاں جگہ ملی، ح

حکے کا سفر خرچ برداشت کر کے ^یام تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو بغیر کسی معلم کے تھے اورم

کسی طر� پہنچ گئے تھے، کئی مقامی لوگ اس ہجوم میں تھے جن میں وہ ہندوستانی

پاکستانی بھی رہے ہوں گے جو سعودی عرd میں ہی ملازمت یا کاروبار میں لگے ہوں گے۔

حکہ میں غسل خانے اور ان کی چھتیں، بم م رہنے سونے کے کے لئے ساری خدا کی زمین۔ حر

بد نبوی اور اس کے ^ریب کی دوکانوں کے چبوترے اور برامدے )حج کے بعد جو لوگ مسج

وہاں جاتے ہیں اور یہ ہم سنی سنائی بات لکھ رہے ہیں(۔ ان خود ساختہ کیمYوں کے درمیان

پگڈنڈی بھر جگہ تھی چلنے کے لئے اور اسی میں سڑک بھر مجمع نکلنا چاہتا تھا۔ نتیجہ؟

حکم پیل۔ خودہم دو بار 'کیمپ زدہ' حاجیوں پر گر پڑے۔ دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ اس چکر دھ

حتار بھائی اور ان کی اہلیہ اور ہم دونوں کے علاوہ با^ی سارے ساتھی بچھڑ گئے۔ میں صرف س

یہ کیمپ شےڈ والے راستے )فلائی اوور(کے ^ریب ہی تھے اور ہم لوگ، ہمارے مشورے پر ہی

Page 201: اللہ میاں کے مہمان

عمل کرتے ہوئے، اس ریلے سے کٹ کر ان کیمYوں میں اچھل کود سے بچ کر اس فلائی اوور

یی کا علا^ہ تھا۔^ریب ہی کنکریاں ابھی بھی ماری جارہی تھیں۔ آا گئے۔یہ وہی جمرÁ عقب پر

عورتوں کے لئے اجازت ہے کہ مغرd کے بعد مار لیں ورنہ مردوں )بوڑھوں اور بیماروں کو چھوڑ

کر( کو مغرd سے ^بل ہی یہ رکن ادا کرنا ہوتا ہے۔ ہم چاروں تھوڑی ہی دور اس راستے پر چلے

اا جا کر بس آائیں۔ فور آاگیا اور کئی بسیں کھڑی ہوئی نظر ہوں گے کہ ایک جگہ بس اسٹاپ نظر

بd ملک فہد کے پکڑی۔ دس دس ریال ٹکٹ تھا حرم کا۔ اس بس نے کوئی پون گھنٹے میں با

بف پاس ہمیں اتارا۔ کیوں کہ اس طرف کے غسل خانوں کا ہمیں پتہ نہیں تھا تب تک اور طوا

یی کی زیارت سے پہلے نہانے کا بھی ارادہ تھا اس لئے اس باd سے باہر ہی باہر گھوم کر مسع

حسلام، آاپ کو بتایا ہوگا کہ اس طرف باd ال آائے کہ یہ علا^ہ ہمارا جانا پہچانا تھا۔ شاید طرف

آائے تو دیکھا کہ ایک باd علی،باd النبی وغیرہ تھے۔ جب ادھر کے غسل خانوں کی طرف

حبار جگہ صSن میں مظہر بھائی اور ان کا خاندان اور دوسرے ساتھی )بلکہ واضح الفاظ میں ج

ت بھائی کا خاندان ( بیٹھے ہیں جو ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے۔ عشاء کی اذان تو اس و

یی کے حاجیوں کو پھلانگ رہے تھے۔ یہاں پہنچے تو سوچا کہ ہی ہو چکی تھی جب ہم من

آارام سے عشاء اور طواف سے فارغ ہوں۔ پہلے نہایا جائے، پھر کھانا کھا ئیں اور

ت غسل خانوں کی حالت تباہ تھی۔ کئی غسل خانے 'چوک') (ہو چکےchokeاس و

حبے بکھرے پڑے تھے۔ تھے۔ ساری راہداریوں میں پالی تھین بیگ اور کYڑوں کے کاغذ کے ڈ

شاید لوگوں نے نئے ملبوس لئے تھے اور ان کو معہ پیکنگ کے غسل خانوں میں لے گئے تھے

اور خود تو نئی پیکنگ میں نکل گئے تھے، کYڑوں کی پیکنگ وہیں چھوڑ گئے تھے۔ کچھ

Page 202: اللہ میاں کے مہمان

ف الی آادمیوں نے تو نہ صرف اپنے نئے کYڑوں کی پیکنگ بلکہ اپنے پرانے کYڑے بھی 'و شریف

الSرم' کر دئے تھے۔کئی احرام بھی چھوڑ گئے تھے۔ بہر حال ادھر ہم نہانے بیٹھے اور ادھر

آاوازیں لگانے لگے کہ غسل خانے جلدی خالی کئے جائیں۔بہر صفائی کرنے والے پہنچے اور

ت۔ طے ہوا کہ کھانے کے بعد حال کسی طر� ہم نہا کر نکلے۔ دس بج رہے ہوں گے اس و

حتار بھائی کھانا خریدنے نکلے۔ انڈا بھری روٹیاں، ہی طواف اور سعی کے لئے نکلیں ہم اورس

دال، سبزی، دہی سب کچھ خرید کر کھانا کھانے اور پھر عشاء کی نماز پڑھنے تک ساڑھے

گیارہ بلکہ بارہ بج گئے تھے۔

طواف کے لئے سب ساتھ ہی داخل ہوئے مگر اتنا بڑا گروپ بنا کر تو چلنا مشکل ہی تھا۔اس

لئے سب نے اپنی اپنی بیویوں کے ہاتھ پکڑ لئے۔ بس مظہر بھائی اکیلے تھے کہ ان کی بیوی

کا ہاتھ ان کے کنوارے لڑکے نے پکڑ رکھا تھا۔پہلے چکر تک تو ہم سب ایک دوسرے کو

حکر میں سب غائب! طے یہی ہوا تھا کہ بچھڑ بھی جائیں تو دیکھتے رہے، مگر دوسرے ہی چ

باd السلام پر ملیں گے۔

/ اپریل، رات ساڑھے نو بجے22

حمید بھی نہیں تھی کہ رات ت کی کیا کیفیت لکھیں۔ ا بجے3 بجے سے 12حرم میں اس و

حکم دھکا آ کا یہ عالمکے درمیان بھی جب کہ ہم نے طواف اور سعی کی، بھیڑ بھاڑ اور دھ

ہوگا۔ کھوا تو ہم کو خود معلوم نہیں کہ کیا ہوتا ہے ورنہ یہ لکھتے کہ کھوا سے کھوا چھلتا

Page 203: اللہ میاں کے مہمان

اورے سے یہی مطلب نکالتے ہیں کہ بہت بھیڑ تھی اس لئے یہ مSاورہ ٹھیکتھا۔مگر اس مح

ہی لاگو ہوگا یہاں۔ طواف تو خیر ہم نے گھنٹہ بھر میں کر لیا تھا، مگر سعی میں، جس میں

dت بھی کوئی پون گھنٹہ لگا ہوگا، مگر ا / کی رات کو )ویسے10پہلے عمرے کے و

/ اپریل اور اسلامی حساd سے تو18انگریزی حساd سے بھی تاریخ بدل چکی تھی یعنی

ت ہی اا دو گھنٹے لگ گئے۔11مغرd کے و / ذی الSجہ شروع ہو چکی تھی( اس میں تقریب

بن حرم میں صابرہ اور سامان کو چھوڑ کر ساتھیوں کی تلاش شروع کی Sآا کر ص اس کے باہر

مگر ان کا پتہ نہیں تھا۔ پونے تین سے پونے چار بجے تک ان لوگوں کا انتظار کیا مگر مایوسی

آاخر ہم نے واپسی کے لئے کمر باندھی۔باd السلام، باd النبی کی طرف سے ہی ہی ہوئی۔

نکلے کہ شاید وہاں یہ لوگ مل جائیں۔ ویسے یہ ہمارا ہمیشہ کا راستہ ہے کہ اسی طرف سے

م حکہ کی رہائش گاہ ر آاتا ہے جہاں ہماری م بب عامر کا علا^ہ ہے۔ وہاں پوچھا تو پتہ468شع

یی کے لئے بسیں وہاں سے بھی جاتی ہیں بلکہ ایک جا ہی رہی تھی۔ حالاں کہ بس چلا کہ من

والے کبھی کہتے تھے کہ بس کہیں نہیں جائے گی، کبھی یہ کہ جمرات تک جائے گی۔ ہم

یی کی حدود میں داخل تو ہو سکتے تھے۔ ویسے کو بھی جمرات تک جانا ہی کافی تھا کہ من

آاتش زنی کی وجہ حچوں کو فون کر لیں گے کہ یہ لوگ بھی حکے سے ہی ب پہلے سوچا تھا کہ م

سے فکر مند ہوں گے۔ اd سوچا کہ جمرات کے پاس بھی ٹیلیفون بوتھ ہیں، وہیں سے فون کر

لیں گے۔صبح ساڑھے چار پانچ بجے فون کریں تو ہندوستان میں سات بج چکے ہوں گے اور

حچے جاگ چکے ہوں گے۔ یہ بھی خیال تھا کہ اس دن وہاں عید ہو سکتی ہے اا ب ت یقین اس و

Page 204: اللہ میاں کے مہمان

حچے مSبوd نگر، اپنی نانی کے پاس چلے گئے ہوں۔ اس صورت میں وہاں اور ممکن ہے کہ ب

فون کرتے۔

آانکھ لگ گئی۔ اس سے پہلے عرفات میں بھی بہر حال بس میں بیٹھے اور بس میں بیٹھتے ہی

گھنٹہ بھر ہی سوئے تھے اور پھر مزدلفہ میں تو ایک منٹ بھی نہیں، اور تیسری رات میں بھی

آانکھ لگ گئی۔ اور جب صابرہ نے اٹھایا تو دیکھا کہ بس dتین بج گئے تھے، اس وجہ سے ا

dجمرات پہنچے ہوں گے اور ا dاسی شیڈ والے راستے میں چل رہی تھی۔ ہم سمجھے کہ ا

بس رکے گی۔ بس ٹریفک میں رینگتی رہی۔ بہر ھال ایک جگہ ڈرائیور نے بس روکی اور کہا

آایا ؎ یہ کیا جگہ ہے دوستو، یہ کون سا دیار ہے۔کہ سب لوگ اتر جائیں تو ہم کو ہوش

آاگے ہوں گے، کچ آاگے چلے تو خیمے شروع ہو گئے۔ تب پتہسمجھے کہ ابھی جمرات ھ دور

یی واپسی حکہ کا سایہ دار راستہ ہے۔ وہی راستہ جس پر ہم مزدلفہ سے من چلا کہ یہ مزدلفہ سے م

میں پچھلے ہی دن بھٹکتے ہوئے پہنچے تھے۔ یہ پتہ چلتے ہی ہم اطمینان سے اگلے ہی موڑ پر

نمبر53 نمبر کا کیمپ تھا، اور اس کے پاس ہی ہمارا 55بائیں طرف مڑ گئے تو سامنے ہی

بھی۔ غرض ہم اپنی کم علمی کے باوجود اپنے کیمپ سے بمشکل فرلانگ بھر کے فاصلے پر

بس سے اترے جیسے وہی ہمارے کیمپ کے لئے بس کا اسٹاپ ہو۔مگر فون کرنا رہا جا رہا

آا ہی گئے تھے تو پہلے اپنا سامان کیمپ میں رکھا۔ بجے وہاں بھی6تھا۔ مگر اd کیمپ

فی صد کی رعایت ختم ہو جاتی تھی۔اگرچہ فجر40فون پر دوسرے ممالک میں فون کرنے پر

آائے کہ فون کر لیں پہلے۔ ت ہو چکا تھا، مگر ہم پہلے بھاگ کر پھر جمرات کی طرف کا و

آارزو کہ خاک شدہ۔ وہی کارڈ فون تھا وہاں ہر بوتھ میں)اگر میٹر والے فون کے مگر اے بسا

Page 205: اللہ میاں کے مہمان

یی میں کارڈ والے بوتھ بھی ہوں تو ہم کو ان کا پتہ نہیں چلا(۔ وہاں لوگوں نے بتایا تو یہی کہ من

حکے میں ہیں۔ پھرواپس بھاگ کر کیمپ پہنچے اور فجر فون ہی ہیں، میٹر والے فون صرف م

آانکھ کھلی۔ ہاتھ منہ11کی نماز پڑھی۔ ناشتہ کیا اور سات بجے کے ^ریب سوئے تو بجے

آائے اور سوچا کہ ظہر کے بعد کھائیں گے۔ مگر اس دن ہمارے خیمے دھویا، کھانا لے کر

ت کے مطابق ڈیڑھ بجے جماعت پڑھیں گے، اd تک آاباد کے و والوں نے طے کیا کہ حیدر

ت کے مطابق ساڑھے بارہ بجے نماز پڑھی جا رہی تھی۔ حرمین کے و

یی کا طعام من

یی کے کھانے پینے کی بات بھی لکھ ہی دیں۔ وہاں کھانے کی ہم کو اd ذکر نکلا ہے تو من

اا کھا ہی نہیں رہے تھے، دال اور سبزی کے سخت مایوسی ہوئی۔ گوشت، مرغی تو ہم احتیاط

ریال کی سبزی )معہ دو روٹیوں کے( لائے تھے تو5/ کی صبح 10تجربے کچھ ناگوار رہے۔

آاخر اس میں نہ جانے کیا عجیب سی مہک تھی کہ چکھتے ہی ^ے ہوتے ہوتے رہ گئی، اور

آائے اور حکے میں کھانا کھایا تھا۔اگلے دن دوپہر کو دال لے کر ہاتھ روکنا پڑا۔ اس رات کو م

عدد کنکر8 ریال کی معہ دو عدد روٹیوں کے تو اس میں 5اس بار دوسری دوکان سے، وہی

آائے ضرور مگر انھوں نے حصے کی دال میں ہی نکلے)صابرہ کے منہہ میں بھی صرف ہمارے ح

آاپ گنے نہیں، یہ کام ہم ہی کرتے ہیں کہ اس ^سم کی بیکار اور غیر اہم معلومات بھی ہم

جیسے اہم حضرات کو بھی دینا اہم سمجھتے ہیں(۔ اگلے دن ہم اس سبزی والی دوکان پر

Page 206: اللہ میاں کے مہمان

گئے کہ وہاں کی دال لے کر دیکھیں، تو وہاں دال نہیں تھی، پھر سوچا کہ جس دوکان کی

ت اس بھلے بن مبارک پر حملے کئے تھے، وہاں سے سبزی لیں تو اس و دال نے ہمارے دندا

آادمی کے پاس صرف دال تھی۔ ان دونوں کرم فرماؤں کو خدا حافظ کہہ کر ایک اور سڑک پر

آائے، مقدار میں اتنی ہی اور روٹیاں وہی دو عدد۔ یہ7پہنچے اور وہاں سے ریال کی دال لے کر

اا مزے کی تھی اور کھانا شروع کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ مSض دال نہیں، دال نسبت

گوشت تھا۔ کھانا شروع کر چکے تھے اس لئے کھا ہی لیا، یوں پرہیز ضرور کر رہے تھے، مگر

ہر سالن پر شک کرنا بھی نہیں چاہئے تھا۔ اd یہ ذکر نکلا ہے تو ایک گھر کی بات اور لکھ

دیں ورنہ پھر رہ جائے گی، اس کا موہوم سا ذکر مزدلفہ کے ^یام کے ذکر میں کر چکے ہیں،

آاپ کو یہ بات سنائیں گے۔اس کے لئے عہ ملا تو حبہ کر چکے ہیں کہ جب مو آاپ کو متن بلکہ

اجازت ہو تو ایک نیا عنوان لگائیں۔

Page 207: اللہ میاں کے مہمان

حرام وحلال ۔ بیغم کا خیال

آائے تھے تو صابرہ سے دو ایک بار اس بات پر بSث ہو ہی چکی تھی ۔ہم مچھلی بھی لے کر

.کے نہیں ہو سکتا۔اور یہ ہماری سمجھ میںNonvegطنز کرتی تھیں کہ ہمارا گزر بغیر

آاتا تھا کہ جب ہم خرید کر کھاتے ہیں تو دال سبزی کھاتے ہیں اور اور یہ اکثر مظہر نہیں

بھائی وغیرہ کے کچن میں مرغی گوشت کھا لیتی ہیں۔ یہ کہہ کر کہ کسی صاحب نے

حھا ہی ہوگا یعنی حلال کا کہ مقامی لوگوں کو پہچان ہوگی کہ کہاں گوشت لا کر دیا تھا تو اچ

صSیح حلال گوشت ملتا ہے، مگر مرغی؟۔ مزدلفہ کے وا^عے کے بعد انھوں نے مظہر بھائی

کے سامنے وضاحت کی تھی کہ جب ذبیSے کا شک ہو توکم از کم خرید کر تو نہ کھائیں!

اان کا دل رکھنے کے لئے اور حرام ہو تو اس کا عذاd کھلانے والے دوسرے کھلا رہے ہوں تو

پر ڈال کر کھا لیں تو کوئی حرج نہیں۔ یہ ہماری بیغم کی دلچسپ دلیل تھی جو اگرچہ

ہمارے گلے سے نہیں اتری)ممکن ہے کہ مرغی کے گوشت کے نوالے کے ساتھ اتر جاتی(۔

مچھلی مSترمہ کو پسند نہیں ہے شاید۔ مچھلی تو ہم کو بھی مرغی اور بکرے کے )یا

'بڑے'کے (گوشت کے مقابلے میں بھی کم ہی پسند ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ دوکانوں پر سبزی

آالو مٹر بینس اور ٹماٹر کا سالن جسے ہمہ شمہ انگریزی میں مکسڈ ویجی کا مطلب ہے وہی

آالو گوبھی کی سبزی ملی تھی جو ایک انھونی ٹیبل کری کہہ کر خوش ہوتے ہیں) ہاں، اس دن

بات تھی(، چناں چہ ایک ہی مزے کی سبزیاں کب تک کھائی جائیں؟ اس لئے مچھلی لے

Page 208: اللہ میاں کے مہمان

لی تھی ایک دن تو اکیلے کھانی پڑی۔ سوال یہ ہے کہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین دریں

مسئلے کے کہ زید کی بیوی ہندہ کا خیال ہے کہ مفت کی کھائی جائے تو مرغی گوشت

حلال ہے ورنہ نہیں!!

پھر لا حول ولا اور حرم کو واپسی

حجہ )11کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر Sاپریل( کو دو ڈھائی بجے ہم پھر لاحول18/ ذی ال/

پڑھنے نکلے، یعنی شیطان سے نجات پانے کے لئے۔ مگر شاید ادھر تینوں شیطان ہم گناہ گار

مسلمانوں سے نجات پانے کے لئے خود بھی لاحول پڑھ رہے تھے۔ ویسے ہم بھی لاحول نہیں،

بر تشریق پڑھتے جا رہے تھے کنکریاں لے کر۔ اس دن کوئی اور نہیں تھا، صرف ہم دونوں تکبی

آارام سے ہی اور نیچے آاسانی تو نہیں ہوئی مگر پھر بھی ہی تھے۔ اس لئے پہلے دن کی طر�

سے ہی کنکریاں مار سکے۔ پہلے چھوٹے، پھر منجھلے اور پھر بڑے شیطان کو بھی۔ اس میں

بہت زیادہ مشکل تو نہیں ہوئی مگر کیوں کہ زیادہ ^ریب سے نہیں مار سکے اس لئے یہ شک

آا رہی ہے۔ انشاء اللہ صبح آائیں کہ لگیں بھی یا نہیں!)اd نیند ضرور ہوا کہ کنکریاں نظر نہیں

پھر لکھیں گے(

/ اپریل، صبح ساڑھے چھہ بجے۔ گزشتہ سے پیوستہ23

Page 209: اللہ میاں کے مہمان

حھر مارتے ہیں ہاں تو کہہ رہے تھے کنکریاں مارنے کی بات۔ لوگ اسی وجہ سے کنکریاں نہیں پت

کہ نشانے پر صSیح لگے۔ رمی جمار نہیں، سنگسار کرتے ہیں، وہ بھی غلط ہے۔ خیر۔ رمی

آائے، عصر کی نماز پڑھی۔ چائے پی، کچھ باتیں کیں، کچھ طبیعت کی کے بعد واپس

آاپ کو تو معلوم ہی ہے، کیا بار بار لکھیں کہ کس بیماری کا اور کیا خرابی کا علاج)

علاج!(۔ اس کے علاوہ نمازیں اور کھانا۔

حجہ کی صبح بھی وہی 12اگلے دن Sذی ال /Routine بجے ہم اس8رہا۔صبح

ڈائری/سفرنامے کو لکھنے بیٹھے تھے تو مظہر بھائی اور اور دوسرے لوگ ہمارے اس مشغلے

اور دوسری تSریری سرگرمیوں کے بارے میں دلچسYی کا اظہار کرتے رہے اور سوالات پوچھتے

حبار بھائی کی اس حرکت کا بھی رہے۔ ایک دوسرے سے مذاق کرتے رہے کہ اس کتاd میں ج

حصے ہم نے ان لوگوں کو پڑھ کر حلقہ ح وعے کا بھی)کچھ متع حتار بھائی کے اس و ذکر ہے اور س

آا جائے کہ ہم کس پائے کے ادیب ہیں(۔ ویسے سچ پوچھئے تو نہ بھی سنائے تاکہ انھیں یقین

ت جانے کتنا کچھ بھول بھی گئے ہیں اور بیسیوں اہم باتیں چھوٹ بھی گئی ہیںکہ ہم کبھی و

آائے تھے یعنی13۔12سے نہیں لکھ پا رہے ہیں۔ اd یہی دیکھئے کہ ت پر اپریل تک کچھ و

آاگئی تھی مگر پھر آاج ہی لکھنے کی نوبت فہ حائل20آاج کی روداد اپریل تک کا طویل و

dآاج20۔19 سے 16ہوگیا ہے اور ا آاج چار دن ہو گئے ہیں۔ اپریل تک کا بیان کرتے کرتے

حجہ ہے۔ اس دن کی بات ضرور یاد ہے کہ ہم نے کچھ دیر ڈایری لکھنی16/اپریل، 24 Sذی ال

آاباد حچوں کو حیدر آایا کہ علی گڑھ اور ب شروع کی تھی صبح نو یا ساڑھے نو بجے پھر خیال

Page 210: اللہ میاں کے مہمان

حطلاع دے بھی خطوط لکھ دئے جائیں۔ فون پر یا ٹیلیگرام کے ذریعے ہماری خیریت کی ا

سکیں تب بھی تفصیل تو نہیں دے پائیں گے۔ لوگوں کو شاید شک ہو کہ ہم زندہ ہونے پر

بھی ممکن ہے کہ کچھ زخمی ہو گئے ہوں، سامان وغیرہ جل گیا ہو۔ اس شک کو دور کرنے

حلہ ہمارا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ بل اد کے لئے تو خط ہی بہتر ہے کہ یہ مطمئن کر سکیں کہ الSم

بجے کیمپ11 بج گئے تھے اور ہم نے خود یہ پلان بنا رکھا تھا کہ 11خط لکھتے لکھتے

سے نکلیں گے کہ جمرات تک پہنچتے پہنچتے، اگر زیادہ بھیڑ ہوئی تو بارہ ساڑھے بارہ تک

ت زوال کے بعد ہی ت شروع ہو چکا ہوگا اور رمی کا و ہی وہاں پہنچ سکیں گے تو زوال کا و

ت میں ہی رمی کر لیں گے تو حرم کے لئے جلد شروع ہوتا ہے، یعنی ظہر کے ساتھ۔ شروع و

/ کو مغرd سے پہلے اگر رمی نہ کی جائے تو پھر ایک دن12واپسی ممکن ہو سکے گی۔

یی میں ہی۔ ویسے کیمپ سے گاڑیاں حرم کے لئے صبح سے ہی جا رہی مزید رکنا ہوتا ہے من

تھیں۔ بہت سے لوگوں نے عورتوں کو رخصت کر دیا تھا کہ ان کے لئے اجازت ہے )اور بوڑھوں

کے لئے بھی( کہ ان کی جگہ کوئی اور کنکریاں مار سکتا ہے۔

پر ہی چھوٹے شیطان کے پاس پہنچ گئے11۔50راستے میں تو اتنی بھیڑ نہیں تھی اور ہم

ت شروع بھی نہیں ہوا تھا۔ ہم اوپر جانے والے راستے کی طرف مڑ گئے کہ جب کہ زوال کا و

آاج وہاں سے کریں گے تو شاید کم بھیڑ ہوگی اور زیادہ مشکل نہیں ہوگی۔ وہیں کھڑے ہو کر

ت شروع ہو اور ہم رمی کر سکیں۔وہاں دیکھا کہ ایک گھڑی دیکھتے رہے کہ کب زوال کا و

ت تک ہمارا پورا بحم غفیر بے حس و حرکت کھڑاہے اور سب کی نظریں گھڑیوں پر ہیں۔اس و ج

گروپ موجود تھا، صرف مظہر بھائی کی اہلیہ اور بہو ساتھ نہیں تھیں۔ ان لوگوں کی طرف

Page 211: اللہ میاں کے مہمان

ہوئے اور اس سمندر نے موجیں12۔20سے ان کے بیٹے رمی کرنے والے تھے۔ جیسے ہی

مارنی شروع کیں۔ اور جو حرکت شروع ہوئی تو یوں ہوا کہ ہم چل ضرور رہے تھے مگر ہمارے

^دم زمین پر نہیں تھے۔یعنی چلنے کے لئے ^دم اٹھاتے تو زمین پر رکھنے کی جگہ نہیں ملتی،

آاگے بڑھتے رہے۔ کوئی منٹ یہی عالم رہا۔ جب پہلا گروہ5اور ہوا ہی ہوا میں کھسکتے ہوئے

کنکریاں مار چکا تب جا کر پتہ چلا کہ ہاں، کچھ حرکت ہو رہی ہے۔ جمرات کے ^ریب کا

آاگے بڑھنے کی کوشش کرتے اور ایک کنکری ہاتھ میں لیتے کہ ایک اور عالم مت پوچھئے۔

آاکر پیچھے دھکیل دیتا۔ اس حملے سے کچھ سنبھلتے کہ ایک اور ریلہ پیچھے سے ریلہ

دھکیل دیتا۔ اور جمرات کے ^ریب پہنچ بھی جاتے تو یہ صورت ممکن نہ ہوتی کہ ہاتھ اونچا

کر کے کنکری مار سکیں۔بہر حال پہلے شیطان پر ہی ہم دونوں کے کنکریاں مارنے میں کوئی

آادھا گھنٹا لگ گیا۔ کسی نہ کسی طر� رمی ادا ہو گئی، خدا ^بول کرے۔ اوپر فلائی اوور پر

ت حاجی جاں بSق ہو40یہ حالت تھی تو نیچے کیا عالم ہوگا )بعد میں معلوم ہوا کہ اسی و

گئے (۔

بہر حال تینوں شیطانوں کو سزا دے کر اور اپنا واجب ادا کر کے لوٹے تو سکون ملا۔ واپسی

آائیں۔ پانی لے کر جانا بھول گئے تھے اس لئے میں صابرہ راستے کی دوکانیں دیکھتی ہوئی

کولڈ ڈرنک پیا )'بلیک'میں ایک ریال کی جگہ ڈیڑھ ریال میں (پےپسی کا ٹن۔ بڑی بوتلیں اس

ت مارکیٹ میں غایب تھیں جو ہم پہلے بلکہ2 لٹر اور تین ریال میں 1ء125 ریال کی 2و

اا 2ء25کبھی ت مجبور م ل ) عربی میں ملی لیٹر کو330 لٹر کی بوتلیں لے لیتے تھے۔ اس و

حبہ ہی لیا تھا )اس میں بھی کچھ برانڈس میں اسی ^یمت میں 375اسی طر� لکھتے ہیں( کا ڈ

Page 212: اللہ میاں کے مہمان

آاگئے اور حکے والے ٹیلی فون بوتھ بھی نظر م ل کولڈ ڈرنک ملتا ہے(ہاں اس دن اچانک س

یی میں ایسے بوتھ نہیں ہیں، وہ غلط تھا۔ اور مزے کی بات یہ جنھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ من

حکے والا بوتھ بمشکل میٹر دور50ہے کہ جس بوتھ پر ہم کو یہ خبر ملی تھی اس سے یہ س

حتہ صابرہ نے اپنے بہنوئی کے بہنوئی یعنی اشفاق بھائی کو ضرور فون کیا۔اس تھا۔ وہاں الب

حطلاع کے لئے کہ ہم لوگ مSفوظ ہیں اور مکہ کے لئے نکل رہے ہیں۔ پتہ چلا کہ وہ لوگ ا

حکہ واپس جا رہے یی میں ہی ہیں اور اسی دن شام کو وہ لوگ بھی م بھی حج کے لئے ہی من

ہیں۔ ان کے لئے پیغام چھوڑ دیا۔

بونڈو شاپنگ' کی طر�( جمرات پر ہی سب بچھڑ گئے تھے مگر ہم لوگ 'فٹ پاتھ شاپنگ' )'

کرتے ہوئے اور فون کرتے ہوئے واپس سب سے پہلے ہی پہنچے۔ پہلے سوچا تھا کہ کھانا

خریدتے ہوئے چلیں گے اور کیمپ جا کر پہلے ظہر کی نماز پڑھ لیں گے اور پھر کھانا کھانے

ت ہوا تو کھا لیں گے ورنہ ساتھ لے چلیں گے۔ پھر سوچا کہ پہلے حالات کا جائزہ لے کا و

ی ممالک کے معلموں کی لیا جائے کہ کب روانگی ہے۔ کیمپ پہنچے تو وہاں جنوd مشر

اا تقسیم ہو رہے تھے۔ اس میں کھجور ایسوسی ایشین کی جانب سے کھانے کے پیکٹ تSفت

کا بسکٹ، دو اور بسکٹ، دو توس، پنیر، کیک، موسمبی اور کولڈ ڈرنک۔ ایک ہم کو ملا

آاگئے۔ ہم نے جلدی سے دو رکعت ظہر کی نماز پڑھی۔ تب تک مگر صابرہ کے پاس دو عدد

آانے لگے تھے، مگر کسی کو بس میں بیٹھنے کی جلدی نہیں تھی۔ کوئی کھانا کھا رہا لوگ

عہ غنیمت جانا اور پہلے اپنا سامان بس میں تھا، کوئی کھانا خریدنے جا رہا تھا۔ ہم نے مو

آاگئی تھی۔ اسی بھاگ دوڑ کے دوران ہی کچھ کیک بسکٹ ہم نے بھی کھا رکھ دیا جو

Page 213: اللہ میاں کے مہمان

بج گئے تھے۔ بس میں بیٹھ بھی گئے بلکہ ساتھیوں کے لئے سیٹیں بھی مSفوظ کر3لئے۔

آا کر بیٹھے اور عورتوں کا انتظار کرتے رہے۔ جب ہمارا 'سیارہ' ) یعنی بس( روانہ لیں۔ پہلے مرد

آاکر بیٹھیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہماری بس کے ہو نے کے لئے ہارن دے رہا تھا تب عورتیں

آاخری بس تھی اور اس کے بعد جو لوگ بچے تھے، اا بعد ہی جو بس وہاں سے نکلی، وہی فور

یی کی حدود وہ چھہ بجے تک انتظار کر کے پیدل ہی روانہ ہوئے کہ سورج ڈوبنے سے پہلے من

سے باہر نکلنا ضروری ہے ورنہ پھر ایک دن مزید رکنا ضروری ہو جاتا ہے۔

جن حالات میں بسیں چلتی ہیں، ان حالات میں انتظامیہ کے لئے بھی یہ مشکل ہوتا ہے کہ

وع کے حساd سے بسیں چلائی جائیں۔ یا اگر ایسی بسیں حکے کی عمارتوں کے مSل و م

چلتی بھی ہیں تو افرا تفری اور اس شک میں کہ دوسری بس ملے گی بھی یا نہیں، لوگ کسی

آاتے ہی بھر جا رہی تھیں۔ ورنہ بھی بس میں بیٹھ جاتے ہوں گے۔ وہاں عالم یہ تھا کہ بسیں

کسی کو کہیں اترنا تھا تو کسی کو اور کہیں۔ یہ ڈرائیور کے لئے بھی ممکن نہیں تھا کہ ہر

ایک کو اس کی منزل تک ہی پہنچائے۔ وہ یہی پکارتا رہا تھا کہ بس حرم کے ^ریب کہیں

روکے گا اور پھر معلم کے دفتر پر۔ لوگ اپنے حساd سے اتر جائیں۔ ہم کو حرم سے اپنا راستہ

معلوم ہی تھا۔ معلم کا دفتر ہم نے ہربار بس کے سفر میں دیکھا ضرور تھا مگر راستہ معلوم

حتہ کہیں بھی چھوڑتے تو ہم باہر کی چار دیواری کو پار کر کے اپنے نہیں تھا۔ حرم میں الب

م آاکر اپنی عمارت ر یی والے راستے )باd السلام و الے(پر پہنچ سکتے تھے۔ اس بس468مسع

نے ساڑھے چار بجے ہمیں حرم کے باd فہد کے پاس چھوڑا، بلکہ چھوڑا تو ایک سرنگ کے

آایا کہ ہم کہاں ہیں۔ سڑک پر ایک تیر کے نشان دہانے پر اور تب ہم کو سمجھ میں ہی نہیں

Page 214: اللہ میاں کے مہمان

بھی تھےEscalatorsسے معلوم ہوا کہ ادھر باd فہد ہے۔ یہاں سیڑھیاں تھیں اور

)'سلم کہربائی'۔شاید ہم نے لکھا ہے کہ یہاں عربی میں برق سے مراد ٹیلی گراف ہے، بجلی

نہیں اور بجلی کے لئے 'کہہ ربا ' استعمال کیا جاتا ہے( اور نیچے سے کچھ دکھائی نہیں دیتا

آایا۔ عصر کا آائے تب باd فہد نظر ی زینوں سے کوئی تین منزل اوپر تھا کہ اوپر کیا ہے۔ ان بر

ت تو کب کاشروع ہو چکا تھا اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ بجائے باہر ہی باہر اپنا پرانا و

راستہ تلاش کرنے کے بہتر یہ ہے کہ پہلے اندر ہی چل کر نماز پڑھ لی جائے۔ پھر یہ طے تھا

بd فہد کے ^ریب آائیں گے۔ ٹیکسی کرنے کی کوشش تو با کہ پیدل ہی واپس عمارت تک

سرنگ میں ہی کر لی تھی اور مایوسی ہوئی تھی کہ ساری ٹیکسیاں بھری ہوئی تھیں، کوئی

آانے کا ارادہ تھا۔ ادھر بھیڑ میں سب خالی نہیں تھی ورنہ پہلے عمارت میں سامان رکھ کر ہی

حرر تھیں۔ایک تو غسل خانوں کے دروازوں کے پاس بچھڑ گئے تھے مگر ملنے کی جگہیں مق

ت سب کو وضو بھی کرنا تھا، اس لئے ہم نے سوچا اور دوسرے باd السلام کے پاس۔ اس و

آائے ہیں۔ وہیں شاید سب سے ملا^ات بھی کہ اس طرف ہی وضو کیا جائے جہاں ہمیشہ کرتے

منٹ تک انتظار کرنے کے بعد جب کسی سے ملا^ات نہیں ہوئی تو ہم نے وضو10ہو جائے،

کیا، پہلے خود اور پھر سامان کے پاس رک کر صابرہ کو وضو کے لئے بھیجا۔ جب یہ وضو

حبار بھائی کی بیوی فاطمہ بھی ساتھ تھیں۔ معلوم ہوا کہ یہ سب آائیں تو ان کے ساتھ ج کر کے

بش7لوگ باd السلام کے ^ریب ہی سامان رکھ کر بیٹھے تھے۔ )صبح بجے پھر ہم اپنے رخ

^لم کو مہمیز کر رہے ہیں، بعد میں پھر لکھیں گے(۔

Page 215: اللہ میاں کے مہمان

بجے دن2/ اپریل، 23

غرض ہم دونوں وضو کر کے سامان لے کر باd السلام کی طرف ہی سب کے پاس پہنچ

ت لگا۔ اس لئے گئے۔ عصر کی نماز پڑھی تو پھر سب لوگ بکھر گئے۔ جمع ہونے میں و

آائے اور پہلے عمارت میں سامان جتنے لوگ جمع ہوئے، وہی ساتھ ساتھ عمارت کی طرف

آائے تھے کہ ہمارے غیاd میں عمارت کے بالکل نیچے ہی ایک چائے رکھا۔ یہ دیکھتے ہوئے

آادھی پی رہے آادھی کی دوکان لگ گئی ہے۔چناں چہ پھر اتر کروہیں سے چائے خریدی اور

تھے کہ با^ی لوگ بھی پہنچ گئے۔

حمت نہیں تھی۔چناں چہ ہم بھی اکیلے نہیں گئے۔ اس دن حرم میں جانے کی لوگوں میں ہ

مغرd اور پھر عشاء کی نمازیں عمارت میں ہی پڑھیں۔ اگلی صبح فجر کے لئے حرم گئے اور

حچے بھی وہاں ہی تھے۔ ان کو خیریت پہلے مSبوd نگر فون کیا جو جلد ہی مل بھی گیا۔ ب

کی اطلاع دے کر جب حرم پہنچے تو جماعت کھڑی ہو چکی تھی۔ ہمیں وضو بھی کرنا

آائے تو دیکھا کہ غسل خانے کے ^ریب ہی جماعت کھڑی ہے۔ دوسری تھا۔ وضو کر کے

رکعت میں شامل ہو گئے۔

حکہ بر م تندو

Page 216: اللہ میاں کے مہمان

حجہ مطابق 12شام کو، اور اd ہم Sاپریل کی شام کا ذکر کر رہے ہیں لیکن لکھ19/ ذی ال

/ اپریل کو۔ اس لئے تین چار دن کی روداد کو ملا کر لکھ رہے ہیں۔ ہاں تو حرم23رہے ہیں

کے اس دور کے ^یام کی پہلی ہی شام کو تو ہم نے وہی کچھ کھا لیا جو ہمارے ساتھ تھا۔

حتہ ہمارا مشن یہ تھا کہ وہاں بھی افغانی تندور ڈھونڈھا جائے جہاں مدینے کی طر� اگلے دن الب

حمید تھی۔ وہ بھی صرف ایک ریال میں۔ سبزی وہاں 2گرما گرم روٹی اور عمدہ دال ملنے کی ا

ریال کی تھی۔ اd تک ہم نے صرف حرم کا راستہ دیکھا تھا۔اس کے علاوہ مدینے جانے

آافس کی عمارت دیکھی تھی اور وہ راستہ ہمارے راستے سے جانے والے دن ہی ہندوستانی حج

تھوڑا ہٹ کر تھا۔ اسی طرف گئے تو ایک تندور مل ہی گیا۔ مدینے میں ہی ہمارے تندور کے

آاپ سے کیا dعلاوہ تین چار اور تندور دیکھے تھے اس لئے ان کی پہچان ازبر تھی۔ ا

آاپ بھی ڈھونڈ کر تجربہ کر چھYائیں، بلکہ چھYانا ہمارا مقصد بھی نہیں، ہم تو چاہتے ہیں کہ

کے دیکھیں۔ ان تندوروں کی یہ پہچان ہوتی ہے کہ سامنے ہی ایلومینیم کے بڑے بڑے دو تین

ڈگری کے زاوئے پر45دیگ ہوتے ہیں۔ اس میں ایک برتن صراحی کی شکل کا ہوتا ہے۔جو

جھکا ہوتا ہے۔ اور یہ دیگ بھی ہماری طرف کے دیگوں کی طر� کالے نہیں، چاندی کے

رنگ کے ہوتے ہیں۔ صراحی دار برتن میں لوبئے کی مخصوص مزے کی دال بنائی جاتی ہے۔

اسے وہ لوگ 'فول' کہتے ہیں۔ مگر یہاں جو تندور دریافت ہوا اس سے مایوسی ہوئی۔ 'شیخ

التندور' نے پلاسٹک کے ایک پیالے میں بغیر بگھری، مSض ابلی ہوئی دال نکالی، اس پر

حکن لگا کر پیک کیا حچا تیل ڈال کر ڈھ کچھ چاٹ مسالے نما سفوف چھڑکا اور اوپر سے ک

اور پالیتھین بیگ میں پکڑا دیا۔ روٹی کے لئے کافی دیر ^طار میں لگنا پڑا مگر روٹی بھی جلی

Page 217: اللہ میاں کے مہمان

ہوئی ملی۔ پراٹھے کا پوچھا )جو مدینے میں کھاتے تھے( تو شیخ کا جواd تھا کہ دس پندرہ

دن پراٹھے بھول جاؤ۔ شاید ہم لکھ چکے ہیں کہ ان تندوروں میں، کم از کم مدینے میں، تین

طر� کی روٹیاں ملتی ہیں۔ پراٹھا، 'بسکوت' اور چYاتی۔ چYاتی علی گڑھ کے 'ڈنلپ'کی طر�

یع اور وزنی۔ یہاں صرف ہوتی ہے، یعنی خمیری تندوری روٹی۔ مگر اس سے زیادہ ضخیم ، و

بسکوت ہی تھا۔ اور دو دن تک وہی کھاتے رہے، مگر یہ ٹھنڈا ہونے پر سخت ہو جاتا ہے۔ اس

آالو بھی نہیں تھے اس ت سبزی لی تو مٹر اور بینس کی تھی، آایا۔ ایک و لئے یہاں مزا نہیں

اپریل کی دوپہر تک تو ہم نے اس21میں۔ یہ اگر چہ مزے کی تھی مگر مرچ بہت تیز تھی۔

تندور کا نمک کھایا بلکہ اس کی پذیرائی کی۔ اس شام کو ہماری دعوت ہو گئی۔اس کا الگ

آاخر ہم کو عنوانات بھی تو بنانے ہیں۔ / کو یعنی کل صبح پھر دال لے کر22سے لکھیں گے،

بب عامر آائے تھے وہاں سے ہی۔ مگر بور ہو گئے اس تندور سے، تو کل شام کو ہم نے پھر شع

آاس پاس کے علا^ے کا ایک اور دورہ کیا آافس برانچ کے میں، اپنے ہندوستانی دواخانے اور حج

آائے۔ آاخر ایک اور تندور دریافت ہو گیا۔ کل شام کو ہم وہاں سے دال لے کر ریال کی2اور

ہی، مگر یہ بہت بہتر تھی۔ مدینے کے تندور کی طر� ہی۔

حکہ دربار ہوٹل طازج فقیہ عرف م

حلی دربار نام کی کوئی نہ کوئی ہوٹل ضرور ملے آاپ کو د ہندوستان پاکستان بلکہ لندن تک میں

حلی دربار آاگئی کہ پرسوں رات جہاں کھانا کھایا، وہ ہوٹل د گی۔مگر یہ بات مSض یوں ہی یاد

Page 218: اللہ میاں کے مہمان

حکہ دربار ضرور کہ لیجئے، بلکہ اس ایر کنڈیشنڈ ہوٹل، جو بہت تو نہیں تھی، اسے م

Poshتھی، کا نام تھا۔طازج فقیہ بلکہ انگریزی میں اس کاپورا نام ہی بتا دیں جو کہ تھا۔

Faqih Chicken- Bar- B- Queحصے کی یوں کریں کہ عشاء ۔ ابتدا اس ^

آاج چاول لئے جائیں، بگھارے آارہے تھے تو صابرہ نے کہا کہ کی نماز پڑھ کر ہم دونوں واپس

چاول یا فرائیڈ رائس۔ یہ معاملہ تندوروں کے دائرے سے خارج تھا، چناں چہ دوسری عربی،

ہندوستانی، پاکستانی ہوٹلوں میں اس کی تلاش تھی۔ ہر جگہ سادہ )جنوبی ہند کی اصطلا�

(چاول تو دستیاd تھا۔ بگھارا چاول بھی کہا، انگریزیWhite Riceمیں سفید چاول

میں فرائڈرائس بھی کہا مگر ہوٹل والے منہہ تکتے تھے۔ ایک پاکستانی ہوٹل والے نے تو طنز

ح^ت پتہ چلا کہ اسے گھی آاتی۔بہر حال بد بھی کر دیا کہ بھائی اردو بولو۔ ہم کو انگریزی نہیں

آاتے تھے بازار سے اور ان کے خاندان کے اپلاؤ کہنا پڑے گا۔ مظہر بھائی وغیرہ اکژ لے کر کا

ساتھ صابرہ یہ چاول کھا چکی تھیں۔چناں چہ تین ریال کا یہ گھی کا پلاؤ لائے۔ دہی

خریدی، کچھ روٹیاں رکھی تھیں)اس کی داستان الگ ہے، بعد میں لکھیں گے(ہم یہی سوچ

رہے تھے کہ دال بھی لے لیں گے یا پھر ہمارے ساتھیوں سے کسی سے لے لیں گے۔ اپنی

آانے کے لئے سڑک پار کر رہے تھے کہ با^ر کا پر نور چہرہ )داڑھی والا( نظر عمارت کی طرف

آایا۔ یہ صاحب ہمارے ہم زلف مSمود بھائی کے چھوٹے بھائی ہیں اور ان کے ساتھ ہی ان کے

حدہ سے ہم سے بہنوئی اشفاق بھائی بھی تھے جو علی گڑھ کے انجینئر ہیں۔ یہ لوگ کار میں ج

یی میں ہمارے کیمپ کی طرف آائے تھے۔ حالاں کہ حج میں یہ لوگ بھی تھے مگر من ملنے

Page 219: اللہ میاں کے مہمان

آافس میں یہ معلوم آاتے ہی حج حتہ آائے تھے۔الب آاسکے تھے۔اس لئے اd ملنے گاڑی لے کر نہیں

کر لیا تھا کہ ہم لوگوں کا نام مرحومین اور زخمیوں کی فہرست میں تونہیں تھا۔

سڑک سے ہی کار میں بٹھا لیا انھوں نے اور ہاتھ کا سامان بھی عمارت میں رکھنے نہیں دیا۔

آاگئے ہیں تو کہنے لگے کہ اس کھانے کو بعد میں کھانے کے لاکھ کہا کہ ہم کھانا لے کر

حکے کی سڑکوں کی سیر کرتے ت ان کے ساتھ چلیں۔ چناں چہ چلے م لئے رکھ لیں اور اس و

ہوئے )اشفاق بھائی ڈرائیو کر رہے تھے۔( اس خوبصورت ہوٹل میں پہنچے اور پھر یہ دونوں ہی

آاتی چار ٹرے اٹھا کر لائے۔ کھانا وا^عی بہت عمدہ تھا۔ مرغی کے ساتھ ایک عدد روٹی تو

آائے تھے۔ روٹیاں تو جتنی چاہئیں، مل جاتی ہیں نا! ایک ہی تھی ، ایک ایک روٹی مزید لے

آالو کے آادھی مرغی، ایک پیکٹ میں 'فرینچ فرائز' یعنی آادھی پلیٹ چاول بھی تھا۔ ہر ٹرے میں

لمبے لمبے تلے ہوئے ^تلے۔ دو پانی کی بوتلیں۔ ویسے پانی یہاں کی ہوٹلوں میں ملتا نہیں،

آادھا لٹر پانی کی اور پھر کہتے ہیں کہ لائیے ایک ریال۔پھر مانگئے تو ایک بوتل دے دیتے ہیں

مٹھائی کے دو دو ٹکڑے، ٹماٹر کے 'کیچ اپ' )'کشتاd' عربی میں( کے چھوٹے چھوٹے

حبہ ہر میز پہ رہتا ہے، جتنا بڈ بٹشو پیYر کا پورا اا ہر ہوٹل میں بٹشو پیYر کے پاؤچ )ویسے عموم پاؤچ۔

چاہیں استعمال کریں( اور ایک گلاس میں پےپسی، یا 'بے بسی'۔ سرو کرنے والی پلیٹ بھی

آاج کل اسی میں کھانا ہو رہا ہے(۔معلوم آائے ہیں اور حکن کے تھی ) جسے ہم ساتھ لے معہ ڈھ

ہوا کہ ان فقیہہ صاحب کے خود کے فارمس ہیں مرغی اور بکروں دونوں کے اس لئے دونوں

^سم کے گوشت کے حلال ہو نے میں شک کی گنجائش نہیں، اسی لئے وہ لوگ وہاں کھانا

حھی لگی، خاص کر کھاتے ہیں۔مرغ میں مرچ مسالہ بہت کم تھا، اس لئے اور بھی اچ

Page 220: اللہ میاں کے مہمان

'کشتاd' کے ساتھ۔ اشفاق بھائی کہنے لگے کہ کولڈ ڈرنک بھی ساتھ چلنے دیں جیسے کہ

ببل پہلے ہی دے یہاں کے لوگ کرتے ہیں۔چناں چہ ہم نے بھی یہی کیا۔ ویسے اشفاق بھائی

ببل پر ہماری نظر پڑ گئی۔ مرغی دس ریال فی پلیٹ تھی، چار پلیٹوں کے آائے تھے مگر 40کر

ریال کا بل تھا جو بہت مناسب47 ریال کی مٹھائی، کل 4 ریال کے فرنچ فرائیز، اور 3ریال،

م میں ترجمہ کر کے نہ دیکھیں کہ اس طر� یہ آاپ اسے ہندوستانی ر 470ہی تھا) بشرطیکہ

ریال کی ہی ملتی ہے۔کولڈ10روپئے ہو جاتے ہیں(۔ یہان سبھی جگہ تلی یا بھونی ہوئی مرغی

15۔12ڈرنک مفت۔ روٹی چاول بھی۔ ان کی سروس بھی عمدہ تھی۔ کشتاd کے

Sachetہم نے لے لئے تھے جو کافی بچ گئے تھے۔ روٹیاں اور چاول بھی۔ با^ی سامان

حدے سے آائے تو با^ر نے پان نکالے۔ یہ پان یہ لوگ ج آائے۔کار میں پیک کروا کے ساتھ بھی لے

بج رہے تھے۔ مگر اس11ہی پیک کرا کے لائے تھے۔ہم کو ہوٹل واپس چھوڑا تو رات کے

آایا۔ دعوت میں خوd مزا

لوٹ کا مال

بم حرمین شریفین لکھتے ہیں، کی جانب بل مسعود جو اپنے کو خاد آا ملک فہد بن عبدالعزیز

سے حرم کے علا^ے میں روزانہ ٹھنڈے پانی کے پیکٹ تقسیم ہوتے ہی ہیں، ہم حرم سے ٹھنڈا

زمزم بھی ہمیشہ بھر کر لاتے ہیں۔ راستے میں یہ گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں۔ 'ہدیۂ من الملک'

تو انھیں بھی تSفۂ شاہ سمجھ کر ^بول کرتےRoyal Giftانگریزی میں لکھا ہوتا ہے۔

Page 221: اللہ میاں کے مہمان

ت اپنی پانی کی بوتل21۔20رہتے ہیں۔ آائے تھے تو کل ہم ظہر کے و کی دوپہر کو لے کر

ہی نہیں لے کر گئے کہ راستے میں پانی کے پیکٹ لوٹ کر لائیں گے۔ مگر وہ گاڑیاں غایب

حمل ہو گیا ہے تھیں۔ سوچا کہ ممکن ہے کہ تSفۂ شاہ کا سلسلہ ختم ہو گیا ہو کہ اd حج مک

اور بہت سے لوگ واپس جانے لگے ہیں۔ اپنے وطن تو نہیں مگر مدینے، کہ یہ لوگ پہلے یہاں

آاج صبح ہم آاگئے تھے اور اd حج کے بعد مدینے جانے والے تھے۔ مگر بجے حرم١٠ہی

آا رہے تھے تو پھر یہ گاڑیاں کھڑی تھیں اور ہم پھر پیکٹ لوٹ کر لائے جب٨۔١٠سے واپس

آاکر بانٹ کہ حرم سے پانی کی بوتل بھی بھر کر لائے تھے۔ یہ سارے پیکٹ عمارت میں

دئے۔ ظہر کے بعد دیکھا تو ایک گاڑی میں پانی ختم ہو گیا تھا۔ اس سے پہلے والی ایک اور

گاڑی میں تقسیم ہو رہا تھا مگر ہم سڑک پار کر چکے تھے اور یہ پانی لینے کے لئے سڑک پار

/کو ہی اسی جگہ ناشتہ بھی تقسیم٢٠کرنی پڑتی۔ اس لئے ہم نے چھوڑ دیا۔ اس کے علاوہ

لمبی والی ڈبل روٹیاں٢۔٢ہو رہا تھا۔ اس کے تین پیکٹ لائے تھے ہم صبح۔ ہر پیکٹ میں

جرام٣٠ چھوٹے چھوٹے پیکٹوں میں جام )٤۔٤)بعد میں معلوم ہوا کہ ان کا نام 'سلومی' ہے(اور

Cream پیکٹوں میں ہی 'کریم چیز')٤۔٤کے، مراد گرام، جیسا کہ ان پر تSریر تھا(اور

Cheaseحھن ہی تھا کہ اس میں کریم بھی شامل تھی۔ چناں چہ دو دن اا مک ( جو تقریب

آا رہی ہیں۔ /٢١سے یہی مفت کا ناشتہ چل رہا ہے۔ بلکہ روٹیاں تو کھانے میں بھی کام میں

عدد۔ وہ ناشتے میں چل رہے تھے٨ ریال کے ٢کو ہی بن جام ہم خرید کر بھی لائے تھے۔

آا رہی تھیں۔روٹیاں نہیں خرید رہے چیز اور جام کے ساتھ اور سلومیاں کھانے میں استعمال میں

حبار بھائی کے خاندان کے آاج دوپہر کو صابرہ نے ج تھے۔ ابھی تک بھی جام اور پنیر با^ی ہے۔

Page 222: اللہ میاں کے مہمان

آائے جو یہ نہیں کھاتیں، یعنی مچھلی۔اd شام کو ساتھ کھانا کھا لیا توہم بھی وہ چیز لے کر

انشاء اللہ دال سبزی اور روٹی لائیں گے۔نیا تندور زندہ باد۔ ناشتے کے لئے بن بھی لانے ہوں

گے۔

حرم کے شب و روز

آائے ہیں، یہ بد ^سمتی جاری ہے کہ فجر کی حرم کی نماز نہیں مل رہی ہے۔ جب سے ہم

آانکھ کھلتی ضرور ہے فجر کے لئے مگر پانچ، ساڑھے پانچ بجے کہ بس خود ہی اکیلے فجر

آاٹھ ت رہتا ہے۔چناں چہ ہمارا وہی معمول ہے کہ ناشتے کے بعد ساڑھے سات کی نماز کا و

بجے حرم جا رہے ہیں۔ طواف کرتے ہیں، ^ضا نمازیں پڑھتے ہیں، نہانا دھونا ہوتا ہے تو وہ کرتے

آا جاتے ہیں... ہیں اور ساڑھے نو، دس بجے واپس

)رات ساڑھے دس بجے(

...اس کے بعدگیارہ ساڑھے گیارہ بجے پھر ظہر کے لئے نکلتے ہیں۔ ظہر کی نماز پڑھ کر

آا جاتے ہیں۔ پھر کھانا وغیرہ کھانے تک دو ڈھائی بج جاتے ہیں۔ کھانے کا انتظام کرتے ہوئے

آاج ہی تین بجے تک یہ 'سفر نامہ' تSریر کرتے ہیں۔ کبھی کبھی کچھ اور کام بھی۔جیسے

ہمارے کمرے کی ایک صاحبہ کو ان کی لڑکی کے نام خط لکھ کر دیا۔ اور پھر عصر کے

ت ہی نیچے کی دوکان سے ہی آاتے و لئے گئے تو خود ہی پوسٹ بھی کیا۔ عصر کے بعد

Page 223: اللہ میاں کے مہمان

آادھی پی لیتے ہیں۔ اس کے بعد کچھ دیر پڑوسیوں آادھی آاتے ہیں جو ہم دونوں چائے لیتے ہوئے

حبار بھائی وغیرہ کے کمروں میں۔ سے بات چیت ہوتی ہے۔یہاں کمرے پر یا پھر مظہر بھائی ج

پھر چھہ بجے نکل جاتے ہیں۔ مغرd اور عشاء کے درمیان ایک اور طواف کرتے ہیں۔ عشاء

عہ کے بعد کھانے کا انتظام اور کھانے تک دس بج جاتے ہیں۔ پھر گھنٹہ بھر یہ لکھنے کا مو

مل جاتا ہے۔

آائی ہے جیسی مدینے جانے سے آاج کہیں جا کر حرم کی پرانی حالت کچھ حد تک لوٹ

^بل تھی۔ یعنی راستے صاف ہو گئے ہیں۔حرم کا صSن بھی بالکل صاف ہو گیا ہے جو کل

تک بھی گندا تھا۔ راستے ضرور پرسوں ہی کافی صاف ہو گئے تھے۔کچھ تبدیلیاں اd بھی

آاتے تھے۔ جو ہمارا ارادہ تھا کہ احرام کی بے حرمتی کے لئے با^ی ہیں۔ پہلے سائل نظر نہیں

ت کوئی سائل دکھائی نہیں بطور دم کچھ گیہوں یا اس کی ^یمت دے دیں گے تو اس و

حچے۔ ویسے زیادہ آاتے ہیں۔ زیادہ تر عورتیں اور ب آاج کل کئی اپاہج لوگ اور افریقی نظر دیتا تھا۔

آاتی تھیں اور ہیں ۔ تر افریقی عورتیں یا تو کبوتروں کے لئے بطور دانہ گیہوں فروخت کرتی نظر

ریال کے، یا پھر مہندی کی دوکانیں لگائے ہوئے۔ سنا٥ایک ایک ریال کے پیکٹ یا پھر بڑے

ہے کہ یہاں کی مہندی کا رنگ بہت گہرا ہوتا ہے۔صابرہ کا بھی لینے کا خیال ہے۔فٹ پاتھوں

پر چوڑیوں، ہاروں، تسبیSوں اور اسکارفوں )ان کو 'مSرمے' کہتے ہیں( کو بیچنے والیاں بھی

حتہ یی میں الب افریقی ہی ہیں۔ کچھ انڈونیشی ، کچھ عرd اور کچھ بنگلہ دیش ی بھی۔ من

آائے۔ جو دوکانیں ہمارے مدینے جانے کے بعد لگی بیچنے والے زیادہ تر بنگلہ دیشی ہی نظر

بف حرم اd بھی پہلے جیسے نہیں ہیں۔ تھیں، وہ اd بھی ہیں۔ ان معاملوں میں اطرا

Page 224: اللہ میاں کے مہمان

بد حرام کے جنکشن پر بق مسج بد حرام اور طری آاتی ہیں۔شارع مسج ایک دو تبدیلیاں اور بھی نظر

فرانسیسی بنیان کا اشتہار لگا ہے جس میں بنیان پہنے ہوئے ایک مرد کی تصویر ہے۔مگر

چہرے کی جگہ مختلف رنگوں کے مستطیل بنے ہوئے ہیں جیسے ہمارے یہاں ٹی وی پر

کسی کی شناخت چھYانے کے لئے چہرے کو بگاڑ دیا جاتا ہے۔یہاں شاید اس کا مقصد یہ

آائے۔ مگر اس سے پہلے ہم نے کسی ^سم کی تصویر ہے کہ تصویر اصل کے مطابق نظر نہ

کسی اشتہار میں بھی نہیں دیکھی تھی۔ ممکن ہے کہ یہ ہماری غلط فہمی ہو۔ ہاں، اس

فی صدی کاٹن۔100 فی صد ^طن' یعنی 100بنیان کے اشتہار میں تSریر ہے۔ '

آائے ہیں ہم۔ پہلے جو بھی کاریں ہم نے دیکھی مدینے سے ایک بات کا اور مشاہدہ کرتے

10۔8تھیں، ان کے نمبر مSض ایک سات حرفی عدد دیکھا تھا۔ اd ہندوستان میں اd سے

آائے ہیں جو شاید نئی کاروں پر ہیں۔ جیسے ا ط �۔ ،769سال ^بل جیسے نمبر بھی نظر

ہندسوں کے عدد۔3عربی میں ہی تین حرفی اور

حجا ج کے با ر ے میں کچھ بین ا لا ^و ا می ح

جیسا کہ لکھ چکے ہیں کہ حرمین میں اکثر سائن بورڈوں پر تین زبانیں ضرور لکھی ملتی ہیں۔

عربی، انگریزی اور اردو۔ کبھی چار ہوتی ہیں تو یہ چوتھی زبان بھی رومن رسم الخط میں ہوتی

ہے۔ یہ شاید انڈونیشی ہوتی ہے۔ انڈونیشیا کے لوگ سب سے زیادہ تعداد میں ہیں، یہ ہم کو

Page 225: اللہ میاں کے مہمان

آایا ہے کہ انڈونیشیا بھی شک ہوا تھا۔ پرسوں با^ر نے 'کنفرم' بھی کر دیا کہ اخباروں میں بھی

آائے۔ ویسے ان کی عمروں کا اندازہ کے حاجی ہی سب سے زیادہ ہیں۔ یہ لوگ بہت پسند

آاتے ہیں۔ پھر بھی لگتا یہی ہے لگانا بہت مشکل ہے کہ ان لوگوں کے چہرے سدا بہار نظر

بحر صغیر کے بوڑھے حاجیوں کی بہ نسبت ان کی اوسط عمر کم ہی ہے۔ مرد بہت دوستانہ کہ ب

آاپFriendlyمزاج کے یعنی ہیں )عورتوں کے بارے میں صابرہ کا بھی یہی خیال ہے(

آاگے بڑھ کر دونوں جانب اا کے پاس صف میں بیٹھے ہوں گے یا نماز سے فارغ ہوں گے تو فور

کے نمازیوں سے پہلے ہاتھ ملائیں گے اور ہاتھ سینے پر پھیریں گے۔ اکثر مرد انگریزی لباس

میں ہی ہوتے ہیں مگر شرٹس بڑے رنگ برنگے پہنتے ہیں۔ کبھی کالر والے کبھی بغیر کالر

اا چاک ہوتے ہیں دونوں طرف۔ اور سامنے نیچے کوٹ کی کے۔مگر سب کے شرٹس میں عموم

طر� جیبیں ہوتی ہیں۔ کچھ کے شرٹس پر کعبہ بھی بنا ہوتا ہے۔کسی کسی شرٹ پر عربی میں

’باd السلام‘ بھی لکھا دیکھا۔ عورتیں زیادہ تر سفید لباس پہنتی ہیں۔ پتلون نما پاجامے یا

عہ ضرور پہنتی شلواریں اور اوپر لمبے کرتے۔ کYڑے چاہے رنگین ہوں مگر اوپر سفید نصف بر

ہیں جو دراصل طویل و عریض اسکارف یا مSرمہ ہوتا ہے جسے ٹھوڑی پر بھی باندھتی ہیں اور

عوں پر جالی کا کٹاؤ کاکام یا کشیدہ ہوتا ہے۔ کئی نوجوان لڑکیاں لپ سر کے پیچھے بھی۔ بر

آاپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ حاجی صاحب عورتوں کا بھی دیدار کرتے سٹک بھی لگاتی ہیں۔

آانکھیں تو نہیں آا ہی جائیں گی تو آاپ سوچئے کہ جب ہر جگہ یہ خواتین نظر dرہے ہیں۔ ا

بند کی جا سکتیں۔ مگر ہم تو ان کی تعریف ہی کریں گے کہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہماری

آائیں گی تو خوd حجاd میں ہوتی ہیں اور جہاں ہندوستانی پاکستانی عورتیں نماز کے لئے

Page 226: اللہ میاں کے مہمان

سڑکوں پر نکلتی ہیں، یہاں بھی، تو سر تک کھل جاتے ہیں۔ مگر یہ انڈونیشیائی لڑکیاں ۔

آاجائے۔ حصۂ بدن کسی کو نظر مجال ہے کہ کبھی چہرے کے علاوہ کوئی اور ح

بجے(8۔20/ اپریل، صبح 24)

انڈونیشیائی عورتوں کے بارے میں کچھ باتیں اور لکھنے سے رہ گئی تھیں۔ یہ ہاتھوں پر سفید

ہی دستانے بھی پہنتی ہیں یعنی اس طر� کہ ہاتھ کی پشت ڈھکی ہوتی ہے مگر انگلیاں کھلی

عوں یا لباس پر ایک کYڑا لگا ہوتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے جماعۃ ہوتی ہیں۔اکثر عورتوں کے بر

حاجی انڈونیشیا، انگریزی میں بھی۔ کبھی عربی میں 'الSاج الاندونیسی'۔ ملیشیا کے لوگ

ہ مشکل ہوتا ہے۔ بھی بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں کہ ان کو پہچاننا اور انڈونیشی افراد سے تفر

ت پہچان ممکن ہے جب ان کے لباسوں پر 'مالیزیا' لکھا ہوتا ہے۔ یہ بھی شریف النفس اس و

حکا سے پرہیزکرنے والے۔ اس معاملے میں حکم دھ عوں پر دھ لوگ ہوتے ہیں۔ طواف وغیرہ کے مو

حصہ نہیں لیتے حکا میں ح حکم دھ ایرانی اور سوڈانی بدنام ہیں۔ ہمارے ہندوستانی پاکستانی بھی دھ

مگر ہمارے یہاں ایک عادت بری ہے، عورتیں اور بوڑھے دوسروں کو پکڑ کر ان کا سہارا لینا

حکا لگتا ہے تو وہ اس سہارے کی وجہ سے چاہتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب ان کو دھ

حکا ہوتا ہے۔خود عرd کے حکا دینے کے لئے مجبور ہیں۔ یہ اگرچہ غیر ارادی دھ آاپ کو بھی دھ

حکا کے فن میں ماہر ہیں۔ حکم دھ لوگ بھی دھ

Page 227: اللہ میاں کے مہمان

سعدی و حافظ

آاتی نہیں کہ سعدی و حافظ کے اشعار جا آاپ سے کیا کہیں کہ فارسی ہم کو اتنی تو dا

بجا ) بلکہ بے جا بے جا ( لکھا کریں۔ عام طور پر ہمارے ہندوستانی ادیب فارسی شعروں کا

ا رباd' کہتے ہیں( اس لئے استعمال مSض رعب کے لئے کرتے ہیں )بیشتر تو رعب تک کو '

آاپ نے سنا ہوگا کہ آاپ کو سنائیں۔ مگر وہ تو اکثر بے مSل ہی 'کوٹ' کر جاتے ہیں )

حکے گانے گانے والا بف عام میں پ ہندوستان اور پاکستان کا ہر کلاسیکی گلوکار، جسے عر

آاخرت آاگے اپنے کان پکڑتا ہے کہ کہاجاتا ہے، اپنی تان لگانے سے پہلے میاں تان سین کے

آاخر خمیر میں میاں تان سین اس کے کان نہ پکڑیں۔ یہی حال ہمارا فارسی سے رشتے کا ہے۔

میں فارسی گندھی ہوئی ہے۔ اd تک سوچتے ہی رہے کہ ہمارے ایرانی حاجیوں سے فارسی

بن یار من ترکی بھی ہو سکتی ہے، ومن ترکی نمی دانم( میں گفتگو چھیڑی جائے) ویسے زبا

لیکن چاروں خانے چت ہو جانے کا خطرہ ہے کہ کہیں پہلے ہی حملے میں چیں بول کر )دل

آاج کل میں(اور 'مرحمت شما' )زبان سے( کہہ کر بھاگنا نہ پڑ جائے۔ بلکہ یہ بھی سنا ہے کہ

یہ لوگ بھی مرحمت وغیرہ سے بچتے ہیں اور مSض 'مرسی'کہہ دیتے ہیں شکرئے کے طور پر۔

مگرکیا بتائیں، ہم ان کو اسی رشک سے دیکھتے ہیں جیسے ان میں کا ہر شخص سعدی یا

عے اور مSرمے باندھتی حافظ ہو۔ان کی عورتوں کے لباسوں کی طرف نظر کیجئے۔ یہ بھی بر

عوں میں بھی اور مردوں کے لباسوں میں بھی اپنے گروپ کے حساd سے یکسانیت ہیں۔ بر

پائی جاتی ہے۔ یعنی پورے گروپ کی ایک یونی فارم ہوتی ہے۔عورتوں کے مSرموں پر ایک کYڑا

Page 228: اللہ میاں کے مہمان

سلا ہوتا ہے جس میں ان کے گروپ بلکہ شہر کا نام لکھا ہوتا ہے۔ شیراز اور نیشا پور دیکھ کر

تو ہم تڑپ اٹھتے ہیں۔ اصفہان اور طہران سے ہمارا کوئی مطلب نہیں کہ ہمارے سعدی و

حافظ کا ان سے کوئی مطلب نہیں۔ یہ تو ماڈرن بلکہ نو دولتئے شہر ہیں۔ معلوم نہیں کہ ان

ایرانیوں میں وا^عی کتنے ادیب و شاعر ہوں گے۔ ہوں گے بھی تو وہی اللہ' اکبر کو اللہ اچبر

حفظ 'چ 'سے کرتے ہیں۔ شہروں کے نام کے علاوہ ان کے 'لیبلوں' کہتے ہوں گے۔ یہ 'ک' کا تل

پر 'کارواں شمار' بھی لکھا ہوتا ہے اور 'میر کارواں' کا نام بھی۔

آائیے روسی )ہماری مراد ^دیم سوویت یونین سے ہے، یہ حاجی نہ جانے کن کن ملکوں کے dا

آاذر بائیجان وغیرہ، مگر ہم ان کو مجموعی طور پر روسی ہوں گے، روس کے علاوہ تاجکستان،

ہی کہہ رہے ہیں( ^وم کی طرف۔ دیکھنے میں تو یہ بھی ایرانی، افغانی اور عرd ہی لگتے ہیں،

آاتی ہیں کہ نازک اور دبلی پتلی ہوتی ہیں۔ حتہ ضرور کچھ مختلف نظر کم از کم مرد۔ عورتیں الب

اگر ان لوگوں کی گاڑیاں اور بسیں ہم نہیں دیکھتے تو پہچان نہیں سکتے تھے۔ہماری ہوٹل

بد جن کے ارد گرد ان لوگوں کے کئی کیمYس ہیں جو اس آاس پاس اور اتار کے بعد مسج کے

آاتے ہیں۔ ان میں ہی دوران ہمارے غیاd میں بن گئے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر 'کارواں بسوں' میں

آاتے ہیں، ان ان کے کھانے پینے اور سونے کا انتظام ہے۔مگر جتنے لوگ ایک گروپ میں نظر

آاتا۔ شاید اسی لئے اکثر لوگ دن میں سب کا سونا ایک ہی کاروان بس میں ممکن نظر نہیں

باہر زمین پر سوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں باہر ہی اسٹوو جلا کر چائے بناتے اور کھاتے پکاتے

ہیں۔ سنا ہے کہ روس نے اس دفعہ پہلی بار اپنے مسلم باشندوں کو حج کی اجازت دی ہے اور

ہزار کی تعداد میں ہیں۔20 ۔25یہ بھی

Page 229: اللہ میاں کے مہمان

حبشی کچھ تو مقامی ہی ہیں اور کچھ افریقی ممالک کے۔ زیادہ تر عرd لباس ہی پہنتے ہیں۔

آاتے عے پہنتی ہیں۔ مگر جو غیر ممالک کے افریقی عورتیں بھی مقامی عربوں کی طر� سیاہ بر

اا یکساں لباس پہنتے ہیں۔کچھ عورتیں ہیں وہ رنگ برنگے کYڑے پہنتے ہیں۔مرداور عورتیں عموم

مغربی لباس بھی پہنتی ہیں ان میں سے کچھ کا ایک کندھا عریاں بھی ہوتا ہے، مگر زیادہ تر

حبہ بھی مغربی لباس میں بھی ٹخنوں تک کا ملبوس ہوتا ہے۔کچھ افریقی مرد ایک طر� کا ج

(کے ساتھ شانوں سے لٹکتا رہتا ہے۔یہ حضرات شایدPleatsپہنتے ہیں جو کئی پلیٹس )

حکا کے لئے اکثر افریقی بدنام ہیں، مگر ہم کچھ امن پسند وا^ع ہوئے حکم دھ سوڈانی ہیں۔ دھ

حتہ ان کا فربہی اا تو یہ بھی ایذا پسند نہیں لگتے۔ الب ہیں، اس لئے ان کو الزام نہیں دیتے۔ طبیعت

حکا لگنے سے لوگ گر سکتے ہیں، ان کے مائل بدن ہی ایسا ہوتا ہے کہ دوسروں کو ذرا سا دھ

غیر ارادی طور پر۔ یہ خصوصیت عورتوں میں زیادہ ہے۔ مرد تو پھر کچھ کمزور بھی ہیں۔

بحر اd یہاں اپنی ایک غلط فہمی کا اور ذکر کر دیں۔ اd تک ہم سمجھتے تھے کہ ہماری ب

عے اوڑھتی ہیں۔ اd معلوم ہوا کہ شلواریں تو صغیر کی عورتیں ہی شلواریں پہنتی ہیں اور کالے بر

عے بھی کم و بیش افریقہ، عرd، ایران اور پرانے سوویت یونین کی کئی عورتیں پہنتی ہیں۔ بر

عوں کارواج چل نکلا ہے(عرd ممالک، آاج کل کوٹ نما بر ہندوستانی طرز کے ) یہاں بھی تو

مغربی ایشیا کے ممالک ، افریقہ اور سوویت یونین میں بھی پہنے جاتے ہیں۔ عرd عورتوں کے

حٹہ ہوتا ہے جس میں پورا بدن ڈھک جاتا ہے۔ ہاتھوں میں یہ عوں میں اکثر ایک لمبا چوڑا دوپ بر

عورتیں دستانے بھی پہنتی ہیں، بیشتر سیاہ رنگ کے ہی۔ حرم میں جن عورتوں کی ڈیوٹی ہوتی

ہے، وہ اسی لباس میں ہوتی ہیں۔

Page 230: اللہ میاں کے مہمان

آاگئی ہے۔وہ جو ہم نے لکھا تھا کہ عورتیں حرم کے نزدیک یا ادھر اd اس پر ایک بات اور یاد

ادھر راستوں پر کھانے پینے کی چیزیں لے کر بیٹھی ہوتی ہیں، ان کا شجرۂ نسب سمجھ میں

آایا تھا۔ اd تک ہم انھیں عرd ہی سمجھتے تھے اور سوچتے تھے کہ یہ کھانا عربی ہی نہیں

^سم کا ہوگا۔ مگر بعد میں لوگوں سے پتہ چلا کہ زیادہ تر انڈونیشی ہی ہیں۔ یہ کھانا بھی

بار ان سے سالم مچھلی لے کر کھا چکے تھے۔ ان3انڈونیشی ہوتا ہے۔ خود ہم اd تک

آاملیٹ وغیرہ کے علاوہ پالیتھین بیگس میں خوردنی اشیاء میں چاول کے پیکٹس،ابلے انڈے،

کچھ ہرے پیلے لال شوربے یا سوپ بھی ہوتے ہیں۔ کچھ اچار نما چیزیں بھی ہوتی ہیں۔ یہ تو

حمت نہیں کی۔ ہاں، شام کو عصر کے بعد یہ عورتیں کچھ ہلکی پھلکی ہم نے چکھنے کی ہ

آاتی ہیں۔ ایک دن مظہر بھائی نے ان ہی دوکانوں سے کچھSnacksچیزیں ) ( لے کر

گلگلے نما میٹھی چیز خرید کر کھلائی تھی۔ یہ لوگ اسے کیا کہتے ہیں، معلوم نہیں کیا

مگر یہ مزے میں گلگلے جیسے اور شکل میں جنوبی ہند کے 'بونڈے' کی طر� تھے۔ معلوم

نہیں یہ بیچنے والیاں جو چہرے کا بھی پردہ کرتی ہیں، سبھی مقامی انڈونیشی ہیں یا پھر حج

عے پر خود بھی حج کے ساتھ اپنا کاروبار بھی کرتی ہیں۔انڈونیشی حاجی بھی ان سے کے مو

ہی کھانا لے کر کھانا پسند کرتے ہیں۔ہر چیز ایک ایک ریال میں دیتی ہیں، گلگلوں کی پلیٹ

ہو یا مچھلی، چھوٹی مچھلی سالم ہوتی ہے۔ بڑی ہو تو اس کے ^تلے تلے اور بھنے ہوئے ہوتے

ہیں۔ مرغی کی بوٹیاں بھی ہوتی ہیں۔

بلا عنوان

Page 231: اللہ میاں کے مہمان

/ اپریل۔ رات ساڑھے دس بجے۔24

ت ملا تھا تو لکھتے رہے تھے۔ اوپر کے آاج صبح کچھ و آاج کل لکھنا مشکل ہو رہا ہے۔

بجے سے ساڑھے دس بجے تک لکھتے رہے، پھر کچھ باتیں بھی ہوتی رہیں۔8عنوان تک

رات کو ہم لکھتے ہیں توصابرہ کو شکایتیں ہوتی ہیں کہ بجلی جل رہی ہے اور ان کو روشنی

آاتی۔حالاں کہ مشکل سے گھنٹہ بھر ہی لکھتے تھے۔ ظہر کے بعد بجے سے2میں نیند نہیں

بر3 آاج کی طر� جب ہم کو اس دو عہ مل جاتا ہے یا پھر صبح بجے تک کچھ لکھنے کا مو

^یام میں پہلی بار حرم میں فجر کی نماز مل سکی تھی۔

آانکھ کھل گئی۔ ضرورت کے لئے اٹھے تھے اور بے2ہوا یوں کہ رات کو بجے ہی ہماری

آا گئی مگر پھر تین تSاشا کھانسی شروع ہو گئی۔ کچھ ^ابو پا کر لیٹے اور تھوڑی نیند بھی

آاکر سگریٹ بنائی اور پی۔ بجے4سوا تین بجے اٹھنا پڑااور ساڑھے تین بجے کمرے سے باہر

پر اذان ہوتی ہے۔ پونے پانچ بجے4۔22تک طبیعت بSال ہوئی تو پھر حرم ہی چلے گئے ۔

نماز بھی ہو گئی۔ فجر کے بعد ہی ہم طواف میں لگ گئے۔اd بھی طواف میں کافی بھیڑ

آاتے دکھائی دیتے ہیں۔ طواف میں مگر گھنٹہ رہتی ہے حالاں کہ سڑکوں پر حالات معمول پر

آاج ساڑھے چھہ بجے فارغ ہوئے۔ پھر اشراق آاج تک بھی لگ رہاہے بلکہ کچھ زیادہ ہی۔ بھر

اور ^ضا نمازیں پڑھیں۔واجب الطواف نماز بھی۔ ساڑھے سات بجے واپسی کے لئے روانہ ہوئے۔

آائے تھے،جام اور تھرمک باٹل میں زم زم کا ٹھنڈا پانی لیتے ہوئے۔ پچھلی شام ہی بن لے کر

Page 232: اللہ میاں کے مہمان

پنیر بھی چل رہے تھے، خیراتی، جس کا ذکر ہم نے پہلے 'لوٹ کا مال'عنوان کے تSت کیا

ہے۔ اسی کا ناشتہ کیا۔ صابرہ نے کہا کہ پوری چائے پیئں گی، چناں چہ دو عدد چائے لے

آائے۔ اس کے بعد کچھ دیر لکھنے پڑھنے کے بعد ظہر کے لئے گئے۔ظہر سے واپسی میں کر

آا رہا ہے۔ آاگئے۔مگر اس تندور میں مزا نہیں تندور کی دال، چھاچھ )لبن( اور روٹی لیتے ہوئے

'بسکوت' جو مل رہے ہیں وہ اتنے اچھے نہیں ہوتے جیسا کہ مدینے میں پراٹھے اور چYاتیاں مل

آاج کی دال ویسے غنیمت رہی تھیں۔ اور گرم بسکوت کے حصول میں دیر الگ ہوتی ہے۔

حبار آائے تو صابرہ کچھ چاول اور گوشت اور بینس کا سالن لئے بیٹھی تھیں۔ ج تھی۔ کمرے

حتار بھائی کے کچن کا۔ سب کچھ کھایا اور خدا کا شکر ادا کیا۔ خاص کر بھائی اور س

حچھا لگا۔ دوپہر سے سر درد ہونے لگا تھا۔ کچھ شاید گرمی کی چھاچھ کی وجہ سے کھانا ا

اا12وجہ سے اور شاید کچھ اس باعث کہ بھوک بجے سے ہی لگ رہی تھی اور بھوک میں فور

آاج ڈیڑھ بجے کھانا ہو کھانا کھانے کا انتظام نہ ہو سکے تو ہم کو اکثر سر درد ہو جاتا ہے۔

عوں پر ہم لیٹ نہیں پاتے، مگر کیوں کہ درد اصل میں گردن میں ہوتا سکا تھا۔ ویسے ایسے مو

آانکھ ہے، اس وجہ سے تکیوں کو گردن کے نیچے رکھ کر لیٹے تھے کہ نہ جانے کس طر�

بجے ہی4 بجے سے جاگ رہے تھے۔ایسے سوئے کہ 2لگ گئی۔ شاید اس وجہ سے کہ

اٹھے۔اور نتیجہ یہ نکلا کہ دوپہر کو کچھ نہ لکھ سکے۔سر درد جاری تھااورحرم جانے کا

ت بھی نہیں تھا اس لئے عمارت پر ہی عصر کی نماز پڑھی، پھر اسYرو کھائی باہر بلکہ و

آائے۔ اٹھتے ہی پھر کھانسی بھی زوروں کی اٹھ رہی تھی۔چائے پی نیچے جا کر چائے لے کر

کر پھر نکل گئے اور باہر ہی سگریٹ پی کر اپنا علاج کیا۔ پھر پونے چھہ بجے حرم پہنچے۔

Page 233: اللہ میاں کے مہمان

بن حرم میں جگہ بنائی تھی تا کہ طواف Sوضو کر کے پہلے ^ضا نمازیں پڑھیں۔ اندرونی ص

آاسانی ہو۔ مغرd پڑھتے ہی طواف کیا۔ واجب الطواف نمازبھی پڑھ لی۔ مگر پھر وہاں جگہ میں

یی کے باہر جہاں سے وہ آاگئے، یعنی مسع آائی تو عشاء کے لئے باہر کے صSن میں نظر نہ

آاٹھوں دروازے اندر جاتے ہیں۔ دیکھئے کتنے دروازوں کے نام یاد ہیں: باd علی، باd بني

حن، باd صفا، باd مروہ۔ با^ی دو دروازوں کے نام کل غور سے شیبہ، باd السلام، باd حجو

آائیں گے تو لکھیں گے انشاء هللا۔ دیکھ کر

آائے۔ آاتے ہوئے صبح ناشتے کے لئے بن بھی لیتے ہوئے آاگئے اور 2عشاء پڑھ کر پھر گھر واپس

عدد بن کا پیکٹ۔اور یہ سوچا تھا کہ صابرہ کے ساتھ جا کر )یہ ہمارے ساتھ حرم6ریال کا

آانکھ میں بھی تکلیف تھی اور گلے میں بھی( پاکستانی نہیں گئی تھیں۔ پرسوں سے ان کی

حلی بخش دال سبزی مل سکتی ہے۔ایک دو ریال ہوٹل میں جا کر کھانا کھا لیں گے جہاں تس

حکے میں ریال کی ہے۔ ایک ریال3زیادہ خرچ ضرور ہوتے ہیں تندور سے سبزی لیجئے تو یہاں م

ریال کی دال یا5 ریال کی۔ ہوٹل میں 2 عدد روٹیاں 2کی بڑی روٹی لیجئے اور مزید چاہئے تو

آائے تو صابرہ نے یاد سبزی ملتی ہے اور روٹیاں جتنی کھانی ہیں مفت۔ خیر۔ کمرے بن لے کر

آائے۔ کل ہی صبح ایک دن تو ناشتہ کرنا ہے کہ کل دلایا کہ اتنے بہت سے بن کیوں لے کر

حدہ جانے کا طے ہے۔ چناں چہ پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ ابھی سبزی دال خرید عصر کے بعد ج

ریال کی3ہی لاتے ہیں مگر روٹی نہیں،اور اسے ان بنوں کے ساتھ کھا لیں گے۔چناں چہ

تندور سے سبزی لائے)وہی جس میں نمک بہت تیز ہوتا ہے )واللہ اعلم کیوں( اور اس کی

اصلا� کے لئے ایک ریال کی دہی بھی۔ جب یہ لے کر پہنچے تو پڑوس کے کچن سے

Page 234: اللہ میاں کے مہمان

آادمی ہیں اور جن کا نام ہم نے حتار بھائی کے رشتے دار جو مقامی آا گئی تھی۔ س بریانی بھی

حتار بھائی کی غلطی سے پہلے جعفر لکھ دیا تھا )بعد میں معلوم ہوا کہ رفیق ہے( یہ در اصل س

بیوی فاطمہ کے بہنوئی وا^ع ہوئے ہیں۔ وہ اپنے گھر سے بریانی پکوا کر لائے تھے۔ چناں چہ ہم

حصہ ملا۔ غرض اس طر� کھانا ہو گیا۔ کو بھی اس کا ح

بجے سے پھر گلا خراd ہو رہا8شام کو تو سگریٹ پی کر طبیعت ٹھیک ہو گئی تھی مگر

حبار بھائی کے ساتھ پےپسی پینے کے ہے۔ اگرچہ ابھی کھانے کے بعد بلکہ مظہر بھائی اور ج

آاج مظہر بھائی آائے ہیں مگر گلے3بعد ) ریال والی بڑی بوتل لائے تھے( ابھی سگریٹ پی کر

آاج کل یہ 'دوا 'کبھی اثر کرتی ہے کبھی حلی بخش نہیں ہوئی ہے۔ کی حالت ابھی بھی تس

نہیں۔

ہدایت نامہ حاجی

اd اور کوئی خاص بات ایسی تو نہیں ہوئی ہے کہ ذکر کریں۔ مگر دو ایک دن سے سوچ رہے

تھے کہ اس کتاd میں ضمیمے کے طور پر ایک ہدایت نامہ حاجی بھی تSریر کر دیں۔

عمرے اور حج کا طریقہ۔ حرم مکہ اور مسجد نبوی کے بارے میں کچھ معلومات، مگر بہت

یہاں ہی دے دیں، اس لئے یہ نیاTipsسی تفصیل یاد نہیں رہتی۔ اس لئے سوچا کہ کچھ

آاپ نے پڑھی نہیں بھی ہوں عنوان بنایا ہے۔ہدایت نامہ خاوند اور ہدایت نامہ بیوی نامی کتابیں

Page 235: اللہ میاں کے مہمان

گی تو ان کا ذکر ضرور سنا ہوگا۔ ہم ہدایت نامہ حاجی یہاں ہی لکھ دیتے ہیں تاکہ سند رہے

آائے۔ اس کی شروعات بھی ہم ہدایت نامہ بیوی سے ہی کرتے ہیں۔ بت ضرورت کام اور بو

۔کتابوں میں اگرچہ لکھا ہے کہ عورت کا کوئی احرام نہیں ہے مگر کوئی یہ بات ماننے کوتیار1

بحر صغیر میں ایک کYڑے کو جس سے عورتیں سر کے بال باندھنے کا نہیں لگتا۔ کم از کم ب

کام لیتی ہیں، عورتوں کے احرام کا نام دے دیا گیا ہے۔ صابرہ کو بھی یہ بات کئی بار کتابوں

یی کے حادثے میں ایک صاحبہ آائیں کہ من آاج ہی یہ خود ہم سے پوچھنے میں دکھائی ہے مگر

حچھی طر� کا احرام سر سے اتر گیا تو کیا اس کے لئے دم دینا ضروری ہے؟ ہم پھر بیویوں کو ا

اا باندھا جاتا ہے کہ سر کے بال نہ کھل جائیں کہ عورت سمجھا دیں کہ یہ کYڑا مSض احتیاط

کے بال اس کے ستر میں شامل ہیں۔ احرام کی حالت ہو یا نہ ہو، عورت کے لئے فرض ہے کہ

ت ڈھکے ہوں اور سوائے شوہر کسی کے سامنے نہ کھلیں۔احرام کی حالت اس کے بال ہر و

میں یہ ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ خلاف شرع کوئی بات نہ ہونے پائے، کسی ^سم کا گوئی

گناہ سر زد نہ ہو۔ مSض اسی احتیاط کے طور پے یہ کYڑا باندھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس

کا ایک مقصد اور ہے جو ضرور احرام کی شرطوں کو پورا کرنے کا مقصد حل کرتا ہے، وہ یہ

کہ اس طر� بال ٹوٹنے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے، اور بال ٹوٹ جانے پر ضرور دم دینا ہوگا۔ اسی

باعث کنگھا کرنا منع ہے کہ اس میں بال ٹوٹ سکتے ہیں۔ بہر حال عورت اگر ننگے سر ہو

بھی جاتی ہے تو اس کے احرام میں کوئی ^باحت نہیں پیدا ہوتی۔ گناہ مSض بے پردگی بلکہ

بے ستری کا ہوگا۔ اس کے علاوہ ناخن نہ ٹوٹنے کا بھی خیا ل رکھنا ضروری ہے اور بدن سے

میل نہ اتارنے کا بھی۔

Page 236: اللہ میاں کے مہمان

۔ دوسری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ عورت کے لئے اصل احرام یہ ہے کہ چہرے پر کYڑا نہ2

آارہے ہیں کہ احرام کہے جانے والے سفید کYڑے کو ہماری لگے۔ اور ہم شروع سے یہ دیکھتے

آادھی پیشانی تک ڈھک ہندوستانی پاکستانی عورتیں اس طر� کس کر باندھتی ہیں کہ کYڑا

لیتاہے۔ اس کی جزا ضرور دینی ہوگی اور اگر مستقل احرام کی یہی حالت رہی تو پوری بکری

کی ^ربانی دینی ہوگی۔ مSض تھوڑی دیرکو ایسا ہو جائے تو بھلے ہی بقدر فطرے کے گیہوں

یی میں ہم نے دیکھا کہ رات بھر عورتیں اپنے صد^ہ کرنے سے دم ادا ہو جائے گا۔ عرفات اور من

حٹہ ڈھک کر سوتی ہیں۔ دوسروں کو کیا کہیں، خود ہماری صابرہ بیغم کی یہ چہرے پر دوپ

عادت ہے کہ چہرے پر کہنی رکھ کر سوتی ہیں۔ یوں کوئی ^باحت نہیں مگر اس طر� کرتے

آاستین چہرے پر لگنے کا اندیشہ ہے۔ہم کو ہمارے گروپ میں مفتی مان لیا گیا ہے تو ہم کی

آاستین چڑھا لی جائے اوپر تک یی دیا ہے کہ اگر اس طر� سوناضروری ہو تو کرتے کی نے یہ فتو

کہ چہرے پر ننگا بازو ہی رہے۔ اس طر� بے پردگی بلکہ بے ستری کا ضرور گناہ ہوگا اور اس

کی خدا سے معافی مانگ لی جائے۔ اس طر� کم از کم دم سے تو بچا جا سکتا ہے۔ گناہ

کا ارتکاd ضرور ہوگا مگر احرام کی بے حرمتی سے بچ جائیں گی۔ خود مردوں کو بھی ہم نے

دیکھا کہ رومال سے پسینہ پونچھ رہے ہیں یا ناک صاف کر رہے ہیں، اس کے لئے تیسری

Tipدے دیں۔

آاپ ہندوستان پاکستان سے ہی لا سکتے ہیں تو ٹھیک ہے )بلکہ بہتر ہے کہ احرام کی3 ۔ اگر

بٹشو پیYر ) آاتے ہی (کاTissue Paperحالت تو جہاز سے ہی شروع ہو جاتی ہے( ورنہ

حبہ خرید لیجئے۔ وطن میں یہ سستا ہی ملے گا۔ یہاں ( کاان کاغذی100 ریال کا سو )3بڈ

Page 237: اللہ میاں کے مہمان

حبہ ملتا ہے ) بڈ وغیرہ برانڈ کا (۔ اس سے بھلے ہی گیلے ہاتھSmileاورFineرومالوں کا

نہیں پونچھے جا سکتے ہوں مگر پسینے وغیرہ کے لئے بہترین ہے۔

حYلیں رکھنے کے لئے باہر خانے ضرور بنے ہیں، اس کے علاوہ دروازوں کے4 ۔ حرم میں جوتے چ

پاس لوگ جوتے یوں بھی چھوڑ جاتے ہیں، مگر جوتوں کی حفاظت کے پیش نظر اس طر� نہ

آانے رکھیں تو بہتر ہے۔وہ اس لئے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ خانے بھر جاتے ہیں تو بعد میں

حYلیں جوتے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں والے ان ہی خانوں میں اپنی چ

پہلے رکھے جوتے گر جاتے ہیں۔ نیچے پڑے ہوئے جوتے اکثر صفائی کرنے والے جھاڑو دیتے

حYلوں کو گھسیٹ کر ت )جو در اصل بڑے بڑے برشوں سے دی جاتی ہے( ان گری ہوئی چ و

ایک طرف کر دیتے ہیں یا کوڑے میں پھینک دیتے ہیں جس کے لئے تھوڑی تھوڑی دور پر بڑے

بڑے ڈرم رکھے ہیں۔ خاص کر جب فرش کی دھلائی ہوتی ہے تو کسی کے کچھ بھی سامان

حYلیں ہی کیا، ہم نے بیگ اور سوٹ کیس تک ان کوڑے کا لSاظ نہیں کیا جاتا اور جوتے چ

حمید کم ہی رکھنا حYلیں واپس ملنے کی ا آاپ کو اپنی چ کے ڈرموں میں دیکھے ہیں۔ اس طر�

حYلیں جوتے پڑے آاپ شرمائیے نہیں، جہاں کوڑے میں چ چاہئے۔اگر کبھی ایسا ہو ہی جائے تو

آا جائے، آاپ کے پیروں میں حYل نہ بھی ملے تو جو آاپ کی اپنی چ ہوں، وہاں جا کر دیکھئے،

آاپ کو حرم میں حلف پہن لیجئے۔ کبھی کبھی بے جوڑ کی چYلیں بھی پہننی پڑتی ہیں۔ بلا تک

حYل ہندوستانی ہوگی تو دوسری40کم از کم آائیں گے جن کی ایک چ فی صد ایسے لوگ نظر

حYل عزیز آاپ کو اپنی چ پاکستانی یا چینی۔ اور دونوں الگ الگ رنگ کی بھی ممکن ہیں۔ اگر

ہے تو بہتر ہوگا کہ اپنے ساتھ ہی رکھیں۔ اس کے لئے ہماری ترکیب پر عمل کریں۔ ہم تو اپنے

Page 238: اللہ میاں کے مہمان

حYلیں پالی تھین بیگ میں رکھ کر ان بیگوں کو ایک کندھے پر لٹکائے جانے والے جوتے چ

جھولے میں رکھ لیتے ہیں۔ اگر پانی کی بوتل بھی ساتھ ہے تو اسی طر� اسی جھولے میں

آارام سے اندر لے جا کر اپنے ساتھ رکھیں اور اپنی نظروں رکھی جا سکتی ہے۔ اس جھولے کو

کے سامنے حرم کے کسی ستون سے ٹکا کر یا سجدہ گاہ کی طرف رکھ لیں۔ اگر بھول

حYل گم ہو بھی جائے تو دوسری خریدنے کی ضرورت نہیں ہے، کوڑے میں سے جائیں اور چ

آاخر مسلمان مسلمان بھائی بھائی ہیں اور نکالنے میں کسی کو وہاں شرم مSسوس نہیں ہوتی۔

حYل استعمال کرنے دے۔ آا سکتا ہے کہ اپنی چ ایک بھائی دوسرے کے اس طر� بھی کام

آاتا ہے، مگر5 عے پر کام ۔ اd اس پر ایک اور ہدایت دے سکتے ہیں کہ یہ جھولا ویسے ہر مو

بر اسود کا استلام کیا جاتا ہے تو دونوں ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں اور بھیڑ ت جب حج طواف کے و

کی وجہ سے اس حرکت کے دوران یہ جھولا دوسرے طواف کرنے والوں کے بازؤں میں پھنس

عے پر اس جھولے کو کندھے سے نکال کر گلے میں لٹکا لیں۔ سکتا ہے، اس لئے اس مو

بمک جگ( ضرور ساتھ رکھیں۔ ہندوستان سے ہی لے کر6 ۔ ایک پانی کی بوتل )بہتر ہو کہ تھر

چلیں تو مناسب ہے کہ وہاں یہ مہنگی ہی ملیں گی۔ ہم تو لے کر چلے تھے، مگر ہمارے

ریال کی یہاں سے خریدی ہیں۔ اس میں خاص بات مSض یہ ہے کہ10 اور 8ساتھیوں نے

آافس والے زم زم کے جری کین روزانہ حکہ مدینے کی تصویریں ہیں۔ ہر عمارت میں زم زم یونائٹید م

رکھتے ہیں مگر یہ ٹھنڈا تو نہیں ہوتا۔ کچھ عمارتوں میں ٹھنڈے پانی کے کولر بھی ہوتے ہیں

)ہماری عمارت میں تھا مگر کام نہیں کرتا تھا( مگر یہ زم زم نہیں ہوتا۔ اس لئے اس تھرمک

جگ میں حرم سے ٹھنڈا اور زم زم لے کر عمارت میں استعمال کریں۔ حرم کے ^یام کے دوران

Page 239: اللہ میاں کے مہمان

آاپ کو رکنا ہو تو مSض پیاس کی بھی جب نماز کی جگہ مل جائے اور اگلی نماز تک بھی

ت بھی پانی بھر کر آاتے و وجہ سے جگہ خالی کرنے کی ضرورت بھی اس طر� نہیں ہوگی۔

ت آائیں تو پھر بھرتے ہوئے لائیں۔فجر کے و آائیں اور اندر یہی پانی پیئں۔ جب عمارت واپس

بجے تک تو یہ پانی چل سکتا ہے۔ ظہر کے بعد بھی بھر کر لائیں کہ11بھر کر لائیں تو

کھانے کے بعد سے عصر تک کافی ہو جائے۔ پھر اکثر لوگ تو مغرd اور عشاء کے لئے ایک

ت پانی لیں تو رات تک ضرورت نہیں پڑے ہی بار جا کر عشاء کے بعد ہی لوٹتے ہیں تو اس و

گی۔

حکر نہ پڑے، مگر اس حقیقت7 بم ابراہیم کے ^ریب سے کریں کہ زیادہ چ ۔ طواف بہتر ہے کہ مقا

حکا نہ آاپ چاہے خود کسی کو دھ حصہ نہ بنیں۔ حکم پیل والی بھیڑ کا ح کا خیال رکھ کر کہ دھ

حکے آادمی اس دھ آاٹھ دس حکا دینے سے دیں، مگر بھیڑ کے باعث کسی ایک شخص کے دھ

حکا دینے کا باعث بنتے ہیں اور یہ بھی گناہ میں شامل کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس طر� دھ

ہوگا اور اس سے بچیں۔ جب دیکھئے کہ ایک دوسرے کی کمر پکڑ کر یا کندھوں پر ہاتھ رکھ

آاپ بچ کر ان کو راستہ دے دیں۔ اگر5۔6کر آارہی ہے تو لوگوں کی ^طار دھکیلتی ہوئی

آاپ بھی آاگے بڑھا دیجئے۔ اس طر� خود آاپ کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ دیا ہے تو اسے کسی نے

حکے سے مSفوظ رہیں گے اور دوسروں کو دھکیلنے کے گناہ سے بھی بچ سکیں گے۔ایک دھ

بحر صغیر کے بوڑھوں سے دور رہیں عملی ہدایت یہ اور دے دیں کہ ایرانیوں اور عربوں سے اور ب

جو اپنے کھو جانے کے خطرے سے اس طر� ساتھ طواف کرتے ہیں۔ بہترین اور

Disciplinedگروپ انڈونیشیائی لوگوں کا ہوتا ہے، کوشش کر کے ان کے ساتھ رہیں۔

Page 240: اللہ میاں کے مہمان

بر اسود کو بوسہ دینے کی زیادہ کوشش نہ کریں۔ دور سے استلام کرنا بہتر ہے کہ نزدیک8 ۔حج

حکا دینے پر مجبور ہو سکتے ہیں جو گناہ ہے۔ آاپ کسی کو دھ سے کرنے کی کوشش میں

حجر اسود کے علاوہ کعبے کے کسی اور کونے )رکن( کا استلام نہیں کیا جاتا۔ لوگوں کی

بن آاپ بھی اس غلط عمل کا شکار نہ ہوں۔ اکثر لوگوں کو ہم نے دیکھا کہ رک دیکھا دیکھی

یمانی کا بھی استلام کر رہے ہیں ۔ یہ رکن اسود کی ملSقہ سمت میں ہے۔ دوسرے دو رکن

شامی ہیں، جن میں ایک رکن حطیم کی طرف ہے۔ دوسرا اسود کے مخالف سمت میں۔

۔ حطیم میں داخل ہونے کی کوشش بھی تبھی کریں جب بھیڑ کم ہو۔ ویسے یہاں نماز9

حصہ ہے، مگر بعد کی تعمیر میں باہر حصہ در اصل کعبے کا ہی ح پڑھنے کا بہت ثواd ہے۔ یہ ح

چھوڑ دیا گیا تھا۔ طواف تو اس کے اندر سے کرنے سے ادا ہی نہیں ہوتا کہ طواف کعبے کے

باہر ہی کرنا ضروری ہے۔

آاپ طواف کی10 آاپ طواف کی نیت سے اس طر� جانے کے لئے مجبور ہوں کہ ۔ اگر

آاپ کا گذر ہو، یا طواف ختم کر کے نماز واجب الطواف کے لئے مخالف سمت میں

اا آانا چاہ رہے ہوں تو بہتریہی ہے کہ فور یی سعی کی غرض سے( طواف کے ریلے سے باہر )یامسع

آاخری استلام کے بعد، آانے کی کوشش نہ کریں۔ طواف ختم ہو چکا ہو تو حجر اسود کے باہر

اور شروع کرنے جا رہے ہوں تو پہلے استلام سے پہلے، طواف کرنے والوں کے ریلے میں شامل

عہ آادھا پون طواف، جب تک کچھ کھلا راستہ نہ ملے، مزید کر لیجیے اور مو ہو جایئے اور

بر اسود کی سیدھ حطلاع اور دے دیں۔ حج آا جایئے۔یہاں ایک ا دیکھ کر اس ریلے سے باہر

حھر کی پٹی ہے۔ کتابوں میں اسے کالی پٹی کہا گیا ہے۔ ممکن ہے یہ دکھانے کے لئے ایک پت

Page 241: اللہ میاں کے مہمان

بگ آاٹھ انچ چوڑے بھورے سن اا حھر کی ہے۔ تقریب آاج کل تو بھورے پت حھر کی ہو، پہلے کالے پت

مرمر کی۔

۔ طواف کے دوران حرم کی طرف نہ دیکھیں۔ یہ نا جائز ہے اگر چہ اتنی اہم بات بیشتر11

کتابوں میں نہیں لکھی ہے۔ شوق کی بات دوسری ہے۔ اگر شوق کے ہاتھوں مجبور ہوں تو ایک

حکر کے لئے شرعی اصطلا� 'شوط' ہے( میں حکر مزید کر لیجئے مگر اصل ساتوں شوطوں )چ چ

اس سے پرہیز کریں۔

بہ12 حل بن ال Sی اسب ۔ طواف میں حجر اسود سے تیسرے کونے یا رکن تک تیسرا کلمہ پڑھا جاتا ہے )

ام بسلا حل بوا Áا یلوا بص ب ال بظیم۔ بع احی ال بل بع بہ ال حل ببا ال حلا با Áب حو ا^ با بول بل بحو با بو ل ببر اہ اک حلل بوا بہ حل حاال ب بال بہ یل با با بو ل بہ یحل ب ل اد بSم بوال

Áب بر بخ یا بفی ال بو اۃ بن بس بح بیا ادن بفی ال بتنا آا بنا حب بر بریم( اور رکن یمانی سے پھر حجر اسود تک بلک احی ا بب بن یی بعل

بین۔ لیکن رکن بلم بعا احd ال بر حفار۔ یا از یا غ بابرار۔ یا عزی بع ال بم بۃ حن بج بنا ال بخل بواد حنار۔ بd ال بذا بع بنا بو اۃ بن بس بح

بتنا شروع کیا جائے اور رکن آا حبنا کی طرف بغیر دیکھے یہ پہچان مشکل ہوتی ہے کہ کہاں سے ر

حرر کر کی جانب دیکھنا بھی منع ہے۔ اس کی ترکیب ہم نے یہ لگائی ہے کہ ایک پہچان مق

آاج کل کم از کم ہمارے لئے پہچان باd ملک عبدالعزیز کا بورڈ ہے۔ دائیں طرف لی ہے۔

بتنا پڑھنا آا حبنا اا پار کر لیتے ہیں تو سمجھ لیتے ہیں کہ اd ر دیکھتے چلتے ہیں، جب یہ بورڈ انداز

ہے اور رکن یمانی پار ہو گیا۔ یہ دروازہ مستقبل ^ریب میں تو ٹوٹنے والا نہیں ہے، اس لئے

ہمارے خیال میں برسوں تک تو یہ پہچان صSیح ثابت ہوگی۔

Page 242: اللہ میاں کے مہمان

ب یمانی اور حجر اسود کے درمیان ہی اکثر بھیڑ کعبۃ هللا کے نزدیک جمع ہو جاتی ہے13 ۔ رکن

حکم پیل ہو جاتی ہے ا ور حجر اسود کہ ممکن ہو تو حجر اسود کو بوسہ دیں۔اس میں بہت دھ

کا استلام بھی مشکل ہو جاتا ہے۔خود ہم کو کئی بار واپس جا کر استلام کرنا پڑا ہے۔ اس لئے

آاپ دائیں طرف یعنی کعبۃهللا سے دور ہٹتے ہوئے طواف کریں۔ جب بن یمانی سے بہتر ہے کہ رک

آا جائیں کہ طواف کا آارام سے استلام کر لیں تو پھر بائیں طرف ہٹتے ہوئے بیت هللا کی طرف

حکر بھی زیادہ لمبا نہ ہو۔ لیکن صSیح استلام بے حد ضروری ہے۔ چ

آاپ کو کسی کتاd میں نہیں14 ۔ تیسرے کلمے کے بعد اکثر درود بھی پڑھا جاتا ہے۔ یہ

بم ابراہیم کے پاس سے ملے گا کہ کون سا درود پڑھا جائے۔ مگر ہم یہ مشورہ دیتے ہیں کہ مقا

بد ابراہیمی پڑھیں۔ یہ درود گزرتے ہوئے یعنی حجر اسود سے اس پوری دیوار کے علا^ے میں درو

آاں حضرت پ نہ صرف کو پسندیدہ تھا بلکہ مقام ابراہیم کے نزدیک پڑھنے سے حضرت ابراہیم

بج عقیدت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ کو بھی خرا

۔ تلبیہ ہو یا طواف کی دعائیں اور وظیفے، اکثر لوگ ایک شخص کو لےڈر بنا کر زور زور15

سے پڑھتے ہیں۔ وہ بولتا ہے اور وفد کے ممبر اسے دہراتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ اس سے دوسروں

آاپ خود زور سے کچھ پڑھیں اور نہ کسی اور کو کی عبادت میں خلل بھی پڑتا ہے۔ نہ

آاوازوں پڑھائیں، بکہ ممکن ہو تو ایسے گروہ سے بچ کر ہٹ کر اپنا طواف کریں تاکہ ان کی

آاپ کا دھیان نہ بٹ جائے۔ سے

Page 243: اللہ میاں کے مہمان

۔ طواف کے ہر چکر کی دعا کتابوں سے پڑھنا ضروری نہیں ہے، اگر چہ اکثر کتابوں میں16

مختلف دعائیں اور وظائف درج ہیں اور ہر چکر )شوط(کے الگ الگ۔ وہ دعا پڑھیں جس کے

آاپ کو معلوم ہوں تو بہتر ہے۔ اردو میں بھی کچھ بھی دعا کر سکتے ہں۔ جو معنی بھی

ا اکبر اور لاالہ الا اللہ کہنا بھی کافی ہے۔ پڑھیں، دل سے کہیں، ورنہ مSض اللہ

حمید نہیں تھی کہ یہ غلط فہمی اتنی17 ۔ ہر طواف کے بعد سعی نہیں ہوتی۔ ہم کو اس کی ا

حمت نہیں عام ہوگی۔ ہمارے کچھ ساتھی اس لئے طواف نہیں کر رہے تھے کہ سعی کی ہ

تھی۔ معلوم ہونا چاہئے کہ سعی عمرے کے طواف میں احرام کے ساتھ ہوتی ہے، یا حج کے

دوران طواف ^دوم میں، طواف الزیارÁ کے بعد سادہ کYڑوں میں ہی سعی ہوتی ہے۔ اس کے

علاوہ کسی طواف میں سعی نہیں۔ سعی کے دوران بھی زور زور سے کچھ پڑھنے کی ضرورت

عے پر اور خاص کر صفا اور مروہ نہیں ہے۔دھیرے دھیرے جو یاد ہو پڑھ لیں۔ ویسے اس مو

بفا بص بحن ال با آایت پڑھی جاتی ہے۔ آانی کی پہاڑی پر، جہاں سے اگلا چکر شروع ہوتا ہے، ^ر

یحلہ ۔ بر ال بئ بعا بش بمن Áب بو بمر بوال

۔ اکثر یہ بھی ہم نے دیکھا کہ میلین اخضرین کے درمیان عورتیں بھی تیزی سے بھاگتی18

ہیں۔ یہاں پہلے یہ اطلاع دے دیں کہ یہ دو ستون ہیں جن کو ممیز کرنے کے لئے انھیں سبز

)اخضر( رنگ کر دیا گیا ہے اور ان ستونوں پر سبز لائٹیں ہی لگی ہیں۔ ان دونوں ستونوں کے

درمیان کوئی سو فٹ کے راستے میں مردوں کے لئے تیزی سے بھاگنا افضل ہے۔ بلکہ وا^عی

بھاگنا تو مردوں کے لئے بھی صSیح نہیں، کجا عورتوں کے لئے۔ مردوں کو بھی مSض تیزی

سے اس راستے سے گزرنا چاہئے۔

Page 244: اللہ میاں کے مہمان

آا جائیں۔ یہ نکات12)لیجئے بج گئے۔ ابھی اتنا ہی کافی ہے۔ ممکن ہے کچھ نکات اور یاد

تو مSض عبادتوں کے بارے میں ہیں، وہ بھی صرف طواف اور سعی کے سلسلے میں۔ با^ی

نمازوں کے بارے میں بعد میں لکھیں گے انشاء اللہ۔(

Page 245: اللہ میاں کے مہمان

ہد ا یت نا مہ )گزشتہ سے پیوستہ(

بم خود( ایک بات پر اور زیادہ زور دینا چاہتے ہیں۔19 ۔ ہم سائنس داں ہونے کے ناطے )بزع

ویسے کسی کتاd میں بھی لکھا ہے کہ ^بلے کے اطراف میں نماز کے لئے کعبے کا بالکل

حکے صSیح رخ اختیار کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ نماز کی ضروری شرط ہے۔ عام طور پر م

مدینے کی ہر رہائشی عمارت میں کسی نہ کسی دیوار پر '^بلہ اس طرف ہے' کی عبارت )یا

ایسے ہی دوسرے الفاظ( کے ساتھ ایک تیر کا نشان ضرور لگا ہوتا ہے رخ کی صSیح نشان

دہی کرنے کے لئے۔ مگر ہم نے اکثر مشاہدہ کیا کہ حرم کے ہی صSن میں نماز پڑھنے والے

صSیح رخ کی پرواہ نہیں کرتے۔ کعبے میں تو حرم کے اندرونی اور باہری صSن میں سفید

سنگ مرمر کی 'جا نمازیں ' بنائی گئی ہیں جن میں چار چار صفوں کے بعد سرخ سنگ مرمر

ح ہے۔ یہ دائرے وار ہے کیوں کہ کعبے کو مرکز مان کر یہ دایرے کھینچے گئے ہیں۔ ان کی پٹی

آاج ہی کی بات لیجئے۔ ہم ^ضا کے حساd سے ہی اپنی نمازیں پڑھنے کا خیال رکھیں۔

نمازیں پڑھ رہے تھے کہ ایک ہندوستانی یا پاکستانی صاحب نے ہمارے ہی پاس اپنی جانماز

ڈگری کے زاویے پر اپنی20بچھائی اور ہم سے، حالاں کہ ہم صSیح رخ پر تھے، کم از کم

جانماز بچھائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں ہم سجدہ کر رہے تھے، وہاں ان کا سجدہ بھی ہو رہا

تھا۔

Page 246: اللہ میاں کے مہمان

۔ طواف کے بارے میں کچھ ہدایت اور دے دیں۔ سب سے زیادہ بھیڑ مغرd کے بعد ہوتی20

فہ کم ہوتا ہے اور بیشتر حضرات مغرd کے ہے۔ شاید اس لئے کہ مغرd اور عشاء کے درمیان و

آاپ بھی کرنا بعد واپس نہیں جاتے اور عشاء تک رک جاتے ہیں۔ ہم بھی یہی کرتے ہیں۔

چاہیں تو ایسا ہی کریں۔ ہم منع نہیں کرتے مگر اس صورت میں دھکم پیل کے لئے تیار رہئے۔

حجد اور فجر کے درمیان بھی بھیڑ بڑھ اا بعد بھی بھیڑ بہت ہوتی ہے۔تہ اسی طر� ہر نماز کے فور

فہ دے کر شروع کریں۔ جاتی ہے۔ اگر سہولت سے طواف کرنا چاہیں تو بہتر ہے کہ کچھ و

ت6ہم سے مشورہ مانگیں تو ہم تو یہ مشورہ دیں گے کہ طواف کے لئے صبح بجے کا و

بہت مناسب ہے۔ فجر کے بعد کچھ دیر ^ضا نمازیں وغیرہ پڑھ لیں اور پھر گھنٹے بھر بعد ایک

ہی کیا، دو تین طواف کر لیں۔ پھر اشراق کی نماز پڑھ کر واجب الطواف نمازیں پڑھیں اس

حتہ اشراق کے بعد پڑھ سکتے ہیں، اا بعد کوئی اور نماز نہیں پڑھی جاتی۔ الب لئے کہ فجر کے فور

آاکر ناشتے وغیرہ چاہے دو تین طوافوں کے واجب ایک ساتھ بعد میں پڑھ لیں۔ پھر عمارت واپس

ت جانے پر9کا اہتمام کریں۔ )ہم تو اکثر بجے کے ^ریب بھی نکل جاتے ہیں، لیکن اس و

پھر ظہر تک کے لئے رکنا پڑے گا۔ ہم تو طواف وغیرہ کر کے اور حرم میں ہی نہا دھو کر

آا جاتے ہیں اور پھر ساڑھے گیارہ بجے کے ^ریب ظہر کے لئے نکلتے ہیں۔اس لئے بہتر واپس

آاپ ( دس، ساڑھے دس بجے نکلیں۔ پھر طواف وغیرہ کے بعد ظہر کے لئے رک ہے کہ

ت میں طواف کرنا چاہیں تو پھر تین ساڑھے تین بجے نکلیں۔ جائیں۔ اس کے علاوہ بھی اور و

ت بھی ہو جائے گا۔ اگر اا کم ہوتی ہے اور طواف کے بعد عصرکا و ت بھی بھیڑ نسبت اس و

رات کا کھانا حرم کے ^ریب ہی ہوٹل میں کھانے کا ارادہ ہو تو یوں بھی کر سکتے ہیں کہ رات

Page 247: اللہ میاں کے مہمان

بجے کے بعد بھی طواف کر لیں۔ کھانے کے بعد ٹہلنے کی عادت ہو تو اور بھی بہتر10

ہے۔ ٹہلنا بھی ہو جائے گا اور طواف بھی۔

یی نے21 ۔ ایک بات یاد رکھئے کہ بیت اللہ میں ہر مسلک کے لوگ ہوتے ہیں۔ خود اللہ تعال

حت )بمعنے گروہ( کے لئے مناسک مختلف ہیں اس لئے اس زعم اا م آان میں فرمایا ہے کہ ہر ^ر

آاپ کو رفع یدین کرتے آاپ کا مسلک ہی سب سے صSیح ہے۔ زیادہ تر لوگ میں نہ رہیں کہ

دکھائی دیں گے کہ یہی شافعی اور ہنبلی مسلک ہے۔ افریقی باشندے اکثر مالکی ہیں اور نماز

میں ہاتھ بھی نہیں باندھتے۔ کسی پر اعتراض نہ کریں۔ ان کے مسلک کے علماء کے پاس ان

آاں حضرت کے طریقے کا جواز ضرور ہوگا۔ خدا کو ان کی عبادت بھی ضرور ^بول ہوگی۔ خود

ات میں مختلف طر یقوں سے نماز پڑھی ہے۔ کوئی بھی عالم یہ نہیں کہتا کہنے مختلف او

دوسرا ہر طریقہ غلط ہے، بلکہ مSض یہی کہ ان کے علماء کے نزدیک ان کے طریقے کی نماز

کے لئے احادیث زیادہ معتبر ہیں۔ اس لئے یہ نہ سمجھیں کہ ان کی نماز ہی ^بول نہیں۔ ممکن

آاپ کی ہی آاپ کی ایسی کوئی غلط فہمی بھی گناہوں میں شمار کی جائے اور ہے کہ

عبادتوں کو ^بولیت کا درجہ نہ ملے۔ حرمین میں اذان کے بعد اکہری ا^امت ہوتی ہے یعنی

حلہ(۔اور ایک بار ہی بل بل ا او برس بدال حم Sام بحن اد ا بہ باش حللہ، بحا ا بال بہ یل با بلا بان اد بہ باش حہد ) مSض ایک ایک بار تش

یوÁ۔ نماز میں سورۂ حلصل بلا�۔ مگر اس کے بعد دو بار ^د ^امۃ اا بف بلی ال بع یحی یوÁ، ح حلصل بعلی ا یحی ح

آامین' کہتے ہیں تو سب درو دیوار ا آاواز سے فاتSہ کے بعد جب سب مقتدی اور خود امام بلند

گونج جاتے ہیں اور عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ہندوستان میں یہ بھی متنازعہ فیہ

آائے تھے۔ مگر یہاں یہ صدا آامین نہیں کہتے آاواز سے مسئلہ ہے۔ خود ہم اd تک کبھی بلند

Page 248: اللہ میاں کے مہمان

آاپ غلط آاواز نکلتی ہے۔ ان باتوں کو اگر ایسی رو� پرور مSسوس ہوتی ہے کہ رو� سے

یی اس آائے ہیں تو اتنا سوچیں کہ اگر یہ خلاف مذہب ہوتا تو کیا خدائے تعال سمجھتے ہوئے

مسلک کے ماننے والوں کو حرمین کی نگہبانی دینا پسند کر سکتا تھا؟کیا ان اماموں کو بیت

اللہ کی امامت پر مامور کر سکتا تھا؟

بد نمرہ میں ظہر اور عصر کی نماز ملا کر یعنی ^صر کر کے پڑھی اسی طر� عرفات میں مسج

آادمی مSض اا۔2جاتی ہے۔ ہنبلی مسلک کے مطابق میل کے فاصلے پر مسافر بن جاتا ہے غالب

ییSدہ کر لیں ظہر کی الگ آاپ اسے پسند نہ کریں تو کوئی حرج نہیں کہ اپنی جماعت عل اگر

یی میں بھی( مسافر نہ ہوں۔ ہم تو مسافر تھے ہی آاپ عرفات )یا من اورعصر کی الگ، بشرطیکہ

حکہ میں اور نہ مدینے میں آاباد سے چل کر نہ بنگلور میں، نہ م دن سے زیادہ15کہ ہم حیدر

بد نمرہ میں ہوں تو وہاں رہے تھے۔ مگر جماعت کا ساتھ بھی دینا بہتر ہے، اس لئے اگر مسج

دو رکعت ظہر کی جماعت سے پڑھ کر مزید دو رکعت انفرادی پڑھ لیں )اگر اپنے کو مقیم

حکے میں بھی ^یام دن سے15مانیں تو(، اور عصر کی بعد میں پڑھ لیں۔ اگر مسافر ہیں اور م

زائد ہو چکا ہے اور مسجد نہ جا سکیں اور دوسرے مقیم حضرات کی ظہر کی اور عصر کی

آاپ بھی ان کا ساتھ دیں۔ حرج کیا، یہ تو ییSدہ جماعت ہو رہی ہو تو کوئی حرج نہیں کہ عل

مزید بہتر ہے۔ مگر مسجد نمرہ کے امام صاحب پر اعتراض نہ کریں۔ عرفات کے بعد مزدلفہ

میں تو سبھی کو، مسافر اور مقیم سبھی کو، مغرd اور عشاء ملا کر ہی پڑھنی ہوتی ہے۔ فرق

یہ ہے کہ اگر انفرادی نماز پڑھیں تو عشاء کی دو رکعتیں ہی پڑھیں۔

Page 249: اللہ میاں کے مہمان

ہد ا یت نا مہ حا جی برا ئے خو رد و نو ش

آامدنی سعودی ریال کی ہی ہے تو بے شک ریال کو1 آاپ کی ۔ پہلی بات تو یہ لکھیں کہ اگر

بر مبادلہ حاصل آاپ نے اپنے ملک کا روپئیہ دے کر سعودی ز روپئیہ ہی سمجھیں، لیکن اگر

پیسے فی55 روپئے 9کیا ہے تو مبادلہ ^یمت کا ہی خیال رکھیں۔ ہمارے لئے یہ ^یمت تھی

سے ضرd دے کر اس کے مہنگی یا سستی ہونے کا اندازہ10ریال۔ چناں چہ ہم ہر ریال کو

آاپ کو مہنگی لگیں گی اور کچھ سستی۔ کرتے تھے۔ کچھ چیزیں

اا ان کا مصرف2 ۔ اگرچہ ریال میں سو حلالے ہوتے ہیں ہمارے پیسوں کی طر�، مگر غالب

کچھ نہیں ہے۔ اس لئے کہ فقیر کو خیرات بھی ایک ریال سے کم نہیں دی جاتی اور نہ ایک

حکہ ہی نہیں ریال سے کم کی کوئی چیز ہم نے دیکھی۔ بلکہ سچ پوچھئے تو ہم نے یہ س

دیکھا۔ ا^ل ترین ^یمت ایک ریال ہی ہے۔ اس لئے بہت ممکن ہے کہ کسی شے کا بڑا پیکنگ

بھی ایک ریال کا ہی ہو۔ جیسے لفافہ لینے جائیں تو ایک سادہ لفافہ بھی ایک ریال کا کہا

آاپ پورا پیکنگ مانگیں تو چار لفافوں کا پیکٹ بھی ایک ریال کا ہی ہوگا۔ 180جائے گا اور

م ل کا ٹن بھی۔375ملی لٹر کے کولڈ ڈرنک کے ٹن یا شیشیاں بھی ایک ریال کی ہیں اور

ہمارے پاس کYڑے دھونے کے لئے بالٹی نہیں تھی اس لئے نل پر صابن سے کYڑے دھونے کی

ضرورت تھی جب کہ یہاں زیادہ تر کYڑے دھونے کا پاؤڈر ملتا ہے۔ صابن ہمارے پاس بھی

نہیں تھا۔ اس کی تلاش کی تو ایک دوکا ن پر چھوٹا سا ایک صابن )ڈیٹرجنٹ( ایک ریال کا

Page 250: اللہ میاں کے مہمان

ملا۔ اسی شام کو دیکھا کہ ہمارے کمرے کی ہی ایک صاحبہ اس سے تگنے چوگنے سائز کا

آاپ کو بھی کوئی سامان لینا ہو تو بڑے پیکنگ صابن بھی ایک ہی ریال میں لائیں۔ چناں چہ

دیکھ کر خریداری کریں۔ Economyکی ^یمت بھی پوچھ لیں۔

آایا کہ یہاں جو پانی کی بوتلیں دستیاd ہیں) اسے یہاں منرل واٹر نہیں، پیور یا3 ۔ اس پر یاد

م ل کی ہوتی ہیں650( واٹر کہتے ہیں، وہ ایک ریال کی Pure or Healthہیلتھ )

اا کولڈ ڈرنک کی ہے تو کیوں نہ کولڈ ڈرنک2اور ریال کی سوا لٹر کی بوتل۔ یہی ^یمت تقریب

آائے۔ پانی ہی پینا ہے تو حرم میں یا اپنے کمرے میں لا کر زم زم ہی خریدیں کہ مزہ بھی

کا احساس نہیںEconomyپیجئے۔ اس سے بہتر ہیلتھ واٹر کیا ہوگا۔ مقامی لوگوں کو

ہے، یہ لوگ ایک ایک ریال کے درجنوں کولڈ ڈرنک کے ٹن پی جاتے ہیں اور زیادہ لوگ ہونے

آاتا کہ بڑا پیکنگ لے لیں۔ یہ ییSدہ۔ یہ خیال نہیں اس لئےHintپر بھی ہر ایک کے لئے عل

دے رہے ہیں کہ ہر ڈرنک کی ایک لٹر سے سوا لٹر تک کی بوتل دوریال کی ملتی ہے اور دو یا

آا جائیں175 ریال کی۔ جس میں ایک ریال کے 3سوا دو لٹر کی بوتل م ل والے درجن بھر ٹن

گے مSض دوگنی ^یمت میں۔ ایسی ہی بڑی بوتل خریدیں، خود بھی پئیں، کمرے والوں کو

بھی پلائیں یا تھرمک جگ میں مSفوظ کر کے رکھ لیں اور بعد میں پئیں۔

آاپ چاول4 آاپ چاول کے بغیر نوالہ نہیں توڑ سکتے ہوں تو بات دوسری ہے۔ لیکن اگر ۔ اگر

کے عادی ہوں بھی تو منہ کا مزہ بدلنے کے لئے حرمین کے ^یام کے دوران روٹی کھانا شروع

آاپ نے سنا ہوگاکہ آاسانی دستیاd ہے اور سستی بھی۔ وہ لطیفہ تو کر دیجئے۔ کہ یہ زیادہ ب

ایک صاحب ایک ہوٹل میں داخل ہو تے ہوتے پلٹ کر جانے لگے۔ ہوٹل والے نے ان کو جا

Page 251: اللہ میاں کے مہمان

پکڑا کہ حضرت کیوں چلے جا رہے ہیں تو انھوں نے باہر لگے بورڈ کی طرف اشارہ کیا۔ لکھا

آاؤں، گھر آاپ کے پاس کیوں آارام، کھانے میں گھر کا سا مزا' کہنے لگے 'پھر تھا ' گھر کا سا

آاپ بھی گھر کا ہی مزا تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ہی جا کر نہ کھا لوں' چناں چہ

روٹیاں کئی طر� کی ملتی ہیں۔مدینے میں تو ہم افغانی تندورکی روٹیوں کی سفارش کریں گے۔

آاپ کو دستیاd نہ ہوں تو ایسے ہی تندور سے حکے میں ایسی روٹیاں پراٹھے یا چYاتی۔ مگر م

آا جائیں۔ ورنہ پھر ہر علا^ے میں جو بڑے بڑے آاپ کو یہ پسند 'بسکوت' لے لیں، ممکن ہے کہ

آاپ کو کئی طر� کی روٹیاں مل جائیں گی، سٹورس ہیں، جنھیں اکثر 'بقالے' کہتے ہیں، وہاں

بن، ڈبل روٹی، مختلف شکلوں کی، جن میں ایک لمبی روٹی کو سلومی کہتے ہیں۔ عام

روٹیاں سائز کے مطابق ایک ریال کی ایک سے لے کر ایک ریال کی چار تک ملتی ہیں۔ بدل

م کی ا بہترین ر آائے یا جس میں بقول انگریزی والوں کے آاپ کو پسند بدل کر کھائیے۔جو ^سم

( ہو، اسے اپنا لیجئے۔ کیک اور بسکٹBest value for moneyوصولی' )

آاپ کو بھی طر� طر� کے ملتے ہیں، میٹھے بھی اور نمکین بھی۔ مگر سستا یہی پڑے گا کہ

( کے ایک ایکCheeseبن یا ڈبل روٹی جو زیادہ پسند ہو، وہ خریدئیے، کریم اور پنیر )

آادھا کلو کی شیشی ریال کی ہے، ان سے ناشتہ کر لیا3ریال کے پیکٹ ملتے ہیں، جام کی

کریں۔

بب عامر کے علا^ے نے تو ہمیں مایوس کیا5 آاپ کے علا^ے میں )ہمارے شع حکے میں ۔ اگر م

آاپ کو اچھی اور گرم روٹی مل رہی ہوتو وہی بہتر ہے اور وہاں کی ہے( تندور اچھے ہوں اور وہاں

آاپ کو بھی دال سبزی بھی اچھی ہو تو یہ کم خرچ بالا نشیں ثابت ہوگا۔ مدینے میں تو ضرور

Page 252: اللہ میاں کے مہمان

اسی میں فائدہ مSسوس ہوگا۔ اس صورت میں کھیرے ٹماٹر اور پیاز خرید لیا کیجئے، اس کا

آاپ وطن سے لے سلاد بنائیے، کبھی دہی لے لیں، یا چھاچھ)لبن(، اس کا رائتہ بنا لیں۔ نمک

جا سکتے ہیں، نہیں تو اس کی بھی ایک ریال کی بوتل ملتی ہے۔

۔ مرغی کا مشورہ دینے میں ہم مSتاط ہیں کہ ہماری اطلاع کے مطابق چھوٹی دوکانوں میں6

یوروپی ممالک کا مشین کا کٹا گوشت بھی مل سکتا ہے جس کے ذبیSہ کے غلط ہونے کا

آاپ کو تندور میں احتمال ہے۔ ہاں، بکری کا گوشت بلا جھجک کھا سکتے ہیں ۔مگر یہ

آاپ ہوٹل جا کر ہی کھائیں تو بہتر رہے گا کہ روٹیاں الگ اا نہیں ملے گا۔ اس کے لئے عموم

آاپ ہندوستان کی مسلم ہوٹلوں کے ^اعدے کے سے خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مگر

مطابق 'پارسل' لے جانا چاہیں تو اکثر ہوٹل والے مفت میں روٹیاں نہیں دیتے ہیں، مانگنا پڑتی

آاتی تھی۔ورنہ پھر ہیں یا کبھی انکار بھی کر سکتے ہیں۔ اور ہم کو بھی مانگنے میں تو شرم ہی

گوشت ^یمے کا سالن ہوٹل سے لے کر دوریال کی روٹیاں خرید لیں تو تین لوگ کھا سکتے

ہیں۔

کچھ خبریں

آاپ 2یہاں 'اردو نیوز' اخبار ملتا ہے جو مقامی اردو اخبار ہے، 20 ریال ^یمت کا۔ اd اسے

روپئے سمجھ کر مہنگا کہہ سکتے ہیں مگر مقامی لوگوں کے لئے وہی دو روپئیوں کے برابر

Page 253: اللہ میاں کے مہمان

ہے، جو ^یمت یہاں اردو اخباروں کی ہوتی ہے۔ یہ اخبار کیوں کہ ہندوستانی پاکستانی مہاجرین

کے لئے ہی ہوتا ہے ، اس لئے اس میں یہاں کی مقامی خبریں بھی مل سکتی ہیں گجرال

صاحب کے وزیر اعظم بننے کی خبر بھی ہم کو اسی سے ملی ہے۔ بلکہ کل کے اخبار میں

یی میں جن ہندوستانیوں کا حج مکمل نہیں ہو سکا ہے، انھیں ان کا بیان تھا کہ حادثۂ من

حثرین کی تفصیلیں حکومت ہند اپنے خرچ پر اگلے سال حج کے لئے بھیجے گی۔ ہندوستانی متا

عدد گم شدہ لوگوں کی فہرست کے علاوہ ان کی بھی191 عدد شہداء اور 46بھی ہیں۔

فہرست ہے جو زخمی ہیں اور جن کا مختلف اسYتالوں میں علاج چل رہا ہے اور ان کی بھی

جو اسYتال سے خارج ہو کر واپس جا چکے ہیں۔ دو تین دن پہلے کے اخبار میں کچھ

زخمیوں سے لئے گئے انٹرویو بھی تھے۔ کچھ نے بتایا کہ ان کو حج کے ارکان مکمل کرنے

کے موا^ع فراہم کئے گئے۔ جن کی حالت بہت زیادہ خراd نہیں تھی ، ان کو ایمبولینس کے

یی سے عرفات لے جایا گیا اور پھر وہاں سے مزدلفہ بھی۔ اور پھر ات میں من ذریعے صSیح او

حکہ کے اسYتالوں میں رکھا گیا یی یا م یی لا کر ان کی ^ربانی کا انتظام کر کے انھیں پھر من من

ہے۔ان کی طرف سے ^ربانی کے علاوہ رمی جمار بھی ہو گئی ہے اور حلق و تقصیر )بال

مونڈوانا یا کٹوانا( بھی۔

آانکھوں میں تکلیف تھی تو ہم ان کو ہندوستانی کلینک لے گئے تھے۔ وہاں معلوم صابرہ کی

آاتش ہو گئیں۔حکومت بر ہوا کہ ہندوستانی مSکمۂ صSت کی دو لاکھ روپئیے کی دوائیں نذ

یی جل گیا تھا تو اور بھی کئی میڈکل ہند کا میڈیکل کیمپ پورا جل گیا۔ نصف سے زیادہ من

Page 254: اللہ میاں کے مہمان

لاکھ حاجی بے گھر ہو گئے تھے، کوئی مذاق کی بات ہے؟7کیمپ جل گئے ہوں گے۔

خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہم کو مSفوظ رکھا ہے۔

آاپ کو بتا دیں کہ ابھی کل کے ہی اخبار سے بات اخبار سے شروع ہوئی تھی تو یہ خبر بھی

آابائی وطن پشاور گئے معلوم ہوا کہ ہمارے ہندوستانی فلموں کے اداکار ششی کYور اپنے

آابائی وطن دیکھنے کچھ کے طور پر۔ اور ان کےHome comingتھے ،اپنا

شیدائیوں میں ایسی بھگدڑ مچی کہ پولس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا اور اس کے نتیجے میں

کئی زخمی ہو گئے۔

dآاباد کے بہت سے لوگ عر اردو نیوز میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ کیوں کہ حیدر

ممالک میں بسے ہیں ، اور ان لوگوں کو وطن ہی نہیں، اپنے شہر کی خبروں کے لئے ایسی

آاباد میں رہتے ہیں اور تازہ بہ تازہ خبریں تڑپ ہوتی ہے کہ ان اخباروں کے با^اعدہ نمائندے حیدر

اپنے عرd سے نکلنے والے اخباروں )ہمیں تو فی الSال اردو نیوز کا ہی پتہ چلا ہے، ویسے نہ

صرف دوسرے اخبار، ہفت روزے اور ادبی ماہنامے بھی عرd دنیا سے نکلنے کی خبریں تو ہم

آاباد کے اردو اخباروں میں ہی پڑھی ہیں( کو دیتے رہتے ہیں۔کل کے ہی اخبار میں خبر نے حیدر

حدہ پہنچ آاباد کے لیڈر، مجلس بچاؤ تSریک کے امان اللہ خاں فلاں تاریخ کو ج تھی کی حیدر

رہے ہیں اور فلاں ہوٹل میں ان کا استقبالیہ مقرر ہے۔ ہندوستان کے ہی دوسرے شہروں کے اردو

آاج کا اخبار ہم نے دیکھا نہیں اخباروں کے ^ارئین امان اللہ خاں کو کیا جانیں گے۔ بہرحال

ا حمید ہے کہ گجرال صاحب نے پارلیمان کے ( پر اپنیFloorفرش' )ـہے اd تک، مگر ا

Page 255: اللہ میاں کے مہمان

اکثریت ثابت کر دی ہوگی، اگر کانگریس اپنے تعاون کے وعدے پر ^ایم رہی تو...یوں اس

پارٹی پر بھی اعتماد مشکل ہے۔

یہ تو ہو گئیں اخباروں کی گرماگرم خبریں۔ کوئی تین چار دن پہلے ہم کو ایک صاحب کے

حھی طر� وا^ف تھیں۔ ہم ان یی کے حادثے میں انتقال کی خبر ملی جن سے صابرہ اچ من

صاحب کے لڑکے علیم سے وا^ف تھے جو خود بھی ہم دونوں کی طر� جیالوجسٹ ہیں مگر

آاف مائنس ) ( میں، بنگلورIndian Bureau of Mines, IBMانڈین بیورو

میں ہماری علیم سے ملا^ات ہوئی تھی اس مغرd کی نماز کے بعد جب کہ ہم عشاء کے بعد

ت علیم نے بتایا تھا کہ ان کے والدین بھی حج کے لئے جا رہے اڑنے کے لئے تیار تھے۔ اس و

حدہ میں ہم نے صابرہ کو علیم کے والدین کے آائے تھے۔ بعد میں ج ہیں اور وہ ان کو چھوڑنے

وہیں کہیں ہونے کی بات بتائی تھی مگر وہاں کہاں معلوم کرتے، اور پھر صابرہ بھول بھی

گئیں۔ اd انتقال کی خبر ملی تو افسوس ہوا۔ یہ تو ہم کو علیم نے بتایا تھا کہ ان پر فالج کا

اثر ہے اور وھیل چیر استعمال کرتے ہیں اور اسی پر حج کریں گے۔ بلکہ صابرہ نے کل ہی بتایا

یی کی کہ ان پر فالج کا اثر حج کی درخواست دینے کے بعد ہوا تھا۔ وا^عہ یوں معلوم ہوا کہ من

آاگ ان کے کیمپ کے ^ریب ہی شروع ہوئی اور بھگدڑ میں سڑک کی طرف کا راستہ لوگوں

آاگ تھی ہی، بعد میں سڑک کے دوسری طرف نے ہی بند کر دیا۔ خیمے کے دونوں جانب تو

آاگ شروع ہو گئی ، اس لئے لوگ پھر چوتھی سمت یعنی پہاڑ کی طرف بھاگنے لگے۔ بھی

مرحوم حکیم صاحب )یہ ان کا نام تھا( بے چارے فالج زدہ پیروں سے چڑھنے کی کوشش کر

بگر جاتے تھے۔ ڈھال بھی سخت تھا۔ عام لوگ بھی پھسل پھسل کر گر بر رہے تھے مگر گ

Page 256: اللہ میاں کے مہمان

رہے تھے۔ کسی اللہ کے بندے نے ان کی مدد بھی کرنی چاہی مگر وہ بیچارہ خود بھی گر

گیا اور مرحوم پھسل کر جلتے ہوئے خیموں میں ہی جا گرے۔ بلکہ وہ تو پہاڑی تلے گرے، ان

کے اوپر جلتے ہوئے خیمے گرے۔ صابرہ سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ صابرہ کے پڑوسی تھے

مSبوd نگر میں۔ حکیم صاحب خود وہاں بی۔ ایڈ کالج کے پرنسYل تھے۔اس معلومات کے

بعد چلا کہ مرحوم کی بیوہ ہماری عمارت کے ^ریب ہی ایک عمارت میں ہیں تب سے صابرہ

dہو رہے ہیں، عصر کے لئے نکلنا ہے اور اس کے3۔20روز ان سے جا کر مل رہی ہیں۔ ا

حدے میں ہی لکھیں گے۔ حدہ کے لئے۔ اd انشاء اللہ ج بعد ج

حد ہ حکے تک بر ا ہ ج حکے سے م م

/ مئي ، ساڑھے دس بجے رات٣

حدہ میں ذرا بھی نہیں لکھ سکے۔ صرف کچھ نکات یحلہ ۔ ج آاج نویں دن لکھ رہے ہیں الSمد ل

ت کی نوٹ کر لئے تھے کہ ان کے بارے میں لکھیں گے اگر حیات رہے تو۔ ویسے وہاں و

ت نہ گنواتے تو(۔ مگر ایک تو کمی نہیں تھی۔وافر مقدار میں مل رہا تھا )اگر ہم سونے میں و

ہم یہ ضخیم رجسٹر لے کر نہیں گئے تھے۔ تین چار دن کا ہی پلان تھا اس لئے مSض ایک

ہلکا پھلکا بیگ ساتھ لے لیا تھا اور با^ی سارا سامان یہاں ہی چھوڑ گئے تھے۔ یہ رجسٹر یہاں

چھوڑ کر کچھ کاغذ ساتھ لے لئے تھے۔ ہم جس رجسٹر میں یہ سب لکھ رہے ہیں، وہ در

Page 257: اللہ میاں کے مہمان

اصل ہماری اہلیہ مSترمہ کے دفتر کے ڈپلی کیٹنگ پیYر سے بنایا گیا ہے جسے ان کے سیکشن

والوں نے با^اعدہ موٹے کاغذ کی جلد چڑھا کر زنجیری جلد بندی )سYائرل بائنڈنگ

Spiral bindingکر دی ہے۔ یہ کاغذ کچھ شکستہ ہو جاتا ہے اور ہم نے جو کچھ)

اوراق نکالے بھی تو ان کی حالت خستہ ہو رہی تھی۔خطوط لکھنے کے لئے ہم نے ایک ریال

آاٹھ اوراق خریدے تھے اور اس کام کے لئے دس روپئے کے کاغذ تو ہم کے کاپی سائز کے

آاپ کی 'نظر خراشی' کریں گے۔ پسند کریں نہ کریں مشکل سے دو دن میں لکھ ڈالیں گے اور

بن جہاں اختیار ہے۔ غرض ایک وجہ یہ بھی تھی اور اصلی وجہ یہ کہ ہمارے میزبان با^ر، ان جا

حچوں نے اجازت ہی نہیں دی یعنی مصروف رکھا۔ شاید ہم لکھ کی بیوی زرینہ اور ان کے تین ب

یی کے دیور ہیں، ان کے شوہر مSمود بھائی کے چکے ہیں کہ یہ با^ر صابرہ کی بڑی بہن صغر

حمل۔ ان کے علاوہ جدہ میں ہی حچے ہیں ارمینہ، نورینہ اور لڑکا مز چھوٹے بھائی۔ با^ر کے ب

آاپا کی نند نسیم اور ان کے شوہر اشفاق بھائی بھی ہیں۔ ہم یہان تو اللہ میاں کے یی صغر

آا کر با^ر میاں کے مہمان بھی ہو گئے ۔ ٹھہرے تو با^ر کے گھر ہی مہمان تو تھے ہی، جدہ

تھے، مگر کئی بار اشفاق بھائی کے ساتھ ہی ان کی میزبانی کا لطف اٹھایا۔ در اصل کار ان

کے پاس ہی تھی، با^ر کے پاس نہیں تھی، اس لئے کہیں جانے کے لئے ان کے ساتھ ہی

آانے کے لئے ان کی کار نہیں مل سکی اس لئے کہ اس جاتے تھے۔ صرف کل یہاں واپس

کی چھٹی تھی اور اس دن وہ اپناWeekendجمعرات جمعے کو اشفاق بھائی کی

گھر شفٹ کر رہے تھے۔ چناں چہ کل ہم ان کے بڑے بھائی ا^بال بھائی کی ایر کنڈیشنڈ کار

حدہ سے واپس لوٹے ہیں۔ پچھلے جمعے حکے28میں ج آاٹھ بجے م / اپریل کی رات کو ساڑھے

Page 258: اللہ میاں کے مہمان

ت حدود حرم بلکہ میقات میں سے نکلے تھے تو کل جمعے کو ہی مغرd کی اذان کے و

داخل ہو رہے تھے، جہاں سے غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔ )اس راستے پر یہاں ایک بڑی

کلو میٹر دور ہی تھا، اس لئے مغرd کی نماز ہم3۔4سی رحل بنائی گئی ہے(۔ حرم وہاں سے

حکے میں ہی مگر حرم سے دور پڑھی۔ پھر ا^بال بھائی نے خواتین کو حرم میں چھوڑا، ہمارا نے م

م آاٹھ بج گئے468سامان عمارت ر میں رکھوایا، اور پھر ہم کو حرم میں چھوڑا تو رات کے

آاسکے۔ خیر وہ روداد بعد میں۔ ابھی تو11تھے۔ عمرہ کر کے ہم لوگ بجے ہی عمارت واپس

آاپ کو تفصیل سے وہاں کے شب و روز dحدے کے سفر کی تمہید ہی باندھی ہے۔ ا ہم نے ج

سے وا^ف کرائیں۔

حد ے کے شب و ر و ز ج

حدے والوں )یا سعودی عرd کے 'شب و روز کی اصطلا� نہ صرف با^ر اور زرینہ اور دوسرے ج

آاٹھ دنوں میں ہمارے لئے بھی بالکل صSیح ہے۔ یعنی یہ دوسرے شہریوں (کے لئے بلکہ ا ن

آاپ کی شب حکب ہی لکھنا چاہئے کہ کہہ نہیں سکتے کہ کہ ہمیشہ ان دونوں الفاظ کو مر

کب ختم ہوئی اور روزکب؟ کیوں کہ ہماری رات بھی تب ہی ختم ہو رہی تھی جب سورج

بب بام رہ گیا۔ با^ر کا کہنا یہ ہے کہ یہاں عورتیں)طلوع ہونے میں( ؎ دو چار ہاتھ جب کہ ل

اس لئے زیادہ موٹی ہوتی ہیں کہ دن بھر سوتی رہتی ہیں۔ روزانہ رات کو دو تین بجے ان کا سونا

ت سوت آاٹھ بجے اپنے کام سے لگ جانےہوتا ہے۔ مرد بھی اسی و ے ہیں مگر صبح سات

Page 259: اللہ میاں کے مہمان

بجے تک سوتی رہتی ہیں۔ با^ر12۔11کے لئے ان کو جلدی اٹھنا ہوتا ہے مگر عورتیں دن میں

کو ہی صبح ساڑھے سات بجے نکلنا ہوتا ہے اور واپسی میں ساڑھے سات بج جاتے ہیں۔ اس

ت ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد عام طور پر ان کی شام کی چائے ہوتی ہے۔ اور پھر عشاء کا و

اا سعودی حضرات کہیں کسی سے ملنے چلے جاتے ہیں کے بعد یہ دونوں ہی نہیں، بلکہ عموم

آارام سے کھانا وغیرہ12یا پھر شاپنگ کے لئے۔ رات بجے کے بعد واپسی ہوتی ہے۔ پھر

ت پکاتے بھی ہیں اور پھر سونے تک وہی کھاتے ہیں، بلکہ گرم کھانے کی عادت ہو تو اسی و

گھنٹوں کی ہوتی ہے۔ رات کو4 ۔5دو تین بج جاتے ہیں۔ مردوں بے چاروں کی نیند مSض

جب ہم لوگ کھانا کھانے بیٹھتے تھے تو اکثر با^ر دستر خوان پر ہی اونگھنے لگتے تھے۔ ناشتہ

ظہر کے بعد ہوتا تھا اور دوپہر کا کھانا عصر کے بعد۔ ہم بھی ایک یا دو دن ہی فجر کی

ت تک سو ہی نہیں سکے تھے۔ ورنہ اکثر آانکھ8۔7نماز پڑھ سکے، ایک دن تو اس و بجے

کھلتی تو ^ضا فجر پڑھ کر سب کو سوتا دیکھتے تو خود بھی لیٹ جاتے اور خلاف معمول

آاجاتی۔اور بجے کی خبر لیتے۔ پرسوں تو اور خراd حالت رہی۔ جمعرات تھی اور11بھی نیند

آادھے دن کی چھٹی ہوتی ہے) ان لوگوں کی جمعے کو مکمل چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن با^ر کو

ت آاکر سو گئے تو پھر مغرd کے و کچھ دفتروں میں دونوں دن کی مکمل(۔ اس لئے وہ بھی

آانے سے پہلے ایک بجے ناشتہ ہوا تھا ہمارا، پھر زرینہ بھی سو ہی سب لوگ اٹھے۔ ان کے

آاگئے تو دوپہر کا کھانا ت کچھ مہمان گئیں اور ہمارے علاوہ سبھی، بشمول با^ر کے۔ اس و

حتہ رات کا کھانا عشاء سے پہلے ہی کھا غائب۔ ان کے ساتھ ملک شیک پیا اور چائے بھی۔ الب

لیا گیا۔ یعنی عشاء کی اذان ہو رہی تھی اور سب کھانا کھانے بیٹھ چکے تھے۔ با^ر کی دونوں

Page 260: اللہ میاں کے مہمان

آاتی ہیں اور کچھ اسکول2لڑکیاں صبح سات بجے اسکول چلی جاتی ہیں اور بجے واپس

حمل، ان کا چھوٹا بیٹا پونے آاٹھ بجے ہی اٹھتی ہیں۔ مز کاکام کر کے یہ بھی سو جاتی ہیں تو

حچوں کو رخصت آاجاتا ہے۔زرینہ ب آاس پاس ہی آاٹھ بجے نکلتا ہے اور وہ بھی اپنی بہنوں کے

کرنے کے لئے اٹھتی ہیں، مSض مSبت کی خاطر ورنہ ان کے ناشتے دان بھی پچھلی رات

کو ہی رکھ دئے جاتے ہیں۔ پھر یہ سو جاتی ہیں۔ اگرچہ ہمارے لئے ٹرے میں بریڈ، جام اور

چیز وغیرہ پہلے ہی رکھ دیتی تھیں کہ ہماری جب خواہش ہو، ہم لوگ ناشتہ کر لیں۔ ایک دن

تو ہم نے کر بھی لیا تھا، مگر بعد میں ہماری بھی سونے کی عادت ہو گئی۔

حدے کے شب و روز کا حال شروع ہی کیا تھا کہ لگتا ہے ہماری شب شروع لیجئے اd تک ج

حھا ہے۔ اd کل آا رہی ہے۔ چلئے معمول معمول کے مطابق ہو جائے تو اچ ہو چکی۔ یعنی نیند

آاج ہم نے ناشتہ ہی نہیں کیا۔ ساڑھے بارہ آاج تک تو یہی حال تھا کہ صبح لکھیں گے ورنہ

بجے اٹھے تھے۔اس لئے سیدھے لنچ لے لیا۔ صابرہ بھی اپنا معمول ٹھیک کرنے میں لگی ہیں

کہ دس ساڑھے دس بجے سے سو رہی ہیں۔

حد ہ شہر ج

بجے رات11ء، 97/مئی 4

Page 261: اللہ میاں کے مہمان

حرک' ) Sا مت آاج کا دن بھی خاصا Full ofاd لکھنے کی مہلت مل رہی ہے۔ ویسے تو

activitiesآا رہے حدہ چلیں جہاں سے ہم ( رہا۔ مگر اس کی بات بعد میں، پہلے ج

ہیں۔

حکہ بھی دیکھا اور مدینہ بھی، مگر دونوں مدینے )مدینہ در اصل شہر یوں ہم نے دیکھنے کو م

ا اسواق' کو ہی کہتے ہیں( صرف حرمین کے ^رd و جوار تک ہی۔ مدینے میں تو پھر کئی

آاس پاس کے علاوہ نہ کچھ دیکھا تھا نہ کچھ حکہ میں تو حرم کے )بازار( دیکھ ڈالے تھے۔ م

خریداری کی تھی۔ ویسے ان دونوں شہروں کے دوسرے علا^ے سفروں کے دوران ضرور

آاتے ہوئے، مکہ اور مدینے کے درمیان کے راستے حہ حدے سے مک دیکھے، گزرتے ہوئے۔ یعنی ج

ت۔ مگر صSیح معنوں میں دیکھنے کی غرض سے میں دو بار گزر ے اور پھر جدہ جاتے و

حدہ۔ یوں تو مکہ مدینہ میں بھی کئی فلک بوس عمارتیں ہیں، مگر جو کوئی شہر دیکھا تو ج

آائی، وہ مکہ مدینہ میں نہیں۔ یہ واضح کر دیں کہ اd ہم خالص ٹورسٹ حدے میں نظر رونق ج

حیت سے تو ان دونوں شہروں کے علاوہ کہیں کے طور پر بات کر رہے ہیں۔ جذبۂ شوق کی ن

حدہ جانا ہی پڑ گیا تو ہم ہمارا جذبۂ شوق حرم کی ہی جانے کو جی نہیں چاہتا۔ مگر جب ج

حدہ چلے گئے تھے۔پھر با^ر اور اشفاق بھائی کے مجبور رہے، جذبۂ ایک طاق میں رکھ کر ج

آاتے۔ یعنی جب تک ان لوگوں نے واپسی کے لئے شوق کے مجبور ہوتے تو اگلے ہی دن بھاگ

آاخر ان لوگوں کے مہمان تھے۔یہ دوسری بات ہے کہ کار کا انتظام نہیں کیا، وہیں ٹھہرنا پڑا۔

حدے کے بازاروں میں ہمیں اللہ میاں کا مہمان ہی سمجھا گیا اور اس ناطے مکہ مدینہ سے ج

زیادہ ہی احترام نصیب ہوا۔ وہاں تو سبھی حاجی تھے، من ترا حاجی بگوئم، تو مرا حاجی بگو

Page 262: اللہ میاں کے مہمان

کے علاوہ وہاں یہ احترام کہاں ممکن تھا۔ ویسے ہم اس خاطر کے بھوکے تو نہیں تھے۔ مگر

جب احترام مفت میں ملتا رہا تو خوش ہوتے رہے۔

حدہ بہت وسیع ہے۔یہاں مکہ کا حال تو معلوم نہیں۔ یہ ضرور ایک تو ہم کو یہ لگا کہ شہر ج

آافس کی جانتے ہیں کہ یہاں علا^وں کو سمتوں میں بانٹ رکھا ہے، جیسے لندن میں پوسٹ

وغیرہ۔ یہاں بھیNorth-west, South-eastزون سمتوں کے مطابق ہیں،

اسی طر� ہے مگر عربی میں۔ مختصر حروف کی عربی میں مشکل ہے کیوں کہ مشرق اور

ا ش' ا م' سے شروع ہوتے ہیں۔ اور اگر مشرق کو شرق بھی لکھا جائے تو وہ بھی مغرd دونوں

ا ش' لکھتے ہیں،) کہیں کہیں شمال پورا سے ہوتا ہے اور شمال بھی۔ یہاں صرف شمال کو

ا ق' بشمال کہا جاتا ہے۔( مشرق کے لئے ا ش' پر زیر لکھا دیکھا، یعنی یہاں بھی لکھا دیکھا تو

حتہ جدہ میں علا^وں اور بستیوں کو انگریزی ا ج'۔ الب ا غ' ، جنوd کے لئے وہی اور مغرd کے لئے

ا حتی'ہے۔ میں 'ڈسٹرکٹ' کہا جاتا ہے اور اس کا عربی ترجمہ اردو کے حساd سے ضلع نہیں،

بلکہ یوں کہئے کہ یہاں حتی کی انگریزی ڈسٹرکٹ ہے۔ ہم، مراد با^ر وغیرہ، حتی العزیزیہ میں

یہ، بنو مالک، کندرہ وغیرہ۔)ہم کو حتی رہتے تھے۔ راستوں کے دوسرے ضلعے تھے، حتی شر

ا ڈسٹرکٹ ' ترجمہ کر کے پھر اردو میں کی جمع معلوم نہیں اس لئے ہم اس کا انگریزی میں

ترجمہ کر رہے ہیں۔

حدے پہنچے تھے۔ 25 / اپریل27/ کو کہیں نہیں گئے مگر 26 اپریل جمعے کی رات کو ج

/ مئی تک ر وزانہ کسی نہ کسی نئے علا^ے میں جاتے رہے۔ پہلے دن جہاں گئے اس2سے

کا نام معلوم نہیں )یا یاد نہیں رہا(۔ مگر وہاں ہندوستانی پاکستانی دوکانیں بہت تھیں۔پان کی

Page 263: اللہ میاں کے مہمان

ت دو علا^وں میں گئے، ایک میں دوکان، ہندوستانی مٹھائیاں وغیرہ سبھی دستیاd تھیں۔ اس و

سYورٹس کاسامان تھا۔ وہیں سے ہمارے بیٹے کامران کے لئے ایک جوڑی سYورٹس شوز لئے۔

حدے میںReebokفرمائش تو ان کی 'ریبوک' ) ( شوز کی تھی مگر وہ مدینے میں اور ج

ریال کے تھے۔ ہندوستان میں اس سے کم ^یمت میں ہی دستیاd ہو سکتے400۔350بھی

dم کا سوچیں تو یہاں کے ہزار روپیوں میں مل سکتے تھے اور اس حسا تھے۔ یعنی متبادل ر

آاس پاس ہوتے تھے تو ہم ضرور خرید لیتے۔ اس لئے با^ر نے مشورہ دیا100سے وہاں ریال کے

حھے ہوتے ہیں وہ بھیLine-7 )7کہ اس فرانسیسی کمYنی 'لائن۔ ( کے جوتے بھی بہت اچ

وہی استعمال کرتے ہیں اور اس میں یوں بھی ڈسکاؤنٹ چل رہا تھا اور با^ر کی دوستی تھی

ریال میں ہی دے60 ریال میں تو تھا ہی، ہمیں 80 ریال کا جوتا 110دوکان دار سے۔ اس لئے

دیا۔ اس کے علاوہ کامران کے ہی لئے جین بھی خریدی، اور کیا کچھ خریدا، یاد نہیں۔

آاتا ہے،28اگلے دن / کو 'ہراج' گئے۔ یہ در اصل نیلام کی جگہ ہے اور یہاں ہول سیل سامان

اس لئے کم ^یمت میں اشیاء مل سکتی ہیں۔ ساحل کے ^ریب ہی یہ علا^ہ ہے۔ مگر یہاں اکثر

آاباد کا جمعرات دوکانیں فٹ پاتھ کی ایسی بھی دیکھیں جیسی ممبئي کے چور بازار یا حیدر

حھر گھٹی کا علا^ہ۔ ایک جگہ ریال میں دھات2۔2بازار )جمعرات کے دن( یا اتوار کے دن پت

ریال میں ٹی شرٹس،5۔5کے گل دانوں سے لے کر بڑے بڑے گھنٹے تک مل رہے تھے۔

لڑکیوں کے سفید بلاؤز تو ہم نے بھی یہاں سے خریدے۔ یہ اپنی پیکنگ میں سیلڈ تھے اور

ریال کی بھی ایسی کئی دوکانیں تھیں20 اور 10، 5دس ریال کے تین بھی مل گئے۔ ہر مال

ریال کی مل2۔2بلکہ ایک ایک ریال کی بھی جہاں وہ چیزیں بھی تھیں جو مدینے وغیرہ میں

Page 264: اللہ میاں کے مہمان

تا6 ریال فی میٹر فٹ پاتھ پر اور 5۔5رہی تھیں۔کYڑے کی دوکانیں بھی بہت تھیں۔ زنانی کYڑا

حYل10 ریال میٹر دوکانوں میں تھا۔ ریڈی میڈ بھی۔ صابرہ نے اس دن اسی بازار سے ایک چ

حچوں کے ریڈی میڈ سوٹ بھی۔ نائٹی اور اسکارف بھی خریدی اور کسی کو دینے کے لئے ب

لئے۔ شلوار ^میص سوٹ کے لئے کYڑے بھی خریدے۔ بیشتر دوکانیں بنگلہ دیشیوں کی تھیں

آاسانی ہوئی۔ ویسے ہم ان حھی خاصی بنگلہ کا یہ اثر ہوا کہ سودا چکانے میں اور ان پر ہماری اچ

لوگوں کو کہہ دیتے تھے کہ بھائی ہماری بنگالی کلکتوی ہے، بنگلہ دیشی بنگالی کا نہ صرف

لہجہ الگ ہوتا ہے بلکہ لفظیات میں بھی فرق ہے۔ وہاں یہ لوگ پانی 'پیتے 'ہی ہیں، ہندوستانی

بنگالیوں کی طر� 'کھاتے 'نہیں۔

آاپ کو29اگلے دن / کو 'کندرہ' کے علا^ے میں گئے جہاں جانمازوں کی تھوک منڈی ہے۔

آاپ کو بتائیں کہ ہم نے اس دن آائے گا جب ہم عدد جانمازیں خریدیں۔ صابرہ35یقین نہیں

اا جانمازیں دینے کا ہی تھا۔ یہاں بھی کافی کفایت رہی۔ ایک کا ارادہ اکثر لوگوں کو تSفت

کوریا کا لSاف بھی خریدا۔نہایت ملائم۔ یہ شے یہاں کے دوسرے بازاروں میں اور مدینے میں

ریال میں مل گیا۔ اس دن ایک پاکستانی110 ریال کی تھی، کندرہ میں ہمیں 140۔130بھی

ہوٹل میں باہر ہی سب نے )با^ر اور اشفاق بھائی کا پورا خاندان ساتھ تھا، اشفاق بھائی کی کار

بب معمول(کھانا کھایا۔کڑھائی گوشت، مرغ کی ایک ڈش )اس کا نام میں ہی گئے تھے حس

یاد نہیں رہا(، سبزی کی بریانی اور روٹیاں۔ سلاد بھی تھا ہی اور بعد میں کھیر بھی کھائی

حچھا کھانا تھا۔ گئی، ا

Page 265: اللہ میاں کے مہمان

اپریل اور یکم مئي کو سونے کے بازاروں میں گھومتے رہے۔ یہ دو30تیسرے چوتھے دن یعنی

بازار ہیں۔ ایک کا نام 'یمامہ ' تو یاد رہا، دوسرے کا بھول گئے ہیں۔پہلے دن ہماری صابرہ

( دیکھنے کی کوشش کی۔ تلاش تھی 'اللہ' لکھی ہوئیBraceletبیگم نے بریسلیٹ )

آارہے تھے۔Pendantsہار میں ڈالنے کی 'لٹکنوں' ) حھے نظر نہیں ( کی، مگر وہ اچ

دوسرے دن دوسری مارکیٹ میں یہ مل گئے۔ اس کے ساتھ انھوں نے چار ٹاپس بھی خریدے۔

ریال فی گرام اور38سونے کا بھاؤ یہاں بني ہوئی چیز کے حساd سے ہے۔چوڑیاں سستی ہیں۔

ریال فی45۔40 ریال فی گرام تک۔ دوسری چیزیں 60۔50کان کے ٹاپس سب سے مہنگے

کیرٹ سونا ہے۔ غرض سونے کی کچھ چیزیں وہاں ہندوستان کی بہ21گرام۔ اور یہ سب

اا یہاں جیسا ہی حساd پڑتا ہے۔ نسبت سستی ہیں اور کچھ مہنگی۔ سب ملا کر تقریب

حدہ پیار سے 'ببمک' ) بل ج بd مکہ' کے علا^ے میں گئے جسے اہ آاخری دن ہم 'با

Babmakآاباد کا عثمان گنج اور بیگم بازار )علی (کہتے ہیں۔ یہ دراصل جیسے حیدر

گڑھ کا رسل گنج اور دہلی کا دریا گنج بھی سمجھ سکتے ہیں( ہے یعنی ہر چیز، بطور خاص

آاٹا، دال، چاول اورمصالSوں کی تھوک مارکیٹ۔ یہاں سے مصالSے خریدے یعنی لونگیں،

آاپ کو بتاتے چلیں۔ زیتون کا تیل، دارچینی۔ الائچی۔ بادام اور پستے۔ ان کے بھاؤ بھی

ریال فی کلو۔30 ریال اور بادام 28 ریال، پستے 20 ریال، الائچی 10 ریال، لونگ 12دارچینی

آادھا لٹر کا ٹن ریال کا )یہ ویسے ہندوستان میں بھی امYورٹیڈ والا ہی ملتا ہے اور13زیتون کا تیل

اا سستا ہی(۔ اسی دن عطریات بلکہ سینٹس بھی خریدے، کچھ ۔10بعد میں معلوم ہوا کہ نسبت

ریال والے بھی۔ کھجوریں اگرچہ کافی خرید چکے تھے مگر5۔4 ریال کے، کچھ سستے 15

Page 266: اللہ میاں کے مہمان

حدے کی جو چیز یاد رہے گی وہ ہے آائیں تو مزید ساڑھے تین کلو لے لیں۔ ج وہاں بھی تازہ نظر

میدان ^صاص۔ حالاں کہ ہم نے کسی کا ^صاص ہوتے نہیں دیکھا، مSض سنا ہی ہے ہمارے

با^ر صاحب سے۔ انھوں نے بتایا کہ جب بھی ہوتا ہے تو کافی تماشائی جمع ہو جاتے ہیں اور

اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ایک چبوترے پر مجرم کو لایا جاتا ہے اور اس کے ہاتھ

حرے لگانے یا ^تل کرنے کی سزا نظارۂ عام کے ساتھ دی جاتی ہے۔ کاٹنے، د

حدے کا نیا ائر پورٹ )ایر پورٹ کو عربی میں مطار کہتے ہیں(تو شہر سے کلو میٹر دور30ج

اا روز ہی گزرتے رہے۔ اس کے پرانے رن ویز ) آاس پاس سے تقریب ہے، پرانے ائر پورٹ کے

Runwaysپر سڑکیں بن گئی ہیں۔اس کے ^ریب ہی ایک چار منزلہ عمارت ہے جو)

آاتی ہے۔ اس عمارت کا نام ہے آامدـجگ مگ کرتی ہے اور دور سے نظر مدینۃ الSجاج۔ پہلے

ت حاجیوں کو یہاں ہی ایک دو دن رکھا جاتا تھا۔بندرگاہ بھی یہاں سے ^ریب و رفت کے و

ا پڑتا تھا۔ اd بھیہے، اس لئے بSری مسافروں )جو عازمین حج ہوں( کو بھی یہاں ہی رکن

یہاں حاجیوں کا ^یام ہوتا ہے اور شاید مفت۔ سنا ہے کہ انڈونیشیا کے حاجی اd بھی یہاں ہی

ٹھہرتے ہیں۔ یہ ہم نے ^ریب سے اس طر� دیکھا کہ اس کے سامنے ہی ایک 'فاسٹ فوڈ'

ریستوراں ہے 'البیک'۔ یہاں سے ہم نے بروسٹ چکن )یا مSض بروست( لیا تھا جو یہاں کا

آالو مشہور ہے۔ یعنی نصف تلی ہوئی مرغی اور اس کے ساتھ بن، کیچ اپ اور فرینچ فرائز )یعنی

کے تلے ہوئے ^تلے(۔ اس دن یہ پیک کرا کے گھر لے گئے تھے اور وہاں کھایا تھا۔

بت نما ز آاو ر ز' میں بھی اگر و آاگیا 'پیک

Page 267: اللہ میاں کے مہمان

حرمین کے ^رd و جوار میں تو ہم نے دیکھا کہ ادھر اذان ہوئی اور دوکان داروں نے اپنی

دوکانوں کے سامنے ایک کYڑا لٹکایا اور بے خوف نماز کے لئے چلے گئے۔نماز کے بعد پھر

دوکان کھلے گی، یہ کYڑا نشان دہی کرتا ہے کہ نماز کے لئے دوکان بند ہے۔ ٹیلیفون بوتھس پر

بہ کرم نماز کے بھی عربی کے علاوہ انگریزی اور کہیں کہیں اردو میں بھی لکھا ہوتا ہے کہ برا

ات میں کسی کو فون نہ کریں۔ مگر ہم اd تک سمجھ رہے تھے کہ یہ مSض بیت الSرام او

بد نبوی میں ہی ہوتا ہوگا کہ دوکان دار )ممکن ہے کہ( شرما شرمی میں نماز پڑھنے چلے یا مسج

حھا پڑے ورنہ وہ کیا کہیں گے ۔حالاںImpressionجاتے ہوں گے کہ خریداروں پراچ

اا پوری دنیا میں شاپنگ )خریداری( کے لئے ' ات غالب کہ مغرd اور عشاء کے درمیان کے او

آاورس' ) حدہ میں بھی یہی دیکھا کہ ادھر اذان ہوئی اورPeak hoursپیک (ہیں۔ مگر ج

آاپ کو دوکان سے باہر کرنے کی جلدی مچائے گا۔ حرمین کے علا^ے میں تو دوکان دار

آاتی ہوگی، مگر مSض کYڑے سے کام چل جاتا ہے کہ وہاں چوروں کو چوری کرنے میں لاج

حدے میں چور بے شرمی سے چوری کر لیتے ہیں۔ )ہاتھوں کے کٹ جانے کے خطرے کے ج

باوجود( اس لئے دوکان دار مSض کYڑا ڈال کر خطرہ مول نہیں لیتے۔ با^اعدہ پوری دوکان بند

ات میں خود ہم مساجد میں رہے مگر یقین ہے کہ عین نمازوں کر دیتے ہیں۔ نمازوں کے او

حچوں کے علاوہ کوئی نظر نہیں ات میں سڑکیں سنسان ہو جاتی ہوں گی۔ عورتوں اور ب کے او

یSدہ انتظام رہتا ہی ہے۔ بطور خاص آاتا ہوگا۔ ویسے بیشتر مسجدوں میں عورتوں کے لئے علی

رہائشی علا^ے کی مسجدوں میں، مگر بازاروں کی مسجدوں میں ہر جگہ عورتوں کا انتظام نظر

Page 268: اللہ میاں کے مہمان

آایا۔ جیسے ہراج کے علا^ے کی مسجدوں میں نہیں تھا۔ ایسی صورت میں خریدار نہیں

؎عورتیں نمازسے مSروم رہتی ہوں گی۔غرض یہی کہا جا سکتا ہے کہ

بت نماز : : نہ خریدار رہا اور نہ کوئی دوکاں دار آاورس میں بھی اگر و آا گیا پیک

حلے میں ایک نہیں دسیوں مسجدیں ہیں۔ ہر مسجدمیں مائک پر صرف اذان ہی نہیں با Sہرم

آاتی ہے۔ آاواز ^اعدہ جماعت بھی ہوتی ہے۔ با^ر کے گھر میں ہی چار مسجدوں کی اذانوں کی

آاباد میں نہ جانے کیوں اذان کو ' اذاں' کہتے ہیں۔ آائی کہ حیدر ) اس پر یہ معترضہ بات یاد

ہزار مسجدوں50کوئی ^اری ہماری اس بابت رہنمائی کریں( با^ر نے بتایا کہ سعودی حکومت

کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اور ان کے علاوہ بھی بے شمار ' پرائیویٹ' مساجد ہیں۔ خود با^ر

کے گھر کے ^ریب ترین والی مسجد جہاں ہم جاتے تھے، چندے کی ہے۔ اور رہائشی علا^وں

کی مسجدوں میں ایسی شاید ہی کوئی مسجد ہو جہاں دوکانوں کے کرائے وغیرہ کے ذریعے

آامدنی کے کچھ ذرائع ہوں۔ پھر بھی مسجدوں کی حالت دیکھ کر طبیعت خوش ہو جاتی

ہے۔ سب سے پہلے تو صفائی ^ابل دید ہوتی ہے۔ باہر سے بھی عمدہ سفیدی، اور ہمارے وطن

آاd و ہوا میں پائدار رہے گا بھی نہیں آائل پینٹ ہوتا ہے۔ چونا وہاں کی کی طر � چونا نہیں،

شاید۔ اکثر ایک مینار جس کی برجیاں ٹیوd لائٹوں سے خوd روشن ۔ غسل خانے اور بیت

حصہ چھوڑ کر 8۔6الخلاء نہایت صاف۔ مسجدوں میں داخلے کی جگہ کے ^ریب کچھ ح

انچ اونچی ' ریلنگ' تاکہ جوتوں چYلوں کی دھول اندر نہ جائے۔ یا جوتے ہی اندر تک نہ سرک

آائیں۔ اس ریلنگ سے لگی ہوئی دبیز ^الین کی جا نمازیں۔ بڑے بڑے ایر کنڈیشنر۔ پانی کے

خوd صاف6۔6بڑے بڑے تھرمک جگس، یا کہیں کہیں و اٹر کولر بھی ۔ جن کے ^ریب

Page 269: اللہ میاں کے مہمان

حصے کو چھوڑ کر تین طرف کی پوری دیوار کے گلاسوں کا سیٹ ٹرے میں سجا ہوا۔ داخلی ح

بٹشو آان کے نسخے سجے ہوئے اور شیلفوں کے اوپر سہارے شیلف لگے ہوئے۔ ہر ایک میں ^ر

حبے۔ ان کا استعمال بہت عام ہے۔ ہوٹلوں میں جائیں توTissue PaperپیYر) ( کے ڈ

حبہ رکھاملے گا۔ ہر گھر میں ڈراینگ روم کی میزوں پر اور ہر کار میں یہی نظر ہر میز پر ایک ڈ

آائیں گے۔ یہاں تک کہ ٹیکسی والے بھی ونڈ شیلڈ کے پاس رکھتے ہیں۔ اور ہم نے دیکھا کہ

اا موڑ اس کا استعمال نہایت فضول خرچی سے کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک بار استعمال کیا اور فور

اا ایک عدد نیا نکال توڑ کر پھینک دیا۔ کچھ ہی لمSوں بعد پھر ضرورت مSسوس ہوئی تو فور

لیا۔ ہم تو اس معاملے میں کنجوس ثابت ہوئے۔ ایک ٹشو کو دو چار بار استعمال کئے بغیر

ہمارا پھینکنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ لیجئے ذکرہو رہاتھا مسجد کا اور بات پہنچی تری

جوانی، ہمارا مطلب ہے ٹشو پیYر تک۔ مسجدیں اندر سے خوd جگ مگ، یعنی روشنیوں کی

کثرت۔ ہماری اکثرمغرd اور عشاء کی نمازیں بازاروں کی مسجدوں میں ہوئیں، مگر ایک دن

حدے کی مشہور بطور خاص با^ر اور اشفاق بھائی ہمیں مسجد الملک سعود لے کر گئے جو ج

مسجد ہے۔ دیکھ کر طبیعت خوش ہو گئی۔ نہایت خوd صورت جھاڑ فانوس، بیچ بیچ میں

کھلے حصے جن پر چھتری نما ڈوم کی چھت۔ بٹن دبائیے، چھت موجود، بٹن دبائیے،

Now you see it, nowچھت غایب۔ جیسا کہ انگریزی میں کہتے ہیں نا :

you don't۔

ایک فرق یہ بھی دیکھا کہ یہاں مقتدی امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد سلام پھیرنا

حدے میں ہی امام کو آاواز کے ساتھ ہی۔ ج شروع کرتے ہیں، جب کہ حرمین میں امام کی

Page 270: اللہ میاں کے مہمان

عہ ہی نہیں ملا دیکھ بھی سکے ورنہ حرمین میں تو اd تک اتنی اگلی صف میں جانے کا مو

حمکہ میں امام کہاں کھڑا ہوتا ہے، یہی اd تک صSیح بم کہ امام کے دیدار ممکن ہوں۔ حر

بd کعبہ کے ^ریب، تو کوئی کہتا ہے کہ حطیم میں۔ معلوم نہیں ہوا ہے، کوئی کہتا ہے کہ با

کوئی اور صاحب کہتے ہیں کہ جگہ بدلتی رہتی ہے۔ ہاں یہ بھی لوگوں نے بتایا کہ وہاں

اا رکوع میں پوری طر� جھک جانے کے )حرمین میں( امام اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ مثل

بعد تکبیر بولتے ہیں تاکہ کوئی امام سے پہلے رکوع میں نہ چلا جائے۔ ایسا یہ یہاں بھی

دیکھا۔ ایک اور بات یہاں حرمین کے مماثل ہے کہ جماعت سے پہلے امام پیچھے دیکھتا ہے

حفا 'پر۔جس اور عربی میں ایک جملہ کہتا ہے جو شروع ہوتا ہے ' سعو' سے اور ختم ہوتا ہے ' ص

کا مطلب ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ 'جلدی کیجئے اور صفیں سیدھی کر لیجئے'۔ جب امام

مطمئن ہو جاتا ہے تب ہی ا^امت ہوتی ہے اور یہ اکہری ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے کہیں لکھ

چکے ہیں۔

ہمارا مطالعہ )اور ہمارا موضوع سے بہکنا(

ت ملا اور جب با^ر حدے میں ہمارے معمول کا ہم لکھ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ جب و ج

حچے اسکول میں ہوتے ) ان کے گھر میں رہنے پر تو تینوں میں سے کوئی نہ کوئی ہم کو کے ب

کسی نہ کسی کھیل یا ان کے ہوم ورک میں مصروف رکھتا ( تو ہم کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے

آاتے ہیں آافس سے انگریزی اخبار سعودی گزٹ لے کر ہماری عادت کے مطابق۔ با^ر روزانہ اپنے

Page 271: اللہ میاں کے مہمان

آاواز بھی خوd ہے ا گ' کی ا سعودی جازیت ' لکھتے ہیں، یہ عربی میں ) اسے عربی میں

AFGA. ا اکفا' لکھتے ہیں مگر حفظ کی بات نکلی ہے تو اورG.T کو کو چی۔تی۔اd تل

کچھ مشاہدات کا ذکر بھی کرتے چلیں۔ ' پ' کو ' d ' لکھا جاتا ہے، یہ پہلے بھی کہیں

آایا جو اشفاق بھائی نے سنایا تھا کہ کسی صاحب نے کہا لکھ چکے ہیں۔اس پر یہ لطیفہ یاد

کو بیبسی لکھیں گے تو بےPepsiکہ یہ ' بے بسی' کیا چیز ہے جو ہر دوکان پر ملتی ہے۔

( کولور پول ہی لکھتے ہیں۔باتLiverpoolبسی ہی تو پڑھا جائے گا نا! مگر ' لور پول')

'G سے شروع ہوئی تھی تو یہ بھی بتا دیں کہ'SAMSUNGی مصنوعات )جس کی بر

وغیرہ ہیں( کو ' سامسونج' لکھا دیکھا۔ اور تو اور ہمارے سری نگر کو ' سری ناجار' بھی ایک

آاواز 'ج' بھیHong Kongجگہ لکھا پایا۔ اور کو 'ہونج کونج' یعنی انگریزی ' جی'کی

ہے، 'چ' بھی اور 'ک' بھی۔ 'چ' لکھا ہوا ضرور دیکھا مگر املا میں تو ٹھیک ہے، اسے بولتے

آاواز تو 'گ' کی نہیں ہے مگر بول چال میں حجب یہ ہے کہ اس کی کیا ہیں، معلوم نہیں!۔ تع

حفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ا^امہ کو اگامہ کہتے ہیں اور 'ق' اور کہیں 'غ' کے لئے 'گ' کا تل

غمامہ کو بھی گمامہ۔ 'جی' کے لئے تو 'چ' لکھا دیکھا مگر 'کراچی' شہر کی املا بالکل

کوS(کو 'کیش تاd'۔ Ketch Upمختلف ہے۔ اسے 'کراتشی' لکھتے ہیں۔ کیچ اپ )

Sunکبھی 'س' لکھتے ہیں تو کبھی 'ص'۔ اd اس پر غور کیجئے کہ ایک کولڈ ڈرنک ہے

Sip اس میں دونوں S' دوستوں سے پوچھے کہ اسے dآاواز میں کیا فرق ہے، کوئی عر کی

بسب' کیوں لکھتے ہیں، میں کیا فرق ہے جو پہلےS کے Sip میں اور Sکے Sunصن

S کو ' ص ' اور دوسرے S کو ' س 'سے نوازا گیا ہے؟(۔

Page 272: اللہ میاں کے مہمان

بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔بریکٹ کی بات پورے پیرا میں بدل گئی ۔در اصل یہ ہمارے

پیرائے کی خوبی ہے کہ خود بخود؛ رنگینیوں میں ڈوd گیا پیرہن تمام۔ لیجئے ہم پھر بہک

آاگیا کہ آایا اور اس پر پیرہن بلکہ حسن یار کہ شعر یاد ؎ اللہ رے حسنچلے۔ پیرا پر 'پیرایہ 'یاد

خوبی....وہی بات کہ ذکر جب چھڑ گیا...، ویسے ذکر چھڑا ہوا تھا سعودی گزٹ اوربیارکی

ہمارے مطالعے کا۔موضوع سے بہک جانے کی ہماری بری عادت ہے۔ ^ارئین مشورہ دیں اسے

چھڑانے کے لئے۔اخبار مدینے میں ہمارے سفارت خانے کے نیچے کی دوکان میں بھی ملتے

تھے مگر ہم مSض سرخیاں دیکھ لیتے تھے باہر ہی سے۔ ^یمت پہلے ہی دن دیکھ لی تھی۔

ااردو میں ترجمہ کیا' اا روپئے' اور20مبلغ دو ریال اور ہماری معاشی دور اندیشی نے اس کا فور

ہم نے طے کیا کہ اخبار خرید کر نہیں پڑھیں گے۔ ویسے ہمارے وطن میں ہی مادری زبان اردو

آائے تو برا کیا ہے۔ہندوستان کے دو کے اخبار اور رسائل خرید کر کون پڑھتا ہے۔ ہاں، مفت ہاتھ

حلالے( کا اخبار ملتا تو شاید ہم خرید50روپیوں کی بجائے اگر پانچ روپئے کے متبادل )یعنی

حدے میں مفت تھا تو خوd پڑھتے۔ اس میں روزانہ ایک صفSہ20لیا کرتے، مگر روپئے کا؟ ج

Hyderabadہندوستان کے لئے مخصوص تھا اور اس میں بھی دو کالم روز تھے۔

Bylines اور Kerala Callingمیں ان دونوں علا^وں کے ہی d۔ سعودی عر

آاباد کے نامہ ہندوستانی زیادہ ہیں اس لئے یہاں کی خبریں بطور خاص چھاپی جاتی ہیں، حیدر

نگار وہی عمر فاروق ہیں جو بی۔ بی۔ سی۔ لندن کے بھی ہیں۔ ایک اور صفSہ بنگلہ دیش اور

کے نام سے جسOpinionپاکستان کے لئے مشترکہ طور پر مخصوص۔ ایک صفSہ

میں ایک کالم ہمارے ہندوستانی کلدیپ نیر کا بھی 'بین السطور' کے نام سے۔ )

Page 273: اللہ میاں کے مہمان

Between the Lines۔ ترجمے دیکھتے دیکھتے ہماری ترجمہ کرنے کی عادت

اا اس انگریزی کالم کے عنوان کا ترجمہ بھی کر بیٹھے(روزانہ صفSوں4پڑتی جا رہی ہے کہ فور

کے نام سے۔اس کے چوتھے صفSے پرPanaromaکا ایک رنگین سکشن

That's Lifeکے نام سے اس دن کی دلچسپ خبریں جمع کر دی جاتی ہیں جو

حدت کہی جا سکتی ہے۔ ہر بدھ کو حھی ج آاٹھ صفSات کاVanityایک اچ کے نام سے

حچوں کے لئے میگزین جس میں کتابوں وغیرہ پر تبصرے بھی شامل ہوتے ہیں اور ہر جمعے کو ب

Fun Times( کے نام سے نصف سائز Tabloid کا)ات کا سیکشن۔15Sصف

10 صفSات کا 86ایک پاکستانی رسالہ بھی وہاں دیکھا۔ 'رابطہ' یہ کراچی کا پرچہ تھا،

50 روپئے اور انٹر نیشنل اےڈیشن 40سعودی ریال کا۔ اس رسالے کا پاکستان ایڈیشن

پاکستانی روپیوں کا تھا۔ یہ ہندوستان کے حساd سے بہت مہنگا تھا۔ کتابت طباعت میں

حصہ کمزور تھا جس کی وا^عی بے حد خوش نما تھا اور مواد میں بھی۔ اگرچہ ادd کا ح

پاکستانی پرچوں میں تلاش ہماری کمزوری ہے۔اچھا فیملی میگزین تھاہندوستان میں اس کی

پاکستانی روپئے1400 امریکی ڈالر یا 160 پاؤنڈ اور سالانہ ^یمت 2 ڈالر یا 5^یمت درج تھی

معہ ڈاک خرچ۔یہ رسالہ کراچی میں ادارت پذیر ہوتا ہے مگر شائع پاتا ہے کوئٹہ سے۔ با^ر کا

بیان تھا کہ رنگین صفSات سنگا پور میں چھYتے ہیں مگر رسالے میں اس کا کوئی ذکر نہیں

ملا۔ واللہ اعلم۔

Page 274: اللہ میاں کے مہمان

آان حقانی اور معارف القر اس کے علاوہ با^ر کے گھر میں کئی مذہبی کتابیں بھی تھیں۔ تفسیر ح

یی وغیرہ کے موضوعات بز معاش اور سیرت المصطف تفسیریں۔ احادیث اور اسلامی زندگی اور طر

پر کتابیں جو سبھی سرسری طور پر پڑھ سکے۔

ات حر بلا عنوان ۔ متف

حفظ اور املا کی باتیں اا جب ہم عربی تل اd کچھ ادھر ادھر کی باتیں مختصر مختصرسی، مثل

ت رہ گئی۔ اd بلا عنوان اسے بھی لکھ آائی تھی مگر اس و کر رہے تھے، تب ہی یہ بات یاد

حچوں کی حدے میں با^ر کے ب حکے میں بھی کر چکے تھے، مگر ج دیں۔ ویسے یہ مشاہدہ م

حچے اگرچہ ہندوستانی سفارت خانے کے اسکول )انٹر عربی کی نصابی کتاd بھی دیکھی۔ یہ ب

بورڈ یعنی یہاںCBSEنیشنل انڈین سکول( میں پڑھتے ہیں جس کا نصاd ہندوستان کے

حدیالیوں( کا ہوتا ہے مگر یہاں انگریزی ہندی کے علاوہ ایک زبان کے سنٹرل اسکولوں )کیندریہ و

اور سیکھنا ضروری ہے۔ سنسکرت)جو ہندوستان کے سنٹرل اسکولوں میں بھی ہے مگر پانچویں

آاٹھویں کلاس تک(، ملیالم اور عربی۔ ان لوگوں نے عربی لی ہے تو یہ بات عربی کلاس سے

کی نصابی کتاd سے بھی معلوم ہوئی۔ وہ بات یہ ہے کہ اd عربوں نے عربی میں الف کے لئے

' لکھتے ہیں۔ زبر اور پیش ہو توأا مSض 'ا' لکھنا بند کر دیا ہے، اسے ہمیشہ ہمزہ کے ساتھ '

آانوںٳاوپر ہمزہ اور زیر ہو تو نیچے یعنی' '۔ بعد میں ہم نے غور کیا کہ یہاں کے چھYے ہوئے ^ر

حتہ۔ میں بھی یہی املا استعمال کی گئی ہے۔ ملے ہوئے حروف میں خالی الف لکھتے ہیں الب

Page 275: اللہ میاں کے مہمان

)مقصورہ وغیرہ کی اصطلا� میں ہم خود کنفیوز ہوتے ہیں اس لئے ^ارئین کو مرعوd نہیں کر

رہے ہیں(۔

اس کے علاوہ کچھ یہ معلومات بھی با^ر نے بہم کیں کہ حج میں انڈونیشیا کے نوجوانوں کی

اور بطور خاص لڑکیوں کی کثرت کیوں ہے۔ یہ سوال ہمارے ذہن میں پہلے بھی اٹھ چکا تھا

آاپ کو اطلاع دے چکے ہیں اس مشاہدے کی۔ معلوم ہوا کہ وہاں شادی میں یہ اور شاید ہم

حجہ ہو بلکہ الSاج۔ لڑکی جتنے زیادہ حج کر چکی ہوگی، مانگ کی جاتی ہے کہ لڑکی حا

آاسانی ہوگی۔یہ ہم کو ضرور خیال ہوا کہ اس کوشش میں لڑکی اتنی ہی اس کی شادی میں

کی عمر زیادہ ہو جاتی ہوگی۔ مگر وہاں اس کی اہمیت شاید نہیں ہے کہ لڑکی کم عمر ہو۔

60زیادہ حج کئے ہوئے زیادہ عمر کی لڑکی کی مانگ اور زیادہ ہوگی۔ ہماری طر� نہیں کہ

سال کی لڑکی16سالہ مرد کی تیسری چوتھی شادی کے لئے بھی دولھا میاں کے ذہن میں

حج کی ہوئی لڑکی کی16 سال کی عمر کی بجائے 16سے بیاہ رچانے کا ارمان ہو۔ وہاں

سال۔ 48 سال ہو یا 32اہمیت زیادہ ہوگی چاہے اس کی عمر

عہ پوش عورتیں کھانے کی اشیاء کاغذ کے بکسوں حکے میں جو سیاہ بر یہ بھی پتہ چلاکہ م

)کارٹنوں( میں لے کر بیٹھا کرتی ہیں جن سے ہم بھی ایک ایک ریال کی سالم چھوٹی تلی

بار، وہ بھی اندونیشیائی ہی ہیں اور جو کھانا ملتا ہے وہ بھی4۔3ہوئی مچھلی کھا چکے ہیں

عرd نہیں انڈونیشیائی ہی ہوتا ہے۔ اصل میں عرd کھانا تو ہم نے دیکھا ہی نہیں اd تک۔

مدینے میں تندور دریافت ہوا تو اسے ہم عربی تندور سمجھ رہے تھے، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ

بحبر صغیر کے افغانی ہے۔با^ر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ افغانی تندور میں وہ لوگ 'چYاتی' صرف

Page 276: اللہ میاں کے مہمان

لوگوں کے لئے کہتے ہیں ورنہ اس کا افغانی نام 'تمیس' ہے، اور جو صراحی نما ڈرم میں لوبئے

ا فول'کہتے ہیں۔ یہ شاید ہم لکھ چکے ہیں، ابھی یاد کقسم کے بیجوں کی دال ہوتی ہے، اسے

آاپ کو معلوم ہو حدہ دیکھنا پڑے گا اس کی پڑتال کرنے کے لئے۔ اگر نہیں۔ سارا پچھلا مسو

آاپ کو پھر یاد کرا دیتے ہیں یہاں۔ بھی چکا ہے تو ہم

حدہ میں ہر ہندوستانی چیز ملتی ہے۔ہمارے ^یام کے دوران ہراج کے علا^ے میں ہم نے چھولوں ج

کی چاٹ اور چنا جور گرم کھائے تھے۔ایک دن با^ر صبح پاکستانی ہوٹل سے ناشتہ بھی لے

آابادی ہوٹل سے چائے آاخری دن شام کو حیدر آائے۔ چھولے، پراٹھے اور سوجی کا حلوہ۔ اور کر

حدے کے اسٹورس آاباد کے ایرانی ہوٹلوں کی چائے کے مزے کی تھی۔ج لی تو وہ بالکل حیدر

)بقالوں( میں ہم نے دیکھا کہ وہاں بیکری کی روٹیاں 'ہاٹ کیس' میں لا کر رکھی جاتی ہیں،

آاٹے کی روٹیاں بھی ملتی حدے میں حکے کی طر� ایسے ہی میز پر نہیں رکھ دیتے۔ اور پھر ج م

حکے میں حکے میں عام طور پر میدے کی ہی ہوتی ہیں۔ بعد میں ہم م ہیں اور میدے کی بھی۔ م

بھی بیکری کی پتلی روٹیاں ہی کھا رہے ہیں تندوری روٹیاں نہیں۔ ایک ریال کی چار عدد

روٹیاں۔

ح ہ میں ہیں ہم ا d بھی جد

Page 277: اللہ میاں کے مہمان

آا رہی ہے اور ہم لکھے جا رہے ت ساڑھے بارہ بج رہے ہیں مگر ہم کو نیند نہیں جی ہاں اس و

حد ہ میں بجے ہوتی تھی اور ابھی وہی3۔2ہیں۔ جیسا کہ لکھ چکے ہیں کہ ہماری رات ج

عادت ہے۔ اd ہم یہاں پہنچنے کے بعدکی روداد شروع کر رہے ہیں۔

آائے تھے کہ عمرہ کرنے کا ارادہ تھا ہی۔ اپنے حدہ سے یہاں پہنچے تو احرام باندھ کر ہی ج

ت کر چکے تھے(۔ مگر حرم پہنچنے تک آاتے و مرحوم والد کے نام کا )والدہ کا مدینے سے

آاٹھ بج گئے تھے اس لئے پھر عشاء کی نماز کے بعد ہی شروع کیا۔ طواف اور سعی کے پونے

آاکر کھانا آانے تک بارہ بج گئے تھے۔ بعد بال کٹوانے اور حرم میں ہی نہانے کے بعد واپس

کھایا جو زرینہ، با^ر کی بیوی نے ساتھ کر دیا تھا۔ مرغ کی بریانی، رائتہ، بگھاری مرچیں اور

ٹماٹر کا سالن۔ سامان ٹھیک کر کے لیٹنے تک ایک بج گیا مگر پھر بھی دو بجے تک نیند

آائی۔ ہم کو ہی نہیں صابرہ کو بھی تو انھوں نے تجویز دی کہ حرم ہی چلا جائے کہ نہیں

ت ہونے ہی والا تھا۔ چناں چہ یہی کیا۔ حرم جا کر پہلے حجد کا و طواف کئے۔ پھر3۔2تہ

حجد کی نماز پڑھی۔پھر ایک طواف کیا اور اس کے بعد فجر کی نماز کے بعد پھر طواف تہ

آائے گی، مگر آا کر سوئے۔ حالاں کہ ہم کو شک تھا کہ اd نیند نہیں کیا۔ اس کے بعد

ت آانکھ کھلی۔ جب کہ ظہر کے لئے جانے کا و ایسے سوئے کہ پھر ساڑھے گیارہ بجے ہی

بھی نہیں تھا۔ جاتے بھی تو جگہ نہ ملتی۔ اس لئے عمارت پر ہی نماز پڑھی اور پھر حرم عصر

حدہ میں کے لئے گئے۔ پھر مغرd اور عشاء کے درمیان بھی طواف کیا۔ در اصل اتنے دن ج

طوافوں کی برکت سے مSروم رہے تھے تواd دل چاہ رہا تھا کہ خوd طواف کریں۔ اس میں

عہ ملے طواف کریں۔کل اگرچہ حچھا لگتا ہے کہ جب مو بجے تک کھانا پینا10ہم کو بہت ا

Page 278: اللہ میاں کے مہمان

اا سو بھی گئے11ہو چکا تھا اور کچھ صفSات لکھ کر بجے لیٹ بھی گئے تھے بلکہ فور

آانکھ کھل گئی، دیکھا کہ صابرہ بھی شروع میں سو گئی تھیں مگر مگر پھر ڈیڑھ بجے ہماری

بج گئے تو انھوں نے پھر تجویز کیا کہ2ساڑھے گیارہ بجے سے وہ بھی نیند سے مSروم تھیں۔

چلتے ہو تو حرم کو چلئے...اور ہم کو تو بس کسی کے کہنے کی دیر ہوتی ہے۔ بس خود

اکیلے جانے کا اس لئے ارادہ نہیں کرتے کہ صابرہ کو شکایت نہ ہو اور خود اس لئے ہی یہ

تجویز نہیں رکھتے کہ ان مSترمہ کی نیند خراd نہ ہو جائے ہمارے مشورے کی وجہ سے اور یہ

ہم کو ہی الزام دیں۔ ہم تو ساری رات حرم میں گزار سکتے ہیں۔

حد کی اذان تک ہی ہمارے یکے بعد دیگرے دو عدد طواف ہو چکے تھے۔ ۔ نماز کے تہج

آارام کیااور پھر فجر کے لئے اٹھے۔ صابرہ نے مشورہ دیا بعد کچھ دیر حرم کے صSن میں ہی

آارام سے سو جائیں گے بے فکر ہو کر۔ چناں چہ کہ ناشتہ بھی کر ہی لیا جائے اس کے بعد

ایک ایک کیک کھا کر اور چائے پی کر چلنے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ ہوٹل کے باہر ہی

آاج ایک حتار بھائی معہ اپنی بیویوں کے وہاں مل گئے۔ ان کا ارادہ حبار بھائی اور س مظہر بھائی، ج

اور عمرہ کرنے کا تھا۔ان لوگوں کے بھی چائے پینے تک باتیں کیں اور یہ طے ہوا کہ ہم بھی ان

آا بد عائشہ یعنی تنعیم جا کر احرام باندھا جائے گا اور پھر وہاں سے حرم کا ساتھ دیں۔ مسج

حکے والوں کے لئے وہی میقات ہے بلکہ من جملہ دوسری میقاتوں کے۔ ہم کر عمرہ کریں گے۔ م

آاتے ہیں۔ غرض ہم لوگ جلدی سے اپنی آاپ لوگ نکلئے، ہم بھی پیچھے پیچھے نے کہا کہ

بجے واپس پہنچے حرم۔ وہاں کئی بسیں کھڑی ہوئی6عمارت پہنچے اور احرام ساتھ لئے اور

بد عمرہ لکھا تھا ریال کا ٹکٹ تھا۔ سامنے ہی بس2۔2 نمبر کی۔ 16تھیں جن پر مسج

Page 279: اللہ میاں کے مہمان

کمYنی کا اسٹال تھا۔ہم نے سوچا کہ یہاں اسٹال سے ٹکٹ لے کر بس میں بیٹھنا ہو گا چناں

( میںBulk ٹکٹ دئے۔ وہاں اسی طر� تھوک )3 ریال کے 5چہ کاؤنٹر پر گئے تو اس نے

آائیں گے۔ ہم دونوں کے لئے ٹکٹ ملتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ واپسی میں بھی یہی ٹکٹ کام میں

آانے جانے کے چار ٹکٹ درکار تھے، تین تو یہاں مل گئے۔ ایک ٹکٹ ہی واپسی میں اور

آانا جانا ریال میں ہو گیا۔ جیسے ہی ہم تنعیم پہنچے، مظہر7خریدنا پڑا۔چناں چہ ہم دونوں کا

بھائی وغیرہ سے ملا^ات ہو گئی۔ یہ لوگ نہا دھو کر احرام باندھ کر واجب الاحرام نماز پڑھ

چکے تھے۔ اور روانہ ہونے کے لئے تیار تھے۔ ہم بھی نہا ئے اور احرام باندھ کر نماز پڑھ کر

پھر بس میں حرم واپس پہنچے تو ساڑھے سات بج رہے تھے۔ عمرے کا طواف، پھر سعی کر

کے بال کٹوانے اور نہانے سے دس بجے تک ہی فارغ ہو گئے تھے۔ جب ہم طواف کے ساتویں

پھیرے )شوط( میں تھے تب ہی مظہر بھائی وغیرہ سے ملا^ات ہو گئی۔ وہ لوگ بھی تبھی

بم ابراہیم پرواجب الطواف نماز پڑھنے تک وہ طواف سے فارغ ہوئے تھے۔ہمارے طواف اور مقا

لوگ زمزم پر ہمارے منتظر تھے۔ زم زم پر ہم لوگ ساتھ ہو گئے اور پھر ساتھ ہی سعی کی۔

ساتھ ہی واپس ہوئے۔پھر سب کے ساتھ روٹی اور پنیر سے ناشتہ کیا۔ دوسرے لوگوں نے دال

سالن اور چاول بھی کھایا۔ ہم نے عادت کے مطابق پنیر میں شکر ملا کر کھائی۔ ابھی اتنا

ت نہیں ہوا تھا کہ ہم اسے لنچ کا نام دیتے۔ با^ی لوگوں کا یہی ناشتہ تھا جو اd ہو رہا تھا۔ و

بجے ہی کر چکے تھے۔ بہر حال اd دوسری بار ناشتہ کر کے لیٹے6ہم تو پہلا ناشتہ صبح

تو پھر سو ہی گئے اور ایسے سوئے کہ ڈھائی بجے اٹھ سکے۔ رات کو بھی نہیں سو سکے

تھے نا!۔ ظہر کی نماز اور پھر کھانا کھانے میں ہی چار بج گئے تھے۔ اس وجہ سے عصر

Page 280: اللہ میاں کے مہمان

بجے باہر نکلے۔5کی نماز کے لئے بھی حرم نہیں جا سکے اور عمارت پر ہی نماز پڑھ کر

کچھ شاپنگ کی اور پھر مغرd کی نماز، پھر طواف اور عشاء کی نماز۔ اس کے بعد کھانا

منٹ تک یہ روزنامچہ لکھ رہے ہیں۔ اd ان دو دنوں کی25کھا کر اd رات ایک بج کر

آانے کے بعد کی حدے سے تفصیل کی ایسی خاص ضرورت بھی نہیں ہے۔ یوں بھی ہم ج

تفصیل بے ترتیب لکھ گئے ہیں۔ بس اd پرانی باتیں یہیں ختم۔

دو ر و ز میں ہی )حرم(کا عا لم بد ل گیا

آائے ہیں تو حرم سونا سونا لگ رہا ہے۔ طواف میں تو ابھی بھی بھےڑ ہے مگر حکے اd جو م

آاج ہم نے مغرd اور عشاء بھی باہر صSن میں پڑھی تو آاسانی ہو گئی ہے۔ سعی میں بہت

دیکھا کہ بہت سے ^طعے خالی بھی پڑے ہیں ورنہ یہاں صSن میں ہی کیا، غسل خانوں تک

میں صفیں لگ رہی تھیں۔ سڑکوں پر لگی دوکانیں بھی بہت کم ہو گئی ہیں۔ ہماری عمارت

/ مارچ کو٣٠کے نیچے ہی جو چائے کی دوکان لگ گئی تھی، وہ بھی اٹھ چکی ہے۔ بلکہ

حکے پہنچے تھے تو جو چائے کی دوکانیں ^ریب ہی تھیں، وہ بھی اd اٹھ چکی بھی جب م

آاس پاس ہی جانا پڑتا ہے۔اس لئے فجر کے بعد ہی چائے پی ہیں۔اd چائے کے لئے حرم کے

آانا پڑتا ہے کہ مSض اس ضرورت کے تSت کون دوبارہ وہاں تک جائے۔شام کو بھی کر ہی

حبار آاج دوسری بار ناشتے کے بعد اور پھر شام کو بھی چائے ج وہیں پی سکتے ہیں۔ ویسے

آادھا لٹر کا دودھ کا پیکٹ لائے بھائی کے کچن میں ہی پی تھی۔کل دراصل ہم خود ہی

Page 281: اللہ میاں کے مہمان

تھے۔ لائے تو تھے دوسرے مصرف کے لئے مگر پھر ان کو ہی دے دیا ہے کہ ان کے ساتھ

ہی صبح چائے پی تھی۔اور یوں بھی کبھی کبھی پی رہے تھے۔

جس مصرف کے لئے دودھ لائے تھے، اس کا بھی ذکر کر ہی دیں۔ مدینے میں ہم نے کئی

ت ہمیں بن بلسان' ملتا ہے'۔ مگر اس و دوکانوں میں بورڈ لگا دیکھا تھا کہ 'یہاں اصلی 'روغ

حدے میں زرینہ سے معلوم ہواکہ یہ بہت فائدے کا تیل معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا روغن ہوتا ہے۔ ج

ہوتا ہے۔ کئی بیماریوں کے لئے شفا ہے اس میں۔ با^ر کے گھر میں ایک شیشی رکھی تھی اس

کی اور بیچاری زرینہ ہمیں روز رات کو کھانے کے دو گھنٹے بعد ایک پیالی میں دودھ گرم کر

دن40کے اس میں دو دو ^طرے ملا کر ہم دونوں کو دے رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ

آائے تھے کہ معمول جاری رہے، کچھ استعمال کر کے دیکھیں۔ اس وجہ سے ہم دودھ لے کر

تیل انھوں نے ساتھ کر دیا تھا اور مزید منگوا کر دینے کا کہا تھا۔صابرہ نے اd مشورہ دیا کہ

آاٹھ مئی کو روانگی ہے۔ 40 کی رات9۔8 دن مستقل استعمال تو نا ممکن ہے۔ یہاں سے

حدے میں گزرے گی، پھر / کی رات بنگلور سے11 مئی کی رات ہوائی جہاز میں اور 10ج

فہ تو ہونا ہی ہے۔ اس آاباد کے راستے میں گزرنی ہے۔ چناں چہ کم از کم چار دن کا و حیدر

آاباد پہنچ کر ہی دن کا کورس پورا کریں گے۔ اس لئے دودھ لا کر بھی40لئے اd حیدر

حدے میں پانچ دن کا استعمال ہی فی الSال کافی ہے۔ بن بلسان استعمال نہیں کیا ہے۔ج روغ

آارہا ہے۔ حبار بھائی کے کچن میں کام چناں چہ یہ دودھ ج

بر اسود کا بوسہ حرم میں ہم سوچ رہے تھے کہ شاید رات کو دو بجے طواف کرنے پر حج

نصیب ہو جائے۔ مگر نہیں صاحب۔ اگر چہ بھیڑ اتنی کم ہے کہ حجر اسود کی سرخ پٹی

Page 282: اللہ میاں کے مہمان

آاتی تھی۔ حجر پرلوگ نماز پڑھنے لگے ہیں ورنہ یہ طواف کرنے والوں کی بھیڑ میں نظر ہی نہیں

براسود اور ملتزم میں ... نا ممکن۔ آاتی ہے، مگر حج اسود سے دور یہ پٹی خالی خالی نظر

حکم پیل کے۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے حتہ کل رات کو نماز پڑھ سکے تھے اور بغیر دھ حطیم میں الب

اا ^ریب سے دیکھ سکتے ہیں۔ اتنے ^ریب سے کہ اس کے گرد کا کہ حجر اسود کو نسبت

آانے لگا ہے۔جس کی اd تک تصویریں ہی دیکھی تھیں۔مگر چاندی کا حلقہ اd صاف نظر

ٹکڑے ہو گئے تھے اور ان کو چاندی22جیسا کہ کتابوں میں لکھا ہے کہ سنگ اسود کے

ٹکڑے تو اd تک الگ الگ نہیں دیکھ سکے22کے حلقے میں پیوست کیا گیا ہے تو وہ

ہیں۔

آاج کے عمرے کی ایک خاص بات اور لکھ دیں۔ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ نفلی عمرے کے

وع ہم کو اd تک صSیح معلوم توـلئے ' بd عمرہ' سے داخلہ افضل ہے۔ جس کا مSل و با

بd فتح، نہیں تھا، اس لئے ہم مروہ سے باہر ہی باہر گھوم کر ہر دروازے کو دیکھتے ہوئے با

باd ^رارہ، باd عمر، باd الندوہ، باd القدس اور باd عمر فاروق ہوتے ہوئے باd عمرہ پہنچے

ہیں سے حرم میں داخل ہوئے۔ اور داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں ^الین بچھے ہوئے ہیںاور و

بد نبوی کی طر� مگر وہاں سے کچھ چھوٹے۔ہم اd تک صفا مروہ کی طرف سے داخل مسج

آائے تھے اور وہاں کہیں ^الین نہیں تھے۔ یا تو یہاں بھی اd بھیڑ کم ہونے کے بعد ہوتے ہوئے

بچھا دئے گئے ہیں، یا پھر ہم نے اس طرف کا رخ نہیں کیا تھا پہلے تو ہمیں پتہ نہیں تھا۔

ممکن تو پہلی ہی بات زیادہ لگتی ہے۔ ہاں، پہلے ہم دروازوں کے نام لکھ دیں۔ اس سے پہلے

آائے ہیں۔ آاج اچھی طر� یاد کر کے بھی لکھنے کی کوشش کی تھی مگر بھول گئے تھے۔

Page 283: اللہ میاں کے مہمان

دروازے ہیں، ان کی ترتیب ہے۔ صفا کی طرف سے: باd بني ہاشم، باd علی، با9dکل

یی اور باd مروہ۔ حجون، باd المعلاہ۔ باd الطو Sال dبنو شیبہ، با dحسلام۔ با حباس، باd ال الع

حجون کے پانچ فلائی اوور )غبارہ( ان کے علاوہ ہیں۔ Sال dبنو شیبہ اور با dالسلام۔ با dبا

dآاکاش وانی کے الفاظ میں یہ سبھا یہیں1۔40ا پر ہم یہ گفتگو یہیں ختم کرتے ہیں۔

سماپت ہوتی ہے۔ شبھ راتری یا شب بخیر۔ مزید یہ کہ یار زندہ صSبت با^ی۔

بگنتی... 3اا لٹی

ء سوا گیارہ بجے شب۔97/مئي 5

لیجئے ، دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا چل چلاؤ لگ گیا ہے۔حرم سے روانگی کے دن نزدیک

االٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔ حدہ سے اڑان ہے ہی ہماری۔یہاں سے10آاگئے ہیں،اور / کو تو ج

اا حلم کی جانب سے کوئی نوٹس8غالب / کو ہی عشاء کے بعد روانگی ہوگی ویسے ابھی تک مع

آایا ہے مگر یہاں کے چوکی دار )اسے حارث کہتے ہیں(کا یہی کہنا ہے۔ بہر حال تو نہیں

االٹی گنتی شروع کر دی ہے۔ کل 'دو' گنیں گے اور پرسوں 'ایک' اور اسی حساd سے ہم نے

گھنٹے اور۔72/ کو صفر.. مSض 8

Page 284: اللہ میاں کے مہمان

رات کو تو سونے میں ہی ڈھائی بج گئے تھے۔ بلکہ اس کے بعد سوا تین بجے صابرہ کو

ت آائیں تب بھی ہم ہوش میں ہی تھے۔ مگر ہمارا اس و حبار بھائی کی بیوی اٹھانے کے لئے ج

آانکھ کھلی تو۔ ت ہی جائیں گے حرم جانے کا ارادہ نہیں تھا۔ سوچا تھا کہ صبح فجر کے و

آاج دن کو ذرا بھی نہیں سوئے ہیں یحلہ، مگر وہ صبح سات بجے ہی کھل سکی۔مگر الSمد ل

آاج انشاء اللہ جلد ہی نیند حدے سے بگڑا ہوا چل رہا ہے۔ کہ حالات کو معمول پر لانا ہے جو ج

آاجائے گی۔

آانکھ کھلی تھی۔ ضروریات اور فجر کی ^ضا کے بعد ہی ساتھیوں نے ناشتے صبح دیر سے

آاٹھ بجے ہو رہا تھا ورنہ حتفاق سے مظہر بھائی وغیرہم کا ناشتہ بھی جلد ہی آاج ا کے لئے پکارا۔

اا ساڑھے دس گیارہ بجے ہوتا تھا اور ہم ٹھہرے سات بجے ناشتے کے عادی اس لئے عموم

بب معمول پنیر ) آاج ان کا ساتھ دے دیا۔حس Cheeseپہلے ہی کھا لیا کرتے تھے۔

spreadمیں شکر ملا کر روٹی سے کھا لیا اور با^ی لوگوں نے سبزی دال چاول بھی )

کھائے۔ چائے پی اور پھر ہم حرم کی طرف نکل گئے۔ساڑھے نو بجے سے ڈیڑھ بجے تک باہر

آاج کچھ با^اعدہ حرم کا سروے کر لیا۔ پہلے تو یہ سوچا ہی رہے یعنی ظہر تک حرم میں ہی۔

تھا کہ صفا اور مروہ کے علاوہ جو دوسرے باd ہم نے نہیں دیکھے ہیں، وہ دیکھتے ہوئے حرم

بd عمرہ کے درمیان کے باہر ہی باہر سے 'طواف' کر لیا جائے۔ ان دروازوں کو جو مروہ اور با

ت دیکھ چکے بd عمرہ سے داخل ہوتے و ت با اانھیں کل سرسری طور سے عمرے کے و تھے

حصہ غور سے دیکھا ۔ آاج خاص طور پر باd عمرہ اور باd ملک فہد کے درمیان کا ح تھے۔

آاس پاس کا اس درمیان میں کوئی بڑا دروازہ نہیں ہے۔ باd ملک فہد سے داخل ہوئے۔ اس کے

Page 285: اللہ میاں کے مہمان

آاگے باd ملک عبدالعزیز جو کعب مغربی اللہ کا جنوdةعلا^ہ نیا بنا ہے۔ اس طرف اور مزید

بد نبوی کی طرز کا ہے۔ یعنی ایر کنڈیشنڈ کی ٹھنڈی ہوا حصہ نیا ہے اور مسج کونہ ہے، یہ پورا ح

آاتی ہے۔ ویسے ہی ^الین بچھے ہیں جن میں سعودی نشان ستونوں کے نیچے کی جالیوں سے

بنا ہے یعنی ایک دوسری کو کاٹتی ہوئی دو تلواریں اور درمیان میں کھجور کا درخت۔سرخ رنگ

dملک عبدالعزیز سے لے کر با dکی جا نمازیں۔ ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ کم از کم با

الفتح )یعنی باd السلام سے تھوڑے ہی فاصلے پربائیں طرف جانے پر( ^الین والی جانمازوں کا

سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہاں ہمیشہ ^الین بچھے تھے یا اd حج کے بعد بھیڑ

آاس پاس کے دالان کچھ چھوٹے بھی یی اور اس کے کم ہو نے پر بچھا دئے گئے ہیں۔ مسع

ہیں، شاید اس لئے وہاں ^الین نہیں بچھائے جاتے ہیں یا کم از کم ابھی تک نہیں بچھائے

گئے ہیں۔

اا پہلے طواف کر لیتے ہیں۔ مگر دھوپ میں طواف میں تھوڑی مشکل تو ہوتی ہے اس لئے عموم

25۔20آاج تو فجر کی ^ضا بھی پڑھنی تھی اور ^ضائے عمری بھی پڑھتے ہی ہیں۔ سوچا کہ

منٹ میں اتنی گرمی تو نہیں بڑھ جائے گی، پہلے نمازوں سے فارغ ہو لیا جائے۔ چناں چہ

ضائیں پڑھیں، پھر طواف کے لئے اٹھے۔ پہلے معمول کے مطابق پانچوں نمازوں کی دو دو

بم ابراہیم کے نزدیک پڑھی۔ پھر زم زم کی طرف بھیڑ کم ہی تھی۔ واجب الطواف نماز بالکل مقا

آائے اور اپنا سروے جاری گئے اور پانی پیا، پھر حجر اسود کا استلام کر کے صفا کی طرف

رکھا۔اپنے ^دموں سے صفا اور مروہ کے درمیان کی دوری ناپنے کی کوشش کی۔ عام طور ہر

االٹا لکھ گئے ہیں۔ یہ کہنا بہتر ہے کہ سو100 ^دموں کے 122ہمارے میٹر ہوتے ہیں، بلکہ

Page 286: اللہ میاں کے مہمان

ا ^دم نکلا، یعنی548 ^دم ہوتے ہیں۔ اور صفا اور مروہ کا فاصلہ 122میٹر میں ہمارے اوسطا

اا حبار بھائی سے بات ہو رہی تھی تو ہم نے ایک مSتاط اندازے سے450تقریب میٹر۔ کل ہی ج

میٹر تو ہوگی۔ اd اپنے اندازے پر فخر کر رہے ہیں۔400کہا تھا کہ یہ دوری

آایا کہ اشفاق بھائی کی بھابھی نے صابرہ کو بتایا تھا اس سروے کے بعد ہم کو اچانک خیال

آانوں کی تقسیم یہاں بھی ہوتی ہے۔ ممکن بن کریم کا مکتبہ چاہے مدینے میں ہو مگر ^ر آا کہ ^ر

ہے کہ انگریزی ترجمے اور تفسیر کا ملک فہد ایڈیشن جس کی ہم کو تلاش ہے،ہم کو مل

حسلام کی جائے۔ اور اس مکتبے کا معلوم ہوا کہ باd السلام کے پاس ہے۔ چناں چہ پھر باd ال

طرف گئے۔ وہاں شیخ سے بات کی تو اس نے ہماری ہر بات کے جواd میں ایک ہی لفظ

کہا ' باd عمرہ' ۔ اس دفتر کا نام 'ادارہ سنون المصاحف' تھا۔ ہم نے سوچا کہ مصاحف کا

آان سے ہو گا۔ سنون کا مطلب ہم کو معلوم نہیں، لغت میں دیکھنا پڑے گا مطلب مصSف ^ر

ت ہمارے پاس نہیں۔ ممکن ہے کہ اشاعت یا تقسیم ہو۔ شاید اس کا ہی کوئی دفتر جو اس و

حصے کو باd عمرہ پر بھی ہوگا۔ اندر ہی اندر سے باd عمرہ کی طرف گئے۔ تو اس پورے ح

بd عمرہ بھی ^الینوں سے مزین دیکھا۔ پہلے ہمارے خیال میں اس طرف بھی ^الین نہیں تھا۔ با

آائے مگر کسی میں سنون المصاحف کا بورڈ تو نہیں تھا۔ سقیا میں کئی مکتب اور دفتر نظر

حصے کی آایا کہ حرم کے مغربی ح زم زم کا ادارہ ملا، صفائی کا ادارہ ملا۔ ہاں اس پر یاد

حصے کی صفائی حمہ 'بن لادن' نامی کمYنی کا ہے، جب کہ دوسری طرف کے ح صفائی کا ذ

آائے تھے کہ زیادہ تر حلہ' کے سYرد ہے جس کے کارکن ہم ہمیشہ دیکھتے ایک دوسری کمYنی 'د

آامد و رفت رہی تھی حرم میں۔ با^ر سے معلوم ہوا تھا کہ یہ دونوں اسی طرف سے ہماری

Page 287: اللہ میاں کے مہمان

کمYنیاں دو شیوخ کے نام پر ہی ہیں جو یہاں کے کافی امیر حضرات ہیں۔ ہمارے ٹاٹا ،برلا اور

آاباد کے 'بلدیہ' ^سم حلہ نام دیکھ کر پہلے سوچا تھا کہ یہ حیدر بجاج کی نوعیت کے۔ ہم نے د

آاباد کی ہی ہے حکہ میونسYلٹی ہوگا۔ یہ شان ہمارے حیدر کا کوئی لفظ ہوگا اور اس سے مراد م

آاس پاس اور بطور خاص صفا اور مروہ کہ یہاں میونسYلٹی کا بھی ترجمہ کیا جاتا ہے۔ حرم کے

حمے ہے۔ یہی نہیں، حرم کے صSن کی حلہ کے ہی ذ کی طرف کی سڑکوں کی صفائی بھی د

مشینوں کے ذریعے صفائی، ویکیوم کلیننگ اور نجی عمارتوں اور سرکاری سڑکوں وغیرہ میں

آاتے ہیں۔ سنا ہے کہ حج کے سیزن میں یہ دونوں کمYنی والے کرین بھی انھیں کمYنیوں کے نظر

بنگلہ دیش سے مزدوروں کو جہازوں میں بھر بھر کر لاتے ہیں۔ ان کی بسیں ہماری عمارت

بجے رکتی ہیں اور اگلی شفٹ والے اترتے ہیں اورپچھلی2 بجے اور پھر 6کے سامنے صبح

حلہ کا ایک 'مSکمہ نقل ' یعنی شفٹ والے چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی کمYنی د

حکے سے مدینے تک بھی چلتی ہیں۔ اسی کمYنی کا ٹرانسYورٹ بھی ہے جن کی بسیں م

واشنگ پاؤڈر بھی ہم لوگوں نے خریدا ہے کYڑے دھونے کے لئے۔خیر، یہ جملہ معترضہ پھر پیرا

معترضہ ہو گیا۔ رکھیو غالب مجھے اس 'معترضہ نویسی 'سے معاف ۔ اور ماہرین عروض سے

آانی نسخوں کی بھی کہ مصرعہ خارج از بSر ہو گیا۔ بہر حال بات ہو رہی تھی مفت میں ^ر

دستیابی کی۔ ایک بن لادن کے کارکن سے پوچھا تو اس نے دروازے سے باہر اشارہ کیا۔ باہر

آانوں آائے تو ایک جگہ 'ادارہ سنون الکتب' لکھا تھا۔ معلوم ہوا کہ اسی ادارے کے دفتر سے ^ر

بجے کے درمیان۔ کل انشاء اللہ صبح وہاں ضرور9 بجے سے 8کی تقسیم ہوتی ہے مSض

جائیں گے۔

Page 288: اللہ میاں کے مہمان

ت دیکھا تو سوا گیارہ بج گئے تھے۔ سوچا کہ اd کمرے ان سب کاموں کے بعد ہم نے و

آائے اور پہلے ^الین کی جانماز پر بیٹھ کر ^ضا نمازیں پڑھیں۔2۔2کیا جائیں، وہیں اندر چلے

اللہ کو نہارتے رہے۔ اd یہ احساس ہو چلا ہے نا کہ میاںةپھر درود پڑھتے رہے اور بیٹھے کعب

'مکان ' کہاں!۔ ویسے ہندی میں؎ہم کہاں اور یہ دن اور اس کا نظارہ کر لو۔ پھر بس دو

لفظ نہارنا کا مطلب مSض دیکھنا ہی ہوتا ہے مگر اردو اور ہندوستانی گیتوں میں اس دیکھنے

اللہ کو دیکھنے میں کیا بتائیں،ةمیں کافی کچھ جذبات بھی شامل ہوتے ہیں اور پھر کعب

، کیسے کیسے جذبے مچلتے ہیں۔کیسی تڑپ ہوتی ہے

بہر حال ظہر پڑھ کر نکلے۔ سوچا کہ تندور سے دال یا سبزی لیتے جائیں گے۔ مگر یہ اشیاء

نہیں ملیں، ختم ہو گئی تھیں تو صرف دہی اور روٹی لے کر چلے گئے اور پھر مظہر بھائی

آاج کا بقیہ پروگرام وغیرہ کے ساتھ ہی کھانا کھایا۔ تھوڑی دیر ان سب لوگوں سے باتیں کیں۔

بنایا۔ اور پھر سوا تین بجے عصر کے لئے نکل گئے۔ پلان کے مطابق عصر کے بعد بازار گئے۔

کچھ کیسٹوں کی دوکانوں کا سروے کیا۔ یہاں حرم میں مغرd اور عشاء کی نمازیں شیخ عبد

اسدیس پڑھاتے ہیں۔ ان کی ^ر یمن أات کے لئے مصری ^اریالرح أات ہم کو پسند ہے۔ ویسے ^ر

اسدیس صا أات میں بلکہ اس کی پسندیدگی میں پھر کچھ ہمارےحب کی ^رمشہور ہیں مگر

آائے ہیں، أات سنتے جی چاہتا ہےجذبے کا دخل ہے کہ ہمارے اللہ میاں کے گھر میں جو ^ر

اسدیس صاحب اورکہ یہاں سے جانے کے بعد بھی وہی ^ر أات سنتے رہیں۔ فجر میں کبھی

أات ہم نے سنی اور زیادہ پسندم کی ^رکبھی کوئی دوسرے امام پڑھاتے ہیں۔ مدینے میں جن اما

أات کے فن کے حساd سے، ان کا نام معلوم نہیں۔ ویسے مدینے کے کی تھی، کم از کم ^ر

Page 289: اللہ میاں کے مہمان

ااذیفی کی ^رایک امام أات بھی مشہور ہے اور ہم نے اس کے کیسٹ بھی سنے ہیں مگر شیخ

أات لینے کا آاخر سدیس صاحب کی ^ر أات والی وہ بات کہاں۔ ہی ارادہاسدیس صاحب کی ^ر

آان کا کیسٹ تھا، اس کی ریکارڈنگ آاواز میں مکمل ^ر کیا۔ لیکن جس دوکان پر ان کی

آاوازیں تھیں ۔ ایک حھی نہیں لگی۔ دوکان دار نے ایک دوسرا کیسٹ دکھایا جس میں دو اچ

اشریم صاحب کی)بعد میں معلوم ہوا کہ رمضان المبارک اسدیس صاحب کی اور دوسری سعود

میں تراویح یہ دونوں حضرات نصف نصف پڑھاتے ہیں اور اسی طر� ایک رمضان کی تراویح میں

آان کا کیسٹ بن جاتا ہے۔(۔ اس کیسٹ کی کوالٹی بہتر تھی۔ان دوکانوں کے سروے مکمل ^ر

ت تو صابرہ ساتھ تھیں، مگر جب وہ خریداری ہمارے سYرد کر کے حرم میں چلی گئیں کے و

ریال میں یہ سیٹ ہم نے خوشی سے لے لیا۔ در اصل45تو ہم نے یہی کیسٹ لینا پسند کیا۔

اس کی فرمائش ہمارے بیٹے کامران کی تھی۔ اور ہم نے یہ بھی سوچا کہ ان کو ضروری نہیں

اسدیس صاحب کی ^ر ت اس دوکان میں اردو سمجھنے والے لوگکہ آائے۔ اس و أات پسند

ر جب عشاء کے بعد ہم نےبھی تھے اس لئے ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ بھی نہیں تھا۔ مگ

آاوازوں کا سیٹ 'سیٹ ' صابرہ کو بتایا تو یہ بڑی جز بز ہوئیں۔کہنے لگیں کہ دو ^اریوں کی

تھوڑی کہا جا سکتا ہے۔ سیٹ ہو تو ایک ہی ^اری کا۔ مSض شریم صاحب کا لیں یا مSض

آاپ کو جو کرنا ہے آاپ سیٹ ہی کہیں گے کیا؟۔ سدیس صاحب کا۔ 'دس ^اریوں کا بھی

اس سیٹ کا کیجئے، میں ابھی ایک اور سیٹ خرید کر لاتی ہوں۔' اd بھی ہم کو بات

آائی کہ اس میں اس ^در اعتراض کی کیا بات تھی۔ بہر حال ان کی مرضی سمجھ میں نہیں

م ہی واپس مل جائے کی خاطر ہم پھر واپس گئے۔ اور اسے واپس کرنے کی کوشش کی کہ ر

Page 290: اللہ میاں کے مہمان

آاواز کا دوسرا اچھی ریکارڈنگ والا سیٹ ریال50تو دوسری دوکان سے السدیس صاحب کی

آائی آائے تھے مگر شیخ العرd کو ہماری بات سمجھ میں نہیں میں لے لیں جو پہلے دیکھ کر

آائے تھے اگرچہ در دوکان وا تھا۔ وہ اللہ کا بندہ کچھ کہتا تھا تو ہم االٹے پھر تھی اس لئے

نہیں سمجھ پا رہے تھے، اور ہماری بات ، ہمیں شک تھا کہ جان بوجھ کر، وہ سمجھ نہیں

آاوازوں کا سیٹ لیا تھا، سدیس صاحب آاخر اسی دوکان سے جہاں دوہری ت۔ رہا تھا اس و

کے ہی کیسٹوں کا دوسرا ایک سیٹ نکلوایا۔ دوکان دار سے کہا کہ سنوائے کہ ہم پسند کر

لیں کہ کس سیٹ میں )یا اسے بھی نسخہ کہہ سکتے ہیں؟( ریکارڈنگ بہتر ہے۔ غرض ایک

آائے ہیں۔ بہر حال۔ نسخہ ہم لے

ریال کی ایک دوکان یہاں2۔2یہ سب دیکھتے ہوئے ہم نے گھڑیاں بھی دیکھیں بازار میں اور

حچوں کے کھلونوں کی دو ایک چیزیں اور خرید لیں۔ ایک کان کے بندے بھی مل گئی تو ب

فلٹرس ہیں جب کہ16بھی خریدے، ایک لائٹر اور سگریٹ فلٹرس کا سیٹ بھی جس میں

روپئے میں ملتا ہے۔سامان لے کر عمارت پہنچے تو صابرہ10 فلٹرس کا سیٹ 4ہندوستان میں

بھی بازار اور پھر حرم جا چکی تھیں۔ سامان رکھ کر اور وضو کر کے ہم پھر نکلے۔ اسی بازار

سے ہوتے ہوئے کہ ممکن ہے کہ ان مSترمہ سے ملا^ات ہو جائے۔ مگر نہیں ہو سکی ۔ ہم نے

ت تو جاتے جاتے ایک ٹوپی بلکہ اسے سYورٹس کیپ کہنا چاہئے، وہ بھی خرید لی۔ اd ہر و

آاباد بھی جانا ہے۔ یہاں کا حرم میں رہنا نہیں ہے۔ جہاز کا سفر بھی ہے، بنگلور اور پھر حیدر

کیا ہے، یہاں تو اس 'حرم میں سب گنجے ہیں' )حمام میں ننگے مSاورے کی پیروڈی بنانے

کی کوشش کی ہے ہم نے(۔ اس لئے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ یا پھر گول ٹوپی لگا لیتے ہیں

Page 291: اللہ میاں کے مہمان

آاباد میں دفتر میں تو نہیں پہن سکتے۔ یہاں تو یہ ٹوپیاں اکثر لوگ پہنتے ہیں، جو حیدر

ا انٹر نیشنل ' ٹوپی کی ضرورت تھی ہمیں۔ ہندوستانی پاکستانی ہوں یا عرd۔ اس لئے ایک

اس سے پہلے ہی بات ہوئی تھی کہ جہاز کے ٹکٹوں کا کنفرمیشن )

Confirmationکے بعد مظہر dآافس میں۔ مغر (کرنا ہے ہمارے ہندوستانی حج

حتار بھائی اس کام سے گئے۔ ہم کو کھانسی بھائی وغیرہم حرم میں ہی مل گئے تو ہم اور س

بھی اٹھ رہی تھی )بہت دن بعد ہم اس کا ذکر کر رہے ہیں کہ ^ارئین ہمارے اس ذکر سے بور

ا او۔کے۔ 'تھے اور اس کی ضرورت ہو گئے ہوں گے (چناں چہ یہ کام کر کے )ہمارے ٹکٹ

نہیں تھی مگر ایر انڈیا والوں کو ضرورت تھی کہ ہم لوگوں نے اپنا پلان تو نہیں بدل دیا ہے کہ

اکثر لوگ اس فرمایش کے ساتھ جہاز والوں سے ملتے ہیں کہ وہ کسی اور دن کی فلائٹ سے

جانا پسند کریں گے۔ کچھ کا ارادہ کچھ اور دن عرd میں رکنے کا ہوتا ہے،اپنے رشتے داروں

بجے پھر حرم8کے پاس جدہ یا ریاض وغیرہ جانا چاہتے ہیں(چائے پی اور سگریٹ پی کر

پہنچے۔ اس عرصے میں سب پھر بکھر گئے تھے۔ پہلے عورتیں بھی ساتھ تھیں۔ عشاء کی

آاتے ہوئے روٹی سبزی آادھا گھنٹہ لگ گیا۔ عمارت نماز کے بعد سب کو جمع کرنے میں مزید

آائے۔ شاید دس ساڑھے دس بج رہے ہوں گے۔ ہاں ہم یہ لکھنا اور ناشتے کے لئے جام لے کر

آاشکار ہوئی کہ بھول گئے کہ ہماری گھڑی کا سیل ختم ہو گیا ہے۔ معلوم کیا تو یہ حقیقت

ریال ڈالنے کا مSنتانہ۔ ہم5 ریال کا سیل اور 5 ریال لگیں گے، 10سیل کی تبدیلی میں یہاں

آاباد میں روپئے لگیں گے، یہ35۔30 روپئے میں ڈلواتے ہیں۔ اd کچھ مہنگا ہوگا تو 25حیدر

آاج کل بے گھڑی گھوم رہے ہیں۔ جب سو روپئے تو ہم نہیں خرچ کرنے والے۔ چناں چہ

Page 292: اللہ میاں کے مہمان

ت دیکھا تھا اور بج رہے تھے، اd دیکھا11لکھنے بیٹھے تھے تو صابرہ کی گھڑی میں و

آاج کی روداد پر 'دی اینڈ' کا بورڈ لگانے جا رہے ہیں۔12۔20ہے کہ ہو رہے ہیں جب کہ ہم

اd سو کر اٹھیں گے تو ہماری الٹی گنتی ہو گی....دو۔

الٹی گنتی .... .د و

مئی ساڑھے نو بجے رات6

حجد اور فجر نہیں ہو سکی۔ خدا معاف کرے کہ ^ضا کرنی پڑی۔ رات سونے تک آاج بھی تہ

حبار بھائی کی بیوی کے ساتھ ایک بج گیا تھا۔ اگرچہ سوا دو بجے صابرہ جا رہی تھیں شائد ج

آانکھ ضرور کھلی تھی مگر ہم نے سوچا کہ انشاء اللہ صبح بجے اٹھیں گے فجر4تو ہماری

آاٹھ بج رہے تھے۔اس ت پوچھا تو سوا کے لئے، مگر اٹھے... اور صابرہ کو موجود پایا اور و

لئے صبح نہیں لکھ سکے۔ سوچاہے کہ ابھی لکھنا شروع کر دیں۔کھانے میں بھی ابھی دیر

آاج کل ہمارا کھانا بھی چل رہا ہے، عشاء کے بعد ہے کہ دوسرے ساتھی جن کے ساتھ

آاج تین طواف ہوئے اور ہم مطمئن ہیں، ویسے ہم نے ایک دن طواف کے لئے گئے ہیں۔ ہمارے

آاٹھ طواف بھی کئے ہیں اور یہاں لوگ ہیں کہ دن میں ایک طواف کر کے بھی تھک جاتے

آاگئے ہیں۔ صابرہ سے کہہ فہ دے دیتے ہیں۔ ہم عشاء کے بعد گھر ہی ہیں تو دو چار دن کا و

۔10دیا ہے کہ کھانے میں دیر ہوئی تو ہم کھانا ہی نہیں کھائیں گے کہ جلدی سو سکیں ۔

Page 293: اللہ میاں کے مہمان

آانکھ کھل سکتی ہے۔مگر ان سب لوگوں کے ساتھ3۔2 بجے سو سکیں تو ضرور 11 بجے

آاج تو اور بھی دیر ہو شاید۔ آاج کل۔ کھانا کھانے میں ہی گیارہ ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں

آاکر پکائیں گی۔ بھوک تو پہلے ہی لگ رہی تھی اور صابرہ مشورہ دے رہی تھیں dخواتین ا

آائیں۔ ہم نے سوچا بھی تھا مگر ہوا یوں کہ حرم سے نکل کہ ہم کم از کم باہر ہی کھاتے ہوئے

حمد صاحب )معلوم نہیں ان کا یہ نام کیوں Sرہے تھے تو ہمارے سامنے کے کمرے کے راج م

ہے۔ راج کمار اور راج کYور نام تو سنے تھے مگر مسلمانوں میں یہ نام عجیب ضرور ہے( کو

لٹر کے جری کین میں بھر کر لانے کی کوشش کر رہے15دیکھا کہ حرم سے زم زم ایک

آاباد کے ہی ہیں۔ پی۔ ڈبلیو۔ڈی کے ریٹائرڈ سYرنٹنڈنٹ ہیں، ء میں85ہیں۔ یہ صاحب حیدر

اا سال۔ غرض ہم نے ان کی مدد کرنا اپنا فرض70ریٹائر ہو چکے تھے اس طر� عمر ہوگی تقریب

آانا سمجھا۔ اور یہ جری کین ڈھو کر کمرے تک لائے۔ اس لئے سیدھے ہی اپنے کمرے تک

ت ضرورت نہیں بھی ہوتی پڑا اور کھانا ٹال گئے۔یہاں تک کہ روٹی بھی نہیں خریدی۔ اس و

آاتی۔بہر کیف۔ تو صبح ناشتے میں کام

آان تقسیم ہوتے بd عمرہ پر جہاں ^ر آاج جو ہم سوچ رہے تھے کہ ادارۂ سنون الکتب جائیں کہ با

ہیں، انگریزی اور اردو ترجمے کے فہد اےڈیشن مل گئے تو سبSان اللہ۔ ہمارے دوست بشیر

آان مجید کے اس کو تو زم زم اور کھجور کے تSفے سے بھی اتنی خوشی نہیں ہوگی جتنی ^ر

خوd صورت نسخے سے۔

اٹھتے ہی صبح ضروریات کے بعد ناشتے کے لئے بیٹھ گئے۔ سب ہمارے منتظر ہی تھے۔ ہم

ریال کی شیشی خرید کر لائے تھے۔ اس سے4نے وہی روٹی پنیر اور جام کھایا جو کل ہی

Page 294: اللہ میاں کے مہمان

فارغ ہوتے ہی ہم سوئے حرم چلے کہ وہی ہمارا کوئے یارہے اور سوئے دار بھی) بات چاہے جمی

نہیں مگر کیا کریں ، ہمارے فیض صاحب سے بھی کچھ غایبانہ یاد اللہ ہے۔ کم از کم اس

رشتے سے کہ ہم بھی حکایات خوں چکاں اپنی فگار انگلیوں سے لکھتے رہتے ہیں(۔حرم میں

آایا تو خود سے کہا کہ میاں فجر کی نماز ابھی تک تم طواف کی تیاری کر رہے تھے کہ یاد

نے کہاں پڑھی ہے۔ ^ضا زیادہ ضروری ہے۔عام طور پر نماز ^ضا ہونے پر صبح ضروریات کے بعد

آاج دوسرے لوگوں کو دسترخوان پر منتظر دیکھ کر یہ ہی وضو کر کے پہلے پڑھ لیتے تھے۔

عمل چھوڑ دیا تھا تو بھولے جارہے تھے۔یوں بھی حکم ہے نا کہ اگر نماز کھڑی ہو رہی ہو اور

دسترخوان بچھ بھی گیا ہو تو نماز کی جماعت چھوڑ دینا بہتر ہے۔ پہلے دسترخوان کی

جماعت میں شریک ہونا اور کھانا کھا لینا چاہئے۔چناں چہ پہلے فجر کی ^ضا نمازیں پڑھیں

)ہم مSض تازہ ترین ^ضا ہی نہیں پڑھتے نا، ^ضائے عمری بھی جاری ہے اور ہر نماز کے ساتھ

کم از کم ایک اسی نماز کی ^ضا ضرور پڑھ رہے ہیں اور جب مSض ^ضا نمازیں پڑھنے کا

بار کا٧۔٦ارادہ ہو تو پانچوں نماز وںکی ایک لائن سے ^ضائیں پڑھتے ہیں۔ یہ معمول دن میں

ہوتا ہے(۔اس کے بعد طواف کیا۔ واجب الطواف نماز پڑھ کر ایک اور طواف کر لیا اس کے

ا راؤنڈ' بھی پڑھ لئے۔اسی میں آاج 12بعد ^ضا نمازوں کے دو پر ظہر12۔18 بج گئے تھے۔

ا راؤنڈ'اور پڑھ کر واٹر باٹلوں میں زم زم بھرتے ہوئے واپس کی اذان تھی۔ تو ظہر کے بعد دو

آاگئے۔

ت با^ر نے دو بڑے بڑے کارٹن نہ صرف دئے تھے بلکہ ایک میں خریدی آاتے و حدے سے ج

ہوئی جانمازیں پیک بھی کر دیں تھیں۔ اور دوسرے میں دوسرا سامان رکھ دیا تھا۔ یہاں جو

Page 295: اللہ میاں کے مہمان

ایک بڑے بیگ میں سامان رکھا تھا، پہلے اسے بھی اس دوسرے کارٹن میں منتقل کر دیا تھا،

آانے آاج حرم سے واپس مگر خیال ہوا کہ یہ اتنا وزنی ہو گیا ہے کہ اٹھا نا مشکل ہوگا۔ چناں چہ

اور کھانا کھانے کے بعد اس کی دوبارہ پیکنگ میں لگ گئے، یعنی کارٹن کا سامان پھر بیگ

حYل رکھنے میں رکھا اور اس عمل میں کچھ اتنی طا^ت کا استعمال کر ڈالا ) اپنی ہی ایک چ

میں( کہ بیگ کی سلائی کھل گئی۔ چناں چہ پھر اسے خالی کر کے ہم نے ہی پہلے اس

ت ہو گیا۔ ہمارا بیگ کو سیااور پھر سامان بھراہم دونوں نے۔ اسی میں عصر کی اذان کا و

نہانے کا ارادہ بھی تھا۔ یہاں کا غسل خانہ ہمیشہ گندا ہی رہتا ہے۔ اس لئے ہم نے یوں کیا کہ

عصر کی نماز یہاں ہی پڑھ لی اور پھر حرم چلے گئے۔ نہانے کے علاوہ یہ کام بھی کیا کہ زم

لٹر کے بڑے جری کین دئے تھے، ان میں زم زم بھررہے18۔ 18زم بھرتے ہوئے لائے۔با^ر نے

ہیں ساتھ لے جانے کے لئے۔ ایک پہلے ہی بھر چکے تھے تھوڑا تھوڑا کر کے یعنی بوتلوں میں

آاج بھی ایک لٹر کا کین لے5لے جا کر ایک جری کین میں خالی کر دیتے تھے۔ پڑوس سے

گئے تھے، اس میں اور اپنی ڈیڑھ لٹر کی دو بوتلوں اور کولڈ ڈرنکس کی خالی بوتلوں میں بھر

لائے۔ ایک بار اور اسی طر� کرنے میں دوسری جری کین بھی بھر جائے گی۔ کون اتنا پانی

آا کر چائے پی، اور پھر ہم سب یعنی چاروں جوڑے ساتھ ایک ساتھ اٹھا کر لائے۔ پھر یہاں

حتار بھائی اور سب کی حبار بھائی اور س ساتھ نکلے ) چار مرد ہمارے علاوہ مظہر بھائی، ج

بیویاں(۔ جری کین، واٹر باٹلس اور کولڈ ڈرنکس کی خالی بوتلیں پھر ساتھ لے لیں۔ پہلے ایک

گز )جی ہاں میٹر نہیں، یہاں گز ہی27 ریال کا 145کYڑے کا تھان مظہر بھائی نے دلوایا۔

حھا ہوتا ہے۔سفید رنگK.T. 2000چلتا ہے( جاپانی کYڑا کے۔ٹی) (۔ سنا ہے کہ بہت اچ

Page 296: اللہ میاں کے مہمان

آائے اور عورتوں کی شلواروں کے بھی۔ سفید کا لیا کہ مردوں کے کرتے پاجامے کے کام بھی

رنگ میں زنانہ مردانہ کی کیا تخصیص؟۔ پھر مزید زم زم بھر کر لا کر کمرے میں رکھا۔ صابرہ

dاس عرصے میں ضرورت کے لئے گئیں اور پھر وضو کر کے پھر حرم کی طرف نکلے۔ مغر

ت تھا مگر اتنا نہیں کہ جا کر طواف کر لیا جاتا۔ادھر صابرہ اپنے بڑے میں اگرچہ ابھی و

بھائی کے لئے )جو سب سے بڑے مرحوم بھائی سے چھوٹے ہیں اس لئے چھوٹے بھائی

ت ہے تو حYل یا سینڈل خریدنے کا کہہ رہی تھیں تو سوچا کہ ابھی نماز میں و کہلاتے ہیں(چ

حYلیں تھوڑی دیر راستے میں یہی دیکھتے ہوئے چلیں۔مگر انھوں نے دوکانوں میں اپنے لئے ہی چ

زیادہ دیکھیں۔ بہر ھال پھر ساڑھے چھہ بجے حرم پہنچے بغیر کچھ خریدے۔ وہاں سب لوگ

حسلام کے پاس ہی ایک روشنی کے مینار کے پاس مل گئے۔سب حررہ مقام، یعنی باd ال ایک مق

آانے لگینے مغرd پڑھی۔ امام سدیس صاحب ہی تھے اور اd ہم کو ان کی ^ر أات اتنی پسند

حق أات کا کیسٹ ہمت طاری ہو جاتی ہے سننے پر۔ خدا کا شکر ہے کہ انھیں کی ^رہے کہ ر

تازہ ہو جائے گی۔ مغرd کے بعدنے لیا ہے۔۔ جب بھی سنیں گے، حرم کی نمازوں کی یاد

ت اس آاج سات راؤنڈ ^ضائیں ہو چکی تھیں۔مگر اس و پھر ^ضا نمازیں پڑھیں۔ حالاں کہ

انتظار میں کہ کچھ بھیڑ کم ہو جائے تو پھر طواف کریں جیسا کہ سب نے پلان بنایا تھا۔

اا بعد طواف میں سب سے زیادہ بھیڑ ہوتی ہے۔ اس شاید ہم لکھ چکے ہیں کہ مغرd کے فور

حبار بھائی کی بیویاں ضروریات اور وضو کے لئے چلی گئی تھیں، کے علاوہ مظہر بھائی اور ج

آائی تھیں۔صابرہ نے ان کا بھی انتظار تھا۔ ہماری ^ضا نمازیں پڑھنے تک بھی یہ خواتین نہیں

ہم سے کہا کہ ہم تو طواف کر ہی لیں۔ وہ سب عورتوں کے ساتھ عشاء کے بعد ہی طواف

Page 297: اللہ میاں کے مہمان

کریں گی۔ بھائی صاحبان کا ارادہ پہلے ہی سے عشاء کے بعد طواف کرنے کا تھا کہ مظہر

حبار بھائی کو کسی سے بھائی کو عشاء سے پہلے کسی کی عیادت کے لئے جانا تھا اور ج

ملنے۔ چناں چہ ہم نے سب کو چھوڑ کرطواف کیا۔ عورتوں کو وہیں چھوڑ کر۔ طواف کے بعد

آاج کی بات ہم نے شروع ہی یہاں آا گئے ہیں۔ اا اذان ہو گئی تو ہم عشاء پڑھ کر واپس ہی فور

آائیں گی تو کھانا وانا ہوگا۔ سے کی تھی کہ صابرہ وغیرہ طواف کے لئے گئی ہیں۔ اd واپس

حجد کے لئے نہیں تو فجر کے لئے ضرور اٹھیں گے۔ اگرچہ عشاء کے بعد ہم اd انشا ء اللہ تہ

حجد کے بعد پڑھیں گے۔ نے وتر نہیں پڑھے ہیں اس ارادے کے تSت کہ حرم میں تہ

االٹی گنتی... ا یک

/ مئی7

بجے رات۔10۔20

واللہ اعلم ہمار ی گنتی صSیح ہے یا نہیں، کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم لوگ کل نہیں

حدہ روانہ ہوں گے۔ دیکھئے اd حرم میں پانچ نمازیں پرسوں جمعے کی نماز یہاں ادا کر کے ج

أات میں شاید دو یا تین نمازیں ہی اور مل سکیںاور ملتی ہیں کہ چھہ۔السدیس صاحب کی ^ر

آاج مغرd اور عشاء میں ان کی ^رگی۔ وہ جہری نم کر اور بھیأات سنازیں پڑھاتے ہیں نا۔

آاواز سن لی جائے، مگر جو بات ح^ت طاری ہو رہی تھی۔بعد میں چاہے ٹیپ ریکارڈر پر ان کی ر

Page 298: اللہ میاں کے مہمان

کا ترجمہ۔ ہائے رے ترجمے کی مجبوریاں!( سننے بلکہ ان کی ا^تدا میں نمازLive’ندہ‘ )

پڑھنے میں ہے ، وہ بات کہاں؟

dسونا سونا سا لگنے لگا ہے۔ نمازوں میں صفیں خالی خالی رہ جاتی ہیں۔ بلکہ ا dحرم ا

حجاج ہی رہ گئے ہیں۔ کچھ انڈونیشی بھی، مگر حر75ہندوستانی اور پاکستانی ح فی صد ب

آا گئی صغیر کے ہی لوگ با^ی بچے ہیں۔ اس پر ہم کو کل کے طواف کی ایک دو باتیں یاد

ہیں، پہلے وہ کر لیں ورنہ بھول جائیں گے۔کل صبح کے پہلے طواف میں ایک پاکستانی

بز بلند ایک ہی دعا کرتے جا رہے تھے کہ 'یا اللہ ہمارے ملک پاکستان آاوا صاحب طواف میں ب

میں مکمل اسلامی ^انون نافذ کروا دے.. یا اللہ ہمارے....'یہی ان کی تسبیح تھی۔ کم از

کم ایک شوط )پھیرے( میں ہم ان کے ساتھ ہی رہے تھے تو مستقل یہی تسبیح سنتے رہے ان

ت وہاں صفائی ہو کے مونہہ سے۔دوسری بات کل مغرd کے بعد طواف میں دیکھی۔ اس و

رہی تھی اور صفائی کرنے والا وہی گروپ تھا جو اس سے پچھلے دن دیکھا تھا۔ کم ازکم

آادمی کو تو ہم پہچاننے لگے تھے۔ انھیں صاحب کو دیکھا کہ حرم کے مطاف والے ایک

حصے میں پونچھا بھی لگاتے جا رہے ہیں اور ہم جب ان کے ^ریب سے گزرے تو صSن کے ح

یحلہ... یعنی کام کے ساتھ ان بلل اد بSم بوال بہ یحل بن ال Sی اسب معلوم ہوا کہ ان کے ہونٹوں پر تسبیح رواں ہے'

dکا بھی طواف جاری تھا۔ یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔ یہ کوئی بنگلہ دیشی تھے شاید۔ ا

ان دو مثبت پہلوؤں کے بعد ایک منفی پہلو کی بات بھی۔ یہ ایک ہندوستانی بھائی سے

حلق ہے۔موصوف طواف کرتے جا رہے تھے اور ناک میں نسوار لگاتے جا رہے تھے۔ سگریٹ متع

بیڑی کی تو ممانعت ہے حرم میں مگر اس عادت سے ان کو کون روک سکتا تھا، اس لئے اس

Page 299: اللہ میاں کے مہمان

اجازت کا فائدہ اٹھاتے جا رہے تھے۔ خیر اجازت سہی، مگر عین طواف کے دوران!۔ اس کا

حر صغیر کے لوگوں سے حتفاق سے سبھی ب آایا۔ غرض یہ مشاہدات ا جواز ہماری سمجھ میں نہیں

حلق تھے ۔ متع

آان آاج ہم دونوں نے، یعنی ہم نے اور ہماری صابرہ بیغم نے چار عدد ^ر دوسری اہم بات یہ کہ

کریم کے نسخے جمع کر لئے ہیں۔ ہدیۂ حرم۔ یعنی باd عمرہ کی تقسیم سے۔ مگر ان میں

یی۔ اd تک کسی نے صSیح رہنمائی نہیں حر سے شاہ فہد ایڈیشن ایک ہی ہے اور وہ بھی مع

کی ہے کہ اردو اور انگریزی ترجمے کے نسخے مل سکتے ہیں تو کہاں؟ ۔شاید ہم لکھ چکے

آاتے ہیں ان پر صاف لکھا ہے ۔Not for Saleہیں کہ حرم میں جہاں یہ نسخے نظر

ااردو والا نسخہ ملا ہے )یعنی ترجمہ نہیں، اردو میں مSض بلکہ صابرہ کو تو )بعد میں(جو

اف کا بیان ہے( اس کے سر نامے پر اردو میں ہی مہر لگی ہے جس کی عبارت ہے '' رموز و او

آال سعود کی جانب سے ہدیہ ہے، بم حرمین شریفین شاہ فہد بن عبد العزیز آان کریم خاد یہ ^ر

اسے بیچنا جائز نہیں''۔ کل تو ہم اس مہم پر نہیں جا سکے تھے کہ دیر سے پہنچے تھے

آاج صبح سات بجے سے ہی لائن میں لگ گئے تھے۔ صابرہ بھی اپنی سہیلیوں کے حرم۔

عے پر حاجی کا ساتھ بعد میں ^طار میں لگ گئی تھیں۔ مگر معلوم ہوا کہ تقسیم کے مو

شناختی کارڈ ضروری ہے، اس پر مہر لگائی جاتی ہے تا کہ ہر شخص روزانہ ہی یہ نسخے نہ

حبار بھائی کی بیوی فاطمہ کے پاس کارڈ تھا، وہ ^طار میں لگی رہیں اور صابرہ اور لے سکے۔ ج

دوسری خواتین کارڈ لینے پھر کمرے چلی گئیں۔ہمارے پاس بھی یہ کارڈ موجود تھا۔ ساڑھے

ت میں نسخے10۔12آاٹھ بجے یہ دفتر کھلا اور تقسیم شروع ہوئی۔ یہ لوگ اندر سے ایک و

Page 300: اللہ میاں کے مہمان

آاپ کی پسند کا سوال نہیں آاتے ہیں اور اوپر سے ایک ایک اٹھا کر دیتے جاتے ہیں، لے کر

ہے۔ ہم نے کہا بھی کہ ترجمے والا چاہئے، مگر کسی نے کوئی جواd نہیں دیا۔ مطلب لینا

آاگے بڑھو۔ اس میں حرم میں استعمال شدہ پرانے نسخے بھی ہیں اور نئے۔ ہو تو یہی لو ورنہ

اا صابرہ کے ساتھ کی ایک صاحبہ کو دہلی میں ہی چھYا ہوا ایک پرانا نسخہ ملا۔ ہم کو نسبت

نئے نسخے ملے۔ ہم کو مصر کی طباعت کا نیا نسخہ ملا اور صابرہ کو کسی عرd ملک کا

ہی، مگر اس پر مقام اشاعت درج نہیں۔ دو نسخے اس طر� مل گئے۔ پھر ہم عصر کے لئے

حرم گئے تو دیکھا کہ اندر 'ادارہ سنون المصاحف' پر بھی بھیڑ لگی ہے۔ معلوم ہوا کہ وہاں

آان تقسیم ہو رہے تھے مگر ابھی بند کر دئے گئے ہیں۔ ترجمے کا معلوم کرنے پر ان بھی ^ر

لوگوں کا ایک ہی جواd تھا ، بلکہ دو جواd۔ یا تو' باd العمرہ' یا پھر 'مطار')یعنی ایر پورٹ۔

ت ایر پورٹ پر شاہ فہد سنا ہے کہ پچھلے دو ایک سالوں سے حاجیوں کو واپسی کے و

اا دئے جاتے ہیں۔ مگر اس سال بھی یہ معمول رہے گا اس کی کیا ایڈیشن کے نسخے تSفت

حمید پر کافی دیر کئی لوگ کھڑے رہے تو ایک اور نیا جواd سنا۔ اس بار گارنٹی؟(۔جب اسی ا

('دو تین بار ہم اس دفتر پر گئے اورTomorrowانگریزی میں ' انڈیا پاکستان ٹو مارو )

حالات کا جائزہ لیتے رہے مگر مایوسی ہوئی۔ عصر کے بعد ہم سب شاپنگ کے لئے چلے

بل حرم ہوئے۔ ہم دونوں نے الگ الگ نماز پڑھی اور نماز گئے۔ بعد میں مغرd کے لئے پھر داخ

کے بعد ان سے ملا^ات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ان کو ایک اور نسخہ مل گیا ہے۔ ہم بھی

اا گئے۔ کچھ دیر تک باہر جو شیخ تھے ان کا انکار ہی سنتے رہے۔ پھر کسی کام سے وہ فور

صاحب ہٹے تو ہم اندر دفتر میں ہی گھس گئے کہ ان کے افسر سے ہی بات کی جائے۔

Page 301: اللہ میاں کے مہمان

انگریزی میں بھی بات کی اور اردو میں بھی۔ معلوم نہیں وہ کہ وہ کون سی زبان سمجھے مگر

اا اندر سے آاگیا۔ فور اتنا کہا 'لا ترجمہ۔ باd العمرہ'۔ ایک دوسرے صاحب کو شاید ہم پر رحم

آائے اور فرمایا 'معافی.. معافی، بسم اللہ۔ جاؤ۔ فی امان اللہ' اور ہم وہـایک نیا نسخہ لے کر

آاپ کو بتا دیں آا گئے۔ یہ بھی مصری ہے۔۔ کھولنے پر معلوم ہوا۔اس کی پہچان نسخہ لے کر

کہ مصری نسخوں میں رکوع اور پاروں کا حساd نہیں ہوتا۔ مSض سورتوں کا شمار دیا جاتا

آایت نمبر سے ہی دیا جاتاہ آان کا حوالہ بھی سورتوں اور ے۔صSیح صورت تو یہی ہے کہ ^ر

ہے۔ یہ تو ہندوستان پاکستان میں ہی زیادہ چلتا ہے کہ لوگ پاروں اور رکوعوں کے حوالے سے

آائے گی بھی تو یہی کہتے ہیں کہ آایت یاد بات کرتے ہیں۔ خودہم کو یہ یاد نہیں رہتا۔ کوئی

آایت نمبر فلاں۔ اور نہ ہم کو یہ کبھی یاد ہوا ہے کہ یہ سورت کس پارے میں سورۂ اعراف کی

آایت کس رکوع میں۔ )ہم کو تو سورت کا نمبر بھی یاد نہیں رہتا کہ ہے اور نہ یہ کہ مذکورہ

مائدہ چوتھی سورت ہے یا پانچویں۔ )جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ پانچویں ہے۔ اگر ہم بالمشافہ

اا ہماری معلومات میں اضافہ فرماتے(۔ آاپ ہی فور گفتگو کر رہے ہوتے تو

ت ضائع کرنے کے باوجود ہم نے آاج کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ مختلف مصروفیات میں و

پانچ عدد طواف تو کر لئے ہیں۔دو تو فجر کے بعد ہی کر لئے تھے، اس کے بعد ناشتے کے

آان کے حصول میں لگے تھے۔ دو عصر اور مغرd کے درمیان کر لئے جن کی مشترکہ بعد ^ر

آاپ کو یاد ہوگا نا کہ واجب الطواف نمازیں نماز مغرd کے بعد اندر دالان میں ہی پڑھیں۔ )

حنت نماز نہیں پڑھی جاتی(۔ پھر مغرd اور عشاء کے درمیان ایک عصر کے بعد کوئی نفل یا س

آان کے حصول میں لگے تھے۔ 7۔45اور طواف کر لیا، پر طواف اور واجب8۔10 تک ^ر

Page 302: اللہ میاں کے مہمان

آاج سے حرم میں ہر دالان میں ^الین الطواف نمازوں کے بعددالان میں جانمازوں پر بیٹھے )ہاں۔

کی جانمازیں بچھ گئی ہیں، راستوں کو چھوڑ کر۔(

رات کو پھر کھانا کھانے کے بعد ساڑھے بارہ بجے تک تو لکھتے ہی رہے تھے۔ ایک بج گیا

آائی اور آانکھ کھل گئی۔ 2۔20تھا اس کے بعد کبھی نیند بجے تک سونے کی3 پر ہی پھر

حجد اور فجر بھی ہو گئی ہے۔ کوشش کی اور پھر اٹھ کر بیٹھ ہی گئے۔ چناں چہ حرم میں تہ

ت میں کیا لکھیں کہ کیا کیا کھایا پیا۔ آاخری و dسوا گیارہ بج رہے ہیں رات کے۔ ا dا

آائے تھے۔ با جماعت ہی کھانا ہو رہا ہے کئی پاکستانی ہوٹل کی سبزی روٹی ہی رات کو لے

دن سے۔ ہم خریدا ہوا کھانا لے جا کر شامل ہو جاتے ہیں۔ دو پہر کو تو ہماری طرف سے

صرف روٹیاں ہی تھیں۔ ناشتہ تو ہم نے باہر ہی کیا تھا۔ اd اور کو ئی بات ) جیسا کہ ہم

بل لکھ' نہیں بچYن میں غیر سنجیدگی سے کہتے تھے اور اd بھی کہاں سنجیدہ ہیں(' ^اب

حسلام وعلیکم۔ شب بخیر.... ہے۔ اس لئے خدا حافظ۔ ا

Page 303: اللہ میاں کے مہمان

اا لٹی گنتی.... صفر

/مئی8

بجے۔ دو پہر2۔55

آاج رات کو عشاء کے بعد جدہ روانگی ہے۔ جہاں سے پرسوں بجے سہ پہر کو3۔50جی ہاں

ت نہیں مل سکے گا۔ ابھی ہماری بنگلور کے لئے فلائٹ ہے۔چناں چہ رات کو لکھنے کا و

آاپ سے بھی اور اس سفرنامے سے بھی۔ ویسے انشاء اللہ کچھ اور با^ی روداد رخصت ہو لیں

آاباد پہنچ کر ہی لکھیں گے۔ ہوگی، وہ حیدر

غرض اللہ میاں نے اپنی میزبانی ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور اپنے مہمان کو بھگانے کا

اا بسوں کی دیواروں سے بھی وہ بینر نکال دئے گئے ہیں کہ انتظام کر دیا ہے۔ اd تو مثل

Welcome to the Guests of Allahیمن' یہ حرح اور 'مرحبا ضیوف ال

سٹی زن )یا سی تی زن( گھڑیوں کی جانب سے جگہ جگہ بورڈ لگے تھے۔

آائی۔ سر درد جو ہو گیا تھا جو صبح تک جاری رہا۔دو بجے کے بعد رات کو بھی نیند نہیں

حجد کی اذان بھی یاد ہے اور فجر کی اذان بھی، مگر بقول پطرس آائی۔ پھر صبح تہ کبھی نیند

آارہی تھی۔ بہر آاواز کمرے تک آانکھ میری کھلی تو حرم کی جماعت کی سویرے جو پھر

Page 304: اللہ میاں کے مہمان

حال ضروریات کے بعد حرم میں جا کر بلا جماعت ہی نماز پڑھی اور دو عدد طواف کئے

ہیں۔ اس کے بعد ناشتے سے فارغ ہو کر کچھ دیر ساتھیوں سے باتیں کیں، سامان کی پیکنگ

(بھی حاصل ہوSpring Balanceکی اور وزن بھی کیا کہ ایک اسYرنگ بیلینس )

کلو70گیا تھا۔ پتہ چلا کہ ہمارا وزن، ہمارا مطلب ہے کہ ہمارے سامان کا وزن ^ابل اجازت

70 کلو زیادہ ہی ہو گیا ہے )ہمارے وزن کے بارے میں تو ہماری خواہش ہی رہی کہ ٤سے

کلو سے زیادہ بڑھتا ہے اور خدا کا شکر ہے50 کلو ہی ہو جائے۔ مگر یہ کبھی 60کیا، کبھی

کہ نہ کم ہوتا ہے۔(۔ اس وجہ سے کچھ سامان بڑے بیگ سے نکال کر چھوٹے بیگ میں کر

لیا ہے جسے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔

آاخری ت ملتا ہے لیجئے عصر کے لئے سب لوگ چل رہے ہیں۔ اd معلوم نہیں کہ کب و

باتیں تSریر کرنے کے لئے۔

آائے لوٹ کے حا جی گھر کو

اd تاریخ لکھنا بیکار ہے۔ ویسے یہ اd ہم کئی روز بعد لکھ رہے ہیں اپنے وطن میں ہی۔ اور

آاباد کی بجائے اپنے فیلڈ کمپ کڈاپا ضلعے کے راجم پیٹ ^صبے میں ہیں اس لمSۂ حیدر

موجود میں۔ بہت سی باتیں یادداشت سے نکل بھاگی ہیں۔ اd ہم پھر کچھ ان بھاگتی تتلیوں

کی طر� فکر بہ ^لم۔ Loud Thinkingکو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ

Page 305: اللہ میاں کے مہمان

مئ کو ہی عشاء کے بعد ہم لوگ روانہ ہو گئے8الٹی گنتی ہماری صSیح ہی نکلی۔ یعنی

حکے سے۔ اس دن کی اہم بات یہ تو نہیں بھول سکتے کہ طواف وداع کیا تھا۔ یہ بھی تھے م

عدد طواف ہو گئے تھے۔ اور اس وجہ سے طبیعت پر سکون تھی۔7یاد ہے کہ اس دن ہمارے

آانسو بہے۔ بلکہ اسی طواف میں ہی نہیں، dح^ت طاری تھی۔خو مگر طواف وداع میں بہت ر

آانسوؤں پر ^ابو نہیں رہا تھا۔ یا اللہ! یہ تو نے ایسا کیسا نظم دن بھر دوسرے طوافوں میں بھی

حچوں سے ملا^ات رکھا ہے۔ مہمان اپنے گھر جاتا ہے تو ہنسی خوشی جاتا ہے کہ اd اپنے ب

ہوگی۔ اپنے گھر میں سکون سے رہیں گے۔ مگر تو اپنے گھر مہمان کو رخصت کرتا ہے تو

رلاتا ہے۔تو نے اپنے گھر میں یہ کیا طلسم رکھ دیا ہے خدایا۔ گناہوں سے توبہ اور معافی کے

آارہی تھی کہ اپنے گھر پھر مہمان بنانا اللہ میاں۔ ہم تیری خیال سے زیادہ یہی دعا ہونٹوں پر

میمانی سے ابھی تشنہ ہی چلے جا رہے ہیں۔ تری رحمتوں کے صد^ے، بس یہ کرم اور کر دے

کہ پھر اپنے گھر جلد ہی بلا لے۔

آاخر اس دن کی اہم بات یہ بھی ہوئی کہ اس شام ہم نے عصر کے بعد جو طواف کیا تو بالکل

ت کعبۃ اللہ ت میں کیا۔یعنی ادھر فارغ ہوئے ادھر مغرd کی اذان ہو رہی تھی۔ اور ہم اس و و

ت سنگ اسود کے ^ریب ہی تھے۔ اس لئے چوتھی صف میں ہی جگہ مل گئی۔ اگرچہ اس و

عہ تو نہیں ملا)لوگوں کو دیکھا ہے کہ ^ریب ہونے پر نماز کا سلام پھیرتے کو بوسہ دینے کا مو

ہی اس طرف دوڑتے ہیں( مگر امام السدیس صاحب کے دیدار ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ ملتزم کے

^ریب یا کعبے کے دروازے کے ^ریب ہی امام کھڑا ہوتا ہے۔ سدیس صاحب کو دیکھا تو

سال کے ہوں گے۔50احساس ہوا کہ کوئی بہت زیادہ عمر تو نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ

Page 306: اللہ میاں کے مہمان

Typicalاور اس وجہ سے عمر کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے دوسرے عربوں ،dعر

آاگئے۔ موصوف نے ایک دوسری ہی بات لکھی ہے کہ دور سے کی طر� ۔ اس پر یوسفی یاد

سال کی ہی لڑکی نکلتی ہے۔25 سال کا لڑکا لگتا ہے، ^ریب جانے سے وہ 25جو نوجوان

سال کا نکلتا ہے۔52 سال کا لگتا ہے، ^ریب سے 25یہاں یہ حالت ہے کہ جو عرd دور سے

االٹا بھی ممکن ہے۔ اس کا

مغرd کے بعد ہم سب جمع ہو گئے اور سب نے ساتھ ہی طواف وداع کیا، اس کے بعد

ت کی یہ بات بھی یاد ہے کہ ہمارے ^یام عشاء کی نماز باہر کے صSن میں پڑھی۔ ہاں اس و

بز جنازہ نہیں ہوئی۔ لیکن جب عہ تھا کہ کوئی نما کے دوران عشاء کی نماز کے بعد یہ پہلا مو

آارہے تھے تو ایک جنازہ سوئے حرم جا رہا تھا ۔ یعنی یہ جنازہ اگر تھوڑی دیر ^بل ہم واپس

پہنچتا تو ہم اس انھونی بات کا ذکر نہیں کرتے۔ بلکہ اس انھونی بات کا ذکر کرتے کہ

ہمارے ^یام کے دوران ایک نماز بھی ایسی ہم نے نہیں پڑھی )جن نمازوں میں ہمیں شریک

بز جنازہ نہ ہوئی ہو۔ ہونے کی سعادت نہیں ملی، ان کا نہیں کہہ سکتے( جس کے بعد نما

بد نبوی میں ضرور آائے تھے کہ نماز جنازہ نہ ہوئی ہو کسی جماعت3۔2مسج عے ایسے مو

حتفاق تھا۔ حکہ میں یہ پہلا ا کے بعد مگر حرم م

اادھربا^ر اور زرینہ بھی۔ آاگئیں۔ اور بادھربسیں آائے تو کھانے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ واپس

سامان پیک کرنے میں انھوں نے بھی مدد کی، جلدی جلدی کھانا کھایا اور پھر بسوں میں

بیٹھ کر ان سے رخصت لی۔

Page 307: اللہ میاں کے مہمان

حلم کے مکتب سے نکلنے تک ساڑھے بارہ۔11عمارت سے نکلتے نکلتے بج گئے تھے۔ اور مع

آافس پر بھی۔ یہاں ہر حاجی کو ایک مہر بند پھر مختلف تفتیشی نقاط پر بس رکی۔ زم زم کے

حدہ پہنچے تو ساڑھے تین بج رہے تھے۔ لوگ بسوں میں اا دی گئی۔ ج زم زم کی بوتل بھی تSفت

آانکھ بند نہیں ہوئی۔جب تک بسوں آارہے تھے۔ ہماری تو ایک لSظے کے لئے بھی سوتے ہوئے

حدہ میں رہنے کا انتظام کیا، فجر سے سامان اترا اور ہم نے اپنا سامان جمع کر کے ڈیڑھ دن ج

ت ہو رہا تھا۔ )ہندوستان کے لئے ایک علا^ہ مSفوظ تھا اور وہیں کہیں بھی ہم لوگ زمین کا و

کے فرش پر اپنا ڈیرہ ڈال سکتے تھے(۔ پتہ چلا کہ ایر پورٹ پر ہی ہمارے رہنے کی جگہ کے

^ریب ہی ایک با^اعدہ مسجد ہے۔ عمارت تو نہیں مگر کٹہرا ضرور تھا۔ با^اعدہ امام اور مائک

حدت کا انتظام تھا۔ کافی بڑی جماعت ہوئی۔ فجر کی نماز پڑھ کر سونے کے لئے لیٹے تو ش

حدت کی اس لئے کہ ہمارے پاس کوئی گرم کYڑا نہیں تھا کہ اس کی سردی ہو رہی تھی۔ ش

عہ تھا کہ اتنی سردی تھی، شاید اس لئے کہ کی ضرورت مSسوس نہیں کی تھی۔ یہ پہلا مو

ت۔نماز کے بعد مظہر بھائی کے ساتھ یہ کھلا علا^ہ ہے اور پھر زمین کا فرش اور فجر کا و

آائی اور ایک چائے پی کر سونے کے لئے لیٹے۔ بڑی مشکل سے چھہ بجے کے ^ریب نیند

ساڑھے سات بجے پھر اٹھ بیٹھے۔

حکے سے نکلے تھے، 9اس دن تاریخ9 مئ کو، ویسے تو جب ہم جدہ پہنچے تھے، بلکہ م

شروع ہو چکی تھی، جمعہ تھا۔ ایر پورٹ میں ہی ایک با^اعدہ مسجد بھی ہے۔ وہیں جمعے

ہیں ایر پورٹ پر ہی۔ اسی بغیر3۔2کی نماز ہوئی۔ جہاں فجر پڑھی تھی، ایسی مسجدیں مزید

/ مئ کی فجر اور ظہر10دیوار کی مسجد میں ہماری عصر، مغرd، عشاء اور پھر اگلے دن

Page 308: اللہ میاں کے مہمان

/ کی صبح پہلے ایر انڈیا کے کاؤنٹر پر پاسYورٹ جمع کرنے پڑے جن پر9بھی ادا ہوئیں۔

بجے واپس دے دیا گیا۔ اسی کے ساتھ جہاز کے ٹکٹ5کچھ اندراج کے بعد ہم کو شام

ت وہیں ایر پورٹ کے بازاروں میں کی بکنگ بھی ہو گئی اور 'او ۔کے' ٹکٹ مل گئے۔با^ی و

گھومتے رہے۔ وہاں بھی بہت دوکانیں ہیں بلکہ کچھ سستی ہی۔ اd حج سیزن کے اختتام

ت دو دو ریال کی جگہ آاوازیں لگ رہی تھیں وہاں۔ 5کے و ریال5۔5 ریال میں تین اشیاء کی

ریال میں دو15 ریال بلکہ ایک دوکان پر 8 ریال والی چیزیں 10 ریال میں تھا۔ 4۔4والا سامان

ریال کا سامان زیادہ لیا5۔5عددمل رہی تھیں۔بہت کچھ خریداری وہاں سے بھی کر لی۔

دوسروں کو دینے کے لئے،چار عدد کیلکولیٹرس خریدے،، اس کے علاوہ موتیوں کا ایک پرس،

حYل بھی اور خریدی ۔ صابرہ کے لائٹر کا ایک سیٹ، شمیص، صابرہ نے ایک سنگاپوری چ

آاخری دن ہم حکے کے آائی، ہاں، م بھائی کے لئے بھی سینڈل دیکھ رہے تھے مگر پسند نہیں

حYل اور خریدی تھی سوچا کہ وہی چھوٹے بھائی کو دے دیں گے۔ اگر چھوٹے نے ایک چ

آاتی ہے جو ہم نے مدینے سے اپنے لئے بچپ' سینڈل پسند ریال کی لی25بھائی کو وہ اطالوی'

تھی، تو وہ ان کو دے دیں گے اور یہ خود استعمال کریں گے۔

حدہ ایرپورٹ پر طازج فقیہہ کی بھی ایک دوکان تھی جس کے بارے میں ہم پہلے لکھ چکے ج

حکہ کی دوکان میں ہم نے با^ر اور اشفاق بھائی کے ساتھ کھانا کھایا تھا ہیں اور جن کی م

عہ نہیں ملا۔ مظہر بھائی اور ایک دن۔ مگر وہاں ایر پورٹ پر اس دوکان سے مرغ کھانے کا مو

دوسرے ساتھی دوسری دوکان سے ہی کھانا خرید رہے تھے تو ہم نے بھی سب لوگوں کے ساتھ

11/ کو دوپہر کا کھانا ہی نہیں ممکن ہو سکا کہ 10ہی کھانا کھایا مگر سبزی کھائی۔

Page 309: اللہ میاں کے مہمان

بجے سے ہی چل چلاؤ لگ رہا تھا۔ظہر کی نماز جماعت سے پڑھ کر ہی ایر پورٹ کی

بجے جہاز میں3عمارت کے اندر داخل ہو گئے۔ سامان کی چیکنگ اور وزن وغیرہ ہوا، پھر

لے جائے گئے۔ یعنی وہی ایر پورٹ سے سیدھے ہی جہاز میں لے جائے گئے عمارت کی

سےڑھیوں سے ہی۔ سےڑھیوں کے سرے پر ہی ادارہ سنون الکتب کے کارکن کھڑے تھے اور ہر

آان دے رہے تھے۔ یہاں بھی ہم نے انگریزی ترجمے کی اپنی حرہ ^ر حاجی کو ایک ایک مع

آان مزید مل گیا ااردو'۔ خیر ہم دونوں کو ایک ایک ^ر یہذا فرمائش جاری رکھی، مگر جواd ملا '

اف کا ذکر اردو میں ہے۔ اور کیوں کہ یہ پریس سے ہے جس میں اردو اتنی ہے کہ رمور و او

ابھی باہر نکلے ہیں اس لئے ان کا گیٹ اپ سب سے بہتر ہے۔ انھیں میں سے ایک ہم بشیر

میاں کو دے دیں گے۔

ت کے مطابق ت اگرچہ سعودی و پر ہی اندر لے3۔20 دیا گیا تھا مگر 3۔50جہاز کا و

اا ڈھائی گھنٹے بڑھا لیں3۔25جائے گئے اور آاف کر دیا۔ہم نے گھڑیاں فور پر ہی جہاز نے ٹیک

ت کے مطابق۔جہاز میں اسی دن کا ممبيئ کا 'انقلاd' اخبار مل رہا تھا۔ اس ہندوستانی و

یی کے حادثے کی ایک چشم دید رپورٹ تھی مگر اس میں کافی تلخی تھی۔اس میں بھی من

کا احساس ہم کو وہاں نہیں ہوا تھا۔ مگر انقلاd کے صSافی صاحب کا مشاہدہ تھا کہ

ہندوستانی حج کمیٹی اور سفارت خانے کے لوگ اور یہاں کے وفد کے لوگوں کو بجائے

حثرین کو امداد بہم پہنچانے کے اپنے رشتے داروں کی 'سائٹ سینگ') Sightمتا

seeingیہاں وطن dکے لئے گاڑیوں کے انتظام کی زیادہ فکر تھی۔ واللہ اعلم۔ بلکہ ا )

یی آایا ہے کہ جب من آا کر معلوم ہوا ہے کہ یہاں کے اخباروں میں اور ٹی وی پر بھی یہ تک واپس

Page 310: اللہ میاں کے مہمان

حجاج کو اپنی جان آاگ لگی تو خیموں کے دروازے بند کر دئے گئے تھے اور وہاں کے ح میں

بچانے کے لئے نکلنے نہیں دیا گیا۔ ہندوستانی سفارت خانے کو یہ شکایت ہے کہ حج مکمل

حطلاع ہی دی اور نہ12ہونے یعنی / ذی الSجہ تک نہ ان کو سعودی حکومت نے کوئی ا

بم حادثہ تک جانے دیا۔ ہم کو اتنا تو معلوم ہے اور ہم حالات کا جائزہ لینے کے لئے ان کو مقا

لکھ بھی چکے ہیں کہ ہمارے خیمے میں یہی اعلان کیا جا رہا تھا کہ باہر نہیں جائیں اور

آاگ پر ^ابو پا لیا جائے گا۔ اگرچہ ہم نے اس پر اس لئے عمل اپنے مقام پر ہی رہیں۔ انشاء اللہ

نہیں کیا کہ ہم کو شک تھا کہ یہ ممکن نہ ہو سکے گا مگر اس سلسلے میں ہم یہی

حمید ہوگی اور وہ یہ چاہتے ہوں گے کہ لوگوں میں ہراس نہ سمجھتے ہیں کہ وا^عی عملے کو یہ ا

آا کر معلوم ہوا پبھیل جائے۔ اس میں کسی سازش کا سمجھنا غلط ہی لگتا ہے ہم کو تو۔ یہاں

آاباد میں بھی سیکریٹیرئٹ میں ایک سYیشل سیل کھولا گیا کہ دہلی میں ہی نہیں یہاں حیدر

حطلاع دی جا سکے۔ یہاں کیا پورے حثرین کے رشتے داروں کو ان کے بارے میں ا تھا کہ متا

ہندوستانی96ملک میں لوگ اپنے رشتے داروں کے لئے پریشان تھے۔ عرd نیوز میں ہم نے

پاکستانی شہیدوں کی فہرست دیکھی تھی ۔ یہ خبر بھی تھی کہ دوسرے87شہیدوں اور

ملکوں۔ سوڈان، انڈونیشیا، چین اور مصر وغیرہ کے بھی دو دو چار چار حاجی شہید ہوئے

کی جو سعودی حکومت کی فہرست ہے اس میں370تھے۔ بنگلہ دیش کے کچھ زیادہ اور

شک کی گنجایش بہت زیادہ تو نہیں ہے۔ مگر یہ فہرستیں کافی بعد میں جاری کی گئیں اور

یہ وا^عی سعودی حکومت کے لئے ممکن نہیں تھا کہ عین حج کے دوران ہر حاجی کے بارے

میں اس کی خیریت کی اطلاع حاصل کریں۔

Page 311: اللہ میاں کے مہمان

یی کے حادثے کے چشم دید گواہ ضرور ہیں مگر اس حد تک کہ ہم نے مSض ہم بھی من

حصہ لیا ہے )ہندی میں دھوئیں کے بادل دیکھے ہیں اور بھگدڑ کا نظارہ کیا ہے بلکہ اس میں ح

'بھاگ' لیا ہے زیادہ موزوں ہے کہ ہم بھی بھاگے ہیں(۔ ہاں یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے

حجاج معلوم Sحدام ال آایا۔ خ خیموں کی طرف کوئی ہندوستانی کارکن خیریت معلوم کرنے نہیں

نہیں کہاں تھے جو سرکاری خرچ پر وطن کے حاجیوں کی امداد کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔

شاید وہ بھی اپنے حج کے ارکان میں لگے ہوں گے۔ معلوم نہیں کہ جب کوئی حادثہ نہیں ہوتا

حمہ داری کیا ہے کیوں کہ جو لوگ پہلے حج کر چکے تھے ان کا بھی یہی ہے تو ان کی ذ

کہنا ہے کہ ان کو معلوم ہی نہیں کہ کچھ حضرات سرکار کی طرف سے اس غرض سے

آافس کے آاتی ہے۔ حج بھیجے جاتے ہیں۔ جب ضرورت ہوتی ہے تو لوگوں کو بھی ان کی یاد

ہیلتھ سینٹر کا تو ہمارا تجربہ ایسا تلخ نہیں تھا، ہاں حج کے بعد جب گئے تو معلوم ہوا کہ

آاتش ہو گئیں اور اس باعث بعد میں یہ بر کئی لاکھ کی دوائیں ہندوستانی ہیلتھ سینٹر کی نذ

آاگ آامد ثابت نہیں ہو سکا۔ سعودی حکومت کو بھی یہاں بد نام کیا جا رہا ہے کہ سینٹر کار

پر ^ابو پانے کی خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی۔ ہم ان سب حالات میں خاموش رہنا بہتر

آاگ پر ^ابو پانے کے انتظامات جو ہم نے دیکھے تھے )راستوں میں پانی کا سمجھتے ہیں۔

چھڑکاؤ مSض گرمی کم کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ بعد میں اس سے ضرورت کا کام بھی

لیا گیا۔ ہر کیمپ میں اونچائی پر بڑے بڑے ہوز پائپ بھی لگے تھے جن سے پانی کھول کر

خیموں کو بھگویا گیا تھا، وہ بھی ہم نے دیکھا۔ اd معلوم نہیں کہ اور مزید کیا کیا انتظامات

Page 312: اللہ میاں کے مہمان

کئے گئے تھے اور کئے جا سکتے تھے جس میں سعودی حکومت کو نا کارہ ^رار دیا جا

سکے۔

آاگ کی بات کرنے لگے۔ یی کی بہر حال ہم جہازکی بات کرتے کرتے من

جہاز کافی عرصے تک، یعنی سورج ڈوبنے تک سعودی سر زمین پر ہی اڑتا رہا اور پہاڑ اور

ت کے فرق کا یہ اثر بھی ہوا کہ مغرd کے تھوڑی ہی دیر بعد عشاء آاتے رہے۔ و ریگستان نظر

ت بھی ہو گیا۔ ہم نے ساری نمازیں بھی پڑھیں اور اپنے اندازے کے مطابق ^بلہ رخ کر کا و

ت سمت کچھ کے، یعنی اڑان کی سمت سے الٹی سمت میں۔ حالاں کہ سورج ڈوبتے و

زاوئےے پر تھی اور کچھ لوگوں نے اس سمت میں رخ کرنا بہتر سمجھا۔ ہمارے اکثر

ہندوستانی لوگوں کے ذہن میں یہی رہتا ہے نا کہ ^بلہ مغرd میں ہے اور اس باعث مدینے میں

یی میں بھی دیکھا کہ اگرچہ ^بلے کی سمتوں کی کئی جگہ نشان دہی کی گئی اور عرفات من

حرر کرنے کی کوشش کرتے دیکھے تھی، مگر لوگ پہلے سورج دیکھ کر ^بلے کی سمت مق

گئے تھے۔ کئی بار ہم کو ہی اس سلسلے میں مدد کرنی پڑی۔

ت کے مطابق رات ساڑھے گیارہ بجے بنگلور ایر پورٹ پر اترے۔ اور اd سیڑھیوں پر ہندوستانی و

آانا پڑا۔ وہاں استقبال کرنے سے اتر کر زمین پر کافی پیدل چل کر ایر پورٹ کی عمارت تک

آاندھرہ پردیش حج کمیٹی کے چئر مین بھی۔ والوں میں روشن بیگ بھی موجود تھے اور ہماری

اور بھی کئی لوگ تھے۔ ہم کو پہلے باہری لاؤنج میں ہی بٹھایا گیا۔سب کی چائے سے تواضع

کی گئی۔اجتماعی دعا کی گئی۔ حج کمیٹی کے والنٹئر بھی موجود تھے ہی اور سامان اتارنے

Page 313: اللہ میاں کے مہمان

میں انھوں نے بہت مدد کی۔ اس میں ہی کافی دیر لگ گئی۔ ٹرالیاں ضرور کم تھیں اس لئے

کافی انتظار بلکہ افرا تفری رہی۔ خیر۔ سامان اتر گیا تو ^طار در ^طار سب کو لاؤنج سے

سیدھے ہی باہر لے جایا گیا، اندر ایر پورٹ پر نہ سامان کی چیکنگ کی گئی نہ کسٹم کی

جانچ پڑتال۔ یہ سب حج کمیٹی اور بطور خاص روشن بیگ صاحب کی کوششوں سے شاید۔

ہمارے پاس تو خیر کسٹم سے چھYانے والی کوئی چیز نہیں تھی، مگر جن کے پاس تھی

بھی، وہ رشوت کے ایک مزید گناہ سے بچ گئے۔ ویسے تو غیر ^انونی حرکت بھی گناہ تو ہے

آاخر بجے ہم2ہی اس میں کس کو شک ہے! بہر حال سامان جمع کرنے میں دیر لگی اور

آاسکے۔ باہر بھی حج کمیٹی کاکمپ لگا تھا اور حاجیوں کے ٹرالیوں میں سامان لے کر باہر

آا چکے ہیں آاتے ہی ان سے نام پوچھ کر اناؤنس منٹ کیا جا رہا تھا کہ فلاں صاحب باہر باہر

حطلاع مل جائے۔ ہم نے تو سب کو آائے ہوں تو انھیں ا کہ ان کے کوئی رشتے دار انھیں لینے

منع کر دیا تھا اور ہمارے مشورے پر سب نے عمل بھی کیا تھا۔ حج کمیٹی والوں نے معلوم

آاباد تھا اور وہاں جانے کی خواہش کرنے والوں کیا کہ ہمارا ارادہ کیا ہے۔ حج کمپ اd بھی

کے لئے مفت بسوں کا انتظام تھا، مگر جو لوگ کہیں اور جانا چاہ رہے تھے ان کی اتنی مدد

کی گئی کہ ٹیکسیوں کے ٹوکن دلوا دئے گئے۔ ہم نے پہلے تو ساتھیوں کو رخصت کیا۔ مظہر

آا گئی تھیں تو وہاں کے سبھی ساتھی حبار بھائی کے لئے مSبوd نگر سے جیYیں بھائی اور ج

اس میں چلے گئے۔اس کے بعد ہم نے بنگلور سٹی سٹیشن کی ٹیکسی کا ٹوکن لیا اور سٹیشن

روپئے ٹیکسی میں لگے۔ صبح ساڑھے تین بجے کے ^ریب سٹیشن پہنچے اور پھر150آاگئے۔

آاباد کے لئے واپسی۔5/ مئ کو ہی شام کو 11 بجے کی ٹرین سے حیدر

Page 314: اللہ میاں کے مہمان

آا گیا کہ اگرچہ معروف یہی جملہ ہے مگر در اصل آائے۔ یہاں یہ یاد خیر سے حاجی گھر کو

آابادی استعمال ہے۔ یہاں لوگ گھر یا دفتر جاتے نہیں ہیں، گھر 'کو' یا دفتر'کو' جاتے یہ حیدر

آاگئے ہیں اور مSاورہ بھی یہی ہے اس لئے ہم پھر یہی کہیں آاباد ہی ہیں۔ اd ہم بھی حیدر

آائے۔ رہے نام اللہ کا۔ گے کہ لوٹ کے حاجی گھر کو

ء97/جون 2

آاندھرا پردیش راجم پیٹ، ضلع کڈا پا،

پروف ریڈنگ اور ای بک: اعجاز عبید

آائی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ آارگ، کتابیں ڈاٹ فری ڈاٹ250اردو لائبریری ڈاٹ

کام کی مشترکہ پیشکش

http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com, http://kutub.250free.com