بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

341
ا ت ل د ب ے ہ گ ن ر ں ا م س آ ے س ی ک ے س ی ک ور ر ف آ دہ$ ت س

Upload: aijazubaid9462

Post on 27-Jul-2015

935 views

Category:

Documents


1 download

DESCRIPTION

افروز سیدہhttp://kitaben.urdulibrary.org/AllBooks.html

TRANSCRIPT

Page 1: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کیسے کیسے آ�سماں رنگ ہے بدلتا

سیدہ افروز

Page 2: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ترتیب

4.....................................................................ہے یبھ آ�ج ر�یت۔۔ �نتظار

9......................................................................فر مسا کے ہوں ر� کی تار

14................................................................................منزل گمشدہ

21................................................................................مسلسل کرب

28...................................................................................نمبر ر�نگ

37.................................................................................مات �ور شہ

45..........................................................سےیک سےیک آ�سماں رنگ ہے بدلتا

52............................................................................کروٹ یک وقت

58......................................................................رہے کھتےید غبار ہم �ور

65..............................................................................شبنم ی�سیپ

73.........................................................................ر�ت یک صلےیف

78................................................................................عمل مکافات

87......................................................................................مر�د نا

94...........................................................................قسم یک غم شام

Page 3: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

98...............................................................................حایمس تل قا

102..............................................................................آ�رزو مانیپش

106.......................................................................یپائ سز� نے وںیصد

112..............................................................................بعد کے طوفان

120..................................................................................کشمکش

126...........................................................................رنگ کے یزندگ

130..........................................................................فاصلے گئے سمٹ

133............................................................................�جالے رےی�ندھ

138........................................................................یکشت یک غذ کا

143..............................................................ہے یجات ہو سحر یک شب ہر

146........................................................................ںیہ یبھ �ور جہاں

153.....................................................................................سسر�ب

161..........................................................................چبھن یک پھولوں

164..................................................................................عنو�ن بلا

Page 4: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ہے بھی آاج تیرا انتظار۔۔

میری روح کی ہر �ک خو�ہش

میرے ٹوٹے جسم کی نس نس

ہاتھوں میں کشکول �ٹھائے

تجھ سے تجھی کو مانگ رہی ہے

گر حالات کی گردش تم کو

�ک لمحے کی مہلت دے دے

میری بکھری ذ�ت کو صنم

�پنی قربت میں لے لینا

�پنی چاہت �پنی �لفت

بے شک �پنے پاس ہی رکھنا

سانسوں کی یہ کچی ڈوری

ہو سکتا ہے ٹوٹ ہی جائے

Page 5: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

روح سے میرے جسم کا رشتہ

ہو سکتا ہے ٹوٹ ہی جائے

نن جاناں جب مر جاؤں جا

میری قبر پر پھول چڑھانے

آ�نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آ�نا۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم چلے تم چلے

و�جد! میں عمر کی �س سرحد میں قدم رکھ رہی ہوں جہاں پہنچ کر تنہائی کا شدید �حساس ہوتا ہے۔ یہ موڑ عورت

کی زندگی کا سنگینموڑ ہوتا ہے۔ �یک �یسے ساتھی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو �ن تاریک ر�ہوں پر �س کا

ہاتھ تھام کر چل سکے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہوئی تھی۔ پھر بھی روزی �پنے بستر پر لیٹی وہ کروٹیں بدل رہی تھی۔ قریب ہی �س کی بیمار ماں بے سدھ سوئی

آ�پ کو تنہا محسوس کر رہی تھی۔ ٹیپ ریکارڈر پر درد میں ڈوبی ہوئی میوزک کمرے کی فضاء کو �ور بھی �پنے

یی عہدہ پر فائز تھی �د�س کر رہی تھی۔ ماں کی خاطر �س نے وقت سے پہلے ریٹائر منٹ لے لیا تھا۔ وہ �یک �عل

بڑی مصروف زندگی تھی۔ �س نے و� جد کو فون پر بتا دیا تھا کہ وہ لندن سے و�پسا گئی ہے �ور �س کے لئے

�سے صبح کا شدت سے �نتظار تھا �یک ہفتہ بعد و� جد سے ملنے کی خوشی تھی بیش بہا تحفے بھی لائی ہے۔

آ�نکھیں بند لیکن دل جا نے کیوں �یک �نجانے خوف کی گرفت میں تھا۔ روزی سونے کی کوشش کر رہی تھی۔

آ�ئے ہی نہیں تھے۔ وہ شا دی کر کے �پنا گھر کئے �ن لمحوں کو تلاش کر رہی تھی جو �س کی زندگی میں

یوں تو �سے بے بسانا چاہتی تھی۔ ملازمت کے دور�ن �یسا کوئی ساتھی نہ ملا جو �س کے معیار پر پو ر� �ترتا۔

Page 6: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

دولت �ور شہرت پر تھی۔ زندگی بڑے ہی �ضطر�ب شمار لوگ ملے لیکن ہر �یک کی نظر �س کے حسنو شباب پر

پر جو �نی پڑی سسکنے لگی۔ دہلیز میں گزر رہی تھی۔ پتہ ہی نہ چلا ماہو سال کب گزر گئے �ور ڈھلتی عمر کی

کی خاک چھانتی ہوئی طویل ملازمت چھوڑنے کے بعد �س نے �یک گونہ سکون محسوس کیا جیسے صحر�

آ�ئی ہو۔ �سے تھکن کا �حساس ہو رہا تھا کہ �چانک �یک دن پٹرول پمپ پر و�جد سے مسافت طے کر کے

عت �ور سحر �نگیز شخصیت میں کھو گئی۔ وہ چند ماہ پیشتریملاقات ہو گئی۔ وہ �س کی باغو بہار طب

� تھا۔ �سے پٹرول پمپ پر ملازمت مل گئی تھی۔ روزی نے محسوس کیا جیسے کڑیآ�یہندوستان سے �مر یکہ

دھوپ میں چلتے ہوئے کسی گھنے درخت کی چھاؤں میں � گئی ہو۔ زندگی نے �یک نئی کرو ٹلی روزی کی ر�

ہوں میں گلاب بکھر گئے تھے وہ کل و� جد سے صاف بات کر نا چاہتی تھی کہ وہ �س سے شا دی کرے گا یا

نہیں ؟

دو سرے دن و� جد حسب وعدہا گیا صحت �ور زندگی سے بھرپور مسکر�تا چہرہ خوش �خلاق �ور خوش گفتار و�

جد کو دیکھ کر وہ کھل �ٹھی �ور پھر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا رو زی کے �چانک سو�ل پر �س نے جو �ب

:دیا

روزی میں نے تمہیں پہلے بھی سمجھایا تھا کہ میں �یک �چھے دو ست کی حیثیت سے تمہار� ساتھ دے سکتا’’

ہوں لیکن تم سے شادی نہیں کر سکتا مانتا ہوں کہ تم �پنا مذہب چھوڑنے کیلئے تیار ہو لیکن میری �پنی مجبوریاں

ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ میری طرف سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچے۔ ‘‘

و�جد میں �پنا مذہب ہی نہیں چھوڑ رہی ہوں بلکہ کروڑوں کی جائید�د، بینک بیلنس �ور �پنی باقی زندگی ’’

تمہارے نام کر دینا چاہتی ہوں تمہیں بتا چکی ہوں کہ سو�ئے بیمار ماں کے میر� کوئی نہیں ہے۔ رشتے د�روں �ور

�ور محبت کے لئے ترستی تڑپتی رہی ہوں تم سے ملنے کے بعد میں دوستوں نے مجھے خوب لوٹا۔ میں سچے پیار

نے �سلامک لٹریچر پڑھا سمجھا �ور دل سے مسلمان ہو نا چاہتی ہوں۔ تم جیسے مرد کا ساتھ چاہتی ہوں کیا میرے

لئے تمہارے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے ؟ کیا تم �پنی بیوی کو طلاق دے کر مجھ سے شادی نہیں کر سکتے ؟

Page 7: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تمہاری �گر �مر یکہ میں دو شاد یوں کی ممانعت نہ ہوتی تو میں تمہیں �یسا قدم �ٹھا نے کیلئے مجبور نہ کرتی۔

بیوی �ور بچوں کے لئے �تنا کچھ دینے کے لئے تیار ہوں جتنا کہ تم بر سوں �مر یکہ میں محنت کر کے نہیں کما

سکتے۔ ‘‘

و �حساسات کی قدر کرتا ہوں تم دل سے مسلمان ہو نا چاہتی ہو میرے لئے خو شی روزی میں تمہارے جذبات’’

آ�یا کی بات ہے لیکن خز�نہ کے لئے خاند�ن کی قربانی میں نہیں دے سکتا۔ جن کی خاطر رو پیہ کما نے �مریکہ

آ�ج بھی رشتوں کا پاسں ہوں وہی میرے نہ رہی و لحاظ رکھتے گے تو میں دولت کا کیا کروں گا ؟ ہم ہندو ستانی

ندھی بجھا نہیںآ�ہیں ‘‘۔ ’’ میں تم سے روحانی محبت کرتی ہوں جو �یک نور ہے �یسا چر�غ ہے جسے کوئی

آ�ج تک تنہا رہی ویسے میری ملازمت میں شادی آ�نے و�لے تھے �س لئے میں سکتی۔ شاید تم میری زندگی میں

میں عمر کی �س سرحد میں د�خل ہو رہی ہوں جہاں پہنچ کر تنہائی کا �حساس شدید کی ممانعت تھی۔ و�جد

جاتا ہے۔ یہ موڑ �یک عورت کی زند گی کا سنگین مو ڑ ہوتا ہے۔ �یک �یسے ساتھی کی ضرورت محسوس ہو

ریز ہو تار یک ر� ہوں پر ہاتھ تھام کر چل سکے کیا تم میر� ساتھ نہیں دو گے ؟ تمہارے در پر سجدہ ہوتی ہے جو�ن

رندھ گیا۔ نے و�لی محبت �ور دولت کو کیوں ٹھکر� رہے ہو؟ کیوں ؟ روزی کا گلا

آ�ئی ہو تم �یک با ہمت عظیم خاتون ہو میں تمہاری عزت ’’ روزی ڈیر !تم زند گی کے خار د�ر ر� ستوں پر چل کر

‘‘ کرتا ہوں لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ینا ضروری سمجھتی ہوں جو بتا نا نہیں چاہتی دیہ لیکن ویکن چھوڑو ! سنو و�جد ! �ب میں تمہیں وہ بات بتا ’’

آ�ج میں کیسی کشمکش میں مبتلا ہوں ؟ تھی۔ کیا تم سننا چا ہو گے کہ

‘‘ ہاں !روزی بتا ؤ تمہیں کیا پریشانی ہے ؟ کیسی �لجھن ہے ؟’’

‘‘ ہے لیکن یہ نہیں جانتے کہ بیماری کیا ہے ؟ تم جانتے ہو میری ماں بیمار’’

Page 8: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

وہ �لز� ئمر کی مریض ہے تمہیں یہ جان کر تعجب ہو گا کہ دنیا میں �بھی تک �س کا علاج دریافت نہیں ہو’’

نہیں یہ کیسا مرض ہے کیا تم وضاحت کرو گی؟‘‘ سکا‘‘۔ ’’ میں سمجھا

آ�ہستہ60سا ٹھ ) ’’ ( سال سے ز�ئد عمر و�لے مر د�ور عورتیں �س بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ �نسان کا حافظہ

شتے د�روں کو تک رآ�ہستہ کمزور ہو نے لگتا ہے وہ ہر بات بھولتا جاتا ہے جب مرض بڑھ جاتا ہے تو وہ �پنے قریبی

آ�پ کو بھی بھول جاتا ہے۔ میری ماں �لز�ئمر کی مریضہ ہے پہچاننے سے قاصر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ �یک دن �پنے

ڈ�کٹروں نے بتا یا ہے کہ یہ موروثی بھی ہو سکتی ہے شا ید �سی لئے میں بھی �س مرض میں مبتلا ہو رہی ہوں۔ �کثر

ڈ �کٹروں نے فیصلہ کیا ہے کہ زہر کا �نجکشن دیکر ماں کی زند �پنے �ہم �ور ضروری کام بھول جاتی ہوں۔ �ب

گی کا خاتمہ کر دیں کیونکہ میں خود زیادہ عرصہ تک �ن کی دیکھ بھال نہیں کر سکوں گی دو� خانوں میں

�یسے مریضوں کے مر نے کا �نتظار نہیں کیا جا تا۔ شا ید �یک دن میر� بھی یہی حشر ہو گا۔ تم جانتے ہو میں

ا�س حالت کو بے �ند�زہ دولت کی ما لک ہوں میری موت کے بعد یہ سب کچھ گورنمنٹ کا ہو جائے گا میں

پہنچنے سے پہلے چاہتی ہوں کہ �پنا سب کچھ تمہارے حو�لے کر دوں �ب فیصلہ تم پر چھوڑتی ہوں۔ ‘‘

روزی یہ سب کچھ جان کر مجھے حیر�نی ہو ئی۔ میری دلی ہمدردی تمہارے لئے بڑھ گئی ہے۔ �گر میں نے تم’’

مطلب یہ نہیں لی تو تمہاری گورنمنٹ میر� کیا حشر کرے گی ، کیا �س شادی کا سیدھا سے شا دی کر بھی

ہوتا کہ میں نے دولت کی خاطر یہ قدم �ٹھا یا ؟ تمہاری مجبوری کا نا جائز فائدہ �ٹھا یا تب میری �لجھن کتنی بڑھ

‘‘ جائے گی ؟

آ�نکھوں سے و� جد کو دیکھ رہی تھی �س کے چہرہ پر �لتجا تھی۔ بے بسی تھی وہ سوچتے ہوئے روزی خالی خالی

گو یا ہو ئی’’ سنو! ہم �یک کام کر سکتے ہیں تم �پنے بیوی بچوں کو یہاں بلو� لو۔ بچوں کی تعلیم تو �چھی ہو

جائے گی پھر ملازمت بھی مل جائے گی �سطرح تم میرے قریب تو رہ سکتے ہو میں سب کا تمام خرچ �ٹھا نے

کے لئے تیار ہوں۔ ‘‘

Page 9: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

و� جد �ور �س کی �یک دن و�جد کی بیوی �ور بچے �مر یکہ پہنچ گئے دو تین مہینے سیر تفریح میں گزر گئے۔

فیملی بہت خوش تھی۔ روزی مطمئن سی ہو گئی تھی و� جد سے �س کی قربت �ور بے تکلفی نے �س کی بیوی

کر دیا �س نے �پنی طرف سے خلع نا مہ و� جد کو دیدیا �ور وہ سب ہندوستان و�پس کو کچھ سوچنے پر مجبور

پر حملہ ہو �۔ پھر وہاں مسلمانوں کی کایا ہی پلٹ گئی بے حساب ٹریڈ سنٹر چلے گئے۔ چند ماہ بعد ہی ورلڈ

آ�ج روزی گورنمنٹ کی طرف سے دو� خانہ میں شریک ہے لوگ �پنے �پنے وطن لو ٹ گئے جن میں و�جد بھی تھا۔

نہیں ہے پنی گرفت میں لے لیا ہے۔ �سے و� جد کے سو� کچھ بھی یاد ��لز�ئمر کے مرض نے �سے پوری طرح

آ�ئے گا؟ آ�تی ہے تو �پنے تیمار د�روں سے پوچھتی ہے و�جد کہاں گیا ہے ؟کتنی دیر میں کبھی یاد د�شت عود کر

آ�نے کو آ�ؤ نا! ‘‘۔ کچھ دیر بعد �س پر �سے جلدی کہو۔ میں �س کا �نتظار کر رہی ہوں۔ و�جد! و�جد! جلدی

آ�غوش میں چلی جاتی ہے۔ لیکن �س کی �د ھ غنودگی چھا جاتی ہے۔ شا ید �نجکشن کے �ثر سے نیند کی

آ�نکھیں کہتی ہیں کہ �نھیں کسی کا �نتظار ہے۔ کھلی

*****

Page 10: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

فر مسا کے ہوں را یک رتا

یا ہے بے حجابی کا عام دید�ر یار ہو گاآ�ز ما نہ

شکار ہو گاآ��ب سکوت تھا پردہ د�ر جسکا وہ ر�ز

گزر گیا وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے و�لے

بنے گا سا ر� جہاں مئے خانہ ہر کوئی بادہ خو�ر ہو گا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

�ٹھا کر و�ہ رضیہ بیگم! تم نے �ور تمہاری لاڈلی نے خاند�ن کا نام خوب روشن کیا ہے تم لوگوں نے ہمیں سر’’

آ�ئے ؟�ڑ نے سے پہلے �س کے پر کیوں نہ کاٹ چلنے کے قابل نہیں رکھا۔ کیا �س چڑ یا کے پر تمہیں نظر نہیں

آ�نے و�لی رقم کافی نہیں تھی جو بیٹی کو کمانے کیلئے بھیج دیا ؟ دین کی �ور دنیا کی دئیے ؟کیا باہر سے

عد�لت میں تمہیں جو�ب دینا پڑے گا۔ بتاؤ تم نے یہ قدم کیوں �ٹھایا جو سیدھے جہنم کی طرف لے جانے و�لا ہے

!!جو�ب دو

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

�س دن ثمینہ کے پیروں میں جیسے پہئے لگ گئے تھے۔ وہ بنا پروں کے �ڑتی پھر رہی تھی �س نے میڑ ک کا

آ�سمانی سوٹ سونے نگ کا نیا ر�متحان فرسٹ ڈیویثرن میں پاس کیا تھا �سی خو شی میں جشن منا یا جا رہا تھا۔

کی خوبصورت چین �ور بالیاں پہنی ہوئی ثمینہ کا سونے جیسا رنگ دمک �ٹھا تھا۔

Page 11: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تھاT.Vثمینہ کا تعلق �یک قد �مت پسند �وسط گھر�نے سے تھا بچے بڑے سبھی دین کے پا بند تھے۔ گھر میں

کھولنے کی �جازت نہیں تھی۔ لڑکیوں کوT.V لیکن بڑے بزرگ صرف خبریں سن لیا کر تے تھے۔ بچوں کو

یی تعلیم دلا نے سے گریز کیا جاتا تھا چونکہ ثمینہ بچپن ہی سے شو خ و شریر �ور بے حد ذہین تھی �س کے �عل

� لات �ور بڑھتی ضروریات کے تحت �نھوں نےو�لد کا خیال تھا کہ وہ جہاں تک پڑھنا چاہے پڑھائیں گے بدلتے ح���

�ر�دہ کیا چند مہینوں کی کوشش کے بعد سعودی عرب کی �یک کمپنی میں دیار غیر جا کر رو پیہ کما نے کا

قم �ور کچھ رملازمت مل گئی ثمینہ کے پاس ہو نے کی خو شی میں تقریب کے �ہتمام کے لئے �نھوں نے معقول

تحفے بھیجے تھے۔

رنگ دکھا یا نئے زمانے کی نئی چیزیں گھر کو زینت بخش رہی تھیں۔ خاند�ن کے یل پیل نے �پنا رپیسے کی

فا خرہ کی کا میا بی پر �س لوگ �س تبدیلی کو دیکھ کر �نگشت بدند �ں تھے۔ دو سرے دن ثمینہ کی سہیلی

آ�نے کے گھر دعوت تھی۔ جس میں شر کت کے لئے ثمینہ کو مشکل سے �جازت ملی۔ ماں نے جلدی لو ٹ

طرف تاکید کی۔ �پنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لئے جب �س نے فاخرہ کے گھر میں قدم رکھا تو دیکھا ہر کی

ہے۔ مہکتی چہکتی خوشبو میں نہائی لڑکیوں �ور قہقہے لگا تے خوش لباس لڑکوں کو دیکھ و نور بکھر� ہو� رنگ

ئی۔ گھر و� لوںآ�کر وہ �لٹے پاؤں و�پس جا نا چاہتی تھی کہ فا خرہ نے �سے دیکھ لیا �ور ہاتھ پکڑ کر ہال میں لے

سے تعارف کے بعد شر مائی لجائی سی �یک بازو کرسی پر بیٹھ گئی �س کی ہم جماعت کچھ لڑکیاں �س کے

کر بیٹھ گئیں �ور کچھ فا خرہ کی کزنس تھیں جو بات بات پر ہنس رہی تھیں۔ کچھ تو فلموں پر تبصرہ کرآ� قریب

طب �للسان تھی �نرسیرئیلس پر بحث کر رہی تھیں کوئی کسی کے کپڑوں کی تعریف میں T.Vرہی تھیں کچھ

آ�پ کو ہونق سمجھ رہی تھی۔ جو نہ فلموں کے بارے میں جانتی تھی نہ سب کے در میان ثمینہ �پنے

T.V سیرئیلس کے با رے میں معلومات رکھتی تھی۔ �س کے سا منے �یک میز پر رکھے-T.V پر کوئی پروگر�م

پر بدلتے مناظر سے لطف �ندوز ہو رہی تھی �ور سوچ رہی تھی ہمارے گھرT.V رہا تھا۔ ثمینہ حیر�ن سی۔ چل

کھا۔ بھا گتے کھیلتے بچے کبھی چینل بدل دیتے تو رو� لے عجیب ہیں جو �تنی �چھی تفریح سے ہمیں محروم

Page 12: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�تے تھے۔ وہ دیکھنے میں محو تھی تب ہی فا خرہ �یک خو برو نو جو �ن-T.V کچھ �ور دلچسپ مناظر نظر

آ�تی نظر کی کا ہاتھ پکڑے �س ئی وہ سیاہ سوٹ میں ملبوس خاصہ �سمارٹ لگ رہا تھا۔ ثمینہ کے قریبآ�طرف

�کر فا خرہ نے نو جو �ن کا تعارف کر�تے ہوئے کہا ’’ ثمینہ �ن سے ملو یہ میرے پیارے بھیا سہیل ہیں ‘‘ ’’�ور

ڈگمگاتی کشتیوں کے سا حل ہیں ‘‘۔ سہیل نے جیسے جملہ پو ر� کیا۔ �ور مسکر� تے ہوئے قدرے جھک کر

�ر�دی طور پر �پنا ہاتھ طرف غور سے دیکھتے ہوئے غیر ثمینہ کی طرف ہاتھ بڑھا یا۔ ثمینہ نے �س کے چہرے کی

بڑھا دیا۔ سہیل نے ہاتھ تھام لیا فا خرہ کھلکھلا کر ہنس پڑی ثمینہ نے گھبر� کر ہاتھ کھینچ لیا �ور خجالت میں

ڈوبی مسکر�ہٹ کے ساتھ گر دن جھکا لی۔ �س کے تن بدن میں جیسے بجلی کے قمقمے روشن ہو گئے �س

کا دل دھڑ کنے لگا- گ رہی تھیں۔ �چانک �یک �جنبی کے ہاتھ کا لمس پا کر �سنکے ہاتھ پر چیونٹیاں سی ری

فاخرہ نے ثمینہ کو �س سا نسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں -� سکا چہرہ بھیگ سا گیا۔ پر تکلف کھا نے کے بعد

کے گھر چھوڑ دیا۔ کار میں بیٹھی ہوئی ثمینہ محسوس کر رہی تھی جیسے وہ ہو�ؤں میں �ڑی جا رہی تھی وہ

آ�خری حدوں تخیلات کی دنیا میں کھو گئی۔ تخیلات!جو آ�سمان کی �سے بچپن سے بے قر�ر کئے ہوئے تھے جو

آ�نکھوں میں-T.V رہ کر رہی تھی۔ رہآ� کو چھو لینا چاہتے تھے۔ ر�ت بستر پر لیٹی تو �سے نیند نہیں کے منظر

دھی ر�ت گزر چکی تھی گھر کے �فر�دآ�گتی محسوس ہو رہی تھیں۔ نی رگھوم رہے تھے �ور ہاتھ پر چیونٹیاں سی

آ�ن کر دیا۔ چینل بدل بدل کر دیکھتی رہی۔ جاT.V گہری نیند میں تھے۔ ثمینہ ڈرتے ڈرتے �ٹھی �ور کا بٹن

نے کب تک �ور کیا کچھ دیکھتی رہی پھر یہ �س کا معمول بن گیا۔ وہ چاہتی تھی کہ چھٹیاں جلدی سے گزر

آ�گے پڑھنے کی �جازت دیدی تھی دونوں بھائیوں کو نینی د�خلہ ہو کا جائیں �ور کالج میں �س جائے۔ و� لد نے

تال کے �سکول میں شر یک کر� دیا گیا تھا۔

کالج میں د�خلے کا دن ثمینہ کی زند گی کا خوشگو�ر ترین دن تھا کالج کا نکھر� نکھر� رنگین ماحول �سے �چھا

و کر �س کا دل کیف لگا۔ نت نئے فیشن کے کپڑے زیب تن کئے ہنستی مسکر�تی بے فکر سی لڑکیوں کو دیکھ

گے نکل گئی۔آ�سر ور میں ڈوب گیا۔ شعور نے کئی چھلا نگیں لگائیں تخیلات نے �ڑ �ن بھری �ور زند گی میلوں

Page 13: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

خوف �ور جھجک �س کے دل سے غائب ہو چکے تھے۔ نئے زمانے کی لڑکیوں کے ساتھ وہ گھل مل گئی۔

ماں سے �جازت لے کر کبھی چوری چھپے �نکے ساتھ پکچرز جانے لگی کالج سے جلدی نکل کر یہ لڑکیاں

طرف چلی جاتیں جہاں گھنٹوں گز�ر کی ں �ور �نٹر نیٹ سنٹریچوکید�ر کے ہاتھ پر پچیس پچاس روپئے رکھ دیت

آ�نے کی کوئی نہ کوئی وجہ بتا دیتیں۔ جب کبھی کچھ لڑکیاں �پنے �پنے بو �ئے فر کر گھر جاتیں �ور دیر سے

ینڈس کے ساتھ �نٹرنیٹ سنٹر کے کیبن میں گھس جاتیں تب باقی لڑکیاں �پنے گھر کی ر�ہ لیتیں۔ ثمینہ سوچتی رہ

آ�خر یہ بو�ئے فرینڈس کیسے �ور کہاں سے مل جا تے ہیں۔ �یک دن ثمینہ بس سے �تر کر �پنے گھر جا رہی جاتی

آ�گے بڑھ جا نا چاہتی تھی لیکن سہیل ر�ستہ روکے کھڑ� تھا۔ تھی کہ ر� ستے میں سہیل مل گیا۔ وہ نظریں جھکائے

�یسی بھی کیا جلدی ہے یوں چلی جا رہی ہو جیسے جان پہچان ہی نہیں ہے۔ ‘‘’’

آ�پ سہیل صاحب ہیں لیکن ر� ستے میں کسی لڑکی کو �س طرح روک لینا کہاں کی’’ جی میں جانتی ہوں

‘‘ شر�فت ہے ؟

‘‘ قدر فرسودہ خیالات رکھتی ہیں ذر� دیکھئے تو دنیا کدھر جا رہی ہے ؟ آ�پ کالج میں پڑھتی ہیں �ور �س ’’

‘‘ رکھیں ؟ کیا کالج میں پڑھنے و�لوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ نئے خیالات’’

وقت کا تقاضہ ہے۔ ‘‘ سہیل نے مسکر�تے ہوئے کہا ’’ یہ پر�نا لبادہ �تار دو �ور وقت کے ساتھ چلنا ہی محترمہ ’’

زمانے کے ساتھ چلو۔ ‘‘ �س کی مسکر�ہٹ میں �سر�ر کی �یک گرہ سی تھی جسے ثمینہ کوئی نام نہ دے سکی

ر ہا تھا �س نے قا بو پا تے ہوئے کہا۔ �س کے لا شعور سے �یک سر سر�تا خیال �س کی سا نسوں کو زیرو زبر کر

آ�پ کے خیال سے متفق نہیں ہوں ویسے �س سلسلے میں فا خرہ سے ضرور بات ’’ کروں گی خد� حافظ۔ ‘‘ میں

آ�گے بڑھ گئی۔ کہتے ہوئے ثمینہ

Page 14: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کے لئے-T.V دو سرے دن �س نے فا خرہ سے �س ملاقات کا ذکر کیا تو فا خرہ نے بتا یا کہ �س کے چا چا

�شتہاری فلمیں بناتے ہیں �ور سہیل نے ثمینہ کے بارے میں چا چا کو بتایا تھا شاید وہ �سی سلسلے میں کچھ

کے دن کالج میں فنکشن تھا طالبات کےتکہنا چاہتا تھا۔ ثمینہ کچھ سوچتی ہوئی خاموش ہو گئی۔ پندرہ �گس

کی ہیروئن ثمینہ تھی۔ فا خرہ کے �لدین نے بھی شر کت کی تھی �یک خوبصورت ڈر�مہ �سٹیج کیا گیا تھا جسو

کیا �ور �یک دن نے ثمینہ کو �ور �س کے کام کو بہت پسند چاچا �ور سہیل بھی فنکشن میں موجود تھے چاچا

فاخرہ کے ساتھ �س کے گھر پہنچ گئے ماں سے ملاقات کی �ور ثمینہ کو �پنی نئی �شتہاری فلم میں لینے کی

�جازت چاہی۔ �نھوں نے سختی سے منع کر دیا چاچا و� پس چلے گئے لیکن ثمینہ کے تخیلات نے �ڑ�ن بھری �س

آ�ئی۔ ماں نے کہہ دیا نے پہلے تو پیار سے ماں کو ر�ضی کرنے کی کوشش کی جب وہ نہیں مانیں تو ضد پر �تر

خرآ�ثمینہ نے سختی سے منع کیا �ور بھوک ہڑتال کر دی کہے گی۔ کہ و�لد سے �جازت لینے کے بعد ہی کچھ

آ�تا۔ ثمینہ کالج کے بعد فاخرہ ماں کو �جازت دینی پڑ ی۔ لا ڈلی بیٹی تھی کچھ کر بیٹھتی تو سا ر� �لز�م �ن ہی پر

ہاں سے کبھی سہیل کے ساتھ کبھی فا خرہ کے ساتھ شو ٹنگ پر چلی جاتی صابن وکے ساتھ چلی جاتی �ور

کی کے �شتہار کی فلم تھی �ور �سے نیم عریاں لباس پہننا تھا پہلے تو وہ بہت شرمائی لجائی �نکار کیا لیکن �س

آ�پ کوآ� نکھوں میں بسے سنہرے سپنوں نے زیادہ سوچنے کی مہلت نہیں دی۔ �ور فلم مکمل ہو گئی۔ وہ �پنے

آ�فرز ملنے لگیں وہ جیسے تخت فاتح زمانہ سمجھنے لگی کیونکہ �س کی فلم بے حد مشہورو مقبول ہوئی �سے نئی

آ�خری بار فلم طاؤس پر بیٹھی بے خود سی ہو گئی۔ ماں سے کیا ہو� وعدہ بھول گئی کہ صرف �یک بار پہلی �ور

گی۔ وہ �ب سہیل کے علا وہ �ور لوگوں کے ساتھ بھی دیکھی جا رہی تھی خاند�ن کے کچھے میں کام کر

آ�گ بگولہ ہو گئے �س کے گھر �کر ماں سے کہا’’ و� ہ رضیہ لوگوں نے جب �س کے نئے رنگ روپ کو دیکھا تو

بیگم! تم نے �ور تمہاری لا ڈلی بیٹی نے خاند�ن کا نام خوب روشن کیا ہے تم لوگوں نے ہمیں سر �ٹھا کر چلنے

ا�س چڑ یا کے پر تمہیں نظر آ�ئے ؟ �ڑ نے سے پہلے �س کے پر کیوں نہ کاٹ کے قا بل نہیں رکھا۔ کیا نہیں

آ�نے و�لی رقم کافی نہیں تھی جو بیٹی کو کمانے کے لئے بھیج دیا ؟ دین کی �ور دنیا کی دئے ؟ کیا باہر سے

Page 15: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

پڑے گا۔ بتاؤ تم نے یہ قدم کیوں �ٹھا یا جو سیدھے جہنم کی طرف لے جانے و�لا عد�لت میں تمہیں جو �ب دینا

‘‘ !! ہے جو�ب دو

رہا تھا �عصاب شل ہوئے جا رہے تھے �نھوں نے کر رضیہ بیگم کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی �ن کا سر چکر�

آ�ئی تھی کمرے میں �ندھیر� پھیل سی کا سہار� لیا �ور بیٹھ گئیں۔ جا نے وہ کب تک یوں ہی بیٹھی رہیں شام �تر

آ�ئی تو �سے دیکھتے ہی وہ گیا تھا �ور یہ �ندھیر� �ن کی خوشیوں کے �جالے پر چھا گیا ر�ت دیر گئے ثمینہ گھر

ؤآ�پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں ثمینہ کے پو چھنے پر کہا ’’ کیا �سی دن کے لئے تمہیں خد� سے مانگا تھا کہ تم

آ�ج دنیا ہم پر تھوک رہی ہے میں تمہارے �بو �ور خاند�ن کی عزت کو خاک میں ملا دو تم نے میر� کہا نہیں ما نا

کو کیا جو�ب دوں گی �نھیں مجھ پر پور� بھروسہ تھا �ور تم نے مجھے کہیں کا نہ رکھا میں کیا کروں ؟ ‘‘’’بتا ؤ

میں کیا کروں ؟‘‘

ثمینہ نے ڈھٹائی سے کہا ’’ �می دنیا و�لوں کا کیا ہے �ن کا تو کام ہی یہی ہے کہ کسی نہ کسی کو کچھ نہ

شہرت �ور دولت کو دیکھ نہیں سکتے۔ جل جل کر پھپھولے،کچھ کہتے رہیں در� صل یہ لوگ کسی کی عزت

آ�پ خو�مخو�ہ ہلکان ہو رہی ہیں میں نے �یسا کیا پھوڑ تے رہتے ہیں �ن کی پر و� کریں گے تو جینا دشو�ر ہو جائے گا

کر دیا ؟‘‘

رہے ہیںآ� �سی وقت فون کی گھنٹی بجنے لگی ثمینہ نے فون �ٹھا یا و� لد کا فون تھا �نھوں نے بتا یا کہ وہ کل �نڈیا

ثمینہ نے ماں کو بتایا تو �ن پر لرزہ طاری ہو گیا۔

رہے تھے �ن کی شا پنگ مکمل ہو گئی تھی وہ پیکنگ میں مصروف تھےآ� یڑھ ماہ کی چھٹی پر ڈثمینہ کے و�لد

چل رہا تھا �ن کے دو ست نے�T.Vور خوشی خوشی �پنے دوست کو خر یدی ہوئی تمام چیزیں دکھا رہے تھے

:کہا

Page 16: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

فلم میں نئی سا حرہ بجلیاں گر� رہی ہے ، غضب کی لڑکی ہے کیا تم نےad آ�ج کل �نڈیا چینل پر �یک ’’

ہے ذر� غور سے دیکھنا۔ دیکھی ہے ؟‘‘ ثمینہ کے و�لد نے نفی میں سر ہلا یا۔ دو ست نے کہا ’’بڑی �نمول چیز

آ�تی ہی ہو گی۔ ثمینہ کے و�لد نے فلم دیکھی ر گوں تمہاری بوڑھی میں تازہ خون گردش کرنے لگے گا۔ فلم �بھی

نکھیںآ�میں کہا۔ ’’ ثمینہ ! میری ثمینہ۔ �نکی و�زآ�نکھوں سے دیکھتے رہ گئے۔ �نھوں نے سرسر�تی آ�تو پھٹی پھٹی

لب سا کت ہو گئے۔ پتھر� گئیں �ور

*****

Page 17: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

منزل گمشدہ

تیری یادوں کے چر�غوں کا �جالا ہے یہاں

ورنہ دنیا میں �ندھیروں کے سو� کچھ بھی نہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�رزوؤں �ور یہ ضروری تو نہیں کہ �نسان کسی چیز کی خو�ہش کرے �ور وہ چیز �سے حاصل ہو جائے زندگی میں

تمناؤں کا خون ہوتا رہا ہے ! لوگ پھر بھی زندہ رہتے ہیں �یسی خو�ہش کے دکھ کو دل میں کیوں بسائیں جس کا

ممکن نہ ہو؟ پور� ہونا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جاتیں کبھی مدھم پڑ جاتیں �ختلاج کی ہو جا رہا تھا دھڑکنیں کبھی تیز �س کا دل شام ہی سے جانے کیوں بیٹھا

رہا ہے �ب تو �سے کوئی فکر رہا ہے کیوں ہو رہا تھا کہ یہ کیا ہوآ� سی کیفیت تھی �س کی سمجھ میں نہیں

بیٹوں �ور �یک بیٹی گئے تھے جب وہ حیر�ن پریشان رہا کرتی تھی دو پریشانی بھی نہیں تھی وہ دن کب کے گزر

کر �پاہج ہو گیا تھا ملازمت جاتی رہی۔ بچے چھوٹے تھے �ور ہو شوہر فالج کا شکار کی پید�ئش کے بعد �س کا

آ�مدنی نہیں تھا چند کی لیکن کسی کی وقتی مدد زندگی بھر کا سہار� دن تک رشتے د�روں نے مدد کوئی ذریعہ

کی ستم ظریفی سے کوئی تو نہیں بن سکتی۔ ۔ ۔ رفیعہ کے لئے زندگی �یک چیلنج �یک �متحان بن گئی تقدیر

Page 18: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ہمت دل �ور پر �عتماد دماغ کی حامل عورت تھی۔ گر�ئجویشن کے بعد ٹائپ �ور شارٹ گلہ نہیں تھا وہ �یک با

کی نوکری ہینڈکا �علی �متحان پاس کیا تھا �سے �یک بسکٹ فیکڑی میں معقول تنخو�ہ پر �کاؤنٹنٹ کم سوپرو�ئزر

ہی �س نے �یک جنرل �سٹورکھول کرشوہر کوبیٹھادیا۔ مل گئی جلد

�س نے دوکان پر رکھے �یک لڑکے کو بھی ملازم رکھ لیا۔ کر ی سے خریدٹرہمہ �قسام کے بسکٹ �پنی فیک

آ�نے کے بعد بچے گھر �ور دوکان سنبھالنےٹرفیک ی سے نکل کروہ کمپیوٹر سیکھنے جانے لگی۔ �سکول سے

لگے زندگی سکون سے گزرتی رہی۔ چند سال کی محنت کے بعد رفیعہ نے �یک کمپیوٹر �نسٹیٹیوٹ کھول لیا

جہاں لڑکیوں �ور خو�تین کو کمپیوٹر کے علاوہ مختلف ٹکنیکل کو رسس کر�نے کا �نتظام تھا۔ مہینے میں �یک دن

گھر پر دینی �جتماع ہوتا تھا جہاں �میر غریب سبھی خو�تین جمع ہوتی تھیں �ور چندہ کے طورپر بساط بھر رقم

جمع کرتی تھیں جمع شدہ رقم سے سال میں �یکبار کسی مستحق ضرورت مندکی مددبھی کی جاتی تھی۔

آ� گیا کہ بچوں کی تعلیم مکمل ہو گئی بڑے لڑکے کی محلے میں رفیعہ کا �یک مقام بن گیا تھا وہ وقت بھی

شادی کر دی وہ بیرون ملک �پنی بیوی کے ساتھ چلا گیا چھوٹے لڑکے کو �چھی کمپنی میں ملازمت مل گئی پھر

رفیعہ نے بڑے �ہتمام کے ساتھ بیٹی کے ہاتھ پیلے کئے �ور سسر�ل رو�نہ کیا جسکے چنددن بعد ہی رفیعہ کے شوہر

نے رخت سفر باندھا �ور �سے �کیلا چھوڑ سوئے عدم رو�نہ ہو گیا زندگی کے �ن تمام تیزرفتارسالوں میں رفیعہ

آ�پ پرتو جہ نہیں دی �سے تو بچوں کی تعلیم ، بیمارشوہر کی خدمت �ور غریبوں �سقدرمصروف رہی کہ کبھی �پنے

کی مدد کے سو�کچھ یادنہیں تھا �س نے �پنے لطیف �حساسات �ور جذبات کو تھپک تھپک کرسلادیا �ور حالات

آ�ج جیسے �عصابی تھکن سے سمجھوتہ کر لیا تھا وہ کبھی بیمار ہوئی نہ کسی نے �س کی طرف توجہ کی تھی

نے �سے نڈھال کر دیا تھا تنہابسترپر لیٹی ہوئی گزرے دنوں کا محاسبہ کر رہی تھی کہ دل کی دھڑ کنیں بے ترتیب

آ�تا �ور �پنے کمرے میں چلا ہونے لگیں ہاتھ پاؤں میں لرزہ سامحسوس کر رہی تھی �س کا لڑکا ر�ت دیر گئے گھر

آ�نا وہ ضروری نہیں سمجھتا تھا جیسے وہ ماں نہیں کونے میں جاتا تنہارہنے و�لی ماں سے بات کرنا گھر جلدی

پڑی ہوئی کوئی مشین تھی۔ بڑ �لڑکا کبھی عیدبقرعیدپربات کر لیا کرتا تھا �ور بیٹی تو سسر�ل کی ہوبیٹھی تھی۔

Page 19: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�ج �س کا دل چاہ رہا تھا کوئی �س کے قریب بیٹھے �س کا حال پوچھے تسلی �ور محبت کے دوبول سننے کی

خو�ہش نے �سے بے چین کر دیا جن بچوں کے لئے وہ �پنی تمام خوشیوں �ور خو�ہشات کو تیاگ کر زندگی بھر

آ�ج وہ کیا تھی؟!� سکا دل بیٹھا جا رہا تھا چہرہ پر کرب شیشے کی کرچیوں پر چلتی رہی تھی �ن کی نظر میں

آ�و�زدے رہا ہودماغ کے کینوس پر �یک کی چادرسی تنی ہوئی تھی جیسے ماضی کے جزیروں سے کوئی �سے

آ� رہا ہے ؟ نہیں یہ سو�ل ہی غلط ہے !�س چہرہ آ�ئی یہ !؟ یہ ؟!یہ چہرہ!یہ مجھے کیوں یاد دھندلی سی تصویر �بھر

کومیں بھولاہی کب تھا ؟

یہ ہمہ وقت میری نظروں کے سامنے میرے ساتھ ساتھ رہا ہے ہاں میں �یک شادی شدہ مشرقی عورت تین بچوں کی

ماں ہوتے ہوئے �س گناہ کی مرتکب ہوئی ہوں کچھ کام �نسان کے �پنے �ختیار میں نہیں ہوتے کچھ یادیں ذہن سے

کبھی فر�موش نہیں ہوتیں نا سوربن کر رستی رہتی ہیں۔ یادوں کی بازگشت �سے پر یشان کرتی رہی ہے کیا میں نے

کچھ کھودیا ہے ؟

نہیں !میں نے جوچاہاپایا ہی کب تھا جوکھونے کا سو�ل پید� ہوتا �س کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ دوڑ کرجائے �ور

آ�ج تک �پنے وعدہ پر قائم تھا کہ وہ کبھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں �س شکیب �حمد کے قدموں پر �پنا سر رکھ دے جو

ر�ت کی مہک کو وہ کیسے بھول سکتی ہے جو �س کی ساری زندگی پر محیط ہو گئی تھی �س ر�ت �س کی

آ�ہستہ رخصت ہو رہے تھے ��بجے جلوہ کی رسم �د� ہو رہی تھی آ�ہستہ جگری دوست رخسانہ کی شادی تھی مہمان

قریبی رشتے د�ر جمع تھے لڑکیاں دلہن کو �ور �یک دوسرے کو ستا رہی تھیں کچھ دور کھڑے لڑکے �ن کے دبے

دبے قہقہوں سے لطف �ندوز ہو رہے تھے �ن ہی لڑکوں کے بیچ وہ دشمن جان ودل شکیب بھی تھے �س کی طرف

ٹکٹکی باندھے یوں دیکھ رہے تھے جیسے وہاں �ن دونوں کے سو�کوئی نہ ہودونوں �یک دوسرے کو گم صم کھڑے

آ�نکھیں وفورشوق سے دمک رہی تھیں نظریں جیسے کہہ رہی تھیں تم ہی توہو جسکی مجھے گھورے جا رہے تھے

تلاش تھی دونوں کے ہونٹوں پر طمانیت بھری مسکر�ہٹ تھی۔ دوسرے دن شکیب نے �پنی ماں کو رفیعہ کے گھر

بھیج دیا۔ رفیعہ کی ماں نے خاطرمد� ر�ت کے بعد معذرت کرتے ہوئے بتا یا کہ �س کی

Page 20: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

خالہ ز�د بہن نے �پنے بیٹے کے لئے بچپن ہی میں رفیعہ کو مانگ لیا تھا �ور � سکی شادی کی تیاری ہو رہی ہے

شکیب کی ماں �د�س دل لئے لوٹ گئیں۔ شکیب نے رخسانہ کے پیرپکڑ لئے �ور کہا کہ وہ صرف �یک بارکسی

طرح رفیعہ سے ملادے۔ رخسانہ کے منت سماجت کرنے �ور �پنی دوستی کا ، خد� کا و�سطہ دینے پر وہ دھڑ کتے

دل کو سنبھالتی شکیب سے ملنے گئی دونوں �یک دوسرے کو دیکھتے مافیہاسے بے خبربیٹھے رہے زبانیں گنگ

نظریں جیسے زبان بن گئی تھیں چاہتے تھے کہ وقت کی رفتار تھم جائے �چانک شکیب نے رفیعہ کے تھیں �ور

:ٹھنڈے ہاتھ �پنے ہاتھوں میں لیکر کہا

رفیعہ کیا تم �پنی شادی سے �نکارنہیں کر سکتیں ؟ رفیعہ نے بھیگی بھیگی پلکیں �ٹھا کرشکیب کی طرف’’

دیکھا

آ�رزؤں �ور ’’ شکیب یہ ضروری نہیں کہ �نسان کسی چیزکی خو�ہش کرے �ور وہ �سے حاصل ہوجائے زندگی میں

تمناؤں کا خون ہوتا رہا ہے !لوگ پھر بھی زندہ رہتے ہیں !بیٹیاں صدیوں سے ماں باپ کے حکم کی پابند رہی ہیں

ماں باپ کا مان رکھتی ہیں !شکیب !ماں باپ کی خوشیوں کی لاش پرمیں �پنی چاہتوں کا محل تعمیرکرنا نہیں

‘‘ !چاہتی

‘‘ رفیعہ میر� کیا ہو گا ؟ تم سے ہمیشہ کی دوری میں برد�شت نہ کر سکوں گا ’’

آ�پکو �چھے ’’ آ�پ ہاؤ زسرجن شپ کر لیں میں یوں سمجھیں کہ تقدیرنے ہمیں �یک دوسرے کے لئے نہیں بنایا

آ�نکھیں کب آ�پ مجھے بھولنے کی کوشش کریں ‘‘ رفیعہ کی آ�ؤں گی مسیحاکے روپ میں دیکھنے �یک دن ضرور

سے جھرنے بہا رہی تھیں �سے پتہ ہی نہ چلا تکیہ بھیگ گیا تھا۔ �س کا دل شکیب سے ملنے کے لئے مچل �ٹھا

آ�ج تک ٹوٹ نہ پایا۔ رخسانہ نے بتا یا تھا تھا !کون ہے وہ ؟�حساس کا یہ نازک رشتہ �سقدر مضبوط کیوں ہے جو

آ�ج بھی �پنے وعدہ پر قائم ہے کیوں ؟ کہ شکیب نے �بھی تک شادی نہیں کی ہے وہ

Page 21: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�ئی تھی۔ �س نے چھوٹے لڑکے کی شادی طئے کر دی تھی جو ر�ت کا پچھلاپہرتھا �سے �بھی تک نیند نہیں

ہو چکی تھی جو کام رہ گئے تھے وہ بڑے بیٹے �ور بہوکے حو�لے کر دئے تھے عنقریب ہونے و�لی تھی تیاری تقریبا

آ�نے ہی و�لے تھے �س خیال نے �سے ہمیشہ پریشان رکھا کہ جسطرح بڑے بیٹے نے �پنی دنیا بہت دور وہ باہر سے

بسالی ہے �سی طرح چھوٹا بھی �س سے دورہوجائے گا حالانکہ وہ بچوں کو �پنی خوشی سے �پنی زندگی جینے

آ�نے و�لے دنوں کی تنہائیوں کے تصور سے وہ لرزبھی جاتی تھی۔ �سے صبح آ�ز�دی دینا بھی چاہتی تھی لیکن کی

آ�ہستہ سرکتے جا رہے تھے وہ مضطرب سی کروٹیں بدلتی آ�ہستہ کا بے چینی سے �نتظار تھا ر�ت کے سوگو�رلمحے

آ�ئینے میں �پنے رہی۔ صبح ہو گئی �س کے دل کی حالت قدرے سنبھل گئی تھی معمول کے کام نپٹائے پھر

آ�ج دیکھا تو آ�پ پر نظر ڈ�لنے کی فرصت ہی کب ملی تھی سر�پاکو غور سے دیکھا کتنی بدل گئی تھی وہ �پنے

جسم بھاری بھر کم لگ رہا تھا سرمیں چاندی کے بے شمار بال جگمگ کر رہے تھے ہاتھ پاؤں بھدے �ور میلے ہو

آ�سمانی ساڑی نکالی یہ رنگ شکیب کو گئے تھے نیم گرم پانی سے نہانے کے بعد وہ نکھرسی گئی تھی پسند یدہ

بھی پسند تھا۔

ہلکا سامیک �پ کر کے بالوں کا جوڑ �بنالیا پھر �پنے سر�پے کاجائزہ لیا توکانی فرق محسوس کیا �سے دیکھکر

کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ �س نے کرب وبے چینی میں جاگ کر ر�ت گز�ری ہے۔ لیکن یہ کیا ؟!�سے

آ�یا �س کے بیڈکے قریب چکرسی محسوس ہونے لگی وہ سنبھلتے سنبھلتے گرگئی۔ ۔ ۔ دوسرے دن �سے ہوش

دونوں بیٹے بیٹی �ور بہوکھڑے ہوئے تھے وہ پھٹی پھٹی �جنبی نگا ہوں سے �نھیں دیکھ رہی تھی جیسے �نھیں

پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو۔ ڈ�کٹروں نے مشورہ دیا کہ �سے ڈ�کٹر شکیب �حمد کے ہاں لے جائیں وہ

سنٹیرنیورولاجسٹ ہیں۔

آ�نکھیں سرخ �نگا رہ سی تھیں جنھیں پھر آ�نکھیں کھول دیں �س کی ڈ�کٹر شکیب کانام سن کر رفیعہ نے دونوں

آ�و�ز سنی کہہ رہا تھا ’’ جانے �نھیں کیا ہو� �چھی بھلی تھیں �گر یہی حال رہاتو موندلیا۔ �س نے بڑے بیٹے کی

آ�یا تھا وہاں بچوں کے �سکول کھلنے و�لے ہیں مجھے جلدی مشکل ہو گی میں تمہاری شادی کے سلسلے میں

Page 22: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

و�پس جانا ہے ‘‘ چھوٹے نے کہا’’ ہاں بھائی جان میری ملازمت بھی پرمنینٹہونے و�لی ہے میر� رخصت لینا مناسب

آ�ئی توشازیہ �نکے نہیں ہے شادی کیلئے مشکل سے منظورہوئی ہے �گر ماں کو دو�خانہ میں شریک کرنے کی نوبت

ساتھ رہیگی کیا خیال ہے ؟

آ�پ لوگ میرے گھر کے حالات سے و�قف نہیں ہیں میں بھلاکیسے رہ سکتی ہوں شازیہ نے فور �جو�ب دیا ’’ کیا

میرے بچے بھی تو �سکول جاتے ہیں بہترہو گا کہ ہم کسی قریبی رشتے د�رکی تلاش کریں جس پر کوئی ذمہ د�ری

نہ ہودوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ معقول تنخو�ہ پرکسی ملازمہ کو رکھ لیا جائے ‘‘ سب خاموش تھے رفیعہ سب

کی باتیں غور سے سن رہی تھی �ن کے �لفاظ بجلی بن کر �س کے دل پر گرے تھے دل کی دھڑ کنیں جیسے

�ک لحظہ کے لئے رک گئی تھیں وہ ساکت وجامدہو گئی جیسے �س کی روح نکل رہی ہو �س کی ریاضت

وعبادت سب �کارت گئیں کسی نے �س کے د�من کو رو�د�ری کے چند پھولوں کا بھی مستحق نہیں سمجھا وہ

آ�نکھوں سے بے د�من جسے پھیلا کروہ ہمیشہ �ن سب کی خوشیوں �ور کا میابیوں کی دعائیں مانگا کرتی تھی

آ�نسو رو�ں ہو گئے جنھیں چھپانے کے لئے �س نے �یک چیخ مارکر دوسری طرف کروٹ بدللی سب نے یہی �ختیار

سمجھا کہ �ب �س کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے �سے ڈ�کٹر شکیب �حمد کے پاس لے جایا گیا۔ وہ

موجودنہیں تھے۔

رفیعہ کو �سٹریچرسے �تار کر�یک بیڈپر لٹادیا گیا دونوں بھائی قریبی ہوٹل میں جابیٹھے شازیہ �کیلی بیٹھی ہوئی تھی

آ�تے ہی رفیعہ کی کیس شیٹ دیکھنے لگے رفیعہ دوسری طرف آ� گئے �سے نیند لگ گئی۔ کچھ ہی دیربعد شکیب

منہ کئے لیٹی تھی کیس شیٹ میں نام پڑھ کر�سے پکار�تو وہ �یک جھٹکے سے پلٹی دونوں نے �یک دوسرے کو

آ�و�ز آ�نکھیں وہی مانوس سی !دیکھا تو دیکھتے رہ گئے !شکیب ؟ وہی چہرہ وہی بولتی

رفیعہ !رفیعہ !یہ تم۔ ۔ ۔ کیا ہو� تمہیں ؟تمہاری یہ حالت کب سے ہے ؟’’

Page 23: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�نکھیں بندکر لیں ’’ میں خو�ب تونہیں دیکھ رہی ہوں تم میرے سامنے ہومجھ رفیعہ نے شکیب کا ہاتھ پکڑ لیا �ور

سے مخاطب ہوکیا یہ حقیقت ہے ؟

آ�نکھیں کھولونا ‘‘ میری طرف دیکھو‘‘’’ ہاں رفیعہ یہ حقیقت ہے

آ�ؤں گی تم سے’’ شکیب !میں نے تم سے کہا تھا نا تمہیں مسیحاکے روپ میں دیکھنے کے لئے �یک دن ضرور

آ�نے کی تیاری کر رہی تھی کہ طبعیت بگڑ گئی ملنے کی شدیدخو�ہش نے کئی دن سے بے چین کر رکھا تھا میں

آ�نا تھا ‘‘ شایدبیماربن کر�پنے مسیحاکے پاس

آ� گئے شازیہ بھی جاگ گئی بیٹوں کے پوچھنے پر ڈ�کٹر شکیب نے بتا یا آ�نکھیں بندکر لیں تب ہی بچے رفیعہ نے

کہ ’’ نروس بریک ڈ�ؤن ہو� ہے زیادہ خوشی یارنج وفکرسے دماغ متاثر ہوتا ہے بہت سے �مر�ض جن میں لوگ

مبتلاہیں دماغی دباؤ کا نتیجہ ہیں پشیمانی ، مایوسی ، بے �عتمادی وبے �عتنائی �پنوں کی بے مروتی �ور چاہنے �ور

چاہنے جانے کی خو�ہش �گر پوری نہ ہوئی ہوتویہ سب �نسانی دل ودماغ �ور جسم کو مجروح کر دیتے کمزوربنادیتے

ہیں میں نے �ن کی کیس شیٹ دیکھی ہے دو�ئیں بھی لکھ دی ہیں علاج میں وقت لگے گا فی �لوقت �نھیں

‘‘ دو�خانہ میں رکھنا ہو گا

آ�پ علاج شروع کر دیں �ور �ن کی دیکھ بھال کے لئے �یک’’ آ�ئے ہیں آ�پ کی تعریف سن کر ٹھیک ہے ڈ�کٹر ہم

نرس مقررکر دیں ‘‘بڑے لڑکے نے کچھ رقم ڈ�کٹر کے حو�لے کی �ور سب چلے گئے۔ ’’ بتاؤ روفی تمہیں کیا

ادکھ ہے میں تمہارے تمام دکھ سمیٹ لوں گا۔ تمہاری شادی کے بعد میں �مریکہ چلا گیا تھا وہاں کی رنگین

آ�نے کے بعد معلوم ہو�کہ تمہارے آ�یا فضاؤں میں بھی تمہیں بھلانے کی کوشش میں ناکام رہا �ور وطن و�پس چلا

‘‘ شوہر کا �نتقال ہو چکا ہے کیا بچے تمہار� خیال نہیں رکھتے ؟

Page 24: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�ج �س حقیقت کا �نکشاف ہو� ہے کہ میری �س حالت کا �نھیں کوئی دکھ ’’ �ب �نھیں میری ضرورت نہیں ہے

آ�پ کو آ�ج میں �پنے کوئی �حساس نہیں ہے �ور جہاں �حساس نہیں ہوتا وہاں کوئی رشتہ باقی نہیں رہ جاتا

‘‘ تنہامحسوس کر رہی ہوں

آ�رزومیں جیتا رہا ہوں تمہاری پکارہی مجھے ہز�روں میل دورسے ’’ روفی میں تمہارے ساتھ ہوں تم سے ملنے کی

کھینچ لائی ہے کیا تم �ب بھی۔ ۔ ۔

شکیب میں پہلے و�لی رفیعہ نہیں ہوں کیا تم میرے چہرہ پر عمرکے سائے نہیں دیکھ رہے ہو؟ میں �یک ٹمٹماتا ’’

‘‘ چر�غ ہوں

آ�ؤ ہم دونوں مل کر گزرے لمحوں’’ آ�ج بھی میرے لئے وہی ہوجسکی چاہت میرے دل میں تازہ ہے رفیعہ تم

آ�و�زدیں �پنے ماضی میں لوٹ کرحقیقی مسرتوں کو حاصل کر لیں میں تمہیں کہیں نہ جانے دوں گا �ب تم میری کو

!ہو صرف میری

شکیب !شکیب۔ ۔ ۔ میرے مسیحا!رفیعہ ز�روقطار�ور ہی تھی’’

�ب کسی بات کا غم نہ کرو ہم �یک دوسرے کے قدم سے قدم ملا کرزندگی کا باقی سفرپور� کریں گے میں ’’

آ�ج تک سب کی بہت جلدتمہیں سوئٹنر رلینڈلے جاؤں گا وہاں تمہاری صحت بہت �چھی ہوجائے گی تم نے

خدمت کی ہے �ب میں تمہاری خدمت کروں گا ‘‘ رفیعہ شکیب کے چہرہ کو تکے جا رہی تھی �عتماد�ور

طمانیت کا نورچہرہ پر جھلک رہا تھا دوسرے دن ڈ�کٹر شکیب نے ہیرے کی خوبصورت سی �نگوٹھی رفیعہ کی

�نگلی میں پہنادی۔

*****

Page 25: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

مسلسل کرب

زندگی �ک جبر مسلسل کی طرح کا ٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سز� یا دنہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں تم سے کہہ چکا ہوں بار بار مجھے ماں کے سلسلے میں نصیحتیں نہ کیا کرو ورنہ میری نفرت بڑھتی جائے

گی میں صرف �تنا ہی جانتا ہوں �س نے �یک مرد سے علحدہ ہو کر خود مرد بن کرجینے کی کوشش کی ہے �ور

تم جانتے ہو �کیلی عورت پر کتنے مردوں کی نظر رہتی ہے۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�ج کسی آ� گیا �س نے محسوس کیا کہ عامر �س دن بھی عا مر �پنی سوچوں میں غرق �د�س بیٹھا ہو �تھا کہ �ختر

گہری سوچ میں ہے۔

کیا بات ہے عا مر طبیعت تو ٹھیک ہے ؟’’

‘‘ طبیعت کو کیا ہو نا ہے یار میری قسمت ہی خر�ب ہے ’’

یار تم سے کتنی بار کہہ چکا ہوں کہ ماں کی طرف سے دل کو میلا نہ رکھا کرو ماں �ولا دکے لئے بہت بڑی’’

نعمت ہے �س کی قدر کرو �سے سنبھال کر رکھو یہ کھو جائے تو �س جہاں میں �س جیسی ہستی کہیں نہیں ملے

Page 26: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

گی تم �ب بچے نہیں ہو کالج کی دنیا میں قدم رکھ چکے ہو دیکھو ماں زندگی کی کڑ یل دھوپ میں گھنا سایہ

ہوتی ہے وہ �ولا دکے ہر درد کا مسیحا ہوتی ہے �پنے ہا تھوں �سے کھو کر کچھ بھی نہ پا سکو گے ‘‘۔

میں کیا کروں �ختر میر�دل جلتار ہتا ہے یہ سوچ سوچ کر کڑھتا رہتا ہوں کہ �گر ماں نے میرے باپ سے علحد گی’’

آ�سودہ زندگی گز�ر رہا ہوتا ماں تو گھر کی چاردیو�ری میں �ختیار نہ کی ہوتی تو میں باپ کی چھتر چھا یا تلے کتنی

جینے کا سلیقہطر یقہ سکھاتی ہے لیکن باپ �نگلی پکڑ کر�یکو سیع دنیا کی سیر کر�تا ہے �س دنیا کے نشیب فر�ز

سے و�قف کر�تا ہے �پنے بچے کو

‘‘ مرد �نگی کے معنی بتاتا ہے �ور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

�ب بس بھی کرو جن بچوں کے باپ نہیں ہو تے کیا وہ مرد نہیں ہوتے ؟ کیا بن باپ کے بچوں نے �پنا نام’’

روشن نہیں کیا ؟ بڑے بڑے کا رنا مے �نجام نہیں دئے ؟‘‘

�ختر مجھے تمہاری بات سے �ختلاف نہیں ہے لیکن تم نہیں جانتے کہ ماں نے میرے مقدر کے ساتھ کوئی ’’

سازش کرلی ہے دیکھو نا ہر وقت �ن کاموں سے رو کتی ٹو کتی رہتی ہیں جن میں میری خوشی ہوتی ہے کہتی ہیں

ر�ت دیر تک گھر سے باہر نہ رہا کرو ’ جلدی سویا کرو ، صبح جلدی �ٹھ جا ؤ دوستوں میں و قت نہ گز �رو ہر

لڑکی کو �پنی بہن سمجھا کرو ہر ہفتہ پکچر نہ دیکھا کرو میر� جینا دشو�ر کر دیا ہے کل پہلی بار سگر یٹ کو منہ

یی نے �یک طا قتور مخلوق بنا کر پید� کیا لگا یا تھا جانے �نھیں کیسے پتہ چل گیا کہنے لگیں بیٹا مرد کو �للہ تعال

آ�ور چیزیں �نسان کو کمزور بنا دیتی ہیں ہے وہ کمزورچیزوں کا سہار� نہیں لیا کرتے چائے ، پان، سگریٹ �ور نشہ

�ور کمز ور مرد �یک خاند�ن کوصحیح طور پر نہیں سنبھال سکتا جبکہ �یک قوم کو سنبھالنے کی ذمہ د�ری �س

آ�نٹی نے جو کچھ کہا بالکل ٹھیک کہا ہے کے مضبوط کند ھوں پر ہوتی ہے و غیرہ ‘‘ عامرنے جزبزہوتے ہوئے کہا ’’

‘‘ چلو �ب گھر چلیں دیرہو گئی ہے

کیا ٹھیک کہا خود �نھوں نے �پنی ذمہ د�ری نہیں نبھائی ہمیں �پنی ذمہ د�ریاں بتا نے چلی ہیں ‘‘۔ ’’

Page 27: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�یا تو ماں نے آ�یا کتا بیں پٹکنے کے �ند�ز میں رکھ کر �پنے کمرے میں چلا گیا کپڑے بدل کر عامر تھکا ہا ر� گھر

کہا

آ�جاؤ میں کھا’’ بہت دیر کر دی بیٹا میں نے تمہارے �نتظار میں �بھی تک کھا نا نہیں کھا یا چلو منہ ہاتھ دھو کر

نا لگاتی ہوں ‘‘۔

آ�گ کو ٹھنڈ� ضرور کیا لیکن وہ روٹھا روٹھا سا تھا۔ وہ سوچ ماں کے میٹھے سے نرم لہجے نے عامر کے غصہ کی

آ�نچ سے موم آ�گ میں تپا ہو �فولادی مرد بھی �س کی محبت کی رہا تھا’’ یہ ماں بھی عجیب شئے ہے غصہ کی

کی طرح پگھلنے لگتا ہے پھر میری ماں تو بر سوں سے میرے لئے محنت مشقت کر رہی ہے تن تنہا زندگی کی

آ�ہنی مر دکے جنگ لڑرہی ہے �ور پیشانی پر بل تک نہیں �سے �د�س یا کسی �لجھن میں گر فتارکبھی نہیں دیکھا

آ�ہنی عورت ہے ‘‘ �سے ماں سے جلن ہو نے لگی لوگ کتنے بیو قوف ہیں �س عورت بارے میں سنا تھا لیکن یہ تو

کی تعر یف کرتے ہیں جس نے �پنی �زدو�جی زندگی کو شطر نج کی بساط سمجھا تھا جب تک جی چا ہا کھیلا

�ور دل بھر گیاتوبساط ہی �لٹ دی جیسے کوئی کھلنڈر� بچہ پر�نے کھلونوں کو پھینک دیتا ہے۔ ماں �یک بد

سلیقہ عورت ہے جس نے زندگی کو سلیقہ سے نہیں جیا �یک بے درد عورت ہے جس نے �یک بچے کو �س کے

آ�گے بڑھتا رہا۔ باپ سے جد� کر دیا۔ عامر کے ذہن میں ٹو ٹ پھوٹ ہوتی رہتی جلتا کڑھتار ہتا۔ و قت یو نہی

آ� گیا جب ماں کی محبتوں �ور نصیحتوں کی چھاؤں میں عامر نے کا �متحان �علی نشا ناتCA*آ�خر وہو قت

سے پاس کر لیا ماں نے محلے بھر میں مٹھائی با نٹی �ور دلہن کی تلاش شروع کر دی۔ عامر شہر کی مشہور

کمپنی میں باو قار عہدہ پر فائز ہو گیا۔

نئی زند گی کی شرو عات پر سب سے پہلے �ختر نے �سے مبارک باد دیتے ہوئے کہا

آ�پ تج کرتمہیں �س ’’ کیا تم �ب بھی ماں سے بد ظن ہو خد�کا شکر کرو جس نے تمہیں �یسی ماں دی کہ �پنا

مقام پر پہنچا یا ‘‘ �ختر نے مسکر �تے ہوئے کہا

Page 28: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

میں نہیں سمجھتا کہ �نھوں نے مجھ پر کوئی �حسان کیا ہے یہ تو ہر ماں با پ کا فرض ہوتا ہے کہ وہ �ولا دکی ’’

‘‘ ہر طرح کی ذمہ د�ری �ٹھا تے ہوئے �نھیں �یک �چھا مستقبل دیں ورنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�خر تم سمجھتے کیوں نہیں ماں جو نو مہینے تک �پنا خون پلا کر بچے کا بو جھ �ٹھاتی ہے ’’ �یسا نہ کہو عامر

�س کا بد لہ نو جنم لے کربھی نہیں چکا سکتے ماں کے دودھ کے �یک �یک قطرہ کا ہم پر �حسان ہوتا ہے کیا دو

‘‘ سال تک پیئے ہوئے دودھ کا حساب لگا سکتے ہو ؟

‘‘ میں نے کہا نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ �ولا دکے لئے سب کچھ کرنے پر مجبو رہیں قدرت نے �نھیں پا بند کیا ہے ’’

‘‘ �سی قدرت نے کیا �ولا دکو پابند نہیں کیا ہے ؟’’

�ختر میں تم سے کہہ چکا ہوں۔ بار بار مجھے ماں کے سلسلے میں نصیحتیں نہ کیا کرو ورنہ میری نفرت بڑھتی ’’

جائے گی میں صرف �تنا ہی جانتا ہوں �س نے �یک مرد سے علحدہ ہو کر خود مرد بن کر جینے کی کوشش کی

ہے �ور تم جانتے ہو �کیلی عورت پر کتنے مردوں کی نظر رہتی ہے کچھ

آ�ج بھی بھیجتے ہو نگے تم بتاؤ کیا جیا لوں نے ماں کے لئے شادی کے پیغام بھی بھیجے تھے �ور

آ�دمی کو �س کا باپ بنا دے ؟‘‘ ’’ �گر وہ شادی کر لتیں تو �و لا دکو یہ منظور ہو گا کہ �س کی ماں کسی نئے

آ�دمی کو جان ہی سے مار دیتا ‘‘ میں �س

آ�تے ہیں ‘‘ دوسرے دن �تو�ر تھا ماں نے شادی کی بات ’’ �چھا ٹھیک ہے غصہ تھو ک دو چلو باہر کہیں گھوم

آ�پ �س معا ملے میں فکر نہ کریں نہ جلدی کریں شادی مجھے کرنی ہے میں �ب عا قل چھیڑ دی عامر نے کہا ’’

�ور با لغ ہوں خود لڑکی پسند کروں گا �س سے ملوں گا �ور مطمئین ہو نے کے بعد ہی شادی کروں گا ‘‘�س نے

�پنی ہی کمپنی کی �یک لٹر کی کو پسند کیا �ور ماں نے نہ چاہتے ہوئے بھی �سی لڑکی سے شادی کر دی وہ

کسی ملازم پیشہ لڑکی سے بیٹے کا بیاہ کرنا نہیں چاہتی تھی۔ ماں کی خو�ہش کو نظر �ند�ز کر کے عامر خوش

Page 29: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تھا بمشکل دو چار مہینے گزرے ہو نکے کہ �س کی بیگم نے �پنا محل �لگ بسا نے کا �ر�دہ ظاہر کیا جسے

عملی جامہ پہنا نے میں عامر نے دیر نہیں کی �س نے یہ سوچنا تک گو�ر�نہیں کیا کہ �ب �س کی ماں کو �یک

آ�ہنی عورت تھی بیٹے بہو کو رخصت کرتے ہوئے �نھیں محسوس نہ ہو نے دیا کہ �س سہارے کی ضرورت ہے وہ

آ�ج ہار گئی ہے �س نے کے دل میں کیسی ٹو ٹ پھوٹ ہو رہی ہے �سے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیتی ہوئی بازی

�یک زخمی سی مسکرہٹ کے ساتھ کہا۔

عامر تمہا رے سامنے زندگی کا �یکو سیع صحر� ہے جو تمہیں میرے سہارے کے بغیر عبورکرنا ہے �س کے سر’’

آ�ز ما ہو نا ہے مجھے �مید ہے تم سلیقہ کے ساتھ زندگی دوگرم سے نبر د

گز �رو گے میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ جا ؤ تمہیں �للہ کی نگہبانی میں دیتی ہوں ‘‘

عامر سوچر ہا تھا کہ وہ ماں کو دو بارہ دشکست دے ر ہا ہے �ب وہ �سے رو کنے کی کوشش کرے گی گڑ گڑ

آ�ج بھی �س کے ماتھے پر کوئی شکن تھی نہ لہجہ �ئے گی لیکن وہ یہ دیکھ کر حیر �ن رہ گیا کہ

‘‘ لر زیدہ تھا وہ پو چھے بنا نہ رہ سکا۔ ’’ ماں میرے جانے سے تمہیں کوئی دکھ تو نہیں نا ؟

نہیں بیٹا میں خود غرض ماں نہیں ہوں کہ �پنے سکھ کی خاطر �و لا دکی خو شیوں کو پا مال کر دوں۔ میں ’’

آ�پ کو بہلا ئے ر کھا تھا عمر کا �یک بڑ �حصہ گزر چکا ہے باقی بھی آ�ج تک �پنے �یک ملازم پیشہ عورت ہوں

آ�ہنی عورت سے جلن سی ہو رہی گزرہی جائے گا، تم خوش رہو بس جا ؤ �للہ تمہار �نگہبان ہے ‘‘ عامر کو �س

تھی �سنے محسوس کیا جیسے ماں نے �س کے منہ پر طما نچہ مار دیا ہو۔

آ�گے بڑھ گیا سات سال گزر گئے ،عامر دو بچوں کا باپ بن گیا تھا ہر سال گر ما کی و قت تیزی کے ساتھ

چھٹیوں میں وہ چند دن ماں کے پاس گز �رتا پھر سب کسی تفریحی مقام پر چلے جاتے �نھیں �پنے کام سے

آ�تے تو و�پس جانا نہیں چاہتے۔ فرصت ہی نہیں ملتی تھی بچے بھی �نکے پیار سے محروم تھے د�دی کے پاس

آ�نے کے بعد بڑ �لڑکا کئی دن تک چڑ چڑ �نھیں و ہاں وہ پیار ملتا جس کے وہ طلب گار تھے حقد�ر تھے وہاں سے

Page 30: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

��ور روٹھا ہو �رہتا تھا۔ وہ �کثر باپ سے پو چھتا کہ ’’ہم د�دی کے پاس کیوں نہیں رہتے وہ �کیلیر ہتی ہیں ‘‘۔

آ�پکے ساتھ نہیں ر ہوں گا‘‘۔ باپ سے خاطر خو�ہ جو �ب نہ پا کر کہتا’’جب میں بڑ �ہو جاؤں گا تو میں بھی

آ�دمی عامر �ور �س کی بیوی �یک دوسرے کی صورت دیکھتے �ور خا موش ہو جاتے۔ در�صل �ب �نھیں �یک �پنے

کی سخت ضرورت محسوس ہو رہی تھی جو �نکے گھر �ور بچوں کی دیکھ بھال کر سکے بچے نو کروں کے

آ�گے جھکنا نہیں چا ہتا تھا �یک چھٹی کے دن وہ سہا رے پل رہے تھے �ور بگڑ رہے تھے لیکن عامر ماں کے

بچوں کے کمرے میں گیا تو دیکھا �نکے کمرے میں جا بجا ٹی وی گا ئیڈ سے لی ہوئی تصو یریں بکھری پڑی

تھیں کچھ دیو�روں �ور کچھ �ن کی �لماری پر چسپاں تھیں کپڑے �ور کتابیں �دھر �دھر پڑی تھیں �ور دو نوں

بھائی بہن ٹی وی کے سا منے بیٹھے قہقہے لگا رہے تھے۔ عامر سرسے پاؤں تک لرز گیا �س کی ماں نے کبھی

آ�نے کا سو �ل ہی نہ تھا �س نے ٹی وی گھر میں رکھا ہی نہیں تھا ٹی وی گا ئیڈ یا �ور کوئی میگزین گھر میں

�پنے بچپن میں �یسی گندی تصو یریں نہیں دیکھی تھیں گھر میں کتنا سکون تھا کتنے سلیقے کی زندگی تھی

ماں کا پیار درو دیو�ر سے ٹپکتا تھا �ور �یک یہ زندگی ہے کہ۔ ۔ ۔ وہ نادرہ پر چلا نے لگا۔

تم کتنی پھو ہڑ �ور غیر ذمہ د�ر عورت ہو تمہیں بچوں کا خیال ہے نہ میر� لحا ظ ہے کبھی تم نے بچوں کا ’’

کمرہ دیکھا ہے کہ وہ کیسا ہے �ور بچے کیا کر تے رہتے ہیں ؟ تم پڑھی لکھی ہو لیکن جاہلوں سے بد تر ہو

ملازمت کر رہی ہو تو کیا مجھ �حسان کر رہی ہو ؟

آ�و�ز میں نہ بو لو، ملازمت کرو�نے کی خو�ہش تمہاری تھی میری نہیں !جب تم بھی ملا زم ہو’’ عامر زیادہ �ونچی

�ور میں بھی ،تو پھر بچوں کی ذمہ د�ری صرف مجھ پرہی کیوں

آ�ج تک جو ہو� سو ہو� ڈ�لتے ہو �ن پر نظر رکھنا تمہار� بھی تو کام ہے ‘‘۔ ’’میں تمہاری بکو �س سننا نہیں چا ہتا

�ب ہم ماں کے پاس جا کر رہیں گے زندگی کا قر ینہ �ن سے سیکھو تمہاری ماں نے تو تمہیں کچھ نہیں سکھا

‘‘ یا نا ؟

Page 31: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

� دور ہو گئے �ب’’ شاید تم خود �پنی ماں سے �لگ ہو نا چاہتے تھے میں نے تو صرف �ر�دہ ظا ہر کیا تھا �ور تم فور

تم وہاں رہنا چاہتے ہو تو مجھے کیا �عتر �ض ہو سکتا ہے ؟‘‘

جب عامر ماں کے پاس گیا تو دیکھا وہ سخت بیمار تھی �نتہائی کمز ور ہو گئی تھی عامر کو �پنے سامنے پا کر

آ�نکھوں میں جگنو سے چمکنے لگے جلدی سے �ٹھنے کی کوشش کی لیکن وہیں ڈھیر �س کی

ہو گئی عامر نے سہا ر� دیکر �ٹھا یا �ور تکئے لگا کر بٹھادیا۔ ’’ماں تم نے یہ کیا حالت بنالی ہے تمہیں کیا ہو

آ�و �ز تو آ�خر کیا وجہ ہے ؟ مجھے �،کب سے بیمار ہو مجھے �طلا ع دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ ۔ ۔ ‘‘’’

آ�تا کیا تم نا ر�ض ہو ماں ؟‘‘’’ نہیں بیٹا مائیں بچوں سے کیسے نار�ض ہو سکتی ہیں وہ دی ہوتی میں بھا گا چلا

تو بچوں کی خو شی میں خوش ہوتی ہیں۔ �سلام وعلیکم ورحمتہ �للہ وبرکاتہ۔ ۔ ۔ میر�رو�ں رو�ں تمہیں ہر پل دعائیں

‘‘ دیتا ہے ‘‘ ’’تمہاری یہ حالت کیوں کرہوئی کیا ہو� ہے بتا ؤ نا ؟

آ�پ شرمندہ �ور’’ آ� رہا تھا۔ چیک �پ کرو�یا تو معلوم ہو �ملیر یا ہو گیا ہے ‘‘۔ عامر �پنے کچھ نہیں بس ذر�بخار

ملول سا تھا لیکن �سے غصہ بھی تھا کہ �س حالت میں بھی ماں نے �س کا سہا ر�لینا گو �ر�نہ کیا تھا۔ وہ ر�ت

میں ماں کے سر ہانے بیٹھا کسی کتاب کی ورق گرد�نی کر رہا تھا کہ �سے کتاب میں �یک لفا فہ ملا جس پر �سی

کا نام لکھا ہو �تھا شاید وہ پو سٹ کرو�نا بھول گئی تھی۔ عامر نے لفافہ چاک کیا لکھا تھا

آ�مین آ�مین ثم ننمادر عامرجان!!تم سلامت رہو ہز�ر برس ہر برس کے ہوں دن پچاس ہز�ر ) (جا

آ�ج تک مجھ سے �س لئے خفار ہے ہو کہ میں نے تمہارے و�لد سے علحد گی �ختیار جان ! میں سمجھتی ہوں تم

آ�ج �پنے دل کا بو جھ ہلکا کر لیناچاہتی ہوں شاید تم یقین نہیں کرو گے کرلی تھی میں تمہاری �لجھن دور کر کے

کہ تمہاری تائی نے ہم پر بہت ظلم ڈھائے تھے وہ تمہارے و�لد کی خالہ ز�د بہن بھی تھی �کلوتی تھی۔ وہ لوگ

بہت دو لتمند تھے تمہاری د�دی

Page 32: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

�ور �نکے بچے یعنی تمہارے تایا و�لد �ور پھو پی سب �نکے �حسان تلے دبے ہوئے تھے تائی معمولی شکلو صورت

کی تھی �سلئے کہیں شادی ہو نہیں پارہی تھی تمہارے تا یا نے زبر دستی �ن سے شادی کرلی وہ �نھیں پسند نہیں

آ�تے ہی گھر و�لوں پر �پنی حکومت چلانا شروع کر دی کسی کی مجال نہیں تھی کہ �س کی مرضی تھی �س نے

کے خلاف کوئی کام کرتا �س کے برخلاف میری خوبصورتی ہی میری بد نصیتی کا باعث بن گئی۔ وہ مجھ سے

حسد ہی نہیں نفرت بھی کرتی تھیں۔ میں �ن کی نظر میں ہمیشہ کھٹکتی رہی �سلئے مجھے نیچا دکھا نے کا

کوئی مو قع ہاتھ سے نہ جانے دیتی تھیں مجھے �ذیت پہنچاکر�نھیں ذہنی سکون ملتا تھا۔ �نھوں نے �یک دن �پنے

آ�مد زیور�ت کی چوری کا مجھ پر �لز�م لگا دیا جنھیں میری �لماری میں چھپا کر تلا شیلی �ور سب کے سامنے بر

آ�ئی عرصہ در�ز گزر گیا کر کے بتا یا �س و�قعہ کے بعد میر� �س گھر میں ر ہنا ممکن نہ تھا میں ما ئیکے چلی

تمہارے و�لد یا �ور کسی نے بھی ہماری خبر نہلی۔ تمہاری د�دی کے �نتقال کے فوری بعد تائی نے �پنی �یک

سہیلی سے و�لد کی شادی کرو�دی �ور میں نے خلع لے لیا۔ �س کے بعد جینے کی خو�ہش نہیں تھی لیکن

تمہاری خاطر زندگی سے نا طہ قائم رکھنا، پڑ ��یک �ہم بات تمہیں بتا دوں کہ تمہاری �یک بہن شاذیہ ہے جو تم

سے سال بھر کی بڑی ہے �ن لوگوں نے �سے زبر دستی �پنے پاس رکھ لیا ہے۔ شاید �س کی شادی ہو گئی ہو۔ �ب

تم سمجھد�ر ہو گئے ہو میرے بعد تم �س کا خیال رکھنا، پتہ نہیں میرے �ور تمہارے لئے �س کے دل میں کوئی

جگہ ہے یانہیں۔ میں سمجھتی ہوں �ب تمہار� دل صاف ہو گیا ہو گا �ور تم �پنی ماں کو معاف کر دو گے ‘‘۔

بیٹے۔ تمہارے �ور تمہاری پیاری دلھن �ور پیارے پیارے بچوں کیلئے میری دعائیں �ور نیک تو قعات ہمیشہ ہمیشہ

میرے مرنے کے بعد بھی بر قر� رہیں گی۔

�نشاء �للہ فی �مان �للہ۔

تمہاری

گنہگار ماں

٭٭٭٭٭

Page 33: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

نمبر رانگ

یہ بولتے ہوئے لمحے یہ ڈولتی ہوئی شام

ترے جمال کے صدقے ترے وصال کے نام

بھٹک رہے ہیں خو�ب پریشاں کی طرح کب سے

آ�نکھوں میں کریں بسر ہم یہ جی میں ہے کہ تری

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

محترمہ !میں تو �س جہاں کی تلاش میں ہوں جہاں خوبصورتی کی کوکھ سے بد صورتی نہ پید� ہوتی ہو جہاں’’

مذہب کے نام پر جھگڑے نہ ہوتے ہوں۔ جہاں بڑی بڑی ڈگریاں ہاتھوں میں لئے نوجو�ن نوکری کی تلاش میں نہ

گھومتے ہوں۔ جہاں بدبو د�ر جھونپڑ یوں میں رنگین خو�ب نہ دیکھے جاتے ہوں �ور جہاں لڑکوں �ور لڑکیوں کے

رشتے رنگ وروپ یا دولت کی بنیاد پر طئے نہ ہوتے ہوں۔‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�پ نے’’ آ�پ نے فون کیاتو میں نے بتا یا تھا کہ ملیحہ نام کی کوئی لڑکی یہاں نہیں رہتی �بھی چند منٹ پہلے

آ�پ ہی کا نمبر دوبارہ میر� فون کیوں ملایا؟‘‘ بلال نے حیرت سے پوچھا ’’جی معافی چاہتی ہوں پتہ نہیں دوبارہ

آ�پ کا نمبر معلوم ہی نہیں ہے در�صل میرے گھر و�لے شادی کی تقریب میں کیونکر مل گیا‘‘ یقین کریں مجھے

گئے ہوئے ہیں �ور میں �کیلی بور ہو رہی تھی سوچا کہ �پنی دوست ملیحہ سے کچھ دیر بات کر لوں میں نے �سی

Page 34: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�پ کا نمبر کیوں کر مل گیا‘‘ دوسری طرف سے آ�یا کہ دوسری بار بھی کا نمبر ڈ�ئل کیا تھا سمجھ میں نہیں

آ�پ فون رکھ آ�پ سمجھ گئیں نا کہ یہ ملیحہ کا فون نہیں ہے بہتر ہو گا آ�ئی ’’�ب تو آ�و�ز مٹھاس میں ڈوبی ہوئی

آ�پ گھر پر �کیلی آ�پ �سی طرح بتا دیتیں کہ دیں �گر میرے بجائے کسی چور لٹیرے کے فون سے ربط ہو جاتا �ور

آ�پ �کیلی ہیں تو �س میں بور ہو نے کی کیا بات ہے ہیں تو جانتی ہیں کیا ہوتا ؟‘‘بلال نے نرمی سے کہا ’’ ویسے

آ�نکھوں پر ! آ�پ کا مشورہ سر آ�پ عبادت میں یاکسی کتاب کے مطالعہ میں وقت گز�ر سکتی تھیں ‘‘۔ ’’جی !

آ�پ سے آ�پrequestمیں فون تو رکھ دوں گی لیکن آ�پ �پنا نمبر دیدیں !‘‘’’کیوں کیوں ؟ کروں گی کہ پلیز

آ�و�زکی گر آ�پ کوئی غلط مطلب نہ لیں در�صل میں �چھی میر� نمبر کیوں لینا چاہتی ہیں ؟‘‘’’ میں سچ بتا دوں گی

آ�پ رنجیدہ ہیں ؟‘‘ آ�و�زبے حد پر کشش �ور سوزمیں ڈوبی ہوئی ہے کیا آ�پ کی ویدہ ہوں

ذرہ نو�زی شکر یہ !محترمہ زندگی رنجو غم ہی سے تو عبادت ہے �گر غم نہ ہو تو خو شی کی قدر کیسے ہو’’

آ�پ کی بات سن کر مجھے آ�پ کو �پنا نمبر دے تو دوں لیکن خد�ر�ملنے کی خو�ہش نہ کر بیٹھئے گا‘‘ ’’ گی ؟

آ�دمی �تنا شریف شاید نہیں ہو گا کہ �یک عورت ملنا چاہے تو مرد �نکار کر حیر�نی ہوئی کیونکہ �س زمانے میں کوئی

آ�پکو ملنے سے منع کر رہا ہوں دے !ویسے �پکی مصروفیت کیا ہے ؟ ‘‘’’میں سائیکالوجی میں �یم فل کر رہا ہوں ’

آ�دمی ہوں ؟ آ�پ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں شریف ‘‘ تو

آ�پ شا دی شدہ ہونگے بیوی سے ڈرتے ہو نگے ہے ، نا یہی بات؟‘‘’’ تو پھر یہ ہو سکتا ہے کہ

آ�پ نے میری’’ آ�پ پڑھتی ہیں ؟‘‘’’ میں نے �سی سال بی �ے کیا ہے۔ آ�پ باتیں بڑی دلچسپ کر لیتی ہیں کیا

آ�پ نے دوسو�ل کئے ہیں میں ملنا کیوں نہیں چا باتوں کی تعریف کی شکریہ !میرے سو�ل کاجو�ب نہیں دیا؟‘‘ ’’

ہتا دوسرے میں شادی شدہ ہوں یا نہیں ‘‘ ؟

Page 35: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�پکی تعلیم جاری ہے’’ آ�پ شادی شدہ نہیں ہیں کیونکہ �بھی میرے دوسرے سو�ل کا جو�ب شاید مل گیا ہے کہ

آ�پ ملنا کیوں نہیں چاہتے ؟‘‘ ’’� سکی کوئی خاصو ’سائیکالوجی میر� بھی پسندیدہ سبجیکٹ رہا ہے یہ بتائیں کہ

جہ نہیں ہے �متحان قریب ہیں تیاری کرنی ہے ‘‘

آ�پ �پنا نمبر بتا دیں ورنہ بھول کر فونر کھ دیا تو زندگی میں’ ’ ہم کبھی کبھی فون پر بات تو کر سکتے ہیں نا ؟پلیز

آ�پ کبھی بات نہ ہو سکے گی‘‘�سو قت کسی �جنبی مرد سے �سطرح بات کر نا کوئی �چھی بات نہیں ہے نا ؟’’

آ�پکا نام نے بڑی خشک طبعیت پائی ہے �تنا بھی نہیں پوچھا کہ میر� نام کیا ہے پھر کب بات کروں گی ویسے کیا

‘‘ پو چھ سکتی ہوں ؟

آ�پکا نام میں نے پو چھنا ہی نہیں چا ہا کسی غلط نمبر’’ میر� نام بلال ہے بلال �حمد’

ملا نے و�لے کا نام نمبرو غیرہ پو چھنا ضروری تو نہیں جبکہ دوسری طرف کوئی لڑکی ہو تو یہ �ور بھی معیوب

آ�پکو تو وکیل بننا چا ہئے تھا �تنی دیر تک بات کرنے کے بعد کیا ہم �یک آ�پ بڑے منطقی ہیں بات ہو گی‘‘ ’’

آ�پ نے غلط آ�پ خو �ہ مخو�ہ �پنی شر�فت کا سکہ بٹھا نے لگے !’’ محتر مہ دو سرے کے دوست نہیں بن گئے ؟

آ�پ وجہ سمجھا میں کوئی سکہو کہ نہیں بٹھا رہا ہوں در�صل میں عورتوں سے دوستی کرنے کا قائل نہیں ہوں �ور

پو چھیں گی تو میں نہیں بتاؤں گا �ب میں یہ سلسلہ گفتگو بند کر نا چا ہتا ہوں کام بہت ہے �ور وقت کم ہے

آ�پ کا تو ٹا ئم پاس ہو گیا نا؟ آ�پ سے �تنی باتیں کیسے کر لیں ؟ ‘‘ تعجب ہے میں نے

آ�تے ہی ہو نگے میں پھر بات کروں گی میر� نام فردوس ہے بھول نہ’’ جی ہاں وقت تو گزر گیا میرے گھر کے لوگ

جائے گا‘‘ بلال �حمد تین بہن بھا ئیوں میں سب سے چھو ٹا تھا بھائی �ور بہن �س سے نفرت کرتے تھے کیونکہ

�س کے پید� ہو نے کے چند دن بعد ہی ماں کا �نتقال ہو گیا تھا خاند�ن کے لوگ کہتے تھے �س نے ماں کو کھا

آ�یا کے حو�لے کر دیا جب وہ دس سال کا تھا تب و�لد نے �س کے بھائی �ور بہن کی لیا۔ و�لد نے �سے �یک

شادی

Page 36: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�یا جو�سے بے حد پیار کرتی تھی چل بسی نئی ماں آ�ئے۔ �سی دور�ن �س کی کر دی �ور خود �یک نئی ماں لے

کے کہنے پر و�لدنے �سے بور ڈنگ میں شریک کر�دیا �سے یہاں بھی نفرت ہی ملی سب �س کے کا لے رنگ کا

مذ�ق �ڑ �تے لیکن دل ہی دل میں �س سے مر عوب تھے کیونکہ وہ بلا کا ذہین تھا ہر �متحان میں فرسٹ ڈیویژن

سے پاس ہوتا یا میرٹ میں پاس ہوتا گزرے برسوں نے �سے عمر سے کہیں زیادہ سنجیدہ بنادیا تھا کرشن چندرکے

علا وہ شیلے ’ کیٹں ’ با ئرن �ور شکسپیر کو بھی �س نے پڑھ لیا تھا۔ �س سے کچھ دیر گفتگو کرنے و�لے

معلومات کا �یک ذخیرہ سمیٹ لے جا تے۔ گر �ئجو یشن کرنے تک وہ �یک �علی مصور بن گیا وہ �چھا گلوکا

ربھی تھا و�لد نے �س کی شادی کرنی چا ہی لیکن جہاں بھی �س کا پیام جاتا �نکا رکاجو �ب ملتاکیونکہ رنگ کے

آ�ج کی لڑکیوں کو سیر ئیلس کے ہیرو زجیسےT.V علا وہ �س کا ناک نقشہ بھی کسی نے پسند نہیں کیا تھا

نرنیکیو شر�فت کیوں نہ ہوں �ن لڑکیوں کی زندگی کی شوہر چاہئے �ور د�ڑھی و�لے تو بالکل نہیں چا ہئے خو�ہ وہ پیک

کسو ٹی پر پو رے �تر تے ہی نہیں دو سال کی تگو دو کے بعد و�لد نے ہاتھ �ٹھا لیا �ب وہ �یک فلیٹ کر �ئے پر

آ�دم بیز�ر ہو گیا تھا �سے پیارتھا لیکر تنہا زندگی گز�ر رہا تھاچاہنے �ور چاہے جانے کی حسرت دل میں چھپائے وہ

تو �پنی مصوری سے �ور کتابیں �س کی رفیق خاص تھیں تنہائی کے عذ�ب کو خوش �سلو بی کے ساتھ جھیل رہا

آ�تے کبھی کبھی شدید خو �ہش بے تھا دل زیا دہ �د�س ہوتا تو سوزو گد�ز میں ڈوبے ہوئے کچھ �شعار دل سے نکل

چین کر دیتی کہ کاش �س کا �پنا بھی خاند�ن ہوتا حساس دل رکھنے و�لی معمولی شکلو صورت کی سہی ’ �یک

بیوی دکھ درد کی ساتھی ہوتی �ور بچوں کے معصوم شر�رتی قہقہے �س کے گھر کی رونقوں میں رنگ بھر تے وہ

بچوں کی �علی پیما نے پر پر ورش کر نا چا ہتا تھا �نھیں ہر فن مولا بنانا چا ہتا تھا بس وہ کا لے نہ ہوں یہ �س کی

آ�ج زندگی میں آ�ئینے کے سا منے جا کھڑ �ہوتا �ور پھر �پنی پینٹنگس کی دنیا میں کھوجاتا۔ دعاء تھی وہ �ٹھ کر

پہلی بار کسی لڑکی نے �سقدر خلو ص �ور پیار سے بات کی تھی جیسے صدیوں کی شناسائی ہو جیسے �سی

لبو لہجہ کا �نتظار رہا ہو �س کے جذبات میں ہلچل سی مچی ہوئی تھی جیسے پر سکوت سمندر میں کوئی

مسلسل کنکر یاں پھینک رہا ہو وہ پلکیں موندے بٹیھا تھا کہ فون کی گھنٹی بج �ٹھی �س نے لپک کر فون �ٹھا لیا۔

Page 37: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�پ نے بہت ‘‘’’Bilal Here �سلام علیکم’’ آ�پ ہی �ٹھایں گے ‘‘ و علیکم �سلام مجھے یقین تھا کہ فون

آ�پ میرے فون کے �نتظار میں دن گن رہے تھے ؟‘‘’’جی دنوں بعد فون کیا کہئے کیا حال ہے ؟’’ �و !یعنی کہ

نہیں یہ بات نہیں ہے ‘‘’ ’ بلال سٹپٹا گیا بات یہ ہے کہ میرے دوست �حباب �ور رشتے د�ر نہیں کے بر�برہیں

آ�پ کے گھر میں �ور آ�پ تو �چھی باتیں کرتی ہیں ‘‘’ ’ بلال نے بات بنائی کوئی فون کر لیتا ہے تو �چھا لگتا ہے

آ�پکے و�لدین بھائی بہن کیا کوئی نہیں ہے ؟‘‘ بھی تو لوگ ہو نگے ؟ ’’میں �کیلا رہتا ہوں �ور کوئی نہیں ہے ‘‘’ ’

آ�پ’’ و قت کی گر دش کے ہاتھوں لٹے ہوئے �نسان کا ساتھی صرف گزرے لمحوں کا عذ�ب ہوتا ہے بس‘‘ ’’

بیرون ملک کیوں نہیں چلے جا تے ؟‘‘

محتر مہ !میں تو �س جہان کی تلاش میں ہوں جہاں خوبصورتی کی کوکھ سے بد صورتی نہ پید �ہوتی ہو جہاں’’

مذہب کے نام پر جھگڑے نہ ہوتے ہوں ’ جہاں بڑی بڑ ی

ڈگریاں ہاتھ میں لئے نوجو�ن نوکری کی تلاش میں نہ گھومتے ہوں جہاں بدبود�ر جھونپڑوں میں رنگین خو�ب نہ

و روپ یا دولت کی بنیا دپر طئے نہ ہوتے ہوں ‘‘’’ دیکھے جا تے ہوں �ور جہاں لڑکوں �ور لڑکیوں کے رشتے رنگ

آ�پ کو تکلیف دی ’ �چھا یہP.H.D آ�پ تو کرنے سے پہلے فلا سفر بن گئے ہیں معافی چاہتی ہوں میں نے

آ�پ کی �ور کیا مصرو فیت ہے ؟ ‘‘ بتائیں پڑھنے کے علا وہ

مصوری �ور مطالعہ میرے محبوب ترین مشغلے ہیں ‘‘’’ خوب !یہ تو بڑی �چھی بات ہے ‘‘ کیا �چھی بات ہے ؟’’

آ�پ مصورہیں مجھے مصوری بہت پسندہے خوب گزرے گی جو مل بٹیھیں گے دیو�نے دو‘‘۔ ’’ یہی کہ

آ�پ نے کیا کہہ دی ؟‘‘’’بلالHobbiesدنیا میں ہز�روں لوگوں کی یہ’’ ہوں گی �ور یہ مل بیٹھنے کی بات

آ�پ سے ملنے کی خو�ہش کچھ آ�ہنگی ہو تو دوستی خوب نبھتی ہے �ب تو صاحب دو�نسانوں کے خیا لات میں ہم

آ�پ سے کب ملا قات ہو سکتی ہے ؟‘‘’’فردوس صاحبہ دو�جنبی �ور مخا لف جنس کا ملنا سو� ہو گئی ہے کہئے

‘‘ جلنا ٹھیک نہیں ہے یہی بہت ہے کہ ہم فون پر بات کر لیتے ہیں

Page 38: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�پ �س قدر تعلیم یافتہ �ور نئے زمانے کی پید�و�ر ہوتے ہوئے خیالات �تنے پر�نے رکھتے’’ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ

آ�یا کہ �یسا کیوں ہے ؟‘‘ ہیں میری سمجھ میں نہیں

آ�ز�دی کی مالا گلے میں ڈ�لے گلی گلی’’ کیا روشن خیال وہی لوگ ہو تے ہیں جو

آ�پ آ�ز�دی کا یہ مطلب ہے کہ مرد وزن بلا جھجک جب چاہیں جہاں چاہیں ملا کریں بی بی کیا گھو متے ہیں کیا

آ�ز�دی ہمیں کہاں لے جا رہی ہے �ور آ�پ کو بے شمار مثالیں ملی ہونگی کہ یہ �خبار نہیں پڑھتیں ؟ �گر پڑھتی ہیں تو

آ� رہے ہیں کیا کیا تماشے ہو رہے ہیں ‘‘ کیسے کیسے و�قعات ہمارے سامنے

آ�پ توہمارے مولویوں کی زبان بولنے لگے جوسال دو سال میں کسی نہ کسی مغربی ملک کا دورہ کرتے ہیں’’ �فوہ !

چھوٹی بڑی مسجدوں یا کھلے مید�نوں میں وعظ بیان کرتے ہیں یہ لوگ صرف مسلمانوں کوہی �سلام کی باتیں

بتاتے ہیں مغربی مما لک کو ہمارے لئے بڑ �

خطرہ بتا تے ہیں دین کے �ن رہنماؤں نے کبھی عیسا ئیوں ’ یہودیوں �ور دیگر مذ�ہب کے لوگوں کو �سلام کی

طرف لا نے کی کوشش نہیں کی لمبی چوڑی تقریریں کر کے ہز�روں لا کھوں ڈ�لریا پونڈ چندہ جمع کرتے ہیں �ور

خد� جا نے �سے کس مصرف میں لاتے ہیں کسی نے بوسنیا، کوسوؤ، چیچنیا �ور �فریقہو غیرہ جا نے کی کوشش

نہیں کی وہاں مسلم قوم کی کیا حالت ہے کسی نے جا ننے کی ضرورت نہیں سمجھی کیوں ؟دور کیوں جائیں

خود �پنے ہی ملک میں مسلمان کیا صحیح ر�ستے پرہیں ؟کیا دین کے رہنماؤں کا یہی کام ہے ؟ علمائے دین ہی

دین کے پا سباں نہیں ہیں تو ہم دنیاد�ر لوگ دین د�ر کیسے بن سکتے ہیں ؟کوئی صحیح رہنما نہیں ہے تو ہم

‘‘ کیونکرصحیح ر�ستے سے منزل مقصودپر پہنح سکتے ہیں ؟

آ�پ’’ آ�پ کو تولیڈر بننا چا ہئے تھا یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آ�پ نے �تنی لمبی چوڑی تقر یرکر ڈ�لی ! و�ہ بھئی

آ�پ آ�پ سے ملنا ہے بس ! دینی رحجان تو رکھتی ہیں لیکن ‘‘۔ ۔ ۔ ’’�ب یہ بتائیں �پ کب مل رہے ہیں مجھے

Page 39: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�پ کومایوسی ہو کے روبرو بیٹھ کر ڈھیرساری باتیں کرنی ہیں ‘‘’ ’ دیکھئے ملنے کے معاملے میں ضدنہ کریں ورنہ

‘‘ گی‘‘’ ’ کیسی ما یوسی میں سمجھی نہیں ؟

آ�پ جب تک ملیں گے’’ آ�ج کا فی طویل گفتگو رہی‘‘ ’’ میں پھر کبھی سمجھا دوں گا �ب ہمیں فون رکھنا چاہئے

آ�پکو یو نہی بور کرتی رہوں گی‘‘ نہیں میں

آ�پ جسے بورکر نا کہہ رہی ہیں یہ بو ریت میرے لئے عین ر�حت ومسرت ہے �چھا خد�حافظ �پنا خیال رکھئے’’

آ�پ کے فون کا �نتظار رہیگا‘‘ مجھے

بلال �حمد کا دل عجیب �ند�ز میں دھڑ ک رہا تھا دل کی ویر�ن �ور بنجر زمین پر کو نپلیں پھوٹ رہی تھیں کیا

�ن کو نپلوں پر پھول بھی کھلیں گے ؟ یہ پھول کس کے نام کے ہونگے ؟ کیا فردوس بہار بن کر �س کے ویر�نے

میں قدم رکھ سکتی ہے ؟ �گر �یسا یہ نہ ہو سکا تو کیا ہو گا وہ سوچ رہا تھا �سے فردوس کے فون کا �نتظار کیوں

رہتا ہے یہ کو نسا جذبہ تھا جو �سے بے چینو بیقر�ر کئے ہوئے تھا دل میں �یک �نجانی کسک کرو ٹیں لے رہی

� ملناچاہتی ہے کوئی تھی۔ بہت سارے دن یو نہی گزرگئے۔ �یک دن فردوس نے ضدکی کہ وہ بلال سے فور

آ�خر بلال نے سوچا کہ چلو �س ضروری بات کہنی تھی بلال نے فون پر بتا نے کوکہا لیکن وہ �نکار کرتی رہی

دشمن جاں سے مل ہی لیں گے جس نے دن کا چین ر�توں کی نیند حر�م کر رکھی ہے �گر کچھ بات بنتی ہے تو

آ�خری بھی ہو سکتی ہے۔ دو نوں نے مقام �ور و قت کا تعین کیا ہو ٹل ’’ شان بنا ئنگے ورنہ یہی پہلی ملا قات

باغ‘‘ ٹھیک پانچ بجے فردوس نے �پنی پہچان کے لئے بتا یا کہ �س کے ہاتھ میں سا حرکی ’’تلخیاں ‘‘۔ ہو گی

آ�خری سرے پربیٹھی تھی �سے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا پر کشش بلال نے ہو ٹل پہنچ کر دیکھا فر دوس ہال کے

نا ک نقشہ پتلے گلابی ہونٹ جن پر خفیف سی مسکر�ہٹ تھی جو �س کی دلی کیفیت کی غمازی کر رہی تھی۔

بلال �حساس کمتری میں مبتلا ہو گیا وہ تذبذب میں تھا کہ �تنی پیاری سی لڑکی سے ملے یا نہ ملے �گرملتا ہے تو

دوستی کا یہ شیشے جیسا نازک رشتہ ٹوٹ سکتا ہے �س کے کا لے ر نگ کے باعث وہ نفرت کر بیٹھی تو کیا ہو

گا ؟ نہیں ملنا ہے تو �س کی نا ر�ضگی کیا رنگ دکھائے گی ؟ وہ �ن ہی خیا لوں میں �لجھ رہا تھا کہ �چانک

Page 40: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

�یک �وباش قسم کا لڑکا فردوس کے ٹیبل کی طرف بڑھا �ور کچھ کہتے ہوئے نہایت بد تمیزی سے �س کے ہاتھ

سے کتا ب لیکر دیکھنے لگا فردوس کھڑی ہو گئی �ور ڈ�نٹتے ہوئے �س کے ہاتھ سے کتاب چھینلی بلال تیزی کے

ساتھ وہاں پہنچا �ور �س لڑکے کا گر یبان پکڑ لیا دو نوں میں ہا تھا پائی شروع ہو گئی کچھ �ور لڑکے بھی بلال

آ�ور کا لے سے بلال کو بے جگری سے لڑتے ہوئے فردوس حیر�نی سے دیکھ پر ٹوٹ پڑے گٹھے ہوئے جسم �ور قد

رہی تھی �سی دو ر�ن میز�لٹ گئی جو فر دوس کے پاؤں پر گرپڑی �س نے �یک چیخ ماری �ور گر گئی مجمع

پیچھے ہٹنے لگا بلال نے میزکوسیدھا کیا فردوس کے پاؤں سے خون یہہ رہا تھا وہ بے ہوش ہو چکی تھی بلال نے

�سے �پنی بانہوں پر �ٹھا لیا �ور تیزی سے باہر کی جا نب جا نے لگا کسی نے �پنی کار میں بیٹھنے کو کہا فر دوس

کو قریبی دو�خانہ پہنچا دیا گیا �س کے بیگ میں تلاش کرنے پر چھو ٹی سی ڈ�ئری مل گئی پہلے صفحہ پر �س

آ�دھے گھنٹے کے �ندر پہنچ گئے بلال نے سر سری و�قعہ کا نام �ور نمبر مل گئے گھر پر فون کیا �س کے گھر و�لے

� کیا گیا آ�پر یشن فور بتا دیا فر دوس کا �نگوٹھا ٹوٹ کر�لگ ہو گیا تھا جو صرف جلد کے ساتھ جھولر ہا تھا �س کا

�سے کئی دن دو�خانہ میں رہنا پڑ �بلال ہر روز �س کے گھر فون کر کے کیفیت لیتا رہا گھر و�لے �س کی ہمدردی

�ور فکر مندی سے بے حد متا ثر تھے فر دوس کو بتا یا کہ کسی مشتاق نامی لڑکے نے �سے دو�خانہ پہنچا یا �ور

آ�و�رہ لڑکا جب �س سے آ�یا کہ ہر روز �س کی کیفیت لیتا ہے۔ بلال نے �پنا نام مشتاق بتا یا تھا فر دوس کو یا د

آ� گیا �ور تین �لجھ رہا تھا تب ہی �یک کا لا کلو ٹا �ونچے قدکا لڑکا قیمتی کپڑوں میں ملبوس �چانک کہیں سے

چار غنڈوں کی پٹائی کرنے لگا جیسے کسی ہندی فلم کا منظرتھا �ور وہ محظوظ ہو رہی تھی کہ میز� سکے پاؤں

آ�ئی �ور بلال کا نمبر ملا یا ہمیشہ کی پر گر پڑی تھی شاید یہ �سی لڑکے کا ذکر ہے فردوس ڈسچا رج ہو کر گھر

آ�پ جیسے جھوٹے �ور طرح بلال نے فون �ٹھایا ’’�سلام علیکم بلال ہئیر !‘‘ بلال نے دھڑ کتے دل سے کہا ’’

آ�ئیندہ آ�پ دھوکے باز شخص کو میں نے دوست جا نا یہ میری نا د�نی تھی میں نے یہ کہنے کے لئے فون ملا یا کہ

کبھی کسی سے دوستی نہ کریں ورنہ �س کی بھی ٹانگ ٹوٹ جائے گی‘‘ بلال نے فر دوس کی نا ر�ضگی سے

آ�نے آ�پ نے تصویر کا �یک ہی رخ دیکھا �ور بدگمان ہو گئیں نہ بچنے کیلئے جھوٹ کا سہار� لیا ’’فردوس صاحبہ

کی وجہ تو پوچھی ہوتی ! میں متعینہ مقام پر پہنچنے کے لئے گھرسے چلاتو ر�ستے میں �یک �سکو ٹر نے ٹکر

Page 41: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�فت �نسان کو کسی آ�سمانی سلطانی کوئی آ�پ کے فون کا �نتظار کرتا رہا دیدی �ور میں کئی دن تک گھرہی پر پڑ �

آ�پ نے مجھے �پنا نمبر تو نہیں دیا تھا کہ میں �طلاع کرتا کل سے میری طبعیت سنبھلی وقت بھی گھیر سکتی ہے

آ�پ بتائیں کیسی ہیں بہت دن بعد فون کیا کس کی ٹا نگ ٹوٹ گئی ہے ؟ ‘‘بلال نے �نجان بنتے ہوئے پوچھا ہے

فر دوس نے مختصر �سا ر� و�قعہ بتا نے کے بعد کہا’’ میں سوچ میں ہوں کہ وہ فرشتہ صفت کون تھا �ور تعجب تو

آ�پ کو میری یہ ہے کہ وہ ہر روز میری کیفیت لیتا رہا ‘‘فرد وس صاحبہ یہ میرے نصیب کی بات ہے کہ �نجا نے میں

آ�رزودل ہی میں آ�پ کے کسی کام نہ �س کا ملا قات کی طرف سے �نتہائی تکلیف �ٹھانی پڑی میں شرمندہ ہوں کہ

آ�پ مجھے سنانا چاہتی تھیں ؟وہ سنانا آ�پ کم �زکم �ب تو بتا دیں وہ کونسی ضروری بات تھی جو رہ گئی ویسے

شاید �ب ضروری نہیں ہے در�صل و�لدین میری شا دی کی بات چلا رہے تھے مجھے کسی �جنبی کے گلے کا ہار

آ�پ کا عندیہ لینا چاہتی تھی �ور �ب وہ بات باقی نہیں رہی کیونکہ میں لنگڑی ہو چکی ہوں بنناگو�ر�نہ تھا سومیں

�س پوزیشن میں لڑکے و�لے خود�نکا رکر دیں گے ’’یہ تو بہت �چھا ہو �۔ کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘بلال کے منہ سے بے

‘‘ �ختیار نکل گیا ’’جی کیا �چھا ہو �؟

آ�پ سے کچھ آ�پ کسی �جنبی کے گلے کا ہار بننے سے بچ گئیں ؟فر دوس خا موش تھی ’’میں نے یہی کہ

آ�پکی تمام تر آ�پکے دکھوں کو سمیٹنا چاہتی تھی آ�پ نے چپ سا دھلی ؟ ‘‘’’بلال صاحب۔ میں پوچھا ہے ؟!

آ�پ کو �د�سیوں کے دیا رسے نکال کر تنہا ئیوں کے آ�رزوں کو سینے سے لگا لینا چاہتی تھی محر ومیوں �ور نا تمام

آ�پ کے ساتھ آ�پ کے قدم سے قدم ملا کر زندگی کا سفر پور� کر نا چاہتی �ور حصارکو تو ڑ دینا چاہتی تھی �ور

قدم ملا کر زندگی کا سفر پور� کر نا چاہتی تھی لیکن �ب۔ �ب تو خودمیں �یک شئے نا کا رہ بن گئی ہوں ‘‘ فر

دوس کا گلا �ندھ گیا۔

آ�پ نے �بھی �بھی جو کچھ کہا ہے یہ میرے لئے’’ آ�پ کے قابل نہیں ہوں آ�پ نے یہ کیا کہہ دیا میں خو د فردوس

بہت کا فی ہے میں �پنی باقی زندگی �س �حساس کے ساتھ گز�ر سکتا ہوں کہ میرے لئے کسی کے دل میں تھوڑی

Page 42: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�پ آ�پکے و�لدین جہاں آ�پ جیسی لڑکی کے لا ئق نہیں ہوں سی جگہ ہے کوئی مجھے �پنا سمجھتا ہے میں ہر گز

آ�پکی بھلائی ہے ‘‘۔ کی شادی کر ناچاہیں بخو شی کر لیں �سی میں

آ�پ خود کو بچا نا چاہتے ہیں �یک لنگڑی سے’’ آ�ڑ میں ہاں میں سمجھ رہی ہوں �س �نکساری �ور مشورہ کی

آ�گے حقیقت کا �نکشاف کر نا آ�پ کے شادی کر نا حماقت ہی تو ہو گی‘‘۔ ’ ’ خد�ر��یسا نہ کہیں فردوس �ب

آ�ج تک کہیں ضروری ہو گیا ہے سچ تویہ ہے کہ میر� رنگ بہت کا لا ہے میر� رشتہ میرے رنگ وروپ کی وجہ سے

آ�پ ھھر� گئی’’ بلال صاحب مزید کچھ کہوں تو آ�و�ز ب آ�پ میر� خیال چھوڑ دیں ‘‘۔ بلال کی طئے نہ پا سکا �سلئے

یہی سوچیں گے کہ �یک بلاخو� مخو�ہ گلے پڑ نا چاہتی ہے حقیقت یہ ہے کہ �نسان کی قدرو قیمت �س کے رنگ

و روپ سے نہیں ہوتی یہ توظاہری �ور عارضی ہو تے ہیں کسی بھی خو بصورت �نسان کی قدر نہیں ہوتی جب تک

یی و�رفع مقام بنا سکتا ہے �ب میں کبھی کہ �س کا کرد�ر خو بصورت نہ ہو با کرد�ر �نسان کسی بھی دل میں �عل

آ�پ کو ڈسٹرب نہیں کروں گی‘‘ فردوس نے فون رکھ دیا۔ بلال ریسیور کو ہاتھ میں لئے گھور رہا تھا کہ جو کچھ

آ�رزو کا خو�ب !! �س بات چیت کے دودن بعد �س نے سنا �سی فون پر سنا تھا یا کوئی خو�ب تھا۔ �یک تشنئہ

آ�ئے وہ �پنی معذوربیٹی کے لئے خوشیوں کی بھیک ما نگ رہے تھے بلال حیر�ن تھا فردوس کے و�لدین بلال کے گھر

بار بار یہی کہتا رہا کہ وہ قطعی �نکی بیٹی کے لا ئق نہیں ہے لیکن �ن بزرگوں کی تڑ پ �ور �صر�ر پر�سے ہاں

کرنی پڑی لیکن شرط یہ رکھی کہ پہلے فر دوس کی رضا مندی لے لی جائے �نھوں نے بتایا کہ وہ کسی بھی �علی

تعلیم یا فتہ لڑکے سے شادی کرنے تیا رہے۔ �یک ہفتہ بعد فر دوس نے �پنی شادی کے رقعے دیکھے جن میں دولہا

کا نام تھا۔

( بلال �حمد�یم �ے �یم فل )سا ئیکا لو جی

*****

Page 43: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

مات اور شہ

آ�ب نج !ناخد�بے خود فضا خاموش ساکت مو

�ور ہم ساحل سے تھوڑی دور پہ ڈوبا کئے

مختصر یہ ہے ہماری د�ستان زندگی

!�ک سکون دل کی خاطر عمر بھر تڑ پا کئے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�گے چلنے کے لئے �س کے پاس کوئی مہرہ نہیں بچا تھاوہ روئی نہیں �پنی ہمت �ور ذہانت سے کام لیتے ہوئے

آ�ج گر �س نے یہ شادی کسی طرح رکو �بھی دی توکل کیا ہو گا کل کسی �ور طریقہ سے وہ شادی غور کیا کہ

کرے گا ہو سکتا ہے تب وہ �س کے قریب بھی نہ رہے دوسری کا ہوکر کہیں کھوجائے کیا تقسیم شدہ مرد مخلص

!�ور �نصاف پسند ہو سکتا ہے جبکہ وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سرما کی �نتہائی سر در�ت تھی کمرہ �یر کنڈ یشنڈ بنا ہو �تھا لیکن �س کی نس نس میں جیسے چنگاریاں سی

بھر گئی تھیں۔ �سے �پنا وجو د�یک بڑے خلا ء کے درمیان جھو لتا ہو� محسوس ہور ہا تھا۔ چاروں طرف سنا ٹا

آ�ج تقدیر نے �پنا وہ فیصلہ سنادیا تھا جس کا �سے ڈر لگا ہو �تھا۔ �ور �یک لا زو�ل ویر �نی سی چھائی ہوئی تھی۔

�سے وہ تمام دلنشیں صحبتیں مسرت کے نشے میں ڈوبی ہوئی شا میں �ور محبت کی خوشبو سے مہکتی ر�تیں یا

Page 44: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�نکھوں میں ہر دم قوس قزح کے رنگ لہر�تے آ� رہی تھیں جب شاہ زیب �ور وہ �یک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے د

رہتے۔ چار سال پہلے وہ

آ�ئی تھی �س کی ماں کو گزرے ہوئے چندمہینے ہوئے تھے و�لد جلد �زجلد شاہ زیب کی دلہن بن کر �س گھر میں

پاس کر لیا تھا چھو ٹی بہن �BAس کا گھر بسا کر �پنی ذمہ د�ری سے سبکدوش ہو جانا چاہتے تھے۔ �س نے

ن�BAور بھائی کی تعلیم جاری تھی۔ شاہ زیب �پنی ماں کا �کلوتا لاڈ لا بیٹا تھا* ن ن ن ن ن ن ن ن ن ن ن ن ن ن ن

کرنے کے بعد �پنا بزنس شروع

کر چکا تھا۔ �ب ماں کو بہو لا نے کی جلدی تھی وہ �پنی بھا نجی صفیہ کو بہو بنا نا چاہتی تھیں لیکن یو نیور

سٹی کے پہلے ہی سال وہ نازیہ کی نظروں کے تیر سے گھائل ہو چکا تھا۔ �ور ماں سے کہہ دیا تھاکہ وہ شادی

ا�س کی دلہن کرے گا تو صرف ناز یہ سے ورنہ کسی سے نہیں کرے گا ماں کوحامی بھرنی پڑی۔ �س طرح نازیہ

آ� گئی سسر�ل میں قدم رکھتے ہی �س نے گھر کی ذمہ د�ری یوں سنبھاللی جیسے وہ ہمیشہ سے �سی گھر بن کر

آ�ئی ہو۔ میں رہتی

آ�تانازیہ کی سیاہ زلفوں میں �پنامنہ چھپا کر سکون محسوس شاہ زیب دن بھر کی محنت کے بعد تھکا ہار� جب گھر

آ�نے سے پہلے ماں کے پاس دس پندرہ منٹ بیٹھنا �س کا معمول کرتا دنیاجہاں کو بھول جا تا۔ �پنے کمرے میں

آ�پ کو �س تھا �ور ماں کے لاڈ لے کی نازبرد�ری کر نانازیہ کا معمول تھا۔ ہفتہ کی ر�ت وہ خاص �ہتمام کرتی �پنے

کی ر� ہوں میں بچھادیتی �س کی من پسند ڈشس بنانے کے بعدگلاب کے پانی سے بہت دیر تک غسل کرتی �س

کی پسند کے کپڑے پہنتی پر فیوم چھڑ کتی۔ شاہ زیب کو بھی ہفتہ کے دن کا بے چینی سے �نتظار رہتا وہ صبح

نت معمول سے پہلے ہی گھرپہنچ جاتا، نکھری ستھری سے ہی کا موں کو جلد �زجلد نپٹانے کی کوشش کرتا �ور وق

آ�تشہ آ�نکھوں کی ر�ہ مر دکے دل میں �تر جاتی ہے ، یوں نا زیہ شر �ب دو کلی کیطر ح کھلی کھلی سی عورت

آ�ج بھی پہلی ر�ت جیسا بن کر شاہ زیب کے �عصاب پر چھا گئی تھی۔ تین سال بعد �س کا سحر

Page 45: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�ج بھی �س کے لیے گلا ب کی �دھ کھلی کلی تھی جس کی مسحو رکن مہک پر �سر�ر تھا دلفریب تھا۔ وہ

سے �س کی زندگی کے شبو روز معطر تھے۔ ہر وقت سر شاری �ور مستی کا عالم تھا۔ وہ چا ندنی تھی جو �س

کے وجو دکا �حاطہ کیے ہوئے تھی۔ تین سال کیسے گزر گئے پتہ ہی نہ چل سکا۔

آ�یا ہے۔ سر خ وسفیدگول مٹول سے بچے نازیہ کو �یک دن نازیہ نے دیکھا شاہ زیب پڑ وس و�لے بچوں کو گھر لے

بہت پیارے لگے۔ شاہ زیب �ن کے ساتھ کھیلر ہا تھا۔ شاہ زیب کی ماں بھی �نھیں دیکھ کرپھولی نہیں سما

رہی تھیں �چانک نازیہ کو�پنے دل میں کا نٹا سا چبھتا ہو �محسوس ہو ��س کے چہرے پر تاریک سا یہ سا �کر

آ�پ کو مجرم سمجھنے لگی �س کی ماں نہیں تھی جسے وہ گزرگیا۔ �سے �پنی محرو میوں کا �حساس ہو �وہ �پنے

�پنی �لجھن بتا سکتی بہن بھائی �س سے چھوٹے تھے۔ و�لد سے دبے �لفاظ میں �پنی �لجھن بتائی دعا کرنے کو

آ�سو یاس کے در میان �یک سال �ور گزر گیا۔ �س دو کہا �پنے طور پر علاج بھی کر و�یا دعا �ور دو� کے سہارے

ر�ن ماں بیٹے میں �کثر بات چیت ہوتی رہتی۔ شاہ زیب �س سے کھنچاکھنچاسار ہنے لگا تھا نازیہ مقدور بھر

نت نئے �ند�ز سے پلا تے کوشش کرتی کہ وہ �سے زیا دہ سے زیا دہ خوش رکھ سکے �سے �پنی محبت کے ساغر

آ�دھی ر�ت کو �سے جگاتا کبھی پانی مانگتا کبھی چائے کی نہ تھکتی �س کے �شاروں پر نا چتی رہتی وہ �کثر

کھیلتا رہتا �ور مات دے کرخوشChess فرمائش کرتا کبھی نیند �چٹ جانے پر دودوگھنٹے �س کے ساتھ چیس

آ�تا۔ صبح �سے بنا سنو�ر کر ہوتا۔ نازیہ خوشی خوشی �س کی ہر فرمائش پوری کرتی �ور پیشانی پر بل تک نہیں

رخصت کرتی �ور کچھ دیر کے لیے سوجاتی گیارہ بارہ بجے �ٹھ کر�پنی روٹی کی فکر کرتی۔ سال بھر پہلے ساس

آ�و�زمیں کہنا شروع کر دیا تھا۔ آ�ئے گئے سے �س نے بلند نے �س کا ہانڈی چو لہا �لگ کر دیا تھا۔ �ب ہر

میری بہومنحوس ہے جانے کون سی بری گھڑی تھی جب میں �سے بہو بنالائی۔ دن چڑھے تک سوتی ہے نہ ’’

آ�ن �یسوں کو ہی �للہ نامر�درکھتا ہے۔ �ن کی جھولی ہمیشہ خالی رہتی ہے۔ ‘‘ کبھی نمازنہ قر

آ�پ بھلا بیٹھی ہے �س کی خوشی کیلئے وہ کیسے کہتی کہ �ن ہی کے لاڈ لے کوخوش رکھنے کے لئے وہ �پنا

ر�توں کوجاگتی ہے۔ ہر دوسرے تیسرے دن �یک ہی بات سنتے سنتے وہ حوصلہ ہارنے لگی تھی۔ دعا �ور دو� سے

Page 46: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تھک کرکسی معجزہ کی �مید میں جی رہی تھی۔ �مید جو موہوم تھی �ور شوہر مردتھا دونوں ہی �عتبارکے قابل

آ�ندھیوں کے رخ پر رکھ دیا گیا ہو۔ نہیں تھے وہ بے بس تھی �سے محسوس ہوتا جیسے وہ �یک دیا ہو جو تیزو تند

وہ �ندرسے ٹوٹ رہی تھی۔ �ن ہی دنوں �س کے بھائی نے �کر بتایا کہ �س کے و�لدپر فالج کا حملہ ہو� ہے طبیعت

بہت خر�ب ہے وہ چھوٹی بہن کی شادی جلد �زجلد کرنے کے لئے بضد ہیں �ور بتایا کہ کچھ دنوں سے �یک

سلسلۂ پیام

چل رہا تھا حالات کے پیش نظر لڑکے و�لے بھی تیارہیں بس نازیہ کا �نتظار ہے۔ وہ بے حد

آ�یا تو �س نے بتا یا۔ فکر مندہو گئی شاہ زیب کا شدت سے �نتظار کر رہی تھی وہ

شاہ جی !بابا کی طبیعت خر�ب ہے فالج کا حملہ ہو� ہے �ور وہ ناظمہ کی شادی جلد �زجلد کر دینا چاہتے ہیں ’’

آ�میز لہجے میں کہادکھ �ور پر یشانی �س کے آ�پ کو فرصت ہو تو دونوں �کٹھے چلتے ہیں۔ ‘‘ نازیہ نے �لتجا �گر

چہرے سے عیاں تھی شاہ زیب نے رکھائی سے کہا۔

آ�جاؤں گا۔ ’’ آ�فس جاتے ہوئے آ�ؤ ، �گر ضرورت ہوتو مجھے فون کر دینا۔ ویسے میں صبح ‘‘ ٹھیک ہے تم خود ہو

یہ پہلا موقع تھا جب نازیہ ر�ت شاہ زیب کے قریب نہ تھی وہ علی �لصبح جاگ گیا ماں نے ناشتہ کر�یا �ور گویا

ہوئی

آ�ج صبح جلدی جاگے ہو ، تم نے ر�توں کو جاگ جاگ کرکیا حالت بنالی ہے ؟‘‘ ’’ شاہ زیب برسوں بعد

کیا ہو�ماں میں تو بھلا چنگا ہوں ‘‘’’

تیری �س سونی زندگی نے مجھے رو گی بنادیا ہے بیٹا !تم کیا جانو �ولاد کے دکھ سے ماں کتنی دکھی ہوجاتی ’’

‘‘ ہے

تم نے یہ کیسے سمجھ لیاماں کہ میں دکھی ہوں میں تو بہت خوش رہتا ہوں ‘‘ ’’

Page 47: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ہائے کیا خوش رہتے ہوبچے کے بغیر بھی کوئی زندگی ہے ؟ �دھوری عورت کے ساتھ زندگی گز�ر رہے ہو بچے ’’

آ�تے ہیں �ن کے معصوم قہقہے رگوں میں نیا خون پید� کرتے ہیں �ن کے وجود سے زند گی زندگی میں بہار بن کر

آ�تا ہے ‘‘ کا حسن نکھر

آ�ج ماں نے شاہ زیب سے کھل کربات کی �ور کچھ �س �ند�زسے رودھو کرپریشان کر دیا کہ وہ سوچ میں پڑ گیا

کچھ دیر بعد کہا

�می �س دنیا میں ہز �روں لوگ �یسے ہیں جو�دلاد کی خوشی پانے سے محروم ہیں کیا وہ زندہ نہیں ہیں ؟ ’’

تم سمجھتے کیوں نہیں دوسروں میں �ور تم میں بہت فرق ہے تم میری �کلوتی �ولاد ہو تمھار� نام لیو� بھی تو ’’

آ�ج تک تمہارے نام پر بیٹھی ہے تمھاری خالہ میرے �یک �شارے کی منتظر ہے کیا تم کوئی ہونا چاہیے۔ صفیہ

آ�رزو میں برسوں گز�ردیے ہیں �ور کب مجھے پوتا پوتی کی خوشی دیکھنے نہیں دو گے �نھیں گود کھلا نے کی

آ�رزو نہیں ہے کیا تمھیں �پنے بڑھا پے کا سہار� نہیں چاہیئے ؟ ‘‘ تک صبر کروں ؟ کیا تمھیں بچوں کی

�می مجھے سونچنے کے لئے وقت دیجئے۔ ‘‘ شاہ زیب نے کچھ سوچتے ہوئے جو�ب دیا۔ ’’

�س میں وقت لے کرسوچنے کی کیا بات ہے �یک بانجھ عورت کے ساتھ زندگی کا سفر کیسے پور� کرو گے ؟ ’’

قدرت نے عورت کو تخلیق کی صلاحیت دی ہے �ور تخلیق کے مر�حل سے گزرنے کے بعد ہی عورت مکمل ہوتی

‘‘ ہے زندگی میں نیا حسن ونکھار پید� ہوتا ہے۔

آ�پ کو جلدہی جو�ب دوں گا ’’ ‘‘ ٹھیک ہے میری �می

مجھے شام تک جو�ب چا ہئے ورنہ میں �پنی بہن کے پاس چلی جاؤں گی پھر تم �پنی ر�نی کے ساتھ رنگ رلیاں ’’

آ�خر �س نے فیصلہ کر لیا کہ ماں سچ ہی کہتی ہیں بچوں کے آ�فس میں سوچتا رہا منا تے رہنا۔ ‘‘ شاہ زیب دن بھر

بغیر زندگی کتنی پھیکی پھیکی سی ہے �س کے وہ دوست جن کی شادیاں �س کی شادی سے کچھ پہلے یا

Page 48: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کچھ بعد ہوئی تھیں سب دودوتین تین بچوں کے باپ تھے۔ وہ تو نازیہ کے حسنو جو�نی کے نشہ میں �س قدر مد

ہوش تھا۔ کہ �سے بچوں کی کمی کا �حساس ہی نہ ہو سکا تھا۔ �ن ہی سوچوں نے �سے �د�س کر دیا۔ وہ نازیہ

کے و�لد کو دیکھنے نہ جا سکا۔ وہ نازیہ جس نے زندگی کے چارسال �س کی خدمت �ور خوشیوں کی نذرکر

دئے تھے �پنی �یک کمزوری �یک محرومی کے باعث وہ شرمندہ سی رہتی شاہ زیب جہاں پاؤں رکھتا وہاں وہ �پنا سر

آ�ج �س کا کیا صلہ ملا ؟ وہ �س کے بیمارباپ کو دیکھنے کے لئے چند قدم چل کرنہ �س کا۔ رکھ دیتی تھی۔

دن بھر وہ �نتظار کرتی رہی لیکن وہ تو ماں کے سامنے بیٹھا �پنے مستقبل کا پروگر�م بنا رہا تھا تصور�ت کی دنیا میں

بچوں سے کھیل رہا تھا۔

نازیہ نے بہن کی شادی تک و�لد کے گھر رہنے کی �جازت مانگی تو �س نے بخوشی �جازت دے دی �پنی سونی

آ�نے کہا تھا۔ نازیہ کچھ سوچ کرفکر مند ہو گئی تھی لیکن ر�توں کا ذکر تک نہیں کیا نہ ہی �سے جلدی و�پس

باپ کی تیمارد�ری �ور بہن کی شادی کی تیاری میں �س قدر مصروف ہو گئی تھی کہ �سے زیادہ کچھ سوچنے

کا وقت ہی نہ مل سکا۔ وہ �پنے و�لد کے گھر رہنے کے دور�ن ہی �س بات کو محسوس کر چکی تھی کہ شاہ

آ�نے لگا تھا دوستوں کے ساتھ کہیں خوش گپیوں میں مگن رہتا کبھی کسی کے ساتھ زیب ر�توں کودیر سے گھر

پکچر چلا جاتا چار سالوں میں �س نے پیچھے پلٹ کر دیکھا ہی نہیں تھا کہ زمانے کتنا بدل گیا ہے وقت بہت

آ�گے نکل چکا ہے۔ وقت نے رک جانے و�لوں کا کب �نتظار کیا ہے نئی دنیا �سے بھلی لگی تھی۔

آ�تے ہی صفائی میں مصروف ہو گئی پکو�ن کیا ، شاہ زیب کے کپڑے پریس گئے جوتوں کو پا لش کر نازیہ گھر

آ�یا کھا کے چمکا یا �ور پھر خودسج سنورکر سر�پا �نتظار بن گئی وہ حسب معمول ر�ت بارہ بجے کے بعد ہی گھر

نا دوستوں کے ساتھ کھا چکا تھا کمرے میں قدم رکھا تو نازیہ کو دیکھ کر ٹھٹک گیا نازیہ تھی یا قیامت تھی وہ

آ�پ کو چاندنی کے حصار میں قید کر لیا۔ بھول گیا کہ �پنے مستقبل کے پروگر�م کو قطعیت دے چکا تھا �پنے

نازیہ نے بھی پیارمحبت کی �یسی بارش کی کہ

Page 49: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

شاہ زیب کا رو�ں رو�ں بھیک گیا لیکن �س نے صاف صاف محسوس کیا کہ تین ہفتوں بعد ملنے پر بھی �س کے

آ�ج نازیہ نے جنوں سا مانی کے �ندروہ گرم جوشی �ور بے خودی نہ تھی جو�س کی طبیعت کا خاصہ تھی حالانکہ

سارے محاذکھول دیئے تھے۔

شاہ زیب صبح جاگا تو سوچوں کے سمندر میں غرق تھا۔ سوچ رہا تھا کہ نازیہ کو �پنے پروگر�م کے بارے میں

کس طرح بتائے �ور نازیہ �سی کی طرف سے کچھ سننے کی منتظر تھی وہ چور نظروں سے دیکھتی ہوئی �پنے کام

میں مصروف تھی۔ ناشتے کے بعد شاہ زیب کو چائے کی چسکیاں لیتا ہو� �طمینان سے بیٹھا دیکھا تو وہ چونک

گئی وہ کسی بم کے پھٹنے کا �نتظار کر رہی تھی۔ کہ شاہ زیب نے �سے بیٹھنے کے لئے کہا �ور مخاطب ہو�۔

‘‘ نازیہ میں نے دوسری شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے میں سمجھتا ہوں تمھیں کوئی �عتر�ض نہ ہو گا ؟ ’’

آ�ج معلوم ہو� کہ مرد کی ر�ت �ور صبح میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ نازیہ کو

یہ میں کیا سن رہی ہوں شاہ جی ؟ تم مجھ سے مذ�ق تو نہیں کر رہے ہو نا ؟‘‘ �س نے بمشکل مسکر�تے ہوئے ’’

کہا۔

نہیں میں مذ�ق نہیں کر رہا ہوں میں نے تمھیں کبھی کوئی تکلیف نہیں دی تھی لیکن یہ قدم �ٹھا نا میرے لئے ’’

ضروری ہو گیا تھا گو کہ تم نے بھی میری ہر خو�ہش کا خیال رکھا لیکن میری وہ خو�ہش پوری کرنا تمھارے بس

میں نہیں جس کا میں نے کبھی �ظہارنہیں کیا وہ کیا ہے تم بھی �چھی طرح جانتی ہو۔ �س لئے تمھیں تکلیف

نہیں ہونی چاہئے۔ ‘‘ شاہ زیب کے لہجے میں �جنبیت تھی۔

نن چند دن کے ’’ ن ن شاہ جی !کیا میری چاہتوں �ور خد متوں میں کوئی کمی رہ گئی تھی جس کا یہ صلہ دیا ہے میں

لئے تمھاری نظروں سے کیا دور ہوئی تم نے مجھے دل سے ہی دور کر دیا �ور دوسری شادی کا پروگر�م بنا بیٹھے ؟

میں نے خو�ب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میرے ساتھ �تنا بڑ �دھوکہ ہو گا ‘‘۔

Page 50: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

نازیہ میں نے تمھیں دل سے دورنہیں کیا نہ زندگی سے دور کرنا چاہتا ہوں میں تمھیں ہمیشہ �پنے ساتھ رکھوں گا ’’

لیکن صرف چاہتوں کے سہارے تو زندگی نہیں گزر سکتی �یک بچہ نہ ہونے کی خلش ہمارے بیچ خلیج بن گئی

ہے �ور میں �س خلیج کو پا ٹنا چاہتا ہوں کیا تمھیں میری �ولاد کو پا کر خوشی نہیں ہو گی �گر وہ دوسری کے

بطن سے پید� ہو تو کیا ہو �میر�بچہ کیا تمھار� نہیں ہو گا مجھے �میدہے تم �س خلیج کو پا ٹنے میں میر� ساتھ دو

‘‘ گی

و�ہ تمھاری سادگی کی د�ددینی پڑے گی میرے گلے پر چھری پھیر نے کے لئے میری ہی رضا مانگتے ہو۔ میری

قبر میرے ہا تھوں کھدو�ؤ گے۔ �ور �س پر چر �غاں کرو گے ؟

آ�یا ہوں تمھاری چاہت میں کھو کرماں ’’ آ�ج تک ٹا لتا نازیہ تم �چھی طرح جانتی ہو میں تمھاری خاطر �پنی ماں کو

کے دل کو دکھاتا رہا ہوں �یسا نہ ہو کہ ہمیں �ن کی بدعالگ جائے �ور ہم کہیں کے نہ رہیں۔ �نھوں نے �ور میں

آ�ج تک صبر کیا دل بڑ �کیا �ب فر�خ دلی سے کام لیتے ہوئے تمھیں میر� ساتھ دینا ہو گا یہ بھی تمھاری محبت نے

کا �یک ثبوت ہو گا �یک دو بچے ہونے کے بعد تمھیں خود �حساس ہوجائے گا کہ تمھار� �حتجاج ناو �جبی تھا

میں نے �می کو زبان دے دی ہے �نھوں نے تیاری بھی کرلی ہے۔ ‘‘

نازیہ گم صم تھی شاہ زیب نے کہا’’دیکھو نازیہ �نسان کو وقت کے ساتھ چلناچاہئے۔ پر�نی باتیں بھول جاؤ �ب

تمھارے �حتجاج سے ہمار� فیصلہ نہیں بدلے گا سوچ لو۔ تم پڑھی لکھی ہو زمانے کے نشیب وفر�ز دیکھ رہی ہو

وسیع �لقلبیسے کام لینے میں ہی تمھاری بھلائی ہے یہی کیا کم ہے کہ میں تمھیں �پنی زندگی سے �لگ نہیں کر

رہا ہوں تم کل بار�ت کے ساتھ چلو گی �ور نئی دلہن کو �پنے گھر لاؤ گی ‘‘۔

آ�گے چلنے کے لئے �س کے پاس کوئی مہرہ نہیں بچا تھا۔ وہ روئی نہیں بلکہ �پنی نازیہ کومات ہو چکی تھی

آ�ج �گر �س نے یہ شادی کسی طرح ہمت �ور ذہانت سے کام لیتے ہوئے غور کیا کہ

Page 51: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

رکو� بھی دی توکل کیا ہو گا کل کسی �ور طریقہ سے وہ شادی کرے گا ہو سکتا ہے تب وہ �س کے قریب بھی نہ

رہے دوسری کا ہو کرکہیں کھوجائے �یسی صورت میں وہ �سے مکمل طور پر کھودے گی کیا تقسیم شدہ مرد

مخلص �ور �نصاف پسند ہو سکتا ہے۔ جبکہ وہ نظروں سے دور�ور گھر سے بھی دور ہو قدرت کے فیصلے کے

آ�ندھی طوفان کیلئے �پنے آ�نے و�لے ساتھ �نسان کو سمجھوتہ کرناپڑتا ہے �س نے بھی سمجھوتہ کر لیا �ور کل کے

آ�پ کو تیار کرنے کی کوشش کرنے لگی۔

بجے ر�ت سب10دو سرے دن خاند�ن کے کچھ لوگ جمع ہو گئے تھے شاہ زیب �ور �س کی ماں خوش تھے

آ� گئے۔ نازیہ نے �پنے ہاتھوں سے دلہن کی مسہری کو سجایا تھا گلاب کی پتیوں سے لوگ دلہن کولے کر گھر

مسہری کی چادر پر شاہ زیب کا نام لکھا �س کی من پسند پر فیوم سے کمرے کو معطر کیا تاکہ نئی عورت کی

آ�غوش میں سما کربھی وہ �سے یاد کرتا رہے کچھ رسموں ریتوں کے بعد دلہن کو کمرے میں پہنچادیا گیا نازیہ بھی

نسل رکھ کر �پنے کمرے میں چلی گئی۔ �عتبارہی نہیں �ر ہا تھا کہ �س کا چا ہنے و�لا شوہر �سی سینے پر پتھرکی

کے گھر میں دو سری عورت کے ساتھ ر�ت گز�رے گا۔

وہ سرماکی �نتہائی سردر�ت تھی لیکن �س کی نس نس میں چنگا ریاں سی بھر گئی تھیں چاروں طرف سنا ٹا تھا

آ�س تھی کہ �ور �یک لا زو�ل ویر �نی سی چھائی ہوئی تھی۔ �سے ہر پل یہی

آ�نکھوں سے آ�جائے گا نیند تو شاہ زیب خود با نہیں پھیلائے �سے پکارتا ہو� �س کے پاس

آ�و�ز پر بھی وہ چونک جاتی تھی۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ درو�زے پر زور کا کو سوں دور تھی ہلکی سی

آ�و�زدی تھی کھٹکا ہو� نازیہ کا دل سینے کا خول توڑ کرباہر نکلنے کوتھا کھٹکے کے ساتھ ہی شاہ زیب نے �سے

�س کا نام لے کر پکار �تھا۔ نازیہ فرط مسرت سے چلا �ٹھی۔

آ�ج کی شب میرے لئے ’’ آ�ؤ گے۔ تم میرے بغیر نہ رہ سکو گے آ�ؤ گے۔ تم آ� گئے شاہ زیب! مجھے یقین تھا تم

آ� رہی ہوں شاہ جی تم میری طرف دو �نمول ہو گئی ہے میں �پنی جان دے کر�س خوشی کی قیمت �د� کروں گی

Page 52: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ا�سے تھوڑ آ�ؤں گی ‘‘ �س کے جسم پر چیونٹیاں سی ریں گ رہی تھیں آ�ؤ گے تو میں تمھاری طرف سوقدم قدم

�سابے چین کرنا چاہتی تھی �س لئے دوسرے کھٹکے پر درو�زہ کھولا دیکھا تو شاہ زیب کے پیچھے �س کی ماں

آ�نکھوں سے �ور خالہ کھڑی شعلہ بار

آ� گئے شاہ زیب نے کہا۔ تک رہی تھیں تینوں �ندر

آ�ج میں نے تمھیں طلاق دیدی ہے ‘‘ نازیہ لرز گئی �پنے حو�س مجتمع کر ’’ نازیہ �س طلاق نامہ پر دستخط کر دو

آ�گے �پنا سرتسلیم خم کر دیا تھا نا! تمھاری خو�ہش �ور کے کہا ’’ کیوں شاہ جی میں نے تمھاری رضا کے

آ�گے بڑھ کرکہا آ�نکھوں پر رکھ لیا تھا پھر یہ طلاق کیسی ؟ ساس نے دو قدم فرمائش کوسر

زیادہ باتیں نہ بناؤ خاموشی کے ساتھ دستخط کر دو کیوں کہ �س کی دلہن نے منہ دکھائی کا تحفہ تمھار ’’

آ�نے دے گی‘‘ شاہ �س کے سامنے ڈٹا �طلاق نامہ مانگا ہے �ور شاہ کی بھی یہی خو�ہش ہے ورنہ وہ �سے قریب نہ

کھڑ �تھا نازیہ نے ساس کے ہاتھ سے قلم لے لیا۔ مات تو�سے ہوہی چکی تھی دستخط کر کے �س نے زندگی کی

بساط ہی �لٹ دی۔ �س کے صبر کے بند ٹوٹ گئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

*****

Page 53: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کیسے کیسے آاسماں رنگ ہے بدلتا

غریبی توڑ دیتی ہے جو رشتہ خاص ہوتا ہے

پر�ئے بھی �پنے ہوتے ہیں جب پیسہ پاس ہوتا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�پ جانتے ہیں میں نادرہ سے محبت کرتا ہوں ، میں نازیہ سے شادی کیسے کر سکتا ہوں ‘‘۔ ’’ عادل بے و’’ �بو !

آ�ج نا زیہ پچاس سا ٹھ لا کھ کی ما لک ہے نادرہ کو سمجھا منا کر نازیہ سے شادی کر قو فی کی باتیں مت کرو

آ�ر�م کی زندگی گز �رنے کے لئے لو چند دن بعد ہم �سے پا گل ثابت کر کے پا گل خانہ بھیج دیں گے عیش و

‘‘ محبت سے زیادہ دولت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�نکھوں سے کو ٹرین �پنی پوری رفتار کے ساتھ رو�ں دو�ں تھی۔ میں سونے کی کوشش کر رہی تھی لیکن نیند میری

سوں دور تھی۔ �یم �یس سی فا ئنل کے �متحان قریب تھے میں تیاری میں تھی �ور �علی نشا نات سے پاس ہو نا

آ�جائے چاہتی تھی میں چند دن قبل جب ماں سے ملنے گئی تھی تب بتا دیا تھا کہ �یک ماہ بعد وہ �ن کے پاس

گی یا ملازمت ملنے کی صورت شہرہی میں رہے گی �ور ماں کو �س کے ساتھ رہنا ہو گا پھر �نھوں نے �چانک

ٹیلی گر�م دے کرکیوں بلو�یا ہے وہ بیمار بھی نہیں تھی پھر۔ ۔ ۔ بار بار ٹیلی گر�م دے کرکیوں بلو �یا ؟۔ ۔ ۔ میں

�گاؤں پہنچو‘‘ صبح پا نچ بار بار ٹیلی گر�م پڑھتی رہی �س میں سو�ئے �یک لا ئن کے �ور کچھ نہیں تھا کہ ’’ فور

بجے جیسے ہی ٹریں نے گاؤں کے پلیٹ فا رم کو چھو �میں بھا گتی ہوئی �سٹیشن سے با ہر نکلی �ور �یک ٹا نگے

Page 54: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�ئی �نھوں نے � �پنے کمرے میں و�لے سے کہا کہ مجھے جلد �زجلد حو یلی پہنچا دے ماں نے مجھے دیکھا فور

سرگوشی میں کہا’’ تم جلدی سے منہ ہاتھ دھو لو ناشتے کے بعد ضروری بات کرنی ہے ‘‘ ماں کا

آ� رہا تھا۔ ’’ ماں کچھ تو بتا ؤ بات کیا ہے مجھے ر�ز د�ر�نہ لہجہ مجھے حیر�ن کرگیا میری سمجھ میں کچھ نہیں

�سطرح کیوں بلو� یا ہے ؟‘‘

‘‘ نان سے بات کروں گییتم ذر� فارغ ہو لو �طم’’

آ�دھ گھنٹہ بعد ماں کہہ رہی تھی ’’ناز یہ میں نے تمہیں بتا یا تھا کہ تمہا رے و�لد تمہاری د�دی کی بیماری کی

وجہ سے دوسرے گاؤں میں رہتے ہیں۔ �ور مجھے �ن کے ماموں کی خد مت کے لئے �س حو یلی میں رہنے کہا

آ� رہی ہو پند رہ سال گزرگئے۔ �س دور�ن تم نے باربار ضدکی کہ ہے۔ تم بچپن سے یہی بات مجھ سے سنتی

تمہیں �بو سے ملو�ؤں لیکن میں کچھ کہہ کرٹال جاتی �ور تمہیں پڑھائی کے لئے شہر بھیج دیا تم �پنی �پنی

آ�ئے تھے تمہیں یا دکر پڑھائی میں سب کچھ بھول گئیں تمہیں کبھی کسی خط میں لکھ دیتی کہ تمہارے �بو

رہے تھے و غیرہ۔ لیکن نازیہ وہ سب جھو ٹ تھا �یک ڈر� مہ تھا جو میں گز شتہ پند رہ سال سے �پنی زندگی کے

آ�ج تمہیں سب کچھ بتا نا ضروری ہے تا کہ آ� گیا ہے۔ �سٹیج پر کھیل رہی تھی �ب �س کے ختم ہو نے کا وقت

مستقبل میں تمہیں کسی دشو�ری کا سامنا نہ کرنا پڑے تم �ب دنیا کے سیاہو سفید سے و�قف ہو �ب ہمیں سوچ

‘‘ سمجھ کرکام کرنا ہے۔

‘‘ ماں ہمیں کیا کرنا ہے ؟جلدی سے پوری بات بتاؤ نا’’

� پنی بے چینی پر قابو رکھو �ور سنو۔ کئی سال پہلے تمہا رے باپ نے مجھ پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے وہ’’

ہو گئے تمہارے چا چا �ور چا چی �یک غیر مذہب عورت کے چکر میں �پنے خاند�ن سے منہ موڑ کرکہیں لا پتہ

نے مجھ پر گندے �ور غلط �لز �مات لگا کر د�دی کو بدظن کر دیا۔ �سی بہانے �نھوں نے مجھے گھر سے نکال

دیا۔ تمہیں سینے سے لگائے میں دردرکی خاک چھانتی رہی۔ �پنی زندگی میرے لئے �ندھیری ر�ت بن گئی �ور

Page 55: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ر�ستوں پر شیشے کی کرچیاں بکھری ہوئی تھیں �ور مجھے چلنا تھا تمہا رے لئے جینا تھا �گر تمہا ر� ساتھ نہ ہوتا

آ�پ کو ختم کر لیتی۔ میں نے گاؤں چھوڑ دیا �ور یہاں �یک چھوٹے سے �سکول میں تو میں �سی وقت �پنے

ملازمت کرنے لگی گز �رہ مشکل سے ہوتا تھا �سلئے تمہیں یتیم خانہ میں شریک کر� دیا �یک دن میں تم سے مل

کرو�پس ہو رہی تھی ر�ستے میں ندی کنارے �یک بو ڑھے شخص کو دیکھا جو پہیوں و�لی کرسی پر بیٹھا سمندرکی

ا�ن کے بیکر�ں ف۔ ضاؤں میں کہیں کھو یا ہو �تھا۔ میں �یک طرف بیٹھی ہوئی �نھیں غور سے دیکھ رہی تھی

پیروں پر قیمتی شال پڑی ہوئی تھی شاید وہ پیروں سے معذورتھے۔ ریت پر بھا گتے دوڑ تے بچوں کو دیکھکر

آ�نکھوں سے گرم گرم پانی بہہ نکلا تب ہی �س بھلے مانس نے تمہاری جد�ئی مجھ پر شاق گزر رہی تھی میری

آ�نسو پو نچھتی جھبکتی �نکے قریب گئی �نھوں نے شفقت بھرے لہجہ میں �پنے ڈر�ئیورکے ذریعہ مجھے بلو�یا میں

کہا۔

بیٹی کیا بات ہے کچھ پریشان معلوم ہو رہی ہو مجھے بتا ؤ شاید میں تمہاری مددکر سکوں ‘‘ میں �پنے’’

آ�نسوؤں پر قا بو پا نے کی کوشش کر رہی تھی �نھوں نے پھر کہا

تمہیں کسی طرح کی مدد کی ضرورت ہو تو بتا ؤ یہ میر� کا رڈ ہے تم کسی بھیو قت میرے گھر پر �سکتی ہو’’

‘‘۔ ۔ ۔ �ن کے شفقت بھرے �ند�ز نے میری ہمت بند ھائی میں دوسرے دن �نکے دیئے ہوئے پتہ پر پہنچ گئی

�پنے بارے میں مختصر �بتا یا۔ ۔ ۔ �نھوں نے پو چھا

‘‘ تم نے �پنا کیا نام بتا یا تھا ؟ ’’

‘‘ جی نصیبہ ’’

ہاں نصیبہ مجھے �یک �یسے ساتھی کی ضرورت ہے جو ہمہ وقت میرے ساتھ رہے میری طبعیت کے لحاظ سے’’

میر� کام کرے در�صل میں بچپن ہی سے �یک چڑ چڑ ��ور ضدی �نسان رہا ہوں کیونکہ میں نے �پنے و�لدین کو

ہمیشہ �یک دوسرے سے جھگڑ تے دیکھا ہے میری ماں �یک دولت مند گھر� نے کی �ن پڑھ عورت تھی �پنی �نا کی

Page 56: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

سیج پر بیٹھی ہوئی عورت �چھی بیوی نہیں بن سکتی �ور مرد �یک عورت کے غصہ �ور جہالت کو کب تک بر

د�شت کرتا نتیجہ یہ ہو� کہ دو نوں میں علحد گی ہو گئی ہمارے چھوٹے سے خاند�ن کا شیر �زہ بکھر گیا و�لد نے

دو سری شادی کرلی �ور مجھے بو رڈ نگ ہاؤ زمیں شر یک کر� دیا پھر کسی نے مجھے پلٹ کر نہیں دیکھا

دوسرے بچوں �ور �نکے و�لدین کو دیکھکر میرے �ندر ٹو ٹ پھوٹ ہوتی رہتی �ور میر� چڑ چڑ �پن بڑھ جاتا۔

آ�پ کو تنہا پا کر کڑھتا بو رڈ نگ میں محبت �ور ہمدردی نام کی چیز نہیں تھی کوئی میر� �پنا نہیں تھا میں �پنے

آ� گیا میں �پنی پڑھائی میں لگ گیا۔ رہتا۔ کہتے ہیں کہ وقت زخموں پر مر ہم رکھ دیتا ہے مجھے بھی شاید صبر

آ�ئے و آ�نا جاتا شروع کیا میری تعلیم ختم ہو گئی وہ مجھے گھر لے وقت گز رتا رہا۔ پتہ نہیں پھر کب سے و�لدنے

ہاں معلوم ہو� کہ سو تیلی ماں مر چکی ہے میں نے و�لد کا بزنس سنبھال لیا کچھ عر صہ بعد �نھوں نے زبردستی

میری شادی کر دی میں شادی کرنا نہیں

چا ہتا تھا کیونکہ مجھے عورت ذ�ت سے نفرت ہو چکی تھی میں �پنی بیوی کو وہ پیار نہ دے سکا جس کی وہ

حقد�ر تھی۔ پیار کے لئے ترسا ہو ��یک �نسان کسی کو کیا پیاردے سکتا ہے۔ وہ بچوں کو لیکر �مریکہ چلی گئی

�ب میں کوئی شادی کرنانہیں چا ہتا بس �یک �یسی سمجھد�ر عورت کو �پنے گھر میں رکھنا چا ہتا ہوں جو میرے

لئے �چھا کھانا پکائے میر� ہر کام �پنے ہاتھ سے کرے گھر کی ہر چیز پر نظر رکھے �ور میرے غصہ کو خندہ

پیشانی سے بر د�شت کر سکے میں معقول معاو ضہ دینے کے لئے تیار ہوں ، مجھے دودن میں تمہار� جو �ب چا

آ�پکی خدمت کے لئے تیار ہوں ‘‘۔ جبار صاحب نے سب سے پہلے تمہیں ہئے ‘‘ میں نے جو�ب دیا ’’میں

�چھے �سکول میں شریک کرو �یا �سکول کے ہا سٹل میں تم بہت خوش تھیں میں بھی دلو جان سے جبار صاحب

کی خدمت میں لگ گئی �نکے �بروکے �شا رے پر �پنا سر تسلیم خم کر دیتی۔ �سطرح �س حویلی میں پند رہ سال

آ�یا تھا آ�پا کا خط آ�پا جانتی تھیں کہ میں کہاں ہوں کیا کرتی ہوں کل بشیر� گزر گئے میرے بارے میں صرف بشیر�

آ�دھی جا ئید�د تمہارے چچا عباس علی کے نام �ور معلوم ہو �کہ تمہاری د�دی کا �نتقال ہو گیا ہے �نھوں نے �پنی

Page 57: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ� رہے ہیں تمہارے ماموں بھی �ن آ�دھی تمہارے نام کر دی ہے معلوم ہو �کہ عباس علی یہاں و کیل کے ساتھ

آ�نے و�لے ہیں ‘‘ آ�ئی تھی وہ بھی حالات سے و�قف ہیں گاؤں سے �ن کی چٹھی

آ�پ نے ماموں کو منع کیوں نہیں کیا �ب ہم سے ملنے کی کیا ضرورت ہے �می خاموش ہوئیں تو میں نے کہا ’’�می

ندن ختم ہو نے و�لے ہیں جب ہم پر یشان حال تھے کسی نے پلٹ کر نہیں دیکھا ‘‘ ماں نے کوئی ابرے ہمارے

جو�ب نہیں دیا۔ تب ہی جبار صاحب کے ڈر�یورر فیق �نکل کے لڑکے سکندرنے �کر بتا یاکہ جبار صاحب نے

ماں کو بلو�یا ہے �س نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔

آ�نا ہو� ؟’’ �رے نازیہ !تم ؟ یہاں ؟ �چانک کیسے

�می نے ٹیلی گر�م دے کربلو �یا ہے کچھ ضروری کام ہے ‘‘وہ �می کے ساتھ ہی چلا گیا ہم بچپن ہی سے �یک’’

دوسرے کو پسند کرتے تھے وہ بھی بو �ئز ہاسٹل میں ہے پتہ نہیں کیوں وہ �پنا سالگتا ہے۔ �می حو�س باختہ سی

ہا سپٹل لے جا رہے ہیں۔ ہم سب ہی �ن کے آ�ئیں �ور بتا یاکہ جبار صا حب کی طبعیت بگڑ گئی ہے �ور �نھیں

آ�نکھوں میں کٹ گئی دوسرے دن شام میں �ن کی حالت قدرے سنبھلی تو وکیل کو بلو� ساتھ گئے ر�ت

کروصیت نامہ تیار کرو�یا دودن بعد حالت پھر بگڑ گئی ڈ�کٹر نے بتا یا کہ �ن کے دماغ پر فا لج کا �ٹیک ہو� ہے

آ�نسو خشک ہی نہ ہوتے تھے یا تو وہ جبار صا حب ڈ�کٹروں نے �نکے ٹھیک ہو نے کی �مید نہیں دلائی۔ ماں کے

کے قریب بیٹھی رہتیں یا پھر دعا عبا دت میں مشغول رہتیں لیکن معلوم ہو�کہ �نسان کی زندگی �ور موت کے بیچ

آ�تا ہے جہاں دو� �ور دعا ء دونوں بے �ثر ہو جا تے ہیں شام ڈھلنے سے پہلے جبار صاحب کی �یک �یسا موڑ بھی

میت کو گھر لایا گیا �ور فجر کے ساتھ ہی سپر دخاک کر دیا۔ دوچار دن بعد چاچا عباس علی �ور �ن کا لڑکا

آ�ئے �ور د�وی کا وصیت نامہ �ور زمین کے کاغذ�ت ہمارے حو�لے کئے۔ چاچا نے �می سے کہا ’’ وکیل کے ساتھ

بھا بی مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔ ‘‘

Page 58: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

جی کہئے ‘‘ چاچا نے رفیق �نکل �ور سکندر کی طرف دیکھا ماں نے کہا ’’یہ میرے بھائی جیسے ہیں میر� ’’

کوئی کام �ور کوئی بات �ن سے چھپی نہیں ہے ‘‘ تب چاچا گو یا ہوئے۔

بھابی کہنا یہ ہے کہ گاؤں میں زمینوں کی قیمت گر رہی ہے تم وہاں رہ کر کھیتی باڑی تو کرنہیں سکتیں بہتر ہو’’

آ�پ بہتر جانتے ہیں ‘‘۔ گا کہ �سے فروخت کر دو �ور شہر میں �یک مکان لے لو‘‘۔ ’’گاؤں کے حالات

آ�ئنگے میں تمہیں �طلا ع کر ’’ٹھیک ہے۔ ’’تم �س مختا رنا مہ پر دستخط کر دو جیسے ہی زمین کے �چھے د�م

بنا نا چاہتا ہوں �سطر ح ہمارے بگڑے ہوئے ہوئے تعلقات دوں گا دوسری بات یہ کہنی ہے کہ میں ناز یہ کو �پنی بہو

آ�جائیں تو�ن سے بھی بحال ہو سکتے ہیں تمہار� کیا خیال ہے ؟‘‘ ماں نے جو�ب دیا ’’ بھائی صا حب میرے بھائی

آ�پ کو بتاؤں گی ‘‘۔ ۔ ۔ مشورہ کر لوں تب

آ�نکھ نہیں بھا یا تھا۔ چاچا کی باتیں سن کر میرے دل میں ٹوٹ پھوٹ سی ہونے لگی �ن کا لڑکا مجھے �یک

چاچا نے کہا ’’ بھا بی تمہیں �پنی زمین �ور بیٹی کے معا ملے میں کسی سے مشورہ کرنے کی کیا ضرورت ہے

میں دو دن سے �پنا کام چھو ڑ کریہاں ٹھیر� ہو �ہوں مختار نامہ

آ�ؤں گا ‘‘ دے دو تو چلا جاؤں پھر کبھی

آ�پ کودے سکتی ہوں لیکن بیٹی پنچ کی ہوتی ہے �ور میں پہلے نازیہ سے بات کروں گی ‘‘’’ ز مین کا مختار نامہ

� چلے گئے۔ میں نے کہا ماں نے مختار نامہ پر دستخط کر دئے۔ چاچا فور

آ�پ نے چاچا کی بات کیوں مانلی سوچنے کے لئے وقت لیا ہوتا �ور یہ چاچا �ور ماموں کے دل میں ہمارے ’’ �می

لئے محبت کے سو تے کیوں پھوٹ رہے ہیں۔ ‘‘

بھائی تو میر� �پنا ناز یہ تم ٹھیک کہتی ہو میں نے سمجھا کہ یہ لوگ �پنے کئے پر شر مندہ ہو نگے �ور عارف ’’

آ� گئے۔ برسوں بعد بہن بھائی ملے بڑی دیر تک گلے شکوے ہوتے رہے۔ پھر ماں نے تمام خون ہے ‘‘ ماموں

و�قعات تفصیل سے بتائے تو مختار نامہ کی بات پر وہ بگڑ گئے ‘‘ ’’نصیبہ مختار نامہ دے کرتم نے بہت بڑی

Page 59: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�ج �چانک بھائی کی بیوی غلطی کی ہے جن لوگوں نے تمہارے ساتھ کبھی �چھا سلوک نہیں کیا �ن کے دل میں

�ور �ولا دکی محبت جاگ �ٹھی ؟ تم نے یہ کیسے مان لیا کہ زمین فروخت کر کے �یک خطیر رقم تمہا رے ہاتھ

پر رکھ دیں گے ؟ رہی نازیہ کی بات تو تم خود سوچو شہر کی پڑھی لکھی لڑکی کیا گاؤں میں زندگی گز�ر سکتی

ہے ؟� سکے لئے میرے بیٹے عادل سے زیادہ منا سب کون ہو سکتا ہے ؟‘‘ ماں کے چہرے سے معلوم ہو رہا تھا کہ

آ�ئے ہیں۔ رسمی سی گفتگو کے بعد وکیل وہ بڑی کشمکش میں ہیں۔ تب معلوم ہو �کہ جبار صاحب کے وکیل

نے جو کچھ کہا وہ سن کر ہم سب حیر�ن رہ گئے �نھوں نے بتا یا کہ جبار صاحب نے میری �ور سکندر کے

تعلیمی �خر جات کے لئے بیسں بیسں لا کھ بنیک میں رکھا دیئے باقاعدہ دینیو عصری تعلیم کے لئے و قف کرتے

ہوئے ٹر سٹ قائم کر دیا ہے و صیت نامہ کی روسے ہمیں جلد �ز جلد حو یلی کو چھو ڑ نا ہے۔ ہم سب گم

صم بیٹھے ہوئے وکیل کی طرف حیرت سے تک رہے تھے۔

ماموں نے کہا ’’ چلو نصیبہ تم دو نوں میرے ساتھ رہو گی میں تمہیں �پنے گھر لے جاؤں گا۔ ‘‘

بھائی جان �ب میں �یک �لگ مکان لے کر ناز یہ کے ساتھ شہر میں رہوں گی میں رفیق بھائی کا ساتھ چھو ڑ ’’

‘‘ نا نہیں چاہتی وہ برسوں میرے زخموں پر مر ہم رکھتے رہے ہمت �ور تسلی دیتے رہے ہیں

آ�دھا مکان تم سب کو دید یں گے’’ تم چا ہو تو �نھیں بھی �پنے ساتھ رکھ سکتی ہو ہما ر� مکان بہت بڑ � ہے ہم

‘‘ جانے کیوں ماموں کی باتیں میرے دل میں کھٹک رہی تھیں۔ �می نے رفیق �نکل سے پوچھا تو وہ بخوشی

ر�ضی ہو گئے۔ میں نے دیکھا �ن کی پلکیں بھیگ گئی تھیں �ن کیر ضا مندی سے مجھے سکون سا محسوس

ہو�۔ ما موں نے کہا ’’ نصیبہ تم �پنا مختار نا مہ و�پس

آ�پ کی مرضی ماں نے کہا ہم آ�ئے گا ‘‘ جیسی لے لو تم کہو تو میں عادل کو گاؤں بھیج دوں وہ کسی طرح لے

اپر فضا ء مقام پر کشادہ مکان تھا۔ �متحان شروع ہو نے میں �یک ہفتہ باقی تھا میں نے سب شہر منتقل ہو گئے

تیاری میں دن ر�ت �یک کر دئے �سی دور�ن تقر یبا دوبجے لیٹنے کی تیاری کر رہی تھی کہ ما موں کے کمرے

Page 60: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ� رہی تھی۔ میرے دل میں تجسس پید �ہو �شاید میری چھٹی حس کا آ�و�ز سے سر گوشی کے �ند�ز میں غصہ کی

�شا رہ تھا کہ میں نے �ن کے درو�زے کے قریب جا کرکان لگا دئے عادل کہہ رہا تھا۔

آ�پ جانتے ہیں میں نادرہ سے محبت کرتا ہوں بچپن سے ہمار� رشتہ طئے ہے میں نازیہ سے شادی کیسے کر’’ �بو

‘‘ سکتا ہوں ؟

آ�ج ناز یہ ’’ لاکھ کی مالک ہے نا درہ کو سمجھا منا کرنا زیہ سے60۔ 50عادل بے و قو فی کی باتیں مت کرو

شادی کر لو چند دن بعد ہم �سے پاگل ثابت کر کے پا گل خانہ بھیج دیں گے وہ سب تم مجھ پر چھو ڑ دو

آ�ر�م کی زندگی گز �رنے کے لئے محبت سے زیادہ لت کی ضرورت ہوتی ہے تم �پنے دما غ سے کام لےدوعیش و

آ� رہا ہے ؟ ‘‘ کر دونوں چیزیں �پنے قبضے میں کر لو۔ سمجھ میں کچھ

ا یہ �یک دشو�ر مر حلہ ہے ‘‘۔ ’’ میں نے کہا نا تم ’’ آ� رہا ہے لیکن عمل آ�پ کا فلسفہ میری سمجھ میں تو �بو

سب مجھ پر چھو ڑ دو۔ پہلے تم عباس علی سے وہ مختار نا مہ کسی طرح حاصل کر لو پھر ہم گاؤں کی زمین

آ�پ کی مر ضی ‘‘ کا حساب کتا ب کریں گے ‘‘ ’’ٹھیک ہے جیسے

�ن دونوں کی گفگو سن کر میرے ہاتھ پاؤں لرز نے لگے میں پسینے میں نہائی ہوئی �پنے کمرے کی طرف بھا گی

�ور بستر میں دبک گئی۔ ۔ ۔ صبح نو بجے ماں نے جگا یا میں بستر پر بیٹھی سوچ رہی تھی کہ ر�ت جو کچھ

سنا وہ خو�ب تھا یا حقیقت ؟ میں پوری طرح بید�ر ہو چکی تھی ماں کو سب کچھ سنا دیا وہ گم صم بیٹھی سب

آ�زمائش باقی ہے ہم بہت جلد �س گھر کو کچھ سنتی رہیں مجھے خاموش پا کر کہا ’’معلوم ہوتا ہے �بھی کچھ

چھو ڑ دیں گے۔ ‘‘

�متحان کی فکر کھائے جا رہی تھی �ور پڑھائی میں میر� دل نہیں لگ رہا تھا۔ شام ڈھلتے ہی �یک �نجا نا

ساخوف طاری ہو جاتا۔ ماں کے بیڈ کے قریب �پنا بیڈ لگا کر پڑھنے کی کوشش کرتی رہی شاید سکندر بھی �پنے

آ�یا پھر دھم سے ا�ٹھ گئی �یک سا یہ سا لپکتا نظر کمرے میں پڑھ رہا تھا۔ میری نظر �چانک گیٹ کی طرف

Page 61: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�ئی کو دنے و�لے کے ہاتھ میں شاید بریف کیس تھا وہ ما موں کے کمرے کی طرف بھا آ�و�ز کسی کے کودنے کی

آ�ئی تب ہی کسی گا ڑی کے بریک چر چر�ئے گیٹ کھلا �ور کچھ کانسٹیبل �ور آ�و�ز گا پھر درو�زہ بند ہونے کی

آ�ئے وہ کسی کو تلاش کر رہے تھے گڑ بڑ �ور شور کی وجہ سے سب ہی جاگ گئے ہم نے پولیس �نسپکٹرگھس

آ�پ لوگ کسے تلاش کر رہے ہیں ؟‘‘ ’’ �بھی �بھی عادل نامی شخص �سی باہر نکل کر پو چھا ’’کیا بات ہے ؟

گھر میں گھسا ہے کہاں ہے وہ ؟‘‘

کیا کیا ہے �س نے۔ یہ �سی کا گھر ہے ‘‘ میر� دل �چھل رہا تھا ’’گاؤں میں عباس علی کا قتل کر کے وہ بھاگ’’

نکلا ہے ہم �سی کو تلاش کر رہے ہیں کہاں ہے وہ جلدی بتاؤ ورنہ تم سب کی خیر نہیں ؟’’وہ �س طرف �ن کا

کمرہ ہے شاید وہ �پنے کمرے میں ہو۔ ‘‘

سب �س طرف دوڑ گئے �ور کمرے کا درو�زہ پیٹنے لگے پھر دھکے مارکر �سے تو ڑ دیا۔ ماموں �ور عادل �ندر مو

جود تھے۔

تم میں عادل کون ہے ؟ عباس علی نے دم تو ڑ نے سے پہلے �س کا نام �ور پتہ بتا یا ہے ‘‘ �نسپکٹر نے دونوں’’

آ�گے بڑھ کرکہا ‘‘ میں ہوں عادل ‘‘ �نسپکٹر نے �س کے ہاتھ میں ہتھکڑی کی طرف گھو رتے ہوئے کہا عادل نے

لگا دی �ور ماموں کو بھی ساتھ چلنے کہا ماموں نے �پنے دو نوں ہاتھ سینے پر رکھے �ور چکر� کر گر پڑے۔

٭٭٭٭٭

Page 62: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کروٹ کی وقت

آ�کے دستک دی صبا نے پھر در زند�ں پہ

!سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبر�ئے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�تا ہو� دیکھ کر بیرونی درو�زہ کی طرف لپکی دوسرے ہی لمحہ وہ دولت خان کی بانہوں شاد�ب �سے �پنی جانب

آ�ج توہی میں تھی جو �سے دبوچتے ہوئے �ناپ شناپ بک رہا تھا۔ شاد�ب دعائیں مانگ رہی تھی میرے مالک

مجھے بچا سکتا ہے تو �پنے بندوں کی �لتجاسنتا ہے۔ دلوں کا حال جانتا ہے۔ �پنی قدرت کا کرشمہ بتا دے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

و سو سے۔ �ن بے نام،و غریب خیا لات میں �لجھا رہتا �نجا نے غم گمنام �ندیشے � سکا ذہن ہمیشہ عجیب

دیکھے خنجر �سے زخمی کرتے رہتے وہ جس جہاں میں ر ہتی تھی وہاں �ندھیروں کا ر�ج تھا �مید کی کرنوں کا

آ�نسوؤں کا �یک سمندر چھپا ہے جو بہہ جا نے کوبے قر�ر آ�نکھوں میں کھارے گزر نہیں تھا �سے محسوس ہوتا کہ

ہے۔

� تھا تیتیس سالہ نوجو�ن کی بیوہ زندگی کی خار د�ر ر� ہوںیچار سال پہلے شا د�ب کے سر سے سائبان ہٹ گ

پر چلچلاتی دھوپ میں �پنے بکھرے و جو دکو سمیٹے تنہا کھڑی تھی �س کے و�لد نے �پنی زند گی میں بہت

کوشش کی کہ �س کا گھر دو بارہ بسا دیں لیکن کوئی نیک بندہ �س �یک لڑکی کی ماں کو قبول کرنے تیارہی نہ

آ�ج �س کی بیٹی مہتاب نے �علی نشا نات سے �نٹر پاس کیا تھا وہ بہت خوش تھی لیکن �فسر دہ �ور ہو� تھا۔

Page 63: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�نکھوں نے چہرے کو �ور بھی پر کشش بنا دیا ہو� تھا۔ وہ فکر مند بھی تھی �س کی سوچوں میں ڈو بی ہوئی

تھی بھی خو بصورت �سے دیکھ کرکوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ �یک سترہ سالہ لڑکی کی ماں ہے مہتا ب

ماں سے زیا دہ حسین تھی �ور یہی حسن ماں بیٹی کے لئے و بال جان بن گیا تھا۔ شا د�ب کے و�لد نے �س

کے نام پر �یک بڑیر قم بینک میں جمع کر و�دی تھی �سیر قم سے �س نے روزگار کا ذر یعہ نکال لیا تھا مہتا ب نے

�نٹر کے ساتھ کمپیوٹر کے کو رسس بھی کئے تھے۔ �س لئے شاد�ب نے �س کی خو�ہش پر کمپیوٹر �ور ٹا ئپ ر�

آ�و�رہ لڑکوں نے �نکا جینا حر�م کر دیا۔ �گر وہ پو لس میں شکایت ئٹنگ �نسٹیٹوٹ کھول لیا تھا لیکن محلے کے

درج کر�تیں یا کسی سے کچھ کہتیں تو �ن ہی کو نشان ملامت بنا یا جا تا، چند بزرگ لوگوں کے ذر یعہ �نھیں

آ� جاتے زندگی کی سنگلا خ چٹا تنبہہ کی جاتی تو چند دن کے لئے سب �دھر �دھر ہو جا تے پھر �سی چال پر

نوں میں جینے کا ر�ستہ بنا نامشکل معلوم ہو رہا تھاکسی نے مشورہ دیا کہ وہ سیٹھ دولت خاں کی مدد لیں وہی �ن

آ�نے غنڈوں کو سبق سکھا ئنگے �یک دن ہمت کر کے دونوں دولت خاں کے محل نما مکان پر گئیں چوکید�ر نے

آ�نے کی �جازت مل گئی دولت نے ماں بیٹی کو دیکھا کا مقصد پو چھا پھر سیٹھ کو �طلاع دی گئی �نھیں �ندر

تو دیکھتاہی رہ گیا وہ سلام کر کے کھڑی ہوئی تھیں �ور سیٹھ کی تیز نظریں جیسے �نکے جسم میں چھید کر

آ�نے کا مقصد آ�یا تو �س نے دونوں کو بیٹھنے کے لئے کہا �ور رہی تھیں چند لمحوں بعد جب دولت کو ہوش

آ�و�رہ لڑکے ناشا د�ب کو جیسے سا نپ سو نگھ گیا تھا۔ مہتاب نے ہمت کر کے بتا یا کے محلے کے چند پوچھ

آ� چکی ہیں سیٹھ دو لت خاں نے کہا �نھیں چھیڑ تے �ور نت نئی شر�رتیں کرتے ہیں وہ عا جز

میرے ہو تے ہوئے محلے کے لڑکوں کی یہ ہمت ؟میں کل ہی �ن سے بات کروں گا کیا تم پڑھ رہی ہو ؟ ‘‘دولت’’

نے مہتاب سے پوچھا ’’جی میں نے �نٹر کر لیا ہے �ور �ب لڑکیوں کے لئے ٹا ئپ �ور کمپیو ٹر �نسٹیٹیوٹ چلاتی

نغذ�ت ٹا ئپ کر کے لا دینا جو بھی معاو ضہ ہو گا دید یا ہوں ‘‘۔ ’’یہ تو �چھی بات ہے کل تم میرے کچھ کا

ا�س جگہ جا نا نہیں چاہتی جائے گا‘‘ مہتاب نے ماں کی جا نب دیکھا �ور خا موش ہو گئی۔ وہ دو نوں دو بارہ

تھیں کوئی �نجا نا سا خوف �نھیں روک رہا تھا دوسرے دن شا د�ب نے ہمت کر کے کہا کہ وہ �کیلی ہی جا کر

Page 64: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�ئے گی بیٹی نے روکا لیکن شاد�ب �سے �پنے ساتھ لے جانا نہیں چاہتی وہ جب وہاں پہنچی تو چو کا غذ�ت لے

آ�نکھیں کچھ کہہ رہی تھیں شاد�ب نے �س کے چہرہ کی طرف نہیں کید�ر نے �سے روکا نہیں لیکن �س کی

دیکھا �ور �ندر چلی گئی۔ �خروہی ہو� جسکا �سے ڈرتھا۔

دولت خاں ہاتھ میں گلاس تھا مے بیٹھا ہو �تھا سا منے میزپر شر�ب کی بو تل رکھی تھی۔ شاد�ب کو دیکھتے ہی

آ�ؤ گی ‘‘ �س کے بے تکلفانہ �ند�ز �ور آ�ؤ!میں جا نتا تھا تم ضرور آ�ؤ �س کی با چھیں کھل گئیں �س نے کہا’’

آ�ئیں لب ولہجہ نے شاد�ب کو سہما دیا �س کے ہاتھ پاؤں منجمد سے ہو نے لگے چہرہ پر پسینہ کی بو ندیں �بھر

’جا ئے ر فتن نہ پائے ما ند ن، و�لا معا ملہ تھا �س کا دماغ ما ؤف ہو رہا تھار یٹر ھ کی ہڈی میں سر دسی لہر

آ�و�ز نے �سے چو نکادیا ۔سننا رہی تھی دولت کی

گھبر �ؤ نہیں �طمنان سے بیٹھو میں تمہیں ہر روز کام دیا کروں گا معقول معاوضہ بھی دیا کروں گا بس تم �سی’’

آ�یا کرنا‘‘ شاد�ب کھڑی ہو گئی سرد ہو تے ہا تھوں سے چہرہ کا پسینہ صاف کرتے ہوئے بمشکل کہا طرح ہر روز

’’میں �ب چلتی ہوں مجھے کام نہیں چا ہئے معا فی چاہتی ہوں ‘‘ دولت خاں کے چہرہ پرو حشیانہ مسکر�ہٹ تھی

شاد�ب کی طرف لڑکھڑ �تے قد موں سے بڑھتے ہوئے کہا

آ�ئے �بھی بیٹھے �بھی د�من سنبھا لا’’ � بھی

‘‘تمہاری جاؤں جاؤں نے ہمار� دم نکا لا

آ�تا ہو �دیکھ کر بیرونی درو�زہ کی طرف لپکی لیکن دوسرے ہی لمحے وہ دو لت خاں شا د�ب �سے �پنی جانب

کی بانہوں میں تھی جو�سے دبوچتے ہوئے �نا پ شناپ بک رہا تھا شاد�ب دعائیں ما نگ رہی تھی’’ میرے مالک

آ�ج تو ہی مجھے بچا سکتا ہے تو �پنے بندوں کی �لتجا سنتا ہے دلوں کا حال جا نتا ہے �پنی قدرت کا کر شمہ بتا

آ�سمانوں میں ہے �ور سب کچھ دیکھ رہا ہے ‘‘۔ �سی دے مجھے شیطان کے پنجے سے چھڑ �لے بتا دے کہ تو

آ�ئی دولت نے �یک آ�و�ز آ�و�ز کے ساتھ ہی کسی گا ڑی کے پہیوں میں بر یک لگا نے کی وقت گیٹ کھلنے کی

Page 65: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

جھٹکے سے شاد�ب کو �لگ کیا �ور در و�زے کی جا نب دیکھنے لگا نشہ ہرن ہو چکا تھا �یک لحیم شحیم

سانوے رنگ کی عورت نہا یت قیمتی لباس زیب تن کئے دند ناتی �ندر د�خل ہوئی �س کے پیچھے �نیسں بیسں

سال کا �یک لڑکا بھی تھا ’’�و ہو یہاں عیش کے سامان سجائے بیٹھے ہومجھ سے کہا تھا کہ کام بہت ہے مز ید

چند دن یہاں ٹھیر نا پڑے گا ! تو یہ کام ہو رہا ہے ہاں ؟‘‘ ’’نا درہ میری بات تو سنو !مجھے کچھ کاغذ�ت ٹا

ئپ کر و�نے تھے و ہی دینے کے لئے �س عورت کو یہاں بلو�یا تھا محلے کی غریب عورت سمجھ کر �سے کام دینا

آ�ئی تھی یہ دیکھو! میر� سونے کا لائٹر �ور گھڑی لے کر بھاگ رہی چا ہا تھا لیکن یہ تو یہاں چوری کی نیت سے

آ� گیا وہ تھی کہ میں نے پکڑ لیا ‘‘۔ شا د�ب شیطان کے چنگل سے چھوٹ گئی تھی �سے ما لک حقیقی پر پیار

آ�گے بڑھ کرنا درہ کے پاؤں پکڑ لئے �ور کہا رو پڑی �س �لز�م سے بھی وہی بری کر یگا �س نے

آ�پ یقین کریں بیگم صاحبہ یہ صاحب مجھ پر جھوٹا �لز�م لگا رہے ہیں کام دینے کے بہانے یہاں بلو� کر مجھے’’

آ�پ خود صحیح حالات بے عزت کیا ہے یہ مجھے زبردستی روک رہے تھے �سی دور�ن لائٹر�ور گھڑی یہاں گرگئے

کا �ند�زہ کر سکتی ہیں �ن صاحب کی حالت دیکھکر میں �سی وقت لوٹ جانا چاہتی تھی مگر ‘‘۔ نا درہ نے

آ�ؤدیکھا نہتا ؤ دولت خاں پر گھو نسوں کی بارش شروع کر دی ’’تم نے جس گھر کو عیاشی کا �ڈہ بنایا ہے وہ

میر� ہے یاتمہا رے باپ کا میرے باپ نے تمہیں فرش سے �ٹھا کر عرش پر بٹھا دیا �ور تم �پنی �وقات بھول گئے ؟

آ�ج رنگے ہا تھوں پکڑ لیا �ب تمہیں ہمیں بے وقوف بناتے رہے کئی دن سے تمہارے بارے میں سن رہی تھی �ور

آ�ئے گا ‘‘ نا درہ نے باہر میرے باپ کی عد�لت سے سز� ہو گی تب تک نہ تم یہاں سے باہر جا ؤگے نہ کوئی �ندر

�کر درو�زہ بندکر دیا۔ شاد�ب کے دماغ میں �تھل پتھل ہو رہی تھی کہ مردوں کی �س دنیا میں مردوں کے بنائے

ہوئے قا نون مرد ہی کیوں تو ڑ تے ہیں �ور کبھی کبھی عورت کے ہا تھوں سز� پا تے ہیں �یسے �حسان فر� موش شوہر

کو سز� ملنی ہی چا ہئے۔ نا درہ شا د�ب کا ہاتھ پکڑے �سے کھسیٹتی ہوئی دوسرے کمرے میں لے جا رہی تھی

آ�نے کے بعد �سے آ�ئی تھی۔ یہاں آ� گئی ماں کی و�پسی میں دیر ہو جانے پر وہ گھبر�ئی ہوئی تب ہی مہتاب

Page 66: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�پ میری ماں کو کہاں لے جا رہی آ�گے بڑھ کرنا درہ کا ہاتھ پکڑ لیا ’’ آ�یا کہ ہو� کیا ہے ؟ �س نے سمجھ میں نہیں

آ�پ مجھے بتائیں کیا ہو� ہے ؟‘‘ ہیں �نھوں نے کیا کیا ہے

آ�ؤہم �س کمرے میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں ‘‘ نادرہ کی ہمدردی پا کر ماں بیٹی نے’’ �چھا تم �ن کی لڑکی ہو �دھر

�پنے تمام حالات بتادئے تب نادرہ نے سمجھا یا’’ دیکھو شاد�ب تم جو�ن ہو خوبصورت ہو �ور �یک جو�نو حسین

آ�دمی کو سہار� بنا بیٹی کی ماں ہوتم کب تک یونہی تنہا �ن حالات کا مقابلہ کرو گی بہتر ہو گا کہ کسی شریف

کر زندگی گز�رلو ‘‘۔

جی میرے و�لد نے بہت کوشش کی تھی لیکن �یک لڑکی کے ساتھ مجھے قبول کرنے کوئی تیارنہ تھا �ب تو’’

بیٹی بھی بڑی ہو گئی ہے میں �س کی شادی کے لئے فکر مند ہوں میرے پاس �تنی سکت نہیں ہے کہ میں �سے

دلہن بنا کر عزت کے ساتھ رخصت کر سکوں �ور �س دور میں تو لڑکے و�لے �پنے لڑکوں کو سکوں میں تول رہے

آ�پ ہی بتائیں میں کیا کروں ‘‘ ہیں �ب

نادرہ:۔ ’’شاد�ب �س دنیاکی سب سے بڑی حقیقت روٹی ہے �ور پیٹ بھر روٹی کھانے کے لئے پیسے کی ضرورت

آ�ج روٹی کپڑے کے لئے �یک مردکی غلامی ہے �ور پیسہ کمانے کے لئے محنت �ور ذہانت کی ضرورت ہے

آ�ج کی عورت بہت کچھ کر سکتی ہے �ور کر رہی ہے عزت کے ساتھ پیہ کما رہی ہے بس ضروری نہیں ہے

وبصورت زندگی کو روکر گز�ر نا کفر�ن نعمت ہو گا ہر ذر�سی ہمت کرنی ہو گی زندگی �یک بارملتی ہے �س خ

آ�پ جیسا کہیں میں ویسا ہی کرنے کے لئے تیار ہوں ‘‘ آ�تے ہی‘‘ ’’ �نسان کی زندگی میں �چھے �ور برے دن ضرور

شاد�ب نے پر یقین لہجے میں کہا۔

آ�گے کیا کرنا ہے بتاؤں گی۔ ‘‘ عامر’’ ٹھیک ہے تم �ب �پنے گھر جا ؤ میں کل تمہارے گھر پر ملوں گی �ور

تشکر بھری نگا ہوں سے ماں کی طرف دیکھ رہا تھا پھر شاد�ب �ور مہتاب کی طرف دیکھکر مسکر�یا جیسے

‘‘ کہہ رہا ہو ’’کتنی �چھی ہے نا میری ماں ؟

Page 67: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

وہ دونوں �یک نیا عزم لئے کھڑی ہو گئیں جیسے �نھیں �پنی منزل کا پتہ مل گیا ہو! نادرہ نے �نھیں گھر پر چھو ڑ

آ�ج وہ بہت �چھے موڈ میں تھی شاد�ب �ور مہتاب کو آ�ئی۔ ��ور چلی گئی دوسرے دن وہ مژدۂ جا نفز�ء بن کر

�پنے سامنے بٹھا یا �ور گو یا ہوئی میں تم دونوں کے لئے �یک �چھی �س کیم لائی ہوں �ب تمہیں �پنی ہمت ’

محنت �ور ذہا نت سے کام لینا ہو گا تم دونوں پٹر ھی لکھی ہو �یک �سکول قائم کر لو �س کے ساتھ کمپیو ٹر �ور

ٹائپ ر�ئٹنگ �نسٹیٹو ٹ بھی ہو گا پیسہ میں لگاؤں گی �ور گا ہے ما ہے تم سے ملتی �ور تمہاریر ہنمائی کرتیر ہوں

گی کیا خیال ہے مہتاب نے مارے خوشی کے تا لیاں بجاتے ہوئے کہا۔

آ�پ نے میری پسند کا کام دیا ہے �ب’’ آ�نٹی یہ میری دیر ینہ خو�ہش تھی کہ میں �چھے پیمانے پر �سکول چلاؤں

دیکھئے ہم دونوں مل کر کیا کرتے ہیں ‘‘بہت جلد �نھوں نے �پنے محلے سے بہت دور شاند�ر پیمانے پر� سکول

آ�جا تے �ور �ن دونوں کی کار کر قائم کر لیا �ور زندگی کی دوڑ میں شا مل ہو گئیں نادرہ �ور عامر �کثر �سکول

آ� گئے �یک دن �چانک دگی سے محظو ظو مطمئن ہو تے �سی دور�ن مہتاب �ور عامر �یک دوسرے کے قریب

یی تعلیم حا صل کرنے کے لئے �پنے ماموں کے پاس �مر یکہ جا رہا ہے وہ بھی �س کے نادرہ نے بتا یا کہ عامر �عل

آ�جائے یا دیر بھی ہو سکتی ہے دوتین سال کے عرصہ میں شاد�ب کے ساتھ جا رہی ہے ہو سکتا ہے جلدی و�پس

�سکول کا شمار شہرکے �چھے �سکولس میں ہو نے لگا ماں �ور بیٹی نے محنت �ور لگن سے �پنا �یک مقام بنا لیا

آ�نے لگے لیکن شاد�ب نادرہ کے صلاح �ب نہ صرف بیٹی کے لئے بلکہ ماں کے لئے بھی �علی خاند�ن کے رشتے

مشورہ کے بغیر کوئی قدم �ٹھا نا نہیں چاہتی تھی۔ �س نے کسی کو کوئی جو�ب نہیں دیا وہ نادرہ سے بات کرنا

آ� گیا شاد�ب نے چاہتی تھی لیکن فون کی لائن نہیں مل رہی تھی دوچاردن یونہی گزرگئے۔ �چانک نادرہ کا فون

آ�جاؤ میرے سامنے لپک کر فون �ٹھا لیا نادرہ کہہ رہی تھی ’’شاد�ب تم �ور مہتاب چھٹیاں شروع ہوتے ہی یہاں

کچھ مسائل �یسے ہیں جن کا حل تمہاری مدد سے نکالنا چاہتی ہوں ویسے چھٹیاں ہونے میں کتنے دن باقی ہیں

آ�پ سے �پنے مسائل ‘‘ نادرہ نے �یک ہی سانس میں کہہ دیا۔ ’’جی یہی کوئی ہفتہ دس دن باقی ہیں ‘‘میں خود

آ�پ کچھ پریشان کے سلسلے بات کرنا چاہتی تھی تین دن سے کوشش میں تھی لائن نہیں لگ رہی تھی لیکن

Page 68: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�جاؤ تب ہی بتاؤں گی سی معلوم ہو رہی ہیں کیا بات ہے مجھے بتائیں نا ’’بات بے حد �ہم �ور خاص ہے یہاں

ویسے پریشانی کی بات نہیں ہے بس تمہار� شدت سے �نتظا رہے میں نے ویز� �ور ٹکٹ کا �نتظام کر دیا ہے بس تم

کرو� لینا، �چھا خد� حافظ �پنی صحت کا خیال رکھنامہتاب Reserve چھٹیوں کے حساب سے سیٹ ریزرو

کوپیارلینا‘‘ شاد�ب �ور مہتاب �مریکہ کیلئے رو�نہ ہو گئیں زندگی میں پہلی بار ہو�ئی سفر پر نکلی تھیں۔ طیارے

میں بیٹھے ہوئے باربار �یک دوسرے کاہاتھ تھام کر یقین کر ناچاہتی تھیں کہ وہ خو�ب میں نہیں بلکہ حقیقت میں

پلین میں بیٹھی ہیں کئی گھنٹوں کی مسافت طئے کرنے کے بعد وہ �پنے خو�بوں کے شہر شکاگو پہنچ گئیں۔

آ�بو ہو�نے �نکے حسن آ�ر�م لینے کے بعد وہ تازہ دم �ور شگفتہ ہو گئی تھیں �مریکہ کی آ�ئی تھی دودن نادرہ �نھیں لینے

کو توبہ شکن بنادیا تھا تیسرے دن نا درہ �نھیں شہرگھمانے لے گئی �ور ر�ستے میں ڈھیر ساری باتیں ہوتی رہیں

�یک �یک مشہور جگہ دکھاتی رہی باتوں باتوں میں نادرہ نے بتایاکہ ’’چھ ماہ قبل �س کی بھا وج کا �چانک �نتقال

ہو گیا ہے �ور یہ کہ وہ شاد�ب کو �پنی بھاوج کی جگہ پردیکھنا چاہتی ہے �ور مہتاب کو�پنی بہوبنانا چاہتی ہے

‘‘۔ شاد�ب کو یوں محسوس ہو� جیسے وہ دنیاکے سب سے �ونچے مینار پر کھڑی ہو �س کا دل بری طرح دھڑ ک

رہا تھا زبان لڑکھڑ رہی تھی �ور لڑکھڑ �تی زبان دلی کیفیت کے �ظہار کے لئے صحیح �لفاظ �د� نہیں کر سکتی

آ�ج وہ �س منزل پر آ�یا۔ �س نے �ضطر�ری کیفیت میں نا درہ کے ہاتھ کو تھام لیا �سے �پنی سماعت پر یقین نہیں

آ�نکھوں سے عیاں آ�رزو کوئی تمنا نہیں رہ گئی تھی حیرت �ور مسرت �س کی ڈبڈ بائی تھی جہاں پہنچ کر کوئی

تھی۔

*****

Page 69: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

رہے دیکھتے غبار ہم اور

ر�ت کا ماجر� کس سے پوچھوں شمیم

کیا بیتی بزم پر تیرے �ٹھ جانے کے بعد

نگ در کیا کہیں لذت سجدہ سن

ہوش ہی کب رہا سر جھکادینے کے بعد

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

منجمد جذبات میں ہلچل سی ہو رہی تھی جیسے ساکت پانی میں کسی نے کنکری پھینک دی ہو ر�ت بستر پر

لیٹی وہ کروٹیں بدلتی رہی خوش حال ، خوش �خلاق �ور خوش شکل باس �س کے مشام جاں میں �ترتا رہا دل

چپکے چپکے سرگوشی کر رہا تھا۔ تو یک ننھی چڑ یا ہے تیرے نازک پروں میں قوت پرو�ز کب تک رہیگی۔

شکاری رحم دل ہے �س کی �سیر ہوجا �سی میں تیری عافیت �ور پرسکون عاقبت بھی ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�خری ر�ت تھی �ور محفل پورے شباب پر تھی ہر کوئی �پنے رنگ میں مست دبے خود تھا۔ شائستہ سال کی

حیرت سے سب کچھ دیکھ رہی تھی �یسی محفل میں شریک ہو نے کا یہ پہلا موقع تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ

تعلیم یا فتہ دولتمند لوگ شر�ب کے نشہ میں چورہو کر نئے سال کا �ستقبال �سطرح کرتے ہیں۔ نت نئے ڈیز�ئن کے

قیمتی ملبوسات زیب تن کئے بیوٹی پار لر سے میک �پ کر و�ئی خو�تین �یسے معلوم ہو رہی تھیں جیسے وہ �یک

Page 70: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�خر باس نے �س محفل میں �سے کیوں مد عو آ�ئی ہوں۔ شائستہ سوچ رہی تھی دوسرے کومات دینے کی ٹھان کر

کیا۔ ویسے �سٹاف کی دو سری خو�تین بھی مو جو دتھیں ورنہ وہ زیا دہ دیر �س جگہ نہیں ٹھہر سکتی تھی۔

�پنے باس کو دیکھ کر �سے تعجب ہو� تھا کہ �علی تعلیم یافتہ با وقار باس شر�ب پی کر بے خودی میں قہقہے لگا

رہے تھے وہ �ن کی بہت عزت کرتی تھی لیکن �نھیں �س رنگ میں دیکھ کر مایوس �ور �د�س ہو گئی۔ وہ سوچ

آ�تا �لٹی سید ھی بحث رہی تھی کیا فرق ہے �س کے مر حوم شوہر �ور باس میں ؟ وہ سستی شر�ب پی کر گھر

تکر�ر کے بعد نڈ ھال ہو کر سورہتا �سی شر�ب نے �یک دن �س کی جان لے لی۔ �ور باس �علی قسم کی شر�ب

پی کر جانے کو نسا غم بھلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ محفل کے شورسے بے خبر شائستہ سوچوں کے دھارے

میں بہہ رہی تھی۔ ۔ ۔ وہ �یک متو سط گھر�نے کی پردردہ تھی متوسط طبقہ �یسا ہوتا ہے جیسے ہو�میں کوئی معلق

چیز !�س طبقہ کو �پنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کیلئے زندگی کے دکھوں �ور تکلیفوں کے ساتھ بڑی جدوجہد

آ�رزؤں �ور نامر �دیوں کا روگ۔ کرنی پڑتی ہے یہاں زندگی �یک روگ ہوتی ہے روٹی کپڑے مکان کا روگ، نا کام

�س نے �نٹرپاس کیا تھا ملازمت کر کے و�لدین کا سہار� بننا چاہتی تھی کہ �چانک ماموں کے لائے ہوئے �یک رشتے

کیلئے و�لدنے ہاں کر دی �ور بلا تحقیق �سے �یک �جنبی کے حو�لے کر دیا وہ �نکار بھی نہ کر سکی کیوں کہ و�لد

�پنی گرتی ہوئی صحت سے مایوس ہو چکے تھے �ور جلد �زجلد بیٹی کی ذمہ د�ری سے سبکدوش ہو جاناچاہتے

تھے۔ شائستہ نے مقدر کے ساتھ سمجھو تہ کر لیا �ور �س شخص کو ر�ہ ر�ست پر لا نے کی کوشش کر کے

تھک گئی �نجام وہی ہو �جو ہو نا تھا شوہر کے بعد و�لد بھی چل بسے زندگی کے �س مو ڑ پر وہ تنہا کھڑی شمع

کی لو کی طرح لر زرہی تھی لیکن وہ بو کھلائی نہیں جو�ن �ور خوبصورت تھی پڑھی لکھی �ور ذہین تھی زندگی

کا سفرتنہا طے کرنے کی ہمت رکھتی تھی لیکن وہ ماں کیلئے فکر مند تھی �ور ماں �س کے لئے پر یشان تھی �ور

آ�ئے گا خون کے رشتے سہار� دیں گے زخموں پر ہمدردی کا مر سوچتی رہتی کہ کوئی تو �ن کا غم با نٹنے کے لئے

ہم رکھیں گے تسلی دے کر ہمت بندھائیں گے لیکن شائستہ نے محسوس کر لیا کہ سب چہرے بدل چکے ہیں

تمام کرد�ر ریت کے نشانوں کی طرح مٹ گئے ہیں لہجے تندو تیزہو گئے ہیں �نھیں دیکھ کر درو�زے بند کر لئے

آ�فس جاتے ہیں وہ �س دنیا کی حقیقت کا مکر وہ چہرہ پہچاننے لگی تھی۔ بڑی بھاگ دوڑ کے بعد �سے �یک

Page 71: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

میں ملازمت مل گئی۔ جانے کیوں باس �س پر مہربان تھے معقول تنخو�ہ پر �س کا تقرر کر لیا تھا۔ سوچ میں

آ�نکھوں و�لے باس �سے �چھے لگے تھے۔ ڈوبی ہوئی غم نا ک �ور نمناک

شائستہ �پنی لامنتاہی سوچوں کے حصارسے �س وقت باہر نکلی جب گھڑ یال نے بارہ کا گجر سنایا چند سکنڈ

آ�ف ہوئی �ور کھل گئی ساتھ ہی تالیوں �ور قہقہوں کا �یک شور بپا ہو �کچھ دیر بعد محفل بر خو کے لئے لائٹ

آ�فس میں �ست ہو گئی۔ شائستہ ر�ت بھر بے کل سی رہی ذہن کچی لکڑی کی طرح سلکتا رہا دو سرے دن وہ

بجھی بجھی سی تھی �س کی خامو شی کو صفی �حمد نے محسوس کیا �پنے کمرے میں وبلو�یا چند لمحے

!�سے غور سے دیکھنے کے بعد گو یا ہوئے

آ�ج �د�س سی لگ رہی ہو طبیعت کیسی ہے ؟ و�لدہ کیسی ہیں ؟کیا تھک گئی ہو؟’’ ‘‘ کیا بات ہے تم

جی۔ جی کوئی خاص بات نہیں ہے و�لدہ بھی ٹھیک ہیں ‘‘ ’’کچھ تو ہے جس کی وجہ سے تم پر یشان معلوم ہو

آ�فس ٹا ئم کے بعد مجھ سے ملو کچھ بات کرنی ہے ‘‘۔ ’’جی بہتر‘‘ وہ کچھ سوچتی رہی ہو۔ تم �یسا کرو

آ� گئی۔ ہوئی باہر

آ�فس کے سبھی لوگ جا چکے تھے شائستہ صفی �حمدکے کمرے میں گئی وہ سگریٹ منہ میں دبائے ڈ�ئری کی

آ�نکھوں میں جھا نکتے ورق گرد�نی کر رہے تھے شائستہ سرجھکائے بیٹھی تھی۔ باس نے ڈ�ئری بندکی �ور �س کی

ہوئے کہا۔ ’’ شائستہ بغیر کسی تمہید کے کہنا چاہتا ہوں کہ میں تھیں پسند کرنے لگا ہوں تمھیں �پنی زندگی میں

شامل کرنا چاہتا ہوں ، کیا میر� ساتھ دو گی؟‘‘شائستہ حیرت زدہ سی صفی کی طرف دیکھ رہی تھی بمشکل �س

آ�سودہ زندگی میں آ�پ �پنی آ�پ شادی شدہ مر د�ور دو بچوں کے باپ ہیں آ�پ کیا کہہ رہے ہیں نے کہا۔ ’’ سر یہ

پر سکون ہیں مجھ نا چیز کو �پنی زندگی میں شامل کرنے کا کیا مطلب ہے میں سمجھی نہیں ؟ ‘‘’’تم نے یہ

آ�سائش کسی �نسان کو سکون دے سکتے ہیں ؟ میں �پنی زندگی کا روناتمھارے کیسے سمجھ لیا کہ دو لت �ور

آ�گے رونانہیں چاہتا صرف �تناکہوں گاکہ میں �پنے موجو دہ حالات سے مطمئن نہیں ہوں میری بیوی �سری کو �پنے

Page 72: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

گھر �ور بچوں کی فکر ہے نہ میری پر و�ہ �پنی سہیلیوں کلب �ور پار ٹیوں کی رنگین دنیا میں کھوئی ہوئی ہے �سے

یاد نہیں کہ وہ کسی کی بیوی �ور دو بچوں کی ماں بھی ہے مجھے سکون کی تلاش ہے بس‘‘’’سر میں �وسط

آ�پ گھر �نے کی پلی ہوئی �یک بیوہ ہوں میر �شوہر شر�بی تھا خوب پیتا تھا �ور �یک دن شر�ب �سے پی گئی۔ سر !

آ�پ کے لائق نہیں ہوں۔ ‘‘ بھی تو شر�ب کے رسیا ہیں۔ ویسے میں

ہاں شائستہ میں پیتا ہوں۔ جب �نسان کی زندگی میں کوئی خوشی نہ ہو کوئی �سے پو چھنے و�لا �س کا �پنا نہ’’

ہو تو وہ کیا کرے �س شخص کے دل کا حال تم نہیں جان سکتیں جس نے �پنی بیوی کو ہر طرح کا سکھ �ور

خوشی دینے کے باوجو دسکون کا �یک پل بھی نہ پا سکا ہو بیوی شوہر کے ہی دو ست کے ساتھ عاشقی کرنے

آ�نکھوں میں دھول جھو نکنے لگے تو �س سے زیا دہ بے عزتی وبے سکونی �ور کیا ہو سکتی ہے ؟ لگے �س کی

رہی تمھاری بات تو میں یہی کہوں گاکہ تم جیسی سلجھی ہوئی ذہین �ور سنجیدہ لڑکی گھر کو جنت کا نمو نہ

آ�فس کے کام سے و�قف ہو بنا سکتی ہے یہ تمھاری بد قسمتی ہے کہ کسی نے تمھاری قدر نہیں کی۔ �ب تم

آ�تا۔ آ�تا ہے یہ سب کو نہیں چکی ہو میں نے دیکھا ہے تم بڑے سلیقہ سے بات کرتی ہو تمھیں گفتگو کرنے کا فن

میں نے بارہا �پنی بیوی کو سمجھایا ہے کہ وہ گھر �ور دفتر کے معاملات میں میر� ساتھ دے میرے قدم سے قدم

‘‘ ملا کر چلے لیکن �س کے شوق �س کی سوچ �س کی دنیا ہی �لگ ہے۔

سربر�نہ مانیں تو �یک بات پوچھوں ؟

‘‘ ہاں ہاں پوچھو’’

آ�پ کے وہ کو نسے دو ست ہیں جن سے میڈم قریب ہو گئی ہیں جہاں تک میری عقل کام کرتی ہے میں کہوں’’

آ�پ کو غلط فہمی ہوئی گی کہ کوئی شریف عورت �سطر ح مردکو دھوکہ نہیں دے سکتی۔ ہو سکتا ہے

آ�فس ہو‘‘’’نہیں شائستہ کوئی مرد غلط فہمی میں مبتلا ہو کر بیوی پر �لز�م نہیں لگاتا تم رشید سے و�قف ہوجو �کثر

یی سے فون پر بات ا ہر روز �سر آ�تا ہے تقریب آ�تا ہے �ور گہری نظروں سے تمھیں غورسے دیکھتا ہے وہ میرے گھربھی

Page 73: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�پ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ‘‘ ’’وہ کرتا ہے ‘‘’’بیوی سے فون پر بات کر نا تو عاشقی کاثبوت نہیں ہے سریقینا

آ�تا ہے �ور فون پر بھی �یسے وقت بات کرتا ہے جب میں گھر پر نہیں ہو تامجھے �کثر میری غیر موجود گی میں بھی

چوکید�رسے سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔ �ب تم بتاؤ تمھار� کیاخیال ہے کیا میں �میدرکھوں کہ تم میری پیش کش کو

آ�ج کی �س ملاقات کی یا دگاریہ �نگوٹھی قبول کر وخاص تمھارے لئے خریدی ہے۔ ‘‘ رد نہیں کرو گی ؟ ویسے

آ�نکھوں کو خیرہ کر رہی تھی دل دھڑ ک رہا تھا منزل کا چھوٹا ساہیر�جڑی ہوئی خوبصورت �نگوٹھی شائستہ کی

آ�رزؤں کی کہکشاں تصور میں بکھر روشن مینار �س کے سامنے تھا ماضی کی محر ومیاں کچو کے لگا رہی تھیں

رہی تھی زندگی کو ہر چیزکی ضرورت ہوتی ہے روٹی کپڑ �مکان �ور محبت خو�ہ وہ جھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ شا

‘‘ ئستہ نے سنبھل کر کہا ’’سرمجھے سوچنے کے لئے کچھ وقت دیں

شش وپنج کے سمندرمیں غلطاں وہ چپ چپ سی �ٹھ کر چلی گئی منجمد جذبات میں ہلچل سی ہو رہی تھی

جیسے ساکت پانی میں کسی نے کنکری پھینک دی ہو۔ ر�ت بسترپر لیٹی وہ کر وٹیں بدلتی رہی۔ خوش حال

خوش �خلاق خوش شکل باس �س کے مشام جاں میں �ترتا رہا۔ دل چپکے چپکے سرگوشی کر رہا تھا کہ تو �یک

ننھی سی چڑ یا ہے نازک پروں میں قوت پرو�زکب تک رہے گی شکاری رحم دل ہے �س کی �سیر ہو جا۔ �سی میں

آ�فس جلدی چلی گئی۔ تیری عا فیت ہے �ور پر سکون عا قبت بھی ہے۔ صبح وہ نہا دھوکر ہلکی پھلکی ہو گئی۔

آ� گئے تھے۔ شائستہ غیر�ر�دی طور پر صفی کے کمرے میں چلی گئی �س سے نگاہ �تفاقا صفی �حمد بھی جلدی

آ�پ جھک گئیں ہو نٹوں پر دبی دبی سی مسکر �ہٹ تھی �سے دیکھتے ہی صفی �حمدنے آ�پ ہی ملتے ہی نظریں

آ� گئی �س کا کہا۔ ’’توفیصلہ کر لیاتم نے ‘‘وہ کچھ کہنے کے لئے �ندر گئی تھی �چانک سو�ل پر شرما کر باہر

آ�و�زدی وہ دل دھڑ ک رہا تھا توبہ کتنے چا لا ک ہیں چہرے کی کتاب کیسے پڑھ لیتے ہیں۔ ۔ ۔ صفی نے �سے

‘‘ پھر �ندر گئی �ور جلدی سے کر سی پربیٹھ گئی۔ ’’ کچھ کہنا چاہتی ہو ؟

آ�پ سے بس �یک وعدہ لینا تھا۔ ’’ ‘‘ جی کوئی خاص بات نہیں ہے

Page 74: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

‘‘ کیساوعدہ جلدی بتاؤ؟’’

آ�ج سے۔ ۔ ۔ شر�ب۔ ۔ ۔ نہیں پئیں گے ’’ آ�پ۔ ۔ ۔ ‘‘! یہ کہ

توتم نے �بھی سے پابندیاں لگانا شروع کر دیں ؟‘‘’’

آ�پ کی’’ آ�پ کی صحت �ور مستقبل کی حفاظت کے لئے �یک وعدہ لے رہی ہوں جی یہ پابندی نہیں ہے بلکہ

آ�پ کی نہیں ہے نا۔ ‘‘ جان �کیلے

آ�خری’’ آ�خری بار پؤں گادوستوں نے پہلے سے پرو گر�م دے رکھا ہے خود میں نے کہہ دیا تھا کہ یہ آ�ج ٹھیک ہے

‘‘ پروگر�م ہو گا۔

آ�پ کو کچھ ہو گیا تو �س دولت جا ئید�د �ور �ولاد کا کیا ہو’’ ٹھیک ہے بس �س بات کوذہن میں رکھیں کہ �گر

‘‘ گا؟

�ور باس نے مسکر �کر �س کے ہاتھ �پنے گرم ہا تھوں میں لے لئے �ور تر نم کے ساتھ �یک خوبصورت شعر پڑھا۔

نب رگ جاں ہو �ے دوست ذر� �ور قری

تک شب ہجر�ں کا دھو�ں ہوں کیا جا نے کہا

آ�فس پہنچی تو �یک سر� سمیگی کا عالم تھا چو کید�ر کے علاوہ �سٹاف کے سبھی دوسرے دن صبح وہ ٹا ئم پر

آ�گے بڑھ کر شائستہ سے کہاکہ ’’باس �ب ہمارے ممبرس کی پلکیں بھیگی ہوئی تھیں ٹائپسٹ نند�نے جلدی سے

آ�نے کیلئے ہم سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ چلو ہم سب �ن کے گھر جا رہے ہیں۔ ‘‘ بیچ نہیں رہے وہ کبھی نہ

آ�نکھوں سے سب کے چہرے دیکھ رہی تھی تب ہی جہاں کھڑی تھی شائستہ کو سکتہ سا ہو گیا وہ خالی خالی

آ�ئی ٹا آ�تے رہے چوتھے دن وہ ہوش میں وہیں گر گئی۔ کچھ لوگ �سے �سپتال لے گئے تین دن تک �سے غش

آ�ئی تھی شائستہ کے پو چھنے پر �س نے بتا یا کہ �س ر�ت باس �پنے دوستوں کے پاس ئپسٹ نند ��سے دیکھنے

Page 75: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�ن دی �سپاٹ �ن کی ڈیتھ ہو گئی۔ شائستہ کو آ� گئی �ور آ� رہے تھے کہ روڈ ڈو�ئڈرسے �ن کی کار ٹکر سے گھر

آ�خری پر وگر�م �ٹنڈ کرنے گئے تھے وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی �ور پھر بے ہوش ہو گئی۔ پندرہ دن بعد وہ آ�یاکہ وہ �پنا یاد

آ�پ کو سنبھالا۔ دوسرے دن آ�ئی ماں پر یشان تھی �س کی خاطر �پنے فسآ�کچھ نارمل ہوئی ڈسچارج ہو کر گھر

گئی تودیکھی کہ صفی �حمد کی کر سی پر �ن کا دو ست رشید بیٹھا تھا شائستہ کو دیکھ کر کھڑ �ہو گیا۔

آ�ؤ میں پچھلے پندرہ دن سے شدت کے ساتھ تمھار� �نتظار کر رہا تھا تم سے کچھ بات کرنے کے ’’ آ�ؤ شائستہ

‘‘ لئے بے چین تھا۔

آ�نسو رو�ں تھے وہ �یک کر سی پر بیٹھ گئی۔ رشید نے کہا۔ آ�نکھوں سے غیر �ر�دی طور پر شائستہ کی

آ�ج میں تمھیں �پنے �یک ر�ز میں شامل کر کے �پنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘’’ شائستہ

آ�پ نے �پنے ر�ز میں مجھے شامل کرنے کا �ر�دہ کیوں کیا ہے ؟’’ ‘‘ کیسار�ز رشید صاحب !�ور

�س لئے کہ �س کا تعلق تم سے بھی ہے۔ شائستہ میں تمھار� �ور �سری کا گنہ گار ہوں ہو سکے تو مجھے’’

آ�پ پہیلیاں کس لئے بجھا رہے ہیں ؟ ‘‘ معاف کر دینا۔ ‘‘’’ رشید صاحب صاف صاف بتائیے بات کیا ہے

تمھیں معلوم ہے صفی میر� دوست تھا بزنس پارٹنر بھی تھا �س کے خاند�ن کے لوگ مجھے �پنے ہی خاند�ن کا’’

کبھی کبھیی�یک فر دمانتے تھے �س لئے �کثر�س کے گھر بھی جا یا کرتا تھا۔ تم یہ بھی جانتی ہو کہ �سری

آ�ئی �ور تمھیں دیکھا تو�سی دن سے شک میں پڑ آ�فس آ� جاتی تھی۔ تمھارے تقرر کے بعد جب وہ آ�فس �چانک

رفتہ تم لوگوں کے تعلقات سے و�قف ہو گئی �س نے مجھے تم پر �ور صفی پر نظر رکھنے کے لئے کہا میں رفتہ

گیا �ور �سری کو بھی و�قف کرتا رہا۔ وہ صفی کو جلا نے کی خاطر �پنا وقت زیادہ تر باہر کلب �ور پارٹیوں میں

گز�رنے لگی تھی میری رپور ٹس سن کر صفی سے متنفر ہوتی جا رہی تھی میں یہی چاہتا تھا کہ دو نوں کے بیچ

نفرتوں کے پہاڑ کھڑے ہو جائیں در�صل میری نیت خر�ب ہو گئی تھی میں کالج کے زمانے سے ہی �سری کو �پنالینا

آ�جانے سے �یسا نہ ہو سکا۔ ‘‘ چا ہتا تھا لیکن صفی کے بیچ میں

Page 76: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

رشید کچھ دیر کے لئے رک گیا میزپر رکھے ہوئے باٹل سے گلاس میں پانی لے کر پیا �س دور�ن وہ شائستہ کے

تھی۔ ’’تم سنئےو حرکت بیٹھی رشید کے چہرے پر نظریں لگائے ہو چہرے کا بغور جائزہ لے رہا تھاجو بے حس

‘‘ رہی ہو نا؟

جس ر�ت صفی کی کار حادثہ کا شکار ہوئی �س ر�ت میں �س کے دوست ساجدکے گھر پہونچا۔ دو چاردوست’’

پینے پلا نے کی محفل سجائے مصروف تھے موقع دیکھ کر میں نے صفی کی کارکے بر یک کھول دیے �ور پھر

آ�ج �س کے بیوی بچوں کی �ور تمھاری حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی وہی ہو �جو میں چا ہتا تھا لیکن

میرے دل پر �یک بو جھ سا تھا �ب میں �سری سے بھی معافی مانگنے جا رہا ہوں پہلے تم مجھے معاف کر دو

‘‘ تاکہ۔ ۔ ۔

رشید کا جملہ ختم ہونے سے پہلے شائستہ �یک جھٹکے سے �ٹھی میز پر رکھا ہو� پانی کا باٹل �ٹھایا �ور �س کے

سرپردے مار� �ور وہ ہزیانی �ند�ز میں چلا رہی تھی۔

کمینے خودغرض �نسان تو حیو�ن سے بدترہے تو نے صفی کو مار ڈ�لا �یک فرشتے کا قتل کر دیا تجھے زندہ ’’

‘‘ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے میں تجھے جینے نہیں دوں گی۔ ۔ ۔

رشید کے سرسے خون کافو�رہ بہہ رہا تھا وہ سر پر دستی رکھے تیزی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا شائستہ

ہاتھ میں باٹل لئے ہوئے �س کی طرف لپکی �ور لڑکھڑ �کر گر گئی۔

OOOOO

Page 77: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

شبنم پیاسی

ہمارے بعد �س محفل میں �فسانے بیان ہوں گے

بہاریں ہم کو ڈھونڈیں گی نہ جانے ہم کہاں ہوں گے

نہ ہم ہوں گے نہ تم ہو گے نہ غم ہو گامگر پھر بھی

ہز�روں منزلیں ہوں گی ہز�روں کارو�ں ہوں گے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کل عماد کی رو�نگی تھی ، دونوں �یک دوسرے کی قربت میں وقت گذ�رنا چاہتے تھے ، دن ر�ت کی بانہوں

میں سمٹ گیا ، ہز�روں ر�توں کا حسن وہ �یک ر�ت میں سمودینا چاہتے تھے کہ یہ ر�ت �ن کے پیار کی گو�ہ رہے

دونوں کے دل سے �یک ہی دعا نکل رہی تھی کہ �ے خد� تیری قدرت کے صدقے �س ر�ت کی سحر نہ کرنار�ت

کے گزرتے ہی میر� حبیب مجھ سے جد� ہوجائے گا لیکن سحر تو ہونا ہی تھی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�ئی �ور شائستہ لجے میں �س کی کسی ضرورت کے بارے خوب صورت �یر ہو سٹس دوتین بار �س کے سامنے

میں دریا فت کیا لیکن عمادنے �حساس تشکر کے ساتھ �نکار میں سرہلا دیا �ور وہ مسکر �ہٹ کے پھول بکھیرتی

ہوئی چلی گئی۔ چار پانچ گھنٹے قبل �پنی ماں کے ز�نوں پر سر رکھے وہ �نھیں تسلیاں دے رہا تھا۔ بے روزگاری

سے بیز�ر �پنے ہی وطن میں �پنے مستقبل سے مایوس وہ دیار غیرکی طرف نکل پڑ �تھا۔ روٹی دنیا کی �یک زبردست

Page 78: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

حقیقت ہے �س روٹی کے ئے �نسان کیا کچھ نہیں کرتاسچ تو یہ ہے کہ �س دنیا کا سار� کا روبار روٹی ہی کے

�طر�ف گھوم رہا ہے۔ ماں گزشتہ پچیس سال سے ہمیں �پنی محنت کی کھلاتی رہی ہیں ، عماد سوچوں کے عمیق

آ�س رکھی نہیں سمندر میں غرق تھا �تنے سالوں میں باپ نے کبھی پلٹ کر نہیں پوچھا۔ �پنوں سے �می نے کوئی

�نھیں �س بات سے کوئی و�سطہ نہیں تھاکہ دو نوں ماموں خو بصورت بنگلوں �ور قیمتی کا روں کے مالک تھے

آ�ر�م کا ذر� سا حصہ �پنی بہن کے آ�یا کہ �پنے عیش و دولت �ن کے گھرکی باندی تھی۔ �نھیں کبھی یہ خیال نہیں

آ�گے �پنی کم مائے گی نام لکھ دیتے۔ خد� کی �س تقسیم پر ہم نے قناعت کرلی تھی ماں نے کبھی کسی کے

کا رونانہیں رویا۔ کرو ڑوں متوسط لوگوں میں سے ہم بھی تھے کبھی �چھا کھالیا کبھی بر�، کبھی �چھا پہن لیا

کبھی بر�، کبھی ہنس لئے کبھی رولئے۔ محرومیوں پر کڑھتے �ور خوبصورت �میدوں پر جیتے ہم دونوں بھائی

آ�سودہ زندگی دینے کے قابل ہو گئے ہیں پہلے ہم �یک آ�ج جو�ن ہو کر �پنی ماں کو زندگی کے ساتھ چل پڑے �ور

چھوٹا ساگھر بنائیں گے �ور ماں �پنے پوتوں پوتیوں کے ساتھ۔ ۔ ۔ پلین نے �یک ہلکاساجھٹکا لیاعماد ماضی کے

آ�یا گھڑی پر نظر ڈ�لی �سے جہازپر سو�ر ہوئے تین گھنٹے ہو رہے تھے زمین سے جو نہی جہاز کا حصارسے نکل

آ�نکھوں کو یاد کر کے بے چین ہو رہا تھا۔ گزرے ہوئے دنوں ر�بطہ ٹوٹا عماد �پنی ماں کی جھرنے بہاتی سرخ سرخ

ا�علان ہو �کہ منزل کی تکلیف وہ یا دوں میں �لجھ گیا تھا جہاز کے جھٹکوں نے خیا لات کا تسلسل تو ڑ دیا۔ مع

مقصود قریب ہے سب �پنی �پنی پیٹیاں باندھ لیں مستقبل کے سہانے سپنوں کے کیف وسرور میں جھومتا ہو �وہ �یر

آ�ئے تھے �ن کے ساتھ �یک سانولی سلونی سی دلکشآ� پورٹ پر �تر�تو �س کے دوست نظر گئے جو �سے لینے

آ�ئی جو لبوں پر خفیف سی مسکر �ہٹ لئے �شتیاق بھری نظروں سے عماد کو گھورے خدوخال و�لی لڑکی بھی نظر

آ�نکھوں کو عمادہی کا �نتظار تھا۔ عماد کو �پنے و جو دکے �ندر�یک �نجانی سی جا رہی تھی جیسے �س کی

آ�نکھوں و�لی آ�تشیں لہر سرسر�تی محسوس ہوئی وہ �یک �یک کر کے �پنے دو ستوں سے بغل گیرہو نے لگا �ور سیاہ

�س لڑکی پر �یک گہری نظر ڈ�لتے ہوئے �س نے ہیلوکہا۔ �س نے بھی �یک دلا ویزسی مسکر �ہٹ کے ساتھ ہیلو

سے ہی جو �ب دیا �ور گھنی پلکیں جھکا لیں۔ �سے یوں محسوس ہو �جیسے �ن پلکوں نے �سے �پنے �ندر سمیٹ

لیا ہو۔ �ظہر نے تعارف کر �تے ہوئے بتایا کہ یہ مس صباہیں �ور �نھیں کے ساتھ دو �خانہ میں کام کرتی ہیں دودن

Page 79: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

گزرے تھے کہ عمادکو تیزبخارنے دبوچ لیا۔ ماں کی جد�ئی ؛ سفر کی تکان �ور بدلے ہوئے گرم خشک موسم کا

�ثر تھا کہ وہ نڈھال ہو گیا۔ سسٹر صباہاتھ میں و�ٹر بیگ لئے تیزتیزقدم �ٹھاتی عماد کے روم کی طرف جا رہی تھی

جہاں وہ �پنے دو سرے تین ساتھیوں کے ساتھ مقیم تھا۔ ر�ستے میں سسٹرنسیم مل گئی �ور پوچھا : یہ و�ٹربیگ

کس کے لئے لے جا رہی ہو ؟‘‘

عماد بہت تیزبخار میں متبلاہیں �ن ہی کے لئے لیحا رہی ہوں ؛؛’’

چلو میں بھی دیکھ لیتی ہوں ‘‘نسیم نے کہا’’

آ� رہی عماد بیڈپر لیٹا ہو� بہت کمزور دکھائی دے رہا تھا صبا �ور نسیم بیڈ کے قریب بیٹھ گئیں ، صبا متفکر نظر

تھی۔

صبا! �یک �جنبی کا �تنا خیال �تنی خدمت کیا بات ؟ ! کوئی گڑ بڑ تو نہیں ؟‘‘ نسیم نے صبا کی طرف شوخ ’’

نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ’’ نسیم۔ ۔ ۔ یوں تو �پنا پیشہ ہی �یسا ہے ناکہ ہمیں ہر مر یض کا خیال رکھنا

آ�ئے ہیں �یسا لگتا ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چائیے پھر عماد تو �پنے �سٹاف سے ہے۔ پتہ نہیں کیا بات ہے وہ جب سے

‘‘

آ�و�ز میں نقاہت تھی وہ نیم بے ہوشی کے عا لم میں پانی مانگ رہا تھا۔ ’’ پانی۔ ۔ ۔ پانی۔ ۔ ۔ ‘‘عماد کی

صبانے چمچے سے �سے پانی پلایا۔ عمادکے صحت یاب ہونے تک صبا �س کی خدمت میں لگی رہی �ور

عمادقطرہ قطرہ �س کی بانہوں میں پگھلتا رہا۔ �س کی محبت میں �س قدر ڈوب گیا کہ �س کی ہر سوچ صبا سے

شروع ہوجاتی �ور �سی پر ختم ہوجاتی وہ جلد �زجلد صبا کے بارے میں �پنی ماں کو تفصیلی خط لکھ دینا چاہتا

آ� گئی �ور �س کے ہاتھ سے سگریٹ لیکر پھینکتے تھا وہ �پنی سوچوں میں گم سگریٹ سے شغل کر رہا تھا کہ صبا

آ�ج پھر سوچوں کا دو رہ پڑ گیا ہے ؟‘‘’’ہاں سوچ رہا ہوں آ�ج پھر سگریٹ کا پیکٹ لے بیٹھے !کیا ہوئے کہا۔ ’’ تم

تم نے مجھے کیاسے کیا کر دیا ہے تمھارے سو� مجھے سب کچھ بھول گیا ہے دومہینے ہو گئے �می جان کو

Page 80: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ� رہی ہے بھائی کو دوبئی گئے ہوئے سات ماہ ہو گئے جا نے ماں کتنا �کیلاپن آ�ج �ن کی بہت یاد خط نہیں لکھا

محسوس کرتی ہوں گی۔ صباسچ بتاناتمھاری شخصیت میں یہ کیا جادو ہے کہ۔ ۔ ۔ ‘‘’’ بس بس ‘‘صبانے �س

آ�نکھوں میں دیکھنے لگا صبا کے ہو نٹوں پر �پنی �نگلیاں رکھ دیں عماد نے �س کے ہاتھ کو تھام لیا �ور �س کی

نشہ بن کر �س کی رگ رگ میں �تر رہی تھی ’’عماد کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ تم �تنے �د�س کیوں رہتے ہوں ؟

کیا مجھے نہیں بتاؤ گے ؟�پنے دکھ کسی کو سنانے سے دل ہلکا ہو جاتا ہے بتاؤنا کیاسوچ رہے ہو؟‘‘’’ کچھ

نہیں صباکوئی خاص بات نہیں ہے بتایا تو تھا کہ میری �یک ماں ہے �ور �یک بھائی �ور بہن کو خالہ نے �پنے

پاس رکھ لیا ہے تقدیر شایدہم سے روٹھی ہوئی ہے بھائی کہیں تو بہن کہیں ماں کہیں �ور میں کہیں سب �یک

دوسرے کی یا دمنی جلتے سلگتے رہتے ہیں۔ میں �کثرسوچتا ہوں کہ یہ بے جوڑ شادیاں ہوتی کیوں ہیں کہ �یک ون

میاں بیوی میں علحد گی ہو جاتی ہے �ولاد تباہی کا سامنا کرتی �ور زندگی �جیرن ہو جاتی ہے۔ میرے ہی و�لدین

کو دیکھ لورپانچ سال تک �یک دوسرے کے ساتھ رہے لیکن �یک دوسرے کو سمجھ نہ پائے و�لد نے دوسری

شادی کرلی �ور ماں نے خلع لے لی مہر کے عوض ہم بچوں کو مانگ لیا تب ہی سے محرومیاں ہمار� مقدر بن گئی

آ�سودگی �ور کامیابیاں منجمد�ندھیروں میں ڈھل گئیں ہم نے ہمت نہیں ہاری خود�عتمادی کا د�من ہیں مستقبل کی

نہ چھوڑ �جیسے تیسے پڑھ لکھ لیا �ور �ب ہم دونوں بھائی کچھ نہ کچھ کمانے کے قابل ہو گئے ہیں لیکن پھر

بھی۔ ۔ ۔ ‘‘۔ ’’عماد �یک بات کہوں بر� تونہ مانو گے ؟‘‘عمادخلاؤں میں گھور رہا تھا۔

سنو عماد !�نسان کی زندگی �تنی بے مقصد تونہیں کہ چند حادثات کو نا سوربنا لیا جائے تم �سی دو�خانے میں ’’

کیسے کیسے مریضوں کو دیکھتے ہو جو طرح طرح کی بیماریوں میں متبلاہیں کچھ توخد�کی کسی نہ کسی

نضلاعلاج میں مبتلا ہے کبھی �ن غریب بچوں کے بارے میں غورکیا جو کم عمری نعمت سے محروم ہیں توکوئی مر

میں محنت مشقت کرتے �ور لاتوں کی بارش میں روکھی سو کھی کھا کر فٹ پاتھ پر گز�رہ کرتے ہیں کبھی �ور وں

آ�رزؤں �ور �جڑے �رمانوں کو چھپائے کس طرح زندہ کے دلوں میں جھانکنے کی کوشش کرو دیکھوکہ لوگ زخمی

دلی کے ساتھ جی رہے ہیں تم �ن لوگوں سے ہز�ر سے درجہ بہتر ہو جو گھٹ گھٹ کر زندگی گز�رتے ہیں۔ ۔ ۔

Page 81: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

عماد !میری کہانی بالکل مختصر ہے ہم چھ بہنیں �ور دوبھائی ہیں و�لد نے دوبھائیوں کی شادی کر دی بہنیں �پنی

گھر گرہستی سے �چھی ہیں بھائیوں نے �پنی بیویوں کے ساتھ �لگ گھر بسالئے ہیں �ب �نھیں ہم سے کوئی و�سطہ

ا�س نے �پنی پسند کے لڑکے سے شادی کرلی ہے میں نے نہیں ہے چھوٹی بہن یہاں میرے ساتھ کام کرتی ہے۔

و�لدین �ور دوبہنوں کی ذمہ �دری سنبھاللی ہے ‘‘

�نھوں نے تمھاری شادی کیوں نہیں کی ؟‘‘ ’’

کوشش توکی تھی لیکن لڑکے و�لوں کے مطالبات پورے کرنے سے وہ قاصر تھے �یک لڑکے و�لوں نے توحدکر دی’’

تھی سنو گے کیا ہو �تھا ؟‘‘

‘‘ کیا ہو� تھا ؟’’

آ�ئیں تو وہ مجھے دیکھنے کیلئے کم گھر �ور گھر ’’ لڑکے کے و�لدین �ور تین بہنیں جب مجھے دیکھنے کے لئے

کے سازو سامان کو زیا دہ دیکھ رہی تھیں بلکہ وہ ہمارے گھرکا باقاعدہ معائنہ کر رہی تھیں پھر میں نے کہا کہ

آ�پ کے گھر میں ٹی وی ہے نہ فر ج کو لر ہے نہ و�شنگ مشین،گیس چولہے ہیں نہ گیزر یہاں تک کہ ڈر�ئنگ روم

میں پر�نے زمانے کے صوفے پڑے ہیں جن کے نیچے کارپٹ تک نہیں ہے ہمارے بھائی تو �یسی جگہ �یک گھنٹہ

آ�پ لوگ کیسے جی رہے ہیں۔ سچ کہتی ہوں عماد�س دن میرے دل پر �تنے بھی نہیں ٹھہر سکتے پتہ نہیں

گھونسے پڑے ہیں کہ میں گھنٹوں روتی رہی حیرت ہے کہ �نسان �یک دوسرے کہ حق میں �س قدر سفاک کیوں ہو

آ�ئی مجھے �پنے پاؤں پر کھڑ �ہوئے بغیر چارہ نہ تھابس میں گیا ہے۔ �ور پھر میرے �ندر روشنی کی �یک لہر�بھر

آ�و�ز آ�ج میں دولت سے �پنی بہنوں کے لئے �چھے تعلیم یا فتہ لڑکوں کو خرید سکتی ہوں ‘‘صباکی آ�ئی یہاں چلی

آ�نکھیں سرخ ہو گئیں۔ آ� گئی �ور بھر

کیا صرف بہنوں کا خیال کرو گی ؟‘‘عماد نے صباکا ہاتھ �پنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ ’’

یہ نہ بھولنا کہ کوئی بندہ بے د�م تمھارے ہاتھ بک چکا ہے سمجھ گئیں نا؟‘‘’’

Page 82: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�نکھوں کو’’ آ�ئے ہویوں محسوس ہوتا ہے جیسے میر� �پناکوئی میرے قریب ہے۔ ‘‘ صبانے عماد تم جب سے یہاں

آ�و�زمیں سرگوشی کی صبا۔ �س سو�ل صاف کرتے ہوئے کہا ’’صباکیاتم میری بنو گی ؟‘‘عمادنے نشہ میں ڈوبی ہوئی

آ�نکھیں ڈ�لے سحر زدہ سے بیٹھے رہے۔ آ�نکھوں میں کی مٹھاس میں کھوگئی دو نوں �یک دوسرے کی

آ�تی محبت �یک فنا کر دینے و�لا جذبہ ہے وہ پود� ہے جو’’ عماد۔ ۔ ۔ کہتے ہیں کہ محبت کسی کو ر�س نہیں

آ�نسوؤں کے پانی سے پرو�ن چڑھتا ہے محبت کے مقدرمیں بے سکونی ہوتی ہے تڑ پناسسکنا ہوتا ہے ! صرف

عمادوقت �ور حا لات کو بدلتے دیر نہیں لگتی‘‘۔

�یسانہ کہو صبا!�یسانہ کہو تمھیں ڈرلگتا ہے تو�س لفظ محبت کو ہمارے درمیان سے ہٹادویوں سمجھوکہ ہم �یک’’

آ�نے و�لی ہر رکاوٹ کو ہٹا دوسرے کے دوست �ور ہمدرد ہیں تم حوصلہ رکھو صبامیر� ساتھ دو گی تو ہمارے درمیان

دوں گا ‘‘۔

آ�گ برس رہی تھی عمادبے حد �د�س �ور پر یشان تھا ماں نے خط میں لکھا تھاکہ چھ ماہ کی آ�سمان سے �س دن

تگ ودوکے بعد �نھوں نے �س کیلئے �یک لڑکی پسند کرلی ہے �ور بہت جلد بات پکی کر نا چاہتی ہیں عمادبڑی

آ�خر �س نے ماں کو جو �ب دے دیا کہ وہ شادی کر یگاتو صرف کشمکش میں تھا ر�ت بھر کرو ٹیں بدلتا رہا

صباسے ہی کرے گا ورنہ کسی سے نہیں کرے گا �س نے �ور صبا نے �یک ساتھ جینے �ور مرنے کی قسم کھائی

ہے �ور �یک دوسرے کے بغیرجینے کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ ماں نے فور� جو �ب میں لکھاکہ محبت �یک

جھاگ ہے جو وقت کے ساتھ خود بخود بیٹھ جاتا ہے یہ �یسانشہ ہے جو عقل کو ماؤف کر دیتا ہے

�چھایابر�تمیزکرنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے �ور یہ کہ وہ کسی بھی ملازمت پیشہ لڑکی سے شادی کرے گاتو وہ

آ�نکھوں سے �پنا دودھ نہیں بخشے گی۔ عمادکے خوب صورت خو�ب کر چیوں میں تبدیل ہو نے لگے �س کی

لہورسنے لگازندگی نے سنگین موڑ پر لاکھڑ �کیا تھا �س کا دماغ ماؤف ہو گیا �س نے ماں کا خط صباکو بتایا

جنھیں پڑھنے کے بعد صبا پتھر کی طرح ساکت رہ گئی �س نے صبرو ضبط کا د�من تھام لیا �ور سوچنے لگی

آ�دمی کو �پنے سینے پر صبر کی سل رکھنی پڑتی ہے مصلحت کے دھاگوں جانے کیوں کبھی کبھی �یسا ہوتا ہے کہ

Page 83: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

سے لب سی کر خامو شی کی چادر �وڑھ لینی پڑتی ہے �ور یہ �ذیت ناک خامو شی عجیب سی لذت میں زندگی

آ�پ کو سنبھالا �ور عماد سے گو گز�ردینے کو جی چا ہتا ہے۔ �ب �سے شیشے کی ڈگر پر چلنا تھا �س نے �پنے

یا ہوئی۔

عماد تمھاری ماں نہیں چا ہتیں کہ مجھ جیسی لڑکی سے شادی کرو میں بھی نہیں چاہتی کہ ہم �ن کی خوشیوں

کی لاش پر �پنی محبت کا تاج محل تعمیر کریں۔ تمھیں وہیں شادی کر ناچائیے جہاں تمھاری ماں چاہتی ہیں۔

صبا تم �یسے وقت میر�ساتھ چھوڑ رہی ہو جبکہ مجھے تمھاری ضرورت ہے صبا میں تمھیں پا کر کھونانہیں ’’

چاہتا ‘‘۔

عماد �پنے جذبات پر قابورکھنا ہو گاتمھاری و�لدہ کتنی مشکلیں �ٹھا کر کتنے پیار �ور �رمانوں سے تم لوگوں کی’’

پرورش کی ہے !کتنے دنوں کا چین �ور کتنی ر�توں کی نیندیں حر�م کی ہیں ! کیا �ولاد کا یہی کام ہے کہ �ن کی

محبت �ور شفقت کا یہ صلہ دے ؟و�لدین بہت عظیم ہو تے ہیں عماد! وہ �پنی نالائق �ولاد کو بھی سینے میں چھپا

آ�و�ز میں لرزش تھی۔ لیتے ہیں �گر و�قعی مجھ سے محبت ہے تو تم میر� کہا مان لو گے ‘‘ صبا کی

ٹھیک ہے صبا �گر تم یہی چاہتی ہو تو �یسا ہی کروں گا لیکن تمھیں مجھ سے �یک وعدہ کر نا ہو گا ‘‘۔ ’’

‘‘ مجھے تمھاری ہر شرط منظور ہے بتاؤ کیا کر نا ہو گا ؟’’

تمھیں شادی کر کے �پنا گھر بسانا ہو گا ‘‘ عماد کا لہجہ بھیگ رہا تھا صباکے چہرے پر سایہ ساپھیل گیا’’

آ�پ کو بھری دوپہر تاریک ہو گئی عجیب سادرد�س کے رگو پے میں �تر رہا تھا �ور پلکیں نم ہو رہی تھیں وہ �پنے

آ�جانے پر !‘‘۔ نط وقت سنبھال رہی تھی۔ وعدہ بشر

‘‘ کیاتم دل سے کہہ رہی ہو صبا؟ کیا تم �پنا وعدہ نبھاؤگی ؟’’

Page 84: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ہاں عماد !وقت بڑے بڑے زخموں کو مندمل کر دیتا ہے وقت �ور حالات سے سمجھوتہ کر نا ہی پڑتا ہے تم’’

خوش رہنا عماد میں بھی خوش رہنے کی کوشش کروں گی۔ تم میرے لئے دعاکیا کرنامیں تمہارے لئے دعاگو

رہوں گی ‘‘۔

کل عماد کی رو�نگی تھی۔ دونوں �یک دو سرے کی قربت میں وقت گز�ر نا چاہتے تھے۔ دن ر�ت کی بانہوں

میں سمٹ گیا وہ ہز�ر ر�توں کا حسن �یک ر�ت میں سمو دینا چاہتے تھے کہ یہ ر�ت �ن کے پیار کی گو�ہ ہے دو

نوں کے دل سے �یک ہی دعا نکل رہی تھی کہ’’ �ے خد� تیری قدرت کے صدقے �س ر�ت کی سحر نہ کر نا کہ

ر�ت کے گزرتے ہی میر�حبیب مجھ سے جد� ہو جائے گا‘‘۔ لیکن سحر تو ہو ناتھی ، ہو گئی۔

آ�مد کا �حساس دلا یا دونوں نے فجر کی نماز�د�کی �ور چند گھنٹوں بعد عماد رو�نہ موذن کی �ذ�ں نے سحر کی

ہو گیا �ور صبا کے سکون کا سائبان �پنے ساتھ لے گیا۔

قیامت خیز حالات میں بھٹکتی صبا!�پنے یخ بستہ جذبات سے بر سرپیکار تھی۔ تہی د�منی کے غم سے نڈھال

تھی۔ عمادکے خط �سے مسلسل ملتے رہے جس میں شدت کے ساتھ �صر�ر ہو تاکہ وہ شادی کر کے �پنا گھر

آ�پ کو بھلا کر خدمت آ�ئی �ور �یک مقامی دو�خانہ میں نرس کا کام سنبھال لیا �پنے بسا لے۔ وہ �پنے وطن و�پس

آ�ئی تو �سے معلوم ہو �کہ شہر میں کسی بی بی صبا کا خلق میں لگ گئی سسڑ نسیم جب �پنے وطن �پنے شہر

چرچا ہے جس نے بھری جو�نی میں جوگ لے لیا ہے۔ دن بھر دو�خانہ میں نرس کے فر�ئض �نجام دیتی ہے �ور ر�ت

عبادت �لہی میں گز�رتی ہے۔

نسیم نے پہلے عماد سے ملا قات کی پھر وہ بی بی صبا کے دید�ر کے لئے گئی �سے دیکھا تو دیکھتی رہ گئی۔

آ�نگن یا دوں سسڑ صبا ! بی بی صبا !! صبانے نسیم کو دیکھا �ور بے �ختیار �س سے بغل گیر ہو گئی۔ دل کا

کی پھو�رسے بھیگنے لگا نسیم نے پوچھا ’’صبا یہ کیا حالت بنالی ہے کیوں �پنی جو �نی برباد کر رہی ہو ؟‘‘

Page 85: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تم کیا جانو نسیم �یثار �ور قربانی دل کو کتنا سکون دیتے ہیں یہ �یسا نشہ پلاتی ہے کہ روح تک سر شار ہو’’

جاتی ہے ‘‘۔

کیا تم بھول گئیں کہ تم نے عماد سے کوئی وعدہ کیا تھا �ور �سی وعدہ کی بناء پر �س نے �پنی شادی کی ٬٬

تھی ؟ یہ لو عماد نے تمھارے نام یہ خط بھیجا ہے لو پڑھ لو۔ ۔ ۔ ‘‘صبانے بعجلت لفافہ چاک کیا ، لکھا تھا۔

!ڈیر صبا

آ�ئے کئی آ�د�بو خلوص۔ عرصۂ در�زسے تمھار� کوئی خط نہیں ملا۔ سسڑ نسیم سے معلوم ہو �کہ تمھیں وطن و�پس آآ

مہینے ہو گئے ہیں۔ میں نے �پنے ہر خط میں لکھا تھا تم جلد شادی کر کے مجھ سے کیا ہو �وعدہ پور� کر دو

لیکن تم نے �س سلسلے میں کوئی جو�ب نہیں دیا۔ مجھے تم سے �مید نہ تھی کہ تم وعدہ خلافی کرو گی۔ تم

نے مجھے و�لدہ کی محبت کا و�سطہ دیا تھا مجھے سمجھا منا کر شادی کرنے پر مجبور کیا تھا۔

آ�تاوہ تمھارے لئے پر یشان ہو نگے کیا تم �ن کی آ�ج تمھیں �پنے و�لدین �ور بھائی بہنوں کا خیال کیوں نہیں

مرضی کا �حتر�م نہیں کرو گی ؟ کیا مجھ سے کئے ہوئے وعدہ کو نہیں نبھاؤ گی ؟ صبا تم �یک سمجھد�ر �ور

آ�دمی کو حالات سے حوصلہ مند لڑکی ہو ر�کھ میں چنگاری تلاش نہ کرو تم ہی نے مجھ سے کہا تھا ناکہ

سمجھوتہ کر ناچا ہئے تمھارے دکھ �ور تنہائی نے میر� سکھ چین چھین لیا ہے تم حالات سے سمجھو تہ کر کے

کیا میرے دل کا بو جھ نہیں ہٹا ؤ گی ؟

�یک بات سنو ! سسڑ نسیم جو تمھاری �چھی دو ست ہیں تمھیں �پنے خالہ ز�د کے لئے پسند کر لیا ہے لڑکا

فارماسٹ ہے �ور بیرون ملک ملازم ہے تمھیں میری خاطر �س رشتے کو قبول کر نا ہو گا۔ تمھیں حالات سے

سمجھو تہ کر نا ہو گا مجھے �مید ہے کہ تم جلد �ز جلد میرے دل کو سکون دو گی �ور یہ تمھاری محبت کا

ثبوت ہو گا۔

خد� حافظ

Page 86: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تمھار� دعاگو

عماد

دوہفتوں بعد عماد کے ہاتھ میں صبا کی شادی کا رقعہ تھا �ور ہو نٹوں پر �یک �د�س سی مسکر�ہٹ۔ ۔ ۔ �ور

آ�نسو۔ ۔ ۔ شبنم کی مانند برس رہے تھے۔ آ�نکھوں سے پگھلتے جلتی ہوئی پیاسی

*****

Page 87: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

رات کی فیصلے

آ�ب ناخد� بے خود فضا خاموش ساکت موج

�ور ہم ساحل سے تھوڑی دور پر ڈوبا کئے

تصر یہ ہے ہماری د�ستان زندگیخم

�یک سکون دل کی خاطر عمر بھر تڑ پا کئے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�تے ہیں جن کے سرور و لذت کو وہ �پنے کہتے ہیں کہ ہر �نسان کی زندگی میں کچھ پر کیف سے لمحات ضرور

وجودکے �ندر جذب کر لینا چاہتا ہے۔ تم میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے مجھ سے مخاطب تھے یہ سب کچھ

مجھے �چھا معلوم ہو رہا تھا دل چاہتا تھا کہ وقت کی رفتار تھم جائے میں تمہیں دیکھتی رہوں تمہیں سنتی رہوں

�چانک ہی تمہاری پر سوز نگا ہوں کی تپش سے میرے �ختیاری جبر کا بت پگھلنے لگا خردنے کسی کو نے سے

آ�تجھے یہ جنوں زیب نہیں دیتا �سی وقت تم نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آ�و�زدی ہوش میں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سفینہ کی نظر جسیے ہی رفیق پر پڑی وہ درو�زے کی �وٹ میں ہو گئی پھر جھک کر دیکھا۔ ہاں وہی ہیں لیکن

آ�نکھوں میں وہی سوز ہو نٹوں پر وہی �د�س سی مسکر�ہٹ کتنے بدل گئے ہیں کنپٹیوں پر سفید بال چمک رہے ہیں

آ�ن بان۔ �ور چال میں وہی

Page 88: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�ج سفینہ نے �پنی رفیق کو وہ پچھلے دس برسوں میں کوشش کے باوجود لمحہ بھر کے لئے بھی نہ بھلا سکی تھی

بیٹی �سماء کی سالگرہ �علی پیمانے پر منا نے کا �ہتمام کیا تھا کیونکہ �سی سال �س نے میٹر ک درجہ �ول میں

پاس کیا تھا۔ سفینہ کے باربار منع کرنے کے باوجود تقریب کا سار�خرچ �ور �نتظام �س کے �سکول کے ڈ�ئر کٹر

آ�ج �س تقریب میں رفیق کو دیکھنے حسن جاو ید نے �پنے ذمہ لے رکھا تھا وہ �ن کے �سکول میں پر نسپال تھی۔

کے بعد �س کی حالت عجیب سی ہو رہی تھی۔ وہی رفیق جسے پہلی بار دیکھتے ہی سفینہ کی خرد کے کو �ڑ

آ�پ بند ہو گئے �ور وہ دیو�نگی کے ساتھ گیٹ میں د�خل ہوئے وہ صدردرو�زہ کے قریب پہنچ گئے تھے۔ سفینہ �پنے

آ�ئی �ور درو�زہ بند کر لیا۔ یادوں کے جو مہمانوں کا �ستقبال کر رہی تھی تیزی کے ساتھ �پنے بیڈ روم میں چلی

ہحوم نے �سے گھیرلیا۔

آ�ئی تو کچھ مردوخو�تین وہاں پہلے سے آ�فس میں �سٹینو ٹا ئپسٹ کے �نٹر ویو کے لئے جب میں تمہارے ڈیٹکٹیو

آ�فیسر آ�ئی تو دیکھا کہ �یک میز کے دونوں سروں پر دو آ�خری تھا نام پکا رنے پر جب میں �ندر موجود تھے میر� نمبر

ز�ور درمیان میں تم بیٹھے ہوئے تھے میں چند لمحوں کے لئے تمہاری پر کشش شخصیت میں کھو گئی۔ سحر

زدہ سی ہو گئی جسیے صدیوں سے مجھے تمہاری ہی تلاش تھی کتنی معصو میت تھی تمہارے چہرے پر تم

آ�نکھوں میں مجھے �یسے دیکھ رہے تھے جسیے کوئی کمسن بچہ �پنے من پسند کھلو نے کو دیکھتا ہو۔ تمہاری

�یک سوز �ور ہونٹوں پر سوگو�رسی مسکر�ہٹ تھی۔ میں تمہارے سو�لوں کے جو�ب کھوئے کھوئے �ند�ز میں دیتی

آ�پ نے کہاں تک تعلیم پائی ہے ؟ ’’ جی میں نے بی۔ �ے کیا ہے ‘‘’’ پہلے بھی کہیں رہی تم نے پو چھا ’’

آ�پ کام کیا ہے ؟ ’’ جی ہاں میں ٹیچرہوں ‘‘’’ موجو دہ ملازمت کیوں چھوڑ نا چاہتی ہیں ؟‘‘ میں خاموش رہی ’’

آ�پ کو جا سوسی کے کام سے دلچسپی کیا تنخو�ہ چاہتی ہیں ؟ ‘‘’’ یہ تو وقت �ور کام پر منحصر ہے ؟ ‘‘’’کیا

ہے ؟‘‘

آ�پ کے شوہر کیا کرتے ہیں ؟ ‘‘’’وہ گزرچکے ہیں وہ زمیند�رتھے ‘‘ ’’کتنے بچے ہیں ؟‘‘’’ جی ہاں بہت ہے ‘‘ ’’

’’ �یک لڑکی ہے ‘‘ ’’و�لدین ہیں ؟‘‘’’جی نہیں۔ میں �پنے سوتیلے بھائی �ور بھابی کے ساتھ رہتی ہوں ‘‘

Page 89: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�پ باہر بیٹھیں ‘‘ �یک گھنٹہ �نتظار کے بعد تم نے مجھے �پو �ئنٹ منٹ لیٹر دید یا وہ �یک گھنٹہ میری ’’ٹھیک ہے

آ�نے کی تیاری شروع کر دیتی �ور سب سے آ�فس ساری زندگی پر محیط ہو گیا۔ ر�ت کے پچھلے پہرہی سے میں

پہلے پہنچ جاتی۔ تم وقت کے بڑے پابند تھے صفائی تمہیں بہت پسند تھی۔ کبھی کبھی �یسا بھی ہوتا کہ میں

آ�فس کا حلیہ بدل کر رکھ دیا لیکن تم نے یہ آ�ہستہ میں نے آ�ہستہ آ�فس کی صفائی �پنے ہاتھ سے کر دیتی سارے

سب کچھ پسند کیا تھا یا نہیں �س بات کا مجھے �ند�زہ نہ ہو سکا کیونکہ کام سے ہٹ کرتم کسی سے کوئی

آ� جاتے �ور شام ہونے پرہی آ�فس بات نہ کرتے تھے۔ کسی نے تمہیں مسکر�تے بھی نہیں دیکھا تھا صبح ٹا ئم پر

�پنے کمرے سے باہر نکلتے تمہاری شخصیت مجھے شرلاک ہو مزکی طرح پر �سر�رسی لگتی میں تمہیں دیکھنے

آ�تا تھا کہ مجھے کی منظر رہتی صبح �ور شام کا �نتظار صرف تمہیں دیکھنے کیلئے کرتی رہتی سمجھ میں نہیں

کیا ہو رہا ہے یہ کو نساجذ بہ ہے جس نے مجھے ہر چیز سے بے نیاز کر دیا ہے دید کی طلب کے �س جذبے کا

نام کیا ہے �ور �س کا �نجام کیا ہے ؟ میری بے تاب نظروں کا ر�ز �گر طشت �زبام ہوجائے تو کیا ہو گا میں نے تو

�پنے جذبات و�حساسات کے خز�نے کو �یک کال کو ٹھڑی میں بند کر دیا تھا۔ تم �یک �فسانوی شہز �دے کی

آ� گئے �ور �س کال کو ٹھڑی پر کیوں دستک دے رہے ہو جسے مقفل کر کے مانند میری ویر�ن دنیا میں کہاں سے

میں نے �س کی کنجی بھی کسی سمندر میں پھینک دی ہے۔ میری زندگی کا چاند تو گہنا گیا میں نے �جالوں

کی تمنا ہی چھوڑ دی تھی پھر یہ رنگ ونور کی کہکشاں سی میری ر� ہوں میں کیوں بکھر رہی ہے میں تو�یک

خالی سیپ کی مانند ہوں �یک تیس سالہ بیوہ جس کے سامنے �س کی �یک لڑکی کا مستقبل بھی ہے۔ میری

ذر�سی لغرش بد نامیو رسو�ئی کے گہری کھائی میں ڈھکیل سکتی ہے۔ بار ہا سوچا کہ �ستعفی دیدوں �س �ر�دہ کو

آ�تی۔ عملی جامہ پہنا نے کی کوشش میں دودودن غیر حاضر ہوجاتی لیکن تیسرے دن بے تاب وبے حال دوڑی چلی

دن گزر رہے تھے چند ماہ بعد تم نے مجھے جاسوسی کے کیس دینا شروع کئے مجھے �پنے کمرے میں بٹھا

کرکیس سمجھا تے۔ جب تک تمہارے سامنے بیٹھی رہتی کان تمہارے �لفاظ پر �ور نظر تمہارے چہرے پر مرکو

زرہتی میں کیس کو خوش �سلوبی کے ساتھ سلجھاتی رہی �ور خود �لجھتی چلی گئی تم میرے کام سے مطمئن

آ�ج بھی یادہے جسیے کل ہی معلوم ہوتے تھے �یک �نجانا سا �طمینان مجھے بھی محسوس ہوتا تھا وہ دن مجھے

Page 90: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�سمان پر گھٹائیں چھا رہی تھیں ماحول پر �یک سکوت ساطاری تھا �یسا سکوت جو کبھی کبھی کسی کی بات ہو

طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ شام کے چار بج چکے تھے �یک �ہم کیس کے سلسلہ میں تم نے مجھے

آ�فس ٹائم کے بعد �پنے ساتھ چلنے کہا۔ تمہاری قربت کے خیال ہی سے میرے دل کی دھڑ کنیں بے بلایا �ور

آ�گ کی حر�رت کو �گر تم نے محسوس کر لیاتو کیا ہو گا۔ قابوسی ہو رہی تھیں۔ میرے �ندر سلگتی

آ�گاہ کرنا نہیں چاہتی تھی۔ مجھے تم سے محبت تھی بس ، روحانی �پنے �حساسات وخیالات سے میں تمہیں

محبت ، جسے میں �یک طرفہ ہی رکھنا چاہتی تھی۔ �کیلی فنا ہوجانا چاہتی تھی کیونکہ �س فنا میں مجھے �پنی

آ�تی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں کا نپتی لرزتی تمہاری گاڑی میں بیٹھ گئی ر�ستہ بھر ہم نے کوئی بات بقانظر

نہیں کی۔ تم مجھے �پنے �س گھر میں لے گئے جو زیر تعمیر تھا تمہار� چوکید�ر حیر�نی سے دیکھ رہا تھا تم نے

بتایا کہ مزدوروں کی نگر�نی کے بہانے وہاں ٹھیر کرسامنے و�لے گھر کی مالکہ کی حرکاتو سکنات پر نظر رکھوں

جو �یک ہیلت کیئر سنٹر چلا رہی تھی جہاں مردو خو�تین کا تانتا بند ھار ہتا۔ �س کا شوہر ملک سے باہر ملازمت

کرتا تھا۔ تم نے چو کید�ر کوناشتہ �ور چائے لانے کہا۔ پہلی بارتم نے کام سے ہٹ کرکوئی بات کی تھی۔

میر�دل �چھلنے لگا۔

آ�تے ہیں جنکے سرورولذت کو وہ �پنے کہتے ہیں کہ ہر �نسان کی زندگی میں کچھ پر کیف سے لمحات ضرور

وجود کے �ندر جذب کر لینا چاہتا ہے تم میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے مجھ سے مخاطب تھے یہ سب کچھ

مجھے �چھا معلوم ہو رہا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ وقت کی رفتار تھم جائے میں تمہیں دیکھتی رہوں تمہیں سنتی

رہوں۔ �چانک ہی تمہاری پر سوز نگا ہوں کی تپش سے میرے �ختیاری جبر کا بت پگھلنے لگا خردنے کسی کونے

آ�و�زدی ہوش میں �!! تجھے یہ جنون زیب نہیں دیتا۔ �سی وقت تم نے میرے ہاتھ کو �پنے مضبوط �ور تپتے سے

ہوئے ہاتھ کی گر فت میں لے لیا جسکی تپش میرے وجود کے �ندر �تر نے لگی۔ تم نے میری کال کو ٹھڑی کے

قفل کو کھول دیا۔ میں نے تمہیں معصوم شہز�دہ سمجھا تھا �پنی سجدہ گاہ میں تمہیں بٹھا لیا تھا میں �پنے

آ�گہی کو پا لینا چاہتی تھی۔ تم نے یہ کیا کر دیا ؟ محبت کی موم بتی کو پگھلا کر جنون کے سہارے مقام

Page 91: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

قطروں میں بہاد یا ! تم بھی عام مردوں کی طرح نکلے میرے بھرم کو پا مال کر دیا ! �ب کیا ہو گا ؟ میں کیا

کروں ! تم سے لمحہ بھر کی فرقت برد�شت نہیں کر سکتی �ور تم مجھے عمر بھر کی رفا قت دے نہیں سکتے۔

کیونکہ تم �یک شادی شدہ مرد ہو۔ �یک کنبہ کے سرپر ست ہو۔

تمہار� �پنا �یک سما جی مقام ہے �ور میں �یک بیوہ !۔۔۔ بیوہ کی شادی کو ہمارے سماج میں معیوب سمجھا جاتا

ہے۔ �س کے جذبات و�حساسات کو پندو نصیحت کی وزنی سلوں تلے دبادیا جاتا ہے پھر بھی �س پر �لز�م لگائے

جاتے ہیں کہ یہ بیوہ یا مطلقہ عورتیں ہمارے معا شرہ کے چہرہ پر �یک بد نما د�غ ہیں۔ جان بو جھ کر�س بات

سے چشم پو شی کی جاتی ہے کہ عمر کے ہر حصہ میں عورت کے لئے �یک مرد کا سہار �ضروری ہوتا ہے۔

آ�پ کو سنبھالنے میں کسی گھر کے لئے چھت کا ہونا لازمی ہے۔ دوسرے دن میں نے �پنا �ستعفی بھیج دیا �پنے

بہتو قت لگا۔۔۔ پھر مجھے �یک �سکول میں ملازمت مل گئی۔ �سی �سکول کے ڈ�ئر کٹر حسن جاو ید مجھے

مجبور کرتے رہے ہیں کہ وہ میری بیٹی �سماء کو باپ کا پیار دینا چاہتے ہیں �نہوں نے �سماء کی سالگرہ کے دن

آ�ئے۔ میرے دماغ میں آ�ج بر سوں بعد تم کہاں سے چلے آ�ج کی ر�ت فیصلہ کی ر�ت ہے �ور میر� فیصلہ مانگا ہے

آ�گے دھند سی چھا رہی ہے میں کیا کروں دل آ�نکھوں کے آ�ند ھیاں چل رہی ہیں سینے سے دھو�ں سا �ٹھ رہا ہے

وحشت بڑھتی جا رہی ہے میرے خد� مجھے ہمت دے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی

کوئی زور زور سے درو�زہ پیٹ رہا تھا۔ سفینہ نے لڑکھڑ �تے قد موں سے جا کر درو�زہ کھو لا �س کی بیٹی �سماء

آ�پ کا آ�پ ٹھیک تو ہیں نا ؟ یہاں کیا کر رہی ہیں ؟ مہمان آ�ئی تھی۔ ’’ ممی کیا ہو� ؟ �سے تلاش کرتی ہوئی

آ�پ سے ملنا چاہتے ہیں �نتظار کر رہے ہیں جاوید �نکل بار بار پو چھ رہے ہیں �ور ہاں رعنا کے ڈیڈی رفیق �نکل بھی

آ�پکی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ؟‘‘ چلئے ممی

رہی ہوں۔ ‘‘آ� ہاں بیٹا ٹھیک ہوں سرمیں درد ہور ہا تھا تم چلو میں �بھی ’’

Page 92: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ� گئے آ�نکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ �سی وقت حسن جاوید بھی سفینہ نے منہ دھو کر ہلکا سامیک �پ کیا �س کی

�ور �س کا ہاتھ پکڑ کر کھینجتے ہوئے لے گئے تمام مہمان میز کے �طر�ف جمع تھے تالیوں کے شورمیں �سماء نے

کیک کا ٹا مبارک کی صد�ئیں بلند ہوئیں سفینہ کی نظر رفیق پر پڑی جو و�لہا نہ �ند�ز میں �سی کی طرف دیکھ

رہے تھے۔ سفینہ کی نظر �ن پر جم سی گئی �ور چند لمحوں بعد وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔۔ رفیق بے ساختہ �س

آ� گئے کچھ دیر بعد ڈ�کٹر کمال۔ نے بتا یا کہ بے ہوشی شد ید صدمہ �ور کی طرف بڑھے حسن جاوید بھی قریب

آ�یا وہ آ�دھ گھنٹہ بعد سفینہ کو ہوش آ�جائے گا۔ �نہوں نے �نجکشن لگا دیا تھا۔ سوچ کا نتیجہ ہے جلد ہی ہوش

آ�نکھوں سے �دھر �دھر دیکھ رہی تھی سب لوگ خاموش تھے �سماء رورہی تھی رفیق بھی �س کے قریب پھٹی پھٹی

آ�ہستگی کہا آ�پ گھر نہیں گئے ؟‘‘ رفیق نے بہ بیٹھے ہوئے تھے وہ �نہیں دیکھتی رہی پھر پو چھا ’’ کیا بجا ہے ؟

’’ سفینہ مجھے خوشی ہے کہ برسوں بعد پھر تم سے ملاقات ہوئی میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں تم بر�تو نہیں

آ�ئی تھیں �سی دن تمہیں �پنا نے کی تمنا نے میرے دل میں گھر کر لیا آ�فس مانو گی سفینہ تم جب پہلی بار میرے

تھا۔ تمہیں �پنی سمجھنے لگا تھا تمہارے �ستعفی سے �یک دن پہلے میں بہک گیا تھا دوسرے دن تم سے

آ�ئیں دوچار دن �نتظار کرنے کے بعد تمہارے گھر معافی مانگنا �ور تمہار� ہاتھ تھام لینا چاہتا تھا �س دن تم نہیں

آ�ج ‘‘۔ ۔ ۔ رفیق خاموش ہو گئے۔ حسن جاویددودھ کا گلاس گیا تو معلوم ہو�تم کہیں �ور منتقل ہو چکی ہو�ور

آ�گے بڑھے �ور �سی وقت سفینہ پھوٹ پھوٹ آ� گئے تھے �ور سفینہ کو سہار �دے کر �ٹھا نے لگے رفیق بھی لئے

کر رونے لگی۔

٭٭٭٭٭

Page 93: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

عمل مکافات

دل کا وہ حال ہو � ہے غم دور�ں کے تلے

جیسے �ک لاش چٹا نوں میں دبادی جائے

تم بھی مجرم ہو فقط میں ہی گنہ گا رنہیں

میں یہ کہتا ہوں کہ دونوں کوسز�دی جائے

کیا عزت د�رمرد �یسے ہی ہوتے ہیں جو �پنی نو بیاہتا جو�ن بیوی کوچھوڑ کر ہز�روں میل دور چلے جاتے ہیں �ور بر

سوں صورت نہیں دکھاتے کیا �یک عزت د�ر مرد کے دل میں �ولا دکی بھی محبت نہیں ہوتی؟کوئی عورت کہاں

تک حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر سکتی ہے ؟ �یک �فلاس زدہ بیمارماحول میں کوئی کب تک زندگی گز�رسکتی

!ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�رزوپوری ہو گئی تھی برسات کی ٹھنڈی ہو�ئیں �ور �یک دن مجھے نرم گرم گدے پر لیٹنے کا موقع مل گیا دل کی

رہا تھا میں فریدہ بی بی کے ساتھ چمٹ کر لیٹ گئی تھی �ن کےآ� سردی جانے کہاں چلی گئی تھی بہت مز�

آ� رہی تھی �ن کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے میں کہیں کھو گئی صاف ستھرے کپڑوں میں سے بھینی بھینی خوشبو

تھی کاش ہمار� بھی �یسا گھر ہوتا �یسا ہی نرم گرم بستر ہوتا جا نے کیوں کچھ لوگ بہت پیسے و�لے ہو تے ہیں �ور

کچھ ہماری طرح غریب کیوں ہو تے ہیں میر� کچا ذہن �ن باتوں کو سمجھنے سے قاصرتھا۔

Page 94: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

میری ماں محلے کے تین چار گھروں میں کام کر کے �پنا �ور �پنے خاند�ن کا پیٹ پال رہی تھی خاند�ن ہم تین

نفوس پر مشتمل تھا ماں مجھے پیار سے نگینہ کہتی تھی �ور �یک بڑ �بھائی تھا شبیر ، دن بھر کام کرتے کرتے

میرے ہاتھ پاؤں درد کرتے تھے ماں بھی بہت محنت کرتی تھی چار گھروں میں جھاڑو برتن پو نچہ کرتی �ور

کپڑے دھوتی تھی �س کے تمام کا موں کو نپٹانے میں ، میں �س کی پوری مدد کرتی تھی �ن گھروں سے ہمیں جو

کھانا ملتا وہ ہم سب کے دو وقت کے لئے کافی ہوجاتا تھا۔ لیکن ہمار� گھر بس نام کا گھر تھا۔ مٹی کی بو

سیدہ دیو �روں کا �یک کمرہ جس پر ٹوٹے ہوئے �سبسطاس کی چھت تھی بر سات کا پانی کمرے میں بھر جاتا تو

میں �ور میر� بھائی برتنوں میں پانی بھربھر کرباہر پھینکتے رہتے �ور ر�ت یو نہی گزر جاتی �ن دنوں ماں بیمار ہوجاتی

تب مجھے �کیلے ہی کام پر جانا پڑتا ورنہ ہمیں بھو کے رہنا پڑتا تنخو�ہ لگ کٹ جاتی۔ مجھے بارش کا موسم

بہت �چھا لگتا تھا دن بھر پانی میں �چھلتی کودتی تمام کام کرتی رہتی تھی۔ فریدہ بی بی کے لوگ بہت �چھے

تھے مجھے بہت پیار کرتے میرے کام کو پسند کرتے تھے میں �نھیں کے دیئے ہوئے کپڑے �ور سینڈل پہنتی تھی

میری بستی کی لڑکیاں �ن چیزوں کو دیکھ کرجلتی تھیں دو�یک سہیلیاں مجھے دیکھ خوش ہوتیں �ور کہتیں ’’

نگینہ تو�ن کپڑوں میں شہز�دی لگتی ہے تو �تنی خوب صورت کیوں ہے ؟ بستی کا ہر لڑکا تجھے �پنی دلہن بنانا

چاہتا ہے۔ ہم سے توکوئی بات بھی نہیں کرتا ’’چھوٹے بڑوں سے �پنی تعریف سن کرمیں پھولی نہ سماتی ماں �ور

دوسرے لوگ بھی میری تعریف کرتے نہ تھکتے تھے۔ �ور میں سوچاکرتی کہ میں فریدہ بی بی سے زیادہ خوب

کھلو نے صورت ہوں تو میرے پاس زیور، کپڑے �چھا گھر �ور کار نہیں ہے نرم گرم گدے و�لابستر �ور �چھے

کیوں نہیں ہیں �س دن مجھے نرم گرم گدے و�لی مسہری پر لیٹنے کا مو قع مل گیا میں صرف �یک گھر میں کام

آ� گئی تھی �ن کی �می نہیں تھیں �س لیے �ن کے ساتھ �ن کے بستر پرلیٹ گئی کر کے فریدہ بی بی کے گھر

آ� رہی ہے میں سیدھے �ن کے باتھ روم میں گھس گئی تھی تب ہی �نھوں نے کہا کہ میرے کپڑوں سے گندی بو

آ�ئینے میں �پنا سر�پا خو شبود�ر صابن مل مل کرخوب نہا یا �ن کے کپڑے مانگ کرپہنے پاؤ ڈر �ور لپ سٹک لگائی

آ�پ کودیکھتی رہی کچھ دیر بعد �پنے وہی میلے کچیلے دیکھا تودیکھتی ہی رہ گئی بہت دیر تک یوں ہی �پنے

کپڑے پہن لئے جلدی جلدی کام پور� کر کے گھر بھاگی ماں �ور بھائی میرے �نتظار میں بھوکے بیٹھے تھے۔

Page 95: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کھانا کھانے کے بعد میں نے ماں سے پوچھا۔ ’’ماں کچھ لوگوں کے پاس ڈھیرساری �چھی �چھی چیزیں ، بنگلہ

�ور کار کیوں ہوتے ہیں ہمارے پاس نہ گھرہے نہ گھر کا سا مان ہے نہ ہی ہم دو وقت پیٹ بھر کر روٹی کھا سکتے

ہیں �یسا کیوں ہے ماں ؟‘‘

بیٹا سب لوگ بہت بڑی پڑھائی کر کے بہت ساروپیہ کماتے ہیں �ور �سی پیسے سے سب کچھ خرید تے ہیں ‘‘۔’’

میں بھی پڑھوں گی ماں پڑھ لکھ کرپیسہ کماؤں گی مجھے بھی �سکول میں شریک کر�دو نا ماں ‘‘۔ ’’

‘‘ تجھے پڑھا نے میں پیسہ کہاں سے لاؤں گی �ور تو پڑھنے جائے گی تو کام کیسے ہو گا ؟’’

ماں تم دوگھروں میں کام کر لینا باقی دو گھروں کا میں �سکول سے �کر کر لوں گی میں ضرور پڑھوں گی ماں !’’

ورنہ کام بھی نہیں کروں گی۔ ۔ ہاں ‘‘

دوسرے دن فریدہ بی بی کی �می کے پیروں کو چھو کر، ہم نے �نھیں ر�ضی کر لیا مجھے �سکول میں شریک

کر�دیا تھا �سکول کی دنیا دیکھ کرمیں دنگ رہ گئی �یک ہی جیسے صاف ستھرے کپڑے ساکس �ور جوتے پہنی

نکھری نکھرسی لڑکیاں مجھے بہت �چھی لگیں میرے پاس تو �چھے کپڑے تھے نہ جوتے لیکن میرے پاس �چھا

بیگ �ور کتا بیں تھیں۔ میں نے دل لگا کرپڑھائی شروع کر دی۔ ہر سال �متیازی نمبروں سے پاس ہوتی رہی �کثر

لڑکیاں مجھ سے جلتی تھیں لیکن میری ٹیچرس میری ماں �ور مجھے پڑھا نے و�لے مجھ سے خوش تھے مڈل

آ�تے ہی میر� تعلیمی وظیفہ مقررہو گیا تھا۔ جو�نی کی دہلیز پر قدم رکھنے تک مجھے �پنے حسن وشباب کلاس میں

آ�نے شروع ہو گئے لیکن میں کسی کو خاطر پر غرورپید� ہو چکا تھا میٹرک پاس کرنے سے پہلے میرے لئے رشتے

میں نہ لاتی تھی میں نے ماں سے کہہ دیاکہ ’’تعلیم مکمل کرنے تک مجھے شادی نہیں کرنی ہے مجھے بہت

آ�سودہ زندگی حاصل کرنے کے لئے بہت کچھ کرنا ہے ہم کب تک محرومیوں کے ساتھ گز�ر� آ�گے جانا ہے �یک

کرتے رہیں گے دو وقت کی روٹی کے لئے تم کب تک برتن مانجھتی رہو گی ہم کب تک غربت �ور �فلاس کی

چکی میں پستے رہیں گے میں جتنی حسین ہوں �تنی ہی حسین �پنی زندگی بنا نا چاہتی ہوں ‘‘۔

Page 96: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ماں مجھے حیر�نی سے دیکھتی �ور چڑ کرکہتی ’’تو پڑھ لکھ کربہت باتیں بنانا سیکھ گئی ہے جھو نپڑی میں رہ

کرمحلوں کے خو�ب دیکھنے لگی ہے تجھے �چھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہمیں خو�ب دیکھنے کا کوئی حق

آ�گے نکلتی جا رہی ہے۔ ۔ ۔ �چھا نہیں ہو گا۔ ‘‘ نہیں ہے تو �پنی حدسے

کیوں ماں �یک دن تم ہی نے توکہا تھا ناکہ لوگ پڑھ لکھ کرپیسہ کماتے �ور شاہی زندگی گز�رتے ہیں پھر میں پڑھ’’

لکھ کر شاہی زندگی کے خو�ب کیوں نہیں دیکھ سکتی ؟میں تو خوب صورت بھی ہوں کیا مجھے خوب صورت

‘‘ زندگی نہیں مل سکتی ؟ کیاکوئی دولت مند لڑکا مجھ سے شادی نہیں کر سکتا ؟

ہم جھو نپڑی میں رہنے و�لوں کی لڑکی کو محلوں کا شہز�دہ کیوں بیاہ کر لے جائے گا ہمیں �پنے بر�بر و�لوں میں’’

آ�ٹو ہے ذ�تی مکان ہے آ�ٹو و�لے کے رشتے کو ٹھکر� کر تو پچھتائے گی �س کا ذ�تی رشتہ کرنا چا ہیئے !دیکھ شرفو

پھر وہ تجھے پسند بھی کرتا ہے ہر عید بقر عید پر ہم سب کے لئے �پنی سکت سے زیادہ کپڑے وغیرہ لا کر دیتا

‘‘ ہے �ور کیا چاہیے تجھے ؟

آ�ٹو و�لے کے ہاتھ میں میر� ہاتھ دے دو گی؟ میری تعلیم میر�’’ ماں !تم یہ کیا کہہ رہی ہو ؟ مجھے پڑھا لکھا کر�یک

آ�ٹو و�لے کیلئے ہے تم دیکھ لینا کوئی بنگلے �ور کارو�لا ہی مجھے بیاہ کر لے جائے گا �بھی مجھے حسن کیا �یک

آ�گے کچھ نہ کہنا ہاں ‘‘میں نے �پنا دوٹوک فیصلہ سنا دیا۔ شادی و�دی نہیں کرنی ہے بس �ب

میٹرک کے �متحان ہو گئے ہمیشہ کی طرح میں �چھے نمبروں سے پاس ہو گئی فریدہ

بی بی بھی پاس ہو گئیں �ن کا رشتہ طئے ہو چکا تھا لڑکے و�لوں نے �متحان کے فوری بعد رخصتی کر�نے کہہ دیا

تھا مجھے �ن لوگوں نے �یک ہفتہ پہلے سے �پنے گھر میں رکھ لیا قریبی رشتے د�ر جمع ہو گئے باہر سے بھی کچھ

آ� گئے تھے بڑ �ہنگا مہ تھا۔ تمام عورتیں �ور لڑکیاں �یک سے بڑھ کر�یک زیور�ت ، �علی قسم کے سوٹ �ور لوگ

آ�پا کہہ کرپکارتی مجھ سے چھوٹوں کو�ن آ�نٹی یا ساڑ یوں میں ملبوس ہنستی بو لتی بہت خوش تھیں �ن سب کومیں

کے نام سے بلاتی تھی صرف فریدہ کو میں فریدہ بی بی کہتی تھی �نھوں نے مجھے �پنے چار چھ پر�نے سوٹ

Page 97: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

دے دئے �ور دونئے سوٹ سلو�ئے تھے جو بہت بھاری ہیں۔ کاش ہمارے گھر پر بھی �یسی خوشیاں نچھا ورہوتیں

دھوم دھڑ �کا ہوتا میں �ن ہی خیالوں میں کام نپٹاتی �دھر �دھر بھاگ دوڑ کر رہی تھی۔ پان کی کشتی جلدی

جلدی لے جاتے ہوئے میں کسی سے ٹکر� گئی نظر �ٹھا کر دیکھا تو دیکھتی رہ گئی مرد�نہ وجاہت کا دلکش نمونہ

!یہ نظروں کا تصادم تھا یا دلوں کا ٹکر�ؤ !کون ہے یہ جو مجھے �پنی رگ جاں سے قریب محسوس ہو رہا ہے جیسے

آ� رہی تھی ہاں تم وہی تو میری روح �سے صد یوں سے جانتی پہچانتی ہو !میرے دل کی دھڑ کنوں سے صد�

ہوجسے میں �پنے خو�بوں میں دیکھتی رہی ہوں ، ہاں تم وہی شہز�دہ ہوجو مجھے شاہی زندگی دے سکتا ہے جس

آ�رزو کرتی رہی ہوں تم وہی ہو وہی تو ہو �ن کے ہونٹوں پر شریر مسکر�ہٹ کھیل رہی تھی میری کی میں برسوں سے

آ�پ کی تعریف ؟ ‘‘میری زبان جیسے گنگ ہو گئی تھی میں وہاں سے بھا آ�نکھیں ڈ�ل کرپو چھا ’’ آ�نکھوں میں

گی پلٹ کربھی نہیں دیکھا کہ میں پتھر کی نہ بن جاؤں !کچن میں �کر دم لیا۔ فریدہ بی بی نے مجھے کہیں

‘‘ سے دیکھ لیا �ور جلدی سے �کرپو چھا ’’کیا ہو� نگینہ �تنی گھبر�ئی ہو کیوں ہو ؟

‘‘ جی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ گورے لمبے سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’

آ�ئے ہیں وہاں کے مشہورو مقبول ڈ�کٹرہیں �نھوں نے تم سے کیا کہہ دیا ؟’’ ‘‘ ہاں ہاں وہ خرم بھائی ہیں �مریکہ سے

�ب میں کیا بتاتی کہ کچھ بھی نہ کہتے ہوئے �نھوں نے کیا کچھ کہہ دیا تھا �یک نشہ سا میری رگ رگ میں �تر

رہا تھا میں نے سنبھل کر کہا۔

جی کچھ نہیں۔ کچھ بھی تو نہیں کہا‘‘ جانے وہ کیوں مسکر�ئیں �ور چلی گئیں ‘‘۔ ’’

فریدہ بی بی کی شادی کے بعد ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلاشادی کے کام سے تھک کرماں گھرہی پر تھی

آ� رہی تھی �کثرگھر دیرسے پہنچتی ماں یہی سمجھے ہوئی تھی کہ شادی کا گھر ہے کام بہت ہو میں �کیلی کام پر

گا �س لئے دیر ہوجاتی ہے ہماری ہر شام باہر گزرنے لگی تھی نرم گدوں و�لی خوشبو میں نہائی ہوئی لمبی سی کار

میں بیٹھنے کے بعد میر� رو�ں رو�ں جھوم �ٹھتا کبھی پکچر کبھی پارک کبھی کسی بڑے سے ہوٹل میں بیٹھے رہتے۔

Page 98: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

�مریکہ و�پس جانے سے پہلے وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے �نھوں نے میری ماں کو ر�ضی کر لیا پھر بھی ماں

مجھے سمجھاتی رہی لیکن خرم کا جادو میرے سرچڑھ کربول رہا تھا ماں کی کسی بات پر میں نے دھیان نہیں

آ�ئے میرے لئے زیور کپڑے �ور نرم دیا۔ خرم نے پہلے �یک مکان کر�ئے پر لے لیا۔ �ور ضرورت کا سا مان بھی لے

گدوں و�لی مسہری بھی لائی گئی �نھوں نے �پنی ماں کو کیوں کر ر�ضی کیا میں نہیں جانتی بس ہمارے گھر میں

خاموشی کے ساتھ نکاح ہو گیا �ور میں �ن کے محل نما مکان میں پہنچا دی گئی۔ �س ر�ت �نہوں نے مجھے

آ�ئی لیکن �نھوں نے �پنی محبت کا و�سط دیا �ور بتا کوئی ٹھنڈی ٹھنڈی کڑ وی سی چیزپلا دی مجھے �بکائی سی

یا کہ شادی کی ر�ت سب دولہا دلہن یہی چیزپی کرمست وبے خود ہوجاتے ہیں۔ میں نے زبردستی پیلی �ور کچھ

دیر بعد خو�بوں کے ہنڈ ولے پر بیٹھی �ور ہی دنیا کی سیر کر رہی تھی پلک جھپکتے �یک مہینہ گزر گیا خرم چلے

گئے وعدہ کرگئے کہ مجھے بہت جلد �مریکہ بلو�لیں گے۔

دن مہینوں میں �ور مہینے بر سوں میں ڈھل گئے خرم نے مجھے �مر یکہ نہیں بلو� یا۔ میری بیٹی تین سال کی ہو

گئی �س کے بارے میں کبھی کبھی خط لکھ دیا کرتے تھے �مریکہ بلو�نے کے بارے میں کبھی میں نے خط لکھا

آ�یا۔ میں زندگی کی یکسانیت سے �کتا گئی تھی ماں مرچکی تھی �ور بھائی جانے تو�س کا کوئی جو�ب نہیں

ھنا میرے لئے دوہی کام تھے۔ بچی کو� اسن کہاں چلا گیا تھا۔ بیمار ساس کی خدمت کرنا �ور �ن کی جلی کٹی

سکول لے جانے �ور لانے کے لئے باہر نکلا کرتی تھی۔ گھر سے قریب ہی �یک خاتون کا بیوٹی پار لر تھا �کثر

آ�تے جاتے وہ مجھے دیکھ کر مسکر�یا کرتی تھیں۔ �یک دن بچی کے بال بنو�نے کے لئے میں وہاں گئی توپا رلر

کی مالکہ نشاط نے پو چھا۔ ’’کیا تم وہی ہو جسے تین چار سال پہلے �یک صاحب نے یہاں لایا تھا �س دن

آ�ئے ہوئے تھے ؟ ‘‘ تمہاری شادی تھی �ور میں نے سنگھارکیا تھا وہ صاحب �مریکہ سے

آ�پ نے’’ آ�ئے ہوئے ڈ�کٹر خرم میرے شوہرہیں جی ہاں تین چار سال پہلے میری شادی ہوئی تھی �ور �مریکہ سے

خوب پہچانا ‘‘۔

Page 99: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�نکھوں کی شوخیاں سب ماند پڑ چکی ہیں کیابات ہے’’ بھئی تم بہت بدل گئی ہوتمہارے گالوں کی سرخیاں �ور

؟‘‘

آ�ج تک نہیں لوٹے شوہر جو دل کے قریب ہوتا روح میں سما’’ جی وہ شادی کے �یک ماہ بعد �مریکہ چلے گئے �ور

آ�پ �ند�زہ کر سکتی ہیں کہ۔ ۔ یا ہوتا، نئے نو یلے جذبوں کا پا سبان ہوتا ہے وہ �چانک ہز�روں میل دور چلا جائے تو

۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۔

یہ تو بہت بر� ہو �شا ید �سی سوچ �ور فکرنے تمہاری یہ حالت بنادی ہے بھئی �نسان کو زندگی �یک بار ملتی ہے’’

آ�تا ہے �سے یوں ضائع کر دیا جائے تو پھر جینے کا مقصد کیا رہا ؟‘‘۔ �ور زندگی میں جو�نی کا موسم �یک ہی بار

آ�پ ہی بتائیں میں کیا کر سکتی ہوں �س دنیا میں سو�ئے ساس کے �ور کوئی نہیں ہے کسے �پنا دکھ بتاؤں ؟‘‘۔ ’’

آ�یا’’ تم مجھے �پنی بہن سمجھو �پنے دکھ �ور کوئی بھی تکلیف ہومجھے بتاد یا کرو بہترہو گا کہ تم ہر روزیہاں

آ�میزتسلی کی باتیں سن کرمیری پلکیں بھیگ گئیں کرو میر� �ور تمہار�وقت �چھا گزرے گا ‘‘نشاط کی محبت

’’لیکن نشاط باجی میں ساس صا حبہ کو کیا بتاؤں گی وہ تو مجھ پر کڑی نظر رکھتی ہیں ؟‘‘

دیکھو نگینہ میں تمہاری ساس سے مل سکتی ہوں تم بتا دینا کہ میں تمہاری ٹیچر تھی �ور �ب تم مجھ سے’’

�نگلش وغیرہ پڑھنے کے لئے میرے گھر یا پا رلرجایا کرو گی ‘‘۔

آ�پ ؟‘‘،’’�بھی چلتے ہیں چلو’’ آ� گئی کب چلیں گی ‘‘ ہاں یہ بات تومیری سمجھ میں

نشاط باجی کو�می جان نے بڑے غورسے دیکھا �ور میں نے �ن کے چہرے پر ناگو�ری کے سائے لہر �تے دیکھے پتہ

نہیں وہ کیا سوچ رہی تھیں بہر حال ہفتے میں دوتین بار مجھے نشاط باجی کے پاس جانے کی �جازت مل گئی۔

�س دن سے میں �پنا زیادہ وقت نشاط کے ہاں گز�رنے لگی نشاط کی صحبت نے میری دنیا بدل کر رکھ دی �یک

دن �س نے مجھ سے کہا ’’نگینہ!شوہر تو عورت کی ذ�ت کا �یک حصہ ہوتا ہے �س حصہ کو �لگ کر دیا جائے تو

Page 100: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

عورت مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے �س کی زندگی میں �یک خلا ء ساپید� ہو جاتا ہے تم نے شوہر سے دور �تنے سال

کیسے گز�رلیے ؟ بھئی زندگی میں حر�رت �ور تپش نہ ہوتو جینے سے دل �کتا جاتا ہے کیا تمہا ر�دل نہیں چاہتا کہ

تمھیں چاہا جائے سر�ہا جائے تم �یسی محفلوں میں جاؤ جہاں تمہاری پذیر�ئی ہو۔ تمہاری سیج کو سونی کر

آ�نکھیں کھول کر دیکھودنیا میں جانے و�لے کی یاد کو سینے سے لگائے جو�نی کے دن کیوں ضائع کر رہی ہو ؟

کیا نہیں ہے۔ �گر تم چا ہو تو میں تمہیں �یسے مقام پر لے جا سکتی ہوں جہاں صرف خوشیاں ہیں قہقہے ہیں

رنگ ونور کی بار شیں ہیں ‘‘ میں �ن کی صورت دیکھتی رہ گئی۔ �ور �یک دن �نھوں نے مجھے بڑی محنت �ور

آ�ئینے میں �پنا سر�پا دیکھا تو میں خود کونہ پیار سے تیار کیا �یک بیش قیمت خوب صورت لباس مجھے پہنا یا جب

آ�ج پھر غرورحسن سے میری گردن �کڑ گئی نشاط نے مجھے ہر ز�ویہ سے دیکھا �ور میر� ما تھا چوم پہچان پائی

لیاپھر مجھ پر خوشبوکی بارش کر دی �یک ہاتھ پھیلائے قدرے جھک کرمجھے چلنے کا �شارہ کیا جیسے میں

کوئی شہز�دی ہوں۔ میں مسکر� کر �ٹھلاتی ہوئی �ن کے ساتھ چل پڑی۔ میں پہلی بار کلب گئی تھی رنگ ونور�ور

خوشبوؤں کی محفل میں ہنستے مسکر�تے مردو خو�تین سلیقے کے میک �پ قیمتی زیور�ت �ور دیدہ زیب کپڑوں میں

ملبوس بڑے سے ہال میں پھیلے ہوئے تھے سگریٹ �ور مختلف مشروبات کی ملی جلی خوشبو چاروں طرف پھیلی

آ�تا ہو� دیکھ کربے شمار آ�و�ز فصاء میں نشہ گھول رہی تھی مجھے نشاط کے ساتھ ہوئی تھی موسیقی کی مدھم

آ�نکھوں میں نظریں ہماری طرف �ٹھ گئیں مرد مجھے للچائی ہوئی تعریفی نظروں سے دیکھ رہے تھے عورتوں کی

حسد �ور جلن کی چنگاریاں ناچ رہی تھیں۔ �یک طرف سے �یک وجیہہو شکیل خوبرو سا نو جو�ن ہماریطرف

آ�پ ہی ہیں وہ چہرہ چمن آ�ہا ہا ! آ�نے پر قدرے جھک کرسلام کیا �ور گو یا ہو �’’ آ�یا قریب آ�تا ہو �نظر تیزی کے ساتھ

آ�پ کی تعر یف غلط نہیں کی تھی مجھے دلا ورکہتے ہیں ‘‘ جی ہاں نشاط باجی نے میخانہ بدن و�قعی نشاط نے

آ�ئیے ہم �س طرف چل کربیٹھتے ہیں ‘‘ دلا ورنے کہا’’ وہ ہمیں ہال کے �س آ�پ کے بارے میں بتا یا تھا ‘‘ ’’

آ�ئسکریم منگو�ئی گئی �دھر �دھر کی باتیں ہوتی رہیں حصے میں لے گیا جہاں لوگ کچھ کم تھے۔ سنیکس �ور

آ�پ کوکیسا لگا ؟ ‘‘ دلا ور صاحب! میں زندگی کی یکسا نیت سے �کتا گئی دلا ور نے کہا’’ زندگی کا یہ روپ

Page 101: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�پ ہلگا پھلکا محسوس کر رہی ہوں مہکتی فضاؤں میں �ڑ نے آ�پ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر�پنے تھی �س محفل میں

لگی ہوں ‘‘

آ�پ کو؟‘‘’’ آ�پ نے کتنے ماہ سال برباد کئے ہیں کچھ �ند�ز.ہ ہے

آ�پ سے �نتقام لیتی رہی ماں نے بہت سمجھا یا تھا کہ میں خرم سے شادی نہ کروں’’ یوں سمجھئے میں �پنے

آ� رہا ہے کہ �نھوں نے کیوں سختی کے ساتھ منع کیا تھا ، در�صل مردہی عورت کی آ�ج میری سمجھ میں لیکن

آ�پ کو بے حد کمزور سمجھنے لگتی ہے �ور میں سب سے بڑی طا قت ہے �گر مرد کا ساتھ نہ ہو تو عورت �پنے

�پنے بکھرے بکھرے کمزورو جود کوسنبھا لے تنہائی کا زہر پیتی رہی ہوں ‘‘

آ�پ فرشتوں جیسی زندگی بسر کرنا چاہتی ہیں نا’’ یہ جینا بھی کوئی جینا ہے �نسا نوں کی �س بستی میں

آ�پ کو تنہایا کمز ور نہیں آ�ج سے �پنے آ�ئیں گی �ور آ�پ ہر روز کلب آ�ج سے ممکن !!با لکل نا ممکن بات ہے۔

آ�پ کے ساتھ ہیں ، کہئے منظور ؟ ‘‘دلا ور کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکر�ہٹ تھی میں سمجھیں گی ہم جو

نے مسکر� کر سر جھکا لیا گھڑی پر نظر ڈ�لی �ور نشاط سے چلنے کے لئے کہار�ت بھر جانے کیوں میں دلاور

آ�پ کو خوش کے بارے میں سوچتی رہی �ور فیصلہ کر لیا کہ �ب �پنی زندگی کا ڈھنگ بدل کرجیؤں گی �پنے

رکھوں گی �ور کسی کی پرو�ہ نہیں کروں گی۔ چند دن تک تو میں �ور نشاط ساتھ ہی جایا کرتے تھے �ور و�پسی

میں دلا ور ہمیں چمچماتی کار میں �پنے �پنے گھر چھوڑ دیا کرتا تھا پھر یوں ہونے لگا کہ ہم �کیلے ملنے لگے �ور

آ�نے گلی ساس یہ ملا قاتیں �تنی بڑھیں کہ ہم �یک دن بھی �یک دوسرے سے ملے بغیرنہ رہتے میں �کثر گھر دیرسے

صاحبہ کا رویہ بدل گیا تھا �نھوں نے مجھے و�رننگ دی ’’ تم �یک عزت د�ر �ور مشہور ڈ�کٹر کی بیوی �ور �س

آ�ئی ہو وہیں چلی جاؤ ‘‘۔ گھر کی بہو ہو یہاں رہنا ہو تو شریف عورتوں کی طرح سے رہو ورنہ جہاں سے

آ�پ سے پو چھتی ہوں کہ عزت د�ر مرد کیا �یسے ہی ہوتے ہیں جو �پنی نوبیا ہتا جو�ن بیوی کو چھوڑ کر ہز’’ آ�ج میں

�روں میل دور چلے جاتے ہیں �ور برسوں صورت نہیں دکھاتے ؟ کیا �یک عزت د�ر مرد کے دل میں �دلا دکی بھی

Page 102: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

محبت نہیں ہوتی ؟ کوئی عورت کہاں تک حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر سکتی ہے ؟ �یک �فلاس زدہ بیمارما

حول میں کوئی کب تک زندگی گز�رسکتا ہے ؟ میں �س جہنم میں کب تک درودیو�ر کوتکتی بیٹھی رہوں کب

تک تنہائی کا بوجھ ڈھوتی رہوں کچھ وقت گھر سے باہر گز�ر لیاتو کسی کا کیا بگڑتا ہے ؟‘‘

آ� گئی نا �پنی �صلیت پر کتے کو کھیر نہیں پچتی ! �سی لئے �س نا مر �دسے کہا تھا کہ رشتہ بر�بر و�لوں’’ آ�خر

آ�فت کی پر کالا بھولے بھالے میں ہو نا چا ہئے لیکن دو کوڑی کی جادو گرنی کا جادو سر پر سو�ر تھا۔ تم جیسی

آ�و�رہ گر دی نہیں چھوڑی تو �نجام �چھا آ�خری بار کہے دیتی ہوں تم نے مردوں کو گھیرنے میں ماہر ہوتی ہیں میں

نہیں ہو گا ‘‘۔

�س وقت میں نے خاموش ہی رہنا منا سب سمجھا دوسرے دن دلا ور �ور نشاط کو �پنی �لجھن بتا دی دلاور نے

کہا کہ وہ مجھے �پنے ذ�تی فلیٹ میں رکھے گا جسے کر�ئے د�روں نے حال ہی میں خالی کیا ہے میرے دل کو

سکون سامل گیا �س ر�ت کا فی دیر ہو گئی تھی دلا ورمجھے گھر پر چھوڑ کر چلا گیا بارہا بیل بجانے پربھی

درو�زہ نہیں کھولا گیا پھر میں نے بیل پر ہاتھ رکھا تو�س وقت تک نہیں ہٹا یا جب تک کہ درو�زہ نہیں کھلا جیسے

آ�ج کچھ ہی درو�زہ کھلا میں لڑکھڑ �تے قدموں سے �ند رد�خل ہوئی میرے ہاتھ میں شر�ب کی بو تل تھی �ور میں

آ�پ آ�تا کہ �یک عورت باہر کھڑی بیل بجا رہی ہے �ور آ�پ کو خیال نہیں زیادہ ہی سرور میں تھی میں نے کہا ’’

آ�ئی ہوو ہیں پر ر�ت گز�رلیتیں آ�ئی ہو جہاں سے ‘‘ درو�زہ کھولنے تیار نہیں ؟ ‘‘’’ تم �س وقت یہاں کیوں

‘‘ آ�پ میرے ساتھ زیادہ بک بک نہ کریں ورنہ �چھا نہ ہو گا’’

‘‘ میرے ساتھ زبان لڑ�تی ہے ؟ مجھے دھمکی دیتی ہے تیری یہ مجال ؟ �بھی نکل جایہاں سے دفع ہوجا’’

آ�ؤ دیکھا نہتا ؤ شر�ب کا شیشہ آ�و�زوں سے میری بچی بھی جاگ گئی تھی وہ چلا چلا کر رورہی تھی میں نے �ن

ساس کے سر پر دے مار� �نھوں نے �یک چیخ ماری �ور لڑکھڑ �کر

Page 103: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

گریں �ور ساکت ہو گئیں مجلے و�لے جمع ہو گئے تھے ساس کے سرسے خون بہہ رہا تھا میر� نشہ ہرن ہو چکا تھا

�سی وقت سب نے مل کرمجھے تھا نے پہنچا دیا صبح ڈیوٹی پر متعین �نسپکٹر کی منت سماجت کر کے میں نے

کسیطر ح دلا ور سے فون پربات کی تمام و�قعہ سنا یا �ور میری طرف سے وکیل کھڑ �کرنے کہا دلا ور نے جو�ب

دیا

میں �یک عزت د�ر شہری ہوں �ور شریف لوگ تم جیسی باز�ری عورتوں کے لئے تھانے �ور عد�لت کے چکر نہیں ’’

لگاتے شوہر و�لی �ور �یک بچی کی ماں ہوتے ہوئے تم نے غیروں کے ساتھ گل چھرے �ڑ �ئے ہیں۔ �ولا دکی

محبت ہے نہ شوہر کی عزت ونا موس کا لحا ظ تم کسی کی وفاد�ر نہیں ہو تم رحم کے قا بل نہیں ہو تمھیں

آ�ئندہ مجھے فون کرنے کی کوشش نہ کرنا ‘‘دلا ور نے فون پٹخ دیا میری جتنی بھی کڑی سز�دی جائے کم ہے

آ� گئے تھے مجھ پر مقد مہ چلا یا گیا۔ میر� آ�گے �ندھیر �چھا گیا زبان گنگ ہو گئی۔ خرم باہر سے آ�نکھوں کے

کوئی وکیل نہیں تھا۔ میری بیٹی خود چشم دید گو�ہ تھی �سی کی گو�ہی �ور بیان پر مجھے چودہ سال کی قید با

آ�ج میں جیل کی سلا خوں کے پیچھے بیٹھی �پنی زندگی کے دن گن رہی ہوں۔ مشقت ہو گئی۔

دل کا وہ حال ہو � ہے غم دور�ں کے تلے

جیسے �ک لاش چٹا نوں میں دبادی جائے

تم بھی مجرم ہو فقط میں ہی گنہ گار نہیں

میں یہ کہتا ہوں کہ دونوں کو سز�دی جائے

٭٭٭٭

Page 104: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

مراد نا

خموش ہو کے جو گویا ہو وہ تکلم ہوں

سکوں کے بھیس میں �ک �ضطر�ب ہوں

�د�س نغمہ ہوں روٹھا ہو� ترنم ہوں

شکستہ ساز ہوں ٹوٹا ہو� رباب ہوں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�تا تھاکہ وہ ماں کو سمجھاتا کیوں نہیں �س سے تو سوتیلا باپ �چھا تھا ماں کی قربت نوید کو جاوید پر غصہ

تھی نئے باپ کے بچوں سے بچی کچھی محبت بھی مل جاتی تھی �گر میر� ہی باپ سیدھا ہوتا تو میری زندگی

آ�تش فشاں پھٹ پڑ �۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کا یہ حشر نہ ہوتا نوید کے �ندر کا

�سپتال کے زچگی و�رڈ میں �یک حسینو جمیل کمسن دوشیزہ �یک خوبصورت وصحت مند بچے کو پہلو میں لئے

آ�ئی ہو۔ �س کے چہرے پر کسی خوشی یوں بے سدھ لیٹی ہوئی تھی جیسے طویل وبے معنی سفر سے تھک کر

و�میدکا سا یہ تک نہیں تھا۔ کچھ دیر پہلے وہ دردزہ کی کربنا ک منزل سے گزری تھی �س ر�ستے پر کوئی �س

کے ٹھنڈے ہا تھوں کو تھام کر تسلی دینے و�لا نہیں تھا درد نے �سے �یسے گھیرلیا تھا کہ حو�س ساتھ چھوڑ نے

آ�ئی �ور �سے تھپتھپا کر پو چھا کہ وہ بچے کو دودھ کیوں لگے تھے۔ بچے کے مسلسل رونے پر نرس جلدی سے

نہیں پلا رہی ہے لڑکی نے دوسری طرف کروٹ لے لی جیسے بچے سے �س کا کوئی تعلق نہ ہو۔ نرس نے �سے

پھرمخاطب کیا ’’�ے تمہیں کیا تکلیف ہے بابا کو کیوں رلا رہی ہو ؟کیا تمہارے ساتھ کوئی نہیں ہے �س کا پپا

Page 105: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ا�سے کیا جو�ب دیتی کہ �س کا پپا کون کدھر ہے ‘‘ نرس نے بچے کو ہاتھوں پر جھلا تے ہوئے پوچھا ’’�نو شہ‘‘

ہے �ور کوئی بھی �س کے ساتھ کیوں نہیں ہے ؟�نوشہ �پنے بچے کے رونے پرتڑ پ �ٹھی تھی۔ وہ یہی سوچ کر

رورہی تھی کہ جس طرح بچے کی محبت میں وہ تڑ پ رہی ہے �یسی تڑ پ �س کی ماں کے دل میں �س کے لئے

کیوں نہیں تھی ماں کو �س کی ذر� بھی پرو� نہیں تھی وہ تو �س سے جلتی تھی‘‘ ماں جو �س کا ئنات کی بنیاد

آ�نچ پر ہے مقدس ہستی ہے دنیاکی ہر چیزسے بلندترین ہے۔ �ور �س کا دل موم کا �یک ٹکڑ � ہے جو مامتا کی

پگھلتارہتا ہے پھر �س کی ماں �یسی کیوں ہے جس نے �س کے باپ سے علحد گی �ختیار کرلی �ور سوتیلے باپ

کو �س کے سرپر مسلط کر دیا۔ ویسے ماں ہے تو�یک حسین ترین عورت لیکن �س کا دل حسین نہیں ہے شاید

حسین عورتیں �پنی ناز برد�ری کر و�ناچاہتی ہیں �س کا باپ سرکاری ملازم �س کے بس میں نہیں تھا۔ سوتیلا باپ

آ�دمی تھا گھرپر دوتین کا ریں �ور نوکر چاکر سبھی کچھ تھاوہ �نوشہ کو �چھے �سکول میں پڑھا رہا تھا۔ تو بے حد�میر

�س کی ہر ضرورت پوری کرتا تھا۔ لیکن ماں کو یہ سب �چھا نہیں لگتا تھا۔ �ور جس دن �نٹر کا نتیجہ نکلا �س

دن تو �س نے �پنے دل کی بھڑ �س نکاللی۔ �نوشہ نے فرسٹ ڈیویثرن میں �نٹرپاس کیا تھا سوتیلے باپ نے �یک خو

بصورت لاکٹ تحفہ دیا ماں سے دیکھا نہ گیا �س نے وہ چین �نوشہ کے ہاتھ سے چھینلی �ور �سے �پنے کمرے میں

چلے جا نے کہا۔ جب باپ نے �سے سمجھا نے کی کوشش کی تو وہ �س پر برس پڑی۔

آ�خر بات کیا ہے ؟‘‘’’ میں دیکھ رہی ہوں دن بہ دن تمہاری مہربانیاں �س لڑکی پر بڑھتی جا رہی ہیں

کیا تم باپ بیٹی کے رشتہ پر شک کرہی ہو کیا یہ میری بیٹی نہیں ہے ؟‘‘’’ ہاں رہنے دومیں خوب سمجھتی ہوں’’

سگے باپ نے پلٹ کر نہیں پوچھا �ور تمہارے دل سے �س کے لئے محبت کے سوتے پھوٹ رہے ہیں۔۔۔۔۔

‘‘�نوشہ حیرت زدہ سی کھڑی سب کچھ سنتی رہی پھر �پنے کمرے میں جا کر درو�زہ بندکر لیا۔ پوری ر�ت �س

آ�نکھوں میں کا ٹ دی �ور �یک فیصلے کے تحت کچھ کپڑے ،کتابیں �ور �پناجیب خرچ بچاکر جمع کی نے

ہوئی رقم سوٹ کیس میں رکھلی سورج کی پہلی کرن نمود�ر ہو نے سے پہلے گھرسے نکل گئی۔ سیدھے ریلوے

آ�ٹو لیا �ور �پنی دوست �سٹیشن گئی ٹکٹ لیا �ور ٹرین میں سو�ر ہو گئی دوپہر ڈھل رہی تھی �س نے ٹرین سے �ترکر

Page 106: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�ٹو آ�ئی جا نے کس خیال کے تحت �س نے کے گھر کا پتہ بتا یا کچھ ہی دور گئی تھی کہ �سے �یک درگاہ نظر

کوو ہیں پر رکو�یا �ور �ترپڑی درگاہ میں کچھ لوگ سورہے تھے کچھ عبادت میں مصروف تھے وہ بھی �یک کونے

میں بیٹھ گئی۔ �س کا ذہن عجیب و غریب خیالات میں �لجھا ہو� تھا �نجاناخوف دل پر چھا رہا تھا وہ کہاں

جائے کیا کرے �س کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا زندگی کے �ن معصوم سترہ سالوں میں �س نے کبھی سکھ کا

سانس نہیں لیا تھا جب سے ہوش سنبھالا تھا �پنی ماں کو باپ کے ساتھ جھگڑ تے دیکھا تھا �ور �ب وہ سوتیلے

باپ کے دل پر حکومت �ور �پنی بیٹی سے نفرت کر رہی تھی �نہی سوچوں میں دن گزرگیا ر�ت نے �پنے سیاہ پر

پھیلانے شروع کر دئے غصہ میں �س نے گھر تو چھوڑ دیا �ب دل کو �یک نہ معلوم سا دھڑ کا لگا ہو �تھا وہ ماں

آ�پ کو تنہا محسوس کر رہی تھی وہ گھٹنوں میں منہ چھپائے کے ہو تے ہوئے �س کی شفقت سے محروم تھی �پنے

رورہی تھی۔ �س کے بازو بیٹھی ہوئی �یک �دھیڑ عمر عورت �سے بہت دیر سے دیکھ رہی تھی جیسے �س کی

آ�ئی �ور بڑی ملائمت سے محبت بھرے لہجہ میں نگر�نی کر رہی ہو �س نے �نوشہ کو روتے دیکھا تو قریب کھسک

آ�ئی ہوں آ�ئی ہو ؟‘‘’’ ہاں میں گھر چھوڑ کر �کیلی پوچھا ’’کیابات ہے بیتی بہت پر یشان معلوم ہو رہی ہو کیا �کیلی

ماں نے بہت عضہ کیا تھا‘‘’’ �رے !غصہ کیا تو کیا ہو �چھوٹوں کی غلطی پر بڑے تو غصہ کرتے ہی ہیں ماں ہے

کوئی دشمن تو نہیں نا چلو میں تمہیں گھر پہونچا دوں ‘‘’’نہیں میں گھر نہیں جاؤں گی ماں دشمن ہے میں

لے لے گی میں نہیں جاؤں گی ‘‘’’ صبح کی صبح سویرے نکل گئی تھی �ب گھر جاؤں گی تو ماں جان کو

نکلی ہوئی ہو توکچھ کھایا پیا بھی ہے یا نہیں ؟‘‘’’نہیں میں یہیں پر سوجاؤں گی‘‘ ’’یہاں سونا تمہارے لئے

مناسب نہیں ہے میر� گھرقریب ہی ہے میرے ساتھ چلو وہیں کچھ کھاپی کر سوجاناصبح گھر جا نے کے بارے میں

سوچناچلو ر�ت ہو گئی ہے ’’ �س عورت کی ہمدردی نے �نوشہ کی ہمت بندھائی �ور وہ �س کے ساتھ چلی گئی

آ�ٹھ ہی بجے تھے وہ بھوک �ور نیندسے بے حال تھی �س نے پیٹ بھرکر کھانا کھایا �ور لیٹتے ہی �بھی ر�ت کے

سو گئی دوسرے دن �س نے دیکھا کہ گھر میں �س عورت کا جو �ن بیٹا بھی ہے جو �سے عجیب نظروں سے

آ�گر� ہو۔ ماں نے بتایاکہ وہ مقامی کالج میں بی دیکھ رہا تھا، جیسے بن مانگے کوئی لذیذپھل �س کے د�من میں

آ�گے تعلیم جاری رکھنے کا �ر�دہ کیا �س عورت نے جب �سے گھر و�پس جا نے کہا کام کر رہا تھا۔ �نوشہ نے بھی

Page 107: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تو �س نے �نکا رکرتے ہوئے کہا کہ وہ یہیں رہ کر �پنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہے۔ وہ یہاں رہتے ہوئے �ن دو نوں

سے مانوس ومطمئین سی ہو گئی تھی لیکن ماحول کی یکسانیت سے وہ �کتا گئی تھی ماں کے کہنے پر وہ نہ

چاہتے ہوئے بھی جاوید کے ساتھ شہر گھو منے چلی گئی شام تک وہ مختلف مقامات کی سیر کرتے رہے �یک

�چھے ہوٹل میں ڈنرلیا �سی دور�ن جا وید نے �س کے دو نوں ہاتھ �پنے ہاتھوں میں لیکر کہا کہ وہ �س کی محبت

میں گر فتار ہو چکا ہے �ور �ب �س کا جوبھی قدم �ٹھے گا �س کی خوشی �ور بھلائی کے لئے �ٹھے گا۔ �نوشہ

کو یہ سب کچھ عجیب لگ رہا تھا لیکن �یک �نجانی خوشی کے �حساس سے مسر ور تھی۔ دونوں نے �یک

آ�نکھ کھل آ�ئے۔ وہ تھک گئی تھی جلدہی سو گئی۔ ر�ت کے پچھلے پہر �س کی �سٹوڈیومیں فوٹولی �ور و�پس

آ�نکھیں پھاڑے �دھردیکھنے کی کوشش کر رہی ہاتھ نے گئی �س نے محسوس کیا کہ کوئی �س سے چمٹا ہو� ہے وہ

الٹادیا وہ �سے تسلیاں دیتا رہا ساتھ جینے مرنے آ�بد�ر جا ویدکے ہاتھوں آ�ج �س نے �پنا گوہر �س کا منہ دبادیا۔ ۔ ۔

کی قسمیں کھاتا رہا صبح وہ لٹی لٹی بکھری ہوئی نڈھال بیٹھی ہوئی تھی جا وید کی ماں کے پوچھنے پر �س نے

آ�ئی جا وید کے جا نے کی بعد وہ �پنی دوست کے گھر جانے نکل گئی بتا یا کہ وہ تھک گئی تھی نیند بر�بر نہیں

ر�ستہ بھروہ روتی �ور سوچتی رہی کہ پہلے ہی ممتازکے گھر چلی جاتی تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا وہ �س سے لپٹ کر

ز�رو قطار روتی رہی پھر �پنے لٹنے کی د�ستان سنائی۔ ممتازنے �نوشہ کو تسلی دی۔ ’’�نوجو ہو گیا سو ہو گیا

آ�خر ماں ہوتی ہے تم حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتیں تو تمہیں �پنا گھر نہیں چھو ڑ نا چا ہئے تھا ماں

بہترتھا‘‘’’ حا لات سے سمجھوتہ کر نا ممکن نہیں تھا ماں مجھے �یک منٹ کے لئے بھی �پنی نظروں کے

سامنے نہیں دیکھ سکتی تھی �گر و�لدکا پتہ معلوم ہوتا تو �نکے ہاں چلی جاتی پتہ نہیں وہ کہاں ہیں تم فی �لحال

آ�ر�م کرو پھر کہیں ملازمت کے لئے کوشش کریں گے تم بے حد حسین ہو کمپیوٹرمیں ماہر ہو ملازمت ملنے میں

دیر نہیں لگے گی میں �پنی �می سے بات کروں گی تمہیں �پنے ساتھ رکھنے ر�ضی کروں گی‘‘ �نوشہ کو �یک

کمپیوٹر �نسٹیوٹ میں لڑکیوں کو سکھا نے کے لئے �یک ہز�ر روپیہ ما ہو�ر تنخو�ہ پر رکھ لیا گیا لیکن �س کی

قسمت کی گردش ختم ہو نے کی بجائے یہاں سے شروع ہوئی �سے پتہ چلا کہ �س کا پیٹ پھولتا جا رہا ہے ہر

� چلتا کرنے کہا لیکن ممتازنے وقت متلی �ور چکر سی رہتی ہے۔ ممتازنے �پنی ماں کو بتا یا تو�نھوں نے �نوکو فور

Page 108: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

منت سماجت کی کہ وہ �س حالت میں کہاں جائے گی �ور کیا کر یگی وہ �س وقت قابل رحم ہے �س نے ماں

کودرگاہ میں ملنے و�لی عورت �ور �س ر�ت کا و�قعہ بتادیا تو ماں کچھ سوچتی ہوئی خاموش ہو گئی وقت جیسے

آ�ج وہ �سپتال میں �کیلی پڑی ہوئی بیتے دنوں کو یا دکر رہی تھی نرس بچے کو �س کے پہلو میں کب تیسے گزرگیا

سلا کر چلی گئی �سے پتہ نہ چلا۔ ممتازکے گھر میں باہر کا کمرہ �سے کر �ئے پر دید یا گیا تھا وہ وہیں رہنے

لگی تین ماہ کیر خصت کے دن پو رے ہو چکے تھے �س نے پھر سے کمپیو ٹرسنٹر جا نا شروع کر دیا �س کی

غیر حاضری میں دوچار نئے �ڈمیشن ہوئے تھے جن میں �یک مسنر د�ور تھی وہ �نوشہ کی شخصیت �ور حسن بے

ا�سے بتا یا کہ �س کے چا چا کی گفٹ �نیڈ ناولٹیز کی بٹری مثال سے �تنی متاثر ہوئی کہ �س سے دوستی کرلی �ور

ا�سے معقول تنخو�ہ پر سیلزگرل کا کام مل سکتا ہے دوسرے دن وہ مسنر د�ور کے ساتھ �س کے دو کان ہے وہاں

چاچا کی دوکان پرگئی �نھوں نے �نوشہ کے حسن بلاخیزکو دیکھا تو دیکھتے رہ گئے �نھیں �یسی ہی کسی سیلزگرل

کی تلاش تھی �سے تین ہز�ر مشاہرہ پر رکھ لیا گیا �نوشہ تین گنا تنخو�ہ کی بات سن کر پھولے نہیں سما رہی تھی

پھر دیکھنے و�لوں نے دیکھا کہ �س دوکان پر گا ہکوں کاتا نتابندھ گیا تھا۔ دوسرے ہی مہینے �نوشہ کی تنخو�ہ

آ�یاکا بھی �نتظام کر لیا وہ بڑی حدتک میں �ضافہ کر دیا گیاوہ خوش تھی �س نے بچے کی دیکھ بھال کے لئے

مطمئن تھی لیکن �یک جو�ن عورت کو جینے کے لئے �ور بھی کچھ چاہئے روٹی ’ کپڑ ��ور مکان کے علاوہ

آ�نکھیں آ�سودگی مل سکے۔ �سکی پرسوز�د�س محبت کرنے و�لا کوئی �پنا!!جسکی رفاقت میں ذہنی وجسمانی

آ�پ کو تنہا پا کر دل پر آ�تی ہز�روں کے ہجوم میں �پنے ہمیشہ دور خلاؤں میں گھورتی رہتیں �مید کی کرن نظر نہیں

�یک �نجا ناخوف چھا یا رہتا ر�ستہ خارد�ر �ور منزل دور زندگی کا سفر کیسے طئے ہو ؟!۔

آ�نے لگا تھا �ور جب نئے گاہکوں میں �یک فوجی کیپٹن بھی تھا جو کچھ نہ کچھ خریدنے کے لئے ہر روزدوکان پر

تک وہ دوکان میں رہتا تب تک �نوشہ �س کی نظروں کے حصار میں ہوتی وہ �پنے حسن جہاں سوز کی کر شمہ

سازیوں سے بے خبر �پنے کام میں مصروف رہتی۔ لیکن �یسا بھی نہیں تھا کہ �س نے کیپٹن کو نظر �ند�زکیا ہو

آ�نکھوں کے ر�ستے �س کے دل میں �ترچکا تھا �ور �یک خوبرو خوش کلام �ور باو قار کیپٹن رضو�ن پہلے ہی دن

Page 109: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

دن رضو�ن نے شادی کا �ر�دہ ظاہر کر دیایہ جانتے ہوئے کہ �نوشہ �یک بچے کی ماں ہے �س نے �یک بات کی

وضاحت کر دی کہ وہ �نوشہ کے بچے کو�پنا نام نہیں دیگا �نوشہ کویہ بات ناگو�ر گزری لیکن �س نے سوچاکہ

زندگی گز�رنے کے لئے �یک مضبوط سہا رے کی ضرورت ہے رضو�ن جیسا تعلیم یافتہ �ور ذی حیثیت پاسباں ہر

آ�نکھوں میں عورت کے نصیب میں تو نہیں ہوتا خوش بختی �س کے درپردستک دے رہی تھی خوبصورت خو�ب

جھوم رہے تھے دلکش تمنائیں دل میں �نگڑ �ئیاں لے رہی تھیں �نوشہ نے �پنی سور�خ زدہ کشتی رضو�ن کے سہارے

سمندر میں ڈ�ل دی دونوں نے کو رٹ میریج کرلی بہت سار� وقت جیسے پر لگا کر �ڑ گیا �نوشہ رضو�ن کے دو

بچوں کی ماں بن گئی نو ید بھی بڑ �ہو گیا �ور �چھی طرح سمجھنے لگا تھا کہ رضو�ن �س سے محبت کیوں

نہیں کرتا کیونکہ وہ �س کا باپ نہیں تھا �س کا باپ تو وہ ہے جو ماں کے ساتھ فو ٹو میں ہے۔ وہ �پنے چھوٹے

بہن بھائی سے جلنے لگا تھا کیونکہ �نوشہ رضو�ن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے �س کے بچوں کا بہت

خیال رکھتی تھی نوید �پنے دل کی بھڑ �س نکالنے کیلئے �ن بچوں کو مارتا پیٹتا �ور نت نئی شر�رتیں کر کے ماں

کو جلا تارہتا۔ �سکول میں بچوں کی چیزیں چر�نا �نکے ٹفن کھالینایا پھینک دینا �ور مار پٹائی کرنا �س کا معمول

بن گیا تھا ماں کو بلو� کر �س کی شکا یت کی جاتی تو �نوشہ پیارسے �سے سمجھاتی لیکن وہ ماں کی بات

کوخاطر میں نہ لاتا �سکول میں �س پر سختی کی جانے لگی تو وہ کئی کئی دن غیر حاضر رہنے لگامحلے کے

آ�و�رہ لڑکوں کے ساتھ دوستی ہو گئی �ور وہ �نکے ساتھ دوکا نوں �ور مکانوں میں چوری کرنے لگا۔ رضو�ن کے پاس

آ�نے لگیں �ب نوید کو سمجھانایا رضو�ن کی سز�سے بچانا �نوشہ کے �ختیار میں نہ رہا۔ وہ نہیں �س کی شکا یتیں

آ�تش فشاں بن چکا تھا۔ �س نے رضو�ن کو ڈرتے ڈرتے مشورہ دیا جانتی تھی کہ �س محر وم محبت کادماغ �یک

کہ وہ نوید کوکسی بورڈنگ میں شریک کر�دے گھر کے سکون �ور عزت کی خاطر �س نے �نوشہ کا مشورہ قبول کر

لیا لیکن نوید �س کے لئے ہر گزتیارنہ ہو �۔ کئی دن تک سوچنے کے بعد �نوشہ نے �یک فیصلہ کیا وہ نوید کوساتھ

لے کر �س کے باپ جا وید کے گھر گئی �تفاق سے وہ گھر پر�کیلا مل گیا سالوں بعد دونوں کاسا منا ہو� تھا رسمی

سی گفتگو کے بعد �نوشہ نے نوید کا ہاتھ جاوید کے ہاتھ میں دیدیا لیکن جاوید نے �سے �پنابیٹا ماننے سے �نکارکر

دیا �ور بتایاکہ �ب وہ �یک شادی شدہ مردہے �ور �پنے بیوی بچوں کے ساتھ سکون کی زندگی گز�ر رہا ہے �نوشہ

Page 110: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کے پیروں سے زمین کھسک گئی �س کی لا کھ کوشش �ور یقین دلانے کے باوجود وہ ٹس سے مس نہ ہو�۔ نوید

جودونوں کی گفتگو بغور سن رہا تھا �چانک جاوید کے پیروں سے لپٹ کر رونے لگا ’’ �بو مجھے �پنے پاس رکھ

لوماں �ور نئے �بو مجھے ہمیشہ مارتے �ور جھڑ کتے رہتے ہیں میں �ب کبھی یہاں سے نہیں جاؤں گامجھے �پنے

آ�پکا بیٹا ہوں ’ وہ بلک بلک کر رورہا تھا لیکن جا وید جیسے پتھر کا بن گیا تھا آ�پ میرے �بو ہومیں پاس رہنے دو�بو

� چلے جا نے کہا۔ ماں بیٹے دل بر د�شتہ روتے ہوئے �س نے جھٹکے سے نوید کو �لگ کر دیا �ور �نوشہ کو فور

و�پس ہو گئے۔ �نوشہ نے رضو�ن سے کہاکہ وہ کسیطر ح نوید کو بورڈ نگ میں شریک کر �دے۔ وہ جاوید سے مل

آ�نے کے بعد �ور بھی چڑ چڑ �ہو گیا تھا پھر بھی ماں کے سمجھانے �ور رضو�ن کے سختی کرنے پروہ بورڈنگ کر

آ�مادہ ہو گیا۔ نئی جگہ نیا ماحول �ور نئے دوستوں میں وہ کھوسا گیا لیکن محبت کرنے و�لی ٹیچر س، کے لئے

آ�نے و�لے دوسرے لڑکوں کے و�لدین کودیکھ کر وہ بکھر جاتا �س پھلوں ’ پھولوں �ور کھلو نوں سے لدے ہوئے

آ�تش فشاں پھوٹ پڑتا۔ تو ڑ پھوڑ مار پٹائی �ور جھگڑے شروع ہوجاتے سز�کے طورپر �سے بھی کے �ندرکامخفی

مارپڑتی �ور جرما نے عائد ہو تے ماں چوری چھپے جرمانے بھرتی رہی وقت گزرتا رہا۔ �ور �یک دن معلوم ہو �کہ

نوید بور ڈنگ سے بڑی رقم کی چوری کر کے بھاگ گیا رضو�ن کے ہاں نوٹس بھیجی گئی۔ نوید سید ھے جا وید

کے گھر گیا رقم �س کے حو�لے کر دی �ور �سے �پنے پاس رکھ لینے کی �لتجا کرتا رہا۔ جاو ید نے کچھ دیر

سوچنے کے بعد �سے رہنے کی �جازت دیدی۔ نویدنے سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ سوتیلی ماں نے �پنا رنگ

دکھانا شروع کر دیا وہ نوید کے و جودکو �پنے گھر میں برد�شت نہیں کر رہی تھی۔ نوید سے نوکروں جیسا سلو

ک کر نا �س پر جھوٹے �لز�م لگا نا �ور سز�کے طور پر کھا نا پانی بندکر دینا روزکا معمول تھا۔ نوید کو جا وید پر

آ�تاکہ وہ ماں کوسمجھاتا کیوں نہیں �س سے تو سو تیلا باپ �چھا تھا ماں کی قربت تھی نئے باپ کے بچوں غصہ

سے بچی کھچی محبت بھی مل جاتی تھی �گر میر� ہی باپ سید ھا ہوتا تو میری زندگی کا یہ حشر نہ ہوتا۔ نوید

آ�گ لگادی جو شہرکی جانی مانی آ�تش فشاں پھٹ پڑ ��س نے موقع پا کر باپ کی سو پ فیکڑی میں کے �ندرکا

فیکڑی تھی لاکھوں کا نقصان ہو� نوید بہت خوش تھا۔ ماں نے سار�غصہ نوید پر نکا لا کہ �س منحوس کی وجہ

� یہاں سے دفع کیا جائے۔ نوید کا سے نحوست �ور پر یشا نیوں نے ہمارے گھر کا ر�ستہ دیکھ لیا ہے �سکو فور

Page 111: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

دل بھی �چاٹ ہو چکا تھا باپ سے کچھ پیسے مانگے �س نے دینے سے �نکارکر دیا نوید خالی ہاتھ نکل پڑ �۔

پر�نے دوستوں سے مل کر پر�نی روش �ختیارکرلی۔ دن بھر ہو ٹل میں کام کرتا �ور ر�ت چوری کرنے میں گز�رتا �ب

وہ چھوٹی موٹی چوریوں کو بچوں کا کھیل سمجھنے لگا تھا کیونکہ وہ �ب بچہ نہیں رہا تھا وہ �سکو ٹروں �ور

آ�مدنی تھی۔ �یک ہائی وے پر ر�ت کے �ندھیرے کاروں کو صاف �ڑ �لے جاتا پولس کو �س کی طرف سے معقول

میں نوید �ور � سکے ساتھیوں نے �یک کا رکو روکا جس میں �یک عورت �ور �یک مرد سفر کر رہے تھے مرد خاصہ

آ�یا جسے �ن لوگوں نے �یک درخت سے باندھ دیا �ور نقدر قم چھینلی تگڑ ��ور طاقتورتھا مشکل سے قابو میں

عورت کو بھی دو سرے درخت سے باندھ دیا �ور �ن کی کار لے کر نکل گئے۔ دوسرے دن کے �خبار میں �س

ڈکیتی کے بارے میں نوید نے پڑھا کہ جن لوگوں کو ر�ت �نھوں نے لو ٹا تھا وہ کیپٹن رضو�ن �ور �س کی بیوی

ندل کا �نوشہ تھی جودرخت سے بندھی ہوئی دم توڑ چکی تھی جسے دل کا دورہ پڑ ��ور �س کی موت کا باعث

آ�گ گب لگ گئی گھر کے چر�غ سے ‘‘!!دورہ تھا۔ ’’�س گھر کو

*****

Page 112: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

قسم کی غم شام

یہ بے کسی کے �ندھیرے ذر� تو ڈھلنے دے

بجھا نہ دے مرے دل کا چر�غ جلنے دے

نہ سن سکے تو یہیں ختم ذکر غم کر دوں

جو سن سکے تو میری د�ستاں چلنے دے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تم کیا جانو �ن دو سالوں میں ، میں کیا سے کیا ہو گئی ہوں موم کی طرح پگھل رہی ہوں ٹوٹ پھو ٹ کر بکھر

رہی ہوں صدیوں کی تنہائی کا کرب جھیلتے ہوئے میر� ہر جذبہ ہر �حساس مجر وح ہو چکا ہے روحانی �ضطر �ب پر

آ�ج یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے آ�نکھیں بند کر لیں �ور لب سی لئے تھے لیکن قابو پانے کے لئے میں نے �پنی

میرے زخم کا ہر ٹا نکا ٹوٹ گیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ OOO ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہوتا جا رہا تھا پرندے �پنے �پنے بسیروں کی طرف محوپر و�ز تھے ر�حیلہ �پنے کمرے میں شام کا دھند لکا گہر�

�کیلی بیٹھی ہوئی دور خلاؤں میں گھور رہی تھی۔ �س کے ہاتھ میں ظفر کا خط تھا �س نے لکھا تھا کہ وہ �گلے

آ� رہا ہے پچھلے دو سال سے وہ یہی بات لکھتا رہا ہے۔ سمند رپار جا نے و�لے کیا جانیں کہ �یک بر ماہ عید پر

آ�سمان کی طرف ٹکٹکی ہن �نکی یادوں کے �لاؤ میں کس طرح �یک کچی لکڑی کی مانند جلتی رہتی ہے وہ

Page 113: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�ج پھر کسی نے آ� رہی تھیں جسیے �بھی برس پڑیں گی۔ باندھے گھور رہی تھی۔ کالی گھٹائیں �منڈ�منڈ کر

آ� آ�ج غمگیں ہیں ہم طلعت محمود کی مشہور زمانہ غزل کی دھن با نسری پر چھیڑ دی تھی’’ شام غم کی قسم

آ�ج میرے صنم۔ ‘‘ بھیگا بھیگا موسم ، ظفر کی یاد �ور درد میں ڈوبی ہوئی بانسری کی دھن ! آ�جا بھی بھی جا

وہ نڈھال ہوئی جا رہی تھی۔ شادی کے صرف �یک ماہ بعد وہ سعودی چلا گیا �ور وعدہ کیا تھا کہ �یک سال

آ�یا تھا۔ آ�ئے گا لیکن تین سال گزر جانے پر بھی وہ نہیں بعد لوٹ

ر�حیلہ کی ماں �س کی شادی کے لئے کس قدر پریشان تھی۔ پاس پڑ وس کی عورتیں ، رشتے د�ر �ور سہیلیاں

�پنے �پنے بیٹوں یا بھا ئیوں کے لئے ر�حیلہ کو بے حد پسند کرتی تھیں۔ کھلتا ہو�چمپئی رنگ ، ستو�ں ناک ، بڑی

آ�نکھیں ، موتیوں جسیے د�نت �ور سروجسیاقد۔ مرمریں جسم کا ہر ز�ویہ دلکش تھا۔ ر�حیلہ �یک ہی بڑی غلافی

نظر میں ہر کسی کو بھا جاتی لیکن �نکے ہاں گھوڑے جوڑے کے نام پر دینے کیلئے نو ٹوں کے �نبار نہیں تھے �ور

نہ ہی نئے ماحول �ور خیالات کے مطا بق جہیز تھا �س لئے ر�حیلہ کی ماں �س بات کوپسند نہیں کرتی تھی کہ

شادی کے چند دن بعد ہی دولہاسات سمند رپار کولہو کے بیل کی طرح پسنے چلا جائے �ور نئی نو یلی دلہن

آ�پ ہی سوچتی کہ چلو باہر جانے سے روٹی آ�غوش میں پڑی سسکتی رہے پھر سونی سیج سجائے بے دردسناٹوں کی

آ�مدنی کا تو سہار�ملا ورنہ یہاں ملازمت کب ملتی �ور مل بھی جاتی تو کسی معمولی عہدہ پر کام کرنا پڑتا �ور

بندھی ٹکی ہوتی۔

آ�یا چاروں طرف خوشیاں بکھری پڑی تھیں لیکن ر�حیلہ کے عید کا دن � آ�نا تھا نہ گیا ہر سال کی طرح ظفر کو نہ

دل پر �د� سیوں کا ر�ج تھا۔ وہ کسی کام سے بڑے بھیا کے کمرے میں گئی تو دیکھا کہ بھائی �پنے مہندی

رچے ہاتھوں سے بھیا کو شیر خر ما پلا رہی ہیں پھر وہ سرمہ د�نی دینے کیلئے چھوٹے بھیا کے کمرے میں گئی تو

دیکھا وہ بھابی کے بالوں میں پھولوں کا خوبصورت گجر�لگا رہے تھے ر�حیلہ پر نظر پڑی تو�س کے ہاتھ میں دو

آ�نکھیں ڈبڈبا گئیں وہ تیزی کے ساتھ پلٹی �ور �پنے کمرے میں �کر بیٹھ گئی �س گجرے تھما دئیے۔ ر�حیلہ کی

Page 114: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کے بیڈ پر ظفر کا خط �ور عید کا رڈپڑے �س کا منہ چڑ�رہے تھے۔ �س نے �لماری سے لیٹرپیڈنکا لا �ور بیٹھ گئی

�س کا قلم تیزی سے چل رہا تھا۔

تم کیا جا نو �ن دو سالوں میں ، میں کیا سے کیا ہو گئی ہوں موم کی طرح پگھل رہی ہوں ٹوٹ پھوٹ کربکھر ’’

رہی ہوں صدیوں کی تنہائی کا کرب جھیلتے ہوئے میر� ہر جذبہ ہر �حساس مجروح ہو چکا ہے روحانی �ضطر�ب پر

آ�ج یوں محسوس رہا ہے جسیے آ�نکھیں بند کر لیں �ور لب سی لئے تھے لیکن قابو پانے کے لئے میں نے �پنی

میرے زخم کا ہر ٹا نکا ٹوٹ گیا ہے شادی �یک معاہدہ ہے جسکے بعد ہر جو�ن لڑکی محبت �ور خوشیوں سے

بھری زندگی کا تصورلئے �پنے دیوتا کے من مندر میں قدم رکھتی ہے۔ تم سے شادی کے بعد میں نے بھی نیلے

آ�سمانوں کی تمام تروسعتوں کو �پنی بانہوں سمیٹ لینا چاہا تھا۔ تمہاری دی ہوئی لمحاتی رفاقت کو میں نے

آ�رزولئے بیٹھی تھی۔ میرے خو�بوں خیالوں کی تمام رنگینیاں د�ئمی سہار� سمجھ لیا �ور زمین پر جنت بسانے کی

آ�ج دنیا میری نظر میں آ�ج میری روح کے �ندرویر �نی کا ر�ج ہے تمہارے وجود میں مجسم ہو گئی تھیں۔ لیکن

�یک تاریک قفس بن گئی ہے ہر شئے �جنبی سی لگ رہی ہے �ور میں �ن �جنبی چہروں کے درمیان معلق �ور

مصلوب ہو کر رہ گئی ہوں میں کیا کروں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�و�ز نے چو نکا دیا کم بخت نے عید کا دن بھی نہیں چھوڑ �بانسری رورہی تھی ’’شام غم ر�حیلہ کو بانسری کی

آ� گئی پہلی بار بانسری بجا نے و�لے کو دیکھ رہی آ�ہستہ چلتی ہوئی بالکنی میں آ�ہستہ آ�ج تنہا ہیں ہم‘‘ وہ کی قسم

آ�نکھیں بند کئے �پنی ہی دھن میں مست تھا۔ جسیے کوئی پجارن �پنے دیوتا کی پو جامیں مگن ہو۔ �سے تھی وہ

آ�ج کیا دکھ تھا �س کے من مندر کی دیوی کون ہو گی کہاں ہو گی وہ بانسری پر صرف یہی دھن کیوں بجاتا ہے

وہ بھی �سی دھن کو جی بھر کر سننا چاہتی تھی۔ �س کے �ندر کہیں ٹوٹ پھوٹ سی ہونے لگی �چانک �س کے

دل نے سر گو شی کی یہ تو نے بڑی بوڑھیوں جیسا حلیہ کیوں بنارکھا ہے تجھے جس نے بھلادیا تو بھی �سے بھلا

آ�تی ہے۔ ہر کسی کو �پنی زندگی �ور جو�نی پر دے زندگی �یک بار ملتی ہے �ور زندگی میں جو�نی �یک ہی بار

�ختیار ہے کہ وہ �ن پھولوں کی ہر پتی سے مسرتو شادمانی کا �مرت رس نچوڑ لے سوچ کیا رہی ہے ؟

Page 115: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�ز�دہونے کی �جازت نہیں دے سکتا مجھے تیری آ�ئی’’ نہیں نہیں ! میں تجھے آ�و�ز ضمیر کے کسی کونے سے

نگہبانی کے لئے پید� کیا گیا ہے ‘‘۔

دل کہتا ’’کب تک تنہائی کے �س لق ودق صحر �میں بھٹکتا رہوں کب تک فر�ق کی �ن خارد�ر جھاڑ یوں سے

�لجھتا رہوں ؟ ضمیر نے کہا’’ �س ر�ستے پر چلنے کے لئے کیوں مچل رہا ہے جس پر چل کر ر�ہی منزلوں سے

بھٹک کر دور کہیں �ندھیروں میں کھو جا تے ہیں �پنے جسم کے قفس میں قید تو �یک مشرقی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ �یک

آ�پ �پنا گلہ گھونٹ لے کہ یہی �یک مشرقی روح ہے تو کسی کی �مانت ہے عزت �ور شر�فت کے د�ر پر چڑھ جا

شریف لڑکی کا شیوہ ہے ‘‘ عقل �ور دل کی جنگ کے درمیان ر�حیلہ کی روح کے سناٹے چیخ پڑے وہ دوڑتی

ہوئی �پنے کمرے میں گئی درو�زے �ور کھڑ کیاں بند کئے �ور �پنی شادی کا �لبم لیکر بیٹھ گئی وہ تصو یریں

آ�نکھوں سے جھرنے بہہ رہے تھے وہ روتے روتے ہنس پڑی �ور ہنستے ہنستے رونے لگی پھر دیکھتی رہی �س کی

�چانک چلا �ٹھی ظفر تم کہاں ہو ؟ کہاں ہو ظفر ؟ ظفر !وہ درو�زہ کھول کر باہر نکلی �ور چلاتی ہوئی پورے گھر

میں �سے تلاش کر رہی تھی گھر کے لوگ حیر�ن پر یشان �س کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ کسی نے پو چھا

آ�پ لوگوں نے نہیں کہاں دیکھا ہے تم نے ظفر کو ؟‘‘ وہ �بھی �بھی میرے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کیا

دیکھا ؟ کہاں چلے گئے وہ ؟

آ�نکھوں سے وحشت سی برس رہی تھی ظفر کی بہن نے �سے پکڑ کر جھنجھوڑ ��ور کہا ر�حیلہ کی سوجی ہوئی

آ�یاہی کب تھا ؟ کیا دیو�نی ہو گئی ہو ؟ دیو�نی ؟ ’’ہاں میں دیو �نی ہو گئی ہوں پاگل ہو گئی ہوں مجھے مارو ظفر

آ�ؤ �تنے تو سنگ دل نہ بنو تم نے مجھے محبت کے جذبہ سے جلا دو سنگسار کر دو !ظفر کہاں ہو میرے سامنے

آ�شنا کیا �ور میں نے تمہیں �پنا مسجو دبنا لیا تمہاری محبت کے سائے میں جینا چاہتی تھی گھونٹ گھونٹ

کرزندگی کا �مرت رس پینا چاہتی تھی۔ تم نے مجھے تشنہ لب چھو ڑ دیا میرے وجو دمیں چنگا ریا بھر دیں

آ�جاؤ نا!‘‘وہ آ�بھی جاؤ ظفر جد�ئی کے ریگستان میں تنہا چھوڑ دیا �ب میں کہاں جاؤں ؟ تمہیں کہاں ڈھونڈوں ؟

Page 116: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�ج آ�و�ز میں مد غم ہو رہی تھی۔ شام غم کی قسم ہذیانی �ند�زمیں چلا رہی تھی �ور بانسری کی دھن �س کی

آ�ج میرے صنم آ�بھی جا آ�بھی جا !!تنہا ہیں ہم

*****

Page 117: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

مسیحا تل قا

ہوں گنہ گار بخد� ! مجھکو سز� دی جائے ‘‘’’

ہاتھ �ٹھا کر مرے قاتل کو دعا دی جائے

برق کی زد میں رہے جس کی بدولت گلشن

نخ نشیمن ہی جلادی جائے کیوں نہ وہ شا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�ئی ٹیک لگا کر گہری گہری وہ ہارے ہوئے جو�ری کی طرح سرجھکائے شیشے کی کرچیوں پر چلتی ہوئی کارتک

آ�گے سجدہ ریز ہوکر ز�رو قطار رونے لگی۔ سانسیں لیتی رہی گھر کیسے پہنچی �سے یاد نہیں وہ �پنے مالک کے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

�پنے کمرے کی کھڑ کی کھولے جانے وہ کب سے چا ند پر نظریں جمائے کھڑی تھی جیسے چا ند میں کسی

کو تلاش کر رہی ہو زندگی کی ناؤ کو بیچ منجدھار چھوڑ کر ما نجھی کہیں گم ہو گیا تھا سفید سوٹ زیب تن

کئے وہ چاندنی کا �یک حصہ لگ رہی تھی شوہر کا مضبوط سا ئبان سر سے ہٹنے کے بعد �نجم کو تنہائی کا شد

ید �حساس ہو� وہ �کلوتی تھی و�لدین کے بعد وہی تو �س کا سب کچھ تھا چاندنی ر�تیں �سے بھی پسند تھیں وہ

آ�ج زندگی �ماوس کی �یسی �ندھیری ر�ت �کثر لا نگ ڈر�ئیو پر نکل جاتے ڈھیرسار� وقت کیسے گزرگیا پتہ ہی نہ چلا

لگ رہی تھی جسکی سحر جیسے کبھی نہ ہو گی۔ تنہائی کے گھنے جنگل میں پا پیا دہ چلتے ہوئے �یک سال

Page 118: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�سائش کی کوئی چیز �یسی نہ تھی جو �سے میسرنہ ہو شو ہر نے بیرونی ممالک آ�ر�مو �یک صدی بن کر گزر� تھا۔

آ�ج ہی تو میں بر سوں محنت کی �ور �س کے قد موں تلے دولت بچھا دی تھی یہی دولت وبال جان بن گئی تھی

آ�یا کرتے تھے �س کے ماموں دنیا کے سر دوگرم سے و�قف کرو� رہے تھے وہ جو ماں کی زندگی میں بھولے بھٹکے

�چانک �نکے دل میں محبتو ہمدردی کا طوفان کیسے �مڈپڑ �؟ کہہ رہے تھے ’’ بیٹا جو�ن عورت کا تنہا زندگی

گز�رنا معیوب سمجھا جاتا ہے میں تمہارے غم میں شریک ہوں �سلئے بار بار سمجھا رہا ہوں کہ تم میرے بیٹے سے

آ�خر ہم تمہارے عقدثانی کر لو گھر کی بات گھرہی میں رہیگی تمہاری تنہائی �ور ہماری پریشانی دور ہوجائے گی

‘‘ �پنے ہیں۔

کچھ دن پہلے چچانے بھی �یسی ہی بات کہی تھی و�لد صاحب کے بزنس پار ٹنر تھے �نھوں نے بڑ �دھو کہ دیا

�سی غم میں و�لد بیمار ہوئے �ور چل بسے �نجم �چھی طرح سمجھ رہی تھی کہ �ن ہمدردیوں کے پیچھے کو نسا

جذبہ کا رفرما ہے۔ �پنی تنہا ئیوں سے پیچھا چھڑ �نے کے لئے وہ �کثر کار لیکر نکل جاتی سٹرکوں پر بے مقصد

آ�نے جانے و�لوں کا تماشہ دیکھتی رہتی بچے بوڑھے �ور گھو متی �ور تھک جاتی تو کسی بس �سٹا نڈ پر بیٹھ کر

آ�ج ہی �نھیں �پنی منزل کو پانا ہے کل کس نے دیکھا ہے کل جو�ن سب �پنی �پنی دھن میں رو�ں دو�ں تھے جیسے

جانے کیا ہو نے و�لا ہے۔ �نہی مسافروں میں �یک دن شبا نہ مل گئی مختصر سی ملاقات دوستی میں بدل گئی

ا�سی �ند�ز میں آ�نے سے �نجم کا کچھو قت �چھا گزر جاتا شبانہ نے بھی آ�نے جانے لگی �س کے تھی وہ �کثر گھر

سمجھا نا شروع کیا جس �ند�ز میں ماموں �ور چچا نے سمجھا یا تھا ’’ بھئی �نجم �بھی تمہاری عمرہی کیا ہے

پنتیس سال میں تو زندگی شروع ہوتی ہے تمہیں چاہئے کہ �پنی جو�نی �ور دولت کا نگہبان کسی شریف �ور تعلیم

یا فتہ بندے کو بنا ہی لو ‘‘۔ ’’ نہیں شبانہ !�س دنیا میں کسی شریف �ور نیک بندے کا مل جانا شاید ممکن

آ�ج کا �نسان خودغرض �ور لا لچی ہو گیا ہے �یسا کوئی سچا ہمد رد �ور پاسباں نہیں ہے جسکے سینے پر نہیں

آ�ہ بھر کر جو�ب دیا ’’�یک بار�شتہاردینے میں کیا قباحت ہے ہو سر رکھکر �پنے دکھ بھول سکیں ‘‘ �نجم نے سرد

جائے ‘‘۔ سکتا ہے تمہا ر� خیال غلط ثابت ہو

Page 119: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

شبانہ نے زبر دستی �شتہار دیدیا۔ �یک ہفتہ کے �ندر سوسے زیادہ �سم نو سیاں فوٹوز کے ساتھ پہنچ گئیں �نجم

آ�رزومند تھے پتہ نہیں یہ سب �پنی �پنی بیویوں سے حیر�ن تھی کہ �تنے سارے مرد �یک متمول بیوہ سے نکاح کے

کیوں علحدہ ہو گئے �نکی بیویاں کیسے جی رہی ہونگی باپ کی شفقت سے محروم سسکتے بچے بھی ہونگے۔

آ�ئی ہوئی �سم نو لیسیوں میں سے دو چارکا �نتخاب کر کے شبانہ نے �نھیں گھر پر بلو�یا۔ ۔ ۔ �س کے و�لد نے �نٹر

ویو لیا �ور �یک کو منتخب کیا �ور �نجم سے ملو�دیا سادگی کے ساتھ نکاح کی رسم �نجام پا گئی۔ �س نئی

ڈگر پر چلتے ہوئے �نجم کبھی سوچتی کہ زندگی کا یہ روپ بر �نہیں �سے تحفظ تو ملا �ور کبھی سوچتی کہ �س

کا فیصلہ غلط تو نہیں تھا ؟ �س کے کہنے پر شا کرنے کپڑے کا شوروم کھول لیا تھا جوسال بھر کی محنت کے

بعد چل نکلا وہ �کثر بزنس ٹرپ پر ہفتہ دس دن کے لئے چلا جاتا تھا۔ �نجم نے کبھی ساتھ چلنے کی بات کہی

تو وہ ٹال گیا۔ کچھ دنوں سے وہ محسوس کر رہی تھی کہ شا کرکی محبت �ور و�لہا نہ پن پہلے جیسا نہیں ہے

آ�نے لگا تھا وہ سوچ رہی تھی �فر�ط زر�نسان کو ر�ہ ر�ست سے ہٹا دیتا ہے کہیں �یسا تو نہیں �کثر ر�توں میں دیرسے

کہ وہ غلط دو ستوں میں وقت گز�ر رہا ہوں۔ کوئی �یسا نہیں تھا جس سے بات کر کے وہ �پنی �لجھن سلجھا

آ�نا جا نا بند کر دیا تھا �نجم مضطرب تھی شام سے ملنے کے لئے �پنی کا بجے شبانہ5سکتی شبانہ نے �چانک

رلیکر نکل پڑی �س کے مکان کے قریب پہنچ کر حیر�ن رہ گئی کیونکہ وہاں شا کر کی کار مو جود تھی یہ یہاں

آ�ن پڑ �!؟ مجھے کبھی بتا یا نہیں کہ �س سے کیا کر رہے ہیں �نھیں تو بزنس ٹور پر جانا تھا شبانہ سے کو نسا کام

ملتے ہیں !! �نجم کے بدن میں چنگا رہاں سی بھر گئیں جنکی تپش �س کے دماغ کو �پنی لپیٹ میں لے رہی

آ�گے بڑھی مکان کی کھلی کھڑ کی کے پاس پہنچ کر رک گئی تھی وہ معا ملے کی گہر �ئی تک پہنچنے کیلئے

آ�و�ز صاف سنائی دے رہی تھی ’’ شبانہ میں نے کہانا کہ �س سے جلد ہی پیچھا چھڑ �لوں گا ہم نے شا کر کی

�پنے منصو بے کو پا یۂ تکمیل تک پہنچا نا ہے تمہیں نے تو مجھے یہ ر�ستہ سمجھا یا تھا ذر� صبر کر لو جلدی

کرنے میں ہمار� کام بگڑ سکتا ہے �ب وہ مجھ پر مکمل بھروسہ کرنے لگی ہے بزنس بھی �چھا چل رہا ہے میں نے

تمہارے �ور بچوں کے نام پر معقول رقم جمع کرو�دی ہے �ور ‘‘۔ ۔ ۔ ’’ تم نے تو کہا تھا کوئی �یسی چال چلو

گے کہ ہم بہت جلد� سکی جائید�ر�ور بینک بیلنس کے ما لک بن جائیں گے ؟ �ب مجھ سے برد�شت نہیں

Page 120: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�گے نہ سن سکی �س کے �عتماد کو شدید جھٹکا لگا جو بجلی کے جھٹکے سے زیادہ ہوتا !‘‘ �نجم �س سے

آ�ئی۔ ٹیک �ذیت ناک تھا وہ ہارے ہوئے جو�ری کی طرح سرجھکائے شیشے کی کر چیوں پر چلتی ہوئی کا رتک

آ�گے سجدہ ریز ہوکر ز�رو لگا کر گہری گہری سانسیں لیتی رہی گھر کیسے پہنچی �سے یادنہیں وہ �پنے مالک کے

آ�نسو صاف کئے �ور �یک فیصلہ کر کے �ٹھی وہ بے بسی �ور مجبوری کو قطار رورہی تھی بہت دیر بعد �س نے

گلے لگا کرجینا نہیں چاہتی تھی �سے عورت کی بزدلی �ور بے چارگی سے نفرت سی ہونے لگی وکیل سے صلاح

مشورہ کے بعد �س نے دوکان �ور مکان کو مقفل کر دیا۔

آ�خری پیشی پر عد�لت کا کمرہ دوسرے دن شا کر �ور شبا نہ پر دھوکہ و غبن کا مقد مہ د�ئر کر دیا۔ پیشیاں چلیں

کھچا کھچ بھر �ہو� تھا �ور شا کر بیان دے رہا تھا ’’ می لارڈ!�وپر و�لے کی عد�لت سے مجھے کیا سز� ہو گی

�بتا آ�پکا فیصلہ کیا ہو گا دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں �پنی زندگی کے حالات مختصر آ�پکی عد�لت میں نہیں جانتا میں

نے کی �جازت چاہتا ہوں !می لارڈ !میرے و�لدسرکاری دفتر میں کلرک تھے ہماری مالی حالت مستحکم نہیں تھی

ماں کی زبردستی سے میری شادی جلدی کر دی گئی میں دو سال میں دو بچوں کا باپ بن گیا �خرجات بڑھ گئے

و�لدصاحب �ور میں دونوں مل کرزندگی کا بھرم نبھا رہے تھے۔ می لارڈ!�یک تعلیم یافتہ نو جو�ن کو ملازمت نہ

ہو، بیرون ملک جانے کے لئے پیسہ نہ ہو، گزر بسر مشکل ہو گئی ہوتو وہ کیا کرے ؟ میں �س دنیا سے �پنی ملتی

آ�پ سے بیز�رتھا �پنے خد� سے خفا تھا �سی دو ر�ن میری بیوی شبانہ کی دوستی �یک دولت مند بیوہ تقدیرسے �پنے

�نجم سے ہو گئی �ور ہم نے �یک منصوبہ بنایا �ور �سے عملی جامہ پہنا دیا۔ می لارڈ !معاشی نا ہمو�ری نے ہمارے

وطن کے نو جو�نوں کو�رز�ں کر دیا ہے چوری ، ڈ�کہ ، �غو�، �ور قتل جسیے گھنا ؤ نے جر�ئم کے ذریعہ دولت

الوٹے ہوئے �ور سمیٹنے میں کوئی قباحت نہیں رہی مردتو مرد عورتیں بھی �س مید�ن میں �تر چکی ہیں تقدیر کے

دلوں کے ٹوٹے ہوئے میری طرح کے لوگ قانون سے کھیلنے لگے ہیں۔ میں نے �یک چھوٹا سا دھوکہ یہی دیا ناکہ

�پنی پہلی شادی �ور بیوی بچوں کی موجودگی کا �ظہار نہیں کیا۔ میں نے �یک بیوہ کو سہار� دینا �ور �پنے بھی

خاند�ن کو سنبھا لنا چاہا۔ بزنس میں بہت محنت کی �ور دونوں بیویوں کو فائدہ پہنچا یا �ب دونوں میں سے جو

Page 121: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�پکے ہاتھ بھی میرے ساتھ رہنا چاہے رہ سکتی ہے دونوں مل کر رہنا چاہیں تو مجھے بخوشی منظورہے �ب فیصلہ

میں ہے مجھے �ور کچھ کہنا نہیں ہے ‘‘ شا کر خاموش ہو� تو عد�لت میں دبادبا ساشور گو نج �ٹھا۔ شبانہ �نجم

ا�ف! خد� ھذیت کا �یک خنجر ساسینے میں �ترتا محسوس کیا۔ کی طرف چورنظروں سے دیکھ رہی تھی �نجم نے �

وند ! کون کہتا ہے کہ شیطان سے ڈر لگتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

!!

*****

Page 122: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آارزو پشیمان

میری درماندہ جو�نی کی تمناؤں کے

مضمحل خو�ب کی تعبیر بتا دے مجھ کو

تیرے د�من میں گلستاں بھی ہیں ویر�نے بھی

میر� حاصل! مری تقدیر بتا دے مجھ کو

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تم جو�ن ہو زمانہ بر� ہے عورت کے دو ہی سائبان ہوتے ہیں �یک تو باپ کا �ور دوسر� شوہر کا، جب یہ دونوں’’

سہارے نہ رہے تو بہتر ہو گا کسی شریف بندے کو زندگی کا ساتھی بنالو ورنہ یہ زمانہ جینے نہیں دے گا‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�ج ہی آ�ج کچھ مضطرب �ور مضمحل تھی گزشتہ سال �سی مہینے آ�ئی تھی وہ �پنے بیوٹی پارلرسے فرح تھکی ہوئی

کی تاریخ �س کی شادی ہوئی تھی۔ خو�ب �ور حقیقت کی سنگلاخ چٹان پر بیٹھی �س ر�ت کے فیصلے کے

آ�تی ہے �ور بڑی سج بارے میں سوچ رہی تھی وہ ر�ت �س کی سہاگ ر�ت تھی جوہر لڑکی کی زندگی میں �یک بار

آ�تی ہے جسکا ذکرزندگی کی کتاب میں سنہری حرفوں میں لکھا جاتا ہے۔ شب آ�ن بان کے ساتھ دھج �ور

Page 123: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

عروسی کے عطر بیز خوشگو�رلمحے دلہا �ور دلہن کی زندگی کا �ثاثہ ہوتے ہیں جسے بنیادبنا کروہ �پنے خو�بوں کا

محل تعمیر کرتے ہیں �ور �س محل میں �یک ساتھ جینے �ور مرنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں لیکن فرح کی

شب عروسی دل �ور دماغ کے لئے مید�ن کا ر ز�ربن گئی تھی۔

شادی �س کی مر۔ ضی کے خلاف ہوئی تھی۔ �س کی �ولین خو�ہش تھی کہ ہمسفر �علی تعلیم یافتہ �ور ڈیشنگ

پر سنالٹی کا مالک ہو �سے کا لے رنگ کے مرد دبلے پتلے �چھے نہیں لگتے تھے �س کے و�لدین �ور بھائی نے یہ

آ�خر کو وہ �نجینئرہے دولت �س کے گھر کی باندی ہو گی جہاں کہکر چپ کر�دیا تھا کہ رنگ کم ہے تو کیا ہو�

آ�و�ز میں جو�ب دیا تھا ’’ کیا صرف بھی پاؤں مارے گا سوکھی زمین سے چشمہ �بل پڑے گا �س نے روہانسی

�نجنئیرہی �پنے خاند�ن کو �چھی زندگی دے سکتا ہے کیا باقی سب مرد �پنے بیوی بچوں کو ننگا بھو کا رکھتے

آ�ئے بلکہ سفید بر�ق ہیں ؟ �س کی دو سری خو�ہش تھی کہ دلہاکسی بند کا رمیں پھو لوں سے ڈھکا چھپا نہ

گھوڑے پر سو�ر کمر میں تلو�ر لگائے ہلکے پھلکے پھول پہنے ہوکہ دیکھنے و�لے �سے دیکھکر مرعوب ہو جائیں �س

نے جب سے ہوش سنبھالا تھا تب ہی سے �پنے خو�بوں کے شہز �دہ کا یہی تصور �پنی پلکوں پہ سجار کھا تھا۔

آ�ج نئی کا روں کی سج دھج ہی �ور ہوتی آ�یا کرتے تھے بھائی بہنوں نے کہا کہ پر�نے زمانے میں دلہا گھوڑے پر

آ�نکھوں سے دلہا کو آ�ہستہ سے �س کا گھو نگھٹ �لٹا تو �سی لمحہ �س نے بھی �دھ کھلی ہے۔ جب دلہا نے

دیکھا کس قدر کرب �نگیز تھا وہ لمحہ جو� سکے سینے میں بر چھی بن کر�تر گیا �ور ساری زندگی پر محیط ہو

آ� رہے تھے �س آ�نکھیں �ور د�نت نظر گیا �س نے سنا تھا کہ دلہا کا رنگ کم ہے لیکن یہاں تو صرف دوسفید

چہرے کے ساتھ زندگی کیسے بسر ہو گی زندگی تو بسر کرنے کے لئے ہوتی ہے گز�رنے کے لئے نہیں !� سکے

آ�ئے ‘‘ دلہن آ�پ پسند نہیں آ�نکھیں بندکر لیں �ور کہا ’’ آ�ہستہ سے خو�بوں کا محل ٹوٹ کربکھر گیا تھا �س نے

کا یہ پہلا جملہ پہلی ر�ت ! دلہا حیرت زدہ رہ گیا �پنی �نا کو مجروح ہوتے برد�شت نہ کر سکا �ور �ینٹ کا جو�ب

آ�ئیں میں تم سے شادی کے لئے ر�ضی ہی نہیں تھا تمہارے پتھر سے دیا ’’ مجھے بھی تم بالکل پسند نہیں

و�لدین کی لچھے د�رباتوں �ور دولت کی چمک دمک نے میرے و�لدین کی عقل کو ماؤف کر دیا میرے �نکار پر

Page 124: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ماں نے دودھ نہ بخشنے کی دھمکی دیدی �سطرح میں پابہ زنجیر کر دیا گیا لیکن �س زنجیر کو تو ڑ نا میرے لئے

مشکل نہیں ہے ‘‘ کہتا ہو �وہ کمرے سے باہر نکل گیا جشن طربو مسرت ما یوسی کے کربو �ذیت میں بدل گیا

آ�ئیں �ور برس پڑیں ’’ سہاگ کی �دھ کھلی کلیاں مر جھا نے لگیں۔ کچھ دیر بعد دو تین خو�تین دندناتی ہوئی

آ�ئے ہوئے دو گھنٹے نہیں گزرے �پنے مجازی خد� کو �یسی و�ہیات و�ہ کیا تربیت کی ہے و�لدین نے کہ سسر�ل میں

آ�پ کو �فلاطوں سمجھ لیا �یسی کیا حور پری ہوکہ ہمارے باتیں سنادیں ‘‘؟!چار حروف کیا پڑھ لکھ گئی کہ �پنے

آ�و�رہ �ور بد چلن لڑکیاں ہی �پنے ماں باپ کا نام ڈبوتی ہیں کوئی �ور پسند بچے کے عیب نکال لئے تم جیسی

آ� گئی ؟ بھاگ جاتی �سی کے ساتھ ! دفع ہوجا یہاں سے ‘‘۔ ۔ ۔ تھا تو یہاں بیاہ کر کیوں

ہز �روں دنوں کی طرح �س دن بھی سورج طلوع ہو� تھا لیکن کتنا �د�س تھا وہ دن ، جیسے ر�ت کوئی بھیانک طو

آ�یا تھا �ور �پنے ساتھ سب کچھ بہالے گیا۔ ر�ت وہ سجی سنوری دلہن تھی صبح �س کے چہرہ پر �یک بیوہ فان

آ�خر آ�نکھیں ویر�ن ہونٹ خشک �ور �جڑی ہوئی مانگ۔ وہ �پنے فیصلے پر نا دم نہیں تھی۔ کی سی �د�سی تھی

آ�ج لڑکے و�لے سوسولڑکیاں دیکھ کر�یک کا بھی لڑکیوں کو بھی تو�پنا جیون ساتھی پسند کرنے کا حق ہے ،

�نتخاب نہیں کرتے کیا �ن کے بیٹوں میں سرخاب کے پر لگے ہوتے ہیں ؟ لڑکی پسند کرنے ، ہمہ �قسام کا سامان

مانگنے سونا چاندی بنگلہ گاڑی مانگنے کا حق �نھیں کس نے دیا ؟ کیا ہمارے �پنے جذبات نہیں ہیں کیا ہمارے

سینوں میں حساس دل نہیں ہے ؟ کیا ہم �علی تعلیم یا فتہ نہیں ہیں ؟

�سی طرح وہ �پنے بھائی بہنوں سے �لجھ پڑتی دل برد�شتہ و�لدین سمجھا تے کہ کوئی ماں باپ �پنی �ولاد کا بر�

نہیں چاہتے پال پوس کر�سے گڑھے میں نہیں دھکیلتے لڑکیوں کا کام ہے کہ �پنے مقدر پر شا کر رہیں �ور زندگی

کے ساتھ سمجھوتہ کریں لیکن تم نے پہلا قدم ہی غلط �ٹھایا �ور ساری بسا ط ہی �لٹ دی �س زمانے میں لڑکی

کی شادی ہو نا ہی �یک مسئلہ ہے کسی مطلقہ کی دوسری شادی �ور بھی بڑ �مسئلہ ہے !تم نے ہمیں کسی کو

منہ دکھانے کے قابل نہیں رکھا �ب کیا کریں ؟

Page 125: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�پ لوگ کب تک زمانے سے ڈرتے ڈر�تے رہیں گے کیا زمانہ صرف ہمارے پیچھے پڑ � ہے �ور وں کو دیکھیں �پنی’’

زندگی میں کسقد رمست وبے خودہیں ‘‘ ماں نے سمجھا یا ’’ کوئی بھی مست وبے خود نہیں ہوتا ہر �یک کا �پنا

‘‘ دکھ �لگ �لگ ہوتا ہے �علی ظرف �ور سمجھد�ر لڑکیاں �پنے دکھوں کو ہنس کرجھیلتی ہیں

ماں نے جیسے تیسے دوسری بیٹی کی شادی کر دی ورنہ فرح کی طلاق کی خبر عام ہونے پر سارہ کی شادی ہونا

مشکل ہوتی۔

فرح کو طلاق لئے ہوئے دس سال گزرچکے تھے وہ �پنی عمر کے تیسرے دہے میں تھی و�لدین نے بہت کوشش

کی �س کی دوبارہ شادی کر دیں لیکن کوئی ڈھنگ کالڑکا نہیں ملا کبھی کسی �چھے خاند�ن کے �چھے لڑکے

آ�تا تو�ن کا مطا لبہ صرف کنو�ری لڑکی کا ہوتا یا پھر �علی عہدہ پر فائزملازم یا کم �زکم ٹیچر کا خو�ہش مند کا رشتہ

ہوتا یا پھر کسی کو سعودی یا �مریکہ کا ویز �چاہئے تھا فکروتردو �ور �پنے پر�ئے کے طعنوں نے و�لدین کی صحت

کو دیمک بن کرچاٹ لیا بھا ئیوں نے تنگ �کر �پنا �پنا گھر بسا لیا فرح بھا وجوں کی نظر میں ذلیلو خو�ر ہو گئی

آ�نکھیں پھیر لیں رشتے د�روں نے بھی دوری �ختیار �سی غم کو سینے سے لگائے و�لدین چل بسے۔ بھا ئیوں نے

آ�نٹی نے ہمدردی جتا تے ہوئے کہتیں ’’تم کرلی شوہر و�لی عورتیں �پنے شوہروں پر نظر رکھنے لگیں۔ پڑ وس و�لی

جو�ن ہو زمانہ بر� ہے عورت کے دو ہی سائبان ہو تے ہیں �یک تو باپ کا دوسر� شوہر کا جب یہ دونوں سہارے نہ رہے

تو بہتر ہو گا کہ کسی شریف بندے کو زندگی کا ساتھی بنالو ورنہ یہ زمانہ جینے نہیں دے گا ‘‘ پھر وہی زمانے

ا�س گھر �ور شہر کی بات ! زمانے سے ٹکر لینے کے لئے وہ و�لدین سے ملی ہوئی کچھ رقم بینک سے نکال کر

آ�رزوئیں حسرتوں میں بدل گئی تھیں جہاں خو�بوں کے �دھ کھلے گلابوں کو کو خیر باد کہہ دیا جہاں �س کی

نوچ کرپھینک دیا گیا تھا �پنوں سے بہت دور �یک نئی بستی بسا نے وہ نا معلوم منزل کی طرف چل پڑی وہ نہیں

آ�فتیں �رد گرد منڈلاتی رہتی ہیں �ور قدم قدم چہرے دھوکہ دے جا تے ہیں۔ �س نے جانتی تھی کہ �س عمر میں

یی �ور جدید قسم کے ملبوسات کا دیدہ زیب ’’فرح بیوٹی پارلر ‘‘ کے نام سے شاند�ر بیوٹی پارلر کھول لیا جہاں �عل

آ�ز�دی خود کلکشن بھی رکھا۔ بہت کم عر صہ میں �س کا بیوٹی پارلر خاصو عام کی توجہ کا مر کزبن گیا۔

Page 126: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ� گئی آ�ج �چانک کہیں سے �س کی بہن سارہ مختاری �ور پیسے کی ریل پیل نے �سے مست بے و خود بنا دیا

آ�پا تم نے یہ کیا کیا؟ زندگی کو کھلونا بنا دیا کیوں ؟ تم نے یہ ر�ستہ کیوں �ختیار کیا؟ بیوٹی پارلر �ور بو تیک کی ’’

حد تک ٹھیک تھا لیکن تم نے �شتہاری فلموں میں بھی کام کر نا شروع کر دیاخاند�ن کی عزت کا تو پاس لحاظ

کیا ہوتا‘‘

خاند�ن ؟ خاند�ن نے مجھے کیا دیا ہے ؟ �ب میں زندگی کو کھلو نا بنا کر کھیلنا چاہتی ہوں ہر دور ہر زمانے’’

میں عورتوں کی زندگی کوکھلونا ہی تو بنا یا گیا ہے زندگی کے باز�رمیں �سے خرید� �ور بیچا گیا ہے �ور جب دل

چا ہا توڑ دیا گیا! مرد جب تک �ور جس طرح چاہتے ہیں عورت سے فا ئدہ �ٹھا تے ہیں �ور پھر کسی �نجانے مو ڑ

پر بھٹکنے کے لئے چھوڑ جاتے ہیں ہم سے ہمارے حقوق کے ہتیار چھین کر ہمیں نہتا کر دیتے ہیں �خلاقی

ضابطوں ، شرعی بندشوں �ور معاشرتی بندھنوں نے ہمیشہ عورت ہی کو جکڑے رکھا پھر کیوں نہ ہم �پنی زندگی

آ�پا ہوش کے ناخن لو تم بڑی ہو میں تم سے سے کھل کر کھیلیں گھٹ گھٹ کر کیوں مریں ؟ بولو ؟جو�ب دو؟’’

آ�دمی کا ہاتھ کوئی بحث کر نا نہیں چاہتی صرف �تنا کہنا ہے کہ �ب بھی تم �پنا گھر بسا سکتی ہو کسی بھلے

تھام کر سکون کے ساتھ زندگی گز�رو تم معاشرہ سے ٹکر نہیں لے سکتیں تم �یک دن جیت کر بھی ہار جاؤگی‘‘

کیا میں نے گھر بسا نا نہیں چا ہا تھا ؟ مجھے تھامنے کے لئے کتنے ہاتھ میری طرف بڑھے کتنے تھے بتاؤ؟ میں’’

نے زہر کا پیالہ منہ سے لگا لیا ہے جو عورت گھر کی چاردیوری پھاندکر زمانے سے لڑنے کے لئے باہر نکل جاتی ہے

�سے �س بات کی پرو�ہ نہیں رہتی کہ ر�ستے میں ر�ہبر ملے گا یا رہزن ! نفع ونقصان کا فر ق بھول جاتی �ور

زندگی سودے بازی میں گزر جاتی ہے ! مجھے میرے حال پر چھوڑ دو میں ڈ�لی سے گر� ہو �پھول ہوں جو�ب

کبھی ڈ�ل سے نہیں جڑ سکتا‘‘ سارہ �س سے لپٹ کر رونے لگی۔

*****

Page 127: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

پائی سزا نے صدیوں

ہرطرف بکھری ہوئی ہیں خو�ہشوں کی کرچیاں

شام کی دہلیز پر �ب ر�ت کا منتظر ہوں میں

آ�ئینے ہر طرف ٹوٹے پڑے ہیں خو�ہشوں کے

وقت کے �حساس کا نشترہوں میں پھر بھی طالب

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�و� زڈوب رہی تھی وہ لیٹ گئی تب ہی ڈ�کو نے کچی دیو�ر میں نقب �س پر غنود گی سی طاری ہونے لگی تھی

لگا دی �یک نا د�ن نے �پنا قیمتی موتی �نجا نے میں گنو� دیا وہ �نمول تحفہ جو ہر لڑکی شب عروسی �پنے دولہا کو

پیش کرتی ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�ہستہ بڑھ رہی تھی مو سم خو شگو�ر ہو گیا تھا �ور صبیحہ کے آ�ہستہ �کٹو بر کا مہینہ ختم ہو رہا تھا۔ سردی

آ�نکھوں میں آ�ئے آ� رہا تھا تیر ہو�ں سال �بھی شروع ہو� تھا۔ �س کے جسم پر گل بوٹے �گ چہرے پر نیا نکھار

ستارے جھلمل کر رہے تھے گال سیب جیسے ہو رہے تھے ہو نٹوں سے �نگور کا رس ٹپکنے کو تھا نئے �رمان

جاگ رہے تھے �ر زوئیں �نگڑ �ئیاں لے رہی تھیں۔ بات بات پر مسکر�ہٹوں کے پھول گر�تی صبیحہ عمر کی �س سر

Page 128: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

حد میں د�خل ہو رہی تھی جہاں پہنچ کر عام طور پر لڑکیاں صحیح ر�ستے کا تعین نہیں کر پاتیں نہیں جا نتیں

کہ �س ر�ہ پر پھول ہیں یاکانٹے کھائی یا چڑھائی ! �س بات کا بھی �ند�زہ نہیں لگا سکتیں کہ ر�ہبر کون ہے �ور

کون رہزن ہے۔ صبیحہ میڑ ک کی طا لبہ تھی پڑھائی میں �س کا دل نہیں لگتا تھا لنچ ٹا ئم میں �پنی دوست �سر

یی سے

آ�ج کیا ہو� ؟ یی جانتی ہو گپ بازی میں مصر وف تھی ’’�سر

آ� رہی ہو’’ !کیا ہو� بھئی بڑی خوش نظر

ہمارے ڈر�ئیور شابی نے دولڑکوں کی پٹائی کر دی دو تین دن سے وہ لڑکے �پنی کار میں ہمار� پیچھا کرتے ہوئے

آ�ج شابی نے �ن کی کارکو روک لیا �ور �نھیں با ہر کھینچ کربہت مار� وہ بالکل فلمی آ� رہے تھے �سکول تک

آ�یا ‘‘تم �پنے ڈر�ئیور کی �تنی تعر یف کر رہی ہو ؟ میں نہیں مانتی کہ �سے تم سے ہیرو جیسا لگ رہا تھا بہت مز�

�سقدر ہمدردی ہو گی کہ وہ �پنی جان کا خطرہ مول لے !�پنے ہی جیسے کسی ڈر�ئیور کو پٹی پڑھا دی ہو گی کہ

وہ تمہاری کارکا پیچھا کرے �ور �س کی مار پٹائی بھی بر د�شت کر لے جا نے �سے کتنی رقم دی ہو گی �ور

خودتمہاری نظر میں ہیرو بن گیا �یسا بھی تو فلموں میں ہی ہوتا ہے نا ؟

ہاں ہوتا توہے لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’

‘‘ صبیحہ تم یہ فلموں �ور ٹی وی سیر ئیلس کا چکر چھو ڑو �ور �متحان کی تیاری شروع کر دو’’

تم تو با لکل د�دی جان کی طرح نصیحتیں کرنے لگتی ہو کبھی تم بھی فلم �ور ٹی وی کا مزہ لے کر دیکھونا’’

آ�یا کہ تمہارے ممی پا پا نے تمہیں فلم �ور ٹی وی دیکھنے ‘‘صبیحہ نے شوخی سے کہا ’’میری سمجھ میں نہیں

کی �جازت کیسے دے رکھی ہے ؟‘‘

Page 129: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

�ن کی بات چھوڑو �نھیں ہماری طرف دیکھنے کی فر صت ہی کہاں ہے پا پا �پنے کاروبار میں حیر�ن ،ممی �پنی’’

سہلیوں ، پارٹیوں یا پھر رشتے د�روں میں مصروف �ور عامر بھائی کو �پنے دوستوں سے فرصت نہیں میں ٹی وی �ور

�نٹر نیٹ سے �پنی دل بہلائی کر لیتی ہوں تو کیا بر� کرتی ہوں ؟ ‘‘صبیحہ رو ہانسی ہو رہی تھی۔

�ب تم �س مصرو فیت کو ختم کرو �متحان سر پر ہے یہ ہمار� میٹرک کا سال ہے نا ہمیں پاس ہونا ہی ہے �ور’’

آ�گے پڑھنا ہے ‘‘

آ�گے نہیں پڑھایا جاتا �متحان میں پاس ہوں’’ مجھے کہاں پڑھنا ہے ہمارے خاند�ن میں لڑکیوں کو میٹر ک کے

یافیل بس شادی کر دی جاتی ہے میری تعلیم سے کسے خوش ہونا ہے �بو نے تو کبھی ہماری رپورٹ دیکھی نہ

تعلیمی حالت پر غور کیا ، �ور �می میری تعلیم کی طرف کیا توجہ دیتیں وہ تو ہمارے کھانے پینے کا تک خیال

نہیں رکھتیں بس نوکروں نے جو پکادیا جب دیدیا کھالئے بس !صبیحہ کے لہجہ میں �د�سی گھل رہی تھی ’’تم تو

آ�ج مسلمان ہر مید�ن میں کیوں پیچھے ہیں محض تعلیم کی کمی نے ترقی �ور خوش حالی کے جانتی ہو نا کہ

آ�ج لنچ نہیں لے سکے چلو کلاس کی طرف چلتے ہیں ٹائم ہو درو�زے ہم پر بند کر دئے ہیں ، تمہاری باتوں میں

گیا ہے۔ ‘‘

ظفربیگ کا تعلق �وسط گھر �نے سے تھا برسوں �گر بتی کے کارخانہ میں بطور لیبرکام کیا تھا دس سال پہلے �پنا

�لگ کا روبار شروع کیا بہت کم عرصہ میں وہ �یک بنگلے �ور کار کے مالک بن چکے تھے۔ �پنے لڑکے عامر �ور

لڑکی صبیحہ سے بہت پیار کرتے تھے بچوں کی ہر فرمائش پوری کرنا �پنا فرض سمجھتے تھے۔ پیسے کی پر و�ہ نہ

آ�نکھوں کوچکا چوند ھ کر دیا وہ پچھلا وقت بھول تھی۔ سونے چا ندی کی چمک نے �ن کی بیگم صفیہ کی

آ�ج دو نو کر�نیاں گھر کا کام سنبھال گئی جب صبح سے شام تک گھر کے سارے کام نپٹا کرتھک جاتی تھی۔

آ�ج �لکڑ �نک میڈ یا کس طرح رہی تھیں �ور صفیہ �پنی تفریحات میں مشغول رہتی �سے یہ �حساس ہی نہیں تھا کہ

آ�نے و�لے دولڑکوں کو بچوں سے �ن کابچپن �ور معصو میت چھین رہا ہے ماں کو پتہ ہی نہ چلا کہ کارکے پیچھے

مارکر�ن کا ڈر�ئیور بیٹی کی نظروں میں ہیروبن چکا ہے �س کے وجو دپر چھا گیا ہے۔ �یک دن �سکول جلدی

Page 130: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�پ نے میرے گھر کے بارے میں پو چھا تھا چھوٹ جانے پر شہاب �لدین نے صبیحہ سے پو چھا’’صبیحہ بی بی

آ�پکو �پنا گھر بتا دوں ؟ صبیحہ نے خوش ہو کرکہا ’’ہاں ہاں چلو بتادو‘‘ کسی سلم �یریا میں �س نے �یک آ�ج کیا

کمرہ کر�ئے پر لیا ہو �تھا جس سے ملحق چھو ٹا ساکچن وغیرہ تھے قفل کھول کر صبیحہ کو بٹھایا �ور �س کے

آ�یا۔ صبیحہ نے مزے لیکر بسکٹ کھاتے ہوئے پوچھا ’’شابی تم ہمیشہ �د�سرہتے ہو کیا پر�بلم لئے چائے بسکٹ لے

ہے ؟نہ کبھی کوئی بات کرتے ہو نہ ہنستے بولتے ہو ؟

آ�پ بہت چھوٹی ہیں میری �د�سی کی وجہ جان کرکیا کریں گی ؟ آ�پکوکیا بتاؤں بی بی جی

میں �تنی بھی چھو ٹی نہیں ہوں کہ کسی کے دکھ دردکو سمجھ نہ سکوں بتاؤ نا کیا بات ہے ؟ صبیحہ نے

ضدکی۔

آ�پکو معلوم ہے میں �یک گاؤں کا رہنے و�لا ہوں موہن سنگھ کی لاری پر ڈر�ئیور تھا میں �ور میری ماں �یک’’ کیا

چھوٹی سے مکان میں رہتے تھے۔ ہمارے پڑ وس میں �یک خوبصورت لڑکی تھی ہم دونوں �یک دوسرے سے پیار

کرتے تھے لیکن وہ �یک شہری بابو سے بیاہ دی گئی کچھ دن بعد ماں بھی مجھے ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئی میر�

کہیں دل نہیں لگتا تھا گاؤں سے کیا زندگی سے بیز�ر ہو چکا تھا۔ میر� �یک جگری دوست زبردستی مجھے شہر

آ�پکے ہاں کام پر لگادیا‘‘ لایا �ور مالک سے بات کر کے مجھے

�ب تو تم خوش ہو نا ؟ یہاں کسی لڑکی سے شادی کر لو سب ٹھیک ہو جائے گا ‘‘بات کرتے ہوئے صبیحہ ’’

کی زبان لڑکھڑ �رہی تھی جیسے وہ نیند میں ہو۔ ’’مجھ غریب سے شادی کون کرے گا؟ شہاب �لدین کے چہرہ

پر مظلومیت سی چھا گئی �س کی نظریں صبیحہ کے چہرہ پر مرکوز تھیں

میں تمہارے لئے کوشش کروں گی �می سے کہوں گی کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باتیں کرتے ہوئے صبیحہ نے سارے’’

آ�و�ز ڈوب رہی تھی وہ لیٹ گئی بسکٹ کھالئے �ور چائے پیتے ہوئے �س پر غنو دگی سی طاری ہو نے لگی تھی

تب ہی ڈ� کو نے کچی دیو�ر میں نقب لگادی۔ �یک نا د�ن نے �پنا قیمتی موتی �نجانے میں گنو�دیا وہ �نمول تحفہ

Page 131: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

جو ہرلڑکی شب عروسی میں �پنے دو لہا کو پیش کرتی ہے صبیحہ کی دو شیز گی کی کتاب کا پہلاور ق میلا ہو

گیا نیم بے ہو شی کے عالم میں وہ �یک نئی دنیا کی سیر کر رہی تھی۔ بے لگام جو�نی سودوزیاں سے بے خبر کر

آ�خری �یک دوپیریڈس چھو ڑ کر �نجام سے لا پرو�ہ �یک �نجانی شاہر�ہ پر دوڑتی چلی جا رہی تھی وہ �کثرو بیشتر

شہاب کے ساتھ چلی جاتی �ور پھر �پنے ٹائم پرگھر پہنچ جاتی چہرہ کا رنگ نکھر گیا تھا جسم بھر �بھر� لگ رہا

تھا پاؤں تھے کہ زمین پر نہیں پڑ تے تھے چڑھتی عمر کے لحاظ سے کسی نے �س بات کو �ہمیت نہیں دی وقت

دبے پاؤں گزر گیا �متحان شروع ہوئے لیکن صبیحہ �ور ہی پڑھائی میں مصروف تھی لہذ� فیل ہو گئی خاند�نی دستور

کے مطا بق و�لدین کو �س کی شادی کی فکر ہوئی دولت مند گھر �نہ تھا رشتوں کی لا ئن لگ گئی۔ خاند�ن

آ�تے �پنی پسند کا �ظہار کر دیتے لیکن آ�نے لگے جو بھی لوگ �سے دیکھنے کے �ور باہر کے لڑکوں کے رشتے

آ�ئے لوگوں نے دوبارہ �دھر سے کوئی پہل نہ ہوتی �ور بات وہیں پر ختم ہو جاتی۔ چھ ماہ گز رگئے کئی رشتے

آ� صبیحہ کو پسند بھی کیا لیکن کہیں بات نہ بن سکی۔ ظفر بیگ �ور صفیہ بیگم حیر�ن تھے سمجھ میں نہیں

آ�تے عامر بھی فکر مند ہو گیا �س نے رشتے کے لئے �خبار میں رہا تھا کہ لڑکے و�لے �یک بار �کر دوبارہ کیوں نہیں

آ�نے آ�ئے باپ بیٹے نے مل کرچند �یک کا �نتخاب کیا �یک لڑکے و�لوں کو �پنے گھر �شتہار دے دیا۔ کئی رشتے

کی دعوت دیدی تین چار معتبر خو�تین کا رسے �تر کر�ندر چلی گئیں ظفر بیگ �ور عامر کو معلوم ہو �کہ نو شہ

آ�ئے ہیں تو دونوں نے �نھیں ڈر�ئنیگ روم میں بٹھا لیا دور�ن گفتگو معلوم ہو �کہ نو شہ کے کے چھوٹے بھائی بھی

و�لد مرحوم �نکے بچپن کے دوست تھے عامر �ور ر�شد بھی دوستانہ �ند�ز میں باتیں کرتے رہے خو �تین نے لڑکی کو

آ�نے کاکہکر رخصت ہوئیں کئی دن گزر گئے لیکن �ن کی طرف سے کوئی پیغام نہ ملا �دھر پسند کیا �ور دوبارہ

سب تشو یش میں مبتلا ہو گئے عامر نے کہا کہ وہ خود ر�شد سے بات کرے گاکہ حقیقت کیا ہے ر�شد نے بتا یا

کہ لڑکی دیکھنے کے دوسرے ہی دن کسی لڑکی نے فون کر کے بتا یاکہ وہ �س لڑکی کی سہیلی ہے جسے ہم

نے پسند کر لیا تھا �س نے بتایا کہ وہ لڑکی کسی �ور کو پسند کرتی ہے لہذ� ہم �سے �پنی بہو بنا نے کا �ر�دہ ترک

کر دیں۔ عامر حیر�ن سا ر�شد کی طرف دیکھ رہا تھا �س کا چہرہ غصہ �ور پشیمانی سے سرخ ہو رہا تھا وہ

معذرت کرتا ہو� و�پس ہو گیا گھر �کر �س نے پچھلے دو چار لڑکے و�لوں کے فون نمبر لئے �ور فون پر پو چھا کہ

Page 132: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�پ رشتہ تو نہیں کر رہے ہیں لیکن �تنا بتا دیں کہ لڑکی کو پسند کرنے کے باوجود �نجان کیوں ہو گئے کسی نے

وہی بات بتائی جو ر�شد نے بتائی تھی کسی نے بتا یاکہ �یک لڑکے نے فون کر کے بتایا کہ وہ �س لڑکی سے

آ�نے کی کوشش نہ کرے سب کی باتیں سن محبت کرتا ہے �ور لڑکی بھی �سے چاہتی ہے لہذ� کوئی �ن کے بیچ

آ�گ سی لگی ہوئی تھی دل دماغ کو قابو میں رکھتے ہوئے صورت کرعامر پیچو تاب کھاتا رہا �س کے تن بدن میں

حال سے نپٹنے پر غور کر رہا تھا۔

یی کی سالگرہ میں شرکت کے لئے ضدکر رہی تھی۔ کئی دن پہلے �س کے باہر �س دن صبیحہ �پنی سہیلی �سر

آ�نے کی تاکید کر آ�نے جانے پر پا بندی لگا دی گئی تھی۔ ماں نے بمشکل �جازت دی �ور �یک گھنٹہ میں و�پس

دی۔ دیڑھ گھنٹہ گزر جانے پر ماں نے عامر کو سہیلی کے گھر بھیجا۔ شہاب �لدین کے گھر کی طرف سے وہ

یی کے ہاں نہیں گزر رہا تھا کہ �پنی کا رکو وہاں دیکھکر ٹھٹک گیا وہ سوچ رہا تھا کہ شہاب خود گا ڑی لیکر�سر

آ�نے میں دیر ہو گئی �بھی وہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچاوہ شہاب کو فور� وہاں بھیجنا چا ہتا گیا �س لئے صبیحہ کے

آ�ئی وہ کار میں بیٹھ گئی �ور سیاہ تھا �سیو قت صبیحہ شہاب کے گھر سے نکل کر �پنی کا رکی طرف جاتی نظر

آ�ئینے چڑھالئے عامر حیر�ن کھڑ �دور سے دیکھ رہا تھا غصہ کے مارے �س کے جسم پر لرزہ طاری تھا �یک جھٹکے

سے �پنی بائیک �سٹارٹ کی �ور ہو �کے دوش پر سو�ر گھر پہونچا وہ پور ٹیکومیں �یک کرسی پر بیٹھ گیا تھا �س

کے ہاتھ میں لوہے کی ہتھوڑی تھی وہ بے حد مفطر ب تھا جیسے ہی کار پور ٹیکو میں رکی صبیحہ ہنستی

آ� رہی ہو ؟ ’’جی میں �سری کے گھر سے آ� رہی تھی کہ عامر نے پو چھا ’’ کہاں سے کھلکھلاتی گاڑی سے �تر کر

ھا رہا تھا آ�نکھوں میں دھول جھو نکتی ہے ؟‘‘ عامر کھڑ �ہو� حلق پھاڑے چل آ� رہی ہوں ‘‘ ’’جھوٹ بکتی ہے ؟ میری

صبیحہ �س کے تیور دیکھ کر�ندر بھاگ گئی شہاب بھی تیزی کے ساتھ پلٹ کرگیٹ کی جانب بڑھ رہا تھا عامر

لپک کر� سکے پیچھے بھا گا �ور ہتھو ڑی کا بھر پور د�ر �س کے سرپر کر دیا شہاب درد کی شدت سے تیور �کر

آ� گئے تھے آ�و�ز سن کر گھر کے لوگ باہر گر پڑ �� سکے گرتے ہی عامر نے مسلسل کئی و�ر کئے چیخ وپکار کی

ظفر بیگ بھی مو جود تھے لیکن عامر کو روکنے کی ہمت کسی نے نہیں کی سب کھڑے دیکھ رہے تھے شہاب

Page 133: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کے سرسے خون بہہ رہا تھا �ور جسم ساکت تھا۔ عامر ہتھوڑی پھینک کر�ندر چلا گیا گھبر �ہٹ میں صبیحہ نے

آ� گئی صورت حال کاجائزہ لے کر سب کابیان قلم بند کیا۔ عامر پولس کو فون کر دیا تھا کچھ ہی دیر میں پولس

پر قتل کا مقد مہ چلا �ور چودہ سال کی قید با مشقت ہو گئی ظفر بیگ کا پیسہ �ور تمام کو ششیں ر�ئے گاں ہو

آ�ئے �ور بمشکل بتا یا کہ عامر کو چودہ گئیں وہ عد�لت کا فیصلہ سن کرتھکے ہارے لر زیدہ قد موں سے گھر

سال کی قید بامشقت ہو گئی۔

تب ہی صبیحہ نے �یک چیخ ماری �ور ماں سے لپٹ گئی’’ ماں مجھے مارڈ�لو مجھے ختم کر دو میرے �س نا

و جود کو مٹا دو سار� قصور میر� ہے میں بھٹک گئی تھی ماں �ور تم نے بھی تو میرے بہکتے قدموں کو نہیں پاک

و نا موس کے �مین ہوتے ہیں نا ؟ پر �ئے دھن کی دلو جان سے حفا ظت کرتے ہیں دیکھا!ماں باپ بیٹی کی عزت

نا؟تم نے مجھے وہ نصیحتیں نہیں کیں جو صد یوں سے ہر ماں �پنی بیٹی کو کرتی رہی ہے دنیا کے نشیبو فر�ز �ور

سرد وگرم سے و�قف کر�تی رہتی ہے �پنی نئے زمانے کے تقا ضوں سے روشناس کر�تی ہے میر� نازک سابلو ریں گلد�ن

اچورہو گیا ماں �ور تمہیں پتہ بھی نہ چلا؟ میری سلگتی جو�نی نے سب کچھ جلاد، یا سب کچھ ماں سب اچور

‘‘ کچھ

صبیحہ پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھی۔

کر سی پر بیٹھے ہوئے ظفر بیگ کی گردن �یک طرف ڈھلک گئی ردح جسم کے پنجرہ سے نکل کر پرو�ز کر

چکی تھی۔ ہمدردی کے بہانے دونوں ماموؤں نے بزنس سنبھال لیا تھا �ور چند ہی دنوں میں ہر چیز پر قبضہ کر

ھنے کے لئے گھر سے بے گھر کر دیا �ور زندگی کا نٹوں بھری �یک طو یل لیا۔ ماں بیٹی کو دردر کی خاک چھا

رہ گز ربن گئی۔

*****

Page 134: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

بعد کے طوفان

ڈھل چکا دن �ور تیری قبر پر

دیرسے بیٹھا ہو� ہوں سرنگوں

روح پر طاری ہے �یک پیہم سکوت

نزجنوں نزغم نہ سا �ب تو سا

مستقل محسوس ہوتا ہے مجھے

جیسے تیرے ساتھ میں بھی دفن ہوں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شام کی خنک �ور �د�س ہو�سسکیاں لے رہی تھی سب لوگ جا چکے تھے۔

شکیل قبر کے پاس بیٹھا بڑ بڑ � رہا تھا ’’ماں ہمارے درمیان یہ مٹی کا ڈھیر کیوں �گیامیں تمہیں دیکھ سکتا ہوں نہ

چھوسکتا ہوں تم نے مجھ سے کہا تھا کہ میں تمہیں چھوڑ کر نہ جاؤں �ور تم مجھے �کیلا چھوڑ کر چلی گئیں۔

مجھے �پنوں کا پتہ ٹھکانہ بھی نہیں بتایا میں کیا کروں ، ماں کہا جاؤں۔

وہ مٹی کو دونوں ہاتھوں سے �لٹ پلٹ کرتا رہا ، روتا رہا ، مغموم شام تیزی کے ساتھ �پنے سیاہ پر پھیلا رہی تھی

آ�و�ز فضاء میں �بھری۔ �ور �یک سو گو�ر سا موسیقی ریز �رتعاش برپا کر گئی۔ تب ہی موذن کی پرسوز

Page 135: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�ج پھر شکیل کو مار� تھا یہ کوئی پہلا مو قع نہیں تھا جو �مجد نے �سے بے دردی سے مار� تھا۔ �مجد سلطان نے

وہ �کثر بات بے بات شکیل کو ڈ� نٹتا جھڑ کتا پیٹتا رہتا تھا۔ کچھ دیر پہلے وہ بازو و�لے مکان کے سامنے کھڑی

�یک خو بصورت کارکو دیکھ رہا تھا �سے کا روں سے جیسے عشق تھا بلیوکلر کی �س کار کو وہ گھوم گھوم کر

آ�ئینہ کے سامنے جھو لتی ہوئی گڑ یا �سے دیو�نہ بنا رہی تھی۔ �مجد کہیں دیکھ رہا تھا جسکی نرم نرم سیٹیں �ور

آ� گیا �سے کھینچتا ہو �گھر میں لا یا �ور پٹائی کر دی۔ غصہ میں جھلاتاشاید وہ باہر چلا گیا تھا �س لئے �س سے

کی ماں �سے سمجھانے بیٹھ گئی تھی ’’شکیل بیٹے ! تم سے کتنی بار کہا کہ تم �بو کی بات کا بر�نہ ماننا وہ جو

کچھ کہتے ہیں �س میں تمھاری بھلائی ہوتی ہے۔ ‘‘

آ�پ سے کتنی بار کہا ہے �نھیں میر� �بونہ کہیں میں �نھیں �بونہیں مان سکتا �ب میں چھوٹا’’ �می جان میں نے بھی

آ�پ کو یا دنہ ہو لیکن مجھے �چھی بچہ نہیں ہوں پانچویں کلاس میں پڑھتا ہوں میں �پنے �بو کو بھولانہیں ہوں شاید

آ�یا تھا تو �بوجانی کتنے خوش ہوئے تھے۔ ڈھیر ساری مٹھائی �ور طرح یاد ہے جب میں دوسری کلاس میں فرسٹ

آ�ئسکر یم کھلو نے لائے تھے �ور ہم دو نوں کو باہر گھمانے لے گئے تھے �س دن ہم نے سر کس دیکھی �ور خوب

بھی کھائی تھی میں کبھی بیمار ہو تاتو �بو کس قدر پریشان ہو جاتے۔ بار بارڈ�کٹرکے پاس لے جا تے �پنے ہاتھ

آ�پ �بو جانی سے بہت جھگڑ �کیا کرتی سے دو� پلاتے وہ میرے �بو تھے۔ ۔ ۔ کہاں ہیں وہ ؟ مجھے یادہے کہ

تھیں �ن کے کسی کام کا خیال نہیں رکھتی تھیں۔ نہ �ن کی کوئی بات مانتی تھیں۔ میرے �بو جانی کہاں

ہیں ؟ د�دی �می �ور چاچا کہاں ہیں ؟ �ن کی گڑ یا جیسی لڑکی للی �ور فر�ز کہاں ہیں۔ �می مجھے �ن کے پاس

لے چلیں ورنہ میں یہاں سے چلا جاؤں گا‘‘۔ شکیل رونے لگا۔ �س نے گھر چھوڑ نے کی بات کہی تو �س کی

ھا �ٹھی۔ ماں چل

نہیں شکیل !تم مجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤ گے تم چلے گئے تو میں مر جاؤں گی میں تمھارے �بو جانی’’

سے جھگڑ �کر کے تمھیں �پنے ساتھ لائی ہوں یہ سچ ہے کہ ہم دو نوں میں بہت جھگڑ �ہو �کرتا تھا کیوں کہ وہ

Page 136: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

بہت پڑھے لکھے ہیں �نجینیرہیں �ن کے �پنے کچھ �صول تھے جن کی وہ سختی سے پا بندی کیا کرتے میں �ن

کے مقا بلے میں کچھ بھی نہیں تھی میرے و�لدین نے مجھے تعلیم بھی زیادہ نہیں دلائی تھی لیکن تمہاری د�دی

�می �ور �بو جانی کو بتایا گیا تھا کہ میں بہت پڑھی لکھی ہوں سچ تو یہ ہے کہ �ردو �نگر یزی تودور کی بات ہے

آ�تا۔ تمہارے �بو نے مجھے پڑھانے کی بہت کوشش کی لیکن آ�ن شریف تک ٹھیک سے پڑھنا نہیں مجھے تو قر

میں بد نصیب کو ڑھ مغزکچھ بھی نہ سیکھ سکی میری سو تیلی ماں نے پکا ناسینابھی نہیں سکھایا سب مجھ

سے بیز�ر تھے جیسے ہی تمھارے �متحان ختم ہوئے تمہارے �بو نے مجھے تمھارے ناناکے گھر لا کر چھوڑ دیا �ور

میں نے �ن سے جھگڑ �کر کے تمہیں �پنے ساتھ رکھ لیا پھر میری ماں کے کہنے پر باباجان نے �س شخص کو

آ�ج میں زندگی کی �یک �یسی �یک کتاب ہوں جس کے ہر ورق پر سیاہی پوت دی گئی ہو یہ تمہار� �بوبنادیا۔

زندگی میرے لئے �یک روگ بن گئی ہے میں وہ بدنصیب عورت ہوں جو نہ سسر�ل میں کسی کا پیار پا سکی نہ شو

ہر کا دل جیت سکی نہ ہی تمھیں وہ پیار دے سکی جو �یک ماں دیتی ہے لیکن تم مجھے چھو ڑ کر نہیں جا

سکتے میں بہت �کیلی ہو جاؤں گی میں �نھیں سمجھاؤں گی کہ وہ تم سے بھی پیار کریں ٹھیک ہے ؟ ‘‘شکیل

آ�نسو پونچھ لئے �ور �ثبات میں سرہلادیا۔ نے �پنے

شکیل کی وجہ سے �ن دونوں میں �کثر جھگڑے ہو نے لگے تھے۔ کسی دن �مجد دیکھ لیتاکہ شکیل پڑھنے

ھلے کو �پنے ساتھ لائی لکھنے میں منہمک ہے تو �س دن �س کی خیر نہ ہوتی وہ گلا پھاڑ کر چلا تا’’ کس کے پ

ہو جو بیٹھا بیٹھا مفت کی روٹیاں توڑ تار ہتا ہے تم سے کہا تھا کہ گھر کا ہر کام �س سے لیا کرو یہاں مفت کا

‘‘ کھانانہیں ملے گا۔

�س دن سے شکیل نے �مجد کی مو جودگی میں کبھی کتاب نہیں کھولی۔ �یک دن کسی بات پر �س نے شکیل

کی ماں کو بہت مار� �ور �س کا سر دیو�رسے ٹکر �دیا وہ چیخ مارکر �یسے گری کہ پھر نہ �ٹھ سکی۔ شکیل

آ�یا �ور �س سے لپٹ کر’’ �می جان ! سکتے کے عالم میں کھڑ �سب دیکھ رہا تھا ماں کے گرتے ہی وہ جھپٹ کر

ھلا نے لگا تب ہی �مجد نے �سے بے تحا شہ پیٹنا شروع کیا تو وہ دھاڑیں مار کر رونے لگامحلے کے �می جان !‘‘چ

Page 137: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

لوگ جمع ہو گئے کسی نے شکیل کو سنبھالا کسی نے �مجد کو قابو کیا۔ شام ہو تے ہو تے کچھ �ور لوگ جمع

ہو گئے سب نے مل کر شکیل کی ماں کو سپر دخاک کر دیا۔

شام کی خنک �ور �د�س ہو �ئیں سسکیاں لے رہی تھی سب لوگ جا چکے ہے شکیل قبر کے پاس بیٹھا بڑ بڑ � رہا

تھا

آ� گیا کہ میں تمھیں دیکھ سکتا ہوں نہ چھو سکتا ہوں تم نے مجھ سے ’’ ماں ہمارے در میان یہ مٹی کا ڈھیر کیوں

کہا تھامیں تمھیں چھو ڑ کر نہ جاؤں �ور تم مجھے �کیلا چھوڑ کر چلی گئیں۔ وہ شخص تو مجھے روزمارے گا

پھر مجھے کون سمجھائے گا۔ کھانا کون کھلائے گا ؟ مجھے �پنوں کا پتہ ٹھکانہ بھی نہیں بتا یا !میں کیا

‘‘ کروں ماں کہاں جاؤں۔ ۔ ۔

وہ مٹی کو دونوں ہاتھوں سے �لٹ پلٹ کرتا رہا روتا رہا۔ مغموم شام تیزی کے ساتھ �پنے سیاہ پر پھیلا رہی تھی تب

آ�و�ز فضا میں �بھری شکیل سست قدموں کے ساتھ گھر کی طرف چل پڑ �۔ گھر تو �پنوں کی ہی مو ذن کی پر سوز

� جا نا ہے۔ �ب کیا ہو مو جودگی سے گھر ہوتا ہے وہاں تو میر� �پناکوئی نہیں ہے پھر بھی �سی ٹھکا نے پر مجبور

آ�نٹی نے �سے سینے سے لگا کر تسلی دی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو نے لگا۔ گا؟گھر پہنچاتو پڑ وس کی فر یدہ

�مجد کے کہنے پر فر یدہ نے �سے پکو �ن سکھایا۔ گھر کے کام سے فارغ ہو کر وہ �کثر قبر ستان چلا جاتاماں

کی قبر کے پاس بیٹھا باتیں کرتا ’’ماں تم مجھے کس کے سہارے چھوڑ گئیں میں سب کام �کیلا کرتا ہوں ر�ت

کو ہاتھ پاؤں بہت درد کرتے ہیں ماں۔ تین دن پہلے �س شخص نے تمھارے �لبم سے تمام تصویریں نکال کر

جلادیں �یک تصویر میں نے چھپالی ہے �س میں میرے �بو جانی ’ د�دی �می ’ چاچا ’ چاچی ’ فر �زمیں �ور للی

ہیں میں نے �سے �پنے سوٹ کیس کے چور خانے میں چھپا دیا ہے سنو ماں !میں نے پانچویں کلاس پاس کرلی ہے

لیکن کوئی خوش ہو نے و�لا نہیں ہے سینے سے لگا کر شاباشی دینے و�لا کوئی نہیں ماں !ہاں �یک بات بتانی تو

بھول ہی گیا کہ �ب وہ شخص مجھے نہیں مارتا وہ تو �یک عورت کے ساتھ باتیں کرتا �ور ہنستارہتا ہے وہ �ب �سی

گھر میں ر ہتی ہے وہ کہتا ہے میں �سے �می پکاروں �ب تمھیں بتاؤ میں �سے �می کیسے پکار سکتا ہوں وہ مجھ

Page 138: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی ہر وقت کام کر و�تی ہے �پنے کپڑے بھی مجھ سے دھلو�تی ہے کل عید تھی

نابہت کام تھا �س لئے تم سے ملنے نہ �س کا۔ کسی نے مجھے نئے کپڑے نہیں بنائے نہ وہ شخص مجھے �پنے

ساتھ نماز کے لئے لے گیا ’’�س نے روتے ہوئے قبرپر سر ٹیک دیا جیسے وہ ماں کی نرم گرم گو دہو۔

�یک دن وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ �س دن �س کے ہاتھ سے دودھ کا گرم بگوناچھو ٹ گیا تھا۔ سار� دودھ فرش

پر پھیل گیا وہ یوں سہماکھڑ � رہا جیسے دو دھ کا بگونا نہیں بلکہ کوئی قیمتی گلد�ن گر کر چور چورہو گیا ہو

پہلے �مجد نے دو طمانچے ر سیدکئے پھر نئی عورت نے بیدکی چھڑی سے �س کے جسم پر نقش و نگار

آ�دھی ر�ت کے قریب وہ �پنے سوٹ کیس کو سینے سے لگائے نکل کھڑ �ہو �۔ ماں کے دئے ہوئے کچھ بنادئیے۔

آ�باد کا ٹکٹ لیا �ور ٹرین میں بیٹھ گیا۔ وقت دبے پاؤں گزر گیا۔ پیسے سنبھال کر رکھے تھے �س نے حیدر

آ�ئی تھی وہ نہیں جا نتا تھا کہ آ�ئے ہوئے شکیل کو دس سال ہو گئے لیکن �سے �پنوں کی شکل نظر نہیں آ�باد حید

وہ لوگ کس مقام پر رہتے ہیں۔ زندگی جیسے �یک طویل سنسان رہ گزربن گئی تھی نہ کوئی ساتھی نہ سنگھی نہ

آ�نے کے چند دن بعد ہی �سے �یک کپڑے کی مل میں کام مل گیا تھا �س آ�باد کوئی ر�ہبر نہ منزل کا نشاں۔ حیدر

کے بھولے چہرے �ور صاف گوئی نے مل مالک فخر� لدین کا دل موہ لیا تھا۔ شکیل نے �نھیں بتایا کہ �س کے

و�لدماں کو چھوڑ کر کہیں چلے گئے �ور سو تیلے باپ نے ماں کی جان لے لی �س لئے وہ گھر چھوڑ کر بھاگ

نکلا۔

فخر�لدین نیک دل �ور خد�ترس �نسان تھے �نھوں نے شکیل کی ہر طرح سے مدد کی �س نے کام کرتے ہوئے

پڑھائی شر وع کر دی تھی بی کام پاس کرنے کے بعد �یم بی �ے کر رہا تھا۔ �یماند�ری محنت �ور سینیریٹی کے

آ�ج مل کا منیجر �ور فخر�لدین کادست ر�ست تھا۔ �نھوں نے پہلی بار �پنے کسی قریبی رشتے د�ر لحاظ سے وہ

کی سالگرہ پر �سے بطور خاص مد عو کیا تھا۔ تقریب میں شرکت کے لئے �س نے �یک قیمتی سوٹ سلو�یا �ور

�یک بیش قیمت تحفہ بھی لے لیا تھا۔ فخر�لدین کے ساتھ �ن کی �سٹیم گاڑی سے �ترتا ہو �وہ �ن کے بیٹے جیسا

آ�نکھیں �ور چہرہ لگ رہا تھاکئی نگاہیں �س پر مر کو زتھیں سرو جیسا قدگور�رنگ سوز میں ڈوبی ہوئی مخمور

Page 139: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تعلیم کے نو رسے دمکتا ہو �۔ جیسے عرش سے �تر� ہو �کوئی فرشتہ۔ وہ یوسف ثانی نہیں تھا۔ لیکن �سے دیکھ

آ�پس میں کھسرپھسر کر رہی تھیں شکیل کر حسین دوشیزو�ؤں کے دل کی دھڑ کنیں بے ترتیب ہو رہی تھیں وہ

کویہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ سب �سی کے بارے میں بات کر رہی تھیں �س نے نظریں جھکالیں

آ�ج پہلی بار�سے �پنی شخصیت کی �ہمیت کا �حساس ہو �وہ دل ہی دل جیسے �طر�ف کے ماحول سے بے خبرہو۔

میں خوش تھا ہو نٹوں سے پھوٹتی ہوئی خفیف سی مسکر �ہٹ کو دبا رہا تھا جو لوگ شکیل کو نہیں جانتے تھے

�نھیں فخر�لدین ہتا رہے تھے کہ یہ �ن کا منہ بو لا بیٹا ہے �ور �ن کی مل کا کرتا دھرتا وہی ہے ممنو نیت بھری

مسکر �ہٹ شکیل کے ہو نٹوں پر رقصاں تھی �چانک �سے محسوس ہو� کہ �یک گوری چٹی تیکھے نقوش �ور بھرے

بھرے جسم و�لی لڑکی ٹکٹکی باندھے و�لہانہ �ند�ز میں �سے دیکھ رہی ہے۔ جیسے یادد�شت کے سمندر میں

آ�گے بڑھ کر کچھ پو چھ بھی تو نہیں کوئی کھویا ہو� موتی تلاش کر رہی ہو۔ جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو۔ وہ

سکتا تھا �سے کیا حق تھاکہ وہ کسی �جنبی لڑکی سے کوئی بات کرتا وہ تو فخر�لدین کا ملازم تھا۔ کچھ دیر

آ�ئی جہاں سوچ میں ڈوبی ہوئی بیٹھی تھی۔ شکیل کی نظریں �سے تلاش کر رہی تھیں وہ دو بعد وہ وہاں نظر نہیں

آ� گئی سحر زدہ سا �سے دیکھتا رہا جیسے وہ کہہ رہی ر�یک کو نے میں کھڑی �سی کی طرف دیکھتی ہوئی نظر

ہو۔

آ�ئے تم �تنی دور سے چل کر میرے قریب

آ�ؤ پاس ہی بیٹھو تھکن مجھے دیدو �ب

آ�گہی دے رہا ہو کہ یہی ہے یہ کیسی بے چینی ہے جس میں سکون کی چاشنی بھی گھلی ہوئی ہے جیسے دل

آ�گے دوز�نو ہو جا۔ آ�گے بڑھ �س کا ہاتھ تھام لے �ور �پنی منزل کے آ�ج تک �سی کی تلاش تھی تیری منزل تجھے

یی ’ غلام،�س کا یہ میں کیا سوچنے لگا؟ وہ �میرباپ کی نور نظر محلوں کی شہز�دی !�ور میں �یک یتیم یسیر�دن

دمکتا ہو �چہر جیسے بجھ سا گیا۔ وہ جلد �ز جلد گھرلوٹ جا نا چاہتا تھالیکن سا لگرہ کا ہنگامہ عروج پر تھا۔

آ�گے بڑھ کر سب سے تالیوں کے شور میں �سی جان محفل کو پھول پہنائے گئے �ور کیک کاٹا گیا فخر �لدین نے

Page 140: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�ج �پنی زندگی کی سو لہویں بہار کا �ستقبال کر رہی یی پہلے مبارک باد دی �ور بتایا کہ جلیل �حمد کی لڑکی لبن

ہے۔ پر تکلف کھانا ہو �کچھ دیر بعد تقریب �ختتام کو پہنچی۔

ر�ت بھر شکیل کرو ٹیں بدلتا رہا سوچتا رہا �س کا دل کیوں �س لڑکی کی طرف کھینچا جا رہا ہے جسے جا

نتاپہچا نتاہی نہیں وہ جیسے نس نس میں سمائی جا رہی تھی پہلی نظر میں وہ �پنی سی لگی تھی �سے دیکھ کر

آ�جائے۔ کون ہے یہ ؟ پہلی بار روح ٹھٹک گئی تھی جیسے کسی بھٹکے ہوئے پرندے کو �چانک �پنانشمین نظر

�سے �پنے دل میں �یک درد سا محسوس ہو رہا تھا �یسا درد جس میں �یک بے نام سی لذت بھی شامل تھی میٹھی

میٹھی کسک تھی۔ پتہ نہیں زندگی میں �یسا کیوں ہوتا ہے ہم جسے چاہتے ہیں �سے حاصل نہیں کر سکتے �ور

آ�دھی سے زیادہ گزر جو حاصل نہیں ہو سکتا دل �سی کے لئے تڑ پتا ہے مچلتا ہے۔ نیند کا پتہ نہیں تھا۔ ر�ت

چکی تھی وہ بستر سے �ٹھا �ور مصلی بچھا کر سجدہر یزہو گیا۔ کہتے ہیں محبت �نسان کو خد� سے قریب کر

آ�گے گڑ گڑ �تا رہا۔ صبح وہ دیر سے �ٹھا مل پر جانے میں بھی دیتی ہے۔ جانے وہ کب تک �پنے پر وردگار کے

آ�ؤ آ�تا دیکھ کر مسکر �ئے �ور کہا۔ میر� �ند�زہ تھا تم دیر سے دیر ہو گئی۔ فخر �لدین پہلے سے موجو دتھے �سے

آ�ر�م کر لیتے تو بہتر تھا ’ ر�ت شاید ٹھیک سے سوئے نہیں ؟ شکیل کے ہو نٹوں پر مسکر�ہٹ آ�ج گھر پر گے ویسے

تھی �س نے سرجھکا لیا وہ کیسے بتاتاکہ ر�ت �س پر کتنی بھاری گزری �ور کیوں بھاری گزری ہے۔ �سی وقت فون

آ�ئی۔ آ�و�ز کی گھنٹی بج �ٹھی غیر �ر�دی طور پر �س نے جھپٹ کر فون �ٹھالیا دو سری طرف سے مر �دنہ

آ�پ فخرماما سے بات کر �ئیں گے ؟ میں جلیل بات کر رہا ہوں ‘‘ر یسیور فخر�لدین کی طرف بڑھاتے ہوئے’’ ہیلو!کیا

آ�ج سائٹ پر نہیں گے ‘‘؟نہیں شکیل نے کہا ’’ جلیل صاحب کا فون ہے ‘‘۔ ’’ ہاں بھئی کہو کیا بات ہے کیا

آ�پ کی طبیعت کیسی ہے ؟ ’’بس ٹھیک ہوں۔ کہوکیا کوئی ماما کل کی تھکان نہیں �تری �بھی گھرہی پر ہوں

‘‘ خاص بات ہے ؟

آ�یا’’ آ�پکے منہ بولے بیٹے کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں وہ کون؟ ہے کہاں سے ماماکہنایہ تھاکہ ہم لوگ

ہے ؟�س کے و�لدین کہاں ہیں ؟ کیوں کیا بات ہے ؟کیا ہو �؟

Page 141: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

یی کے لئے پسند کیا ہے �ور �س کے بارے میں تفصیل جاننا چاہتے ہیں ‘‘۔ ’’ مامادر�صل ہم نے �سے لبن

بھئی بات یہ ہے کہ پچھلے دس سالوں میں شکیل کی روئد�د میں نے بھی نہیں پوچھی �س نے صرف �تنابتایا تھا’’

آ�یا ہے �س کی ماں کے �نتقال کے بعد سوتیلے باپ �ور سو تیلی ماں نے بے حدوحساب ظلم کہ وہ بنگلو رسے

ڈھائے �ور وہ گھر چھوڑ کر نکل گیا مزید تفصیل میں پوچھ کربتاؤں گا۔ ؟

آ�خر جلیل �حمد میرے بارے میں کیوں پوچھ رہے تھے �نھوں نے کل و�لی شکیل کا دل بے تحاشہ �چھلنے لگا

چوری تو نہیں پکڑلی۔ کیا میری ملازمت میری منزل مجھ سے چھینلی جائے گی ؟ شکیل کھڑ �کھڑ �پسینے میں

نہا رہا تھا۔ فخر �لدین فون رکھ کر �س کیطرف پلٹے تو �س کی غیر ہوتی ہوئی حا لت کو دیکھ کر پر یشان ہو

گئے۔ �سے �پنے کیبن میں لے گئے پانی پلایا �ور سکون سے بیٹھنے کہا �ن کے ہو نٹوں پر مسکر �ہٹ کھیل رہی

تھی شکیل کی ڈھارس بند ھی وہ سر جھکائے بیٹھا رہا۔ فخر�لدین گویا ہوئے۔

شکیل تمھیں یہ جان کر مسرت ہو گی کہ جلیل �حمد �ور �ن کی بیگم نے تمھیں �ن کی بیٹی کے لئے پسند’’

کیا ہے وہ تمھارے بارے میں تفصیلات جا ننا چاہتے ہیں شکیل حیرت سے منہ کھولے فخر �لدین کے �یک �یک

لفظ کو غور سے سن رہا تھا �سے �پنی سماعت پر یقین نہیں �ر ہا تھا حیر �نی �ور شادمانی کے ملے جلے جذبات

�س کے چہرے سے عیاں تھے �س نے بتا یا کہ وہ �پنے بارے میں صرف �تنا جانتا ہے کہ �س کے و�لد �نجینیرہیں وہ

ماں سے خوش نہیں تھے �س لئے �نھیں طلاق دیدی �ور �نکے و�لد کے گھر بھیج دیا و�لد نے کسی شخص سے �ن

کا نکاح کر و�دیا جسکے ظلم سہتے ہوئے ماں مر گئی سو تیلے باپ نے دو سری شادی کرلی �ن دو نوں نے �س

آاخروہ گھر سے بھاگ نکلا۔ ’’تمہارے و�لد کا کیا نام ہے ؟ کے سر پر ظلم کے پہاڑ تو ڑے با ل

�ن کا نام جمیل �حمد ہے وہ �نجینئرہیں جا نے وہ کہاں ہیں میں پچھلے دس سال سے �ن سب کو کھوج رہا ہوں’’

میری بہت پیاری سی د�دی تھیں جو مجھ پر ہز�ر خوشیاں نچھا ور کرتی تھیں وہ میرے دل سے کبھی دور نہیں

آ�پ کو �ن ہوئیں میرے چاچاچاچی �ور �ن کے دوبچے بھی تھے �یک لڑکا �ور �یک گڑ یا جیسی لڑکی تھی۔ میں

Page 142: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�پ نے �نھیں کہیں آ�ج بھی میرے سوٹ کیس کے چور خانے میں محفو ظ ہے شاید کی تصویر بتا سکتا ہوں جو

آ�تا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ دیکھا ہو میں �پنے کمرے تک جا کر�بھی

آ�یا �ور فخر�لدین کے ہاتھ میں تصویر دے دی وہ تیز تیز قدم �ٹھاتا �پنے کمرے کی طرف گیا �ور دوڑتا ہو� و�پس

آ�نسو رو�ں تھے۔ ؟ شکیل حیرت سے �نھیں دیکھ رہا تھا آ�نکھ سے جسے وہ غور سے دیکھ رہے تھے �ور �ن کی

فخر �لدین نے بتا یا کہ شکیل کی د�دی �ن کی �کلوتی بہن ہیں جنھوں نے �پنے پو تے کی یاد میں روروکر �پنی

آ�پریشن کیلئے مجبور کیا تو ہمیشہ �یک ہی جو �ب دیا کہ جب شکیل بینائی کھو دی ہے خاند�ن کے لوگوں نے

آ�پریشن کر و�لوں گی �ور سب سے پہلے �سی کاچہرہ دیکھوں گی۔ میں نہیں جا نتا آ�جائے تو بتا دینا میں �سی دن

تھا کہ تم ہی وہ شکیل ہو

آ�و�ز پر قا بو پاتے ہوئے کہا۔ وہ �یک جھٹکے سے �ٹھے �ور شکیل کو سینے سے لگا کر رونے لگے پھر �پنی

جب تمہاری ماں نے کو رٹ کے ذریعہ تمھیں حاصل کیا �ور �پنے ساتھ لیکر چلی گئی تو �نھوں نے دنیا سے’’

کنار� کر لیا چلو میں تمہیں �ن سب سے ملاؤں جو تمہاری یاد کو سینے سے لگائے تمھارے �نتظار میں جی رہے

آ�مد کی خو شی کو آ�نکھوں کے نور دل کے سرور ہو میں کہہ نہیں سکتا کہ وہ تمھاری ہیں تم میری بہن کی

یی کو للی پکار� کرتے تھے �س لئے سا لگرہ کے کیسے سہار سکیں گی فر�ز �ور لبنی بھی تمہیں نہیں بھولے تم لبن

یی کا نام سن کر چونک گئے تھے کہتے ہیں کہ دل کو دل سے ر�ہ ہوتی ہے میں نے محسوس کیا تھا کہ دن تم لبن

یی �یک دو سرے کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ چلو شکیل �یک لمحہ بھی ضا ئع کئے بغیر ہمیں جلیل تم �ور لبن

آ�ج �وپر و�لے کو تم پرر کے گھر چلنا چاہئے۔ ‘‘شکیل حیرت زدہ بیٹھا سب کچھ سنر ہا تھا۔ ’’ کیا سوچ رہے ہو

آ� گیا ہے وہ تمام خو شیاں تمھیں لو ٹا رہا ہے �س نے کہا ہے لاتقنطو� من رحمۃ �هللا چلو چلتے ہیں ‘‘۔ ’’ ہاں حم

�نکل !کیا میرے �بو جانی بھی وہاں ہو نگے ؟‘‘ نہیں وہ �پنی دو سری بیوی کے ساتھ �مر یکہ میں ہیں وہ �یک تعلم

آ�نے و�لے ہیں : یا فتہ �ور نیک عورت ہے �نھیں گئے ہوئے سات سال ہو گئے ہیں وہ عنقریب

Page 143: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

شکیل فخر �لدین کے ساتھ �یسے چل رہا تھا جیسے �س پر مسمر یزم کر دیا گیا ہو جب وہ دو نوں جلیل منزل

آ�و�ز نہیں نکل رہی تھی وفور جذبات سے �ن کا گلہ رندھ گیا پہنچے تو فخر�لدین کے گلے سے مارے خوشی کے

آ�پا بیگم ! آ�و�ز میں بہن کوپکارر ہے تھے۔ ’’ تھا ہو نٹوں پر مسکر �ہٹ �نکھوں میں نمی لئے وہ پھنسی پھنسی

آ�و۔ ‘‘ آ�ؤ۔ سب لوگ جلدی آ�یا ہوں جلدی آ�نکھوں کی روشنی لے آ�پکی دیکھئے میں

آ�ئے فخر �لدین نے شکیل کی طرف �شارہ کرتے ہوئے کہا ‘‘ جلیل دیکھو یہ گھر کے سب �فر �د دو ڑے ہوئے

آ� رہی تھی �ور شکیل د�دی �می یی د�دی کا ہاتھ تھا مے چلی شکیل ہے جمیل کا بیٹا شکیل دیکھو دیکھو۔ لبن

کہتا ہو ��ن کے قدموں سے لپٹ گیا نو کر چاکر بھی جمع ہو گئے بھیگی پلکوں سے �س منظر کودیکھ رہے تھے۔

فر�ز �ور لبنی �پنے بڑوں کو سنبھال رہے تھے۔

خو شیوں �ور طما نیت کی �س معر�ج پر زندگی جیسے تھم گئی تھی وقت ٹھہر سا گیا تھا۔

*****

Page 144: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

شمکشک

عرصہ سے �ن کے نقش قدم کی تلاش ہے

سجدے میں سر جھکائے زمانے گزرگئے

آ�تے تورہتے ہیں وہ خیالوں میں ر�ت دن

آ�ئے زمانے گزرگئے لیکن خود �ن کو

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�یا تھا۔ ہم نے خوشیوں سے بھرے بہت سارے دن �یک ساتھ گز�رے تھے وہ ملازمت کیلئے �نڈیا سے �مریکہ

لیکن میرے محبوب نے مجھ سے کوئی خوبصورت وعدہ نہیں کیا میری محبت کا محل صرف میں نے تعمیر کیا

آ�باد کرے گا یا نہیں ؟ تھا۔ یہ نہیں جانتی تھی کہ میر� محبوب �سے

۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔

�تو�ر کا دن تھا موسم سر ماکی خو شگو �رصبح تھی۔ �نجم نے مہر کو بتا یا کہ مس مارگر یٹ �مر یکہ سے �نڈ یا

پہنچ گئی ہے �ور �نھیں جلد �ز جلد �س کے پاس پہنچنا ہے۔ ’’ یہ مارگر یٹ کون ہے جسکی تم دیو �نی ہو ؟

آ�ئیں �ور یہ آ�یا کہ تم سعودی کی �چھی خاصی ملازمت چھو ڑ کر کیوں چلی )�نجم میری سمجھ میں نہیں

Boteque )کیوں کھول لیا جسکا تمہیں تجربہ ہی نہیں ہے ‘‘ مہرنے کہا

Page 145: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�رزو تھی کہ �علی پیما نے پر سیونگ سنٹر کھولوں �ور �س کے ساتھ ہی �پنا �یک بتیک بھی ہو یہ’’ میری تو دیر ینہ

آ�ئیں �ور �یک چھوٹے سے حادثہ میں زخمی ہونے کے بعد خو�ہش �سو قت پوری ہو گئی جب مس مارگریٹ سعودی

ہمارے دو�خانہ میں شریک رہیں وہ میری خد مت سے بہت خوش ہوئیں مجھے بڑے �نعام �کر�م سے نو�ز� میرے

گھریلو حالات کے بارے میں جان کر دکھی ہوئیں کہ میں �پنے معذور شوہر �ور بچوں کو چھوڑ کر یہاں ملازمت

کر رہی ہوں �س نے بتایا کہ �سے �نڈ یا �ور �نڈ یا کے لوگ �چھے معلوم ہو تے ہیں وہ بہت جلد �پنا کا روبار �نڈ یا

آ� گئی �ور �یک معقول سر مایہ آ�ئی �سو قت وہ بھی �مر یکہ سے میں شروع کرنا چاہتی ہے جب میں چھٹی پر�نڈ یا

سے سنٹر �ور بتیک کھول دیا �ور میرے حو�لے کر دیا رہی تجر بہ کی بات توہر کام کا تجربہ ، وقت �ور محنت

آ�مدنی ہو سے خود بخود حاصل ہو جاتا ہے ‘‘ �نجم نے مہرکو بتا یا ’’ تم نے بڑی ہمت کا کام کیا ہے ویسے کتنی

جاتی ہے کیا مارگریٹ تمہیں تنخو�ہ دیتی ہے ؟

آ�مدنی میں بر�برکے حصہ د�رہیں �یک بات بتاؤں یہ مارگر یٹ جو’’ آ�مدنی ہو جاتی ہے ہم دونوں پا رٹنرہیں �ور معقول

آ�ئی کہ ہے �مر یکہ کی �میر ترین عورت ہے �س کی دولت کا کوئی حساب نہیں ہے یہ بات میری سمجھ میں نہیں

�سے �نڈ یا کیوں پسند ہے �س نے یہاں کا روبار کیوں شروع کیا شاید میں نے تمہیں نہیں بتا یاکہ �س نے یہاں

‘‘ �یک �ولڈہوم بھی قائم کیا ہے �ور بتیک سنٹر سے ملنے و�لا منا فع �ولڈ ہوم پر خرچ کر دیتی ہے

�س نے یہ بہت �چھا کام کیا ہے ہمارے ہاں �س کی سخت ضرورت تھی یہاں جو�و لڈ ہوم ہیں وہاں ) شریک’’

ہونے و�لوں کو ( بھاری �خر جات برد�شت کرنے پڑ تے ہیں ‘‘

یہاں �خر جات بر�ئے نام دینا پڑ تے ہیں �ور ہر فرد کا خاص خیال رکھا جاتا ہے �ن بوڑھے لوگوں کی حالت ’’

آ�تا ہے پتہ نہیں لوگوں کا خون �س قدر سفید کیوں ہو گیا ہے ماں باپ �پنے چار ، چھ بچوں دیکھکر کلیجہ منہ کو

کو خون جگر پلا تے �ور پال پوس کر بڑ �کرتے ہیں �پنے پیروں پر کھڑ �کرتے ہیں دن ر�ت �ن کی کا میابی �ور ترقی

کی دعائیں کرتے نہیں تھکتے پھر یہی بچے �یک مقام پر پہنچ کرو�لدین سے دور ہو جاتے ہیں �پنی �پنی زندگی

کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر �نھیں بھول جاتے ہیں ‘‘ �نجم نے کہا

Page 146: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ہاں �نجم عمر رسیدہ لوگوں کی زندگی کا یہی �لمیہ ہے کہ وہ جو�نی میں �پنا پیار �ولا دپر لٹا تے ہیں �ور بوڑھے ’’

آ�نکھیں کسی چا ہنے و�لے ہونے کے بعد �سی �ولا دکی محبت �ور خلوص کی �یک نظر کے لئے تڑ پتے ہیں �ن کی

کے �نتظار میں فرش ر�ہ بن جاتی ہیں ‘‘باتوں میں ر�ستہ کب طئے ہو گیا پتہ ہی نہ چلا دونوں �ولڈ ہوم پہنچ گئیں۔

مہر �ولڈ ہوم کی وسیع وعریض خوبصورت عما رت کو دلچسپی �ور حیر�نی سے دیکھ رہی تھی۔ گیٹ میں د�خل

آ� گئے ہیں کمپا ؤ نڈ ہرے بھرے بیل بو ٹوں سے سجا ہو �تھا عمارت ہو تے ہی محسوس ہو �جیسے کسی محل میں

کے تمام کمرے کشا دہ ، صاف شفاف چمکد�ر �ور ہو �د�ر تھے۔ کمروں کی تعد �د بیس بائیس رہی ہو گی

آ�فس روم �ور �یک ڈسپنسری کے لئے مخصوص تھے۔ فرسٹ فلورپرمارگریٹ کا کمرہ تھا جہاں جس میں �یک

آ�نے و�لوں سے ر�بطہ کیا جاتا تھا۔ �نجم ضرورت کا ہر سامان مو جود تھا �نٹر کام کے ذریعہ ہر کمرے سے �ور باہر

�ور مہر کو زیادہ دیر �نتظار نہیں کرنا پڑ �۔ مارگریٹ کو مہر نے دیکھا تو دیکھتی رہ گئی گلاب جیسا سرخ وسفید

آ�نکھیں ، ہلکے گلا بی رنگ کا لباس زیب تن کئے چاق وچو بند چہرہ ، ذہا نت کے نور سے چمکتی مسکر�تی

آ�مد مارگر یٹ �سے بہت �چھی لگی �یک صحت مند �ور پر خلو ص مسکر�ہٹ کے ساتھ �س نے دونوں کو خوش

ید کہا �نجم نے دیکھا کہ �س کے مسکر �تے چہرہ پر �د�سی کی لکیر تھی مارگریٹ کے ’’ہیلو‘‘کہنے پر وہ

چونک سی گئی �ور جلدی سے مہر کا تعارف کرو�تے ہوئے کہا۔

آ�پ سے ملنے کی خو�ہشمند’’ یہ میری بچپن کی دوست ہے �یک سیونگ سنٹر �ور �یک �سکول بھی چلاتی ہے

آ� گئی چائے کے بعد تینوں �ولڈ ہوم کے مکینوں آ�ئی ‘‘ کچھ ہی دیر میں پر تکلف چائے تھی �س لئے میں ساتھ لے

آ�تی �سی دن نئے شریک ہونے و�لوں کا سے ملا قات کے لئے نکل گئے مارگریٹ کا معمول تھا کہ وہ جس دن

رجسٹر دیکھتی �ن سب سے ملتی۔ سب �س کا �حتر�م کرتے �س سے مل کربے حد خوش ہوتے �ور دعائیں دیتے۔

�ن لوگوں میں تعلیم یا فتہ �ور �ن پڑھ بھی تھے جو �علی �ور �وسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے �ن میں مردو خو� تین

ابر�بر تھی کچھ تو بے حد ضعیف �ور کمزورتھے �ور کچھ بیمار �ور معذور تھے یہ سب �پنوں کے کی تعد�د تقریب

ستائے ہوئے وقت کے پچھاڑے �ور سماج کے ٹھکر �ئے ہوئے قسمت کے مارے لوگ تھے کسی مرد کی بیوی نے

Page 147: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

بے و فائی کی تھی تو کسی عورت کے شوہر نے �ولا دنہ پید� کرنے کے جرم میں دوسری شادی کر کے �سے بے

سہار� کر دیا کوئی میاں بیوی �پنی �ولا دکے ہا تھوں ذلیل وخو�ر ہوئے �پنے ہی گھر میں �جنبی بن گئے تھے �ور

کسی کی �ولا دنے �نھیں گھر سے بے گھر کر دیا تھا سب سے مختصر ��نٹر ویو لیتے ہوئے دوتین گھنٹے گزر گئے

�س دور�ن �نجم غور کرتی رہی کہ مارگریٹ بات کرتے ہوئے کبھی کبھی کھوسی جاتی �د�س ہو جاتی �ور �دھر �دھر

دیکھنے لگتی ہے جیسے کسی کو کھوج رہی ہو کھوئی کھوئی سی مارگریٹ کی شخصیت پر �سر�رسی لگتی �س

نے سوچا کہ وہ مارگریٹ سے ضروربات کرے گی �س کے دل کا درد جا ننے کی کوشش کرے گی۔

دوسرے دن �نجم نے بو تیک جلدی کھول دیا مارگریٹ نے �مر یکہ سے جو کپڑے لائے تھے �نھیں شو کیس میں

آ� گئی۔ وہی �د�سی کی لکیرلیا ہو سیٹ کرنا تھا۔ وہ �بھی کام سے فارغ ہوئی ہی تھی کہ مارگریٹ حسب وعدہ

آ�نکھیں۔ �نجم نے دوکان کے حسا بات پیش کئے �سی دور�ن �یک خو بصورت دبلی �مسکر �تا چہرہ کھوئی سی

آ�سمانی رنگ کے مرد�نہ ٹی شرٹ کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی پتلی سی لڑکی دوکان میں د�خل ہوئی وہ �یک

جس کے �یک سائڈ میں خوبصورت گلا ب پینٹ کیا ہو� تھا �نجم نے �یک تجربہ کا ردو کا ند�ر کی طرح �س ٹی

شرٹ کی خوبیاں بتائیں پھر بھی �س کی قیمت معلوم ہو نے پر لڑکی خاموش ہو گئی تب مارگر یٹ نے کہا ’’بے

بی میں سمجھ گئی تم نے �پنے بھائی یا بو�ئے فر ینڈ کے لئے �س ٹی شرٹ کوپسند کیا ہے تمہاری پسند بہت

�علی ہے تم نے جسکے لئے یہ پسند کیا ہے کیا �سے بھی یہ رنگ پسند ہے ؟

لڑکی نے شرما تے ہوئے �ثبات میں سر کو جنبش دی مارگر یٹ نے کہا ’’ میں سمجھ گئی تم �پنے فرینڈ کو تحفہ

دینا چاہتی ہو تمہا ر� فر ینڈ بہت نیک ،باو فا �ور روحانیت پسند ہے وہ ملنسار�ور با �خلاق ہو نے کے علا وہ با

آ�سمانی رنگ پسند کرنے و�لے بڑی خو بیوں کے ما لک ہو تے مقصد زندگی گز�ر نے و�لا �ور حقیقت پسند لڑکا ہے

آ�پ نے آ�پ نے بالکل ٹھیک کہا میں حیر�ن ہوں آ�نٹی ہیں چا ہنے �ور چاہے جانے کے خو�ہش مند بھی ہوتے ہیں۔ ’’

‘‘ یہ سب کیسے کہہ دیا

Page 148: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

میں تمہارے بارے میں بتاؤں تم نے یہ جو گلا بی کپڑے پہنے ہوئے ہیں تم پر بہت جچ بھی رہے ہیں ظاہر ہے یہ’’

رنگ تمہار� پسند یدہ ہے �س کو پسند کرنے و�لے �علی کرد�ر ملنسار خدمت گز�ر�ور حساس طبعیت کے مالک

ہوتے ہیں تم دونوں �پنی زندگی میں کا میاب �ور خوش رہو گے میں یہ ٹی شرٹ تمہیں تحفہ دیتی ہوں لے لو ‘‘

لڑکی نے خوشی کے مارے مارگر یٹ کے ہاتھ کو چوم لیا �ور شکریہ �د� کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے شرٹ کو

تھام لیا۔ �نجم حیرت و�شتیاق سے مار گریٹ کی باتیں سن رہی تھی �س کی تجربہ کا رنظر �ور معلومات پر دل

ہی دل میں د�ددے رہی تھی �ور یہ سوچ کرخوش ہو رہی تھی کہ �س لڑکی کی طرف سے �سے بے شمار گا ہک

مل سکتے ہیں۔ مارگر یٹ کا خوشگو�ر موڈ دیکھتے ہوئے �نجم نے محتا ط �ند�ز میں بات شروع کی �س وقت کو

آ�پکی ذ�تی زندگی کے آ�پکے تجربہ �ور معلو مات پر حیر�ن ہوں وہ گنو�نا نہیں چاہتی تھی۔ ’’مس مارگر یٹ میں

بارے میں کچھ پو چھنا چاہتی ہوں بر� تو نہیں ما نیں گی ؟

آ�ج تم میر� �نٹر ویو کیوں لینا چاہتی ہو ؟‘‘ مارگر یٹ نے خوش دلی سے مسکر� کر�لٹا �نجم سے سو�ل’’ کیا بات ہے

کر دیا۔

آ�پ کی کچھ’’ آ�پکو کیا تکلیف ہے کیا میں آ�پ کچھ بے چین �ور �د�س رہتی ہیں میں نے محسوس کیا ہے کہ

‘‘ مدد کر سکتی ہوں ؟

تا دم حیات �نسان کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں یہ تو کوئی خاص بات نہیں ہے نا ؟ �ور کیا پو �نجم غم �ور خوشی’’

آ�پ نے شادی کیوں نہیں کی ؟ چھنا چاہتی ہو ؟’’

نڈپار ٹمنٹ میں میری پوسٹ و�لوں کو شادی کی �جازت نہیں تھی بس �س لئے نہیں کی ’’ ‘‘ میرے

آ�پکو تنہائی کا �حساس ہوتا ہو گا نا ؟’’ ‘‘ آ�پکی زندگی کا کوئی ساتھی نہیں ہے

Page 149: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ہاں یہ �حساس تو�ب ہونے لگا ہے کیونکہ دوست �حباب رشتے د�روں نے مجھے بہت لوٹا دوستی �ور خلوص کی’’

آ�پکو مصروف کر لیا ہے دکھی لوگوں کو آ�ڑ میں مجھے دھوکہ دیتے رہے �سی لئے تومیں نے �س نئے مقام پر �پنے

دیکھکر مجھے �پنا دکھ کم محسوس ہوتا ہے �ور �نھیں خوشی دے کرمجھے خوشی ہوتی ہے ‘‘

‘‘ آ�پکا کوئی خاص دوست نہیں ہے ؟ کوئی ہمدرد؟’’

آ�ہ بھری �ور خاموش ہو گئی۔ مارگریٹ نے �یک سرد

آ�پکو میری بات سے تکلیف پہنچی ہے ‘‘’’ مس مارگریٹ معافی چاہتی ہوں

نہیں یہ بات نہیں ہے میں �س کے بارے میں سوچ رہی تھی جو میر�نہ تھا لیکن میں �س کی ہو چکی تھی وہ �نڈ’’

آ�یا تھا ہم نے خوشیوں سے بھرے بہت سارے دن �یک ساتھ گز �رے تھے لیکن یا سے ملازمت کے لئے �مریکہ

میرے محبوب نے مجھ سے کوئی خوبصورت وعدہ نہیں کیا میری محبت کا محل صرف میں نے تعمیرکیا تھا یہ

آ�باد کرے گا یا نہیں ؟ نہیں جانتی تھی کہ میر� محبوب �سے

وہ جب �چانک مجھ سے دور ہو گیا تومجھے محسوس ہو�جیسے میری کوئی قیمتی شئے کھوگئی ہے۔ �کیلے پن’’

کے �حساس نے مجھے گھیرلیا۔ ۔ ۔ ‘‘مارگریٹ چند لمحوں کے تو قف کے بعد پھر گو یا ہوئی ’’مجھے سمجھ

آ� گیا تھا کہ لوگ خوشی میں کیسے دیو �نے ہوجاتے ہیں �ور حسرتوں کے ہجوم �ور نا �میدی کے �ندھیروں میں میں

آ�پ کو سنبھال لیا �نڈ یا میں �س کے بیوی بچے موجود تھے وہ �ن کا وفا کیسے پاگل ہو جاتے ہیں میں نے �پنے

د�ر تھا �پنی بے لوث محبت �ور کروڑوں کی دولت سے بھی میں �سے جیت نہ سکی وہ چاہتا تو مجھے دھوکہ

آ�ئینے کے طرح شفاف تھا میں �سی کی تلاش دے سکتا تھا لیکن وہ لا لچی نہیں تھا بڑ �معصوم تھا ، �س کا دل

آ�ئی ہوں �پنے دل کا خالی کشکول لئے �س کی گلیوں میں گھوم رہی ہوں وہ ڈ�ئری کھو گئی ہے جس میں یہاں

میں �س کا پتہ �ور فون نمبر تھا میری معصوم محبت کوئی عام سی محبت نہیں تھی کہ �س پر �ثرہی نہ ہوتا میرے

Page 150: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

جذبے سچے تھے مجھے �مید ہے وہ مجھے پھر �یک بار ملے گا جب ملے گا تو یہ �ولڈ ہوم �ور تمام بزنس میں

آ�و�ز بھر� گئی۔ جان کے حو�لے کر دوں گی ‘‘ مارگر یٹ کی

ا�ن کا نام جان تھا ؟‘‘’’ کیا

‘‘ نہیں۔ �س کا نام جاوید تھا۔ میں نے �سے یہ نام پیار سے دیا تھا’’

جاوید۔ ۔ ۔ جاوید۔ ۔ ۔ ‘‘�نجم جیسے کچھ سوچ میں پڑ گئی پھر پو چھا؟’’

آ�جائیں ‘‘’’ آ�پ کے پاس �ن کی کوئی تصویر ہے �گر ہے تو مجھے بتائیں شاید وہ کبھی میری نظر میں میڈم کیا

! ہاں �س کی تصویر ہمیشہ میرے بیگ میں موجود رہتی ہے۔ لو دیکھو’’

�نجم نے جاوید کی تصویر دیکھی تو ساکت ہو گئی گویا �س کے وجود پرمنون وزنی چٹان گر پڑی ہو۔ �ور �س

چٹان کے بوجھ تلے پاش پاش ہوتی ہوئی ، �س کی ٹوٹتی بکھرتی سانسوں کے ساتھ زخمی دماغ محض �یک ہی

نقطے پر مرکوز ہو چکا ہو۔

جا۔ ۔ ۔ و۔ ۔ ۔ وید!!جا۔ ۔ ۔ وید‘‘ �س کا خاوند۔ ۔ ۔ جاوید �ور وہ �یک �ذیت ناک کشمکش ہیں ڈوب’’

سی گئی۔

یہ تو خود� سکا شوہر ہے وہ �ذیت ناک کشمکش میں مبتلا ہو گئی۔

*****

Page 151: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

رنگ کے زندگی

�ہل ہوس کیا ساتھ نبھاتے سخت کٹھن تھی منزل منزل

آ�خر عشق ہی ٹھہر� ر�ہیں ڈھونڈیں مشکل مشکل عشق تو

تم سے چھٹ کر سب کچھ پایا لیکن دل کا چین نہ پایا

دیکھ پھرے ہم جادہ جادہ ڈھونڈ پھرے ہم منزل منزل

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تم نے طلاق نامہ بھیج دیا۔ میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ طلاق نامہ ہاتھ میں لئے یوں بیٹھی رہ گئی جیسے

کسی معصوم کے ہاتھ سے �س کامن پسند کھلونا ٹوٹ گیا ہو۔ دولت مند �ور ملازم عورت کا بھوت تم پر سو�رہو

آ�پ تج دیتے ہیں۔ آ�نکھوں پرخود غرضی کے پردے پڑ گئے تھے جبکہ �ولاد کے لئے ماں باپ �پنا چکا تھا تمہاری

شطرنج کی بازی تم نے جیتلی۔ حالانکہ دو طاقتور مہرے میرے بھی ہاتھ میں تھے۔ مہر معاف کر کے �ور بچوں

کی ذمہ د�ری �پنے سرلے کر میں نے غلط چال چلی۔ �یک غیر ذمہ د�ر �ور سرکش مرد کو بخش دیا۔ یہ میری

زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔ جو میری �ور بچوں کی زندگی پر محیط ہو گئی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

�د�س �ور یخ بستہ ر�تیں کاٹے نہیں کٹتیں۔ ر�ت کی بڑھتی سیاہی کے ساتھ جانے کیوں ہر درد سو� ہونے لگتا ہے۔

ر�ت �س ماں کے لئے تڑ پ بن جاتی جس کے بیٹے سات سمندر پار غم روزگار کو سینہ میں دبائے پردیس کی

Page 152: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

خاک چھان رہے ہوتے ہیں۔ ر�ت �یک بیوہ کے لئے ناگن تو کبھی سہاگن کے لئے کانٹوں کی سیج �ور کسی

آ�ہ �ور یتیم یسیر کے لئے �ک دعا ء بن مطلقہ کے لئے پچھتاوے کا �لاؤ بن جاتی ہے۔ ر�ت کسی بیمار کے لئے

جاتی ہے۔ خوشی کے لمحوں کا تعاقب کرتے ہوئے زندگی کبھی کبھی ساکن ہوجاتی ہے �ور یہ خوشیوں کی

دولت بانٹنے سے بڑھتی ہے لیکن غم کی دولت سمیٹ کر چھپا کر رکھنے و�لی ہوتی ہے۔ �پنے غموں �ور �د�سیوں

آ�نسوؤں کے سمندر خشک ہو چکے تھے میں پتھر بن چکی تھی۔ آ� گیا تھا۔ کو پردوں میں چھپانے کا ہنر مجھے

�ب مجھے ٹوٹنے پھوٹنے کا ڈرنہیں تھا۔ مرد پیٹ بھر روٹی �ور تن بھر کپڑے کے لئے عورت کوبار بار توڑتا پھوڑتا �ور

پامال کرتا ہے۔ �ک معاشی �ور سماجی تحفظ کے عوض با ربار سولی پر ٹنگاتا ہے مجھے �یسی روٹی �ور کپڑے

کی ضرورت نہیں تھی۔ باربار سولی پر جھولنا مجھے منظور نہ تھا ماں سمجھایا کرتیں ’’مرد ذ�ت �یسی ہی ہوتی ہے

آ�پ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا لیکن صبر کا د�من میرے ہاتھ سے �س وقت دوبچے ہو چکے ہیں جلد ہی �پنے

آ�ز�د ماحول کی لڑکیوں سے تمہارے آ�نے و�لی فیشن �یبل �ور چھوٹ گیا جب تمہارے پاس ٹیوشن کے لئے

آ� گئے �ور پھر جہاں تم ٹیچر تھے �سی �سکول کی �یک ٹیچر سے تم نے زندگی بھر کا ناطہ معاشقے عروج پر

جوڑ نے کی ٹھانلی شاید �میر باپ کی لڑکی تھی۔ مجھے بھی �پنے خاند�ن، تعلیم �ور حسن وجمال پر ناز تھا

�پنے ہی زعم میں �کڑتی مائیکے جانے کی ٹھانلی۔ تم نے میر� ر�ستہ روک لیا �ور شرط رکھی کہ خلع نامہ پر

دستخط کرنے کی صورت میں بچوں کو �پنے ساتھ لے جا سکتی ہوں بصورت دیگرمہر کے ساتھ طلاق لوں �ور

بچوں کو چھوڑ دوں۔ بچوں کو سوتیلی ماں کے حو�لے کیسے کر دیتی۔ میں نے خلع نامے پر دستخط کر دئیے �ور

آ�ئی۔ پھر خط وکتابت چلی۔ میں نے �پنی شرط منو�نا چاہی کہ ہم تینوں سے �گر محبت ہے تو تمہیں ہمارے چلی

مقام پر �کر رہنا ہو گا۔ میری عمر کا جذباتی پن �ور تمہاری شر�رت نے مجھے مجبور کر دیا تھا میں �پنی ضدپر

قائم رہی۔ تمہیں �پنا �ر�دہ �ور مقام چھوڑ نا منظور نہ تھا۔ تم نے وکیل کے ذریعہ نوٹس بھیجی کہ میں کسی شرط

آ�ؤں ورنہ �گلی ڈ�ک سے طلا ق نامہ بھیج دیا جائے گا �ور لکھا تھا کہ میں �پنا تمام کے بغیر تمہارے پاس چلی

آ�ئی تھی۔ میں نے سامان ، زیور کپڑے �پنے ساتھ لے گئی ہوں جبکہ �پنا �یک �یک تنکا تمہارے پاس چھوڑ

Page 153: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�نے کا موقع نہیں دیا۔ �پنی ضد نار�ضگی میں نوٹس کا جو�ب نہیں دیا۔ تم نے مجھے �پنے زعم کے خول سے باہر

پر تھی نار�ض تھی تو سمجھایا تک نہیں۔ تمہارے بچوں کی ماں تھی �چھے برے دن ہم نے ساتھ گز�رے تھے۔

دو ہفتوں بعد تم نے طلاق نامہ بھیج دیا۔ میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ طلاق نامہ ہاتھ میں لئے یوں بیٹھی

رہ گئی جیسے کسی معصوم کے ہاتھ سے �س کامن پسند کھلونا گر کرٹوٹ گیا ہو۔ دولت مند �ور ملازم عورت کا

آ�نکھوں پرخود غرضی کے پردے پڑ گئے تھے جبکہ �ولاد کے لئے ماں باپ �پنا بھوت تم پر سو�رہو چکا تھا تمہاری

آ�پ تج دیتے ہیں۔ شطرنج کی بازی تم نے جیتلی۔ حالانکہ دو طاقتور مہرے میرے بھی ہاتھ میں تھے۔ مہر معاف

کر کے �ور بچوں کی ذمہ د�ری �پنے سرلے کر میں نے غلط چال چلی۔ �یک غیر ذمہ د�ر �ور سرکش مرد کو بخش

دیا۔ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔ جو میری �ور بچوں کی زندگی پر محیط ہو گئی۔

طلاق نامے کو پڑھ کر میری نبضیں چھوٹ گئیں سانسیں ساکت ہو گئیں میر� خون خشک ہو گیا �ور میں �نیمیا

Ane*ea کی مریض ہو گئی۔ تم لوگ عورت کو �یک حقیر چیز سمجھتے ہو �س کی �یک ر�ت کی قیمت

لگا تے ہو �ور وہ بھی �د� کرنا گو�رہ نہیں ہوتا۔ ہرلڑکی کے ماں باپ زندگی بھر کی محنت �ور کمائی کا بڑ �حصہ

بیٹی کی شادی پرخرچ کرتے ہیں تاکہ وہ �پنی سسر�ل میں خوش رہ سکے لیکن �کثر �یسا ہوتا نہیں ہے۔ ماں باپ

بھی �پنی ناد�نی �ور نا تجربہ کاری کے باعث بے جوڑ شادی کر دیتے ہیں �ور یہ کہہ کر د�من بچالیتے ہیں کہ

تمہاری قسمت میں یہی کچھ تھا ہم کیا کریں۔ میرے سامنے میرے بچوں کامستقبل تھا �ور منہ زور جو�نی تھی۔

کوئی معاشی تحفظ بھی نہیں تھا تم تصور نہیں کر سکتے کہ زندگی شیشے کی کرچیوں پر ننگے پاؤں چلنے سے

زیادہ �ذیت ناک تھی �یک عذ�ب کا دریا تھا جسے پارکرنا تھا بن پتو�ر کی ناؤ کوطوفان کے حو�لے کر کے ملاح

کنارے جا کھڑ �ہو� تھا۔ زندگی �ماوس کی �ندھیری ر�ت بن گئی۔ دور تک �جالے کی کرن نہیں تھی۔ زہر میں

بجھے نشتر چبھوتی تنہائی تھی۔ �یک دن خبر ملی کہ تم �سی ٹیچر کا ہاتھ تھام کر نئے ر�ستے پر قدم رکھ چکے

ہو �ور �س عورت نے یہ شرط رکھی تھی کہ پہلی بیوی �ور بچوں کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ نا ہو گا �یک عورت نے

آ�یا نہ پیار !�یک عورت �ور دوسری عورت کا بسا بسا یا گھر �جاڑ دیا �ور تم کو �پنے پھول سے معصوم بچوں پر رحم

Page 154: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

�س کی دولت کو گلے لگانے کی خاطر تم نے �پنے بیوی بچوں کے گلے میں پھانسی کا پھند� ڈ�ل دیا۔ ہاں یہ دنیا

مردوں کی ہے یہاں مردوں کی حکومت ،مردوں کا قانون چلتا ہے وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں طلاق نامہ جس دن

آ�یا �س دن تم سے شدید نفرت کا �حساس جاگا تھا کہ �یسے بے وفا �ور بزدل وسنگدل مرد پر زندگی کے پانچ

نت سال ضائع کر دئیے۔ تم نے یہ نہیں سوچاکہ عورت کے سر پرشوہر کاسائبان �ور بچوں کے سر پر باپ کا دس

آ� جاتے ہیں۔ تمہیں تو یہ بھی گو�ر� نہ تھا کہ میرے کپڑوں پر بھی شفقت نہ ہوتو وہ لاو�رث �شیا ء کے زمرہ میں

کسی مرد کی نظر پڑ جائے پھر تم نے یہ کیسے گو�ر� کر لیا کہ مجھ کو بچوں سمیت ہمیشہ کے لئے چھوڑ دو

کس کے سہارے ، زندگی کیسے گزریگی ، نہیں سوچا۔۔۔

و�لدین دوسری شادی کا کہتے تو میں بھڑ ک �ٹھتی کہ �یک باپ ہی �پنے بچوں کو تحفظ نہ دے سکا تو دوسرے

مرد سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ غیر کی �ولاد کو �پنائے گا۔ و�لدین �ور بہن بھائیوں کے سلوک کو

آ�زماہونے کا حوصلہ پید� کیا۔ ناکامی دیکھتے ہوئے میں نے �یک نئے عزم کے ساتھ کمر کسلی۔ زمانے کے ساتھ نبرد

�ور محرومی کے غموں کو چھپا کرخوش رہنا سیکھ لیا �ور زندگی کے ساتھ چل پڑ ی۔ �ن دنوں لوگ سعودی

عرب کی طرف دوڑ لگا رہے تھے لیکن مامتا کے جذبوں سے مغلوب میں �یک ماں ہی رہی۔ سعودی جا کر دولت

آ�سمان کی وسعتوں کو چھونے �ور کچھ کر دکھانے کے جذبوں پر مامتا کا جذبہ ہمیشہ غالب رہا۔ قوت کمانے ،

آ�رزوؤں کی کہکشاں بکھرتی رہی۔ ہم تینوں سفاک �ور بے رحم دنیا کے بارودی �ور خون پرو�ز مفلوج ہوتی رہی۔

آ�لو دگرد وغبار میں کھو گئے۔ تب �حساس ہو�کہ یہ دنیا و�لے تم سے زیادہ سفاک وبے رحم ہیں۔ ہر کسی کے ہاتھ

میں چھری ہے �ور ہر �یک دوسرے کا گلا کاٹنے کے درپئے ہے۔ ہمیں کوئی سائبان نہیں ملا کہ جس کے سائے

میں ہم سکون کی سانس لے سکتے۔ روتے ہنستے ، گرتے سنبھلتے �یک دوسرے کو سہار �دیتے زندگی کی �ونچی

آ�نے کی �مید ہی نہیں آ� گئے۔ تمہارے آ�ج پینتیس سال بعد �چانک تم نیچی پگڈنڈیوں پر چلے جا رہے تھے کہ

تھی۔ پتہ نہیں دعاؤں کی قبولیت کا وہ کونسا لمحہ تھا جو �ن بچوں کو نہال کرگیا۔

Page 155: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تم �پنے بچوں �ور پوتے پوتیوں کے بیچ بیٹھے مسکر� رہے تھے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے دور کہیں

سنگلاخ چٹانوں کے بیچ سے کوئی چشمہ بہہ نکلا ہو۔ جیسے کھلے مید�ن کی چاندنی ر�ت میں کہیں دور

چاندی کی گھنٹیاں سی بج رہی ہوں۔ بچے حیر�ن نظروں سے تمہیں دیکھ رہے تھے۔ �یک شخص جو �ن کے لئے

آ�نکھوں میں جیسے سو�ل تھا �جنبی ہوتے ہوئے �پنا سا لگ رہا تھا۔ دوتین بار تم نے مجھ پر بھی نظر ڈ�لی۔ تمہاری

کہو کیسی گزری ؟میں کیا بتاتی کہ سوکھے پتے کی مانند �ڑتی پھر رہی تھی۔ میر� حال کٹی پتنگ جیسا تھا جو

یی �فسرکی بیوی ہونے کا �عز�ز میرے نصیب میں آ�سمان کی بے کر�ں وسعتوں میں بھٹک رہی تھی۔ �یک معزز �ور �عل

آ�ج تمہیں �پنے سامنے دیکھ کر �پنی آ�تی۔ نہیں تھا مجھے کہیں سے بھی کوئی صد� نہیں دی۔ شاید میں لوٹ

آ� رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی معصوم کا کھویا ہو� قیمتی کھلونا �چانک سر آ�نکھوں پر �عتبار نہیں

ر�ہ مل گیا ہوجسے �ٹھا کر جھاڑ پونچھ کر �پنے سامنے رکھ لیا ہو۔ دل چاہتا تھا کہ وقت کی رفتار تھم جائے گردش

لیل ونہار ٹھہر جائے وقت پر کس کا بس چلا ہے۔ �س کا توکام گزرنا ہے وہ گزر جاتا ہے �ور جاتے جاتے �چھی

بری یادیں چھوڑ جاتا ہے۔ دوتین گھنٹے بیٹھ کر تم �ٹھ گئے۔ بچوں �ور بہوؤں نے تمہیں روکا لیکن تم دو تین ماہ

آ�ج پہلی بار مجھے تھکن کا �حساس ہو�جیسے آ�نے کا وعدہ کر کے چلے گئے۔ ہم سب دیکھتے رہ گئے۔ بعد

آ�ندھیوں میں �ڑتا ہو�زخمی ہو گیا ہو �ور کسی پناہ گاہ کی تلاش میں ہو۔ کوئی پرندہ تیز

* ** * *

Page 156: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

فاصلے گئے سمٹ

زندگی ہم سے ترے ناز �ٹھائے نہ گئے

سانس لینے کی فقط رسم �د� کرتے ہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ مرد ذ�ت عورت کوکہیں چین لینے دیتی ہے پر�ئی عورت پر ہر مرد بری نظر ڈ�لتا ہے مجھ پرصاحب جی کی نظر

پھسل گئی بی بی جی نے بھی تاڑ لیا �ور مجھے کچھ روپیہ دے دلا کر چلتا کر دیا کپڑے دئے کپڑوں کے لئے

�چھا سا سوٹ کیس بھی دیا میری عقل میں یہ بات نہیں سماتی کہ قسمت باربار ہم غر یبوں کے ساتھ کیوں مذ�ق

کرتی ہے میں نے وہ گھرچھوڑ دیا �ور �یک درگاہ میں پناہ لے لی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�ج بڑی گہماگہمی تھی چار نمبرپلیٹ فارم پر �یک بازو جہاں چاندنی �پنی موسمبیوں کا ٹوکر�لئے بیٹھا �سٹیشن پر

آ�دھہ آ�نے میں آ� رہی تھیں میری ٹرین کے آ�و�زیں کرتی ہے غیر معمولی بھیڑ تھی دوعورتوں �یک مردکے جھگڑ نے کی

گھنٹہ باقی تھا �سلئے میں تیزتیز قدم �ٹھاتی وہاں پہنچ گئی جہاں جھگڑ �چل رہا تھا۔ چاندنی �ٹھا ئیس تیس برس

کی گوری چٹی عورت تھی جسکے گول سے چہرے پر گھنگھر یالے سیاہ بالوں کی لٹیس جھولتی رہتی تھیں پھٹے

پر�نے کپڑوں کے سور�خوں سے �س کاچاندی جیسا بدن لشکارے مارتا دکھائی دیتا تھاکہ �یک بار کسی کی نظر

آ�گے نہ بڑھنے پاتے۔ مجھے �پنی ڈیوٹی پرہر روز صبح ٹرین سے جانا آ� جاتی تودوسری نظرڈ�لے بغیرقدم �س سے ٹکر

ہوتا ہے �ور چاندنی ہردوسرے تیسرے دن مجھے موسمبی خرید نے پر مجبور کرتی تھی۔ �یک دن جب ٹرین لیٹ

Page 157: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تھی �س نے موسمبی دینے کے بجائے مجھے �پنی باتوں میں �لجھادیا۔ �س نے بتایاکہ ماں نے بچپن میں ہی �س

کی شادی کر دی تھی جبکہ پڑھ لکھ کروہ ٹیچر بننا چاہتی تھی۔ میں نے پوچھا ’’ تونے شادی سے �نکار کیوں

‘‘ نہیں کیا ؟

کیا بتاؤں بی بی جی ! �با تو �وپر جا چکے تھے محلے کے لڑکے مجھے چھیڑ �کرتے کوئی بھائی نہیں تھا جو�ن ’’

کی دھلائی کرتا ماں کب تک مجھے �ن کی نظر کے تیروں سے بچائی �ن ہی دنوں محلے کی �یک خالہ نے �پنے

‘‘ نو�سے کے لئے مجھے مانگا ماں نے ہاں کر دی ، ، ’’ پھر کیا ہو� ؟

ہونا کیا تھا شادی ہو گئی �پنے ہی جیسے غریب لوگوں میں چلی گئی بلکہ ہمارے گھرسے بدتر�ن کا گھر تھا ’’

بارش میں ساری چھت ٹپکتی تھی �ور نیند حر�م ہوجاتی تھی وہ موزکی بنڈی لے جاتا �ور ر�ت دیرگئے شر�ب پی

آ�تا �ور بس مارکٹائی میں ر�ت گزرتی ماں کے گزر جانے کے بعد �ن لوگوں کا ظلم وستم �ور بڑھ گیا سسرنے مجھ کر

پربری نظر رکھی تھی گھرسے مجھے وحشت ہونے لگی �ور میں بیمارہو گئی کسی نے دو� د�رو بھی نہیں کی

آ�پ جیسی �یک بی بی کے گھر میں جھاڑو پوچاکرنے لگی �چھا کھانا کپڑ بیز�رہوکرمیں گھرسے بھاگ گئی �ور

آ�یا کبھی باہر ��چھا گھرتھا بے فکری نے مجھے نیا جنم دیا میری ہڈ یوں پر گوشت چڑھ گیا رنگ بھی نکھر

نکلتی تور�ستہ چلنے و�لے مجھے یوں دیکھتے جیسے میں کوئی گلا ب جامن ہوں ، ،

‘‘ کیا �ب �س گھر میں کام نہیں کرتی ؟’’

کہاں جی ! یہ مرد ذ�ت عورت کوکہیں چین لینے دیتی ہے پر�ئی عورت پر ہر مرد بری نظر ڈ�لتا ہے مجھ ’’

پرصاحب جی کی نظر پھسل گئی بی بی جی نے بھی تاڑ لیا �ور مجھے کچھ روپیہ دے دلا کر چلتا کر دیا

کپڑے دئے کپڑوں کے لئے �چھا سا سوٹ کیس بھی دیا میری عقل میں یہ بات نہیں سماتی کہ قسمت باربار ہم غر

یبوں کے ساتھ کیوں مذ�ق کرتی ہے میں نے وہ گھرچھوڑ دیا �ور �یک درگاہ میں پناہ لے لی۔ میں چادر �وڑھے �یک

کونے میں سکڑی سمٹی بیٹھی رہتی دو وقت کی روٹی کھالیتی تھی دودن گزرے تھے کہ �یک �للہ کا بندہ نعیم

Page 158: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

�یسا ملا کہ میں �پنے دکھ بھولنے لگی وہ میرے کھانے کپڑے کا خیال رکھنے لگا تھا ! کیا بتاؤں بی بی جی ر�ت

�ور دن سہانے لگنے لگے چاروں طرف �جالے سے بکھر رہے تھے �س نے مجھے بتایاکہ وہ مجھ سے شادی کرنا

چاہتا ہے �پنی بیوی �ور تین بیٹیوں کا ذکر کیا �ور کہاکہ �سے �یک بیٹے کی خو�ہش ہے �س نے مجھ سے نکاح کر

لیا �یک گھر کر�ئے پرلیا �ور �س میں ضرورت کی ہر چیز رکھ دی میں بن مانگی خوشیوں کے ہجوم میں کھوگئی �ور

نہیں سوچا کہ بخشش میں ملنے و�لی محبت زندگی کو نہیں سنو�رسکتی کسی �ور کی تقدیر کے سورج سے میری

دنیا کا �ندھیر� دور نہیں ہو سکتا میں سکون کا سانس بھی لینے نہ پائی تھی کہ قسمت نے پھر میرے منہ پرطمانچہ

آ�دھمکی سب نے مجھے مار� پیٹا مار� نعیم کی بیوی کو�س بات کا علم ہو�تو�پنے بہن بھائیوں کے ساتھ میرے گھر

�ور فور�گھر سے �ور نعیم کی زندگی سے دور چلے جانے کہاور نہ مجھے جان سے ماردینے کی دھمکی دی

دوسرے دن میں نے �پنے کپڑے �ور ضروری سامان سمیٹا �ور �س گھرکو چھوڑ دیا۔ میرے پاس جوتھوڑی بہت رقم

آ�یا تقدیر کے کھیل نر�لے تھی �س سے یہ کام شروع کر دیا ، ، چاندنی کی دکھ بھری کہانی سن کرمیر� دل بھر

ہوتے ہیں قدرت نے تو عورت کو وہ تقدس عطاکیاکہ �س کے قدموں تلے جنت رکھ دی لیکن �بلیس کے چیلے �س

آ�ج چاندنی کا جھگڑ �کس بات �ور کس کے ساتھ ہو رہا کے تقدس کوپامال کرنے کے درپئے رہتے ہیں پتہ نہیں

‘‘ تھا۔

آ�دھہ گھنٹہ لیٹ تھی میں تیزتیز قدم �ٹھاتی چاندنی کی طرف گئی تودیکھا �یک مرد �ور �یک عورت’’ میری ٹرین

کسی بات پرچاندنی کے ساتھ جھگڑ �کر رہے تھے چاندنی �یک بچے کو�پنے سینے سے چمٹائے کھڑی تھی بڑی

آ�نکھوں سے چنگا ریاں برس رہی تھیں بچہ �س مردکی زیر�کس کا پی تھا جو �س سے جھگڑ �کر رہا بڑی چمکد�ر

آ�ئی ہے ؟ دردر کی تھا چاندنی کہہ رہی تھی ’’ دو سال تک تم نے میری کوئی خیرخبرنہیں لی �ب بچے کی یاد

ٹھوکریں کھا رہی ہوں �پنا خون پلا کربچے کوپال رہی ہوں کہہ دیانا یہ بچہ تمہار� نہیں ہے میں کسی کو �پنا بچہ

نہیں دوں گی یہ میر� بچہ ہے چلے جاؤ یہاں سے ، ،

Page 159: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�خری بارکہہ رہا ہوں سیدھے طریقہ سے میرے ساتھ چل ہم سب مل کر رہیں گے تونہیں چلے ’’ دیکھ چاندنی میں

گی تومیں �پنے بچے کوکسی نہ کسی طرح لے لوں گا پھر تو پچھتائے گی ، ، مردنے �سے دھمکی دی لیکن

آ�ئی ہوں پہلے تیرے ساتھ جوبھی جھگڑ �ہو� تھا �سے عورت نے سمجھا تے ہوئے کہا ’’ میں تجھے لینے کے لئے

بھول جاوہ غصہ میری ناد�نی تھی �ب میں کچھ نہیں کہوں گی میری تین بیٹیاں �پنے بھائی کوپا کر خوش ہوجائیں

گی ہم سب مل کر رہیں گے سب مل کرمحنت کریں گے �ور �پنے بچوں کی پرورش کر یں گے ، ، �ن سب کے

آ� گئی تھی میں چاندنی کے سامنے جاکھڑی ہوئی مجھے درمیان ہونے و�لے جھگڑے کی بات میری سمجھ میں

آ�ئے ہیں ’’ دیکھکر وہ رونے لگی بی بی جی میرے بچے کو�ور مجھ کوبچا لو یہ ظالم لوگ ماں بیٹے کو جد� کرنے

آ�ئے ہیں مجھے بچا لو مجھے بچا لو ، ، میں نے چاندنی کا ہاتھ پکڑ ��ور وہاں سے کچھ مجھے پھر دھوکہ دینے

دور لے جا کرسمجھا یا ’’ چاندنی تیر� شوہر سوتن کے ساتھ �کرتجھے �طمنان دلانا چاہتا ہے کہ �ب تجھے کوئی

تکلیف نہیں ہو گی پچھلی باتوں کوبھول کر�ن کے ساتھ چلی جاعزت �ور سکون کی زندگی گز�ر قسمت تجھے

موقع دے رہی ہے �سے کیوں گنو�تی ہے چلی جا �سی میں تیری بھلائی ہے ، ،

چاندنی کچھ دیر پلکیں جھپکاتی میرے چہرہ کودیکھتی رہی پھر جھک کر میرے پاؤں چھوئے مسکر�ئی �ور پلٹ

گئی۔

*****

Page 160: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

اجالے اندھیرے

آ�ئے بہار دے جو گلوں کے رخ کونکھاردے جوچمن کو

جو قدم خز�ؤں کے روک دے �سی باغباں کی تلاش ہے

آ�رزو ، مری چاہتیں نط غم ، مری �لجھنیں ، مری مر�ضب

میں کسے سناؤں یہ د�ستاں مجھے ر�زد�ں کی تلاش ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کیا غریب کے بچوں کوپڑھنے کا حق نہیں ہوتا کیا �سے �پنے باپ د�د� کی طرح �ن پڑھ رہنا چاہئیے۔ محرومیوں �ور

مجبوریوں کو سینے سے لگائے زندگی گز�ردینا چاہئیے ؟وہ سوچتا رہا �س کی پلکیں بھیگتی رہیں �گروہ �علی تعلیم

حاصل نہ کر سکا �علی �فسرنہ بن سکاتو ہارون کی بہن پروین کا ہاتھ کیونکر مانگ سکتا ہے وہ تو ملے بغیر �یک

دن بھی نہیں رہ سکتے کاش �نسان کی تقدیر� سکی مٹھی میں ہوتی۔ �سے �چھے کالج میں د�خلہ لینا ہی ہو گا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�یا �ور لیدر کا چھوٹا ساپرس �س کے ہاتھ میں تھما کر کہا ’بھا گو،۔ �یک شخص بہت تیز رفتاری سے بھا گتا ہو�

عارف نے پوچھا: یہ کیا ہے ؟

آ�جاناتمہار� بہت فائدہ ہو گا ، ، کہتا ہو� وہ �یک گلی میں مڑ’ سو�ل مت کرو، بھاگ جا ؤ۔ کل �سی جگہ

آ� رہے تھے �نھیں کرغائب ہو گیا عارف نے �دھر �دھر نظر دوڑ �ئی تو دیکھا پولس کے دو جو�ن بھا گتے ہوئے

Page 161: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

دیکھکر عارف سرپٹ بھا گا۔ بھاگتا ہو� جانے کتنی دور نکل گیا پسینے میں شر�بور ہو چکا تھا سانسیں بے ترتیب

ہو رہی تھیں �سی وقت �س کے دوست ہارون نے �سے روک لیاکہا ’’ عارف ! رکو! رکو ! کہاں بھاگے جا رہے ہوکیا

تیز بھاگنے کی مشق کر رہے ہو ؟

آ�یاجو �س ’’ ذر�۔ ۔ ۔ ذر�۔ ۔ ۔ ٹھیرو بتاتا ہوں ، ، �س نے چاروں طرف نظر دوڑ �ئی �یسا کوئی شخص نظر نہیں

:کا پیچھا کر رہا ہو �س نے سانسوں پرقابوپاتے ہوئے کہا

آ�دمی نے میرے ہاتھ میں یہ پرس تھما یا �ور غائب ہو گیا شاید پولس �س کے پیچھے ’’ دیکھو کسی بھاگتے ہوئے

آ�یا ؟ تھی میں کچھ سوچے سمجھے بغیر بھاگنے لگا ! یہ میں کہاں نکل

تم میرے گھر کے سامنے ہوچلو �ندر بیٹھ کربات کرتے ہیں ، ، ’’

دیکھوتو�س پرس میں کیا ہے یہ بھا گنے و�لے کا ہے یاکسی کا �ڑ �لیا ہے: ’’ عارف نے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا

؟

ا�سی مقام پرجا’’ �رے �س میں توکافی رقم ہے تمام سوسوکے نوٹ ہیں ، ، ہارون نے کہا ’’ میں �یسا کرتا ہوں کل

کر ٹھیر جاتا ہوں۔

آ�جائے �س نے کہا تھا کہ میر� بہت فائدہ ہو گا، ، دوسرے دن عارف �سی وقت �ور �سی مقام ہو سکتا ہے وہ

آ�دھہ گھنٹہ ٹھیر کرو�پس چلا گیا۔ دوتین دن تک وہ جاتا �ور ٹھیرتا رہا۔ پھر �س نے ہارون سے کہا ’’ یارکیا پرگھنٹہ

آ� گیا ہوحو�لات میں بند ہو آ�یا ہو سکتا ہے وہ پکڑ ! کریں وہ تونہیں

�رے بھئی کرنا کیا ہے رقم تم نے چر�ئی تونہیں ہے �سے �وپر و�لے کی دین سمجھ کرکام میں لالو، ، ’’

آ�یا تھا تم تو جانتے ہومیرے �بو �سکول کی فیس بھی بر�بر نہیں دیتے تین مہینے ’’ ہاں میرے بھی دل میں یہ خیال

آ�تے ہیں سال سے میں نے فیس نہیں دی ہے �پنی کلاس کا �چھا �سٹوڈنٹ ہوں نا �س لئے سربہت نرمی سے پیش

Page 162: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�خر مجھے میٹرک پاس کرنا ہے ماں کی دو� بھی ختم ختم ہونے چارمہینے باقی ہیں �متحان کی فیس بھی دینا ہے

ہو گئی ہے ، ،

تمہارے �بوفیس کیوں نہیں دیتے ؟ ’’

آ�دھی رقم وہ خود�پنے لئے خرچ60 50تم جانتے ہو وہ �یک کر�نہ دوکان پرکام کرتے ہیں روز�نہ - ’’ روپئے ملتے ہیں

کرتے ہیں باقی پیسوں میں گھر چلنا ہی مشکل ہے فیس کہاں سے دیں گے !؟

تم �یسا کرو�ن پیسوں سے �پنا کام چلالوجب تم کمانے کے قابل ہوجاؤ توکسی غریب کو�تنی ہی رقم دیدینا’’

حساب بر�بر ہوجائے گا چلو�ب زیادہ نہ سوچو�سے �وپر و�لے کی مددسمجھو ، ،

آ�گے کی پڑھائی �ور فیس کی عارف نے میرٹ میں �متحان پاس کیاگو لڈمڈل حاصل کیا وہ بہت خوش تھا لیکن

فکرنے �سے �د�س کر دیا تھا۔ ر�ت بستر پرلیٹا ہو� سوچوں میں گم تھا �سے بچپن ہی سے �چھے �سکول میں پڑھنے

آ� رہا کی خو�ہش تھی وہ تو پوری نہ ہو سکی تھی �ب وہ �چھے کالج میں د�خلہ لینا چاہتا تھا جوممکن نظر نہیں

تھا �س نے مختلف کالجوں کے چکر لگائے �ور مایوس ہو گیا یہ �جلے نکھرے سے لوگ جوقوم کی خدمت کا بیٹر�

�ٹھائے لمبی چوڑی تقریریں کرتے ہیں �ندر سے کتنے مکروہ �ور لالچی ہوتے ہیں �نھوں نے �یک ہونہار طالب علم کی

ہز�رکا مطالبہ کیا25بھی پرو�ہ نہیں کی! �س نے محلے کے کارپوریڑ سے مل کر �پنی مجبور یاں بتائیں �س نے بھی

آ�یا کہ وہ بھی کسی کا پرس �ڑ �لے کسی بینک میں ڈ�کہ ڈ�ل دے یا پھر کسی بڑے گھرمیں عارف کے دل میں

آ�و�زنہیں پھربھی لگتا ہے بے نام بے ہنگم آ�ہٹ کوئی گھس کرچوری کرے ر�ت کا سناٹا کتنا عجیب ہوتا ہے کوئی

آ�ماجگاہ بنا ہو� تھا و�لدسے کوئی �مید آ�و�زیں دماغ پرہتھوڑے برسا رہی ہیں �س کاذہن برے برے خیالات کی سی

آ�تا ماں سے جھگڑ �کرتا �کثر مارپیٹ بھی11نہیں تھی وہ تو معمول کے مطابق بجے شر�ب کے نشہ میں چورگھر

ہوتی پھر وہ سوجاتا �سے �پنے �کلوتے بیٹے �ور بیوی کی پرو�ہ نہیں تھی کاش ہارون کے و�لدکی طرح �س کے

آ�فیسر ہوتے �چھا گھر �چھا �سکول �سے بھی میسر ہوتا کیا غریب کے بچوں کوپڑھنے کا حق نہیں ہوتا و�لدبھی کوئی

Page 163: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کیا �سے �پنے باپ د�د� کی طرح �ن پڑھ رہنا چاہئیے ؟ محرومیوں �ور مجبوریوں کو سینے سے لگائے زندگی گز�ردینا

چاہئیے ؟وہ سوچتا رہا �س کی پلکیں بھیگتی رہیں �گروہ �علی تعلیم حاصل نہ کر سکا �علی �فسرنہ بن سکاتو ہارون

کی بہن پروین کا ہاتھ کیونکر مانگ سکتا ہے وہ تو ملے بغیر �یک دن بھی نہیں رہ سکتے کاش �نسان کی تقدیر�

سکی مٹھی میں ہوتی۔ �سے �چھے کالج میں د�خلہ لینا ہی ہو گا۔

آ�فیسر �ور نیک �نسان تھے۔ ہارون نے �سے �س نے �پنا مسئلہ ہارون کے سامنے رکھ دیا �س کے و�لد�یک �علی پولس

�پنے پاپا سے ملایا �نھوں نے �چھے کالج میں د�خلہ دلانے کا وعدہ کیا۔ عارف نے کہا

آ�پ کا یہ �حسان میں عمر بھرنہیں �تار سکوں گا ، ، ’’ �نکل

نہیں بیٹا �س میں �حسان کی کیابات ہے �نسان کو�نسان کی مدد کرنا چاہئے کسی کی ڈوبتی کشتی کوبچانا ’’

�ور پارلگانا �نسانی فریضہ ہے تم جیسے ہونہاربچوں کی قوم کوضرورت ہے �گر �یک متمول بندہ کم �زکم �یک بچے

کو �علی تعلیم دلا سکے تو ہز�روں بچے �پنے خاند�ن کے کفیل بن سکتے ہیں �ور مجھے یقین ہے تم بھی کسی

کی مدد کرو گے بس میر� �حسان �ترجائے گا ، ، ’’ �نکل میں سمجھا نہیں ؟ عارف نے کہا

میں بتاتا ہوں تمہیں کیا کرنا ہے ، جب کبھی تم قابل بن جاؤ �ور تقدیرتمہیں موقع دے توتم بھی کسی مظلوم ’’

یامستحق کی ڈوبتی کشتی کو�سی طرح پارلگا دینا سمجھ گئے ، ، ہارون کے و�لدنے عارف کے سرپر ہاتھ رکھ

کرکہا

آ�پ نے بہت �چھی بات بتائی ہے میں یہ بات یاد رکھوں گا ، ، ’’ جی !�نکل

شہر کے �یک مشہور کالج میں عارف کود�خلہ مل گیا۔ لیکن چند ہی ماہ بعد ہارون کے و�لدکا تبادلہ ہو گیا کچھ

عرصہ تک فون یاخطوط کا سلسلہ رہا پھر بندہو گیا۔ عارف کی زندگی میں خلاء ساپید� ہو گیا کہتے ہیں وقت ہر

آ�زمائشوں کے دور سے گزرکرعارف نے ا�ڑ گئے کٹری محنت �ور .Sc*.زخم کا مرہم ہوتا ہے ماہ وسال پرلگا کز

*.Ed.کر لیا۔ �سکاباپ شر�ب پی پی کربیمارہو گیا �س کے سینے �ور پیٹ میں درد رہنے لگا تھا کپڑے سیتے

Page 164: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

سیتے ماں کی کمر کمان بن چکی تھی �ن ہی دنوں عارف کو �سی کے کالج میں معقول تنخو�ہ پر ملازمت مل

آ�ج سے گئی ماں باپ کی �ور خود� سکی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا �س دن �س نے باپ سے وعدہ لیاکہ وہ

شر�ب نہیں پئے گا �ور ماں سے وعدہ لیاکہ وہ �ب کپڑے نہیں سئے گی۔ �س دن �سے ہارون �ور پروین کی

یادبہت ستا رہی تھی وہ دونوں بھی ڈگری کر چکے ہونگے کاش ہم سب �یک دوسرے کی خوشی میں شامل ہوتے

جانے وہ سب کہاں ہونگے کب ملیں گے ؟ ر�ت پھر وہ ٹھیک سے سوبھی نہ سکا۔ صبح جلدی �ٹھ گیا کیونکہ

�س کے و�لدین کودو�خانہ لے جانا تھا ڈ�کٹر سے �پو�ئنٹ منٹ لینے کے لئے وہ چلا گیا۔ دو�خانہ میں �چانک �س

کی ملاقات ہارون سے ہو گئی وہ نہیں جانتا تھا جنھیں یادکرتا ہو� ر�ت بے چین تھا صبح �ن سے ملاقات ہوجائے

گی وہ مارے خوشی کے ہارون سے لپٹ گیا ہارون بھی �سی گرم جوشی سے ملالیکن �س کی پلکیں بھیگی ہوئی

تھیں چہرہ سے بیمارسالگ رہا تھا دونوں ہاسپٹل کے �حاطہ میں �یک طرف بیٹھ گئے ہارون نے بتایاکہ پروین کو

B ۔ T ہو گیا ہے ڈ�کٹرنے کہا ہے کہ �گلے دوتین ماہ �س کے لئے خطرناک ہیں وہ روپڑ �’’عارف میری بہن کیا

ہمیشہ کے لئے بچھڑ جائے گی میں یہ کیسے برد�شت کر سکونگا بتاؤ عارف میں کیا کروں ؟ عارف کویہ سن کر

آ�پ پرقابوپاتے ہوئے کہا :سکتہ سا ہو گیا چندلمحوں بعد �پنے

کا مرض توختم ہو چکا ہے کبھی کسی کو ہوجاتا ہے تو �س کا علاج بھی ہے �تنے پریشان نہ T۔ B ہارون’’

ہومیرے بھائی سب ٹھیک ہوجائے گا چلو مجھے �س کے پاس لے چلو‘‘پروین نے عارف کودیکھا تودیکھتی رہ گئی

جیسے کہہ رہی ہو کیاچاہنے و�لے �یسے ہی ہوتے ہیں دیکھو تمہاری جد�ئی میں میری کیاحالت ہو گئی ہے !!؟

آ�پ سے خفا تھا لیکن �ب تم مل آ�نکھیں جیسے کہہ رہی تھیں میں بھی زمانے سے خفا تھا �پنے عارف کی بھی

آ�میز باتیں کرتا رہا بہت دیربعد وہ گئی ہو چلو ماضی کی صعوبتوں کوبھول جائیں عارف �س کے قریب بیٹھا تسلی

ا�سے �یساہی خوش آ�ج پروین بہت خوش ہے خد� آ�یا کرے �ور ہارون جانے کے لئے �ٹھے تو و�لدہ نے کہاکہ وہ ہر روز

رکھے۔ عارف توچاہتا ہی تھاکہ وہ ہر روز پروین کے سامنے بیٹھا �س سے باتیں کرتا رہے �س نے وعدہ کیا کہ وہ ہر

Page 165: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�یا کرے گا۔ و�پسی پرہارون نے کہا کہ ’’ پروین کی صحت قدرے سنبھل جائے تو �س کی شادی کر دی روز

جائے گی ہم سب �سے دلہن بنی دیکھنا چاہتے ہیں سو�ل یہ ہے کہ �س حالت میں �س سے شادی کون کرے گا ؟

آ� گئی جسے یادرکھنے کا �س نے وعدہ کیا تھا کہ ’’ تم قابل بن جاؤ �چانک عارف کوہارون کے پاپا کی وہ بات یاد

�ور تقدیرتمہیں موقع دے تو تم بھی کسی مظلوم یامستحق کی ڈوبتی کشتی کوپارلگا دینا ، ، عارف کو خاموش

پا کرہارون نے حیرت سے پوچھا ’’ کیا بات ہے عارف تم �سطرح کیوں خاموش ہو گئے ؟

آ�ج میں ’’ آ�نٹی کی خو�ہش کوپور� کرنے کی جر�ءت کر سکتا ہوں ؟ گوکہ میں سوچ رہا تھا کہ کیامیں �نکل �ور

تعلیم یافتہ کہلا سکتا ہوں باوقار عہدہ پرفائز ہوں لیکن طبقاتی فرق توجوں کاتوں رہے گا پھر بھی میں۔

آ�پ کوقربانی کے لئے پیش ’’ کیا کہہ رہے ہوعارف !تمہارے سامنے �س بات کا �ظہار �سلئے نہیں کیاکہ تم �پنے

کر دو؟ ! �ور یہ طبقاتی فرق کے کیا معنی ہیں ؟ عارف نے کہا ’’ �س میں قربانی کی توکوئی بات نہیں ہے وہ

�نسان ہی کیا جودوسرے کے کام نہ �س کے ؟ �گر میں تم سب کو تھوڑی سی خوشی دے سکوں تویہ میری خوش

قسمتی ہو گی شاید تم مجھے �س قابل نہیں سمجھتے ہے نا؟ ’’ ہارون نے �سے گلے لگا لیا۔

آ� گئی �ور گالوں پرگلاب آ�نکھوں میں چمک �گلے تین مہینوں میں پروین کی صحت کافی حدتک سنبھل گئی تھی

آ�سمان سے جیسے رنگ ونور کی بارش ہو رہی تھی �ور پروین آ� گئی سے کھل گئے تھے۔ سیٹی ٹوریم سے وہ گھر

جیسے ستاروں کے جھرمٹ میں پھولوں پرچلتی ہوئی پالکی میں بیٹھ رہی تھی عارف �ور پروین ہنی مون منا نے کے

لئے سوئٹزرلینڈ رو�نہ ہو گئے۔

*****

Page 166: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کشتی کی غذ کا

یہ دو لت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو’’

بھلے چھین لو مجھ سے میری جو �نی

مگر مجھکو لو ٹا دو وہ بچپن کا سا ون

وہ کا غذ کی کشتی وہ با رش کا پا نی‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ر�ت کا �یک بجر ہا تھا سارہ �پنے نرم گرم بستر پر لیٹی کرو ٹیں بدل رہی تھی سلیم سے دوری �ور تنہائی کے

آ� رہے تھے دل میں �نجانو سو سے جاگر ہے تھے مرد ہر جائی ہو تے ہیں خود غرض ناگ �بھی سے پھن �ٹھائے نظر

�ور سنگدل ہو تے ہیں �س کے �ندر شکو ک کے �لا ؤ سلگنے لگے۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

�سے تیسرے دن تھوڑ �سا سکون ملا طبعیت ٹھہرسی گئی وہ تین دن سے �ذ یت کے �لا ؤ میں سلگ رہی تھی یہ

سوچ سوچ کر مر رہی تھی کہ وہ مر کیوں نہ گئی دل بند کیوں نہ ہو گیا دم گھٹ جا نا چاہئے تھا تین دن سے

آ�نکھوں کا نور دل جہنم کا �یند ھن بنی ہوئی تھی وہ �تنی قا بل نفرت نہیں تھی وہ تو �پنے بڑے �ور چھوٹوں کی

آ�ئی تھی۔ �س کے روم روم کا سرورتھی پھر �س کی تقدیر کیوں �تنی بد شکل �ور بد نما بن کر� سکے سامنے

آ�ئی تھی پھر �س کی کشتی میں کا نٹے سے چبھ رہے تھے وہ تو �یک ہی ر�ت میں محبتوں کا �یک سمندر پار کر

Page 167: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کنارے پر کیوں ڈوب گئی جن کی تقدیر میں ڈوبنا ہوتا ہے شا ید وہ کنارے پر بھی ڈوب جاتے ہیں۔ کیا ہر �نسان

آ�تا ہے جہاں زندگی ہمیشہ کیلئے ٹھہرسی جاتی ہے یا ہمیشہ کے لئے رو�ں دو�ں کی زندگی میں کوئی موڑ �یسا بھی

ہو جاتی ہے لیکن �س کی زند گی کا یہ کیسا مو ڑ تھا جہاں �کر �سے کوئی ر� ستہ سجھائی نہ دے رہا تھا چاروں

طرف �ندھیر� تھا۔ دو ہی مہینے پہلے وہ دلہن بنی تھی۔ ماہ رمضان قریب �لختم تھا سارہ کی ہو نے و�لی ساس نے

آ� رہی ہیں گھر کا رنگ و روغن تیزی کے ساتھ مکمل ہو� تھا سارہ فون پر بتا یا تھا کہ وہ جمعہ کے دن عیدی لے کر

� گھر کی صفائی �ور سجا وٹ میں مصروف تھیں عید کے فوری بعد سار� کی شادی تھی ساس سسر �ور�ور ز�ر

آ�ئیں ڈھیرسارے مغزیات ، سوئیاں ، بے حساب مٹھائی کے ڈبے �ور نہا یت قیمتی �ور خوش نندیں عیدی لیکر

رنگ شلو�ر سوٹو غیرہ۔ سا رہ �ور �س کی ماں بہن پھولی نہیں سما رہی تھیں۔ پر تکلف کھا نا ہو �، ہنستے ہنسا

تے تقریب �ختتام کو پہنچی۔ مہمان رخصت ہو رہے تھے۔ تب ہی سارہ �ور �س کی سہیلی نا ہید نے �سے گھیر

لیا ’’ بڑی خوش نصیب ہو کہ بنا کوششو تلاش �چھا لڑکا مل گیادیکھنے میں تو حضرت بڑے ہی �سمارٹ �ور

ہینڈسم ہیں لیکن۔ ۔ ۔ سارہ �یک بات بتاؤں �سمارٹ لڑکوں پر تو مجھے بھروسہ ہی نہیں �تاجانے کتنی تتلیاں �ن

آ�خر �تنی شکی مز�ج کیوں ہو شادی کی بنیا دتو محبت �ور کے �طر�ف گھو متی ہو نگی �ور ‘‘۔ ۔ ۔ ’’نا ہید تم

�عتماد پر رکھی جاتی ہے �بتد� شک سے ہو گی تو زندگی دشو�ر ہو جائے گی۔ ‘‘

آ�نکھیں بند کر کے کسی �جنبی پر بھروسہ کرنے کی قائل نہیں ہوں ویسے سلیم در�نی سے ر شتہ’’ نا بابا !میں تو

کیسے ہو ��ن کا فیملی بیک گر�ؤ نڈکیا ہے ؟ �ن کے بارے میں �چھی طرح چھان بین کرلی گئی ہے یا نہیں ؟ دیار

غیر میں بسنے و�لوں کا بھرو سہ کیا ؟ مر دتو ہر جائی ہو تے ہیں دل کسی کو دیتے ہیں تو شادی کسی �ور سے

کرتے ہیں ‘‘’’نا ہید کچھ میری بھی سنو گی یا �پنی کہے جاؤ گی ؟ سنو !سلیم در�نی میری �می کی بچپن کی

سہیلی کے بیٹے ہیں شا ید �سی لئے �می نے چھان بین کی طرف زیا دہ تو جہ نہیں دی خاند�نی لوگ ہیں بے

حساب زمین جا ئید�د کے مالک ہیں وہ �یک مشہورو معروف کمپنی میں کمپیو ٹر �نجینئرہیں �ور �ن کی تنخو�ہ بھی

معقول ہے ‘‘۔

Page 168: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�دمی ہیں �ن کی عاد�ت و�طو�ر کیاہیں �ن’’ یہ سب توٹھیک ہے کیا تم �ن کے نیچر سے و�قف ہو؟کس ٹا ئپ کے

کی پسند نا پسند کیا ہے �ور �ن کے دوست کس قماش کے ہیں ؟ �یک �جنبی کے ساتھ زندگی کا سفر کیسے

‘‘ طئے ہو گا ؟

وہ یوں ہو گا کہ میں �ن کے قدم سے قدم ملا کرچلوں گی وہ ر�ت کو �گر دن کہیں تو میں بھی دن ہی کہوں’’

آ�برو نہیں کیا �ور آ�نکھوں نے کبھی کسی کو �پنے خو�بوں میں نہیں بسا یا میں نے �پنے جذبات کو بے گی میری

مجھے �پنے بڑوں پر بھروسہ ہے ‘‘۔

‘‘ کیا تم نے �نھیں دیکھا ہے ؟ یا صرف تصویر پر �کتفا کر لیا ؟’’

آ�نٹی’’ ا�ن لوگوں نے خرید� �ور جس دن شفٹ ہوئے �سی دن �می �ور بات یہ ہے نا ہید، ہمارے سامنے و�لا مکان

آ�نٹی نے مجھے نے �یک دوسرے کو دیکھتے ہی پہچان لیا �می نے بڑے �ہتمام کے ساتھ �ن کی دعوت کی جب

دیکھا تو بہت خوش ہوئیں �ور �پنے بیٹے کے لئے مجھے ما نگ لیا۔ ہمیں �یک دوسرے کو دیکھنے کا مو قع ہی

‘‘ کہاں ملا ؟

آ�گے سر تسلیم خم کر لیا ہے ؟’’ ‘‘ کیا سلیم صا حب نے بھی �پنی ماں کی پسند کے

ہاں ! �س تعلق سے �می نے کہا بھی تھا کہ �ن کا بیٹا بھی مجھے دیکھ لے تو بہتر ہو گا لیکن �نھوں نے صاف ’’

کہہ دیا کہ �س کی کیا مجال جو میری پسند کے خلاف جائے ،�می مسکر� کر خاموش ہو گئیں شا ید دل ہی دل

‘‘ میں �پنے ہو نے و�لے د�ماد کی شر �فت �ور فرما نبر د�ری پر خوش تھیں۔

آ�نٹی جانیں یہ تمہاری خوش نصیبی ہے کہ درد سری کے بغیر �چھا لڑکا مل گیا �ور تحقیقات’’ بھئی تم جانو �ور

آ�نا �یک کی بھاگ دوڑ سے بھی بچ گئے ورنہ �س زمانے میں کوئی لڑکی کسی لڑکے کی ماں بہنوں کو پسند

آ�نے کے بعد لڑکے کی دریافت بھی بڑ �مرحلہ مسئلہ ہے ہر کسی کو خوب سے خوب تر کی تلاش ہے لڑکی پسند

ہے کہیں بھول چوک ہوجائے تو زندگی کے لالے پڑ جا تے ہیں۔ �چھا �ب میں چلتی ہوں کافی دیر ہو گئی ہے ،

Page 169: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�ئی چیزیں دیکھنے خد�حافظ۔ ‘‘نا ہید کور خصت کرنے کے بعد سارہ بھی �پنے گھر و�لوں کے ساتھ سسر�ل سے

آ�ئی جس میں ہیرے بیٹھ گئی سب کچھ ٹھیک تھا �سے سرخ مخملیں ڈبے میں رکھی ہوئی چین بہت پسند

کاپنیڈنٹ �پنی شعا عیں بکھیر رہا تھا۔ شادی کی تیار یاں مکمل ہو چکی تھیں عید کے چا ردن بعد خو شیوں �ور

آ�نسوؤں کے بیچ سارہ کو رخصت کیا گیا۔

نئی زندگی کی پہلی صبح جو�س کے �پنے گھر میں ہوئی تھی �سے بے حد روشن ، مقدس �ور معطر سی لگی۔

نندوں نے پر تکلف ناشتہ دیا �ور چھیڑ چھا ڑ کرتی رہیں۔ ساس و�ری نیاری جا رہی تھیں �ور سلیم بھی خوش

‘‘ تھا۔ بہنوں نے پو چھا ’’ بھیا سچ بتائیں ہمار� �نتخاب کیسا رہا ؟

بھئی تمہارے �نتخاب کے تو قا ئل ہو گئے لیکن یہ بتا ؤ کیا ہم کسی سے کم ہیں ؟ ‘‘سلیم نے کنکھیوں سے’’

سارہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا سب نے زورد�ر قہقہ لگا یا سارہ نے مسکر �کر گردن جھکالی جیسے وہ �پنی

قسمت پر بھی نا ز�ں ہو۔ کئی دن تک دعو توں کا سلسلہ چلتا رہا پند رہ دن پلک جھپکتے گزرگئے سلیم کی

چھٹی ختم ہونے میں �یک دن باقی رہ گیا۔ وہ شام ہی سے �پنے دوستوں سے ملنے چلا گیا تھا۔ ر�ت کا �یک بج

رہا تھا سا رہ �پنے نرم گرم بسترپر لیٹی کرو ٹیں بدل رہی تھی۔ سلیم سے دوری �ور تنہائی کے ناگ �بھی سے پھن

آ� رہے تھے دل میں �نجانو سوسے جاگ رہے تھے گو کہ سلیم نے بڑے پیار سے وعدہ کیا تھاکہ �سے �ٹھائے نظر

بہت جلد�پنے پاس بلو�لے گا وہاں پہنچتے ہیو یز� کی کوشش شروع کر دے گا۔ �سے نا ہیدکی باتیں یاد رہی تھیں

مرد ہر جائی ہوتے ہیں خود غرض �ور سنگدل ہوتے ہیں۔ �س کے �ندر شکوک کے �لا ؤ سلگنے لگے �گر سلیم نے

ویز �نہیں بھیجا تو کیا ہو گا ؟ ناہید مذ�ق �ڑ �ئے گی ! یہاں حالات کیسے ہوں گے دنیا کے سمندر میں زندگی

آ�سو دگی نہیں دے سکتے �یک آ�سا ئش دولتو ثروت سب مل کربھی آ�ر�مو کی ناؤ کیا تنہا کنارے لگا سکے گی ؟

آ�نکھوں میں جلن سی ہو رہی تھی تشنگی ہمیشہ باقی رہے گی۔ وہ �ٹھ کربیٹھ گئی �س کی پلکیں بھیک رہی تھیں

آ�نکھوں سے سلیم کو دیکھ رہی تھی وہ �س کے آ� گیا سارہ خالی خالی تب ہی ہلکا سا کھٹکا ہو �ور سلیم �ندر

قریب بیٹھا چہرہ کو تک رہا تھا جیسے کچھ کہنا چا ہتا ہو سارہ کے ہو نٹوں پر پھیکا سا تبسم تھا جیسے دور

Page 170: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کہیں پہاڑوں پر�د�سی کی برف گر رہی ہو دوسرے دن سلیم چلا گیا حسبو عدہ دودن بعد فون کیا خیرو عا فیت پو

چھی۔ سا رہ کے دل میں جو وسوسے تھے صابن کے جھاگ کی طرح غائب ہو گئے �س یقین نے سرشار کر دیا

کہ سلیم ہرجائی نہیں ہے �س کے �ند یشے غلط تھے وہ ہر ہفتہ فون کرتا تسلی دلاسے دیتا رہا دو مہینے گزر گئے

آ�یا وہ �د�س تھا �سی دور�ن سلیم کی ماں دل کا شد ید دورہ پڑ نے سے �نتقال کرگئیں بہت دن بعد سلیم کا فون

�س نے زیادہ بات نہیں کی۔ �تنا بتایاکہ وہ �یک �ہم خط بھیج رہا ہے صبح پو سٹ مین کا �نتظار کرے۔ سارہ

تاروں بھری مسکر�تی چھت کے نیچے لیٹی چاند کو تک رہی تھی چاند کے دیس میں خو�بوں کا محل سجا رہی

آ�نکھوں میں کٹ گئی سپیدۂ سحر نمو د�رہو�در پہ نظر دل میں بے قر�ری لئے وہ ہمہ تن منتطر تھی تھی ساری ر�ت

دن کے گیا رہ بجے کال بیل کی چنگھاڑ نے �سے چو نکا دیا بیل بجا نے ولا پو سٹ مین تھا �س کی دستخط

لینے کے بعد پو سٹ میں نے �یک رجسٹر ڈلفافہ سارہ کے ہاتھ میں تھما دیا �س نے کپکپا تے ہا تھوں سے لفافہ

چاک کیا۔ �سے �پنے پیروں تلے زلز لہ سا محسوس ہو� سانسیں بے تر تیب ہو رہی تھیں جیسے گھنے جنگل سے

تنہا گزر رہی ہو۔ سلیم کی طرف سے بھیجا گیا طلاق نامہ �س کا منہ چڑھا رہا تھا۔ ساتھ ہی �یک خط �ور �یک

:ڈر�فٹ بھی تھا وہ جہاں کھڑی تھیو ہیں بیٹھ گئی �ور خط پڑھنے لگی

!ڈیر سارہ

یہ لکھتے ہوئے میں دکھ محسوس کر رہا ہوں کہ ویزے کے بجائے تمہیں طلاق نامہ بھیج رہا ہوں۔ میں �یک شادی

شدہ مرد �ور دوبچوں کا باپ ہوں۔ جب میری و�لدہ نے تمہیں میرے لئے پسند کیا تو میں �نکا رنہ کر سکا کیوں

کہ گز شتہ چار سال سے میں �نھیں ٹا لتا رہا تھا وہ دل کی مریضہ تھیں �س دفعہ میرے �نکار پر کچھ بھی ہو سکتا

تھا �س لئے میری ہمت نہیں ہوئی یہ میری بدقسمتی ہے کہ میری طرف سے ملنی و�لی خوشی کو بھی �ن کا دل

آ�گاہ کیا �ور تمہیں ساتھ رکھنے کہا تو�س نے سہارنہ سکا �ور وہ چل بسیں میں نے �پنی بیوی کو تمام باتوں سے

صاف �نکار کر دیا �گر وہ کوئی سخت قدم �ٹھاتی تو بچوں کے لئے مشکل کھڑی ہو جاتی �س لئے مجھے مجبور

Page 171: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

�یہ قدم �ٹھا نا پڑ �۔ میں نے پا نچ لاکھ کا ڈر�فٹ بھیجا ہے تم �پنی زندگی کا ہمسفر تلاش کر لینا کبھی زندگی

کے کسی مو ڑ پر میری مدد کی ضرورت ہو تو تکلف نہ کر نا �میدہے تم مجھے معاف کر دو گی۔ خد�حا فظ

سارہ کے دل میں �یک تلاطم بر پا تھا۔ یہ مرد جو �فضل ترین مخلوق ہے عورت پر فو قیت رکھتا ہے شادی کے بعد

�یک عورت �سے �پنا مجازی خد�مان لیتی ہے �پنی عبادت ریا ضت �ور �پنی جنت مان لیتی ہے زندگی کی کشتی

کانا خد �بنا کرپتو�ر�س کے مضبوط ہا تھوں میں تھما کربے خود وبے خوف ہو جاتی ہے تب نا خد� خود کشتی کو

ڈبو دے تو پھر صد یوں بھٹکنے پر بھی ساحل نہیں ملتا۔

*****

Page 172: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ہے جاتی ہو سحر کی شب ہر

ہز�ر حملے کرے وقت ہم پہ بڑھ چڑھ کے

آ�تا ہے دکھ کی پناہ میں رہنا ہمیں بھی

�س لئے تو کوئی منزل مر�د نہیں

مقدروں میں لکھا ہو گا ر�ہ میں رہنا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ� رہا ہے کہ تعلیم کتنی مقدس چیز ہے یہ عورت کو�یک نیا جنم �یک نئی دنیادے سکتی ہے �ب میری سمجھ میں

آ�ج میں زندگی کے سنگین موڑ پر’ کھڑی تمہاری ہد�یتوں �ور دعاؤں کو یادکر رہی �س زندگی کوسنو�رسکتی ہے

ہوں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�ج زمین بوس ہو گیا تھا جسکی کرچیوں پر بیٹھی ز�ر� سوچ رہی تھی کیا آ�رزؤں کا شیش محل � سکے �رمانوں �ور

آ�و�رہ بیٹے سے چاقوں کی نوک �ب �نہی کرچیوں پرچلتے ہوئے زندگی کا سفر پور� کرنا پڑ یگا کیاماموں نے �پنے

پرنکاح کر کے میری تقدیرکا فیصلہ کر دیا ہے ؟ ’’ نہیں ماں �یسا نہیں ہو سکتا !، ، ز�ر� �پنی ماں کی تصویرسے

آ�غوش میں پناہ لے مخاطب تھی ’’ ماں تم مجھے �س کا رز�رحیات میں �کیلا چھوڑ گئیں �ور خود �بدی نیند کی

لی۔ کہتے ہیں کہ مرنے و�لے تمام جھگڑوں �ور فکروں سے نجات پالیتے ہیں ! قیامت تک کے لئے سکھ کی نیند

Page 173: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

سوجاتے ہیں لیکن میں نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ مرنے کے بعد سز� ء �ور جز�کا حساب کتاب شروع ہوجاتا ہے

نئے عذ�بوں کا سلسلہ قیامت تک چلتا رہتا ہے پتہ نہیں ماں تم کس حال میں ہویہاں دنیا میں کونسا قہرتھا

جوتمہارے شوہر �ور سسر�لی لوگوں نے نہیں توڑ �! لیکن کب تک حالات کا مقابلہ کرتیں ؟ عورت �زل ہی سے

کمزور ہے ناتم بھی کمزور تھیں بیماریوں کا شکار ہو گئیں لیکن مجھے ہمت سے جینے کا سبق پڑھاتی رہیں �ور

�علی تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کیا کرتیں تم نے کہا تھا کہ عورت کا سکھ روٹی کپڑ ��ور مکان میں ہے عورت

آ�و�رہ ،جاہل بے روز گارشوہر کے ساتھ زندگی گز�رنا بھی کوصابرو شا کرہونا چاہئے میں پو چھتی ہوں ماں کیا �یک

عورت کے فر�ئض میں د�خل ہے ؟

آ� رہا ہے کہ تعلیم کتنی مقدس چیز ہے یہ عورت کو�یک نیا جنم �یک نئی دنیادے سکتی ہے �ب میری سمجھ میں

آ�ج میں زندگی کے سنگین موڑ پر کھڑی تمہاری ہد�یتوں �ور دعاؤں کو یادکر رہی ہوں �س زندگی کوسنو�رسکتی ہے

تم �یک دور �ندیش ماں تھیں نانا کی طرف سے ملی ہوئی دس لاکھ کی رقم تم نے میرے بینک �کاؤنٹ میں ڈ�ل

دی دونوں بھائی بیرون ملک دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہے تھے تمہاری خو�ہش کے مطابق میں �نجنیرنگ کے

آ�خری سال کوپور� کرنے میں جٹی ہوئی تھی کہ تم بنا کچھ کہے سنے ہمارے بیچ سے �ٹھ گئیں میری ڈگری بھی

آ�ئنگے نہیں دیکھی، تم نے بیٹوں کا بھی �نتظارنہیں کیا، شاید تم جانتی تھیں کہ وہ تمہاری قبر کومٹی دینے نہیں

تمہارے وجودکی چھتر چھایہ کیا ہٹی حالات کی دھوپ مجھے جھلسانے لگی تم کیا گئیں ماں مجھ پرقیامت

ٹوٹ پڑی پھوپی �پنے نیم پاگل بیٹے سے میر� بیاہر چانا چاہتی تھیں تاکہ �ن کا گھر سنبھالنے کے لئے �یک ملازمہ �ور

بیٹے کو کھیلنے کے لئے �یک کھلونا مل جائے وہ ہاتھ دھوکرمیرے پیچھے پڑ گئیں جو �ب دینے کے لئے میں نے

آ�ئی وہاں �یک نئی مصیبت میرے �نتطار میں تھی چاچاسعودی سے دوچاردن کا وقت مانگا �ور چاچی کے ہاں چلی

آ�یا تھا چاچی �س سے میر� آ�ئے ہوئے تھے �نکے ساتھ �ن کی کمپنی کا باس بھی تھا جویہاں شادی کی غرض سے

آ� نکاح کرو�نا �ور منہ مانگی رقم وصول کرنا چاہتی تھیں میں کسی طرح وہاں سے بھاگ نکلی �ور ماموں کے پاس

آ�گاہ کیاماموں نے مجھے ہمتو دلاسہ تودیا لیکن دوسرے ہی دن میری گئی �نھیں پھوپی �ور چاچی کے �ر�دوں سے

Page 174: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�و�رہ بے روزگار بیٹے سے میر� نکاح کرو�دیا۔ میرے �رمانوں کا شیش محل زمین بوس ہو گردن پر چھری رکھ کر�پنے

آ�ئی نہ ڈولی سجی نہ سکھیوں نے ڈھولک پربابل گیت گائے ماموں نے میری گیا ماں یہ کسی شادی تھی نہ بار�ت

زندگی کشکول میں �یک کھوٹا سکہ ڈ�ل کرکیا میری تقدیر کے فیصلہ کر دیا؟ ماں وہ لمحے میری زندگی کے

�ذیت ناک لمحے تھے جب مجھے قید کر کے �س کمرے میں �یک درندے کوچھوڑ دیا گیا تھا شر�ب کے نشہ

میں وہ میرے �ردگرد چکر لگاتا رہا پھر دھپ سے میرے قریب بیٹھ کر دست در�زی کرنے لگا میں �پنے دکھ سے

نڈھال تھی شر�ب کی بدبو �ور �یک وحشی کی قربت نے میر� دماغ ماؤف کر دیا میں نے �یک زور کا طمانچہ �س

کے منہ پردے مار� پھر �س نے مجھ پرلاتوں گھونسوں کی بارش کر دی �ور کل سے �ب تک مجھے کسی نے کھا

نا بھی نہیں دیانہ کسی نے پوچھا کہ میں کس حال میں ہوں یہ زندگی �ماوس کی �ندھیری ر�ت لگ رہی ہے لیکن

�میدکا �یک دیاجھلملا رہا ہے۔ ، ، ر�ت کے بارہ بج چکے تھے ز�ر�کمرے میں �کیلی بیٹھی ماں کی تصویر کے

آ�نسوبہا رہی تھی تب ہی عابدکی کار گیٹ میں د�خل ہوئی �س نے ڈورکھول کرکسی کوسہار� دیتے ہوئے کا آ�گے

رسے �تار�وہ کوئی لڑکی تھی عابد�سے تھامے ہوئے �پنے کمرے میں چلا گیا دیکھنے سے معلوم ہو رہا تھا کہ لڑکی

آ�ئی �ور عابد کے کمرے کا درو�زہ بندکر کے مقفل نشہ میں چورہے ز�ر�بجلی کی سی سرعت �پنے کمرے سے باہر

کر دیا۔ کھڑ کی کے پاس جا کر�سے مخاطب کیا’’ لڑکیوں کوپلا کر لانا �ور �ن کی زندگی برباد کرنا بھی تمہار�

آ�ئی ہے بہت خوب ! ، ، ’’ کیابک رہی ہو؟ یہ محبوب مشغلہ ہے تمہارے چال چلن کی �یک �ور خوبی سامنے

آ�تی ہیں لیکن میرے معاملات میں دخل دینے کی �جازت تمہیں کس نے �پنی مرضی سے ہماری بانہوں میں چلی

دی ؟ درو�زہ کیوں بندکیا ہے کھول دو! کیا کل کی مار بھول گئی ؟ ’’ تم جیسے مردوں سے مقابلہ کرنے کی مجھ

آ�ز�دکر دو گے ، ، ’’ کیا مطلب ہے آ�ز�دی تب ہی ملے گی جب تم مجھے آ� گئی ہے تمہیں یہاں سے میں ہمت

تمہار� ؟ ’’ مطلب صاف ہے تم �س کمرہ سے تب ہی باہر �سکتے ہوجب تم مجھے �پنے نکاح سے باہر کر دو گے

یہ کا غذلو�ور �س پرلکھو کہ تم نے مجھے طلاق دی �گرمعلوم ہوتو�پنے باپ کا نام بھی لکھنا �ور میرے نام کے

ساتھ میرے باپ کا نام بھی ہونا چاہے ’’، ، تمہاری یہ جر�ءت ؟ �گر میں طلاق نہ دوں تو ؟ ’’ تومیں �بھی سارے

محلے کوجگا دوں گی تمہارے �ور تمہارے باپ کے کرتوت بتاؤں گی میں پولس کی مدد بھی لے سکتی ہوں �ور

Page 175: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

�طلاق نامہ آ� گئی تو �ور بھی تماشہ ہو گا فور بہت کچھ کر سکتی ہوں وقت ضائع نہ کروتمہاری محبوبہ �گرہوش میں

لکھ دو ورنہ �بھی شورمچاؤں گی ، ،

عابدکو کھلے �لفاظ میں طلاق نامہ لکھنا پڑ �ز�ر�نے �س طلاق نامہ کو کھڑ کی سے باہر پھینکنے کہا عابدنے د�نت

پیستے ہوئے ز�ر� کے حکم کی تعمیل کی ز�ر�نے �سے غور سے پڑھا �ور درو�زہ کھولنے کے بجائے کنجیاں عابدکے

منہ پرپھینک کرچلی گئی۔

*****

Page 176: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ہیں بھی اور جہاں

آ�ز�ربھی ہے زندگی لطف بھی ہے زندگی

آ�ہنگ بھی زنجیرکی جھنکار بھی ہے سازو

زندگی دید بھی ہے حسرت دید�ربھی ہے

نب حیات ، لبو رخسار بھی ہے آ� زہربھی ہے

زندگی د�ربھی ہے زندگی دل د�ربھی ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں سوچ رہا تھا یہ عشق ومحبت کی حکا یتیں حسن وشباب کی لطا فتین ، بے وفا دلبروں کی چا ہتیں ، یا

ردوستوں کی پر کیف صحبتیں �ور ماں باپ کی �زلی شفقتیں سب کتابی باتیں ہیں وہ کتا بی صد�قتیں کس کام

کی ہیں جن کا عملی دنیا میں کوئی عمل دخل نہ ہو طوفان تھم چکا تھا �س سجدہ گاہ کے نشان مٹ چکے

نننیاز میں سجدے تڑ پ رہے تھے۔ تھے جس کے لئے میری جبی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ا�ن دنوں موسم کی میس بھیگ رہی تھیں ہرے بھرے کھیتوں کی بالیاں جو�ن ہو رہی تھی۔ ہرطرف سبزہ ہی سبزہ

تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہو�ئیں دل میں عجیب سی گد گدی پید� کر رہی تھیں۔ �سکول کا ر�ستہ کاٹے نہیں کٹتا تھا

کیونکہ �ب شاد�ں ہمارے ساتھ نہیں ہوتی تھی۔ پتہ نہیں وہ کیوں مجھے �چھی لگتی تھی مجھ سے �یک دو

Page 177: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�گے تھی۔ شاید عمر میں بھی بڑی تھی دسویں جماعت فیل ہونے کے بعد �س کے و�لد نے �سکول جماعت

بھیجنا بند کر دیا تھا۔ ہمارے �متحان قریب تھے �ور پڑھائی میں میر� دل نہیں لگتا تھا۔ کتا بوں سے مجھے

نفرت سی ہو گئی تھی �کثر �سکول سے غائب رہتا بس کھا نا �ور کھیلنادوہی مشغلے تھے۔ گھنٹوں کھیتوں میں

گھوم گھام کرگھر چلا جاتا کبھی مید�ن میں کھیلتے ہوئے بچوں میں شامل ہوجاتا۔ �س دن شام کا دھند لکا

پھیلنے لگا تھا گاؤں کے کچے گھروں سے دھو�ں �ٹھ رہا تھا۔ شاد�ں کے گھر کے سامنے سے گز رتے ہوئے روز

آ�یا تب ہی آ�ج بھی �سی طرف تھی درو�زہ بند تھا چھوٹی سی کھڑ کی میں �یک چہرہ نظر کی طرح میری نظر

آ� گیا �س نے مجھے ہاتھ کے �شارے سے پاس درو�زہ کھلا شام کے سرمئی �ند ھیرے میں شاد�ں کا �جلا چہرہ نظر

بلا یا۔ جب میں بھا گتا ہو ��س کے قریب پہنچا �س نے میر� ہاتھ پکڑ کر�ندر کھینچ لیا درو�زہ بند کر کے مجھے

:تخت پر بٹھا دیا جہاں �یک مدھم ساچر�غ روشن تھا۔ میں نے پو چھا

کیا بات ہے شادو ؟‘‘’’ ناصر میں نے سنا ہے تم �سکول بر�بر نہیں جا رہے ہو نہ پڑھائی میں دلچسپی لیتے ہو کیا’’

‘‘ بات ہے ؟

آ�نا بند کیا ہے تب سے کچھ بھی �چھا نہیں لگتا �سکول میں دل نہیں لگتا’’ ‘‘ ہاں شادو جب سے تم نے �سکول

آ�ؤ گے نا؟‘‘’’ آ�جا یا کرنا میں تمہیں پڑھا دیا کرو نگی ٹھیک ہے ؟ �چھا سنو تم روز �نہ میرے گھر

آ�یا کروں گا ‘‘میں خوشی خوشی گھر کی طرف بھا گا۔’’ شادو تم نے یہ بہت �چھی بات کہہ دی �ب میں ہر روز

میرے ماں باپ پانچ سال پہلے میرے چھوٹے بہن بھائی کو لیکر سعودی عرب چلے گئے تھے میں �پنی د�دی �ور

پھو پی کے ساتھ رہتا تھا ماں باپ کے پیار کے لئے تر ستا تڑ پتا جی رہا تھا۔ جس دن کسی سے پیار کے دوبول

سن لیتا خوشی سے دیو �نہ ہوجاتا میر� وہ دن بہت �چھا گزرتا۔ مجھے یادہے ماں مجھ سے گھر کا سار� کام

کرو�تی چھوٹے بہن بھائی کی خدمت کرو�تی �ور مجھے ہمیشہ ڈ�نٹ ڈپٹ کرتی رہتی۔ کبھی کوئی غلطی

ہوجاتی یا کسی کام میں دیر ہوجاتی تو وہ مجھے بری طرح مارتی �ور کوستی کا ٹتی تھی سب بچوں کی مائیں

Page 178: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

�یسی تو نہیں ہوتیں پھر میری ماں �یسی کیوں تھی یہ سو�ل مجھے ہمیشہ کچوکے لگاتا �ور میر� دل ہمیشہ �د�س رہتا

تھا۔

�ب میں �سکول پابندی کے ساتھ جانے لگا تھا شاد�ں مجھ سے بہت خوش تھی �د�سیوں کا بوجھ میرے دل سے

ہٹ رہا تھا۔ �یک دن �س نے میر� ہاتھ پکڑ کرچوم لیا میں پلکیں جھکاتا ہو� �سے دیکھ رہا تھا �س نے کہا ’’�یسے

کیا دیکھ رہے ہو ؟

آ�و�ز میں نے نظریں جھکا لیں میر� دل بری طرح دھڑ ک رہا تھا۔ ’’�ب تم جا ؤ ناصر کل آ�ؤ گے نا؟ ‘‘شاد�ں کی

کپکپا رہی تھی �ور میرے �ندر کہیں گرم گرم لوہا پگھل رہا تھا میں باہر نکل گیا میری سا نسیں بے ترتیب ہو رہی

تھیں گھر جا کر ٹھنڈے پانی سے منہ ہاتھ دھویا �ور کتابیں لے کر بیٹھ گیا کیونکہ دوسرے دن پھر شاد�ں کے پاس

رہی تھی �یسا معلوم ہو رہا تھا جیسےآ� جانا تھا پر�نا سبق سنانا تھا نیا سبق لینا تھا۔ �س ر�ت مجھے نیند نہیں

کسی نے مجھے خز�نے کا ر�ز بتادیا ہے د�دی ماں نے کہانیوں میں خز�نوں کا حال سنا یا تھا کہ کس طرح

آ�پ کو �یک شہز�دہ محسوس کر رہا آ�ج میں بھی �پنے شہز�دے جن �ور دیوؤں سے لڑکرخز�نہ حاصل کر لیتے ہیں

تھا دوسرے دن مجھے شاد�ں کے گھر جانے کی جلدی تھی بے جھجک وبے دھڑ ک چلاجا رہا تھا جیسے خز�نہ

آ�ج �س نے میر� ہاتھ �پنے ہاتھوں میں لیکر کہا ’’ناصر تم مجھے بہت �چھے لگتے ہو کیا میں میرے �نتظار میں ہو۔

بھی تمہیں �چھی لگتی ہوں ؟ ’’تم جلدی سے بڑے ہوجاؤ خوب پڑھ لکھ کر�چھی سی نوکری کرنا پھر مجھے یہاں

آ�ؤں گی میری سوتیلی ماں ہے نا وہ مجھے بہت مارتی �ور خوب کام کر�تی سے لے جانا میں تمہاری دلہن بن کر

ہے �سی نے بابا سے کہہ کرمیر� �سکول جانا بند کر�دیا ہے بولو تم مجھے �پنے ساتھ لے جاؤ گے نا ؟‘‘ میں نے

�یک �نجانی سی خوشی کے تحت حامی بھرلی۔ میرے �متحان ختم ہو گئے میں �چھے نشا نات سے پاس ہو گیا۔

�ب شادو کے پاس کس طرح جاؤں ؟ وہ مجھے دسویں جماعت کی کتا بیں نہیں پڑھا سکتی تھی �ور مجھے �س

آ�ز�ر لگ گیا تھا۔ شادو کے ہاں گئے بنا قر�رنہ تھا کاش میں �متحان میں پاس ہی نہ ہو� ہوتا۔ یہ کیسا خوش گو�ر سا

کے خیال سے میرے بدن میں گد گد سی ہونے لگتی بازؤں میں عجیب سی قوت کا �حساس ہوتا �ور رگوں میں

Page 179: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

گرم گرم خون �چھلتا محسوس ہوتا سینے میں جذبات کا سیلا ب سا �مڈ نے لگتا شاید �یسے ہی سیلا ب زندگی

کے دھاروں کا رخ بدل دیتے ہیں۔ مجھے پڑھائی پھر سے بری لگ رہی تھی میں سستو خا موش بیٹھا رہتا میری

�د�سی کا سبب کوئی نہیں جانتا تھا میں کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ سو�ئے د�دی کے میر �کوئی

غم خو�رنہ تھا میں �ن سے کہتا بھی کیا۔ ماں باپ نے تو مجھے بھلا ہی دیا تھا۔ �ن دنوں ہمارے گاؤں کے تھا

آ� جاتی تھی موقع پا کر تھا نے آ� گیا �ب میر� وقت �چھا گزرنے لگا شادو بھی �کثر وہاں نے د�ر کے ہاں ٹی وی

د�رکی موٹی بیوی مجھے �پنے پاؤں دبانے کہتی میں ٹی وی دیکھنے کے شوق میں �س کی ہربات مان لیتا تھا۔ وہ

بھی مجھے شادوکی طرح لپٹا نے �ور پیار کرنے لگی لیکن وہ مجھے �چھی نہیں لگتی تھی۔ میں ٹی وی کی

خاطر چپ رہتا۔ کاش میرے و�لدین بھی باہر سے ٹی وی �ور ڈھیر سا رے کپڑے وکھلو نے مجھے لا کر دیتے

جیسے تھا نے د�ر کے لڑکے نے لائے تھے میرے دل سے درد کی لہریں �ٹھتیں �ور میں گھنٹوں گم صم بیٹھا رہتا۔

�چانک گھرو�لوں نے فیصلہ کیا کہ ہائی �سکول کر �نے کے لئے مجھے ماموں کے ہاں شہر بھیج دیا جائے۔ شہر

کی میں نے بہت تعریف سنی تھی وہاں جانے کے خیال سے خوشی توہوئی لیکن شادو کی جد�ئی کے خیال سے

وحشت سی ہو رہی تھی میں نے �سے بتا یا کہ شاید مجھے بہت جلدشہر بھیج دیا جائے گا وہ بھی �د�س ہو گئی

�ور مجھ سے وعدہ لیا کہ میں وہاں جا کر دل لگا کرپڑھائی کروں �چھی نوکری کروں �ور �سے �پنے ساتھ لے جاؤں

آ�نکھوں سے موتی کی لڑیاں ٹوٹ رہی تھیں وہ میں نے بھی وعدہ لیاکہ وہ مجھے خط لکھا کرے گی۔ �س کی

مجھ سے لپٹ گئی شاید بچھڑ تے وقت �سی طرح ملا کرتے ہیں پھر میرے چہرہ کو �پنے ہاتھوں کے کٹوروں میں

آ�نکھوں میں چھپا لینا چاہتی ہو میں نے �س آ�نکھوں سے گھورنے لگی جیسے �س چہرے کو �پنی لے کر سرخ سرخ

آ�نسو پو نچھ دئے �س نے سسکتے ہوئے کہا ’’ میں تمہار� �نتظار کروں گی ناصر تم �پنی شادو کو بھول نہ جانا کے

‘‘۔ میرے دل میں پھر درد کی لہر �ٹھی میری ماں تو مجھے چھوڑ کرجاتے ہوئے نہ روئی تھی نہ ہی سینے سے لگا

یا تھا جاتے جاتے بھی مجھ پر غصہ کیا تھا۔ وہ میری حقیقی ماں تھی پھر۔ ۔ ۔ میں شہر �گیا۔ مجھے لینے

آ�ئے تھے میں �ن کی کار میں بیٹھا شہر کی سیر کر رہا تھا شہر جہاں شورہی شور تھا کے لئے ماموں �سٹیشن

آ�سمان کو چھوتی ہوئی �ونچی �ونچی عمارتیں ، بڑے بڑے دو�خانے ، عد�لتیں ، ہو آ�و�زیں تھیں مختلف

Page 180: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ٹلیں ،سینماتھیٹر زبے حساب �سکول �ور کالج ، د�ر�لمطا لعے ، تفریح گا ہیں ، گزرے زمانے کے کھنڈ ر�ت گز شتہ

آ�دمیوں کی بھیڑ �س تہذیب کی مٹی مٹی سی نشا نیاں ، کشادہ سٹرکیں رنگین کا روں کے رو�ں دو�ں قافلے �ور

آ�فیسر، ڈ�کٹر ، ٹیچر ، نوکر چو رلٹیرے ، ڈ�کو ، خونی ، ظالم �ور مظلوم۔ آ�دمی ہو گا جم غفیر میں ہر قسم کا

آ� رہے ہیں �ور کہاں جا رہے ہیں۔ میرے سوچنے سمجھنے کی صلا میں سوچتا رہا یہ سب کے سب کہاں سے

حیت جیسے ختم ہو گئی تھی۔ گا ڑی جب گھر کے گیٹ پر رکی تب میں خیالات کے د�ئروں سے باہر نکلا

تویہاں بھی حیر�ن ہو �۔ گھر کیا تھا عجائب گھر تھا جس کا ذکر �کثر کتا بوں میں پڑھا تھا کہ وہاں بہت ہی نا

آ�ر�ستہ چمن درونا یاب چیزیں ہوتی ہیں شاید وہ �یسا ہی ہوتا ہو گا گیٹ کے �ندر د�خل ہوتے ہی پھول پودوں سے

ز�رتھا چھوٹے جھا ڑوں کو کا ٹ کرہاتھی گھوڑے �ور �ونٹ بنائے گئے تھے جوتھوڑی تھوڑی دورپر �یسے کھڑے

آ�نے و�لوں کا �ستقبال کر رہے ہوں۔ رنگا رنگ پھولوں کے تختے ، �یک طرف پنجرے میں رنگ برنگی تھے جیسے

چڑ یاں دوسری طرف موٹی زنجیروں سے بندھے ہوئے جھولے تھے �ندر پہنچا تو خو بصورت قالین ، قیمتی فرنیچر ،

دیو�روں پر عجیب سی تصویریں ، بڑے بڑے گلد�ن �ور �یک کونے میں کا نچ کا بڑ �سا ڈبہ پانی سے بھر� ہو� تھا

جس میں چھو ٹی بڑی رنگین مچھلیاں �یک دوسرے کے پیچھے بھاگ دوڑ رہی تھی۔ میں حیر�ن کھڑ �ہر چیز کو

آ� گیا غور سے دیکھتا رہا۔ گاؤں کے کچے پکے مکا نوں �ور کھیت کھلیا نوں سے نکل کرمیں �یک نئی دنیا میں

تھا۔ مجھے جو کمرہ دیا گیا تھا �س کی سج دھج �ور ہی تھی۔ کھڑ کی سے باہر دیکھا تو �ونچی �ونچی روشن

آ�ئے جن کے �ندر حرکت کرتے ہوئے سائے عجیب لگتے تھے۔ عما رتوں کے سلسلے حدنظر تک پھیلے ہوئے نظر

سامنے و�لے دومنزلہ مکان میں بھی کئی درو�زے �ور کھڑ کیاں تھیں۔ �یک کھڑ کی میں سانولی سلونی موٹی سی

آ� گئی۔ پتہ نہیں وہ لڑکی کیوں مسکر� آ�ئی مجھے تھانے د�رکی بیوی یاد لڑکی میری طرف دیکھ کرمسکر�تی نظر

آ�تی جاتی ہوئی کا روں کو دیکھنے لگا میں سوچ رہا تھا کیا شہر کی لڑکیاں رہی تھی میں جھینپ سا گیا �ور

بے باک ہوتی ہیں جوکسی �جنبی کو دیکھ کربے سبب ہی مسکر�تی ہیں۔ �ب یہ ہونے لگا کہ میرے �سکول �یسی

آ�تی �ور میں بالکل �نجان ہو جاتا۔ آ�نے کی �وقات میں وہ کھڑ کی میں کھڑی مسکر�تی ہاتھ ہلاتی نظر جانے �ور

گھر میں ممانی کی بیوہ بہن مجھ پر مہر بان تھی میری ٹیچر بنی ہوئی تھی �س نے مسکر �تی ہاتھ ہلاتی سانولی

Page 181: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کو دیکھ لیا شام گھر لو ٹنے پر بڑی بر ہم ہوئی ماموں سے شکا یت کی دھمکی بھی دے دی میں سہم گیا �ور

�پنی صفائی پیش کر دی �یک دن باتوں باتوں میں ممانی نے بتایا کہ شہر میں لڑکیوں کی شادی بڑ �مسئلہ بنی ہوئی

ہے وہ نسرین کی دوبارہ شادی کرنا چاہتی ہیں لیکن منا سب لڑکا نہیں مل رہا ہے �گر ملتا بھی ہے تو �س کے لوگوں

آ�تی یہی حال سا منے و�لی لڑکی کا بھی ہے موٹی ہونے �ور رنگ کم ہونے کی وجہ سے کسی کو لڑکی پسند نہیں

نے بھی پسند نہیں کیا �س کا بھائی لیڈرہے �سے بہن کی فکر نہیں ہے خود�س نے کسی گاؤں کی لڑکی سے

آ�تی ہے مجھے �س ماحول میں گھٹن دوسری شادی کی ہے �سے گاؤں میں ہی رکھا ہے کبھی کبھی وہ یہاں بھی

سی ہونے لگی میں نے �یک گلاس ٹھنڈ� پانی پیا �ور باہر نکال گیا۔

محلے کے دوچار لڑکے میرے دوست بن گئے تھے کچھ �یسے بھی تھے جو مجھے گاؤں و�لا سمجھ کرستا یا

کرتے میر� مذ�ق �ڑ �تے لیکن رفتہ رفتہ سب گھل مل گئے تھے۔ رشید ، منیر �ور جبار میرے �چھے دوست تھے

تینوں بڑے باپ کے بیٹے تھے شام ڈھلے جب ہم �یک جا ہوتے بڑی ہڑ بو نگ رہتی۔ وہ تینوں مجھے گھیٹ لے

جاتے �ن کا رخ کسی ویڈ یو گیمس سنٹر یا کسی پارک کی طرف ہوتا چاٹ گھر سے کچھ کھانے کی چیزیں �ور

سگر یٹ �پنے ساتھ ضرورلے جاتے مجھے کھانے پینے میں کوئی عارنہیں تھی لیکن سگریٹ �چھا نہیں لگتا تھا

آ�تا ہے میں �متحان کے قریب بہت سگر یٹ پیتا ہوں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ‘‘منیر کہتا ’’دیکھوتو کتنا مز�

�متحان کی ہیبت �ور پاس یا فیل ہو نے کی فکر دھو�ں بن کرہو�ؤں میں کہیں تحلیل ہو رہی ہے ‘‘میں جو�ب دیتا

’’�متحان کی فکرہی تو ہمیں پاس کر�تی ہے یہ ہما ر� میٹر ک کا سال ہے �سکول کی �ن گلیوں سے نکل کرکالج

کی شاہر�ہ پر دوڑ نا ہے فیل ہو نے کی صورت میں �ن ہی گلیوں میں سٹر نا گلنا پڑے گا ‘‘جبار جھوم کرکہتا

’’چھوڑ وبھی یار شاید تمہیں نہیں معلوم کہ میں فیل بھی ہوجاؤں تو میرے پاپا مجھے پاس کرو� لیں گے ‘‘منیر�ور

رشید کہتے ’’ہمارے پاپا کی طرف سے ہمیں بھی کوئی فکر نہیں ہے ‘‘

میں حیر�ن حیر�ن سا �ن کی طرف دیکھتا رہ جاتا �ور وہ فلک شگاف قہقہہ مارکرکہتے ’’چل تجھے بھی ہم پاس

کر�دیں گے فکرنہ کریار لے جلدی سے �یک سگریٹ پی لے ‘‘۔ میں میٹرک پاس ہو گیا ماموں نے مجھے کالج میں

Page 182: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�یا �س نے میرے خطوں کے جو�ب تک نہیں دئے میں د�خل کر�دیا۔ �س دور�ن شاد�ں کا �یک بھی خط نہیں

گاؤں جا کر �سے �ور د�دی کو خوش خبری دینا چاہتا تھا شاد�ں میرے لئے �یک تسکین کیف �نگیز ہی نہیں �یک

مہمیز بھی تھی میری پہلی �ستا دتھی جس نے مجھے نئے نئے سبق پڑھائے تھے۔ میں �ر�دے کے باو جود گاؤں نہ

جا سکا۔ چھٹیاں ختم ہو گئیں کالج شروع ہو گئے۔ میں کالج کی کتا بیں خریدنے کے لئے جب دوکا نوں پر

آ�دمی آ�تے جن پر علم کا نور پھیلا ہو �ہوتا �ور سوچنے لگتا علم کتنی عظیم چیزہے جو جاتا مجھے وہ چہرے نظر

کو�نسان بناتی ہے۔ کالج کی رنگین فضاؤں میں بکھرے نقرئی قہقہے میٹھی میٹھی سرگو شیاں ، شوخ وچنچل

آ�گ سلگنے لگی دل سنبھالے چہلیں میرے �ندر نئے �حسا سات جگا رہی تھیں میری رگوں میں دھیمی دھیمی

نہیں سنبھل رہا تھا جو�نی کی شروعات بھی �یک دلفریب موسم ہوتی ہے �س موسم کے پھولوں کی مہک یار

آ�باد ہو رہی تھی شہر کی تہذیب آ�ز�دی۔ میرے تصورکے صنم خانوں میں �یک نئی دنیا دوستوں کی صحبت �ور

آ�یا �ور چو کید�ر سے لے کر�سٹوڈنٹ آ�شکا رہو رہے تھے آ� رہا تھا کالج کی سیاست کے ر�ز کا مطلب سمجھ میں

�ور لکچر�ر تک سیاست د�ں تھے جو�ں عمری کی �بھرتی مچلتی صلا حیتوں نے ہمیں بھی سیاست سکھا دی

آ�گے جہاں بسا نے کے تھی �ن ہی صلا حیتوں کے سیلاب میں بہتے ہوئے ہم بہت دورنکل گئے ستا روں سے

خو�ب دیکھنے لگے۔ میری کلاس میٹ ثناء در�نی مجھ پر بہت مہربان تھی �یک دن �چانک ثنا ء نے کہا ’’ناصر

ہمیں �نٹر کے بعد �یم بی بی �یس میں د�خلہ لینا ہے میرے پاپانے ہمارے د�خلہ کے �نتظامات کر لئے ہیں �س کے

بعد وہ ہمیں �مریکہ بھیجنا چاہتے ہیں �ب تم �پنے ماضی کو بھول جاؤ�ور مستقبل کی فکرکرو‘‘شاید ہر �نسان کے

دل میں کوئی نہ کوئی محرومی �یک خلش بن کر �س کے دل میں جاگزیں رہتی ہے میں و�لدین کی شفقت �ور

شاد�ں کی محبت سے مایوس ،دل کی ہر خلش کو سگریٹ کے دھوئیں میں �ڑ � رہا تھا۔ مد ہوشی کا عالم تھا

آ�ز�د ہو�ؤں میں �ڑ رہا تھا۔ وفا �ور جفا آ�نکھوں کے خو�ب تھے ثنا ء میرے ساتھ تھی �ور میں �مریکہ کی جاگتی

کے �صولوں کو مٹاتا ہو ��یک �حساس میرے �ندر جاگ رہا تھا !نہیں نہیں میں شاد�ں سے بے وفائی نہیں کر سکتا

وہ بہت معصوم �ور بھولی ہے وہ میری منتظرہے۔ مجھے �متحان کی فکر بے چین کئے دے رہی تھی ہاتھ میں کتا

ب لئے میں ٹہل رہا تھا۔ لیڈر کے مکان میں شاید کوئی تقریب تھی مہمانوں سے گھر بھر� ہو� تھا �چانک میری

Page 183: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

نظر �یک کار پر پڑی جس سے �یک عورت زرق برق کپڑوں میں ملبوس زیور�ت سے لدی �تر رہی تھی یہ۔ ۔ ۔ یہ

آ�گے بڑھ کر دیکھنے لگا ممانی �ور نسرین میرے پیچھے کھڑی کون ہے ؟ کون ہے یہ ؟کیایہ شاد�ں ہے ؟ میں ذر�

ہنس رہی تھیں ممانی نے کہا ’’یہی لیڈرکی بیوی ہے نا دوسری بیوی شہر کی میم سے دل بھر گیا تو گاؤں کی

تتلی پکڑ لا یا ہے ‘‘ مجھے محسوس ہو رہا تھا جیسے ہرطرف طوفانی جھکڑ چل رہے ہوں چا روں طرف خس

وخاشاک بکھر رہا ہے جس میں شاد�ں کاوجود �یک حقیرتنکے کی ما نند �ڑ رہا ہے �ور وہ تنکا دھند لے غبار میں

غائب ہو گیا۔ میں سوچ رہا تھا یہ عشقو محبت کی حکایتیں ، حسنو شباب کی لطا فتیں ، بے وفا دلبروں کی

چاہتیں ، یار دوستوں کی صحبتیں �ور ماں باپ کی شفقتیں سب کتا بی باتیں ہیں کیوں نہ میں �ن کتابوں کا �یک

آ�گ لگا دوں کیونکہ کتابیں تو صد �قتوں کا سمندر ہوتی ہیں لیکن وہ کتابی صد� قتیں مینار کھڑ �کروں �ور �س میں

کس کام کی ہیں جن کا عملی دنیا میں کوئی عمل دخل نہ ہو !۔ طوفان تھم چکا تھا �س سجدہ گاہ کے نشان

نن نیاز میں سجدے تڑ پ رہے تھے �س حا لت میں جانے یوں ہی کب مٹ چکے تھے جس کے لئے میری جبی

تک کھڑ � رہا جیسے �یک موسم بدل گیا تھا �ور مطلع صاف ہو گیا تھا۔ ستا روں کے بیچ ثناء کا مسکر�تا چہرہ

آ�نے کی دعوت دے رہا تھا۔ نن نو کی طرف مجھے جہا

آ�ز�ر بھی ہے زندگی لطف بھی ہے زندگی

آ�ہنگ بھی زنجیرکی جھنکار بھی ہے سازو

زندگی دید بھی ہے حسرت دید�ربھی ہے

آ�ب حیات لب ورخساربھی ہے زہر بھی ہے

زندگی د�ر بھی ہے زندگی دلد�ربھی ہے

*****

Page 184: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

سسراب

آ�رزوؤں کے خو�ب تھے ، وہ سر�ب تھے وہ خیال تھے وہ جو

آ�نسوؤں سے سنو�رتے سردشت �یک بھی گل نہ تھا،جسے

تھا جو �یک لمحہ وصال کا ،وہ ریاض تھا کئی سال کا

وہی �یک پل میں گزرگیا، جسے عمر گزرگئی پکارتے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�ن مجید حفظ کیا ہے۔ کیا تمہیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ دین کی پابندی ’’ اربا!یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ تم نے قر

اربا!�نسانی خو�ہشات کا نہ کی جائے تو بڑ �گناہ ہوتا ہے۔ دولت کے پیچھے �پنی عاقبت خر�ب کر رہی ہو۔ ۔ ۔

کوئی �نت نہیں ہے۔ خو�ہشات �یک �یسے درخت کی مانند ہیں جس کی ہز�روں شاخیں ہوتی ہیں �ور �س پر لگنے

و�لے پھل کا نام ہوس ہے۔ جس سے کبھی پیٹ نہیں بھر سکتا۔ ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آ�سمان کو ڈھک �س دن دوپہر سے ہلکی بارش کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ شام ہوتے ہوتے گہرے سیاہ بادلوں نے

آ�نکھ مچولی سے محظوظ ہو رہی تھی کہ لیا۔ بارشوں کابھیگا بھیگا موسم بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ میں بادلوں کی

آ�و�ز نے بری طرح چونکا دیا۔ �س وقت کون �سکتا ہے ؟ سوچتی ہوئی �ٹھی۔ درو�زہ کھولا تو گیٹ پر کال بیل کی

Page 185: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ� رہے تھے۔ آ�ئیں وہ برساتی پہنے ہاتھوں میں چھتریاں لی ہوئی تھیں۔ چہرے صاف نظر نہیں دوخو�تین کھڑی نظر

آ�پ لوگ۔۔۔۔ ‘‘ �یک دبلی پتلی ، گوری چٹی �ور دوسری سانولی رنگ کی تھی۔ میں نے پوچھا کیا بات ہے ؟

آ�نا �چھا’’ آ�ئی ہیں ‘‘۔ مجھے �س وقت �ن کا جی ہم �نجمن بیو گان ویتیم یسیر ،کی �رکان ہیں �ور چندہ کے لئے

آ� جاتیں خیر ٹھہریں میں �بھی آ�پ لوگوں نے �س وقت کیوں تکلیف کی بہتر ہوتا کہ دن میں نہ لگا میں نے کہا ’’

آ�تی ہوں ‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی جانے کیوں �نہیں کچھ نہ کچھ دے دینا مناسب سمجھا۔ �لماری سے کچھ رقم لے

آ�گے بڑھی۔ سانولی لڑکی نے میرے قریب �کر ہاتھ بڑھایا �ور شکریہ کہتے ہوئے رقم لے لی۔ دوسری جو گیٹ کر

کے پاس ہی ٹھہری رہی چھتری کو چہرے سے �تنا قریب تھام رکھا تھا جیسے چہرہ چھپانا چاہتی ہو �ور وہ چہرہ

آ�گے بڑھ گئیں۔ میں �پنی آ� رہا تھا۔ وہ دونوں مجھے جانا پہچانا سالگا تھا۔ میں نے دماغ پر زور دیا کچھ یا دنہیں

آ�یا کہ �س چہرے کو تو میں �چھی طرح جانتی ہوں وہ مجھ سے سوچ میں کھڑی ہوئی تھی �چانک مجھے یاد

بہت قریب رہ چکی ہے �سے تلاش بھی کیا تھا میرے گمان میں یہ بات نہیں تھی کہ وہ یوں �چانک میرے سامنے

آ�گے �یک گیٹ آ�جائے گی �ور ملے بغیر چلی جائے گی۔ میں گیٹ کی طرف لپکی وہ میرے گھر سے دومکان

آ�و�ز دی ’’سنئے !سنئے !ذر� آ�گے بڑھ گئی۔ میں نے کے سامنے کھڑی ہوئی تھیں مجھے دیکھ کر وہ تیزی کے ساتھ

آ�نا۔۔ رک جائیے ‘‘ �دھر

آ�و�ز دی وہ جھجکتی ہوئی رک گئی �ور میری طرف پشت کئے کھڑی رہی تب تک سانولی لڑکی نے بھی �سے

میں �ن کے قریب پہنچ چکی تھی۔

ارباب ہیں نا؟ �‘‘س نے �ثبات میں سر کوجنبش دی۔ میں نے �س کا ہاتھ پکڑ لیا وہ’’ آ�پ میر�خیال غلط نہیں ہے تو

ارباب؟میں نظریں نیچی کئے کھڑی رہی۔ �س کی ساتھی ہم دونوں کو تعجب سے دیکھ رہی تھی۔ ’’تم کہاں تھیں

آ�ج تمہیں �س حالت میں دیکھ کر میں نہ صرف حیر �ن ہوں نے تمہیں کتنا تلاش کیا۔ کہیں پتہ نہ چل سکا �ور

آ�ؤ کچھ دیر بیٹھو نا میں تمہارے بارے میں جاننے کے لئے بے بلکہ پریشان ہوں یہ کیا حالت ہو گئی ہے تمہا ری؟

چین ہوں ‘‘

Page 186: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�پ کیا کریں’’ ننبربادی سن کر آ�جاؤں گی فی �لوقت بہت مصروف ہوں ویسے میری د�ستا باجی !میں �یک دودن بعد

گی ؟‘‘

آ�ؤگی میں �ذیت میں’’ آ�ؤگی۔ جب تک تم نہ اربا!میں سننا چاہتی ہوں تمہیں وعدہ کرنا ہو گا کہ تم کل ضرور نہیں

آ�نے کا وعدہ کر ارباب نے فون نمبر دیا �ور کل آ�ؤ گی نا ؟ مجھے تمہار� فون نمبر ہوتو دیدو پلیز ‘‘ مبتلا رہونگی !تم

کے چلی گئی۔ میں ڈر�ئنگ روم میں بیٹھی ماضی کی کتاب کے �ور �ق �لٹ رہی تھی۔

ارباب �پنے خاند�ن کے ساتھ ہمارے پڑ وس میں رہا کرتی تھی چند سال پہلے جب میں بی۔ �ے فائنل کر رہی تھی

یہ دوبہنیں تھیں �یک چھوٹا بھائی تھا۔ �س کے و�لد کا جنرل �سٹور خوب چلتا تھا بچے �چھے �سکول میں پڑھ رہے

آ�ن مجید حفظ کر رہی تھی۔ وہ بے حد شوخ وشریر تھی۔ ہرکس وناکس سے بہت جلد گھل مل جاتی ارباب قر تھے۔

تھی۔ پرکشش چہرہ �ور باغ وبہار شخصیت کا ہرکوئی گرویدہ تھا۔ �س کے و�لد کے �چانک �نتقال کے بعد وہ

آ�ئے تھے کسی سیرئیل کے لئے T.Vلوگ پریشان ہو گئے �ن ہی دنوں و�لوں کی طرف سے کچھ لوگ �سکول

ارباب بھی شامل تھی۔ گھر �کر خوشی لڑکے �ور لڑکیوں کی ضرورت تھی کچھ بچوں کا سلکشن ہو� جن میں

سے معقولT.Vخوشی ماں کو سب بتایا �ور کہا �ب �ن کی پریشانیاں جلد ہی ختم ہوجائیں گی کیونکہ �سے

معاوضہ ملا کرے گا۔ جب ماں بیٹی نے مجھے یہ بات بتائی تو میں نے منع کیا �ور �نہیں سمجھایا کہ یہ سب

ارباب نے مجھے ساتھ چلنے کے لئے کہا کیوں ٹھیک نہیں ہے لیکن۔۔۔۔ وہ �نجان بن گئے۔ شوٹنگ کے پہلے دن

چونکہ یہ سب مجھے �چھا نہیں لگ رہا تھا �س لئے میں نے ٹالنا چاہا لیکن وہ بضد تھی �س کے ماں کے مجبور

کرنے پر میں نے �یک بار جانا منظور کر لیا۔

وہ �کٹوبر کی �یک سہانی صبح تھی موسم خوشگو�ر تھا۔ شوٹنگ کے لئے کسی دور در�ز مقام پرجانا تھا ڈ�ئرکٹر

کے گھر پر �سٹوڈیو کی ویان ٹھہری ہوئی تھی سب بچے �پنے �پنے گھروں سے �کر جمع ہو رہے تھے کچھ بچوں

ارباب کی شوخی کے ساتھ �ن کے بڑے بھی تھے نوبجے ویان رو�نہ ہوئی سبھی خوش گپیوں میں مصروف تھے

آ� گئی تھی کچھ دور �طر�ف کے پہاڑوں پر روئی کے گالوں جیسے بادل �تر رہے تھے ویان ہرے وشر�رت عود کر

Page 187: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

بھرے مید�نوں سے گزر رہی تھی۔ میں کھڑ کی سے لگی ہوئی سیٹ پر بیٹھی باہر کے منظر سے لطف �ندوز ہو رہی

آ�یتیں �تر رہی تھی۔ آ�نکھوں میں جیسے سورہ رحمن کی تھی میری

نن یب نھذ سک ات سما اک نھب سر نئ آا سل ی� ھی ن سا نب oسف

آ�رٹسٹ بچے مصروف رہے۔ یہ سلسلہ چل ا �یک گھنٹہ بعد ہم �سٹوڈیو پہنچے۔ شام تک پروڈکشن کا عملہ �ور تقریب

آ�رٹسٹ لڑکیوں کو دیکھا جو نت نئے ڈیز�ئین ارباب کے ساتھ چلی گئی وہاں نکلا۔ �س دور�ن میں بھی دو چار مرتبہ

آ�دم کے بیٹوں آ�ستین کے ٹاپس بلکہ مختصر سے ٹاپس پہنی ہوئی کے کپڑوں میں ملبوس تھیں جینز پینٹ �ور بغیر

آ�پ بدل لیا تھا لمبے گھنے بال کٹو�لئے شلو�ر سوٹ ڈوپٹہ چھوڑ ارباب نے بھی �پنا نت نظارہ دے رہی تھیں کو دعو

کر جینز �ور نہایت مختصر ٹا پس پہننے لگی تھی۔ شوخ وشریر تو تھی �ب نڈر �ور بے باک ہو گئی تھی میٹرک

آ�گے پڑھنے �ور کام بندکرنے سے صاف �نکار کر دیا۔ کے بعد

آ�یا کرتے ہیں �س پر �س نے مجھے �یک دن بتا یا کہ ڈ�ئرکٹر کے �یک دوست کمال �حمد جو �کثر شوٹنگ دیکھنے

بہت مہربان ہیں وہ چار کپڑوں کے شورومس �ور باغات کے مالک ہیں �ور یہ کہ وہ �س سے شادی کرنا چاہتے

ہیں۔ میں نے پوچھا �تنے دولت مند ہوتے ہوئے کیا �نہوں نے �ب تک شادی نہیں کی ؟

آ�رزو میں دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں بیٹے کی تمنا’’ باجی !وہ تین لڑکیوں کے باپ ہیں �ور �ب �یک لڑکے کی

نے �نہیں دیو�نہ بنا رکھا ہے باجی!وہ مجھ سے پیارکرتے ہیں مجھے بھی بہت �چھے لگتے ہیں ہائے �تنی بڑی سی

کار میں بیٹھے ہوئے کتنے شاند�ر لگتے ہیں ‘‘

آ�ن مجید حفظ کیا ہے۔ کیا تمہیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ دین کی پابندی ’’ اربا!یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ تم نے قر

اربا!�نسانی خو�ہشات نہ کی جائے تو بڑ �گناہ ہوتا ہے۔ دولت کے پیچھے �پنی عاقبت خر�ب کر رہی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کا کوئی �نت نہیں ہے۔ خو�ہشات �یک �یسے درخت کی مانند ہیں جس کی ہز�روں شاخیں ہوتی ہیں �ور �س پر

آ�گے تمہاری مرضی۔۔۔ ‘‘ لگنے و�لے پھل کا نام ہوس ہے۔ جس سے کبھی پیٹ نہیں بھر سکتا۔

Page 188: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�ج کی سب سے بڑی طاقت پیسہ ہے یہ دنیا’’ آ�پ نے تو �تنی ساری کتابیں پڑھی ہیں کیا یہ نہیں جانتیں کہ باجی !

آ�پ پیسے کو سلام کرتی ہے جس کے پاس پیسہ نہ ہولوگ �س کے سلام کاجو�ب دینا بھی پسند نہیں کرتے۔

آ�سائش زندگی کے خو�ب دیکھتی رہی ہوں بنگلہ ، موٹر ، نوکر چاکر۔۔۔۔ میری اپر جانتی ہیں کہ میں ہمیشہ �یک

‘‘ کمزوریاں مجھے بہت دور لے جا چکی ہیں �ب میر�لوٹنا مشکل ہے

تم کرنا کیا چاہتی ہو ؟‘‘’’

میں کمال �حمد سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے �نہیں بیٹے کی خوشی دیدی تو وہ مجھے بنگلہ �ور بڑی’’

سی نئی کار�ور بہت کچھ مجھے دیں گے کار تو شادی پر دینے کاوعدہ ہے ‘‘

اربا !تمہیں جاننا چاہئیے کہ فرش سے �یک ہیں جست میں عرش پر پہنچنے کی کوشش منہ کے بل گر�دیتی ہے’’

�ور خو�بوں کے شیش محل کر چیوں میں بدل جاتے ہیں میں تمہیں یہ مشورہ ہرگز نہیں دو نگی کہ تم۔۔۔۔ میری

آ�ناجانا چھوڑ دیا۔ میر� فائنل �ئیر تھا میں �پنی بات پوری ہونے سے پہلے وہ منہ پھلائے چلی گئی �ور ہمارے ہاں

اربا �پنے خاند�ن کے ساتھ کسی �ور جگہ چلی گئی ہے۔ پڑھائی میں مصروف تھی دوچارماہ بعد مجھے معلوم ہو�کہ

اربا کو دیکھ کر چار پانچ سال بعد پچھلے و�قعات کسی فلم کی ریل کی طرح میرے دماغ میں گھوم رہے تھے۔

آ� گئی۔ کچھ دیر خاموش بیٹھی ہوئی میرے ڈیکوریٹڈ ڈر�ئنگ میں پہچان نہ سکی تھی دوسرے دن وہ حسب وعدہ

پر رکھے ہوئے فوٹوفریم پر نظریں مرکوز کر دیں جس میں میرے دونوں بچوں کی T.V روم کا جائزہ لیتی رہی پھر

اپر تکلف چائے کی ٹرے رکھتے ہوئے پوچھا آ�نسو رو�ں تھے میں نے آ�نکھوں سے تصویر لگی تھی �س کی

اربا ب!تم روکیوں رہی ہو؟’’ ‘‘ کیا بات ہے

آ�نسو پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’ آ� گیا تھا ‘‘ �س نے کچھ نہیں باجی!بس !یونہی کچھ یا د

‘‘ �ب تم مجھے بتاؤ تم کہاں تھیں ؟ کیا کرتی رہیں ؟ تمہاری یہ حالت کیوں ہو گئی ؟’’

Page 189: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�پ کو یاد ہو گا کہ کمال �حمد مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے �ور ۔۔۔۔ ‘‘’’

آ�نا چھوڑ دیا تھا’’ ‘‘ ہاں مجھے یا دہے میں نے مخالفت کی تھی �س کے بعد تم نے ہمارے ہاں

کمال �حمد نے حسب وعدہ میرے نام پر میری پسندیدہ کار لے لی �ور مجھے دلہن بنا کر لے گئے قدرت مجھ’’

پر مہربان تھی وقت میر� تھا مجھے وہ سب کچھ مل گیا تھا جس کی مجھے خو�ہش تھی۔ شادی کے دوسرے ہی

آ�نے و�لا ہے �نہوں نے کہامہمان کیوں میر� شہز�دہ میر� ولی مہینے کمال کو خوش خبری سنائی کہ ہمارے ہاں مہمان

عہد کہو۔ �ب میں �یک سجے سجائے بنگلے کے خو�ب دیکھنے لگی لیکن مجھے خودپتہ نہیں تھاکہ لڑکا ہو گا

یا لڑکی !کمال نے میری ناز برد�ری شروع کر دی تھی دونوکر ہمہ وقت میری خدمت میں �ور گھومنے کے لئے کار

� کرو�ئی تومعلوم ہو�کہ Scanningلئے ڈر�ئیور موجود رہتا تھا۔ میرے صبر کاپیمانہ لبریز ہو گیا تھا میں نے فور

آ�پ کو فاتح عالم �یک نہیں دو بیٹے ہیں میری خوشیوں کی �نتہا نہ رہی میں بنا پروں ہو� میں �ڑ رہی تھی میں �پنے

سمجھ رہی تھی ہربات چٹکی بجاتے کمال سے منو�لیتی تھی �نہوں نے ڈ�کٹر سے بات کی �ور بنگلہ میرے نام

لکھ دیا �می �ور بہن بھائی بھی پھولے نہیں سما رہے تھے کمال �نہیں ہرماہ دس ہز�ر بھیج دیا کرتے تھے دنیا میرے

آ� گیا کہ کمال �یک ساتھ دو بیٹوں کے باپ بن گئے �نکے خو�بوں کی لئے جنت سے کم نہیں تھی وہ دن بھی

آ�نکھیں مل گئیں ہیں لیکن تعبیر �ن کے سامنے تھی وہ چہار د�نگ عالم میں �علان کرنا چاہتے تھے کہ �نہیں دو

آ�ئے ا وہ �یسا نہ کر سکے �ن سے رہا نہ گیا تو چھلے کے جشن پر �پنی بڑی بیٹی شاہانہ کو ر�زد�ر بنا کر لے مصلحت

وہ �پنے پھول جیسے دو بھائیوں کو دیکھ کر کھل �ٹھی مجھ سے مل کر بھی خوش ہوئی دوسرے دن وہ �پنی

آ�ئی �س کے ہاتھ میں ٹفن کیرئیر تھا رنگت �ڑی ہوئی تھی وہ دونوں رورہی تھیں میرے چھوٹی بہن رخسانہ کے ساتھ

آ�پ کو �ور دونوں بچوں پوچھنے پر بتا یا کہ ’’ صبح ممی �ور پپا میں بہت جھگڑ �ہو� ممی کہہ رہی تھیں کہ وہ

کو زندہ نہیں چھوڑ یں گی تب ہی پپا کے سینہ میں درد ہو� ماموں جان �ور دوسرے لوگ مل کر �نہیں ہاسپٹل لے

آ� گئیں ہیں �ب کیا آ�پ کے پاس گئے ہیں ہاسپٹل گھر کے قریب ہی ہے ہم دونوں ٹفن لے جانے کے بہانے نکل کر

آ�نٹی ؟‘‘ ہو گا

Page 190: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

یہ سن کر میرے �وسان خطا ہو گئے یہ سب کچھ �یک دن معلوم ہونا تھا لیکن �تنی جلدی �ور �س قدر گمبھیر

آ�پ کوسنبھالتے حالات ہوجائیں گے میں نے سوچابھی نہیں تھا میرے ہاتھ پاؤں میں لرزہ سا ہو رہا تھا میں نے �پنے

آ�تی ہوں ‘‘ ہوئے کہا ’’تم لوگ پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہوجائے گا تم یہیں ٹھہرومیں بینک سے پیسے لے کر �بھی

ڈر�ئیور �ور دونوں نوکر غریبوں کو کھانے کے پیکٹ بانٹنے کے لئے گئے ہوئے تھے میں نے گھر کو لاک کیا �ور

آ�نے تک بمشکل پندرہ منٹ کا وقت ہو� ہو* ATروڈکر�س کر کے بینک میں گھس گئی۔ سے رقم نکال کر و�پس

آ�دمی میرے دونوں جانب �کر کھڑے ہو گئے �یک کے گا میں جیسے ہی درو�زہ کھول کر �ندر گئی دوپہلو�ن ٹائپ

ھلانے کی کوشش کی ہاتھ میں پستول تھا دوسرے کے پاس چمکتا ہو� تیز دھاری د�ر چاقو تھا �نہوں نے کہا چ

توجان سے ہاتھ دھو نا پڑ یگا �ور کہا کہ بچوں کو لے کر �ن کے ساتھ چلنا ہو گا مجھے �پنا خون رگوں میں

ا�دھر نظر گھمائی تو میری حیرت کی �نتہا نہ رہی کہ شاہانہ ن�دھر منجمد ہوتا محسوس ہو� میں نے کمرے میں

رخسانہ �ور دونوں بچے غائب تھے سانپ کی پھنکار میں �یک نے کہا ’’کہاں ہیں بچے ؟ہم سے چالاکی کرتی

آ�ئی ہے ؟‘‘ ہے ؟بتا بچوں کو کہاں چھپا کر

میں پاگلوں کی طرح �نہیں گھر کے کونے کونے میں ڈھونڈنے لگی میری چیخیں نکل رہی تھیں میں نے روتے ہوئے

کہا کہ �نہیں گھر میں بند کر کے بینک سے پیسے لانے گئی تھی �نہوں نے میری بات کا یقین نہیں کیا میرے منہ

میں کپڑ �ٹھونس کر ہاتھ پیر باندھ دئیے کہا کہ جب تک بچے نہیں مل جاتے تب تک وہ مجھے �پنی قید میں

آ�یا تو رکھیں گے خوف �ور صدمے کے مارے میں بے ہوش ہو گئی نہیں معلوم کب تک بے ہوش رہی جب ہوش

دیکھا میں کسی کے بیڈ پر تھی میرے قریب کرسی پر �یک بوڑھی عورت بھونڈے میک �پ �ور زرق برق کپڑوں

میں بیٹھی ہوئی تھی میرے پوچھنے پر �س نے بتایا کہ میں بمبئی میں ہوں �ور �س نے مجھے پچاس ہز�ر میں خرید �

ہے میں نے روتے ہوئے �پنے بچوں کے بارے میں پوچھا تو �س نے لاعلمی کا �ظہارکیا �ور یہ سن کر حیر�ن ہوئی کہ

میں دوبچوں کی ماں ہوں باجی �ن دنوں مجھے معلوم ہو� کہ جیتے جی موت کا سامنا کیسے کیا جاتا ہے ؟ میں

ارباب کو پانی دیا �ور چائے ارباب کی باتیں سنتی رہی وہ ذر� خاموش ہوئی تو میں نے �ٹھ کر تصویر حیرت بنی

Page 191: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

بنالائی ہم دونوں خاموشی کے ساتھ چائے پیتی رہیں پھر وہ کہنے لگی مجھے جلد ہی �س گندی دنیاسے باہر

نکلنے کا موقع مل گیا تین سال سے �پنے بچوں �ور کمال کی تلاش میں گلی گلی کوچہ کوچہ بھٹک رہی ہوں سڑ

کوں کی دھول پھانک رہی ہوں مجھے شاہانہ رخسانہ بھی نہیں ملیں �پنے گھر کو دور سے دیکھتی ہوں جہاں کچھ

آ�تا ہے کہیں وہ سب۔۔۔۔۔ آ�تے وہاں جا کر کچھ بھی پوچھتے ہوئے خوف �جنبی لوگ نظر

کیا تم �پنی و�لدہ �ور بہن بھائی سے نہیں ملیں ؟‘‘’’

آ�ج میں بالکل’’ پہلے �سی گھر پر گئی تھی وہ لوگ گھر خالی کر کے کہاں چلے گئے کسی کو نہیں معلوم !

�کیلی ہو گئی ہوں باجی بالکل �کیلی میر� سب کچھ لٹ گیا ہے ‘‘ وہ پھو ٹ پھوٹ کر رورہی تھی میں نے �سے

سینے سے لگالیا �ور پوچھا

ارباب!�گر تمہارے بچے مل جائیں تو کیا کرو گی ؟‘‘’’

میں پھر سے جی �ٹھونگی باجی مجھے نئی زندگی مل جائے گی کیا تم جانتی ہو وہ کہاں ہیں کیسے ہیں’’

مجھے جلد بتائیے نا وہ کہاں ہیں ؟‘‘

ارباب!و�قعی یہ دنیا �یک �سٹیج ہے یہاں ہر روز نئے ڈر�مے دیکھنے کو ملتے ہیں ہم سب بھی کسی نہ کسی ڈر�مہ’’

کے کرد�رہیں �وپر و�لا بڑے عجیب کھیل کھلاتا ہے ‘‘میں سوچ رہی تھی کہ بات کہاں سے شروع کروں۔

آ�پ کیا جانتی ہیں بتائیں نا!�نہیں پانے کے لئے میں �پنی جان پر کھیل جاؤں گی’’ ‘‘ بچوں کے بارے میں

یہ بتاؤ �گر کسی عورت نے �ن بچوں کو �پنی �ولاد کیطر ح پالا ہے �ور وہ تمہیں نہ دینا چاہے تو تم۔۔۔۔ ‘‘’’

باجی !میں �س عورت کی زندگی بھر غلامی کرونگی �س کے قدموں میں گرکر �ن کی بھیک مانگوں گی وہ جو’’

آ�پ �ن کے بارے میں �چھی طرح جانتی ہیں کیسے باجی ؟ کیا جانتی ہیں کہے گی کروں گی !معلوم ہوتا ہے کہ

کچھ تو بتائیں ‘‘

Page 192: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ارباب سنو! �س دن شاہانہ �ور رخسانہ دونوں بچوں کو لے کر بھاگی جا رہی تھیں میں �پنی کار سے �ترکر گیٹ’’

کی طرف بڑھ رہی تھی کہ �ن پر نظر پڑی وہ بری طرح ہانپ رہی تھیں �ور بچے بے تحاشہ رورہے تھے میں نے

آ�ئی میرے پوچھنے پر �نہوں نے بتایا کہ وہ بچے �ن کے بھائی ہیں ڈر�ئیور کی مدد سے �نہیں روک لیا �ور �ندر لے

آ�ئے تھے �ن کے بار بار بیل بجانے پر شاہانہ نے کی ہول �ن کے ماموں �پنے دوست کے ساتھ �نہیں مارنے کے لئے

Key Hole سے دیکھا �ور دونوں بہنیں دونوں بچوں کو لے کر کھڑ کی کے ر�ستے بھاگ نکلی ہیں دونوں

نے �پنے یہی نام بتائے تھے وہ روتے ہوئے �لتجا کر رہی تھیں کہ میں �ن بچوں کو چھپالوں �ن کی باتیں میری

آ�ئی کہ بچے سمجھ سے باہر تھیں �ور وہ سمجھانے سے قاصر تھیں �س وقت میرے ذہن میں صرف �یک بات

خطرے میں ہیں �ور �نہیں بچانا میر� فرض ہے میں �نہیں لے کر تیزی کے ساتھ �پنے بیڈ روم میں لے گئی �نہیں لٹا

آ�ئے تو میں نے ساری رو د�د سنائی وہ مجھ پر آ�ئی تو دونوں لڑکیاں غائب تھیں شام کو میرے شوہر علیم کر باہر

بہت بگڑے کہ میں نے �نہیں گھر میں رکھ کر مجرمانہ حرکت کی ہے۔

ہم بچوں کے ساتھ سیدھے پولیس �سٹیشن گئے و�قعہ صاف صاف بیان کر دیا �ور خو�ہش ظاہر کی کہ جب تک

آ�تا تب تک ہم �نہیں �پنے پاس رکھنا چاہتے ہیں گھنٹوں کی بھاگ دوڑ کے بعد کا غذی �ن کا کوئی رشتہ د�ر نہیں

آ�ئے �ب وہ �سکول بھی جانے لگے ہیں۔ کارو�ئی کے بعد ہم �نہیں �پنے گھرلے

ارباب نے میرے پیروں پر �پنا سر رکھ دیا۔ میری بات ختم ہونے سے پہلے

*****

Page 193: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

چبھن کی پھولوں

آ�پ سے �یک سو�ل کرتے ہوئے وہ تھک گئی تھی کہ کس جرم کی پاد�ش میں �سے بے حسی کی چھری سے �پنے

ذبح کیاجا رہا ہے ! کون دے گا �س سو�ل کا جو�ب کہ و�لدین بچوں کی شادی میں �نتہائی تاخیر کیوں کر دیتے

ہیں کیوں �ن کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں۔ �کثر لڑکے و�لوں کا وتیرہ بن گیا ہے کہ قبول صورت لڑکیوں کو

دیکھ کر ناپسندیدگی کا �ظہار کر دیتے ہیں جبکہ خود �ن کے �پنے گھر میں بیٹیاں �سی �نتظار میں بیٹھی ہوتی ہیں

کہ کوئی �نہیں پسند کر لے قبول کر لے۔ دل ودماغ میں عجیب جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ دل کہتا کہیں بھاگ

چل کسی �جنبی کا ہاتھ پکڑ کر کہہ دے کہ مجھے �پنا لو۔ میری مانگ میں ستارے بھردو، مجھے دلہن بنادو،

میرے ساتھ کی سکھی سہیلیاں �پنا �پنا گھر بسا چکی ہیں۔ دنیا بھر کی سیرو تفریح میں مشغول ہیں زندگی کی

خوشیاں �ن کے قدم چوم رہی ہیں۔ مجھے بھی زندگی کی خوشیوں سے ہمکنار کر دو۔ دماغ کہتا تو دیو�نہ ہے !

صبر کر ! شاید تیرے دن بھی پلٹ جائیں۔ تونے �گر �س عمر میں کوئی غلط قدم �ٹھایا تو خاند�ن کی ناک کٹ

جائے گی۔ جھکتی کمرکے ساتھ باپ کی گردن بھی جھک جائے گی ماں کچھ کھا کر سوجائے گی۔ بھائی

آ�ئے گا۔ تو �یک بدنما د�غ بن کر �ن کے ماتھے سے پھانسی لے لے گا �ور بہنوں کے لئے کبھی کوئی رشتہ نہیں

چپک جائے گی وہ د�غ دنیا کی کوئی طاقت مٹانہ سکے گی۔

ر�ت کی تاریک تنہائیوں میں �یک شعلہ سا میرے پہلو میں دہک �ٹھتا عمر کی پچیس بہاریں گزرچکی ہیں میں کیا

کروں کہ کسی نے مجھے پسند ہی نہیں کیا کیونکہ میر� رنگ گور� نہیں ہے۔ صر�حی د�ر گردن نہیں ہے۔

آ�نکھوں میں آ�نکھیں نہیں ہیں۔ نہ �تنی دولت ہے کہ مٹی کی طرح لڑکے و�لوں کی سروجیسا قد �ور ہرنی جیسی

آ�میز چہرے جھونک دیں کہ �نہیں میرے �ندر کوئی خامی نظرہی نہ �س کے۔ دوتین لڑکے و�لوں نے میرے ملاحت

Page 194: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کو پسند کیا تھا لیکن �باجی نے شیخ �ور سید کا جھگڑ �کھڑ �کر دیا کہا کہ ’’بھئی ہم تو نجیب �لطرفین ہیں۔

لڑکا بھی ہمیں ہماری طرح کا چاہئے۔ ‘‘ میں کس طرح �نہیں سمجھاتی کہ شیخ ، سید یا پٹھان کے جھگڑے

آ�دمی کے ہاتھ میں ہاتھ تھمادیں۔ �یک کا بوجھ تو کم ہوجائے گا۔ باقی میں نہ پڑیں کسی کمانے و�لے شریف

تین بھی شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں۔ بھائی تو �بھی کسی کا سہار� بننے کے قابل نہیں بنا ہے۔ لیکن

میں کچھ بھی تو نہ کہہ پائی۔ شہنائیوں کی گونج مجھے کسی مغمومو مظلوم کی بین جیسی لگنے لگی تھی۔

یی بچھا کر نماز کے کسی بار�ت کو دیکھ کر ہول سی ہونے لگتی۔ میں گھبر� کر جلدی سے وضو کرتی �ور مصل

آ�نگن میں آ�تی لئے کھڑی ہوجاتی۔ جانے کتنی رکعتیں پڑھ لیتی کہ پاؤں شل ہوجاتے۔ میں کمرے سے باہر نکل

موتیا کے پھولوں سے معطر فضا �ور بھی �د�س کر دیتی۔ پھول جو سہاگن کی سیج پر بچھائے جاتے ہیں �ور

کسی کی تربت پر بھی چڑھائے جاتے ہیں۔ پھول زندگی کے خوبصورت لمحے کی یادگار بن جاتے ہیں �ور

کبھی عمر بھر کے لئے چھبن بھی بن جاتے ہیں۔ چاند کی چاندنی مسکر� رہی تھی جیسے میر� مذ�ق �ڑ �رہی ہو

�س کی ٹھنڈی ٹھنڈی کرنیں میری رگوں میں عجیب سی دکھن بھر رہی تھی۔ جذبات کی لہریں کسی ساحل

سے ٹکر� کر خاموش ہوجانے کے لئے بے چین تھیں لیکن �س گھپ �ندھیرے میں ساحل کا دور تک پتہ نہیں تھا۔

آ�ئے تھے �ن کی بڑی خاطر آ�پہنچی۔ �باجی کے �یک دوست �یک دن �چانک میری زندگی کی فیصلہ کن گھڑی

آ�ئے ہیں۔ وہ گھنٹوں بیٹھے رہے �ور مد�ر�ت کی گئی ہم بہنیں خوش تھیں کہ شاید �پنے بیٹے کے لئے رشتہ مانگنے

�ن کے جانے کے بعد �با �ور �می بڑی دیر تک کھسر پھسر کرتے رہے۔ پھر �می نے مجھے �پنے پاس بٹھا کر وہ

آ�ئے تھے �ن کی بیوی کا سب کچھ کہا جو شاید کہنا نہیں چاہئے تھا۔ �نہوں نے بتایا کہ �با کے جو دوست

�یک ماہ قبل �نتقال ہو گیا ہے �نکے چار بچے ماں کے پیار سے محروم ہو چکے ہیں �ور وہ �یک بیوی کی تلاش

آ�ئے تھے میر� ہاتھ مانگ رہے تھے بابا نے ہاں کر دی ہے۔ مجھے بچوں سے بھر� بسا بسایا گھر میں ہمارے گھر

مل جائے گا �ور �با کی پریشانی بھی دور ہوجائے گی میرے �ندر چھن کے ساتھ کچھ ٹوٹ گیا �یک چبھن سی

رگ رگ میں محسوس ہونے لگی �ور �با کے �طمنان کے لئے یہ کافی تھا کہ وہ دوست نجیب �لطرفین تھے �پنی

Page 195: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

آ�زمایا جا آ�خری حد تک پلکوں پر تھرکتے موتیوں کو سنبھا لتی سب کچھ سنتی رہی میرے ضبط �ور حوصلے کو

آ�مادہ تھا لیکن میرے پاس ہاں کے سو� آ�رزوؤں کے گلد�ن ریزہ ریزہ ہو رہے تھے جسم کا رو�ں رو�ں �حتجاج پر رہا تھا

کچھ نہیں تھا۔ میری نگا ہوں کی زبان پڑھنے و�لا کوئی نہ تھا۔ حسین خو�بوں کے �جالے �یک دھندلی شام میں

بدل گئے �ور �س ڈھلتی ہوئی �د�س، شام کو میں نے گلے لگالیا۔ چند مہمانوں کی موجودگی میں میر� نکاح ہو

آ�ئی نہ ڈولی سجی نہ ہی ڈھولک پر بابل کے گیت گائے میں جھر جھر، جھر نے بہاتی شیشے کی گیا۔ بار�ت

کرچیوں پر چلتی پیاگھر سدھار گئی۔ �جنبی چہرے ، نامانوس ساماحول ، گھٹی گھٹی فضاء۔ مجھے �یک د�لان

میں بٹھایا گیا۔ تب ہی کسی نے کہا �ب یہ گھونگھٹ �ٹھادو �ور �ن بچوں کو دیکھو جن کی دیکھ بھال تمہیں

آ�رزوؤں کا �یسے ہی مذ�ق �ڑ �یا جاتا کرنی۔ ہائے ! کیا دلہنوں کا سو�گت �سی طرح کیا جاتا ہے ؟ �منگوں �ور

ہے ؟ زندگی کے سفر پر پہلے ہی قدم نے ر�ستے کی دشو�ریوں کی خبر دے دی۔ کسی نے میر� گھونگھٹ �لٹ

دیا �ور کہا کہ دیکھو یہ ہیں تمہاری نئی �می! �ور یہ ہیں نذیر ، ظہیر ، درد�نہ �ور پنکی۔ میں نے سرجھکا لیا۔

کچھ دیر بعد مجھے �یک کمرے میں پہنچادیا گیا جہاں �یک پر�نی مسہری پر میلی سی چادر بچھی ہوئی تھی۔

آ�پ کے بے حد شکرگز�رہیں کہ چند ہی منٹ بعد بچوں کے و�لد محترم تشریف لائے �ور یوں گویا ہوئے ’’سنئے ہم

آ�پ تھک گئی ہونگی آ�پ کے �حسان مند ہیں۔ آ�پ نے ہماری پریشانی کے وقت ہمار� ہاتھ تھامنا منظور کیا۔ ہم

آ�ج میری چھوٹی لڑکی پنکی کو بخار ہے جب سے �س کی ماں کا �نتقال ہو� ہے آ�ر�م کریں در�صل کپڑے بدل کر

آ�پ �جازت دیں تو میں �س کے کمرے میں سوجاؤں �ور �عتر�ض نہ ہو تو �سے یہاں لے وہ میرے ہی قریب سوتی ہے

آ�ؤں ؟ میرے �حساسات پر ٹھنڈی ٹھنڈی برف گر رہی تھی! کیا �یسی ہی ہوتی ہے سہاگ ر�ت؟ جس کا ذکر

کتاب زندگی کے �ور �ق پر سنہری حرفوں میں لکھا جاتا ہے ؟ گلے میں پڑے پھولوں کے ہار مجھے سانپ بن کر

آ�زمائش ہے تو مجھے ثابت قدم رہنا ہو گا کیونکہ ماں باپ نے کسی کے آ�زمائش؟ �گر ڈسنے لگے یہ شادی ہے یا

ہاتھ میں ہاتھ دے دیا ہے تو ہر حال میں �سے تھامے رہنا ہو گا، کیونکہ عورت کو �یثار ومحبت کا مجسمہ کہا گیا

ہے وہ حیا �ور وفا کی دیوی کہلاتی ہے جو ٹوٹ ٹوٹ کر بنتی �ور بن بن کر ٹوٹتی رہتی ہے۔

Page 196: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

دن مہینوں �ور مہینے سالوں میں ڈھلتے رہے میں دو بچوں کی ماں بن گئی پھر زندگی �یک سنگین موڑ ، پر �کر

آ�ئے دھوپ لگ گئی تھی۔ سردرد �ور چکر سے بے حال! بستر پر �یسے لیٹے کہ ٹھہر گئی۔ �س دن وہ باہر سے

پھر نہ �ٹھے ! وہ دھندلی شام جسے میں نے گلے لگالیا تھا �ب �ندھیری ر�ت میں بدل چکی تھی۔ �یسی ر�ت

جس کا سویر� نہیں تھا میں بت بنی �ن پھولوں کو تک رہی تھی جو �ن کی میت پر سجائے جا رہے تھے۔

٭٭٭

Page 197: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

عنوان بلا

حالات کا ماتم لا حاصل حالات تو گم ہوجاتے ہیں

کچھ حال کی �جڑی بستی میں کچھ ماضی کے ویر�نوں میں

�فسانہ، کہانی، ناول یہ سب کیا ہیں ؟ یہ وہی ننگی حقیقتیں ہیں ، جنہیں خوبصورت �لفاظ کے پیرہن میں لپٹ

نن وقت نے کہیں تاج وتخت کر پیش کیا جاتا ہے۔ کہانیاں �س کی ذ�ت سے جنم لیتی ہیں جس کے لیے شاہا

سورماؤں کو جنم دیتی ہے ، �پنی چھاتی سے خون کے دھارے ےچھوڑ دیئے تو کہیں تاج محل بنادیا۔ وہ بڑے بڑ

�ن کی رگوں میں پہنچاکر پرو�ن چڑھاتی ہے یہ وہی ہے جس کے وجود سے تصویر کائنات میں رنگ ہے۔ پھر بھی

آ�لود گرد وغبار میں ر�ستوں کی دھول پھانکتی آ�برو کی دھجیاں �ڑ �ئی جاتی ہیں ، خون �سے لوٹا کھسوٹا جاتا ہے ،

ہے۔ بچوں کو بھی چٹاتی ہے �ور دھول چاٹے ہوئے یہ بچے جب چٹان بن جاتے ہیں تو نئی کہانیاں جنم لیتی

آ�رپارہوتی ہیں ، ہیں ، بم پھٹتے ہیں ، لوٹمار �ور غارت گری کا باز�ر گرم ہوتا ہے ، نوجو�نوں کے سینے سے گولیاں

آ�نگن کی پھلو�ری میں لگی کلیوں کو مسلا �ور کسی کی جو�نی رہن رکھ ماؤں کی گوریں �جڑتی ہیں ، �ن کے

دی جاتی ہے تو کسیی جو�نی کے چاند کو گہن لگ جاتا ہے پھولوں کو روند� جاتا ہے۔ وقت کا چکر چلتا رہتا

ہے �ور لکھنے و�لے کہانیوں کے تانے بانے بنتے رہتے ہیں۔ رضا بھی �یسی ہی �یک کہانی کا کرد�ر تھا۔ وہ �پنے

و�لدین سے شاکی تھا کہ وہ ہر وقت لڑتے کیوں رہتے ہیں۔ ویسے دونوں ہی تعلیم یافتہ تھے ، ملازمت کرتے تھے ،

شاید کام کی زیادہ �ور تھکان کے باعث ماں کا موڈ بکھر� بکھر� سارہنے لگا تھا وہ ہمیشہ �س بات پر جھگڑ �کیا

کرتی تھی کہ ’’ملازم تم ہو تو میں بھی تمہارے بر�بر محنت کر کے پیسہ کماتی ہوں ، پھر �س گھر پر تمہاری

حکومت کیوں ؟ گھر کا ہر کام �ور بچوں کی ذمہ د�ری میرے ہی سر کیوں ؟ تم بھی کاموں میں میر� ہاتھ کیوں

Page 198: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

نہیں بٹاتے ؟ باپ کہتا ’’ میں نے تمہیں ملازمت کرنے سے منع کیا تھا، عورت کا ملازمت کرنا ہماری خاند�نی

آ� جات زیادہ ہیں جن کے پور� کرنے کے لیے میری تنخو�ہ کافی نہیں رو�یات کے خلاف ہے چونکہ تمہارے �پنے �خر

ہوتی نا! پھر بھی تمہار� ہاتھ بٹاتا ہوں ، لیکن بر�بر کا حصہ نہیں لے سکتا‘‘۔ یہ سرد جنگ �یک دن بڑے جھگڑے

آ�تے دیکھ لیا تھا �س سے ملنا یا بات میں تبدیل ہو گئی۔ رضا کے پاپانے ماں کو �س کے کزن کی �سکوٹر پر گھر

کرنا بھی �س کے پاپا کو پسند نہیں تھا۔ �عتماد کا جو �یک قطرہ تھا بے �عتمادی کے سمندر میں گم ہو گیا۔

وہ ٹی وی کھولے چپ چاپ بیٹھا �پنے خیالوں میں گم تھا۔ رضانے ریموٹ �ٹھا کر چینل بدل دیا تب ہی �س کے

آ�ی �ور رضا کو �پنے کمرے گال پر تھپڑ لگا کر پاپا نے ریموٹ چھین لیا �ور ٹی وی پر دے مار� ماں دوڑی ہوئی

میں ے کر چلی گئی، وہ پیچھے لپکا �ور �سے بھی �یک طمانچہ جڑ دیا کہا ’خود غلط کام کرتی ہو �ور بچوں

کو میرے خلاف بھڑ کاتی ہو؟ بحث تکر�ر بڑھ گئی �ور پاپا گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ کئی دن کئی ر�تیں سونی

آ�یا۔ گھر پر بے سکونی کی فضاء طاری تھی۔ سی گزرگئیں ، کئی ہفتے کئی مہینے گزر گئے ، جانے و�لا نہیں

و بالا کر دیتے ہیں ، ر�ہیں تاریک �ور جذبات کی رو میں بہہ کر کئے جانے و�لے فیصلے حال �ور مستقبل کو تہ

منزل کے نشان معدوم ہوجاتے ہیں �ن کی زندگی زلزلوں کی زد پر تھی تو �زن بگڑ گیا تھا۔ ماں کی مصروفیت بڑھ

آ�نے لگی۔ رضا کا زیادہ وقت گھر سے باہر گذر رہا تھا۔ دوستوں نے گھر �کر ماں سے گئی تھی وہ گھر دیر سے

شکایت کی کہ رضا �کثر جھگرے �ور مارپیٹ کرنے لگا ہے۔ ماں نے پیار سے سمجھایا کہ بات بات پر �لجھنا ،

ضد کرنا، مارپیٹ کرنا �خلاق سے گری ہوئی حرکتیں ہیں۔ تشدد سے مسائل حل نہیں ہو سکتے �سے پڑھائی میں

آ�ہستہ معلوم ہو گیا تھا آ�ہستہ سنجیدہ ہوجاناچاہئے کیون کہ �سے ہی ماں �ور بہن کا سہار� بننا ہے۔ محلے و�لوں کو

کہ رضا کا باپ گھر چھوڑ کر چلایا گیا ہے۔ جتنے منہ �تنی باتیں ہونے لگیں بچے رضا کو چھیڑ نے �ور ستانے

آ�پ بچے آ� رہا ہے۔ کیا لگے تھے۔ �یک دن رضا کے پرنسپال نے ماں کو بلو� کر بتایا کہ ’’وہ �سکول بر�بر نہیں

آ�پ �س کی جیبوں سے سگریٹ کے ٹکڑے �ور کنڈوم ملے ہیں۔ نہیں جانتیں �س عمر میں پر نظر رکھتیں ؟ کیا

بچوں پر کڑی نگر�نی رکھنی پڑتی ہے ؟ ماں کو یہ سب معلوم ہو�، تب تک دیر ہو چکی تھی۔ رضا بہت دور چکا

تھا۔ جہاں سے و�پس لانا مشکل تھا۔ وہ �یک �یسے گروہ کے ہاتھ لگ چکا تھا جس کا کام چوری ، ڈ�کہ ،

Page 199: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

قتل ، ڈرگز کا کاروبار پھیلانا، بینک ڈکیتی، بچوں کا �غو� �ور جنسی کاروبار کے لیے خوبصورت لڑکیوں �ور

آ�تیں۔ پھر �ن سب کے حو�لے کی جاتی تھیں۔ عورتوں کو پھانسنا تھا۔ جو پہلے �ن کے باس کے �ستعمال میں

رضا �س دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ باس کا محل نما مکان �سے محفوظ قلعہ کی مانند لگتا تھا۔ جہاں عیش و

نشاط کے تمام سامان مہیا تھے۔ مہینے میں صرف �یک بار دن بھر کی چھٹی ملتی تھی۔ شام ہوتے ہوتے �پنے

مقام پر سب کا حاضر رہنا لازمی تھا۔ رضا کبھی چھٹی لینا نہیں چاہتا تھا۔ ہر مہینہ �یک معقول رقم ماں کے

�کاؤنٹ میں جمع کر دیا کرتا تھا۔ �یک دن سیاہ بادل �مڈ �مڈ کر �رہے تھے۔ بجلیاں کڑ ک رہی تھیں �سے سیاہ

بادلوں �ور بجلیوں سے ڈرلگتا تھا۔ جب بھی �یسا موسم ہوتا وہ ماں کی گود میں منہ چھپائے پڑ �رہتا۔ �سے ماں

آ� رہی تھی۔ زندگی نے کہاں لاپٹکا تھا جہاں سب کچھ تھا لیکن �پنا جہہ سکیں جسے �یسا کوئی نہیں کی یاد

تھا۔ �س کی پلکیں بھیگ گئیں۔ تب ہی �س کے ساتھ دوتین خوبصورت لڑکیوں �ور عورتوں کو پکڑلائے وہاں کے

قانون کے مطابق باس کے عشرت کدہ میں پہنچادی گئیں جو دوسرے �ن سب کے حو�لہ کر دی گئیں۔ رضا نے

آ�و�ز دیکھا �ن میں �یک �س کی ماں �ور دوسری �س کی بہن تھی۔ بادلوں کی تیز چنگھاڑ میں تین چیخوں کی

گم ہو گئی۔

٭٭٭

آ�باد سے وصول ہوئی، �ن کی �جازت سے یی قاسمی، شارپ کمپیوٹرس، حیدر فائل مصنفہ کے صاحب ز�دے مصظف

)�س فائل میں بے شمار �غلاط ہیں، مزید پروف ریڈنگ سےپرو ف ریڈنگ، �ی بک کی تشکیل: �عجاز عبید

معذور ہوں۔�لفاظ کی فہرست میں شامل نہ کریں(

آ� ئی فاسٹ نیٹ ڈ�ٹ کام �و ر کتب ڈ�ٹ آ� رگ، کتابیں ڈ�ٹ فری ڈ�ٹ کام کی مشترکہ�250ردو لائبریری ڈ�ٹ

پیشکش

Page 200: بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com, http://kutub.250free.com