آتش پارے از سعادت حسن منٹو

92
ارے پ ش ت آ آر و ٹ ن م ن س ح عادت س1

Upload: qabbas

Post on 27-Jul-2015

126 views

Category:

Documents


0 download

TRANSCRIPT

Page 1: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

پارے آ�تشاز

منٹو حسن سعادت

1

Page 2: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

فہرست

3انتساب 4دیباچ تھوک 5خونی پسند 12انقالب صاحب آیا 19جی 25مایگیر30تماشا

امتحان کا 35طاقت شاعر 40دیو�نہ 46چوری

2

Page 3: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

انتساب

نام کے مرحوم د� و�ل

3

Page 4: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

دیباچہکام کا و�لوں پڑھنے کرنا تب�یل میں شعلوں کو �ن ہیں، چنگاریاں ہوئی دبی �فسانے یہ

ہے۔

ء1936جنوری �5مرتسر

منٹو حسن سعادت

4

Page 5: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

تھوک خونی

تھی۔ باقی دیر کچھ �بھی میں آ�نے گاڑی

سے خاموشی پر پہیوں ٹائر ربڑ گاڑیاں و�لی بیچنے پھل تھے۔ رہے گھوم �دھر �دھر ہوئے رون�تے کو سینے سنگین کے فارم پلیٹ گروہ کے گروہ کے مسافروںکی آ�ہوں سرد پنکھے برقی تھے۔ رہے دیکھ لگائے ٹکٹکی کو دوسرے �یک سے آ�نکھوں و�لی جھپکنے نہ �پنی قمقمے سینکڑوں کے بجلی تھیں۔ رہی تتیر

و آ�م� کی مسافروں سے نگاہوں سرخ �پنی لیمپ �یک میں پہلو کے پٹری کی ریل دور تھے۔ رہے بکھیر میں فضا گ�لی کی فارم پلیٹ ہو� �پنی میں صورتتھی۔ ہوئی لپٹی میں شور کے مسافروں �ور دھوئیں تن� کے سگریٹ فضا کی فارم تھا۔۔۔۔۔پلیٹ رہا کر مشاہ�ہ بغور کا رفت

خ�� نیچے کے گھڑی �یک تھے۔ رہے کر تذکرہ کا سیر و�لی ہونے �پنی بیٹھے پر بنچ چار تین تھا۔ مست میں دھن �پنی �پنی شخص �یک ہر پر فارم پلیٹکیلیے کھانے کچھ کو بیوی �پنی خاون� تھا۔ رہا کر باتیں کر ہنس ہنس جوڑ� ہو� بیاہا نیا میں کونے دور تھا۔ رہا گنگنا لب در زی غرق میں خیالات کن معلومتابوت کا بہن �سکی جو تھا، رہا چل کر لڑکھڑ� ساتھ کے قلیوں نوجو�ن �یک پر سرے دوسرے کے فارم پلیٹ تھی، دیتی مسکر� کر شرما وہ تھا۔ رہا کہہچن� پر سٹال بک تھے۔ رہے نکل کر پی شر�ب سے روم ریفرشمنٹ ہوئے بجاتے سیٹی �ور لئے چھڑیاں میں ہاتھ گورے فوجی چھ پانچ تھے۔ ہوئے �ٹھائے

بھری �می� کا روشنی کی گاڑی پہنے وردیاں سرخ قلی سے بہت تھے۔ مشغول میں دیکھنے کر پلٹ �لٹ کو کتابوں یونہی خاطر کی ٹالنے وقت �پنا مسافرکر کوشش کی کاٹنے وقت کر �ڑ� دھؤ�ں کا سگار کئے تن زیب لباس �نگریزی صاحب �یک �ن�ر کے روم تھے۔۔۔۔۔۔ریفرشمنٹ رہے کر �نتظار سے نگاہوں

تھے۔ رہے

" ہے۔" ب�تر بھی سے گ�ھوں زن�گی کی قلیوں

" پالیں؟" سے کہاں پیٹ آ�خر کریں کیا میاں مگر

" ہوگا؟" لیتا کما کتنا میں بھر دن قلی �یک

" آ�نے۔۔۔۔۔۔۔۔" دس آ�ٹھ یہی

بھی" دفعہ �یک خیال کا زن�گی تاریک کی لوگوں �ن جب بھریں۔ منہ کا �ن کر کاٹ پیٹ �پنا تو ہوں بچے بال �گر سہار�۔۔۔۔۔۔�ور کا جینے صرف یعنی " ہے؟ نہیں د�غ ب�نما پر تہذیب نہاد نام ہماری مصیبت کی �ن آ�یا کہ ہوں رہتا سوچتا پہروں تو آ�جائے میں دماغ میرے

تھے۔ رہے کر باتیں میں آ�پس ہوئے ٹہلتے پر فارم پلیٹ دوست دو

نام " کا بلا کس تم؟۔۔۔۔۔۔تہذیب بنے سے کب لینن یہ میاں کیوں لگا۔ کہنے کر مسکر� �ور ہو� متعجب ق�رے کر سن گفتگو کی دوست �پنے خال� " ہوں۔ بیٹھا کھوئے حو�س �پنے سے ہی پہلے میں ہو جانتے کو، باتوں �یسی دو زنگ۔۔۔۔۔۔جانے ہؤ� جما پر لوہے سرد کے ہے۔۔۔۔۔۔�نسانیت

لگ" آ�گ میں کارخانے مزدور پن�رہ کہ پڑھی خبر �یک میں �خبار ہوئے روز دو ہیں۔ دیتی کر برہم درہم کو دماغ و�قعی باتیں یہ ہو۔ رہے کہہ سچ خال�،معلوم خ�� �ور گئیں بن بیوہ عورتیں پن�رہ مگر گیا۔ مل روپیہ کو مالک تھا، ش�ہ بیمہ کارخانہ ہوگئے۔ ر�کھ مانن� کے کاغذ ہوئے جلے سے وجہ کی جانے

و�قع یہ سے بہایا۔۔۔۔۔۔جب نہ تک آ�نسو نے کسی مرگیا۔ آ�کر تلے گاڑی کرتے کرتے کام خاکروب �یک پر فارم پلیٹ نمبر تین کل ہوگئے۔ یتیم بچے کتنےلاش ہوئی لتھڑی میں خون کی خاکروب �س دیکھو جب �ترتا، نہیں نیچے لقمہ کا روٹی سے حلق جانو، یقین ہے۔ مغموم سخت طبیعت ہے، دیکھا " سکوں۔ کر م�د کچھ کی بچوں کے �س میں شای� چاہئے، جانا ضرور گھر کے �س ہے۔۔۔۔۔۔مجھے رہی گھور طرف میری نکالے باہر آ�نکھیں

ہے " جذبہ مبارک �ور نیک �یک یہ کرو، م�د بھی کی بیویوں بیکس کی مزدوروں جاؤ۔۔۔۔۔۔پن�رہ لگا۔ کہنے کر دبا ہاتھ کا دوست �پنے �ور مسکر�یا خال�نہیں۔ میسر بھی ٹکڑ� نصف کا روٹی سوکھی کیلیے وقت �یک جنھیں ہیں، آ�باد بھی لوگ �یسے چن� پر فاصلے کچھ سے شہر ہی ساتھ کے �س مگر

سڑ گل میں کیچڑ کے غربت حسن کا جن ہیں موجود عورتیں سینکڑوں �یسی نہیں، و�لا دینے پیار کوئی پر سروں کے جن ہیں بھی بچے �یسے میں گلیوںمیں جسموں ننگے گے؟۔۔۔۔۔۔۔۔ہز�روں بھرو مٹھی کی کس کس سے میں ہاتھوں ہوئے پھیلے �ن گے؟ کرو م�د کی کس کس تم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔بتاؤ رہا

" گے؟ کرو پوشی ستر کی کتنوں سے

5

Page 6: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

بسر" زن�گی کی ذلت کو �فر�د جنس ہم �پنے ہے؟ سکتا جا روکا طرح کس کو آ�ن�ھی تاریک �س بتاؤ مگر ہو، کہتے خال�۔۔۔۔درست ہو کہتے درست آ�ہ، " ہے۔ خو�ب بھیانک دیکھنا۔۔۔۔۔۔۔۔سخت کھاتے ٹھوکریں کی بوٹوں ہوئے چمکتے پر سینوں ننگے دیکھنا، کرتے

سکھا" کرنا برد�شت �نہیں نے �عتمادی خود روکتے۔ نہیں کو طوفان �س باوجود کے طاقت �پنی لوگ یہ کرو، �نتظار کا دیکھنے نتیجہ کا رفتار کی و�قعاتتمھاری شای� چاہئے رکھنی �می� تمھیں ہے۔۔۔۔۔بہرحال مشکل بہت کرنا پی�� کا چنگاری مگر ہے آ�سان کرنا تب�یل میں شعلوں کو ہے۔۔۔۔۔چنگاریوں دیا

" ہوجائیں۔ دور بادل یہ کے مصائب ہی میں زن�گی

" ہوں۔" تیار کو کرنے نذر سال بقایا کے زن�گی �پنی کیلیے دیکھنے وقت سہانا یہ میں

و" نام کا روشنی پر پٹڑی نا دیکھو ہے۔ ہوتی معلوم آ�تی سے دیر کچھ آ�ج گاڑی یار ہوتا۔۔۔۔۔مگر موجود بھی میں دلوں کے لوگوں باقی خیال یہی کاش " آ�تا۔ نہیں نظر تک نشان

کرکے خیال �ور کچھ تو سنے �گر �ور سنے۔ نہ بالکل �لفاظ آ�خری کے دوست �پنے نے �س �سلیے تھا۔ زن غوطہ میں فکر گہری کسی ساتھی کا خال� " �گر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " �ور چائیے کرنا پی�� خیال یہ و�قعی لگا۔ کہنے

" کہا۔" ہوئے پکڑتے سے بازو کو دوست �پنے نے خال� ہے؟ و�لی آ�نے کب گاڑی ہے، بھی پتا کو۔۔۔۔۔کچھ فلسفے �س �ب میاں چھوڑو

" " کے" منٹ دس گی۔۔۔۔۔یعنی آ�جائے تک منٹ دس بس منٹ، پچیس کر بج نو بولا۔ کر �ٹھا نگاہ طرف کی گھڑی و�لی سامنے پھر �ور گاڑی۔۔۔۔۔۔ " تھا۔ چکا بھول بالکل سے وجہ کی گفتگو دردناک �س کو آ�م� کی وحی� میں کرو، تو خیال ہوگا۔۔۔۔۔۔ذر� پاس ہمارے دوست ہمار� بع�

کیا۔ شروع سلگانا کر نکال سگریٹ سے جیب نے دوست کے خال� ہوئے کہتے یہ

کھڑے خاموش پاس کے ڈھیروں کے �سباب قلی تھے۔ رہے بھاگ �دھر �دھر سے سرعت بڑی مسافر تھا۔ رہا بڑھ سے تیزی ہجوم کا لوگوں پر فارم پلیٹ�پنی �پنی �پنی کر ہو جمع سے فارموں پلیٹ دوسرے و�لے خو�نچہ کرسکیں۔ حاصل آ�نہ �یک ہوکر فارغ سے کام �پنے جل� کہ تھے منتظر کے گاڑی

باہم کی مسافروں ص��ؤں، کی و�لوں خو�نچہ پھپ، پھپ کی �نجنوں مختلف گڑگڑ�ہٹ، کی گاڑیوں تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضا، کررہے بلن� ص�� مخصوصتھے۔ رہے بھر آ�ہیں سرد ب�ستور پنکھے تھی۔۔۔۔۔۔برقی معمور سے آ�و�زوں بھ�ی کی قلیوں �ور شور کے گفتگو

طرف کی گھڑی ہوئی بن�ھی پر کلائی �پنی تھا، رہا کھینچ کش دبائے میں د�نتوں کو سگار تک �بھی جو نے مسافر ہوئے بیٹھے �ن�ر کے روم ریفرشمنٹبولا۔ میں آ�و�ز بلن� ہوئے دیتے سہار� پر میز مرمریں کر دے جھٹکا کو بازو �ور دیکھا، میں �ن��ز کے پرو�ئی بے بڑی

" بو�ئے۔"

چیخا۔ پھر وہ بع� کے کرنے �نتظار کا خادم دیر ٹھوڑی

" " " حر�م" نمک ہوئے۔ بڑبڑ�تے آ�ہستہ پھر �ور بو�ئے۔۔۔۔۔۔بو�ئے۔

" کھڑ�" مودب قریب کے مسافر �س کر بھاگ خادم �یک ہوئے پہنے لباس سپی� ہی ساتھ �ور آ�ئی، آ�و�ز کی کسی سے میں کمرے دوسرے حضور۔ آ�یا جیہوگیا۔

" حضور۔"

" شای�۔" لوگ تم ہو رہتے سوئے دی۔ آ�و�ز دفعہ دو تمھیں نے ہم

" ہوتا۔" نہ حاضر غلام کہ ہے مجال کیا ورنہ نہیں، سنا نے میں حضور

ہوگیا۔ فرو غصہ کا مسافر کر سن لفظ کا غلام

6

Page 7: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

" سمجھے؟" ہے، سکتا کھینچ کان بھی کے صاحب بڑے تمھارے ہم نہیں، �چھی رخی بے یہ سے مسافروں کے �ول درجہ دیکھو

" ہاں۔" جی

لے" پر فارم پلیٹ �سباب تمام کا صاحب وہ کہ کہو سے قلی ہمارے �ور جاؤ میں روم ویٹنگ تم دیکھو ہے۔۔۔۔۔۔خیر، دوست ہمار� وہ کے، �یجنٹ " ہیں۔ باقی منٹ پانچ صرف میں آ�نے گاڑی جائے۔

" حضور۔" �چھا بہت

" دو۔" بھجو� ہاتھ کے آ�دمی دوسرے بل ہمار� ہاں، �ور

" صاحب" �چھا بہت

" رہے۔" خیال ڈبہ کا نمبر پچپن کرلینا۔۔۔۔۔۔پانچسو شامل بھی د�م کے ڈبے �یک کے سگریٹ نمبر پچپن پانچسو میں بل دیکھو،

" ہے۔" تھوڑ� وقت گا، جاؤں ہو حاضر کر لے میں گاڑی ڈبہ �ور بل

" دو۔" کہہ کیلیے نکالنے �سباب کو قلی ہمارے جل�ی �ور جاؤ تم �ب مگر کرنا، آ�ئے میں مرضی جو

بے �یک ہونٹ گیلے کردیئے۔ ختم میں جرعے ہی �یک گھونٹ آ�خری سے میں گلاس کے شر�ب ہوئے پڑے پر میز �ور لی �نگڑ�ئی �یک کر کہہ یہ نے مسافربڑھا۔ طرف کی دور�زے آ�ہستہ آ�ہستہ �ور �ٹھا وہ بع� کے کرنے صاف سے رومال ریشمی د�غ

گم میں بھیڑ کی فارم پلیٹ ٹہلتا ٹہلتا سے رعونت بڑی مسافر دیا، کھول درو�زہ سے جل�ی نے خادم �یک کر دیکھ بڑھتے طرف کی درو�زے کو صاحبہوگیا۔

تھا۔ رہا بڑھ ہو� چیرتا کو تاریکی کی پاس آ�س آ�ہستہ آ�ہستہ جو تھا آ�رہا نظر دھبہ �یک کا روشنی کن خیرہ درمیان کے پٹڑیوں آ�ہنی کی ریل دور

کے فارم پلیٹ کیلیے لمحے �یک روشنی و�لی دینے چون�ھیا کی �نجن اا دفعت �ور ہوگیا تب�یل میں دھار لانبی �یک کی روشنی دھبہ یہ بع� کے دیر ٹھوڑیگیا۔۔۔ رہ کر دب شور کا فارم پلیٹ تلے گڑگڑ�ہٹ بھاری کی پہیوں آ�ہنی کے �نجن کیلیے عرصہ کچھ ہی ساتھ گئی۔ ہو گل ہوئے بناتے �ن�ھا کو قمقموں

ہوگئی۔ کھڑی میں پہلو کے چبوترے سنگین کے سٹیشن گاڑی ساتھ کے چیخ �یک

کی قلیوں آ�و�ز، کی رونے کے بچوں دھوپ، دوڑ کی مسافروں ہو�۔ بلن� سے تازگی نئی �یک کر ہو آ�ز�د سے گڑگڑ�ہٹ کی �نجن شور ہو� دبا کا فارم پلیٹبھاپ �ور چیخیں دلخر�ش کی �نجن ہوئے کرتے شینٹ ص��ئیں، بلن� کی و�لوں خو�نچہ کھڑکھڑ�ہٹ، کی ٹھیلوں شور، کا نکالنے �سباب دوڑ، بھاگ

تھیں۔ رہی تیر ہوئے ٹکر�تے سے دوسرے �یک میں فضا تلے چھت آ�ہنی کی فارم پلیٹ شاں، شاں کی نکلنے

" میں۔" ڈبے کسی دیکھا نے تم کو خال�۔۔۔۔۔۔وحی�

" تو" نہیں

" نہیں۔" یا ہے بھی آ�یا سے گاڑی �س جانے خ��

" ہے۔۔۔۔وحی�۔" کون میں ڈبے وہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔�رے، ذکر کا گاڑی �سی تو میں تار

" وحی�۔" ہاں، ہاں،

تھا۔ رہا �ترو� �سباب �پنا وحی� سے میں جس بڑھے طرف کی ڈبے �س ہوئے بھاگتے دوست دونوں

7

Page 8: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

درو�زہ بع� کے دیکھنے نظر �یک کو کاغذ ہوئے لگے ساتھ کے درو�زے باہر بڑھا۔ طرف کی کمپاڑمنٹ کلاس فرسٹ سے تیزی مسافر و�لا روم ریفرشمنٹلگا۔ کرنے �نتظار کا �سباب �پنے �ور قلی کر تھام سلاخ کی پیتل �ور ہوگیا د�خل �ن�ر کے ڈبے کر کھول

پکار�۔ میں آ�و�ز بلن� کر جھلا �سے نے مسافر تھا۔ آ�رہا چلا دوڑ� کر دیکھ دیکھ طرف کی ڈبوں کے گاڑی ہو� ل�� سے �سباب قلی

" آ�" �دھر �ن�ھے، �بے

�یک کہ تھا ہی میں حالت کی پریشانی �سی �بھی وہ سکا، دیکھ نہ کو مسافر خود میں بھیڑ مگر دوڑ�ئی نگاہ �دھر �دھر کر پہچان آ�و�ز کی مسافر نے قلیآ�ئی۔ آ�و�ز �ور

" سی�ھ۔" کی �دھر۔۔۔۔۔ناک �دھر، کیا؟ آ�رہا نہیں نظر کیوں۔

ہوگیا۔ کھڑ� کر جا پاس کے ڈبے �سکے لیکر �سباب �ور لیا دیکھ کو مسافر نے قلی

" رکھ�وں" �ن�ر �سباب میں جائیے ہٹ طرف �یک صاحب،

" " کہ" تھا کہا نہیں یہ تمھیں نے خانسامے کیا؟ تھے رہے سوئے عرصہ �تنا مگر بولا۔ ہوئے بیٹھتے پر نشست د�ر گ�ے �یک ساتھ کے درو�زے رکھو ہاں " دینا؟ رکھ میں ڈبے ا� فور ہی آ�تے گاڑی کر �ٹھا سامان کا صاحب

" کہا۔" ہوئے رکھتے پر نشست بالائی کر �ٹھا ٹرنک بھاری �یک نے قلی ہونگے سو�ر میں ڈبے کس آ�پ کہ تھا نہیں معلوم مجھے

" ہے۔" ہو� لکھا بھی نام پر چٹ باہر ہے، ہو� کر�یا ریزرو ہمار� ڈبہ یہ

" کردیں۔" شروع گننا �شیا مختلف کی �سباب نے قلی دس، آ�ٹھ۔۔۔�ور تین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو، ۔۔۔۔۔�یک، ہوتی نہ دیر یہ ہرگز تو ہوتا کہا یہ پہلے نے آ�پ

گیا۔ �تر پر فارم پلیٹ نیچے سے ڈبے �ور ڈ�لی نگاہ پر چیزوں ہوئی رکھی بار �یک کیلیے �طمینان �پنے نے قلی بع� کے رکھنے سے قرینے سامان

" لیجئے" کر پور� سامان �پنا صاحب،

آ�یا۔ یاد کچھ �سے کہ تھا ہی و�لا کرنے �د� مزدوری کر کھول �بھی �ور نکالا بٹوہ نفیس �یک سے جیب �پنی سے پرو�ئی بے بڑی نے مسافر

" ہے؟" کہاں چھڑی ہماری

" تھی۔" ہی پاس کے آ�پ تو چھڑی چھڑی؟۔۔۔۔۔۔۔

" تو" ہوگا آ�یا چھوڑ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔وہیں کیا بکتا پاس، میرے

" کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" نہیں ہی خطا کوئی نے میں جب نہیں، درست آ�نا پیش سے کلامی سخت �س صاحب تھی۔۔۔۔۔مگر پاس کے آ�پ چھڑی

لگا۔ چلانے کر ہو کھڑ� پاس کے درو�زے �ٹھکر سے جگہ �پنی �ور ہوگیا بھبھوکا آ�گ مسافر کر سن �لفاظ کے قسم �س سے زبان کی قلی

نہیں۔۔۔۔۔۔۔چھڑی" بھی قیمت تیری تو �تنی ہے چھڑی کی ہے۔۔۔۔۔جتنے صاحبز�دہ کا نو�ب نہیں۔۔۔۔۔۔۔کسی درست آ�نا پیش سے کلامی سخت " کا۔ کہیں نہیں؟۔۔۔۔۔۔چور یا ہے آ�تا لیکر

�کڑفوں �س �سے �ور لے کھینچ نیچے کر پکڑ سے ٹانگ کو مسافر �س کہ آ�ئی میں جی �سکے کردیا، برپا طوفان �یک میں دل کے قلی نے لفظ کے چورلگا۔ کہنے سے نرمی �ور ہوگیا خاموش کر پا قابو پر طبیعت مگر دے۔ چکھا مز� کا

8

Page 9: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

" آ�ؤں۔" لے پتا سے وہاں میں بتائیے مجھے ہوگی، رکھ�ی کہیں نے آ�پ چھڑی ہے، ہوئی فہمی غلط ضرور کو آ�پ

" گا۔" کردوں کرکری شیخی ساری ورنہ آ�ؤ لیکر چھڑی ہوں، رہا کہہ ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔میں بیوقوف میں گویا

تھا۔ آ�رہا چلا پکڑے چھڑی �ور ڈبہ کا سگریٹ میں ہاتھ جو آ�یا نظر خانساماں پر فاصلے کے ق�م چن� �سے کہ تھا لگا ہی دینے جو�ب کچھ �بھی قلی

" ہیں۔" رہے برس پر مجھ مخو�ہ خو�ہ آ�پ �ور ہے آ�رہا لیکر خانساماں چھڑی

" ہے۔" رہا جا چلائے طرح کی �ب۔۔۔۔۔۔۔کتے نہیں بکو

کھاتے ٹھوکر لگائی۔ ٹھوکر سے بوٹ نوکیلے میں سینے ہوئے بڑھے �سکے سے زور پورے نے مسافر بڑھا۔ طرف کی مسافر ہو� بھر� سے غصے قلی سنکر یہہوگیا۔ بیہوش کر گر پر فرش سنگین ہو� چکر�تا قلی ہی

ہوگئیے۔ جمع �ردگرد �سکے لوگ سے بہت کر دیکھ گرتے کو قلی

" ہے۔" آ�ئی چوٹ سخت بہت کو بیچارے

" ہیں۔" کرتے کیا بھی بہانہ لوگ یہ

" ہے۔" رہا نکل بھی خون شای� سے منہ

" ہے؟" کیا معاملہ

" ہے۔" لگائی ٹھوکر سے بوٹ �سے نے آ�دمی �س

" بیچارہ۔" جائے نہ مر کہیں

" لائے۔" تو گلاس �یک کا پانی کر دوڑ کوئی

" دو۔" آ�نے تو ہو� رہو، کھڑے کر ہٹ طرف �یک بھئی

مزدور ہوئے گرے کر چیر بھیڑ دوست �سکا �ور خال� بع� کے دیر تھوڑی تھے۔ رہے کر باتیں کی طرح طرح میں آ�پس لوگ ہوئے ہوتے جمع گرد کے قلیبولا۔ کر ہو مخاطب سے دوست �پنے پھر کردی۔ شروع دینا ہو� سے �خبار �ور لیا �ٹھا پر گھٹنوں �پنے کو سر �سکے نے خال� پہنچے۔ قریب کے

کہیں" ہے، و�لی چلنے ہے۔۔۔۔گاڑی کہاں دیکھنا، تو کو ظالم �س ذر� ہاں گے۔۔۔۔�ور سکیں مل ہی پر گھر �سے �ب ہم کہ دو کہہ سے وحی� مسعود، " جائے۔ نہ چلا وہ

تھا۔ کررہا کوشش سود بے کی پڑھنے �خبار سے ہاتھوں ہوئے کانپتے بیٹھا پاس کے کھڑکی جو ہوگئے جمع پاس کے ڈبے کے مسافر �س لوگ ہی سنتے یہ

کہا۔ سے شائستگی نہایت کر جا قریب کے کھڑکی �ور بڑھا طرف کی مسافر �س لیکر رخصت سے وحی� دوست �پنے مسعود

" ہے۔" پڑ� بیہوش بیچارہ وہ �ور ہیں مصروف میں بینی �خبار یہاں آ�پ

" کروں؟" کیا میں پھر

" کیجیئے۔" تو ملاحظہ کو حالت �سکی کم �ز کم �ور چلئے

9

Page 10: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

" " " تھی۔" دیکھنا بھی مصیبت صاحب۔۔۔۔۔۔یہ چلئے ہوئے۔ نکلتے باہر سے درو�زے پھر �ور ہے۔ کردیا غارت لطف تمام کا سفر میرے نے کمبخت

تھے۔ رہے دیکھ بغور طرف کی چہروں کے قلی �ور خال� ہوئے جھکے لوگ تھا۔ کررہا کوشش کی پلانے پانی �سے تھامے سر کا قلی بیہوش خال�

" کہا۔" کو بڑھنے آ�گے کو مسافر نے مسعود ہیں۔ آ�ئے لے تشریف آ�پ خال�،

" کہا۔" سے مسافر نے مسعود نے؟ آ�پ ہوتا لیا بلو� ہی کو ڈ�کٹر شکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی کا ظلم کے آ�پ ہے جناب۔۔۔۔۔یہ ہاں،

نکالا۔ بٹوہ �پنا سے جیب ہوئے گھبر�تے �ور ہو� خوفزدہ بہت کر دیکھ گروہ کا لوگوں �ور چہرہ زرد کے قلی مسافر،

کیا۔ شروع دیکھنا سے نگاہوں پریشان طرف کی ہجوم کر کھول آ�نکھیں �پنی نے �س �ور ہو� متحرک جسم کا قلی کہ تھا رہا نکال بٹوہ �بھی مسافر

" نوٹ" �یک کا روپے دس میں ہاتھ کے مسعود نے مسافر ہے۔ ہوگیا وقت کا گاڑی ہوں چلتا گا۔۔۔۔۔میں دیجیئے دے سے طرف میری �سے آ�پ نوٹ یہ " ہے۔ " کردی �د� قیمت کی غلطی �س نے ہم ہو�۔ مخاطب سے �س کر دیکھ آ�تے میں ہوش کو قلی پھر �ور کہا، میں �نگریزی ہوئے پکڑ�تے

نکالے۔ کر دے زور پر چھاتی زخمی �پنی �لفاظ چن� یہ نے �س سے کوشش بڑی نکلی، بہہ دھار �یک کی خون سے منہ تڑپا، سنکر یہ قلی

ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" کچھ بھی پاس قیمت۔۔۔۔۔۔میرے کی جان کی �نسان روپے۔۔۔۔۔۔۔�یک ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دس جانتا زبان �نگریزی بھی میں " ۔۔ جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کر دبا ہاتھ �سکا �ور گیا بیٹھ بل کے گھٹنوں پاس �سکے کر دیکھ حالت یہ کی قلی مسافر گئے، رہ کر بن بلبلے میں منہ بھرے خون �سکے �لفاظ باقیلگا۔ کہنے

" ہوں۔" سکتا دے بھی زیادہ میں

کہا۔ ہوئے نکالتے بلبلے کے خون سے منہ �ور پھیر� رخ طرف کی مسافر سے تکلیف بڑی نے قلی

" لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ پاس۔۔۔۔۔۔۔۔بھی۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ میرے

سرد میں گود کی خال� ہو� دیکھتا سے نگاہوں مظلوم طرف کی چھت آ�ہنی کی فارم پلیٹ �ور تڑپا دیا، تھوک پر منہ کے مسافر نے �س ہوئے کہتے یہتھا۔ ہو� رنگا سے تھوک خونی منہ کا ہوگیا۔۔۔۔۔۔مسافر

کردیا۔ سپرد کے پولیس کر پکڑ کو مسافر کرکے حو�لہ کے آ�دمیوں دوسرے لاش نے مسعود �ور خال�

رہا۔ چلتا میں ع��لت متو�تر تک مہینے دو مق�مہ کا مسافر

جانے پھٹ تلی �چانک موت کی قلی کہ تھا لکھا یہ میں فیصلے کردیا۔ بری بع� کے کرنے جرمانہ معمولی کو ملزم نے جج فاضل گیا، دیا سنا فیصلہ آ�خرہے۔ ہوئی و�قع سے

گیا۔ چلا باہر سے کمرے �ور مسکر�یا کر دیکھ طرف �نکی ملزم تھے۔ موجود بھی مسعود �ور خال� وقت سناتے فیصلہ

" ہے۔" سکتا کھل سے چابی طلائی صرف قفل کا قانون

" ہے۔" کرتی جایا بھی ٹوٹ چابی �یسی مگر

تھے۔ رہے کر گفتگو باہم میں آ�م�ے بر باہر دوست �سکا �ور خال�

10

Page 11: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

" ساقی " �ولیں۔ دت �شاع

11

Page 12: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

پسند انقالب

ہی �یک کیا، پاس �متحان کا جماعت دسویں سے سکول ہی �یک نے ہم میں زمانے �س ہے۔ چکا گزر عرصہ کا سال پانچ کو دوستی کی سلیم �ور میریہوئے۔۔۔۔۔�س د�خل میں کالج نئے �یک کر چھوڑ کالج پر�نا پھر ہوئے۔ فیل ہوکر شامل میں �متحان کے �ے �یف ساتھ ہی �یک �ور ہوئے د�خل میں کالج

ہوگیا۔ فیل پھر سے قسمت سوئے سلیم مگر ہوگیا پاس تو میں سال

حیثیت کی ہونے دوست بغلی کا سلیم ہے۔ �فتر� بالکل ہے۔۔۔۔۔۔یہ نالائق �ور مز�ج آ�و�رہ وہ کہ ہیں کرتے �خذ نتیجہ یہ لوگ سے ناکامیابی دوبارہ کی سلیمبھر صوبہ وہ کہ تھی نہ وجہ کوئی تو دیتا توجہ بھی ذر� طرف کی پڑھائی وہ �گر ہے۔ روشن بہت دماغ کا سلیم کہ ہوں سکتا کہہ سے وثوق یہ میں سے

دی؟ نہ توجہ کیوں طرف کی پڑھائی نے �س کہ ہے ہوتا پی�� سو�ل یہ یہاں �ب رہتا۔ نہ �ول میں

رہے چھا آ�ہستہ آ�ہستہ پر دماغ و دل �سکے سے عرصے �یک جو ہیں ہوتے معلوم خیالات وہ وجہ تر تمام �سکی مجھے ہے دیتا کام ذہن میر� تک جہاںتھے۔

کر مقی� میں چاردیو�ری کی خانے پاگل دنوں �ن �سے نے جس تھا آ�ز�د سے �لجھنوں تمام �ن دماغ کا سلیم وقت ہوتے د�خل میں کالج �ور جماعت دسویںناگہانی کی و�ل� �سکے یکایک مگر تھا ہردلعزیز میں لڑکوں سب تھا۔ کرتا لیا حصہ میں کود کھیل ہر طرح کی طلبہ دیگر وہ میں کالج یام � ہے۔ رکھا

لی۔ لے نے فکر و غور جگہ کی کود کھیل دی۔۔۔۔۔۔�ب �وڑھا نقاب کی غم پر چہرے متبسم کے �س نے موت

�سکے ہے۔ کام �ہم بہت کرنا مطالعہ کا نفسیات کی سلیم نہیں۔ معلوم مجھے یہ ہوئے؟ پی�� میں دماغ مضطرب کے سلیم جو تھے، خیالات کیا وہچاہتا " جی عباس ہے۔ کہا کر پکڑ بازو میر� �چانک ہوئے کرتے سیر یونہی یا وقت کرتے گفتگو مرتبہ کئی �سنے تھا۔ آ�شنا نا سے آ�و�ز دلی �پنی خود وہ علاوہ

" کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے

" تب�یلی" معمولی غیر کی چہرے کے �س پر �ستفسار �س میرے مگر ہے۔ پوچھا کرکے مبذول توجہ تمام طرف �سکی نے میں ہے چاہتا جی کیا ہاں، ہاں،کرسکتا۔ نہیں ظاہر میں �لفاظ ہوئے پہچانتے نہ خود کو م�عا دلی �پنے وہ کہ ہے کیا ظاہر پر طور صاف نے تصادم کے سانس میں گلے �ور

کا ق�رت کی کرنے ہلکا بوجھ کا دل �پنے در�صل وہ ہے کرسکتا منتقل پر ذہن دوسرے کرکے پیش میں شکل کسی کو �حساسات �پنے جو شخص وہق�رت کی کرنے بیان کو �ضطر�ب �س پھر �ور سمجھتا نہیں طرح �چھی آ�پ خود کو �حساس �پنے مگر ہے کرتا محسوس جو شخص وہ �ور ہے۔ مالک

جارہی �ترتی نیچے سے گلے وہ مگر ہے رہا کر کوشش کی نکالنے باہر کو چیر ہوئی ٹھنسی میں حلق �پنے جو ہے مر�دف کے شخص �س رکھتا نہیںآ�سکتی۔ نہیں میں لفظوں تفصیل جسکی ہے عذ�ب ذہنی �یک ہو۔۔۔۔۔۔یہ

بھی �یسا �وقات بعض �ور تھا رہتا چھایا ہجوم �یک کا خیالات میں سینے �سکے جب کیونکر بھی ہوتا �ور ہے رہا آ�شنا نا سے آ�و�ز �پنی سے ہی شروع سلیمآ�کر تنگ سے �نتشار �ن�رونی �پنے وہ اا کردیے۔۔۔۔۔غالب شروع بھرنے سانس لمبے لمبے کر لگا چکر میں کمرے �ور ہے ہو� کھڑ� �ٹھ بیٹھا بیٹھا وہ کہ ہے ہو�

�نہی کے �ضطر�ب تھا۔ کرتا ہو� کوشاں کا نکالنے باہر ذریعے کے سانسوں ہوتے، رہے لگا چکر مانن� کے بھاپ میں سینے �سکے جو کو خیالات �نسے " چٹانوں کر لا نہ تاب کی موجوں تن� روز کسی کشتی خاکی یہ عباس، ہے۔ کہا کر ہو مخاطب سے مجھ �وقات �کثر �سنے میں لمحات دہ تکلیف

" کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے �ن�یشہ گی۔۔۔۔۔۔۔مجھے جائے ہو پاش پاش کر ٹکر�

تھا۔ کرسکتا نہیں بیان طرح پوری کو �ن�یشے �پنے وہ

عرصے �یک نگاہیں ہوگا۔۔۔۔۔�سکی نمود�ر پر ظہور پردۂ میں شکل کس حادثہ وہ کہ تھا نہ معلوم یہ �سے مگر تھا ضرور منتظر کا حادثے متوقع کسی سلیمتاریک �س کہ تھا سکتا بتا نہیں یہ وہ مگر تھا، آ�رہا چلا بڑھتا طرف �سکی جو تھیں رہی دیکھ سایہ موہوم �یک میں صورت کی خیالات دھن�لے سے

ہے۔ نہاں کیا میں پردے کے شکل

کن وہ کہ ہوسکا نہیں معلوم کبھی ہوئے ہوتے کے عاد�ت منقلب �سکی مجھے مگر ہے، کی کوشش بہت کی سمجھنے نفسیات کی سلیم نے میںسے سرمائے کے قسم ہر وہ بع� کے �نتقال کے و�ل� �پنے جبکہ ہے چاہتا کرنا کیا کیلیے مستقبل �پنے کر رہ میں دنیا �س �ور ہے۔ زن غوطہ میں گہر�ئیوں

تھا۔ گیا کردیا محروم

12

Page 13: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

میں مفکر �یک جماعت ہم میر� لڑکا، کھلنڈر� کا تھیں۔۔۔۔۔کل رہی ب�ل ب�ن دن عاد�ت �سکی تھا رہا دیکھ ہوتے منقلب کو سلیم سے عرصے �یک میںتھی۔ حیرت د� باع سخت لئے میرے تب�یلی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ہورہا تب�یل

گھٹنوں کو سر بھاری �پنے �ور ہے ہو� بیٹھا خاموش میں گھر �پنے دیکھو جب تھا۔ گیا چھا سکون معمولی غیر �یک پر طبعیت کی سلیم سے عرصے کچھگرم �پنی �وقات �کثر �سے نے میں میں لمحات �ن تھا۔ نہ معلوم بھی �سے خود طرح میری یہ ہوتا، رہا سوچ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔وہ رہا سوچ کچھ تھامے میں

تھا۔ چاہتا کرنا کم حر�رت کی آ�نکھوں �پنی سے عمل �س وہ ہے۔۔۔۔۔۔شای� دیکھا پھیرتے حصہ بیرونی کا گلاس یا ڈھکنا آ�ہنی کا دو�ت پر آ�نکھوں

کتاب �یک پر میز �سکی مجھے میں شروع شروع تھا۔ کردیا شروع مطالعہ کا تصانیف کم بھر بھاری کی مصنفوں ملکی غیر ہی چھوڑتے کالج نے سلیملگیں۔۔۔۔۔ آ�نے نظر کتابیں ہی کتابیں تھا، کرتا رکھا کھیلیں دیگر کی قسم �سی �ور تاش شطرنج، میں جس میں �لماری �س آ�ہستہ آ�ہستہ پھر آ�ئی۔ نظر

تھا۔ کرتا جایا چلا باہر کہیں سے گھر تک دنوں کئی کئی وہ علاوہ �سکے

سجا میں �لماری سے قرینے بڑے �سنے جنہیں تھا نتیجہ کا مطالعہ �نتھک کے کتابوں �ن سکون معمولی غیر کا طبیعت کی سلیم ہے خیال میر� تک جہاںتھا۔ رکھا

سکون یہ کہ تھا �ن�یشہ مجھے تھا۔ پریشان سخت سے سکون معمولی غیر کے طبیعت کی �س میں میں، حیثیت کی ہونے دوست ترین عزیز کا سلیمتھا، ہو� و�قع کا جثے کمزور بہت ہی پہلے وہ تھا۔ خیال بہت بھی کا صحت کی سلیم مجھے علاوہ �سکے ہے۔ خیمہ پیش کا طوفان خیز وحشت کسیکے آ�نکھوں �سکی مگر ہوگی کی سال بیس بمشکل عمر کی سلیم تھا۔ لیا پھنسا میں �لجھنوں کن کن معلوم خ�� کو آ�پ �پنے مخو�ہ خو�ہ نے �س پر �س

�سکی تھے۔۔۔۔۔جو رہتے پڑے شکن کئی پر �س �ب تھی ہمو�ر بالکل قبل سے �س جو پیشانی تھے۔ گئے پڑ حلقے سیاہ سے وجہ کی بی��ری شب نیچےتھیں گئی پڑ لکیریں گہری درمیان کے لب �ور ناک پر �س �ب تھا کرتا ہو� شگفتہ بہت پہلے عرصہ کچھ جو چہرہ تھے۔ کرتے ظاہر کو پریشانی ذہنی

جو ہے۔ دیکھا ہوتے پذیر وقوع سامنے کے آ�نکھوں �پنی نے میں کو تب�یلی معمولی غیر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔�س دیا بنا معمر وقت �ز قبل کو سلیم نے جنہوںجائے۔ ہو بوڑھا سامنے کے نظروں میری لڑکا کا عمر میری کہ ہے بات کی تعجب کم کیا ہوتی۔۔۔۔۔۔یہ نہیں معلوم کم سے شعب�ے �یک مجھے

بھیجا خانے پاگل پر بنا �س اا غالب �سے ہے۔ دیو�نہ �ور سڑی وہ کہ ہوسکتے نہیں معنی یہ �سکے مگر نہیں۔ شک کوئی میں �س ہے۔ میں خانے پاگل سلیمکے �مر�ء �ور ہے کرتا طلب جو�ب کر بتا مسائل مشکل کے زن�گی �نہیں کر پکڑ پکڑ کو گزروں ر�ہ ہے۔ کرتا تقریریں بانگ بلن� میں باز�روں وہ کہ ہے گیا

کے تیقن میں مگر ہوں علامتیں کی دیو�نگی نزدیک کے ڈ�کٹروں حرکات یہ ہے ہے۔۔۔۔۔۔ممکن دیتا پہنا کو بچوں ننگے کر �تار لباس کا بچوں پوش حریرقی� میں پنجرے کے سلاخون آ�ہنی ہوئے کرتے تصور و�لا ڈ�لنے خلل میں عامہ دن �م �سے نے جنہوں لوگ وہ بلکہ ہے نہیں پاگل سلیم کہ ہوں سکتا کہہ ساتھ

ہیں۔ نہیں کم سے حیو�ن دیو�نے کسی ہے کردیا

سنیں؟ سے غور کو لفظ ہر �سکے وہ کہ ہے نہیں فرض �نکا کیا تو ہے چاہتا پہنچانا پیغام �پنا تک لوگوں ذریعے کے تقریر مربوط غیر �پنی وہ �گر

دہ نقصان کیلیے د�ئرہ مجلسی وجود �سکا کہ جائینگے لئے یہ معنی �سکے کیا تو ہے چاہتا کرنا خیالات تبادلۂ پر حیات فلسفۂ ساتھ کے گز�روں ر�ہ وہ �گرہے؟ نہیں فرض کا �نسان ہر ہونا باخبر سے معانی حقیقی کے زن�گی کیا ہے؟

جو کرتا نہیں آ�گاہ سے فر�ئض �نکے کو �فر�د �ن عمل یہ کیا تو ہے ڈھانپتا تن کا بچوں برہنہ کے غربا کر �تار لباس کا بچوں کے �شخاص متمول وہ �گرپر دیو�نگی �سے کہ ہے فعل �یسا کرنا پوشی ستر کی ننگوں کیا ہیں؟ رہے کر بسر زن�گی کی آ�ر�م پر بوتے بل کے لوگوں دوسرے میں عمارتوں بوس فلک

جائے؟ کیا محمول

دے مگر ہے چاہتا دینا پیغام کچھ کو دنیا وہ در�صل ہے۔ رکھا بنا ضرور بیخود �سے نے �فکار �سکے کہ ہے تسلیم یہ مجھے مگر ہے نہیں پاگل ہرگز سیلمہیں۔ جاتے بکھر ہی آ�تے پر زبان �سکی �لفاظ مگر ہے چاہتا کرنا بیان �حساسات قلبی �پنے کر تتلا تتلا وہ طرح کی بچے سن کم �یک سکتا۔ نہیں

�سے �ب �ور ہے گرفتار میں �لجھنوں کی �فکار �پنے سے ہی پہلے وہ ہے۔ گیا دیا ڈ�ل میں �ذیت �ور �سے �ب مگر تھا مبتلا میں �ذیت ذہنی قبل سے �س وہہے؟ نہیں ظلم یہ کیا ہے۔ گیا دیا کر قی� میں کوٹھڑی نما زن��ن

�سکے میں سے عرصے کچھ �لبتہ ہاں ہے دیو�نہ وہ کہ سکوں نکال نتیجہ یہ میں سے جس دیکھی نہیں حرکت �یسی بھی کوئی کی سلیم تک آ�ج نے میںہوں۔ رہا کرتا ضرور مشاہ�ہ کا �نقلابات ذہنی

13

Page 14: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

دی، نہ توجہ خاص طرف کی تب�یلی �س نے میں تو پایا ہو� ہٹا سے جگہ �پنی �پنی کو فرنیچر تمام کے کمرے �سکے نے میں جب میں شروع شروعجو کو نظروں میری کہ ہے یہ تو حقیقت �ور ہے کیا خیال موزؤں زیادہ کو جگہ موجودہ کی فرنیچر نے سلیم شای� کہ کیا خیال وقت �س نے میں در�صل

ہوئی۔ معلم بھلی بہت تب�یلی متوقع غیر وہ تھیں عادی کی دیکھنے جگہ �یک سے سالوں کئی کو میزوں �ور کرسیوں

�یک جو تصاویر دو کی ممثلوں فلمی کہ ہوں دیکھتا کیا تو ہو� د�خل میں کمرے کے سلیم کر ہو فارغ سے کالج میں جب بع� روز چن� کے و�قعے �س�نکی �ور ہیں پڑی پھٹی میں ٹوکری باہر تھا کیا فر�ہم بع� کے مشکل بہت نے سلیم �ور نے میں جنہیں �ور تھیں آ�ویز�ں پر دیو�روں کی کمرے سے عرصےیہ کا سلیم مجھے �سلئے تھا نہ مشاق �تنا کا تصاویر �ن خود میں ہیں۔۔۔۔۔۔چونکہ رہی لٹک تصویریں کی مصنفوں مختلف میں چوکھٹوں �نہی جگہ

رہے۔ کرتے بھی گفتگو متعلق کے تصویروں �ن تک دیر روز �س ہم چنانچہ آ�یا پسن� بہت �نتخاب

میں بع� کے عرصے �س مگر ہوئی نہیں و�قع تب�یلی ذکر دل قاب خاص کوئی تک ماہ �یک میں کمرے کے سلیم بع� کے و�قعہ �س ہے یاد مجھے تک جہاںسہار� کا تکیہ �یک پر زمین ہی قریب آ�پ �ور تھیں رکھی چن کتابیں کر بچھا کپڑ� نے سلیم پر جس پایا پڑ� تخت سا بڑ� میں کمرے �چانک روز �یک نے

کے تخت �س میاں، کیوں کیا۔ سو�ل یہ سے سلیم ہی ہوتے د�خل میں کمرے �ور ہو� متعجب سخت کر دیکھ یہ میں تھا۔ مصروف میں لکھنے کچھ لیےمعانی؟ کیا

" گا۔ " رہے ہی سلسلہ و�لا فرش یہ �ب ہے، گئی �کتا طبیعت بیٹھتے بیٹھتے روز�نہ پر کرسیوں لگا۔ کہنے �ور مسکر�یا تھی، عادت �سکی کہ سلیم،جیسا

بع� کے روز بیس پن�رہ جب مگر ہے کرتی جایا ہو �چاٹ ضرور طبیعت کرتے کرتے �ستعمال کا چیز ہی �یک روز�نہ و�قعی رہا۔ چپ میں تھی، معقول باتہوگیا نہیں تو خبطی و�قعی دوست میر� کہیں کہ ہو� سا شبہ مجھے �ور رہی نہ �نتہا کوئی کی تعجب میرے تو پایا غائب کے تکیئے مع تخت وہ نے میں

ہے۔

سو�لات �یسے سے �س اا عموم میں �سلئے ہے۔ رکھا بنا چڑچڑ� زیادہ سے معمول �سے نے �فکار وزنی �سکے علاوہ �سکے ہے۔ ہو� و�قع مز�ج گرم سخت سلیمجائے۔ کھج مخو�ہ خو�ہ وہ سے جس یا کردیں برہم درہم کو تو�زن دماغی �سکے جو کرتا کیا نہیں

نے میں کہ تھا و�جب �ور ہیں ضرور خیز تعجب تک ح� کسی و�قعی ہوجانا غائب �سکا پھر �ور آ�م� کی تخت �نقلاب، کا تصویروں تب�یلی، کی فرنیچررہا۔ خاموش میں �سلیے تھا نہ منظور دینا دخل میں کام �سکے �ور کرنا خاطر آ�زردہ کو سلیم مجھے چونکہ مگر کرتا دریافت وجہ کی �مور �ن

موجود تخت میں کمرے آ�ج ہوگیا۔۔۔۔�گر معمول میر� دیکھنا تب�یلی کوئی نہ کوئی دن تیسرے دوسرے ہر میں کمرے کے سلیم بع� کے عرصے ٹھوڑےسے وہاں میں ر�ت ر�ت تھی، پڑی طرف د�ئیں کے کمرے پہلے عرصہ کچھ جو میز وہ بع� روز دو �سکے ہے۔ گیا دیا �ٹھا سے وہاں بع� کے ہفتے تو ہےکر �کھیڑ سے جگہ �یک کھونٹیاں کی لٹکانے کپڑے ہیں۔ جارہے ب�لے ز�ویے کے تصاویر ہوئی رکھی پر �نگھیٹی ہے۔ گئی دی رکھ طرف دوسری کر �ٹھا

تھی۔ جاتی کر�ئی قو�ع� کی قسم �یک سے شے ہر کی کمرے گویا ہیں، گئے کئے تب�یل رخ کے کرسیوں ہیں۔ گئی دی جڑ پر جگہ دوسری

�یک " میں سلیم لیا۔ ہی کر دریافت سے سلیم نے میں �ور گیا نہ رہا سے مجھ تو پایا میں رخ مخالف کو فرنیچر تمام کے کمرے نے میں جب روز �یک " ہے؟ فلسفہ نیا کوئی تمھار� یہ سہی تو بتاؤ آ�خر ہوں، رہا دیکھ ب�لتے رنگ طرح کی گرگٹ کو کمرے �س سے عرصے

" دیا۔" جو�ب نے سلیم ہوں۔ پسن� �نقلاب میں ہو، نہیں جانتے تم

وہ کہ کرتا خیال یہ پر طور یقینی میں تو ہوتے کہے ساتھ کے مسکر�ہٹ معمول دب حس �پنی �لفاظ یہ نے سلیم �گر ہو�۔ متعجب بھی �ور میں کر سن یہچاہتا دینا میں �لفاظ �نہی وہ جو�ب کا سو�ل میرے �ور ہے سنجی�ہ وہ کہ تھا شاہ� کا �مر �س چہرہ �سکا وقت دیتے جو�ب یہ مگر ہے کررہا مذ�ق صرف

" یار؟ " ہو رہے کر مذ�ق کہا۔ سے �س نے میں چنانچہ تھا، میں حالت کی تذبذب میں بھی پھر لیکن ہے۔

" پڑ�۔" ہنس کر کھلا کھل وہ ہوئے کہتے یہ پسن�۔ �نقلاب بڑ� بہت قسم تمھاری

کی سلیم تھے۔۔۔۔۔یہ گئے لگ کرنے خیالات در �ظہا پر موضوع �ور کسی دونوں ہم مگر تھی۔ کی شروع گفتگو �یسی �سنے بع� �سکے کہ ہے یاد مجھےہے۔ کرتا لیا چھپا میں پردے کے گفتگو دلچسپ کو باتوں سی بہت وہ کہ ہے عادت

14

Page 15: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

وہ کہ نہیں معنی یہ �سکے ہے۔ ہو� و�قع پسن� �نقلاب درحقیقت سلیم کہ ہے ہوتا معلوم مجھے تو ہوں کرتا غور پر جو�ب کے سلیم میں کبھی جب دنوں �ن�سکی کہ ہے وجہ یہی ہے۔ چاہتا پھیلانا دہشت کر پھینک بمب میں چور�ہوں طرح کی پسن�وں �نقلاب دیگر یا ہے درپے کے �لٹنے تختہ کا سلطنت کسیسے وثوق یہ میں مگر ہو، غلط تک ح� کسی قیافہ یہ میر� ہے ممکن تھیں۔ سکتی دیکھ نہ پر جگہ ہی �یک کو �شیاء ہوئی پڑی میں کمرے �پنے نظریں

ہیں۔ ظاہر سے تب�یلیوں روز�نہ کی کمرے �سکے آ�ثار جسکے ہے، کرتی رجوع طرف کی �نقلاب �یسے کسی جستجو �سکی کہ ہوں سکتا کہہ

کیا مطالعہ عمیق کا حرکات معنی بے �ن کی سلیم �گر لیکن ہے۔ مر�دف کے دیو�نگی نیم رہنا کرتے پلٹ �لٹ روز کو �شیاء کی کمرے میں �لنظر بادیذہنی میں جسے نے قوت تھا۔۔۔۔۔۔�سی آ�شنا نا خود وہ سے جس تھی رہی کر کام قوت �یسی �یک پردہ دس پ کے �ن کہ جائیگا ہو روشن �مر یہ تو جائےخانے پاگل �ور ہوگیا، رفتہ خود �ز کر لا نہ تاب کی طوفان �س وہ کہ ہو� یہ نتیجہ �سکا �ور کردیا۔ بپا تلاطم میں دماغ کے سلیم ہوں، دیتا نام کا تعصب

گیا۔ کردیا قی� میں دیو�ری چار کی

بیٹھ میں کمرے سے چھوٹے �یک دونوں وہ �ور میں ملا۔ ہو� پیتا چائے میں ہوٹل �یک کے شہر �چانک مجھے سلیم پہلے روز کچھ سے جانے خانے پاگلطرح کی پاگلوں میں ہوٹلوں سلیم �ب کہ تھا سنا سے دکان��روں چن� کے باز�ر �پنے نے میں تھا۔ چاہتا کرنا گفتگو کچھ سے �س میں کہ �سلیے گئے۔

کہیں وہ شای� کہ تھا �ن�یشہ یہ علاوہ �سکے کردوں۔ منع سے کرنے حرکات کی قسم �س �سے کر مل ا� فور سے �سے کہ تھا چاہتا یہ میں ہے۔ کرتا تقریریںسمجھا۔ مناسب کرنا گفتگو میں ہی ہوٹل نے میں �سلیے تھا، چاہتا کرنا بات ہی ا� فور سے �س میں چونکہ ہو۔ ہوگیا نہ ہی �لحو�س خبط مچ سچ

لگا۔۔۔۔۔ کہنے وہ ہو�۔ متعجب سخت کر دیکھ گھورتے �سطرح مجھے وہ تھا۔ رہا دیکھ طرف کی چہرے کے سلیم سے غور میں وقت بیٹھتے پر کرسی " ہوں۔" نہیں سلیم میں شای�

میں " شای� ہوگئیں۔ نمناک �ختیار بے آ�نکھیں میری ہے گو�ہ خ�� مگر ہو معلوم سادہ بالکل میں نظروں کی آ�پ جملہ یہ گو تھا۔ درد ق�ر کس میں آ�و�ز " وہ کہ تھا معلوم �سے شای� گا۔ سکے پہچان نہ �سے بھی دوست بہترین �سکا روز کسی کہ تھا متوقع کا بات �س وقت ہر وہ ۔۔۔۔۔۔گویا ہوں۔ نہیں سلیم

ہے۔ چکا ہو تب�یل تک ح� بہت

کہا۔ ہوئے رکھتے ہاتھ پر کان�ھے �سکے کر چھپا میں رومال کو آ�نسوؤں �پنے �ور لیا، کام سے ضبط نے میں

بچہ" بچہ کا شہر تمھیں �ب ہو، بھی جانتے ہیں، کردی شروع کرنی تقریریں میں باز�روں یہاں بع� کے جانے لاہور میرے نے تم کہ ہے سنا نے میں سلیم " ہے۔ پکارتا سے نام کے پاگل

۔۔۔۔۔۔۔خرد" ہوں۔۔۔۔۔۔۔پاگل۔۔۔۔۔دیو�نہ پاگل میں عباس، ہے۔۔۔۔۔۔پاگل۔۔۔۔۔۔۔ہاں پکارتا سے نام کے پاگل مجھے بچہ بچہ کا شہر پاگل، " کیوں؟ ہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔معلوم کہتے دیو�نہ مجھے باختہ۔۔۔۔۔۔۔۔لوگ

ہو�۔ گویا دوبارہ وہ کر پا نہ جو�ب کوئی سے طرف میری مگر لگا۔ دیکھنے کر بن �ستفہام پا تا سر طرف میری وہ کر کہہ تک یہاں

جو�ب" کوئی مجھے وہ ہے؟ ہوسکتا علاج کیا کا غربت ہوئی بڑھتی �س کہ ہوں پوچھتا یہ کر دکھلا دکھلا بچے ننگے کے غریبوں �نہیں میں کہ لئے �سشعاع �یک کی روشنی میں زمانے �س کے ظلمت کہ ہو معلوم یہ صرف مجھے �گر آ�ہ ہیں۔۔۔۔۔ کرتے تصور پاگل مجھے وہ �سلئے سکتے، دے نہیں

" ہے۔ سکتا جا بنایا منور کیونکر مستقبل تاریک کا بچوں غریب ہز�روں ہے۔ جاسکتی کی فر�ہم کیونکر

سے" �ینٹوں مستعار کی جہنم کے غرباء فردوس کا جن وہ ہے۔ منت دن مرہو کی خون کے دوسروں حیات دض نب کی جن ہیں۔۔۔۔۔۔وہ کہتے پاگل مجھے وہہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوئی لپٹی گریہ ص��ئے کی بچوں لاو�رث عریانی، کی یتیموں آ�ہیں، کی بیو�ؤں ساتھ کے تار ہر کے عشرت دز سا کے جن وہ ہے، گیا کیا �ستو�ر

لکھیں لعنتیں �پنی پر پیشانیوں کی لوگوں �ن کر ڈبو ڈبو �نگلیاں میں لہو مشترکہ کے دلوں �پنے غربت پروردۂ یہی جب ہے و�لا آ�نے زمانہ �یک مگر تہیں، ک " ہونگے۔ و� کیلیے شخص ہر درو�زے کے جنت �رضی جب ہے نزدیک وقت گے۔۔۔۔وہ

ہوتے" مالک کا کارخانے میں کہ ہے �نسانیت یہی کرو؟۔۔۔۔۔۔کیا بسر زن�گی کی تکلیف تم کہ ہے وجہ کیا تو ہوں میں آ�ر�م میں �گر کہ ہوں پوچھتا میںبے پر خو�ہش نکمی سے نکمی �پنی �ور ہوں، دیتا کر نذر کی بازی قمار روپے سینکڑوں میں کلب روز ہر ہوں، دیکھتا ناچ کا رقاصہ نئی �یک شب ہر ہوئے

ترستے کیلیے کھلونے �یک کے مٹی بچے �نکے ہوتی۔ نہیں نصیب روٹی کی وقت �یک کو مزدورں میرے �ور ہوں، کرتا خوش دل �پنا کر بہا روپیہ دریغمیں د�ئرے مجلسی ہے، کرتا تیار گوہر لئے میرے پسینہ جنکا لوگ وہ �ور ہے جاتی کی عزت جگہ ہر میری ہوں، مہذب میں کہ ہے یہ لطف ہیں۔۔۔۔۔پھر " ہیں؟ آ�شنا نا سے فر�ئض �پنے مظلوم و ظالم دونوں یہ کیا بتاؤ، ہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔تم کرتا نفرت �نسے خود میں ہیں۔ جاتے دیکھے سے نظر کی حقارت

15

Page 16: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

" نہیں۔" معلوم مجھے کروں؟۔۔۔۔۔۔یہ کسطرح مگر ہوں، چاہتا کرنا آ�گاہ سے فر�ئض �نکے کو دونوں �ن میں

کردیا۔ شروع بولنا پھر بغیر دیکھے طرف میری �ور بھر� گھونٹ �یک کا چائے ٹھنڈی ہوئے ہانپتے کر کہہ ق�ر �س نے سلیم

ہے۔۔۔۔۔۔میں" چکی ہو گم بالکل جو ہے، رہا کر وکالت کی چیز �س جو کے، �می� کسی بغیر سمجھو، وکیل �یک ہوں۔۔۔۔۔۔۔مجھے نہیں پاگل میںکے خیالات میرے وہ مگر ہوں کرتا کوشش کی پہنچانے تک دوسروں آ�و�ز �پنی میں چیخ۔ �یک میں �ور ہے منہ �یک ہوں۔۔۔۔۔�نسانیت آ�و�ز ہوئی دبی �یکسے کہاں پیغام �پنا میں ہے، کہنا کچھ بہت مجھے کہ سکتا نہیں کہہ کچھ لئے �سی مگر ہوں چاہتا کہنا کچھ بہت ہے۔۔۔۔۔میں ہوئی دبی تلے بوجھکے تمہی� خیالات چن� سے میں غبار دھن�لے کے �ذیت ذہنی ہوں۔ کرتا فر�ہم ٹکڑے ہوئے بکھرے کے آ�و�ز �پنی میں نہیں۔ معلوم مجھے یہ کروں، شروع

مگر کرسکوں منتقل پر �ذہان دوسرے کہ ہوں لاتا پر سطح �حساس چن� سے گہر�ئیوں عمیق کی �حساسات �پنے ہوں۔ کرتا سعی کی کرنے پیش پر طورکہہ نہیں کچھ میں ہیں، جاتے لگا غوطہ پھر �حساسات ہیں۔ جاتے ہو روپوش میں تاریکی پھر خیالات ہیں، جاتے ہو منتشر پھر ٹکڑے کے آ�و�ز میری

سکتا۔"

رؤسا" کے شہر میں ہے دیتی کام گویائی دت قو میری کہیں جہاں تو ہیں رہے ہو جمع پھر بع� کے ہونے منتشر خیالات میرے کہ ہوں دیکھتا یہ میں جب : ۔ ہوں جاتا لگ کہنے یہ کر ہو مخاطب سے

مجھے" ہیں۔۔۔۔۔۔۔تم ہوتے بھی سائے �سکے جانو یقین مگر ہو، دیکھتے روشنی کی سورج صرف میں کائنات وسیع �س تم مکینو، کے محلات مرمریںپہلی آ�کر تنگ سے غربت وہ جب ہے ہوتی طاری پر جسم کے لڑکی کنو�ری �یک جو ہوں کپکپی وہ ہے۔۔۔۔۔۔میں غلطی یہ ہو، جانتے سے نام کے سلیم

" کانپیں۔ سب ہم آ�ؤ لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑھانے ق�م طرف کی گناہ دن �یو� دفعہ

کچھ" میں کہ دیا ڈبو میں گہر�ئیوں کی سمن�ر تاریک مجھے نے ق�رت ہوں۔ خور غوطہ �یک میں ہوگا، سننا ضرور مجھے تمھیں مگر ہو، ہنستے تمکی لوگوں ہے۔ کی برد�شت گرسنگی ہے، دیکھی غربت نے میں میں تلاش �س ہے، سچائی وہ ہوں، لایا موتی بہا بے �یک لاؤں۔۔۔۔۔۔میں کر ڈھونڈ

ہے۔ دیکھا بڑھاتے زینت کی ک�وں عشرت کو لڑکیوں نوجو�ن ہے، دیکھا ہوتے منجم� کو خون میں رگوں کی غریبوں میں جاڑے ہوں۔ ہو� دوچار سے نفرت " آ�جائے۔ نظر پہلو تاریک کا زن�گی در تصوی تمھیں کہ ہوں چاہتا کردینا قے پر منہ تمھارے کچھ یہی میں تھیں۔۔۔۔۔�ب مجبور وہ کہ �سلیے

ہیں،" لگاتے ٹھوکریں پر سینوں ننگے کے مزدورں غریب بوٹ تمھارے �گر ہے۔ موجود دل کا قسم ہی �یک میں پہلو کے شخص ہر ہے، دل �یک �نسانیتیتیم ہا ہز�ر سے غفلت تمھاری �گر ہو، کرتے ٹھنڈی سے دری عصمت کی لڑکی ناد�ر ہمسایہ کسی آ�گ ہوئی بھڑکتی کی جذبات شہو�نی �پنے تم �گر

�یسے کچھ ہی معاشرت دن �یو� نہیں۔ قصور تمھار� یہ تو ہے، سیاہ مانن� کے کاجل دل تمھار� �گر ہیں، کرتے آ�باد کو جیلوں کر پل میں جہالت گہو�رۂ بچے " کو۔ �ینٹ دوسری �ینٹ ہر ہے، ہوئے دبائے کو چھت ہمسایہ �پنی چھت ہر �سکی کہ ہے گیا کیا �ستو�ر پر ڈھب

بہا" میں موجوں کی ہوس و ہو� کشتی کی تعزز �نسانی بنائے، ک�ہ جہالت کو سینوں کے لوگوں کہ یہ ۔۔۔۔۔۔۔ ہیں؟ معنی کیا کے نظام موجودہ ہو جانتےجلی �نہیں کر چوس چوس خون کا غریبوں کردے۔ مجبور پر فروشی حسن بن�وں کھلے میں تجارت دن �یو� �نہیں کر چھین عصمت کی لڑکیوں جو�ن دے۔

" شیطنیت۔ تاریک قصابی، ہو۔۔۔۔۔۔۔بھیانک دیتے نام کا تہذیب تم کو �سی کردے۔۔۔۔۔۔کیا یکساں میں مٹی کی قبر مانن� کے ر�کھ ہوئی

رہے" کر پورے سانس کے زن�گی میں جھونپڑوں نما قبر جو ہیں لوگ سے بہت �یسے ہے۔ کیا مشاہ�ہ نے میں جسکا سکو دیکھ وہ صرف تم �گر آ�ہ،فروشی عصمت میں عمر کی سال بارہ جو ہیں لڑکیاں �یسی ہیں۔ رہے جی میں منہ کے موت جو ہیں موجود �فر�د �یسے سامنے کے نظروں تمھاری ہیں۔گھنٹوں متعلق کے تر�ش کی لباس �پنے جو تم، تم۔۔۔۔۔۔۔ہاں ہیں۔۔۔۔۔۔مگر جاتی لپٹ سے سردی کی قبر میں عمر کی سال بیس �ور ہیں کرتی شروع

ہو۔ کردیتے حو�لے کے کاہل لیکر سے مزدور ہو، کرتے �ضافہ میں دولتوں کی �مر�ء کر چھین سے غریبوں �لٹا بلکہ دیکھتے نہیں یہ ہیں، رہتے کرتے غور " ہو۔ کردیتے سپرد کے پوش حریر کر �تار لباس کا �نسان پہنے گوڈری

بالائی" وہ روز کسی تو ہے رہا ہو مردہ و لاغر حصہ نچلا کا درخت �گر کہ نہیں معلوم یہ تمھیں مگر ہو۔ ہنستے پر مصائب مختتم غیر کے غرباء تم " گا۔ پڑے گر ہوئے کرتے نہ برد�شت کو بوجھ کے حصے

لگا۔ پینے آ�ہستہ آ�ہستہ کو چائے ٹھنڈی �ور ہوگیا خاموش سلیم کر بول تک یہاں

16

Page 17: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

میں رہا۔ سنتا بغور تھے، رہے برس طرح کی بارش جو �لفاظ ہوئے نکلے سے منہ کے �س بیٹھا چاپ چپ طرح کی آ�دمی سحرزدہ میں دور�ن کے تقریرکس خیالات �سکے ہے، سکا رکھ جاری کیونکر تقریر طویل �تنی تھا، کرتا ہو� خاموش بالکل پہلے عرصہ کچھ سے آ�ج جو سلیم وہ کہ تھا حیر�ن سخت

بولا۔ پھر وہ کہ تھا رہا سوچ متعلق کے تقریر �سکی میں تھا۔ �ثر کتنا میں آ�و�ز �ور ہیں مبنی پر حق ق�ر

جاتے" کری�ے سے جرمانوں زخم کے لوگوں ہیں۔ جاتے کئے مسخ سے قو�نین �خلاق کے عو�م ہیں، جاتے نگل نہنگ یہ کے شہر خان��ن کے خان��نآ�و�زیں، لرز�ں کی سانس کے نزع دت حال طرف ہر ہے۔ دیتی بنا سیاہ تاریکی کی جہالت ذہنیت ش�ہ تباہ ہے۔ جاتا کتر� غربت دن د�م ذریعے کے ٹیکسوں ہیں۔پٹی سیاہ پر آ�نکھوں ہماری کہ ہیں نہیں یہ معنی کے �س ہیں۔۔۔۔۔کیا کررہے بسر زن�گی کی �من عو�م کہ ہے یہ ووی دع مگر ہے۔ فریب �ور گناہ عریانی،دیکھ نہ ہم کہ ہیں، رہے جا بنائے حس بے سے کوڑے کے مصائب جسم ہمارے ہے۔ رہا جا �تار� سیسہ ہو� پگھلا سے کانوں ہمارے ہے۔ جارہی بان�ھی

کیلیے رینگنے پر زمین �سے کر نوچ پر و بال �سکے کیا تھا کرنا پرو�ز پر بلن�یوں جنہیں کرسکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔�نسان محسوس نہ �ور سکیں سن نہ سکیں،پر حیات دب مکتو کے عو�م جاتیں؟۔۔۔۔۔۔کیا کی نہیں تیار سے پوست گوشت کے مزدورں عمارتیں فریب نظر کی �مر�ء جارہا؟۔۔۔۔۔۔کیا کیا نہیں مجبور

تھک �ن پیہم، دش کشمک زن�گی کی جمہور کیا ہے؟ نہیں موجزن خون کا ب�ی میں رگوں کی ب�ن مجلسی کیا جاتی؟ کی نہیں ثبت مہر کی جر�ئم " نہیں؟ کیوں بتاتے بتاؤ، بتاؤ، ہے؟ نہیں مرکب کا برد�شت دت قو �ور محنت

" گیا۔" نکل �ختیار بے سے منہ میرے ہے۔ درست

تمھیں" آ�ہ، ہے۔۔۔۔۔۔مگر جاسکتا روکا کیونکر کو تذلیل �نسانی �س کہ سکتے بتا نہیں طریقہ کوئی تم ہے۔۔۔۔۔۔کیا فرض تمھار� کرنا علاج �سکا پھر تو " نہیں۔ معلوم خود مجھے نہیں، معلوم

میں " کبھی جب �وقات بعض ہیں، کررہے برد�شت تکلیف سخت عو�م عباس، لگا۔ کہنے یوں میں لہجے ر�زد�نہ کر پکڑ ہاتھ میر� وہ بع� کے دیر ٹھوڑیتم ہوں، جاتا میں �ب جائے۔۔۔۔۔۔۔�چھا جل نہ شہر کہیں کہ ہے ہوتا �ن�یشہ مجھے تو ہوں دیکھتا ہوتے بلن� آ�ہ سے سینے کے �نسان حال سوختہ کسی

" ہو؟ جارہے کب و�پس لاہور

لگا۔ چلنے باہر کر سنبھال ٹوپی �ور �ٹھا وہ کر کہہ یہ

" کہا۔" ہی ا� فور �سے نے میں کر دیکھ تیار کیلیے جانے کہیں لخت یک �سے �ب؟ گے جاؤ کہاں ہوں، چلتا ساتھ تمھارے بھی میں ٹھہرو

" گا۔" جاؤں میں باغ کسی ہوں، چاہتا جانا ہی �کیلا میں مگر

جانے میرے نے سلیم کہ ملی �طلاع میں لاہور مجھے روز چوتھے کے گفتگو �س ہوگیا۔ گم میں ہجوم کے باز�ر کر نکل سے ہوٹل وہ �ور ہوگیا خاموش میںہے۔ گیا دیا کر د�خل میں خانے پاگل �سے �سلیے تھا۔ کردیا شروع کرنا برپا شور و�ر دیو�نہ میں باز�روں بع� کے

ء ( 1935مارچ 24)

" " : میگزیں علیگڑھ ۔ �ولیں دت �شاع

17

Page 18: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

صاحب آیا جی

ہیبتناک دیو�ریں ہوئی �ٹی سے دھوئیں تھا۔ رہا پھیلا روشنی سرخ �پنی مانن� کی گور دغ چر� قمقمہ �ن�ھا �یک کا بجلی میں فضا دھن�لی کی خانے باروچیرہی کر ماتم کا موت �پنی کر �بھر �بھر چنگاریاں آ�خری کی آ�گ میں �نگیٹھیوں ہوئی بنی پر چبوترے تھیں۔ رہی ہو معلوم ہوئی لیتی �نگڑ�ئیاں طرح کی دیووں

چھوٹی �یک پاس کے نل کے پانی میں، کونے دور تھا۔ رہا ہنس ہنسی خاموش پر چیز کس معلوم نہ پانی کا کیتلی ہوئی رکھی پر چولھے برقی �یک تھیں۔تھا۔ نوکر کا صاحب �نسپکٹر یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھا مشغول میں کرنے صاف برتن بیٹھا لڑکا کا عمر

تھے۔ رہے نکل کے کوشش بغیر سے زباں �سکی جو تھے �یسے �لفاظ یہ تھا، رہا گنگنا کچھ لڑکا یہ وقت کرتے صاف برتن

" صاحب۔" ہیں ہوجاتے صاف �بھی بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صاحب آ�یا جی صاحب، آ�یا جی

آ�نکھیں کی لڑکے تھا۔ سکتا ہو نہ سے جل�ی کام یہ �ور تھا، بھی رکھنا سے قرینے کر دھو سے پانی �نہیں بع� کے کرنے صاف سے ر�کھ کو برتنوں �بھیتھا۔ ممکن کیونکر یہ آ�ر�م، بغیر کئے کام مگر تھا رہا ہو بھاری سخت سر تھیں۔ رہی جا ہوئی بن� سے نین�

تھا۔ رہا ہنس کر کھلا کھل میں �ن��ز �سی پانی کا کیتلی تھا۔ رہا �گل سے حلق �پنے کو شعلوں نیلے ساتھ کے شور �یک ب�ستور چولھا برقی

" ہو� " گنگناتا صاحب آ�یا جی صاحب، آ�یا جی �ور دی جنبش �یک کو جسم �پنے ہوئے کرتے محسوس کو حملے مغلوب دل ناقاب کے نین� نے لڑکے اا دفعتہوگیا۔ مشغول میں کام پھر

صورت کی قطروں دیکھ و�قعہ ہی �یک روز�نہ سے نل کے پانی تھے۔ رہے دیکھ لگائے ٹکٹکی مختتم غیر �یک کو لڑکے �س برتن ہوئے چنے پر گیروں دیو�رتھی۔ رہی ہو معلوم ہوئی بھرتی سسکیاں فضا کی کمرے تھا۔ رہا دیکھ طرف کی لڑکے �س سے حیرت قمقمہ کا بجلی تھے۔ رہے گر ٹپ ٹپ آ�نسو میں

" قاسم" ۔۔۔۔۔۔۔ قاسم

" گیا۔" پاس کے آ�قا �پنے ہو� بھاگا تھا۔ رہا کر گرد�ن کی �لفاظ �نہی جو لڑکا صاحب آ�یا جی

" ہے۔ " گیا بھول رکھنا گلاس �ور صر�حی یہاں پھر آ�ج بچے، کے بیوقوف کہا۔ ہوئے ہوتے خفا پر لڑکے �ور نکالا، منہ سے کمبل نے صاحب �نسپکٹر

" صاحب۔" لایا �بھی ۔۔۔۔۔۔ صاحب لایا �بھی

آ�ئی۔ آ�و�ز سے کمرے �سے پھر کہ تھا ہی بیٹھا کیلیے کرنے صاف برتن �بھی وہ بع� کے رکھنے گلاس �ور صر�حی میں کمرے

" قاسم" ۔۔۔۔۔۔۔ قاسم

" گیا۔" پاس کے آ�قا �پنے ہو� بھاگتا قاسم صاحب آ�یا جی

" ہے۔" رہی لگ پیاس سخت جاؤ، ہوئے بھاگے بس آ�ؤ۔ لیکر سوڈ� سے ہوٹل کے پارسی جاؤ ہے۔ خر�ب ق�ر کس پانی کا بمبئی

ڈ�ل میں گلاس کو آ�قا �پنے �ور آ�یا لے بوتل کی سوڈے تھا، و�قع پر فاصلے کے میل نصف اا قریب سے گھر جو سے ہوٹل کے پارسی �ور گیا ہو� بھاگا قاسمدی۔ کر

" کیا؟" ہوئے نہیں صاف برتن ہو، رہے کر کیا تک وقت �س مگر جاؤ، تم �ب

" صاحب۔" ہیں جاتے ہو صاف �بھی

18

Page 19: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

" ۔۔۔۔۔۔۔۔" ورنہ آ�ئے، نہ خر�ش کوئی پر چمڑے رہے، �حتیاط دیکھنا مگر دینا کر پالش کو بوٹ سیاہ میرے بع� کے کرنے صاف برتن ہاں، �ور

" " " کر " شروع کرنا صاف برتن �ور گیا، چلا و�پس میں خانہ باورچی وہ ہوئے کہتے صاحب �چھا بہت تھا۔ معلوم بخوبی جملہ کا بع� کے ورنہ کو قاسمدیے۔

صاحب کہ ہوئے کرتے خیال تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ رہا �تر سیسہ میں سر تھیں، رہی جا ملی میں آ�پس پلکیں تھی۔ آ�رہی چلی سمٹی میں آ�نکھوں �سکی نین� �بکردیا۔ شروع �لاپنا ر�گ وہی �ور دی، جنبش سے زور کو سر �پنے نے قاسم ہیں۔ کرنے پالش �بھی بوٹ کے

" صاحب۔" ہیں ہوجاتے صاف �بھی بوٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صاحب آ�یا جی صاحب، آ�یا جی

�پنی �نہیں کر دھو کو برتنوں �بھی لیکن گی۔ رہے کر پا غلبہ ضرور نین� کہ لگا ہونے محسوس �سے �ب رکا۔ نہ بھی پر بان�ھنے بن� ہز�ر طوفان کا نین� مگردیر " تھوڑی نہ بوٹ۔۔۔۔کیوں جائیں میں چولھے �ور برتن، جائیں میں بھاڑ آ�یا۔ میں دماغ �سکے خیال عجیب �یک وقت �س تھا۔ باقی رکھنا پر جگہ �پنی

" بع�۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے کرنے آ�ر�م لمحات چن� پھر �ور جاؤں، سو پر جگہ �سی

کردی۔ شروع ملنا ر�کھ جل�ی جل�ی پر برتنوں �ور کردیا ترک نے قاسم ہوئے کرتے تصور باغیانہ کو خیال �س

کام �سکے جو سے طاقت مرئی غیر �س �سطرح �ور لے �نڈیل پر سر �پنے پانی ہو� �بلتا کہ آ�یا میں جی �سکے تو آ�ئی غالب پھر نین� جب بع� کے دیر تھوڑیپڑ�۔ نہ حوصلہ �تنا مگر پائے، نجات تھی، رہی ہو حارج میں

آ�ر�م وہ �ب لیا۔ سانس کا �طمینان �سنے بع� کے کرنے کام یہ لیا۔ ہی کر صاف آاخر بال کو برتنوں �سنے کر مار مار چھینٹے کے پانی پر منہ مشکل بص�تھی۔ نزدیک بالکل �ب تھے، رہے کر �نتظار سے ش�ت دماغ �ور آ�نکھیں �سکی کیلیے جس نین�، نین�۔۔۔۔۔۔۔۔وہ �ور تھا۔ سکتا سو سے

بازوؤں دہ آ�ر�م �پنے �سے نین� کہ پہلے سے �س �ور گیا۔ لیٹ �ور بچھایا بستر �پنا میں آ�م�ے بر باہر نے قاسم بع� کے کرنے گل روشنی کی خانے باروچی " �ٹھے۔ " گونج سے آ�و�زوں کی بوٹ بوٹ، کان �سکے لے، تھام میں

" ہے۔" دیا حکم کیلیے کرنے روغن بوٹ �بھی نے آ�قا �سکے جیسے �ٹھا۔ سے بستر قاسم ہو� بڑبڑ�تا ہوں کرتا پالش �بھی صاحب، �چھا بہت

دیا۔ سلا پر وہیں �سے نے غلبے کے نین� کہ تھا پایا نہ کرنے پالش طرح �چھی بھی پیر �یک کا بوٹ قاسم �بھی

ہوگیا۔ �ضافہ کا باب مشقت �ز پپر �ور �یک میں حیات دب کتا کی ہوئیں۔۔۔۔۔۔۔۔قاسم نمود�ر سے شیشوں کے مکان �س کرنیں خونیں کی سورج

یہاں " طرح کی سور یہ کہا۔ ہوئے جگاتے کر مار ٹھوکر �سے تو دیکھا ہو� سویا پاس کے بوٹوں میں آ�م�ے بر باہر نوکر �پنا نے صاحب �نسپکٹر جب صبح " قاسم۔ حر�م۔۔۔۔۔۔۔�بے ہونگے۔۔۔۔۔۔۔نمک لئے کر صاف بوٹ نے �س کہ تھا خیال مجھے �ور ہے پڑ� بیہوش

" صاحب۔" آ�یا جی

آ�و�ز ہوئی لرزتی �سنے ہوئے سمجھتے کو معاملے �س ہی ا� فور دیکھا۔ برش کا کرنے صاف بوٹ میں ہاتھ �پنے �سنے کہ تھا نکلا ہی �تنا سے منہ کے قاسمکہا۔ میں

" صاحب۔۔۔۔۔۔۔" ہیں جاتے ہو پالش �بھی بوٹ مگر۔۔۔۔۔مگر صاحب، تھا گیا سو میں

کردیا۔ شروع رگڑنا سے برش کو بوٹ جل�ی جل�ی نے �س ہوئے کہتے یہ

گیا۔ چلا رکھنے میں کمرے کے �وپر �سے �ور کیا تہہ بستر �پنا �سنے بع� کے کرنے پالش بوٹ

" قاسم"

19

Page 20: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

" صاحب" آ�یا جی

گیا۔ ہو کھڑ� پاس کے آ�قا �پنے �ور آ�یا نیچے ہو� بھاگا قاسم

�سکے" چاہیئے، ہونا ہو� دھلا بھی رکھنا۔۔۔۔۔۔فرش کر صاف طرح �چھی برتن تمام کے خانے باورچی �سلئے آ�ئینگے۔ مہمان یہاں ہمارے آ�ج دیکھو،پڑ� چاقو دھار تیز �یک پر میز میری رہے خیال مگر ہوگا۔۔۔۔۔۔۔سمجھے، کرنا صاف بھی کو کرسیوں �ور میزوں تصویروں، کی کمرے ملاقاتی تمھیں علاوہ

" چاہیئے۔ جانا ہو پہلے سے گھنٹے دو کام یہ مگر ہوں رہا جا دفتر �ب میں چھیڑنا۔ مت �سے ہے، ہو�

" صاحب" بہتر بہت

ہوگیا۔ مشغول میں کرنے صاف خانہ باورچی قاسم گئے۔ چلے دفتر صاحب �نسپکٹر

کمرے ملاقاتی لیکر جھاڑن بع� کے کرنے صاف پاؤں ہاتھ �ور کردیا۔ ختم کو کام تمام کے خانے باورچی �سنے بع� کے محنت �نتھک کی گھنٹے ڈیڑھگیا۔ چلا میں

برتن پیش و گرد �سکے کہ ہے دیکھتا کیا گئی۔ کھچ سی تصویر �یک میں دماغ ہوئے تھکے �سکے کہ تھا رہا کر صاف سے جھاڑن کو کرسیوں �بھی وہیک یکا ہے۔ رہی بنا خاکستری کو فضا کر �ڑ �ڑ ر�کھ وہ سے جس ہے رہی چل پر زوروں ہو� ہے۔ رہا لگ ڈھیر �یک کا ر�کھ ہی پاس �ور ہیں پڑے برتن ہی

شر�بور سے خون زمین گئیں۔ گھس میں سینے کے برتن ہر طرح کی برچھیوں آ�شام خون کرنیں جسکی ہو� نمود�ر آ�فتاب سرخ �یک میں ظلمت �سہوگئی۔ معمور سے قہقہوں کے خوشی ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔فضا

" ہوگیا۔ " مشغول میں کام �پنے پھر ہو� کہتا صاحب آ�یا جی صاحب، آ�یا جی کر ہو بی��ر سے خو�ب وحشتناک �س �ور گیا گھبر� کر دیکھ منظر یہ قاسم

رہے کھیل کھیل کوئی میں آ�پس لڑکے چھوٹے چھوٹے سامنے �سکے �ب لگا۔ کرنے رقص منظر �ور �یک سامنے کے آ�نکھوں �سکی بع� کے دیر تھوڑیکیا خیال نے گیا۔۔۔۔۔۔۔۔قاسم نگل کو لڑکوں سب �ن جو ہو�، نمود�ر دیو بھیانک �ور ب�نما �یک ہی ساتھ جسکے ہوئی، شروع چلنا آ�ن�ھی اا دفعت تھے۔

کیا۔۔۔۔۔قاسم شروع ڈکارنا سے زور زور نے دیو �س �ب تھا۔ بڑ� کہیں سے �س وہ سے لحاظ کے قامت و ق� گو تھا۔ شکل ہم کے آ�قا �سکے دیو وہ کہگیا۔ لرز تک پیر سے سر

کام کا کرسیوں وہ �بھی کردیا۔ شروع مارنا جھاڑن پر کرسیوں جل�ی جل�ی نے قاسم چنانچہ تھا۔ گیا رہ کم بہت وقت �ور تھا کرنا صاف کمرہ تمام �بھینین� " یہ �ور گے پڑیں کرنے صاف برتن کتنے معلوم خ�� ہیں۔ رہے آ� مہمان آ�ج آ�یا۔ خیال یک یکا �سے کہ تھا رہا جا کرنے صاف میز بع� کے کرنے ختم

" گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سکے ہو نہ بھی کچھ تو سے ہے۔۔۔۔۔۔۔مجھ رہی ستا کمبخت

متعلق جسکے چاقو آ�یا۔۔۔۔۔وہی نظر چاقو ہو� کھلا �یک پاس کے قلم��ن �سے �چانک کہ تھا رہا پونچھ کو چیزوں ہوئی رکھی پر میز وہ وقت سوچتے یہہے۔ تیز بہت کہ تھا کہا نے آ�قا �سکے

" ہے۔ " کرسکتا ختم کو مصیبت تمھاری چاقو۔۔۔۔۔۔یہی دھار چاقو۔۔۔۔۔۔تیز ہوگئے۔ جاری بخود خود لفظ یہ پر زبان �سکی کہ تھا دیکھنا کا چاقو

تھا۔ دور بہت سے زحمت کی کرنے صاف برتن وقت کے شام وہ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔�ب پھیر پر �نگلی �پنی �ٹھا چاقو دھار تیز نے قاسم بغیر سوچے �ور کچھتھی۔ ہوسکتی نصیب آاسانی ب �سے �ب نین� پیاری نین�۔۔۔۔۔۔۔پیاری، �ور

بھری مسرت کو دھار کی خون �س قاسم چمکیلی۔ کہیں سے روشنائی سرخ کی دو�ت و�لی تھی۔۔۔۔۔سامنے رہی بہہ دھار سرخ کی خون سے �نگلی " نین�۔ " نین�۔۔۔۔۔۔پیاری نین�، تھا۔ رہا گنگنا یہ میں منہ �ور تھا رہا دیکھ سے آ�نکھوں

لگا۔ کہنے کر دکھا �نگلی زخمی �پنی �ور تھی۔ رہی کر سلائی بیٹھی میں خانے زنان جو گیا پاس کے بیوی کی آ�قا �پنے ہو� بھاگا وہ بع� کے دیر تھوڑی " جی۔۔۔۔۔۔" بی بی دیکھئے

" نے۔" تو ہوگا چھیڑ� کو چاقو کے صاحب کیا؟۔۔۔۔۔۔۔کمبخت کیا نے تو یہ قاسم �رے

20

Page 21: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

" پڑ�۔" ہنس قاسم کھایا۔ کاٹ نے �س �ور تھا رہا کر صاف میز جی۔۔۔۔۔بس بی بی

" گا؟" کرے صاف باپ تیر� برتن یہ آ�ج سہی، تو بتا �ب مگر دوں۔ بان�ھ کپڑ� پر �س میں آ�، �دھر ہے، ہنستا �ب سور �بے

تھا۔ رہا مسکر� لب در زی پر فتح �پنی قاسم

کردیا۔ ختم کام �پنا خوشی خوشی بع� کے کرنے صاف دھبے کے خون ہوئے پڑے پر میز �ور گیا آ� میں کمرے پھر قاسم کر بن�ھو� پٹی پر �نگلی

" کھڑکی" میں مسرت �نتہائی نے قاسم مٹھو۔ میاں ہونگے۔۔۔۔۔کیوں کرنے صاف ہونگے۔۔۔۔۔۔ضرور کرنے صاف برتن کو باورچی حر�م نمک �س �بکیا۔ دریافت سے طوطے ہوئے لٹکے میں

�نگلی زخمی کی قاسم صاحب �نسپکٹر گیا۔ لگ سا طومار �یک کا برتنوں و�لے کرنے صاف میں خانے باورچی گئے۔ چلے �ور آ�ئے مہمان وقت کے شامنوک کی تر�ش قلم میں �نگلی �پنی �نکی بار �یک کہ �سلیئے شای� سکے، کر نہ مجبور �سے مگر دیں، گالیاں کر کھول جی �ور برسے۔ بہت کر دیکھ

تھا۔ ہو� محسوس درد بہت سے جانے چبھ

بچا سے زحمت کی کرنے صاف برتن وہ تک روز چار تین لیٹا۔ جا میں بستر �پنے ہو� پھان�تا کودتا قاسم �ور دی بھلا نے مسرت و�لی آ�نے خفگی کی آ�قاہوگئی۔ نمود�ر مصیبت وہی پھر آ�یا۔۔۔۔۔۔�ب بھر زخم کا �نگلی بع� �سکے مگر رہا،

" ڈ�لو۔" دھو قمیص �ور جر�بیں کی صاحب قاسم،

" جی۔" بی بی �چھا بہت

" رہے۔" نہ باقی دھبہ د�غ کوئی دیکھنا کرو، صاف �بھی کر لا پانی ہے۔ رہا ہو ب�نما کتنا فرش کا کمرے �س قاسم

" صاحب" �چھا بہت

" کردو۔" صاف سے نمک �نہیں ہیں۔ رہے ہو چکنے کتنے گلاس کے شیشیے قاسم

" صاحب" �چھا جی

" کرتے۔" نہیں کیوں صاف �سے ہے، رہا ہو غلیظ ق�ر کس پنجرہ کا طوطے قاسم

" جی" بی بی ہوں کرتا �بھی

" گا۔" ڈ�لے دھو کو سیڑھیوں وہ جانا، ڈ�لتے پانی تم ہے، آ�تا خاکروب �بھی قاسم

" صاحب" �چھا بہت

" آ�نا۔" لے تو دہی کا آ�نے �یک کر بھاگ ذر� قاسم

" جی۔" بی بی چلا �بھی

پڑتا کرنا کام تک شب نصف �سے روز ہر آ�گیا۔ تنگ سے قحط کے آ�ر�م �ور زیادتی کی کام قاسم گئے۔ گزر میں سننے �حکام کے قسم �سی روز چھ پانچتھا۔ زیادہ بہت کیلیے لڑکے کے عمر کی قاسم کام یہ پڑتی۔ کرنی تیار چائے کیلیے ناشتے کر ہو بی��ر قریب کے بجے چار �لصباح علی پھر �ور

21

Page 22: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

رہا بہہ خون سے �نگلی �سکی بع� کے لمحے �یک �ور بڑھے، طرف کی چاقو بخود خود ہاتھ �سکے وقت کرتے صاف میز کی صاحب �نسپکٹر روز �یکمگر گیا، دیا نہ کھانا کا شام �سے میں صورت کی سز� چنانچہ ہوئے۔ خفا بہت کر دیکھ حرکت یہ کی قاسم بیوی �نکی �ور صاحب تھا۔۔۔۔۔۔۔�نسپکٹرنجات سے کرنے صاف �نبار کا برتنوں مگر آ�گیا زخم سا معمولی پر �نگلی ملی۔ نہ روٹی وقت تھا۔۔۔۔۔۔۔�یک مگن میں خوشی کی ترکیب �یجادہ �پنی وہ

تھا۔ نہ بر� کچھ سود� گئی۔۔۔۔۔۔یہ مل

گئے۔ گزر میں مشقت سی کی گ�ھوں روز بیس پن�رہ تھی۔ شروع مار بھر وہی کی کام پھر �ب ہوگیا، ٹھیک زخم کا �نگلی �سکی بع� کے دنوں چن�چھری و�لی خانے باورچی �ور گیا لیا �ٹھا چاقو وہ سے پر میز �ب مگر کرلے۔ زخمی �نگلی �پنی پھر سے چاقو کہ کیا �ر�دہ بارہا نے قاسم میں عرصے �س

تھی۔ کن�

غرض دیتا۔ جلا کو کوئلوں کبھی گون�ھتا، آ�ٹا کبھی پیستا، مرچیں کبھی پڑتا، رہنا موجود میں خانے باورچی وقت ہر �سے �ب گیا پڑ بیمار باورچی روز �یک " رہتی۔ " گونجتی ص�� کی کر وہ قاسم �بے کر، یہ قاسم �بے میں کانوں �سکے تک ر�ت آ�دھی لیکر سے صبح

تھا۔ کیا ہی چارہ �ور کے کام سو�ئے مگر گئی، دے جو�ب ہمت �ور جان ننھی کی آ�یا۔۔۔۔۔۔قاسم نہ تک روز دو باورچی

�سے وقت کرتے صاف �لماری تھیں۔ ہوئی پڑی چیزیں مختلف �ور شیشیاں کی �دویات میں جس کہا۔ کو کرنے صاف �لماری �سے نے آ�قا �سکے روز �یکجس گئی، چلی تک دور میں �نگلی باریک، �ور تیز بہت تھی دھار لیا۔ پھیر پر �نگلی �پنی نے �س ہی پکڑتے کو بلیڈ آ�یا۔ نظر بلیڈ �یک کا مونڈنے ڈ�ڑھی

گیا۔ بن زخم بڑ� بہت سے

کا قاسم کر دیکھ یہ گیا۔ بہہ طرح کی پانی خون تھما۔۔۔۔۔۔۔سیروں نہ وہ تھا، بڑ� منہ کا زخم مگر جائے ہو بن� نکلنا خون کہ کی کوشش بہت نے قاسمگیا۔ پاس کے بیوی کی آ�قا �پنے ہو� بھاگا گیا۔ ہو سپی� مانن� کی کاغذ رنگ

" ہے۔" گیا لگ �ستر� کا صاحب میں �نگلی میری جی بی بی

کر نکال کپڑ� �ور �ٹھی چاپ چپ گئی۔ سمجھ کو معاملے ا� فور دیکھا، زخمی مرتبہ تیسری کو �نگلی کی قاسم نے بیوی کی صاحب �نسپکٹر جب " سکتے۔ " رہ نہیں میں گھر ہمارے تم �ب قاسم، کہا۔ �ور دیا بان�ھ پر �نگلی �سکی

" جی" بی بی کیوں وہ

" کرنا" دریافت سے صاحب یہ

ہوگیا۔ سپی� بھی �ور رنگ کا قاسم ہی سنتے نام کا صاحب

بلایا۔ پاس �پنے ا� فور �سے سنکر حرکت نئی کی قاسم سے بیوی �پنی �ور آ�ئے گھر سے دفتر صاحب �نسپکٹر قریب کے بجے چار

" ہیں؟" معنی کیا کے کرنے زخمی روز ہر کو �نگلی یہ میاں، کیوں

رہا۔ کھڑ� خاموش قاسم

بھاگ" سے یہاں میں سی�ھ کی ناک کر دبا بوریا بستر ہے۔۔۔۔۔۔۔�پنا سکتا جا دیا دھوکہ بار بار ہمیں �ور ہیں �ن�ھے لوگ ہم کہ ہو سمجھتے یہ نوکر تم " نہیں۔۔۔۔۔۔۔سمجھے۔ ضرورت کی نوکروں جیسے تمھارے ہمیں جاؤ،

" صاحب" مگر۔۔۔۔۔۔۔مگر

" چاہتا۔" سننا نہیں کچھ �ور میں گا۔۔۔۔۔۔۔۔�ب جائے دیا نہیں بھی پیسہ �یک کا تنخو�ہ بقایا تیری سے، یہاں جا بچہ۔۔۔۔۔۔۔۔بھاگ کا صاحب

22

Page 23: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

بستر �پنا �ور کہا کچھ سے �س میں خاموشی بھی نے طوطے دیکھا۔ سے نگاہوں بھری حسرت طرف کی طوطے گیا۔ چلا باہر سے کمرے ہو� روتا قاسمبی " بی سلام کہکر �تنا میں آ�و�ز �نگیز درد �ور گیا پاس کے بیوی کی آ�قا �پنے ہو� بھاگا �ور آ�یا خیال کچھ اا دفعت مگر گیا۔ �تر نیچے سے سیڑھیوں وہ لیکر

" ہوگیا۔ رخصت سے وہاں ہوں رہا ہو رخصت سے آ�پ کیلیے ہمیشہ جی۔۔۔۔۔۔میں

ہیں۔ بیٹھے ڈ�کٹر دو ہی پاس ہے۔ رہا ب�ل کروٹیں پر پلنگ کے لوہے سے ش�ت کی درد لڑکا نوخیز �یک میں ہسپتال خیر�تی

" گا۔ " پڑے کاٹنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاتھ گیا کر �ختیار صورت خطرناک زخم ہو�۔ مخاطب سے ساتھی �پنے ڈ�کٹر �یک سے میں �ن

" بہتر۔" بہت

من�رجہ تھا، ہو� لٹکا سرہانے کے چارپائی جو پر تختے چوبی کیا۔۔۔۔۔۔۔۔�یک درج نام کا مریض �س میں پبک نوٹ �پنی نے ڈ�کٹر دوسرے ہوئے کہتے یہتھے۔ لکھے �لفاظ ذیل

) مرحوم: ) ومن عب��لرح ول� قاسم محم� نام

سال: دس عمر

23

Page 24: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

گیر مای

) تاثر�ت) کے نظم �یک کی ہیوگو وکٹر شاعر فر�نسیسی

تھا۔ رہا رو سمن�ر

کمزور �ور دھن�لے �پنے کشتیاں چن� پر سطح رقصاں کی دور۔۔۔۔۔۔پانی تھیں۔ رہی کر ز�ری و آ�ہ کر ٹکر� ٹکر� ساتھ کے ساحل پتھریلے لہریں مقی��پنے کھیت کا ستاروں تھا۔ رہا ہنس کر کھلا کھل چان� میں قبا نیلی کی آ�سمان تھیں۔ رہی کانپ ہوئی ٹھٹھری سے سردی پناہ بے سہارے کے بادبانوں

تھی۔ ہوئی بسی میں بو تیز کی پانی نمکین کے سمن�ر تھا۔۔۔۔۔۔فضا رہا لہلہا میں جوبن پورے

کے گیروں ماہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔یہ رہی کر تذکرہ کا حالی خستہ �پنی سے دوسرے �یک میں زبان خاموش جھونپڑیاں شکستہ چن� پر فاصلے کچھ سے ساحلتھی۔ جگہ کی چھپانے سر

�س تھیں۔ رہی کر روشن نیم کو فضا �یسی کاجل �سکی کر رینگ رینگ پر زمین شعاعیں آ�و�رہ کی چان� میں جس تھا کھلا درو�زہ کا جھونپڑی �یکتھیں۔ رہی جھلملا تھالیاں چن� پر تختے چوبی �یک �ور تھا آ�رہا نظر جال کا گیر ماہی پر دیو�ر میں روشنی �ن�ھی

پانچ پر ٹاٹ ہوئے پھٹے میں پہلو کے �س تھی۔ ہوئے نکالے سر میں �ن�ھیرے ملبوس میں چادروں تاریک چارپائی، ہوئی ٹوٹی �یک میں کونے کے جھونپڑیگھٹنوں مستغرق میں خیالات کن معلوم نہ ماں �نکی ہی پاس تھا۔ رہا تھر� تھر سے خو�بوں جو گھونسلا �یک کا روحوں تھے۔۔۔۔۔۔۔ننھی خو�ب دو مح بچے

تھی۔ رہی گنگنا بیٹھی بل کے

مخاطب کو تاریکی کی شب نصف �ور ہو�ؤں تن� چٹانوں، سیاہ آ�گاہ، سے خطرے آ�نیو�لے کسی سمن�ر چونکی۔۔۔۔بوڑھا سنکر شور کا لہروں وہ یکایککونے �یک کے ٹاٹ وہیں �ور دیا بوسہ سے لبوں سرد �پنے پر پیشانی کی �یک ہر کر جا پاس کے بچوں �ور �ٹھی وہ تھا۔ رہا چلا کر پھاڑ پھاڑ گلا کرکے

تھے۔ رہے دے سنائی بخوبی �لفاظ یہ میں شور کے لہروں لگی۔ مانگنے دعا کر بیٹھ میں

ہے۔۔۔۔۔۔۔۔موت" رہا کھیل ساتھ کے لہروں کی سمن�ر �وڑھے کفن کا ر�ت سہار�، و�ح� کا بچوں �ن خ��، کے غریبوں �ور بیکسوں خ��۔۔۔۔۔�ے �ےمیں حفاظت جان �سکی تو خ�� ہے۔۔۔۔۔۔۔�ے لڑتا پکشتی ساتھ کے دیو �س روز ہر وہ خاطر �نکی ہے۔۔۔۔۔۔صرف لٹکائے پاؤں پر گڑھے عمیق کے

" سکتے۔ کر م�د کی و�ل� �پنے صرف یہ �گر ہوتے، نوجو�ن صرف یہ �گر آ�ہ، رکھیو۔۔۔۔۔۔۔

بھی " �نکا کر ہو بڑے لگی۔ کہنے میں آ�و�ز ہوئی تھرتھر�تی کر بھر آ�ہ ٹھنڈی �ور گئی۔ کانپ تک پیر سے سر وہ کہ آ�یا خیال کیا �سے معلوم خ�� کہکر یہ " غربت۔ غربت، آ�تا۔ نہیں میں سمجھ کچھ آ�ہ گا۔۔۔۔۔۔۔ رہے لاحق خ�شہ کا جانوں چھ مجھے پھر ہوگا، شغل یہی

دیو کی ہوٹلوں میں دماغ �سکے �ور ہوئی بی��ر سے خو�ب �ن�ھیرے �س وہ اا دفعت ہوگئی۔ غرق میں خیالات کے د�مانی تنگ �ور غربت �پنی وہ ہوئے کہتے یہدل �سکے ہی آ�تے خیال کا پرستیوں تعیش کی �مر�ء �ور ر�حتوں دلفریب کی عمارتوں �ن گئیں۔ کھچ تصویریں کی ک�وں ر�حت کے �مر�ء �ور عمارتیں قامتسے نظروں آ�و�رہ میں تاریکی سے درو�زے �ور �ٹھی سے جل�ی وہ کرکے محسوس گرفت کی ہاتھ مرئی غیر کسی پر کلیجے گئی۔ چھا سی دھن� �یک پر

کیا۔ شروع دیکھنا

کے ماں طرح ہی �یک �نسان ہر جبکہ ہیں ہوتے کیوں غریب �ور �میر لوگ کہ تھی حیر�ن سخت وہ سکی۔ روک نہ کو آ�م� کی خیالات حرکت یہ �سکیپریشان �سے جو چیز �ور �یک سکا۔ مل نہ جو�ب خو�ہ خاطر کوئی مگر دیا زور بہت پر دماغ �پنے نے �س کیلیے حل کے سو�ل �س ہے۔ ہوتا پی�� سے پیٹ

مالک کا مارکیٹ کہ ہے وجہ کیا تو ہے لاتا کر چھین مچھلیاں سے گود کی سمن�ر کر کھیل پر جان �پنی خاون� �سکا جب کہ تھی یہ وہ تھی رہی کرمارکیٹ ہو نفع �ور گیر ماہی کریں تو محنت کہ ہوئی معلوم سی عجیب پر طور خاص بات یہ �سے ہے۔ لیتا کر پی�� روپے سینکڑوں روز ہر کئے محنت بغیرتمام جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔�ن چلی میں تون� بڑی �سکی کمائی آ�دھی وقت کے صبح �ور کردے �یک پسینہ خون �پنا خاون� �سکا بھر ر�ت کو۔ مالک کے

لگی۔ کہنے میں آ�و�ز بلن� �ور پڑی ہنس وہ کر پا نہ جو�ب کچھ کا سو�لوں

" مگر۔۔۔۔۔۔۔۔" ہے جانتا خ�� کچھ سب یہ معلوم۔ کیا بھلا کو عقل کم مجھ

24

Page 25: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

" ہے۔ " کفر کرنا خیال ہے۔۔۔۔۔�یسا کرتا بہتر ہے، کرتا جو تو ہوں، گنہگار میں خ�� �ے �ٹھی۔ کانپ کہ تھی و�لی کہنے کچھ وہ بع� �سکے

کردیا۔ شروع رونا �ختیار بے دیکھکر طرف کی چہروں معصوم �نکے �ور گئی بیٹھ آ�کر پاس کے بچوں �پنے سے خاموشی وہ ہوئی کہتی یہ

کے چان� ٹکڑ� کا بادل کوئی �گر کبھی کبھی تھے۔ رہے کاٹ چکر کئے پریشان بال سیاہ �پنے میں صورت کی ڈ�ئنوں مہیب بادل کالے پر آ�سمان باہرکے کشتیوں �ور لیتیں �وڑھ چادر کی رنگ گہرے لہریں سیمیں کی سمن�ر جاتی۔ چھا تاریکی کی قبر پر فضا تو دیتا مل سیاہی �پنی پر رخسار درخشاں

دیتیں۔ کر شروع جھپکنا آ�نکھیں کر دیکھ کو تب�یلی �چانک �س روشنیاں ہوئی ٹمٹماتی پر مستولوں

�س کیونکہ نہیں۔ یا ہے ہو� طلوع دن آ�یا کہ لگی دیکھنے کر ہو کھڑی پاس کے درو�زے �ور کئے خشک آ�نسو سے آ�نچل میلے �پنے نے بیوی کی گیر ماہیروشنی پر سطح تاریک کی سمن�ر تھا۔ ہو� نہ بی��ر بھی سانس �یک کا صبح مگر تھا کرتا جایا آ� و�پس گھر ہی ساتھ کے کرن پہلی کی طلوع خاون� کا

تھی۔ رہی برس پر فضا تمام طرح کی کاجل بارش تھی۔ رہی آ� نہ نظر بھی دھاری �یک کی

کے لکڑی میں مقابلے کے موجوں تن� کی سمن�ر میں بارش �س جو رہی۔ مستغرق میں خیال کے خاون� �پنے کھڑی پاس کے درو�زے تک دیر بہت وہ�یک میں �ن�ھیرے نگاہیں کی �س یکایک کہ تھی رہی مانگ دعا کیلیے عافیت �سکی �بھی وہ تھا۔ مسلح سے بادبان کمزور �ور تختے معمولی �یک

تھی۔ رہی لرز پھیلائے ہاتھ طرف کی آ�سمان محروم سے تاروں جو �ٹھیں، طرف کی جھونپڑی شکستہ

ہو دوہری تلے دباؤ کے ہو� چھت کی تنکوں تھا۔ رہا کانپ سے وجہ کی خوف معلوم نا کسی درو�زہ کمزور تھا۔ نہ تک نام کا روشنی میں جھونپڑی �ستھی۔ رہی

" ہوئے" کرتے خیال یہ �ور بڑبڑ�ئی لب در زی بیوی کی گیر ماہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہا آ� بخار سے روز کئی ہے۔۔۔۔۔۔�سے حال کیا کا بیوہ بیچاری معلوم خ�� آ�ہ،�ٹھی۔ جائے۔۔۔۔۔۔۔کانپ ہو محروم سے خاون� �پنے بھی وہ روز کسی شای� کہ

ہوئی چچلتی کی مصیبت تھی۔ رہی کاٹ گھڑیاں کی موت میں قحط کے روٹی سمیت بچوں سن کم دو �پنے جو تھی کی بیوہ �یک جھونپڑی شکستہ وہتھے۔ سکتے پھر چل سے مشکل �بھی جو تھے بچے ننھے دو سہار� سہا رہا تھا۔ نہ و�لا کرنے سایہ کوئی پر �س میں دھوپ

بع� کے کرنے روشن لالٹین �ن�ھی �یک �ور کر رکھ ٹکڑ� �یک کا ٹاٹ پر سر کیلیے بچاؤ کے بارش �مڈ�۔ جذبہ کا ہم�ردی میں دل کے بیوی کی گیر ماہیتھے، جو�ب کا دستک �س پکار چیخ کی ہو�ؤں تیز �ور شور کا دی۔۔۔۔۔۔لہروں دستک پر درو�زے سے دل ہوئے دھڑکتے �ور پہنچی پاس کے جھونپڑی وہ

ہے۔ رہی سو نین� گہری ہمسائی �چھی �سکی شای� کہ کیا خیال �ور کانپی وہ

نہ نمود�ر سے لبوں بوسی�ہ کے جھونپڑی �س جو�ب کوئی ص��، تھا۔۔۔۔۔۔کوئی خاموشی پھر جو�ب مگر کھٹکھٹایا درو�زہ دی، آ�و�ز پھر بار �یک نے �سگیا۔ کھل �ور ہو� متحرک کی، محسوس لہر کی رحم نے چیز جان بے �س جیسے درو�زہ، یکایک ہو�۔

مکمل سو� کے شور کے لہروں میں جس دیا، کر روشن سے لالٹین �ن�ھی �پنی کو قبر خاموش �س �ور ہوئی د�خل �ن�ر کے جھونپڑی بیوی کی گیر ماہیمہیب �یک میں تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضا رہے کر تر کو زمین سیاہ میں صورت کی آ�نسوؤں بڑے بڑے قطرے کے بارش سے چھت پتلی تھا۔ طاری سکوت

تھا۔ رہا لے سانس خوف

�ور چھلکے آ�نسو گرم گرم میں آ�نکھوں گئی۔ رہ کر بن �رتعاش پا تا سر تھا ہو� سمٹا میں جھونپڑی جو کر دیکھ کو سماں خوفناک �س بیوی کی گیر ماہیلگی۔ کہنے میں آ�و�ز دردناک �ور بھری آ�ہ سرد �یک نے �س گئے۔ ہو آ�غوش ہم ساتھ کے قطروں ہوئے ٹپکے کے بارش کر �چھل �ختیار بے

آ�ہ" قبر۔۔۔۔۔۔۔ ہے۔۔۔۔۔۔۔یعنی �نجام ہی �یک کا ناچ �ور ہنسی تبسم، گیت، محبت، کی ماں ہیں، بخشتے ر�حت کو جسم جو کا بوسوں �ن آ�ہ۔۔۔۔۔تو " خ��۔ میرے

کچھ آ�ہ �یک میں سینے کے لاش تھے۔ خو�ب محو بچے دو میں پہلو �سکے �ور تھی ہوئی �کڑی لاش سرد کی بیوہ پر بستر کے پھوس سامنے �سکےتھیں، رہی دیکھ لگائے ٹکٹکی طرف کی آ�سمان تاریک کر چیر کو چھت خستہ کی جھونپڑی آ�نکھیں ہوئی پتھر�ئی �سکی تھی۔ ہوئی رکی کو کہنے

ہے۔ دینا پیغام کچھ �نہیں جیسے

25

Page 26: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

چمک �یک میں آ�نکھوں نمناک �سکی یکایک گھومی۔ �دھر �دھر و�ر دیو�نہ دیر تھوڑی �ٹھی۔ چلا کر دیکھ کو منظر خیز وحشت �س بیوی کی گیر ماہیچلی میں جھونپڑی �پنی ہوئی لڑکھڑ�تی سے �لخطر د�ر �س �ور لی لپیٹ میں چادر �پنی کر �ٹھا چیز کچھ سے پہلو کے لاش کر لپک �سنے �ور ہوئی، پی��

آ�ئی۔

سے بیوہ دیر تھوڑی دی۔ ڈ�ل چادر ہوئی پھٹی پر �س �ور دیا کر خالی پر بستر میلے کو جھولی �پنی �سنے سے ہاتھوں لرز�ں �ور رنگ ہوئے ب�لے کے چہرےگئی۔ بیٹھ پر زمین پاس کے بچوں �پنے وہ کر دیکھ طرف کی چیز ہوئی چھینی

کے جرم دس �حسا �پنے بیٹھی بیوی کی گیر ماہی تھیں۔ رہی کر تعاقب کا تاریکی شعاعیں دھن�لی کی سورج تھا۔ رہا ہو سپی� پر �فق کے سمن�ر مطلعتھیں۔ رہی چھیڑ تانیں مغموم �پنی لہریں پسری کن ساتھ کے �لفاظ مربوط غیر �ن تھی۔ رہی چھیڑ تار شکستہ

محبت" سے جس ہوں خائف سے �س میں کہ ہے عجیب بھی ہوگی۔۔۔۔۔یہ نہ شکایت کوئی مجھے تو مارے مجھے وہ �گر �ب کیا۔ بر� بہت نے میں آ�ہ " کردے۔ معاف مجھے وہ آ�ؤں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔شای� چھوڑ و�پس ہوں۔۔۔۔۔۔کیا کرتی

کسی �ور �ٹھی وہ گیا، رہ سے دھک کلیجہ �سکا دیکھر یہ ہلا۔ درو�زہ سے زور کے ہو� کہ تھی ہوئی بیٹھی پیچاں و غلطاں میں خیالات کے قسم �سی وہگئی۔ بیٹھ متفکر وہیں کر پا نہ کو

شور" یہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مگر پڑتے پالنے پیٹ سات کو آ�دمی �کیلے ہے۔ پڑتی �ٹھانی تکلیف کتنی کیلیے بچوں �ن �سے نہیں۔۔۔۔۔۔۔بیچارہ۔۔۔۔۔۔۔۔ �بھی " ہے؟ کیا

تھی۔ رہی گزر کر رگڑ ساتھ کے جھونپڑی جو تھی کی ہو� ہوئی چیختی آ�و�ز یہ

" شور" کا لہروں �ور ہو�ؤں میں کانوں �سکے �ب گئی۔ ڈوب میں غم �ن�رونی �پنے پھر وہ کر کہہ یہ ہے۔ ہو� نہیں آ�ہ چاپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی ق�موں �سکےتھا۔ شور کم کیا کا تصادم کے خیالات میں ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سینے مفقود

آ�و�ز کی چپوؤں کے کشتی تھے۔ رہے کھنکھنا کر ٹکر� سے دوسرے �یک سنگریزے ہوئے گھسے میں پانی تھے۔ رہے چلا پاس آ�س کے ساحل جانور آ�بیتھی۔ ہوئی کھوئی میں خیالات �پنے خبر بے سے آ�م� کی کشتی بیوی کی گیر تھی۔۔۔۔۔۔۔ماہی رہی کر مرتعش کو فضا خاموش کی صبح

سا بڑ� �یک پر کان�ھوں گیر ماہی ہی ساتھ ہوئیں، د�خل ہوئی تیرتی میں جھونپڑی شعاعیں دھن�لی کی کھلا۔۔۔۔۔۔صبح ساتھ کے شور �یک درو�زہ اا دفعتہو�۔ نمود�ر پر دہلیز ڈ�لے جال

جسم تھیں۔ ہوئی دھنسی کو �ن�ھر سے وجہ کی بی��ری شب آ�نکھیں تھے۔ رہے ہو شر�بور سے پانی نمکین کے سمن�ر �ور بارش کی ر�ت کپڑے �سکےتھا۔ ہو� �کڑ� سے مشقت معمولی غیر �ور سردی

" لیا۔" لگا سے چھاتی کو خاون� �پنے سے بیتابی عاشقانہ �ور �ٹھی چونک بیوی کی گیر ماہی ہو۔ تم �با، کے نسیم

" پیاری" ہوں میں ہاں

دل �سکے نے محبت کی مسکر�یا۔۔۔۔۔۔۔بیوی وہ گئی۔ چھا روشنی دھن�لی �یک کی مسرت پر چہرے مغموم مگر کشادہ کے گیر ماہی ہوئے کہتے یہدیا۔ کر محو خیال کا کلفت کی ر�ت سے

" کیا۔" دریافت میں لہجے بھرے محبت نے بیوی تھا؟ کیسا موسم

" پتن�"

" آ�ئیں؟" ہاتھ مچھلیاں

26

Page 27: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

" تھا۔" مانن� کی گروہ کے قز�قوں سمن�ر تو ر�ت آ�ج کم۔۔۔۔۔ بہت

بولا۔ کر مسکر� �ور دیکھا مغموم �سے نے گیر ماہی گئی۔ چھا مردنی پر چہرے کے بیوی �سکی سنکر یہ

" ہے۔" خوش دل ہے۔۔۔۔۔۔میر� میں پہلو میرے تو

" ہوگی؟" تیز بہت تو ہو�

ٹوٹتے" بھی منہ کا کشتی �ور گئیں کٹ رسیاں گیا۔ ٹوٹ جال ہیں۔ رہے پھڑ� پھڑ پر منحوس �پنے کر مل شیطان تمام کہ دنیا کہ تھا رہا ہو معلوم تیز، بہت " " " پیاری؟ ہو رہی کرتی کیا بھر شب تم مگر بولا۔ ہوئے ب�لتے رخ کا گفتگو �س پھر بچا۔ ٹوٹتے

تکتی " ر�ہ تمھاری رہی، پروتی نہیں۔۔۔۔۔۔۔سیتی بھی کچھ آ�ہ میں۔۔۔۔۔۔ دیا۔ جو�ب میں آ�و�ز لرز�ں �ور کانپی کرکے خیال کا چیز کسی بیوی " تھا۔ رہا لگ ڈر سخت مجھے تھیں، رہی کڑک طرح کی بجلی رہی۔۔۔۔۔۔۔لہریں

" کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" بات کس ڈر کو لوگوں ڈر۔۔۔۔۔۔ہم

" کہا۔" ہوئے کاٹتے بات کی خاون� �پنے نے بیوی ہے۔ گئی مر بیوہ ہمسایہ ہماری ہاں، �ور

آ�ہ �سنے تھا۔ متوقع کا سننے خبر کی موت کی عورت �س گھڑی ہر وہ کہ �سلیے شای� ہو�۔ نہ تعجب کچھ �سے مگر سنی خبر دردناک یہ نے گیر ماہی " ہے۔ " گئی س�ھار بیچاری کہا۔ �تنا صرف �ور بھری

" ہیں۔" ہوئے لیٹے میں پہلو کے لاش جو ہے گئی چھوڑ بچے دو �ور ہاں

تھی، رہی بھیگ سے پانی جو ٹوپی، �ونی �پنی میں کونے �یک ہوگئی۔ متفکر و سنجی�ہ صورت �سکی �ور کانپا سے زور جسم کا گیر ماہی سنکر یہبولا۔ سے آ�پ �پنے بع� کے رہنے خاموش دیر کچھ �ور کھجلایا سر کر پھینک

میر�" خیر۔۔۔۔یہ مگر �ب تھا۔ ہوتا نہیں نصیب کھانا کا وقت دو ہمیں میں موسم پتن� �س ہی پیشتر سے ہیں۔۔۔۔۔۔�س ہوگئے سات �ب تھے، بچے پانچ " ہیں۔ رکھتے معانی گہرے بہت حو�دث کے قسم �س نہیں۔ قصور

بھی بر�بر کے مٹھی �سکی جو سے بچوں �ن نے خ�� کہ تھا آ�تا نہ سمجھ یہ �سے رہا۔ سوچتا دبائے میں گھٹنوں سر �پنا طرح �سی تک عرصے کچھ وہہیں۔۔۔۔۔۔�سکا سکتے کر ہی خو�ہش کی چیز کسی ہی نہ �ور ہیں سکتے کر کام نہ جو سے بچوں ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔�ن لی چھین کیوں ماں ہیں، نہیں

�ٹھا۔ ہو� بڑبڑ�تا وہ سکا۔ کر پیش نہ حل کوئی کا سو�لوں �ن دماغ

" " ق�ر" کس وہ آ�ؤ۔ لے یہاں �نہیں جاؤ پیاری بولا۔ کر ہو مخاطب سے بیوی �پنی پھر �ور ہے۔ سکتا سمجھ ہی لکھا پڑھا �یک کو چیزوں �یسی شای� " آ�ؤ۔ لیکر �بھی �نھیں جاؤ ہوگی، قر�ر بے سخت روح کی ماں ہوئے۔۔۔۔۔۔۔�نکی بی��ر پاس کے لاش کی ماں �پنی صبح وہ �گر ہونگے زدہ وحشت

کو �جنبیوں �ن خ�� جائینگے۔ سیکھ چڑھنا پر گھٹنوں �سکے کر ہو بڑے وہ گا۔ پالے طرح کی �ولاد �پنی کو بچوں �ن وہ کہ لگا سوچنے وہ کر کہہ یہگا۔ کرے عطا کو کھانے زیادہ �نھیں �ور ہوگا خوش بہت کر دیکھ میں جھونپڑی

" آ�و�ز" بلن� کر دیکھ ہوتے رو�نہ طرف کی چارپائی کو بیوی �پنی پھر �ور گا۔ کروں کام سے محنت زیادہ پیاری۔۔۔۔۔۔۔میں چاہیئے کرنی نہیں فکر تمھیں " تمھیں۔ " چاہئے چلنا نہیں سے چال دھیمی ہو۔۔۔۔۔۔۔�س رہی کیا سوچ تم مگر لگا۔ کہنے میں

دیا۔ �لٹ کو چادر کر پہنچ پاس کے چارپائی نے بیوی کی گیر ماہی

" ہیں۔" یہ تو وہ

27

Page 28: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

تھے۔ رہے مسکر� طرح کی صبح بچے دو

فروری) ء( 1935یکم

28

Page 29: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

تماشا

اا وقت آ�ن�ھیاں سرخ ہوں۔ میں جستجو کی شکار کسی وہ جیسے تھے رہے منڈلا میں فضا خاموش پھیلائے پر طرح کی عقابوں سیاہ طیارے سے روز تین دوباز�ر وہ تھی۔ رہی کر پیش سماں ہولناک عجیب �یک گشت کی پولیس مسلح میں باز�روں سنسان تھیں۔ رہی لا پیغام کا حادثہ خونی آ�نیو�لے کسی اا فوقتپر فضا کی تھے۔۔۔۔۔۔۔شہر پڑے پسونے سے وجہ کی خوف معلوم نہ کسی �ب تھے کرتے ہو� پر سے ہجوم کے لوگوں پہلے عرصہ کچھ سے صبح جو

تھا۔ رہا کر ر�ج خوف بھیانک تھی۔ مسلط خاموشی �سر�ر پر �یک

تھا۔ رہا کر باتیں بیٹھا قریب کے و�ل� �پنے ہو� سہما سے فضا سکون پر و خاموش کی گھر خال�

" دیتے؟" جانے نہیں کیوں سکول مجھے آ�پ �با،

" ہے۔" چھٹی میں سکول آ�ج بیٹا،

سز�" سخت �سے گا، دکھائے نہ کاپی �پنی کے کر ختم کام کا سکول آ�ج لڑکا جو کہ تھے رہے کہہ کل تو وہ نہیں۔ ہی بتایا ہمیں تو نے صاحب ماسٹر " جائیگی۔ دی

" ہونگے۔" گئے بھول دینی �طلاع وہ

" ہے۔" چھٹی بھی میں دفتر کے آ�پ

" ہے۔" بن� آ�ج بھی دفتر ہمار� ہاں

" گا۔" سنوں کہانی سی �چھی کوئی سے آ�پ میں آ�ج ہو�۔۔۔۔۔۔۔ �چھا چلو

طیاروں �ن سے روز چار تین وہ ہو�، خوفزدہ بہت کر دیکھ �نکو خال� گئے۔ گزر سے پر سر �نکے ہوئے چیختے طیارے چار تین کہ تھیں رہی ہو باتیں یہ�نکی وہ ہیں۔ رہتے لگاتے چکر کیوں میں دھوپ دن سار� جہاز یہ کہ تھا حیر�ن وہ تھا۔ سکا پہنچ نہ پر نتیجے کسی مگر تھا رہا دیکھ بغور کو پرو�ز کی

بولا۔ کر آ� تنگ سے حرکت و نقل روز�نہ

" کریں۔" گزر� نہ سے پر گھر ہمارے وہ کہ کہ�یں سے و�لوں چلانے �نکے آ�پ ہے۔ رہا ہو معلوم خوف سخت سے جہازوں �ن مجھے �با،

" خال�۔" گئے ہو نہیں تو پاگل خوف۔۔۔۔۔کہیں

کہہ" سے جان �می ماما صبح گے۔۔۔۔۔۔۔۔کل دیں پھینک گولہ پر گھر ہمارے روز کسی نہ کسی یہ جانتے نہیں آ�پ ہیں۔ خوفناک بہت جہاز یہ �با،بن�وق �یک بھی پاس میرے رکھیں یاد تو کی شر�رت کوئی کی قسم �س نے �نہوں �گر ہیں۔ گولے سے بہت پاس کے و�لوں جہاز �ن کہ تھی رہی

" تھی۔ دی مجھے پر عی� پچھلی نے آ�پ جو ہے۔۔۔۔۔۔۔وہی

کرتی " کیا کیوں باتیں �یسی میں گھر وہ کہ کرونگا دریافت سے �س میں ہے، پاگل تو ماما ہنسا۔ پر جسارت معمولی غیر کی لڑکے �پنے باپ کا خال� " کرینگے۔ نہیں گز ہر بات �یسی وہ رکھو، ہے۔۔۔۔۔۔۔�طمینان

و�لے جہاز ہو�ئی جب روز �س کہ تا لگا کرنے مشق کی لگانے نشانہ کر نکال بن�وق ہو�ئی �ور گیا چلا میں کمرے �پنے خال� کر ہو رخصت سے و�ل� �پنےجائے۔ ہو تقسیم میں شخص ہر جذبہ ننھا یہی کا �نتقام سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش لے �نتقام طرح پوری وہ �ور جائے نہ خطا نشانہ �سکا تو پھینکیں گولے

کا خال� میں حصے دوسرے کے گھر تھا، رہا بان�ھ منصوبے کے طرح طرح ہو� ڈوبا میں فکر کی لینے �نتقام �پنے بچہ سا ننھا �یک جبکہ میں عرصہ �سیہو۔ دہشت کو خال� سے جس کرے نہ بات کوئی کی قسم �س میں گھر آ�ئن�ہ وہ کہ تھا رہا کر ہ��یت کو ماما ہو� بیٹھا پاس کے بیوی �پنی باپ

29

Page 30: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

کے بادشاہ لوگ کے شہر کہ لایا خبر دہشتناک �یک خادم کہ تھا رہا جا باہر سے درو�زے بڑے �بھی وہ دیکر ہ��یات مزی� کی قسم �سی کو بیوی �ور ماماگا۔ رہے کر آ� پیش ضرور و�قع کوئی نہ کوئی کہ ہے جاتی کی توقع یہ �ور ہیں و�لے کرنے جلسہ عام �یک قریب کے شام بھی پر کرنے منع

گشت، کی پولیس مسلح میں باز�روں پرو�ز، کی طیاروں سکون، معمولی غیر کا فضا کہ گیا ہو یقین �سے �ب ہو�، خوفزدہ بہت سنکر خبر یہ باپ کا خال�تھے۔ خیمہ پیش کی حادثہ خوفناک کسی آ�م� کی آ�ن�ھیوں خوفناک �ور عالم کا �د�سی پر چہروں کے لوگوں

تھا۔ ہو� لپٹا میں خوف نامعلوم کسی شہر سار� بھی پھر مگر تھا نہ معلوم بھی کو کسی طرح کی باپ کے خال� ہوگا؟۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کا نوعیت کس حادثہ وہ

ہو� معلوم �یسا �سے گیا۔ سہم وہ ہو� بلن� شور کا طیاروں کہ تھا پایا نہ بھی کرنے تب�یل کپڑے �بھی باپ کا خال� کے کر ملتوی کو خیال کے جانے باہرہیں۔ رہے کر�ہ سے ش�ت کی درد میں آ�و�ز آ�ہنگ ہم �نسان سینکڑوں جیسے

پھینکنے گولہ وقت جس وہ کہ تا لگا دیکھنے سے غور �نہیں �ور آ�یا دوڑ� باہر سے کمرے ہو� سنبھالتا بن�وق ہو�ئی �پنی سنکر غل و شور کا طیاروں خال�کم جو تھے نمایاں آ�ثار کے �ستقلال و �ر�دہ آ�ہنی پر چہرے کے بچے کے سال چھ وقت �س دے۔ گر� نیچے �نہیں سے م�د کی بن�وق �پنی وہ تو لگیںرہی کر خوفزدہ سے عرصے �سے جو کو چیز �س آ�ج وہ کہ تھ ہوتا معلوم تھا۔ رہا کر شرمن�ہ کو سپاہی جری �یک تھامے میں ہاتھ کھلونا کا بن�وق حقیقت

ہے۔ ہو� تلا پر مٹانے تھی،

کی پتنگوں میں ہو� ٹکڑے یہ ہی گرتے تھی۔ مشابہ کے ٹکڑوں چھوٹے چھوٹے کے کاغذ جو گری چیز کچھ سے جہاز �یک دیکھتے دیکھتے کے خال�گرے۔ بھی پر چھت بالائی کی مکان کے خال� چن� سے میں �ن لگے، �ڑنے طرح

لایا۔ �ٹھا کاغذ وہ �ور گیا �وپر ہو� بھاگا خال�

" ہیں۔" پھینکے کاغذ یہ بجائے کی گولوں تو نے و�لوں جہاز تھی۔ رہی بک جھوٹ مچ سچ ماما جی، �با

صاف میں �شتہار �س لگی۔ آ�نے نظر پر طور عیاں �سے �ب تصویر کی حادثے ہونیو�لے گیا، ہو زرد رنگ تو کیا شروع پڑھنا لیکر کاغذ وہ نے باپ کے خال�ہوگی۔ رعایا خود د�ر ذمہ کی نتائج تو گیا کیا جلسہ کوئی خلاف کے مرضی �سکی �گر �ور دیتا نہیں �جازت کی کرنے جلسہ کسی بادشاہ کہ تھا لکھا

پر " گھر ہمارے وہ کہ لکھا نہیں تو یہ میں کاغذ �س کہا۔ ہوئے گھبر�تے نے خال� کر دیکھ پریشان و حیر�ن ق�ر �س بع� کے پڑھنے �شتہار کو و�ل� �پنے " گے؟ پھینکیں گولے

" کھیلو۔" ساتھ کے بن�وق �پنی جاؤ جاؤ، تم وقت �س خال�

" ہے۔" کیا لکھا پر �س مگر

" کہا۔" ہوئے بولتے جھوٹ سے خوف کے دینے طول مزی� کو گفتگو نے باپ کے خال� ہوگا۔ تماشا �یک کو شام آ�ج کہ ہے لکھا

" نا۔" گے چلیں بھی ہم تو پھر ہوگا، تماشا

" کہا۔" کیا

" گے؟" چلیں لے نہ مجھے آ�پ میں تماشے �س کیا

" کھیلو۔" کر جا جاؤ �ب گے، چلیں لے

تو" کھیلوں میں �ب آ�تا، نہیں یہاں کل آ�ج تو بھی طفیل جماعت ہم میر� نہیں، کھیلتی سے مجھ ماما دیتے، نہیں جانے آ�پ میں باز�ر کھیلوں؟ کہاں " نا؟ گے چلیں ضرور تو دیکھنے تماشا وقت کے کھیلوں؟۔۔۔۔۔۔۔شام سے کس

30

Page 31: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

کی جس پہنچا، میں نشستگاہ کی و�ل� �پنے ہو� پھرتا آ�و�رہ میں کمروں مختلف �ور گیا چلا باہر سے کمرے خال� بغیر کئے �نتظار کا جو�ب کسیلگا۔ جھانکنے طرف کی باز�ر وہ کر بیٹھ قریب کے کھڑکی تھیں۔ کھلتی طرف کی باز�ر کھڑکیاں

دو کہ تھا حیر�ن سخت وہ تھے۔ رہے جا لئے کے ہونے شریک میں جلسے لوگ ہے۔ جاری رفت و آ�م� مگر ہیں بن� تو دکانیں میں باز�ر کہ ہے دیکھتا کیاسکا۔ ہو نہ آ�م� بر نتیجہ کوئی مگر دیا زور بہتیر� پر دماغ ننھے �پنے نے �س لئے کے حل کے مسئلہ �س ہیں، رہتی بن� کیوں دکانیں سے روز تین

رکھی کر بن� دکانیں تھے، رہے بانٹ جہاز �شتہار کے جس خاطر، کی دیکھنے تماشا �س نے لوگوں کہ سوچا یہ نے �س بع� کے کرنے فکر و غور بہت�ور دیا کر چین بے سخت کو خال� نے خیال �س ہیں۔ بن� باز�ر تمام کیلیئے جس ہوگا تماشا دلچسپ ہی نہایت کوئی وہ کہ کیا خیال نے �س �ب ہیں۔

چلے۔ لے کو دکھلانے تماشا �سے �با کا �س جب لگا کرنے �نتظار سے بیقر�ری نہایت کا وقت �س وہ

گئی۔ آ�تی تر قریب گھڑی خونی وہ گیا، گزرتا وقت

بھرتی سسکیاں ہو� تھے، رہے تک سے نگاہوں خاموش طرف کی دوسرے �یک بیٹھے خاموش میں صحن و�ل�ہ �ور باپ �سکا خال� تھا، وقت کا پہر سہتھی۔ رہی چل ہوئی

تڑ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تڑ۔ تڑ۔ تڑ۔

" ۔۔۔۔۔۔گولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " سکا۔ کہہ �سق�ر بمشکل سے زبان گیا، ہو سفی� طرح کی کاغذ رنگ کا چہرے کے باپ کے خال� ہی سنتے آ�و�ز یہ

�تر گولی سے چھاتی �سکی خود جیسے ہو� معلوم �یسا �سے ہی سنتے نام کا گولی سکی، نکال نہ سے منہ بھی لفظ �یک سے خوف دط فر ماں کی خال�ہے۔ رہی

" ہے۔ " گیا ہو شروع تو تماشا چلیں، جی �با لگا۔ کہنے کر پکڑ �نگلی کی و�ل� �پنے ہی سنتے کو آ�و�ز �س خال�

" کہا۔" ہوئے چھپاتے کو خوف �پنے نے باپ کے خال� تماشا؟ کونسا

" ہے۔" رہی دے سنائی آ�و�ز کی پٹاخوں �تنے تو تبھی ہے، گیا ہو شروع کھیل تھے، رہے بانٹ صبح آ�ج �شتہار کے جس تماشا وہی

" کھیلو۔" کر جا پاس کے ماما جاؤ، �ب کیلیئے خ�� کرو، مت شور تم ہے، باقی وقت بہت �بھی

دیکھنے طرف کی باز�ر سے کھڑکی �ور گیا چلا میں نشستگاہ کی و�ل� �پنے کر پا نہ کو ماما وہاں مگر گیا طرف کی خانے باورچی ہی سنتے یہ خال�لگا۔

کے لمحات چن� تھیں، رہی دے سنائی چیخیں دردناک کی کتوں سے فاصلے دور تھا، رہا کر سائیں سائیں سے وجہ کی جانے ہو بن� رفت و آ�م� باز�رگئی۔ ہو شامل بھی آ�و�ز دردناک کی �نسان میں چیخوں �ن بع�

جو دیا، دکھائی لڑکا �یک �سے میں چوک کہ تھا رہا کر ہی کوشش کیلیئے جستجو کی آ�و�ز �س وہ �بھی ہو�، حیر�ن بہت سنکر کر�ہتے کو کسی خال�تھا۔ رہا آ� چلا بھاگتا چلاتا چیختا

تھا۔ رہا نکل خون فو�روں سے جس تھا زخم گہر� �یک پر پنڈلی �سکی گیا، ہو بیہوش ہی گرتے �ور گر� کر لڑکھڑ� لڑکا وہ مقابل عین کے گھر کے خال�

بہت " سے ٹانگ �سکی ہے، پڑ� گر لڑکا �یک میں باز�ر �با، �با، لگا۔ کہنے �ور آ�یا پاس کے و�ل� �پنے کر بھاگ ہو�، خوفزدہ بہت خال� کر دیکھ سماں یہ " ہے۔ رہا نکل خون

ہے۔ پڑ� منہ �ون�ھے میں باز�ر لڑکا نوجو�ن �یک و�قعی کہ دیکھا �ور گیا طرف کی کھڑکی باپ کا خال� ہی سنتے یہ

31

Page 32: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

کو �فر�د برگ و ساز بے دے۔ لٹا پر پٹڑے کے دکان و�لی سامنے کر �ٹھا سے پر سڑک کو لڑکے �س وہ کہ ہوئی نہ أ�ت جر �سے سے خوف کے بادشاہتھی، شکار کا ستم دغ تی کے �نہی جو نعش کی بچے معصوم �س مگر ہیں۔ رکھی کر مہیا گاڑیاں آ�ہنی نے عق� و حل دب �ربا کے حکومت کیلیئے �ٹھانےکی دل کے کسی تھی، گئی جھلس سے سموم دد با کردہ عطا کی �نہی پہلے سے کھلنے جو کونپل وہ تھا، گیا مسلا ہاتھوں کے �نہی جو پود� ننھا وہ

زیادہ کہیں سے �س ظلم مگر ہے بھیانک موت آ�ہ۔ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سڑک کردہ تیار کی �نہی �ب تھی، لی چھین نے �ستب��د و جور کے �نہی جو ر�حتہے۔ بھیانک �ور خوفناک

" ہے؟" پیٹا نے کسی کو لڑکے �س �با

گیا۔ چلا باہر سے کمرے ہو� ہلاتا سر میں �ثبات باپ کا خال�

نوک کی تر�ش قلم �سے دفعہ �یک جبکہ ہوگی ہوئی تکلیف کتنی سے زخم بڑے �تنے کو لڑکے �س کہ لگا سوچنے تو گیا رہ میں کمرے �کیلا خال� جبکہ لگا ہونے معلوم �یسا �سے ہی آ�تے کے خیال �س تھے۔ رہے بیٹھے سرہانے �سکے ر�ت تمام ماں �ور باپ �سکا �ور تھی آ�ئی نہ نین� ر�ت تمام سے چبھنے

لگا۔ رونے وہ ہے۔۔۔۔۔۔یکلخت درد کا ش�ت میں �س �ور ہے میں پنڈلی �سکی خود زخم وہ

" ہو؟ " رہے کیوں رو بچے میرے لگی۔ پوچھنے کر لے میں گود �سے �ور آ�ئی دوڑی دوڑی و�ل�ہ �سکی سنکر آ�و�ز کی رونے �سکے

" ہے؟" مار� نے کسی کو لڑکے �س �می

" نے۔" �س ہوگی کی شر�رت

تھی۔ چکی سن د�ستان کی لڑکے زخمی زبانی کی خاون� �پنے و�ل�ہ کی خال�

" کہا۔" سے و�ل�ہ �پنی ہوئے روتے نے خال� نکالتے۔ نہیں تو لہو ہیں، دیتے سز� سے چھڑی پر کرنے شر�رت تو میں سکول مگر

" ہوگی۔" گئی لگ سے زور چھڑی

میرے" نے صاحب ماسٹر روز �یک ہے۔ مار� ق�ر �س کو لڑکے �سکے نے جس ہوگا نہ خفا پر �ستاد �س کر جا میں سکول و�ل� کا لڑکے �س کیا پھر تو " نا۔ تھی کی شکایت کر جا پاس کے ماسٹر ہیڈ نے جی �با تو تھے دیئے کر سرخ کر کھینچ کان

" ہے۔" آ�دمی بڑ� بہت ماسٹر کا لڑکے �س

" بڑ�؟" بھی سے میاں �للہ

" ہے۔" چھوٹا سے �ن نہیں

" گا۔" کرے شکایت پاس کے میاں �للہ وہ پھر تو

" سوئیں۔" چلو ہے، گئی ہو دیر �ب خال�

سے" �ستعمال جسکے لے چھین کو چھڑی �س �ور دے سز� طرح �چھی ہے پیٹا کو لڑکے �س نے جس کو ماسٹر �س تو کہ ہوں کرتا دعا میں میاں �للہجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔�گر آ� نہ ہاتھ کے �ستاد میرے چھڑی وہی کہیں کہ ہے ڈر بھی مجھے �سلئے کئے، نہیں یاد پہاڑے نے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں آ�تا نکل خون

" گا۔ بولوں نہ سے تم بھی میں پھر تو مانیں نہ باتیں میری نے تم

تھا۔ رہا مانگ دعا میں دل خال� وقت سوتے

32

Page 33: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

امتحان کا طاقت

" ہوتے۔" موجود وہاں بھی تم کاش تھا، خوب کھیل

" ہو؟" رہے کر تعریف �تنی تم جسکی تھی دی� دل قاب �یسی چیز کونسی میں کھیل �س مگر تھا کام ضروری کچھ کل مجھے

" گیا۔" ہو گم ہوش کہ دکھلائے کرتب کے ورزشوں جسمانی چن� نے صاحب �یک

" اا۔" مثل

" دینا۔" خم کو سلاخ آ�ہنی موٹی �نچ �یک پر کلائی اا مثل

" ہیں۔" سکتے کر بھی بچے آ�جکل یہ

" کر�نا۔" پاش پاش سے ہتھوڑوں آ�ہنی کر رکھو� پتھر کا چکی پر چھاتی

" ہیں۔" دیکھے شخص بیسیوں �یسے نے میں

" گا۔" پڑے ماننا بھی تمھیں یہ نہیں، بات کی شخص �ور کسی دیا پھینک پرے طرح کی تنکے �یک کر �ٹھا سے ہاتھوں دو نے �س جو وزن وہ مگر

" آ�خر۔" تھا کتنا وزن ہے، کام �ہم کونسا یہ آ�دمی بھلے

" کیوں؟" ہوگا، قریب کے من چار کوئی

" ہے۔" رہتا �ٹھائے پر پشت گھنٹوں مزدور زدہ فاقہ کا شہر تو وزن �تنا

" غلط۔" بالکل

" کیوں؟" وہ

رہے" کر باتیں مزدور۔۔۔۔۔۔۔کسیی کا شہر ہے۔ لازم ہونا کا غذ� �چھی لئے کے طاقت سکتی۔ ہو نہیں قوت �تنی میں مزدور ہوئے پلے پر ٹکڑوں غلیظہو۔"

کچھ" سے �س بلکہ من چار خاطر کی پیسے دو جو ہیں مزدور بہتیرے �یسے یہاں ہے۔ حقیقت یہ مگر ہوں متفق سے تم میں متعلق کے معاملے و�لے غذ� " دوں؟ کر ثابت �سے تو ہیں۔۔۔۔۔۔۔کہو سکتے آ� چھوڑ پر منزل دوسری کی گھر تمھارے کر �ٹھا وزن زیادہ

تھے۔ رہے �ڑ� دھو�ں کا سگریٹ بیٹھے پر کرسیوں د�ر گ�ی کی کمرے تکلف پر �یک جو تھی رہی ہو میں طلبہ نوجو�ن دو گفتگو یہ

�ٹھائی" تو بھی لکڑیاں من �یک سے کمبخت لو۔ کو ہی مزدور کے فروش چوب طرح۔۔۔۔۔۔قاسم کس بھی آ�ئے باور �ور سکتا مان نہیں گز ہر �سے میں " ہے۔ نہیں �چنبھا تو ہو طاقتور �یسا �یک میں ہز�روں جاتیں۔ نہیں

" ہے؟" رہی لگ بازی کی تاش آ�ج سناؤ طاقت۔ �نکی جائے میں چولھے �ور مزدور سب یہ جائیں میں بھاڑ کو، قصے �س یار چھوڑو

" چاہیئے۔" ہونا فیصلہ کا بح� �س پہلے گی، رہیں ہیں لگتی تو بازیاں کی تاش

33

Page 34: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

منہ �نکے دھو�ں کا سگریٹ تھا۔ رہا جا کئے ٹک ٹک �پنی بر�بر کر آ� تنگ سے گفتگوؤں یعنی لا کی قسم �سی روز ہر کلاک آ�ویز�ں پر دیو�ر و�لی سامنے�عتنائی بے و فکری بے پر چہروں کے تصاویر ہوئی لٹکی پر دیو�روں تھا۔ رہا نکل باہر ر�ستے کے کھڑکی ہو� لگاتا چکر سے پرو�ئی بے بڑی کر ہو آ�ز�د سے

کے آ�تش��ن تھا۔ سوتا پڑ� حس بے کر ہو �می� نا سے تغیر کسی ہو� جما پر جگہ ہی �یک سے سال سالہا فرنیچر کا کمرے تھیں۔ آ�تی نظر جھلکیاں کیرہا کھجلا سر �پنا سے تعجب سنکر گفتگو معنی بے کی فرزن�وں دو �ن کے آ�دم سے نگاہوں سنگین �پنی مجسمہ کا مفکر یونانی کسی ہو� رکھا پر طاق

تھی۔ رہی ہو کثیف سے باتوں فضول �ور بھ�ی �ن فضا کی تھا۔۔۔۔۔۔۔کمرے

جسے وہ میں �ن اا دفعت رہے۔ کرتے خیالات در �ظہا پر طریقوں کے جیتنے روپیہ �ور �صولوں کے برج کھیلوں، مختلف کی تاش دوست دونوں تک دیر تھوڑیہو�۔ مخاطب سے دوست �پنے تھا یقین پور� متعلق کے طاقت کی مزدور

" ہوگا۔" رکھتا وزن کتنا میں خیال تمھارے وہ ہے پڑ� گارڈر جو کا لوہے میں باز�ر باہر

" بح�۔" وہی پھر

" سہی" تو بتاؤ تم

" ہوگا۔" قریب کے من چھ پانچ

" نا؟" ہے کافی میں نظر تمھاری تو وزن یہ

" ساتھ۔" �سکے ہوگی ضرور گاڑی و�لی گا۔۔۔۔۔۔گ�ھے �ٹھائے پہلو�ن مزدور تمھار� لاٹھ کم بھر بھاری یہ کی لوہے کہ ہے مطلب یہ تمھار� یعنی

ہے۔" سکتا ہو پتہ کیا تمھیں ہے۔۔۔۔۔۔۔مگر کام معمولی نزدیک �نکے تو �ٹھانا بوریاں تین دو کی گیہوں ہیں۔ کم کیا سے گ�ھوں بھی مزدور کے یہاں " دکھاؤں۔ تماشا نیا �یک د�موں سستے بہت �ور �نگیز حیرت کہیں سے کھیل و�لے کل تمھارے تو، کہو

" ہوں۔" تیار میں تو گا �ٹھائے ٹکڑ� وزنی وہ کا لوہے مزدور تمھار� �گر

" کے۔" چالاکی کسی بغیر �ور سامنے کے آ�نکھوں تمھاری

تمام کی کمرے دیئے۔ چل کرنے �متحان کا طاقت کی مزدور طرف کی باز�ر باہر �ور �ٹھے کر دبا گردن میں خاک��ن کی سگریٹ �پنے �پنے دوست دونوںگھڑیاں کی وقت متعینہ کسی پر �نگلیوں �پنی کلاک ہو، خوف کا حادثے معمولی غیر کسی �نہیں جیسے گئیں، ہو غرق میں فکر گہری کسی �شیاءگئی۔ لگ بھرنے آ�ہیں خاموش فضا کی لگیں۔۔۔۔۔۔۔کمرے تکنے منہ کا دوسرے �یک میں حیرت تصویریں آ�ویز�ں پر دیو�روں لگا۔ کرنے شمار

تھا۔ ہو� �کڑ� مانن� کی دیو بھیانک میں کونے �یک کے باز�ر تاریک، طرح کی خو�ب وحشتناک کسی �ور سرد سا کا لاش ٹکڑ� کم بھر بھاری وہ کا لوہےلگے۔ کرنے �نتظار کا مزدور کسی �ور گئے ہو کھڑے کر آ� پاس کے ٹکڑے �س کے لوہے دوست دونوں

�پنے وہ گویا ہوتا معلوم یوں تھی۔ رہی �ڑ� مضحکہ �نکا کر �چھل �چھل ساتھ کے جوتوں کے ر�ہگزروں جو تھا، پت لت میں کیچڑ سے وجہ کی بارش باز�ر�پنے غافل سے حقیقت �س وہ مگر ہیں۔ رہے گون�ھ سے پاؤں وقت �س وہ جسے ہیں تخلیق کی دگل و آ�ب �سی وہ کہ ہے رہی کہہ سے و�لوں رون�نے

تھے۔ رہے جا ہوئے �ٹھاتے ق�م جل� جل� �دھر �دھر ہوئے مسلتے کو سینے کے کیچڑ مصروف میں دھن کی دھن�وں کام دنیاوی

دکان��روں پیشہ ہم حریف �پنے لگائے تکیہ میں دکانوں ہوئی سجی کچھ �ور تھے مصروف میں کرنے طے کرنے سود� ساتھ کے گاہکوں �پنے دکان��ر کچھگھٹیا دیکر جھانسا کا قیمت کم �سے وہ �ور ہٹے سے وہاں گاہک کوئی کہ تھے منتظر کے وقت �س �ور تھے رہے دیکھ سے نگاہوں حاس��نہ طرف کی

دیں۔ کر فروخت مال

تھے مست میں خیال �پنے �پنے لوگ سب میں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باز�ر رہا کر �نتظار کا گاہکوں مریض �پنے فروش دو� �یک ہی ساتھ کے دکانوں کی منیاری �نسکے۔ کر مہیا سامان کا دلچسپی �نکی جو تھے رہے دیکھ ر�ہ کی مزدور �یسے �یک پرو� بے سے فکر دنیاوی کسی دوست دو یہ �ور

34

Page 35: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

سے نگاہوں خیز معنی طرف کی کیچڑ لٹکائے ٹکڑ� سا موٹا �یک کا ٹاٹ پر پشت �ور لپیٹے رسی گرد کے کمر مزدور �یک پر سرے آ�خری کے باز�ر پدورتھا۔ رہا آ� چلا ہو� دیکھتا

کام کا خنجروں نوک��ر میں پیٹ �سکے نے روٹیوں ہوئی نکلی تازہ سے تنور �ور دیگچیوں کی سالن ٹھٹکا، اا دفعت وہ کر پہنچ قریب کے دکان کی نانبائیکیا۔

سے رفتار �سی �ور بھری آ�ہ سرد گیا، رہ خاموش کر کاٹ کو لبوں خشک �پنے سے د�نتوں گرسنہ �ور کی نگاہ طرف کی جیب ہوئی پھٹی �پنی نے مزدور " معلوم " نہ میں دل کے �س مگر تھے رہے کر �نتظار کا مزدور آ�و�ز کن خوش دل کی کسی سے صبری بے بڑی کان �سکے وقت چلتے دیا۔ کر شروع چلنا

تھے۔ رہے لگا چکر خیالات کیا کیا

لئے" کے روٹی �یک صرف آ�ج ملی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش نہیں تک کوڑی �یک مگر ہیں آ�ئے کو بجنے چار �ب ہے ہوئی نصیب بمشکل روٹی سے دن تین دو " ہے۔ کارساز خ�� ۔۔نہیں جائے۔۔۔۔۔۔۔۔بھیک؟۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو نصیب کچھ ہی

سے خیال �س �ور لیا تھام د�من کا خ�� ہوئے سمجھتے خلاف کے شان کی مزدور �یک �سے مگر کیا خیال کا مانگنے بھیک کر آ� تنگ سے بھوک �سنےجائے۔ ہو نصیب کچھ �سے میں باز�ر دوسرے شای� کہ سے خیال �س لگا، کرنے طے کو باز�ر �س جل�ی جل�ی کر ہو مطمئن

دی۔ آ�و�ز ا� فور نے �نہوں چنانچہ تھا نہ پتلا دبلا مزدور دیکھا، بڑھاتے ق�م طرف �پنی سے تیزی کو مزدور �یک وقت بیک نے دوستوں دونوں

" مزدور۔"

لگا۔ پوچھنے سے �دب نہایت �ور آ�یا ہو� بھاگا گیا، مل پانی میں دھانوں سوکھے کے مزدور گویا ہی سنتے یہ

" حضور۔" جی

" گے؟" لو پیسے کتنے چلو، ساتھ ہمارے کر �ٹھا ٹکڑ� یہ کا لوہے دیکھو،

" ہوئی " پی�� سنکر لفظ کا مزدور جو چمک وہ کی آ�نکھوں �سکی ہی دیکھتے �ور دیکھا طرف کی ٹکڑے کم بھر بھاری کے لوہے کر جھک نے مزدورگئی۔ ہو غائب تھی،

تھا۔ وزنی کہیں سے �س سو�ل کا کرنے پی�� سامان لئے کے پوجا پیٹ �ور قحط کے روٹی مگر تھا زیادہ شبہ و شک بلا وزن

بولا۔ سے �ن گا، �ٹھائے ضرور �سے وہ کہ بع� کے کرنے عزم میں دل �ور دیکھا طرف کی لاٹھ آ�ہنی �س پھر بار �یک نے مزدور

" فرمائیں۔" حضور جو

" کر" دیکھ کرتب جسمانی شب کل جو کہا ہوئے دیکھتے سے حیرت طرف کی مزدور �سنے سے میں لڑکوں دو �ن گے؟ لو �ٹھا �کیلے وزن یہ تم یعنیتھا۔ آ�یا

" دیا۔" پلٹ رخ کا بات نے دوسرے ہو�؟ زیادہ سے کہاں بھلا وزن یہ گے؟ لو کیا بولو

" حضور۔" ہوگا جانا تک کہاں

" تک۔" نکڑ کے باز�ر دوسرے قریب، بہت

" دی�یجئے۔" آ�نے تین آ�پ ہے، زیادہ وزن

35

Page 36: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

" آ�نے۔" تین

" ہیں۔" نہیں تو زیادہ کچھ آ�نے تین ہاں، جی

" بھئی۔" ہے مناسب آ�نے دو

لوہے �سے �ور �تاری رسی سے کمر �پنی �سنے گیا۔ ہو ر�ضی مزدور ہی سوچتے یہ نوش، و خورد دن ساما لئے کے وقت دو یعنی پیسے، آ�ٹھ آ�نے۔۔۔۔۔۔۔ دوتھی۔ پر کمر �سکی سلاخ آ�ہنی وہ بع� کے جھٹکوں تین دو دیا، بان�ھ سے مضبوطی ساتھ کے ٹکڑے کے

دی کر پی�� طاقت معمولی غیر �یک پر طور عارضی میں جسم کے مزدور نے روٹی و�لی ملنے بع� کے عرصے تھوڑے مگر تھا برد�شت دل ناقاب و�قعی وزن گوآ�ئی۔ کر عود طاقت سنکر نام کا روٹی تھے، رہے ہو مردہ سے وجہ کی بھوک جو میں کان�ھوں �ن �ب تھی،

ہے۔ آ�تا نظر سامان کچھ لئے کے پیٹ �پنے �سے جب ہے، دیتا کر فر�موش مشقت بڑی سے بڑی �نسان گرسنہ

" کہا۔" ہوئے لیتے کام سے ہمت بڑی نے مزدور آ�ئیے۔

تھے۔ مسرور بہت وہ دیئے، مسکر� لب در زی �ور �ٹھائیں نگاہیں طرف کی دوسرے �یک نے دوستوں دونوں

" ہے۔" کرنا کام بھی �ور کچھ ہمیں بڑھاؤ، ق�م جل�ی ذر� مگر چلو،

ہے۔ سو�ر پر کان�ھوں �سکے موت کہ تھا خبر بے سے حقیقت �س وہ لیا، ہو پیچھے کے لڑکوں دو �ن مزدور

" سینڈو؟" و�لا کل تمھار� وہ ہے کہاں میاں، کیوں

" ہے۔" تعجب سخت و�قعی نے، مزدور �س ہے کردیا کمال

" دوں۔" رکھو� پر چھت بالائی کی گھر تمھارے کو ٹکڑے کے لوہے �س تو کہو �گر تعجب؟

" ہیں۔" نہیں طاقتور �تنے بھی پر ملنے غذ� �چھی لوگ ہم کہ ہے سو�ل مگر

" جانا۔" سو �ور کھانا فکری، بے تعلق؟ کیا سے دردی سر کی قسم �س �نھیں ہے۔ جاتی ہو نذر کی چیزوں علمی دیگر �ور کتابوں تو غذ� ہماری

" ہے۔" درست و�قعی

تھے۔ رہے کر �ظہار کا خیالات �پنے میں آ�پس غافل سے کمر خمی�ہ �سکی �ور بوجھ ہوئے ل�ے پر مزدور لڑکے

پھونک پھونک میں کیچڑ مزدور گو تھی۔ رہی کر �نتظار کا شکار �پنے ہوئی چھپی میں چھلکے کے کیلے قضا کی مزدور پر فاصلے کے ق�م سو سے وہاںلاٹھ بھاری �س کی لوہے میں زدن چشم �ور پھسلا پڑ�، پر چھلکے ق�م �سکا چلی۔ نہ پیش بھی �یک کی ت�بیر آ�گے کے تق�یر مگر تھا رہا رکھ ق�م کر

دیا۔ کر پیوست میں کیچڑ �سے نے

گیا۔ ہو آ�ز�د سے گرفت کی بھوک کیلیئے ہمیشہ �ور تڑپا دیکھا، طرف کی ٹکڑے سرد کے لوہے �ور کیچڑ سے نگاہوں مترحم نے مزدور

کس معلوم نہ ہوئی نکلی باہر آ�نکھیں تھا، ہو� کچلا نیچے کے سلاخ آ�ہنی سر کا مزدور دیکھا، کر مڑ پیچھے نے لڑکوں دونوں سنکر آ�و�ز کی دھماکےتھی۔ رہی ہو آ�غوش ہم ساتھ کے کیچڑ تہہ سی موٹی �یک کی خون تھیں۔ رہی دیکھ لگائے ٹکٹکی سمت

" گا۔" پڑے بننا گو�ہ کا حادثے �س مخو�ہ خو�ہ ہمیں چلیں، آ�ؤ چلو

36

Page 37: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

" گا۔۔۔۔۔۔۔۔لالچ۔" جائے �ٹھایا نہیں سے �س وزن یہ کہ تھا رہا کہہ ہی پہلے میں

گئے۔ ہو رو�نہ گھر �پنے ہوئے کاٹتے کو بھیڑ ہوئی ہوتی جمع گرد کے لاش کی مزدور لڑکے دونوں ہوئے کہتے یہ

ہوتے شکار کا موت کو مزدور نے �س کہ تھا کرنیو�لا طے بھاؤ کا گن�م اا غالب لئے میں ہاتھ چونگا کا ٹیلیفون شخص و�لا تون� بڑی �یک پر دکان و�لی سامنےلیا۔ کر منقطع گفتگو سلسلۂ کا ٹیلیفون کر بڑبڑ� ہوئے کرتے خیال منحوس کو حادثے �س �ور دیکھا

" ہے۔" کرتا مجبور کون پر �ٹھانے وزن ق�ر �س کو لوگوں �ن سامنے۔۔۔۔۔۔۔۔بھلا کے دکان میری تو تھا بھی مرنا کو کمبخت

دی۔ کر سپرد کے ڈ�کٹروں کیلیئے جر�حی دل عم کر �ٹھا لاش کی مزدور �ور آ�ئی گاڑی آ�ہنی کی �سپتال بع� کے دیر تھوڑی

نے آ�نسوؤں پڑے۔۔۔۔۔۔۔�ن چھلک آ�نسو میں آ�نکھوں �سکی دیکھا، ہوئے ملتے میں کیچڑ کو خون کے مزدور نے ٹکڑے �یک کے �بر پر آ�سمان دھن�لےدیا۔ دھو کو دھبوں کے خون �س پر سینے کے سڑک

کا چیز کس معلوم نہ ہو� چمٹا ساتھ کے دیو�ر جو ہے باقی قطرہ �یک صرف کا خون کے مزدور ہے، ہوئی پڑی کنارے �یک کے باز�ر تک �بھی لاٹھ آ�ہنیہے۔ رہا کر �نتظار سے آ�نکھوں خونیں �پنی

ء( 1935جنوری 5)

" خلق " و�ر ہفتہ �ول۔ دت �شاع

" عالمگیر " ثانی۔ دت �شاع

37

Page 38: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

شاعر دیوانہ

حکیم) دے۔ کر طاری خو�ب سنہر� پر دماغ �نسانی جو پر دیو�نے �س ہو رحمت تو جائے دیا کر �وجھل سے نگاہوں متجسس کی دنیا حق مق�س �گرگورکی(

ہوں بیوپاری کا آ�ہوں میں

ہے کام میر� شاعری کی لہو

ہو�ؤ مان�ہ کی چمن

کہ لو سمیٹ د�من �پنے

گیت آ�تشیں میرے

ہیں و�لے کرنے برپا تلاطم �یک میں سینوں ہوئے دبے

میرے بیان۔ دل تھی۔۔۔۔۔۔ناقاب دیو�نگی کی قسم �یک میں آ�و�ز گیا۔ ڈوب کر تھرتھر� لمحے چن� میں فضا کی باغ �ور �ٹھا طرح کی درد نغمہ بیباک یہ�پنی بچے چن� پر تختے کے گھاس قریب کے چبوترے سامنے �ٹھائیں۔ نگاہیں �دھر �دھر میں جستجو کی آ�و�ز نے میں گئی، ہو طاری کپکپی پر جسم

مصروف میں کھودنے زمین مالی نیچے کے درختوں کے نیم طرف بائیں تھے۔ بیٹھے گنو�ر تین دو ہی پاس تھے، محو میں کود کھیل ساتھ کے ماماؤںہوئی۔ بلن� پھر آ�و�ز ہوئی ڈوبی میں درد وہی کہ تھا ہی میں جستجو �سی �بھی میں تھا۔

ہوں گاتا گیت کا لاشوں �ن میں

ہے لیتا مستعار دسمبر سردی کی جن

آ�ہ ہوئی نکلی سے سینے میرے

ہے چلتی میں مہینے کے جون جو ہے پلو وہ

ہوں بیوپاری کا آ�ہوں میں

ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کام میر� شاعری کی لہو

جسم میرے وقت بیک لہریں گرم �ور سرد کہ لگا کرنے محسوس �یسا میں گئی، ہو طاری سے رقت �یک پر مجھ تھی، رہی آ� سے عقب کے کنوئیں آ�و�زپہلے سال کچھ سے آ�ج میں جس ہے رہی ہو بلن� سے قریب کے کنوئیں �س آ�و�ز کہ دیا کر خوفزدہ ق�ر کسی مجھے نے خیال �س ہیں۔ رہی لپٹ سے

لئے کے دیر تھوڑی گئی۔ کھچ تصویر �یک کی حادثے خونی کے باغ جلیانو�لہ میں دماغ میرے ہی ساتھ کے خیال �س تھا۔ ہو� لگا �نبار �یک کا لاشوںکو کان�ھوں �پنے گیا، لرز میں ہے۔ رہی گونج سے پکار چیخ کی لوگوں ہوئے بھاگتے �ور سنسناہٹ کی گولیوں فضا کی باغ کہ ہو� محسوس �یسا مجھے

کیا۔ رخ کا کنوئیں �ور �ٹھا میں ہوئے کرتے دور کو خوف �پنے سے عمل �س �ور دیکر جھٹکا سے زور

38

Page 39: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

کر پی�� آ�و�ز کی ٹوٹنے کے ہڈیوں ہوئی سوکھی سر�ہٹ سر کی پتوں خشک نیچے کے ق�موں میرے تھی، ہوئی چھائی خاموشی پر�سر� �یک پر باغ سارےکہ تھا ہوتا معلوم یہی مجھے ق�م ہر تھا۔ دیا کر پی�� نے آ�و�ز �س جو سکا کر نہ دور خوف معلوم نا وہ سے دل �پنے میں باوجود کے کوشش تھی۔ رہی�ور کئے تیز ق�م �پنے نے میں یکایک ہیں۔ رہی ٹوٹ نیچے کے پاؤں میرے ہڈیاں بوسی�ہ جنکی ہیں ہوئی پڑی لاشیں شمار بے پر بستر سبز کے گھاس

تھا۔ ہو� بنا گرد �رد کے کنوئیں جو گیا بیٹھ پر چبوترے �س سے دل ہوئے دھڑکتے

تھا۔ رہا گونج شعر سا عجیب یہ بار بار میں دماغ میرے

ہوں بیوپاری کا آ�ہوں میں

ہے کام میر� شاعری کی لہو

ہوئی منڈھی جالی چوکور پر جن تھے نشان کے گولیوں پر دیو�ر و�لی ساتھ کی پھاٹک چھوٹے سامنے میرے تھا۔ نہ موجود متنفس کوئی قریب کے کنوئیںتھے، رہے ہو معلوم آ�نکھیں خونیں دو تھے بالمقابل عین کے نگاہوں میری جو نشان دو وہ �ب مگر تھا چکا دیکھ مرتبہ بیسیوں کو نشانوں �ن میں تھی۔

میں گئیں۔ رہ کر جم پر سور�خوں نما چشم دو �ن نگاہیں میری �ر�دہ بلا ہوں۔ رہی دیکھ لگائے ٹکٹکی کو چیز مرئی غیر کسی دور دور۔۔۔۔۔۔۔بہت جونے چاپ کی ق�موں بھاری کے کسی پر روش و�لی پاس اا دفعت کہ رہا دیکھتا تک عرصے کتنے معلوم خ�� ہو� کھویا میں خیالات مختلف طرف �نکی

دونوں �سکے تھا، رہا بڑھ طرف میری جھکائے سر آ�دمی ق� در�ز �یک سے جھاڑیوں کی گلاب دیکھا، کر مڑ نے میں دیا۔ کر بی��ر سے خو�ب �س مجھےگردن �ور ٹھٹکا یکایک وہ کر پہنچ قریب کے کنوئیں تھا۔ رہا گنگنا کچھ لب در زی وہ ہوئے چلتے تھے، ہوئے ٹھنسے میں جیبوں کی کوٹ بڑے �سکے ہاتھ

کہا۔ ہوئے دیکھتے طرف میری کر �ٹھا

" پیؤنگا۔" پانی میں

کہا۔ سے �جنبی �س ہوئے ہلاتے ہینڈل کا پمپ �ور �ٹھا سے پر چبوترے ا� فور میں

" آ�ئیے۔"

سے دل ہوئے دھڑکتے نے میں کہ تھا ہی کو چلنے و�پس �ور پونچھا منہ سے آ�ستین میلی کی کوٹ �پنے نے �س بع� کے چکنے پی پانی طرح �چھیکیا۔ دریافت

" تھے؟" رہے گا ہی آ�پ �بھی �بھی کیا

" نمایاں" پر طور معمولی غیر ڈورے سرخ میں جن آ�نکھیں �سکی �ٹھایا، پھر سر �پنا نے �س ہوئے کہتے یہ ہیں؟ رہے کر دریافت کیوں آ�پ ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔مگرگیا۔ گھبر� میں تھیں۔ رہی ہو معلوم ہوئی لیتی جائزہ کا و�رد�ت قلبی میری تھے،

" ہیں۔" خوفناک سخت کریں۔۔۔۔۔۔۔یہ گایا نہ گیت �یسے آ�پ

ہے۔" معمور تپش کی آ�ہوں ہوئی رکی �ور جلن کی زخموں ہوئے رستے میں پسر ہر کے ر�گ میرے جبکہ چاہیئے ہونا ناک ہیبت �نہیں خوفناک۔۔۔۔۔۔۔نہیں، " سے �نگلیوں کو ٹھوڑی نوکیلی �پنی نے �س سکیں۔ نہیں چاٹ طرح �چھی کو روح ہوئی برفائی کی آ�پ زبانیں کی شعلوں میرے کہ ہے ہوتا معلوم

ہے۔ ہوتا پی�� سے گز�رنے سلاخ ہوئی تپتی میں ڈھیلے کے برف جو تھے مشابہ کے شور �س �لفاظ یہ کہا۔ ہوئے کھجلاتے

" ہیں۔" رہے ڈر� مجھے آ�پ

آ�پ " کہ نہیں معلوم یہ کو آ�پ کیا ہیں۔ رہے ڈر آ�پ ہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہا، ہا، ہو�۔ بلن� شور نما قہقہہ �یک سے حلق کے عجیب دد مر �س سے کہنے یہ میرےزیادہ سے گفتگو میری حقیقت یہ تھی، ہوئی لتھڑی سے خون کے �نسانوں گناہ بے پہلے عرصہ کچھ سے آ�ج جو ہیں کھڑے پر منڈیر �س وقت �س

" ہے۔ خیز وحشت

39

Page 40: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

بولا۔ پھر وہ کر دیکھ خوفزدہ مجھے تھا۔ کھڑ� پر منڈیر خونیں و�قعی میں گئے، ڈگمگا ق�م میرے سنکر یہ

" دیکھو۔" بھی تم آ�ؤ ہیں، رہی آ� نظر تڑپتی بون�یں سرخ مجھے میں ذرے ذرے کے خاک �س ہوتا۔ نہیں فنا کبھی لہو ہو� بہا سے رگوں ہوئی تھر�ئی

�س اا دفعت تھا، رہا کر دھک دھک دل میر� گیا۔ ہو کھڑ� پاس �سکے �ور آ�یا �تر نیچے سے پر کنوئیں میں دیں۔ گاڑ پر زمین نظریں �پنی نے �س ہوئے کہتے یہ " ہے۔ " مشکل بہت گے۔۔۔۔۔۔یہ سکو سمجھ نہیں �سے تم مگر کہا۔ میں لہجے دھیمے بڑے �ور رکھا پر کان�ھے میرے ہاتھ �پنا نے

�س تھا۔ ہو� و�قع میں باغ �س قبل سال سولہ سے آ�ج جو تھا رہا دلا یاد کی حادثے خونی �س مجھے اا غالب وہ تھا، رہا سمجھ بخوبی مطلب �سکا میںکہ تھا معلوم ضرور �تنا مجھے لیکن تھے باقی نقوش دھن�لے بہت �سکے میں دماغ میرے لئے �س تھی کی سال پانچ اا قریب عمر میری وقت کے حادثے

جنہوں تھا �حتر�م بہت کا لوگوں �ن میں دل میرے تھیں۔ �مو�ت ہز�ر دو اا قریب نتیجہ جسکا تھیں گئی برسائی گولیاں پر جلسے �یک کے عو�م میں باغ �سخاص کوئی �ور متعلق کے حادثے �س میں دل میرے علاوہ کے �حتر�م �س بس تھیں دی کر قربان جانیں �پنی خاطر کی آ�ز�دی جذبۂ �ور وطن در ماد �پنی نےرہی برس تڑ تڑ گولیاں کہ لگا کرنے محسوس �یسا میں دیا، کر برپا سا ہیجان �یک میں سینے میرے نے گفتگو کی عجیب دد مر �س آ�ج مگر تھا نہ جذبہ

�ٹھا۔ چلا میں تحت کے �ثر �س ہیں۔ رہے مر کر گر پر دوسرے �یک ہوئے بھاگتے �دھر �دھر مارے کے وحشت لوگ سے بہت �ور ہیں

" ہے۔" بھیانک �ور خوفناک کہیں سے �س ظلم مگر ہے بھیانک موت ہوں۔ سمجھتا کچھ سب میں ہوں، سمجھتا میں

غیر گئی۔ چھا سی مردنی �یک پر مجھ ہے، گیا رہ خالی بالکل سینہ میر� �ور ہے ڈ�لا کہہ کچھ سب نے میں کہ ہو� محسوس �یسا مجھے ہوئے کہتے یہکہا۔ میں آ�و�ز ہوئی تھر�ئی �ور لیا پکڑ کو کوٹ کے شخص �س نے میں پر طور �ر�دی

" ہیں؟" کون آ�پ ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔ کون آ�پ

" شاعر۔" دیو�نہ بیوپاری۔۔۔۔۔۔۔�یک کا آ�ہوں

" �س" میں دماغ میرے وقت �س گیا۔ بیٹھ پر چبوترے کے کنوئیں میں ہوئے گنگناتے لب در زی �لفاظ کے �س شاعر۔ دیو�نہ بیوپاری۔۔۔۔۔۔۔�یک کا آ�ہوںطرح کی دیووں ناک ہیبت درخت دو کے سپی�ے سامنے �ٹھایا، سر ہو� جھکا �پنا نے میں بع� کے دیر تھوڑی تھا۔ رہا گونج گیت کا شاعر دیو�نے

�یک کی دیو�ر و�لی سامنے کھڑ� خاموش شاعر دیو�نہ تھی۔ رہی بکھیر آ�ہیں ہو� میں جھاڑیوں د�ر خار کی گلاب �ور چنبیلی ہی پاس تھے، رہے لے �نگڑ�ئیاںخشک �پنے وہ بع� کے رہنے خاموش دیر کچھ تھا۔ رہا ہو معلوم سا سایہ �یک وہ میں دھن�لکے خاکستری کے شام تھا۔ ہوئے جمائے نگاہیں پر کھڑکی

گنگنایا۔ ہوئے کرتے کنگھی سے �نگلیوں کو بالوں

" خوفناک۔" طرح کی نشانات کے پیروں کے �نسان جنگلی میں صحر� ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کسی حقیقت خوفناک کچھ سب یہ آ�ہ

" کہا۔" کیا

تھے۔ کئے �د� میں منہ ہی منہ نے �س جو تھا سکا نہ سن طرح �چھی کو �لفاظ �ن میں

" گیا۔" بیٹھ پر چبوترے کر آ� پاس میرے وہ ہوئے کہتے یہ نہیں۔ بھی کچھ

" تھے۔" رہے گنگنا آ�پ

نکلنے " باہر �لفاظ ہوئے کئے قی� میں سینے کہا۔ ہوئے ملتے سے زور زور میں آ�پس کو ہاتھوں �ور سکیڑیں میں �ن��ز عجیب �یک آ�نکھیں �پنی نے �س پر �س " کا گفتگو ہی ساتھ پھر ہے۔ ہوتی مستور میں پہنائیوں کی دل ہمارے جو ہے کرنا گفتگو سے �لوہیت �س بولنا سے آ�پ �پنے ہیں۔ ہوتے مضطرب لئے کے

" ہے؟ " دیکھا کو کھڑکی �س نے آ�پ کیا کہا۔ ہوئے ب�لتے رخ

کھڑکی سی چھوٹی دیکھا، جانب �س نے میں تھا۔ رہا دیکھ بان�ھے ٹکٹکی پہلے لمحہ چن� وہ جسے �ٹھائی طرف کی کھڑکی �س �نگلی �پنی نے �ستھی۔ ہوتی معلوم ہوئی سوئی میں �ینٹوں خستہ کی دیو�ر سامنے جو تھی

40

Page 41: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

" کہا۔" سے �س نے میں ہے؟ رہا لٹک نیچے ڈنڈ� �یک جسکا کھڑکی یہ

ہلاک" �سلئے صرف کو جس ہو رہے دیکھ نہیں چھینٹے کے خون کے لڑکی معصوم پ�س پر د�س تم کیا ہے۔ رہا لٹک نیچے ڈنڈ� �یک جسکا یہی ہاں،میرے لائیگا۔ رنگ ضرور خون کا بہن �س تمھاری عزیز، تھا۔۔۔۔۔۔۔میرے لینا �متحان کا پرو�ز دت قو کی تیروں �پنے کو �ستب��د دش ترک کہ تھا گیا کیا

سینۂ ہوگا، ہنگامہ �یک گے۔ دیں کر تار تار کو د�من کے سکون یہ ہیں، چیخیں دل�وز �سکی �ور پھڑپھڑ�ہٹ کی روح سن کم �س میں بم و زیر کے گیتوںمعلوم مجھے ہوگا؟۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کیا ہوگا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر کیا گی۔۔۔۔۔۔پھر جائے ہوتی تر بلن� سے بلن� آ�و�ز لگام بے میری گا۔ جائے ہو شق گیتی

" ہے۔ رہی سلگ آ�گ زبردست کتنی میں سینے �س دیکھو آ�ؤ نہیں۔۔۔۔۔۔

پر طور معمولی غیر بھی سینہ �سکا طرح کی ہاتھوں �سکے دیا۔ رکھ پر سینے �پنے کر جا لے �ن�ر کے کوٹ �سے �ور پکڑ� ہاتھ میر� نے �س ہوئے کہتے یہکہا۔ میں آ�و�ز ہوئی کانپتی �ور لیا ہٹا ہاتھ �پنا نے میں تھے۔ ہوئے �بھرے بہت ڈورے کے آ�نکھوں �سکی وقت �س تھا۔ گرم

" آ�ؤں؟" چھوڑ گھر کو آ�پ میں کیا ہیں، علیل آ�پ

" " کو" آ�گ ہوئی دبی �س میں ہے۔ رہا لے سانس گرم �ن�ر میرے جو ہے �نتقام یہ ہلایا۔ کو سر �پنے سے زور نے �س ہوں۔ نہیں علیل میں عزیز میرے نہیں " جائے۔ ہو تب�یل میں شعلوں یہ کہ ہوں رہا دے ہو� سے د�من کے گیتوں �پنے

" ہے۔" �ن�یشہ کا جانے ہو بخار زیادہ کو آ�پ میں سردی �س ہیں، گرم بہت ہاتھ کے آ�پ ہے، خر�ب اہ و�قعت طبیعت کی آ�پ مگر ہے درست یہ

ہے۔ بخار کافی �سے کہ تھے رہے کر ظاہر پر طور صاف ڈورے سرخ ہوئے �بھرے میں آ�نکھوں �ور گرمی معمولی غیر کی ہاتھوں �سکے

کہا۔ ہوئے دیکھتے سے غور بڑے طرف میری کر ٹھونس ہاتھ میں جیبوں �ور کی نہ پرو� کوئی کی کہنے میرے نے �س

کیا" تھا۔ چاہیئے آ�نا نکل باہر کر �بل �نہیں کہ ہے دیکھا سماں �یسا نے آ�نکھوں �ن عزیز میرے دے۔ نہ دھو�ں �ور جلے لکڑی کہ ہے سکتا ہو کیونکر یہکے آ�ہوں میری مز�ج نازک �یسے آ�پ جایئے ہوتے، علیل طرح میری لوگ سب کہ کاش ہا۔۔۔۔۔۔۔علالت، ہا، ہوں۔۔۔۔۔۔ہا، علیل میں کہ تھے رہے کہہ

" سکتے۔ ہو نہیں خری��ر

" مگر۔۔۔۔۔۔۔۔"

" " تبسموں" پھیکے �ور قہقہوں کھوکھلے جو ہو گئے رہ باقی لوگ تم صرف میں باز�ر کے �نسانیت لگا۔ چلانے میں جوش اہ دفعت وہ نہیں۔ کچھ وگر مگرسماعت خو�بی�ہ تمھاری مگر ہیں رہی ٹکر� سے کانوں تمھارے چیخیں شگاف فلک کی بہنوں �ور بھائیوں مظلوم تمھارے سے زمانے �یک ہو۔ خری��ر کے

" گی۔ دے بنا حساس �نہیں یہ دو، آ�نچ کی آ�ہوں میری کو روحوں �پنی آ�ؤ ہو�۔ نہیں پی�� �رتعاش میں

میں �وقات بیشتر ہیں۔ کیوں مضطرب و پریشان ق�ر �س خیالات �سکے �ور ہے کیا چاہتا وہ کہ تھا حیر�ن میں تھا، رہا سن سے غور کو گفتگو �سکی میںپچیس کوئی یہی عمر �سکی تھی۔ دیو�نگی کی قسم عجیب �یک میں لہجے مگر تھی ضرور معنی با گفتگو �سکی ہے۔ پاگل وہ شای� کہ کیا خیال نے

ہوتا معلوم کہ تھے ہوئے �گے پر چہرے کے �س میں �ن��ز �س کچھ تھے گئے نہ مونڈے سے عرصے �یک جو بال کے ڈ�ڑھی ہوگی، قریب کے برس تیسجن بڑی آ�نکھیں نوکیلی، ناک ہو�، �بھر� طرف کی باہر ماتھا تھے، ہوئے پچکے کو �ن�ر گال ہیں۔ ہوئی چمٹی چیونٹیاں سی بہت پر روٹی خشک کسی تھا

شاعر، دیو�نہ �یک تھا، رہا ہو معلوم شاعر و�قعی وہ میں کوٹ بھورے سے بڑے ہجوم۔ �یک کا بالوں آ�لود خاک �ور خشک پر سر تھی، ٹپکتی وحشت سےتھا۔ کر�یا متعارف کو آ�پ �پنے سے نام �س خود نے �س کہ جیسا

تھے، جلتے ملتے تک ح� بہت سے خیالات کے شاعر دیو�نے خیالات کے جماعت �س تھا، پڑھا حال کا جماعت �یک میں �خباروں �وقات �کثر نے میںہے۔ رکن کا جماعت �سی بھی وہ شای� کہ کیا خیال نے میں

" ہیں۔" ہوتے معلوم �نقلابی آ�پ

ہوں، " �نقلابی میں ہوں، پکارتا کر چڑھ چڑھ پر چھتوں کی کوٹھوں تو میں میاں ہے، کیا �نکشاف بڑ� بہت یہ نے آ�پ پڑ�۔ ہنس کر کھلا کھل وہ پر �س " ہے۔ کیا �نکشاف بڑ� بہت و�قعی نے آ�پ ہے، پڑتا بن سے جس لے روک مجھے ہوں، �نقلابی میں

41

Page 42: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

ہوگیا۔ سنجی�ہ �چانک وہ ہوئے ہنستے کر کہہ یہ

�ٹھے،" چلا پر غلطی ہر �ور �نصافی نا ہر جو ہے وہ �نقلابی ہو۔ آ�شنا نا بھی تم سے معانی حقیقی کے �نقلاب طرح کی علم طالب �یک کے سکول�ور بیمار �یک کی خانے قصاب کے سماج �نقلابی، ہو۔ گیت مجسم �یک کا وقتوں سب �ور زبانوں سب آ�سمانوں سب زمینوں سب جب ہے وہ �نقلابییہ عزیز، میرے ہے۔ سکتا کر و� درو�زے کے جنت �رضی ہی سے ضرب �یک کی ہتھوڑے آ�ہنی �پنے جو من� تنو ہے مزدور �یک وہ نہیں، بھیڑ مری فاقوںروک کو �س �ب جو ہے کون ہیں، رہی بڑھ لہریں �سکی ہے، موجود پر یہاں یہ ہے۔ حقیقت ٹھوس �یک �نقلاب نہیں، زمانہ کا نظریوں �ور خو�بوں منطق،

" گی۔ سکیں رک نہ پر بان�ھنے بن� یہ ہے سکتا

غیر کسی روح میری کہ کیا محسوس نے میں ہو۔ رہا کر تب�یل شکل �سکی کر پڑ پر لوہے سرخ جو تھا مانن� کی ضرب �س کی ہتھوڑے لفظ ہر �سکاہے۔ رہی کر سج�ہ کو چیز مرئی

�لفاظ کچھ سے دل میرے �چانک تھا۔ رہا ہو آ�باد جہان نیا �یک میں سینے میرے تھے، رہے کپکپا درخت کے نیم تھی، رہی بڑھ بت�ریج تاریکی کی شامگئے۔ نکل باہر سے لبوں �ور �ٹھے

" ہوں۔" �نقلابی بھی میں تو ہے یہی �نقلاب �گر

کہا۔ ہوئے رکھتے ہاتھ پر کان�ھے میرے �ور �ٹھایا سر �پنا نے شاعر

وہ" آ�ہ ہوگی، محسوس ضرورت بہت کی کھاد سرخ �س لیے کے کھیت کے آ�ز�دی ہمیں کہ چھوڑو رکھ کر نکال میں طشتری کسی کو خون �پنے پھر تو " گی۔ لے کر �ختیار رنگ کا تبسم زردی کی آ�ہوں میری جب ہوگا خوشگو�ر ق�ر کس وقت

ہیں " مطمئن سے حال جو ہیں موجود لوگ �یسے میں دنیا �س لگا۔ کہنے لیکر میں ہاتھ �پنے کو ہاتھ میرے �ور �ٹھا سے منڈیر کی کنوئیں وہ کر کہہ یہمناظر بخش جاں کے مستقبل ہے۔ گیا پتھر� �حساس �نکا کرنا، سعی کی رہنے دور ہمیشہ سے لوگوں �یسے تو ہے منظور بالی�گی کی روح �پنی تمھیں �گر

" ہوں۔ چلتا میں �ب گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔�چھا رہیں �وجھل ہمیشہ سے نگاہوں �نکی

گیا۔ ہو غائب میں جھنڈ کے جھاڑیوں ہو� �ٹھاتا ق�م لمبے وہ کرتا بات �ور کوئی سے �س میں کہ �سکے پیشتر �ور دبایا ہاتھ میر� سے پیار بڑے نے �س

' ر�نی ' کی ر�ت آ�و�ز کی شاعر �س �چانک کہ رہا غرق میں خیالات �پنے عرصہ کتنا معلوم خ�� ہوئے جھکائے سر میں تھی، طاری خاموشی پر فضا کی باغتھا۔ رہا گا میں گوشے دوسرے کے باغ وہ پہنچی۔ تک کانوں میرے ہوئی گھلی میں خوشبو دلنو�ز کی

ہے رہی دیکھ سے نظروں ہوئی للچائی طرف کی ستاروں زمین

دو جڑ پر سینے ننگے �سکے کو نگینوں �ن �ور �ٹھو

مارو چیرو، کھودو، ڈھاؤ،

ہے؟ نہیں قوت میں بازؤں تمھارے کیا معمارو، کے دنیا نئی

ہوں بیوپاری کا آ�ہوں میں

ہے کام میر� شاعری کی لہو

تھا۔ آ�یا سے دیر بہت گھر روز �س میں کہ ہے بیان کا و�ل�ہ نہیں۔ یاد اا قطع مجھے یہ رہا بیٹھا تک عرصے کتنے میں باغ میں پر ہونے ختم گیت

42

Page 43: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

43

Page 44: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

چوری

" �ستخو�نی" �پنے بیٹھا پر ٹاٹ جو سے آ�دمی بوڑھے �س �ور گئے بیٹھ کر بنا حلقہ گرد کے �لاؤ لڑکے چار تین کے سکول سنائیے۔ کہانی کوئی جی بابالگے۔ کہنے تھا، ہوئے بڑھائے طرف کی �لاؤ خاطر کی تاپنے آ�گ ہاتھ

تھا۔ ہو� جھکا کو نیچے سے وجہ کی لاغری کی گردن جو �ٹھایا سر بھاری �پنا تھا، غرق میں سوچ گہری کسی اا غالب جو نے معمر دد مر

" مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ہوں، کہانی �یک خود کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں

نہ قابل �س سمجھ جنکی تھا چاہتا نہیں کرنا �د� سامنے کے لڑکوں کو جملہ �س وہ شای� بڑبڑ�ئے، ہی میں منہ پوپلے �پنے نے �س �لفاظ کے بع� کے �سسکیں۔ کر حل نکات فلسفیانہ کے قسم �س وہ کہ تھی

�یک پر چہروں معصوم کے لڑکوں روشنی عنابی کی شعلوں تھے۔ رہے کر پر کو شکم آ�تشیں کے �لاؤ کر جل جل ساتھ کے شور �یک ٹکڑے کے لکڑیدرختوں تھیں۔ رہی تک منہ کا شعلوں بلن� سر میں حیرت کر �لٹ �لٹ نقاب کی ر�کھ سپی� چنگاریاں ننھی ننھی تھی۔ رہی کر رقص میں �ن��ز عجیب

گرم کی کوٹھڑی جھونکے کے ہو� سرد تھے۔ رہے کود لئے کے ہمیشہ میں قبر �فشاں شعلہ �س ہوئے کرتے مقابلہ کا آ�گ سے دلیری بڑی پتے خشک کےتھا۔ رہا بہا آ�نسو پر روشنی کمزور �پنی دیا �یک کا مٹی میں کونے تھے، رہے ہو بغلگیر سے گرمجوشی بڑی ساتھ �سکے ہوئے کرتے �ستقبال کا فضا

" کہا۔" کر �ٹھا نگاہیں طرف کی لڑکوں سے میں روشنی کی �لاؤ نے آ�دمی بوڑھے گا۔ سناؤں کل کہانی، روز کہانی۔۔۔۔۔۔ہر

کہہ میں آ�نکھوں ہی آ�نکھوں وہ گویا لگے تکنے منہ کا دوسرے �یک وہ میں عالم کے �می�ی نا گئی، چھا �فسردگی پر چہروں ہوئے تمتمائے کے لڑکوںہوگا۔ سونا بغیر سنے کہانی ر�ت آ�ج تھے، رہے

بولا۔ میں آ�و�ز بلن� کر سرک تر قریب کے �لاؤ تھا، ہوتا معلوم ذہین �ور ہوشیار بہت نسبت کی دوسروں جو لڑکا �یک سے میں �ن یکایک

" تھا۔" جاتا بھول کہا �پنا ہمیشہ جو نہیں یاد �نجام کا حام� و�لے کل کو آ�پ کیا ہے، نہیں درست کرنا خلافی وع�ہ �ور تھا کیا وع�ہ نے آ�پ کل مگر

" کی" لڑکے دلیر �س وہ بع� دیر تھوڑی ہے۔ نادم پر بھول �پنی وہ جیسے لیا جھکا سر �پنا ہوئے کہتے یہ نے آ�دمی بوڑھے تھا۔ گیا بھول درست۔۔۔۔۔میںلینے " کر یاد مجھے ٹھہرو سناؤں، کہانی کونسی میں مگر دو، کر معاف ہے گئی ہو غلطی سے مجھ بچے میرے مسکر�یا۔ کے کر خیال کا أ�ت جر

گیا۔" ہو غرق میں سوچ گہری کر جھکا سر وہ ہوئے کہتے یہ دو۔

سکیں۔ کر �صلاح کی دماغ و دل �نکے جو تھا کرتا سنایا کہانیاں وہی کی بچوں وہ تھی، نفرت سخت سے د�ستانوں یعنی لا کی پریوں �ور جن �سےتار بوسی�ہ کے پیری دط برب �پنے وہ وقت �س مگر تھے پڑھے سے کتابوں یا تھے سنے میں طفلی دم �یا �پنے نے �س جو تھے یاد قصے فضول سے بہت �سے

�ٹھے۔ جاگ ر�گ خو�بی�ہ کوئی میں �ن شای� کہ تھا رہا چھیڑ

کی بی� پر چر�نے کتاب جسے تھے رہے کر ذکر کا لڑکے کسی وہ اا غالب تھے، رہے کر گفتگو آ�ہستہ آ�ہستہ میں آ�پس کر دیکھ خاموش کو جی بابا لڑکےکہا۔ میں آ�و�ز بلن� نے کسی سے میں �ن میں باتوں باتوں تھی۔ ملی سز�

" تھی۔" ملی نہ وز� سز� �سے مگر تھی لی چر� کتاب میری تو بھی نے لڑکے کے جی ماسٹر

" سر" سپی� �پنا نے �س دیا۔ جگا کو و�قعے �یک میں یاد خفتہ کی بوڑھے تھے، گئے کئے �د� میں آ�و�ز پوری جو نے لفظوں چار �ن تھی۔ لی چر� کتابساتھ مگر ہوئی پی�� چمک میں آ�نکھوں �سکی کیلیئے لمحے �یک پایا۔ ہوئے لیتے �نگڑ�ئیاں کو د�ستان کردہ فر�موش �س سامنے کے آ�نکھوں �پنی �ور �ٹھایا

تب�ل و تغیر کے چہرے �سکے کیا۔ قریب کے �لاؤ کر دے جنبش کو جسم نحیف �پنے نے �س میں حالت کی گئی۔۔۔۔۔۔�ضطر�ب ہو غرق وہیں ہیہے۔ رہا کر محسوس تکلیف بہت کے کر یاد دوبارہ کو و�قعے کسی وہ کہ تھا عیاں پر طور صاف سے

44

Page 45: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

بکھیرے زلفیں سیاہ ر�ت باہر کے کوٹھڑی تھا۔ رہا رو کو نصیبوں جلے �پنے طرح �سی تھی۔۔۔۔۔دیا رہی ناچ پر چہروں کے لڑکوں ب�ستور روشنی کی �لاؤ�نکی کر جھک چھت تھے، مشغول میں کرنے باتیں کی سکول میں آ�پس لڑکے تھی۔ رہی دیکھ کر پھاڑ پھاڑ آ�نکھیں تاریک �پنی طرف کی روشنی

تھی۔ رہی سن کر لگا کان کو باتوں معصوم

" گا۔ " سناؤں کہانی �پنی میں آ�ج بچو، کہا۔ ہوئے کرتے �ر�دہ آ�خر نے بوڑھے اا دفعت

گئیں۔۔۔۔۔۔�یک ہو خاموش کر �بھر پر جگہ �پنی ساتھ کے شور �یک لکڑیاں ہوئی چیختی کی �لاؤ گئے۔ ہو گوش تن ہمہ کر چھوڑ گفتگو �پنی ا� فور لڑکےرہا۔ طاری سکوت مکمل پر فضا کیلیئے لمحے

" گئے۔" بیٹھ سے خاموشی قریب کے آ�گ کر سرک باقی کہا۔ کر ہو خوش نے لڑکے �یک گے؟ سنائیں کہانی �پنی

" کے" دیر تھوڑی کیا۔ شروع دیکھنا میں تاریکی باہر کے کوٹھڑی سے میں بھوؤں گھنی ہوئی جھکی �پنی نے آ�دمی بوڑھے کر کہہ یہ کہانی۔ �پنی ہاں، " گا۔ " سناؤں د�ستان کی چوری پہلی �پنی تمھیں آ�ج میں ہو�۔ مخاطب سے لڑکوں پھر وہ بع�

ہیں۔ رہے کرتے بھی چوری میں زمانے کسی جی بابا کہ تھا نہ بھی گمان و وہم یہ �صل در �نہیں لگے، دیکھنے منہ کا دوسرے �یک سے حیرت لڑکےہیں۔ کرتے کیا نصیحت کیلیئے بچنے سے کاموں برے �نہیں وقت ہر جو جی بابا

" تھا؟ " کیا �رتکاب کا چوری و�قعی نے آ�پ کیا مگر سکا۔ چھپا نہ حیر�نی �پنی تھا دلیر میں سب �ن جو لڑکا

" و�قعی"

" تھے؟" کرتے پڑھا میں جماعت کونسی وقت �س آ�پ

" میں" نویں

�سکی تھا۔ دوگنا میں عمر سے �س وہ تھا، رہا پا تعلیم میں جماعت نویں جو آ�یا خیال کا بھائی �پنے �سے گئی، بڑھ بھی �ور حیرت کی لڑکے سنکر یہکا عمر �س کہ تھا ممکن کیونکر یہ پھر تھا۔ کرتا کیا نصیحتیں وقت ہر �سے �ور تھا ہو� پڑھا کتابیں کئی کی �نگریزی وہ تھی، زیادہ کہیں سے �س تعلیم

کیا۔ سو�ل پھر نے �س چنانچہ سکی، کر حل نہ کو معمے �س عقل کرے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔�سکی چوری لڑکا لکھا پڑھا �چھا �ور لڑکا

" کی؟" کیوں چوری نے آ�پ

جو�ب �سکا بظاہر کیا؟ کیوں نے �س کام فلاں کہ تھا سکتا دے جو�ب کیا �سکا وہ آ�خر گھبر�یا، بہت کیلیئے دیر تھوڑی بوڑھا کر دیکھ سو�ل مشکل یہ " آ�یا۔ " خیال یہی میں دماغ وقت �س کہ لیئے �س تھا سکتا ہو یہی

دت بذ� وہ کہ لیئے �س جائے، دی کر بیان عن و من د�ستان تمام کہ کیا خیال بہتر یہی کر ہو نہ مطمئن سے �س مگر سوچا جو�ب یہی میں دل نے بوڑھےہے۔ جو�ب آ�سان سے سب کا سو�ل �س خود

" ہوں۔" و�لا سنانے تمھیں جو ہے کہانی میری جو�ب �سکا

" سنائیے۔"

کنگھی سے �نگلیوں کو بالوں سپی� �پنے سامنے کے �لاؤ جو گئے، بیٹھ کر جم پر جگہ �پنی �پنی کیلیئے سننے حال کا چوری کی آ�دمی بوڑھے �س لڑکےتھے۔ کرتے خیال آ�دمی بڑ� بہت �یک وہ جسے �ور تھا رہا کر

بولا۔ کے کر فر�ہم ٹکڑے منتشر تمام کے و�قعے ہوئے بھولے �س پھر رہا پھیرتا �نگلیاں میں بالوں �پنے خاموش تک عرصے کچھ معمر دد مر

45

Page 46: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

سب" میں زن�گی میری ہے۔ رہتا نادم عمر تمام وہ پر جس ہے کرتا ضرور حرکت �یسی کوئی نہ کوئی میں زن�گی �پنی چھوٹا، یا ہو بڑ� وہ خو�ہ شخص ہر " ہے۔ چوری کی کتاب �یک فعل بر� سے

سے تب�یلی کی چہرے �سکے گئیں۔ پڑ دھن�لی تھیں، رہتی چمکتی میں �ن��ز دل ناقاب �یک ہمیشہ جو آ�نکھیں �سکی گیا، رک وہ کر پہنچ تک یہاںہو�۔ گویا پھر وہ بع� کے توقف کے لمحات چن� ہے۔ رہا کر سامنا کا تکلیف ذہنی زبردست ہوئے کرتے بیان کو و�قعے �س وہ کہ تھا ظاہر صاف

میں" جماعت نویں میں جب ہے ذکر کا زمانے �س یہ چر�ئی۔ سے دکان کی فروش کتب �یک نے میں جو ہے چوری کی کتاب فعل مکروہ سے سبدوستوں تھا۔ خبط تھا۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں شوق کا پڑھنے ناول یا �فسانے مجھے ہے، شوق کا سننے کہانی تمھیں �ب کہ جیسا پر طور ق�رتی تھا۔ رہا پا تعلیم

فضول یا د�ستانیں معنی بے کی محبت و عشق اا عموم کتابیں وہ تھا۔ کرتا کیا مطالعہ ضرور کتاب �یک نہ �یک ہفتے ہر میں کر خری� خود یا کر مانگ سےتھے۔ کرتے ہو� قصے جاسوسی

�یسا گز ہر مجھے وہ تو ہوتا معلوم �نہیں �گر تھی، نہ خبر کوئی کی حرکت �س میری کو و�ل�ین میرے تھا، کرتا پڑھا کر چھپ چھپ ہمیشہ میں کتابیں یہچنانچہ تھا، غافل سے نقصان مہلک �نکے میں ہیں۔ ہوتی دہ نقصان بہت کیلیئے لڑکے کے سکول کتابیں کی قسم �س کہ لیئے �س دیتے، کرنے نہ

" گیا۔ پکڑ� �ور کی چوری نے پڑ�۔۔۔۔۔۔۔میں بھگتنا نتیجہ �سکا مجھے

" کہا۔" کر ہو زدہ حیرت نے لڑکے �یک گئے؟ پکڑے آ�پ

کتاب" �یک روز ہر مجھے �ب گئی۔ بن طبیعت میری پکتے پکتے عادت یہ تھے۔ خبر بے بالکل سے و�قعے �س و�ل�ین میرے گیا۔۔۔۔۔۔چونکہ پکڑ� ہاںدیتا۔ کر صرف میں خری�نے کتابیں کی �فسانوں سے باز�ر کر جوڑ جوڑ �نہیں میں ملتے پیسے جتنے سے گھر لگی۔ ہونے لاحق ضرورت کی ناول یعنیلکھی کی نویس ناول فلاں جو کتاب فلاں کہ رہتا سمایا خیال یہی میں دل میرے وقت ہر پس لگی۔ ہونے نفرت مجھے رفتہ رفتہ سے پڑھائی کی سکول

یہ کی چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔شوق دیکھنا ضرور نظر �یک وہ ہے موجود ذخیرہ �یک کا ناولوں نئی پاس کے فروش کتب فلاں یا چاہیئے، پڑھنی ضرور ہے ہوئیبچے عقل بے �یک وہ وقت �س ہے۔ رہا کر کیا یا ہے کرنیو�لا کیا وہ کہ ہوتا نہیں معلوم کو �نسان میں حالت �س ہے۔ دیو�نگی میں معنوں دوسرے �نتہا

شے و�لی چمکنے وہ کہ ہوتا نہیں پتا یہ �سے ہے۔ دیتا ڈ�ل ہاتھ میں آ�گ ہوئی جلتی کیلیئے کرنے پور� شوق یا کرنے خوش طبیعت �پنی جو ہے ہوتا مانن� کیبغیر وہ �سلیئے ہے ہوتا محروم سے شعور بچہ کہ ہے �تنا فرق تھی۔ میری حالت یہی ٹھیک گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دے جلا ہاتھ �سکا ہے رہا پکڑ وہ جسے

کی آ�نکھوں یہ کیا۔ �رتکاب کا جرم مکروہ �یسے چوری ہوئے ہوتے مالک کا عقل نے میں مگر ہے بیٹھتا کر حرکت بری سے بری بوجھے سمجھےکرتی۔ نہ مجبور مجھے عادت میری �گر کرتا نہ کام �یسا گز ہر میں ہے۔ دلیل کی ہونے �ن�ھے میرے میں موجودگی

کہ جب آ�یا غالب وقت �س پر مجھ شیطان یہ ہے۔ کرتا مجبور پر کرنے کام برے سے برے �سے اا فوقت اا وقت جو ہے ہوتا موجود شیطان میں دماغ کے �نسان ہر " تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر۔ وقت کم بہت کیلیئے سوچنے

جب کر دیکھ ٹوٹتے وقت �س تسلسل کا د�ستان تھے۔ رہے سن کو د�ستان �سکی گاڑے نگاہیں طرف کی لبوں ہوئے ہلتے کے بوڑھے سے خاموشی لڑکےلگے۔ کرنے �نتظار کا تفصیل بقایا سے بیقر�ری بڑی وہ تھا و�لا جانے کیا بیان مقص� �صل کہ

" کہا۔" ہوئے ڈ�لتے پر گھٹنوں کمبل �پنا نے بوڑھے ہے۔ رہی آ� ہو� سرد دینا، کر بن� تو درو�زہ و�لا سامنے یہ بیٹا، مسعود

" گیا۔ " بیٹھ پر جگہ �پنی بع� کے کرنے بن� درو�زہ کا کوٹھڑی �ور �ٹھا کر کہہ جی بابا �چھا مسعود

" " میں" جو کتاب وہ �ور تھا نہ کام خاص کوئی بھی مجھے دی۔ کر شروع سنانا د�ستان �پنی نے بوڑھے تھے۔ باہر سے گھر و�ل� کہ جب دن �یک تو ہاںہوئی پڑی ناولیں جاسوسی سی بہت پاس جسکے آ�ئیں ہو تک فروش کتب فلاں چلو کہ آ�ئی میں جی میرے �سلیئے تھی، �لاختتام قریب تھا رہا پڑھ دنوں �ن

تھیں۔

فروش کتب �س سی�ھا سے گھر میں چنانچہ تھے کافی کیلیئے کرنے �د� د�م کے ناول معمولی �یک جو تھے موجود پیسے کچھ وقت �س میں جیب میریباہر ڈھیر �یک کا کتابوں نئی بالکل پر طور خاص دن �س مگر تھیں رہتی موجود ناولیں �چھی �چھی بہت وقت ہر پر دکان �س تو یوں گیا۔ پر دکان کی

وہ کہ لگی گ�گ��نے خو�ہش یہ میں دل گیا۔ ہو برپا سا ہیجان �یک میں طبیعت میری کر دیکھ ورق سر برنگے رنگ کے کتابوں �ن تھا۔ ہو� رکھا پر تختےجائیں۔ بن ملکیت میری تمام

46

Page 47: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

عبارت کوئی نہ کوئی کی قسم �س پر ورق سر شوخ کے کتاب ہر گیا۔ ہو مشغول میں دیکھنے نظر �یک کو کتابوں �ن لیکر �جازت سے دکان��ر میںتھی۔ ہوئی لکھی

" دے۔" کر طاری نہ سنسنی پر آ�پ مطالعہ کا �س کہ ہے ممکن نا یہ

" شاہکار۔" لاثانی کا �سر�ر در مصو

" یکجا" رومان۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب ہیجان، تمثیل،

چکے گزر �لفاظ �یسے �کثر سے نظروں میری کہ �سلیئے دی نہ توجہ خاص کوئی نے میں مگر تھیں کافی کیلیئے بڑھانے �شتیاق عبارتیں کی قسم �س�س رہا۔ دیکھتا کر پلٹ �لٹ کو کتابوں عرصہ تھوڑ� میں خیر جاؤں۔ بن مالک کا کتابوں �ن میں کہ تھی ضرور خو�ہش یہ مجھے ہی ساتھ �سکے گو تھے۔

تھی۔ رکھی کر علیح�ہ کر چن ناول کی قیمت کم �یک کیلیئے خری�نے نے میں بلکہ تھا نہ اا مطلق خیال کا کرنے چوری میں دل میرے وقت

کا کتاب �ٹھائی، کتاب کردہ �نتخاب �پنی نے میں آ�ؤنگا، دیکھنے دوبارہ کو ناولوں �ن ہفتے دوسرے میں کہ کے کر �ر�دہ یہ میں دل بع� کے دیر تھوڑیذر� �سکے تھا، ہو� چھپا میں لفظوں سرخ نام کا ناولسٹ محبوب میرے پر کونے �یک کے ورق سر گئیں۔ گڑ پر ناول مجل� �یک نگاہیں میری کہ تھا �ٹھانا

تھا۔ نام کا کتاب �وپر

" کیا۔" �ر�دہ کا کرنے تباہ کو لن�ن نے ڈ�کٹر دیو�نے �یک شعاعیں۔۔۔۔۔۔۔کسطرح منتقم

رکھی کر حر�م نین� کی ر�توں پر مجھ پیشتر سے �س نے جس مصنف، وہی کا کتاب گئی۔ آ� طغیانی کی قسم �یک میں �شتیاق میرے ہی پڑھتے سطور یہگیا۔ ہو د�خل گروہ �یک کا خیالات میں دماغ میرے ہی دیکھتے کو ناول تھی۔

ہوگا۔" �فسانہ دلچسپ �یجاد۔۔۔۔۔۔۔۔کیسا کی ڈ�کٹر شعاعیں۔۔۔۔۔۔۔دیو�نے منتقم

ہے؟ سکتا ہو کسطرح �ر�دہ۔۔۔۔۔۔۔یہ کا کرنے تباہ لن�ن

ہیں۔ لکھی خیز سنسنی کتنی کتابیں فلاں فلاں نے مصنف �س

" ہوگی۔ بہتر سے �ن ضرور کتاب یہ

�ور �ٹھایا کو کتاب �س نے میں تھے۔ رہے کر برپا شور میں کانوں میرے دیگرے بع� یکے خیالات یہ �ور تھا رہا دیکھ طرف کی کتاب �س خاموش میںآ�ئی۔ نطر عبارت یہ پر ورق پہلے تو دیکھا کر کھول

" ہے۔" دیتا قر�ر تصنیف بہترین �پنی کو کتاب �س مصنف

کتاب �س میں کہ یہ وہ پڑ� کود خیال �یک سے گوشے کس معلوم خ�� کے دماغ میرے اا دفعت دیا۔ کام کا �ین�ھن میں آ�گ کی �شتیاق میرے نے �لفاظ �ندکان تھا۔ مشغول میں لکھنے کچھ پر کاغذ �یک جو مڑیں طرف کی فروش کتب �ختیار بے آ�نکھیں جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری لے کر چھپا میں کوٹ �پنے کو

" گیا۔ لرز تک پیر سے سر تھے۔۔۔۔۔۔۔میں رہے دیکھ کتابیں طرح میری کھڑے نوجو�ن دو طرف دوسری کی

دی۔ کر شروع د�ستان �پنی پھر نے �س کر رہ خاموش دیر تھوڑی کانپا، سے یاد کی و�قعے �س جسم نحیف کا بوڑھے ہوئے کہتے یہ

میں" شعاعوں لانبی لانبی ہوئی بنی پر ورق سر آ�و�ز یہ کی ضمیر مگر ہے کام بر� بہت کرنا چوری کہ ہو� پی�� خیال یہ میں دل میرے لئے کے لحظے �یک ' ' ' میں ' بغل �ن�ر کے کوٹ کتاب وہ سے جھٹ �ور جھانکا �دھر �دھر نے میں تھا۔ رہا کر گرد�ن کی شعاعیں منتقم شعاعیں منتقم دماغ میر� گئی۔ ہو غرق

تھے۔ رہے کانپ سے زور بڑے ٹانگیں �ور ہاتھ دونوں میرے ہوئے کرتے لی۔۔۔۔۔۔یہ دبا

47

Page 48: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

روپے �ور وقت لیتے قیمت تھی۔ کی منتخب پہلے نے میں جو دیئے کر �د� د�م کے کتاب �س �ور گیا قریب کے فروش کتب میں کر پا قابو پر حالت �سسے جس تھا رہا دیکھ سے نگاہوں عجیب وقت �س طرف میری وہ علاوہ �سکے دی۔ لگا تاخیر معمولی غیر نے �س میں کرنے و�پس پیسے باقی سے میں

نکلوں۔ بھاگ سے وہاں کر چھوڑ کچھ سب کہ تھا چاہتا یہی جی تھی۔ رہی ہو پریشان سخت طبیعت میری

بھی کوشش سود بے کی چھپانے �سے شای� ڈ�لی۔۔۔۔۔۔�ور نگاہ تھی، ہوئی �بھری سے وجہ کی کتاب جو پر جگہ �س بار کئی نے میں میں دور�ن �ستھا۔ جاتا ہو خاموش پھر کے کر کوشش کی کہنے کچھ بار بار وہ کہ �سلیئے ہو� ضرور شک �سے کر دیکھ کو حرکتوں عجیب �ن میری کی۔

ننگے فروش کتب تو دیکھا کر مڑ سنی، آ�و�ز کی کسی نے میں پر فاصلے کے ق�م سو دو دیا۔ چل سے وہاں �ور پکڑے سے جل�ی پیسے باقی نے میںدیا۔ کر شروع بھاگنا دھن� �ن�ھا نے میں ہی دیکھتے یہ تھا، رہا کہہ کیلیئے ٹھہرنے مجھے �ور تھا رہا آ� چلا پاؤں

رہا بھاگ طرف �س سے ہی شروع میں بلکہ تھا نہ ہوئے کئے رخ جانب کی گھر �پنے میں علاوہ �سکے ہوں، رہا بھاگ ک�ھر میں کہ تھا نہ معلوم مجھے " لیا۔ پکڑ مجھے نے آ�دمیوں تین دو جب ہو� �حساس وقت �س مجھے کا غلطی �س تھا، �ختتام کا باز�ر ج�ھر تھا

کا " پانی مسعود، ہو�۔ مخاطب سے لڑکے �یک وہ بع� کے توقف کچھ لگا، پھیرنے پر لبوں زبان خشک �پنی میں حالت کی �ضطر�ب کر کہہ �تنا بوڑھا " پلو�نا۔ تو گھونٹ �یک

سے منہ ہی پکڑتے کو گلاس نے بوڑھے آ�یا۔ لے کر �نڈیل پانی میں گلاس سے گھڑے ہوئے پڑے میں کونے �یک کے کوٹھڑی �ور �ٹھا سے خاموشی مسعود " کہا۔ " ہوئے رکھتے پر زمین کو گلاس خالی نے بوڑھے تھا؟ رہا کر بیان کیا میں ہاں لیا۔ پی پانی سار� میں گھونٹ ہی �یک �ور لیا لگا

" دیا۔" جو�ب نے لڑکے �یک تھے۔ رہے جا بھاگے آ�پ

میرے" تو دیکھا ہوئے پہنچتے قریب �پنے کو آ�دمیوں تین دو نے میں جب تھا، رہا آ� چلا بھاگا ہو� کرتا بلن� آ�و�ز کی چور چور، فروش کتب پیچھے میرےکا عزتی بے لگیں۔ کرنے رقص سامنے کے آ�نکھوں میری کے کر �یک �یک تصویریں کی ع��لت �ور پولیس سلاخیں، آ�ہنی کی جیل رہے۔ نہ ٹھکانے ہوش

حالت عجیب کی دماغ میرے وقت �س دیا۔ دے جو�ب نے ٹانگوں تو چاہا �ٹھنا پڑ�، گر �ور لڑکھڑ�یا میں گئی، ہو آ�لود عرق پیشانی میری ہی آ�تے خیالبہت جیسے تھا برپا شور زبردست �یک میں کانوں �ور تھیں رہی �بل سے خوف دط فر آ�نکھیں تھا۔ رہا لے کروٹیں میں سینے میرے سا دھو�ں تن� �یک تھی،

آ�دمیوں تین دو ہمر�ہ �سکے �ور فروش کتب کہ تھا رہا ہی کر کوشش کی بھاگنے کر �ٹھ �بھی میں ہیں، رہے کوٹ سے ہتھوڑوں کو چادروں آ�ہنی لوگ سےکر ٹکر� ٹکر� ساتھ کے دماغ میرے طرح کی پتھروں خیالات سینکڑوں ہے، دشو�ر بہت کرنا بیان �سکا تھی، حالت کیا میری وقت �س لیا، پکڑ مجھے نے

بالکل میں ہے، ڈ�لا مسل کر پکڑ کو دل میرے نے پنجرے آ�ہنی کہ ہو� معلوم �یسا تو پکڑ� مجھے نے �نہوں جب تھے۔ رہے کر پی�� آ�و�زیں کی قسم مختلفتھے۔ رہے جا لے کشاں کشاں طرف کی دکان مجھے وہ �ور تھا خاموش

�ب چونکہ دی۔ کر شروع کرنا ملامت لعنت پر مجھ نے ضمیر میرے ہوئے کرتے خیال یہ تھا، یقینی دیکھنا درو�زہ کا ع��لت یا کوٹھڑی کی خانے جیلبے نے میں �ور آ�ئے �تر آ�نسو میں آ�نکھوں گرم میری تھے، نہ موجود �لفاظ کوئی کیلیئے دینے جو�ب کو ضمیر �پنے پاس میرے �ور تھا چکا ہو تھا، ہونا جو

" دیا۔ کر شروع رونا �ختیار

گئیں۔ ہو نمناک آ�نکھیں دھن�لی کی بوڑھے ہوئے کہتے یہ

" سے" کمبل آ�نسو �پنے نے بوڑھے دیا۔ چھوڑ بع� کے کرنے نصیحت دیر ٹھوڑی �ور لی لے کتاب �پنی کیا، نہ حو�لے کے پولیس مجھے نے فروش کتبخبر " کو لڑکوں کے سکول �ور و�ل� کی و�قعے �س مگر گیا بچ تو سے درو�زے کے ع��لت میں دے، خیر جز�ئے کو �س خ�� کہا۔ ہوئے کرتے خشک

دیا۔ کر معاف بع� کے دلانے شرم پر فعل مکروہ �س مجھے سے طریقے ممکن ہر �ور ہوئے خفا سخت پر مجھ و�ل� ہوگئی،

کہ نہیں قوت �تنی میں مجھ �ور لیتا نہیں آ�ر�م کروٹ کسی دل میر� کہ دیکھا نے میں جب بع� �سکے رہا، آ�تا بخار میں ن��مت �س مجھے روز تین دومختلف نے میں تک �ب لیکر سے وقت �س گیا۔ ہو روپوش کیلیئے ہمیشہ سے وہاں کر چھوڑ شہر میں تو سکوں �ٹھا نگاہیں �پنی سامنے کے لوگوں میں

شرمسار و نادم مرگ دم د تا مجھے جو سے، وجہ کی چوری کی کتاب �س ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔صرف کئے برد�شت مصائب ہز�روں ہے، چھانی خاک کی شہروںگی۔ رکھے

" ہے۔ فخر مجھے ہوں، نہیں نادم پر �ن میں مگر گیا، پکڑ� ہمیشہ �ور ڈ�لے ڈ�کے کیں، چوریاں سی بہت بھی �ور نے میں میں دور�ن کے گردی آ�و�رہ �س

48

Page 49: آتش پارے از سعادت حسن منٹو

دیا۔ کر شروع دیکھنا کر لگا ٹکٹکی کو شعلوں کے �لاؤ نے �س �ور گئی ہو نمود�ر چمک سی پہلی پھر میں آ�نکھوں دھن�لی کی بوڑھے ہوئے کہتے یہ

" کہے۔" دوبارہ بع� کے توقف ٹھوڑے �سنے �لفاظ یہ ہے۔ فخر مجھے ہاں،

�ور دیکھی أ�ت جر کی شعلے نے بوڑھے گیا۔ سو میں آ�غوش کی �لاؤ پھر کر تھر� تھر میں فضا لمحہ �یک �ور ہو� بلن� کیوں معلوم نہ شعلہ �یک کا آ�گلگا۔ کہنے کر ہو مخاطب سے لڑکوں پھر دیا، مسکر�

" ہونگے۔" کرتے �نتظار و�ل�ین تمھارے جاؤ، تم �ب ہے، گئی ہو ختم کہانی

" کیا۔" سو�ل نے مسعود ہے؟ کیوں فخر پر چوریوں دوسری �پنی کو آ�پ مگر

" " کر" ہو بڑے عزیز، میرے نہیں چوری کرنا حاصل دوبارہ کو چیزوں ش�ہ سرقہ �پنی تھیں، نہیں چوریاں وہ کہ �سلئے مسکر�یا۔ بوڑھا ہے؟ کیوں فخر آ�ہ، " گا۔ جائے ہو معلوم طرح �چھی تمھیں

" نہیں۔" سمجھا میں

کوشش" یہ تمھاری رہے یاد مگر آ�ؤ، لے میں قبضے �پنے سے طریقے ممکن ہر �سے کہ ہے حاصل حق تمھیں ہو، گئی لی چر� سے تم جو چیز وہ ہر " ہے۔ عب� �ٹھانا �ذیتیں �ور جانا پکڑے ہوئے کرتے �یسا ورنہ چاہیئے ہونی کامیاب

تھیں، رہی دیکھ ہوتے گم میں تاریکی �نکو نگاہیں کی بوڑھے گئے، چلے باہر سے درو�زے کے کوٹھڑی ہوئے کہتے بخیر شب کو جی بابا �ور �ٹھے لڑکےبولا۔ ہوئے کرتے بن� درو�زہ کا کوٹھڑی �ور �ٹھا وہ بع� کے دیکھنے طرح �سی دیر تھوڑی

" سکیں۔" لے و�پس چیزیں ہوئی کھوئی صرف وہ کر ہو بڑے �گر آ�ہ،

تھی۔ �می� کیا سے لڑکوں �ن معلوم خ�� کو بوڑھے

)" ساقی) " �ولیں دت �شاع

49