shakhe gulab poetry

Post on 22-Nov-2014

769 Views

Category:

Social Media

13 Downloads

Preview:

Click to see full reader

DESCRIPTION

 

TRANSCRIPT

خ� گلاب شا

ز� فرا احمد

�نتخاب کا غزلوں کی ‘‘آ�شوب درد’’

فہرس

7........................................................آ� لئے کے ددکھانے یہ دل یسہ یہ رنجش

8........................................................مانگے زمانے کے یجد�ئ یبھ ںیم قربتوں

9.....................................................رےیم جانے نہ ر�ت دن یبھ یکوئ ترے دجز

خ? غم خ=یشر نہ جاں خ>یحر نہ 11............................................ہو تو یکوئ �نتظار ش

خD وہ تو دل 12..........................................................جائے لے ہو� کہ ہے خز�ں بر

13..........................................................تھکن ی= آ�رزو نہ لذت ی= �نتظار نہ

15................................................ہے ںیم بانیگر تار �= کہ تھے خوش وںی تو ہم

خد وںی= ہو خاموش 16..................................................تےید ںینہ وںی= جفا د�

خR نغمہ �ے یبھ دسن خR سن 17......................................کسے �عتبار کا سماعت �ب چمن کن

18.......................................................یبھ سے مہتاب و �نجم کہاں ہے بہلتا دل

خم ںیم باب کے وفا 19..........................................................�یل نہ یعاشق �لز�

20...............................................سےیج ہو یکڑ یبھ منزل ہی کہ ںیہ چپ سےی�

21..................................................کرے گفتگو یکوئ سے سخن کم سےی� �ی=

22.....................................................لگے یہمار یس زہر وںی= نہ بات =ی� ہر

23....................................................یتھ نہ جد� سے دل مرے یبھ پہ وںیدور سو

24..............................................................�یآ� �دی تھا نہ �دی دکھ یبھ جو

26......................................................ںیہ کہتے صبا کو صرصر تو پھول کو زخم

خc ہو گل خر تو مے چر� 27............................................................ںیہ سنگ سز�و�

28.............................................................ہے ملامت ۂکوچ یوہ ہے جنوں یوہ

29.........................................................�یدر گئے ہو دچور سے مسافت ی= روز

30.......................................................سمجھ آ�د�ب کے شہر �س ہے �نجان کہ تو

خc جز قرب 31.....................................................یبھ کچھ تاید ںینہ یجد�ئ د�

32........................................................و�لا نبھانے ساتھ ںینہ یبھ کر بن دوست

34...............................................................جائے نہ کھاید کا شوق عالم ہی

35..................................................ہوں یبھ �ںیپرچھائ ی= شام ہو بجھا یبھ دل

36...............................................................چمکے جگنو کے �دی یتر ج?

خری �س ںیہ آ�ئے �میپ 37......................................................مجھے کے وفا بے �

خزین بے خم � خنیپ غ 38...............................................................جانا ہو وفا ما

39...................................................کرے ی�فشان خوننابہ کہاں طاقت �ب ںیم دل

40......................................................تھا نہ �ند�زہ �تنا کنیل تھے ساماں و سر بے

خر گرجا پہ صحر�ؤں تپتے 41.............................................................برسا �یدر س

خج یلگ ڈسنے طرح ی= ی�فع 42.....................................................یبھ نفس مو

43............................................................شور کتنا باہر ہے سناٹا کتنا ںیم گھر

44......................................................................دیشا پر ر�ہگزر ی�س پھر

45.............................................................سےیج صبا کہاں جھونکے وہ �ب

46.......................................................ںینہ مانا تو دل یبھ پر وںیمحروم مستقل

47...........................................................ہے �پنا قر�ریب دل تو ہو یبھ پاس تو

48..............................................یتھ یلگ سے مشکل یبڑ عتیط? ہی سے جس

49................................................ہوئے جو بکو کو ںیم یبست تذکرے کے یکس

50.....................................................ہم ںیبڑھائ مر�سم سے یکس �ی= �ور �ب

خر یتھ ید�تر 51....................................................کرن ںیآ�تش یکوئ ںیم گل شہ

52............................................بنے ریتقد ہے مشکل �ند�زے �ی= �ور طل? یسی=

53....................................................گے بناؤ ر�ز تک ک? �فسانے کے محبت ی�پن

54.................................................ی= یحائیمس نے دتو ےیل کے لمحوں چند

خy کہ �ی= سای� زعم 55.....................................................پڑے ٹھکر�نا دوست لط

56.......................................................�پنے سے غم ہے �حساس نہ ہے فرصت �ب

57.......................................................دوستو ںیہ برہم یبھ لوD ہو خفا یبھ تم

58.............................................تھے ںیم آ�نکھوں ش? و روز کے یزندD تھا کہاں تو

خر لمحے 59.........................................................تھے آ�ئے نہ سےی� کے شوق وفو

60....................................................کھوںید بھر ر�ت کو تاروں ںیم �لی� ی�س

61.........................................................کا ریتقر یتر ہے رریتح سے ک? منتظر

خل 62.....................................................سے شہر رےیت دینا�م ںیہ جاتے غم �ہ

63...................................................چر�c کے بام و در ںیہ رہے چبھ ںیم آ�نکھوں

64...........................................طرح ی= ش? ںیہ گھلے سائے ںیم دھوپ ی= نظر

خد ںیم سوچ ی�س کہ �ی= ہم 65...................................................یتھ یچمن با

66........................................................ہم ںیہ خفا کچھ یبھ کر مل سے تجھ

67.........................................................ہوئے سوگو�ر یبھ خود �ی= �د�س تجھے

68............................................ںیمل ںیم خو�بوں یکبھ دیشا تو بچھڑے ہم کے �ب

69........................................................�ور دن یکوئ بھرتے نہ زخم �گر تھا �چھا

70...................................................یبھ برس کے �ب ہم ںیہ دینوم و تشنہ و ل?

72................................................................رکھنا لگائے آ�س مگر ہے آ�تا کون

73............................................................کو مجھ آ� نہ نظر تو مگر ہوں رہا ترس

خنیب تو طرح یکس خ> � 74..........................................................کرتے آ�رزو حر

76......................................................ںیم پاؤں مرے تھے سمندر شور پر کہ ںیم

77........................................................د�سے بھلاؤں طرح کس مگر �د،ی نہ کروں

آ� ددکھانے کے لئے رنجش ہی سہی دل ہی

آ� لئے کے جانے کے چھوڑ مجھے سے پھر آ�

خر محبت کا بھرم رکھ کچھ تو مرے پند�

آ� تتو کبھی مجھ کو منانے کے لئے دتو بھی

تتو پہلے سے مر�سم نہ سہی پھر بھی کبھی

آ� خہ دنیا ہی نبھانے کیلئے رسم و ر

کس کس کو بتائیں گے جد�ئی کا سب? ہم

آ� تتو زمانے کے لئے دتو مجھ سے خفا ہے

خت گریہ سے بھی محروم �= عمر سے ہوں لذ

آ� خت جاں مجھ کو رلانے کے لئے �ے ر�ح

خل خوش فہم کو تجھ سے ہیں �میدیں �ب تک د

آ� آ�خری شمعیں بھی بجھانے کے لئے یہ

٭٭٭

قربتوں میں بھی جد�ئی کے زمانے مانگے

دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے

ہم نہ ہوتے تو کسی �ور کے چرچے ہوتے

خت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے خلق

یہی دل تھا کہ ترستا تھا مر�سم کے لئے

خ= تعلق کے بہانے مانگے �ب یہی تر

�پنا یہ حال کہ جی ہار چکے لٹ بھی چکے

�ور محبت وہی �ند�ز پر�نے مانگے

زندگی ہم ترے د�غوں سے رہے شرمندہ

آ�ئینہ خانے مانگے دتو ہے کہ سد� �ور

ز خن فر� دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جا

خمل گئے تم بھی تو کیا �ور نہ جانے مانگے

٭٭٭

دجز ترے کوئی بھی دن ر�ت نہ جانے میرے

دتو کہاں ہے مگر دوست پر�نے میرے

دتو بھی خوشبو ہے مگر میر� تجسس بے کار

آ�و�رہ کی مانند ٹھکانے میرے Dخ بر

دتو تھا مگر ہجر کی ر�ت تلو تھی کہ وہ شمع کی

دیر تک روتا رہا کوئی سرہانے میرے

خلق کی بے خبری ہے کہ مری رسو�ئی

لوD مجھ کو ہی سناتے ہیں فسانے میرے

دلٹ کے بھی خوش ہوں کہ �شکوں سے بھر� ہے د�من

خر دل یہ بھی خز�نے میرے دیکھ غارت گ

آ�ج �= �ور برس بیت گیا �س کے بغیر

جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے

----ق----

دسنتا ہو آ�و�ز کہیں دتو بھی مری کاش

پھر پکار� ہے تجھے دل کی صد� نے میرے

آ� جائے مسیحائی کو کاش تو بھی کبھی

ددکھانے میرے آ�تے ہیں بہت دل کو Dلو

کاش �وروں کی طرح میں بھی کبھی کہہ سکتا

آ�ج خد� نے میرے دسن لی ہے مری، بات

دتو ہے کس حال میں �ے زود فر�موش مرے

خد وفا نے میرے مجھ کو تو چھین لیا عہ

ز خن فر� چارہ گر یوں تو بہت ہیں مگر �ے جا

جز ترے �ور کوئی زخم نہ جانے میرے

٭٭٭

خ? �نتظار کوئی تو ہو خک غم ش خy جاں نہ شری نہ حری

خل بے قر�ر کوئی تو ہو خم شوق میں لائیں ہم د کسے بز

خ? طرب آ�رزوئے ش کسے زندگی ہے عزیز �ب کسے

خر وفا طل? تر� �عتبار کوئی تو ہو مگر �ے نگا

خن گل ملے تو یہ مان لیں کہ چمن کھلے خر د�م کہیں تا

خر شاخسار کوئی تو ہو خل بہار کا س کہ نشان فص

یہ �د�س �د�س سے بام و در، یہ �جاڑ �جاڑ سی رہگزر

خر کوئے یار کوئی تو ہو چلو ہم نہیں نہ سہی مگر س

خن جاں خc دل ہی نہ بجھ چلے کی یہ سکو گھڑی ڈھلے تو چر�

خم روزگار کوئی تو ہو خم عشق یا غ وہ بلا سے ہو غ

آ�برو آ�رزو، رہے کچھ تو عشق کی خل ش? خر مقت س

ز تتجو نہیں عدو ت و کہ نصی? د�ر کوئی تو ہودو فر�

٭٭٭

خD خز�ں ہے کہ ہو� لے جائے دل تو وہ بر

د�ڑ� لے جائے آ�ندھی ہے کہ صحر� بھی غم وہ

کون لایا تری محفل میں ہمیں ہوش نہیں

د�ٹھا لے جائے آ�ئے تری محفل سے کوئی

خر وفا �ور سے �ور ہوئے جاتے ہیں معیا

خ� دل و جاں بھی کوئی کیا لے جائے �ب متا

دہو� چاند جانے ک? �بھرے تری یاد کا ڈوبا

د�ڑ� لے جائے جانے ک? دھیان کوئی ہم کو

خی دل ہے تو منزل معلوم آ�و�رگ یہی

آ�ئے تری باتوں میں لگا لے جائے جو بھی

ز خت غربت میں تمہیں کون پکارے گا فر� دش

چل پڑو خود ہی جدھر دل کی صد� لے جائے

٭٭٭

آ�رزو کی تھکن نہ �نتظار کی لذت نہ

بجھی ہیں درد کی شمعیں کہ سو گیا بدن

آ�نکھیں آ�نچ سے دسلگ رہی ہیں نہ جانے کس

آ�نسوؤں کی طل? ہے نہ رتجگوں کی جلن نہ

خت نظر پہ نہ جا خل فری? زدہ! دعو د

آ�ج کے قد و گیسو ہیں کل کہ د�ر و رسن یہ

خ? شہر کسی سای شجر میں نہ بیٹھۂ غری

کہ �پنی چھاؤں میں خود جل رہے ہیں سرو و سمن

خر قرب سے پہلے �جاڑ دیتی ہیں بہا

ں کی ہو�ئیں محبتوں کے چمنوجد�ئی

وہ �یک ر�ت گزر بھی گئی مگر �ب تک

خل یار کی لذت سے ٹوٹتا ہے بدن وصا

آ�ج ش? ترے قدموں کی چاپ کے ہمر�ہ پھر

خل نامر�د کی دھڑکن سنائی دی ہے د

خن شاعری ہے مگر دتو جا یہ ظلم دیکھ کہ

خم سخن مری غزل میں تر� نام بھی ہے جر

دلوٹ لیتا ہے خر شہر غریبوں کو �می

خم وطنۂ کبھی بہ حیل مذہ? کبھی بنا

ہو�ئے دہر سے دل کا چر�c کیا بجھتا

ز سلامت ہے یار کا د�من مگر فر�

٭٭٭

ہم تو یوں خوش تھے کہ �= تار گریبان میں ہے

کیا خبر تھی کہ بہار �س کے بھی �رمان میں ہے

خی تیشہ بدست �یک ضرب �ور بھی �ے زندگ

سانس لینے کی سکت �ب بھی مری جان میں ہے

میں تجھے کھو کے بھی زندہ ہوں یہ دیکھا تو نے

کس قدر حوصلہ ہارے ہوئے �نسان میں ہے

فاصلے قرب کے شعلوں کو ہو� دیتے ہیں

دتو مرے دھیان میں ہے ددور �ور میں ترے شہر سے

cخر دیو�ر فروز�ں ہے �بھی �یک چر� س

خم سحری! کچھ ترے �مکان میں ہے �ے نسی

آ�تی ہے گاہے گاہے دل دھڑکنے کی صد�

آ�و�ز مرے کان میں ہےیج سے �ب بھی تری

ز خت شہر کے ہر ظلم کے با وصy فر� خلق

ہائے وہ ہاتھ کہ �پنے ہی گریبان میں ہے

٭٭٭

خد جفا کیوں نہیں دیتے خاموش ہو کیوں د�

بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے

خن زند�ں تو نہیں ہے وحشت کا سب? روز

مہر و مہ و �نجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے

خم جاں ہے خج غ خز علا خ�= یہ بھی تو �ند�

�ے چارہ گرو! درد بڑھا کیوں نہیں دیتے

منصy ہو �گر تم تو ک? �نصا> کرو گے

مجرم ہیں �گر ہم تو سز� کیوں نہیں دیتے

خ� دل و جاں بھی رہزن ہو تو حاضر ہے متا

رہبر ہو تو منزل کا پتہ کیوں نہیں دیتے

خل چمن پر ز �ہ کیا بیت گئی �ب کے فر�

خن قفس مجھ کو صد� کیوں نہیں دیتے یار�

٭٭٭

خR چمن �ب سماعت کا �عتبار کسے خR کن دسن بھی �ے نغمہ سن

خت بہار کسے کون سا پیرہن سلامت ہے دیجیے دعو

خد ہجر کی شمعیں گھل چکے نیم سوختہ پیکر جل بجھیں در

خب �نتظار کسے سر میں سود�ئے خام ہو بھی تو کیا طاقت و تا

آ�ئے �ور ہم مفلسوں کے پاس تھا کیا خد جاں بھی تو نذر کر نق

خع یار کسے خل دل میں �تنا غنی �س قدر پاس طب کون ہے �ہ

آ�نکھیں خش ذوق جستجو معلوم د�c ہے دل چر�c ہیں کاہ

خت نغم آ�رزو کیجیے فرص خر خم شہ قر�ر کسےۂ مات

دہو� کس کو جاگیر چشم و زلy ملی خک عشق کون د�ر�ئے مل

خر فرہاد" خن فرہاد، برس خر شیریں پہ �ختیار کسے"خو قص

خD رسو�ئی خگ تحقیر و مر خل مشرب مسیحائی سن حاص

خت د�ر �ن صلیبوں کا �عتبار کسے قامت یار ہو کہ رفع

٭٭٭

دل بہلتا ہے کہاں �نجم و مہتاب سے بھی

بے خو�ب سے بھیۂ�ب تو ہم لوD گئے، دید

رو پڑ� ہوں تو کوئی بات ہی �یسی ہو گی

آ�د�ب سے بھی میں کہ و�قy تھا ترے ہجر کے

آ�نکھ کا شیوہ ہے خفا ہو جانا کچھ تو �س

خل بےتاب سے بھی �ور کچھ بھول ہوئی ہے د

تہو� تیر� کرم بھی معلومی�ے سمندر =

پیاس ساحل کی تو بجھتی نہیں سیلاب سے بھی

د�س حسن کو جانے ہے زمانہ سار� کچھ تو

�ور کچھ بات چلی ہے مرے �حباب سے بھی

ز دل کبھی غم کے سمندر کا شناور تھا فر�

آ�تا ہے �= موج پایاب سے بھیۂ �ب تو خو>

٭٭٭

خم عاشقی نہ لیا وفا کے باب میں �لز�

کہ تیری بات بھی کی �ور تیر� نام بھی نہ لیا

خم �لتفات رہے خوشا وہ لوD کہ محرو

خز سادگی نہ لیا ترے کرم کو بہ �ند�

تمہارے بعد کئی ہاتھ دل کی سمت بڑھے

ہز�ر شکر گریباں کو ہم نے سی نہ لیا

تمام مستی و تشنہ لبی کے ہنگامے

کسی نے سنگ �ٹھایا کسی نے مینا لیا

ز ظلم ہے �تنی خود �عتمادی بھی فر�

کہ ر�ت بھی تھی �ندھیری چر�c بھی نہ لیا

٭٭٭

�یسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے

تیر� ملنا بھی جد�ئی کی گھڑی ہو جیسے

�پنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں

ر�ستے میں کوئی دیو�ر کھڑی ہو جیسے

کتنے ناد�ں ہیں ترے بھولنے و�لے کہ تجھے

یاد کرنے کے لئے عمر پڑی ہو جیسے

تیرے ماتھے کی شکن پہلے بھی دیکھی تھی مگر

یہ گرہ �ب کہ مرے دل میں پڑی ہو جیسے

ددور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں منزلیں

�پنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے

ز آ�ج دل کھول کہ روئے ہیں تو یوں خوش ہیں فر�

چند لمحوں کی یہ ر�حت بھی بڑی ہو جیسے

٭٭٭

کیا �یسے کم سخن سے کوئی گفتگو کرے

جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے

خ= مر�سم کا دکھ نہیں �ب تو ہمیں بھی تر

دتو کرے آ�غاز پر دل یہ چاہتا ہے کہ

تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی

خود کو گنو� کے کون تری جستجو کرے

آ�رزو ہے کہ وہ زخم کھائیے �ب تو یہ

آ�رزو کرے تا زندگی یہ دل نہ کوئی

نظرۂتجھ کو بھلا کے دل ہے وہ شرمند

�ب کوئی حادثہ ہی ترے روبرو کرے

ز آ�D میں جلتے رہو فر� چپ چاپ �پنی

آ�برو کرے خ� حال سے بے دنیا تو عر

٭٭٭

ہر �یک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے

خت زمانہ سے زخم کاری لگے کہ ہم کو دس

�د�سیاں ہوں مسلسل تو دل نہیں روتا

کبھی کبھی ہو تو یہ کیفیت بھی پیارے لگے

خق یار مگر بظاہر �یک ہی ش? ہے فر�

کوئی گز�رنے بیٹھے تو عمر ساری لگے

آ�شنا کا کیا کیجیے خل درد علاج �س د

کہ تیر بن کہ جسے حر> غمگساری لگے

ہمارے پاس بھی بیٹھو بس �تنا چاہتے ہیں

ہمارے ساتھ طبیعت �گر تمہاری لگے

ز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ فر�

یہ کیا ضرور وہ صورت سبھی کو پیارے لگے

٭٭٭

سو دوریوں پہ بھی مرے دل سے جد� نہ تھی

دتو میری زندگی تھی مگر بے وفا نہ تھی

دل نے ذر� سے غم کو قیامت بنا دیا

آ�نکھ �تنی زیادہ خفا نہ تھی ورنہ وہ

د�ٹھا ہے کسی کو پکار کر یوں دل لرز

میری صد� بھی جیسے کہ میری صد� نہ تھی

خD خز�ں جو شا� سے ٹوٹا وہ خا= تھا بر

�س جاں سپردگی کے تو قابل ہو� نہ تھی

د�ٹھی جگنو کی روشنی سے بھی کیا کیا بھڑ=

آ�شنا نہ تھی cس شہر کی فضا کہ چر��

د�ن کو دیکھ کر آ�سماں جو رہے خن مرہو

خوش ہوں کہ میرے ہونٹوں پہ کوئی دعا نہ تھی

ز ہم ہر جسم د�c د�c تھا لیکن فر�

بدنام یوں ہوئے کہ بدن پر قبا نہ تھی

٭٭٭

آ�یا جو بھی دکھ یاد نہ تھا یاد

آ�یا آ�ج کیا جانیے کیا یاد

پھر کوئی ہاتھ ہے دل پر جیسے

آ�یا خد وفا یاد پھر تر� عہ

جس طرح دھند میں لپٹے ہوئے پھول

آ�یا �یک �= نقش تر� یاد

�یسی مجبوری کے عالم میں کوئی

آ� آ�یایا بھی یاد تو کیا یاد

خر منزل جا کر �ے رفیقو س

آ�یا آ�بلہ پا یاد کیا کوئی

آ� � تھا بچھڑنا تیر�ییاد

آ�یا پھر نہیں یاد کہ کیا یاد

ج? کوئی زخم بھر� د�c بنا

آ�یا ج? کوئی بھول گیا یاد

ز یہ محبت بھی ہے کیا روD فر�

آ�یا جس کو بھولے وہ صد� یاد

٭٭٭

زخم کو پھول تو صرصر کو صبا کہتے ہیں

تدور ہے کیا لوD ہیں کیا کہتے ہیں جانے کیا

در= کے چلے در= کیا قیامت ہے کہ جن کے لئے

آ�بلہ پا کہتے ہیں �ب وہی لوD ہمیں

کوئی بتلاؤ کہ �= عمر کا بچھڑ� محبوب

تتا کہیں مل جائے تو کیا کہتے ہیں �تفاق

خز سخن ہے کہ جفا کو تیری یہ بھی �ند�

غمزہ و عشوہ و �ند�ز و �د� کہتے ہیں

دتو تیری پرستش کر لیں ددور ہے ج? تلک

د�س کو خد� کہتے ہیں ہم جسے چھو نہ سکیں

ز خل تمنا کو فر� کیا تعج? ہے کہ ہم �ہ

دبر� کہتے ہیں خم تمنا ہیں وہ جو محرو

٭٭٭

خر سنگ ہیں خc مے تو سز�و� گل ہو چر�

خن رنگ ہیں مینا سرشت ہم بھی شہید�

مطرب کی بے دلی ہے کہ محفل کی بے حسی

خ= نو� ہائے چنگ ہیں؟ کس تیغ سے ہلا

آ�ر�ئشوں میں گم خت خیال کی دل خلو

آ�نکھیں نگار خانۂ ہستی پہ دنگ ہیں

تاب و تو�ں نہیں ہے مگر حوصلے تو دیکھ

خن سنگ ہیں شیشہ صفات پھر بھی حریفا

خن سادہ دل تری رسو�ئیاں نہ ہوں �ے حس

خس نام و ننگ ہیں کچھ لوD کشتۂ ہو

خن خاطر کو کیا کریں رو معذور ہیں تل

ز �پنی طبیعت سے تنگ ہیں ہم خود فر�

٭٭٭

وہی جنوں ہے وہی کوچۂ ملامت ہے

خد وفا سلامت ہے خت دل پہ بھی عہ شکس

یہ ہم جو باc و بہار�ں کا ذکر کرتے ہیں

خل تر وہ سرو قامت ہے تو مدعا وہ گ

خل ناد�ں خت ہستی مگر د بجا یہ فرص

نہ یاد کر کے �سے بھولنا قیامت ہے

خق ستم خم وفا و مش چلی چلے یونہی رس

خو دوستاں سلامت ہے خغ یار و سر کہ تی

خت بحر سے ساحل لرز رہا ہے مگر سکو

یہ خامشی کسی طوفان کی علامت ہے

ز ہے شاعر عجی? وضع کا �حمد فر�

کہ دل دریدہ مگر پیرہن سلامت ہے

٭٭٭

دچور ہو گئے دریا روز کی مسافت سے

پتھروں کے سینوں پر تھک گئے سو گئے دریا

جانے کون کاٹے گا فصل لعل و گہر کی

ریتلی زمینوں میں سنگ بو گئے دریا

آ�نکھوں سے خب غم ک? تک یہ گریز �ے سحا

خر طوفان میں خشک ہو گئے دریا �نتظا

آ�تی ہے کس کو ڈھونڈے خوشبو چاندنی میں

ساحلوں کے پھولوں کو ک? سے رو گئے دریا

بجھ گئی ہیں قندیلیں خو�ب ہو گئے چہرے

آ�نکھ کے جزیروں کو پھر ڈبو گئے دریا

خل غم پہ ہنستا ہے دل چٹان کی صورت سی

ج? نہ بن پڑ� کچھ بھی د�c دھو گئے دریا

ز زندہ ہیں خم نامر�دی سے ہم فر� زخ

دیکھنا سمندر میں غرق ہو گئے دریا

٭٭٭

آ�د�ب سمجھ تو کہ �نجان ہے �س شہر کے

پھول روئے تو �سے خندۂ شاد�ب سمجھ

آ� جائے میسر تو مقدر تیر� کہیں

آ�سودگی دہر کو نایاب سمجھخ ورنہ

آ�D ہے �شکوں میں نہیں خت گریہ میں جو حسر

آ�ب سمجھ آ�نکھوں کو مری چشمۂ بے خشک

آ�و�رۂ صد شوق نہ کہہ خج دریا ہی کو مو

خ? تشنۂ سیلاب سمجھ خگ ساحل کو بھی ل ری

یہ بھی و� ہے کسی مانوس کرن کی خاطر

خن در کو بھی �= دیدۂ بے خو�ب سمجھ روز

ز خل �مید سے تکتا ہے فر� �ب کسے ساح

دل تھی �سے غرقاب سمجھخ وہ جو �یک کشتی

٭٭٭

خc جد�ئی نہیں دیتا کچھ بھی قرب جز د�

دتو نہیں ہے تو دکھائی نہیں دیتا کچھ بھی

دل کے زخموں کو نہ رو، دوست کا �حسان سمجھ

خت حنائی نہیں دیتا کچھ بھی ورنہ وہ دس

کیا �سی زہر کو تریاق سمجھ کر پی لیں

ناصحوں کو تو سجھائی نہیں دیتا کچھ بھی

�یسا گم ہوں تری یادوں کے بیابانوں میں

دل نہ دھڑکے تو سنائی نہیں دیتا کچھ بھی

آ�باد سوچتا ہوں تو ہر �= نقش میں دنیا

دیکھتا ہوں تو دکھائی نہیں دیتا کچھ بھی

ز خy شعر کو کس مصر میں لائے ہو فر� یوس

آ�شفتہ نو�ئی نہیں دیتا کچھ بھی خق ذو

٭٭٭

دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے و�لا

وہی �ند�ز ہے ظالم کا زمانے و�لا

�ب �سے لوD سمجھتے ہیں گرفتار مر�

سخت نادم ہے مجھے د�م میں لانے و�لا

دگل کی صورت صبح خت دم چھوڑ گیا نگہ

آ�نے و�لا ر�ت کو غنچۂ دل میں سمٹ

کیا کہیں کتنے مر�سم تھے ہمارے �س سے

وہ جو �= شخص ہے منہ پھیر کے جانے و�لا

آ� جاتی تھی ساری دنیا تیرے ہوتے ہوئے

آ�نے و�لا آ�ج تنہا ہوں تو کوئی نہیں

منتظر کس کا ہوں ٹوٹی ہوئی دہلیز پہ میں

آ�نے و�لا آ�ئے گا یہاں کون ہے کون

کیا خبر تھی جو مری جاں میں گھلا ہے �تنا

خر د�ر بھی لانے و�لا ہے وہی مجھ کو س

میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے

ہے کوئی خو�ب کی تعبیر بتانے و�لا

ز تم تکلy کو بھی �خلاص سمجھتے ہو فر�

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے و�لا

٭٭٭

یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے

وہ بت ہے یا خد� دیکھا نہ جائے

آ�ج دیکھا دتو نے یہ کن نظروں سے

کہ تیر� دیکھنا دیکھا نہ جائے

ہمیشہ کے لئے مجھ سے بچھڑ جا

یہ منظر بارہا دیکھا نہ جائے

آ�زما کر غلط ہے جو سنا، پر

تجھے �ے بے وفا دیکھا نہ جائے

خس وفا ہے یہ محرومی نہیں پا

کوئی تیرے سو� دیکھا نہ جائے

آ�خر آ�شنا بنتے ہیں یہی تو

آ�شنا دیکھا نہ جائے کوئی نا

ز �پنے سو� ہے کون تیر� فر�

تجھے تجھ سے جد� دیکھا نہ جائے

٭٭٭

دل بھی بجھا ہو شام کی پرچھائیاں بھی ہوں

مر جائیے جو �یسے میں تنہائیاں بھی ہوں

خج سپردگی آ�نکھوں کی سر� لہر ہے مو

یہ کیا ضرور ہے کہ �ب �نگڑ�ئیاں بھی ہوں

خن سادہ لوح نہ دل میں �تر سکا دحس ہر

خج یار میں گہر�ئیاں بھی ہوں کچھ تو مز�

دنیا کے تذکرے تو طبیعت ہی لے بجھے

آ�ر�ئیاں بھی ہوں بات �س کی ہو تو پھر سخن

ز پہلے پہل کا عشق �بھی یاد ہے فر�

دل خود یہ چاہتا تھا کہ رسو�ئیاں بھی ہوں

٭٭٭

ج? تری یاد کے جگنو چمکے

آ�نسو چمکے آ�نکھ میں دیر تک

سخت تاریک ہے دل کی دنیا

دو چمکے�یسے عالم میں �گر ت

خر وفا خر باز� ہم نے دیکھا س

آ�نسو چمکے کبھی موتی کبھی

خس جمال خت �حسا شرط ہے شد

رنگ تو رنگ ہے خوشبو چمکے

ز خر تماشا ہے فر� آ�نکھ مجبو

دو چمکے�یک صورت ہے کہ ہر س

٭٭٭

خر بے وفا کے مجھے آ�ئے ہیں �س یا پیام

آ�یا کہیں بھلا کے مجھے جسے قر�ر نہ

جد�ئیاں ہوں �یسی کہ عمر بھر نہ ملیں

فری? دو تو ذر� سلسلے بڑھا کے مجھے

خد یار کا عالم نشے سے کم تو نہیں یا

کہ لے �ڑ� ہے کوئی دوش پر ہو� کے مجھے

میں خود کو بھول چکا تھا مگر جہاں و�لے

آ�ئینہ دکھا کے مجھے �د�س چھوڑ گے

خت د�ر تمہارے بام سے �ب کم نہیں ہے رفع

جو دیکھنا ہو تو دیکھو ذر� نظر �ٹھا کے مجھے

آ�نسو ں میں �= تصویرؤکھنچی ہوئی ہے مرے

ز دیکھ رہا ہے وہ مسکر� کے مجھے فر�

٭٭٭

خن وفا ہو جانا خم پیما خز غ بے نیا

تم بھی �وروں کی طرح مجھ سے جد� ہو جانا

میں بھی پلکوں پہ سجا لوں گا لہو کی بوندیں

خر حنا ہو جاناۂتم بھی پا بست زنجی

گرچہ �ب قرب کا �مکاں ہے بہت کم پھر بھی

کہیں مل جائیں تو تصویر نما ہو جانا

صر> منزل کی طل? ہو تو کہاں ممکن ہے

آ�بلہ پا ہو جانا دوسروں کے لیے خود

ں کا صلہؤخلق کی سنگ زنی میری خطا

ددور ذر� ہو جانا تم تو معصوم ہو تم

�ب مرے و�سطے تریاق ہے �لحاد کا زہر

تم کسی �ور پجاری کے خد� ہو جانا

٭٭٭

دل میں �ب طاقت کہاں خوننابہ �فشانی کرے

ورنہ غم وہ زہر ہے پتھر کو بھی پانی کرے

خش پا کا خیال عقل وہ ناصح کہ ہر دم لغز

دل وہ دیو�نہ یہی چاہے کہ ناد�نی کرے

حالات کا خیہاں مجھے بھی ہو گلہ بے مہر

آ�زردہ �گر میری پریشانی کرے تجھ کو

خر جنوں ہے چا= د�مانو! یہاں یہ تو �= شہ

س? کے س? وحشی ہیں کس کو کون زند�نی کرے

خ� مژہ خم گل ہے مگر بے رنگ ہے، شا موس

آ�نکھوں کی ویر�نی کرے کتنا شرمندہ ہمیں

ہنستے چہروں سے دلوں کے زخم پہچانے گا کون

تجھ سے بڑھ کر ظلم �پنی خندہ پیشانی کرے

ز ناصحوں کو کون سمجھائے نہ سمجھے گا فر�

وہ تو س? کی بات سن لے �ور من مانی کرے

٭٭٭

ساماں تھے لیکن �تنا �ند�زہ نہ تھا و بے سر

آ�و�زہ نہ تھا دلٹنے کا خ�س سے پہلے شہر کے

آ�نکھیں کرب سے پتھر� گئیں خ> دل دیکھا تو ظر

رنا کا یہ خمیازہ نہ تھا خون رونے کی تم

خم خیال خق بز آ� �ے رون آ� مرے پہلو میں

خت رخسار و ل? کا �ب تک �ند�زہ نہ تھا لذ

آ�مد کے بعد ہم نے دیکھا ہے خز�ں میں بھی تری

تازہ نہ تھا و کونسا گل تھا کہ گلشن میں تر

ز د�س حسن کے لیکن فر� ہم قصیدہ خو�ں نہیں

دسرمہ و غازہ نہ تھا خن �تنا کہتے ہیں رہی

٭٭٭

خر دریا برساؤتپتے صحر� ں پہ گرجا س

تھی طل? کس کو مگر �بر کہاں جا برسا

کتنے طوفانوں کی حامل تھی لہو کی �یک بوند

آ�نکھ سے دریا برسا دل میں �= لہر �ٹھی

دہو�ئ کوئی غرقاب کوئی ما آ�ب بے

خر بے فیض جو برسا بھی تو کیسا برسا �ب

ں میں طوفان �ٹھانے و�لےؤچڑھتے دریا

خن صحر� برسا خر د�م چند بوندیں ہی س

طنز ہیں سوختہ جانوں پہ گرجتے بادل

یا تو گھنگھور گھٹائیں نہ �ٹھا ، یا برسا

�بر و بار�ں کے خد� ، جھومتا بادل نہ سہی

رنا برسا خر تم خر گلز� آ�D ہی �ب س

زؤ�پنی قسمت کہ گھٹا ں میں بھی جلتے ہیں فر�

�ور جہاں وہ ہیں وہاں �بر کا سایہ برسا

٭٭٭

خج نفس بھی �فعی کی طرح ڈسنے لگی مو

خم یار بہت ہو چکی بس بھی خر غ �ے زہ

درت سے بھی گر�ں ہے یہ حبس تو جلتی ہوئی

خر کرم �ب تو برس بھی �ے ٹھہرے ہوئے �ب

رطل ہے تو کچھ روز خن خر�بات ، مع آ�ئی

خد بلا نوش و تہی جام ترس بھی �ے رن

خن چمن پر ہے یہ روشن ریاد و نگہبا ص

آ�باد ہمیں سے ہے نشیمن بھی قفس بھی

جاوید گنہگار نہ کر دےخ محرومی

خط مسلسل سے ہوس بھی بڑھ جاتی ہے کچھ ضب

٭٭٭

گھر میں کتنا سناٹا ہے باہر کتنا شور

یا دنیا دیو�نی ہے یا میر� دل ہے چور

آ� کر ناچ آ�نکھوں کے گلز�روں میں بھی کبھی تو

دل میں کون تجھے دیکھے گا �ے جنگل کے مور

یوں پھرتے ہیں گلیوں میں گھبر�ئے گھبر�ئے سے

آ�دم خور جیسے �س بستی کے سائے بھی ہوں

سوچ کی چنگاری بھڑکا کر کیا ناد�نی کی

آ�D ہیں چاروں �ور �س لمحے سے لے کر �ب تک

ز آ�تا ہے فر� چا= گریباں پھرنا کس کو خوش

ہم بھی �س کو بھول نہ جائیں دل پہ �گر ہو زور

٭٭٭

پھر �سی ر�ہگزر پر شاید

ہم کبھی مل سکیں مگر شاید

جن کے ہم منتظر رہے �ن کو

مل گئے �ور ہمسفر شاید

جان پہچان سے بھی کیا ہو گا

پھر بھی �ے دوست غور کر شاید

�جنبیت کی دھند چھٹ جائے

چمک �ٹھے تری نظر شاید

زندگی بھر لہو رلائے گی

خن بے خبر شاید خد یار� یا

ز جو بھی بچھڑے وہ ک? ملے ہیں فر�

پھر بھی تو �نتظار کر شاید

٭٭٭

�ب وہ جھونکے کہاں صبا جیسے

آ�D ہے شہر کی ہو� جیسے

ش? سلگتی ہے دو پہر کی طرح

چاند، سورج سے جل بجھا جیسے

مدتوں بعد بھی یہ عالم ہے

دہو� جیسے دتو جد� آ�ج ہی

�س طرح منزلوں سے ہوں محروم

خک سفر نہ تھا جیسے میں شری

خی منزل �ب بھی ویسی ہے دور

ساتھ چلتا ہو ر�ستہ جیسے

ز تتا بھی زندگی میں فر� �تفاق

جیسے؎ 1 دوست ملتے نہیں ضیا

٭٭٭

ضیاء �لدین ضیا؎ 1

مستقل محرومیوں پر بھی دل تو مانا نہیں

لاکھ سمجھایا کہ �س محفل میں �ب جانا نہیں

خود فریبی ہی سہی کیا کیجیے دل کا علاج

تو نظر پھیرے تو ہم سمجھیں کہ پہچانا نہیں

�یک دنیا منتظر ہے �ور تیری بزم میں

�س طرح بیٹھے ہیں ہم جیسے کہیں جانا نہیں

آ�تی ہے کر گزرو کہیں �یسا نہ ہو جی میں جو

کل پشیماں ہو کہ کیوں دل کا کہا مانا نہیں

ز زندگی پر �س بڑھ کر طنز کیا ہو گا فر�

�س کا یہ کہنا کہ تو شاعر ہے دیو�نہ نہیں

٭٭٭

تو پاس بھی ہو تو دل بیقر�ر �پنا ہے

کہ ہم کو تیر� نہیں �نتظار �پنا ہے

ملے کوئی بھی تر� ذکر چھیڑ دیتے ہیں

کہ جیسے سار� جہاں ر�ز د�ر �پنا ہے

خ= دوستی کا خیال وہ دور ہو تو بجا تر

وہ سامنے ہو تو ک? �ختیار �پنا ہے

زمانے بھر کے دکھوں کو لگا لیا دل سے

آ�سرے پہ کہ �= غمگسار �پنا ہے �س

بلا سے جاں کا زیاں ہو �س �عتماد کی خیر

وفا کرے نہ کرے پھر بھی یار �پنا ہے

خت جاں بھی وہی ہے کیا کیجیے ز ر�ح فر�

وہ جس کے ہاتھ سے سینہ فگار �پنا ہے

٭٭٭

جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی

دیکھا تو وہ تصویر ہر �= دل سے لگی تھی

تنہائی میں روتے ہیں کہ یوں دل کو سکوں ہو

خ? محفل سے لگی تھی یہ چوٹ کسی صاح

آ�شوب نے پھر حشر جگایا �ے دل ترے

آ�نکھ بھی مشکل سے لگی تھی بے درد �بھی

خلقت کا عج? حال تھا �س کوئے ستم میں

خن قاتل سے لگی تھی سائے کی طرح د�م

�تر� بھی تو ک? درد کا چڑھتا ہو� دریا

خی جاں موت کے ساحل سے لگی تھی ج? کشت

٭٭٭

کسی کے تذکرے بستی میں کو بکو جو ہوئے

خ� گفتگو جو ہوئے ہمیں خموش تھے موضو

آ�نکھ ہی نم ہے نہ دل کا درد ہی کم ہے نہ

نہ جانے کون سے �رماں تھے وہ لہو جو ہوئے

نظر �ٹھائی تو گم گشتۂ تحیر تھے

آ�ئنے کی طرح تیرے رو برو جو ہوئے ہم

ہمیں ہیں وعدۂ فرد� پہ ٹالنے و�لے

دجو جو ہوئے ہمیں نے بات بدل دی بہانہ

ر د ہو کہ ہو منصو ز ہو کہ وہ فرہا فر�

آ�رزو جو ہوئے خم �نہیں کا نام ہے ناکا

٭٭٭

�ب �ور کیا کسی سے مر�سم بڑھائیں ہم

یہ بھی بہت ہے تجھ کو �گر بھول جائیں ہم

صحر�ئے زندگی میں کوئی دوسر� نہ تھا

آ�پ ہی �پنی صد�ئیں ہم سنتے رہے ہیں

�س زندگی میں �تنی فر�غت کسے نصی?

آ� کہ تجھے بھول جائیں ہم �تنا نہ یاد

خ? فر�ق تو �تنی دل زدہ تو نہ تھی �ے ش

آ� تیرے ر�ستے میں ستارے لٹائیں ہم

ز وہ لوD �ب کہاں ہیں جو کہتے تھے کل فر�

ہے ہے خد� نہ کردہ تجھے بھی رلائیں ہم

٭٭٭

آ�تشیں کرن خر گل میں کوئی د�تری تھی شہ

وہ روشنی ہوئی کے سلگنے لگے بدن

خر چمن سے عقیدت تھی کس قدر غارت گ

شاخوں نے خود �تار دیے �پنے پیرہن

�س �نتہائے قرب نے دھندلا دیا تجھے

کچھ دور ہو کہ دیکھ سکوں تیر� بانکپن

میں بھی تو کھو چلا تھا زمانے کے شور میں

اا آ� گئے مع یہ �تفاق ہے کہ وہ یاد

ز جس کے طفیل مہر بل? ہم رہے فر�

خل �نجمن �س کے قصیدہ خو�ں ہیں سبھی �ہ

٭٭٭

کیسی طل? �ور کیا �ند�زے مشکل ہے تقدیر بنے

آ�خر وہ شمشیر بنے دل پر جس کا ہاتھ بھی رکھیو

آ�ئے �ور ٹوٹ گئے غم کے رشتے بھی ناز= تھے تم

دل کا وحشی �ب کیا سنبھلے �ب کیا شے زنجیر بنے

�پنا لہو تیری رعنائی تاریکی �س دنیا کی

میں نے کیا کیا رنگ چنے ہیں دیکھوں کیا تصویر بنے

�پنا یہ عالم ہے خود سے بھی �پنے زخم چھپاتے ہیں

لوگوں کو یہ فکر کہ کوئی موضو� تشہیر بنے

ز �س عشق میں س? کچھ کھو کر بھی کیا پایا ہے تم نے فر�

ر بنے خم وفا تھے جو غال? �ور می وہ بھی تو ناکا

٭٭٭

�پنی محبت کے �فسانے ک? تک ر�ز بناؤ گے

رسو�ئی سے ڈرنے و�لو ، بات تمہی پھیلاؤ گے

بہت و�لے �ور تو چاہنے �س کا کیا ہے تم نہ سہی

خ= محبت کرنے و�لو تم تنہا رہ جاؤ گے!تر

سےں جاD رہے ہیں پہرو!کی خوش فہمی ماروں کے ہجر

آ� جاؤ گے جیسے یوں ش? کٹ جائے گی جیسے تم

خم تمنا کا بھر جانا گویا جان سے جانا ہے زخ

دھلانا سہل نہیں ہے خود آ�ؤ گے کو د�س کا ب بھی یاد

خد �قر�ر کریں کی باتیں کیوں جھوٹے وفا چھوڑو عہ

کل میں بھی شرمندہ ہوں گا کل تم بھی پچھتاؤ گے

ز سے و�قy ہیں و یہ پند دو رہنے نصیحت ہم بھی فر�

د�س کو کیا سمجھاؤ گے جس نے خود سو زخم سہے ہوں

٭٭٭

دتو نے مسیحائی کی چند لمحوں کے لیے

پھر وہی میں ہوں وہی عمر ہے تنہائی کی

خ? ہجر ، قیامت کی طرح کس پہ گزری نہ ش

آ�ر�ئی کی فرق �تنا ہے کہ ہم نے سخن

خس آ�ئی ہے وہ قو قزح �پنی باہوں میں سمٹ

لوD تصویر ہی کھینچا کیے �نگڑ�ئی کی

خت عشق بجا ،طعن یار�ں تسلیمۂغیر

د�سی ہرجائی کی بات کرتے ہیں مگر س?

ز د�ن کو بھولے ہیں تو کچھ �ور پریشاں ہیں فر�

�پنی د�نست میں دل نے بڑی د�نائی کی

٭٭٭

خy دوست ٹھکر�نا پڑے زعم �یسا کیا کہ لط

یہ طبیعت ہے تو شاید جاں سے بھی جانا پڑے

خانہ ویر�نی تو ہوتی ہے مگر �یسی کہاں

آ�نکھوں سے خود �پنا گھر نہ نا پڑےپہچا�پنی

کدے کی خیر ہویرسم چل نکلی عج? �ب م

ہے وہی جمشید جس کے ہاتھ پیمانہ پڑے

د�س بزم سے �ٹھنے سے پہلے سوچ لو سوچ لو

آ�نا پڑے یہ نہ ہو پھر دل کے ہاتھوں لوٹ کر

لے چلے ہیں حضرت ناصح مجھے جس ر�ہ سے

yآ�ئےلط د�دھر بھی کوئے جانانہ پڑےج?

ز تشق ہو گیا ورنہ فر� غم ہی �یسا تھا کہ دل

کیسے کیسے حادثے ہنس ہنس کے سہہ جانا پڑے

٭٭٭

�ب فرصت ہے نہ �حساس ہے غم سے �پنے

ورنہ ہم روز ہی ملتے تھے صنم سے �پنے

دل نہ مانا کہ کسی �ور کے ر�ستے پہ چلیں

خش قدم سے �پنے لاکھ گمر�ہ ہوئے نق

جی چکے ہم جو یہی شوق کی رسو�ئی ہے

تم سے بیگانے ہوئے جاتے ہیں ہم سے �پنے

د�ن کی آ�باد ہے محفل ہم نہیں پھر بھی تو

ہم سمجھتے تھے کہ رونق ہے تو دم سے �پنے

میرے د�من کے مقدر میں ہے خالی رہنا

خت کرم سے �پنے آ�پ شرمندہ نہ ہوں دس

ز خD تمنا پہ بھی �= عمر فر� رہ چکے مر

�ب جو زندہ ہیں تو شعروں کے بھرم سے �پنے

٭٭٭

تم بھی خفا ہو لوD بھی برہم ہیں دوستو

دبرے ہم ہیں دوستو �ب ہو چلا یقیں کہ

کس کو ہمارے حال سے نسبت ہے ، کیا کہیں

دپر نم ہیں دوستو آ�نکھیں تو دشمنوں کی بھی

�پنے سو� ہمارے نہ ہونے کا غم کسے

�پنی تلاش میں تو ہمیں ہم ہیں دوستو

آ�ج شام ہی سے ہے دل بھی بجھا بجھا کچھ

کچھ شہر کے چر�c بھی مدھم ہیں دوستو

آ�رزو سے بھی باہر نکل چلو خر خ�س شہ

�ب دل کی رونقیں بھی کوئی دم ہیں دوستو

ز پر �تنا ضرور ہے س? کچھ سہی فر�

دنیا میں �یسے لوD بہت کم ہیں دوستو

٭٭٭

آ�نکھوں میں تھے و تو کہاں تھا زندگی کے روز  ش?

آ�نسو بے آ�یا کہ آ�نکھوں میں تھے آ�ج یاد سب?

ر�ت بھر تاروں کی صورت جاگتے رہنا ہمیں

آ�نکھوں میں تھے صبح خب ش? دم کہنا کہ کیا کیا خو�

خبسر� گئی تیری یادوں کی مہک ہر درد کو

خر آ�نکھوں میں تھے ورنہ ترے دکھ بھی �ے شہ طرب

تقلق جی کو نہ تھا �ب تلک جن کی جد�ئی کا

دتو بچھڑ� تو وہ بھی س? کے آ�نکھوں میں تھے آ�ج س?

ز خط غم نے پتھر کر دیا ورنہ فر� �ب تو ضب

آ�نکھوں میں تھے دیکھتا کوئی کہ دل کے زخم ج?

٭٭٭

آ�ئے تھے خر شوق کے �یسے نہ لمحے وفو

آ�ئے تھے  یوں چپ ہیں ترے پاس ہی جیسے نہ

خت جام سے چہروں پہ دیکھنا ساقی شکس

آ�ئے تھےۂوہ رنگ بھی کہ شعل مے سے نہ

دل پر لگی خر�ش تو چہرے شفق ہوئے

آ�ئے تھے �ب تک تو زخم ر�س کچھ �یسے نہ

پہلے بھی روئے ہیں مگر �ب کے وہ کرب ہے

آ�ئے تھے آ�نکھوں میں جیسے نہ آ�نسو کبھی بھی

ز ج? صبح ہو چکی ہے تو کیا سوچنا فر�

آ�ئے تھے آ�ئے تھے کیسے نہ وہ ر�ت کیوں نہ

٭٭٭

�سی خیال میں تاروں کو ر�ت بھر دیکھوں

خح قیامت سے پیشتر دیکھوں کہ تجھ کو صب

تلو چبھ رہی ہے میں آ�نکھوں خ�س �= چر�c کی

تمام شہر ہو روشن تو �پنا گھر دیکھوں

مجھے خود �پنی طبیعت پہ �عتماد نہیں

بھر دیکھوں خد� کرے کہ تجھے �ب نہ عمر

آ�و�زہ خل بیاباں نہ ہو یہ صد�ئے غو

رتھر جو لوٹ کر دیکھوں مر� وجود ہے پ

نظر عذ�ب ہے پاؤں میں ہو �گر زنجیر

فضا کے رنگ کو دیکھوں کہ بال و پر دیکھوں

جد� سہی مری منزل بچھڑ نہیں سکتا

میں کس طرح تجھے �وروں کا ہمسفر دیکھوں

ز �گر کر سکیں مسیحائی وہ ل? فر�

خل درد میں سو سو طرح سے مر دیکھوںبقو

٭٭٭

رر ہے تری تق یر کارمنتظر ک? سے تحی

بات کر،تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا

ر�ت کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند �ڑ گئی

خو�ب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا

کیسے پایا تھا تجھے،پھر کس طرح کھویا تجھے

مجھ سا منکر بھی تو قائل ہو گیا تقدیر کا

جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے

میں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا

رے بغیریجانے کس عالم میں تو بچھڑ� کہ ہے ت

آ�ج تک ہر نقش فریادی مری تحریر کا

لوD مہر عشق میں سر پھوڑنا بھی کیا کہ یہ بے

خشیر کا جوئے خوں کو نام دے دیتے ہیں جوئے

ز د�سے شدت سے چاہا ہے فر� جس کو بھی چاہا

سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا

٭٭٭

خل غم جاتے ہیں نا�مید تیرے شہر سے  �ہ

ج? نہیں تجھ سے تو کیا �مید تیرے شہر سے

کبھی دیدنی تھی سادگی �ن کی جو رکھتے تھے

آ�شنا �مید تیرے شہر سے �ے وفا نا

خر گئی قاتل ہو تیرے دیو�نوں کے حق میں زہ

نا �میدی سے سو� �مید تیرے شہر سے

دکو بکو پابجولاں دل گرفتہ پھر رہے ہیں

ہم جو رکھتے تھے سو� �مید تیرے شہر سے

دتو تو بے پرو�ہی تھا �ب لوD بھی پتھر ہوئے

یا ہمیں تجھ سے تھی یا �مید تیرے شہر سے

ز خن فر� ر�ستے کیا کیا چمک جاتے ہیں �ے جا

ج? بھی ہوتی ہے ذر� �مید تیرے شہر سے

٭٭٭

cآ�نکھوں میں چبھ رہے ہیں در و بام کے چر�

cج? دل ہی بجھ گیا ہو کس کام کے چر�

آ�س تھی آ�نے کی کیا شام تھی کہ ج? ترے

cب تک جلا رہے ہیں ترے نام کے چر��

یک ش? نہ کٹ سکےۂشاید کبھی یہ عرص

cتو صبح کی ہو� ہے تو ہم شام کے چر�

خش پا بھی ہے خود کشی خ�س تیرگی میں لغز

cخد شوق ذر� تھام کے چر� �ے رہ نور

خد رفتگاں ہم کیا بجھے کہ جاتی رہی یا

cریام کے چر� خش � شاید ہمیں تھے گرد

ز خر ہو�ئے ستم بھی نہیں فر� ہم درخو

cجیسے مز�ر پر کسی گمنام کے چر�

٭٭٭

 نظر کی دھوپ میں سائے گھلے ہیں ش? کی طرح

میں ک? �د�س نہیں تھا مگر نہ �ب کی طرح

خر تمنا کی رہگز�روں سے آ�ج شہ پھر

گز ر رہے ہیں کئی لوD روز و ش? کی طرح

آ�رزو سے چاہا تھا تجھے تو میں نے بڑی

یہ کیا کہ چھوڑ چلا تو بھی �ور س? کی طرح

خہ غم نہیں معلوم فسردگی ہے مگر وج

خR بے سب? کی طرح کہ دل پہ بھی بوجھ سا ہے رن

خکھلے تو �ب کے بھی گلشن میں پھول ہیں لیکن

نہ میرے زخم کی صورت نہ تیرے ل? کی طرح

٭٭٭

خد چمنی تھی ہم کیا کہ �سی سوچ میں با

تھی سخنی کم تری کہ تھی چٹک کی گل وہ

ٹپکی نہ سے آ�نکھوں جو بوند �= وہ کی آ�نسو

تھی تکنی کی ہیرے لیے کے دل ۂآ�ئین

لگاتے نہ لگاتے سے منہ ہم کو پیمانے

تھی شکنی توبہ ہی ملاقات کی ساقی

خت �ب سے تجھ کہ چاپ چپ ہیں دیو�ر صور

تھی سخنی ہم سہی نہ تعلق �ور کچھ

برسوں رہی جلتی میں دھوپ کڑی جو جاں یہ

تھی بنی دیو�ر ۂسای لیے کے �وروں

ز کہ بچھڑتے سے دنیا بھلاتے کو د�ن فر�

تھی شکنی پیماں لیے �پنے میں حال ہر

٭٭٭

تجھ سے مل کر بھی کچھ خفا ہیں ہم

روت نہیں تو کیا ہیں ہم  بے مر

خم کارو�ں میں بیٹھے تھے ہم غ

لوD سمجھے شکستہ پا ہیں ہم

�س طرح سے ہمیں رقی? ملے

آ�شنا ہیں ہم جیسے مدت کے

آ�D بجھی ر�کھ ہیں ہم �گر یہ

خم دوست �ور کیا ہیں ہم جز غ

خود کو سنتے ہیں �س طرح جیسے

آ�خری صد� ہیں ہم وقت کی

ز �لز�م کیوں زمانے کو دیں فر�

وہ نہیں ہیں تو بے وفا ہیں ہم

٭٭٭

تجھے �د�س کیا خود بھی سوگو�ر ہوئے

آ�پ �پنی محبت سے شرمسار ہوئے ہم

آ�بلہ پا کو خن ترو تھی ، ندیما بلا کی

پلٹ کے دیکھنا چاہا کہ خود غبار ہوئے

آ�یا د�سی کا کیا جس سے تجھ پہ حر> گلہ

وگرنہ یوں تو ستم ہم پہ بے شمار ہوئے

یہ �نتقام بھی لینا تھا زندگی کو �بھی

خن جاں تھے وہ غمگسار ہوئے جو لوD دشم

خ= دوستی کا خیال ہز�ر بار کیا تر

ز پشیمان ہر �= بار ہوئے مگر فر�

٭٭٭

�ب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خو�بوں میں ملیں

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

د�جڑے موتی کے لوگوں میں وفا ہوئے ڈھونڈ

یہ خز�نے تجھے ممکن ہے خر�بوں میں ملیں

خم یار میں شامل کر لو خم دنیا بھی غ غ

نشہ بڑھتا ہے شر�بیں جو شر�بوں میں ملیں

دتو خد� ہے نہ مر� عشق فرشتوں جیسا

دونوں �نساں ہیں تو کیوں �تنے حجابوں میں ملیں

آ�ج ہم د�ر پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

کیا عج? کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں

دتو ز �ب نہ وہ میں،نہ وہ ہے،نہ وہ ماضی ہے فر�

رنا کے سر�بوں میں ملیں جیسے دو شخص تم

٭٭٭

 �چھا تھا �گر زخم نہ بھرتے کوئی دن �ور

د�س کوئے ملامت میں گزرتے کوئی دن �ور

د�بھرتے ر�توں کو تری یادوں کے خورشید

آ�نکھوں میں ستارے سے �ترتے کوئی دن �ور

ہم نے تجھے دیکھا تو کسی کو بھی نہ دیکھا

�ے کاش ترے بعد گزرتے کوئی دن �ور

ر�حت تھی بہت رنR میں ہم غم طلبوں کو

تم �ور بگڑتے تو سنورتے کوئی دن �ور

خ= تعلق تھا مگر جاں پہ بنی تھی گو تر

مرتے جو تجھے یاد نہ کرتے کوئی دن �ور

آ�ئے ہی کیوں تھے ز خر تمنا سے فر� �س شہ

یہ حال �گر تھا تو ٹھہرتے کوئی دن �ور

٭٭٭

 ل? و تشنہ و نومید ہیں ہم �ب کے برس بھی

خر کرم �ب کے برس بھی �ے ٹھہرے ہوئے �ب

خR چمن سے کچھ بھی ہو گلستاں میں مگر کن

ہیں دور بہاروں کے قدم �ب کے برس بھی

خ¤ کرم خy چر�غاں دیکھ کہ با!�ے شی وص

خم حرم �ب کے برس بھی و تیرہ ہیں در با

تدگا ت خیر مناؤ کہ ہیں ناز�ں! ن�ے دل ز

خر خد�ئی پہ صنم ، �ب کے برس بھی پند�

ریامخی پہلے بھی قیامت تھی ستم کار �

غم �ب کے برس بھیۂ غم،کشتۂہیں کشت

لہر�ئیں گے ہونٹوں پہ دکھاوے کے تبسم

ہو گا یہ نظارہ کوئی دم �ب کے برس بھی

خم کہن پھر سے نمایاں ہو جائے گا ہر زخ

نم �ب کے برس بھیۂروئے گا لہو دید

خم سفالیں پہلے کی طرح ہوں گے تہی جا

خر جم �ب کے برس بھی چھلکے گا ہر �= ساغ

آ�ئیں گے پا زنجیرۂبست مقتل میں نظر

خل قلم ، �ب کے برس بھی خل نظر و �ہ �ہ

٭٭٭

آ�س لگائے رکھنا آ�تا ہے مگر  کون

عمر بھر درد کی شمعوں کو جلائے رکھنا

دوست پرسش پہ مصر �ور ہمار� شیوہ

�پنے �حو�ل کو خود سے بھی چھپائے رکھنا

د�س نام نے مار� کہ جہاں بھی جائیں ہم کو

خت شہر نے طوفان �ٹھائے رکھنا خلق

آ�نکھیں بھی گنو� بیٹھو گے خ�س چکا چوند میں

د�س کے ہوتے ہوئے پلکوں کو جھکائے رکھنا

٭٭٭

آ� مجھ کو  ترس رہا ہوں مگر تو نظر نہ

جد� مجھ کو مجھ سے نہ کر جد� ہے تو کہ خود

وہ کپکپاتے ہوئے ہونٹ میرے شانے پر

وہ خو�ب سانپ کی مانند ڈس گیا مجھ کو

چٹ¤ �ٹھا ہوں سلگتی چٹان کی صورت

آ�شنا مجھ کو پکار �ب تو مرے دیر

کہ لوD تجھے تر�ش کے میں سخت منفعل ہوں

تجھے صنم تو سمجھنے لگے خد� مجھ کو

یہ �ور بات کہ �کثر دمک �ٹھا چہرہ

کبھی کبھی یہی شعلہ بجھا گیا مجھ کو

خہ فر�ق ٹھہری ہیں یہ قربتیں ہی تو وج

خن بے وفا مجھ کو بہت عزیز ہیں یار�

ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں

وہ �یک شخص کہ شاعر بنا گیا مجھ کو

ز �گر دکھ نہ تھا بچھڑنے کا د�سے فر�

تو کیوں وہ دور تلک دیکھتا رہا مجھ کو

٭٭٭

آ�رزو کرتےخنکسی طرح تو بیا خ>   حر

آ�نکھوں سے گفتگو کرتے خسلے تھے تو جو ل?

مستاں دریدہ پیرہنوۂبس �= نعر

دہو کرتے کہاں کے طوق و سلاسل بس �یک

خر خیال خن شہ کبھی تو ہم سے بھی �ے ساکنا

تھکے تھکے ہوئے لہجے میں گفتگو کرتے

خ� صلی? پر لرز�ں دگلوں سے جسم تھے شا

دبو کرتے تو کس نظر سے تماشائے رنگ و

خم خوں بستہ بہت دنوں سے ہے بے آ�ب چش

دجو کرتے خر وگرنہ ہم بھی چر�غاں کنا

خD وفا ہے �گر خبر ہوتی یہ قرب مر

آ�رزو کرتے تو ہم بھی تجھ سے بچھڑنے کی

خم بہار چمن پرست نہ ہوتے تو �ے نسی

خD خز�ں تیری جستجو کرتے خل بر مثا

دتو �ور یہ شام غربت کی ہز�ر کوس پہ

عجی? حال تھا پر کس سے گفتگو کرتے

ز مصر� آ�تش پہ کیا غزل کہتےۂ فر�

آ�رزو کرتے خح خن غیر سے کیا شر زبا

٭٭٭

 شور سمندر تھے مرے پاؤں میں میں کہ پر

�ب کہ ڈوبا ہوں تو سوکھے ہوئے دریاؤں میں

نامر�دی کا یہ عالم ہے کہ �ب یاد نہیں

دتو بھی شامل تھا کبھی میری تمناؤں میں

آ�نکھیں �یسے دن کے ڈھلتے ہی �جڑ جاتی ہیں

جس طرح شام کو باز�ر کسی گاؤں میں

خ= دل سی کہ نہ سی،زخم کی توہین نہ کر !چا

�یسے قاتل تو نہ تھے میرے مسیحاؤں میں

ز آ�تا ہے فر� خت مریم کا ج? ذکر �س غیر

گھنٹیاں بجتی ہیں لفظوں کے کلیساؤں میں

٭٭٭

د�سے کروں نہ یاد، مگر کس طرح بھلاؤں

غزل بہانہ کروں �ور گنگناؤں �سے

خ� گلاب کی مانند وہ خار خار ہے شا

میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں �سے

یہ لوD تذکرے کرتے ہیں �پنے لوگوں کے

میں کیسے بات کروں، �ب کہاں سے لاؤں �سے

مگر وہ زود فر�موش، زود رنR بھی ہے

کہ روٹھ جائے، �گر یاد کچھ دلاؤں �سے

خت جاں خت دل ہے وہی جو ر�ح وہی جو دول

تمہاری بات پہ �ے ناصحو! گنو�ؤں �سے

ز خر منزل بچھڑ رہا ہے فر� جو ہمسفر س

آ�ؤں �سے عج? نہیں ہے �گر یاد بھی نہ

٭٭٭

بلال �عظم ٹائپنگ: محمد

عبید تشکیل: �عجاز کی بک �ی �ور تدوین

top related