پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

13
وک جھیلمل سیف الستان،نوی دافساں مشہور ایک اے، جس کا نام یہاملوک ہ سیف ال سے مشہور اور خوبصورت جھیلرہ کی سب ضلع مانسہستان ہے۔ جھیل کی محبت کی داک پری شہزادے اور ایک فارسیے۔ یہ قصہ ایور ہ سے مشہ کی وجہملوک قصہ سیف الے، یہ سطح سمندر سے تقریبا حصے میں واقع ہ کاغان کے شمالیٔ ملوک وادی سیف ال3244 ٹر بلندی پر واقع ہے۔ می کو مزید بڑھا دیتے ہیں خاص طور پر ہے جو اس کی خوبصورتیس میں پڑتا عکس اور دوسرے پہاڑوں کا ملکہ پربت، ایک جادو سا ہو جاتالی نظر پڑتی ہے تو افر طے کر کے اس پر پہ چودہ کلومیٹر کا س تکملوک سیف الران سے جھیل جب ناتار دی ہے۔ت زمین پر ا نے جن ے کہیسا لگتا ہ ہے اور ا

Upload: ahmadkhanbalouch

Post on 13-Jul-2015

86 views

Category:

Art & Photos


5 download

TRANSCRIPT

Page 1: پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

سیف الملوک جھیل

ضلع مانسہرہ کی سب سے مشہور اور خوبصورت جھیل سیف الملوک ہے، جس کا نام یہاں مشہور ایک افسانوی داستان،

قصہ سیف الملوک کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ قصہ ایک فارسی شہزادے اور ایک پری کی محبت کی داستان ہے۔ جھیل

میٹر بلندی پر واقع ہے۔3244سیف الملوک وادٔی کاغان کے شمالی حصے میں واقع ہے، یہ سطح سمندر سے تقریبا

ملکہ پربت، اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے جو اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھا دیتے ہیں خاص طور پر

جب ناران سے جھیل سیف الملوک تک چودہ کلومیٹر کا سفر طے کر کے اس پر پہلی نظر پڑتی ہے تو ایک جادو سا ہو جاتا

ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہللا نے جنت زمین پر اتار دی ہے۔

Page 2: پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

آنسو جھیل

آنسو جھیل وادٔی کاغان میں واقع ایک جھیل ہے، جو ضلع مانسہرہ، خیبر پختونخوا میں ملکہ پربت کے پاس واقع ہے۔ لگ بھگ

سولہ ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع اس جھیل کو پانی کے قطرے جیسی شکل کی وجہ سے آنسو جھیل کا نام دیا گیا اور یہ

دنیا کی خوبصورت ترین جھیلوں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔

یہ جھیل درمیان سے برف سے جمی رہتی ہے جس سے یہ کسی آنکھ کی پتلی سے نکلنے والے آنسو جیسی لگتی ہے تاہم یہاں

جانے کے خواہش مند افراد کے لیے اس تک رسائی زیادہ آسان نہیں کیونکہ ایک تو یہاں آنے کا بہترین موسم مئی سے اکتوبر

ہے اور پھر وہاں رہائش کے لیے کوئی ہوٹل وغیرہ موجود نہیں اور کیمپنگ کرنا پڑتی ہے مگر درجٔہ حرارت میں اچانک کمی

خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

Page 3: پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

لولوسر جھیل

میٹر بلندی پر واقع لولوسر جھیل ناران کے قصبے 3353لولوسر جھیل مانسہرہ سے ساڑھے تین سو کلومیٹر دور واقع ہے، ناران چالس روڈ پر

سے ایک گھنٹے کی مسافت پر وادٔی کاغان اور کوہستان کی سرحد پر واقع ہے۔ اس جھیل پر ہر سال روس سے آنے والے پرندے اور سیاح بڑی

تعداد میں آتے ہیں۔

لولوسر دراصل اونچی پہاڑیوں اور جھیل کے مجموعے کا نام ہے، ناران آنے والے سیاح لولوسر جھیل دیکھنے ضرور آتے ہیں اور غضب ناک

س دریائے کنہار میں پانی کا بڑا ذریعہ لولوسر جھیل ہی ہے۔ جھیل کا پانی شیشے کی طرح صاف ہے اور لولوسر کی برف سے ڈھکی پہاڑیوں کا عک

جب جھیل کے صاف پانی میں نظر آتا ہے تو دیکھنے والوں کے دل موہ لیتا ہے یہ ایک قابل دید نظارہ ہوتا ہے۔

Page 4: پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

دودی پتسر جھیل

دودی پتسر جھیل وادٔی کاغان کے انتہائی شمال میٹر بلند پر واقع ہے اور یہاں ناران 4175میں

)کے عالقے جل کھاڈ Jalkhad) سے چارگھنٹے کا سفر کر کے پہنچا جاسکتا ہے، مقامیزبان میں دودی پت سر کے معنی دودھ جیسے سفید پانی والی جھیل کے ہیں۔ لیکن جھیل کا رنگ سفید نہیں نیال ہے، درحقیقت اس سے ملحقہ برف پوش پہاڑوں کا پانی میں جھلکنے واال عکس اسے دور سے ایسا دکھاتا ہے جیسے دودھ کی نہر اور ممکنہ طور پر اسی وجہ سے اس کا نام بھی رکھا گیا۔

یہ عالقہ اپنے جادوئی منظر سیاحوں کو اپنے خیمے یہاں لگا کر قدرتی خوبصورتی اور تنہائیسے لطف اندوز ہونے پر مجبور کر دیتا ہے، جھیل دودی پتسر بند شکل میں خوبصورت برفپوش چوٹیوں میں گھری ہوئی جھیل ہے۔ یہاں تک رسائی انتہائی مشکل اور دشوارگذار کام ہے۔ اس جھیل تک رسائی کے لیے کم از کم سات سے بارہ گھنٹے تک انتہائی مشکل اور دشوار گذار گھاٹیوں میں پیدل سفر کر کے ہی ممکن ہے، جھیل کے اطراف میں چرا گاہیں اور ہرا پانی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

Page 5: پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

ستپارہ جھیلسطح سمندر سے آٹھ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پرواقع یہ خوبصورت جھیل میٹھے پانی سے لبریز ہےاور اس کے دو تین سمت سنگالخ چٹانیں ہیں۔ موسم سرما میں ان پہاڑوں پر برف پڑتی ہے اور جب گرمیوں کے آغاز میں یہ برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تو نہ صرف ان کا بلکہ چند گھنٹوں کی مسافت پر واقع دیوسائی نیشنل پارک سے نکلنے والے قدرتی ندی نالوں کا پانی بھی بہتا ہوا اس میں جا گرتا ہے۔

ات ستپارہ بلتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں سدروازے اس کی وجہ یہ ایک دیوماالئی کہانی ہے، جو یہ ہے کہ جس جگہ یہ جھیل ہے وہاں صدیوں پہلے ایک گاؤں ہوا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن اس گاؤں میں کوئی بزرگ فقیر کے بھیس میں لوگوں کو آزمانے کے لیے آئے۔ انہوں نے بستی والوں سے کھانے پینے کی چیزیں مانگی، سوائے ایک بڑھیا کے کسی نے بھی ان کی مدد نہیں کی۔ اس بزرگ نے بستی والوں سے ناراض ہو کر انہیں بد دعا دی لیکن ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کی کہ نیک بڑھیا جس نے ان کی مدد کی تھی، اسے کچھ نقصان نہ پہنچے۔ دعا قبول ہوئی اور راتوں رات گاؤں الٹ گیا اور اس کی جگہ پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پانی ایک بڑی جھیل

س میں تبدیل ہوگیا۔ البتہ حیرت کی بات یہ ہوئی کہ ججگہ نیک دل بڑھیا کا گھر تھا وہاں پانی اس سے دور رہا، یوں یہ جزیرہ آج بھی سالمت ہے۔

Page 6: پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

رش جھیل

ہ رش جھیل پاکستان کی بلند ترین جھیل ہے اور ی

میٹر کی بلندی پر رش پری نامی چوٹی 5098

کے نزدیک واقع ہے۔ یہ دنیا کی پچیسویں بلند

ترین چوٹی پر واقع جھیل ہے، یہاں تک رسائی

ے کے لئے نگر اور ہوپر گلیشیئر کے راستوں س

ہو کر گزرنا پڑتا ہے اور اس راستے نہایت ہی دلفریب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

Page 7: پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

کرمبر جھیل

تان کرمبر جھیل خیبر پختون خوا اور گلگت بلتس

کے درمیان میں واقع ہے اور یہ پاکستان کی

ویں بلند ترین جھیل 31دوسری جبکہ دنیا کی

فٹ کی بلندی پر واقع یہ جھیل 14121-ہے

حیاتیاتی طور پر ایک فعال جھیل ہے، اس جھیل

کلو 4لمبائی تقریباً ،میٹر55کی گہرائی تقریباً

-کلو میٹر ہے2میٹر اور چوڑائی

بروغل کی وادی میں واقع یہ خوبصورت جھیل

چترال شہر سے ڈھائی سو کلو میٹر سے زائد

فاصلے پر واقع ہے، بروغل کی وادی اپنے

خوبصورت قدرتی مناظر، برف پوش چوٹیوں،

شاندار کرمبر جھیل اور پچیس سے زیادہ چھوٹی

جھیلوں کے ساتھ تین اہم گزرگاہوں کی وجہ سے

مشہور ہے۔ یہ گزرگاہیں اس وادی کو مغرب میں

کانخن پاس کے ذریعے واخان کوریڈور سے

مالتی ہیں۔

Page 8: پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

ہالیجی جھیل

کلو میٹر دور 80ہالیجی جھیل کراچی سے

قومی شاہراہ پر واقع ہے جسے دوسری جنِگ

عظیم کے دوران برطانوی حکام نے محفوظ

ذخیرہ آب کے طور پر تعمیر کیا تھا۔ لگ بھگ

بائیس ہزار ایکڑ پر مشتمل جھیل کا قطر اٹھارہ

ا کلو میٹر ہے۔ ہالیجی جھیل پر کبھی موسِم سرم

میں الکھوں پرندے ہجرت کرکے عارضی بسیرا

کرتے تھے۔

یہاں پرندوں کے سوا دو سو کے قریب اقسام

ریکارڈ کی گئی تھیں مگر اب یہاں بدیسی

ہی نظر آتے ہیں۔ ' خال خال'موسمی پرندے

صاف پانی کی عدم فراہمی سے جھیل ایک

طرف رفتہ رفتہ خشک ہو رہی ہے تو دوسری

جانب خود رو جھاڑیاں تیزی سے اسے اپنی

لپیٹ میں لے رہی ہیں۔

Page 9: پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

شنگریال جھیل یا کچورا جھیل

شنگریال جھیل پاکستان کے شمالی عالقہ جات

کی ایک خوبصورت جھیل ہے۔ جو کہ اسکردو

شہر سے بیس منٹ کی ڈرائیو کے فاصلے پر

ہے۔ بنیادی طور پر کچورا جھیل دو جھیلیں ہیں

اور ' اپر کچورا جھیل'جن میں سے ایک کو

یا شنگریال جھیل ' لوئر کچورا جھیل'دوسری کو کہتے ہیں۔

Page 10: پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

شندور جھیل

اور پولو گراؤنڈ کے ساتھ شندور جھیل تخلیق فطرت کا عظیم شاہکار لگتی ہے۔ اس کی لمبائی تین میل

چوڑائی ایک میل ہے۔ اس جھیل میں نایاب پرندے بستے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس جھیل

کے پانی کا ظاہری اخراج نہیں ہوتا یعنی پانی جھیل میں ٹھہرا دکھائی دیتا ہے مگر ماہرین کے مطابق پانی زیر زمین راستہ بنا کر سوالسپور اور لنگر میں جانکلتا ہے۔

Page 11: پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

شنگریال جھیل یا کچورا جھیلاپر کچورا جھیل صاف پانی کی جھیل ہے جس کی گہرائی

میٹر ہے، دریائے سندھ اس کے قریب ہی قدرے 70تقریباً گہرائی میں بہتا ہے، گرمیوں میں دن کے وقت یہاں کا درجہ

ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے جبکہ 15سے 10حرارت سردیوں میں درجہ حرارت نقطٔہ انجماد سے بہت نیچے گر جاتا ہے جس کی وجہ سے جھیل کا پانی مکمل طور پر جم جاتا ہے۔ اسی طرح لوئر کچورا یا شنگریال جھیل کو پاکستان کی دوسری خوبصورت ترین جھیل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا نظارہ کسی پر بھی سحر طاری کرسکتا ہے۔

لوئر کچورا جھیل یا شنگریال جھیل اصل میں شنگریالریسٹ ہاؤس کا حّصہ ہے، یہ سیاحوں کے لیے ایک مشہور تفریح گاہ ہے جو کہ اسکردو شہر سے بذریعہ

شنگریال -منٹ کی دوری پر ہے25گاڑی تقریباً ریسٹ ہاؤس کی خاص بات اس میں موجود ریسٹورنٹ ہے جو کہ ایک ایئر کرافٹ کے ڈھانچے میں بنایا گیا ہے، شنگریال ریسٹ ہاؤس چینی طرز تعمیر کا نمونہ ہے، سیاحوں کی بڑی تعداد اس کو دیکھنے کے لیے آتی ہے۔

Page 12: پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

رتی گلی جھیل

کلو 115فٹ بلندی پر واقع رتی گلی جھیل وادٔی نیلم کے ماتھے کا جھومر ہے، مظفر آباد سے 12000سطح سمندر سے

میٹر دور وادٔی نیلم کے سرسبز اور بلند و باال پہاڑوں کے دل میں واقع رتی گلی جھیل قدرت کا حسین اور انمول تحفہ ہے۔

اس جھیل کے اردگرد وسیع و عریض سرسبز میدان انتہائی خوبصورت اور دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔

جھیل کے چہاروں اطراف کھلے میدانوں میں عالقے کے چرواہے ہزاروں مویشیوں کو پالتے ہیں۔ رتی گلی جھیل کے

نیلگوں پانی اور کناروں پر جمی برف یہاں آنے والوں پر سحر طاری کرتی ہے۔

Page 13: پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

ہنہ جھیلمیں تاج برطانیہ کے دور میں لوگوں کو 1894کوئٹہ سے شمال کی طرف تقریباً دس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع سنگالخ چٹانوں میں

سستی فراہمی زیر زمین پانی کی سطح بلند رکھنے اور آس پاس کی اراضی کو سیراب کرنے کے لیے ہنہ جھیل کا قیام عمل میں الیا

تک جھیل 2004سے 2000تک جھیل میں پانی کی سطح برقرار رہی، تاہم مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے 1997سے1894گیا۔

مکمل خشک رہی۔

ساالنہ الکھوں روپے ٹکٹوں کی مد میں وصول کرنے کے باوجود جھیل کی بہتری پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ہنہ جھیل میں اب پانی کی

ے سطح بتدریج گرنا شروع ہوگئی ہے اس وقت پانی کی سطح کم ہو کر آٹھ فٹ رہ گئی ہے۔ پانی کی گرتی ہوئی سطح سے جہاں سائبیریا ک

پرندوں کا پڑاؤ اور سیاحت و تفریح متاثر ہوئے ہیں وہیں آس پاس کے باغات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔