are all world religions the same? -...

170
مذام م ت ا ی ک مذام م ت ا ی ک ا ا ں؟ ی ہ ساں ک ی ب ہ ں؟ ی ہ ساں ک ی ب ہ1891 to 1971 Rev. Allama Barakat Ullah M.A.F.R.A.S Are All World Are All World Religions The Same Religions The Same ? ? By The Late Allama Barakat Ullah (M.A) Fellow of the Royal Asiatic Society London www.muhammadanism.org Urdu May 17, 2007

Upload: others

Post on 31-Jan-2020

44 views

Category:

Documents


0 download

TRANSCRIPT

Page 1: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ہب یکساں ہیں؟ہب یکساں ہیں؟ااکیا تمام مذکیا تمام مذ

1891 to 1971Rev. Allama Barakat Ullah

M.A.F.R.A.S

Are All World ReligionsAre All World Religions The SameThe Same ? ?

By The Late Allama Barakat Ullah (M.A)

Fellow of the Royal Asiatic Society London

www.muhammadanism.orgUrdu

May 17, 2007

Page 2: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

دبیاچہآاپ نے پروردگ��ار آاخ��ری ہفتہ میں یروش��لیم گ�ئے ت�و جب سیدنا مس��یح اپ�نی زن��دگی کے ااس عب��ادت گ��اہ ک��و ڈاک��وؤں کی اا ن سب کو نکال دیا جنہ��وں نے کے بیت اللہ میں داخل ہوکر لل یہود کے ام��ام اعظم اوریہ��ودی ق��وم کے ب��زرگ غض�بناک ہ��وکر س��یدنا کھوہ بنا رکھا تھا۔ اس پر اہ

آاپ سے پوچھا: اانہوں نے آائے اور مسیح کے پاس " ت�و ان ک��اموں ک�و کس اختی��ار س�ے کرت�اہے؟ اورکس نے تجھے یہ اختی��ار دی��اہے")م�تی

(۔۲۳: ۲۱لر حاضر میں مسیحیت کی طفیل ہندوستان میں س��ے ہرقس��م کی ب��دروحیں نک��ل رہی دو ہیں ۔ جہ��الت کی ناپ��اک روح نے دم توڑدی��ا ہے۔ وہ ل��وگ ج��وارواح ب��د کی خ��وف ودہش��ت کی زنجیروں میں مقید ہوکر ہر وقت ترساں اور لرزاں رہتے تھے اورتعویذ اورگنڈے تلاش کرتے پھرتے تھےااچھوت کی بدورح چیخ کر پکارتی اورکہ��تی آازاد پھر رہے ہیں۔ مسیحیت کی بدولت بے باک ہوکر

ہے : " اے خدا کے بیٹے ہمیں تجھ سے کیا کام؟ میں تیری منت ک�رتی ہ��وں مجھے ع�ذاب

(۔۲۸: ۸میں نہ ڈال")لوقا لن معج���ز بی���ان نے دیوداس���تی، حرامک���اری اورش���ہوت ب��اہمی پرخ���اش کلمتہ اللہ کی زب���ا اورع��داوت ، ج��بر تحکم اوروحش��ت وغ��یرہ بیم��اریوں کوایک��ل کلمہ س��ے دورکردی��ا اور ہندوس��تان ک��و

جنت نشا ن بنادیا۔لم ہن��د کے لی��ڈروں ک��و یہ خدش��ہ لیکن ہندوس��تان کے غ��یر مس��یحی م��ذہبی پیش��وا اورق��وآاج��ا لرمیں ف��رق اسوخ ، اقت��دار اوروق��ا اان کی تع��داد ر پی��داہوگیاہے کہ مس��یحیت کی اش��اعت س��ے اان کی اقتصادی اورسیاسی طاقت کو ضعف پہنچیگا پس وہ سیدنا مسیح کےنام لیواؤں کو ئيگااور ڈانٹ کرپوچھتے ہیں "تم ان کاموں کو کس اختی��ار س��ے ک��رتے ہ��و"کس نے تم ک��و یہ اختیاردی��اہے

کہ ہندوس��تان کے لوگ��وں ک��و مس��یحیت ک��ا حلقہ بگ��وش ک��رو؟ہم یہ گ��وارا نہیں کرس��کتے کہ تماان کے مذہب اورملت سے نکال کر مسیحی کلیسیا میں داخل کرو،اگ��رتم اپ��نی ہمارے لوگوں کو اان کو دنیاوی تعلیم دینے اور نی��ک راہ پ��ر چل��نے کی ہ��دایت ک��رنے میں ص��رف کرن��ا عمر اورمال وزر چاہتے ہو توہم کو اع�تراض نہیں لیکن ہم اس ب�ات کی ہرگ�ز اج�ازت نہ دینگے کہ وہ اپ�نے م�ذاہب کوتبدیل کرکے مسیحی ہوجائیں اور صرف مسیح کوواحد منجئی مانیں۔ان کا موجودہ م�ذہب بھیلل تعظیم ہس�تیاں ہیں تم کوک��وئی ح�ق اان کے اوتار اورگرو بھی سیدنا مس�یح کی ط��رح قاب� اچھا ہے ااس ک��و دوس��رے حاصل نہیں کہ تم سیدنا مسیح کو واحد اوراکیلا نجات دہن��دہ م��انو اور من��واؤ اوریی اوربرترہستی م��انو۔ تم��ام ااس کوایک اعل یی اور اان کوادن گوروں اورنبیوں اوراوتاروں پر فضیلت دے کر مذاہب یکساں طورپر صحیح اوردرست ہیں اورتمام مذاہب کے ب��انی یکس��اں ط��ورپر واجب التعظیم

ہیں۔یدی میں مسیحی کلیسیا کی تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہم نےاپ�نے رس��الہ نورالہ��یی میں رومی س�لطنت کے قیاص�رہ نے بہت�یر ا زور م�ارا کہ مس�یحیت دیگ�ر ذکر کیا تھ��اکہ ق��رون اولآاتے ہی لy مورخ لیکی" مس��یحیت نے مذاہب کے ساتھ میل جول اورمصالحت پیدا کرلےلیکن بالفا یہ صاف صاف کہہ دیاکہ اس کے سوا دنیا کے تمام م��ذاہب باط��ل ہیں اورنج��ات ص��رف اس کی

( اس عقی���دہ کی وجہ س���ے۳۲۹پ���یروؤں کے ل���ئے ہے")ت���اریخ اخلاق ی���ورپ جل���د اول ص���فحہ لت روم کی سرزمین تین سوسال ت��ک ان کے خ��ون س��ے مت��واتر مسیحیوں کوسربکف ہونا پڑا اورسلطنآاگے س��رنہ جھکای��ا۔ روم، یون��ان ومص��ر کے اانہ��وں نے قیص��ر کے حکم کے لال ہ��وتی رہی لیکن دیوتاؤں اورسیدنا مسیح کی شخصیت کوایک ہی س��طح پ��ر نہ رکھ��ا۔ بلکہ وہ ببان��گ دہ��ل یہ اعلاناان ک�و ش�رمناک جھ��وٹ پ�ر مجب��ور نہ کرس�کے گی کہ تم�ام کرتے رہے کہ دنیا کی کوئی ط��اقت م��ذہب اپ��نی اپ��نی جگہ یکس��اں ط��ورپر ص��حیح ہیں اور تم��ام ہ��ادی یکس��اں ط��ورپر واجب التعظیملل تقلید ہیں۔ مسیحی کلیسیا کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ جہاں جہاں مسیحیت گ��ئی اورقابیی الاعلان یہ کہاکہ کلمتہ اللہ کی تعلیم بلن�د ت�رین ہے اورمس�یحیت ااس نے اعل ہر ملک وزمانہ میں

Page 3: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ہرمذہب پر غالب ہے۔سیدنا مسیح دنیا کے واح��د اور اکیلا نج��ات دہن��دہ ہے جس کے مق��ابلہ میںلب ع��الم ت��اب کے س��امنے آافت��ا دیگ��ر م��ذاہب کی تم��ام واجب التعظیم ہس��تیاں ایس��ی ہیں جیس��ی آاسمان کے ستارے اوراس صداقت پر مس��یحی مبلغین اور کلیس��یا کے بے ش��مار اف��راد نے لاکھ��وں

اہر لگائی۔ بلکہ کروڑوں دفعہ اپنے خون سے م ہندوستان کے مذہبی پیشوا اورسیاسی لیڈر مختلف طریق�وں س�ے وہی کوش�ش ک�ررہے ہیں جواب تک بے سود اورناکام ثابت ہوئی ہے۔ وہ ہرممکن طورپر اس بات کا پراپاغن��ڈا ک��ررہے ہیں کہ ہندوستان میں مسیحیت اوردیگر مذاہب کویکساں تس�لیم کرلی��ا ج�ائے۔ کبھی وہ اس ب�ات کوای�کاان ہندوستانی مسیحیوں کومتاثر کرنا چ�اہتے ہیں جوسودیش�ی وطن سودیشی اورقومی ضرورت بتلاکر اور قومیت کے شیدائی ہیں۔ کبھی وہ اس بات کوایک بدیہی حقیقت بتلاتے ہیں جوایسی ص��ریحااس کے واض���ح ک���رنے کی بھی ض���رورت نہیں اور ی���وں جہلا کے طبقہ کواپ���نے دام میں ہے کہ پھنساتے ہیں۔ بعض اوقات وہ اس بات کو فلسفیانہ دلائل سے ثابت کرنے کی کوش��ش ک��رتے ہیں اوریوں اپنا لو سیدھا کرتے ہیں ۔ غرضیکہ ہرط��رح س��ے یہ کوش�ش کی ج��اتی ہے کہ اس گم��راہ کن بات کو پھیلایا جائے کہ تمام مذاہب برابر ہیں۔ اوران میں کوئی تفریق وتمیز نہیں پس ایک مذہب

کو بدل کر دوسرے کو اختیار کرنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ انش��اء اللہ اس رس��الہ میں ہم ان مختل��ف پہل��وؤں پ��ر بحث ک��رینگے۔ ہم غ��یر مس��یحیاان پر تنقیدی نگاہ ڈالیں گے ت��اکہ معل��وم ہوس��کے کہ لیڈروں کے مختلف دعاوی کی تنقیع کرکے ااص�ول اورادع�ائے مس�یح کی روش�نی ازروئے عق��ل ان میں ص�داقت ہے ی�ا نہیں۔ ہم مس�یحیت کے میں ان کے دعاوی کو جانچیں گے تاکہ یہ معلوم کریں کہ ہم انجیل جلیل کی تعلیم کو مان ک��ر

اور سیدنا مسیح کے حلقہ بگوش ہوکر ان لیڈروں کی تعلیم کوتسلیم کرسکتے یا نہیں۔لر حاضرہ کے ہندوؤں پر انجیل جلیل کی تعلیم کا اثر اس قدر ہ�واہے کہ وہ اب م�ورتی دو پوجا کوترک کرکے بیٹھے ہیں اورہندورسوم ورواج کے قبیح اور اخلاق سوز پہل��وؤں س��ے گری��ز ک��رتےیی اورہیچ تھیں۔ اان تمام باتوں کو خیرباد کہہ دیاہے جواس دھ��رم میں کم م��ایہ اورادن اانہوں نے ہیں۔

چنانچہ پنڈت جواہر لعل نہرو فرماتے ہیں کہ " ہمارا م��ذہب قص��ابوں ک��ا م��ذہب ہے۔ ہم اس��ی ب��ات میں ہلک��ان رہ��تے ہیں کہ کس ش��ے ک��و چھ��وئیں اورکس ش��ئے ک��و نہ چھ��وئیں۔ اش��نان ک��رنے ، اچٹیارکھنے ، ماتھے پر ٹيکا لگانے کی رسوم وغیرہ اب بے مع��نی ب��اتیں رہ گ��ئی ہیں۔ ہم��ارے دیوت��ااان انگلستان اورجاپان کے کارخانوں میں بنائے جاتے ہیں اوریہاں ہندوستان میں ہماری پوجا کیل��ئے

آامد ہوتی ہے ۔ لیکن 1کی درنونہ گردوکعبہ رارخت حیاتآایدش لات ومنات گراز فرنگ

ااص��ول کی روش��نی میں ہن��دوؤں کے مختل��ف ف��رقے اپ��نے عقائ��د کلمتہ اللہ کی تعلیم اور ورس��وم کی دھ��ڑا دھ��ڑ اص��لاح ک��ررہے ہیں۔ اب س��ے سوس��ال پہلے کے ہن��دوجب مس��یحیت کی روشنی میں اپنے مذہب کو دیکھتے تھے تووہ ان کوای��ک نف��رت انگ��یز اورگھن��ونی ش��ے معل��وم ہ��وتیلر حاض�رہ کے تھی کیونکہ مس�یحیت کے ن�ور کے مق�ابلہ میں وہ ای�ک تاری�ک ش�ے تھی۔ لیکن دو ہندوخیال ک�رتے ہیں کہ وہ اپ�نے م�ذہب کے عقائ�د اوررس�وم کی اص�لاح ک�رکے ہن�دومت کے حلقہاان سے کسی قسم کی میں رہ سکتے ہیں اورچونکہ ہندو حلقہ کے اندر ان کے عقائد کی نسبت اپرس نہیں کی ج��اتی اوروہ اس کے دائ��رہ کے ان��در رہ ک��ر جوچ��اہیں م��ان س��کتے ہیں لہ��ذا وہ ب��از مسیحیت کے حلقہ بگوش ہونا نہیں چاہتے۔ چونکہ یہ ایک اتفاق ہے کہ مسیحیت کے پرچار کآائے تھے جوہندوستان پر حکمران تھا لہذا مسیحیت کے دشمن مس��یحیت کوای��ک انگلستان سے ااکس��اتے ہیں۔ ان تم��ام ح��الات ک��ا بدیشی مذہب کہہ کر قوم پرس��ت ہن��دوؤں ک��و اس کے خلاف

نتیجہ یہ ہوگیاہے کہ اصلاح شدہ ہندو مت مسیحیت کا جانی دشمن ہوگیا ہے۔کس نیا موخت علم تیراز منکہ مرا عا قبت نشانہ نہ کرو

چن��انچہ پروفیس��ر رادھ��ا کرش��ن ص��احب ہن��دومت اورمس��یحیت کے تعلق���ات کی اس سیاس��ی رش��تہ کے س��اتھ تش��بیہ دی�تے ہیں ج��واب ت��ک ہندوس��تان اورانگلس�تان میں رہ��اہے۔ ص��احب1 New Era, Oct.1928 p.28

Page 4: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

موصوف فرماتے ہیں کہ انگریزي راج کاپہلا زمانہ ایس��ٹ ان��ڈیا کمپ��نی کے راج ک��ا زم��انہ تھ��ا جبااس زمانہ میں ہندومت کوہیچ سمجھا جاتا لر حقارت دیکھتے تھے چنانچہ انگریز ہندوستانیوں کوبنظ تھا۔ دوسرا زمانہ امپرئیل ازم یا شہنشائیت کا زم�انہ تھ��ا جب انگری�زی راج کی وجہ س��ے ہندوس�تانیاان کے سرتاج تھے چنانچہ اس زمانہ میں ہندومت کومسیحیت انگریزوں کے ماتحت تھے اورانگریز کے ماتحت سمجھا جاتا تھا اورمسیحی مذہب ہندومت کوکامل کرنے والا درخشاں تاج خیال کیا جاتا تھا ۔ تیسرا زمانہ دورحاضرہ کا ہے جب ہندوستان کو برط��انیہ کی اق��وام کے خان��دان ک��ا ای��کآاگی�اہے کہ مس�یحیت اورہن�دومت دوش ب�دوش ممبر اوردون�وں کوبرابرس�مجھا جات�اہے۔ پس اب وقت ہوکر ایک خان�دان کے مم�بروں کی ط��رح براب��ر ق��در اور وقعت کی نگ�اہ س��ے دیکھے ج��ائیں۔جس

ااس�تاد م�ان لیں اور رام ی�اطرح ہندواس بات کے لئے تیارہیں کہ مسیح کو ایک عظیم ترین اخ لاقی ااس کی بھی پوج��ا ک��ریں اس��ی ط��رح لازم ہے کہ مس��یحی بھی ہن��دوؤں کی کرشن یاشو کی ط��رح کت��ابوں کوبائب�ل کی ط��رح الہ��امی اوربرح�ق م�ان لیں اوران کے دی�وی دیوت�اؤں کی اپ�نے مس�یح کی

طرح قدراوروقعت کریں۔ لیکن انجیل جلیل ک�و م�اننے والے اورس��یدنا مس�یح پ�ر ایم�ان رکھ��نے والے ہرگ�ز اس ب�اتآاپ کے کے ل���ئے تی���ار نہیں ہوس���کتے۔ اس قس���م کی م���ذہبی رواداری کلمتہ اللہ کے نزدی���ک اور رسولوں کے نزدیک غلط ہے اورمسیحی کلیسیا کے نزدی�ک یہ رویہ مس�یح س�ے غ�داری ک�ا رویہ ہے اوراس کے انکار کرنے کے برابر ہونے کی وجہ سے ایک ناقابل معافی گناہ ہے ۔ سیدنا مس��یح کیآاپ دنی��ا کے دیگ��ر معلم��وں کی ط��رح ای��ک معلم ہیں آاپ کے مبلغین کی یہ تعلیم نہ تھی کہ اور بلکہ انجیل جلیل کی تعلیم کا تمام زوراس بات پر ہے کہ کلمتہ اللہ ک��ا مکاش��فہ کام��ل اور اکم��ل ہے۔ منجئی عالمین کی نجات کامل کافی اوروافی ہے اور مسیحیت کی ط��اقت اس��ی میں ہمیش��ہ مض��مر رہی ۔ جوس��بق ہم��ارے ہن��دوبھائی ہندوس��تانی کلیس��یا ک��و پڑھاناچ��اہتے ہیں اگ��روہ درس��تیی میں ذک��ر ک��رچکے ہیں ۔ مس�یحیت یی میں جیساکہ اپنے رسالہ ن��ور الہ��د اورصحیح ہوتا توقرون اولابت پرس�ت قیاص�رہ روم آاتی۔ بھی دیگرادیان باطلہ میں س�ے ای�ک ہوج�اتی اورش�ہادت کی ن�وبت نہ

اتلے تھے کہ کلیس��یا مس��یح ک��و وہ درجہ نہیں مسیحیت ک��و تب��اہ ک��رنے پ��ر ص��رف اس��ی وجہ س��ے ااس میں عص��بیت تھی اوریہ ابت پرس��ت م��ذاہب میں دی��وی دیوت��اؤں ک��ا درجہ تھ��ا۔ دی��تی تھی ج��و عصبیت مسیحیت کی زندگی کا باعث تھی اوراگروہ اپ��نے اص��ول پ��ر ق��ائم نہ رہ��تی ت��ووہ کب کیاان م��ذاہب ب��اطلہ کی ط��رح آاج کے روز ابت پرست مذاہب میں جذب ہوگئی ہ��وتی۔ اور دیگرادیان اورابت پرس��ت اس کا بھی صفحہ ہستی سے نام ونشان مٹ گیا ہوتا۔اسی طرح اگرہندوستانی کلیس��یا آاقا ومولا اورانجیل سے غداری ک��رکے ان کے اص��ول پ��ر ق��ائم نہ رہیگی آاوز سن کر اپنے ہندوؤں کی تواس میں رتی بھرشک نہیں کہ وہ ہندومذہب میں ج��ذب ہوج��ائیگی اورہندوس��تان س��ے اس ک��ا ن��ام ونش��ان مٹ جائیگ��ا۔ لیکن اگرکلیس��یا اپ��نے اص��ول پ��ر ق��ائم رہی اور" اپ��نے ایم��ان ک��و تھ��امے رہی"آائی س��س ، ڈیم��ٹر اورپرس��ی ف��ونی، ای��ڈنس اوراطیس ، آاج ک��وئی ش��خص اوس��یرس اور ت��وجس ط��رح لب کفر کے دیوی دیوتاؤں کے نام نہیں جانت��ا کی��ونکہ مس��یح ان ڈایونیسیس اورجوپیٹر اوردیگر مذاہ سب پر فاتح رہا اسی طرح نزدیک کے مستقبل میں ہندومذہب کے دیوی دیوتاؤں سے لوگ ناواقف ہوج��ائیں گے اورس��یدنا مس��یح س��ب پ��ر ف��اتح رہے گ��ا۔کی��ونکہ ح��ق اورباط��ل کی ل��ڑائی میں ح��قآاخرت سب پر غالب رہتاہے سیدنا مسیح جوراہ حق اورزندگی ہے سب پر غالب ہوکر رہے گا۔ بالا

یہ رسالہ مختل��ف قس��م کی مص��ر وفیت��وں کے دوران میں لکھ��ا گی��ا ہے۔ جس ک��ا ق��درتی ن��تیجہ یہ ہ��واہے کہ میں اس کے بعض حص��ص کے مض��امین ک��واس ط��رح ادا نہیں کرس��کا جس طرح ان کا حق تھا۔ اس رسالہ کے بعض دلائل کو یں مفصل طورپر لکھنا چاہت��ا تھ��ا لیکن ع��دیم الفرصتی نے یہ نہ ہونے دیا۔ پس بایں خیال کہ عاقل را اشارہ کافی اس��ت ان ک��و اس��ی ح��الت میں

رہنے دیا۔ اگرمختلف ابواب میں بعض نکات دہرائے گئے ہیں ۔ توبمصداق اود حکایت درازترگفتم لذیذ ب

یہ مسورہ دوسال سے میرے پاس پڑا ہواہے۔ میرا خیال تھاکہ موقعہ پاکر اس کی نظر ثانی کرکے اس کی خامیوں کورفع کرسکوں گالیکن فرصت نہیں ملی پس مجبورہوکر اس رسالہ کو اس

کی موجودہ صورت میں پریس میں بھیج رہا ہوں ۔

Page 5: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

میری دعا ہے کہ اس رس��الہ کے ذریعہ ہم��ارے ہم وطن راس��تی اور ص��داقت ک��و پہنچ��ایںاورسیدنا مسیح پر ایمان لائیں تاکہ ہمارے ملک اورقوم کی دنیاوی فلاح اورروحانی ترہو۔

پتولی ۔ ضلع لاہور ء۱۹۴۱ فروری ۲۸

برکت اللہ

وول لب ا وولبا لب ا باھھرم اورمذھبی رواداری اندود ھھرم اورمذھبی رواداریہ اندود ہ

اندومت کی تعریف اندومت کی تعریفہ ہاان معنوں میں "مذہب "نہیں جن میں معنوں میں اسلام یا مسیحیت یا م��ذاہب اندودھرم ہ ہیں " دھ���رم " ک���ا لف���ظ" م���ذہب" ک���ا م���ترادف نہیں بلکہ اس ک���ا مطلب "طبعی معم���ول" ی���ا"آاگ کا دھ�رم جلان�اہے۔ کش�تری ک�ا دھ�رم لڑن��اہے۔ لیکن اس�لام ی�ا مس�یحیت اا دستورالعمل" ہے۔مثل کے نقطہ نگاہ سے " مذہب" اس رشتہ کا نام ہے جوخدا اورانسان کے درمی��ان ہےاوراس رش��تہ کے امتیازی نشان کی وجہ سے اسلام اورمسیحیت کے چند مخصوص عقائد ہیں جن ک��و اس��لامی ی��ااندودھرم خ�دا اورانس��ان کے درمی��انی رش��تہ ک�ا ن�ام نہیں مسیحی عقائد کہ��ا جات�اہے۔لیکن چ�ونکہ ہ لہذا ہندودھرم کی کوئی مخصوص عقائد بھی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہن��دودھرم میں ہ��ر قس��ماا اس کے حلقہ کے ان��دراگرایک ف��رقہ وی��دوں کے مختلف متنفر اور متضاد خیالات موجود ہیں۔ مثلااپنشدوں کو مانتاہے تودوسرا نہیں مانتا۔ اگرایک ف��رقہ خ��دا اان کو نہیں مانتا!ایک ادوسرا کو مانتاہے کی وحت کا قائل ہے تودوسرا کروڑوں دیوتاؤں کو مانتاہے۔ تیسرا خدا کے وجود کا انک��ار کرت��اہے۔لن روح ہندو ہیں تومنکر ین روح بھی ہندوہیں۔ مجسم حلو ا تحاد اوراوت��ار کے م��اننے والے اگر قائلی

ہندو ہیں تونرگن ایشور کوماننے والے بھی ہندو ہیں۔ واحد الوجود کے ماننے والے بھی ہیں ہندو ہیں اورخدا کے علاوہ روح اورمادہ کوبھی ازلی ماننے والے بھی ہن�دو اگرای�ک گئ��ور کھش�ا ک�ا قائ�ل ہےادوس��را م��ادیت تودوسرا گائے کاگوشت کھاتاہے۔اگرایک فرقہ وی��دانت خی��الات کی پ��یروی کرت��اہے توآاگے اوجا کرتاہے تودوسرا کرش��ن کی پرس��تش کرت��اہے۔ ای��ک وش��نو کے لشو کی پ کا قائل ہے اگرایک آاگے سربس�جود ہے۔ ان دیوت��اؤں اورمعب�ودوں کی ص��فات میں اس ماتھا ٹیکت��اہے تودوس�را ک�الی کے ق���در اختلاف ہے کہ خ���دا کی پن���اہ۔لیکن یہی خی���ال کی���ا جات���اہے کہ ہرش���خص خ���دا ہی کی

اپوجاکرتاہے چنانچہ بھاگوت گیتا میں کرشن جی کہتے ہیں کہ:اوجا ہی میری بھی وہ ہیں کرتے پوجا کی دیووں ادھ جو " وہ (۲۳: ۹ہیں") کرتے پ

لیکن اگربعض دیوتاؤں کی صفات کونیک سمجھ کر ان کی پیروی کی ج�ائے توانس�ان بدترین خالق بن جائے۔ غرضیکہ ہندودھرم ایک کجکول ہے جس میں ہر طرح کے متفرق خیالات اورہرقسم کے متضاد عقائ�د پہل�و بہ پہل�و رواداری اورمص�الحت کے س�اتھ ہ�زاروں برس�وں س�ے رہ�تےااص��ول اورتناس��خ ک��ا مس��ئلہ ہے۔ ان آائے ہیں ۔ اگران میں کوئی مشترکہ شے ہے ت��ووہ ک��رم ک��ا چلے اپنش��دوں میں دی گ��ئی ہے اورمابع��د ک��ا تم��ام ہن��دو فلس��فہ ان دوب��اتوں دون��و ں عقی��دوں کی تعلیم ا

کوصحیح اورراست مان کر ان کو اپنے مفروضات میں داخل کرلیتاہے۔ چ���ونکہ ہن���دومت کے ک���وئی مخص���وص عقائ���د نہیں ہیں لہ���ذا ہرش���خص اس مت کی منقطی تعریف کرنے سے قاصر ہے۔بعض وض��لاء کے نزدی��ک ہن��دومت کی خصوص��یت ذات پ��اتلن ملاق��ات میں کہ�ا" م�یرے نردی�ک لف��ظ" کی پابندی ہے۔ مسٹرگاندھی نے ایک مشنری سے دوراآاپ سے کہا گی��ا کہ فض��لا کے نزدی��ک ہن��دوازم کی ہندوازم" لفظ" مذہب " کا مترادف ہے۔ جب آاپ نے فرمای��اکہ یہ تم��یز آاپ قائ��ل نہیں۔ ت��و خصوص��یت ذات پ��ات کی تم��یز ہے جس امتی��از کے آاہمس��ہ کی تعلیم ہے۔ مش��نری نے ہندومت کی خصوص��یت نہیں ہے بلکہ ہن��دوازم کی خصوص��یت آاپ کا قول درس��ت ہے توب��دھ مت اور جین مت اورہن��دومت میں کی��ا ف��رق ہے۔ کی��ونکہ کہاکہ اگر

Page 6: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

اا چین وجاپ��ان میں پھیلائی ہے؟ آاہمسہ کی تعلیم ہندوس��تان کے ب��اہر غ��یر ممال��ک مثل بدھ مت نے ء(۔۱۹۳۴)فیلو شپ بابت متی

آائ��ر مسٹر گاندھی اہمسہ کوہندومت کی خصوصی تعلیم سمجھتے ہیں لیکن سر سوامی ء( بھ��اگوت۱۹۴۱جیسا زبردست ع�الم اس نظ�ریہ کی تردی�د کرت�اہے)ہندوس�تان ریوی�و ب�ابت جن�وری

آام��ادہ ک��رتے ہیں۔بف��رض گیتا میں یہ تعلیم نہیں ملتی ۔بلکہ اس میں کرشن جی ارجن کوجنگ پ��ر ااوپر ذک��ر ہ��واہے اس مت آاہمسہ ہندومت کی خصوصی تعلیم ہے توجیسا محال ہم تسلیم کرلیں کہ ابدھ مت اورجین مت سے کس طرح امتیاز کرسکتے ہیں کیونکہ ان موخرال��ذکر م��ذہبوں کی کو ہم

بھی یہی خصوصی تعلیم ہے ؟ہندومہاسبھا کا پریذیڈنٹ ڈاکٹر ساور کا کہتاہے کہ: لاہ��ور وہے")ٹریب��ون پ��یر کا مذہب کسی کے ملک اوراس ہواہے پیدا میں جوہندوستان ہے "ہندووہ

ء(۔۱۹۴۰ مارچ ۲۷

اان تمام امریکن انگریز اوردیگر غیرہندی اش��خاص کوہن��دومت لیکن اس قسم کی تعریف اشدھی کے ذریعہ اس میں داخ���ل ک���ئے گ���ئے ہیں۔ بلکہ یہ کے حلقہ س���ے خ���ارج کردی���تی ہے جو تعریف خاص ہندومت کے پیروؤں اورہندوستان کے دیگر مذاہب کے پیروؤں میں تمیز نہیں کرتی"۔ بعض کہ��تے ہیں کہ ہن��دو وہ ہے جوچ��ار ذات��وں میں س��ے کس��ی ذات کے ان��در پی��دا ہ��وا ہ��و۔ لیکن موجودہ زمانے کے ہن��دوذات پ��ات کی تم��یز کومٹ��انے کے درپے ہ��ورہے ہیں ۔ بعض کہ��تے ہیں کہلل منط��ق کے مط��ابق لف��ظ" ااص�و آاپ ک�و ہن�دو کہے جس ک�ا مطلب یہ ہے کہ ہندو وہ ہے جواپ�نے

ہندو" کی تعریف ایک امر محال ہے ۔ ہن�دو مت ک�ا دائ�رہ گوی�ا ای�ک چڑی�ا خ�انہ کی ط�رح ہے جہ�اں ہرقس�م کے جان�دار ای�ک دوسرے کے جانی دشمن ہوتے ہیں جمع ک��ئے ج��اتے ہیں اور ہن��دومت کے حلقہ بگ�وش متن��ا قض اورمتضاد خیالات کوجوہندومت کے اندرجمع ہیں مانتے ہیں۔ جس طرح چڑی��ا گھ��ر میں ش��یربکریلن جان نہیں کرسکتا اس��ی ط��رح وہ س��مجھتے ہیں کہ متض��اد خی��الات کا اور عقاب چڑیا کا نقصا

ایک دوسرے کے ساتھ شیروشکر ہوکر رہ سکتے ہیں۔ چن��انچہ ہم�ارے مل�ک کے م�ایہ ن�از فلاس��فررادھا کرشن جوہندویونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں کہتے ہیں کہ:

دیتا نہیں ق��رار یاباطل کوحق تص��ور ای کسی سے میں تصورات مختلف کے خدا مذہب "ہندو دیا حق ک��ویہ ہرش��خص کرتاہے۔ تسلیم معیار قطعی لئے کے انسان نوع بنی اکل کو تصور ایک کسی اورنہ

۔2کرے اختیار کو اسی وہ آائے پسند کو اس عبادت اورطریقہ جوتصور کہ ہے گیابقول شخصے

زچیست کفرودین کودشمنی درحیرتماست روشن خانہ ابت کعبہ چراغ ازیک

لت غائی لت غائیہندومت اورعبات کی عل ہندومت اورعبات کی عل پس ہن��دودھرم میں درحقیقت ک��وئی عقائ��د نہیں جوہن��دومت کے س��اتھ مخص��وص ہ��وں چنانچہ ہندومت کواس بات پ�ر ن�از بھی ہے کہ وہ کس�ی خ�اص عقی�دہ کے س�اتھ وابس�تہ نہیں ہے

نیNameless of a Hundred Namesایک مص��نف نے اس مت ک��ا ن��ام رکھ��اہے یع جس کے سونام ہے اورپھر بھی نام نہیں رکھتا"۔پس اس ک��ا دائ��رہ مح��دود نہیں ہرش��خص اس کے حلقہ میں رہ کر جوچاہے مان سکتاہے کوئی اس س��ے تع��رض نہیں کرس��کتا۔ ہن��دومت ک��ا تعل��ق نہ توکسی عقیدہ کے ساتھ ہے اورنہ اس کے دھرم کی بنیاد کسی ایک تواریخی شخص پ�ر ق��ائم ہے۔ چنانچہ سوامی دیویکانندکہتاہے کہ تمام مذاہب میں ہندومذہب ہی ایک ایسا مذہب ہے" جس ک��ا جہاز تاریخ کی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش نہیں ہوتا" چونکہ ت��اریخ اورزم��ان ومک��ان کے تعلق��ات محض مایا ہیں لہذا خدا کا کام�ل مکاش�فہ زم�ان ومک�ان کی ح�دود کے ان�در نہیں ہوس�کتا۔ پس ہندو کہتے ہیں کہ اس بات کا خیال نہیں کرنا چاہیے کہ ہمارے اوتار تواريخی ش��خص تھے ی��ا نہتھے اوران کے قصص تاریخ اورحقیقت پرمبنی ہیں یا محض افسانے اورانسانی تخیل کا نتیجہ ہیں۔

2 Hindu View of Life,pp.31,32,46

Page 7: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

م�ذہب ک��ا ک��ام عب��ادت گ��ذاروں کے ج��ذبات ک��و مش��تعل کرن��اہے خ�واہ کس��ی وس��یلے س�ے ک��ئےجائیں۔

سہی کہیں ہے غرض سے لگی تودل کو ہمسہی جبیں منہ تواورکوئی نہیں گرتو

اگرہم اپنے جذبات کوکالی یاکرشن یاوشنو ی��ا مس��یح کی پرس��تش س��ے بھڑکاس��کتے ہیں تویہ بس ہے۔ ہم پ�ر یہ لازم نہیں کہ عق�ل کے ذریعہ ک�الی کی ص�فات یاکرش�ن کے کارن�اموں کی تنقیع وتنقی�د ک�ریں ی�ا دری�افت ک�رتے پھ�ر یں کہ کرش�ن ی�ا رام ی�ا محم�د ی�ا مس�یح ک�وئی ت�واریخی شخص تھے یا نہیں۔چنانچہ سوامی دیویکا نند اقرار ک�رتے ہیں کہ کرش�ن ک�وئی ت�واریخی ش�خص نہیں تھا۔ لیکن اس پر بھی وہ کرشن کو کامل ترین اوتارمانتے ہیں اوران دوباتوں کے ماننے میں ان

آاتی۔ کو کوئی ناموافقت نظر نہیں یی ہذا القیاس مسٹر گاندھی مسیحی گیت��وں میں س��ے زی��ل ک��ا گیت س��ب س��ے زی��ادہ عل

گاتے ہیں:دھیان کرتا میں جب پر صلیب

النور اموارب ہے پر جسنقصان گنتاہوں تونفخ

غرور سب جانتاہوں میں حقیرہو فخر مجھے کہ ہو نہ

کی یسوع پر مگرصلیبکو وشوکت شان کی دنیا

کی یسوع خاطر گا چھوڑدوںسے زخموں پانچوں کے اس دیکھدھار کی اورپیار غم جاری ہے

سے کانٹوں دیکھا کبھی کیاوار؟ رونق ایسا بنا تاج

جہان کل اکروں گرنذرہے نہیں لائق توتیرے

اورجان دل توچاہتامیراجے کی پیار تیرے سوسداسے اٹھانے دکھ کے مسیحزاد آادم سارے گئے بچ

سے خریدوں خون ااسکے ابااس آالاباد حمد کی ہو ابد

آاپ ہن���دودیوتاؤں کے گیت گ���اتے ہیں اوردون���وں لیکن اس قس���م کے گیت کے بع���د ہی قسم کے گیتوں میں بنی��ادی اختلاف مغ��ائرت اور ن��اموافقت ی�اغیر مط��ابقت نہیں دیکھ��تے۔ہن��دوؤںاان کو یہ پ��روا نہیں ہ��وتی کے نزدیک خدا ایک ایسی ہستی ہے جوصفات سے معرا اوربالا ہے لہذا ااس کو تشبیہ دیتے ہیں وہ مناسب ہے یاغیر موزوں ہے ۔ چونکہ پرماتما کی ذات ک��و کہ جس شے اان کے لئے یکساں ہے خواہ اس ک��و مس��یح یاکرش��ن یاش��و ی��ارام یاک��الی وہ جان نہیں سکتے لہذا کہا جائے ۔ تمام مذاہب جذبات کومشتعل کرنے میں مم��دومعاون ہیں لہ��ذا تم��ام م��ذاہب یکس��اں

طوپر برحق ہیں۔آاخ��ر یہ دیوت��ا جن کی ہن��دو پرس��تش لیکن عق��ل س��لیم ت��ویہ تقاض��اکرکے پوچھ��تی ہیں کہ اات��رتی ہیں ی��ا کہ کرتے ہیں کیا ہیں اورکون ہیں ان کی ذات اورص��فات حقیقت کے معی��ار پ��ر پ��وری

نہیں؟

۲ ہمارے ہندوبرادران کے خیال کے مط��ابق م��ذہب غ��ائیت عاب��د کے ج��ذبہ ک��و بھڑکان��اہے خواہ وہ ایک حقیقی تواریخی ہستی کے ذریعہ جواس دنیا میں ہماری ط��رح ک��ا انس��ان تھ��ا بھڑکای��ا جائے خواہ ہم انسانی تخیل اورفسانوں س�ے ک�ام لے ک�ر اس مقص�د ک�و پ�ورا ک�ریں۔ لیکن ہم اپ�نی روح��انی زن��دگی ک��ومحض خی��الی وج��ود قص��ے داس��تان ی��ا محض افس��انہ پ��ر ق��ائم نہیں کرس��کتے۔

Page 8: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

اگرہمارے ایمان کی جوخدا پر ہے بنیاد صرف انسانی تخیل پر ہے توظاہر ہے کہ ایک ن��امعلوم غ��یر ت��واريخی ش��خص س��ے خی��الی محبت ای��ک نہ��ایت ن��امعقول بنی��اد ہے جس پ��ر ایم��ان کی محکم عم��ارت ہرگ��ز ق��ائم نہیں ہوس��کتی ۔ ک��وئی ش��خص کس��ی ن��امعلوم ہس��تی رکھ��نے والی ع��ورت س��ے مجنونانہ خیالی محبت رکھ کر اپنے گھر اولاد خاندان کی بنیاد قائم نہیں کرسکتا۔ ایسے شخصاام��ور میں س��لیم الطب��ع اشخص��ا اس قس��م پر تمام دنیا ہنس��ے گی لیکن ہم ح��یران ہیں کہ روح��انی

کی مضحکہ خیز باتیں کس طرح تسلیم کرلیتے ہیں؟بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالجبیست

۳ علاوہ ازیں ج��ذبات کی مختل��ف اقس��ام ہیں۔ جوج��ذبہ رادھ��ا کرش��ن کے س��اتھ تھ��ا وہ نفس�انی خواہش�ات کی ط�رح ک�ا ج�ذبہ ہے اس قس�م کے ج�ذبہ میں اورمس�یحیت کے مس�یح کیآاسمان کا فرق ہے دونوں میں صرف وہی شخص تمیز کرنے س��ے قاص��ر رہے گ��ا محبت میں زمین

جوعلم ودانش سے بالکل بے بہر ہ ہے۔سے مجھ کوئی پوچھئے نہ کے ان کی احسن حقیقت

ہواہے ملا غازہ پر چہرے فام سیاہ کہ

۴ پس یہ ای��ک مس��لمہ ام��ر ہے کہ مختل��ف م��ذاہب کے پرس��تاروں کے روح��انی تجرب��اتابرا پھ��ل نہیں لاس��کتا مختل�ف ہ��وتے ہیں۔" ہرای��ک اچھ��ا درخت اچھ��ا پھ��ل لات�اہے ۔ اچھ��ا درخت

ابرادرخت اچھ��ا پھ��ل نہیں لاس��کتا")لوق��ا ااص��ول ہ��وتے ہیں۴۳: ۶اور (۔ م��ذہب کےجس قس��م کے ااس�ی قس�م کے ہ��وتےہیں۔ اب ظ��اہر ہے کہ اروح��انی تجرب�ات ج��ذبات اور افع��ال بھی پرس�تاروں کے اروحانی تج��ربہ )جودنی��ا کومای�ا ی��ا خی��ال ابت پرست کا تجربہ اورویدانتی کا الحد کا تجربہ اورایک مآاپ کو خدا مانتاہے (اورایک مسیحی خدا پرست کا روح��انی تج��ربہ چ��اروں یکس��اں کرتاہے اوراپنے طورپر درست اورراست نہیں ہوسکتے کیونکہ ان ج��ذبات میں ب��اہمی تض��اد اورتن��اقض ہے۔پس جب

اثرات مختلف اورمتضاد ہیں توان اثرات کے علل اوراس�باب یع��نی مختل�ف م�ذاہب کے اص�ول کسطرح یکساں طورپر صحیح درست اورراست تسلیم کئے جاسکتے ہیں؟ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ :

جو ۔جوز بردید ازگندم گندم

ااس�ی ط��رح مختل�ف جس طرح مختلف بیجوں سے مختل�ف پی�داواریں حاص�ل ہ��وتی ہیں ااصول سے مختلف قسم کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مختلف اعم��ال مذاہب کے آاس�مان ک�ا ف�رق ہوت��اہے۔ اورافعال سرزدہوتے ہیں۔ مختلف مذاہب کی پیروؤں کی ذہنی�تیوں میں زمین

کیونکہ ۔جمال ہنشیں درمن اثرکرد۔

پس ہم کو منطقی مغالطات اورعقلی محالات سے بچناچاہیے۔ اوراس امر کوتسلیم کرنے میں تامل نہیں کرن��ا چ��اہیے کہ مختل��ف م��ذاہب یکس��اں ط��ورپر ح��ق ص��حیح درس��ت اورراس��ت ہرگ��ز نہیں

ہوسکتے۔

۵ چونکہ ہن��دومت اورمس��یحیت کی عب��ادت کے ج��ذبات میں ف��رق ہے لہ��ذا س��یدنا مس��یحابت پرست م��ذاہب کے پ��یروؤں کے روح��انی تج��ربہ میں کے حلقہ بگوش کے روحانی تجربہ میں اورآاسمان کا فرق ہے۔اگرتم روئے زمین کے مذاہب کی تاریخ کی ورق گردانی کروت��وتم ک��و بھی زمین اس اونچائی کا روحانی تجربہ کہیں نہ ملیگا۔ مسیحی روح��انی تج��ربہ ک��ا یہ طغ��رائے امتی��از ہے کہاس کے تجربہ کرنے والوں نے اپنی گرانم�ایہ عم��روں کوخل��ق خ��دا کی خ�دمت میں ص�رف کردی��ا۔ کس مذہب کی تاریخ میں تم کو بنی نوع انسان کے بے ریا خدمت کرنے وال��وں کے گروہ��وں کے گروہ ملیں گے جن کی زندگی کا وح��د مقص��د بدنص��یبوں درمان��دوں ،مظلوم��وں اوربے کس��وں کی چارہ سازی اورخدمت گزاری ہو؟اپنے وطن ہندوستان ک��و لے ل��و کس م��ذہب نے ہم��ارے مل��ک کے بے کس�وں کے ل�ئے مس�یحی کلیس�یا کی مانن�د اس ق�در ہس�پتال س�کول ک�الج اوربی�وہ خ�انے ی�تیم خانے وغیرہ کھول رکھے ہیں؟ مسیحیت کے س��وائے کس م��ذہب نے ہم��ارے وطن کی گ��ری ہ��وئی

Page 9: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

بدکارعورتوں کو سنبھال کران کو اس قابل بنایاہے کہ وہ ازسرنوزندگی بسرکرسکیں؟ کس مذہب نے مسیحیت کی مانند جرائم پیشہ قبائل کو ازسرنوانس��ان بنادی��اہے؟ مس��یحیت کے علاوہ کس م��ذہبااچھوت اورناپاک ق��رار نے کوڑھیوں کی خدمت کا بیڑا اٹھایا ہے ؟ہندومت نے انیس کروڑ انسان کو اان ک�و حی�وان س�ے ب�دترحالت میں رکھ��ا۔ اس�لام نے ای�ک ہ��زار س�ال میں ان دے کر صدیوں ت�ک بدقس��مت لوگ��وں کی ح��الت میں ک��وئی نمای��اں ف��رق نہ دکھای��ا۔ ہن��دومت کے عقائ��د نے ان کی زندگی کے نخل کوماردیا کی�ونکہ ان میں بط�الت ک�ا زہ��ر موج��ود ہے۔ لیکن مس�یحیت کے عقائ�د نے اپ��نے مقل��دین میں ان بدنص��یبوں کی فلاح اوربہب��ودی کی ت��ڑپ ڈال دی۔ اورپچ��اس س��ال کے ان�در ان�در ان میں س�ے لاکھ��وں ک�و جوحی�وان تھے ازس�رنو انس�ان بنادی�ا اورذات پ�ات کی تب�اہ کنامتیازات کویکسر مٹاکر سب کوخدا کا فرزندمسیح کا عضو اور خدا کی بادشاہی کاوارث بنادیا۔

۶ ہن��دومت میں پرماتم��ا ص��فات س��ے مع��را ہے اوردیوت��اؤں ک��و پرماتم��ا ک��ا مظہ��ر اوراوت��ارلب اخلاق ہیں ماناجاتاہے۔ لیکن جب ہم ان دیوتاؤں کی ص�فات پرنظ�ر ک�رتے ہیں ت�ووہ ایس�ی مخ��رلہ ضلالت میں گریگا ۔ کرشن کے جس تص��ور نے اہ��ل کہ اگر ان پر عمل کیا جائے توہر انسان چا ہنود کے عوام الناس کے دلوں کو موہ رکھاہے وہ بھاگوت گیتا کا کرشن نہیں ہے جوفلسفیانہ درس دیتاہے بلکہ پرانوں کا کرشن ہے جو بندرابن کے جنگلوں میں گوپیوں کے ساتھ لیلا کرتا تھ��ااوراس تصور نے عوام الناس کے دلوں میں گھر کررکھاہے۔ لاکھوں گیت اس تصور کے گ��واہ ہیں جوزب��انلد خاص وعام ہیں اورہولی کا تہوار ہرسال ہم کو اس تصور اورلیلا کی یاد دلاتاہے۔یہ بات ظ��اہر ہے ز کہ وہ جوگوپی��وں کے س��اتھ کھیلا کرت��ا تھ��ا اس ب��ات کی ص��لاحیت نہیں رکھ س��کتا کہ گنہگ��ارآاہنی پنجہ سے چھھٹکارا دلاسکے۔ پس ہم کس طرح کہہ س��کتے ہیں کہ تم��ام انسان کوگناہ کے مذاہب برابرطورپر عبادت گزاروں کےجذبات کومش�تعل کرس�کتے ہیں۔ بف��رض مح�ال اگرم�ذہب ک�ا واح��د ک��ام ج��ذبات ک��و ب��رانگیختہ کرن��اہی ہ��و۔ ت��اہم اس کے وس��ائل کےم��راتب ودرج��ات میں بع��د

المشرقین ہے۔اندریں حالات ہم تمام م�ذاہب کویکس�اں ط��ورپر کس ط��رح برح��ق ق��رار دے س�کتےہیں؟

۷ جولوگ یہ کہتے ہیں کہ عبادت میں اصلی ش��ے عاب��د ک��ا ج��ذبہ ہے اورہم ک��و اس ب��ات کی پروا نہیں کرنی چاہیےکہ یہ جذبہ کس شے سے ظہور پذیر ہوتاہے ان ک��و ہم مرح��وم لارڈم��ارلےکے خیالات سے تعارف کرانا چاہتے ہیں جو خدا کی ہستی کے قائل نہ تھے۔ مرحوم کہتے ہیں۔

کی قسم اس بھی پ��رش مہاتما اوربعض ہیں دی��تے دھوکا کو آاپ اپ��نے ل��وگ سے خیال کے قسم " اسیی زن��دگی کی ج��ذبہ م�ذہبی کہ دلالی�اہے یقین کو آاپ اپ��نے نے انہ�وں ۔ ہیں دی��تے فریب کو آاپ اپنے سے دلیل اعل کی انس��ان لیکن ہے دخل کا ت��اریخ نہ میں اورجس ہے تعلق ساتھ کے عقل نہ کا جس ہے۔ زندگی کی قسم ترین

ہم�اری ہے۔ ض�رورت بھی کی اورہ��دایت رہنم�ائی ص�حیح بلکہ ہے ض�رورت کی جذبہ صرف نہ کو زندگی روحانی زی�ادہ بھی سے ااس کی روش��نی کی ض�میر بلکہ ۔ ض�رورت کی ط�اقت کی جذبات صرف نہ کو زندگی اندرونی یہ لیکن ہے۔ ہوس��کتی حاصل وسیلے کے انور کے عقل صرف روشنی کی اورضمیر ہدایت کی جذبہ ہے۔ ضرورت

ط��ورپر ک��وبرابر قض��ایا متض��اد ج��ائے۔پراگ��روہ کیا استعمال آازادانہ کا اس جب ہے کرسکتی عطا ہی تب نور اپنا عقل جودل��یرانہ ہے ہوس��کتی اامید ل��ئے کے انس��ان ایسے کرس��کیگی۔ ک��ام آازادانہ ط��رح کس توعقل جائیگا مانا ص��حیح

یی کرلے بالجزم عزم کا رہنے قائم پر نتیجہ ااس طورپر یی جوصغر مط��ابق کے ق��وانین کے منطق علم سے قض��ایا اورک��برلن نکلتاہے۔ کرت��اہے ایسا سے اورنیت ارادے کسی وہ خ��واہ کھیلت��اہے ساتھ کے حق جوشخص کہ ہے یہ فطرت قانو

کھیلتاہے"۔ ساتھ کے طاقتوں زندہ کی ترقی انسانی وہJohn Morley, On Compromise, Ch.3

پس اگرہم م��ذہب کے مع��املہ میں ص�رف ج�ذبات ک��و ہی دخ��ل دیں اور عق��ل کوخ��ارج ک��ردیں ت��وہم بق��ول مرح��وم م��ارلے "انس��انی ت��رقی کی زن��دہ ط��اقتوں کے س��اتھ کھیل��تے ہیں" لیکن اگرکوئی ہندوستانی اس قسم کا وطیرہ اختیار کرت��اہے اورہندوس��تانی ق��وم کی زن��دہ ط��اقت کے س��اتھ

کھیلنے کا مرتکب ہوتاہے تووہ حقیقت میں اپنے ملک اورقوم کے ساتھ غداری کرتاہے۔

Page 10: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

۸ جہاں تک مسیحیت کا اس سوال سے تعلق ہے یہ مذہب ہندودھرم کے مختل��ف فرق��وںااس طریقہ اورانداز س��ے پوج��ا نہیں ک��رتے کی طرح ایک فرقہ یا مت نہیں ہے۔ ہم سیدنا مسیح کی ابتوں کی پوج�ا ک�رتے ہیں۔ بلکہ ہم�ارا یہ ایم�ان ہے کہ خ�دا کام�ل ط�ورپر ابت پرست جس طرح ہندو سیدنا مسیح اور صرف سیدنا مسیح میں ظاہر ہواہے۔ پس اس کے سامنے باقی تمام ن�ام نہ�اد اوت�ار اورمظہ��ر ن��اقص غ��یر مکم��ل اورہیچ ہیں۔مس��یح اور ص��رف سیدنامس��یح خ��دا ک��ا حقیقی اورکام��ل مکاشفہ ہے پس اس پر ایمان رکھنا خدا پر ایمان رکھن�اہے اورخ�دا پ�ر ایم�ان رکھن�ا مس�یح پ�ر ایم�ان رکھناہے۔ اصلی اور بنیادی سوال یہ ہے کہ خدا کیا ہے اوراس کا حقیقی مکاشفہ کس وسیلے سےابدھ ہواہے؟ ہندوھرم کہتاہے کہ خدا کوہم جان نہیں سکتے۔ کالی اورکرشن، رام اورشو، مس��یح اور سب یکساں طورپر اس کوظاہر کرتے ہیں ۔ چنانچہ پروفیسر رادھ��ا کرش��ن اپ��نی کت��اب " ہن��دو وی��و

آاف لائف" میں سنکسرت کے ایک شلوک کاذکر کرتے ہیں جس میں لکھاہے: " برہم��ا" وی��دانتی سے نام شو"کے وائے شومت کو جس ہے حاکم کا جہانوں جوتینوں ی " ہر

ادھ وائے مت ابدھ اور سے نام کے جین اور سے ن�ام کے ایجنٹ چیف اورنیایکی" عام�ل" یا سے نام کے بآازادا دع����اؤں ہم����اری ہیں پک����ارتے کر کہہ اصل کا " ق����انون پرست اوررس����وم سے ن����ام ش����دہ" کے والے"

(۔۴۶ کوسنے")صفحہلشو، مس��یح لیکن عق��ل س��لیم ہم ک��وبتلاتی ہےکہ خ��دا برابرط��ورپر ک��الی اورکرش��ن، رام اوراہ مختل��ف ابدھ میں ظ��اہر نہیں ہواکی��ونکہ ان کے اوص��اف اق��وال وافع��ال ای��ک دوس��رے س��ے کلیت اورابدھ میں ظ��اہر ہ��وا ہےی��ا اورمتضاد ہیں۔ پس یاوہ کالی میں ظاہر ہواہے یا مسیح میں ظاہر ہواہے۔ ی��اوہ مسیح میں ظاہر ہواہے۔ یاوہ رام میں ظاہر ہوا ہے یا وہ مسیح میں ظاہر ہواہے ۔ یا وہ کرشن میں ظاہر ہواہے یاوہ مسیح میں ظاہر ہواہے۔ پس اگرہم خدا کودیکھنا چ�اہتے ہیں توک�الی اورمس�یح دون�وں میں برابرطورپر نہیں دیکھ سکتے۔ رام اورمسیح دونوں میں نہیں دیکھ سکتے ۔ کرش��ن اورمس��یح دون��وں میں یکس��اں ط��ورپر خ��دا ک��ا کام��ل مکاش��فہ ہون��ا ای��ک مح��ال عقلی ہے کی��ونکہ ان کے اوص��اف

اجداگانہ ہیں۔ پس یا تومسیح خدا کا کامل مکاشفہ ہے یا کرشن خدا کاکام��ل مکاش��فہ ہے دون��وں کا خدا کا کامل مکاشفہ ہونا اجتماع الضدین ہے۔ چونکہ انجیل کے مطالعہ سے ہم��اری عق��ل ہم

کو بتلاتی ہے کہ سیدنا مسیح خدا کاکامل مکاشفہ ہے لہذا ہم یہ مانتے ہیں کہ : ن��ام دوس��را ک�وئی کو آادم ب��نی نیچے کے آاس��مان کی��ونکہ نہیں نجات سے وسیلے کے دوسرے " کسی

(۔۱۳: ۴ پاسکیں)اعمال نجات ہم سے وسیلے کے جس گیا دیا نہیں

۹آائی کی��ونکہ اس ک��ا ایم��ان ای��ک مس��یحیت اپ��نے اوائ��ل زم��انہ میں م��ذاہب ب��اطلہ پرغ��الب ابت پرست پنڈت اپنے دی��وی ااس زمانہ کے تواریخی ہستی پر تھا۔ موجودہ ہندو مصلحین کی طرح دیوت�اؤں کے بیہ�ودہ اورواہی�ات قص�ص ک�و تم�ثیلی رن�گ میں پیش کی�ا ک�رتے تھے اوراس قس�م کی تاویل تفسیر کرکے اپنے پیروؤں کے لئے اخلاقی سبق نکالتے تھے۔ لیکن ہرزم�انے کے س�لیم الطب��علحس اس قسم کی پادرہواتاویلات سے بغاوت کرتی ہے اوریہی حال ہمارے اشخاص کی اخلاقی ملک کے روشن طبع نوجوانوں کا ہے۔ انسانی روح اپنے ہی تخی��ل پرزن�دہ نہیں رہ س��کتی۔وہ ای��کااس ک��ا حقیقی نص��ب العین ہوس��کے۔ ہن��دومت کے پ��اس اس ت��واریخی ہس��تی کی خ��واہں ہے۔ج��و قسم کی کوئی تواریخی ہستی نہیں ہے۔ لیکن مس��یحیت ک��ا ب��انی ای��ک حقیقی ت��واریخی ش��خصلت متخیلہ کا ن��تیجہ ہیں پس وہ محض تھا۔ ہندومت اوردیگر بت پرست مذاہب کے اوتار انسانی قواان میں اورس��یدنا مس�یح میں بین تف��اوت ہے اوریہ ف��رق محض درجہ وہمی صورتیں اورظہ��ورہیں لہ��ذا اروح�انی ہے اورمس�یح فلاں دیوت�ا ہے۔ کا نہیں کہ کوئی کہہ سکے کہ فلاں دیوت�ا مس�یح س��ے کم ااکرشن وغ��یرہ س��ے زی��ادہ ب��ڑاہے۔ یہ��اں" کم " اور" زی��ادہ" ک�ا س��وال ہی پی��دا نہیں ہوت��ا ،کی��ونکہ مثل دونوں میں درجہ کا ف��رق نہیں بلکہ ح��د اورقس��م ک��ا ف��رق ہے۔ س��یدنا مس��یح ای��ک اورہی قس��م کی شخصیت رکھتاہے۔کرشن اور مسیح میں ن��وع اورقس��م ک��ا ف��رق ہے۔ پس مس��یح نے ہرمل��ک اورزم��انہیی نہیں چن��انچہ لل ہن��د بھی اس س��ے مس�تثن کے بے شمار افراد کے دلوں کومس�خر ک��ر رکھ��اہے۔ اہ��

مسٹر گاندھی کہتے ہیں کہ:

Page 11: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

نے اوراس ہے رکھتا جگہ کی ایک سے میں معلم���وں الش���ان عظیم کے دنیا میں دل م���یرے " مس���یح

۔ 3ہے کیا متاثر کوبہت زندگی میری لیکن عقل سلیم سیدنا مسیح کو دنیا کے دیگر معلم�وں ،ن�بیوں معب��ودوں اوردیوت�اؤں کی قطارمیں شمار نہیں کرسکتی۔ اورنہ مسیحیت کی نسبت یہ کہہ س�کتی ہے کہ جس ط��رح دیگ��ر م��ذاہب ان��دھیرے میں ٹٹول��تے پھ��رتے ہیں اس��ی ط��رح وہ بھی ش��ب کی ت��اریکی میں خ��داکوٹٹولتیآاخ��ری، کام��ل ، اجب��ور ہیں کہ س��یدنا مس��یح خ��دائے واح��د ک��ا قطعی، پھرتی ہے۔ ہم یہ ماننے پ��ر م

اکمل اور لاثانی مکاشفہ ہے۔کیا کل مذاہب ایک خدا کی طرف جانے کے راستے ہیں

ااصول کی تبلیغ کرتے ہیں کہ تمام مذاہب یکس��اں ہیں وہ ب��العموم ع��وام جواصحاب اس الن��اس کے س��امنے یہ مث��ال پیش ک��رتے ہیں کہ مختل��ف م��ذاہب مختل��ف راس��توں کی ط��رح ہیں جوایک ہی شہر کی ط��رف ج��اتے ہیں ۔ جس ط��رح ہ��رراہ ای�ک ہی ش��ہر کی ج��انب لے ج��اتی ہے ااسی طرح ہرمذہب ایک ہی خ�دا کی ط��رف لے جات�اہے جس ط�رح چل�نے والا جس راہ ک�و چ�اہے اختیار کرلے اسی طرح ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ جس مذہب کوچاہے اختی��ار ک��رلے۔ وہااس کہتے ہیں کہ موٹی سے موٹی عقل والا شخص بھی یہ سمجھ س��کتاہے کہ خ��دا ای��ک ہی ہے ااسی کو واہگر وکہتاہے۔ کوئی اس کو اللہ کہت��اہے ک��وئی کو ایک شخص پرمیشور کہتاہے تودوسرا برہما اورکوئی اس کو خدا کے نام سے موسوم کرتاہے۔ غرضیکہ ہستی ایک ہی ہے جس کی س��بااس ایک ہستی کے نام مختلف ہیں اورن��ام کی نس��بت جھگڑن��ا کس��ی پرستش کرتے ہیں ۔ صرف

عقلمند کا کام نہیں۔ کوزاہد کعبہ کہ ہیں پہنچتی جا وہی

سے بتاں کوئے جو راہیں ہیں نکلتی

چنانچہ مسٹر گاندھی کہتے ہیں

3 Andrews, Mahatma Ghandi’s Idea,p92

جس کہ ہے اختی��ار ک��ویہ نہیں۔ہم نام خاص کوئی کا اس کہ ہے تویہ حق بلکہ ہیں نام ہزاروں کے خدا کوخ��دا اس بعض ہیں کہ��تے کرشن کو اس بعض ہیں۔ کہ��تے رام کو اس بعض پک��اریں۔ کو اس چ��اہیں سے ن��ام

نہیں کومرغ��وب ش��خص ہر غ��ذائیں تم��ام ط��رح جس ہیں۔ ک��رتے پرستش کی اروح ہی ایک سب ۔لیکن ہیں کہتے جون�ام کہ ہے حاصل حق ک�ویہ ش�خص ہر لیکن ہ�وتے نہیں کوپس�ند ش�خص ہر نام سب کے خدا طرح اسی ہوتیں ہم��اری وہ پس ہے۔ واقف سے آارزوؤں دلی اورہم��اری ہے وخب��یر علیم وہ چ��ونکہ ک��رلے اختی��ار وہ لگے پی��ارا کو اس

(۔۳۷ صفحہ لائف آاف دیتاہے"۔)ہندوویو بھی جواب کا دعاؤں

جنوبی ہند کا ایک ہند شاعر کہتا ہے" جس طرح ہر پہاڑی ندی مختل��ف اط��راف س��ےااس�ی ط��رح ہ��ر مل�ک کے ایک ہی سمندر میں ک�رتی ہے۔ لیکن ہرن�دی کے مختل�ف ن�ام ہ��وتے ہیں ااس کومختل��ف ن��اموں س��ے انس��ان ای��ک ہی خ��دائے کب��یر وعظیم کے حض��ور جھک��تے ہیں گ��ووہ

اا ص��فحہ (۔ای��ک اورہندومص��نف لکھت��ا ہے کہ جس ط��رح مختل��ف رن��گ کی۴۷پک��ارتے ہیں")ایض�� گائے ہوتی ہیں کوئی کالی ہوتی ہے ک�وئی س�فید ، ک�وئی لال اورک�وئی بھ�ورے رن�گ کی ہ��وتی ہے لیکن ہررنگ کی گائے کا دودھ ایک ہی رنگ کا ہوتا ہے اسی طرح مختل�ف اق��وام کے لوگ��وں کے

دیوتا بظاہر مختلف ہوتے ہیں لیکن درحقیقت پرستش اسی ایک خدا کی ہوتی ہے۔مست ہشارچہ یارندچہ طالب کس ہمہکنست مسجدد چہ عشقست جاخانہ ہمہ

۱ مذکورہ بالا نظر یہ بظاہر نہایت دلکش اورصلح ک�ل معل�وم ہوت�اہے۔ اور اگ�ریہ نظ�ریہ عق��لااتر سکے توہم کو اس کے ماننے میں ذراتامل نہیں ہوسکتا۔ لیکن جب ہم مث��ال کے معیار پر پورا آاتی ہے۔ ازروئے منط�ق ک�وئی مث�ال عقلی دلی�ل کی تہ کو" پہنچتے ہیں تواس کی خامی ہم کونظر آای��ا م��ذکورہ کی جگہ نہیں لے سکتی ۔پس ہرعقیل شخص یہ معل��وم ک��رنے کی کوش��ش کریگ��ا کہ آاتی ہیں ی��ا نہیں۔ کی��ا یہ ب��ات درس��ت ہے کہ مختل��ف بالا مثالیں مضمون زیربحث پ��ر ص��ادق بھی مذاہب میں صرف خدا کے نام کی نسبت فرق ہے اوربس؟ یہ بات اظہر من الش��مس ہے کہ تم��املب ع��الم مذاہب خدائے واحد کے قائل نہیں اوراگر بفرض مح��ال ہم یہ م�ان بھی لیں کہ تم�ام م�ذاہ

Page 12: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

یہی کے تص��ورات کے متعل��ق اختلاف ہے لت ال ایک ہی خدا کی ہستی کے قائل ہیں ت��و ان میں ذاااص��ولی اختلاف��ات ہیں جوکس��ی اوریہ اختلاف��ات محض س��طحی اورظ��اہری نہیں بلکہ بنی��ادی اورآاگے ااصول منطق وفلسفہ ایک دوسرے س�ے منطب��ق نہیں ک�ئے جاس�کتے ۔ ہم صورت بھی ازروئے چ��ل ک��ر انش��ا اللہ اس پ��ر مفص��ل بحث ک��ریں گے۔ یہ��اں یہ کہہ دین��ا ک��افی معل��وم ہوت��اہے کہ جوشخص ویدوں کے پرمیشور کومانتاہے وہ ایک ایسی ہستی کا قائل ہے جس کو وہ ش��خص نہیںآان کے اللہ پ��ر ایم��ان رکھت��اہے وہ ای��ک آان کے اللہ پر ایمان رکھتاہے۔ اورجوشخص قر مان سکتا جوقر ایس��ی ہس��تی پ��ر یقین رکھت��اہے جس ک��و وہ ش��خص قب��ول نہیں کرس��کتا جوانجی��ل کے خ��دا ک��و مانتاہے۔ پس یہ قول بالکل غلط ہے کہ ہرشخص ایک ہی ہستی کو مانت��اہے جس کے ن��ام مختل��ف ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اختلاف محض ن��اموں ک��ا نہیں بلکہ ذات وص��فات ک��ا اختلاف ہےآان کے اللہ کی پرس���تش ک���رنے والا وی���دوں کے پرمیش���ور کی ذات ااص���ولی ہے۔ ق���ر ج���و بنی���ادی اورآان وصفات رکھنے والی ہس�تی کی پرس�تش نہیں کرس�کتا اورانجی�ل کے خ�دا پ�ر ایم�ان لانے والا ق�ر کے اللہ کی ذات وصفات کوناقص اورغیر مکمل قرار دیدگا لہذا وہ اس کی پرستش نہیں کرسکتا

۔ پس یہ بات غلط ہے کہ سب مذہب والے ایک ہی ہستی کی پرستش کرتے ہیں۔

۲۲ مختلف راستوں کی جومثال ہم�ارے مخ�اطب دی�تے ہیں وہ بھی م�ذاہب پ�ر ص�ادق نہیں آاس��کتی۔کی��ونکہ یہ مث��ال ف��رض کرلی��تی ہے کہ خ��دا کس��ی پہاڑیاش��ہر کی ط��رح ای��ک جگہ ق��ائم اورس��اکن ہے اوراس کی ذات کس��ی ش��ہر کی ط��رح غ��یر متح��رک غ��یرارادی اورغ��یر مش��خص ہےااس��ی ط��رح اورجس ط��رح مختل��ف ل��وگ مختل��ف راس��توں س��ے کس��ی ش��ہر میں پہنچ ج��اتے ہیں مختلف اقوام وممالک مختلف راستوں اورطریقوں سے خدا کے نزدی��ک پہنچ ج��اتے ہیں۔ اس نظ��ریہاکل ممال��ک واق��وام کے انس�ان اپ�نی کوش��ش س��ے کے مطابق خدا شہر کی طرح ساکن رہتاہے اور آاتے ہیں اورجس طرح شہر کسی کے پاس چل نہیں جاتا اسی طرح خدااپنی طرف خدا کے پاس سے انسان کی نجات کے لئے کسی قسم کی کوشش نہیں کرتا۔ پریہ بات ب��دیہی ط��ور پ��ر غل��ط

اوربے بنیاد ہے کہ خدا انسان کی نجات کے لئے کچھ نہیں کرتا اورکسی شہر ی�ا پہ��اڑ کی ط��رح بے بس اور کسی فعل مجہول کی طرح مظہر مفعولیت مس�ند لیہ ہے۔ خ�دا نہ ص�رف ہم�ارا خ�الق اورپروردگار ہے بلکہ انجیل جلی��ل کی تعلیم کے مط��ابق وہ ب��نی ن��وع انس��ان ک��ا ب��اپ ہے جس کی ذات محبت ہے۔ محبت کا یہ خاصہ نہیں ہوتا کہ غ��یر ارادی اورغ��یر مش��خص ہ��وبلکہ محبت س��ے ارادہ اورفع��ل دون��وں ص��ادر ہ��وتے ہیں۔ خ��دا کے یہ ش��ایاں نہیں کہ اپ��نے گم��راہ بی��ٹے ک��و ص��راط المستقیم پر لانے کی جانب سے بے نی�از ہ��وکر لاپ�رواہی اختی��ار ک�رے بلکہ اس کی پ�دری محبتلہ ضلالت س��ے نکلے۔ اوریہ پ��دری ہرممکن طورپر جدوجہد کرتی ہے کہ اس کا گم گشتہ فرزند چا محبت اس نیک مقصد کی انجام دہی کے لئے ہر طرح کا ایثار کرنے کوتیار رہ��تی ہے۔ اوراس ک��و چین نصیب نہیں ہوت�ا جب ت�ک کہ وہ اپ�نے مقص�د میں کامی�اب نہ ہ�و ج�ائے۔ پس مس�یحیت ہم کویہ تعلیم دیتی ہے کہ خدا اپنے فضل کا ہاتھ بڑھاتاہے اوراس کی لازوال پ��دری محبت ایث��ار س��ے پیش قدمی کرکے گنہگار انسان کواپنی ط��رف کھینچ��تی ہے۔ پس انس��ان اپ��نی ذاتی کوش��ش س��ےااس ک��و بلاتی ہے۔ انس��ان اپ��نے ذاتی اعم��ال آاتا بلکہ خ��دا کی اب��دی محبت خدا کی طرف نہیں سے نجات نہیں پاتا تاوقتیکہ پہلے سے خدا کا فضل اس کے شامل حال نہ ہو اس س��ے پہلے کہ انس��ان خ��دا کی تلاش ک��رے۔ خ��دا انس��ان کی تلاش کرت��اہے ۔ یہ واض��ح حقیقت مس��یحیت ک��ا

اصل ہے چنانچہ لکھاہے: " خدا محبت ہے۔۔۔جومحبت خدا کو ہم س��ے ہے وہ اس س��ے ظ��اہر ہ��وئی کہ خ��دا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دنیا میں بھیجا تاکہ ہم اس کے سبب سے زن��دہ رہیں۔ محبت اس میں نہیں کہ ہم نے خ���دا س���ے محبت کی بلکہ اس میں ہے کہ خ���دا نے ہم س���ے محبت کی اورہم���ارے

(۔۱۰ تا ۸: ۴یوحنا ۱گناہوں کے کفارہ کے لئے اپنے بیٹے کو بھیجا") " روح القدس جوہم کو بخش��ا گی��ا ہے۔ اس کے وس��یلے س��ے خ��دا کی محبت ہم��ارے دل��وں میں ڈالی گ��ئی ہے کی��ونکہ جب ہم گہنگ��ار ہی تھے ت��وعین وقت پ��ر مس��یح بے دین��وں کی

Page 13: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

خاطر موا۔ خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتاہے ۔ باوجود خدا کے دش��من ہ��ونے کےااس کے بیٹے کی موت کے وسیلے سے ہمارا میل ہوگیا")روم باب(۔۵خدا سے

خدا نے مسیح کے وسیلے سے اپنے ساتھ ہمارا می��ل ملاپ کرلی��ا۔ م��یرا مطلب یہ ہے کہ(۔۱۸: ۵کرنتھیوں ۲خدا نے مسیح میں ہوکر اپنے ساتھ دنیاکا میل ملاپ کرلیا")

آایا کہ مسیح کے خون کے سبب صلح کرکے سب چیزوں ک��ا اس��ی " باپ کو یہ پسند آاسمان کی" )کلسیوں (۔۱۹: ۱کے وسیلے سے اپنے ساتھ میل کرے خواہ وہ زمین کی ہوں خواہ

لت خود ہم انسان اس لائق نہیں کہ اپنی طرف سے کچھ خی��ال بھی کرس��کیں بلکہ بذا (نجات انسان کے اعم��ال کے س��بب نہیں۵: ۳کرنتھیوں ۲ہماری لیاقت خدا کی طرف سے ہے")

بلکہ ایمان کے وسیلے خدا کے فضل سے ملی ہے اوریہ انسان کی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی(۔۸: ۲بخشش ہے")افسیوں

بزوربازونیست سعادت ایںبخشندہ خدائے بخشدا تانہ

انس��ان کی نج��ات اس کی مس��اعی جمیلہ ک��ا ن��تیجہ نہیں بلکہ خ��دا کی بخش��ش ہے۔لر خدا پر ش��ہر اوراس کے غیر ارادی غیر مشخص اورساکن ہستی کا عین نقیض ہے پس جس تصوادور ہے ۔ مختلف راستوں کی مثال قائم کی گئی ہے وہ تصوربالکل باط��ل اورحقیقت س��ے کوس��وں

انسان مختلف راستوں سے چل کر خدا کے پاس نہیں پہنچتا بلکہ: "خدا نے قدیم زمانے سے حصہ بہ حصہ اورطرح بہ طرح ن��بیوں کی مع��رفت کلام ک��رکے

(۔۱: ۱آاخر کارہم کو بیٹے کی معرفت کلام کیاہے)عبرانیوں ایوں اس آای�ا اور خدا ساکن ہونے کی بجائے خود انسان کی خ�اطر مجس�م ہ��وکر دنی�ا میں کی لازوال محبت نے انسان کوبچانے کی خاطر پیش قدمی کی ۔ مس��یحیت دیگ��ر م��ذاہب کی طرح ایسا مذہب نہیں جس کوکسی ایک انسان نے یا انسان کےگروہ نے مسیح کے زیراثردری��افت یا ایجاد یا وض�ع کی�اہوبلکہ وہ خ�دا کی ج��انب س�ے ای�ک مکاش�فہ ہے جس ک�ا مرک�ز مس�یح ہے۔

مسیحیت کوئی ساکن نصب العین نہیں جس کو انسان نے غیر مکم�ل ط��ورپر گوی��ا ت��اریکی میں ٹٹول��تے اپ��نی کوشش��وں س��ے حاص��ل کرلی��ا ہ��و بلکہ خ��دا نے خ��ود اس میں اپ��نی ذات ک��وہم پرظ��اہر

لy رپورٹ جلسہ یروشلیم: کیاہے۔ بالفا " مسیح کی خوشخبری ہم��اری دری�افت ک�ا ن��تیجہ نہیں ہے اورنہ انس��انی کوشش��وں س��ے

حاصل کی گئی ہے ۔ اس کے برعکس وہ خداکا فضل ہے"۔مسیحی ایمان یہ ہے کہ:

(۔۴۹: ۱" اس خدائے قادر نے ہمارے لئے بڑے بڑے کام کئے")لوقاااس بات پر ایمان لاتے ہیں " جونہ خون س��ے جوانسانی ارادہ پر موقوف نہیں ۔ مسیحی نہ جس��م کی خ��واہش س��ے اورنہ انس��ان کےارادہ س��ے پی��دا ہ��وتی ہے۔ بلکہ اس ک��امنبع اورسرچش��مہ

(۔۱۳: ۱خودخدا کی ذات ہے")یوحنا خدا باپ نے اپنی ازلی محبت کی وجہ س��ے اپ�نے فرزن��دوں کوبچ��انے کے ل��ئے اپن��ا ہ��اتھیہی محبت نے انس�ا ن ک�و بچ��انے پھیلایاہے تاکہ ان کو اپنے لامح�دود فض�ل س�ے نج�ات دے ۔ال کی خاطر پیش قدمی کی۔ پس خدا کے پاس پہنچنے کےراستے مختل��ف نہیں بلکہ راہ ای��ک ہی

ہے اوروہ محبت کی راہ ہے جو صراط مستقیم ہے۔ چنانچہ سیدنا مسیح نے خود فرمایا ہے کہ" " راہ ،ح��ق اور زن��دگی میں ہ��وں۔ ک��وئی م��یرے وس��یلے کے بغ��یر ب��اپ کے پ��اس نہیں

(۔۶: ۱۴آاتا")یوحنا

۳۳ جواصحاب یہ خیال کرتے ہیں کہ م��ذاہب افس�انی کوش��ش ک��ا ن�تیجہ ہیں وہ ب��ڑی غلطی میں مبتلا ہیں۔ کی��ونکہ وہ " م��ذہب" اور" کلچ��ر" یاثق��افت میں تم��یز نہیں کرس��کتے۔ وہ م��ذہب کوایک قسم کی کلچر خیال کرتے ہیں جس کو ترقی دینا انسان کا فرض ہے چنانچہ اخبار انڈین

سوشل ریفارمربمبئی کا ایڈیٹر رقمطراز ہےکہ:

Page 14: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ااستادوں کی تعلیم کوہمیں قطعی س��مجھ ک��ر قب��ول " بدھ اورکرشن جیسے عظیم الشان آاگے لے جائیں نہیں کرنا چاہیے اس کےبرعکس ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان کی تعلیم کوایک قدم

ء(۱۹۴۱ فروری ۸تاکہ انسان نوع کی اخلاقی اورروحانی ترقی ہو"۔)مورخہ لیکن مذہب کلچر نہیں ہے بلکہ وہ خدا کی ج��انب س��ے مکاش��فہ ہوت��اہے۔یہی وجہ ہے کہ لکھوکھہا سال کی تلاش کے باوجود انسان اپنی مساعی جمیلہ سے خداکا وہ علم حاص��ل نہیہی نہیں بخش لت ال کرسکا جوہم کو سیدنامس��یح کےذریعہ ملاہے۔ انس��انی فط��رت ہم ک��و وہ مع��رف سکی جوم��افوق الفط��رت ط��اقت نے عط��اکی ہے یہی وجہ ہے کہ جومکاش��فہ ہم ک��و س��یدنا مس��یح کے ذریعے ملا وہ لاث���انی ہے جس ک���ا مطلب یہ ہے کہ دیگ���ر م���ذاہب میں اوراس مکاش���فہ میں صرف درجہ کافرق نہیں بلکہ ن�وعیت ک�ا ف��رق ہے۔ دیگ�ر م�ذاہب مس�یحیت کی قس�م کے م�ذہب نہیں ہیں۔ مسیحیت بے نظیر اوربے عدیل ہے کیونکہ وہ خدا کی جانب سے مکاشفہ کی ص��ورتاان ک��و ااس وقت تک بھلے معل��وم ہ��وتے ہیں جب ت��ک کہ میں ملی ہے۔دیگر مذاہب ہم کو صرف انجی��ل جلی��ل کی روش��نی میں نہ لای��ا ج��ائے لیکن ج��ونہی ہم ان ک��و کلمتہ اللہ کے جلال کیاا معل��وم ہوجات��اہے یہی مکاش��فہ میں ف��رق ف��ور روش��نی میں دیکھ��تے ہیں ہم ک�و انس��انی کوشش��وں اورال اورہم کویہ علم ہوجاتاہے کہ ان م��ذاہب میں درحقیقت ک��وئی مکاش��فہ نہیں ہے بلکہ مس��یحیت ہی

کی طرف سے ایک کامل اوراکمل مکاشفہ ہے۔ نمود سی کی سیمیاہ اک تھی بھی وہ

کھلا داختر مہ کوراز صبح

۴۴ پس مس��ٹر گان��دھی ک��ا یہ خی��ال کہ انس��ان خ��ود اپ��نی کوشش��وں س��ے خ��دا ک��و حاص��ل

کرسکتاہے غلط ہے اور انجیل جلیل کے خلاف ہے۔ وہ اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں :

سے سالوں تیس گذشتہ میں تحصیل کی بات اورجس کرناچاہتاہوں حاصل میں "جوبات چاہت��اہوں دیکھنا روب��رو کو خ��دا میں یع��نی ہے پہچ��ان کی اورذات نفس اپنے وہ رہاہوں کوشاں میں

ہے"۔ لکھش اوریہیآاخرالامر اق��رار کرن��ا آاپ ک��و لیکن باوجوداپنی تیس سالہ پے درپے مخلص��انہ کوشش��وں کے پ��ڑا" میں نے خ��دا ک��و حاص��ل نہیں کی��ا لیکن میں اس کی تلاش میں ہ��وں۔ میں اس ک��و نہیںااس ش��خص ک��ا جانتا"۔ جب مہاتماؤں کا یہ حال ہے ت��ویہ مادش��ماکس ش��مار وقط��ار میں ہیں۔ ہ��ر یہی تجربہ ہے جوصرف اپنی مساعی جمیلہ کے ذریعہ خدا ک��و تلاش کرن��ا چاہت��اہے لیکن اس کےآاسمانی بخشش ک�ا م�زہ چکھ ااس " برعکس ہرمسیحی کوخداکاذاتی تجربہ حاصل ہے کیونکہ وہ

اپرش ن��اواقف اوربے خ��بر ہیں۴: ۶چکے ہیں")ع��برانیوں (۔جس س��ے گان��دھی جی جیس��ے مہاتم��ا سچ ہے :

آاس�مان کی بادش�اہت میں چھوٹ�اہے وہ اس)گان�دھی جی( س�ے ب�ڑا ہے)م�تی :۱۱" ج�و (۔۱۱

گاندھی جی کا بنیادی نظریہ غلط ہے کہ خدا ایک غیر مشخص ہس��تی ہے جس ک��ووہااص��ولی غلطی کی وجہ س��ے مہاتم��ا کبھی خدا اورکبھی ست اورحق کہ��تے ہیں اوراس��ی بنی��ادی اور

ادورجاپڑے ہیں۔ جی راہ حق سے کوسوں

۵۵ ت���اریخ ہم ک���وبتلاتی ہے کہ جب مس���یحی مبلغین گذش���تہ ص���دی میں ہم���ارے مل���کارومی یون��انی دنی��ا کی س��ی ح��الت تھی جس ہندوستان میں وارد ہوئے توہندوس��تان کی ح��الت بعینہ ااس زم�انہ کی ح�الت ک��ا نقش�ہ یدی میں ک�رچکے ہیں۔ مق��دس پول��وس کاذکر ہم اپ�نے رس�الہ نورالہ�

دیکھ کر فرماتے ہیں : "جب وقت پورا ہوگیا توخدا نے اپنے بیٹے کوبھیج��ا ت��اکہ ہم ک�و لے پال��ک ہ��ونے ک�ادرجہ

(۔۴: ۴ملے")گلتیوں

Page 15: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ااس زم�انہ میں دنی�ا اس ق�در ت�رقی کرگ�ئی تھی کہ رسول مقبول کا مطلب یہ نہیں تھ��اکہ آاگے بڑھ��ا س��کے۔ جس ش��خص نے ہم��اری کت��اب اب وہ اس قاب��ل ہوگ��ئی تھی کہ ای��ک نی��ا ق��دم ابت پرس��تی اوراوہ��ام ااس زم��انہ کی دنی��ا ت��اریکی اور یی کوپڑھاہے اس پ��ر یہ واض��ح ہوگیاہوگ��اکہ نورالہد پرستی وغیرہ میں پڑی کراہ رہی تھی پس رسول مقبول کا ان الف��اy س��ے یہ مطلب تھ��ا کہ دنی��ا کی روحانی حالت کا دیوالہ نکل گیا تھا اوراس کی یہ ح��الت ہوگ��ئی تھی کہ ص��رف اللہ کی ذات ہی اس کو بچاسکتی تھی۔ پس خدا نے اپنی لازوال محبت کی وجہ سے پیش قدمی کرکے دنی��ا ک��و بچایا۔ اسی طرح اب خدا ہندوستان کو بچان��ا چاہت��اہے۔ اوریہ محض اس کے فض��ل وک��رم کی وجہ سے ہے۔ مسیحیت ہندومت کا یہ نظریہ قبول نہیں کرسکتی کہ انس�انی فط��رت میں ک�املیت نہ�اں اورپوشیدہ ہے جوخاطر خواہ م��احول میں نم��ودار ہوج��اتی ہے بلکہ ہم��ارا یہ ایم��ان ہے کہ انس��ان کے دل ودم��اغ ت��رقی نہیں کرس��کتے ت��اوقتیکہ ان میں م��افوق الفط��رت زن��دگی س��رایت نہ ک��رے۔ اوریہ زندگی صرف سیدنا مسیح ہے کیونکہ صرف اسی میں" زن�دگی ہے اوریہ زن�دگی انس�ان ک�و من�ور

(۔۴: ۱کردیتی ہے")یوحنا ہندومذہب کانظریہ یہ ہے کہ انسانی کالب��د میں ال��وہیت موج��ود ہے۔ اوریہ ال��وہیت انس��انی فطرت کی وجہ سے انسان میں موجود ہے لیکن مسیحیت اس قسم کے خی�الات کی قائ�ل نہیں ہوس��کتی۔ اس نظ��ریہ کے ب��رعکس اس کی تعلیم یہ ہے کہ انس��ان ک��ا روح��انی کم��ال اس ب��ات پ��راا خدا کے فرزند ہ��ونے ک��ا ح��ق حاص��ل نہیں پس منحصر ہے کہ وہ خدا کا فرزند ہو۔ انسان کوفطرتلج کم��ال ک��ونہیں پہنچ س��کتا۔ لیکن جومنج��ئی ع��المین وہ اپنی فطرت اورسرش��ت کی وجہ س��ے او

کواپنا نجات دہندہ قبول کرتے ہیں:اان ک�و ج�و اس کے ن�ام پ�ر ایم�ان " خدا ان کو اپنے فرزند بننے کا حق بخشتا ہے یعنی لت انس�انی کی وجہ س�ے اورنہ جس�مانی اقتض�اؤں کی وجہ س�ے اورنہ انس�انی لاتے ہیں۔ وہ نہ سرش��

(۔۱۳: ۱ارادہ کی وجہ سے بلکہ خدا کے فضل کی وجہ سے کمالیت حاصل کرتےہیں)یوحنا

لر نوپیدا ہوسکتاہے اورجب تک وہ نی��ا مخل�وق صرف خدا کی روح کے وسیلے انسان ازسباب(۔۳نہ بن جائے وہ خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہوسکتا)یوحنا

پس مسیحیت کا مکاشفہ خدا کے فض��ل اورک��رم ک��ا ن��تیجہ ہے وہ انس��انی ک��دوکاش ک��ایہی تلاش ک��ا ن��تیجہ ہے جوخ��دا گنہگ��ار انس��ان کی خ��اطر اپ��نی ازلی اوراب��دی ن��تیجہ نہیں بلکہ ال

محبت کی وجہ سے کرتاہے۔

کیا خدا مجرد تصور ہےکیا خدا مجرد تصور ہےآاپ��نے مسٹر گاندھی کا نظ��ریہ ج��ووہ خ��دا کی نس��بت رکھ��تے ہیں س��رے س��ے غل��ط ہے۔

ایک مشنری سے اثنائے ملاقات میں کہا: تص��ور مج��رد کا حق ل��ئے م��یرے رکھت��اہے۔ شخص��یت ک��وئی خ��دا کہ جانتا نہیں " میں

(۔۵۵ صفحہ ء۱۹۴۰ مارچ۲۳ ہے")ہریجن تصور ایک محض خدا ہے۔ خداآاپ کے نزدی��ک خ��دا لف��ظ" خ��دا "مہاتم��ا جی کی زب��ان پ��ر بہت ج��اری رہت��ا ہےلیکن اورحق دونوں ایک ہیں اوروہ محض مجرد تصور ہیں۔ خ�دا کی پروردگ�اری ک�ا جوتص�ور رکھ�تے ہیںااپنشدوں کا نظریہ ہے جویہ مانتاہے کہ برہم��ا وہ بھی اسی قسم کا ہے۔ ان کے خیالات کی تہ میں ااص��ول کے ایک غ��یر مش��خص ط��اقت ی�اجوہر ہے جوکائن��ات میں س�اری اورط��اری ہے۔وی��دانت کے لدمطلق ایک ایسی غ�یر مش�خص ہس�تی ہے ج�و اخلاقی ص�فات س�ے متص�ف نہیں ہے مطابق وجو لیکن مسیحیت کے مطابق خدا ایک ہستی ہے جس کی ذات محبت ہے اور یہ ہس��تی اخلاقی��ات کا سرچشمہ ہے ۔ کیا اس سے زیادہ بدیہی فرق ممکن ہے ؟پھر ہم کس منہ سے کہہ س��کتے ہیں کہ یہ دونوں متضاد نظریہ یکساں طورپر صحیح اوردرست ہیں اورفرق صرف ناکام ہے؟دون�وں نظری�وں

کویکساں طورپر صحیح قرار دینا محال عقلی ہے۔اا مسٹرگاندھی کوتسلیم کرن��ا ہی پ��ڑا کہ " اس میں کچھ ش��ک نہیں کہ اا وکرہ آاخر طوہ بلاآاپ کی منط��ق میں مختلف مذاہب میں لفظ" خ�دا" کے تص��ور ال�گ ال�گ ہیں پھ��ر کی�ا ہ��وا؟گوی��ا

اجتماع الضدین کوئی بات ہی نہیں!

Page 16: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

کی لاجواب قسم کی خدا کی جوبات

اس نظریہ کا نتیجہ اس نظریہ کا نتیجہ لر خدا کا نظریہ غلط ہے لہذا اس کا لازمی ن��تیجہ یہ ہے کہ چونکہ مسٹرگاندھی کا تصوآادم کے متعل��ق رکھ��تے ہیں وہ تص��ور بھی غل��ط ہ��و۔ جب خ��دا شخص��یت نہیں آاپ اپ��نی ج��ونظریہ ااخ�وت آادم ای�ک دوس��رے کے س��اتھ رکھت�ا ت�ووہ ن�وع انس�ان ک�ا ب�اپ کس ط��رح ہوس�کتاہے اورب�نی ومس��اوات ک��ا س��لوک کس ط��رح کرس��کتے ہیں؟یہی وجہ ہے کہ مس��ٹرگاندھی کے پ��اس انس��انی فطرت کے مسئلہ کا کوئی حل نہیں اوروہ اپنے مقلدین کواپنے بدقسمت بھ��ائیوں کے س��اتھ نی��ک

اابھار نہیں سکتے۔ انجیل جلیل میں سیدنا مسیح نے صاف فرمایا ہےکہ: سلوک کرنے پر س��اتھ ایک کسی سے میں بھ��ائیوں چھ��وٹے سے سب ان م��یرے نے تم س��لوک جونیک"

س�اتھ کے ایک کسی سے میں چھوٹ�وں سب ان نے تم کی��ا"اورجوبدس�لوک س�اتھ کے خدا وہ کیاباب(۔۲۵ کیا")متی نہ ساتھ کے خدا نے تم وہ کیا نہ

لیکن چ��ونکہ مس��ٹرگاندھی کے م��ذہب کی تعلیم میں اس قس��م کے محرک��ات کے ل��ئےیہی کے نظ��ریہ ک�ا لر ال جگہ نہیں وہ نہیں جانتے کہ کیا کریں۔اس ک�ا اص��لی ب�اعث یہ ہے کہ تص��واا پڑت��اہے۔ پس ق��درتی ط��ورپر ہن��دومت کے اثرہماری انفرادی اوراجتماعی زندگی کے تعلقات پ��ر طبع��ااس نقطہ نظر سے نہیں دیکھ سکتے جس نظر س��ے مس��یحی دیکھ��تےہیں۔ پیروانسانی تعلقات کوااچھ��وت اق��وام ک��ا وج��ود وغ��یرہ ہے۔ لیکن پس ہن��دومت ک��ا لازمی ن��تیجہ ذات پ��ات کی تم��یز اورااصولوں پر قائم رہ ک�ر ان اص�لاحی ااخوت ومساوات ہے۔ ہندو دھرم اپنے مسیحیت کا لازمی نتیجہ ااس کے مع��اونین س�رتوڑکر رہے ہیں حص�ہ نہیں لے س�کتا۔ چن�انچہ اکھیلا بھ��اریہ کوششوں میں ج�و

ء میں اچھوتوں کے کنوؤں سے۱۹۳۷سناتن دھرم ودوات پری شاد نے اپنے اجلاس منعقدہ دسمبر پانی بھ��رنے ۔ من��دروں میں داخ�ل ہ��ونے۔ذات پ��ات اورش��دھی وغ�یرہ کے مس��ائل پ��ر پ��انچ دن مت��واتراام�ور میں دخ��ل ان��دازی کرن��ا ہن��دومت کے اص��ولوں کے بحث اور غوروفکر ک��رکے یہ ق��رار دی�اکہ ان

آال ان��ڈیا س��ناتن دھ��رم ک��انفرنس نے ء میں اچھوت��وں کےمن��دروں میں داخلہ کی۱۹۳۷خلاف ہے۔

ارو سے وہ مندروں میں داخل نہیں ہوسکتے۔ ان کا نسبت یہ فیصلہ صادر کیاکہ ہندوشاستروں کی یی یہ تھ��ا کہ یہ ب��اتیں ہندواص��ول کے مط��ابق ج��ائز ہیں اور ان میں دس��ت ان��دازی کرن��ا متفقہ فت��وااصول کے ساتھ کھیلن�ا ہے! ان کانفرنس�وں کے اجلاس کے متعل�ق ل�برل ہن�دوازم کے ہندومت کے

اخبار"بھارت دھرم" کا ایڈیٹر رقمطراز ہےکہ:لدنظر رکھ ک��ر ہم��ارے پن��ڈت " ہمارا یہ گمان تھا کہ ممکن ہے کہ موجودہ ح��الات کوم��اان کو کم از کم اس ب��ات ک��ا خی��ال کرن��ا چ��اہیے تھ��ا کہ صاحبان کسی اورنتیجہ پر پہنچ جائیں۔ ہزاروں ل�وگ اپ�نی روح�انی بھ��وک کی وجہ س�ے ہم�ارے م�ذہب ک�و ت�رک ک�رکے دیگ�ر م�ذاہب میںyامردہ الف��ا آانچہ ماپند اشتیم۔ ہمارے پنڈت صاحبان شاس��تروں کے داخل ہورہے ہیں لیکن غلط بودآایات کونہیں چھوڑتے اورنہ وہ موجودہ نسل کی روش پر غ��ور ک��رتے ہیں۔ وہ ہم ک��و کو اوردقیانوسی یہ خیال کرنے پر مجبور کررہے ہیں کہ جس فضا میں یہ مذہب پھلت�ا پھولت��اہے۔ اس میں ہم س�انس

لر حاضرہ کے لئے کوئی پیغام نہیں"۔ اان کے مذہب میں دو نہیں لے سکے۔ اورQuoted in the Guardian, March 3.1938

ااس نے ہم�ارے ہموطن�وں حق تویہ ہے کہ ہندومت اپنے پیروؤں پر افیون کا سااثر رکھتاہے۔ اان کو بیدار کرنا جان جوکھوں کاک�ام ہوگی�اہے۔ ہم�ارے ہم اسلادیاہے کہ لب عقلت میں ایسا کوخواااصول کی وجہ سے پڑگئے ہیں۔ چنانچہ مسٹرگاندھی دھرم وطن اس خواب گراں میں ہندوھرم کے

کی تعریف یوں کرتے ہیں: "دھرم میں وہ تمام گ�ردوپیش کے ح�الات ش��امل ہ��وتے ہیں جن کے درمی�ان خ��دا نے ہم کورکھ��اہے۔ دھ��رم ک��ا مطلب یہ ہے کہ ہرش��خص ان ح��الات کے مط��ابق اپ��نی زن��دگی بس��ر ک��رے اوراپ��نی بہ��تری فلاح اوربہب��ودی کی خ��اطر ان ح��الات کے خلاف بغ��اوت نہ ک��رے اورنہ ان ح��دود

"۔4سے تجاوز کرےاتب مقدس��ہ کی ہے چن��انچہ دھرم کی یہ تعریف مس��ٹرگاندھی کی اپ��نی نہیں بلکہ ہن��دوک

بھاگوت گیتا میں کرشن جی کہتے ہیں:

4 Andrews.M.Gandhi’s Ideas,p.129

Page 17: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

لل " اپن�ا دھ��رم ودس��تورالعمل دوس��روں کے پ�ورے اورکام�ل دھ�رم س�ے بہ��تر ہے خ�واہ وہ قاب� (۔ " اے ارجن تواپنے دھرم کی طرف نگاہ کرکیونکہ کھشتری کوجن��گ۳۵: ۳تعریف بھی نہ ہو")

کرنے سے ہی نجات حاصل ہوتی ہے اورچھتری کے دھرم کوپورا ک��رنے س�ے انک�ار کرن�ا ناتمہ��ارےاگن اورافع��ال ہیں۔ ب��رہمن کے۳۲۔ ۳۱:، ۲لئے گناہ ہے") ("چھتری شودریش برہمن کے اپنے اپنے

ک�رم ش�م ، دم ، تپ ، اورعلم وص�فائی وغ�یرہ ہیں۔ چھ�تری ک�ا ک�ام ش�جاعت س�ے جن�گ وج�دل کرناہے۔ دیش تجارت کھیتی باڑی کا کام کرے اور شودر کا کام خدمت اورتواضع کرناہے۔ ہرایک انسان اپنے اپنے دھرم کےکرنے سے درجہ پاتاہے۔ اوروں کے کامل دھرم سے اپنا خام دھرا بہتر ہےابرا بھی ہوت��و بھی اس اگ��رہم اپ��نی اپ��نی ذات کاک��ام ک��ریں گے توک��وئی گن��اہ نہیں ہے اگراپن��ا ک��رم

ابرا کام ہے") (۔۴۸تا ۴۱: ۱۸کوترک کرنا نہایت ااس اا ہن��دودھرم اس قاب��ل نہیں کہ ک��وئی ش��خص اگردھرم کی یہ تعریف درست ہے تویقین��لت کا حلقہ بگ�وش رہے۔ کی�ونکہ جب دھ�رم پ�ر ایم�ان رکھ��نے ک�ا یہ ن�تیجہ ہ��وکر انس�ان اپ�نے ح��الاااوپ��ر نہ اٹھے وہ کس لدنظر رکھ کر اپنی سطح سے گردوپیش سے بغاوت نہ کرے اوراپنی فلاح کوماامید ہوس��کتی طرح ترقی کرسکتاہے؟ اندریں حالات ہندی قوم اور بنی نوع انسان کی ترقی کی کیا

ہے؟

رام کرشن پرم ہمس کا مذہب رام کرشن پرم ہمس کا مذہب آاپ کے ش��اگرد س��وامی ویویکانن��د نے ان لر حاض��رہ میں س��ری رام کرش��ن پ��رم ہمس اور دو خیالات کو مروج کرنے کی ازح��د کوش��ش کی ہے کہ تم�ام م�ذاہب یکس�اں ہیں اوریکس�اں ط��ورپریی زن��دگیوں نے ہندوس��تان کی اپرش��وں کی اعل خ��دا کی ق��ربت عط��ا ک��رتے ہیں۔ ان دون��وں مہاتم��ا اان کی زن�دگیوں س��ے مت�اثر ہ��وکر ان اپشت کو اپنا گروی��دہ بنالی��اہے۔ پس متع��دد ہن�دونوجوان نوجوان کی تعلیم کوبرحق سمجھنے لگ گئے ہیں۔ رام کرشن خود کالی دیوی کی پوجا کیا ک��رتے تھے۔آاپ آاج�اتے ۔ آاپ اس کی صورت کے سامنے گھنٹوں بیٹھ��اکرتے ت�اوقتیکہ وج��د کی ح��الت میں نہ آاپ کرش��ن کی پوج��ا کی��ا ک��رتے تھے وشنوں کی پوجا بھی کرتے تھے اور رادھا ک��ا لب��اس پہن ک��ر

آاپ میں پریم کا وہی جذبہ پی��دا ہوج��ائے جورادھ��ا کے دل میں تھ��ا۔س��یدنا مس��یح کی محبت تاکہ آاپ کس��ی ہندودوس��ت کے گھ��ر میں آاپ کے دل میں تھی چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بھی آاپ کی نظ��ر میں یہ تص��ویر زن��دہ آاوی��زاں تھی۔ بیٹھے تھے دی��وار پ��ر بی بی م��ریم اوربچے کی تص��ویر اان کی محبت آاپ بی بی م��ریم اورس�یدنا مس��یح کے خی��ال میں مس��ت اور ہوگئی اورکئی دن��وں ت��ک آانکھ��وں آاپ نے ای��ک م��تین چہ��رے اور خوبص��ورت لم بے خ��ودی میں میں محور ہے۔ ای��ک روز ع��الآاواز سنی جوکہتی تھی کہ" مسیح ک��ودیکھ جس نے آاتے دیکھا اورایک والے انسان کواپنی طرف دنیا کی خاطر اپنی جان دے دی ہے۔یہ وہی ہے ہے جودنیا کا سب سے بڑا یوگی ہے جوخدا کےآادم نے ابن ک��الی )رام کرش��ن س��ے س��اتھ ای��ک ہے۔یہ مس��یح ہے ج��ومحبت کااوت��ار ہے" پھ��ر ابن آاگے اوربرہما کے ساتھ ایک ہوگئے معانقہ کیا اوراس کو اپنے اندرجذب کرلیا۔ رام کرشن وجد میں

لت مسیح کے قائل ہوگئے۔ آائے اوراس تجربہ کی وجہ سے الوہی اوربڑی مدت کے بعد ہوش میں رام کرش��ن نہ ص��رف اپ��نے دیوت��ا کرش��ن س��ے ہی دع��ا ک��رتے تھے بلکہ س��یدنا مس��یحآاپ نے فرمایا کہ" میں اب آاخری ایام میں اورحضرت محمد سے بھی پرارتھنا کیا کرتے تھے۔ اپنے ااس منزل کوپہنچ گیاہوں جہاں سے میں یہ دیکھ سکتاہوں کہ دنیا کا ہرفرد بشر خدا ک�ا مظہ�ر ہےآاپ ک��و ای��ک مق��دس ہس�تی میں ظ��اہر کرت��اہے ۔ اس��ی ط��رح اس ای�ک اورکہ جس ط��رح خ�دا اپ��نے گنہگار ہستی میں بھی ظہور ہے۔ پس جب میں کسی شخص سے ملاقات کرتاہوں میں اپنے دل میں کہت��اہوں کہ فلاں ش��خص خ��دا ہے جوای��ک مق��دس ہس��تی کی ش��کل میں ہے۔ فلاں ش��خص

خدا ہے جسکا ظہور ایک گنہگار کی صورت میں ہواہے"۔ یہ ص��حیح اورمنطقی ن��تیجہ ہے تم��ام م��ذاہب کویکس��اں م��اننے ک��ا۔ اس م��نزل پ��رنیکیyاوربدی۔ راستی اورناراستی ۔جھوٹ اورس�چ محبت اورع�داوت پ�اکیزگی اور پلی�دگی بے مع�نی الف��ا ہوجاتےہیں۔ اگرخدا کا ظہور تقدس اورناپ�اکی دون�وں میں ہے ت�وان الف��اy کے ک�وئی حقیقی مع�نی نہیں رہ��تے اورنہ ان میں قطعی ط��ورپر تم��یز ہوس��کتی ہے اورنہ ایس��ا خ��دا ہم��اری پرس��تش کے قاب��ل

ہوسکتاہے۔ چنانچہ رام کرشن کہتے ہیں:

Page 18: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

خبردار کہ کہتاہے کو مالک کے اورگھر کر جوچوری کہ چورکوکہتاہے "خداMozamdar, Parinahansa Rama Kirshna, p.103

آاپ کے شاگر رشید سوامی دیویکانند کہتے ہیں کہ: کسی نہیں۔ ہس��تی کوئی درحقیقت کی جس اورمایاہے طلسم دھوکا ایک محض "گناہ

۔5ہے گناہ بڑا سے سب کہنا گنہگار کو انسان ایسا عقی��دہ اخلاق کی ج��ڑوں کوکھ��وکھلا کردیت��اہے لیکن جب ہم یہ م��ان لیں کہ خ��داارخص��ت ہوج��اتے ہیں ۔لیکن چ��ونکہ نیکی ، پ��اکیزگی ، غیر مش�خص ہے توتم�ام اخلاقی امتی��ازات ااص�ول ہیں لہ��ذا ک��وئی ایس�ا نظ��ریہ قب��ول نہیں کی�ا راس��تی ، ح�ق اورمحبت ازلی اوراٹ�ل حقیق��تیں اورااص��ولوں کے خلاف ہ��و۔پس ہم یہ نہیں م��ان س��کتے کہ تم��ام جاسکتاہےجس کا نتیجہ ان اخلاقی

مذاہب یکساں طورپر برحق ہیں۔

گاندھی جی کا مذہبگاندھی جی کا مذہباپراث���ر ہے لہ���ذا ہم ان چ���ونکہ گان���دھی جی کی شخص���یت ہم���ارے وطن میں نہ���ایت بارس���وخ اوراان کے اقتباس��ات ان کی اوب��رو پیش ک��رتے ہیں: خیالات کو شرح اوربس��ط کے س��اتھ ن��اظرین کے ر

تحریرات سے لئے گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:لد دع��ا ہ��وں اور اگرم��یرے ٹک��ڑے یی ہے کہ میں ای��ک ایمان�دار ش��خص اورم�ر " میرا یہ دع��و ٹکڑے بھی کردئیے جائیں مجھے یقین ہے کہ خدا مجھے طاقت بخشے گا کہ میں اس کاانکارآالہ الا اللہ ۔ مسیحی بھی یہی نہ کروں بلکہ اس کی ہستی کا اقرار کروں ۔ مسلمان کہتے ہیں لا ابدھ مت کے پیرودوس��رے الف��اy میں یہی اق��رار ک�رتے ہیں۔ کہتے ہیں اورہندوبھی یہی م��انتے ہیں۔ اجدا ہیں اورگوہم اجد ا اس میں کچھ شک نہیں کہ مختلف ادیان میں لفظ" خدا " کے تصورات ایک ہی لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ تاہم مختلف لوگوں کے لئے اس لفظ کا مفہوم مختلف ہے۔ لیکن پھر کیا ہ�وا؟ ہم جوخ�دا کے س�امنے رینگ�نے والی مخل�وق ہیں اور اس کی لامح��دود عظمت محبت اورحم ک��وکس ط��رح ج��ان س��کتے ہیں۔۔۔۔یہ لازم نہیں ہے کہ ہم اپ��نی تقری��روں اورتحری��روں

5 World Parliament of Religious, 2.p.97

سے دوسرے لوگوں کو اپنے دین میں داخل کریں۔۔۔۔ اگرمیرے مشنری دوست اس بات ک��و قب��ول کرلیں تومذہبی معاملات میں بغض، حسد ،رق��ابت ، ش��کوک اورتفرق��و ں کی گنج��ائش ہی نہ رہےاصلح اورامن کا دورہ ہوگا۔۔۔۔۔ مش��نریوں ک��ا یہ ک��ام نہیں کہ مش��رقی لوگ��وں کی گی بلکہ ہر جگہ

زندگیوں کو جڑسے اکھاڑ پھینکیں ۔۔۔۔۔وہ ہم کو ہماری حالت پر چھوڑدیں"۔اتب میں نے بائبل کو مطالعہ کرنے کی کوش��ش کی ہے اور میں اس ک��و اپ��نی عب��ادتی کااس��ی ط��رح م��وہ لی��اہےجس اروح نے میرے دل ک��وقریب کاایک حصہ سمجھتاہوں۔ پہاڑی وعظ کی یی کرتاہوں کہ میں کسی مسیحی سے پیچھے نہیں ہ��وں۔ جب طرح بھاگوت گیتا نے۔ میں یہ دعولب دیج��ور کوروش��ن ک��ر اورم��یری میں یہ مس��یحی گیت گات��اہوں کہ" اے مس��یح کے ن��ور ، توش��

راہنمائی کر"۔ااس آام��یزش کے "پہاڑی وعظ میں مس��یح ک��ا پیغ��ام ص��اف اورخ��الص ہے۔ وہ بغ��یر کس��ی

میں مکمل طورپر موجود ہے۔ حق تویہ ہے کہ انجیل نے ہی مجھ کو ستیاہ گراہ کی ق��در اوروقعت س��کھلائی اوربتلای��ا

کہ یہی راہ اورطریقہ راست درست اورصحیح ہے"۔ "میرے نزدیک مسیح دنیا کے عظیم الشان معلم��وں میں س��ے ای��ک ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ اپنے ہم عصروں کے لئے خدا کااکلوتا بیٹا تھ��ا لیکن یہ ض�رور نہیں کہ میں اس عقی��دہ کےس��اتھ اتف��اق ک��روں میں یہ مانت��اہوں کہ خ��دا کے اکل��وتے بی��ٹے بہت ہیں لیکن اس کےااس کے لفظی معن��وں باوجود مسیح نے میری زن��دگی کومت��اثر کررکھ��اہے۔ میں لف��ظ" اکل��وتے" ک��و میں استعمال نہیں کرتا۔ میرے خیال میں اس لفظ کا مطلب زیادہ گہراہے کی��ونکہ اس لف��ظ س��ےامراد " روحانی پیدائش" ہے۔ سیدنا مسیح اپ�نے زم�انے کے لوگ�وں میں س�ب س�ے زی�ادہ خ�دا میری آاپ کی تعلیم کوم��انتے تھے اپ��نے اان لوگ��وں کے گن��اہوں کی خ��اطر ج��و آاپ نے کے ق��ریب تھے۔ اان لوگ��وں کے ل��ئے کس��ی ک��ام نہ تھ��ا۔ جواپ��نی آاپ کاکام��ل نم��ونہ کامل نمونہ سے فدیہ دی��ا لیکن زندگیوں کو تبدیل کرنا نہیں چاہتے تھے۔ جس طرح صاف کیا ہ��وا س��ونا اپ��نی می��ل کوچھوڑدیت��اہے

Page 19: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

آاف انگلین��ڈ ابرائی ک��وترک کردیت��اہے ")چ��رچ اسی طرح جوشخص نئے سرے سے پیدا ہوت��اہے اپ��نی ء(۔۱۹۳۹مارچ ۱۰نیوزپیپر

"میں مس��یحیت میں بہت س��ی ب��اتوں ک��ا م��داح ہ��وں لیکن میں تم س��ے یہ کہت��اہوں کہااس س�ے م�یری روح کوپ��وری تس�کین حاص�ل ہ��وتی جس صورت میں ہندومذہب ک�ا میں قائ�ل ہ��وں ااپنش��دوں اوربھ��اگوت گیت��ا س��ے مجھ ک��و وہ تس��لی مل��تی ہے جوپہ��اڑی وع��ظ س��ے بھی نہیں ہے۔ ملتی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ پہاڑی وعظ کے نص��ب العین کے م��یرے دل میں جگہ ک��رلیاامی��دی ،ی��اس، ش��ک اورروح��انی ت��اریکی کے ای��ام میں بھ��اگوگ گیت��ا س��ے ہی مجھے ہے لیکن ناآایت پڑھت��اہوں ت��وغم کے ب��ادل دورہوج��اتے ہیں ۔ م��یری اا س��کی ای��ک ش��انتی مل��تی ہے۔ جب میں اپر ہے لیکن بھ��اگوت گیت��ا کی تعلیم کی وجہ س��ے غم اوررنج ک��ا زندگی الم ناک داس��تانوں س��ے آان کودیکھ��اہے اث��رمجھ پ��ر نہیں ہوت��ا۔۔۔۔۔۔ میں نے بائب��ل مق��دس ک��ا مط��العہ کی��اہے۔ میں نے ق��ر اوریہودیت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔میں نے زرتشت کے م��ذہب ک��ا بھی مط��العہ کی��ا ہےآاخر اس ن��تیجہ پ��ر پہچن��اہوں کہ تم��ام م��ذاہب ح��ق پ��ر ہیں اوران میں س��ے ہرای��ک م��ذہب اورمیں ب��الا

غیرمکمل ہے"۔ااپنش��دوں ، پران��وں آاپ ک��و س��ناتنی ہن��دو کہت��اہوں کی��ونکہ م��یرا ایم��ان وی��دوں " میں اپ��نے

آاواگ�ون کومانت�اہوں۔ ) آاش�رم۲اوردیگر تمام ہندوکتابوں پر ہے۔ میں اوت�اروں ک�ا قائ�ل ہ��وں اور ( میں ورن (میں گئ�ور کھش�ا ک�ا۳دھرم)ذات پات( کا قائل ہوں اورمیرا ایمان ہے کہ یہ وی�دوں کی تعلیم ہے۔ )

ابت پرستی کوماننے کے خلاف نہیں ہوں۔۴قائل ہوں اور) ( میں " جب میں بزعم خودبسترمرگ پرتھ��ا توگیت��ا ہی م��یری تس��لی ک��ا م��وجب تھی"ہندوم��ذہبآان اوربائبل کی تاویل کرنے کی میں تمام دنیا کے انبیا کی پرستش کے لئے جگہ ہے"۔اگرمجھے قرآاپ ک��و مس��لمان ی��ا مس��یحی کہہ اج��ازت ہ��و ت��ومیں ان ک��و اپ��نی تاوی��ل کے مط��ابق م��ان ک��ر اپ��نے

سکتاہوں کیونکہ میرے لئے الفاy "ہندو"، مسلمان اور"مسیحی" متراف الفظ ہونگے۔بھول نہ پر مہربانی کی وفا بے اس دلی بے

کی پیار باتیں ہے اگرکرتاہے ہے کادشمن دلمسیحیت کی نسبت گاندھی جی کہتےہیں:

م��یرے ل��ئے اس ب��ات پ��ر ایم��ان لان��اممکن ہے کہ میں ص��رف مس��یحی ہ��وکر ہی نج��ات حاصل کرسکتاہوں میں یہ نہیں مان سکتا کہ یسوع ہی اکیلا مجسم اوتار اورابن اللہ ہے اور ص��رفآاپ پ�ر ایم�ان لاتے ہیں ۔ اگرانس��ان کے ل�ئے خ�دا وہی لوگ ابدی زندگی حاصل کرسکتے ہیں ج�و کا بیٹا ہوناممکن ہے توکل انسان خ��دا کے بی��ٹے ہیں۔ اگریس��وع خ��دا کی مانن��د تھے ی��ا خ��دا تھے توتمام انسان خدا کی مانند ہیں اورخدا ہوسکتے ہیں۔میری عقل اس بات ک��و قب��ول نہیں کرس��کتی کہ یس��وع کی م��وت اورخ��ون س��ے دنی��ا کے گن��اہ دورہوس��کتے ہیں۔ ہ��اں تم��ثیلی پ��یرایہ میں یہ ب��اتآاپ سراس��ر ایث��ار مجس��م ہوسکتی ہے۔ ۔۔۔۔۔ میں یسوع کوایک شہید کے طورپر م��ان س��کتاہوں ۔ آاپ کی آاپ کام��ل اوراکم��ل ہس��تی نہ تھے ۔ تھے۔ اورخدا کی ط��رف س��ے ای��ک اس��تاد تھے لیکن صلیبی موت دنیا کے لئے ایک زبردست نمونہ ہے۔۔۔۔۔ یہ ناممکن ہے کہ میں مسیحیت کوتم��ام

یی اورافضل یاایک کامل مذہب مان لوں"۔ مذاہب سے اعلآایاہوں کہ یسوع ناصری دنیا کے عظیم الش��ان "سالہسال سے میں اس بات کو مانتاچلا آاپ ک��و اس س�ے کہیں ب�ڑا رتبہ دی�تے ااستاد تھے۔میں جانتاہوں کہ مس�یحی استادوں میں سے ایک آاپ ک��و اس س��ے زی��ادہ نہیں مانت��اکہ ان ہن��دوؤں ہیں لیکن میں جوایک غیر مسیحی ہوں اورہندوہوں سے جو اس ک��الج میں تعلیم پ�ارہے ہیں یہ کہت��اہوں کہ جب ت�ک تم یس�وع ناص�ری کی تعلیم ک��ا انکساری کےساتھ مطالعہ نہیں کروگے تمہاری زندگیاں غیرمکم��ل رہیں گی۔ م��یرا یہ تج��ربہ ہے کہ جوشخص خواہ وہ کسی مذہب کا پیرو ہو۔ دیگرمذاہب کا مطالعہ انکس��اری کے س��اتھ کرت��اہے وہ اپنے ذہن کو وسیع کرتاہے میرا یہ خیال ہے کہ دنی��ا کے ب��ڑے م��ذاہب میں س��ے ک��وئی م��ذہب بھی باط��ل نہیں ہے۔ تم��ام م��ذاہب نے ب��نی ن��وع انس��ان کوبہتربنادی��اہے اور اب بھی وہ اپن��ا مطلب پ��ورا کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔ ہر شخص کا مذہب اس کے اوراس کے خالق کے باہمی تعلق کا نام ہے۔۔۔۔۔

Page 20: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

بعض خدا ک��ورام بلاتےہیں۔ بعض اس��ی ک��و کرش��ن کے ن�ام س�ے پک��ارتے ہیں اوربعض اس ک�و اللہکہتے ہیں ۔ تمام انسان ایک ہی روح کی پرستش کرتے ہیں"۔

یسوع کا مکاشفہ ایک روشن مکاشفہ ہے ۔لیکن وہ بے عدیل مکاش��فہ نہیں ہے۔ یس��وع مس��یح اکیلا تخت نش��ین اورواح��د تاج��دار نہیں کی��ونکہ م��یرا یہ ایم��ان ہے کہ خ��دا بارب��ار مجس��م

ہواہے۔مرحوم مسٹر اینڈروز لکھتے ہیں کہ:

آاشرم میں جات��ا تھ��ا توگان��دھی جی ک��ا یہ قاع��دہ تھ��اکہ عب��ادت جب کبھی میں سبرمتی کے اختتام سے پہلے مجھ س��ے مس��یحی گیت گ��انے کی فرم��ائش کی��ا ک��رتے تھے ان گیت��وں کے

مطلع جن کو وہ پسند کرتے تھے حسب ذیل ہیں:یہی نور ۔ کرروشن یہ دیجور ۔ توربہر ہو"۔۱ ۔ اللہ ذوالجلال"۔۲ اواشا ۔ صلیب پر جب میں کرتا دھیان ۔ جس پر م۔تجھ پاس خداوند ۔ تجھ پاس خدا"۔۳آاتاہوں میں تیرے پاس"۔۴ آاس۔ ۔یسوع توہے میری ۔رہ میرے ساتھ ۔ جلد ہو ا چاہتی ہے شام"۔۵

" میں اس بات کا قائل نہیں کہ ویدوں کے علاوہ کوئی اورکتاب الہ��امی نہیں ہے۔ میںآان ، ژندواستا کوویدوں کے برابرالہامی مانتاہوں ۔ میں اس بات کوضروری نہیں سمجھتا بائبل ، قرآایت کو الہامی مان��ا ج��ائے۔میں ان کہ ہندوؤں کی مقدس کتابوں کے ایک ایک لفظ اورایک ایک کت��ابوں کی ک�وئی ایس�ی تفس�یر م�اننے ک�و تی��ار نہیں ہ��وں جوعق��ل اوراخلاق کے خلاف ہوخ��واہ وہ

۔6مفسر کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہوآائندہ ابواب مسٹرگاندھی کے خیالات کی مفصل تنقیح وتنقید ہم انشااللہ اس رسالہ کے میں ک��رینگے۔ یہ��اں ہم ک��و ص��رف یہ دکھلان��ا کہ مس��ٹر گان��دھی تم��ام م��ذاہب کویکس��اں ط��ورپر

صحیح مانتے ہیں اوریہاں ہم اس نظریہ کےحسن وقبح پر بحث کرنے پر اکتفا کرینگے"۔6 Andrews, M.Ghandi’s Ideas,p.73-74

۱ یہ بات حق ہے کہ مختل�ف م�ذاہب میں ص�داقت کے عناص�ر پائےج�اتے ہیں ۔ ہم اپ�نےآائے ہیں کہ ہرای��ک م��ذہب میں رس��الہ" مس��یحیت کی ع��المگیری" کے ب��اب دوم میں یہ ث��ابت ک��ر صداقت کی جھلک پائی جاتی ہے اورکوئی م�ذہب ایس�ا نہیں جوال�ف س�ے لے ک�ر ی ت�ک باط�ل

اورشیطانی ہو۔ انجیل جلیل اورمسیحی کلیسیا کی یہ تعلیم ہے کہ:ااس��ی ط��رح مس��یح آافتاب عالمتاب کے نور سے چاند اورسیارے چمک��تے ہیں جس طرح

لب صداقت ہے کل اقوام وممالک فیض یاب ہ��وئے ہیں")یوحنا آافتا انور سے جو ت��ا۱: ۱کلمتہ اللہ کے وغیرہ(۔۳

لیکن جس طرح آافت��اب ک��ا جلال اورہے اورمہات��اب ک��ا جلال اورہے اورس��تاروں ک��ا جلال اورہے کی��ونکہ "

(۔۴۱: ۱۵کرنتھی۱ستارے ستارے کے جلال میں فرق ہے") اس��ی ط��رح مس��یحیت ک��ا جلال اورہے اس��لام ک��ا جلال اورہے۔ ہندوم��ذہب ک��ا جلال اورہے۔ بلکہ ہندوم��ذہب کے فرق��وں کے جلال میں بھی ف��رق ہے۔ لیکن چ��ونکہ س��ب م��ذاہب میںآاتاکہ تمام مذاہب یکس��اں ط��ورپر برح��ق صداقت کے عناصر پائے جاتے ہیں اس سے یہ لازم نہیں

اان میں کسی قسم کافرق نہیں"۔ ہیں اوراہ باطل ہواورجس میں گھٹ��اٹوپ ت��اریکی دنیا میں کوئی اخلاقی مذہب ایسا نہیں جو کلیتااصول کے خلاف نہیں کسی حد ت�ک ہی تاریکی چھائی ہوئی ہو۔ ہرایک مذہب میں جو اخلاقی آاتی ہے۔خدا نے کسی ش��خص اورق��وم اورمل��ک کوبغ��یر گ��واہ کے نہیں نورصداقت کی جھلک نظر چھوا۔ ہرشخص کے دل میں کم از کم اس کے ضمیر کی روشنی موجود ہوتی ہےخواہ وہ روشنیلب صداقت کی شعاعوں س��ے کم وبیش آافتا کیسی ہی مدھم کیوں نہ ہو۔ دنیا کے مختلف مذاہب آابائے کلیسیا نے یوں ظاہر کیاہے کہ کلمتہ اللہ جوازل س��ے موج��و منور ہیں۔ اس واضح حقیقت کو آادمی کوروشن کرتاہے "۔ وہ ابتدا ء میں تھااورابتدا ہی سے اس ک��ا دہے" حقیقی نورہے جوہرایک

Page 21: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ن�ور ت�اریکی میں چمکت��ا رہ��اہے اوراس��ی ن��ور کے پرت��و کی وجہ س��ے دنی��ا کے مختل��ف م��ذاہب میںصداقت کاعنصر پایا جاتاہے کیونکہ" اس کلمتہ اللہ کی معموری میں سے ہم سب نے پایا")یوحنا

آافت��اب ص��داقت یع��نی س��یدنا مس��یح کے پیش خیمہ ہیں اور مس��یح ت��ک۴: ۱ ( یہ تم��ام م��ذاہب ( دنیا کے تمام دیگ�ر م�ذاہب یہ ظ��اہر ک�رتے ہیں کہ۲۴: ۳پہنچانے کو ہمارے استاد بنے")گلتیوں

گنہگار انسان کی سرشت میں یہ خواہش موجود ہے کہ اس کا کس�ی نہ کس�ی ط��ریقہ س�ے خ�دا کے ساتھ میل ملاپ ہوجائے لیکن یہ ملاپ صرف اس محبت کے ذریعہ ہوسکتا ہے جوخ��دا ب��اپ اپ��نے بچ��وں کے س��اتھ رکھت��اہے اورجس ک��ا کام��ل مکاش��فہ انجی��ل جلی��ل میں موج��ود ہے۔ منج��ئی ک��ونین نے اپ��نی تعلیم ۔ زن��دگی اورم��وت کے وس��یلے اس محبت ک��و کام��ل اور اکم��ل ط��ورپر ظ��اہر فرمایا ۔ مختلف م��ذاہب میں ص��داقت ک��ا عنص�ر پایاجات�اہے اور اس عنص�ر کی روش��نی ان م��ذاہب کے پیروؤں کو ابن للہ کے قدموں تک لانے کا کام سرانجام دیتی ہے۔ یہ صداقت کا عنص��ر ظ��اہر

لم عالم کے ادیان کا مطمح نظر اورنصب العین ہیں۔ کرتاہے کہ منجئی عالمین کل اقوا اس بات کوہم ایک مثال سے واضح کردیتے ہیں۔لڑکا جب سکول جاتاہے توال��ف، ب، اورقاعدہ پڑھتاہے۔ اس کے بعد ابتدائی کتابیں پڑھتاہے۔ رفتہ رفتہ وہ مبتدی س��ے منتہی بن جات��اہے۔لن عالم ابتدائی مدارج کے مذاہب ہیں اور انتہائی درجہ مسیحیت کاہے۔ جس ط��رح اسی طرح ادیاامش�رکانہ م�ذاہب میں قاع��دہ میں علم کی ش�عاع ک�اپرتو موج�ود ہے اس��ی ط�رح ابت�دائی من�ازل کے لب ص��داقت کے نورک��ا پرت��و موج��ود ہے جس ط��رح ط��الب علم رفتہ رفتہ ت��رقی ک��رکے علم کے آافت��ااجوں ہم ابتدائی مدارج اجوں ااس میں علم کا نور بڑھتا جاتاہے اسی ابتدائی منازل کوطے کرتاہے اوریی کہ کے مذاہب کوپیچھے چھوڑتے جاتے ہیں صداقت کا عنصر بڑھتا اور ترقی پذیر ہوتاجاتاہے حت

لب صداقت درخشاں ہوکرچمکتاہے۔ آافتا مسیحیت میں لب ہوش یہ نہیں کہیگ��ا کہ چ��ونکہ قاع��دہ اورابت��دائی م��دارج کی کتب لیکن کوئی صاح میں بھی علم موجود ہے اورانتہائی درجہ کی کتب میں بھی علم موجود ہے لہذا تم��ام م��دارج کی کت��ابوں میں یکس��اں ط��ورپر علم پای��ا جات��اہے ۔ اس��ی ط��رح ک��وئی ص��حیح العق��ل ش��خ یہ نہیں کہہ

سکتا کہ چونکہ ابتدائی مدارج کے مذاہب میں بھی صداقت پائی جاتی ہے اورانتہائی مذہب میںادرس��ت راس��ت اورح��ق ہیں آا تمام مذاہب یکساں ط��ورپر ص��حیح اور بھی صداقت پائی جاتی ہے لہذیی ہے کہ ص��رف۔ س��یدنا مس��یح کی انجی��ل ہی انتہ��ائی م��ذہب ہے جوع��المگیر ہے ہم��ارا یہ دع��و

اورتمام ممالک اوراقوام وازمنہ کے افراد کے لئے برحق ہے۔لب آافتاب دلیل ، آامد آافتاارومتاب ازروئے باید۔ گرلیلت

ہم جوہندوس��تان کے مس��یحی ہیں اس خی��ال س��ے خ��وش ہ��وئے بغ��یر نہیں رہ س��کتے کہآادمی کو روشن کرت�اے")یوحن�ا (۔ اوراس ن�ور کی۵: ۱سیدنا مسیح وہ" حقیقی نور" ہے جوہرایک

کرنیں ہم کو ہمارے وطن عزیز کے مذاہب میں دکھائی دیتی ہیں۔ ہم ک��و اس خی��ال س��ے خوش��ی حاصل ہوتی ہے کہ جس طرح "پرانا عہدنامہ" اہل یہود کومسیح تک لایا اوروہ نئے عہ��د ن��امہ میں داخل ہوگئے یاجس طرح فلسفہ یونانیوں کومسیح تک لایا اوروہ " حقیقی معرفت" سے بہ��رہ ی��ابآابادواج��داد ااپنش��دوغیرہ کی ش��کل میں ہم��ارے ااسی ط��رح "حقیقی ن��ور" کی ش��عائیں وی��د اور ہوگئے اان کی اولاد ہیں یہ م�وقعہ دی�تی ہیں کہ ہم بھی س�یدنا مس�یح کے سینوں میں چمکیں اورہم کو جو کے پاس جائیں۔اوراگرہم تعصب کی وجہ سے ہندوکتب مقدسہ کو اپنی روحانی خ��وراک کے ل��ئےاان احرمتی کرتے ہیں کی��ونکہ ہم اپنشدوں اورگیتا کی بے عزتی اوربے کافی سمجھتے ہیں توویدوں اورالت غ�ائی ک�و پ�ورا ہ�ونے س�ے روک�تے ہیں۔ وہ ابت�دائی مراح�ل کی کت�ابیں ہیں کی اص�ل غ�رض اورعل اوراس ان کے وجود کا اصلی مقصد انجیل کی انتہائی کتب کی ط�رف لے جان�اہے ۔ جس ط��رح ااردو قاعدہ کا مقصد تب ہی پورا ہوتاہے جب ہم ابتدائی کتابیں پڑھنی شروع کریں اورابت��دائی کتب کا مقصد تب پورا ہوتاہے جب ہم علم کے بحر میں غ�وطے لگ�ائیں اوراگرایس�ا ک�رنے س�ے ہم پرہ�یزلت غ�ائی ف��وت ہوج�اتی ہے۔ ہن�دوؤں کی م�ذہبی کت��ابیں انس�انی ک�ریں ت�وان کی اص�لی غ�رض اورعل کوششوں کا نتیجہ ہیں لہذا وہ صرف ایک خالص بلندی ت��ک ہی پ��رواز کرس��کتی ہیں۔ ان کت��ابوں

Page 22: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ااپنش��د اوربھ��اگوت گیت��ا ہم ک��و مس��یح کی انتہائی بلندیاں مسیحیت کی ابتدائی من��ازل ہیں۔ وی��د، یہی معرفت اوررفاقت حاصل کرسکیں۔ تک لاتی ہے تاکہ ہم اس کو اپنا منجئی مان کر حقیقی ال

۲۲ لیکن مسٹرگاندھی اس قس��م کے ط��ریقہ ک��ار کے ج��انی دش��من ہیں۔ وہ کہ��تے ہیں کہ مختل��ف م��ذاہب مختل��ف اق��وام کی ض��روریات ک��و مختل��ف طریق��وں س��ے پ��ورا ک��رتے ہیں پس ہمیں

تحقیق مذاہب کی بحث میں نہیں الجھناچاہئے بقول شخصےنگہ اپنی اپنی پسند اپنی اپنی

آائے وہی ا س کے ل���ئے اچھ���ا ہے۔ بظ���اہر یہ درس���ت ہے کہ جس ک���و جوم���ذہب پس���ند آائے ہیں۔ لیکن اس مختلف مذاہب مختلف اقوام کی ضروریات کومختلف طریقوں س�ے پ�ورا ک�رتے سے یہ ثابت نہیں ہوت��اکہ ک��وئی م�ذہب قطعی اورختمی ط��ورپر ع��المگیر نہیں ہوس��کتا اورنہ یہ ث�ابتاکل اقوام عالم کی روحانی اقتضاؤں کوبدرجہ احسن پورا نہیں کرسکتا۔ ہوتاہےکہ یہ عالمگیر مذہب یہ ظاہر ہے کہ اگرکوئی مذہب قطعی اورختمی طورپر صحیح اورراس��ت اور ع��المگیر نہیں توتم���ام م���ذاہب یکس���اں ط���ورپر باط���ل ہ���ونگے۔ کی���ونکہ ان کی ص���داقتیں ایس���ی نہیں ہ���ونگی جودیگرممالک واقوام وازمنہ پر ح��اوی ہوس��کیں اوریہ ص��رف اس ح��الت میں ہوس��کتاہے جب ان کےاا یہ ااصول باطل ہونگے پس اگرہم یہ مانیں کہ تمام مذاہب یکس�اں ط��ورپر ص��حیح ہیں ت�وہمیں لازم�� بھی ماننا پڑے گا کہ وہ یکساں طورپرباطل بھی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ خدا نے انسان پر ک��وئی مکاش��فہ ظ��اہر نہیں کیاجوکام��ل اوراکم��ل ہ��و اور جوہرمل��ک وق��وم کے ہرف��رد بش��ر کی انس��انی سرشت کی اقتضاؤں کو پورا کرسکے۔ اوریہ ایک ایسا نتیجہ ہے جوخدا کی ذات وصفات پ��ر دھبہ لگاتاہےلہذا ہم اس قسم کے نتیجہ کو قبول نہیں کرسکتے ۔ پس خدا نے ایک کامل مکاش��فہ ہم پرظاہر کیاہے اورہرذی عقل شخص کاکام ہے کہ وہ اس ع��المگیر مکاش��فہ ک�و معل��وم ک��رے۔ ت��اریخ ع��الم اس ب��ات کی گ��واہ ہے کہ مس��یحیت مختل��ف اق��وام وممال��ک وازمنہ کےلوگ��وں کی مختل��ف

ضروریات کوبدرجہ غ��ایت پ�وری ک��رتی رہی ہے۔ پس اس چٹ��ان جیس��ی حقیقت پ�ر اس قس�م کیبوی دلیل کی کشتی پاش ہوجاتی ہے۔

مذہبی اختلافات کی حقیقت مذہبی اختلافات کی حقیقت مسٹرگاندھی کہنے ک�و ت�وکہہ گ��ئے کہ مختل�ف م�ذاہب کے بعض مس�ائل غ��یر ض��روریاانہ��وں نے ک�وئی معی��ار ق��ائم نہیں کی��ا جس س�ے یہ معل�وم ہوس��کے فلاں قس�م اورعارضی ہیں لیکن آاؤ دیکھ��ا نہ ت��اؤ ۔ اانہ��وں نے کے مسائل اہم اوربنیادی ہیں اور فلاں قس��م کے مس��ائل س��طحی ہیں۔ اختلافی مسائل کو عارضی اور غیر ضروری قرار دے کر فروعات میں شامل کردیا۔ لیکن کیا عقل اس بات کو تسلیم کرسکتی ہے کہ مذاہب عالم کے اختلاف��ات درحقیقت ف��روعی اختلاف��ات ہیں اورمذاہب عالم میں دراصل کوئی فرق نہیں ؟ جس کسی نے بنظرتعم��ق م��ذاہب ک��ا مط��العہ کی��اہے وہ اس قسم کے خیال کومضحکہ خیز تصور کرے گ��ا ۔ مس��ٹرگاندھی ک��ا مخالف��انہ رویہ خ��ود اس ب��ات ک��ا ک��افی ثب��وت ہے کہ م��ذہبی اختلاف��ات محض س��حطی نہیں بلکہ مختل��ف م��ذاہب کے

اختلافات بنیادی اختلافات ہیں۔۲

اان عقائ��د پ��ر ہمیں یہ ہرگ��ز فرام��وش نہیں کرن��ا چ��اہیےکہ کس��ی م��ذہب کی خصوص��یات لن عالم کے س�اتھ مش�ترکہ ط�ورپر رکھت�اہے بلکہ ہرم�ذہب کی خصوص�یت منحصر نہیں جودیگر ادیاااص��ول میں موج��ود ہ��وتی ہے۔ جس ش��خص نے اص��ول منط��ق کی روش��نی میں اس کے امتی��ازی مختل��ف م��ذاہب ک��ا س��طحی مق��ابلہ بھی کی��ا ہے وہ کہ��نے کی ج��رات نہیں کرس��کتا کہ مختل��فااصول ہیں وہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ کیونکہ ان کا امتی��ازی نش�ان خ�ود مذاہب کے جوامتیازی اس ب��ات کی دلی��ل ہے کہ وہ اہم ہیں اوردوس��رں س��ے مختل��ف ال��گ اورج��دا ہ��ونے کی وجہ س��ے وہ

بنیادی ہیں۔ اورکوئی عقلمند شخص امتیازی اصولوں کونظر انداز نہیں کرسکتا۔ بف��رض مح��ال اگ��ریہ م��ان بھی لی��ا ج��ائے کہ اختلافی مس��ائل عارض��ی اور غ��یر ض��روریلب فکر کی توجہ کے قابل نہیں آاتاہے کہ وہ اربا اورفروعی قسم کے ہیں توکیا اس سے یہ نتیجہ لازم

Page 23: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ہوتے؟ کیا کوئی صحیح العقل ش��خص کہہ س��کتاہے کہ جومس��ائل ہن��دومت اوراس��لام اورمس��یحیتلت میں تمیز اور فرق کا باعث ہیں وہ ایسے ہیں جوغوروفکر کے قابل ہی نہیں اوران پر ت�وجہ دین�ا وق عزیز کو رائیگاں کرناہے؟ اس قسم کی خرافات کا وہی مرتکب ہوسکتاہے جوعق��ل اورم��ذہب دون��وں

آاشنا ہے۔ سے نا۳

سچ پوچھوتواختلافات ک��ونظر ان��داز ک��رنے س��ے م��ذہبی روادای کی بنی��اد نہیں پڑس��کتی۔ ہاں ظاہرداری اوریاکاری کی بنیاد پڑسکتی ہے اور یہ امور حقیقی اتح��اد کے ح�ق میں س�م قات�ل ک�ا کام دیتے ہیں۔ کیونکہ خفت کی فضا میں مصالحت دوستی اوریگانگت نش�وونما نہیں پاس�کتے۔ ہاں نفاق کوترقی ہوگی کیونکہ اگرمختلف مذاہب کے پیرو اپنے اختلافی مسائل کا ذکر نہ کرینگےاان کے دلی جذبات کی ترجمان نہ ہونگی حق کو چھپانے اورراستی پر پردہ ڈال��نے توان کی زبانیں

سے ہندی قوم کی فلاح اوربہبودی نہیں ہوسکتی۔ مسٹرگاندھی خودفرماتے ہیں کہ:آاپ سے یادنیا سے چھپ��ائیں")ہ��ریجن ف��روری۳"عدم تشدد کا یہ مطلب نہیں کہ ہم حق کو اپنے

ء(۔۱۹۴۰ مشترکہ عقائد کو بیان کرنے اوراختلافی مسائل کوچھپانے میں ای��ک ب��ڑا خط��رہ یہ ہے کہاال�و فریق ثانی کو یہ خیال ہوجاتاہے کہ فریقین میں درحقیقت کوئی فرق نہیں۔ اوری�وں فری�ق ث�انی کو بنایا جاتاہے ۔ اوروہ غریب اس خیال میں ہوتاہے کہ تمام دنیا اس کی ہم خیال ہے لیکن ہر صحیح العقل شخص کو اس قسم کی ابلہ فریبی اورخود فریبی کی زہریلی فضا سے نکلن�ا چ�اہیے۔ اس ک�ااان اص��حاب کے عقائ��د کی ج��واس س��ے اختلاف رائے رکھ��تے ہیں ج��انچ پڑت��ال یہ ف��رض ہے کہ کرے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ اس کے اپنے عقائد کی بھی ساتھ ہی تائید یاتردید ہوجائیگی۔لیکن اگرخفا کا پردہ فریقین کے خیالات میں حائل ہوگا تو منافقانہ رویہ کی ترقی ہوگی اورکوئی قوم نفاق

کی بنیاد پر شاہراہ ترقی پرگامزن نہیں ہوسکتی ۔روم( )مولانا است بہتر زبانی ازہم دلی ہم

۴اان عقائ�د ک�اذکر کرن�ا اام�ور میں فق��ط مصنوعی رواداری کے ح�امی کہ��تے ہیں کہ دی�نی چاہیے جوتمام مذاہب میں مشترک ہیں۔لیکن کی�ایہ ب�ات س�چ ہے کہ تم�ام م�ذاہب میں ای�ک ایس�الن ع��الم ک�ا مق��ابلہ ک�رتے ہیں ت�وہم کوک�وئی عنصر ہے جوگویا ان ک�ا واض�عاف اق��ل ہے جب ہم ادی�اامردم خ��وار اق��وام ااا ف��ریقہ کی ایسی بات نہیں ملتی جوتمام ادیان میں مشترکہ طورپر موج��ود ہ��و۔ مثل کے مذاہب یاخودہندوستان کے اصلی باشندوں کے مذاہب یادیگر جاہ��ل وحش��ی جنگلی اورپس��ت اق��وام کے م��ذاہب ۔ہن��دو مت ، ب��دھ مت، کنفوش��یس مت، ش��نٹومت، یہ��ودیت ، زرتش��ت مت ،

اسلام اورمسیحیت وغيرہ کیا شراکت اورمناسبت ہے؟ ان سب میں کیا شے ہے جوان تمام م��ذاہب میں موج��ود ہے اورجس کی موج��ودگی کی وجہ س��ے یہ تم��ام م��ذاہب یکس��اں ط��ورپر ح��ق اورراس��ت س��مجھے ج��اتے ہیں۔؟ س��چ ت��ویہ ہے کہ جوش��خص مختل��ف اقس��ام کے م�ذاہب س��ے س��طحی واقفیت بھی رکھت��اہے وہ ان میں س�ے بعض پر"مذہب" کے لفظ کا اطلاق ک��رنے س��ے بھی ہچکچائےگ��ا۔ چہ ج��ائيکہ وہ ان تم��ام م��ذاہب ک��و یکساں طورپر صحیح اور برحق تسلیم کرلے۔ چونکہ م��ذاہب ع��الم میں ک��وئی حقیقت ایس��ی نہیں جوتم��ام م��ذاہب میں پ��ائی ج��ائے پس اگ��رہم مبلغین رواداری کےقض��ایا کوم��ان لیں ت��وہم ک��و لازمی طورپر یہ ماننا پڑاکہ حقیقی دیندار وہ شخص ہے جوکسی شے پ��ر ایم��ان نہ رکھت��ا ہ��و۔ ح��ق ت��ویہ ہے کہ ایسے اشخاص مذہب کو ایک نہایت فرومایہ اورہیچ شے خیال کرتے ہیں۔ پس کی��ا دی��نی وعلم

وعمل کی کم مائیگی مذاہب عالم کے اتحاد کی بنیاد ہوسکتی ہے؟لن لض محال اگرہم یہ تس�لیم بھی ک�رلیں کہ تم��ام م��ذاہب میں ای�ک عنص��ر ہے جوادی�ا بفر عالم میں مشترک ہے توا سکی مث��ال ایس�ی ہ��وگی جس ط��رح ک�ل انس�انوں کے جس�م ک��ا ڈھ�انچہ ایک ہی قسم ک�ا ہوت�اہے۔ لیکن محض ڈھ�انچہ کی بن�اء پ�ر ک�وئی ص�حیح العق��ل ش�خص یہ نہیں کہیگا کہ دنیا بھر کے انس�ان یکس�اں ط��ورپر عاق��ل ، مال��دار وغ��يرہ ہیں اوران میں ک��وئی ف��رق نہیں

ہے۔

Page 24: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

۵ کیا یہ بات درست ہے کہ تمام ب�ڑے م�ذاہب خ��دا ک�و م��انتے ہیں، مس��یحیت کی مانن��دااخ�وت ومس�اوات کی تعلیم دی�تے ہیں۔ مس�ٹرگاندھی م�انتے ہیں کہ ب�دھ ااب�وت اورانس�انی خدا کی مذہب دنیا کے ب�ڑے م�ذاہب میں س�ے ہے۔لیکن وہ نہ خ�دا ک�ا قائ�ل ہے نہ مکاش��فہ ک�ا۔ اورنہ اس کی تعلیم کسی الہامی کتاب میں درج ہے۔ اسلام خ��دا ک�و ب��نی ن�وع انس�ان ک�ا ب�اپ نہیں مانت�اآان تواخ��وت انس��انی ک��ا بھ��ائی قائ��ل نہیں ۔ ہ��اں آان میں مل��تی ہے۔ ق��ر یہی کی تعلیم ق��ر اورنہ اب��وت ال ااخوت اسلامی کا قائل ہے۔ اورکیا ہندومت خودکسی قسم کی اخوت یاخدا کی ابوت کومانت��اہے؟ پس ظاہر ہے کہ ہم کسی حالت میں بھی تمام مذاہب کویکساں ط��ورپر ص��حیح اورح��ق نہیں م��ان

سکتے۔۶

لب مقدسہ کی کوئی ایسی ب��ات م��اننے ک��و مسٹرگاندھی خود کہتے ہیں کہ" میں ہندوکتاانہ��وں نے خودای��ک قی��دلگادی تی��ارنہیں جوعق��ل اوراخلاق کے من��افی ہ��و" ۔ پس ان الف��اy س��ے اورصداقت اوربطالت کا ایک معیار ق�ائم کردی�ا۔ اگرمس�ٹرگاندھی ک�و یہ ح�ق حاص�ل ہے کہ وہ اس معیار سے ہندومذہب کی کتب مقدسہ کی جانچ پڑتال کریں توہرش�خص ک��ویہ ح�ق حاص��ل ہے کہ اسی معیار س�ے وہ مختل�ف م�ذاہب کی ج��انچ پڑت�ال ک��رکے کھ��وٹے ک�وکھرے س�ے ج��دا ک�ردے۔آام���رانہ ط���ورپر تم���ام م���ذاہب ع���الم کویکس���اں لیکن مس���ٹرگاندھی دوس���روں س���ے یہ ح���ق چھین کر

قراردیتےہیں۔

ہندومت کے مرکب مذاہبہندومت کے مرکب مذاہب اہل ہنود کا یہ خیال ہے کہ حق اور صداقت ایک سمندر کی طرح ہے جس میں چاروں طرف سے مختلف دری��اؤں کے پ��انی گ��رتے ہیں اور اس ک��و زی��ادہ گہراکردی��تے ہیں ۔ چن��انچہ زم��انہ ح��ال کے تعلیم ی��افتہ ہن��دوؤں ک��ا ن��بی س��ری ارابن��د وکہت��اہے" ہ��ر م��ذہب نے ن��وع انس��ان ک��و فائ��دہابت تراش��ی س��ے اوراپ�نی م��ذہبی رس�وم س�ے انس�ان میں ابت پرس��ت م�ذاہب نے پہنچایاہے، چن��انچہ

ااخ��وت ک��ا س��بق دی��ا ہے، یہی محبت اور انسانی خوبصورتی کی حس بڑھائی ہے۔ مسیحیت نے ال ب���دھ مت نے پ���اکیزگی ، ملائمت اوررحم���دلی کی تلقین کی ہے، یہ���ودیت اوراس���لام نے دی���نی وفاداری اورمذہبی غیر ت کا سبق سکھلایاہے، اوریہ تمام مذاہب ای��ک م��ذہب میں ملادئ��یے ج��ائیں

لر عظیم سرانجام پاجائے "۔ توایک کا ہم ذک��ر ک��رچکے ہیں کہ ہن��دومت میں مختل��ف اورمتض��اد عقائ��د ب��دوبوش رہ��تے ہیں، ان کی فلس��فیانہ پیچی��دگیوں اورمنتطقی��انہ نت��ائج غ��وروفکر نہیں کی��ا جات��ا ، تم��ام م��ذاہب ک��و درس��ت سمجھاجاتاہے ۔ پس ہمارے مل�ک میں مختل��ف زم��انوں میں یہ کوش�ش کی گ��ئی ہے کہ مختل��فلب جن��گ ک��ا مذاہب کے اچھے اصولوں کولے کر ایک نیامرکب مذہب جاری کیا جائے تاکہ م��ذاہااس نے اس��لام یہی " ج��اری کی��ا تھ��ا جس میں خ��اتمہ ہوج��ائے، چن��انچہ اک��بر بادش��اہ نے "دین ال ہندومت اورمس�یحیت کے اص�ولوں کویکج��ا کی�ا تھ��ا، لیکن یہ دین چن�د روز رہ��ا اوراک�بر کی م�وت

ااس کابھی خاتمہ ہوگیا۔ کے ساتھ ہی

۲ ء میں مرح��وم راجہ رام م��وہن نے برہم��و س��ماج کی بنی��اد ڈالی اس نے وی��دانت ،۱۸۲۸

آائے۔ وہ ای�ک آان اورانجیل میں سے ان اص��ولوں ک��و یکج��ا کردی�ا ج�واس ک�وبھلے نظ��ر اپنشدوں ، قرآان عربی میں اورانجیل جلیل کا یونانی زبانی میں مطالعہ کی��ا تھ��ا۔ اس عالم شخص تھا جس نے قرااپنشدوں کا سنسکرت سے بنگالی زبان میں ترجمہ کیا۔ فارس�ی میں ای�ک کت��اب" نے ویدوں کا اوراوجا کے خلاف تھی۔ای��ک اورکت��اب" نص��ائح مس��یح" لکھ ک��ر امورتی پ تحفتہ الموحدین" لکھی جو اپنے ابنائے وطن کو انجیل جلیل کی تعلیم سے واقف کرایا۔ اس بے نظ��یر ش��خص نے پچپن س��اللن م�ذاہب کی کی عمر میں برہمو س�ماج کی بنی�اد ڈالی جس کااص�ول یہ تھ��اکہ تم�ام موح�د بانی�الر وقعت دیکھ��ا ج��ائے۔ ہن��دومت کی اص��لاح کی عزت اورقدر کی جائے اوران کی تعلیمات کوبنظ جائے اورجس مذہب میں جوتعلیم اچھی ہو اس پر عمل کیا جائے۔سماج کے قائم ہونے کے پ��انچ

لر فانی سے رحلت کریا گیا۔۱۸۳۳برس بعد ء میں یہ عالی ہمت شخص اس دا

Page 25: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

لر ہن��د کے م�ایہ ن�از س��پوت ش��اعراعظم ڈاک�ٹر ٹیگ�ور اس��ی ہمارے مش�ہور ہم وطن اور م�اد فرقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ "ہندو ، بدھ، مس��لم اور مس��یحی ہندوس��تان میں ای��ک دوسرے سے برسرپیکار نہ ہوں بلکہ چاہیے کہ یہ مذاہب ہمارے مل��ک میں ای��ک دوس��رے س��ے م��ل

کر ایک نئی شکل اختیا رکرلیں"۔۳

ان اصحاب کی یہ خواہش ہے کہ ہن�دومت اورمس�یحیت میں ی�وں مص�الحت ہوج�ائے کہاجوں کا توں قائم رہے اور اس میں مسیحیت کا پیوند ل��گ ج��ائے ت��اکہ اس ہندو روایات کا درخت میں روحانی پھل نمودار ہوجائیں۔چنانچہ مسٹر گان��دھی نے یہ کوش��ش کی ہے کہ کلمتہ اللہ کےآاپ کی شخص��یت س��ے ج��دا ک��رکے ان ک�و ہندوس��تان کی تم��دنی اقتص�ادی اورسیاس��ی اصولوں کوامردہ آاپ نے منجئی عالمین کے پہاڑی وعظ کے اصولوں س��ے ہن��دومت کے ترقی کا ذریعہ بنادیں۔

آاپ کا نام رہے کیونکہ قالب میں زندگی کا دم پھونکنے کی ہزار کوشش کی ہے لیکن جوزجو بروید ازگندم گندم

ہن���دومت کے درخت میں مس���یحیت ک���ا پیون���د نہیں ل���گ س���کتا ۔ خ���ودکلمتہ اللہ نےفرمایاہے:

اپرانی پوشاک پر کوئی نہیں لگاتا۔ نہیں ت��ووہ پیون��د اس پوش��اک "کورے کپڑے کا پیوند اپرانی سے اوروہ زیادہ پھٹ جائیگی")مرقس (۔۲۰: ۲میں سے کچھ کھینچ لیگا یعنی نیا

لت لت مطل�ق ی�اذا لل عقلی ہے۔ کی��ا برہم�ا ذا ہندومت اورمسیحی عقائد کا یکجا ہون�ا مح��ایہی ذات آاس�مانی ب�اپ ہوس�کتاہےجو کائن�ات اورانس�ان س�ے محبت کرت�اہے؟ کی��ا ال ک�ل انجی�ل ک�ا ااس ذات میں فنا ہونے کی یکت�ائی ہ��وگی؟ اورانسانی ذات کی یگانگت محبت کی یکتائی ہوگی یا ظاہرہے کہ ازروئے منطق ان دومختلف اورمتضاد تصورات میں مصالحت کوہون��ا محض خ��ام خی��الی ہے۔ پس س��یدنا مس��یح کی اخلاقی تعلیم اورہن��دو نظ��ریہ کائن��ات م��ل ک��ر ای��ک م��رکب نہیں بن

ااس کےپاؤں کاٹھ کے پاؤں ہونگے اورمثل مشہور ہےکہ: سکتا اوراگرنے گا تو

پائے چوبیں سخت بے تمکین بودلر خ��دا س��ے س��یدنا مس��یح کی اخلاقی تعلیم س��یدنا مس��یح کی ذات اور مس��یحی تص��و اجدا نہیں کی جاس��کتی اورمس��یحی تص��ورخدا مس��یحی نظ��ریہ کائن��ات کی بنی��ادہے۔ ہن��دونظریہ

کائنات اور مسیحی نظریہ کائنات یکا یک جاہونا اجتماع الضدین ہے۔ سطور بالا سے ظاہر ہے کہ ہندومصلحین انتہائی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہندومت کواس کے بے ہ��ودہ اص��ولوں س��ے پ��اک ک��رکے کس��ی ن کس��ی ط��رح اس م��ردہ تن میں زن��دگی ک��ا دم پھونکیں۔ لیکن یہ مصلحین دیگر مذاہب کے اصولوں کو محض ملمع ک��اری کی خ��اطر اس مت کو جلادینے کے ل��ئے اختی��ار کرن��ا چ��اہتے ہیں لیکن اس کی کتب یااص��ولوں کوخیرب�اد کہ��نے ک��وآاریہ س�ماجیوں نے وی�دوں ، رام کرش�ن پ�رہم ہمس کے پ�یرؤں ااپنشدوں ک�و اا برہمو سماج تیارنہیں۔مثل نے ادوایت کوہندومت کی بنیاد قرار دیاہواہے۔ہرایک نے یہ کوشش کی ہے کہ ہن��دومت کے جنگ��ل میں ای��ک راہ نک��الی ج��ائے جوہن��دوؤں ک��واس جنگ��ل س��ے ب��اہر لے ج��ائے۔ لیکن ان کوشش��وںلل ہن��ود کے ع��وام کوکامیابی کبھی نصیب نہیں ہوئی ۔ ہندومت کی پے درپے اصلاحی کوششیں اہاانہوں نے ہندوعوام الناس کو متاثر کی��ا۔ چن�انچہ سواسوس�ال کے عرص�ہ کو تسخیر نہ کرسکیں اورنہ میں برہمو سماج والوں کی تعداد کبھی ایک لاکھ س��ے زائ��د نہ ہ��وئی اوررام کرش��ن کے پیروص��رفآابادی میں سے صرف مع��دودے چن��د اش��خاص ک��ا چند ہزار نفوس ہیں۔ہندوستان کی پچاس کروڑ اص��لاح ی��افتہ ہن���دومت کے س��اتھ تعل��ق رکھن��ا اس ب���ات کی بین دلی���ل ہے کہ ان ہندواص���لاحیلل ہنود کے عوام الن��اس میں تحریکوں میں زندگی کا دم نہیں ہے۔ لیکن جب مسیحیت کا پیغام اہ

گیا تواچھوت ذات کے لوگ متاثر ہوکر جوق درجوق مسیحی کلیسیا میں شامل ہونے لگے۔۴

آائے ہیں کہ اگ��ر ک��وئی ہم" مس��یحیت کی ع��المگیری" کے ب��اب چہ��ارم میں ث��ابت ک��رااس میں یہ ص��لاحیت یی ترین اصولوں ک��ا مجم��وعہ ہ��ونے پ��ر ہی کف��ایت کرت��اہے ت��و مذہب صرف اعل نہیں رہتی کہ وہ بنی نوع انسان کوط��اقت ق��وت اورتوفی��ق عط��ا ک��رکے اس قاب��ل بناس��کے کہ وہ ان

Page 26: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

اصولوں پر چل�نے مجرداص�ول اوراحک�ام ک�ا وج�ود نج�ات نہیں دے س�کتا کی��ونکہ مجرداص�ول اسلت ارادی کوازس��ر ب��ات کے اہ��ل نہیں ہوس��کتے کہ وہ کس��ی گنہگ��ار انس��ان کی کھ��وئی ہ��وئی ق��وااصول اوراحکام ہدایت کا رستہ بتلاسکتے ہیں۔ نی��ک اورب��د میں تم��یز یی ترین نوبحال کرسکیں۔ اعل کرکے انسان کو کس��ی نی��ک نص��ب العین ک��ا راہ دکھ��ا ک��ر نص�حیت کرس��کتے ہیں کہ وہ اس پ�رااس کے چلنے اورمجرد اصول یہ اثر اورتوفی��ق نہیں عط��ا کرس��کتے کہ کس��ی گنہگ��ار ش��خص ک��و آانے ک��ا فض�ل ادا کرس�کیں۔ مج��رد اص�ول اپ�نے گناہوں سے چھٹک�ارا دل��واکر اس ک��و ان پ�ر غ��الب لت ارادی میں اپن��ا مس��یحائی دم اندریہ اث��ر اورط��اقت نہیں رکھ��تے کہ گنہگ��ار ش��خص کی م��ردہ ق��و

پھونک کر نئی جان ڈال دیں۔ چنانچہ " بھاگوت گیتا" میں ارجن کہتاہے:اند رو ہے اورنہ���ایت ہی س���رکش ہے " اے کرش���ن ۔ م���یرا من نہ���ایت بے چین ہے۔ وہ تآان��دھی اورمیرے بس کا نہیں رہا۔ م��یرے ل��ئے اس ک��و روکن��ا ایس�ا ہی مش�کل اوردش��وار ہے جیس�ے

(۔ ۳۴: ۶کو")اورکرشن جی خود اقبال کرتے ہیں کہ:

"ہزاروں انسانوں میں سے بمشکل ایک انسان ایسا ہوتاہے ج��و کم��الیت کوحاص��ل ک��رنے کی کوشش کرتاہے اورہزاروں اہل کمال میں سے بص��د مش��کل ای��ک ش��خص ایس��ا ہوت��اہے جوم��یری

(۔۳: ۷حقیقت سے واقف ہوتاہے)آائی م��ذہب وغ��یرہ اا بہ�� پس برہموس��ماج اوراس قس��م کے دیگ��ر تم��ام م��رکب م��ذاہب مثلااصول کا مجموعہ ہ��وتے ہیں اپ��نے ان�در زن��دگی نہیں رکھ��تے اورنہ جومجرداصول ہدایات ارشادات اور

وہ اپنے مقلدین کوزندگی عطاکرسکتے ہیں۔

Page 27: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

۵اجز ک��و ااس کے ای��ک علاوہ ازیں کسی مذہب کی ساخت اس قسم کی نہیں ہوتی کہ نکال کر دوسری جگہ لگایا جاسکے۔ مذہب ایک ایسا ک��ل ہوت��اہے جس کے اج��زا میں وہی تعل��قااس کے اعضا میں ہوتاہے۔ ہم ایک بدن کی ٹانگ اوردوسرے کے ب��ازو اورتیس��رے ہوتاہے جوبدن اوراان کے جس��موں س��ے ال��گ ک��رکے ای��ک ن��ئے انس��ان ک��ا جس��م نہیں ک��ا س��ر اورچ��وتھے ک��ا دھ��ڑ بناسکتے۔اسی طرح ہم ہندومذہب کا اچھا اصول چھانٹ کر اوراس��لام ک�ا ای��ک دوس��را اص��ول چناان کوباہم یکجا کرکے ایک زندہ م��ذہب نہیں بناس��کتے۔ کر اورمسیحیت کا تیسرا اصول لے کر اور یہ مختلف اصول ای�ک دوس�رے س�ے بے رب�ط اوربےج�وڑ ک�اٹے ہ��وئے اعض�ا کی ط�رح م�ردہ ہ��ونگے اوراس ایج��اد ک��ردہ م��رکب م��ذاہب میں یہ ص��لاحیت نہیں ہ��وگی کہ وہ کس��ی میں زن��دگی ک��ا دم

پھونک سکے۔۶

مبرInternational Fellowshipبین الاقوامی جماعت ہ دس کا ساتواں جلس ء میں ہوا۔ اس جلسہ میں یہ قرار پایاکہ مختلف مذاہب ک��ا اختلاف اس وجہ س��ے ہے کہ وہ۱۹۳۹

مختلف پہلوؤں پر تاکید سے زور دیتے ہیں اورہرمذہب کی خصوصیت اس تاکی��د ا کی��د ک��ا ن��تیجہااس خ�اص م�ذہب کے س��اتھ مخص�وص نہیں ہ��ونی چ�اہیے ہے پس کس�ی م�ذہب کی خصوص�یت بلکہ ہرایک مذہب کی خصوصیات کوتمام مذاہب عالم کا ایک حصہ تص�ور کرن�ا چ��اہیے ہرم��ذہب ک��و چ��اہیے کہ دیگرم��ذاہب کواپ��نی خصوص��ی تعلیم اوردیگ��ر خصوص��یتوں میں ش��ریک ک��رے۔ اسلز عم��ل س��ے تب��دیلی م��ذہب کی بھی ض��رورت ج��اتی جلس��ہ کے خی��ال میں ا س قس��م کے ط��ر

رہیگی۔ تبدیلی مذہب کے مخالفین کوچاہیے کہ اپنے خیالات کوسلجھانے کی کوش��ش ک��ریں۔ م��ذکورہ ب��الا فق��رات اس ب��ات کے ش��اہد ہیں کہ ان اص��حاب نے اپ��نے خی��الات کی تنقی��ع وتنقی��دوول یہ ب��ات غل��ط اورحقیقت کے خلاف ہے کہ م��ذاہب ک��ا ک��رنے کی زحمت گ��وارا نہیں کی۔ ا

ااس پ�ر تاکی��د ک�رنے کی وجہ س�ے ہے۔ مث�ال کے اختلاف محض کس�ی خ�اص پہل�و پرزوردی�نے اور طورپر بدھت ، ہندومت،اسلام اورمسیحیت کے بنیادی اصول ک�و لیں۔ کی��ا یہ س�چ ہے کہ ان کےااصول ایک ہی ہیں اور اختلاف محض مختلف پہلوؤں پر تاکید دی�نے کی وجہ س�ے ہے؟ہ�ر بنیادی ش���خص ج���وان م���ذاہب س���ے س���طحی واقفیت بھی رکھت���اہے جانت���اہے کہ ان م���ذاہب کے ب���اہمی اختلافات بنیادی اوراص��ولی ہیں۔ دوم۔ یہ بنی��ادی اختلاف��ات ان م��ذاہب کی خصوص��یات میں س��ےلن م��ذاہب ااصولی اختلاف��ات کی وجہ س��ے اس��لام کے ارک��ا ہیں اوریہ حدفاصل کا کام دیتے ہیں۔ان ہندومت کے ارکان سے جداگانہ ہیں اورمسیحیت اپنی خصوصی تعلیم کی وجہ سے دیگ��ر م��ذاہبلy دیگرکس��ی م��ذہب کی خصوص��ی تعلیم اس ک��ا امتی��ازی نش��ان ہے۔ دری سے مختلف ہے۔ بالف��ا ح����ال اس اجلاس کی ق����رار داد کے الف����اy کہ کس����ی م����ذہب کی خصوص����ی تعلیم اس کی خصوصیت کا حصہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہرمذہب کوچ�اہیے کہ دیگ�ر م�ذاہب کواپ�نی خصوص�یتعلیم اوردیگر خصائص میں شامل اورشریک کرے"۔ اجتماع الضدین اورخرافات کا مجموعہ ہیں۔

۷ ہمیں یہ ام��ر فرام��وش نہیں کرن��ا چ��اہیے کہ مختل��ف م��ذاہب ع��الم ای��ک ہی س��وال کے مختلف جوابات نہیں بلکہ مختلف س��والات کے مختل��ف اور متض��اد جواب��ات ہیں ۔پس وہ کس��یاا اہ��ل یہ��ود کی ااصول کے مطابق ای��ک ہی نظ��ام میں منظم نہیں ک��ئے جاس��کتے ۔ مثل فلسفہ کے اپر ہیں اوروہ اس سوال کا جواب ہیں کہ گن��اہ س��ے ن��وع انس��انی کس کتب گناہ کے احساس سے لل ہنود کی مذہبی کتب وید اپنش��د اوربھ��اگوت گیت��ا میں طرح نجات حاصل کرسکتی ہے؟ لیکن اہ گناہ کا احساس نمایاں نہیں۔ اس کے برعکس ان کی نظر میں گناہ مایا ہے۔اہ��ل ہن��ود کوگن��اہ ک��ا بوجھ نہیں ستاتا بلکہ وہ سنسار کی غلامی کومحسوس کرتے ہیں اور یہ معلوم کرنا چ��اہتے ہیں کہ وہ کرم سے کس طرح رہائی حاصل کرسکتے ہیں؟ وہ گناہ سے نہیں بلکہ جنم لینے سے چھٹکارا

حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ بھاگوت گیتا میں کرشن جی کہتے ہیں :

Page 28: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

" وہ جوجنم اورم�رن س�ے چھٹک�ارا حاص�ل ک�رنے کی کوش�ش ک�رتے ہیں ۔۔۔۔وہ نج�ات (۔ جب وہ جوجس��م کے ان��در رہت��اہے تین��و گن��وں کوچھوڑدیت��اہے اورجنم اورم��رن۲۹: ۷پ��اتے ہیں")

(۔۲۰: ۱۴دکھ اورضعیفی سے چھٹ جاتاہے ۔ وہی امر ت جیل پیتاہے)ابدھ مت کی اگنا س��تک یہی حال دیگر مذاہب کا ہے۔ ہم منطق کے کس اصول سے آان کی ش�ریعت اورانجی�ل کے خ�دا فنائیت ویدوں کی فط�ریت اہ��ل یہ��ود کے خ�دا کی اح�دیت ق��ر کی محبت کوای��ک ہی نظ��ام میں منظم کرس��کتے ہیں؟ ان مختل��ف م��ذاہب میں اگرای��ک ک��ا منہ مشرق کی طرف ہے تودوسرے کا مغ��رب کی ط�رف ہے وہ ای��ک ہی قط��ار میں کس ط��رح ہم�دوش

ارخ چل سکتے ہیں؟ ہوکرایک ہی بعض اوقات ہم کو مسیحیت اورہندوازم میں ایک ہی طرح کے مشترکہ الفاy مل��تے ہیںاا دون�وں تجس�م کے قائ�ل ہیں لیکن جب ہم جس سے انسان کو اس قسم کا دھوکا ہوس�کتاہے مثلآاتاہے۔ مثال کے ط��ورپر آاسمان اورزمین کا فرق نظر ان مشترکہ الفاy کی تہ کو پہنچتے ہیں توہم کو تجس��م اوراوت��اروں کے س��وال ک��ولیں۔ ہن��دومت انس��ان ک��و خ��دا بتلات��اہے لیکن مس��یحیت اس کےااس میں تک�بر برعکس کہتی ہے کہ خدا نے انسانی شکل اختیارکی۔ ہندومت انسا کو خ�دا بن��اکر ااس کی اخلاقی اورم��ذہبی حس ک��و م��ردہ کردیت��اہے۔ لیکن مس��یحی عقی��دہ اورغرورپی��دا کرت��اہے اور انسانی زن��دگی کے ہرش��عبہ کی تق��دیس کرت��اہے۔ ہم��ارے مب��ارک خداون��د کے الف��اy" میں اورب��اپ

یی ترین معراج ک��ا اظہ��ار ہیں لیکن رام کرش��ن پ��رم۳۰: ۱۰ایک ہیں")یوحنا (۔ انسانی روح کے اعل ہمس اورسوامی دیویکا نند کے الفاy جن کا سطور بالا میں اقتباس کیا گیا ہے اس روحانی حالت کی عین ض��دہیں۔ مس��یحیت ک��ا خ��دا ک��وئی مج��رد تص��ور نہیں بلکہ "عمانوی��ل" ہے"یع��نی خ��داآانے کی غ��رض اورمس��یح کے مجس��م ہ��ونے کی ہمارے ساتھ" علاوہ ازیں ہن��دوؤں کے اوت��اروں کے

آاسمان وزمین کا فرق ہے۔ چنانچہ بھاگوت گیتا میں کرشن کہتاہے: غرض میں آان میں اوت��ار ک��ا ااس آات��اہے اورادھ��رم ک��ا س��راونچا ہوت��اہے " جب کبھی دھ��رم میں زوا ل آا تاہوں تاکہ راستباز کی حفاظت کروں اور گنہگاروں کا ناس ک��روں، دھ��رم روپ دھار کردنیا میں

کومستحکم کرنے کی خاطر میں بار بار جنم لیت��اہوں۔۔۔۔ میں کس�ی س�ے نف��رت نہیں رکھت�ا اورنہمیں کسی سے محبت کرتاہوں")چوتھا باب (۔

لیکن سیدنا مسیح نے اس دنیا میں جنم لی��ا ت�اکہ گنہگ�اروں ک�و بچ��ائے "خ��دا نے دنی��ا س��ے ایس��ی محبت رکھی کہ اس نے اپن��ا اکلوت��ا بیٹ��ا بخش دی��ا ت��اکہ جوک��وئی اس پ��ر ایم��ان لائے

(۔۱۶: ۳ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے")یوحنا ااص���ول کے لح���اy س���ے نہ ان کی اص���طلاحات کی پس مختل���ف م���ذاہب ک���وہم نہ سطحی مشابہت کی وجہ سے ایک نظام میں منظم کرکے ایک نی�امرکب م�ذہب ایج�اد کرس�کتے

ہیں۔۸

اگرتم��ام م��ذاہب انس��انی کوشش��وں ک��ا ن��تیجہ ہ��وتے ۔ تب یہ ممکن ہوس��کتا تھ��اکہ ہماان ک��و ک��انٹ چھ��انٹ کرای��ک ااص��ولوں ک��و یکج��ا ک��رکے مختل��ف ممال��ک واق��وام کے تجرب��وں اورلن م��رکب ہوت��ا۔ لیکن جیس��ا ہم س��طور ب��الا میں نیام��ذہب بناس��کتے جومختل��ف اص��ولوں ک��و معج��و بتلاچکے ہیں۔ م��ذہب انس��انی ایج��اد ک��ا ن��ام نہیں اورنہ وہ کس��ی انس��ان نے بنای��ا ہ��واہے۔ م��ذہب انسانی مساعی جمیلہ ک��امرہون احس��ان نہیں ہوت��ا بلکہ حقیقی م��ذہب خ��دا کی بخش��ش ہے جس کو ہم ایمان کے وسیلے حاصل ک�رتے ہیں۔ بالخص�وص مس�یحیت خ�دا ک�ا مکاش�فہ ہے۔ وہ ای�کآات��اہے وہ ااوپر س��ے مافوق الفطرت شے ہے جس ک�ا وج��ود انس�انی فط��رت پ��ر منحص��ر نہیں ہے" ج��و

ااوپر ہے جوزمینی ہے وہ زمین ہی سے ہے اورزمین ہی کی کہتاہے")یوحنا (۔ دیگ��ر۳۱: ۳سب سے مذاہب میں اور مسیحیت میں اس لحاy سے بعدالمشرقین ہے۔ دیگر مذاہب کے بغیر بھی انس��ان خدا کا علم حاصل کرسکتاہے۔ لیکن مسیحیت کے بغیر خدا کی مع��رفت اوراس ک��ا حقیقی علم ناممکن ام�ر ہے۔ مس�یحی ایم�ان کے اج�زا ایس�ے نہیں کہ ان کے س�اتھ انس�ان جوچ�اہے س�وکرے یاایک جزوکی جگہ دوسرے پیوند کردے۔ وہ ایک انجیل ہے جس کی منادی تمام اقوام عالم میں کی جاتی ہے وہ ایک خوشی کی خبر ہے کہ خدا خود گنہگ��ار کی خ��اطر مجس��م ہ��وا ۔ وہ ای�ک

Page 29: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

پیغام ہے جوروئے زمین کے افراد کے لئے ہے۔ جس طرح خوشی کی خ��بر اورپیغ��ام میں ک��تروبیونت نہیں کی جاسکتی اسی طرح مسیحیت میں کتروبیونت کا امکان نہیں ہے۔ ہر مس�یحی ک�ا ف��رض ہے کہ اس بشارت کے پیغام کو تمام وکمال دنیا کے گوشہ گوش�تہ ت�ک پہنچ�ائے ۔چ�ونکہ ک�وئی مسیحی مسیح کے بغیر خود زندہ نہیں رہ سکتا۔ لہذا وہ اس خیال کوبھی گوارا نہیں کرسکتا کہ

اس کے ابنائے جنس جو اس کے گوشت اورخون ہیں مسیح کے بغیر زندگی بسر کریں۔

Page 30: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

باب دومباب دومہندو فلسفہ اورمذہبی رواداریہندو فلسفہ اورمذہبی رواداری

اان کے ل�ئے کس�ی ہم نے گذش�تہ ب�اب میں یہ بتلای�ا تھ�اکہ جول�وگ ہن�دو دائ�رہ میں ہیں اان ک��و نہ م��اننے والا بھی خاص عقیدہ کا پابن��د ہون��ا لازم نہیں ۔ وی��دوں ک��ا م��اننے والا ہن��دو ہے اور ہندو کہلاتاہے۔ کروڑوں دیوتاؤں کوماننے والا ہندو اور ایک خ��دا ک��و م��اننے والا بھی ہن��دو، اورخ��دا کے وجود سے انکا رکرنے والا بھی ہندو کہلاتاہے۔ اپنشدوں اور سمرتیوں کو ماننے والا اورنہ ماننے والا بھی ہن�دوکہلاتا ہے۔ گئ�ور رکھش�ا ک�رنے والا بھی ہن�دو اور مس�ٹرگاندھی کی ط�رح گ�ائے ک�و مرواڈالنے والا بھی ہندو کہلات�اہے۔ پس ان کے ل�ئے تم�ام م�ذاہب یکس�اں اوربراب�ر ہ�وتے ہیں۔وی�دوںاان کو نہ ماننے والوں پر فوقیت نہیں۔ ایک خ��دا ک��و م��اننے والا ک��ا کے ماننے والے کے مذہب کو

ابت پرست کے مذہب سے بہتر نہیں ہوتا۔ مذہب ہندوفلسفہ عام ط�ورپر دوقس�م7ہندو فلسفہ کا بھی امتیازی نشان مذہبی رواداری ہے۔ ہندو

آاستک ۔ناستک فلس��فہ وی��دوں کوالہ��امی نہیں مانت��ا اور تین قس��م ک��ا ہوت��اہے۔ کا ہوتاہے۔ ناستک اورآاستک فلسفہ چھ قسم ک��ا ہے۔ ) ۔( کپ��ل ک��ا س��مکھیا اور)۱جین ناستک اور چارواک ناستک ۔

۔( پاتنجلی کا یوگ سوتر۔ اگرچہ دونوں فلسفے بعض باتوں میں متفق ہیں لیکن یوگ سوترا ایشور۲آاتما سے الگ ش�ے مانت�اہے اوری�وگ عم�ل پ�ر زوردیت�اہے پرس�مکھیا ایش�ور ک�و نہیں مانت��ا۔ ) ۔(۳کو

ااس حص��ہ کی ش��رح ہے جس جیمنی کا پور ویمانساد رحقیقت فلسفہ نہیں ہے کیونکہ ویدوں کے ااترمیمانسایا ویدانت سوتر یابرہم سوتر لفظ ویدانت کے مع��نی۴کا تعلق قربانیوں کے ساتھ ہے۔ ) ۔(

ااپنشد ۔ اس فلسفہ میں اپنشد کی تعلیم کا خلاصہ ہے۔ اس کی سب س��ے آاخر" یعنی ہیں"وید کاآاچاریہ کی شرح ہے اوروہ اتنی مقبول ہے کہ بالعموم ویدانت سے مطلب شنر کی قدیم شرح شنکر شرح لی�ا جات�اہےجوہمہ اوس�تی خی��الات کے مط�ابق لکھی گ�ئی ہے لیکن دوس�رے لوگ��وں نے ب�رہم سوتر کی جوشرح لکھی ہے اورجس ک�و ویش�نو اور ش�واور رام�ا یت وغ�يرہ م�انتے ہیں وہ ہمہ اوس�تی

7 See Das Gupta, History of Indian Philosophy Vol.1

خیالات کے خلاف ہے۔ کیونکہ وہ ثنویت کے قائل ہیں اورخدا اوردنیا کو ایک م��اننے کی بج��ائے دومختلف ہستیاں مانتے ہیں۔ان لوگ��وں میں رام�ائج، ولبھ، م�دھو، س�ری کنٹھ وغ�یرہ مش�ہور ش�ارع ہیں جنہوں نے برہم سوتروں کی ایس��ی تش��ریح کی ہے جوش��نکر کی ش�رح کے متض��اد ہے۔ان میں

۔( کناڈ کاویس ش��کھ۶۔( گوتم کانیا سوتر منطق پر اور)۵سے رامانج کا فلسفہ زیادہ مشہور ہے۔ )سوترعلم طبعیات اورعلم بعد الطبیات پرزوردیتاہے۔

مندرجہ بالامختصر بیان سے ناظرین پر ظ�اہر ہوگیاہوگ��ا کہ جس ط��رح ہن�دومت کے ک�وئی مخصوص عقائد نہیں۔ اسی طرح ہندوفلسفہ اصولوں کے کسی خاص مجموعہ کا نام نہیں۔ جسااصول کو چاہے م�ان س�کتا ہے اورجس ک�ا انک�ار کرن�ا چ�اہے اامور میں جس طرح ایک ہندومذہبی اام�ور میں ہن��دو جس اص��ول ک�و چ�اہے م�ان س�کتاہے اورجس ک�ا کرسکتا ہے۔ اس�ی ط��رح فلس�فیانہ ااصول کا پابند نہیں ہوتا۔ پس اس کے ل�ئے ہرقس�م انکار کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ وہ کسی مذہب یا

کے مذاہب اورہر قسم کے فلسفیانہ خیالات برابر ہوتے ہیں۔ یہاں ہم ہندوفلسفہ کی تفصیلی بحث میں الجھنا نہیں چاہتے۔ کیونکہ ہم کو اس رسالہ میں ص��رف یہ دیکھن��ا ہے کہ ہندوفلس��فیانہ خی��الات ک��ا اث��ر ہم��ارے موض��وع پ��ر کی��ا ہے؟ فلس��فیانہامراد ش��نکر کی وی��دانت لی ج��اتی ہے خی��الات کے اختلاف کے ب��اوجود ب��المعوم ہندوفلس��فہ س��ے امراد ہ��وتے ہیں۔پس ہم اس��باب میں ص��رف ان ااصول ااصول سے کرم اورتناسخ کے اورہندوفلسفہ کے پ��ر بحث ک��رنے پ��ر اکتف��ا ک��ریں گے۔اس بحث س��ے ہم��ارا مقص��د یہ ظ��اہر کرن��ا ہے کہ ہندوم��ذہباجدا اورمختل�ف ہیں اوریہ اختلاف اس قس�م ک�ا ہے ااص��ول س��ے آانی اورانجیلی ااصول ق��ر وفلسفہ کے ااص��ول ای��ک ااص��ول براب��ر ط��ورپر ص��حیح اوردرس��ت نہیں ہوس��کتے اورچ��ونکہ یہ کہ دون��وں قس��م کے ااصول اہ متضاد ہیں۔لہذا دونوں کا صحیح ہونا محال عقلی ہے۔ اگر ہندومت کے دوسرے سے کلیتااصول ااصول باطل ہیں۔ لیکن اگرمسیحیت کے فلسفہ فی الحقیقت درست ہیں تومسیحیت کے

درست ہیں تو ہندوفلسفہ کی بنیادوں کے غلط ہونے میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔

۲

Page 31: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

لy پروفیس��ر س��ورلے اس م��ذہب ک��ا یہ)Sorley)ہندوفلسفہ ہمہ اوستی مذہب ہے اوربالف��اعقیدہ ہےکہ:

ااس وحدت الوج��ود "ہر انفرادی شخص اپنی اپنی جگہ پر اپنے مخصوص طوروطریقہ سے کی مظہر ہے جوکل بھی ہے۔ اس کل میں ایک ایک شے کی جگہ مق��رر رہے اوریہ جگہ اس کے وجود کے لئے لازمی ہے خواہ وہ شے مادی ہو ی��ا روح س��ے متعل��ق ہ��و۔ خ��واہ وہ انس��ان ہ��و ی��ا ک�پڑا

ہو ۔خواہ وہ ایک مقدس فرد ہویا گنہگار ہو"۔ چونکہ اس وحدت کل میں ہرایک شے اپنے مخصوص طریقہ سے مطلق کی مظہ��ر ہے۔ اس کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ سب مذاہب اپنی اپنی یکساں طورپر حق اورراست تسلیم کئے جاتےااستاد پروفیسر رادھا کرشن کہتے ہیں : ہیں۔چنانچہ ہندوستان کے مایہ ناز فلاسفر اورمسلم الثبوت

" مختل���ف م���ذہبی روای���ات درحقیقت مختل���ف زب���انیں ہیں جن کے ذریعہ م���ذہب کی حقیقت پیش کی جاتی ہے۔ اگرچہ زبانوں میں اختلاف ہے تاہم س��ب ک��ا مفہ��وم ای��ک ہی ہوت��اہے۔ عبادت کے تمام طریقے موثر اور بامعنی ہیں خواہ بظاہر وہ ہم کو لغ�و اوربے مع�نی خراف��ات ہی نظ�ر

Idealist View of Life,p.119-22آائیں گے"اس نامور فلاسفر کے خیال میں ہندومت کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ:

آامیز نظر سے ہرایک بات کو قبول کرلیتاہے اورکسی ایک جام��د عقی��دہ پ��روارفتہ "وہ صلح ۔ Hindu View of Life.p.59ایمان نہیں رکھتا"

آاپ فرماتے ہیں: اسی کتاب میں ایک اورجگہ "ہندومت شامی م��ذاہب کی اس دی��وانگی س�ے پ�اک ہے کہ نج��ات ص��رف کس��ی ای��ک مذہب میں ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے چند مخصوص عقائ��د ک��ا مانن��ا لازمی ہےکی��ونکہ

ان کا منکر جہنم کا سزاوار ہوجاتاہے"۔ااص��ول یاقض��ایا کے پروفیسر صاحب موصوف کے خیالات ہندوفلسفہ اور ہندوم��ذہب کے منطقی نتائج ہیں۔ اگرہمہ اوستی قضایا کومان لیا ج�ائے توم�ذہبی مص�الحت اوررواداری ای�ک ایس�ی

ب��دیہی ب��ات ہوج��اتی ہے جوثب��وت کی محت��اج نہیں رہ��تی۔چ��ونکہ ہرش��ے اپ��نی اپ��نی جگہ اپ��نے مخصوص طور وطریقہ سے ایک ہی کل کی مظہر ہے لہذا ہرم��ذہب اپ��نی اپ��نی جگہ قاب��ل ق��درااس�ی ای�ک ک�ل کے ااصول اپنے اپ�نے مخص�وص ط�ریقہ س�ے اان کے ہے اورتمام مذاہب کے بانی اور مظہر ہیں لہذا وہ یکساں ط��ورپر وقعت کے قاب�ل ہیں اور کس�ی م�ذہب ی�ااس کے ب�انی ک�و کس�ی

دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں۔ پروفیسر رادھ�ا کرش�ن ک�ا یہ خی�ال ہے کہ جس ط��رح کس�ی زم�انہ میں سیاس�ی دنی��ا میں ایک جمعیت الاق�وام ک�ا وج�ود تھ��ا اس�ی ط�رح م�ذاہب ع�الم کی ای�ک فیڈریش�ن یاوف�اق )جمعیت المذاہب( ہونی چاہیے۔لیکن پروفیسر ص�احب اس ام�ر ک�و فرام�وش کردی�تے ہیں کہ جمعیت الاق��وام میں تمام اقوام کی حیثیت یکساں ہ��وتی ہے اوروہ س��ب سیاس��ی ط��ورپر خودمخت��ار ہ��وتی ہیں۔ لیکن جب م��ذاہب ع��الم میں بنی��ادی اوراص��ولی ف��رق ہیں ت��و ان ک��ا پلہ یکس��اں نہ رہ��ا۔پس بعض م��ذاہب راست اور بعض باطل ہوئے۔ جمعیت المذاہب کے وجود کے لئے لازم ہے کہ تمام مذاہب یکس��اںااصول ایک ہی ہ��وں۔ ہم گذش��تہ ب��اب طورپر اقوام عالم کی طرح خود مختار ہوں اور ان کے بنیادی ااصول پر بھی اتف��اق نہیں ہے۔ دریں ح��الت ہم لن عالم کا کسی ایک میں دیکھ چکے ہیں کہ ادیا م��ذاہب ع��الم کے مجم��ع کث��یر کی جمعیت الم��ذاہب کی ای��ک ل��ڑی میں کس ط��رح منس��لک

درست کہتاہے کہ:Baron Von Hugelکرسکتےہیں؟ جرمن فلاسفر بیرن فون ہیوگل " یہ بات غلط ہے کہ تمام مذاہب یکساں طورپر درست ہیں اوریکساں ط��ورپر پ��اکیزہ ہیں

اور یکساں طورپر پھلدار ہیں"۔ ح���ق ت��ویہ ہے کہ مس���یحیت ہن���دومت کی ط���رح ای��ک فلس���فہ نہیں بلکہ انجی���ل یع���نی خوشخبری ہے۔ وہ ہرکس وناکس کے لئے جونفس امارہ ک��ا غلام ہوچک��اہے ای�ک بش��ارت ک��ا پیغ��ام

ہے جواس کو بتلاتا ہے کہ وہ اپنے گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرسکتاہے۔نیست نش پایا کہ ریست کا وفلسفہ حکمتنیست بدبستانش ومحبت عشق یسلی

Page 32: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ہن��دومت کے ب��رعکس مس��یحیت ای��ک مکاش��فہ ہے جوکام��ل ہے اگ��رچہ ہم��ارے فہم اس کامل طورپر سمجھنے سے قاص�ر ہ�وں لیکن ہم�ارے ادراک اورفہم کے ناکام�ل ہ��ونے س�ے یہ ث�ابت نہیں ہوت��ا کہ وہ مکاش��فہ بھی غیرمکم��ل ہے۔ ہن��دو کہ��تے ہیں کہ ہم خ��دا کی ذات ک��ونہیں ج��ان سکتے۔ لہذا ان کواس بات میں مطلق تامل نہیں ہوتاکہ وہ مسیح کو یاکرشن کویاش��و کوی�ارام ک�و یاکالی کوخدا م�ان لیں لیکن مس�یحیوں کے نزدیکمس�یح ان لاتع��داد مظہ��روں میں س��ے خ�دا ک�ا ایک مظہر نہیں۔ بلکہ ان کا یہ ایمان ہے کہ خدا نے اپنی ذات ک�ا کام�ل مکاش�فہ عط�ا کی�ا ہے۔ جوص��رف س���یدنا مس��یح اورص��رف س��یدنا مس���یح میں ہے۔ لہ���ذا وہ ان تم��ام اوق��ات ک��و فرض���ی

اورغیرمکمل جا کر ان کورد کرتے ہیں:

خدا اورکائنات کا رشتہخدا اورکائنات کا رشتہ گذشتہ باب میں ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ ہندوستان کے تین بڑے مذاہب یعنی ہن��دوازم،ااصولی ف��ر ق ہے لہ��ذا وہ تین��و ں ااصولی فرق ہے اورچونکہ ان میں اسلام اورمسیحیت میں بنیادی اوراا اگ�رچہ تین�وں م�ذاہب اپ�نے اپ�نے مخص�وص عقائ�د کے یکساں ط�ورپر ص�حیح نہیں ہوس�کتے۔ مثلاان کے تص���ورات میں مط���ابق خ���دا ک���و م���انتے ہیں ت���اہم خ���دا کی ذات وص���فات کی نس���بت بعدالمش��رقین ہے۔ اگ��ریہ س��وال کی��ا ج��ائے کہ خ��دا اورکائن��ات کے درمی��ان کیارش��تہ اورتعل��ق ہے توہندومت اوراسلام اورمسیحیت کےجوابات مختلف اور متضاد ہونگے۔اگرہندوازم یااسلام کا جواب درس��ت ہے تومس��یحیت ک��ا ج��واب لاکلام غل��ط ہوگ��ا لیکن اگرمس��یحیت ک��ا ج��واب درس��ت ہے توہن��دومت اوراس��لام کے جواب��وں کے غل��ط ہ��ونے میں کس��ی قس��م کی گنج��ائش نہیں رہ س��کتی کیونکہ اصول منط��ق کے مط��ابق اجتم�اع الض�دین مح�ال عقلی ہے ۔ انش�االلہ اس ب�اب میں ہم یہ ثابت کردکھائینگے کہ مذکورہ ب�الا س�وال کے جواب�ات میں س�ے ص�رف مس�یحیت ک�ا ج�واب ہی

ااصول منطق وفلسفہ کے مطابق راست اوردرست ہے اورہندوازم اوراسلام کے جوابات غلط ہیں۔

۲۲

خ��دااورکائنات کے درمی��ان کی��ا تعل��ق ہے؟ اس س��وال کے تین مختل��ف اورمتض��اد ج��وابہیں:

پہلا ج��واب یہ ہے کہ خ��دا کائن��ات میں س��اری اورط��اری ہے ج��وکچھ ہم کوح��واس کےااس کا مظہر ہے: ذریعہ معلوم ہوتاہے سب

اادھر توہی توہے ع۔ جدھر دیکھتاہوں ااس کی ذات اس کائنات کا علاوہ اوراس کے باہر موجود نہیں ۔ ہمہ اوس��ت یہ ج��واب

ہندومت کا ہے۔ چنانچہ بھاگوت گیتا میں کرشن کہتے ہیں:یی مال��ک اورمخت��ار ہ��وں۔ مجھ ابود ہ��وں۔ س��ب س��ے اعل ابود اورن��ا "میں سب کو ک��رنے والا آاب میں سب عالم اس طرح گوندھا پڑا ہے جس ط��رح منکے کس��ی ہ��ار میں پ�روئے ہ��وتےہیں ۔میں میں رس ہوں۔ انسان میں طاقت ہوں ۔ مہروم��اہ میں ن��ور ہ��وں۔ وی��دوں میں اونک��ار ہ��وں۔ اک��اش میںآاتش میں جلن ہوں۔ س��ب ع��الم میں ج��ان ہ��وں۔ میں خ��ودہی عاب��د ہ��وں ابوہوں۔ شبد ہوں۔ مٹی میں خودہی معبود ہوں اورخودہی عبادت ہوں۔ داناؤں میں دانائی ہوں۔ موجودات میں تخم ہوں۔ حشمت

(۔ ۶تا ۱۱: ۷والوں میں حشمت ہوں طاقت ور میں طاقت ہوں انسان میں شہوات ہوں")اہ دوسرا جواب یہ ہے کہ خدا کی ذات ایسی منزہ ص��فات ہے کہ وہ مخلوق��ات س��ے کلیتااس کے س��اتھ کائن��ات کی کام��ل رف��اقت ب��الا اور برت��رہے۔ خ��دا ای��ک ایس��ی پ��اک ہس��تی ہے کہ

ناممکن اورمحال ہے یہ جواب اس کا ہے۔ پہلے ج��واب کے مط��ابق فط��رت اور م��افوق الفط��رت میں ک��وئی امتی��از نہیں۔س��ب کچھ ااس��ی ک��ا ظہ��ور ہے۔ اس نظ��ریہ کے مط��ابق م��ذہب ک��ا یہ ک��ام ہے کہ ک��ثرت کے پ��ردے کوچ��اک کردے اورانسان کو وح��دت کی حقیقت ت��ک پہنچ��ادے۔ تغ��یرات ک��ا یہ ع��الم ہے۔ اوریہ دھوک��ا نہ صرف ہمارے انفرادی زندگی میں بلکہ کائنات میں بھی پایاجاتاہے۔ مذہب ک�ا یہ ک�ام ہے کہ اسادور کرکے ہم کو وحدت الوجود سے ملادے لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگرخدا اپ��نی اسراب کو دھوکے اور کائنات میں س�اری وط�اری ہے ت�وہم ایس�ی ہس�تی کے س�اتھ کس�ی قس�م کی حقیقی رف�اقت نہیں

Page 33: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ااس مسرف بی��ٹے کی ط��رح ہے جواپ��نے ب��اپ کے رکھ سکتے۔ ہندو فلسفہ کے نزدیک نوع انسانی گھر سے دورمایا کی پھیلوں سے اپناپیٹ بھرتاہے لیکن جب وہ باپ کے گھر واپس جانے کا ارادہ کرتاہے توباپ کا گھر خالی پڑا دیکھتاہے۔ کیونکہ اس میں کوئی باپ ہے نہیں جواپ��نے گم گش��تہآاپ کے ساتھ بیٹے کو گالے لگالے۔ ہمارا اورذات مطلق کا وجود ایک ہی ہے۔ کوئی شخص اپنے رف��اقت نہیں رکھ س��کتا پس اس قس��م کے رش��تہ ک��و لف��ظ "رف��اقت" س��ے منس��وب کرن��ا درحقیقت

الفاy" رفاقت" اور" رفیق" کو تروڑ مروڑ کرایک بے معنی لفظ بنادیناہے۔ اگردوسر جواب یعنی اسلام کا جواب صحیح ہے کہ خدا کی ذات اس قدر مزہ صفاتاہ برتروب�الا ہے۔ ت�ویہ ظ��اہر ہے کہ انس�ان ایس�ی ص�فات رکھ��نے واقع ہوئی ہے کہ وہ کائنات سے کلیتآان کا خداایک ایسا ہ��بیت ن��اک والے ہستی سے کسی طرح بھی حقیقی رفاقت میں رکھ سکتا۔ قرآاق��ا اور غلام میں ک�وئی حقیقی مطلق العنان بادشاہ ہے جس کے سامنے انسان لرزہ بان�دام رہت�اہے۔

رفاقت نہیں ہوسکتی۔ سیدنا مسیح نے کیا خوب فرمایا ہے:(۔۱۵: ۱۵" غلام نہیں جانتا کہ اس کا مالک کیا کرتا ہے")یوحنا

یہ عجیب اتفاق ہے کہ یہ دونوں مختلف اورمتضاد نظر یہ ایک ہی نتیجہ پہنچتے ہیں کہااص��ول کے خ��دا اورانس��ان میں ب��اہمی رف��اقت ام��ر مح��ال ہے۔ کی��ونکہ ہمہ اوس��تی ادوائت وی��دانت مطابق صرف حدا یا برہما ہی حقیقی وجود رکھتا ہے اورباقی تمام چیزیں جن کا تعلق زمان ومکان

کےساتھ ہے مایا اوردھوکا ہیں۔خواب تھا جوکچھ کہ دیکھاجوسنا افسانہ تھا

اس��لام کے مط��ابق خ��دا اپ��نی کائن��ات س��ے اس ق��در بلن��د وب��الا اوربرت��ر ہے کہ اس کی حقیقت کے سامنے انسانی زندگی کی کچھ حقیقت یاقدر وقعت نہیں رہتی۔ پس تمام اشیا جن کا تعلق زمان ومکان کے ساتھ ہے۔ بے حقیقت ہیچ اور بے مع��نی ہوج��اتے ہیں۔خ��دا اورانس��ان کے درمیان رفاقت بے معنی ہوجاتی ہے کیونکہ خ��الق کی ازلی مرض��ی اوراٹ��ل ارادہ کے س��امنے مخل��وق

کی فانی مرضی اورانسانی ارادہ کے لئے کوئی جگہ نہیں رہتی۔

اگرخدا کائن��ات س�ے ص�رف برتروب��الا ہے اوراس کی ذات کی ط��رف س��ے بے نی�از اوربےااس کی ہستی محض ایک تماش�یہ بین یان�اظر کی س�ی ہے جس ک�ا ک�ام ع�الم ش�ہود ک�ا پرواہے تویہی تصور ہماری روحانی جدوجہد میں ممدومعاون ہوسکتاہے مشاہدہ کرنا ہے اوربس۔اس قسم کا ال ۔ کی��ا اس میں یہ ط��اقت ہوس��کتی ہے کہ ہم��اری کش��مکش میں ہم ک��و راس��ت نص��ب العین ک��و

حاصل کرنے کی جانب راغب کرسکے؟۳

تیس��را ج��واب مس��یحیت ک��ا ج��واب ہے ۔ مس��یحیت ک��ا یہ عقی��دہ ہے کہ خ��دا نے اس :۲۳(۔ وہ کائن�ات کے ان�در ہے)یرمی��اہ ۳: ۱کائن�ات کواپ�نے کلام کے ذریعہ خل�ق کی��ا ہے)یوحن��ا

(گوتم��ام مخل��وق خ��دا میں جی��تے۱۸: ۸۳(۔ اوراس س��ے بلن��دو ب��الا اورپ��رے بھی ہے)زب��ور ۲۴ااسی میں وجود رکھتے ہیں )اعم��ال (۔ ت��اہم خ��دا اورکائن��ات ک��ا۲۸ت��ا ۲۴: ۱۷اورچلتے پھرتے ہیں اور

اکل اورجز کا سا نہیں ہے۔ خدا س کائن��ات میں س��اری اور ط��اری ہے اورس��اتھ ہی م��او باہمی تعلق (۔ جوغ��یر مش��خص نہیں ہے۳۵: ۴راء بھی ہے۔ وہ ایک ایسی وح��دت الوج��ود ہس��تی ہے)استش��نا

بلکہ جوشخصیت کی صفات ہم میں محدود طورپرموجود ہیں وہ محض اس وجہ سے ہیں کی��ونکہ(اوراس کی ذات محبت ہے )۲۴: ۴وہ خدا میں لامحدود ط��ورپر موج��ود ہیں خ��دا روح ہے)یوحن��ا

وغ�یرہ(۔ برح�ق ہے)یوحن�ا۹: ۹۹۔ زب�ور ۴۸: ۵(وہ ایک کام�ل ہس�تی ہے )م�تی ۱۶ ، ۸: ۴یوحنا ۱لت۱۷: ۱۹۔ م��تی ۸: ۲۵( نیکی ک��ا سرچش��مہ ہے اورسراس��ر نی��ک ہے)زب��ور۳: ۱۷ وغ��یرہ( گ��ووہ ذا

( ت��اہم اس نے۶ت��ا ۱: ۳۹( علیم، خب��یر اورہرجاحاض��روناظر ہے)زب��ور۳: ۶مطل��ق ق��ادر ق��دیم )خ��روج انسان کو ایک خودمختار ہستی ہونے کی عزت بخشی ہے۔ اوراس کو غافل خود مخت��ار بن��اکر اسلت مطل�ق ک�وئی مج��رد بات کا اہل بنایا ہے کہ وہ خدا کے س�اتھ حقیقی رف�اقت رکھ س�کے۔ یہ ذا

وغ��یرہ(۔جس نے۹: ۶تص��ورنہیں ۔ بلکہ یہ واجب الوجودہس��تی ب��نی ن��وع انس��ان ک��ا ب��اپ ہے)م��تی (۔ پس ک�ل دنی��ا کے ایمان�دار خ�واہ۱۲: ۱ایمانداروں کو اپنے فرزند ہونے کا حق بخشا ہے )یوحنا

وہ کسی ملک قوم نسل یارنگ کے ہوں خدا باپ کی رفاقت حاصل کرسکتے ہیں۔اس رفاقت کی

Page 34: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

لل خ�ود آازاد فاع�� مثال ایسی ہےجیسی دنیاوی ب�اپ اوربی��ٹے میں رف��اقت ہ��وتی ہے۔ یع��نی یہ رف��اقت دو مخت��ار ہس��تیوں میں رف��اقت ہے۔ پس وح��دت الوج��ود ب��نی ن��وع انس��ان کے لاتع��داد اف��راد کے س��اتھ حقیقی رفاقت رکھتاہے۔ کائنات کی کثرت دھوک��ا اورس��راب یامای��ا نہیں بلکہ اس ک��ثرت ک��ا وج��ود خارجی حقیقت رکھتاہے اوراشرف المخلوقات میں حقیقی طورپر یہ ص��لاحیت موج��ود ہے کہ خ��دا

کے ساتھ بغیر اپنی ذات کو قائم بالذات میں فنا کئے حقیقی رفاقت رکھ سکے۔ :۱یوحنا۱"ہماری رفاقت باپ کے س��اتھ اوراس کے ح��بیب س��یدنا مس��یح کے س��اتھ ہے)

(۔۳آاٹوہم کوبتلاتاہے کہ: مشہور جرمن فلاسفر پروفیسر

ہرمل��ک میں وہ تم��ام م��ذاہب جن کی بنی��اد محض عق��ل ی��ا اخلاقی��ات پ��ر ہے سس��کیاںلف غلط کی طرح مٹتے ج��ارہے ہیں اور ان کی جگہ وہ م��ذہب بھررہے ہیں اورصفحہ ہستی سے حر لے رہاہے جس کی بنیاد وہ روحانیت پر ہے کیونکہ ان میں سرے سے وہ اپیل موجود نہیں ج��واس خی�ال میں موج�ود ہے کہ ای�ک ایس�ی واح�د ہس�تی کے س�اتھ رف�اقت رکھی ج�ائے جس ک�و جانن�ایی ت�رین مقص��د ہے کی��ونکہ اس�ی رف�اقت کی وجہ اورجس سے محبت رکھنا انس�انی زن�دگی ک�ا اعل

یی بڑھتے اورنشوونما پاتے ہیں "۔8سے انسانی روح کے تمام قواسلام کے عقائد کے برعکس مسیحیت کا یہ عقیدہ ہے:

آای��ا کہ انس��ان ااس کوپس��ند "اگرچہ خدا اپنی کائنات سے کہیں بلندوبالا اوربرتر ہے ت��اہم لت خ��اک ہیچ اوربے حقیقت ہ��ونے کی کی زن��دگی اورروح ک��ووہ اس ق��در وقعت دے کہ یہ مش��

(۔ خ��دا نے۳۶: ۸۔ م��رقس ۲۶: ۱۶بجائے کائنات کی سب سے بیش قیمت شے متصور ہو)متی انسان سے اس قدرمحبت رکھی کہ اس نے انسانی نجات کوپورا کرنے کے لئے اپنے اکلوتے بی��ٹے

(۔ خدا اپ�نے بے ح�د رحم اورفض�ل کی وجہ س�ے گنہگ�ار انس�ان۱۶: ۳کو بھی دریغ نہ کیا)یوحنا باب( تاکہ وہ خ��دا کی ط��رف رج��وع۱۵سے محبت کرکے اس کوتوبہ کی جانب مائل کرتاہے)لوقا

کرکے خدا کے ساتھ حقیقی رفاقت رکھ سکے۔8 Otto, Idea of the Holy

ہندوفلسفہ ایک غیر مشخص طاقت ک�و مانت�اہے۔ لیکن مس�یحیت کے مط��ابق خ��دا کےااص�ول لم ریاض�ی کی کس�ی ص�داقت یافلس�فہ کے کس�ی ااس قسم کا تعلق نہیں ج�وعل ساتھ ہمارا ااس رشتہ کی مانند ہونا چ��اہیے کے ساتھ ہوسکتاہے۔ اس کے برعکس خدا اورانسان کا باہمی تعلق جوایک فاعل خودمختار کا دوسرے فاعل خود مختار شخص کے ساتھ ہوتاہے اورجوہم��ارے روزم��رہآاتاہے ۔ مسیحیت ہم کو یہ تعلیم دی�تی ہے کہ جب کبھی انس��ان خ�دا کے س��اتھ کے مشاہے میں رفاقت وقربت کا تعلق قائم رکھنے سے قاصر رہتاہے وہ کسی علمی یا عقلی مغالطہ کا شکار نہیںامرتکب ہوت�اہے ۔ اس ط�ریقہ ک�ار س�ے ہم کس�ی غل�ط علمی ن�تیجہ پ�ر نہیں ہوت�ا بلکہ وہ گن�اہ ک�ا

پہنچتے۔ بلکہ ہم خدا کی محبت سے روگردانی کرتے ہیں۔ اب غ��بی س���ے غ���بی ش��خص پ��ر بھی یہ ظ���اہر ہے کہ ہن���دومت اوراس���لام کے جواب��اتااس اورمسیحیت کےجوابات میں بعدالمشرقین ہے۔ مقدم الذکر مذاہب اپنے اپ�نے نقطہ خی��ال س�ے ااصول اس قدر اصرار کرتے ہیں ۔ دریں ح��ال ہم کس منہ بات کا انکار کرتے ہیں جس پر مسیحی سے کہہ س�کتے ہیں کہ تین�وں جواب�ات یکس�اں ط�ورپر ص�حیح ہیں؟ ک�وئی ص�حیح العق�ل انس�ان م��ذکورہ ب��الا تم��ام فلس��فیانہ نظری��وں کویکس��اں ط��ورپر درس��ت اورراس��ت نہیں م��ان س��کتا کی��ونکہ یہ مختل��ف نظ��ریہ ج��ات نہ ص��رف مختل��ف ہیں بلکہ ازروئے منط��ق متن��اقص اورمتض��اد ہیں۔ لیکن وہااص�ول کے منطقی نت�ائج ہیں۔ چ�ونکہ یہ نظ��ریہ ج�ات یکس��اں ط��ورپر درس�ت مختل�ف م�ذاہب کے اورصحیح نہیں ہوسکتے لہذا وہ قضایا جن کے یہ نتائج ہیں یعنی مختلف مذاہب کے اص��ول بھی یکساں طورپر درست اورصحیح نہیں ہوس�کتے ۔ اگرخ��دا اورانس�ان میں رف��اقت ممکن ہوس��کتی ہےاا ہن��دوازم اوراس��لام کے جواب��ات میں اور اگ��ریہ رف��اقت م��ذہب ک��ا حقیقی نص��ب العین ہے تویقین�� صداقت نہیں اور مسیحیت نے ایسا راستہ کھول دیا ہے جس سے خدا اورانسان میں رفاقت ہ��وتی

ہے اوریہ قربت روزبروز ترقی کرکے انسانی زندگی کی تقدیس کرتی ہے۔۴

Page 35: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ادوایت ویدانت کے عقیدہ کے مطابق اس دنی�ا کی ہس�تی حقیقی وج�ود نہیں رکھ�تی ۔بقول شخصے

عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجاناآاتما ہی ایک واح��د ہس��تی ہے ج��وحقیقی ہے پس دنی��ا ای��ک ہیچ اوربے مع��نی چونکہ برہم شے مایارہ جاتی ہے جس سے کنارہ کشی کرنا ایک لازمی امر ہے کیونکہ صرف تارک الدنیا ہ��وکر ہم واحد ہستی تک پہنچ س�کتے ہیں جس ک�ا ن�ام برہم�اہے۔ اس�ی ط��رح اس�لام کے اللہ کے ارادہ

ھ° ھلااوررض��ا کے س��امنے انس��انی ہس��تی بے مع��نی رہ ج��اتی ہے ھل ولا ل±ا ھ ھو ل±ا اول ا² ءء ا³ µي ك· ھش لل ولا ھ²ا ھ ل±اا° ھ¹ يج ا° ھو ام ھل ºي اح يل ل° ا يي ھل ل±ا ھن ھو اعو ھج ير خدا کی ذات کے سوا سب چیزیں فنا ہ��ونے والی ہیں۔ اس��یات

آایت (۔ پس۸۸کی حک��ومت ہے اوراس��ی کی ط��رف س��ے تم س��ب ک��و ل��وٹ جان��اہے")قص��ص آاخ��ر ای��ک آاتاہے بلا دومختلف اور متضاد مذاہب ہندومت اوراسلام جن میں بظاہر بعد المشرقین نظر ہی نتیجہ پر پہنچتے ہیں اورہم کو ای ایسی ہستی پ��ر ایم��ان لانے کی دع��وت ک��رتے ہیں جس کے

سامنے کائنات دنیا اورانسان بے حقیقت اوربے مایہ چیزیں ہیں۔اان ک��و اس مش��کل میں مبتلا اان ک��ا م��ذہب اورفلس��فہ اہ��ل ہن��ود ک��ویہ احس��اس ہے کہ کرتاہے۔ بالخصوص یہ بات ڈاکٹر رابن��دراناتھ ٹیگ��ور جیس��ے روش��ن ض��میر انس��ان اور سررادھاکرش��ن جیسے فاضل ع��الم س��ے چھپ نہیں س��کتی لہ��ذا یہ دون��وں اص�حاب موج��ودہ علم اورح��الات کی روشنی میں ہندو فلس�فہ کی ن�رالی تفس�یر ک�رتے ہیں ۔ چن�انچہ ڈاک�ٹر موص�وف ادوائت کی نس�بت

فرماتے ہیں کہ:۔9" اس کی تعلیم محبت ہے یعنی کائنات اورخدا کے ساتھ یکتائی ہے"

اوریوں مایا کی تعلیم کوہن��دو مت10سررادھا کرشن لفظ" مایا" سے مطلب" بھید" لیتے اورفلسفہ سے خارج کرتے ہیں لیکن ہندومت سررادھا کرشن کے نظریہ زندگی کا اس قدر مخ��الف ہے کہ جس شے کو سر موصوف ہن��دومت بتلاتے ہیں وہ ہن��دومت نہیں ہے کی��ونکہ مای��ا کی تعلیم9? Tagore, Letters to a Friend.p.71 10 Idealist View of Life.p.344

ہندوم���ذہب ک���ا جزولاینف���ک اورہندوفلس���فہ کی روح روا ں ہے۔لیکن اگ���ر ان اص���لاحی کوشش���وںلت مطل�ق کوپرکھا جائے توہم پر یہ ظ��اہر ہوجائیگ�ا کہ ان مص�لحین کے فلس�فہ میں بھی برہم��ا اورذا کا انسان اور کائنات سے کسی قس�م ک�ا حقیقی تعل�ق واس�طہ یارش��تہ نہیں۔ان اص��حاب کی ن�ئی ش��رح کے الف���اy کی س��طح کے نیچے وہی ق��دیم عقی��دہ ادوایت ومای��ا ملت��اہے جس کی تنقی��د

سطوربالا میں کی گئی ہے۔

اس رشتہ کا اثر اخلاقیاتاس رشتہ کا اثر اخلاقیاتیی اگرکائنات اورانسانی زندگی محض مایاسراب اوردھوکا ہے اور حقیقت سے یکسر معرآان کی راہ س��ے پہنچیں۔ ہے توخواہ ہم اس نتیجہ پر ادوایت ویدانت کی راہ سے اورخ��واہ اس��لام وق��رآات�اہے۔ چن��انچہ بھ��اگوت گیت��ا میں کرش�ن بہر حال انسان کےفاعل خود مختار ہونے کا انک�ار لازم

جی کہتے ہیں: "تمام کرم انسان کی سرشت کے گنوں کی وجہ سے صادر ہوتے ہیں لیکن ن�ادان ہنک�ار

اان ک�ا ک�رنے والا میں ہ��وں") (۔ " اس سنس�ار میں ای�ک لحظہ بھ��ر۲۷: ۳کرکے یہ س�مجھتاہے کہ اگن ہرای��ک ش��خص کے لئے بھی کوئی شخص بغیر ک��رم ک��ئے نہیں رہ س��کتا کی��ونکہ پرک��رتی کے

(۔ اے ارجن ۔۵: ۳کوخاص کرم کرنے پر مجبور کرتے ہیں اوروہ لاچ�ار ہ��وکر ان کوک��ئے جات�اہے") تم اپنی ذات کے کرم کی وجہ سے مقبد ہو۔ جوچ��یز تم مای��ا کی وجہ س��ے نہیں کرن��ا چ��اہتے۔ وہاا کرن��ا پ��ڑے گی۔ خ��دا تم��ام موج��ودات میں موج��ود ہے۔ اورمای��اکی ط��اقت تم کو لاچار ہوکر مجبور

(۔۶۱ تا ۶۰: ۱۸سے وہ تمام لوگوں کوگھمار کے پہیہ کی طرح گھماتا ہے ")ااص��ول کے س��اتھ وابس��تہ ہے جس کے مط��ابق انس��ان ادوائت ویدانت کا فلسفہ کرم کے کی زن��دگی ک��ا مس��تقبل ح��ال پ��ر اورح��ال ماض��ی پ��ر اورماض��ی اس س��ے پہلے کہ ماض��ی بعی��د پ��رآاسکتی کہ وہ فاعل خ��ود منحصر ہے۔ اندریں حالات یہ بات انسان کے وہم وگمان میں بھی نہیں مختار ہو۔ کیونکہ انسان کی زندگی علت ومعلول کے سلسلہ کی زنجیروں میں جکڑی جاتی ہے۔ اوراس قدوسلاسل س��ے مخلص��ی حاص��ل کرن��ا ام��ر مح��ال ہے کی��ونکہ یہ وی��دانتی قض��ایا اورک��رم کے

Page 36: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

آاثری کے ذریعہ اس آافرینی اورخود تا اصول کا منطقی نتیجہ ہے ۔ پس ہمارے ہندوبھائی نومیت اوراثر آازادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سے

۲ اسلامی تعلیم کے مط��ابق ص��رف ای�ک ہی رض�ا ہے ج��و اس کائن��ات میں درحقیقت ک��ایہی ہے۔ انسان کا ارادہ ک�وئی اص��لیت وحقیقت نہیں رکھت��ا۔ اس تعلیم ک�ا پرواز ہے اوروہ رضائے اللل خود مختار نہیں رہتا۔ ہن��دوؤں لازمی نتیجہ مسئلہ تقدیر پر ایمان ہے۔پس انسان فی الحقیقت فاعااص��ول ک�رم کے مط��ابق انس�ان کی زن��دگی نیچ��ر اور فط��رت کے ق��انون کی غلام ہے ج��ومقررہ کے یہی اورتق��دیر کی زبردس��ت اورغیرمب��دل ط��ورپر منظم ہے۔ اس��لام میں انس��ان کی زن��دگی رض��ائے الیہی کے س��وا ک��وئی دوس��ری ط��اقت ک��ام زنجیروں میں جکڑی پڑی ہے کیونکہ کائن��ات میں تق��دیر الیہی گ��ردن خم ک��ردن" ہے ۔ ہم نے اس مض��مون پ��ر نہیں کرتی اورلفظ اس�لام کے مع��نی برض��ائے ال اپ��نی کت��اب "دین فط��رت ۔اس��لام یامس��یحیت؟" میں مفص��ل بحث کی ہے۔پس ن��اظرین کی ت��وجہ

اس رسالہ کی طرف مبذول کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔۳

چ��ونکہ ہن��دومت اوراس��لام میں انس��انی زن��دگی اص��لی معن��وں میں کچھ حقیقت نہیں رکھتی ہے لہذا تمام اخلاقی مساعی اور کوششیں جوانسان اپنی روحانی ترقی کوحاصل کرنے کے لئے بدل وجان کرتاہے سراس��ر بے مع��نی اوربے حقیقت ہوج��اتی ہیں۔ ای��ک ایس��ی دنی��ا میں جوازس��ر تاپا محض دھوکا فریب اورمایاہے یاجس میں انسانی زندگی ایک بے مایہ شے تصور کی ج��اتی ہے اخلاقی کشمکش اورروحانی جدوجہد ایک بن��اوٹی اورمص��نوعی جن��گ س��ے زی��ادہ وقعت نہیں رکھ سکتی کیونکہ ان کے قضایاکے مطابق حقیقت میں کوئی عمل واقع نہیں ہوتا اورجو واقع ہوتا نظ��رآافرینی اورمایا کا نتیجہ ہے۔ ہماری حقیقت خ��ود ای��ک س��ایہ س��ے زی��ادہ وقعت آاتاہے ۔وہ محض نظر نہیں رکھتی ہے پس جس اخلاقی نصب العین کوتصور یا مطم��ع نظ��ر ک��وہم حاص��ل کرن��ا چ��اہتے

ہیں وہ بھی سایہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھ سکتا۔

کہتاہےکہ:11پروفیسر ٹیلر سچ " جب ہم کائن��ات کے نظ��ریہ س��ے فط��رت کویام��افوق الفط��رت کوخ��ارج کردی��تے ہیں

توہماری اخلاقی زندگی کا ستیاناس ہوجاتاہے" ہم��اری اخلاقی زن��دگی درحقیقت ہم��اری تم��ام اخلاقی کوشش��وں ک��ا مجم��وعہ ہے۔ اسآاخری منزل خداہے۔ ہم زندہ خدا کو اپنی زندگی سے ال��گ ک��رکے ی��ا کی پہلی منزل فطرت ہے اور ااس کوخارج کرکے ی��احقیقی ع��الم ش��ہود کودھوک��ا ق��رار دے ک��ر اخلاقی کوش��ش اورروح��انی ت��رقی

نہیں کرسکتے۔۴

ہندوفلسفہ میں بدی جہالت کی م��ترادف ہے اورنیکی گی��ان کی م��ترادف ہے۔ پس ب��دیادورہوس��کتی ہے۔ چن��انچہ بھ��اگوت گیت��ا روح ک��امرض نہیں بلکہ محض مای��اہے جوگی��ان کے ذریعہ

میں کرشن جی کہتے ہیں: "س��ب سنس��ار تین��وں گن��وں س��ے ب��نی ہ��وئی چ��یزوں کی وجہ س��ے مجھ ک��و نہیں ج��ان سکتے۔ اس مایا کوجوگنوں کی وجہ سے چھیدنا دشوار امر ہے لیکن صرف وہی جوایسا کرکے پارابدھی ماری جاتی ہے۔ وہ م��یرے آاسکتے ہیں لیکن بدکار وہ ہیں جن کی ہوجاتے ہیں۔ میرے پاس

ااسور ہوتے ہیں۔) اان کی عقلوں پر ہوتاہے اوروہ آاتے۔ کیونکہ مایا کا اثر (۔ ۱۵تا ۱۳: ۷پاس نہیں (۔۱۱: ۱۰" میرے نور سے جل اگیا ن کی تاریکی دورہوجاتی ہے)

وی��دانت کے نزدی��ک ب��دی اورجہ��الت ای��ک ہی ش��ے ہے۔ اور دون��وں بے حقیقت ہیں۔ اس��لام میں بھی ب��دی اورنیکی دون��وں ک��ا وج��ود اللہ کے ق��ادر ارادہ کی وجہ س��ے ہے"۔ اللہ جس کوچاہت�اہے گم�راہ کرت�اہے اور جس کوچاہت�اہے ہ��دایت دیت�اہے ۔ پس ان دون�وں عقی��دوں کے مط�ابق بدی ایسی دشمن نہیں جس کے ساتھ جنگ کرنا اورجس کو مغلوب کرنا انس��ان ک��ا ف��رض اولین ہو۔ ظاہر ہے کہ اس نظریہ کا اثر ہماری روحانی جدوجہد اورکشمکش پ��ر پڑت��اہے ۔ کی��ونکہ انس��ان

کا یہ اولین فرض نہیں رہتاکہ بدی کی طاقتوں کے ساتھ حتے الوسع جنگ کرے۔11 Taylor, the Faith of Moralist, vol.i.p.124

Page 37: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

۵ علاوہ ازیں اسلامی اورہندوعقی��دوں کے مط��ابق ب��دی ک��ا وج��ود اس دنی��ا س��ے نہیں مٹ سکتا۔ کیونکہ وہ ان عقائد کے مطابق لازمی شے ہے۔ چونکہ اسلام کا خدا نیکی اور بدی دونوں کا خالق ہے۔ لہذا بدی کے وجود کا دنیا سے اٹھ جانا ایک امر موہوم ہے۔ ہمہ اوستی عقی��دہ کےلت مطل��ق ک��ا وج��ود مطابق نیکی اور بدی کا امتیاز کرن��ا جہ��الت اورحم��اقت پ��ر دال ہے کی��ونکہ ذا نیکی اورب��دی دون��وں میں ظہ��ور پکڑت��اہے۔ چن��انچہ بھ��اگوت دیت��ا میں کرش��ن کہ��تے ہیں " میں ہی

(۔ اورسوامی دیویکانن��د کہ��تے ہیں " گن��اہ۳۶: ۱۰دغابازوں کا مکر ہوں اورنیکوں کی نیکی ہوں"۔) محض ایک دھوکا اورمایاہے۔ جس کی درحقیقت کوئی ہستی نہیں۔ کسی انسان کوگنہگار کہن��ا

سب سے بڑا گناہ ہے"۔سمجھتا ہوں توداغ کو رند زاہد

مگررند اسکودلی جانتے ہیںاروح��انی جن��گ بے مع��نی الف��اy رہ ج��اتےہیں لت حالات اخلاقی کش��مکش اور دریں صور

آانا ایک فضول امر ہوجاتاہے۔ اان پر غالب اوربدی کی طاقتوں سے جنگ کرکے ۶

مندرجہ بالا نظریہ ج��ات کے ب��رعکس مس��یحیت ہم ک��و یہ تعلیم دی��تی ہے کہ ب��دی مای��ا اوردھوکا نہیں بلکہ ایک زبردست حقیقت ہے جوہم کو انسانی تعلق��ات کے ہرگوش��ہ میں مل��تی ہے

:۱۲)رومیوں پہلا باب( ہم کو حکم ہے کہ " بدی سے نفرت رکھ��ونیکی س��ے لپ��ٹے رہ��و")رومی��وں آاؤ)رومیوں ۹ (۔" کیونکہ جوبدی کرتاہے وہ نور س��ے۲۱: ۱۲(۔ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب

(۔ پس ب��دی کی ط��اقتوں س��ے جن��گ کرن��ا ہم��ارا مق��دم ف��رض۴۰: ۲دش��منی رکھت��اہے")یوحن��ا وغ��یرہ(۔مس��یحیت ہم ک��و یہ تعلیم دی��تی ہے کہ ب��نی ن��وع انس��ان کی ح��الت۱۱: ۶ہے)افس��یوں

لت دارین ک���ا ب���اعث ہے)م���تی لق خ���دا کی خ���دمت کرن���ا انس���ان کی س���عاد کوس���دھارنا اور خل��� باب(ہندومذہب اورفلسفہ جودنیا اورزمان ومکان کے تعلقات کومایا قرار دیت�اہے وہ کس ط��رح اس۲۵

لں ص��ورت ک��وئی ص��حیح العق��ل ش��خص ان قابل ہوسکتاہے کہ دنیا کی حالت کوسدھارس��کے؟ دری دون��وں اص��ولوں ک��وکس ط��رح یکس��اں قب��ول ک��رکے دون��وں ک��و براب��ر ط��ورپر ص��حیح م��ان س��کتاہے؟ مسیحیت ہم کو کہتی ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ زمان ومکان کی قیود کے اندر خدا کی بادشاہتآام��د کے ل��ئے راہ تی��ارکریں۔ یہ ش��رف مس��یحیت ہی کوحاص��ل ہے کہ وہ تم��ام انس��انی اعم��ال کی اا م��ردوزن کے تعلق��ات وال��دین اوربچ��وں کے تعلق��ات ح��اکم وافض��ال اورتم��ام دنی��اوی تعلق��ات مثل ومحکوم کے تعلقات وغیرہ کو ابدی زندگی س��ے متعل��ق ک��رتی ہے اورہم ک��و تعلیم دی��تی ہے کہ ان تعلقات کے ذریعہ ابدی زندگی اسی زندگی میں ہم کو ملتی ہے کی��ونکہ دنی��اوی تعلق��ات روح��انی

زندگی کے حقیقی پہلو ہیں چنانچہ مقدس یوحنا کہتاکہ: "جوکوئی راستبازی کے کام نہیں کرتا وہ خدا سے نہیں اوروہ بھی نہیں جو اپنے بھ��ائیسے محبت نہیں رکھت�ا۔ہم ج�انتے ہیں کہ ہم م�وت س�ے نک�ل ک�ر زن�دگی میں داخ�ل ہوگ��ئے ہیں۔کیونکہ ہم بھائيوں سے محبت رکھتے ہیں جو محبت نہیں رکھتا وہ م��وت کی ح��الت میں رہت��ا"۔)

باب(۔۳یوحنا۱۷

چونکہ ہن��دومت اورفلس��فہ میں اخلاقی مس��اعی جمیلہ کے ل��ئے جگہ نہیں اوراس��لام کی تعلیم روحانی جدوجہد کی ممدومعاون نہیں ۔ لہذا یہ م�ذاہب ہندوس�تان کی ح�الت ک�و س�دھارنہ س�کے۔ س�ررادھا کرش�ن اورس�رمحمد اقب�ال مرح�وم جیس�ے فلاس�فر بہت�یرا زور م�ارچکے لیکن ناک�املر حاضرہ میں ہندوستان اورغیرممالک میں ہندومت اورفلس��فہ پ��ر کس��ی ش��خص کی کت��ابیں رہے۔دوآاپ کی انگریزی کتب ک��ا ت��رجمہ ی��ورپ اس قدر مقبول عام نہیں ہوئیں جتنی سررادھا کرشن کی۔ آاپ نے اپ��نی خ��داداد ق��ابلیت کوک��ام میں لا ک��ر کی دیگر زبانوں میں بھی ہوگیاہے۔ ان کتابوں میں ازحد کوشش کی ہے کہ کسی نہ کسی طرح ہندومت اورفلس��فہ میں اخلاقی جدوجہ��د اورروح��انیآاپ باوجود اس قدر لیاقت کے ناکام رہے کی��ونکہ جس آائے۔ لیکن کشمکش کے لئے جگہ نکل ااس میں ازروئے عق��ل اخلاقی جدوجہ��د کے ل��ئے جگہ ہے آاپ ن�ام لی��وا ہیں۔ مذہب اورفلس�فہ کے

Page 38: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ہی نہیں۔ پس جائے تعجب نہیں کہ ہندو مذہب ہندوس�تان کی ح�الت کوس�دھار نہیں س�کا۔ اس کے فلسفہ کے اصول نے ہندوستان پر افیون کا اسا اثر ڈال رکھاہے۔ ہندوس��تان کی گذش��تہ ہ��زاروںلن حال سے پکار پکار کر اس مذہب اور فلس��فہ کے خلاف ص��دائے احتج��اج سالوں تک تاریخ زبا بلند کررہی ہے۔ ہمارے ملک کے کروڑوں اچھوت لاکھوں ہندو بی��وائیں اوردیگ��ر مظل��وم اس م��ذہب اورفلسفہ کی تہید ستی کے زندہ گواہ ہیں۔ہندوستان کے ملک اورقوم کی ح��الت کبھی بہ��تر نہیں ہوس��کتی جب ت��ک ہن��دومت اورفلس��فہ اپ��نے ک��رم اورتناس��خ کے عقی��دوں ک��وترک نہ کریگ��ا اوراپ��نی موجودہ دھندلی ، مہبم اورغیر معین شکل بدل کر کوئی دوسری شکل اختیار نہ کریگ��ا۔ ہندوس��تاناا اچھ��وت ک��و اٹھ��انے وغ��یرہ میں اص��لاح ن��اممکن ہے ت��اوقتیکہ لت ح��الات مثل کی موج��ودہ ص��ور ہندومت اپنے اصول کوترک نہ کرے۔ہندوستان کے سوشل ریفارمر اورمصلحین ہمیش��ہ یہی ش��کایت کرتے رہے کہ ہندومت اورفلس��فہ کے اص��ول ان کی اص��لاحی کوشش��وں میں م��داخلت ک��رتے ہیں۔ااص��ول ہندوس��تان ذات پات کی امتیاز قوم کی شیرازہ بندی نہیں ک�رنے دی��تی۔ ک�رم اور تناس�خ کے اا عورتوں کی پستی ، ہندو بیواؤں کی قاب�ل رحم ح��الت مظلوم��وں اوراچھوت��وں وغ�یرہ کی برائیوں مثلااص�ول محبت اورمس�یحی لر حاض�رہ کے ہندومس�یحی وغیرہ کی ذمہ دار ہیں۔ یہ درست ہے کہ دواان کی ح��الت کوس��دھارنے کی خواہش��مند ہیں مبلغین کی خ��دمت ایث��ار نفس��ی س��ے مت��اثر ہ��وکر لیکن ہندو نظریہ کائنات کے طوق وسلاسل کے ثقیل وزن کی وجہ سے ان کی کوششیں بے س��ود ث�ابت ہ��ورہی ہیں لیکن ہندوفلس�فہ ان کی مس��اعی جمیلہ میں مم�دومعاون نہیں ہے۔ حق��وق العب�ادیہی تصور کی ضرورت ہے ج��و دراصل خدا کے تصور پر مبنی ہیں۔ ان مصلحین کوایک ایسے الیہی تص��ور ہندوفلس��فہ اان کو اصلاح کی جانت تحریک وترغیب دے س��کے۔ لیکن اس قس��م ک�ا اللت اورہن��دومت میں کالن��ادرفی المع��دوم ک��ا حکم رکھت��اہے۔ ای��ک بے ح��رکت اورس��اکن اورجام��د ذا مطلق کس طرح ان مصلحین کو رحم ومحبت ایثار وخدمت کی طرف راغب کرس��کتی ہے؟ ہرگ��ز نہیں ۔ ہندومت میں بہترین ش��خص وہ ش�مار کی��ا جات��اہے جوہرقس��م کے ج��ذبات س��ے خ�الی ہ��و۔

چنانچہ بھاگوت گیتا میں کرشن کہتے ہیں کہ:

"س��چا سنیاس��ی وہ ہے ج��ومحبت اورنف��رت دون��وں س��ے خ��الی ہے۔ ایس��ا ش��خص نج��اتلت مطل��ق میں فن��ا۳: ۵حاصل کرتاہے") ( سنیاسی نروان حاصل کرتاہے )یعنی اسی ش��خص کی ذا

(۔ جواپ��نے۲۶: ۵ہوجاتی ہے(۔ جوعرفان حاصل کرکے خ��واہش اورج��ذبات س��ے خ��الی ہوجات��ا ہے")ابدھی کوق��ابو میں رکھ ک��ر مک��تی ک��ا ط��الب ہوت��اہے۔ اورہمیش��ہ کے ل��ئے خ��واہش ح��واس اور من اور

(۔ ج�ودووان ہ�وتے ہیں وہ نہ کس�ی زن�دہ۲۸: ۵خوف اور ج�ذبہ ک�و م�ار ڈالت�اہے وہ مک�تی پات�اہے")امردے پر افس��وس ک��رتے ہیں) (۔ کام��ل دووان وہ۱۱: ۲شخص کے لئے غم کھاتے ہیں اورنہ کسی

ہے ج��و نہ خوش��ی کے وقت خوش��نوی کرت��اہے اورنہ دکھ میں پریش��ان ہوت��اہے۔ وہ خ��وف اورغص��ہ اورمحبت کے جذبات سے خالی ہوت�اہے وہ ہرام�ر میں بغ�یر کس��ی ش�ے س�ے محبت ک�ئے زن�دگی

(۔ اس ش��خص۵۶: ۲بس��ر کرت��اہے اور وہ نہ کس��ی ش��ے ک��و پس��ند کرت��اہے اورنہ ناپس��ند کرت��اہے") (۔۱۹: ۳کومکتی پراپت ہوتی ہے جوبغیر کسی جذبہ کے اس کرم کوجواس کا دھرم ہے کرت��اہے")

وہ جو نہ افس�وس کرت�اہے نہ خ�واہش کرت�اہے نہ ش�اد ہوت�ا ہے نہ ناش�اد ہوت�اہے۔ وہ ج�ونیکی اورب�دی(۔۱۷: ۱۲دونوں کو چھوڑ دیتاہے ایساشخص میرا پیارا بھگت ہے")

آارزو ک�ا ن�ام ہے۔ ہندوفلس�فہ ک�ا تعل�ق ص�رف ن�روان کے س�اتھ ہے۔موج�ودہ لیکن زن�دگی زندگی اوراس کے لواحق سے کوئی غرض نہیں رکھتا۔لیکن

آائی گھڑی کی جلوت گذری گھڑی کی خلوتآاخر سحاب آاغوش سے بجلی ہے کی چھٹنے

ہندو عقائد کی وجہ سے مسٹر ڈیسائی جیسا سیاست دان کہتاہے کہ" مذہب کا تعلق خ���دا اورانس���ان کے س���اتھ ہے۔ اس ک���ا واس���طہ انس���انی تعلق���ات کے س���اتھ نہیں ہوت���ا ۔ یہ فق���رہ ظاہرکرتاہے کہ ہندونظریہ کی وجہ سے مسٹر ڈیسائی اس ب��ات س��ے )جس ک��و مس��یحی کلیس��یا ک��ا بچہ بچہ جانت��اہے( ن��اواقف ہیں کہ م��ذہب نچ ک��ا مع��املہ نہیں اوراس ک��ا تعل��ق نہ ص��رف خ��دا اورانسان کے ساتھ ہوتاہے بلکہ اس رشتہ کا اص��لی ظہ��ور ت��رقی تم��دنی معاش��رتی اقتص��ادی سیاس�ی

اوردیگر انسانی تعلقات کے ذریعہ ہوتاہے۔ چنانچہ انجیل جلیل میں وارد ہواہے۔

Page 39: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

رکھے ع�داوت سے بھ��ائی اپ�نے اوروہ رکھت�اہوں س�ےمحبت خ�دا میں کہےکہ " اگرک�وئی وہ رکھت��اہے محبت سے خ��دا جوک��وئی کہ ملاہے حکم یہ سے طرف کی مسیح کو ہم توجھوٹاہے۔

وغیرہ(۔ ۱۷: ۳ ۔۲۰: ۴ یوحنا۱رکھے) محبت سے بھائی اپنے اوربی���وہ ی���تیموں کہ ہے یہ دین���داری عیب اوربے خ���الص نزدیک کے خ���دااورباپ ہم���ارے

(۔۲۷: ۱ رکھیں)یعقوب داغ سےبے دنیا کو آاپ اپنے اور خبرلیں وقت کے مصیبت کی عورتوں کی آاس�������مان ہرایک سے میں ان کہ�������تےہیں خداوند اے خداوند اے کو "ج�������ومجھ

(۔۲۱: ۷ پرچلتاہے)متی مرضی کی باپ آاسمانی جومیرے مگروہی ہوگا۔ نہ داخل میں بادشاہتآاکر قوموں کی عدالت کریں گے ت��ووہ بعض کوب��ولیں جب سیدنا مسیح اپنے جلال میں

گے کہ : کی تی��ار لئے تمہارے سے عالم بنائی بادشاہی جو لوگو مبارک کے پروردگار میرے آاؤ"��

پیاسا میں ، کھاناکھلایا مجھے نے تم ، تھا بھوکا میں ل�و۔کی��ونکہ لے میں م�یراث اسے ہے گ�ئی تم تھا ننگا ۔ ات��ارا میں گھر اپ��نے مجھے نے تم تھ��ا، پردیسی میں پلای��ا، پ��انی مجھے نے تم تھا تب ، آائے پ��اس م��یرے تم ، تھا قی��دمیں ، لی خ��بر میری نے تم تھا بیمار ، پہنایا کپڑا مجھے نے

کھلای��ا، کھانا کر دیکھ بھوکا کو آاپ کب نے ہم م��ولا اے کہیں سے اس میں ج��واب دیانت��دار دیکھ ننگا یا ؟ ات��ارا میں گھر کر دیکھ پردیسی کو آاپ کب نے ہم پلای��ا؟ پ��انی کر دیکھ پیاسا

سے ان میں ج�واب بادش�اہ ؟ آائے پ�اس کے آاپ کر دیکھ بیم��ار کو آاپ کب ہم پہنای��ا؟ کپڑا کر سے میں بھ��ائیوں چھ��وٹے سے سب ان م��یرے نے تم جب ہ��وں کہتا سچ سے تم میں گا فرم��ائےکیا۔ ساتھ ہی میرے تو کیا سلوک یہ کےساتھ کسی

م�ذکورہ ب�الا چن�د اقتباس�ات س�ے ظ��اہرہے کہ ہن�دوازم کے ب�رعکس مس�یحی اص�ول کےااس رش��تہ ااس رشتہ سے مترادف نہیں جوخدا اور انسان کے درمیان ہے۔ بلکہ م��ذہب مطابق مذہب لن ع��الم اان دنیاوی تعلقات میں دیکھنا چاہتاہے جو مختلف انسانوں میں موج��ود ہیں۔ تم�ام ادی�ا کو یہی اورانس�انی تعلق��ات کے تص�ورات اس قس�م لت ال میں مسیحیت ہی ایک واحد م�ذہب ہے ج�وذا

کے پیش کرتاہے کہ جومسیحیوں کو اس بات پر مجبور کردیتے ہیں کہ مظلوموں زیردستوں لاچاروںاان ک��ا خ��دا محبت ک��ا زن��دہ خ��دا ہے۔ مس��یحیت ہن��دومت اورمصیبت زدوں کی مدد کریں کیونکہ کی طرح ک��وئی فلس��فہ نہیں ہے بلکہ وہ انجی��ل یع��نی خوش��ی کی خ��بر ہے۔ اورہ��رکس ون��اکس کے

لئے بشارت کا پیغام ہے۔لب ع��الم کوج��انچ س��کتے ہیں یہ ہے کہ ان کی س��ب س��ے ب��ڑا معی��ار جس س��ے ہم م��ذاہ نشوونما اورترقی اورتاریخ نے دنیا پر کیا اثر ڈالا۔ کس��ی زن��دہ م��ذہب کے اص��ول کے عملی پہل��وؤں کی پڑتال اس سے ہوس��کتی ہے کہ اس نے اپ��نے مقل��دین میں کس قس��م کی زن��دگی ج��اری کی۔لت غ��ائی یہ ہے کہ دنی��ا میں ای��ک ایس��ی طبعیت کیونکہ ایمان کا نتیجہ عم��ل ہے اورم��ذہب کی عل طینت کیریک�ٹر اورخص�لت نم�ودار ہوج�ائے جس کی وجہ س�ے ب�نی ن�وع انس�ان س�ے ایس�ے اعم�ال سرزدہوں جن سے دنیا کی کایا پلٹ جائے۔ کیا ہندومت اور فلسفہ سے یہ ک��ام ہوس��کتاہے؟ ت��اریخلن فط��رت میں ث��ابت کی��ا ہے کہ ہند اس بات کا ببانگ دہل انکار کرتی ہے۔ ہم نے اپ��نی کت��اب دی اسلام اس مبارک کام کے کرنے سے قاصر رہا۔ کامیابی کا سہرا صرف مسیحیت کے سر پ��ر ہے۔

پھر کوئی کس منہ سے کہہ سکتا ہے کہ تمام مذاہب برابر اوریکساں ہیں؟

Page 40: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

باب سومباب سوممذہبی رواداری اورقوم کی شیرازہ بندیمذہبی رواداری اورقوم کی شیرازہ بندیہندوستان کے مذاہب اورفرقہ وارانہ ہنیتہندوستان کے مذاہب اورفرقہ وارانہ ہنیت

ااصول اورفلسفہ لل ہنود اپنے مذہب کے غیر معین گذشتہ ابواب میں ہم نے دیکھا تھاکہ اہ کی وجہ س��ے اس ب��ات کے قائ��ل ہیں کہ تم��ام م��ذاہب یکس��اں ط��ورپر اپ��نی اپ��نی جگہ برح��ق ہیںلر حاض�رہ میں ق��وم کی ش�یرزاہ بن��دی اورکس�ی ای�ک م�ذہب کودوس�رے پ�ر ف��وقیت حاص�ل نہیں۔ دو کومدنظر رکھ کر ہمارے لیڈر ہم کو یہی سبق سکھانا چ�اہتے ہیں کہ تم�ام م�ذاہب یکس�اں ط��ورپرلل تعظیم ہس�تیاں ہیں۔ اورم�ذہبی رواداری ک��ا یہ برحق ہیں اورتمام مذاہب کے بانی یکساں ط��ورپر قاب�� سبق اس غرض سے سکھایا جاتاہے کہ ہندوستان کے مختلف فرقوں ملتوں اورجم��اعتوں کی ش��یرازہ

بندی ہو جائے اورہندوستان ایک قوم بن جائے۔۱

لت زم���انہ ح���ال کے سیاس���ی واقع���ات کی وجہ س���ے رونم���ا ہ���وئی ہے۔ یہ ص���ورت ح���الاyانگلستان ہندوستان پر حکمران ہے۔ اوراس نے ہندوستان ک��و ان کے فرق��وں کے تناس��ب کے لح��ا آارڈیا فرقہ وارانہ تناسب کی وجہ سے ہندی سیاسیات نے سے حقوق دئیے ہیں ۔ پس اس کمیونل اورارو سے صرف ایک م��ذہب کی بن��اء پ��ر ہی ک��وئی آارڈ کی فرقہ وارانہ صورت اختیار کرلی ہے۔ اس او جماعت اپنے دنیاوی اقتصادی اورسیاسی حق��وق کی حف��اظت کرس��کتی ہے۔ پس عہدحاض��ر میں ہندوستان فرقہ وارانہ جنگوں کی ج�ولان گ�اہ بن�ا ہ�واہے۔ وہ مل�ک جس ک�و کبھی جنت نش�اں کہ�ا جات��ا تھ��ا ان جنگ��وں اور لڑائی��وں کی وجہ س��ے دوزخ ک��انمونہ بن��ا ہ��واہے۔ ہن��دو اورمس��لمان ، س��کھ اورعیس��ائی ای�ک دوس��رے کوش�ک کی نگ��اہ س��ے دیکھ��تے ہیں اورجب دل��وں میں ش��ک ہوت��اہے ت��وآاش�تی کی بج��ائے دش��منی اور ع��داوت ک��ا دور دورہ باہمی محبت رخصت ہوج��اتی ہے اورص��لح اور ہوجاتاہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک اور قوم کی باگ ڈور ایسے لوگ�وں کے ہ��اتھوں میں ہے ج�و

آاگ ک��و بجھ��انے کی بج��ائے اس ک��و ت��یز کرن��ا چ��اہتے ہیں ۔کی��ونکہ ان ک��و اپ��نے ذاتی نف��اق کی لن دین م�ذہب اغراض اورملی مقاصد پر قومی مفاد کوقربان ک��رنے میں ذرا ب�اک نہیں ہے۔ یہ دش��منااان کے م��ذہب کی ب��دنامی ک�ا ب��اعث ہ��وتی آاڑ کو خلق الہ سے ایسی حرکتیں کرواتے ہیں جو کی

ہیں کیونکہ درحقیقت ان کو خدا اور مذہب کا پاس نہیں ہوتا ۔ بالفاy انجیل جلیل ۔اان ک�ا پیٹ ہے،وہ دنی�ا کی چ�یزوں کے خی�ال میں رہ��تے ہیں وہ خ�دا کی اان کا خ�دا " نسبت عیش وعشرت کوزیادہ دوست رکھتے ہیں اوردینداری کی وضع رکھ کر چک��نی چ��پڑی ب��اتوں

(۔۴: ۳تمطاؤس ۲۔ ۱۹: ۳۔ فلپیوں۱۸: ۱۶سے سادہ لوحوں کو بہکاتے ہیں")رومیوں جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ مختلف مذاہب کے پیرو بمصداق

ایمان برائے طاعت ومذہب برائے جنگ فرقہ وارانہ فس��ادات کوبرپ�ا ک��رنے کی ت�اڑ میں رہ��تے ہیں اوراپ�نے اپ��نے ف��رقہ کے ل��ئے حق��وق حاص��للش آات کرنے کی خاطر باہمی پرخاش اورجدل کے موقعہ کوہاتھ س�ے ج��انے نہیں دی�تے اورش�ب وروز

عداوت کوتیز کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔ نے کسی جگہ ایسے ہی لوگوں کی نسبت کہاہے کہ:)Colton)کولٹن

ااس "لوگ مذہب کی خاطر دھواں دھار تقریریں کرتے اوربے شمار کتابیں لکھ��تےہیں: وہ کی خاطر جنگ وجدل کرتے ہیں۔ لیکن اس کے مطابق زندگیاں بسر نہیں کرتے :

کہ: ہیں کہتے مورودرست آارتھر مسٹر ایڈیٹر کے سٹیٹسمین اخبار کا م��ذہب ان��در ہم��ارے کہ ہے یہ وجہ حقیقی کی اختلاف��ات م��ذہبی کے " ہندوس��تان

کا خ�دا میں ہم کی��ونکہ ہیں ل�ڑتے سے دوس�رے ایک خ�اطر کی خ�دا ہے۔ہم نہیں موج�ود احساس علم کا خ��دا میں ہم کی��ونکہ ہیں۔ ل��ڑتے سے دوس��رے ایک خ��اطر کی خ��دا نہیں۔ہم موج��ود علم

ہوگیا بند وہ ہے ج�ودروازہ درمی�ان کے خلقت کی اوراس خ�الق کہ ہوت�اہے معل�وم ایسا نہیں۔ موج�ود ت�اکہ ہے۔ کودیکھا خ��دا نے جس ہے ض��رورت کی اورہادی پیشوا نئے کوایک اوردنیا ہندوستان ہے۔

Page 41: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

۲۶ٹربی��ون ") چلائے پر راہ کی ت��رقی کو اوراس دے نج��ات سے اورلالچ طمع کو انس��انی ن��وع وہء(۔۱۹۴۰فروری

۲آائے دن کی م��ذہبی جنگ��وں اورف��رقہ وارانہ لق س��لیم رکھ��نے والے ش��خص کی ط��بیعت ہ��رذواا متنفر ہوجاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگیاہے کہ سلیم طبائع پ�ر م�ذہب ک�و آائیوں کی وجہ سے قدرت لڑآاغاز میں تھا۔ بالخصوص صحیح مذاق کے نوجوان��وں وہ اقتدار حاصل نہیں رہا جواس صدی کے

آات���اہے۔ ج���رمن فلاس���فر ش���لائر میخ���ر Sacheier)ک���ا طبقہ م���ذہب کے ن���ام س���ے ب���یزار نظ���ر

Macher(:نے خوب کہا ہے کہ "ب��العموم ای��ک پش��ت اپ��نے س��ے پہلی پش��ت کی غلطی��وں کوای��ک اورغلطی ک��رنے س��ے

درست کرتی ہے"۔ گذشتہ پش��ت م��ذہب کی اس ق��در دل��دادہ تھی کہ ہ��ر وقت دع��ا نم��از گی��ان دھی��ان میں مصروف دنیاوی ترقی سے بے خبر تھی۔ موجودہ پش��ت نے اس غفلت ش��عاری کوی��وں درس��ت کی��ا ہے کہ مذہب اوردین اورخدا کو ب�الائے ط�اق رکھ دی�ا ہے اس مع�املہ میں نوج�وان طبقہ مل�ک روس کی پ��یروی ک��رکے م��ذہب ک��و زن��دگی کے ہ��ر ش��عبہ س��ے خ��ارج ک��رنے پ��ر تلا ہ��واہے۔ اس طبقہ ک��ا اگرک���وئی م���ذہب ہے ت���ووہ ق���وم پرس���تی اوروطن پرس���تی ہے اوریہ م���ذہب ای���ک جارح���انہ ص���ورتااصول کی جڑیں کھ��وکھلی ہوگ��ئی اختیارکررہاہے جس کانتیجہ یہ ہوا ہے کہ ان کی نظر میں مذہبی

لy مسٹر گاندھی : ہیں اوربالفا" سیاسیات کے اژدہا نے ہندوستان کواپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے"۔

ااس دن خاتمہ سمجھو جس روز بدخدا اور مذہب کے ل��ئے اس مل��ک ہندوستانی قوم کا میں جگہ نہ رہی ۔ ہمارے نوج��وان خ��دا ک��و بھ��ول گ�ئے ہیں۔ لیکن انہ��وں نے پرس��تش ک��رنی نہیں چھوڑی کیونکہ پرستش انسانی فطرت کی طبعیت میں داخل ہے۔ لہذا وہ سچے خ��دا کی بج��ائےابت اان کے خ��ود س��اختہ نظرئ��یے ہیں۔ جھوٹے معبودوں کی پرستش کررہے ہیں۔ اوریہ جھوٹے معب��ود

ابت ہوتاہے۔ لیکن ہمارے نوج�وان پتھ��ر، چان�دی یاس�ونے وغ�یرہ پرست کا معبود اس کا خود ساختہ ابت��وں کے ابت��وں کی بج��ائے دم��اغوں کے بن��ائے ہ��وئے کے بتوں سے بیزار ہوکر ہاتھ کے بن��ائے ہ��وئے آاگے سربسجود ہیں۔ پس قومیت اور وطن پرستی نے م�ذہب اورخ�دا پرس��تی کی جگہ غض�ب ک�رلی ہے اور قوم کے تصور نے ہندوستانیوں کے دلوں پر وہ اقتدار حاصل کرلیاہے جوکسی زمانہ میں خ��داآاج ک��ل جس کودیکھ��و وہی ق��وم اوروطن پ��ر ف��دا ہے۔ق��ومیت ی��اوطنیت کے تص��ور کوحاص��ل تھ��ا۔

آاربندوگھوش کہتاہے کہ: بجائے خودایک مستقل مذہب ہوگیا ہے ۔ چنانچہ مشہور بنگالی لیڈر "قومیت ایک ایسا مذہب ہے جوخدا کی طرف سے ہے۔ قومیت م��رنہیں س��کتی کی��ونکہ

خدا مر نہیں سکتا۔ خدا جیل خانہ میں بھیجا نہیں جاسکتا"۔ یوں قومیت کے زہریلے جراثیم ہماری زندگی کے ہرشعبہ میں سرایت کرگئے ہیں خواہ وہ شعبہ اقتصادیات سے متعلق ہویاعلم ادب سے خ��واہ وہ سیاس��یات س��ے اورخ��واہ م��ذہب س��ے متعل��قلر زندگی کوق��ومیت کی کس��وٹی اورمعی��ار س��ے پرکھ��ا جات��اہے۔ چن��انچہ پن��ڈت ہو۔ غرضیکہ تمام امو

جواہر لال نہرو کہتے ہیں کہ:"جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے جس ط��رح میں ج��ادوٹوٹکے، پ��ر یقین نہیں رکھت��ا ۔

ااس میں کوئی فائدہ دیکھ سکتاہوں"۔ اسی طرح میں مذہب کوبھی نہیں مانتا اورنہ اا پکار اٹھتےہیں۔ کی��ونکہ ق��ومیت آامنا وصدقن اورہندوستان کے ہرگوشتہ سے ہمارے نوجوان اان میں ج��وش زن ہے۔ ہم��ارے ان نوجوان��وں کوس��کولوں اورک��الجوں میں دی��نی اوروط��نیت ک��ا ج��ذبہ تعلیم نہیں مل�تی جس ک�ا ن�تیجہ یہ ہوگی�اہے کہ ان کی م�ذہبی حس میں ح�رکت نہیں رہی۔ اوروہ خ��دا اورم��ذہب کی اہمیت کے منک��ر ہوگ��ئے ہیں۔ اس ک��ا اث��ر ان کی خوادرخص��لت پ��ر پڑگی��ا ہےلر حاض��رہ میں جس ک��و دیکھ��و وہی روت��اہے کہ ن��ئی پ��ود میں ض��بط اورذمہ داری ک��ا اوراب وہ دو

احساس نہیں رہا!!لب وطن کا نصب العین یہی ہے کہ کس��ی نہ کس��ی ط��رح ق��وم کی ش��یرازہ بن��دی ہم مح کی جائے۔ چونکہ بظاہر م��ذہب اس ش��یرازہ بن��دی کی راہ میں ہے لہ��ذا دوقس�م کے خی��الات پی��دا

Page 42: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ہوگئے ہیں ۔ پہلی قسم کے لوگ مذہب سے اس قدر متنف��ر ہوگ��ئے ہیں کہ وہ م�ذہب ک�ا قل�ع قم�عاروس کی نظ�یر پیش ک�رکے کہ��تے ہیں کہ جب س�ے روس م�ذہب کی قی�د کردینا چ�اہتے ہیں ۔ وہ آازاد ہواہے۔ وہ ترقی کی دوڑ میں بیش ازبیش ہے اور ہندوستان بھی کبھی ترقی نہیں کرے گا۔ سے جب تک خدا اورمذہب ملک بدر نہ کیا جائیگا۔ گویا خدا کو ہندوستان سے نکال کر ہندوس��تانی

قوم ترقی کرسکتی ہے! دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جواس حد ت��ک جان��ا نہیں چ��اہتے پس یہ ق��ومی لی��ڈر ف��رقہ وارانہ فسادات کومٹ��انے کے ل��ئے کہ��تے ہیں کہ ان فس��ادات کی اص��ل ج��ڑ ف��رقہ وارانہ تناس��ب ہے۔آام�رانہ حی�ثیت س�ے کی�ا ہے۔ جب کس�ی ف�رقہ کی تع�داد میں اض�افہ ہوجات�اہے ت�واس جوبرط�انیہ نے تناسب کی وجہ سے اس کو زی�ادہ اقتص�ادی اورسیاس�ی حق�وق م�ل ج�اتے ہیں۔ پس کس�ی م�ذہب کویہ اجازت نہیں ہ��ونی چ��اہیے۔ کہ وہ اپ��نی جم�اعت ک��و تبلی��غ وتح��ریص کے ذریعہ بڑھاس��کے۔ یہ ص��ورت تب پی��دا ہوس��کتی ہے جب ہم یہ م��ان لیں کہ کس��ی م��ذہب کودوس��رے م��ذہب پ��ر ف��وقیت حاصل نہیں اوریہ اصول تب ہی ماناجاسکتاہے جب ہم اس پ��ر اتف��اق ک��رلیں کہ تم�ام م�ذاہب براب�ریی نہیں ۔ پس اس ب��ات ک��ا ہ��رممکن یی ی��اادن ہیں اورکسی ایک مذہب کے اص��ول دوس��رے س��ے اعل ط��ورپر پراپیگین��ڈہ کی��ا جات��اہے کہ م��ذاہب کی تم��یز وتفری��ق کویکس��ر بھ��ول جان��ا چ��اہیے ۔ ت��اکہ ہندوستانی قوم کی شیرازہ بندی ہوسکے۔ اورہمارا نصب العین یہ ہوکہ تمام ہندوستانی بلاتمیز رن��گ، نسل ، ذات فرقہ اورمذہب ایک قوم بن جائیں اوراس مقصد ک��و پ��ورا ک�رنے کے ل��ئے تم��ام م��ذاہب کوچاہیے کہ اس بات پر متفق ہوجائیں کہ تمام مذاہب یکساں طورپر حق ہیں اورچونکہ وہ برابر ہیں لہذا کسی ایک مذہب کودوسرے پر فوقیت حاص�ل نہیں۔پس کس�ی م�ذہب ک�ا معتق��د اس ب�ات کا مجاز نہیں ہوگاکہ دوسرے م�ذاہب کے لوگ�وں ک�ویہ دع�وت دے کہ تم اپن�ا م�ذہب ت�رک ک�رکے میرا مذہب قبول کرلو اور نہ کسی شخص کویہ حق حاصل ہوگاکہ وہ اپنے مذہب کی تبلی��غ ک��رکےااس کا حلقہ بگوش کرے۔ اوراگرکوئی شخص اس قسم کی جرات کرے گا ت��ووہ ق��وم دوسروں کو

ارو سے مجرم گردانا جائے گا۔ کا غدار تصور کیا جائے گا اورملک کے قوانین کی

۲لیکن اگراس ایک حقیقت پر کل مذاہب کا اتفاق ہے کہ

آاپس میں بررکھنا مذہب نہیں سکھاتا لت خ�ود ہندوس��تانی ق��ومیت کی ش��یرازہ بن��دی کی راہ میں تویہ امرظ��اہر ہے کہ م�ذہب ب��ذا حائ��ل نہیں ہے۔ بلکہ ف��رقہ وارانہ فس��ادات کی اص��لی ج��ڑ ف��رقہ وارانہ تناس��ب ہے یہ ای��ک ط��وق ہے جوبرطانیہ نے ملک ہندوستان کے گلے میں ڈال دیا ہے۔ پس لازم تویہ ہے کہ اس فرقہ وارانہ تناس�ب کو مٹانے کی کوشش کی جائے تاکہ کسی م��ذہب وف��رقہ کی تع��داد کے بڑھ��نے ی��ا کم ہ��ونے س��ےآائے لیکن یہ��اں ال��ٹی گنگ��ا بہ رہی ہے۔ اس اس کے اقتص��ادی اورسیاس��ی اقت��دار میں س��رموفرق نہ کی بجائے کہ کانگریس اس تناسب کونابود کرنے کی کوشش کرتی سارا زور اس بات پر لگایا جاتاہے کہ مذاہب کی تبلیغی مساعی کونیست ونابود کردیا جائے۔ اورہم کو الٹی منطق یہ پڑھائی

جاتی ہے کہ تمام مذاہب برابر ہیں۔۳

ان قومی لیڈروں کے زعم میں م��ذہب کی ملکی اور ق��ومی ت��رقی کی راہ میں رک��اوٹ ک��اآائے دن فرقہ وارانہ فسادات ہ��وتے باعث ہے اورمذہب کے وجود کی وجہ ہی سے ہمارے ملک میں رہتےہیں۔ پس یہ لیڈر ق�ومی تنظیم اورف�رقہ وارانہ جنگ�وں کومٹ�انے کی خ�اطر ہم ک�و یہ س�بق پڑھ�اتے ہیں کہ مذہب ک��ا تعل��ق خ��دا س��ے ہے اور اس کوسیاس��یات میں دخ��ل دین��ا نہیں چ��اہیئے۔ چن��انچہ گذش���تہ ب���اب میں ہم مس���ٹر ڈیس���ائی ک���ا ق���ول نق���ل ک���رکے اس کی بط���الت ک���و واض���ح بھی ک��رچکےہیں۔ یہ ب���ات غل���ط ہے کہ م���ذہب ک���ا دنی���اوی تعلق���ات اور معاش���رتی تم���دنی اقتص���ادی اورسیاسی معاملات سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا یہ اصحاب م�ذہب کی غ��رض وغ��ایت س��ے ن��اواقف ہیں اگر مذہب ک�ا انس��انی زن��دگی کے مختل�ف ش��عبوں س�ے کس��ی قس��م ک��ا تعل��ق نہیں تودین��دار ش��خص وہ ہوگ��ا جوت��ارک ال��دنیا ہوج��ائے اوربی��وی ک��وطلاق بچ��وں ک��و ع��اق اورسوس��ائٹی کوچھ��وڑ چھاڑالگ ہوجائے۔حق تویہ ہے کہ جب تک مذہب دنی��اوی تعلق��ات کے س��اتھ واس��طہ نہ رکھے گ��ا

Page 43: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

لت غائی کوفوت کردیگا۔ قومیت وط��نیت ک��ا منطقی ن��تیجہ یہ ہے کہ م��ذہب انس��ان ک��ا وہ اپنی عل نجی مع��املہ ہے۔ اس ل��ئے وہ انس��ان کی سیاس��ی معاش��رتی اوراقتص��ادی زن��دگی پ��ر اث��ر ان��داز نہیں ہوسکتا۔ لیکن مذہب محض ایک اخلاقی نصب العین ہی نہیں بلکہ وہ مکمل دس��تور حی��ات ہون��اآادم کوص��رف عقائ��د م��ذہبی کی ہی تلقین کرت��ا نہیں۔ بلکہ اس کے چ��اہیے۔ م��ذہب ک��ا ک��ام ب��نی لم معاشرت پر بھی ح��اوی ہ��وتے ہیں۔ لہ��ذا انس��انی زن�دگی ک��ا ک�وئی ش��عبہ اس کے ہمہ اصول نظاآازاد نہیں ہوسکتا۔کوئی مذہبی شخص اپنی زندگی کو دویا اسے زی��ادہ طبق��وں میں گیر اقتدار سے منقسم نہیں کرسکتا ایساکہ ایک طبقہ مذہب کے زیر اثر ہو اوردیگ��ر طبقے کس��ی دوس��رے دس��تور العمل کے ماتحت ہوں۔بالخصوص مسیحیت نے زندگی کو ایک ناقابل تقس�یم وح��دت ق��رار دے دیا ہواہے ۔ خدا کی عبادت کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ انس�ان خل�ق خ�دا کی خ�دمت میں ہمہ تن مصروف ہو۔ بالخص��وص مس��یحیت کے اص��ول ہی ایس��ے ہیں کہ جب ت��ک ان ک��ا اطلاق انس��انییی تعلقات پر نہ کیا جائے وہ بے مع��نی رہینگے۔اب ک��ون ش�خص ایس��ا دی�دہ دل��یر ہوگ��ا ج��ویہ دع��وااص��ول ک��ا اطلاق ہندوس��تان کے تم��دنی ااخ��وت ومس��اوات کے یہی اب��وت اورانس��انی ک��رے کہ ال اقتصادی اورسیاسی معاملات پر نہیں کرنا چاہیے۔یہ ظ��اہر ہے کہ اگ�ر ان اص�ولوں ک�ااطلاق دنی�اوییی ہی تعلقات پر کیا جائے توہندوستان میں ایک سنہری دورشروع ہوجائیگا۔ اورمسیحیت کا تودع��و یہ ہے کہ اس کے اصول پر عمل کرنے س��ے دنی��ا کی کای��ا پلٹ ج�اتی ہے اور وہ ازس�رنو ای�ک ن�ئی دنیا بن سکتی ہے۔ اس کی صداقت کا معیار ہی یہ رہاہے کہ اس نے ہرزمانہ قوم اورملک کی کای��ا

یی کی صداقت پر اپنی مہرثبت کرتی ہے۔ لخ عالم اس دعو پلٹ دی ہے اور تاری

قومیت اوررواداریقومیت اوررواداری ہمارے قومی اورسیاسی لیڈررواداری کا سبق ہم کو سکھاتے ہیں ت��اکہ موج��ودہ ف��رقہ وارانہ فضا ص�اف ہوج��ائے۔وہ مختل�ف م�ذاہب کے پیش�واؤں کوکہ��تےہیں کہ تم ایمانی��ات کے ب�ارے میںاان عقائ��د ک��اذکر زب��ان پ��ر مت لاؤ ج��واختلافی مس��ائل ہیں کی��ونکہ اس ط��رح محت��اط رہ��و اوراس مختل��ف م��ذہبوں اورفرق��وں اورجم��اعتوں میں اختلاف کی خلیج بڑھ��تی چلی ج��اتی ہے اورق��وم کی

اان عقائ��د شیرازہ بندی نہیں ہوسکتی۔اگرتم چاہتے ہو کہ ہندوستانی قوم ایک واحد قوم بن جائے تو کا ذکر کی��ا کروجوتم��ام م��ذاہب میں مش�ترکہ عقائ��د ہیں۔ کی��ونکہ مختل��ف فیہ مس�ائل ک�اذکر کرن��ا ب��اہمی مخاص��مت اوردش��منی ک��و بڑھائیگ��ا اورمش��ترکہ عقائ��د ک��ا ذکرک��رنے س��ے دوس��تی اتح��اد

اوریگانگت کا رابطہ قائم ہوگا۔ابدھ معلم ڈاک��ٹر پی کلاراٹ��نے نے جوکولمب��و کے انن��د)Kularatne(چنانچہ مش��ہور

World(ک��الج کے پرنس��پل ہیں۔ گذش��تہ س��ال جمعیت الم��ذاہب ع��الم Congress of

Faiths(: لن تقریر میں فرمایا کے اجلاس میں جو کیمبرج میں منعقدہوا تھا دورا ک��ریں۔ کیا نہ بحث پر مسائل اختلافی اورغیراہم اہم کہ کوچاہیے والوں مذاہب " مختلف

کیا اوراق��رار ت��ذکرہ کا عقائد مش��ترکہ کہ ۔ چ��اہیے کرلینا تیہہ کا ب��ات اس کو ان بج��ائے کی اس ن�اموں مختلف کو دوس��رے اورایک چ�اہیے کردینا بند قلم یک استعمال کا الفاy کریں"کافر" وغیرہ

م���ردم کی نومری���دوں کے جم���اعتوں اپ���نی ہم کہ ہے لازم بھی یہ پر ہم ۔ چ���اہیے پکارنا نہیں سےرہیں"۔ نہ بڑھاتے شماری

علاوہ ازیں ہمارے لیڈر ہم کو یہ س��بق پڑھ��اتے ہیں کہ ج��واختلافی مس��ائل ہیں وہ محض عارضی اورغیر ضروری ہیں اورمش�ترکہ عقائ�د اص�لی بنی�ادی اور لازمی اورض�روری عقائ�د ہیں۔پس ہم کوچاہیئے کہ مق��ابلہ م�ذاہب میں عارض��ی اورغ��یر ض�روری ب�اتوں ک�ا ذک�ر چھ��وڑکر اص��لی اوربنی�ادی باتوں کا ذکر کریں تاکہ تمام مذاہب کے پیرو ص��لح اور اتف��اق کی ج��انب مائ��ل ہ��وں اورہندوس��تانآائے دن یہ بھی پرچار کیاکرتے ہیں کہ اختلافی مس��ائل ک��ا ذک��ر چھيڑن��ا عبث ایک قوم ہوجائے۔وہ اامور سے تعل��ق نہیں پس ان کوک��وئی اہمیت ہے کیونکہ روز مرہ زندگی کی عملی ضروریات کا ان نہیں دی��نی چ�اہیے۔ مس��ائل کے اختلاف پ��ر بحث کرن��ا ن�احق کی س�ردردی م��ول لین��ا ہے۔بس اللہ کوم��انو اور نی��ک عم��ل ک��رویہ ک��افی ہے۔ ہن��دو"مس��لم" مس��یحی" کی تم��یز ک��و مٹ��ادو کی��ونکہ ان اختلاف��ات کے ق��ائم رہ��نے س��ے ق��وم کی سیاس��یات پ��ر اثرپڑت��اہے۔ چن��انچہ مس��ٹر ڈیس��ائی نے ای��ک

لیکچر کے دوران میں کہا:

Page 44: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

کرنا موس��وم سے ن��ام ہن��دو" مس��لم" کے کو آاپ اپنے باشندے کے ہندوستان روز " جسہوجائیگا" آازاد ہندوستان روز اس کردینگے بند

(۔۱۹۳۶ فروری ۲۹ مورخہ ٹائمز )ہندوستان ہمارے مخاطب کہتے ہیں ۔ بس خدا کو مانو اور باقی جھگڑے چک�ادو۔ لیکن کی�ا یہ بات سچ ہے کہ تمام مذاہب خدا کی ہستی کومانتے ہیں ؟ کیا ہندو مذہب میں بعض فرقے ایسےادور نہیں جوسرے سے خدا کے قائل ہی نہیں؟ کیادہریت کا نام صفحہ ہس�تی س�ے مٹ گی�ا ہے؟ کی��وں ج��اؤ خودہم��ارے مل��ک ہندوس��تان میں ہ��زاروں خ��دا کے بن��دے ایس��ے موج��ود ہیں جوہم��ارےآاج اتح��اد سیاس��ی رہنم��اؤں کے ہمن��وا ہ��وکر کہ��تے ہیں کہ اگرہندوس��تان س��ے خ��دا کونک��ال پ��ائے ت��و ہوسکتاہے۔ پس واجب تویہ ہے کہ مذہبی رواداری خ��امی لگے ہ��اتھوں اس ب��ات پ�ر اص��رار ک�ریں کہ مختلف مذاہب کا یہ فرض ہے کہ خدا کا انکار کریں تاکہ ہندوستان کی قوم شیرازہ بندی ہوس��کے

!رہنے دے جھگڑے کویارتوباقی

ارکے نہ ہاتھ ابھی رہے گ گلو باقی ہم��ارے ق��ومی لی��ڈر م��ذہبی رواداری ک��ا س��بق دی��تے وقت ہم ک��و اس ابت کی تلقین ک��رتے ہیں کہلز عم��ل س�ے ق��ومی ض�روریات کوم�دنظر رکھ ک��ر ہم کس�ی م�ذہب چی��نی نہ ک�ریں۔ کی��ونکہ اس ط��ر لوگوں کے دلوں پر چوٹ لگتی ہے طرفین کے ج��ذبات مج��روح ہ��وکر ب��رانگیختہ ہوج��اتے ہیں۔ جس

کا نتیجہ سے فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں۔ جوقومی اتحاد میں سدہ راہ ہوتےہیں۔۲

جب ہم ان قومی رہنماؤں کی تقریروں اورتحریوں کوغور سے دیکھتے ہیں توہم پ��ر یہ ظ��اہر ہوجاتاہے کہ مذاہب کورواداری کاسبق مذہب کی خاطر بلکہ قومیت کی خاطر دیا جاتاہے اورس��بق دینے والوں نے نہ مذاہب کو دفعہ کیا ہے اورنہ ہی وہ مذہبی اختلافات کی اہمیت سے واقف ہونےاا بے نی�از ہ��وتے ہیں سے گوارا کرتےہیں۔ یہ اصحاب مذہبی اورامور میں فکر غورتجسس اور سے قعط

ک�ا نف�اذ ک�رکے ع�امتہ الن�اس س�ے خ�راج تحس�ین۱۴۴اوررواداری کے حامی بن کر مبلغین پ�ردفعہ وصول ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ جس طرح دیگ��ر بے س��روپا مبہم اوربےمع��نی الف��اy خلائ��ق ہ��وتے ہیں۔ اس��ی ط��رح م��ذہبی رواداری ک��ا لف��ظ بھی ہم��ارے ہی لی��ڈروقت اوربے م��وقعہ اورمح��ل دیکھے بغ��یراان کے اذہ��ان میں اس ک��ا ک��وئی خ��اص مع��تین مفہ��وم نہیں طوطے کی ط��رح س��نادیتے ہیں۔ لیکن آاش��نا ہ��وتے ہیں۔ تقری��روں اورتحری��روں س��ے ظ��اہر ہوت��ا۔کی��ونکہ وہ رواداری کے اص��ل مفہ��وم س��ے نا ہوجات��اہے کہ ان کوغ��وروفکر ک��رنے کی ع��ادت نہیں ہ��وتی۔وہ خی��ال ک��رتے ہیں کہ لی��ڈر وہ ش��خصآارائی کرس��کے اوروقت بے وقت ج��ا اوربے ج��ا اپ��نے مخ��الفوں کے خلاف اخب��ارات ہوتاہے۔جو غوغ��ا اورپلیٹ فارم پر سے دھواں دھار تقریریں اورعامیانہ حملے کرت��ا رہے۔ وہ ع��وام الن��اس کوخ��وش ک��رنےآادمی�وں کے بے اان کی س�ی ب�ات کہہ دی�تے ہیں اور اپ�نی ض�میر پ�ر چل�نے والے بااص�ول کے لئے

اان کی لیڈری میں کسی قسم کے خلل کا احتمال پیدا نہ ہو ۔ باکانہ پائمال کردیتےہیں تاکہ است برابر ہرکس مابمذہب معشوق

کرو نہ نماز وبزاد خورد باماشراب ایسے لیڈرو کی عبرت کی خاطر ہم یہاں مرح��وم لارڈ م��ارلے کی کت��اب" رواداری" کی عبارت نقل ک�رتے ہیں ت��اکہ وہ ان پرغ��ور ک�رکے اپ��نےزوایہ نگ�اہ کوب��دل س��کیں۔ لارڈ مرح��وم فرم�اتے

:12ہیںاجوں سیاسی ذمہ داری بڑھتی گئی ہے ہماری دماغی ذمہ داری کم ہ��وتی گ��ئی ہے۔ اجوں لیکن سوسائٹی کی بہبودی اسی میں ہے کہ یہ خلیج بڑھنے نہ پ��ائے۔ اگرسیاس��یات ہم��اری زن��دگی پر غالب ہوگی توہماری وسیع النظری جاتی رہیگی۔ اورصرف وہی باتیں ہماری دلچسپی کا م��وجباام��ور ی��ا نظ��ر ہوں گی جن کا ہماری مادی خوشحالی کے ساتھ براہ راست تعل��ق ہوگ��ا۔ ب��اقی مت��ام اان اث��رات یی درجے کے متص��ور ہ��ونگے۔ اس ک��انتیجہ یہ ہوگ��اکہ ق��وم کے اف��راد انداز ہوجائینگے یاادن سے الگ رہینگے جودرحقیقت قوم کو سب سے زیادہ تقویت پہنچاتے ہیں اور خیالات کووسعت اوررفعت بخشتے ہیں اورعالی دماغ انسان پیدا کرتے ہیں۔اول: وہ ان متام زبردس��ت اوروس��یع مس��ائل12 John Morley, on Compromise ,chapter 3

Page 45: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

اان کی طرف سے لاپروائی اختیار کرلیتے ہیں۔ جن کی جانب انسان ہمیش�ہ مت��وجہ رہ��ا ہے ۔ دوم۔ اان مس��ائل کے ج��واب کی تلاش میں لگے میں یہ خ��واہش نہیں رہ��تی کہ ہ��رچہ باداب��ادہم دل��یرانہ رہینگے ۔ اوراگرہم کوکوئی یقینی جواب نہ ملا۔ توکم زا کم ہم کو یہ تسلی توہوگی کہ ہم نے اپ��نی طرف سے کوئµ کسر اٹھا نہ رکھی۔ عوام الناس تواس قسم کے مسائل کی پ��رواہ بھی نہیں ک��رتے لیکن افس��وس ت��ویہ ہے کہ اس زم��رہ میں نہ ص��رف ع��وام الن��اس ہی داخ��ل ہیں بلکہ ایس��ے اش��خاص بھی پ��الے ج��اتے ہیں ج���وان مس��ائل کی اہمیت س��ے واق���ف ہ���وتے ہیں لیکن ان کے دم��اغوں پ��راانہ��وں نے ان اان کویہ خدش��ہ ہ��روقت دامن گ��یر رہت��اہے کہ اگر سیاسیات اس قدر مسلط ہوتی ہے کہ اان کے ح��ق میں اس ک��ا ن��تیجہ کہیں مض��ر ث��ابت نہ ہ��و۔پس وہ اس آازدانہ بحث کی ت��و مس��ائل پ��ر اامور کے متعلق رائے قائم کرنے س�ے کوس�وں دوربھ�اگتے بحث کے نزدیک نہیں پھٹکتے اوران اہم اان کے خیال میں اانہوں نے کوئی رائے قائم کردی ہے جو اان کو یہ خدشہ لاحق ہوتاہے کہ اگر ہیں۔ آائیگی کہ کس نمی ااتر جائینگے اوران پر وہی مث��ل ص��ادق راست ہوگی تووہ لوگوں کی نظروں سے پرسد کہ بھیا کون ہو۔ایسے لوگ کہتے ہیں کہ زندگی کوتاہ ہے۔ مبلغین کی جم��اعت میں ش��املاان کے مرغوب خ��اطر نہیں ہوت��ا۔ ش��ہدا ء کی جم��اعت میں وہ داخ��ل ہون��ا نہیں چ��اہتے۔ نہ وہ ہونا لہولگاکر شہیدوں میں شمار ہونا چ�اہتے ہیں ۔ پس وہ کہ��تے ہیں کہ نہ ان ب�اتوں پ�ر مت��وجہ ہ��و اورنہااس رائے کوظاہر کرو۔ ایسے طریقہ کار س��ے اپنی جان کو ہلکان کرو۔ بس نہ کوئی رائے قائم اورنہ

آادمیوں میں رضامندی قائم ہوگی۔ دنیا میں صلح اور اگراس طریقہ کار کا کوئی اورضررس�ا ں ن��تیجہ نہیں ہوت��ا ت�وکم از کم یہ ض��رور ہوت��اہے کہ ہماری ذمہ داری کا احساس کمزورہوجاتاہے۔ یہ احس�اس پہلے ت��یز ک��انٹے کی ط��رح ہم ک��و چبھت��ا تھا کہ ہم کسی خدا کے سامنے یاسوسائٹµ کے سامنے یا کم از کم اپنی ضمیر اورذہنی خودداری کے سامنے ذمہ دارہستیاں ہیں جن ک�و ہم نے ج��واب دین�اہے۔وہ ل��وگ جن ک��و ہم دقیانوس��ی خی�الاان کی روح کی نجات کا تمام دارومدار ح�ق کی قب��ولیت اوراس کے کرتے ہیں یہ مانتے تھے کہ اعلان پر منحصر ہے۔ اس قسم کی بزرگ ہستیاں بنی نوع انسان کے لئے ب��اعث فخ��ر تھیں لیکن

لر حاض��رہ میں ہم چ��راغ لے ک��ر بھی ڈھون��ڈھیں ت��وہم ک��و ایس��ے ش��خص نہیں مل��تے جن کی دو زندگیاں ہم کو حق کی خاطر لڑنے مرنے پر مائل ومحرک کرس��کیں۔ انگلس��تان کے متش��رع پی��وریاان آاتے ہیں حالانکہ نہ ہم ان کے عقائد کے معترف ہیں اورنہ ٹن ہماری نگاہوں میں شجا ع نظر کے مجنونا جوش کے حامی ہیں۔ لیکن ہم ان کی اس واسطے قدر کرتے ہیں اوران کووقعت کی نگاہ س��ے دیکھ��تے ہیں کہ کی��ونکہ وہ ح��ق کے متلاش��ی تھے اورح��ق کے اعلان ک��رنے میں وہ ذرالن ح��ق کے وقت یہ خی��ال نہیں ک��رتے تھےکہ کی��ا یہ وقت اعلان کے تام��ل نہ ک��رتے تھے۔ وہ اعلا مناسب اورموزوں ہے یا نہیں۔ کی��ا ع��وام الن��اس کی کث��یر جم��اعت ہم�اری حم��ایت ک�رے گی ی��ا نہیں۔ کی���ا اس کے کہ���نے س���ے ہم ک���و ک���وئی نقص���ان پہنچے گ���ا ی���ا نہیں۔ بلکہ ان میں س���ے ہرشخص حق کی خاطر اس طرح قائم رہتا تھاکہ گویا وہ ہر وقت خدا کی نگاہ کے سامنے کھ��ڑا

ہے"۔۳

سابق وزیر ہن�د مرح��وم نے من��درجہ ب�الا عب��ارت میں ہندوس�تان کے موج�ودہ لی�ڈروں کیاان کی موج��ودہ روش ک��ا ن��تیجہ بھی اان کو ااتار کر رکھ دی ہے اورعقلی دلائل کے ذریعہ گویا فوٹو سمجھا دیا ہے۔ لیکن ہندوس��تان کے خ��ود غ��رض لی��ڈر بیچ��ارے پیٹ کے غلام ہ��وتے ہیں۔ ان کی ب��ڑی ص��فت یہ ہے کہ وہ علم اور عق��ل س��ے ب��العموم خ��الی ہ��وتے ہیں۔ اب یہ ظ��اہر ہے کہ جس شخص نے مذہبی رواداری کے متعلق غوروفکر کرنے کی زحمت تک گ��وارا نہ کی ہ��و اورجس کی بداعمالیاں ظاہر کرتی ہوں کہ خ�دا اس س�ے ب�یزار ہے اورجوم�ذہب کے ن��ام س�ے ب�یزار ہ��و اوراس ک�و ہندوستان کے حق میں لعنت ک�ا ط��وق س�مجھتا ہ��و۔ اس ک�و م�ذہبی رواداری ک�ا س�بق پڑھ�انے ک�ا کوئی اختیار نہیں ہوسکتااورنہ ایسے شخص کی رواداری کوعقلی اوراخلاقی نقطہ نگاہ سے کوئی وقعت دی جاس���������کتی ہے۔ بلکہ اس کی رواداری اورمس���������المت اس کے عقلی افلاس اخلاقی

اوحانی پست حالی کی دلیل ہوگی۔ انحطاط اوراس کی ر

Page 46: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ابزدلی اورک��اہلی نے ہم��اری ق��وم میں ای��ک بے قاع��دگی اورغ��یر ذمہ دارانہ س��چ ت��ویہ ہے کہ آاپ کو مذہبی رواداری کے نام س��ے موس��وم ک��رتی ہے۔ درحقیقت آازادہ روی پیدا کردی ہے جواپنے یہ ح��الت اس ب��ات کی دلی��ل ہے کہ ہم��ارے خی��الات بے رب��ط ہیں اورہم میں یہ لی��اقت ی��اخواہش موجود نہیں کہ ان کو کسی نظام میں باہم پیوستہ کریں۔ہمارے ملک میں خیالات اورنظریوں کی بھر مارہے۔ لیکن چونکہ ان میں باہم کوئی ربط رشتہ یا سلسلہ نہیں ہوتا لہذا وہ بے لگام ہوتے ہیں اورعامتہ الناس لیڈروں اوراخبار ایڈیٹروں کے حالات کے رحم پر ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوت��اہےآارائی کرسکتے ہیں۔لیکن غوروفکر کرنے کے ع��ادی نہیں ہ��وتے ۔ کہ گوہم تقریر اوربحث میں غوغاااس قوم کا حشر کیاہوسکتاہے ج��و رواداری اورلاپ��روائی میں تم��یز نہ کرس��کے۔اوردنی��ا غورکا مقام ہے آاخرت دون�وں جہ�انوں کے اہم ت�رین س�والوں کی ج�انب بے نی��ازی اورغ�یر جانب�داری اوربے پ�روائی اور

اختیار کرلے؟ خی��الات کی بے ربطی اورتص��ورات کی بے قاع��دگی اورالف��اy ک��ا غ��یر معین مفہ��وم اس مصنوعی رواداری کی بنیادیں ہیں اور مسٹر گاندھی کی تحریروں اورتقری��روں کی یہ خصوص��یت ہےاان کے مفہوم کو متعین اورمق��رر ک��رنے کی زحمت گ��وارا نہیں کہ وہ الفاy کواستعمال کرتے وقت اا ہ��ریجن کی کیا کرتے جس کا ن�تیجہ یہ ہے کہ ان کے خی��الات پراگن��دہ اورپریش�ان ہ��وتے ہیں۔ مثل

آاپ کہتےہیں کہ:۱۹۳۴ ۳۰اشاعت مارچ ء میں Miss(" مس لیس��ٹر Lester(کے ل��ئے لف��ظ" مس��یح" ک��ا خ��واہ کچھ ہی مفہ��وم

ہومیرے لئے تووہ کسی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ وہ ایک صفت ہے جس کا موصوف کوئی ایک تواریخی شخص نہیں ہے۔ پس ہرشخص ک��ویہ اختی��ار ہے کہ وہ اپ��نے م��ذاق کے مط��ابق جس معلم اورپیشوا کویاکسی ایک منزہ عن الخطا ش��خص پیش��وا معلم اورہ��ادی کوح��ق م��انے اوراس ک��و

مسیح کہے"۔اام���ور پ���ر آاپ ک���و ان اہم مس���ٹرگاندھی کے خی���الات کی پریش���انگی کی وجہ یہ ہے کہ آاپ الف��اy ک�و ان معن��وں میں اس�تعمال ک�رتے ہیں جن غوروفکر کرنے کی فرصت اورعادت نہیں اور

معنوں میں وہ بالعموم مستعمل نہیں ہ��وتے اوران کواس��تعمال ک��رنے س��ے پہلے اپ��نے مفہ��وم ک��ومعین نہیں ک��رتے۔ کی��ونکہ اس کے ل��ئے س��وچ بچ��ار کی ض��رورت ہے اورس��وچ بچ��ار کے ل��ئے وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن بچارے مسٹر گاندھی کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ ان باتوں پر غور وخ��وض

کرتے کے لئے فرصت نکالیں۔فکر تطہیر بایدش نختیں پسفکر تعمیر شود آاساں ازاں بعد

۴ ہمیں یہ ب���ات ہرگوفرام���وش نہیں ک���رنی چ���اہیے کہ ح���ق کوچھپ���انے س���ے ہم ح���ق کی قدرواورمنزلت کوکم کرتے ہیں اورجیسامرحوم لارڈ مارلے کہ��تے ہیں ک��وئی ق��وم ت��رقی نہیں کرس��کتی جس نے حق کو دلیرانہ اظہار کا سبق نہیں سیکھا۔ پس جب قوم پرست ہم کو یہ صلاح دیتے ہیں کہ قوم کی خاطر اپنے خیالات کوجن ک��و تم س��چ م��انتے ہ��و دوس��روں پ��ر ظ��اہر مت ک��رو ت��وہم ح��یران ہ��وکر پوچھ��تے ہیں کہ کی��ا یہ ص��احبان ق��ومیت ک��و غل��ط رائے ع��امہ کی بنی��اد پ��ر۔ دنی��ا کی نکمی ش��ان وش��وکت وحش��مت پرخ��ود غرض��ی اورہ��وس پرس��تی پ��ر اور ان تم��ام ب��اتوں پ��ر جوح��ق اورروح��انیت کے من��افی ہیں ق��ائم کرن��ا چ��اہتے ہیں؟ کی��ا ک��وئی ش��خص جومن��افق ہ��و خ��وددار

ہوسکتاہے؟ اورکیا منافقانہ بنیاد پر ہندوستان کی قوم کی عمارت کھڑی ہوسکتی؟لت کج معمار نہد چوں اول خش

لر یامیر تاثر کج ودیوالر اث��ر لم قاتل ثابت ہورہی ہے کیونکہ اس کے زی یہ مصنوعی رواداری قوم کے حق میں س ہمارے ملک کے نوجوان س��وچنے کی زحمت اٹھان��ا نہیں چاہتےاورم��ذہب اوراخلاق اوررس��وم کےااص�ول کی حم��ایت ک�رتے ہیں اور یامنافق��انہ ط��ورپر معاملہ میں یا تو دیدہ دلیری کے س�اتھ جھ��وٹے

اخفائے حق کرتے ہیں اوراپنی حکمت عملی پر فخر اورناز کرتے ہیں۔

Page 47: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

بریں عقل ودانش ببابد گریستاان ان کا رویہ ث��ابت کرت��اہے کہ م��ذہب ان نوجوان��وں کی زن��دگیوں پ��ر حکم��ران نہیں رہ��ا۔اان ک���و ملامت نہیں ک���رتی اورتلاش ح���ق کے س���اتھ ہی ذمہ داری ک���ا احس���اس بھی کی ض���میر اوح انس�ان کے دل کوم�ذہب س�ے خ�الی پ�اتی ہے وہ ابری ر رخصت ہوگیاہے۔ سچ ت�ویہ ہے کہ جب ابری روحیں اپنے ہمراہ لاتی ہے اوراس ش�خص ک�ا ح�ال پہلے س�ے ے ب�دتر ہوجات�اہے)لوق�ا سات اور

(۔۲۶: ۱۱۵

بعض اوقات ہم کویہ کہا جاتاہے کہ اگرتم کسی عقیدہ کودرس��ت اور راس��ت س��مجھت ہو تو اس کو مان لو۔ یہ تمہ��ارا ح�ق ہے کہ تم اپ�نے کس�ی عقی��دہ ک��و ح��ق اورس��چا س��مجھو اوریہ حق خواہ مخواہ لوگوں میں جا اوربے جا۔ وقت بے وقت چرچ��ا ک��رتے پھ��رو۔لیکن ہمیں یہ یادرکھن��ا چ��اہیے کہ ح��ق اورراس��تی کس��ی کے ب��اپ ک��ا ت��رکہ اورم��یراث نہیں ہ��وتے اورنہ ک��وئی ش��خص زمینااس ک��و اورجائ��داد کی ط��رح ان ک��ا مال��ک ہوت��اہے۔ اس کے ب��رعکس جوش��خص یہ جانت��اہے کہ اکل سچائی مل گئی ہے وہ ای��ک امین کی ط��رح ہوت��اہے ۔ جس کے پ��اس ای��ک ام�انت پ�ڑی ہے جوآاسکتا تاوقتیکہ وہ امانت کا حق ادا نہ کرے۔ بنی نوع انسان کی ملکیت ہے۔ اس کو چین نہیں اوراگروہ خاموش رہے یا اخفاکرے توخیانت کا مجرم ہوگا۔ ح��ق ک��و ج��اننے کی وجہ س��ے ق��وم کی ترقی کی امانت اس کی تحویل میں ہے۔ پس اگروہ خاموش رہیگا یا اخف��ا ک��رے گ��ا توجھ��وٹ اورآاکر قوم کی جڑوں کوکھوکھلا کردینگے جس طرح جسم میں زائد مادہ ناراستی کے عناصر غالب رہ کر بدن میں زہریلا پھیلادیت��اہے۔ پس ج�و ش��خص اخف��ائے ح��ق کرت�اہے ی�ااعلان ح�ق س��ے گری�ز

کرتاہے۔ وہ درحقیقت نوع انسانی کا خائن اورقوم کا غدار ہوتاہے۔۶

مصنوعی رواداری کے مبلغین یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ ایک راسخ الاعتقاد ش��خص کے اعتق��ادات کی ح��دود ک��و تن��گ دلی اورع��دم رواداری پ��ر محم��ول ک��رتے ہیں اورلوگ��وں میں اس کے

خلاف پراپگینڈہ کرتے ہیں تاکہ ایسے شخص کے طرز عم��ل ک��واس کی اخلاقی پس��تی ک��ا ن��تیجہیی اورف�راخ ش�ے دکھ�ائی دی�تی ہے۔ پس بعض انس�ان تصور کرلیا ج�ائے ۔ رواداری بظ�اہر نہ�ایت اعل اس خوف سے کہ مبادا لوگ ان کو تنگ خیال ہ��ونے ک��ا طعنہ دیں اپ��نے ایم��ان وعقائ��د ک��و لوگ��وں پرظاہر نہیں کرتے۔لیکن اس قسم کا رویہ نہایت بزدلانہ رویہ ہے۔ کس��ی ب��اغیرت انس��ان ک��ا یہ ک��ام نہیں کہ وہ اس قس�م کے خ��وف کے م��ارے اپ�نے ایم�ان وعقائ��د ک��و ت�رک ک�ردے۔ اس قس��م کیااس رواداری حقیقی فراخدلی نہیں ہوتی بلکہ وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایسے ش��خص کے عقائ��د ک�ا ااس ک��ا دل کی عملی زن��دگی پ��ر ک��وئی اث��ر نہیں۔ اوروہ ایمانی��ات کی ج��انب س��ے لاپ��رواہ ہے۔ نورایمان سے بے بہ��رہ ہے ی�ااس ک�ا ایم�ان م�ردہ ب�انیم م�ردہ ہے۔ لیکن جب کس�ی ش�خص ک�ا دللرایمان سے منور ہوتاہے اوراس کا زندہ ایمان اورزندہ عقائ��د کے س��اتھ س�ابقہ پڑت��اہے اس قس��م کی نو غلط فراخ دلی کا فور ہوجاتی ہے اوروہ عصیبت اورع��دم رواداری میں تب��دیل ہوج��اتی ہے جودوس��روںلہ محبت ن��ڈر ہ��وکر دوس��روں پ��ر اپ��نے پر ناجائز حملے نہیں کرتی بلکہ اپنے عقائد پر قائم رہ ک��ر ازرا

خیالات ظاہر کرنے سے نہیں شرماتی۔۷

اا اام��ور میں خ��ود اپ��نی تعلیم وتبلی��غ پ��ر عم��ل نہیں ک��رتے۔مثل ہمارے سیاسی لیڈر پولیٹکل کانگریس اورمسلم لی��گ میں اختلاف��ات ہیں۔ ک��انگریس کے ان��در ای��ک پ��ارٹی گان��دھی جی کی ح��امی ہے اوردوس��ری مس��ٹر س��وبھاش چن��د رب��وس کی حم��ایت ک��رتی ہے۔اوردون��وں پارٹی��اں اپ��نےادور ک�رکے ای�ک دوس�رے س�ے رواداری ک��ا س��لوک اختلافات کے جو محض عارض�ی اورذاتی ہیں لدنظر رکھ ک��ر کبھی مس��ٹر نریم��ان پرسیاس��ت کی ج��اتی ہے۔ اان اختلاف��ات کوم�� نہیں ک��رتیں۔بلکہ کبھی ڈاکٹر کھارے پر عتاب نازل ہوتاہے۔ کبھی سبھاش بابو کوکانگریس سے خ��ارج کی��ا جات��اہے حالانکہ سب ک�ا نص�ب العین ای�ک ہی ہے۔پس سیاس�ی مع��املات میں اختلاف�ات کومٹ�ادینے کے وقت رواداری کے ح��امیوں کی زب��انوں پ��ر مہ��ر س��کوت ل��گ ج��اتی ہے بلکہ اس کے ب��رعکس ان

ء میں مس���ٹر۱۹۴۰اختلاف���ات کوق���ائم رکھ���نے کی تلقین کی ج���اتی ہے۔ چن���انچہ جب ف���روری

Page 48: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

آاپ آاپ کے خلاف مظاہرہ کی��ا۔ تب گاندھی بنگال ڈھاکہ میں مالیکنڈھ گئے تو بعض لوگوں نے لن تقریر میں فرمایا: نے دورا

آاپ آاپ ہیں پ��یرو م��یرے میں معنوں حقیقی " اگر ہونا نہیں ن��اراض سے مظ��اہروں ان کو ت��و اظہ��ار کا رائے اپ��نی کہ ہے حق کا ان رکھ��تے نہیں اتف��اق س��اتھ م��یرے ل��وگ جو کی��ونکہ چ��اہیے۔

لیکن ہوجائیگ�ا۔ خ�اتمہ کا ااس طورپر توقدرتی نہیں سچائی پرکوئی پشت کی ازم کریں۔اگرگاندھی رہیگ��ا۔ زن��دہ بھی ب��اوجود کے مظاہروں تووہ ہے قائم پر بنیادوں ٹھوس کی سچائی ازم اگرگاندھی

سن نہیں نع��رے خلاف اپ��نے ط��ورپر امن اپر اگ��رہم لیکن ہیں ہوس��کتے اختلاف��ات درمی��ان ہم��ارے ت�وہم کرس�کتے نہیں اظہ�ار کا س�پٹر دوس�تانہ ط�رف کی والوں رکھنے اختلافات سے اوراپنے سکتےیی کا ہ���ونے پرکاربند تش���دد ع���دم کو لوگ���وں بعض ابھی ابھی نے میں کرس���کتے۔۔۔۔ نہیں دع���و

کو ان ہیں چ��اہتے کرنا تب��اہ کو ازم گان��دھی جول��وگ سناہے لگاتے نعرے کے باد مردہ ازم گاندھی نہیں ہیں۔ چ���اہتے کہنا کچھ خلاف کے ازم گان���دھی ہے۔۔۔جول���وگ حق پ���ورا کا کہ���نے ایسا

اپ��نے کو کینہ خلاف کے لوگ��وں ان ہوس��کتا۔ نہیں نقص��ان ک��وئی سے اس دو۔ آازادی کی بول��نے آاپ کرس��کتے نہیں برداشت کی مخ��الفین اپنے آاپ طورپر امن اپر تک جب دو۔ نہ جگہ میں دلوں

کو دوس��رے ایک ہم کہیں۔ ہیں چ��اہتے کہنا جوکچھ وہ سکتے۔۔۔۔۔ سیکھ نہیں سبق کا آاہمسہ کودوست دوس��رے ایک ہمیں ب��اوجود کے ہے۔اس اختلاف درمیان ہمارے سمجھیں۔ کیوں دشمن

ء(۔۱۹۴۰ فروری ۲۲چاہیے)پرتاپ سمجھنااسی طرح پنڈت جواہر لال نہرو فرماتے ہیں:

اج��ازت کی ہ��ونے ش��ائع کے باتوں ان صرف ہم کہ نہیں مطلب یہ کا آازادی کی "پریس حم��ایت کی آازادی کی قسم اس بھی فرم��انروا ستمگر جابراور ہوں۔ شائع کہ ہیں چاہتے جوہم دیں

آادی کی اورپریس آازادی ملکی بلکہ کریگا۔ کی ہ��ونے ش��ائع کے باتوں ان ہم کہ ہے مطلب یہ کا آاز م���ارچ۱۵ ")ٹریب���ون ہیں من���افی کے ومقاصد اغ���راض ہم���ارے میں خی���ال جوہم���ارے دیں اج���ازتء(۔۱۹۴۰

ہم حیران ہیں کہ پولٹیکل امور میں ت��ویہ تعلیم دی ج�اتی ہے کہ ب�اہمی اختلاف��ات ک�ونظر انداز نہ کرو۔ بلکہ صبر اورتحمل، برداشت اورشانتی سے ایک دوسرے کی سنو ورنہ قوم کا ش��یرازہاامور سے بدرجہا اہم ہیں۔ہم کو یہ تعلیم دی جاتی اامور میں جوسیاسی بکھر جائیگا۔ لیکن مذہبی اان کا ن��ام ت��ک نہ ل��و۔ ورنہ ق��وم ک�ا ہے کہ باہمی اختلافات کونظر انداز کردو اورپبلک کے سامنے

شیرازہ بکھر جائیگا۔ ء کے روزمس��ٹر گان��دھی نے ک��وٹیم میں ہندوس��تانی مس��یحیوں۱۹۳۷جن��وری ۲۱چن��انچہ

کومخاطب کرکےکہا: اتحاد رابطہ مضبوط لیکن مرئی غیر ایک میں مجھ اور میں ان کہ ہیں جانتے "مسیحی

بڑے تمام کے دنیا کہ ہے مانتی یہ میرےساتھ تعداد بڑی ایک کی مسیحیوں کہ جانتاہوں میں ہے۔ واقف سے توہم��ات کے ہن��دوؤں میں کہ پڑت��اہے۔ کہنا سے درد ب��ڑے مجھے ۔ ہیں برحق م��ذاہب

دیگر ااص��ول بنی��ادی کے ہن��دومت کہ مانتا نہیں یہ میں کیونکہ ہندورہونگا۔ میں ہمہ بایں ہوں۔لیکن اور ص��لح میں دنیا کہ ہے یقین پ��ورا کا ب��ات اس مجھے ہیں۔ سےمختلف کےاصولوں مذاہب بڑے

الجھیں نہ میں مب���احثہ بحث م���ذہبی اگ���رہم ہے۔ ہوس���کتی ق���ائم ہی تب رض���امندی میں آادمی���وںہوتاہے"۔ سود بے کرنا ایسا کیونکہ

اامور کے متعلق بھی اس��ی قس��م ک��ا ای��ک اعلان واجب تویہ ہے کہ مسٹر گاندھی مذہبی کریں کہ:

"جول��وگ م��یرے م��ذہب کے س��اتھ اتف��اق نہیں رکھ��تے ان ک��ا ح��ق ہے کہ اپ��نی رائے ک��ا اظہار کریں۔ اگرم��یرے م�ذہب کی پش�ت پ��ر س�چائی نہیں ت�واس ک��ا خ��اتمہ ہوجائیگ�ا لیکن اگ�روہ سچائی کی ٹھوس بنیادوں پر قائم ہے تووہ نکتہ چینی کے باوجود زندہ رہیگ��ا۔ م��ذاہب کے درمی��اناپر امن ط��ورپر اپ��نے م��ذہب کے خلاف تقری��ریں نہیں س��ن اختلاف��ات ہوس��کتے ہیں۔ لیکن اگ��رہم سکتے اوراپنے سے اختلاف رکھنے وال��وں کی ط��رف دوس��تانہ س��پٹر ک��ا اظہ��ار نہیں کرس��کتے ت��وہمیی نہیں کرسکتے۔جولوگ میرے مذہب کوتباہ کرنا چ�اہتے ہیں۔ ان عدم تشدد پرکاربند ہونے کا دعو

Page 49: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

کو ایسا کرنے کا پورا حق ہے۔جولوگ ہندودھرم کے خلاف کچھ کہن��ا چ��اہتے ہیں انہیں اس کی آازادی دو۔ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوسکتا۔ ان لوگوں کے خلاف کینہ کو اپ��نےدلوں میں جگہآاپ آاپ اپ��نے م��ذہب کےمخ��الفین کی برداش��ت نہیں کرس��کتے، اپر امن ط��ورپر نہ دو۔ جب ت��ک آاہمسہ کا س��بق نہیں س��یکھ س��کتے، وہ ج��و کچھ کہن��ا چ��اہتے ہیں کہیں۔ ہم ای��ک دوس��رے ک��و دشمن کیوں س��مجھیں ہم��ارے درمی��ان اختلاف ہے اس کےب��اوجود ہمیں ای��ک دوس��رے کودوس��ت

سمجھنا چاہیے"۔لز اپنے ہی آاپ کودیکھیں عمل طر

ہوگی توشکایت کرینگے عرض کچھ کو ہم۸

جب ہم مسٹر گاندھی کی تقریروں اورتحریروں پرنظ��ر ک��رتے ہیں ت��وہم دیکھ��تے ہیں کہ وہااصول س��ے ال��گ اپ��نی رائے خود ہندومذہب کی نکتہ چینی کرتے ہیں اوربعض اوقات ہندومت کے ق��ائم ک��رکے اس کی ص��داقت پ��ر اص��رار ک��رتے ہیں۔ اوریہ رویہ کے خودس��اختہ اص��ول رواداری کے

آاپ نے ایک دفعہ فرمایا: اا خلاف ہے۔ مثل دی میں شاس��تروں اوردوس��رے س�مرتیوں ج�وتعلیم متعلق کے آاش�رم ورن کہ مانتاہوں یہ میں

الہ��امی لفظ ایک ایک کا شاس��تروں میں خی��ال م��یرے ہے۔ خلاف کے عقی��دہ م��یرے ہےوہ گ��ئی قب������ول اورقابل ہیں غلط وہ ہیں خلاف کے اوراخلاق عقل علم جوب������اتیں میں شاس������تروں نہیں۔

نہیں"۔ء(۔۱۹۳۵ نومبر۲۵ ٹائمز )ہندوستان

جب گان��دھی جی خودہندوشاس��تروں کی بعض تعلیم��ات ک��وعلم عق��ل اور اخلاق کےآاپ کے اپنے عقیدہ کے خلاف ہیں غلط قرار دی��نے خلاف تسلیم کرتے ہیں اورخود ان باتوں کوجو سے نہیں جھجکتے خواہ وہ سمرتیوں میں درج کیوں نہ ہوں ت�ووہ کس منط��ق کی رو س��ے غ��یرہنود سے ہند واصول وعقائد کونیک نیتی سے پرکھنے ک��ا ح��ق چھین س��کتے ہیں؟ ہندوس��تانی ق��وم کی

حقیقی فلاح اوربہبودی اسی پر منحصر ہے کہ خیالات کی مکمل طورپر چھان بین اورپڑت��ال کیاجدا ک��رکے باط��ل ک�و ت�رک کردی�ا ج��ائے اورص�داقت کواختی��ار کی��ا جائے اور صحیح کوغل�ط س��ے اجدا کیا جاسکتاہےجب اختلاف��ات ک��ونظر ان��داز نہ کی��ا جائے۔ لیکن صحیح کوباطل سے تب ہی ج��ائے بلکہ ان ک��و پیش نظ��ر رکھ��ا ج��ائے اور نی��ک نی��تی س��ے ان ک��و علم وعق��ل اوراخلاق " کی

کسوٹی پرپرکھا جائے"۔۹

حق تویہ ہے کہ ہ��ر انس�ان ک�ا یہ ف��رض ہےوہ اپ�نے عقائ�د س��ے جن ک�و وہ دل س�ے قب�ولآاج ایمانیات کو قومیت پر قربان ک��رنے ک��و تی��ار ہے کرتاہے۔ بے وفائی اورغداری نہ کرے جوشخص وہ بے باکی سے کل کے روز قومیت کوکسی اورش�ے پ�ر بے دری�غ قرب��ان کردیگ�ا۔اگرکس�ی ش�خص کا یہ ایمان ہے کہ اس کے عقائد درست صحیح اورعالمگیر ہیں یا کسی دسرے کے عقائد غل��طااس کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے خیالات ک��ا علانیہ اظہ��ار ہیں اوروہ جہالت اورضلالت میں پڑاہے۔ تولہ ہدایت پر لائے اوراگ��روہ غلطی پ��ر ہے ت��و خ��ودگمراہی س��ے کرے۔ اگروہ حق پر ہے تودوسروں کورا بچے۔ اگرہندومسلمان اورعیسائی ایک دوسرے کے اختلاف��ات ک��ونظر ان��داز ک��رنے کی بج��ائے ان ک�و نگ�اہ میں رکھیں اورتحقی�ق ح�ق کی خ�اطر تب�ادلہ خی�الات ک�ریں توک�وئی وجہ نہیں کہ محضاان کی باہمی پرخاش وجنگ وفساد کا موجب ہ��و۔ح��ق ت��ویہ ہے کہ اگرمختل��ف اختلافات کا وجود اا مذاہب ایک دوسرے کے اختلافات کو نگاہ میں رکھیں تواصلی اتحاد کی بنیاد پڑسکی ہے۔ مثلااس سے مختلف ہے تووہ بکر کے قول وفع��ل ک�و اس کے اگرزید یہ جانتاہے کہ بکر کا نکتہ نگاہ خیالات کی روشنی میں سمجھ سکتا ہے اور جان س��کتاہے کہ اس نے فلاں ب��ات کی��وں کہی اور فلاں کام کیوں کیا اوراس طرح طرفین میں س��مجھوتہ ہوس��کتاہے جودوس��تی اوراتح��اد ک��ا رابطہ ق��ائم ک��رنے میں مم��دومعاون ہوس��کتاہے ۔ لیکن اگ��ر بک��ر زی��د ک��وکہے کہ ہم دون��و ک��ا نقطہ نگ��اہ فی الحقیقت ای��ک ہی ہے اورہم میں ک��وئی بنی��ادی ف��رق نہیں ہے توزی��د ک��و بک��ر کے اق��وال وافع��ال پریشان کردیں گے۔اوروہ اپنے دل میں بکر کومنافق خیال کرنے میں حق بجانب ہوگا۔ پس واجب

Page 50: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ااص��ول اوراختلاف��ات ک��ونہیں تویہ ہے کہ زی��د اوربک�ر اس ب�ات پ�ر اتف��اق ک�رلیں کہ وہ اپ��نے بنی��ادی چھپائینگے۔ تب وہ اپنے باہمی تعلقات میں ان امور سے پرہیز کرینگے جن سے دوسرے کو چوٹ لگے اور دون��و لگات��ار اس کوش��ش میں رہیں گے کہ محبت س��ے دوس��رے کواپن��ا ہم خی��ال بن��الیں

اوریہی روش حقیقی اتحاد مصالحت اوررواداری کی بنیاد ہوسکتی ہے۔ چن��انچہ ای��ک دفعہ مس��ٹر گان��دھی کوای��ک ہن��دوطالب علم نے لکھ��ا ہے کہ م��یرا ای��کابت پرس��تی پ��ر ہم��ارا مسلمان دوست ہے۔ ہم دونوں ای��ک دوس��رے س��ے محبت رکھ��تے ہیں ۔ لیکن

جھگڑا ہوگیاہے۔ میں کیا کروں ۔ مسٹر گاندھی نے جواب دیا : نگ��اہ کومتعص��بانہ پرس��تی ابت ت��ووہ رکھت��اہے محبت حقیقی سے تم دوست تمہ��ارا "اگر

ایک وافع�ال اق��وال خی�الات کے دون�وں کہ ہے تقاض�اکریت کا بات اس جودوستی دیکھیگا نہ سے مختلف کے دوس���رے ایک دوست کہ ہے ۔لازم ہ���وتی نہیں پائ���دار دوس���تی وہ ہ���وں کے قسم ہی

کریں" برداشت کی اورافعال خیالاتء(۔۱۹۴۰ مارچ )ہریجن

۱۰ ہم کو ہرممکن دلیل سے یہ سمجھایاہے کہ ہم دوسروں کے خی��الات کی ع��زت ق��در اور وقعت ک�رنی چ�اہیے ۔ اوریہ ب�ات درس��ت ہے اورتس�لیم ک�رنے کے قاب�ل بھی ہے۔ لیکن اگ��رہم پ�ر یہ واجب ہے کہ ہم دوسروں کے خیالات کی قدرومنزلت کریں۔ تولاکلام ہم پر یہ واجب ہوجاتاہے کہ ہم اپنے خیالات کوبھی قدرومنزلت کریں۔ لیکن اگرہم اپنے خی��الات ک��و پ��ردہ اخف��ا میں رکھینگے اوران کو لوگوں پرظاہر نہ کرینگے توہم کس طرح اپنے خیالات کی قدراوروقعت کرسکتے ہیں؟ پس جہاں یہ لازم ہے کہ ہم ص�بر وتحم��ل اورمحبت کے س��اتھ دوس��روں کی ج��و ہم س��ے اختلاف رائے رکھتے ہیں سنیں وہاں ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ ہم خ��ود اپ�نے خی��الات ک��و اس ق��در وقعت دیں کہ ہماری زبانیں ان کی حقیقی ترجمان ہوں۔ اور ترجمانی کرتے وقت ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ " ہم

(۔ اورس��امعین پ��ر لازم ہے کہ وہ ہم��ارے۱۵: ۴محبت کے س��اتھ س��چائی پ��ر ق��ائم رہیں")افس��یوں

خیالات کو صبروتحمل اورمحبت کے ساتھ سنیں۔ سیدنا مسیح کے سنہری قانون پ��ر کہ "جیس��ا :۶سلوک تم چ��اہتے ہ��و کہ ل��وگ تمہ��ارے س��اتھ ک��ریں تم بھی ان کے س��اتھ ویس��ا ہی ک��رو")لوق��ا

(۔عمل کرنے سے ہندوستانی قوم کی مختلف جماعتوں میں رابطہ اتحاد قائم ہوسکتاہے۔۳۱

رواداری کااصلی مفہوم رواداری کااصلی مفہوم حقیقی رواداری یہ ہے کہ ہر شخص اپنے ایم��ان کی ح��دود کے ان��در رہ ک��ر محبت کی ارو سے اپنے عقائد کے علاوہ دیگر اشخاص کے مقابلہ کی برداشت کرے۔ اورجس طرح وہ خ��ود چاہتاہے کہ اس کے عقائد کے لوگ بے دریغ پائمال نہ کریں وہ بھی دوس��روں کے عقائ��د کوپ��اؤںyآام�یز الف��ا تلے نہ روندے بلکہ ان کی واجبی قدر کرے اوراگر ان کوغل�ط تص�ور کرت��اہے ت�ومحبت

میں دوسروں کوسمجھائے کیونکہ: محبت ص��ابر ہ��وتی ہے اورمہرب��ان ۔ محبت ش��یخی نہیں م��ارتی اورنازیب��ا ک��ام نہیں ک��رتیاورنہ جھنجھلاتی ہے۔ وہ راس��تی س��ے خ��وش ہ��وتی ہے اور س��ب ب��اتوں کی برداش��ت ک��رتی ہے")

(۔۴: ۱۳کرنتھیوں ۱ اچونکہ ایس�ے ش�خص ک�ا عقی�دہ خ�ود معین اورمرب�وط ہوگ�ا وہ محبت کے ذریعہ دوس�روں کے عقائد کو جانچ سکے گا۔ اوران کو ازارہ ہمدردی ق��در س��ے دیکھ��ا گ��ا۔ اورملائمت اورمحبتلہ راس��ت پ�ر بھرے دل سے گمراہ��وں کوس��مجھا ک��ر خ��ود راس��تی پ��ر ق��ائم رہے گ�ا اوردوس��روں ک��و را لائیگا ۔ حقیقی رواداری کی بنیاد محبت اور صرف محبت پ�ر ق��ائم ہوس��کتی ہے جومس�یحیت ک��ا

اصل الاصول ہے۔ کوئی شخص جوسیدنا مسیح ک��ا حلقہ بگ��وش ہے اپ��نے ایم��ان ک��و پ��ردہ اخف��ا میں نہیں

آاقا ومولا نے صاف فرمایا ہے کہ : رکھ سکتا ۔ ہمارے آاسمان پر ہے اس ک��ا آادمیوں کے سامنے میرا اقرار کریگا میں بھی باپ کے سامنے جو جوآادمی�وں کے س�امنے م�یرا انک�ار کریگ�ا میں بھی اپ�نے ب�اپ کے س�امنے اقرار کروں گا مگر جوکوئی

آاسمان پر ہے اس کا انکار کرونگا")متی (۔۳۲: ۱۰جو

Page 51: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

آادمی کواس کے باپ سے اوربی��ٹی ک��و ااصول کے اختلاف کی وجہ سے خواہ " مسیحی اجدا ہون��ا پ�ڑے"اورص�ورت ح��الات اس ق��در ن�ازک ااس کی ساس سے ابہو کو اس کی ماں سے اور

ااس کے اپنے گھ��ر کے ہی ل��وگ ہوج��ائیں")م��تی آادمی کے دشمن (پھ��ر بھی۳۵: ۱۰ہوجائے کہ " ااصول اوراعتقادات اامور میں وہ اپنے مذہب ک کسی مسیحی کا یہ کام نہیں کہ ایمانیات کے

سے غداری اوربے وفائی کرے۔ کیونکہ:اا س�ے کھ��وئے گ�ا اورج�و ک�وئی مس�یح اور انجی��ل " جو کوئی اپنی جان بچانی چاہے وہ

(۔۳۵کے واسطے اپنی جان کھوئے گا وہ اسے بچائے گا")مرقس آاگیا ہے کہ ہم ہرقسم کے مناد فقانہ رویہ اورمص��نوعی رواداری ک��وترک ک��ردیں ۔ اب وقت آانکھ بن�د ک�رنے کی ابرے پہلوؤں کی ط�رف س�ے ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم دیگر مذاہب کے غلط اور آازمائش میں نہ پڑیں۔ کیونکہ دورغ کے ساتھ رواداری کرنی فی الحقیقت حق کی مخالفت ک��رنی

ہے۔ ایک جگہ مسٹر گاندھی لکھتے ہیں کہ: " رواداری اورمص��الحت کی بنی��اد اس پ��ر ہے کہ ف��ریقین کچھ چھ��وڑدیں ۔ لیکن بنی��ادیاام��ور میں مص��الحت کرن��ا اامور میں ہم کسی بات سے دست بردار نہیں ہوسکتے ۔ کیونکہ بنی��ادی آاگے ہتھیار ڈال دیناہے۔ مصالحت ص��رف اس ح��الت میں ہوس��کتی ہے۔ درحقیقت فریق ثانی کے

اامور پر متفق ہوں")ہریجن ء(۔۱۹۴۰مارچ ۳۰جب فریقین بنیاد ی اان کے اص��ولوں میں ای��ک خلیج پس چاہئے کہ جہاں مذاہب میں حقیقی اختلاف ہو اورااصول درست ہیں۔ فرق صرف نقطہ نگ��اہ ک��ا ہے، بلکہ اس حائل ہو۔ ہم یہ نہیں کہیں کہ دونو ں کے برعکس ہم کو صاف علانیہ کہنا چاہیے کہ دو متضاد اصولوں میں س��ے ای��ک غل��ط نگ��اہ ک��ا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس ہم کو صاف علانیہ کہنا چ��اہیے کہ دومتض��اد اص�ولوں میں س�ے ای��ک غلط اوردوسرا صحیح ہے۔ کیونکہ اجتماع الضدین امر محال ہے لیکن ہم ک��و اس ب��ات ک��ا خی��اللز کلام ایسا ہو جس کے ایک ایک لفظ سے محبت ٹپکے اورہمارا نصب رکھنا چاہیے کہ ہمارا طر

اان کی روح��وں ک��و العین دوسروں کے جذبات مجروح کرنا نہ ہو بلکہ ہمارا اصلی مقصد یہ ہ��و کہ سچائی کی خاطر جیت لیا جائے ۔

پس مسیحی کلیس��یا پ��ر لازم ہے کہ جب کبھی ان کے مبلغین کوہن��دومت یااس��لام کے عقائد پر نکتہ چینی کرنی پڑے تووہ اپنے ناگوار فرض ک��و اس ط��ور س��ے س��رانجام دیں کہ دوس��رےاان کی ق��ومیت اورجم��اعت پ��ر اان کے عیوب ونقائص ک��و علانیہ ظ��اہر ک��رکے وہ خیال نہ کریں کہ آاڑ میں وہ بدیش��ی چ��یزوں اور خی��الوں کی ہن��دی چ��یزوں حملے کرتے ہیں یا مسیح اورمس��یحی کی اورخیالوں پر برتری ثابت کرنے کی کوش�ش ک�رتے ہیں کی��ونکہ یہ ب��ات ہندوس�تانی مس��یحی مبلغین کے اص���لی ارادہ اورج���ذبات کی ترجم���ان نہیں بلکہ حقیقت س���ے کوس���وں دور ہے۔ ہندوس���تانی مسیحیو ں کا اصلی مقصد یہ نہیں ہوتا کہ بدیشی چیزوں یا خیالوں ی�اغیر ملکی فلس�فہ ک�ا پرچ�ار کریں بلکہ ہمارا حقیقی منشا یہ ہے کہ ہمارے ابنائے وطن ہن�دو اور مس�لمان دون�وں خ�دا ب�اپ کی ازلی اوراب��دی محبت س��ے ج��ووہ گنہگ��ار انس��ان س��ے کرت��اہے واق��ف ہوج��ائیں اورس��یدنا مس��یح کےآاجائیں جس نے اس لازوال محبت کو اپنی تعلیم اورعمل سے بنی ن�وع انس��ان پ�ر ظ��اہر قدموں میں

کیا۔

مسیحی کلیسیا اورفرقہ وارانہ ذہنیت مسیحی کلیسیا اورفرقہ وارانہ ذہنیت کوئی شخص جس کے سر میں عقل ہے یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ مس��یحیت ک��ا وج��ود ہندوستانی قوم کے یک جاہونے میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ پس اس کی تبلیغ واشاعت ق��ومی مف��اداا بن��د نہیں کی جاس��کتی۔ اس میں کچھ ش��ک نہیں کہ تب��دیلی م��ذہب س��ے غ��یر کی بناء پر قانون مس���یحیوں کی تع���داد وش���مار پ���ر ض���رور اث���ر پڑیگ���ااور ف���رقہ وارانہ تناس���ب کی وجہ س���ے ہن���دوؤں اورمسلمانوں کے سیاسی اقت��دار میں ض��رور ف��رق پڑیگ��ا۔ لیکن مس��یحی کلیس��یا اپ��نی جم��اعت کی تع��داد بڑھ�انے کی خ��اطر اور غ��یر مس�یحیوں پ�ر اپن��ا سیاس�ی غلبہ ق��ائم ک�رنے کی خ��اطر لوگ��وں ک�و نجات کی دعوت نہیں دیتی بلکہ یہ اپنا فرض جانتی ہے کہ خداون�د کے حکم کی تعمی�ل ک�رےاروح��وں کی نج��ات کی خوش��خبری دے۔ اان کی غ��یر ف��انی اوراپ��نے غ��یر مس��یحی بھ��ائیوں ک��و

Page 52: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ہندوستان کے مسیحی قوم کی ترقی کے خواہاں ہیں۔ لیکن کسی ایک ف�رقہ کی ت�رقی کے خواہ�اں نہیں اورنہ وہ کس��ی ای��ک ف��رقہ کے سیاس��ی اقت��دار اورغلبہ کوق��ائم رکھ��نے کی خ��اطر اپ��نے مال��ک

اورمنجئی سے غداری کرنے کو تیار ہوسکتے ہیں۔۱

لل غ��ور ہے کہ ہندوس�تانی کلیس�یائے ان ف��رقہ وارانہ لڑائی��وں اورخ��انہ جنگی��وں میں یہ بات قابآائے دن کے ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادوں کورنج اورافسوس کی نظر کبھی حصہ نہیں لیا۔ بلکہ وہ سے ہمیشہ دمکھتی رہی ہے۔اس کی نگاہ ہمیشہ ق��ومی اتح��اد اورش�یرازہ بن�دی پ�ر رہی ہے۔ ن�اظرین کویادہوگا کہ جب ہمارے ہندو اورمسلم برادران لندن کی گول میز ک��انفرنس میں ف��رقہ وارانہ تناس��ب پر ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے تھے ہمارے ہندوستانی مسیحیوں نے ف��رقہ وارانہ تناس��ب کے اص��وللم قات��ل ہیں۔ اس ااص��ول ہندوس��تانی ق��وم کے ح��ق میں س�� کو مذموم قرار دیا اورعلانیہ کہا تھ��ا کہ یہ لر برطانیہ ک�و اپ�نی گذش�تہ خ�دمات ک�ا واس�طہ گول میز کانفرنس کے سامنے ہرایک اقلیت نے سرکا دے کر اپنے لئے خاص حق��وق طلب ک��ئے تھے۔مس��لمانوں نے کہ��ا تھ��ا کہ ہم اپ��نی وف��اداری کےآاپریشن کے دن�وں میں ہن�دوؤں ک�ا س�اتھ نہ دی�ا۔ ہم لئے ہندوستان بھر میں ممتاز ہیں۔ ہم نے نان کو

ء۱۹۱۴دہشت انگیز سیاسی تحریکوں سے ہمیشہ ال��گ تھل��گ رہے۔ س��کھوں نے کہ��ا کہ ہم نے کی جن��گ میں زبردس��ت پیم��انے پرف��وجی خ��دمات کی تھیں۔ی��ورپین اص��حاب نے کہ��اکہ ہم نے ہندوستان کی اقتصادی ترقی کے لئے لاکھوں پون�ڈ ص�رف کردئ�یے ہیں۔ لیکن ہندوس�تانی مس�یحی کلیس��یا کی " چھ��وٹی جھن��ڈ" نے س��رکار برط��انیہ پ��ر اپ��نے احس��ان نہ جتلائے۔ ح��الانکہ مس��یحی کلیسیا اعداد وشمار کے لحاy سے ہندوستان بھر میں تیسرے درجہ پر ہے اوراس کو اپنی خدماتااس نے م��ادروطن کی خ��اطر س��رانجام دی ہیں بج��ا ط��ورپر ن��از ہے۔ یہ مس��یحی مبلغین کی پ��ر ج��ولم ع��الم کے درمی��ان س��راٹھانے کے قاب��ل آاج ہم��ارا مل��ک اق��وا مخلصانہ کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آاف ان��ڈیا بیس ہ��زار س��ے زائ��د س��کول ہوگیاہے۔ ہندوستانی کلیسیا کی صرف اکی شاخ یعنی چ��رچ اورکالج تعلیم کی خاطر کھول رکھے ہیں )رومی کلیسیا کےسکولوں اورکالجوں کی تعداد اس س��ے

لر حاض��رہ کے کہیں زی��ادہ ہے( اوران میں پن��درہ لاکھ س��ے زی��ادہ ہندوس��تانی تعلیم پ��ارہے ہیں۔ دو ہزاروں لیڈر انہی سکولوں کی بدولت اورک��الجوں کی طفی��ل اس قاب��ل ہوگ��ئے ہیں کہ مل��ک کی ہمہ تن خدمت کرسکیں۔ ان کے علاوہ کلیسیا نے ایک ہ��زار س��ے زائ��د ش��فا خ��انے کھ��ول رکھے ہیں۔ جن میں چالیس لاکھ سے زیادہ مریضوں کی روزانہ بغیر کسی م��ذہبی امتی��از کے خ��بر گ��یری کی

جاتی ہے۔امیر ہم ہیں تڑپتے پہ کسی چلے خنجرہے میں جگر ہمارے درد کا جہاں سارے

اگن��ا زی��ادہ خوان��دہ انا اورمس��لمانوں س��ے چ��ار مسیحی کلیسیا کے افراد ہندوؤں سے تین گ ہیں ان تمام خدمات کے باوجود اپنے اع��داد وش�مار کے ب�اوجود مس�یحیوں نے گ�ول م�یز ک�انفرنسااص��ول کی م��ذمت کی میں اپنی جماعت کے لئے خ��اص حق��وق طلب نہ ک��ئے ۔ بلکہ ف��رقہ وارانہ آال ان��ڈیا آال ان��ڈیا کرس��چن ک��انفرنس اور کیونکہ ہندوستانی مسیحی فرقہ وارانہ ذہنیت س��ے پ��اک ہیں۔ کیتھولک کانگرس نے ب�ار ب��ار یہ اعلان کی��اہے کہ ف��رقہ وارانہ تقس�یم اورف��رقہ وارانہ تناس��ب ہندوس��تان

کے قومی مفاد کے حق میں مضر ہیں کاشکہ کانگریس بھی ایسا کرتی۔۲

حقیقت تویہ ہے کہ ہندوس��تان میں مس��یحی کلیس��یا ہی ای��ک واح��د م��ذہبی جم��اعت ہے جوحقیقی معنوں میں قوم کی دلدادہ ہے اس امر ک��ا ح��ال ہی میں ک��انگریس کے چ��وٹی کے لی��ڈر مسٹر س�تیامورتی نے م�دراس ک�الج میں اق��رار تھ��ا۔ف��رقہ وارانہ تقس�یم مس�یحیت کے اص�ول کے عینااخ��وت ومس��اوات پ��ر مب��نی ہیں۔ یہی اب��وت اورانس��انی ااص��ول ال نقیض ہے۔ کی��ونکہ مس��یحیت کے آاش�تی ص�لح اورمحبت مسیحیت اس بات پرزوردیتی ہے کہ ہر قسم کے متن��ازعہ فیہ ام�ر ک�ا فیص��لہ کے ساتھ کیا جائے۔لین فرقہ وارانہ ذہ��نیت ک��ا رحج��ان یہ ہے کہ متن��ازعہ فیہ ام�ور ک��ا فیص��لہ ط��اقت کے مظاہرے سے کیا جائے۔ جب تک ہم فقط اپنی جم�اعت کی ض�روریات اور حق�وق پیش نظ�ر رکھ کر اپنی جماعت اورفرقہ کو مقدم اورہن�دی ق�وم کے دوس�رے فرق�وں ک�و م�وخر س�مجھیں گے،

Page 53: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

آاتش بھڑکتی رہے گی۔ پس ان حالات کو پیش نظر رکھ کر ہندوس��تانی کلیس��یا تب تک فرقہ وارانہ بے خوف و ہراس یہ اعلان کرتی ہے کہ باہمی ف��رقہ وارانہ کش�مکش ک�ا واح��د علاج محبت ک�ا وہ ااصول ہے جوس��یدنا مس�یح ہندوس�تان کے مختل�ف فرق�وں اورگروہ��وں جم�اعتوں اورملت�وں کے س�امنےااخ��وت اورمس��اوات کی ل��ڑی میں منس��لک ہ��وکر ای��ک پیش کرت��اہے ۔ ت��اکہ تم��ام ہندوس��تانی محبت لم ہن��د کی تقس�یم ک�رکے پاکس�تان اور"ہندوس�تان" ق��ائم کرن�ا واحد قوم بن ج�ائیں۔ دیگ�ر م�ذاہب ق��و چاہتے ہیں۔ کیونکہ ان فرقہ پرست لوگوں کے لئے مذہب محض ای�ک وس�یلہ ہے جس کے ذریعہ ان ک�ا ف��رقہ دنی��اوی ت�رقی اقتص��ادی غلبہ اورسیاس�ی اقت��دار حاص��ل کرس��کتاہے۔ لیکن مس��یحی کلیس��یاآالہ کار نہیں بناتی اورنہ بنانا چاہتی ہے۔ لیکن اس پر بھی ہمارے غ��یر مذہب کو دنیاوی اغراض کا

مسیحی برادران مسیحی کلیسیا کے وجودکوقومی مفاد کے خلاف خیال کرتے ہیں!اامید ہے کی وفا سے اان کو ہم

ہے کیا وفا جانتے جونہیں

مسیحی کلیسیا اورقومیت مسیحی کلیسیا اورقومیت مسیحیت کے مخالفوں کی زبان سے عام طورپر یہ سناجاتاہے کہ ہندوستان کے مسیحی وطن اورق��وم کے دش��من ہیں۔ اس س��نگین ال��زام کے ثب��وت میں گان��دھی جی اوران کے ہم خی��ال ہندوستانی مسیحیوں کے مذہب اور ان کے وسیع نکتہ نظر۔ ان کی بین الاقوامی سیاسی نگ��اہ۔ ان کی طرز رہائش رسوم ورواج وغیرہ کو پیش کرتے ہیں۔اس الزام کا اصلی سبب یہ ہے کہ الزام لگانے والے مسیحیت اورہندوستان کو ہند ونکتہ نظر اور سودیشی کے تنگ زاویہ نگ��اہ س��ے دیکھ��تے ہیں۔ااوپر نہیں چڑھ سکتا اسی ط��رح بعض ہن��دو اص��حاب اپ��نے م��ذہبی جس طرح پانی اپنی سطح سے ااوپ�ر پ�رواز نہیں کرس�کتے۔ یہی وجہ ہے کہ مس�ٹر گان�دھی تعص�بات اورف�رقہ وارانہ نکتہ خی�ال س�ے اان کے ہم خیال نام نہاد" قومی لیڈروں کی ہندوستان کے تمام فرقوں اورحلقوں کے دلوں میں وہ اوراان ک�و حاص�ل تھی جب وہ ص�دق دل اورخل�وص نیت س�ے عظمت نہیں رہی جوچند س�ال ہ��وئے

تمام جماعتوں اورفرقوں کی قومی نکتہ نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔

مسٹرگاندھی کہتے ہیں کہ مسیحیوں کی عادات اورط��رز رہ��ائش ق��ومیت کے من��افی ہیں۔ ہم اس الزام ک�ا مطلب س�مجھنے س�ے قاص�ر ہیں۔ یہ ال��زام ف��رض کرلیت��ا ہے کہ تم�ام ہندوس��تان کے لوگ کسی ایک طرز رہائش۔ لباس، تمدن وغیرہ پر اتفاق رکھ��تے ہیں جوق��ومی نکتہ نگ�اہ س��ے ک��لقوم کا مقررہ معیار ہے اورہندوستانی مسیحی اس قومی معی��ار کے مط�ابق زن�دگی بس�ر نہیں ک�رتے۔ لیکن یہ اظہر من الش��مس ہے کہ ہندوس��تان بھ��ر میں ک��وئی ایس��ا معی��ار زن��دگی نہیں اورنہ اس کیاا مس�ٹر گان�دھی ک�ا اص�لی مطلب یہ ہے کہ ت�اریخ میں کبھی ایس�ا معی��ار ق�ائم کی��ا گی��ا ہے ۔ غالب�� مس���یحی جم���اعت کے اف���راد ہن���دوؤں کی خ���اص رس���وم اور ط���رز لب���اس ، ط���رز رہ���ائش نشس���ت وبرخاست ۔ کھان��ا پین��ا وغ��یرہ کے پابن��د نہیں ہیں لیکن یہ ظ��اہر ہے کہ ہن��دوؤں ک��ا طرزتم��دن ق��ومی معی��ار نہیں ہے۔ اورنہ وہ ق��ومی معی��ار ق��رار دی��ا جاتای��اقرار دی��ا جاس��کتاہے۔ بلکہ ح��ق ت��و یہ ہے کہاا جن��وبی ہندوجماعت کے تمام افراد بھی کسی ایک ط��رز تم��دن اورہ��ائش پ��ر متف��ق نہیں ہیں۔ مثل ہند کی برہمن عورتیں غیر برہمنوں کا س�ا لب��اس نہیں پہن��تیں بلکہ ان کی گھریل�وں ب�ولی ایس�ی ہےآاگ لگ جاتی ہے۔ ہندو دائ��رہ کے ان��در ہ��ر ذات کہ اس کو سن کر غیر برہمنوں کے تن بدن میں

لز رہائش طرز تمدن وغیرہ میں اختلاف ہے۔ اورفرقہ کی زبان طربدنام ہیں توہوجاتے ہیں کرتے بھی آاہ ہمہوتا نہیں توچرچا ہیں کرتے بھی قتل وہ

س��چ ت��ویہ ہے کہ ہندوس��تان کے مختل��ف حص��ص کے ن��وے فیص��دی مس��یحی دہی ط��رزآاباواجداد کا تھا۔ مسیحی ایمان ہندو دھرم ی��ا اس��لام کی ط��رح اپ��نے اان کے تمدن رکھتے ہیں۔ جو مقلدین کوکسی خاص لباس، کھانا پینا، نشست وبرخاست طرز رہائش وغیرہ کس��ی خ��ارجی ب��ات

کی نسبت مجبور نہیں کرتا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ: آایت("۸ب��اب ۸کرنتھیوں ۱کسی خاص قسم کا کھانا ہم کو خدا سے نہیں ملائے گا")

ااس خوش�ی پ�ر موق�وف ہے خدا کی بادشاہت کھانے پی�نے پ�ر نہیں بلکہ راس�تبازی اورمی�ل ملاپ اورباب وغيرہ(۔۷۔مرقس ۱۷: ۱۴جوروح القدس کی طرف سے ہوتی ہے)رومیوں

Page 54: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ہم اس نکتہ ک�و ط�ول دین�ا نہیں چ�اہتے کی�ونکہ ہم اپ�نے رس�الہ کلمتہ اللہ کی تعلیم میں اس بات پر مفصل بحث کرچکے ہیں۔ ہندوستانی مسیحی اپنی قوم کا غدار نہیں ہوت��ا۔ وہ ص��رف فرسودہ عقائد اورباطل اصولوں کوترک کرتاہے۔ وہ اپنے ملک کی سیاسی ذمہ داریوں سے س��بکدوش نہیں ہوجاتا بلکہ چاہتاہے کہ سیدنا مسیح سے توفیق پاکر وہ ان ک��و کم��احقہ س��ر انج��ام دے ۔ وہ مسیحی عقائد کو قبول کرتاہے۔ لیکن مغربی خیالات کو کورانہ تقلید نہیں کرت��ا۔ بلکہ اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کلیس��یائےجامع ک��ا ص��حیح ایم��ان ہندوس��تانی پ��یرایہ میں پیش کی��ا ج��ائے ت��اکہآائے ۔ وہ مس�یحی ایم�ان کی مغ��ربی مسیحیت ہندوستان میں بدیشی خی��الات ک�ا مجم�وعہ نظ�ر نہ اجدا ک��رکے ان ک��و مش��رقی فلس��فہ کے لب��اس میں م��زین کرن��ا فلس��فہ اورخی��الات کے ع��وارض س��ے چاہت��اہے ت��اکہ وہ کس��ی کوغ��یر م��انوس معل��وم نہ ہ��و۔وہ اس ب��ات ک��ا بھی خواہ��اں نہیں کہ مغ��ربیااس ک�و اس ممالک کی کلیسیاؤں کے مذہبی رسوم ورواج ک�و غلام�انہ ذہ�نیت س�ے اختی�ار ک�رلے۔ ب�ات پ�ر ن�از ہے کہ ہندوس�تانی مس�یحیوں ک�و خ�دا نے ای�ک ق��ومی وراثت بخش�ی ہے ج�و نہ ہن��دونہ مسلم بلکہ ہندوستانی وراثت ہے اورکہ مسیحی اس وراثت کے نگہبان اورمخت��ار اورمین ہیں۔ پس وہ چاہتاہے کہ وہ دیانتدار مختاروں کی طرح اس وراثت کی نگہداشت ک��رکے کلیس��یائے ج��امع کی خاطر اس کا جائز استعمال کرے تاکہ بنی ن�وع انس��ان کی ت��رقی ہ��و۔ہم�ارے غ��یر مس�یحی ب�رادراناام�ور اامور میں سوراجیہ ک�ا مط�البہ ک�ررہے ہیں۔ لیکن ہندوس�تانی مس�یحیوں نے م�ذہبی ابھی سیاسی میں سوراج حاصل کرلیاہوا ہے۔ چنانچہ کلیسیائے ہندوستان برماولنکا کلیسیائے جامع کا ایک خود

مختار حصہ ہے اوراس کا نصب العین یہ ہے۔ کہ ہم ہندوستان میں کے ملک ہم�ارے کہ ک�ریں پیش سے ط�ور ک�واس ج�امع کلیس�یائے اوررسولی واحد پاک

کلچ��ر)ثق��افت( کی اپنی ہمراہ اوراپنے لگیں سمجھنے گھر روحانی حقیقی کواپنا کلیسیا اس فرزند ملک یہ کہ ہے دعا یہ کی بش��پوں تم��ام کے کلیس��یا ہ��وں۔اس ش��امل میں اس کر لے واقت��دار دولت ت��اکہ ۔ ہے مس��یح س��یدنا مظہر کا جس ک��رے رج��وع ط��رف کی علم ااس کے جلال کے خ��دا

ااس ہندوس�����تان داخل میں زن�����دگی کر نکل سے م�����وت ہے مح�����روم تاح�����ال سے فیض کے ج�����و(۔۸ ،۷ صفحہ ہوجائے")ضابطہ

ان روشن حقائق کے باوجود اخبار انڈین سوشل ریف��ارمر کے ہندوای��ڈیٹر کی دی��دہ دل��یریملاحظہ ہووہ لکھتاہے:

ہم��ارے دیس میں تبلیغی مش��نوں ک��ا ب��ڑا مقص��د یہ ہے کہ ہم��ارے مل��ک کی روای��اتء(۔۱۹۴۰۔ مئی ۲۵اورزندگی اورکلچر کوتباہ کریں")

آاستیناں بیں درازدستی ایں کوتاہ اانہ��وں نے ہندوس��تان کے مس��یحی ہمیش��ہ اس ب��ات پ��ر اص��رار ک��رتے رہے ہیں کہ اگ��رچہ ہندومت یااسلام یاسکھ مذہب کوترک کردیاہے تاہم وہ ہندوستانی ق��وم کے ف��رد ہیں۔ غ��یر مس��یحیوں نے تویہ خیال کر رکھاہے کہ جب انسان اپنے م�ذہب ک�وترک کرت�اہے ت�ووہ اپ�نی ق�وم ک�و بھی ت�رک کردیتاہے۔اس لحاy سے ہندوستان بہت سی اقوام پر مشتمل ہوگا۔ اسلامی قوم، ہن��دی ق��وم، س��کھ

ااس نے ہندوس��تان۱۹۴۰ق��وم وغ��یرہ۔ مس��لم لی��گ ک��ا جوس��الانہ جلس��ہ م��ارچ ء میں لاہ��ور میں ہ��وا۔ کےمسلمانوں کوایک جداگانہ قوم قرار دے دیاہے۔ اوریہ اس ذہنیت ک��ا لازمی اورمنطقی ن��تیجہ ہے۔ جب ہندواورمسلمان کسی شخص کو مذہب کے ت�رک ک�رنے پ�ر اپ�نی ذات ب�رادری خان�دان ملت اور قوم سے خارج کردیتے ہیں تو وہ گویا تسلیم کرلی��تے ہیں کہ اس مل��ک میں جت��نے م��ذاہب ہیںآاباد ہیں اورکہ انسان اپنے مذہب کو ترک کرنے پر اپنی قوم کو بھی ت��رک کردیت��اہے۔ اتنی ہی قومیں آاپ لیکن ہندوستان کے مسیحیوں نے اس قس�م کے نظ��ریہ ک�وکبھی قب�ول نہ کی�ا اوروہ ہمیش�ہ اپ�نے لث فخر خیال ک��رتے رہے۔ ان کے نزدی��ک ق��وم ای��ک سیاس��ی تص��ور رہ��اہے کو ہندوستانی کہلانا باع جس کا مذہب کی تبدیلی کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں۔ مسیحیوں اورغ��یر مس��یحیوں کے تمدنی اورتعلیمی اوراقتصادی ح�الات و روای��ات میں ک�وئی ف��رق نہیں ۔ دون�وں ای�ک ہی م�ادر وطنآازادی چ��اہتے کے فرزند ہیں۔ اورایک ہی نسل سے پیدا ہوئے ہیں۔ہندوستانی مسیحی ص��رف م��ذہبی ہیں اوراس مطالبہ میں کوئی صاحب ہوش یہ نہیں کہیگا کہ وہ حق اورراستی پ��ر نہیں ہیں۔ وہ ج��و

Page 55: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ب��اب۲۲قیصر کا ہے قیصر کودینا چاہتے ہیں اورجو خدا کا ہے وہ خ��دا ک��ا دین��ا چ��اہتے ہیں۔)م��تی (۔۷ تا ۶: ۱۳۔ رومیوں ۲۱

۲لب وطن ہیں۔ اوروہ یہ گ��وارا نہیں ک��رتے کہ ک��وئی گ��ورنمنٹ ہندوستان کے مس��یحی محآالہ کار بنائے اورلوگوں اورملک��وں ک��و اپ��نی مل��وکیت کی مسیحیت کواپنی سیاسی اغراض کی خاطر خاطر غلامی کا طوق پہنائے۔ مسیحیت ایک غالب اورفاتح مذہب ہے۔ جس کا سیاسی غلبہ سے ک��وئی تعل��ق نہیں۔ وہ کس��ی دوس��رے مل��ک کی مل��وکیت س��ے وابس��تہ نہیں ہے۔ بلکہ مس��یحیآاگے سربس��جود لن ع��الم پ��ر ح��اوی ہے اورتم��ام ممال��ک وازمنہ کے اف��راد مس��یح کے مل��وکیت ادی��ا

(۔ بسااوقات مسیح کی ملوکیت اورسیاسی ملوکیت میں تص�ادم واق��ع ہ��وا۔ہ��زاروں۲۱: ۱ہیں)افسیوں آالہ کار بنانا چاہا۔لیکن وہ ناکام رہے اورمنجئی ع��المین کی مل��وکیت بادشاہوں نے مسیحیت کو اپنا آائی۔ پس گوہندوس��تان کی مس��یحی کلیس��یا حب الوط��نی کے ج��ذبہ س��ے سرش��ار س��ب پ��ر غ��الب ہےلیکن وطن پرس��ت نہیں ہے۔کی��ونکہ وہ ق��وم اوروطن کی نہیں بلکہ خ��دا کی پرس��تش ک��رتی ہے۔اجداگانہ باتیں ہیں۔ ق��وم پرس��ت ص��رف اپ��نی ق��وم س��ے محبت حب الوطنی اورقوم پرستی یاوطنیت دوآاگے رکھت��اہے وہ غ���یروں س��ے محبت نہیں رکھت���ا۔اس کی گ��ردن ص��رف اس کی اپ��نی ق���وم کے جھک�تی ہے اوروہ خی��ال کرت�اہے کہ اس کی ق�وم کی ہ��ر چ��یز اورہرب��ات اچھی ہے اوراس میں کچھ نقص نہیں ہوسکتا۔ وہ صرف اپنی قوم کی ترقی اورخوشحالی کا خواہاں ہوتاہے۔ خ��واہ دیگ��ر اق��واملت زندگی سے اس کو مطلق س��روکار نہیں کو پائمال کرنے سے حاصل ہو۔ دیگر اقوام کی ضروریا ہوت��ا۔ اس نص��ب العین ک��ا ن��تیجہ یہ ہوت��اہے کہ ق��وم پرس��ت ک��ا مل��ک غ��الب اورزبردس��ت ہوجات��اہے اوردیگر اقوام وممالک مغلوب اورزیردست ہوجاتے ہیں اوریہ صلح کش مقص��د دنی��ا کے جنگ��وں کے آاغاز کا اصلی سبب ہوت��اہے۔ پس ہندوس��تانی مس��یحی کلیس��یا اس قس��م کی وط��نیت اورق��وم پرس��تیااخ��وت ومس��اوات اور کے تصور س اتفاق نہیں کرسکتی۔ کیونکہ یہ طرز عمل بنی نوع انسان کی لب وطن ہے۔ قوم پرس�توں کی ط��رح محبت کی منافی ہے۔ لیکن ہندوستان کی مسیحی کلیسیا مح

مسیحی اپنے مادروطن سے محبت رکھتے ہیں۔ لیکن وہ قوم پرس��توں کی مانن��د غ��یروں س��ے نف��رت وحقارت کا سلوک رکھنے کے روادار نہیں ہوسکتے۔ ہندوستانی مسیحی اپنے ملک کو ہر شے ک��واا جہالت ذات پات کی تمیز لر استحسان نہیں دیکھتے بلکہ اپنے ملک کے عیوب ونقائص مثل بنظ عورت�وں کی پس��ت ح��الت ، بے ہ��ودہ روای�ات، اقتص��ادی اور سیاس�ی کمزوری�وں وغ��یرہ س��ے بخ��وبی واقف ہیں اورہر مکن طورپر جدوجہد کرتے ہیں کہ ہندوستان جنت نش��ان کے چہ��رہ زیب��ا س��ے یہلر وطن پ�ر ن��ازاں ہیں۔ لیکن بے ج�ا فخ��ر ک��رکے دیگ�ر ممال��ک بدنما داغ دور ہوجائیں۔ وہ اپنے م��اد واق��وام کی اچھی چ��یزوں ک��و پس پش��ت نہیں پھینک��تے۔ ان ک��ا نص��ب العین یہ نہیں کہ ص��رف ہندوستان ہی خوشحال اورترقی پذیر ہو وہ دیگ��ر ممال��ک واق��وام کی ت�رقی کے بھی خواہ��ا ہیں۔ اورانلل وقعت خی��ال ک��رتے ہیں اوران ک��و بدیش��ی ق��رار دے ک��ر کے خیالات روایات اورثقافت کوبھی قاب�� بغیر س�وچے س�مجھے رد نہیں کردی�تے۔ وہ ہندوس�تان ک�و بین الاق��وامی خان�دان اورن�وع انس�انی ک�ا جزولاینفک سمجھ کر ملکی ترقی کو سیم وزر کی محک پر نہیں بلکہ نیکی انص��اف راس��تبازی اورمحبت کے معی��ار س��ے پرکھ��تے ہیں ۔ وہ خ��دا کی بادش��اہی کوہندوس��تان میں ق��ائم کرن��ا م��وجباان کا نجات دہندہ کل دنیا کے ممالک واقوام کو اورکل بنی ن��وع سعادت داریں خیال کرتے ہیں۔ ااس کی خ��اطر زا ر آایا تھا۔ تاہم وہ اپنے وطن ک��و اس ق��در پیارکرت��ا تھ��اکہ انسان کوبچانے کے لئے

وغ���یرہ(پس اس نم���ونہ کے مط���ابق تم���ام جہ���ان کے۳۵ت���ا ۳۴: ۱۳، ۱۹:۱۴زار روی���ا تھ���ا )لوق���ا مسیحیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے وطن س��ے محبت رکھیں۔ لیکن لازم ہے کہ ان کی محبت کسی ایک ملک قوم یاطبقہ تک ہی محدود نہ ہ�و بلکہ ان کی محبت ک�ا دائ�رہ اس ق�در وس�یع ہ��و

وغیرہ(۔۴۸: ۵کہ دوست اوردشمن اپنوں اورغیر وں پر حاوی ہو)متی مس��ٹرگاندھی کے نظ��ریہ وط��نیت ک��ا لازمی ن��تیجہ یہ ہے کہ وطن ک��و م��ذہب پ��ر مق��دم

ااوپ�ر ای�ک جھن�ڈا۱۹۲۹رکھاجائے۔چنانچہ ء میں لاہور کی ک�انگریس کے اجلاس میں پن��ڈال کے نصب تھا۔ جس پر لکھا تھاکہ ملک مقدم ہے اورمذہب موخر ہے۔ ہندو اپ��نے وط��نیت کے عقی��دہاانہ��وں نے اس عقی��دہ کی وجہ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم پہلے ہندوستانی ہیں بع��د میں ہن��دو اور

Page 56: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

کوقوم پرستی کا لازمی جزو اورظاہری نشان قرار دے دیا ہ��واہے۔لیکن مس��یحیت کی تعلیم اس کے ب��رعکس ہے اس کے عقائ��د ہمیں یہ س��کھلاتے ہیں کہ مس��یح ک��و وطن پ��ر مق��دم س��مجھا ج��ائے۔ لیکن یہ یادرکھنا چ��اہیے کہ ک��وئی ش��خص س��چا مس��یحی نہیں ہوس��کتا۔ جب ت��ک اس میں حبوول بھی مس��یحی الوطنی نہ ہو۔ کیونکہ مسیحیت زندگی کے ہ��ر ش��عبہ پ��ر ح��اوی ہے۔ اس ل��ئے وہ اآاخر بھی مسیحی ہے اورچونکہ اس کی ساری زندگی مس��یح کی حک��ومت کے م��اتحت ہے ہے اوراجدا نہیں ہ���و س���کتی۔ لیکن چ���ونکہ اس کی لہ���ذا اس کی سیاس���یات اس کے م���ذہب س���ے سیاسیات س��یدنا مس��یح کے م�اتحت ہ��وں گی لہ��ذا اس کی سیاس��یات اس کے م�ذہب س��ے ج��دا نہیں ہوسکتی۔ لیکن چونکہ اس کی سیاسیات سیدنا مسیح ہ��وں گی۔ لہ�ذا اس کی حب الوط�نیآائیگ�ا کہ وہ دیگ�ر اق��وام وممال�ک کواپ�نے دائ�رہ محبت س�ے خ�ارج ک�ردے۔ بلکہ سے یہ لازم نہیں حق تویہ ہے کہ بین الاقوامی خیالات کو مسیحیت اورصرف مسیحیت ہی کی بدولت فروغ ہواہے۔ مس��یحی مش��نریوں کی طفی��ل اس قس��م کے تعلق��ات ت��رقی پ��اگئے ہیں۔ مرح��وم س��ی۔ای��ف این��ڈروز جیسے انسانوں نے مشرق ومغرب کوب��اہمی محبت کے بن��دھنوں میں جکڑدی��ا ہے۔ مس��یحی اص��ولااخ��وت ومس��اوات انس��انی کی وجہ س��ے ایش��یا، اف��ریقہ ی��ورپ ام��ریکہ وغ��یرہ مختل��ف یہی اور اب��وت الآاپ ک�و بیش از پیش ای��ک ہی قس��م کے انس��ان اورای��ک ہی ن�وع کے براعظموں کے باشندے اپ�نے فرد سمجھنے لگ گئے ہیں۔ یہ صرف اس وجہ س�ے ہے کہ مس�یحیت ک�ا تعل�ق کس�ی ای�ک ق��وم یازم��انہ ی��ا مل��ک کے س��اتھ نہیں ہے۔کلمتہ اللہ مل��ک کنع��ان میں ای��ک یہ��ودی خان��دان میں پی��داآادم پ��ر ہوت��اہے۔ یہی وجہ آاپ نے ایسی تعلیم اوراصول بتلائے جن کا اطلاق کل ب��نی ہوئے ۔ لیکن

آادم" تھا)م�تی آاپ نے اپنے تجویز فرمایا وہ" ابن وغ�یرہ(۔ پس اگرن�وع انس�انی۱۳: ۱۶ہے کہ جونام آاپ کے اص�ولوں کی طفی�ل ت�رقی ک�ررہی ہے۔ اوراگرزم�انہ مس�تقبل میں وہ ترقی کررہی ہے تو صرف ترقی کرس�کتی ہے توص�رف س�یدنا مس�یح کے کلم�ات طیب�ات اورارش�ادات پرگ�امزن ہ�وکر ہی ت�رقی کرسکتی ہے۔ نوع انسان کا مستقبل منج��ئی ع��المین کی ذات س��ے وابس��تہ ہے۔ کی��ا ہم��ارے وطن

لس پشت پھین��ک ک��ر اس پ�ر ایم��ان نہ لائیں گے ت�اکہ ان میں قومی نسل اور مذہبی تعصبات کو پلت دارین نصیب ہو؟ کو سعاد

باب چہارمباب چہارمااصول ااصولسودیشی مذہب کے سودیشی مذہب کے

سوامی دیانند جی اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں برہمو سماج کا کھنڈن کرکے فرماتے ہیں۔ کو آادمی��وں سے تھ��وڑے سے ہ��ونے ش��امل میں م��ذہب عیس��ائی جو نے س��ماجیوں "برہمو

بہت الوط�نی حب میں اان لیکن ہیں۔ اچھی ب�اتیں کی اان یہ کی۔ ادور پرس�تی ابت اورق�درے بچایا بھر پیٹ م��ذہب کی ان تودرکن��ار ک��رنی ع��زت کی بزرگ��وں اوراپ��نے تعریف کی ملک اپ��نے ہے۔ کم

مہارش��یوں وغ��یرہ ہیں۔برہما کرتے تعریف کی انگریزوں وغیرہ عیسائی میں تقریروں اوراپنی ہیں کرکرتےیی میں کتاب کی ان لیتے۔ نہیں بھی نام کا یی، ، عیس لکھے ن��ام کے اورچیتن ،نانک محمد موس

اوراسی ہیں ہ����وئے پی����دا میں درت آاریہ بھلاجب ہے۔ نہیں بھی ن����ام کا مہارشی رشی کسی ہیں۔ وغیرہ طریق کے دادا باپ کواپنے ان گے۔توپھر پیئں کھائیں اور ہیں پیتے کھاتے ودانہ آاب کا ملک

بے سے ادب علم کے سنس��کرت زب��ان کی ملک اپنے ہونا راغب زیادہ طرف کی سروں کوچھوڑدو ب��اب پرک��اش ہوسکتاہے" )س��تیارتھ طرح کس کام ( اورمفید دائمی لئے کے انسان نوع بنی ہونا بہرہ(۔۱۱

اس�ی ط�رح رام کرش�ن پ�رم ہمس کہ��تے ہیں کہ تم�ام م�ذاہب براب�ر ہیں لیکن ہن�دوؤں کےلئے" سناتن دھرم بہترین دھرم ہے، کیونکہ وہ ہندوستان کے رشیوں کا دھرم ہے"۔

آاپ ہندومذہب کواس مسٹرگاندھی کی تحریرات کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتاہے کہ آاپ ہندوخان��دان میں پی��دا ہ��وئے ہیں۔ اگرکس��ی ش��خص کے دل میں واس��طے م��انتے ہیں کی��ونکہ ہندومذہب کے متعلق شکوک پیدا ہوئے ہیں تومسٹرگاندھی اس کو یہ صلاح دیں گے۔ کہ تم اپنےآاب�ائی ملک کے مذہب پر قائم رہو خواہ تم کو کوئی دوسرا مذہب اچھا معلوم ہو۔ یہ م�ذہب تمہ��ارا

Page 57: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

مذہب ہے۔ اوراگرتم اس میں خرابیاں دیکھتے ہو ت�و ان خرابی�وں کی اص�لاح کرل�و۔ لیکن اس ک�وترک مت کرو۔

ااص��ول ک��ا ای�ک ن�تیجہ ہے۔ جس ط�رح وہ درحقیقت یہ ام�ر گان�دھی جی کے سودیش�ی اپنے پیروؤں کو کہتے ہیں کہ اپنے ملک کی پیداوار پر گذران کرو خواہ تم ب�یرون ج�ات س�ے بہ�ترااس میں اخلاق کے ااس��ی ط��رح وہ ہندوم��ذہب کوقب��ول ک��رتے ہیں اورجوب��اتیں ش��ے مہی��ا کرس��کو اان کے مل��ک اان کو رد کرتے ہیں۔ اگروہ کسی مسیحی ملک میں پیدا ہ��وتے ہیں اور خلاف ہیں وہ کا مذہب ہندومذہب ہے۔ لہذا وہ طنیت کے اصول کی وجہ س�ے اپ�نے سودیش�ی م�ذہب کے قائ�ل ہیں۔ وہ اس واسطے ہن��دونہیں کہ ان کے خی��ال میں ہن��دومت درحقیقت بہ��ترین م��ذہب ہے بلکہ وہ اس واسطے ہندو ہیں کیونکہ ہندومت ہندوستان ک��ا م��ذہب ہے ۔ ان کے ل��ئے وط��نیت ک��ا سودیش��ی ااص��ول ہن��د کی اقتص��ادیات اورسیاس��یات اورم��ذہب س��ب پ��ر ح��اوی ہے۔ وہ جس ط��رح اقتص��ادیاتااص��ول پ��ر ااصول کے قائل ہیں۔ اسی طرح وہ م��ذہبی ام��ور میں سودیش��ی اورسیاسیات میں سودیشی ایمان رکھتے ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق ہر ش�خص ک�ا اولین ف��رض یہی ہے کہ وہ ب�اوجود اپ�نے آابائی مذہب کی بطالت کے اس پر قائم رہے اوراس کوشش میں رہے کہ اس کی خرابیوں کو حتی

الوسع دوکرے چانچہ وہ کہتے ہیں کہ:" ہر قوم اپنے ملک کے مذہب کو دیگر مذاہب کے برابر خیال کرتی ہے۔

پھر وہ کہتے ہیں : " اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ ہندوستان کے لوگ��وں کے م��ذہب اس مل��ک کے لوگوں کے لئے کافی اوروافی ہیں۔ ۔۔ ہندوستان کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ ای��ک م��ذہب کو ترک کرکے دوسرے کواختیار کرے۔۔۔۔ اگرمسیحی مش��نری ب��نی ن��وع انس��ان کی بہب��ودی کےاا سکول، ہسپتال، وغيرہ کا کام کرنے کی بجائے ہندوستان کے لوگوں ک�و مس�یحیت کے کام۔ مثلآاپ ہم��ارے مل��ک س��ے اان س��ے یقی��نی ط��ورپر یہی کہونگ��ا کہ حلقہ بگوش کرنا چ��اہتے ہیں ت��ومیں

رخصت ہوجائیں"۔کیا خوب!!

مسٹرگاندھی کے جانی دوست مرحوم مسٹر سی۔ ایف۔ اینڈروز کہتے ہیں کہ:آاپ میں " مہاتم���ا گان���دھی راس���خ الاعتق���اد اور رجعت پس���ند ہن���دوؤں میں س���ے ہیں۔ آاپ کے دل میں ہن��دو م��ذہب کی اص��لاح ک��ا خی��ال آازادی ک��ا احس��اس زبردس��ت ہے۔ اور روح��انی آابائی م��ذہب آاپ کا مذہبی اصول ہے۔ اوراس اصول کی وجہ سے وہ اپنا کاجاگزیں ہے۔ سودیشی

ترک کرکے کسی بدیشی مذاہب کو قبول کرنے کا خیال بھی دل میں نہیں لاتے ۔۲

ہمارے قوم پرست نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہرقس��م کے م��ذہب کے خلاف ہے ۔ ہم سطور بالا میں ذکرکرچکے ہیں کہ وہ مروجہ مذاہب سے بیزار ہیں۔ لیکن چ��ونکہ کس��ی بالاہس��تی کو ماننا انسانی فطرت میں داخل ہے۔لہذا ایسے وطن پرستوں کے فطرتی تقاضا کوپ��ورا ک��رنے کے لئے ان کے لئے ایک نیا مذہب تجویز کی��ا گی��ا ہے۔ یع��نی بن��ارس میں ای��ک من��دربنایا گی��ا ہے۔جس میں ہندوستان کا ایک بڑا نقشہ رکھا دیا گیا ہے اوروہاں اس مندر میں بھارت مات��ا کی پرس��تش کی

ء میں وس��ہرہ کے دن اس من��در کی۱۹۳۶ج��اتی ہے۔دیش��ی بھگ��تی کے مہاتم��ا مس��ٹرگاندھی نے افتتاحی رسم ک�و ادا کی��ا تھ��ا۔ اوراس اقس�م کی پرس��تش کی تعری�ف میں چن�دکلمات بھی فرم�ائے تھے۔ ہم نے یہ اخباروں میں پڑھا ہوا تھا کہ ہٹلر کے زیر اثر جرمنی کے لوگ مسیحی اصول اخوت انسانی کو ترک کرکے ایک ایسا م�ذہب اختی�ارکررہے ہیں جس میں جرم�نی کے ق��دیم دیوت�اؤں کیااخ��وت کی تعلیم آادمی��وں میں آارین نس��ل کے عظمت ، غیر جرمن لوگوں اورمذہبوں سے نف��رت اور آانکھوں سے مش��اہدہ کرلی��اہے۔ کہ مہاتم��ا دی جاتی ہے۔ لیکن اب ہم نے خود ہندوستان میں اپنی جی ہندوستانیوں کے لئے ایک ایسے مذہب کی بنیاد ق��ائم کرن��ا چ��اہتے ہیں۔جس میں ہن��دوؤں کےآارین نس�ل کے سودیش�ی ااصول کو ترک کرنے کی اور قدیم دیوتاؤں کوعظمت دینے کی۔ غیر ہندی اان کے پ��یروؤں ک��و ااخوت کی تعلیم دی جائے ت��اکہ ہندوس��تان کے ب��اہر کے م��ذاہب اور آادمیوں میں بدیشی قرار دے کر ان کو اپنے اقتصادی اورسیاسی غلبہ سے خاموش کردی��ا ج��ائے۔ ہم کوافس��وساپرانے اان کے سے کہن�ا پڑت�اہے کہ ہندوس��تان اورہندوس��تانی ق��وم کے ح��ق میں یہ ن�ئے معب��ود اوردیوت�ا

Page 58: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

معبودوں اور قدیم دیوتاؤں سے کہیں زیادہ خطرناک ث��ابت ہ��وں گے۔ ہمیں جرم��نی س��ے اس مع��املہ میں سبق حاصل کرنا چاہیے اورعبرت پکڑنی چاہیے ت��اکہ ہم��ارے مل��ک اور ق��وم میں اس قس��م کے زہریلے جراثیم نہ پھیل جائیں۔ جس کا نتیجہ خانہ جنگی تباہی اوربربادی ہوتی ہے اگرہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم میں یگانگت اوراتحاد پیدا ہوت��و ہم ک��و اس قس��م کے م��ذہب ک�و اخ��تراع ک�رنے اور

تقویت دینے اوراس کا پرچار کرنے سے محترزررہنا چاہیے۔ہے وطن سے سب بڑا میں خداؤں تازہ ان

ہے۔ کفن کا مذہب وہ ہے اسکا جوپیرہن۳

اامور میں وطنیت اورسودیشی ک��ا اطلاق نہیں ہ��و س�کتا۔ م�ذہب توی�ک ط��رف مذہب کے ااص��ول پ��ر نہیں چ��ل س��کتے ، جوش��خص اقتص��ادیات پ��ر دنی��اداری کے مع��املات سودیش��ی کے غورکرنے کی زحمت اٹھاتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ک�وئی ق��وم اقتص�ادی ط�ورپر ت�رقی نہیں کرس�کتیآاپ کو اقوام عالم سے الگ کرلی��تی ہے۔ ممکن ہے کہ جوسودیشی کے اصول پر عمل کرکے اپنے آام�د لدنظر رکھ کر سودیش�ی ک�ا اص�ول تھ��وڑی م�دت کے ل�ئے کار ہندوستان کی موجودہ حالت کوم ہولیکن اگریہ اصول ہمیش��ہ کے ل��ئے ہندوس��تان پ��ر عائ�د کی��ا جائيگ��ا توہم�ارے مل��ک کے ت��نزلی ک��اااص��ول باعث ہوگا، جہاں تک سیاسیات اوراقتصادیات کا تعلق ہے دنیا کے ممال��ک سودیش��ی کے اانہوں نے علم اور س��ائنس میں سودیش��ی کے کوترک کررہے ہیں۔ تاکہ وہ ترقی کرسکیں جس طرح ااصول کو ترک کردیا ہے، علم اور سائنس کے نظرئیے خواہ ان کی ابتدا ء کسی ملک یا ق��وم س��ے ہوئی ہو دنیا کے ہرگوشہ میں اورہندوستان کے ہر کونے میں ح��ق اور درس��ت م��انے ج��اتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کے دریا کی موجوں کو مسٹرگاندھی اپنے منہ کے الفاy سے روک نہیں سکتے۔آاگے بہالے جاتاہے۔ اس کی ٹک��ریں تم��ام ق��ومی دی��واروں ک��و یہ دریا تمام مصنوعی رکاوٹوں کو اپنے گردایتی ہیں۔ اور سودیشی اصول خس وخاک شاک کی طرح بہے چلے ج��اتے ہیں۔ خ��دا جوک��ل

بنی نوع انسان کا خالق اورباپ ہے چاہتاہے کہ اس کے بیٹے ایک خاندان کے ممبر اور ایک ب��دنکے اعضا ہوکر اس دنیا میں زندگی بسر کریں۔

۴ جس شخص نے مسیحیت کا سطحی مطالعہ بھی کیا ہوگ��ا۔ اس پ��ر یہ واض��ح ہوگیاہوگ��اآابائے کلیسیا میں س��ے کلیمنٹ اا کہ مسیحیت ان خیالات کی ابتدا ہی سے مخالف رہی ہے۔ مثل اوراوریجن دونوں مسٹرگاندھی کے مندرجہ بالا خی��ال کی رد میں کہ��تے ہیں کہ یہ نظ��ریہ کہ کس��ی شخص کواپنے باپ دادا کا مذہب ترک نہیں کرنا چ��اہیے تب ہی درس��ت ہوس��کتاہے اگ��روہ م��ذہب درست اورصحیح ہے۔کسی مذہب کی حقانیت کا ثبوت یہ نہیں کہ یہ دین ہم��ارے ب��اپ دادا ک��اآاب�ائی م�ذہب دین ہے بلکہ یہ کہ وہ حق ہے ۔ اگرکوئی مذہب حق پر نہیں تو یہ خی�ال کہ وہ ہم�ارا ہے اس کے ترک کرنے میں سدراہ نہیں ہونا چاہیے۔ہمارے باپ دادا کا خیال تھاکہ وہ مذہب حقاا س��کومانتے بھی تھے لیکن اگ��رہم اس م��ذہب کوباط��ل ج��انتے ہیں اور ت��رک نہیں پ��ر ہے لہ��ذا وہ کرتے توہم اپ��نے ب��اپ دادا کے اص��ول پ��ر نہیں چل��تے۔اوریجن نہ��ایت پ��رزور الف��اy میں کہت��اہے کہ مختل����ف م����ذاہب میں ج����وفرق ہے وہ نہ����ایت اہم ہے۔ اورلازم ہے کہ ہم تم����ام انس����انی روای����ات

اوردستورات کوترک کرکے حق کی پیروی کریں۔

۵ مس��ٹرگاندھی اوران کے ہم خی��ال ہن��دو لی��ڈر اپ��نے خودس��اختہ ط��نیت اورسودیش��ی کے ااصول کی وجہ سے مجبور ہیں کہ وہ ہندومت کے نقائص کے باوجود اس کی پ��یروی ک��ریں۔لیکن کیا یہ طریقہ ان کے اصول کے مطابق ہے جس پر وہ ناز کرتے ہیں کہ میں ہمیشہ ح��ق کی پ��یروی

کرنا چاہتاہوں؟

Page 59: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

اان ک��و علاوہ ازیں جب وہ یہ کہتے ہیں کہ تم ہندوم��ذہب میں جونق��ائص اورخرابی��اں ہیں ااص��ول آابائی مذہب کے نقائص کسی بہتر م��ذہب کے اان کے دور کروتویہ فراموش کردیتے ہیں کہ اا ہندومذہب میں اچھوت کا نقص موجود ہے ۔ اس نقصر آاسکتے ہیں۔ مثل کی روشنی میں ہی نظر کو مسٹرگاندھی ایک بدنما داغ مانتے ہیں۔ لیکن یہ نقص مس��یحیت کے اص��ول کی روش��نی میںآانے لگا ہے۔ ورنہ ہزارہا سال سے یہ ہندومت کی ایک خ��وبی تص��ور کی ج��اتی تھی۔ ہی نقص نظر لیکن جہ��اں "بہ��تر " ہے۔وہ��اں لازم ہے کہ اس س��ے کم درجہ کی ش��ے موج��ود ہے"۔ جب کام��ل

(۔ اس صورت میں مسٹر گاندھی کا یہ خیال باط��ل۱۰: ۱۳کرنتھیوں ۱آائیگا توناقص جاتارہے گا") ہوگا کہ تمام مذاہب یکساں طورپر صحیح اوردرست ہیں۔ مختلف م��ذاہب علی ال��ترتیب اپ��نے اپ��نے اصولوں کی خوبیوں اور خرابیوں کی بناء پر تقسیم کئے جائیں گے۔ جس مذہب میں زیادہ خرابیاںااس ک�ا پ�ایہ کم ہوگ�ا۔ ااس م�ذہب ک�ا پ�ایہ کم ہوگ�ا اورجت�نی خرابی��اں زی�ادہ ہ��ونگی اتن�ا ہی ہوں گی اورجس مذہب میں خوبیاں زیادہ ہوں گی۔ اس مذہب کا پایہ بڑا ہوگا۔ اورجتنی خوبیاں زی��ادہ ہ��ونگی اس کا پایہ اتناہی بڑا ہوگا۔ اور عالمگیر م��ذہب وہ ہوگ��ا جس میں خ��دا ک��ا تص��ور نہ��ایت ص��اف اوریی یی ت�رین اخلاقی مطمح نظ�ر پ�ر مب�نی ہوگ�ا۔ اورجس میں اخلاقی�ات ک�ا تص�وراعل واض�ح ط��ورپر اعل ترین حالت میں موجود ہوگ��ا۔دریں ح��ال تم��ام م��ذاہب یکس�اں ط��ورپر کس ط��رح ص��حیح اوردرس��ت

ہونگے؟۶

چ��ونکہ ہم��ارے مل��ک میں ق��ومیت اوروطن پرس��تی ک��ا ج��ذبہ غ��الب ہے۔ لہ��ذا ہم��ارے ہندوستانی بھائی گاندھی جی کی تقلید میں چاہتے ہیں کہ وہ کسی بدیشی مذہب کے ب��انی ک��ویی ترین مظہر ماننے کے بجائے اپنے دیس کے کسی ہیرو کوم��انیں۔ پس ہندوس��تان کی خدا کا اعل

نئی پود نے کرشن مہاراج کو سیدنا مسیح کے بجائے خدا کا اوتار مان لیا ہے۔آاہمس��ہ کی تعلیم یہ امر بہت اشخاص کے لئے حیرانی کا موجب ہےکہ جس ملک میں عام ہے اورمہاتما گاندھی جیسے ستیا گ�راہی پی�دا کرت�اہے ۔ اس کے باش�ندے کرش�ن مہ�اراج ک�و

اجوسپاہی تھے اپنا قومی ہیرو کس طرح مان سکتے ہیں اورگیتا کو جوجنگ وقتل کا س��بق جوجنگ پڑھاتی ہے اپنی مذہبی کتاب کس طرح قبول کرسکتے ہیں؟ہندوس�تان کوق�دیم برہمن�وں کے علم اور فلاس��فروں کی دوی��ا پرن��از ہے۔ لیکن ہم��ارے ہن��دو نوج��وان ان میں س��ے ک��و اپ��نی ق��ومی ہ��یرو نہیںابت پرس��ت یی کہ حص��ہ اول س��ے ن��اظرین پ��ر یہ ظ��اہر ہوگی��ا ہوگ��اکہ م��انتے۔ ہم��ارے رس��الہ نورالہ��دابت پرست ممال�ک ک�ا یہ خاص�ہ ہے کہ وہ کس�ی ق��ومی ہ��یرو ک�و دیوت�اؤں کی ص�فات اورمذاہب اورآاپ ہن��دوؤں ق��ومی ہ��یرو سے متصف کردیتے ہیں۔ یہی حال کرشن مہ��اراج کے س��اتھ کی��ا گی��اہے۔ تھے اوراب اوتار ہیں۔ ان کے اوتار ہونے کا نظریہ اہ��ل ہن��ود کے م��ذہب ک��ا ج��زو نہیں بلکہ وہ ای��ک ثقافتی پہلو رکھتاہے ۔ لہذا وطنیت کے لئے اہم ہوگیاہے ۔ چونکہ غیر ہنود نے کرشن پر بط��ور ای��ک اوتار کے حملے کئے ہیں ۔ لہذا قومی خودداری اوروق��ار کوق��ائم رکھ��نے کے ل��ئے کرش��ن کے اوت��ارلرحاضرہ میں برند ابن کا خ��وش گل��و یی دو ہونے کی حیثیت کی اہمیت روز افزوں کرتی گئی ہے حت لڑکا اور کوروکشتر کے میدان کا سپاہی اب اہل ہن�ود کے دل��وں میں گھ��ر ک�ر گی�اہے۔ اوروہ غریب�وں کا دوست" مصیبت زدوں کا حامی اورگ�رے ہ�وؤں ک�ا نج�ات دی�نے والا ہے بن گی�ا ہے۔ پس جس نسبت سے ہمارے نوجوان ہندومذہب کے اصول ورس��وم ک��وترک ک��ربیٹھے ہیں اس��ی نس��بت س��ے وہ

کرشن کو اپنا قومی ہیرواورخدا کا اوتارسمجھتے ہیں ۔است بس من واعتقاد است خس پیرمن ۔ شخصے بقول

وہ یہ فراموش کردیتے ہیں کہ انسانی فطرت ہرمل��ک وق��وم میں ای��ک ہی ہے۔مل��ک اور ق��وملت انس�انی ہرزم�انہ ق��وم مل�ک ذات اورنسل کی امتیازات محض عارضی اورس�طحی ہیں۔ لیکن سرش� اور نس�ل میں ای�ک ہی ہے۔ پس اہم س��وال یہ نہیں کہ خ�دا نے کس ق��وم ی�ا مل�ک میں اوت��ار لی�اہےآارین کیونکہ خدا کے تجسم کا بیرونی حالات سے کسی قسم کا واسطہ نہیں ۔ خواہ وہ ح��الات نسل سے متعلق ہوں اورخواہ شامی نسل سے اورخ�واہ منگ�ولی نس��ل س�ے متعل�ق ہ��وں۔ہم�اری غ�رض اوتار کے اندرونی حالات سے ہے۔ لازم یہ ہےکہ جوخدا کا اوتار ہے وہ نوع انس�انی کے ل��ئے ای�ک کام��ل اور اکم��ل اورخوبص��ورت ت��رین نم��ونہ ہ��و۔ اوراس کے کیریک��ٹر کی خوبص��ورتی اپ��نے روح��انی

Page 60: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

کمال کی وجہ سے ہمارے دلوں کو متاثر کرے۔ اورہر ملک و قوم ک��ا انس��ان اس نم��ونہ ک��و دیکھکر پہچان جائے کہ فی الحقیقت وہ خدا کا کامل مظہر ہے۔

آاب وہ��وا میں نہیں پھل�تی پھول�تی ح�ق ت�ویہ ہے کہ انس�انی نیکی کس�ی خ�اص مل�ک ی�ا بلکہ ہر ملک وقوم ونس�ل میں پھ��ل پھ��ول س�کتی ہے۔ یہ ب��ات غل��ط ہے کہ ایش��یا میں ای��ک خ��اص قس�م کی نیکی ہ��وتی ہے۔اف�ریقہ میں دوس�ری قس�م کی اوری�ورپ میں تیس�ری قس�م کی نیکی ہ��وتی ہے۔ ہر ملک وقوم کی مقدس ہستی بحیثیت انس��ان ہ��ونے کے ب��اقی اق��وام وممال��ک کے ل��ئے قاب��ل تعریف اورقابل تقلی��د ہ��وتی ہے۔ کرش��ن مہ��اراج ک��ا جوکیریک��ٹر ہم ک��و پران��وں اور تن��تروں میں دکھای��ا جات���اہے وہ قاب���ل تعری���ف وتقلی���د نہیں ہے۔لیکن اس کے ب���رعکس مس���یح ک���ا کیریک���ٹر اپ���نے اوج اوردلفریبی کی وجہ سے ہر ملک وقوم ونسل کے انسانوں کا نصب العین ہوگیاہے۔ مشرق ومغ��رب ، ہندوستان ، چین وجاپان افریقہ اورامریکہ کے باشندے سب قائل ہیں کہ اگر خدا کا تجسم ممکنآافت�اب کی ہوسکتاہے تووہ سیدنا مسیح میں مجسم ہ�وا ہے۔جس ط�رح دنی�ا کے تم�ام ممال�ک میں روشنی یکساں ہے اورہر ملک وقوم ونسل کا شخص جواندھا نہیں وہ روشنی کوجانت��ا اورمحس��وسااسی طرح ہر ملک وقوم وزمانہ اورنسل کے انسان مسیح کو خدا کاکامل مظہر جان سکتے کرتاہے ہیں۔لیکن کل دنی��ا کے انس��ان توی��ک ج��ارہے خودہندوس��تان کے باش��ندے کرش��ن مہ��اراج کواوت��ارلب عقل جانتاہے کہ دونوں اوتاروں میں بع�د المش�رقین ہے۔ کرش�ن مہ�اراج ک�ا نہیں مانتے۔ ہر صاح

لت متخیلہ پر انحصار رکھتاہے ۔ ہندووطن پرست کہتے ہیں: اوتار ہونا ہمارے ابنائے وطن کی قوکچھ کچھ پر سچ کے محبت اپنی فسانے

لب ہم ہیں دیتے بڑھابھی لئے کے داستاں زیآانخداون��د کی ذات وص��فات کی ت��واریخی س��یدنا مس��یح ک��ا اوت��ار اورمجس��م خ��دا ہون��ا لت متخیلہ کی بن��اء ریت کی ط��رح ہے جس پ��ر اگ��ر ک��وئی حقیقت اورص��داقت پ��ر مب��نی ہے۔ ق��و عالیشان عمارت کھڑی کردی جائے توجب شکہ وش��بہ کے طوف��ان اٹھ��تے ہیں اورعقلی اورمنق��ولیآاندھیاں چلتی ہیں اور اس عمارت پر ٹکریں لگتی ہیں تواس عمارت کوصدمہ پہنچت��اہے دلائل کی

اوروہ گرکر برباد ہوجاتی ہے۔لیکن ت�واریخی حقیقت کی بن�اء چٹ�ان کی ط��رح ہے جس پ�ر اگرک�وئی عالیشان عم�ارت ق��ائم ک�ردی ہے ت��واس ک��و کبھی گزن��د نہیں پہنچ س��کتا۔ پس جتن��ا ای�ک واض��ح

تاریخی حقیقت اورمحض تخیل میں فرق ہے اتنا ہی سیدنا مسیح اورکرشن مہاراج میں فرق ہے۔ ہم اس بات کوای�ک م�وٹی مث��ال س��ے واض�ح کردی��تے ہیں۔ جب ہم�ارے ابن��ائے وطن نے دیکھا کہ مسٹر گاندھی اپنے نصب العین اورمقصد کوپورا کرنے کے لئے ہر طرح کا دکھ اوراذیت برداشت کرنے اورجسمانی قرب�انی ک�رنے کونہ��ایت خوش��ی اوررض�امندی کے س�اتھ تی�ار ہیں اوراپ�نےاا ب��ول اٹھے کہ گان��دھی جی دشمنوں کے ساتھ محبت اورعدم تشدد کی تعلیم دی��تے ہیں ت��ووہ ف��ورآاپ کے اقوال اورافعال کی نظیر کرش��ن مہ��اراج یاہندوس��تان کے اانہوں نے اس زمانہ کے مسیح ہیں۔ غیر مسیحی مذاہب کے کسی ہ��یرومیں نہ دیکھی۔بلکہ س��یدنا مس��یح کی تعلیم، نم��ونہ ، اذیت ،

ء میں گاندھی جی کے مقدمہ اورسزا کا مق��ابلہ تم��ام۱۹۲۲قربانی ایثار اورصلیب میں ہی دیکھی۔ ءکی۱۹۲۳مسیحی اور غ��یر مس�یحی اخب��اروں میں س�یدنا مس�یح کے مق��دمہ کے س�اتھ کی��ا گی��ا۔

آار داس نے اپنے خطبہ میں انجیل م��تی کے سالانہ انڈین نیشنل کانگرس کے پریزیڈنٹ مرحوم سی آاخری ابواب میں س��ے بہت س��ے اقتباس��ات پیش ک��ئے۔اب س��وال یہ ہے کہ ہندوس��تان کے ک��روڑوں انسان مسٹر گاندھی کی ع��زت ک�رتے ہیں ۔ لیکن اس ع��زت ک�ا اظہ�ار ک��رتے وقت ہم�ارے ابن�ائے وطن گاندھی جی کوحضرت محمد یاکرشن مہاراج یا بدھ مہاراج کی مانند قرار نہیں دیتے بلکہ سیدنا مسیح کی مانند قرار دیتے ہیں ۔ اگر رام ی�ا کرش�ن وغ�یرہ میں اورمس�یح درحقیقت ف�رق نہیں تو وہ کیوں نہیں کہتے کہ مہاتما جی رام یا کرشن وغیر ہم کی مانند ہیں ؟ وہ اپنے دلوں میں اس بات کے قائ��ل ہیں کہ گان��دھی جی ک��و ان کی مانن��د ق��رار دین��ا درحقیقت گان��دھی جی کی بے

ء میں لاہور تش��ریف لائے ت��و لاہ��ور کے۱۹۳۷عزتی کرناہے۔اسی طرح جب پنڈت جواہر لال نہرو آاپ کو آاپ نے ب�ڑی۱۷نوجوان قوم پرستوں نے جنوری کے روز ک��انٹوں ک��ا ت��اج پیش��کش کی��ا۔ ج��و

انکساری سے قبول بھی کیا۔جس سے ظاہر ہے کہ کانٹوں کا تاج پیش کرنے وال��وں کے دل��و ںمیں یہ احساس تھا کہ سیدنا مسیح کی زندگی ہماری قوم کے مایہ ن��از رہ��بر کے ل��ئے ای��ک نم��ونہ ہے۔

Page 61: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

اس طرز عمل سے ہمارے کروڑوں ہم وطن اقرار کرتےہیں کہ سیدنا مسیح کی شخص��یت ہن��دودھرمیی اورارف��ع ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اوردیگ��ر غ��یر مس��یحی م��ذاہب کے دیوت��اؤں اورب��انیوں س��ے اعلآاپ تمام دنیا کے مطمع نط��ر ہیں۔ خداوند کی ذات قدسی صفات ایک حقیقت پر مبنی ہے۔ اور لیکن دیگ��ر بانی��اں م��ذہب کی شخص��یتیں انس��ان کی ق��وت متخیلہ کی دس��ت نگ��ر ہیں۔ دیگ��رلت متخیلہ حض��رات کی ہس��تیاں انس��انی ق��وت متخیلہ کی ط��رف دیکھ��تی ہیں ۔ لیکن انس��انی ق��و

سیدنامسیح کی ہستی کی طرف دیکھتی ہے تاکہ پرواز کرسکے یند را بیا رابزیورہا عالم خوبان ہم

یارابیارائی زیور کہ ہستی تن تویسمین۷

علاوہ ازیں سودیشی مذہب کے شیدائیوں کو یادرکھنا چاہیے کہ :یکدیگراند اعضائے آادم بنی

مختلف اقوام کے اختلافات عارضی ہیں اور ان میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہوت��ا۔ ک�الے اور گ��ورے چی��نی اورجاپ��انی۔ ام��ریکی اور اف��ریقی۔ عجمی اور ع��ربی وغ��یرہ وغ��یرہ تم��ام اق��وام ن��وع انس��انی کیآاباد ہیں۔ ان کے قومی مختلف شاخیں ہیں ۔ یہ محض ایک اتفاق ہے کہ وہ مختلف مقامات میں اختلافات محض عارضی اورسطحی اختلافات ہیں۔ ہر ش��خص کی سرش��ت انس��انی ہے اورانس��انیفط��رت ہ��رجگہ ای��ک ہی ہے۔ اس کی روح��انی ض��روریات ہ��ر مل��ک زم��انہ اورق��وم میں ای��ک ہی ہیں۔ مذہب کے مع��املہ میں ج��ائے پی��دائش اورجنم بھ��ومی کودخ��ل نہیں بلکہ ن��ئی پی��دائش اورن��ئے جنم کودخل ہے۔ انسان کے بے لگام ارادے ، بری خواہشات گناہ روحانی موت وغیرہ کسی ای��ک ق��وم یا ملک سے مخصوص نہیں بلکہ گناہ ایک عالمگیر بیماری ہے جس ک��ا علاج بھی ع��المگیر ہے ہم ہندوستان کے اہل ہنود س�ے پوچھ��تے ہیں کہ اگرہرمل��ک ک�ا م�ذہب اس مل�ک کے باش�ندوں کے لئے کافی اوروافی ہے ت�وتم ام��ریکہ اور ی��ورپ میں لوگ��وں ک��و کی��وں بھیج��تے ہوت��اکہ وہ��اں رام کرش��ن اورویدانت کے خیالات کا پرچارکریں؟ اوروہ��اں کے لوگ��وں ک��و کی��وں ہن��دو ط��ریقہ خ��وراک بودوب��اش

اان کو روگردان کرتے ہو۔ چنانچہ سری ش�نکر اچ�اریہ آابائی مذہب سے اان کے وغیرہ پرراغب کرکے ء کے ہندومہاس��بھا کے س��الانہ جلس��ہ کے خطبہ۱۹۳۶ڈاک��ٹر ک��رت ک��وٹی نے لاہ��ور میں اکت��وبر

صدارت کے دوران میں فخریہ کہا تھا: میں نے گذش����تہ س����الوں کے دوران میں چن����د انگری����ز فرانسیس����ی اورام����ریکن خ����واتین کوہندومت میں شامل کیا ہے اورمیں خوشی سے یہ کہتاہوں کہ وہ ہندوستان کے ہن�دو عورت�وں س�ے

کسی بات میں پیچھے نہیں ہیں"۔غرور میں دل کے ان داغ آاگیا

میری لاثانی میں دنیا ہے شکلاامور پرعائ�د نہیں کرس�کتے کی�ونکہ انس�انی روح پس ہم سودیشی کے اصول کو روحانی کے میلانات اوررحجانات زمان ومکان یا ملک اورقوم کی قیود میں جکڑے نہیں ہوتے۔ہندوس��تانیوں کی روحوں کے تقاضے بیعنہ وہی ہیں جودیگرممالک کے باشندوں کی روحوں تقاضے ہیں۔م��ذہب جغرافیہ کی حدود کی چار دیواری میں مقی��د نہیں ہوت�ا۔ اس ک�ا دائ�رہ اث�ر اس قس�م کی مص�نوعی زنجیروں ک�ا پابن�د نہیں ہوت�ا۔لف��ظ سودیش�ی م�ذہب محض بے مع��نی ہے۔ کی�ونکہ م�ذہب ک�ا تعل�ق انسانی سرشت اورانس��انی فط��رت کے س��اتھ ہے جس کی ض�روریات ہرمل��ک زم��انہ ق��وم اورملت میں ای��ک ہی ہ��وتی ہیں۔ اگرک��وئی روح��انی اص��ول ایس��ا ہے جوانس��انی فط��رت کے تقاض��اؤں ک��و ب��درجہلب عق��ل ک�ا یہ ک�ام نہیں کہ ایس�ے غایت پورا کرتاہے اوروہ ہمارے ملک کا نہیں ہے توکسی ص��احلل وط�نیت کی خ�اطر پھین�ک دے اور اپ�نے ابن�ائے وطن لر نایات کومحض سودیشی اصو گرانما یہ د کو اس کے فیوض س�ے مح��روم ک�ردے۔ ایس�ے ط��ریقہ ک�ار س�ے ہم ہندوس�تان پ�ر روح�انی ت�رقی ک�ا

دروازہ بند کردینگے۔۸

بعض برادران وطن اپنے خودساختہ اصول رواداری کے اس ق��در ش�یدائی ہوج�اتے ہیں کہ جس چیز ک�و وہ اپ�نے دل��وں میں مک�روہ اورغل��ط ج�انتے ہیں اس کی حم�ایت میں ع��ام پبل�ک کے

Page 62: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

روبرو رطب للسان ہوجاتے ہیں اوراپنی ضمیر ک�و یہ س�مجھا ک�ر خ�اموش کردی�تے ہیں کہ وہ مک�روہاردود ابت پرس��تی کوباط��ل اورم�� اا تعلیم یافتہ اورروشن خیال انسان اان کی روایات کا جزو ہے۔مثل بات خی��ال ک��رتے ہیں۔لیکن جب کبھی پبل��ک کے س��امنے اس ک��ا ذک��ر ہوت��اہے۔ ت��ووہ بے س��روپاتاویلیںابت پرس�تی اوردیگ�ر رواہی��ات رس��وم کرنی شروع کردیتے ہیں۔ جب وہ اپنے گ�اؤں میں ج�اتے ہیں ت�ولر حقارت دیکھتے ہیں۔ لیکن اپ��نی ض��میر ک��و میں شریک ہوتے ہیں ۔ اگرچہ وہ دل میں ان کو بنظآاباواجداد کی ق��ومی روای��ات ک��ا جزولاینف��ک اان کے یہ کہہ کر خاموش کردیتے ہیں کہ یہ رسوم بد

ہیں۔ لہذا ان میں شریک ہونا ہرج کی بات نہیں۔ان کا یہ معیار ہے کہسمجھو بجا اسے عالم جسے کہے بجا

لیکن یہ معیار سراسر غلط ہے۔گویہ معیار بھاگوت گیتا کا ہےچنانچہ کرشن جی کہتے ہیں: " جس راہ پر بزرگ چلیں اورجودستور وہ بنائیں۔ ع��وام ک�و لازم ہے کہ وہ اس�ی کے پابن�د

(۔۲۱: ۳ہوں") یہ تعلیم ی��افتہ اش��خاص یہ خی��ال نہیں ک��رتے کہ بق��ول مرح��وم لارڈ م��ارلے اس قس��م کے منافقانہ رویہ سے وہ اپ��نے ملی اورجم��اعتی رس��وم کی اص��لاح اورمل��ک کی حقیقی فلاح ک��ا دروازہ

بند کردیتے ہیں۔۹

لر حاض��رہ کی نوج��وان پش��ت ق��وم کی خرابی��وں کی اص��لاح کرن��ا چ��اہتی ہے۔ لیکن دولہ اان کی مس�اعی جمیلہ میں س��نگ گ�راں ہ��وکر س�درا جونہی وہ اصلاح ک�رنی چ��اہتے ہیں ہن��دومت ہوجاتاہے۔پس قوم کے مصلحین کے لئے لازم تویہ ہے کہ وہ ہندومت کوراستہ میں سے ہٹ��ادیں ت��اکہ وہ اپ��نے مقص��د میں کامی��اب ہوس��کیں۔لیکن اس کے ب��رعکس ان ک��و یہ تلقین کی ج��اتی ہے کہآابائی مذہب ہے۔ وطن کے سودیشی مذہب کوترک نہ ہندومت ہمارے رشیوں کا مذہب ہے وہ ہمارا اادھار کا سوال لے ل��و۔جب س��ے برط��انیہ نے ف��رقہ وارانہ فیص��لہ میں اچھوت��وں کے اا اچھوت کرو۔مثل ہندوؤں سے الگ شمار کیاہے۔ تب سے مسٹر گاندھی اوران کے رفق��ا اس فک�ر میں ہیں کہ کس��ی

اانہ��وں نے نہ کسی طرح اچھوت ہندوؤں سے الگ نہ ہوں تاکہ ہن��دوؤں کی ض��عف نہ پہنچے۔ پس اچھوت ذاتوں کواٹھانے کا پراپگینڈہ کیا ہے۔ لیکن وہ یہ بھول ج��اتے ہیں کہ س��ب س��ے ب��ڑی س��ے جو اچھوت ادھار کی راہ میں حائل ہے۔وہ ہندوؤں ک�ا ک�رم اص�ول ہے۔ جب ت�ک یہ اص�ول ہے۔ جب تک یہ اصول ہندوس�تان میں مان�ا جائیگ�ا۔ اچھ��وت ادھ�ار کی تم�ام کوشش�یں بے س�ود اوربے کار ثابت ہوں گی۔ کیونکہ ان دونوں میں علت ومعلول کا تعلق ہے ۔ پس اگرہم اچھوت ذاتوں کو اٹھانا چاہتے ہیں توہمیں لازمی طورپر کرم کے اص�ول ک�وترک کرن�ا ہوگ�ا۔ جس ط�رح ہندوس�تان کے مسیحیوں نے ترک کرکے ان صحیح ذاتوں کو اوپ��ر اٹھای��ا ہے۔ لیکن ج��ائے ح��یرت یہ ہے کہ مس��ٹرلر خیر کے لئے کوستےہیں اورمسیحی مبلغین کو ملک بدرکرنے گاندھی مسیحی کلیسیا کو اس کا کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ حالانکہ قوم کی شیرازہ بندی صرف مسیحی اصول پر عمل ک��رنے س��ے

ہی ہوسکتی ہے۔۱۰

ہم کویہ امر ہرگ��ز فرام�وش نہیں کرن�ا چ�اہیے کہ وط�نیت اورسودیش�ی ک�ا اص�ول جب ح�د اعتدال سے تجاوز کرجاتاہے تومن��افرت اورمناقش�ت ک��ا پ�ودا پھل��نے پھول��نے لگت��اہے۔ اس قس��م کے اص��ول ک��ا یہ لازمی ن��تیجہ ہوت��اہے کہ ہم اپ��نے مل��ک وطن اورق��وم کی اس ق��در پرس��تش ک��رنے ل��گ جاتے ہیں کہ دیگر ممالک واقوام کے انسانوں اورچیزوں کو"بدیشی" سمجھ کر ان کو حقارت اور نفرت کی نگاہوں سے دیکھنے لگ جاتے ہیں ۔ تاریخ ہم ک��و بتلاتی ہے کہ بعض اوق��ات مجنون��انہاان ک�و بے دری�غ قت�ل جوش میں قوم پرس�ت نوج�وان دوس�روں کی ج�ان لین�ا بھی ف�رض س�مجھ ک�ر کردیتے ہیں ۔اور اپنی جان کوقومیت کی قربانگاہ پر بھینٹ چڑھانا اپنی خ��وش قس��متی س��مجھتےآات��اہے۔ اوردیگ��ر وطن پرس�ت قات�ل ک��و ہیں۔قتل اورخ��ون ان کی نگ�اہ میں ای��ک مق��دس ف��رض نظ��ر غازی اورشہید کے معزز القاب سے ملقب کرتے ہیں۔ خود ہم��ارے مل��ک میں بیس��ویں ص��دی کےاوائل میں قومیت اوروطن پرستی کے جذبہ س��ے سرش��ار ہ��وکر نوج��وان دوس��روں ک��و قت��ل ک��رتے رہے۔آاہمسہ اورعدم کیونکہ دوسرے ان کے فعل کو بنظر استحسان دیکھتے تھے۔ ابھی چند سال ہوئے

Page 63: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

تشدد کے رسول مسٹر گان��دھی قات�ل بھگت س��نگھ کی تعری��ف میں رطب اللس��ان تھے۔اگ��رچہ وہابرا سمجھتے تھے۔ اس کے فعل کو

ساخت اومعبود رادین مملکتساخت رامحمود اومذموم فکر

یہ سچ ہے کہ گاندھی جی عدم تشدد کی تلقین کرتے ہیں اوراس اصول پر خ��ود عم�ل کرتے ہیں۔ لیکن عدم تش�د ک�ا اص�ول ق��ومیت کے م�ذہب ی�ا وط�نیت ک�ا اص�ل الاص�ول نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک خارجی اصول ہے ۔ جو غیر ہندو م��ذاہب بالخص��وص مس��یحیت س��ے )جس ک��ا وطن پرستی سے تعلق نہیں (اخذ کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم پرست بالعموم اس اصول کو وطنیت کے م��ذہب کی بنی��اد نہیں م��انتے۔حقیقت ت��ویہ ہے کہ وط��نیت کے م��ذہب میں وہ اخلاقی ط��اقت موجود نہیں جوتشدد کوایک مذسوم شے قرار دینے پر اصرار ک��رے۔اوریہ خدش��ہ رہت��اہے کہ وط��نیت کا مذہب ہماری انسانی سرشت کے میلانات اوررحجانات کوس�یدھے رس��تہ پ�ر رکھ��نے کی بج��ائے ان کو برگشتہ کردیگ�ا اورمل�ک وق�وم کوس�دھارنے کی بج�ائے ان ک�و بگاڑدیگ�ا۔ موج�ودہ زم��انہ میں قومیت سے یہ مطلب لیا جاتاہے کہ قوم ایک وجود مطلت ہے اورتمام چیزیں اسکے ماتحت ہیں۔یہاپرانی تعلیم ہے جس کا مقابلہ مسیحیت نے اوائل ص��دیوں میں کی��ا تھ��ا تعلیم نئے بھیس میں وہی کہ قیصر خداہے۔ اس نئی تعلیم کا یہ مطلب ہے کہ وطن کی سیاسیات انسانی زن��دگی کے تم��امیہی شرائع اورمذہبی احکام سب اس کے ماتحت ہیں۔یہ عہد حاض�ر ک�ا شعبوں پر حکمران ہے اورالابت پرستی کے برابر ہے۔ کیونکہ اس طور پر قوم خ��دا کی س��لطنت س��ے ب��الا اورخ��الق دجال ہے اور کی مرضی ارادہ اورمنشا پر مقدم قرار دی ج��اتی ہے۔ جس ک��ا ن��تیجہ یہ ہوگی��اہے کہ فی زم��انہ جسآازادی بلکہ اا جرم��نی، اٹلی وغ��يرہ( میں یہ تعلیم غ��الب ہ��وتی ہے وہ��اں نہ ص��رف م��ذہبی مل��ک )مثلآازادی ن��ابود ہوج��اتی ہے۔ وط��نیت اور ق��ومیت خ��دا کی برت��ری اوراس کے ق��وانین کی ہرقس��م کی عالمگیری کا انکار کرتی ہے تاکہ خدا کی جگہ کوغضب کرکے اپنے قوانین کو انسانوں پر حاویااصول قومیت کوخ��دا اورم��ذہب پ��ر حکم��ران کردی��تے ہیں۔ لیکن حقیقت میں کرسکے وطنیت کے

مذہب کوقومیت پر حکم��ران ہون�ا چ�اہیے۔ت�اکہ م�ذہب ق��وم کی ح�الت کوسدھارس��کے اورق�وم ش�اہرہترقی پر گامزن ہوسکے۔

۱۱ اگرسودیشی اصول کا مذہب پر اطلاق کی��ا ج�ائے ت�واس ک�ا لازم ط��ورپر منطقی ن�تیجہ یہآادم ای��ک ہوگا۔ کہ سودیشی مذہب یاوطنیت کے ماننے والے اس ب��ات کے قائ��ل نہیں کہ ک��ل ب��نی ہی اص��ل اورخ��ون س��ے پی��دا ہ��وئے ہیں۔ اورای��ک دوس��رے س��ے اس��ی قس��م ک��ا تعل��ق رکھ��تے ہیںااص�ول ک�ا انک�ار لازمی ہے کہ ع ب�نی جومنکشف اعضا کوایک ہی بدن س�ے ہوت��اہے۔ اس مس�لمہ

آادم اعضائے دیگر ندا مرحوم اقبال نے کیا خوب کہا کہ:اند کردہ ااخوت قطع آانچاںاند کردہ ملت تعمیر بروطنساختند محفل راشمع تاوطنساختند راقبائل انسان نوع

شد افسانہ جہاں اندر مردمیآادمی آادمی اشد بیگانہ از

ارو سے قوم کی بنیاد وطن ہے۔ لہذا ہم کو یہ ماننا پڑیگ��ا کہ رن��گ چونکہ اس نظریہ کی نس��ل ق��وم اورذات ومل��ک کے اختلاف��ات س��طحی اورعارض��ی نہیں۔ بلکہ اص��لی حقیقی اوربنی��ادی اختلافات ہیں۔ لیکن فی زمانہ کون صحیح العقل شخص اس قسم کے نتیجہ ک�و م�ان س��کتاہے ؟ جس ک���ا مطلب یہ ہے کہ یہ منطقی ن���تیجہ عق���ل کے خلاف ہےلہ���ذا باط���ل ہے۔پس ن���تیجہ کی بطالت یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ قضا یاجن کی بناء پر اس قسم کا نتیجہ ق��ائم ہے درحقیقت باط��لااص��ول ااص��ول ک��ا م��ذہب پ��ر اطلاق نہیں کرس��کتے۔ ہیں۔ جس ک��ا مطلب یہ ہے کہ ہم سودیش��ی منطق کے مطابق ضدین میں سے اگرایک قضیہ باطل ہوتودوسرا صحیح ہوتاہے۔ پس یہ ظاہر ہے کہ مذہب کے اصول کی ص�حت وبط�الت ک�ا تعل�ق کس�ی خ�اص مل�ک ق�وم رن�گ یانس�ل کے س�اتھ

Page 64: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ااصول مذہب درست ہے توکل مملاک واقوام وازمنہ اورتمام بنی ن��وع انس��ان نہیں ہوتا۔ بلکہ اگرکوئی کے لئے درست ہوتاہے۔

ااصول ااصولوں پر مبنی ہے ۔ یہ علاوہ ازیں وطنیت کا مذہب درحقیقت نسل اورخون کے کس��ی ای��ک ق��وم کی نس��ل ک��ودیگر اق��وام کی نس��ل پ�ر ف��وقیت دی��تے ہیں۔ اوریہ تعلیم دی��تے ہیں کہآارین نس��ل اا بعض اخون کی ملاوٹ نس��ل کی ت��نزلی ک��ا ب��اعث ہ��وتی ہے۔ مثل مختل��ف نس��لوں کے کو دیگر اقوام کی نسلوں پ��ر ت��رجیح دی�تے ہیں۔چن��انچہ بھ��اگوت گیت��ا میں جب ارجن کرش��ن جی کوکہتاہے کہ میں اپنے عزیزواقارب سے جنگ کرنا نہیں چاہت��ا توکرش��ن جی اس ک��و ملامت ک��رتے

آامادہ کرتے ہیں : ااس کو یہ کہہ کر ہیں اور جنگ پر لن نسل آارین کرنا سستی میں جنگ ارجن " اے نہیں"۔ شایان کےشا

بسنت(۔ اینی مسز " مترجمہ۳: ۲) ایسے ل�وگ اس ب�ات پ�ر اص�رار ک�رتے ہیں کہ اس نس�ل کے انس�انوں ک�و کس�ی دوس�ری نسل کے انسانوں سے شادی بیاہ کے تعلقات نہیں رکھنے چ��اہیں۔کی��ونکہ اس ط��رح مخل��وط ہ��وکرنسل کا خون خراب ہوجاتاہے اورنس��ل ت��رقی ک��رنے کی بج��ائے ت��نزلی کی ط��رف مائ��ل ہوج��اتی ہے۔ لیکن جوشخص بیالوجی یاعلم الحیات سے ذرا بھی واقف ہے وہ جانتاہے کہ نس��ل اورخ��ون کے یہ ااصول غلط ہیں اورنوع انسانی پر عائد نہیں ہوسکتے۔ انسان اورحی��وان میں ف��رق یہی ہے کہ حی��وان کی نوع نسل اورخون کے اصولوں پر قائم ہے لیکن انسانی نوع جوذی روح ہے روحانی اص��ولوں پ��ر

قائم ہے جن کا تعلق نسل اورخون جیسی مادی اشیاء سے نہیں ہوتا۔انجیل جلیل کی تعلیم اس بارے میں بارے میں نہایت صریح اورواضح ہے۔

" خ��دا نے س��ب قوم��وں ک��و روئے زمین پ��ر رہ��نے کے ل��ئے ای��ک ہی خ��ون س��ے پی��دا کی��اآایت(۔۲۶باب ۱۷)اعمال

اق��وام ع��الم میں اختلاف��ات ض��رور ہیں۔ لیکن وہ محض س��طحی اختلاف��ات ہیں۔ لہ��ذاان کے باوجود کل بنی نوع انسان ایک ہیں۔ کسی انسان کو انسانیت کے رنگ یا مل�ک ی�اقوم ی�ااس

کی تمدنی اقتصادی یا سیاسی حالت پ��ر مب��نی نہیں بلکہ اس کی انس��انیت اس ب��ات میں ہے کہ وغ��یرہ(۔۱۲: ۱۰۔ رومی��وں ۲۶: ۱۔ پی��دائش ۲۸: ۳خ��الق کائن��ات نے اس ک��و پی��دا کی��ا ہے)لوق��ا

اورخدا" کسی کا طرف دار نہیں بلکہ ہر ق��وم میں ج��و ش��خص خ��دا س��ے ڈرت��اہے اورراس��تبازی کےآاتاہے)اعمال (۔پس کوئی شخص خواہ کسی مل��ک ق��وم، ذات۳۴: ۱۰کام کرتاہے وہ خدا کوپسند

آاس��مانی ب��اپ۲۸: ۱۰یانسل کا ہو")نجس اورناپاک نہیں )اعمال آادم ایک ہی (۔کیونکہ سب بنی وغیرہ( ۴۵: ۵کے فرزند ہیں )متی

اان کی جمعیت کا ہے ملک ونسب پر انحصارقوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری

۱۲ وطنیت یاسودیشی مذہب کے اصول اقوام عالم کو اپنے اپنے ملک کی چار دی��واری کے اندر مح�دود کردی�تے ہیں۔ لہ�ذا وہ بین الاق��وامی تعلق��ات کے قی�ام اورت��رقی کی راہ میں رک��اوٹ ک�ا باعث ہیں۔یہ امر مزید توضیح کا محتاج نہیں کہ ب��نی ن��وع انس��ان کی ت��رقی بین الاق��وامی تعلق��اتااخ��وت اورمحبت پرمنحص��ر ہے کے نشونما پانے اوراق��وام وممال��ک کے اف��راد کے ب��اہمی می��ل ملاپ اورہم وطنیت کے سودیشی مذہب کے اصولوں کومان ک��ر مختل��ف ممال��ک کی اق��وام کوجغرافی��ائی حدود کے اندر رکھ کر باہمی می��ل ج�ول کی راہ بن��د کردی�تے ہیں ۔ ہم�ارا مل�ک ص��دیوں س�ے اس قسم کی مصنوعی پابندیوں میں پابزنجیر رہاہے۔ جس ک��ا ن��تیجہ یہ ہ��واہے کہ ہن��دی ق��وم دیگ��ر اق��وامااخ��وت کی بج��ائے وہ دیگ��ر سے الگ تھلگ اپنی زندگی بس��ر ک��رتی رہی ہے۔ اوراتف��اق اورمحبت و اق��وام وممال��ک کے اف��راد ک��و نف��رت اورحق��ارت کی نظ��ر س��ے دیکھ��تی رہی ہے اورت��رقی ک��رنے کیارو س��ے ص��رف ق��ومیں ب��اقی رہ ج��اتی ہیں ۔ بج��ائے ت��نزلی ک��رتی گ��ئی ہے۔ وط��نیت کے نظ��ریہ کی آادمی درندہ اورانسان حیوان ہوجاتاہے۔ ایک قوم دوسری ق��وم کے خ��ون کی آادمیت فنا ہو جاتی ہے۔

ااخوت انسانی پارہ پارہ ہوجاتی ہے۔ پیاسی ہوجاتی ہے۔ لق خدا ابٹتی ہے اس سے اقوام میں مخلو

Page 65: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

انجی��ل جلی��ل کے اص�ول کے مط�ابق ہم مل�ک ی�ا ق��وم ذات نس�ل یارن�گ کے اختلاف�ات کوبنی��ادی اورحقیقی اختلافات ق��رار نہیں دے س�کتے۔ چ�وکنہ خ�دا ای�ک ہے لہ��ذا ک�ل ب�نی ن�وع انس�ان بھی ای��ک ہی اص��ل س��ے ہیں اورخ��دا کے فرزن��د ہ��ونے کی حی��ثیت س��ے س��ب براب��ر ہیں۔خ��دا ک��ا ک��وئی مخلوق فی نفسہ پیدائش یاذات یاقوم یانسل کی وجہ سے دوس��رے س��ے ب��الا ی��ا برتری��ا کم��تر نہیں۔آاس�مانی ب�اپ کے خان�دان میں یہ خدا ک�ا ک�وئی منظ�ونظر نہیں اور نہ خ�دا کس�ی ک��ا طرف�دار ہے۔ نہیں ہوتا کہ ایک فرزند اس کی بادشاہی ک�ا وارث ہ��و اوردوس�را مح�روم الارث ہ��وبلکہ ک�ل ب�نی ن�وع

انسان خواہ وہ کسی ملک قوم یا نسل کے ہوں یکساں طورپر خدا کی بادشاہت کے وارث ہیں۔ جول��وگ مس��ٹر گان��دھی کی ط��رح نس��ل انس��انی کومختل��ف اق��وام میں منقس��م ک��رکےیہی کوکسی خاص مل��ک ی��اقوم ی��اذات کے س��اتھ ااصول کا اطلاق کرکے معرفت ال اورسودیشی کے اا خ��دا کی وح��دانیت کے قائ��ل نہیں اوراس کی ذات وص��فات اوراس مخص��وص ک��رتے ہیں وہ یقین�� کی نجات کے علم سے بے خ�بر ہیں۔ ہن�دومت ک�روڑوں دیوت�اؤں ک�ا قائ�ل ہے۔ لہ�ذا اس کے پ�یرو اس قس��م کی خطرن��اک غلطی میں مبتلا ہوس��کتے ہیں۔ لیکن جن لوگ��وں نے خ��دائے واح��د کیآادم پر ظاہر ہوئی ہے تجربہ کیا ہے وہ اس چاہ ضلالت سے نکل محبت کا جوخداوند ہے میں بنی اان ک��ا یہ ایم��ان ہے کہ خ��دا جودل��وں اورگ��ردوں ک��ا ج��اننے اورپرکھ��نے والا ہےوہ ہ��رکس آائے ہیں اور وناکس کو اوربالخص��وص ہرق��وم ومل��ک کے گنہگ�اروں اورب�دکاروں ک�و اپ�نی بے قی��اس محبت س��ے

نجات کی دعوت دیتاہے۔۱۳

لب باطلہ یہ جن لوگوں نے مختلف مذاہب کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ بعض مذاہااس مل��ک کی چ��اردیواری ت��ک مانتے ہیں کہ ہرایک ملک کاایک خاص دیوتاہے ۔ جس کا اختی��ار لب باطلہ کے مطابق ہرای��ک مل��ک ااس کا قبضہ نہیں ہوتا۔ ان مذاہ ہی محدود رہتاہے اوربیرونجات پر ک�ا دیوت�ا اس مل�ک پ�ر حکم�ران ہوت�اہے۔ پس اس مل�ک کے باش��ندوں ک��ا یہ ف��رض ہوجات�اہے کہ وہآاس پاس کے ممالک کے دیوتاؤں کی پوجا نہ کریں۔وطنیت ااسی دیوتا کی پرستش کریں اور صرف

لب ب�اطلہ کے پرس�تاروں کی س�ی ہے۔ اورسودیشی مذہب کے ماننے وال�وں کی ذہ��نیت بعینہ ان م�ذاہ جس طرح وہ یہ مانتے ہیں کہ ہر ملک کے باشندوں کوچاہیے کہ صرف اپنے ملک کے معب��ود کی پرستش کریں۔ اسی طرح وطنیت یاسودیشی مذہب کے شیدائی مانتے ہیں کہ ہ�ر ش�خص ک�و اپ�نے ملک وقوم کے معبود کی پرستش کرنی لازم ہے۔اوراس قسم کی ذھنیت کا لازمی نتیجہ یہ ہوت��اہے کہ مختلف ممالک کے مختلف دیوتا ہوتے ہیں۔اوریہ تمام دیوتا اپنی اپنی جگہ برحق اور اپنے اپ��نےلب اختیار اوراپنے اپنے ملک کے باش��ندوں کے م��ال وج��ان پ��ر ق��ابض ملک میں یکساں طورپر صاحآات��اہے س��مجھے ج��اتے ہیں۔پس خ��دا کی وح��دانیت کی بج��ائے خ��داؤں کی ک�ثرت ک��و مانن��ا لازم اوردیوتا پرستی خدا پرستی کی جگہ لے لیتی ہے۔لیکن جو لوگ یہ م��انتے ہیں کہ خ��دا ای��ک ہے وہ

ابت پرستی کے ایمان کو مردود سمجھتے ہیں۔ اس قسم کی کہتاہے: ۔ہکسلے ایس ۔ جے پروفیسر مشہور کا الحیات علم

اورجس ہے۔ شے ع��المگیر ایک ضرور بھی مذہب کہ ہے دیتی تعلیم یہ کو ہم وحدت کی "فطرت ایک ص�رف ۔ چ�اہیے ہونا ح�اوی پر سب م�ذہب ہی ایک ط�رح اسی ہے ایک جگہ ہر فط�رت طرح۔13پرودے میں لڑی کوایک عالم اقوام مختلف کہ ہوسکتاہے قابل اس ہی مذہب عالمگیر واحد

پس نہ صرف خ�دا کی وح�دت ہم ک�و اس ب�ات پ�ر مجب��ور ک�رتی ہے کہ ای�ک ع��المگیر م��ذہب کی ض��رورت ک��و م��انیں بلکہ سائنس��دان بھی ڈنکے کی چ��وٹ یہی اعلان ک��رتے ہیں کہ فط��رت کی وح��دت اس ب��ات ک��و من��وانے پ��ر ہمیں مجب��ور ک��رتی ہے کہ ک��وئی نہ ک��وئی م��ذہب

عالمگیر ہو۔۱۵

مسیحی نجات کا اصول اس بات پر زوردیتاہے کہ مسیح ک��ل ب��نی ن�وع انس��ان کے ل��ئے موا۔ پس نہ ص��رف انجیلی ایم��ان کہ خ��دا ای��ک ہے ہم ک��و اس ب�ات پ��ر مجب��ور کرت��اہے کہ ہم ن�وع انسانی کوایک مانیں۔ بلکہ مسیحی نجات کا اصول بھی اسی ب��ات ک��ا تقاض��ا کرت��اہے ۔ منج��ئی ع��المین کی ص��لیب کے س��ایہ کے نیچے ہرقس��م کی مص��نوعی امتی��ازات اورعارض��ی اختلاف��ات ک��ا13 J.S.Huxely, Essays of a Biologist, pp.301-302

Page 66: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

لہ کلوری پر ہم کو تم��ام اق��وام وممال��ک ای��ک جگہ جم��ع دکھ��ائی دی��تے خاتمہ ہوجاتاہے کیونکہ۔کو ہیں۔ وہاں ہرگنہگار خ��واہ وہ کس�ی ق��وم نس��ل ی�اذات ک�اہو خ�دا کی محبت ک�ا جل�وہ دیکھت�اہے ۔ اورہر بدکار خواہ وہ کسی ملک کا ہو توبہ کے ذریعہ ازس��ر نوزن��دگی بس��ر ک��رنے کی توفی��ق پات��اہے۔

چنانچہ انجیل جلیل میں مرقوم ہے کہ: " وہی مسیح ہماری صلح ہے جس نے کل اقوام کویک جاکردیا اورجدائی کی دیوار ک��و

(۔۱۰: ۲جوبیچ میں تھی ڈھادیا")افسیوں لیکن ہندومت اس قسم کی نجات کا قائ��ل نہیں ۔ ہن��دومت کے ذات پ��اب کے اص��ول اورمس��ٹر گان��دھی کے سودیش��ی م��ذہب وط��نیت کے اص��ولوں نے مل��ک اور ق��وم جیس��ی س��طحی امتیازات کو مقدم قرار دے کر یہ ثابت کردیاہے کہ نوع انسانی کو" نوع" کہنا سخت غلطی میں گرفتار ہوناہے۔ کیونکہ وہ ایک "ن��وع" نہیں بلکہ مختل��ف اورمتض��اد گروہ��وں ملت��وں ذات��وں قوم��وں اور نسلوں کا مجموعہ ہے جوایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ گویا نوع انسانی کا وجود محبت کےااخوت ومس��اوات کی خ��اطر ص��فحہ لئے نہیں بلکہ باہمی جنگ وجدل کے لئے ہے۔اورنوع انسانی دہرپرظاہر نہیں ہوئی بلکہ ب��اہمی تقس��یم اورمن��افرت کے ل��ئے پی��دا کی گ��ئی ہے۔وط��نیت کے م��ذہب کے اص��ول کے مط��ابق ہ��ر مل��ک وق��وم کے خ��اص اوص��اف ہیں اورکس��ی ای��ک مل��ک ی��اقوم کی خصوص��یتیں دیگرممال��ک واق��وام کے اف��راد میں موج��ود نہیں ہوس��کتیں۔کی��ونکہ یہ خصوص��یتیں ان ممال��ک واق��وام کے خ��ون میں نہیں ہ��وتیں۔اوران کی ذات ای��ک دوس��رے س��ے ج��داگانہ ہے۔ پس وطنیت اورسودیشی مذہب کے اصول کے مطابق روئے زمین کے مختل��ف ممال��ک واق��وام کے اف��رادکے درمی��ان ای��ک ایس��ی وس��یع خلیج حائ��ل ہے ج��و کس��ی ط��رح بھی عب��ور نہیں کی جاس��کتی۔ اورجیسا ہم اپر ذک�ر ک�رچکےہیں یہ ای�ک ایس��ا ن�تیجہ ہے ج�وہم ک��و الح��اد اور کف��ر کی ج�انب لے

جاتاہے۔

۱۶

ان خطرن��اک نت��ائج وع��واقب کی وجہ س��ے مس��ٹرگاندھی کے ج��انی دوس��ت مرح��وم س��یآاپ کے اس قول سے کہ تمام مذاہب آاپ کو بایں الفاy متبنہ کیا تھا " ایف اینڈرو نے ایک دفعہ برابر ہیں۔ مجھے بہت صدمہ پہنچاہے۔ کیونکہ یہ بات حقیقت کے مطابق نہیں ہے۔ اورم��یرا ذاتیآاب�ائی م�ذہب پ�ر رہن�ا آاپکا ایمان کہ انس�ان ک�و ہمیش�ہ اپ�نے تجربہ بھی اس کی تصدیق نہیں کرتا۔ چاہیے ۔ مذہب کو ایک جامداد بے معنی شے بنادیتاہے ۔ حالانکہ مذہب ک��و زن��دگی کے ہرش��عبہآاپ کا یہ خیال درست ہے تومجھے ہمیشہ رونگ ف��رقہ کی تن��گ ح��دود کا محرک ہونا چاہیے ۔ اگرآاپ نے خ�ود ک�ئی ب�ار کہ�ا کہ" میں رہنا چاہیے تھا۔ کیونکہ میں نے اس�ی ف�رقہ میں جنم لی�ا تھ��ا۔ اگر اچھوت پن ہندومت ک�ا ج�زو ہے ت�ومیں ہن��د و نہیں ہوس��کتا"۔ مس�یح م�یرے ل��ئے ای�ک لاث�انییہی مع��رفت حاص��ل کی ہے اورمیں دوس��روں ک��و یہ وس��یلہ ث��ابت ہ��واہے۔ جس کے ذریعہ میں نے ال حقیقت بتلائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انجیل کے مط��العہ س��ے یہ ظ��اہر ہے کہ مس��یح نے ذات، نس��لآادم کیل��ئے ہے۔جب ک��وئی ش��خص اوررن��گ کی دی��واروں ک��و ڈھادی��ا ہے اوراس ک��ا پیغ��ام ک��ل ب��نی صدقدل س�ے کس��ی ب��ات ک�و مانت��اہے ت��واس ک��ا اعلان ک�ئے بغ��یر نہیں رہ س�کتا ۔ پول��وس رس��ول کہتاہے کہ " میں انجیل کی خوش�خبری سنانس�ے پ�ر مجب�ور ہ��وں بلکہ مجھ پ�ر افس�وس اگ�رمیں نہ

آاہمسہ کے اصول کا پرچار کئے بغ��یر نہیں رہ س��کتے۔ جب۱۶: ۹کرنتھیوں ۱سناؤں") آاپ خود (۔ کوئی شخص بپتسمہ پاتاہے تووہ اپنی قوم اورمل��ک ک��و ت��رک نہیں کردیت��ا۔ بلکہ وہ "ش��یطان اوراس کے سب کاموں کو دنیا کی واہیات باتوں کو اور نفس کی بڑی خواہشوں کوترک "کرنے ک��ا وع��دہ کرتاہے وہ اپنے ملک اورق��وم کی اچھی چ��یزوں ک��و ت��رک نہیں کرت��ا۔ چن��انچہ مق��دس پول��وس رس��ول فرمات��اہے"اے بھ��ائيو جت��نی ب��اتیں ح��ق ہیں اورش��رافت کی ہیں اورواجب ہیں اورجت��نی ب��اتیں پ��اک اورپسندیدہ اوردلکش ہیں غرض جونیکی اورتعریف کی باتیں ہیں۔ان پر غور کیا کرو توخدا جوصلح

(۔ میں یہ محس��وس کرت��اہوں کہ ہن��دوؤں ،۸: ۴کا بانی ہے ہمارے تمہارے ساتھ رہے گا")فل��پیوں مسلمانوں اورمسیحیوں کے درمیان حد فاضل ہے۔ لیکن عقائد کے اختلاف کی بناء پر ہمیں ایک

Page 67: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ء( مرحوم مرتے مرتے گاندھی۱۹۴۱ مئی ۳دوسرے کو مطعون کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے")اپفینی جی کو وصیت کرگئے ہیں۔

مراد بانصیحت بودوگفتیمحوالت باخدا کردیم ورفتیم

پنجم بابخصوصیات کی مذہب عالمگیر

سودیشی مذہب عالمگیریت اورقطعیت کے منافی ہےآات��اہے کہ ع��المگیر م��ذہب کے امک��ان ااصول س��ے یہ لازم وطنیت اورسودیشی مذہب کے کا انکار کیا جائے۔اگرہر ملک وہررس�مے کی ط�رح ہ�ر مل�ک وہرم�ذہب ک�ا تص�ور درس�ت ہے ت�و یہ ظاہر ہے کہ کوئی مذہب عالمگیر نہیں ہوسکتا۔کیونکہ ہرمذہب اپنے اپ��نے مل��ک کے باش��ندوں کے لئے اپنی اپنی جگہ یکساں طورپر درست اورص��حیح ہوگ��ا اوریہ گنج��ائش ہی نہیں رہیگی کہ کس��ی مذہب کی اس کے اپنے ملک کے باہر ض��رورت ہوی��ا ک��وئی ای��ک م��ذہب ای��ک س��ے زی��ادہ ممال��ک واقوام پر حاوی ہو۔ ہر ملک کے مذہب کے اصول اس کے باشندوں کے لئے درست ہ��ونگے۔اوراس ملک کی چاردیواری کے باہر وہ اصول ناکارہ ث��ابت ہ��ونگے۔ پس ک��وئی م�ذہب ع��المگیر ہ��ونے کییی کرت��اہے کہ اس کے اص��ول تم��ام ص��لاحیت نہیں رکھ س��کتا۔ کی��ونکہ ع��المگیر م��ذہب یہ دع��و ممالک واقوام وازمنہ کی رہنمائی کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اورکل بنی ن�وع انس��ان پ�ر ح�اوی ہیں۔ وطنیت اورسودیش�ی م�ذہب کے اص�ول زم�ان ومک�ان کی قی��ود میں مقی��د ہ��وتے ہیں لیکن ع��المگیر

آازاد ہوتےہیں۔ ااصول زمان ومکان کی قیود سے مذہب کے ۲

آات��ا ہے کہ کس�ی وطنیت اورسودیشی م��ذہب کے اص��ول کے م�اننے س��ے یہ بھی لازم ہے ایک مذہب کی قطعیت کا انکار کیا جائے۔ اگریہ درس�ت ہے کہ ہ��ر مل�ک وزم�انہ ک�ا م�ذہب اپ�نیااص��ول قطعی نہیں ہوس��کتے اور نہ ک��وئی اپ��نی جگہ برح��ق ہے ت��ویہ ظ��اہر ہے کہ کس��ی م��ذہب کے آاخ��ری اور حتمی ط��ورپر کام��ل اوراکم��ل ہے اوراس یی کرس��کتاہے کہ اس ک��ا مکاش��فہ مذہب یہ دع��ویی ترین مکاشفہ کے بعدکسی بہترمکاش��فہ ک��ا امک��ان نہ ص��رف بیع��د ازقی��اس بلکہ مح��ال ہے۔ اعل سودیشی م�ذہب کے قض�ایا س�ے یہ ن�تیجہ ایس�ا ص�اف اورص��ریح ہے کہ مزی�د تش�ریح کی ض�رورت معلوم نہیں ہوتی۔ چنانچہ بمبئی کے مشہور ہفتہ وار انگریزی اخب��ار ان��ڈین سوش��ل ریف��ارمر ک��ا ہن��دو

ایڈیٹر لکھتاہے: قب��ول کر سمجھ قطعی ہمیں کو تعلیم کی استادوں الشان عظیم جیسے اورکرشن "بدھ

آاگے ق����دم ایک کو تعلیم کی ان ہم کہ ہے ف����رض یہ ہم���ارا ب���رعکس کے اس چ���اہیے۔ کرنا نہیںء(۔۱۹۴۱ ہو")فروری ترقی اورروحانی اخلاقی کی انسانی نوع تاکہ بڑھائیں

اگریہ درست ہے کہ ہر قوم کے لئے اس کا اپنا مذہب کافی سچا اوربرح��ق ہے ت��ولاکلام ہم اس نتیجہ سے گریز نہیں کرسکتے کہ ہم حقیقت کو قطعی طورپر نہیں جان سکتے۔ ہرشخص کے لئے وہی سچ اورحق ہے ج��ووہ م��ان لے ۔ جس ک��ا منطقی ن��تیجہ یہ ہے کہ درحقیقت س��چائی کوئی شے نہیں اورحق کوئی خ��ارجی حقیقت اوروج��ود نہیں رکھت��ا۔وہ محض ای��ک ذہ��نی ش��ے ہے جس کا انحصار ہرشخص کے اپنے خیالات پ��ر ہے۔ فلس��فیانہ اص��طلاح میں اس قض��یہ ک��و الح��اد اورمذہبی اصطلاح میں اس کو کفر کہتے ہیں۔ پ��ر اگرم��ذہب ک��ا معب��ود اورمس��جود ک��وئی حقیقی وج�ود رکھت��اہے ت�واس ک�ا وج�ود انس�ان کے علم س�ے بے نی��از ہے ۔ جس ط��رح ہ��ر م�ادی ش��ے ج�و خارجی وجود رکھتی ہے اپنے وجود کے لئے انس�ان کے ذہن کی مرہ��ون منت نہیں ہ��وتی۔ اب اگ�رلد حقیقی کا علم یقینی ط��ورپر ممکن ہے ت�ویہ ظ��اہر ہے کہ ایس�ا حقیقی اوریقی��نی علم اور اس معبو ک��وئی دوس��را ظ��نی علم دون��وں یکج��ا نہیں ہوس��کتے۔ چ��ونکہ ظ��نی علم میں بط��الت ک��ا عنص��ر ضرورہوتاہے جس کی وجہ سے وہ علم ظ��نی علم ہوت��اہے۔ لہ��ذا ای��ک برح��ق م��ذہب کی موج��ودگی

Page 68: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

میں ظنی علم کے مذاہب قائم نہیں رہ سکتے۔ پس تمام مذاہب یکس��اں ط��ورپر ص��حیح اورراس��تنہیں ہوسکتے۔

۳ خدا ک��ا یقی��نی علم ج��وہم ک��و حاص��ل ہے۔ ص��رف کس��ی ای�ک ق��وم ی�ا م�ذہب ی��ا مل�ک کیلئے راس��ت نہیں ۔ بلکہ ک��ل روئے زمین کی اق��وام ووممال��ک کے ل��ئے راس��ت ہے۔ وہ علم ای��ک ایسی قسم کا ہے جس کا کسی خاص قوم یا ملک پر انحص��ار نہیں۔اس ک��و ہم ای��ک مث��ال س��ےلن لش ثقل کوئی حقیقت رکھت��اہے اوریہ ق��انو واضح کردیتے ہیں ۔ اگرمادی اجسام کے لئے قانون کش ثقل سچ ہے ت�ویہ ق��انون کس�ی ای�ک مل�ک یازم�انہ کے ل�ئے درس��ت اورص�حیح نہیں ہوگ��ا بلکہ ک�ل ممالک وازمنہ کے لئے درس��ت اورص�حیح ہوگ��ا۔ ممکن ہے کہ ک��وئی ش��خص یہ اع�تراض ک�رے کہ خ�دا کے علم کی تحص�یل م�ادی اش�یاء کے علم کی مانن��د س�ہل نہیں۔ لیکن اس اع��تراض س�ے

یہی کوحاصل کرنا خالہ جی کا گھر نہیں۔ صرف یہ ثابت ہوتاہے کہ معرفت البزوربازونیست سعادت ایںبخشندہ خدائے بخشد تانہ

لیکن اس اعتراض س��ے یہ ث��ابت نہیں ہوت��ا کہ خ��دا کی ذات کے متعل��ق ہرمل��ک وزم��انہاا علم کیمی��ا، کے لوگوں کا علم یکس�اں ط��ورپر ص��حیح ہے یہ ن�رالی منط��ق ہےکہ دنی��اوی عل��وم مثللم ریاضی وغیرہ کے اصول تمام زمانوں اورملکوں اورقوموں کے لئے ایک ہوں اورراس��ت ہ��وں۔ لیکن علیہی کی یہی ک��ا علم تم��ام ممال��ک وازمنہ کیل��ئے ای��ک نہ ہ��و اورراس��ت نہ ہ��و۔ مع��رفت ال مع��رفت ال

یہی کی حقیقت کا انکار ہے۔ لت ال حقیقت کا انکار درحقیقت ذا پس اگ��رہم ملح��دانہ خی��الات س��ے بچن��ا چ��اہتے ہیں ت��وہم ک��و لاکلام مانن��ا پڑیگ��ا کہ ہم حقیقت کو جان سکتے ہیں اور کہ حق ایک ایسی شے ہے جس ک�ا انحص�ار کس�ی خ�اص فردی�ا ق��وم یامل��ک پ��ر نہیں ہوت�ا۔بلکہ وہ ای�ک حقیقت ہے ج�و تم��ام اف��راد ممال��ک اوراق��وام پ�ر ح��اوی ہے۔ چونکہ مسٹرگاندھی سودیشی مذہب کے ماننے والے ہیں لہذا وہ اس بات کا انک��ار ک��رنے پرمجب��ور

ہیں کہ ہم خ��دا کی حقیقت ک��و ج��ان س��کتے ہیں ۔ چن��انچہ وہ کہ��تےہیں کہ "ہم ج��و خ��دا کے سامنے رینگ��نے والی مخل��وق کی مانن��د ہیں اوراس کی لامح��دود وعظمت،محبت اوررحم ک��و کس طرح ج�ان س�کتے ہیں ؟یہ عقی�دہ ملح��دانہ ہے۔ اورہم اس ک�و نہیں م�ان س��کتے کی��ونکہ اگ�رچہ ہم محدود العقل ہونے کی وجہ سے خدائے لامحدود کو کامل طورپر نہیں جان س�کتے ۔پ��ر اس س�ےآاتاکہ ہم ک��و خ��دا کی مع��رفت حقیقی اورقطی ط��ورپر حاص��ل نہیں ہوس��کتی۔ ی��اکہ ہم یہ لازم نہیں ابرے کی تم��یز نہیں کرس��کتے ی��اکہ کس��ی قطعی مختل��ف م��ذاہب کے تص��ورات میں س��ے بھلے مکاش��فہ ک��ا ہوناناممکن��ا میں س��ے ہے۔ہم اس ب��ات کوای��ک مث��ال س��ے س��مجھا دی��تے ہیں۔ کس��ی

کا علم کامل طورپر حاصل نہیں اورروئے زمین پر ک��وئی ش��خص)Atom(سائنسدان کوذریت ااس�کو حاص�ل ہے۔ یی نہیں کرسکتاکہ ذرات کی نسبت ج�وعلم حاص�ل ہوس�کتاہے وہ س�ب یہ دعوآات��اکہ کس��ی سائنس��دان ک��ا موج��ودہ علم درحقیقت راس��ت اوردرس��ت لیکن اس س��ے یہ لازم نہیں آاف��رینش س��ے تاح��ال مختل��ف ممال��ک واق��وام نہیں اورذریت کے مختل��ف نظ��ریہ ج��ات ج��و ابت��دائے اورازمنہ کے فض��لاء نے وض��ع ک��ئے ہیں وہ س��ب کے س��ب یکس��اں ط��ورپر ص��حیح ہیں اور ان میں

لت عزیز کو گنوانا ہے۔ ابرے کی تمیز کرنا وق اچھے ۴

مسٹرگاندھی کہتے ہیں کہ لامحدود ہے لیکن اس سے لفظ سے وہ یہ مراد لی��تے ہیں کہ اس کے لامح��دود ن��ام ہیں اورہرش��خص اپ��نی پس��ند کے مواف��ق اس ک��ا ن��ام پک��ارکراس س��ے دع��ا کرسکتاہے۔ لیکن جب ہم خدا کولامحدود کہتے ہیں ت��واس س��ے ہم��اری م��راد یہ نہیں ہ��وتی کہ وہ زمان ومکان کے لحاy سے لامح��دود ہے ی��ااس کے ن��ام لامح��دود ہیں بلکہ ہم��ارا مطلب یہ ہوت��اہےاا رحم، محبت وغ��یرہ کی ک��وئی ح��د نہیں۔ مس��ٹر گان��دھی کہ��تےہیں کہ کہ اس کی ص��فات مثل چونکہ تمام مذاہب میں خدا کا تصور موجود ہے لہذا وہ سب یکس�اں ط��ورپر ص��حیح ہیں۔ بف��رضلن عالم میں خدا کا تصور موجود ہے توہم یہ سوال کرتے ہیں محال اگرہم تسلیم بھی کرلیں کہ ادیالر خ�دا کی مج�رد موج�ودگی ک�ل م�ذاہب کویکس�اں ط��ورپر ح�ق اوردرس�ت ق��رار دے کہ کی��ا تص�و

Page 69: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

سکتی ہے؟ کیا تمام مذاہب میں خدا کا تصور یکساں ہے کہ وہ سب برابر طورپر ح��ق اورص��حیحلن عالم کا س��طحی ط��ورپر قرار دیئے جائیں؟ جیسا ہم پیشتر ذکر کرچکے ہیں جس شخص نے ادیا بھی مطالعہ کیا ہے وہ جانتاہے کہ خ��دا کے تص��ورات کی وجہ ہی س��ے م��ذاہب میں اختلاف ہے۔اان میں ج��دائی ڈالت��اہے ۔ خ��دا اس کی بجائے کہ خدا کا تصور تمام مذاہب کویکساں کردے وہ کے تص��ورات کے اختلاف کی وجہ س��ے م��ذاہب ای��ک دوس��رے س��ے مختل��ف ہیں اوریہ اختلافااص��ولی اختلاف��ات ہیں جن کی وجہ س��ے مختل��ف م��ذاہب سطحی اختلافات نہیں بلکہ بنی��ادی اوراا ہن��دودھرم کے بعض ف��رقے اوراس��لام میں مط��ابقت اورکلی م��وافقت مح��ال عقلی ہوج��اتی ہے۔ مثلیہی کی لت ال اورمسیحیت کے پ��یرو ای��ک خ��دا کوم��انتے ہیں۔ لیکن تین��وں م��ذاہب میں ج��و تعلیم ذا نسبت پائی جاتی ہے وہ ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہے کہ ان کو برقرار دینا توایک طرفاا ن کو یک جا کرنا اجتم�اع الض�دین کوی�ک ج�اکرنے کے م�ترادف ہے۔ پس محض خ�دا ک�و رہا م��اننے س��ے م��ذاہب میں ب��اہمی م��وافقت کس��ی ط��رح ہوس��کتی ہے؟ جس قس��م کے ایش��ور ک��و ہن��دودھرم مانت��اہے اس��لام کے نزدی��ک وہ عقی��دہ کف��ر ہے۔ جس قس��م کے اللہ ک��و اس��لام مانت��اہےلر لر خ��دا اورمس��یحیت کے تص��و آاریہ س��ماج کے تص��و مسیحیت کے نزدیک وہ نہایت غیرمکمل ہے۔ خ��دا اس میں ای��ک ایس��ی وس��یع خلیج حائ��ل ہے ج��و کس��ی عقلی کرش��مے س��ے عب��ور نہیں کی جاسکتی۔پس سوال یہ نہیں کہ ہرشخص خدا ک��و مانت��اہے بلکہ س��وال یہ ہے کہ وہ کس قس��م کےاا تمن��ا ہ��وتی ہے کہ اس میں وہی اوص��اف پی��دا ہ��وں خدا کو مانتاہے۔ کی��ونکہ ہ��ر انس��ان کی یہ ق��درتآای�اہے کہ" تخلق��وا ب�ااخلاق اللہ یع��نی تم جواس کے معب�ود میں ہیں۔ چن�انچہ ح�دیث ص�حیح میں

اپنے اندر اللہ کی صفات پیدا کرو اوربھاگوت گیتا میں کرشن کہتاہے کہ:اوجے جس یاجنات پتر پائے کو ااس کوپ

ذات میری پائے والا کرنے پوجا میریرسول( غلام مفتی )مترجمہ

ااسی قسم جس سے ظاہر ہے کہ ہرانسان کا اخلاقی نصب العین اور روحانی مطمح نظر لر خ�دا غل��ط ہوگ�ا ت�واس س�ے اخلاق کا ہوگا جس قسم کا اس کا معبود ہوگا۔ پس اگراس ک��ا تص�واا حض��رت س��وزرحرکات س��رزد ہ��وں گی۔ یہی وجہ ہے کہ بائب��ل ش��ریف میں اہ��ل یہ��ود کے انبی��اء مثلاامت اسرائیل کودیگر مذاہب کے معب��ودوں کی پرس��تش س�ے من��ع کی��ا یرمیاہ اورحضرت یسعیاہ اپنی ابت پرست اق��وام س��ونے کی بی��ل کی پرس��تش ک��رتی اا اہل یہود کے قرب وجوار کی کرتے تھے۔ مثل تھیں جس سے بنی اسرائیل پر یہ اثر ہواکہ وہ سونے اورچان�دی ک�ووقعت دی�نے ل�گ گ�ئے تھے۔بی��لآازمائش میں مبتلا رہ��تے تھے اورزن�دہ خ��دا ک�و طاقت کی نشانی تھی۔ لہذا بنی اسرائیل ہمیشہ اس چھوڑ کر قوت اور طاقت کے مظاہرہ پر بھروسا رکھتے تھے۔ لہذا خ��دا نے اپ��نے ن��بیوں کی مع��رفت ان ک��و ب��ار ب�ار متنبہ کی��ا اور فرمای�ا "نہ زورس��ے اورنہ ط��اقت س��ے بلکہ م��یری روح س�ے خداون��د رب

آاگے قربانی��اں۶: ۴الاف��واج فرمات��اہے")ذکری��ا ( اس��ی ط��رح ہم��ارے مل��ک کے ہن��دوکالی دی��وی کے چڑھاتے ہیں اوراس کا اثر ہمارے وطنوں کے اخلاق پرپڑتاہے ۔ لیکن سیدنا مسیح کی ص��لیب کے ارد اگ��رد ہم ک��و ک��الی گھ��اٹ کی س��ی فض��ا نہیں مل��تی جس میں دم گھٹ��نے لگے۔ ابن اللہ کے

پرستاروں کو حکم ہے کہ: تم اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے ل��ئے ن��ذرکرو جوزن��دہ پ��اک اورخ��دا ک��و پس�ندیدہ ہ��و۔

(۔۱: ۲یہی تمہاری معقول عبادت ہے")رومیوں پس سوال درحقیقت یہ ہےکہ کس قسم ک�ا خ�دا ب�نی ن�وع انس�ان ک�ا معب�ود ہوس�کتاہے۔لر آان کی تعلیم ہے کہ خدا انتقام لی�نے والا خ�دا ہے جوقہ�ار اور جب�ار ہے اور وہ گنہگ�اروں ک�و ن�ا قر جنہم میں ڈالتاہے۔ انجی��ل جلی��ل کی تعلیم ہےکہ خ��دا محبت ک��رنے والا ب��اپ ہے ج�و گنہگ�اروںآاریہ س��ماجی کہت��اہے کہ اان کو پنی طرف لوٹالات�اہے۔ کو بے حد پیار کرتاہے اور محبت کے ذریعہ خدا ہرگز ہمارے گناہوں کو معاف نہیں کرتا۔ اورکرم اورتناسخ کے چکر کی تعلیم دیتاہے۔گاندھی

ء کے زلزلے وہاں کے باشندوں کے گناہوں کی س��زا۱۹۳۴جی نے خود کہا تھا کہ صوبہ بہار کے تھے۔ اب س��وال یہ پی��داہوتاہے کہ کی��ا خ��دا کے یہ تین��وں تص��ور جوای��ک دوس��رے کی ض��دہیں ۔

Page 70: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

لب ہوش جانتاہےکہ اجتماع الضدین مح��الات یکساں طورپر درست اورصحیح ہوسکتے ہیں؟ ہرصاح میں س��ے ہے۔ ان مختل�ف نظری��وں میں س��ے اگرای�ک درس�ت ہے تودوس��را لازمی ط��ورپر غل��ط ہوگ��ا۔ اوردونوں صحیح نہیں ہوسکتے۔ایک اورمثال لے لیجئے ۔ یہودیت ،مسیحیت اوراسلام متفقہ ط��ورپرابت پرس��تی کے خلاف ہے۔ مس�ٹر گان�دھی ہندوم��ذہب خدا کا ایک ایسا تصور پیش کرتے ہیں ج��وابت��وں کے م��اننے کے خلاف نہیں ہ��وں" اب یہ دون��وں یکس��اں کے ہم نواہوکر کہ��تے ہیں کہ" میں طورپر صحیح اوردرست نہیں ہوسکتے۔ اگریہودی مسیحی اوراسلامی تصوردرست ہے توسناتن دھرم

آاپ کا تصور صحیح ہے توپہلا تصورغلط ہوگا۔ لر خدا غلط ہے اور اگر اورگاندھی جی کا تصوچند ایک اورمثالیں ملاحظہ فرمائیے:

اس��لام میں گ��ائے کی قرب��انی ج��ائز ہے، لیکن گئ��ور رکھش��ا مس��ٹر گان��دھی کے م��ذہبیعقیدہ میں داخل ہے۔ اب فرمائیے کہ دونوں یکساں طورپرکس طرح صحیح اوردرست ہونگے؟

گاندھی جی عدم تشدد کواپنے مذہب کا ج��زو اعظم م�انتے ہیں لیکن اگ��ر ای�ک پٹھ��انآان وقاتلو ھمہ حتی کہ لاتک��ون فتنہ ویک��ون ال��دین کلمہ اللہ")یع��نی تم ان س��ے آایہ قر مسلمان بحکم ااس ح��د ت��ک ل��ڑو کہ ان میں فس��اد عقی��دہ )یع��نی ش��ریک ( نہ رہے اور خ��الص ہی ک��ا ہ��و ج��ائے )ترجمہ اش�رف علی تھ��انوی( کس�ی مش�رک کوقت��ل ک�ردے۔ ت�واب گان�دھی جی ان دون�وں متض��اد

باتوں کویکساں طورپر صحیح اوردرست کس طرح تسلیم کرسکتے ہیں ؟ گاندھی جی ذات پات کی تقسیم کو انسانی سرشت میں داخ��ل س��مجھتے ہیں۔ جس ط��رح یون��ان ک��ا مش��ہور فلاس��فر ارس��طو غلامی جیس��ی ق��بیح چ��یز ک��و انس��انی سرش��ت میں داخ��ل س��مجھتا تھ��ا۔ گان��دھی جی اس ذات پ��ات کے تف��رقہ ک��و اپ��نے م��ذہب ک��ا ج��زو ق��رار دی��تے ہیںآاشرم دھرم کا قائل ہوں" لیکن ایک مسیحی کل بنی نوع انسان ک��و خ��دا اورکہتے ہیں کہ میں ورن لگ انس��انیت ق��رار دیت��اہے۔ اب مس��ٹر ب��اپ ک��ا خان��دان تص��ور ک��رکے ذات پ��ات کی تقس��یم ک��و نن��

گاندھی کس طرح دومتضاد کویکساں طورپر حق اوردرست تسلیم کرسکتے ہیں؟

ویدانت اورمس�یحیت کے اص�ولوں کولیج�ئے ۔ دون�وں م�ذاہب خ�دا اورخلقت کی نس�بت جداگانہ عقائد رکھتے ہیں جوایک دوسرے کے ساتھ ہر گز مطابقت نہیں رکھ��تے۔ توکی��اہم یہ م��ان سکتے ہیں کہ ان دونوں مذاہب میں درحقیقت کوئی فرق نہیں بلکہ فرق ص��رف س��طحی ہے جب

اان میں بعد المشرقین کا فرق ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اپران��وں کے کرش��ن اورانجی��ل کے مس��یح میں بنی��ادی اوراص��ولی ف��رق نہیں ہیں؟ کی��ا کی��ا دونوں کی اخلاقی اورروحانی حالت ایک ہی سطح پر ہے اوریکساں طورپر دونوں مساوی درجہ کے ہیں؟ جس شخص کو کرشن کے کارناموں سے اورسیدنامسیح کے خیالات ج�ذبات اورافع�ال س�ے

اا بول اٹھے گا کہ رتی بھر بھی واقفیت ہے۔ وہ فوراکجا بہ بیں تفاوت راہ از کجا است تابہ

کوئی شخص بھی جس کے سر میں دماغ اوردماغ میں عقل ہے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اپرانوں کے کرشن کے کارنامے تمام ممالک اوراقوام اورازمنہ کے لئے بہترین نصب العین ہیں۔ لیکن انجی��ل ک��ا مس��یح دوہ��زار س��ال س��ے مختل��ف ممال��ک اوراق��وام اورازمنہ کے لاکھ��وں بلکہ ک��روڑوں اشخاص کے لئے ایک کامل اوراکمل نمونہ رہاہے اوراب بھی مشرق مغ��رب کے ممال��ک کے ل��وگ آانخداون���د کے س���امنے ہی سرتس���لیم خم ک���رتے ہیں اورتاقی���امت ک���رتے رہیں گے۔ گان���دھی جییی ت��رین مظہ��ر بھاگوت گیتا کے کرشن کے مداح ہیں۔ لیکن کیا بھاگوت کا کرشن خ��دا ک��ا اعل اورروحانیت کا کامل نم��ونہ ہے؟ بھ��اگوت گیت��ا ای��ک فلس��فیانہ کت��اب ہے جس میں کرش��ن مہ��اراجآات�اہےوہ ایس�ا نہیں کہ دنی��ا کے کے کیریکٹر کودکھایا نہیں گیا تاہم ج�وکچھ اس میں ہم ک��و نظ��ر اا گیتا کے شروع ہی میں ارجن اس خیال سے ک��انپ اٹھت��اہے کہ وہ جن��گ لئے مطمح نظر ہو۔ مثل

میں اپنے رشتہ داروں کو قتل کرنے والا ہے اور کہتاہے :"افسوس ہم سلطنت کی خاطر اپنے عزیزو اقارب کوقتل کرنے کے گناہ میں مبتلا ہیں"۔ ہمارے دلوں میں ارجن کے لئے عزت پیدا ہوجاتی ہے کہ یہ شخص قتل اور خ��ون ک��رنے کی بجائے اپنی سلطنت قربان کرنے کوتیار ہے۔لیکن بھاگوت گیتا کے کرشن مہاراج کیا ج��واب

Page 71: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

آاپ کہتے ہیں کہ تم بے شک قتل اورخون کرو۔ کیونکہ تم انسان کی روح کوقت��ل نہیں دیتے ہیں؟ (۔ کی��ا ک��وئی قات��ل کس��ی ع��دالت میں یہ دلی��ل۲۹: ۲کرتے بلکہ اس کے جسم کوقتل کرتے ہ��و)

یی ت��رین مظہ��ر ق��رار عذر کے طورپر پیش کرسکتاہے؟ کیا ایسی دلیل کا پیش کرنے والا خدا ک��ا اعل دیا جاسکتاہے؟مہاتما جی اہمسا کے قائل ہیں۔ کی��ا وہ اپ��نے اہمس��ا کے اص��ول ک��و پیش نظ��ر رکھ کر گیتا کے کرشن اور پہاڑی وعظ کے مسیح کویکساں طورپرخ��دا کے اوت��ار اورمس��اوی درجہ کے

یی ترین مظہر کہہ سکتے ہیں ؟ ایک ہندو نے کیا خوب لکھاہے کہ: اعللہ "مس�یح کی ص�لیب نے انس�انی نس�ل کی ت�اریخ میں ای�ک انقلاب پی�دا کردی�اہے۔ ک�واہ تب��دیل کردی��ا ہے۔یس��وع س��ے آام��د کی غ��رض اورم��دعا ک��ا کلیت کلوری کی صلیب نے اوت��اروں کی پہلے یہ سمجھا جاتا تھ��اکہ اوت�ا رلی�نے کی غ�رض یہ ہ��وتی ہے کہ جنگی ط��اقت اورجس�مانی ق��وت سے بدی کو مغلوب کیا جائے۔ لوگ یہ خیال ک��رتے تھے اوراب بھی یہ خی��ال ک��رتے ہیں کہ جبآانے ک��ا مقص��د یہ ہوت��اہے کہ ان آات��اہے ت��واس کے خ��دا انس��انی جس��م اختی��ار ک��رکے اس دنی��ا میں اشخاص کو قتل کرے جومجسم بدی ہیں تاکہ نیکی کی فتح ہ��و۔لیکن کی��ا کس�ی ای�ک ش��خصاا ایسا نہیں ہوتا۔ مس��یح کے مرنے یا کسی جنگ کے واقع ہونے سے بدی مغلوب ہوجاتی ہے؟ یقین کی صلیب نے بدی کو مغلوب کرنے ک��ا ای�ک نی��ا ط��ریقہ دنی��ا پ��ر ظ��اہر کی��اہے۔ص��لیب ک�ا مقص��دآاتی ہے محض بدی کومغلوب کرنا ہی نہیں بلکہ بدکردار ش��خص ک��و جس س��ے ب��دی ظہ��ور میں نیک اور راستباز بناناہے۔ اگرہم بدکردار شخص کوجان سے مارڈالتے ہیں توبدی ک��وجڑ س��ے اکھ��اڑ نہیں دیتے۔ اس کے برعکس جسمانی طاقت کا مظاہرہ بدی کوپھیلاتاہے۔ اس ک��ا ص��حیح علاج

ء(۔۱۹۳۵ مئی ۲یہ ہے کہ بدکردار شخص کونیک کرداربنایا جائے")گارڈین اب مہاتم��ا جی ہی ہم ک��و بتلائیں کہ خ��دا کے اوت��ار لی��نے کے یہ دومقص��د جوگیت��ا اور انجیل میں مذکور ہیں کس طرح یکساں طورپر صحیح اوردرست ہوسکتےہیں؟ ان دونوں کویکس��اں طورپر صحیح ماننے والا اس شخص کی مانند ہے جوبیک وقت دومتض��اد س��متوں میں ج��انے والی

گاڑیوں میں سوار ہونا چاہے۔

ااصول اوروشنومت کے اصول میں عظیم فرق ہے۔وہ خود ہندومذہب میں شکتی مت کے اور ہیں۔ پس دونوں یکساں طورپر صحیح اورراست نہیں ہوسکتے۔ ایک دوسرے سے کوسوں د

ابدھ مت اورمسیحیت میں عظیم فرق ہے۔ ایک قابل ب�ودھ محق��ق مس�ٹر ڈی۔ اسی طرح ۔14 کہتاہے)D.B.Ellopoai)بی۔ ایلے پولا

ادھ مت میں کوئی ب��ات ایس��ی ملے ج��و دون��وں میں اس تلاش میں تھا کہ مسیحیت اورب میں بنیادی طورپر مشترک ہو۔لیکن مجھ کو نہ ملی ،مسیحیت کی تعلیم کی اساس دعا اورایم��ان

ہیں۔لیکن بودھ مذہب کی نظر میں ان دونوں کی کچھ وقعت نہیں"۔ کہتاہے :)Schweitzer)ڈاکٹر البرٹ شوٹیزر

"یسوع مسیح کے خیالات میں اوربدھ یابرہمنوں کے خیالات میں کسی قسم کا ک��وئیابدھ دنی��ا کوکہ��تے ہیں کہ دنی�ا اہ مختل�ف ہیں۔ ب�رہمن اور تعلق نہیں ۔ دونو ای�ک دوس�رے س�ے کلیتمیں تم اس طرح رہوکہ گویا مرگ��ئے ہ��و۔ اوراس کے س�اتھ تمہ��ارا کس�ی قس�م ک�ا واس�طہ نہیں رہ��ا۔ لیکن یس��وع کی انجی��ل کہ��تی ہے کہ تم دنی��ا میں اپ��نے نفس پ��ر قابوپ��اکر اس ط��رح محبت بھ��ری زندگی بسرکروجس سے خدا کا جلال ظاہر ہو۔ ہندودھرم کے مطابق خ�دا ای�ک س�مندر ہے۔ جسآاکر ڈوبنا چاہتاہے۔لیکن مسیحیت کا خدا ایک زندہ اخلاقی ہس��تی ہے میں انسان تیرنے سے تنگ لت ارادی کوتق��ویت عط��ا ک��ر کے اپ��نی ط��رف راغب کرت��اہے۔ان دون��وں جوہمارا باپ ہے اورہماری قوابدھ مت میں اخلاق صرف الفاy تک ہی مح��دود ہے تصورات میں بنیادی فرق ہے۔ برہمن مت اور لیکن اس ک��ا اث��ر افع��ال پ��ر نہیں پڑت��ا۔ ایس��ے م��ذاہب کس��ی ط��رح بھی محبت کے م��ذاہب نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ان مذاہب میں روحانیت کا تعلق محبت کے جذبہ کے ساتھ نہیں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ روح��انیت ک��ا تعل��ق اخلاقی��ات کے س��اتھ ہے اورروح��انی نص��ب العین اخلاقی زن��دگی میںیی کرت��ا ہے کہ وہ ت��رس اورہم��دردی ک��ا م��ذہب ہے اورکہت��اہے کہ ظہ��ور پکڑت��ا ہے۔ ہن��دودھرم یہ دع��و ہمارے دلوں میں تمام مخلوقات کے لئے ترس ہون��ا چ��اہیے لیکن س��اتھ ہی اپن��ا نص�ب العین یہ ق��راریی کہ دیتاہے کہ ہم کو طرح کے جذبہ سے خالی اورہرط�رح کے فع��ل س�ے پرہ��یز ک��رنی چ��اہیے ح��ت14 Quoted, by Dr/ Macnicol in Fellowship for August,1928

Page 72: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

آان���ا چ����اہئیے۔ پس اس م����ذہب میں رحم نیکی اوررحم دلی کے ج����ذبات پ����ربھی ہم ک����و غ����الب ترس،ہمدردی وغیرہ کے جذبات محض زبانی جمع خرچ ہیں جن کا رتی بھ��ر اث��ر روز م��رہ زن��دگی

پر نہیں پڑتا"۔اان کوزندہ رکھا جات��ا تھ��ا۔ ت��اکہ وہ درد ابدھ کے زمانے میں مجرموں کے اعضا کاٹ کر ابدھ نے حیوان��ات پ��رظلم ک��رنے کے خلاف تعلیم کے مارے کراہتے کراہ��تے م��ریں۔ لیکن گومہاتم��ا آاپ نے مج��رم انس��انوں کے س��اتھ اس قس��م کی ب��یرحمی کے خلاف کبھی ص��دائے دی۔ لیکن

احتجاج بلند نہ کی۔۷

گاندھی جی اوران کے ہم خیال اصحاب کے نظریہ کا لازمی نتیجہ ہے کہ کوئی مذہب عالمگیر نہیں ہوسکتا۔ لیکن کیا ہماری عقل اس بات ک��و م��ان س��کتی ہے کہ اگرک��وئی ب��ات ح��ق اوردرست ہے تووہ صرف ایک خاص قوم اورطبقہ کے لئے ہی حق اوردرست ہے ۔ اوردوس��ری قوم��وں اور طبقوں کے لئے باطل اورناقابل قبول ہے؟ اگرخدا ک�ا ک�وئی تص�ور درحقیقت برح�ق ہے توکی�ا وہ ص��رف کس��ی خ��اص ق��وم اورطبقہ کے ل��ئے ہی برح��ق ہے؟ کی��ا وہ ک��ل اق��وام اورممال��ک اورب��نی ن��وعیی ترین تصور ای�ک مل�ک اورق�وم کے ح��ق میں انسان کے لئے سچا اوربرحق نہ ہوگا؟کیا خدا کا اعل اکسیر ثابت ہوکر اس قوم اورملک کے افراد کی اہم اوربنیادی انسانی ض�روریات کوپ�ورا کرس��کتاہے۔ لیکن دوس��ری ق��وم اور دوس��رے مل��ک کے اف��راد کے ح��ق میں زہ��ر قاب��ل ث��ابت ہ��وکر ان کی اص��لی اوربنیادی انسانی تقاضاؤں کو برباد کرسکتاہے؟کیا انسانی سرشت ایک واحد اورناقابل تقسیم ش��ے نہیں ہے؟ اورک��ل ن��وع انس��انی ای��ک ہی خ��ون س��ے پی��دا نہیں ہ��وئی؟ اگرتم��ام ممال��ک اوراق��وام کےیی ترین تصور سب اقوام ع��الم کے ل��ئے انسانوں کی سرشت درحقیقت ایک ہی ہے توکیا خدا کااعللم ع��الم ک��ا یی ت��رین نہیں ہوگ��ا؟ پس لازم ہے کہ ک��وئی نہ ک��وئی م��ذہب ع��المگیر م��ذہب ہوجواق��وا اعلااصول ہرزمانہ اور ملک اورقوم کے اف��راد کے ل��ئے نص��ب العین ک�ا ک��ام ہادی اوررہنما ہو اورجس کے

سرانجام دیں۔ اورجب تک انسان صفحہ ہستی پ�ر موج��ود ہے تب ت�ک وہ م��ذہب اس کی سرش�تکے اصلی تقاضاؤں اوربنیادی ضرورتوں کو پورا کرے۔

ہم ایک مثال سےاس بات کو واض��ح کردی��تے ہیں ۔ علمی دنی��ا میں مختل��ف ام��ور کیلب عق��ل ان تم�ام نسبت ہ��زاروں نظ��ریہ ج�ات انس�انی عق��ل نے ایج��اد ک�ئے ہیں ۔لیکن ک��وئی ص�احاا ایک شخص کہتاہے کہ سورج زمین نظریوں کویکساں طورپر درست اورصحیح نہیں مانے گا، مثللب کے گردگھومتاہے ، دوسرا کہتاہے کہ نہیں۔ زمین سورج کے گردگھوم��تی ہے۔ اب ک��وئی ص�اح ہوش یہ نہیں کہیگا کہ یہ دونوں نظرئیے یکساں ط�ورپر ص�حیح اورردرس�ت ہیں۔ یہ محض خی�الات کا اختلاف ہے۔ زمین اورسورج کی ہستی کے تو دونو قائل ہیں ۔ ایک قوم اورملک پہلا نظریہ م��انااس کومب��ارک ہ��و۔ محض ااس کو مبارک ہو۔ دوسرا ملک دوسرا نظریہ م��ان لے اوروہ لے اور وہ نظریہ

نظریوں پر بحث کرکے مفت سردردی کیوں مول لیتے ہو۔ سائنس کے حقائق کا انکشاف اس طرح نہیں ہ��واکہ ب�نی ن��وع انس�ان کے ہ��ر قس�م کے توہمات کویکساں اوربرابر طورپرتسلیم کرکے صحیح تصورکرلیا گیا ہو بلکہ صحیح تصورات کوباطلاانہ��وں نے اپ��نے لد فاص��ل ق��ائم ک��ردی خی��الات س��ے ج��دا ک��رکے س��ائنس دان��وں نے دون��وں میں ح��اانہ��وں نے ح��ق کی خ��اطر خیالات کی خاطر ہرقسم کا ایث��ار قب��ول کی��ا۔ان ک��و اذی��تیں دی گ��ئیں۔ااص�ول رواداری عقوبتیں سہیں۔ لیکن وہ حق اورباطل کے امتیاز پ�ر ق�ائم رہے۔ اگرمس�ٹرگاندھی کے پ��ر عم��ل کی��ا گی��ا ہوت��ا توس��ائنس کے حق��ائق ک��ا علم تودرکن��ار س��ائنس کی بنی��اد بھی نہ پڑس��کتی اوردم�اغی ت�رقی ک�ا کبھی ک�ا خ�اتمہ ہوگی�ا ہوت�ا، کی�ا عق��ل س�لیم اس ب�ات ک�و م�ان س�کتی ہے کہ اگرکوئی علمی نظریہ یا سائنس کا اصول سچ ہوتاہے تووہ صرف ایک خاص ق��وم ی��افرد کے ل��ئے ہی

سچ ہوتاہے اوراقوام عالم کے لئے سچ نہیں ہوتا؟ حق تو یہ ہے کہ صداقت اورراستی ایک عالمگیر شے ہے خواہ وہ عق��ل کے س��اتھ تعل��قابری ہے ت��ووہ لم اخلاق میں اگرکوئی شے رکھتی ہو یا روح کے ساتھ تعلق رکھتی ہو۔ اسی طرح عالابری ابری نہیں بلکہ اق��وام ع��الم کے ہرف��رد بش��ر کے ل��ئے کسی خاص فرد یا مل��ک ی��ا ق��وم کے ل��ئے

Page 73: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ااص�ول ک�ا ااص�ول پ�ر سودیش�ی کے ہے۔پس جوشے حق ہے وہ کل عالم کیلئے ح�ق ہے۔ ح�ق کے اطلاق نہیں کیا جاسکتا ۔

لہ��ذا اگ�ر خ�دا ہے اوراس خ��دا ک��ا حقیقی عرف��ان اورمکاش��فہ حاص��ل ہوس�کتاہے کہ ت��ووہ حقیقی عرفان اورمکاشفہ تمام دنیا کے کل ممالک اوراقوام کے ہردبشر کے لئے حق ہوگا۔اگریہ حق ہے کہ خدا ہمارا باپ ہے اوروہ ہم سے پیار کرتاہے تووہ ک�ل ب�نی ن�وع انس�ان ک�ا ب�اپ ہوگ��ا۔ اوراسیہی تص�ور تم�ام ب�نی ن�وع انس�ان کے ل�ئے ح�ق کی محبت کل افراد پر ح�اوی ہ�وگی۔ اورای�ک ہی ال اوردرست ہوگا۔ دیگر تمام تصورات یاغیر مکمل ہونگے اوریاغلط اورباطل ہونگے۔ اگر خ��دا نے اپ��نے آاپ کو انسان پر کامل اوراکمل طورپر ظاہر کیا ہے توایسا مکاشفہ اورظہور کل بنی ن�وع انس�ان کے لئے یکساں طورپر صحیح اوردرس�ت ہوگ�ا اورکس�ی خ�اص ق�وم ی�ا مل�ک ی�ا زم�انہ کے س�اتھ اس ک�ا

لر محال ہوگا۔ مختص ہونا امیی ہے کہ خ��دا ک�ا جومکاش�فہ مس�یح اوراس کی انجی�ل میں ہے وہ مسیحیت ک�ا یہ دع�و آاخ���ری اورقطعی ہے۔ ہم مس���یحی م���ذہب ک���و ان معن���وں میں قطعی م���انتے ہیں کہ کلمتہ اللہ کے ااصول قطعی طورپر ابدتک صحیح اور راس��ت ہیں اوران اص��ولوں کے ان��دربنی ن��وع انس��ان لامح��دود وروحانی ترقی کرسکتے ہیں ۔ ہم اپنے مھلب کو ای�ک م�وٹی مث��ال س��ے واض�ح کردی��تے ہیں ۔ علم ریاضی کا یہ اصول ہے کہ دواوردوچار ہوتے ہیں اوریہ اصول قطعی ہے اوراب��دتک ص��حیح ہے۔ لیکن علم ریاض���ی اس اص���ول پ���ر ختم نہیں ہوجات���ا۔وہ اس اص���ول اوردیگراص���ول کی ح���دود کے ان���در لامحدود ترقی کرسکتا ہے ۔ اسی طرح مسیحیت کے بنیادی اصول قطعی طورپرح��ق ہیں ۔کی��ونکہاخوت ومس��اوات ومحبت کے س��اتھ ہے اور ہرق��وم مل��ک یہی اب��وت ومحبت اورانس��انی ا ان ک��اتعلق ال

زمانہ اورنسل کے افراد اس زینہ کے ذریعہ لامحدود روحانی ترقی کرسکتے ہیں۔

Page 74: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

مسیحیت عالمگیر مذہب ہےمسیحیت عالمگیر مذہب ہےآائے ہیں کہ تم��ام م��ذاہب یکس��اں ط��ورپر ص��حیح ہم من��درجہ ب��الا س��طور میں ث��ابت ک��ر درس��ت اورراس�ت نہیں ہوس��کتے۔ یہ ای�ک لازمی ام�ر ہے کہ جوم��ذہب ح�ق ہ�و وہ ع��المگیر بھی ہ��و

اوراس عالمگیر مذہب کے ہرپیروکافرض ہے کہ اس کے پیغام اوراصول کی تبلیغ کرے۔۱

عالمگیر مذہب سے ہماری مراد یہ ہےکہ:ااصول عالمگیر ہوں اورہرملک اورزمانہ کے اف��راد کی رہنم�ائی ک�رنے اول : اس مذہب کے کی اہلیت اورصلاحیت رکھتے ہوں۔وہ کسی خاص ملک ی��اقوم یازم��انہ کے س��اتھ وابس��تہ اورمختصآازاد ہوں اوراس بات کے اہل ہوں کہ ہرزمانہ اورکہ ک��وئی م��ذہب نہ ہوں۔ وہ زمان ومکان کی قیود سے ملک کے حالات پر ان اصول کا اطلاق ہوسکے۔ یہ اصول تمام انسانوں پر حاوی ہوس��کیں اوردنی��ا کی ہر قوم اورہر ملک کے افراد ان اصولوں کی تعمی��ل کرس��کیں اورہ��ر ط��رح کے دم��اغ اورس��مجھ

یہی حاصل کرسکیں۔ والے انسان اصول کے ذریعہ قربت ال اس مفہوم کا یہ مطلب نہیں کہ اس مذہب کے اصول کی ک��وئی خ��اص تفس��یر یاتاوی��ل عالمگیر ہونی چاہیے۔ چونکہ انس��انی علم روز اف��زوں ہے لہ��ذا اگرکس��ی ع��الم نے زم��انہ ماض��ی میں اس م��ذہب کے کس��ی اص��ول کی تاوی��ل اپ��نے زم��انہ کے علم کی روش��نی میں کی ہے۔ ت��ووہ زم�انہااس ح��ال ی��ا زم��انہ مس��تقبل کے علم کی روش��نی میں ن��اقص اورناک��افی ث��ابت ہوس��کتی ہے۔ لیکن مذہب کے اصول ایسے ہونے چاہئیں کہ ہر زمانہ اورہر ملک اپنے وقت کے علم کی روشنی میں ان کی خاطر خواہ تاویل کرسکے۔ تاکہ ان کااطلاق ہرزمانہ اورہرملک اورہر قوم کے حالات پرہوس��کے۔آات�ا کہ وہ اص�ول ان اصولوں کی کسی خاص تاویل یاتفسیر کے نقائص اورعی��وب س��ے یہ لازم نہیں خود معیوب ہیں۔ اس سے صرف یہ ثابت ہوسکتاہے کہ ان اص�ولوں کی پیش نظ��ر تاوی�ل غل�ط ہے۔ ہاں اگر وہ اصول اس تاویل کے ساتھ اس طرح وابستہ ہوں کہ تاول کو ترک ک��رنے س��ے اص��ول ک��وآات��اہو ت��ووہ اص��ول ہرگ��ز ع��المگیر ہ��ونے کی اہلیت اورص��لاحیت نہیں رکھ س��کتے ۔ ت��رک کرن��ا لازم

آازاد نہ ہ��ونگے۔کس��ی م��ذہب کے کی��ونکہ اس ح��الت میں وہ اص��ول زم��ان ومک��ان کی قی��ود س��ے ااص�ول وہی ہوس�کتے ہیں ج�و انس�انی سرش�ت کی فط��رتی ض�روریات کواحس�ن ط�ورپر پ�ورا عالمگیر کرس�کتے ہیں۔ ایس�ے اص�ول میں کس�ی ق��وم یامل�ک یازم��انہ کی خصوص��ی ض�روریات کی قی�د اور پابندی نہیں ہوس�کتی ۔کی��ونکہ یہ خصوص��ی ض��روریات عارض��ی س�طحی اوروق��تی ہ��وتی ہیں۔ لیکن

انسانی سرشت کی فطرتی ضروریات بنیادی اورعالمگیر ہیں۔ دوم:ع���المگیر م���ذہب کے ل���ئے لازم ہے کہ اس کے ب���انی کی شخص���یت ای���ک کام���ل اوراکمل نمونہ ہو۔ اوریہ نمونہ محض اس کے ملک یاقوم یا ہم عص��روں کے ل��ئے ہی نہ ہ��و۔ بلکہ ہ��رااص��ول مل��ک اورق��وم اورہزم��انہ کے اف��راد کے ل��ئے ہ��و۔بالف��اy دیگ��ر جس ط��رح ع��المگیر م��ذہب کے ع��المگیر ہ��ونے چ��اہیں ۔ ع��المگیر م��ذہب کے ب��انی کے کیریک��ٹر میں یہ اہلیت اورص��لاحیت ہ��ونیاان چاہیے کہ وہ ہر ملک اورقوم اورزمانہ کے کروڑوں افراد کا مطمح نظر اورنصب العین ہوسکے ج��و لز احس��ن س��رانجام دے کی روح��انی ت��رقی کے م��دارج اورمن��ازل میں ان کی رہنم��ائی ک��ا ک��ام بط��ر سکے۔ پس لازم ہے کہ عالمگیر مذہب کے بانی کی زندگی کا نمونہ ایسا کامل اوراکم��ل ہ��وکہ وہ کل دنیا کا نورہوتاکہ جوکوئی اس کی پیروی کرے وہ اندھیرے میں نہ چلے۔ بلکہ اس کی روشنی کودیکھ کر روحانی لغزشوں سے بچ��ا رہے۔ اس ب��انی کی روح��انی زن��دگی نہ ص��رف ہ��ر پہل��و س��ے بدنما اور معیوب دھبوں سے پاک اورمبرا ہ�و)کی�ونکہ یہ ای�ک منفی خ�وبی ہے( بلکہ لازم ہے کہ اس کا کامل نمونہ ہر طرح کی نیکی اورخوبی کی محرک ہو۔ اس کانمونہ ایک چشمہ ہوجو نہ ص��رف لوگوں کی روحانی زندگیوں کوسیراب کرنے والا ہو۔ بلکہ سیراب ہ��ونے وال��وں کے ان�در زن�دگی کے پانی کی ن�دیاں ج�اری ک�ردے۔وہ نہ ص�رف روح�انیت کے ع��الم ک��ا ای�ک تاج�دار ہ��وبلکہ وہ واح�د تاجدار ہو۔وہ انبیاء اوراولیاء اورمصلحین کی قط��ار میں کھ��ڑا نہ ہ��و جن کی زن��دگیاں ناکام��ل اورجن کے نمونے غ��یر مکم�ل ہ��وتے ہیں بلکہ اس�کی روح�انیت ک�ا نم�ونہ ہ��ر جہت اورپہل�و س�ے بے نظ��یر

لاثانی اور بے عدیل ہو۔کہ عدیم است عدینش چوخداوند کریم

Page 75: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

س��وم: ع��المگیر م��ذہب کے ل��ئے ض��روری ہے کہ نہ ص��رف اس کے اص��ول ع��المگیر ہ��وں اوراس کے بانی کا نمونہ بے نظیر ہوبلکہ وہ اپنے پیروؤں کو یہ توفیق اورفضل بھی عط�ا کرس�کے کہ وہ اپنے بانی کے لاثانی نمونہ کو دیکھ کر اس کے اص�ول پ�ر عم�ل پ�یرا ہ��ونے کے قاب�ل ہوس�کیں۔ اگرکوئی عالمگیر مذہب اپنے پ�یروؤں کوص��رف نی��ک اعم�ال ک�رنے کی ہ��دایت کرت�اہے اوران ک�و یہ توفیق نہیں دے سکتا کہ وہ اس ع�المگیر اص�ولوں پ�ر گ�امزن ہوس�کیں ت�ووہ م�ذہب ع�المگیر نہیں ہوسکتا۔ایسی مذہبی کت��اب کی حی��ثیت علم الاخلاق کی کت��اب س��ے زی��ادہ نہیں ہے۔ چہ ج��ائے کہ وہ عالمگیر کت�اب کہلانے کی مس�تحق ہوس�کے۔علم اخلاق بھی یہی تلقین کرت�اہے کہ نی��ک عمل ک�رو۔ لیکن نی��ک عم�ل ک��رنے کی توفی��ق عط��ا نہیں کرت�ا وہ ایس�ے محرک��ات اورمرغب��ات بہم نہیں پہنچاتاہے جس سے نصیحت حاصل کرنے والا نیک اص�ولوں پ��ر عم��ل کرس��کے۔علم اخلاق اورش�ریعت کے ذریعہ انس�ان ک��ویہ تومعل�وم ہوجات�اہے کہ فلاں ب��ات گن��اہ ہے۔ علم اخلاق کے ذریعہ اس کا گناہ ہونا ظ��اہر ہوگی��ا۔ اورش��رعی احک��ام کے ذریعہ گن��اہ ح��د س��ے زی��ادہ مک��روہ معل��وم ہوگی��ا۔ لیکن گنہگار انسان اپنی پلید اورغلیظ عادتوں کے سبب گناہ کے ہاتھ بکا ہوا ہوت��ا ہے اور جب وہکس��ی نی��ک ک��ام کے ک��رنے ک��ا ارادہ کرت��اہے ت��ووہ گن��اہ کی غلامی کی وجہ س��ے مجب��ور ہوت��اہے۔ اورنہیں کرسکتا، بلکہ جس گناہ سے اس کو نفرت ہ��وتی ہے۔ وہی وہ کرلیت��اہے۔ کی��ونکہ گن��اہ اس میں بس�ا ہ��وا ہوت�اہے۔ البتہ نی�ک ارادہ ت�و اس میں موج�ود ہوت�اہے۔ لیکن نی��ک ک�ام اس ے بن نہیں

پڑتے۔جانتاہوں ثواب طاعت وزند

آاتی پرطبیعت ادھر ہیں یہی وجہ ہے کہ گنہگ���ار جس نیکی ک���ا ارادہ کرت���اہے، وہ نہیں کرت���ا لیکن گن���اہ کی غلامی کے سبب بدی کوکرلیت��اہے۔ ح��الانکہ وہ جانت��ا ہے کہ یہ ب��دی ہے۔ جب وہ نیکی ک��ا ارادہآامود ہوتی ہے جو عقل کو اندھا کرکے اس ک��و گن��اہ کی قی��د میں لے کرتاہے توبدی اس کے پاس آادمی ہ��وں۔ لت تاس��ف م�ل ک��ر پک�ا راٹھت��اہے کہ ہ��ائے میں کیس��ا کمبخت آاتی ہے۔ ایساانسان درس��

مجھے اس گن��اہ کی غلامی اورقی��د س��ے ک��ون چھڑائیگ��ا؟ گن��اہ کی بیم��اری ک��ا علاج یہ نہیں کہااص��ول ک��ا علم اس ک��و پہلے ہی حاص�ل گنہگار کونیک اعمال ک��رنے کی تعلیم دی ج��ائے نی��ک ہوتاہے۔ اس کو ایک نج��ات دی�نے والے کی ض�رورت ہے ج�و اس ک�و گن�اہ کی غلامی کی اورقی�د سے رہ��ائی دے اوراس ک�و یہ توفی�ق اورفض�ل عط��ا ک�رے کہ وہ اپ�نے گن�اہوں س�ے مجب�ور ہ��ونے کی

آاسکے اورعالمگیر مذہب کے روحانی اصول پر گامزن ہوسکے۔ بجائے ان پر غالب ہم ا س نکتہ ک��و ای��ک مث��ال س��ے واض��ح کردی��تے ہیں ۔ای��ک ش��خص م��وٹر کے نیچےآاتی ہے۔ اب ای�ک راہ گ�یر آاجاتاہے، اوراس کی ٹانگ ٹ�وٹ ج�اتی ہے ۔ ای�ک اور م�وٹرپیچھے چلی آاگاہ کررہاہے۔ اس دوری موٹر آانے والی موٹر کے نیچے کچلے جانے کے خطرہ سے اس بچارے کوااس آاتے دیکھ رہاہے۔ لیکن چ��ونکہ اس کی ٹان��گ ٹ��وٹ گ��ئی ہے کو وہ شخص جوکچلا گیا ہے میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ راستہ سے پرے ہٹ ج��ائے ۔ اس ک��و کس��ی ن��ذیر کی ض��رورت نہیں۔ بلکہ ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اس کو اٹھاکر راستہ کی دوسری طرف ک��ردے۔اس��ی طرح گنہگار کو جس کی زندگی گناہ کے ہاتھوں م��ردہ ہوگ��ئی ہے۔ ع��المگیر م��ذہب کے اص��ولوںااس ک��و ض��رورت اس ب��ات کی آاگاہ ہے۔ اان سے تووہ پہلے ہی کے جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ ااس کی روح جومرگئی ہے زندہ ہوجائے۔اس کو نہ صرف ع��المگیر م��ذہب کے اص��ولوں کے ہے کہ علم اورای��ک کام��ل نم��ونہ کے ن��ور کی ض��رورت ہے بلکہ اس ک��و زن��دگی کی ض��رورت ہے ت��اکہ وہ زندگی کانور پائے۔اس کو فضل کی ضرورت ہے ت��اکہ توفی��ق پ�اکر وہ ازس��ر ن��و پی��دا ہ��وکر خ��دا کے

ساتھ رفاقت حاصل کرسکے۔ لن تہی کامل سودازرہبر راہ قسمت دستا

آاب خضر کہ آاروسکندرا می تشنہ حیواں از چہارم ۔ یہ بھی لازم ہے کہ تاریخ دنیا عالمگیر م��ذہب کے دع��وؤں کی تص��دیق ک��رے۔ اگرعالمگیر مذہب کے اصول فی الحقیقت عالمگیر ہیں توضرور ہے کہ جس مل��ک اورق��وم نے اسااس ملک اور ق��وم اورزم��انہ کے ح�الات اس کے ع��المگیر اص�ولوں س�ے مت�اثر ہ��وئے کو قبول کیا ہے

Page 76: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ااس مل��ک اورق��وم اورزم��انہ کے ااس مل��ک اورق��وم کوش��اہراہ ت��رقی پ��ر چلای��ا ہ��و۔ اان اص��ولوں نے ہ��وں۔ باشندوں کی زندگیاں عالمگیر مذہب کے بانی کے کامل نمونہ سے متاثر ہوئی ہوں۔ اوران باشندوں کو اس مذہب نے یہ توفیق دی ہ�و کہ گن�اہوں س�ے چھٹک�ارا حاص�ل ک�رکے اپ�نے گن�اہوں پ�ر غ�البااس ملک اورقوم کی ت��اریخ اس ب��ات لہ جس جس ملک میں عالمگیر مذہب پھیلا ہو آائیں۔ قصہ کوتا کی شاہد ہو کہ فی الحقیقت اس م�ذہب کے اص��ولوں میں ع��المگیر ہ��ونے کی ص��لاحیت اوراہلیت موجود ہے۔ عالمگیر مذہب کے دعوے محض زبانی جمع خ��رچ ی��ا ص��رف اس کی م��ذہبی کت��اب میں ہی موجود نہ ہوں بلکہ تاریخ بھی اس کے دعوؤں کی مص�دق ہ��و۔ اگ�ر ت�اریخ اس کے دع��وؤں

کی تکذیب کرتی ہے تووہ مذہب ہرگز عالمگیر نہیں ہوسکتا۔۲

ہم نے اپنی کتاب مسیحیت کی ع��المگیر" میں اس مض�مون پ�ر مفص�ل بحث ک�رکے یہ ثابت کردیاہے کہ عالمگیر مذہب کی مندرجہ بالا تمام خصوص��یات اکم�ل اوراحس��ن ط��ورپر س�یدناآاپ کی تعلیم میں موج��ود ہیں۔ کلمتہ اللہ ب��نی ن��وع انس��ان کے ل��ئے ای��ک کام��ل اورزن��دہ مس��یح اورآاپ جہ��ان کے منج��ئی ہیں اورروئے آاپ کامل انسان ہیں۔ اورخ��دا ک�ا کام�ل مظہ��ر ہیں۔ نمونہ ہے۔ زمین کے ک��ل گنہگ��ار انس��انوں کودع��وت دی��تے ہیں اوراس قاب��ل بن��ادیتے ہیں کہ وہ ش��یطان کیلن ع��الم ک��ا آاپ کی تعلیم کے اصول ج��امع اورم��انع ہیں اورادی��ا اتار پھینکے۔ غلامی کے جوئے کو اآاپ کی تعلیم کی ک��وئی اچھ��ا اص��ول ایس��ا نہیں ج��و بہ��ترین ص��ورت میں اس میں موج��ود نہ ہ��و۔ آاپ نے دنی��ا جہ�ان ک��و زن م�رد اوربچہ کے اح�ترام ک��ا درس ااخ�وت اورمس�اوات ہیں۔ اساس محبت آاپ ک�و دیا۔ ذات پ�ات درجہ بن��دی اور دیگ�ر امتی��ازات ک��ا خ��اتمہ کردی�ا اورجس ق��وم اورمل�ک نے

لہ ترقی پر گامزن ہوگئے۔ آاپ کی تعلیم کو صدق دل سے قبول کیا وہ شاہرا اور۳

پس جب مسیحیوں کا یہ پختہ ایمان ہے کہ ان کا مذہب حق پر ہے اوروہ ع��المگیر ہے۔اان ااس�ی ط�رح پ�ورا کرس�کتاہے جس ط�رح اوروہ دیگر اقوام وممالک کی روح�انی ض�روریات ک�وبھی

کی اپنی روحانی ضروریات پوری کی گئی ہیں۔ ت�و ہ��ر مس�یحی یہ ف��رض ہوجات�اہے کہ اپ��نے م��ذہب کے اصول کی تبلیغ ک�رے اوردوس�روں ک�و منجی ک�ونین کی نج��ات کی خوش�خبری دے ت�اکہ وہ دوسرے لوگ بھی سیدنا مسیح سے فیض یاب ہوسکیں۔ مسٹر گاندھی کا یہ کہنا کہ" اگرمشنریآاپ اہل ہند کو مسیحیت کا حلقہ بگوش کرنا چ�اہتے ہیں ت�ومیں ان س�ے یقی�نی ط��ورپر کہونگ�ا کہ ہمارے ملک سے رخصت ہوجائیں "سراسر حق شناسی کے خلاف ہے۔ یہ ہرشخص ک��ا پیدائش��ی حق ہے جوخدا کی طرف سےانس��انی سرش��ت میں ودیعت کی��ا گی��اہے اورہرش��خص پرف��رض ہےبھی کی��ا گی�ا ہے ۔ کہ اگ�راس ک�و ک�وئی ایس�ی ش�ے حاص�ل ہوج�ائے جوح�ق ہے تودوس�روں ک�واس کی

تلقین اورتعلیم دے۔ ہم اس کوای��ک مث��ال س��ے واض��ح ک��رتے ہیں۔ اگرکس��ی سائنس��دان نے ک��وئی ن��ئے ش��ے دریافت کی ہےجو اس کے خیال میں صحیح ہے۔ یااگرکسی فلاسفر نے کوئی نیا نظ��ریہ ق��ائم کی��الل علم پر اور اہ��ل ہے جواس کے خیال میں درست اورراست ہے توکیا اس پر یہ واجب نہیں کہ وہ اہ الرائے پر اپنی اس نئی دریافت یا نئے نظرئیے کوظاہر کرے؟کیا مسٹر گاندھی اس کو یہ کہیں گے کہ تم خاموش رہو اورحق بات کی تبلی�غ مت ک�رو۔ کی�ا گان�دھی جی گلیلی�و، ڈارون وغ�یرہ ک�و یہآاپ کو خیال کرتے ہو۔ تاہم خاموش رہ�و۔ تم ک�ویہ ح�ق حاص�ل صلاح دیتے کہ گوتم حق پر اپنے آافتاب کے گردگھوم��تی ہے ی��ا ارتق��ا کے اص�ول کی تلقین اورتبلی��غ ک�رو۔ نہیں کہ تم کہو کہ زمین آاج ہمارے عزیز ملک ہندوستان ک��وعلم کی روش��نی کیا اس طرزعمل سے دنیا میں علم ترقی کرتا اور

کا زمانہ دیکھنا نصیب ہوتا؟۴

اگرمسٹرگاندھی کے اصول پر عمل کی��ا جات��ا توم��ذاہب کے ب��انی اور مص��لحین اورفلس��فہآاتے۔ ہم�ارے مل�ک یع�نی ق�دیم ہندوس�تان کے مختل�ف لض وج�ود میں نہ کےن�ئے اص�ول کبھی مع��ر فلسفیانہ خیالات اور اپنشد اس واسطے ظہور پذیر ہوئے کیونکہ ان کے بانیوں نے برہمن��وں کی پ��روا نہ کی اور رسوم کی پابندیوں کی بجائے حقیقت کی تلاش کرنے کی جرات کی۔ اگرمہاتما ب��دھ

Page 77: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

آاٹھ نک��ات کی ااس زمانہ ک��ا ہن��دومت ک��افی ہے ت��ووہ ن��روان کے یہ خیال کرتے کہ ہندوؤں کے لئے راہ نہ بتلاتے۔ اگ��رراجہ اش��وک مس��ٹرگاندھی کی تعلیم پ��ر عم��ل پیراہوت��ا ت��ووہ ب��دھ مت کے مبلغینابدھ مبلغین مشرقی ممالک اورچین وجاپ��ان کے درو کولنکا، مصر اور ایشیائے کوچک نہ بھیجتا اور دراز سفروں کی زحمت نہ اٹھاتے اوریہ ممالک ہندوستان کے خیالات اورکلچر سے بہر ور نہ ہوتے۔ شنکر اوررامانج جوجنوبی ہند میں پیدا ہوئے تھے۔ان کے خیالات تمام ہندوس��تان کومت��اثر نہ ک��رتے۔آای���ا تھ���اکہ راجہ رام م���وہن کی���ا کبھی کس���ی س���لیم العق���ل ش���خص کے وہم وگم���ان میں بھی رائے ،کیشب چندرسین ،سوامی دیانند سرسوتی، رام کرشن پ��رہم ہمس یاویویکانن��د وغ��يرہ کی زب��ان

بندی کرے اور ان کوحکم دے کہ اپنے خیالات وغيرہ کا اظہار مت کرو؟ اگر گاندھی جی اپنے ق��ائم ک��ردہ اص��ول رواداری کے فلس��فیانہ ن��تیجہ پ��ر خ��ودچلیں ت��ویہ ظاہر ہے کہ ان کوخود کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ عدم تشدد کے اصول کی اوردیگر ب��اتوں کی جن کو وہ مانتے ہیں تبلیغ کریں اور لوگوں تک پہنچانے کے لئے لاکھ��وں روپیہ پراپیگن��ڈامیں برب��اداان تم��ام ن��بیوں ، مص��لحوں، سائنس��دانوں ک��ریں۔ گان��دھی جی ک��ا خ��ود س��اختہ اص��ول دنی��ا کے اخلاقی رہنماؤں کوقابل م�ذمت ق��رار دیت��اہے جنہ��وں نے خ�ود خ�ق ک�و دری�افت ک��رنے پ�ر قن�اعت نہ کرکے اپنی جانوں کوخطروں میں ڈالا۔ہر طرح کی ایذا سہی بلکہ جان تک دینے سے دریغ نہ کیا لیکن اس ح��ق ک��و دوس��رے لوگ��وں ت��ک پہنچای��ا۔ یہ اص��ول انس��ان کی فط��رت کے خلاف ہے

کیونکہ۔اگربنیم کہ نابینا وچاہ استوگرخاموش بنشیم گنا ست

ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ جب ایک اندھا کسی سرجن کے پ��اسآاپریش��ن ک��راکے بین��ا ہوجات��اہے ت��واوروہ کس��ی دوس��رے ان��دھے کودیکھت��اہے آانکھ��وں ک��ا ج��اکر اپ��نی ااس سرجن کی توخاموش ہوکر بیٹھ نہیں رہتا بلکہ اپنا فرض سمجھتا ہے کہ دوسرے اندھے کوبھی ااس اندھے پر جو بینائی حاصل ک��رکے خ��اموش خبردے تاکہ وہ بھی بینائی حاصل کرے۔ افسوس

آاک�ر اپ�نے گن�اہوں س�ے نج�ات رہے۔ اسی طرح جس شخص نے سیدنا مسیح کے قدموں کے پاس حاصل کرلی ہے وہ خاموش نہیں رہ سکتا۔ پولوس رسول فرماتاہے۔

"میرے لئے یہ ضروری بات ہے کہ انجیل سناؤں بلکہ مجھ پر افس��وس ہے اگرخوش��خبری نہ سناؤں"۔میں یونانیوں اورغیر یونانیوں۔ داناؤں اور نادانوں کا قرضدار ہوں اوران کو خوشخبری سنانے کوحتی المقدور تیارہوں۔ اس لئے کہ وہ ہرایک ایمان لانے والے کے واس��طے نج��ات کے ل��ئے خ��دا کی ق��درت ہے"۔ م�یرے لئےدع��ا کروت�اکہ بول�نے کے وقت مجھے کلام ک��رنے کی توفی��ق ہ��و۔ ت�اکہ میں انجیل کودلیری سے ظ��اہر کرس��کوں ۔ جس کے ل��ئے میں زنج��یروں س��ے جک��ڑا ہ��وا ایلچی ہ��وں

اوراس کو ایسی دلیری سے بیان کروں جیسا بیان کرنا مجھ فرض ہے"۔ مس��یح کی انجی��ل ای��ک خوش��خبری ہے۔ وہ ای��ک جلالی حقیقت ک��ا اعلان ک��رتی ہے۔ "مسیح کی محبت ہم کو مجبور کرتی ہے " کہ ہم اس خوش��خبری ک��ا اعلان ک��ریں۔ ہم جوس��یدنا مسیح کی محبت سے واقف ہوگئے ہیں مجنونانہ وار اس محبت کااظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتے تاکہ دوسرے لوگ بھی" ہمارے ساتھ شریک ہوں" جو لوگ اس زندگی کے کلام " کو جان گئے ہیں۔ وہ دوسروں کواس کی خبردیتے ہیں اوراس کی گواہی دیتے ہیں تاکہ دوسرے بھی اس زن��دگی

(۔۳: ۱یوحنا۱میں شریک ہوجائیں) آائے ت�اکہ اس دنی��ا کے ہ��ر مل�ک ہم کو اس بات کا یقین ہے کہ منجئی ک�ونین اس ل�ئے اورقوم کے افراد کو زندگی بخشیں اور"کثرت کے س��اتھ" بخش��یں۔ ہم��ارا پک��ا ایم��ان ہے کہ س��یدنا مس��یح ہم��ارے مل��ک کے اف��راد ک��و جم��اعتوں ک��و اورہم��اری ق��وم اورہم��ارے وطن کوزن��دگی بخش س��کتاہے اورہم��ارے ابن��ائے وطن کی م��ردہ اورخش��ک ہ��ڈیوں میں زن��دگی ک��ا مس��یحائی دم پھون��ک سکتاہے۔ہمارا پختہ ایمان ہے کہ ہمارے ملک کے بے ہودہ رسوم ورواج،توہمات اورمعاشرتی تم��دنی اورق��ومی ام��راض س��ے وہ ہم ک��و نج��ات دے س��کتاہے۔ہم اپ��نے تج��ربہ س��ے ج��انتے ہیں کہ منج��ئی عالمین کی صلیب سے ایک ایسی قوت نکلتی ہے جوہمارے ابنائے وطن کوزندگی اورشفا بخش سکتی ہے۔ انجی�ل جلی�ل ک�ا نص�ب العین یہ ہے کہ ک�ل دنی�ا کے اف�راد ابن اللہ کی مانن�د زن�دگی

Page 78: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

بسر کریں۔ ہم جومسیحی ہیں غیرمسیحیوں کے پاس نجات کا پیغام لے ج��اتے ہیں ت��اکہ وہ س��یدنااان کو یہ پیغام سناتے ہیں کیونکہ وہ بھی ہماری مانن��د انس��ان ہیں۔ مسیح کی مانند بن جائیں۔ ہم اان کی ض��روریات اور مش��کلات ک�وبھی ح�ل اورپ��ورا کرس�کتاہے۔ ہم��ارا یہ پس یہ پیغام ہماری مانند ایمان ہے کہ دنیا کے افراد ابن اللہ کے بغيرہ زن��دہ نہیں رہ س��کتے۔ اورہم خ��دا کے حض��ور ج��واب دہ ہوں گے اگ�ریہ اف�راد منج�ئی ع�المین ک�ا نج��ات بخش پیغ��ام س�نے بغ�یر اس دنی�ا س�ے ک�وچ ک�ر

جائیں گے ۔ پس اس پیغام کوپہنچان سے دنیا کی کوئی طاقت ہم کوروک نہیں سکتی۔یی مسیح کی محبت سے ج��دا ک�رے گ��ا ؟ مص�یبت ی�ا تنگی ی��ا کون ہم کو سیدنا عیس

ظلم یا کال یا ننگا پن یا خطرہ یا تلوار ؟ چنانچہ لکھا ہے کہ آاپ کی خاطر دن بھر جان سے مارے جاتے ہیں۔ ہم ہم تو ذبح ہونے والی بھیڑوں کے برابر گنے گئے ۔

مگر ان سب حالتوں میں ان کے وسیلہ سے جس نے ہم سے محبت کی ہم کو فتح سے بھی بڑھآاق��ا وم��ولا ک��ر غلبہ حاص��ل ہوت��اہے ۔ کی��ونکہ مجھ ک��و یقین ہے کہ پروردگ��ار کی محبت ہم��ارے یی مس��یح میں ہے اس س��ے ہم ک��و نہ م��وت ج��دا کرس��کے گی نہ زن��دگی۔نہ فرش��تے نہ سیدناعیس��حکومتیں ، نہ ح��ال نہ اس��تقبال کی چ��یزيں ، نہ ق��درت نہ بلن��دی نہ پس��تی نہ ک��وئی اور مخل��وق ۔

آایت(۔۳۵باب ۸)رومیوں بچارا مسٹر گان��دھی کس ش��مار وقط��ار میں ہے کہ مس��یحی مبلغین ک��و اس محبت کے اعلان کرنے سے روک س��کے۔مس��یحیت کی ابت��دا ہی میں ح��اکموں اورس��رداروں نے س��یدنا مس��یح کے ش��اگردوں ک��و "بلا ک��ر تاکی��د کی کہ یس��وع کان��ام لے ک��ر ہرگزب��ات نہ کرن��ا اورنہ تعلیم دین��ا۔آای��ا خ��دا کے نزدی��ک یہ واجب ہے کہ ہم خ��دا کی اانہ��وں نے ج��واب دی��اکہ تم ہی انص��اف کرو مگر ب��ات س��ے تمہ��اری ب��ات زی��ادہ س��نیں۔ کی��ونکہ ممکن نہیں کہ ج��وہم نے دیکھ��ا اور س��ناہے وہ نہ

(۔ دنی��ا کے عظیم الش��ان شہنش��اہوں۔ روم کے قیص��روں۔ دنی��ا کے۶ت��ا ۵ ب��اب ۴کہیں")اعم��ال مختل��ف ممال��ک کے گ��ورنروں اوروالی��وں نے قہ��ر اور ج��برظلم اوراس��تنبدار وج��وار وتع��دی کے ذریعہ

لاکھ��وں کوشش��یں کیں کہ مس��یحیت ک��ا پرچ��ار نہ ہ��و۔لیکن وہ ناک��ام رہے۔ ان کی س��لطنتیں مٹلف غل�ط کی ط�رح مح�و ہوگی�ا۔ لیکن س�یدنا مس�یح کی انجی�ل کی گ�ئیں ان ک�ا اپن�ا ن�ام بھی ح�رآاج تک ہرملک وزمانہ کے ک��روزوں انس��انوں کی روح��انی ض��روریات کوپ��ورا لز اول سے خوشخبری رو

کرتی رہی اورتاقیامت پورا کرتی رہیگی۔یہ ایک تواریخی حقیقت ہے کہ سے جہاں گئے مٹ سب وروما ومصر یونان

ہمارا ونشان نام لیکن ہے نہیں مٹتا پس ہندوستان کی کلیسیا بغ��یر کس�ی خ��وف وہ��راس کے اپ��نے نج��ات دہن��دہ کے ج�انفزااان تم��ام ح�الات واش��خاص ک�و روح��انی ہتھی��اروں پیغام کو ہ��رکہ ومہ کوس��ناتی رہی گی اور ن��ڈرہوکر ااس ک��و اس مق��دس ف��رض کے س��رانجام دی��نے س��ے ب��از سے مسلح ہوکر دلیرانہ مقابلہ کریگی۔ ج��و

رکھنے کی ناکام کوشش کرینگے۔

ششمششم بابباب

ضرورتضرورت کیکی مذہبمذہب تبدیلیتبدیلی

Page 79: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ہم باب س��وم میں ذکرک��رچکے ہیں کہ سیاس��ی وج��وہ کی بن��ا پ��ر فی زم��انہ ہندوس��تان میں تبدیلی مذہب کو مخالفانہ نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ یہ فرقہ وارانہ سب کی وجہ سے ہم��ارے مل��ک کی سیاسیات نے فرقہ وارانہ صورت اختیار کرلی ہے۔ چ��ونکہ اس کمیون��ل اوارڈی��ا ف��رقہ وارانہ تناس��ب کی وجہ سے صرف مذہب کے پیروؤں کی تعداد وشمار ہی کی بناء پر ہ��ر ای�ک ف��رقہ اورملت اپ�نے دنیاوی اقتصادی اورسیاسی حقوق کا مطالبہ کرسکتاہے اورچونکہ مذہب کی تبدیلی سے ایک فرقے کے ش��مار میں کمی اوردوس��رے کے ش��مار میں اض��افہ ہوجات��اہے۔ جس کی وجہ س��ے ای��ک ک��و ضعف اوردوسرے کوتقویت پہنچتی ہے۔ لہذا ہندوستان کا ہر فرقہ یہی کوشش کرت��اہے کہ اس کےآابائی مذہب ک�و ت�رک کرکےکس�ی دوس�رے م�ذہب ک�و اختی�ار نہ ک�ریں۔لیکن مذہب کے پیرو اپنے آابائی مذہب میں جوق در جوق داخل ہوجائیں تاکہ اس کے ف��رقہ دوسرے مذاہب کے پیرو اس کے کی مردم شماری کی تع��داد میں ت��رقی ہ��وتی ج��ائے اوررائے دہن��دگان کی اک�ثریت کی وجہ س��ے وہااس کے ف��رقہ اورملت کی اقتص��ادی ت��رقی ہ��و اور دیگر فرقوں سے زیادہ حقوق حاصل کرسکے یوں

وہ دوسرے فرقوں اورگروہوں پر سیاسی غلبہ اوراقتدار حاصل کرسکے۔ پس مندرجہ بالا وج��وہ ک��وزیر نظ��ر رکھ کرہندوس��تان کے مس��لمان اس کوش��ش میں رہ��تے ہیں کہ ہن��دو اورمس�یحی م�ذہب کے اف��راد اس�لامی کلمہ پ�ڑھ ک�ر اس��لام کے حلقہ بگ�وش ہوج�ائیں اورجول��وگ اس��لام کے دائ��رہ کےان��در ہیں وہ مرت��د ہ��وکر غ��یر مس��لم م��ذاہب میں ش��امل نہ ہ��وں۔ اساانہوں نے ش�ریعت ب�ل مجلس ق��انون س�ازی س�ے پ��اس کروالی��ا ہے۔ ت�اکہ مس�لمان ع��ورتیں غرض سےیی ہ��ذا القی��اس ہندواس��ی کوش��ش فسح نکاح کی خاطر غیرمسلم مذاہب میں داخل نہ ہوج��ائیں۔عل میں ہیں کہ اچھوت ادھار، من��دروں میں اچھ��وت ک��ا داخلہ۔ اوراس��ی قس��م کی دوس��ری اص��لاحوں وغیرہ کے ذریعہ انیس ک��روڑ اچھوت��وں کوہن��دوفرقہ کے دائ��رہ میں رکھیں اورش��دھی کے ذریعہ غ��یرہنود کوہن��دومت کے ان��در داخ��ل ک��رلیں۔ہندومص��لحین کی ای��ک کث��یر تع��داد ص��رف اس غ��رض س��ےآانے پ��ائے۔جب اص��لاحی ک��ام میں ہمہ تن مص��روف ہے ت��اکہ ان کے سیاس��ی اقت��دار میں ف��رق نہ سرکار برطانیہ نے فرقہ وارانہ تناسب کا اعلان کیا اورمسٹر گان�دھی نے دیکھ�ا کہ اچھ�وت اق�وام ک�و

سرکار نے ہندوؤں سے الگ ایک فرقہ تسلیم کرکے ان ک�و ج��داگانہ حق��وق دئ�یے ہیں اوراس تقس�یم کی وجہ سے ک�روڑوں اچھ�وت ہن�دوفرقہ س�ے ال�گ ش�مار ک�ئے ج�ائیں گے جس س�ے ہن�دوفرقہ کےآاپ نے مرن برت رکھ لی��ا اوراعلان دنیاوی اقتصادی اورسیاسی غلبہ اوراقتدار کو ضعف پہنچے گا تو کردیاکہ اگرسرکار برطانیہ نے اچھوت اقوام کوہندوفرقہ سے جدا ایک مستقل جم��اعت تص��ور ک��رکے ہن��دو حلقہ کوتقس��یم کردی��ا ت��ومیں مرجاؤنگ��ا۔اس دھمکی ک��ا ن��تیجہ پوپن��ا پیکٹ ہ��وا جس س��ےآایا۔ بالفاy مولانا محمد علی مرحوم"خلقت خدا کی ملک انگریز کا ۔حکم ہندواقتدار میں فرق نہ

آاگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ ہندومہا سبھا بہادرکا " قائم رہا۔ اوریوں ع۔ اس گھر کو ۲

مندرجہ بالا سطور سے ظاہر ہے کہ ہمارے ہم وطن�وں نے م�ذہب ک�و اپ�نے اپ�نے ف��رقہ کیاان ک�و انس�انی روح دنیاوی ترقی اقتصادی حشمت سیاس�ی نے غلبہ اوراقت��دار ک��ا ذریعہ بنارکھ��اہے۔ اام���ور کی ط���رف س���ے بے نی���از ہ���وکر ہم���ارے کی بھ���وک اورپی���اس کی پ���روا نہیں ۔ پس روح���انی آالہ کاربن��ارہے ہیں اوری��وں م��ذہب کی ہندواورمسلم ہم وطن مذہب کودنیاوی اغراض کی تحصیل کا حقیقی علت غائی کوپس پش�ت پھین�ک رہے ہیں ۔ خ�دا اورم�ذہب کی حقیقی ق�دروقعت اورع�زتاان اان ک��ا خ��دا ہے"۔ پس اان ک��ا پیٹ ان کے س�ینوں س��ے ج��اتی رہی ہے۔ بالف��اy مق��دس پول��وس " میں فرقہ وارانہ ذہنیت پیدا ہوگ��ئی ہے۔اوریہ ذہ��نیت اس ق��در ت��رقی کرگ��ئی ہے کہ نہ ان ک��و خ��دا ک��ایی کا خیال ان ک�و س��تاتاہے۔ ہرف�رقہ س��رتوڑ کوش��ش کرت��اہے کہ دوس��رے ف��رقے خوف رہا ہے اورنہ عقب کے حقوق کے بے دریغ پائماں کردے اور اپنی جم�اعت ک�ا اقت�دار بڑھ�ائے۔ پون�ا پیکٹ کے ذریعہلل ہنود کا اقتدار بدستور قائم رہا اوراس بات پر خوش��ی کےش��ادیانے بج��ائے گ��ئے۔ لیکن اچھوت��وں اہ کے لیڈر ڈاکٹر ابیدکارکوخوب معلوم تھاکہ اس پیکٹ سے ہندوؤں کی ذہنیت میں کوئی فرق نہیں آائیگا اوروہ اچھوتوں کوبدستور سابق حقارت کی نظر سے دیکھ کر ان س�ے حیوان��وں ک��ا ساس��لوکاانہوں نے باربار یہ دھمکی دی کہ اگر ہندو ذہنیت میں کوئی تبدیلی واق��ع نہ ہ��وئی کریں گے۔ پس تواچھ��وت اق��وام کے ک��روڑوں اش��خاص ہن��دومت ک��وترک ک��رکے کس��ی غ��یر ہندوم��ذہب کے حلقہ

Page 80: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ء میں ڈاکٹر امبید ک�ا اورہن��دوؤں کے لی��ڈر ڈاک�ٹر م�ونجی۱۹۳۶بگوش ہوجائینگے۔ چنانچہ اگست کی خط وکتابت شائع ہوئی۔ جس سے معلوم ہواکہ یہ اصحاب نہیں چاہتے تھے کہ اچھوت اق��وام اسلام کے حلقہ بگوش ہوں اور مبادا اہل اسلام کی طاقت میں اض��افہ ہوج��ائے اورنہ وہ چ��اہتے تھے کہ یہ اقوام مسیحیت کے دائرہ میں داخ�ل ہ��وں مب�ادا برط�انوی س�لطنت ک�و تق�ویت حاص�ل ہ�و۔ انآایاکہ مسیحیت کوبرطانوی سلطنت کی تقویت سے کیا واسطہ ہے؟ اچھ��وت لیڈروں کو یہ خیال نہ آایا ۔ سچ ت��ویہ اقوام کی کرڑوں روحوں کی نجات کا خیال ان لیڈروں کے وہم وگمان میں بھی نہ ہے کہ ان کو اچھوت اقوام کی دنیاوی ترقی کا بھی خیال نہیں۔ہاں اگر پروا ہے توصرف اس ب��اتآانے۔ چنانچہ چن��د س��ال کی ہے کہ ہندوفرقہ کی اقتصادی ترقی طاقت اورسیاسی قوت میں فرق نہ آای�ا ہوئے ۔یوپی کی لیجس�لیٹو کونس�ل میں ک�انگرس کی حک�ومت کے دوران میں ای�ک واقعہ پیش لر تعلیم نے اس ب��ات ک��و تس��لیم کرلی��ا کہ جس سے ہم عبرت حاص��ل کرس��کتے۔ اس ص��وبہ کےوزی�� جس طرح وہ ہندو اچھوت اقوام کے طلباء کو ان کی مالی وناداری کی وجہ سے س�رکاری وظ�ائفاان اچھوت اقوام سے مس��یحی ہوگ��ئے ہ��وئے ہیں دیتے ہیں وہ ان طلباء کوبھی وظائف دیں گے جو کیونکہ وہ بھی م�الی ط��ورپر ن�ادار ہیں۔ لیکن ہن��دوؤں نے )جواچھ��وت اق��وام کی ت��رقی کی حم��ایتاا یہ گ��رانٹ بن��د کے دعویدار ہیں(کونسل میں ایسا طوفان بدتمیزی برپا کردیا کہ وزیر تعلیم کومجب��ور

کرنا پڑا۔اامید ہے کی وفا سے اان کو ہم

ہے کیا وفا کہ جانتے جونہیں۳

چونکہ ہمارے پولٹیکل لیڈر نہیں چاہتے کہ تبدیلی مذہب س�ے ان کے فرق�وں کی تع��داد تناسب میں ضعف پیدا ہوا اور کسی دوسرے فرقہ کو تقویت پہنچے لہذا وہ کہ��تے ہیں کہ م��ذہبآاؤ۔ ان کو خدا اورمذہب کی پروا نہیں ہ��وتی۔ کے معاملہ میں ایک دوسرے سے رواداری سے پیش پس وہ محض پولٹیکل وج��وہ کی بن��اء پ��ر م��ذہبی رواداری کی تبلی��غ ک��رتے ہیں۔وہ ای��ک خودس��اختہ

قضیہ قائم کرکے کہتے ہیں کہ تمام مذاہب میں سچائی موج��ود ہے۔ لہ��ذا تم��ام م��ذاہب براب��ر ہیں۔ پس کس��ی ک�و اپن��ا م��ذہب تب��دیل ک��رنے کی ض�رورت نہیں ۔ لہ��ذا ہم ک��و اپن��ا م�ذہب تب��دیل کرن��ا چاہیے اورہم اس بات کی برداشت نہیں کرسکتے کہ کوئی شخص اپنا مذہب تب��دیل ک��رے ۔ پس رواداری کی تبلی���غ ک���ا ن���تیجہ ع���دم رواداری ہوجات���اہے !! جن لوگ���وں کی زب���انوں پ���ر رواداری ک���ا وردجاری رہتاہے وہی رواداری کے ح��امی اورمبلغین اس ب��ات کی برداش��ت نہیں کرس��کتے کہ ل��وگآاپ اا گان��دھی جی مس��یحی مبلغین ک��و کہ��تے ہیں "اگ��ر آاب��ائی م��ذہب ک��و ت��رک ک��ریں۔ مثل اپ��نے آاپ ہم��ارے مل��ک س��ے ہندوس��تان کے لوگ��وں کومس��یحیت ک��ا حلقہ بگ��وش کرن��ا چ��اہتے ہیں ت��و

رخصت ہوجائیں"۔نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے

گھٹ کے مرجاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے مس���ٹرگاندھی یہ توچ���اہتےہیں کہ مس���یحی مبلغین ہندوس���تانیوں کی جس��مانی اوردنی���اویآاتم�ا ؤں کی ض�روریات کوپ�ورا ک�رنے میں م�دد ک�ریں۔لیکن مہاتم�ا جی یہ نہیں چ�اہتے کہ ان کی ضروریات کو پورا کی�ا ج�ائے ۔ کی�ا مہاتم�ا جی جس�م ک�وروح پ�ر مق��دم خی�ال فرم�اتے ہیں ؟س�یدناااس کی راستبازی کی تلاش کروت��ویہ مسیح کا حکم صاف ہے کہ "تم پہلے خدا کی بادشاہت اور

(۔۲۳: ۶سب چیزیں بھی تم کو مل جائینگی)متی یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ مسیحی مبلغین غیرمسیحیوں کو صحت علم اوردانش کےخزانے

دے دیں۔ آایت۱۸ب��اب ۴آایت، ۱۶: ۳لیکن ان کوخ��دا کی بہ��ترین بخش��ش س��یدنا مس��یح )یوحن��ا

وغیرہ( سےمحروم رکھیں۔میرے حق میں اب یہ ارشاد فرمایاہے کہآاپکی خوب یہاں منقوش خاطر جانفشانی

لیکن میں اوڑھوں بچھاؤں یا لپیٹوں کیا کروں

Page 81: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

آاپ کی روکھی پھیکی ایسی سوکھی مہربانی ۴

مسٹرگاندھی مسیحی مبلغین کوکہتے ہیں کہ تم اپنی مساعی جمیلہ کو لوگوں کو تعلیماسدھارنے ت�ک ہی مح��دود رکھ��و اوربس۔ لیکن دینے اوران کا جسمانی علاج رنے اوران کی حالت مسیحی مبلغین اپنے سیدنا مسیح اورمنجی کے احکام کومسٹر گاندھی سے بہتر جانتے ہیں۔جب سیدنا مسیح نے اپنی حین حیات میں اپنے حواری��وں کوخوش��خبری ک��ا پیغ��ام س��نانے کے ل��ئے روانہآاپ نے خدا کی بادشاہی کی منادی کرنا سب سے مق��دم ف��رض ٹھہرای��ا اور حکم دے ک��ر کیا تو

کہا کہ :آا گئی ہے۔ بیم��اروں ک��و آاسمان کی بادشاہی نزدیک جاؤ اورچلتے چلتے یہ منادی کروکہ اچھا کرو ، مردوں کو جلاؤ۔ کوڑھیوں کو پاک صاف کرو۔ بدروحوں کونکالو۔ تم نے مصف پای��ا

(۔ ۷: ۱۰مفت )متی اان سب س��ے افض��ل ہے اورح��ق پس خدا کی بادشاہی کی منادی دیگر باتوں پر مقدم اور ت��ویہ ہے کہ محض سوش��ل پروگ��رام جوروح��انی تعلیم س��ے خ��الی ہ��وبے ک��ار ہے۔ اگرمس��یحی مبلغین خدانخواس��تہ مس��ٹر گان��دھی کی ب��ات پ��ر عم��ل ک��ریں گے کہ تولوگ��وں ک��وروٹی کی بج��ائے پتھ��ر اورمچھلی کی بجائے سانپ دیں گے۔ مسٹر گاندھی ہزار بارکہیں کہ ہندوؤں کے ل��ئے ہن��دوؤں ک��اآانکھیں کھ��ولی ہیں اوروہ مس��یحی نج��ات س��ے م��ذہب ک��افی ہے۔لیکن جن ہن��دوؤں کی خ��دا نے فیض ی��اب ہ��وئے ہیں ان کی یہ گ��واہی ہے کہ یہ ب��ات سراس��ر غل��ط ہے اوروہ ق��رار نہیں پکڑس��کتے

تاوقتیکہ وہ اپنے ہم وطنوں کو خداوند کی نجات سے شادنہ کرلیں۔آاگ سی ہے سینہ کے اندر لگی ہوئی اک

جب مس�ٹر گان�دھی جن�وبی اف��ریقہ س�ے اپ�نے وطن م�الوف میں ن��ئے ن�ئے وارد ہ��وئے تھےآاپ آاپ نے مدراس مشنری کانفرنس کے جلسہ میں مسیحیت کی اشاعت پر ایک درس دیا تھا۔ توآاپ کے خیال آاپ تبدیلی مذہب کے خلاف ہیں۔ کیونکہ نے کھلے اورواضح الفاy میں فرمایا کہ

میں مذہب کی تبدیلی نیک نیتی سے نہیں کی جاتی بلکہ دنیاوی فوائ�د کی وجہ س��ے عم�ل میں آاتی ہے۔اگرمسٹر گاندھی کومسیحی ط��ریقہ تبلی��غ س��ے کچھ بھی واقفیت ہ��وتی ت��ووہ اس ب��ات ک��و جانتے کہ مسیحی مبلغین کسی شخص کومحض دنیاوی طمع اوراغراض کی خاطر مسیحیت ک��اآات��ا ہے توک��وئی ذمہ دار حلقہ بگوش نہیں کرتے۔اوراگر ک��وئی ش��خص ان کے پ��اس اس غ��رض س��ے

شخص دیدہ دانستہ اس کو بپتسمہ دے کر کلیسیا میں شامل نہیں کرتا۔ ء میں چ�ودہ تعلیم ی�افتہ ہندوس�تانی مس�یحیوں نے ای�ک بی�ان ش�ائع کی�ا جس۱۹۳۷م�ئی

اانہوں نے لکھاکہ: میں اا خاندانوں کے خاندان یاگروہوں کے گروہ جوق درجوق مس��یحی اا فرد " مرد اورعورتیں فرد کلیس��یا میں ش��امل ہ��وتے ہیں۔ اوریہ خ��دا کی روح کی تحری��ک کی وجہ س��ے ہے۔ پس دنی��ا کی کوئی طاقت اس لہر کو بند نہیں کرسکتی۔ لہ��ذا ہندوس��تان کی مس��یحی کلیس�یا ک��ا یہ ف��رض ہےاان کی اان ک��و مس��یحی تعلیم دے اور اان لوگ��وں کوجوح��ق کے متلاش��ی ہیں قب��ول ک��رے ۔ کہ وہ روح��وں کی خبرگ��یری ک��رے۔ کلیس��یا ک��ا یہ ح��ق ہے کہ ایس��ے لوگ��وں ک��و اپ��نے حلقہ میں ش��امل ک��رے۔ خ��واہ وہ کس��ی م��ذہبی ف��رقے س��ے تعل��ق رکھ��تے ہ��وں۔ کلیس��یا ک��ا یہ بھی ح��ق ہے کہ اس م��ادیت کے دور اورالح��اد کے زم��انہ میں تم��ام لوگ��وں میں روح��انی بھ��وک کے احس��اس ک��و بی��دار

کرے"۔اانہ��وں نے ذی��ل کے الف��اy ح��والہ اس بی��ان ک��وپڑھ ک��ر مس��ٹر گان��دھی س��یخ پ��ا ہوگ��ئے اور

قرطاس کئے: "میں نے اس بیا ن کو ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھاہے اورمیں اس کی تائی��د میں ای��ک لف��ظyبھی نہیں کہہ سکتا۔ مرد اورعورتیں مسیحی کلیسیا کی رفاقت ک��و تلاش نہیں ک��رتیں۔اس لح��ا سے غریب ہریجن دوسروں سے بہتر نہیں ہیں۔ ک��اش کہ ہ��ریجن میں س��چی روح��انی بھ��وک ہ��وتی۔ اگران میں اس قسم کی کوئی بھوک ہے۔ تووہ مندروں میں جاکر پوری کرس��کتے ہیں۔ اگ��ر چہ ان کا وہاں جاکر پرستش کرن�ا ای�ک بے مع�نی ب�ات ہ�وتی ہے۔ جب دیگ�ر م�ذاہب کے مبلغین ان کے

Page 82: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

µپ��اس ج��اتے ہیں ت��ووہ ان کے پ��اس س��ودا فروش��وں کی ط��رح ج��اتے ہیں۔ان مبلغین کے پ��اس ک��وئ خاص روحانی شے نہیں ہ��وتی جس کی وجہ س�ے ان مبلغین میں اور اچھوت��وں میں تم��یز ہوس��کے۔ ہاں۔ ان کے پاس دنیاوی مال ضرور ہوتاہے۔ جس کا لالچ دے دے کر وہ ان کو اپنے مذہب میں داخل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس کے بعد مسیحی کلیسیا کا" فرض" ایک حق" کی صورت اختیار کرلیتاہے۔ لیکن جب کوئی " فریضہ" ،ح��ق" کی ص��ورت اختی��ار کرلیت��اہے ت��ووہ فریض��ہ نہیں رہت��ا۔کی��ونکہ فریض��ہ کوپ��ورا ک��رنے کے ل��ئے ایث��ار اورقرب��انی کی ض��رورت ہ��وتی ہے۔ لیکن"ح��ق" کوحاصل کرنے کے لئے طاقت کے مظاہرے کی ضرورت ہوتی ہے۔جس کے ذریعہ ہم اپنی مرضی کو دوسروں سے جبریہ منواس��کتے اور ق��انونی چ��ارہ ج�وئی کرس��کتے ہیں۔ اگ�رمبلغین اپ��نے روح��انی پیغام کوپہنچانے کا فرض ادا کرنا چاہتے ہیں توان کو دعا اورروز رکھنا چاہیے۔ لیکن اگ��روہ " ح��ق " جتلانا چاہتے ہیں ۔ تووہ غیر رضامند لوگوں پر جبر کرتے ہیں۔ ان مسیحیوں کے بیان ک��ا مقص��د یہ ہے کہ ہندوؤں کے جذبات کوٹھن��ڈا ک��رے اوران کے احساس��ات کوق��در کی نگ��اہ س��ے دیکھے لیکن اس قسم کا بیان اس مقصد کوپورا نہیں کرسکتا۔ اس کے برعکس ایس��ے بی��ان ک��و پ��ڑھ ک��ر

بدمزگی پیدا ہوتی ہے"۔آاہ بھی کرتے ہیں توہوجاتے ہیں بدنام ہم وہ قتل بھی کرتے ہیں توچرچا نہیں ہوتا

۵اہ بے خ��بر ہمیں افسوس سے یہ کہنا پڑتاہے کہ مسٹر گاندھی مس�یحی تحری��ک س��ے کلیت ہیں۔ اگروہ مسیحی طرز تبلیغ سے واقف ہونے کی ذرا بھی زحمت گوارا ک�رتے ت�ووہ اس قس�م کے غ��یر ذمہ دارانہ الف��اy نہ کہ��تے کہ" مبلغین اچھ��وت اق��وام کے پ��اس سودافروش��وں کی ط��رح ج��اتے ہیں۔۔۔ ان کے پاس دنیاوی مال ہوتاہے۔ جس کا لالچ دے ک��ر وہ ان ک��و اپ��نے م��ذہب میں داخ��ل ہونے کی دعوت دیتے ہیں"۔ کس�ی مہاتم�ا پ�رش ک�ا ک�ام نہیں کہ وہ اس قس�م کے بے بنی�اد ال�زام

سے کسی کو مطعون کرے۔ لیکن مسٹر گاندھی نہایت بے باکانہ طورپر منہ زوری سے کلیسیائےہند کی جماعت کی جماعت کو بدنام کرتے ہیں۔

جرم ناکردہ خطا وار بنے بیٹھے ہیں عاان کے رفق��ا ئے ک��ار ہیں غ��ریب اان کا یہ خیاہے کہ جس طرح وہ اوردیگر ہنود جو اا غالبااس��ی ط��رح مس��یحی کلیس��یا کے مبلغین بھی اچھوت��وں ک��ولالچ دے ک��ر س��بز ب��اغ دکھ��اتے ہیں مسیحی جماعت کی اقتصادی اورسیاسی ترقی کی خاطر ہ��رممکن ذریعہ س�ے اپ�نی تع��داد وش��مار

کوبڑھانا چاہتے ہیں۔ سچ ہے فکر ہرکس بقدر ہمت اوست

اگرگاندھی جی چاہتے ہیں کہ مسیحی جماعت ان کو سلیم العقل ش��خص ج��انے ت��وان پر لازم ہے کہ بے سوچے سمجھے اس پر سنگین الزام لگ��انے س��ے ب��از رہیں اوراس قس��م کی پ��ادر

ہوا باتوں سے احتراز کریں۔۶

آاخ��ر وکی��ل ہیں۔ پس وہ مس��یحی لی��ڈروں کے بی��ان کے الف��اy" ف��رض" مس��ٹر گان��دھی اور"حق" پر وکیلانہ بحث اورجر ح کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب مسیحی کہتے ہیں کہ کلیسیاکا یہ " فرض " ہے کہ وہ ہرفرد بشر کونجات کا پیغام سنائے توان کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ لوگوں پر جبرکرکے زبردستی ان کو مسیحیت کا حلقہ بگوش بنالیں۔ ایس��ا مض��حکہ خ��یز رویہ ان کے مذہب کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ مس��یحی کلیس��یا ک��ا یہ "ح��ق " ہے کہ وہ ان تمام لوگوں کو اپنے دائرہ کے اندر داخل ک��رے جومنج��ئی ک��ونین پ��ر ایم��ان لاچ��اہتے ہیں۔ اوراناان کی روح�وں کی نگہداش��ت اورپاس�بانی ک�رے۔ اوریہ "ح�ق" کلیس��یا ک��و اس کو تعلیم دے ک�ر کے خداون��د کی ط��رف س��ے عط��ا ہ��واہے۔ اوراس پ��ر یہ"ف��رض" کردی��ا گی��اہے کہ وہ ہ��ر ف��رد بش��ر کوج��وذی روح ہے اجس کی روح کی نج��ات ک��ا پیغ��ام س��نائے اورروئے زمین کی ک��وئی ط���اقت

Page 83: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

کلیسیا کو اس پیغام کے سنانے س��ے ب��از نہیں رکھ س��کتی۔ اورنہ کس��ی مل��ک وزم��انہ کی ع��دالتااس سے جبریہ منواسکتی ہے۔ اس فرض کے خلاف کوئی حکم صادر کرکے

۷ ح��ق ت��ویہ ہے کہ اس قس��م کی ب��اتیں ہمیں مجب��ور ک��رتی ہیں کہ ہم یہ کہیں کہ مس��ٹر گاندھی ہندی قوم کے حامی نہیں بلکہ ہندوفرقہ وارانہ خی��الات کے موی��د ہیں اور ف��رقہ وارانہ ذہ��نیت

سے خالی نہیں ہیں۔آایاع اان کو دیتا تھا قصور اپنا نکل میں الزام

مسٹر گاندھی بچارے مسیحی مبلغین کوکمزورسمجھ ک�ر ان ک�و مل�ک ب�در ک�رنے کی دھمکی��اں دی��تے ہیں۔لیکن ان ک��و یہ ج��رات نہیں ہ��وتی کہ وہ اہ��ل اس��لام کے مبلغین کوزجروت��وبیخ ک��ریں۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں اورمانتے ہیں کہ اہل اسلام کی ذہنیت فرقہ وارانہ ہے اوروہ اپنی جم��اعت کی تعداد کوبڑھانے کی خاطر تبلیغ کا ک�ام س�رانجام دی�تے ہیں ت�اکہ وہ ہن�دوؤں کے اقتص�ادی غلبہ اور سیاسی اقتدار ک�و ت�وڑدیں۔ان ک�ا محت�اط رہن�ا یہ ظ�اہر کرت�اہے کہ یہ گی�دڑ بھبھکی�اں ص�رف ای�کایس�ی جم��اعت ک��و س�نائی ج��اتی ہیں جن ک��و وہ ب��زعم خ�ود کم��زور اورض��عیف خی��ال ک��رتے ہیں۔لب وطن اورق��وم کے آانکھ کھ��ول ک��ر اس حقیقت ک��و نہیں دیکھ��تے کہ ہندوس��تانی مس��یحی مح اوراان میں ف��رقہ وارانہ ذہ��نیت س��رے س��ے ہی نہیں۔مس��یحیت دن دوگ��نی اوررات چوگ��نی ش��یدائی ہیں۔ ترقی کررہی ہے۔کیونکہ وہ ہ��ر کس ون��اکس کی روح��انی بھ��وک ک�و پ�ورا ک�رتی ہے۔ مس��ٹر گان�دھی خیال کرتے ہیں کہ غریب" ہریجنوں" کے اندر روحانی بھوک موج��ود نہیں ہے۔ اس س��ے ظ��اہر ہےااچھوت ذاتوں کی روحوں کے ل�ئے ت�ڑپ اور درد نہیں ہے۔ کہ درحقیقت ان کے دل میں بچارے چن��انچہ جب انٹرنیش��نل مش��نری ک��انفرنش جس کے م��اتحت ک��ل دنی��ا کی تین س��و س��ے زي��ادہ

ء میںDr.Mott ۱۹۳۶( م��وٹ نے )ڈاک��ٹرپروٹس��نٹ مش��نری سوس��ائٹیاں ہیں(۔ کے چئ��یر مین مس��ٹرگاندھی س��ے ملاق��ات کی اورکہ��اکہ س��یدنا مس��یح نے ہ��ر مس��یحی پ��ر لازم کردی��ا ہے کہ وہ

اچھوتوں کو انجیل کا پیغام دیں۔ تومسٹر گاندھی نے جواب میں کہا:

آاپ گ�ائے بیل�وں ک�و انجی�ل ک��ا پیغ��ام دے س�کتے ہیں۔ اچھ��وت ت�وان " ڈاکٹر موٹ کیا حیوانوں سے بھی بدتر ہیں۔ ان میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ ہندوازم اسلام اورمس��یحیت میں تم��یز کرس�کیں۔ ان میں س�رے س�ے یہ س�مجھ اورعق�ل ہی نہیں کہ یس�وع اور محم�د اور اورنان�ک وغ�یرہ

میں تمیز کرسکیں۔۸

مندرجہ بالا الفاy سے ظاہر ہے کہ مسٹر گاندھی اچھوت اقوام کو بنظر حقارت اورنفرت دیکھتے ہیں۔اچھوت ادھار کی تحریک سے )جیسا ان کے م�رن ب�رت س�ے ظ��اہر ہے( ان کاواح�د مقصدیہ ہے کہ ان کو کسی نہ کسی طرح ہندوجماعت س�ے ب�اہر نہ نکل�نے دیں۔ ت�اکہ ہن�دود کے اقتدار کوضعف نہ پہنچے اورہندوؤں کی اکثریت برقرار ہے بے خ��ودی بے س��بب نہیں غ��الب کچھ

توہے جس کی پردہ داری ہے۔ حالانکہ بچارے انیس ک��روڑ اچھ��وت اق��وام کس��ی لح��اy س��ے بھی ہن��دونہیں ہیں۔ نہ ان کی نس��لاان کی ت�اریخ اورکلچ�ر )ثق�افت( ہن�دوؤں ہندوؤں کی ہے۔ نہ ان کا مذہب ہندوؤں کا م�ذہب ہے۔ نہ اان کے معبود ہندوؤں کے معب��ود آامد سے پیشتر بستے تھے۔ کی ہے۔ وہ ہندوستان میں ہندوؤں کی

اا ہیں۔ ہن��دوؤں کے سوش��ل نظ��ام میں ان کے ل��ئے ک��وئی جگہ)Animist(نہیں بل��ک وہ م��ذھب نہیں۔کی��ونکہ ہن��دوؤں کی ص��رف چ��ار ذاتیں ہیں اوراچھ��وت ان چ��اروں میں س��ے کس��ی میں بھیلر برط�انیہ ح�ق بج��انب تھی۔ جب اس نے ف�رقہ وارانہ تناس�ب ش�امل نہیں ہیں۔ پس درحقیقت س�رکا میں ان ک��و ہن��دوؤں س��ے ال��گ ش��ما رکی��ا تھ��ا۔ مس��ٹر گان��دھی نے م��رن ب��رت کی دھمکی دےآانے دی��ا۔ پ��ر غ��ریب اچھ��وت اق��وام کے ل��ئے وہ کچھ نہیں کرن��ا کرہن��دوؤں کے اقت��دار میں ف��رق نہ چاہتے۔بڑی سے بڑی بات جو گاندھی جی ان مظل�وم اچھوت�وں کے ل�ئے کرن�ا چ�اہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہندوؤں کی طرف سے ان کو مندروں کے اندر داخل ہونے کی اجازت مل س��کے۔لیکن بف��رض محال اگر ان کو یہ اجازت مل بھی جائے تووہاں داخل ہوکر وہ اپ�نی روح�انی بھ�وک اور پی�اس ک�و کس طرح مٹاسکیں گے؟ ان من��دروں میں س�وائےبتوں کے اوررکھ�اہی کی��ا ہے۔ اورخ��ود یہ مص��لحین

Page 84: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

لق لعنت ابت پرستی ای��ک ایس��ا گن��اہ ہے جوہندوس��تان کے ح��ق میں ط��و اس بات کے قائل ہیں کہ ثابت ہواہے۔ ہندوستانی مسیحی مبلغین یہ چاہتے ہیں کہ بچ��ارے اچھ��وت اق��وام کے ل��وگ اپ��نے اورلب ص��داقت آافت��ا ہندومت کے فرسودہ عقائد اورباطل خیالات کوترک کریں اورتاریکی س��ے نک��ل ک��ر

کی روشنی میں زندگی بسرکریں ۔ کیایہ گناہے؟۹

لل غ��ور ہے۔ گان��دھی جی کہ��تے ہیں کہ اچھ��وت گ��ائے بیل��وں س��ے یہاں ایک اوربات قاب ب��دتر ہیں اوران میں یہ ص��لاحیت ہی نہیں کہ ہن��دوازم ۔اس��لام اورمس��یحیت کے عقائ��د میں تم��یزyکرسکیں اوریسوع اورمحمد اورنانک وغيرہ میں تم�یز ک�رنے کی ان میں س�مجھ ہی نہیں۔ ان الف��ا سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ مسٹر گاندھی کے خیال میں ان مذاہب میں درحقیقت ف��رق عظیم ہے۔ اوران م��ذاہب کے ب��انیوں کی زن��دگیاں یکس��اں ق��درومنزلت والی نہیں ہیں۔ اوران م��ذاہب میں اوران

کے بانیوں میں امتیاز کرنا گویا حیوانوں کا کام ہے۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکےع

ہم مسٹر گاندھی س��ے یہ س��وال ک�رنے ک��ا ح��ق رکھ��تے ہیں کہ اس ص��ورت میں تم��ام م��ذاہب کس طرح برابر طورپر ح��ق ہ��وئے اوران کے ب��انی کس ط��رح یکس��اں ط��ورپر ق��درووقعت رکھ��نے والے ہیں۔

لیکن یہی وہ قضایا ہیں جن کا وہ بار بار اعادہ کرتے رہتے ہیں ۔ آاگیاع آاپ اپنے دام میں صیاد تو

حق برزبان جاری مے گردوسچ ہے۱۰

اگرمختل��ف م��ذاہب میں درحقیقت ک��وئی ف��رق نہیں ہے اوروہ س��ب براب��ر طورپردرس��ت اورراس��ت ہیں تومس�ٹر گان��دھی کی�وں تب�دیلی م�ذہب کے ج�انی دش�من ہیں۔ ان کی مخ��الفت اس بات کا بین ثب��وت ہے کہ وہ م��انتے ہیں کہ ان م��ذاہب میں حقیقی اوربنی��ادی اختلاف��ات ہیں۔ اوران میں تمیز نہ کرنے والا حیوانوں کی سی عقل اورسمجھ رکھتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ مس�یحی کلیس��یا

آاخ��ری اس قس�م کے خراف��ات ک�ونہیں م�انتی اورنہ م�ان س�کتی ہے۔ مس�یحیت ک��ا م�ذہب قطعی اورلن عالم کے اصولوں کوجانچتا پرکھتا اوران کی عدالت کرتاہے۔ وہ اس قسم کا مکاشفہ ہے۔ جوادیا مکاشفہ نہیں ج�و دیگ�ر م��ذاہب میں ہے۔ وہ دیگ�ر م��ذاہب س��ے نہ ص�رف درجہ میں ف��رق ہے بلکہ جیس���ا ہم ب���اب اول میں دکھ���اچکے ہیں ان میں اوراس میں ن���وعیت ک���ا ف���رق ہے۔دیگ���ر م���ذاہب مس��یحیت کی س��ی قس��م کے م��ذہب میں اورنہ ان کے ب��انی س��یدنا مس��یح کی س��ی قس��م کے اشخاص ہیں۔ چونکہ مسیح اور ص��رف مس�یح راہ ح��ق اور زن��دگی ہے۔ لہ��ذا دوس�رے م��ذاہب کے بانی راہ ح��ق اور زن��دگی نہیں ہوس��کتے ۔ یہ مس��یحی ایم��ان ہے جس ک��ا ہ��ر مس��یحی ایمان��دار بے دھڑک ہرفردبشر کے س��امنے اعلان کرت��اہے۔ مس��یحیت کے مط��ابق خ��دا خ�ود گنہگ��ار انس�ان کی

وغ�یرہ(ک�وئی دوس�را م�ذہب یہ ص�داقت اس۱۰: ۴یوحن��ا ۱نج��ات کی خ�اطر پیش ق�دمی کرت�اہے ) احسن طریق پر پیش نہیں کرتا۔ مسیحی طریقہ نجات ہندوازم کی ط��رح کس��ی انس��ان کی دم��اغی اخ��تراع اوربیس��ود روح��انی کوشش��وں ک��ا ن��تیجہ نہیں ہے۔ ہندوس��تانی کلیس��یا اس مکاش��فہ کی علم

بردار اورمناد ہے۔ جس کا فرض یہ ہے کہ اس حق کا اعلان کرے۔۱۱

ء میں ا س۱۹۴۰ ف��روری ۲۹م�دراس کے ہفتہ واراخب��ار گ��ارڈین نے اپ�نی اش�اعت م��ورخہ ملاقات کا بیان شائع کیا تھا جومسٹر سی۔ پی ۔ میتھی��و نے مس��ٹرگاندھی س��ے کی تھی۔ یہ بی��ان جس کی صحت پر مسٹر میتیھو اورمسٹر گاندھی دونوں متفق ہیں۔چند ای��ک پہل��وؤں س��ے نہ��ایت مع��نی خ��یز ہے۔ کی��ونکہ اس س��ے مس��یحی کلیس��یا ک��و یہ پتہ لگت��اہے۔ کہ مس��یحیت کی اش��اعت اورتب��دیلی م��ذہب کے ب��ارے میں مس��ٹر گان��دھی ک��ا ت��ازہ نقطہ خی��ال کی��ا ہے۔ مس��ٹر میتھی��و نے

مسٹرگاندھی کے سامنے راسخ الاعتقاد مسیحی نقطہ نظر پیش کرکے کہا:آایا اوروہ انسان یس��وع "ہمارا یہ ایمان ہے کہ خدا دنیا میں انسان کی شکل اختیار کرکے مس��یح ہے جودوس��رے ن��بیوں ، معلم��وں، اورم��ذاہب کے ب��انیوں کے س��اتھ ای��ک ہی قط��ار میں نہیں ہے۔ خدا کی نظر میں سب انسان گنہگار ہیں۔ لیکن صرف یسوع مسیح ہی بے گناہ اوربنی ن��وع

Page 85: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

انسان کا نجات دہندہ ہے۔اس نے نہ صرف ایک پیغام چھوڑا بلکہ ایک دیدنی جماعت بھی ق��ائماا سکے حواری اورایماندار شامل تھے۔ وہ اندرونی ایم��ان اورب��یرونی س��اکرامنٹوں کے کی۔ جس میں ذریعہ ایک دوسرے سے وابستہ تھے۔ یہ ہمارا ف��رض اورح��ق ہے کہ تم��ام لوگ��وں کوخ��واہ وہ ام��یر ہ��وں خواہ غریب ۔ عالم ہوں یا جاہل۔ اونچی ذات کے ہوں ی�ا ہ�ریجن دع�وت دیں کہ وہ مس�یح ک�و اپن�ا منجی اورخداون�د م�انیں اوراس کے ب�دن یع��نی کلیس�یا کےعض�و بن ج�ائیں۔یہ ک�ام ہم اپ�نے اق��وا ل وافعال س��ے اوراپ�نی زن�دگی س��ے س��ر انج��ام دین��ا چ��اہتے ہیں۔ اوریہ ہم�ارے م�ذہبی ف��رائض ک��ا ج��زوآازادی آازادی نہیں ت��وہم خی��ال ک��رتے ہیں کہ ہم ک��و م��ذہبی لانیف��ک ہے۔ اگ��رہم کوایس��ا ک��رنے کی آازادی ہ��وگی؟ آاپ قائم کرنا چاہتے ہیں ہم مسیحیوں کی یہ ااس ہندوستان میں جو حاصل نہیں۔کیا

آاپ کی قومی گورنمنٹ اس معاملہ میں ہم کو روکے گی؟ یا کیا گان��دھی جی نے ج��واب میں کہ��ا کہ ک��وئی ق��انونی رک��اوٹ نہیں ہ��وگی۔ لیکن میں اس قس��م کےآاپ کے تبلیغی ک��ام کی م��ذہبی خی��الات س��ے متف��ق نہیں ہ��وں۔ پس میں ای��ک ف��رد کے ط��ورپر آاپ اپ��نے نقطہ نگ��اہ کی اش��اعت آازادی حاص��ل ہے کہ آاپ ک��و یہ مخ��الفت کرونگ��ا۔ جس ط��رح آاپ کی مخالفت کروں میں نے کہا کہ یہ ب��ات آازادی حاصل ہے کہ میں کریں اسی طرح مجھے آاپ انجی��ل کی اش��اعت کے خلاف اپن��ا سیاس��ی اقت��دار ک��ا ح��ربہ ق��رین انص��اف ہے۔ لیکن کی��ا اانہ�وں نے ج�واب کے حائ�ل ہ��ونے کے خلاف ہوگ�ا۔ مس�ٹر میتھی�و نے کہ��ا کہ استعمال کرینگے ؟ ااتبلیغ واش��اعت کی طریق��وں ک��و ج��انچیگی اوری��وں جوگ��ورنمنٹ بعض اوق��ات ہن��دو لی��ڈر اص��ول مسیحیت کے خلاف ہوگی وہ اس بہانہ سے تبلی��غ واش��اعت ک��وروک س��کتی ہے کہ اس س��ے ف��رقہآاپ ہم کویہ یقین دلواس��کتے ہیں کہ جس وارانہ نفاق کا ایا امن عامہ میں خلل کا اندیشہ ہے۔ کیا ااسی طرح ہم کو ق��ومی گ��ورنمنٹ میں آازادی حاصل ہے طرح ہم کو برطانوی حکومت کے زیرسایہ

آازادی حاصل ہوگی؟ اس پر گاندھی جی نے کہا کہ: بھی "میں یہ یقین نہیں دلواس��کتا ۔ کی��ونکہ میں ان طریق��وں س��ے ن��اواقف ہ��وں ج��و برط��انویآاپ ک��و ج��ائز آازادانہ استعمال ک��رتے ہیں۔میں ص��رف یہ کہہ س��کتاہوں کہ آاپ حکومت کے زیرسایہ

آاپ مجھ سے اس ک��ا مطلب دری��افت ک��ریں ت�واس ک��و میں آازادی دی جائیگی لیکن اگر اورمناسب آاپ کسی ہریجن آاپ اپنے پیغام کی اشاعت کریں تویہ جائز ہوگا لیکن اگر یوں واضح کرتاہوں کہ اگر کوخفیہ طورپر گھر لے ج�ائیں۔ اس ک�و کھان�ا اور ک�پڑا دیں اورلالچ دے ک�ر اس ک�و اپ�نے م�ذہب میں داخل کرلیں تومیں اس کو ناجائز خیال کرتاہوں۔ میں نے جواب دیاکہ ہم مسیحی اپنے غ��ریب بھائیوں کے ساتھ اچھی چیزوں میں خواہ وہ دینی ہوں یا دنی�اوی حص�ہ لگ�اتے ہیں اوراس ک�و لالچ کہنا غلطی ہے۔ مسٹر گاندھی نے کہ�ا کہ کس�ی ش�خص ک�و دنی�اوی م�ددینا اوراپ�نے م�ذہب میں

لب اخلاق ہے۔ داخل کرنا رشوت دینا ہے اور یہ محز۱۲

ڈاکٹر پرنچ بھی اسی وقت ہندوذہنیت کا مظاہرہ یوں کرتے ہیں کہ:آاپ نے بمبئی لیجیلیٹو کونسل میں تبدیلی مذہب کی قانونی روک تھ��ام کے ل��ئے ای��ک " آائیں س��زا ارو سے تمام مذہبی تبدیلیاں جودغایا فریب یاجبر سے عمل میں بل تیار کیا تھا جس کی اا تب��دیلی م��ذہب س��ے روک��ا ج��ائے کا مستوجب ہوں گی۔ جماعتوں اورمجمعوں اورناب��الغوں ک��و قانون�� گا۔ ہرشخص کو تبدیلی م�ذہب کی اج�ازت ہ�وگی۔ بش�رطیکہ وہ بیم�ار ی�امفلس نہ ہ��و ی�ا اس ک�ا دماغ کمزور نہ ہو۔اس بل کے مطابق مذہب کی تبدیلی کومجسٹریٹ رجسٹر کریگا۔ اورمجسٹریٹآائے کوخ��اص ط��ورپر یہ خی��ال رکھن��ا ہوگ��اکہ تب��دیلی ص��رف م��ذہبی اص��ول کی وجہ س��ے عم��ل میں ااونچ نیچ کواچھی طرح س��ے س��مجھتاہو" )ان��ڈین اورمذہب کوتبدیل کرنے والا اپنے قول اورفعل کے

ء(۔۱۹۴۰ مئی ۱۸سوشل ریفارمر ۱۳

لدنظر مسٹر گاندھی کے مندرجہ بالا بیان کے متعلق مسیحی کلیسیا کو ذیل کے امور م�رکھنے چاہیں:

لر مس��یحیت کے س��اتھ اتف��اق اول: گاندھی جی کہتے ہیں کہ وہ مسٹر میتھیو کے تص��و نہیں ک��رتے ۔ جس س��ے ان ک��ا یہ مطلب ہے کہ وہ مس��یحیت کے کس��ی ایس��ے تص��ور کے س��اتھ

Page 86: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

آاخری قطعی اورکامل واکمل مکاشفہ نے مسٹر گاندھی کواختی��ار متفق نہیں جوکلمتہ اللہ کوخداکا ہے کہ سیدنا مسیح اورمسیحیت کی نس�بت جوچ��اہیں م�انیں۔ لیکن ان ک�ا ذاتی عقی��دہ مس��یحی عقیدہ کہ مسٹر گاندھی مسیحی کلیسیا کویہ بتلائیں کہ وہ کیا جانے ، چونکہ مسٹر گاندھی اہل ہنود کے چوٹی کے لیڈر ہیں اس واسطے ان سےملاقات کرنے کا یہ مقص��د تھ��ا کہ اہ��ل ہن��ود جن کی ہم��ارے مل��ک میں اک��ثریت ہے۔ مس��یحی عقائ��د اورمس��یحیت کی اش��اعت اورتب��دیلی م��ذہب

کوسیاسی نکتہ نگاہ سے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ صحیح سیاسی نکتہ نگاہ سے ان سوالات کا جواب ظاہر ہے جمہوریت کے اصول کےآازاد ہے کہ وہ بے خوف ہوکر اپنے خیالات کااظہار کرے اور بغ��یر کس��ی رک��اوٹ مطابق ہر شخص آازادی کس��ی دوس��رے ش��خص کے کے اپ��نے اص��ول کی تبلی��غ ک��رے۔ لیکن ش��رط یہ ہے کہ یہ آازادی کا انکار کیا ج��ائے آازادی میں خلل انداز ہو۔اگراس قسم کی خیالات کے اظہار وتبلیغ کی تو جمہوریت کے اصول محض ایک ڈھکوسلہ رہ ج��اتے ہیں۔ مث��ال کے ط��ورپر اس��لام اور ہن��دومت کے بعض مبلغین امریکہ یا برطانیہ میں جاتے ہیں۔ اوروہاں اسلام یا ویدانت کی تبلیغ کرتے ہیں ۔آاتا کہ قانون کے ہتھیار س��ے ان لیکن ان ممالک میں کسی شخص کے وہم وگمان میں بھی نہیں تبلیغی کوششوں کی روک تھام کرے۔ کیونکہ ان ممال�ک کے ل�وگ جمہ��وریت کے ش��یدائی ہیں۔آازادی کے آازادی کے اص��ول محض زب��انی جم��ع خ��رچ نہیں بلکہ ان ممال��ک میں جن کے ل��ئے آازاد ہے کہ وہ اپ��نے اصول ان کی سیاسیات کی بنیاد ہیں۔ جمہوری اص��ول کے مط��ابق ہرش��خص اان پ��ر مذہب یا لامذہبی کے اصول کی یاکسی فلسفہ یا مجموعہ خیالات کا اظہار وتبلیغ کرے اور

عمل بھی کرسکے۔۱۴

پس مسٹر گاندھی بجا کہ��تے ہیں کہ مس��یحیت کی ج��و تبلی��غ خل��وص نیت کے س��اتھلب س��عدی دیگراس��ت۔ کی جائے اس پر کوئی قانونی یا سیاسی قید نہیں ل��گ س��کتی۔ لیکن مطلآازادی کی راہ میں ہ��ر آازادی اورم�ذہب کی آاڑ میں ض�میر کی الف��اy" خل�وص نیت" کے پ�ردے اور

قسم کی رکاوٹ ڈالی جاسکتی ہے۔ یہ کس طرح معلوم ہوسکتاہے کہ فلاں شخص اپ��نے خی��الاتلص نیت" س��ے نہیں کرت��ا؟ کااظہ��ار اوران کی اش��اعت "خل��وص نیت" س��ے کررہ��اہے۔اورفلاں" خل��و سیاست دان کا کام" نیت" سے نہیں بلکہ" ملک کے انتظام س��ے ہے ت��اکہ ک��وئی ش�خص کس��یلم وقت کوایک محکمہ احتس��اب ق��ائم آازادی میں مخل نہ ہو۔ ورنہ حاک دوسرے کے جائز حقوق اور

کرنا پڑے گا جوجمہوریت کے منافی ہے۔

۱۵ااس سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ لفظ "مبلغین" سے گاندھی جی جوبیان شائع کیا گیا ہے آاپ بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان میں لاکھ��وں مس��یحی بس��تے کا مطلب پردیسی مبلغین سے ہے۔ اان میں سے ہرایک مسیحی کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ مسیح اورمسیحیت کی تبلیغ ک��رے۔ ہیں اور اوران لاکھوں ہندوستانی مسیحی مبلغین ک�ا یہ ح�ق ہے کہ وہ ہندوس�تان میں بودوب�اش ک�ریں۔ جس طرح کروڑوں ہندوؤں کا یہ ح�ق ہے کہ وہ ہندوس�تان میں س�کونت ک�ریں ۔ کی�ونکہ دون�وں کی جنم بھ��ومی ای��ک ہی ہے۔اگرپردیس��ی مبلغین مس��یحیت پ��ر ق��انونی قی��ود عائ��د کی ج��ائیں گی ت��ووہ قی��وداان کا حق تبلیغ چھین نہیں س��کتیں۔ اوراگ��ر ک��وئی ق��انونی پابن��دی عائ��د ہندوستانی مسیحیوں سے لف م��ذہب ق��وانین کی خلاف ورزی کی گئی توہرہندوستانی مسیحی کا فرض ہوگ��اکہ وہ ایس��ے خلا

کرے۔۱۶

مہاتما جی کویہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ اگراشاعت وتبلیغ پرپابندیاں عائد کی گئیں تویہآاریہ س��ماج اوراس��لام بھی ان کے م��اتحت پابن��دیاں نہ ص��رف مس��یحیوں پ��ر ہی عائ��د ہ��ونگی بلکہ اان کوبھی اختیار ہوگا کہ کسی مسیحی کوہن��دودھرم یااس��لام میں داخ��ل ک��ریں۔ کی��ا اس ہونگے اور قسم کی قانونی پابندیاں فرقہ دارانہ جھگڑوں کا خ��اتمہ ک��رنے اورق��وم کوی��ک ج��ا ک��رنے کی بج��ائے

لنت نئے جگھڑے برپا کرے اورقوم کا شیرازہ بکھیرنے کا باعث نہ ہونگی؟

Page 87: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

۱۷آازادی دی ج�ائیگی" کی�ا ای�ک مہاتم�ا پ�رش گاندھی جی کہتے ہیں کہ " تم کومناسب ک��و یہ س��جتاہے کہ اس قس��م کے تحکم��انہ ان��داز کواختی��ار ک��رے؟ ابھی تواص��ل خ��یر س��ے مل��کاان کی مٹھی میں آازادی بھی حاص��ل نہیں ہ��وئی اورمہاتم��ا جی خی��ال ک��رتے ہیں کہ مس��یحیت ک��و ہے۔ اس کے س��اتھ ج��و چ��اہیں ک��ریں۔ وہ یہ فرام��وش کردی��تے ہیں کہ ان ک��و تص��رف ای��ک موہ��ومہ اختیارحاصل ہے کہ مسیحیت کے س�اتھ جوچ�اہیں ک��ریں۔ لیکن ہندوس�تان کے لاکھ��وں مس�یحیوں کو یہ حقیقی اختیار حاصل ہے کہ وہ اپ��نے ف��رض ک��و پہچ��ان ک��ر مس��ٹر گان��دھی جیس��ے مہاتم��ا

پرشوں کی لن ترانیوں کی پروانہ کرکے ہندوستان کو مسیح کا حلقہ بگوش بنادیں۔ ہم ح��یران ہیں کہ جب ہم اپ��نی روز م��رہ زن��دگی میں ای��ک ش��ے ک��و پس��ند ک��رکے قب��ول کرتے اور دوسری کو ناپسند کرکے ردک کرتے ہیں توم�ذہب جیس�ے اہم مع�املہ میں ج�و درحقیقت زندگی اورموت کا سوال ہے ۔ ہم کوسچے اصولوں کو پس�ند ک�رکے رد ک�رتے ہیں توم��ذہب جیس�ے اہم معاملہ میں ج�و درحقیقت زن�دگی اورم�وت ک�ا س�وال ہے۔ ہم کوس�چے اص�ولوں کوپس�ند ک�رنے

اورباطل اصولوں کوترک کرنے سے کیوں روکا جاتاہے؟آازادی" کویوں واضح کرتے ہیں "تم کویہ اختیار ہے کہ اپنے مسٹر گاندھی لفظ" مناسب پیغام کی تبلیغ کرو۔ لیکن اگرتم خفیہ ط��ورپر کس��ی ہ��ریجن کواپ��نے گھربلاکرکھان��ا اورک��پڑا دواوراس کے لالچ کا ناجائز فائدہ اٹھاکر اس کو مس��یحی بن��الو ت�ومیں اس قس��م کے فع��ل ک��وخلاف ق��انون سمجھونگا"ہم سمجھ نہیں س��کتے کہ مس��ٹر گان��دھی جیس��ے دل ودم��اغ رکھ��نے والے مس��یحیت کی تبلی���غ کی نس���بت کس قس���م کے خی���الات رکھ���تے ہیں؟ مس���یحیت کی تبلی���غ واش���اعتآاپ نے غ��ریب ہ��ریجن کوای��ک " لالچی" میں"خفیہ" مس��اعی کوکس��ی قس��م ک��ا دخ��ل نہیں ہوت��ا۔ شخص بنادیاہے۔جس کو ہریجن سیواس��نگھ اورمس��یحی کلیس�یا دون�وں اپ��نی ط��رف کھینچ رہے ہیںاان پر اپنے مذہب کو قربان کرنے کو تیار ہوجات��اہے۔ ی��ا ش��اید اورجوکھانے اورکپڑے پر اتنا مرتاہے کہ گاندھی جی کا خیال ہے کہ مسیحی مبلغین ہریجن " خفیہ طورپر" اغ��وا ک��رکے اپ��نے گھ��روں میں

لت متخیلہ ان سے لے جاکر بپتسمہ دے دیتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ گاندھی جی کی ناواقفیت اورقوآاپ آاپ ایک اورمثال دی��تے ہیں" ف��رض ک��روکہ کیا کیا مضحکہ خیز کلمات کہلوائیگی ۔ چنانچہ خفیہ طورپر ایک شخص کو سیگاوں سے ٹراونکوبھگا کرلے جائیں" ۔ مہاتما جی بھول ج��اتے ہیں کہ مس��یحی مبلغین اغ��وا ک��رنے وال��وں کی جم��اعت نہیں ہے۔ اورجس قس��م کی حرک��ات ک��اغیر

ء میں نان کواوپریشن کے زمانہ میں ارتکاب کیا تھا اورنابالغ بچ��وں ک��واوربے۱۹۲۰مسیحی لیڈروں اان کے بے س�مجھی ک�ا ناج�ائز سمجھے نوجوانوں کو سکولوں اورک�الجوں س�ے نک�الا تھ��ا۔ اوری�وں فائدہ اٹھایا تھا اس قسم کی حرکات مسیحی مبلغین سے سرزد نہیں ہ��وتیں اوروہ ناب��الغوں کونک��ال

بھگا کرنہیں لے جاتے۔اان کے ہم خی��الوں کوای��ک ت��ازہ واقعہ ی��اددلاتے ہیں۔ گذش��تہ س��ال ہم مس��ٹر گان��دھی اور

آاباد کی ریاست کے شمال مشرقی حصہ میں سخت قحط پڑا۔ گورنمنٹ نے ان۱۹۳۹ ء میں حیدرلرخیر قح��ط زدوں کی ام��داد ک��رنے میں ک��اہلی س��ے ک��ام لی��ا۔ پس وہ��اں کے مش��نریوں نے اس ک��ا کوشروع کیا اور وہ سرکاری افس�روں ، ت�اجروں، زمین�داروں س�ے قح��ط زدوں کی ام�داد کے خواہ��اں ہوئے۔ لیکن باستشنائے چن��د اف��راد کس�ی نے ان کی اپی��ل کی ط�رف مطل��ق ت�وجہ نہ دی۔ لیکن یہاانہوں نے ان قح��ط زدہ آائے اور بلند ہمت مشنری اس قسم کے رویہ سے اپنے عزم بالجزم سے باز نہ آادمیوں کوچھ ماہ ت��ک روزانہ کھان�ا بیچارگاں کی امداد کا تہیہ کرلیا۔ اورپانچ مرکزوں میں پانچ ہزار لف ش�کایت کبھی زب�ان پ�ر نہ لائے۔ کھلاتے رہے۔ غیر مسیحی برداران کے رویہ کے خلاف وہ حر اانہوں نے ان قحط زدہ اشخاص کوکبھی نہ کہ��اکہ" دیکھ��و تمہ��ارے ہم م��ذہبوں نے تمہ��اری پ��رواہ تک نہیں کی۔ تمہارے دیوتاؤں نے تمہاری دعاؤں کو نہیں سنا۔ گورنمنٹ نے تمہاری م��دد نہیں کی۔سرمایہ دار تاجروں اورزمینداروں نے تم کو نہیں پوچھا۔ صرف مسیحیوں نے تمہاری امداد کی ہے"۔ مسٹرگاندھی کے خیال کے مطابق وہ ہزاروں کوبپتسمہ دے کر مسیحیت کے حلقہ بگ��وش کرسکتے تھے۔ لیکن انہوں نے قحط زدہ اشخاص کی ضروریات کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا۔ اورای�ک

شخص کو بھی بپتسمہ دے کر مسیحی جماعت میں شامل نہ کیا۔

Page 88: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

ء(۔۱۹۴۰مارچ ۲۳)انڈین سوشل ریفارمر بابت خنر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۱۸

مسٹرگاندھی ہندوستانی مسیحیوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ تم خاموش مسیحی زن��دگی بسر کرو اوراس زندگی سے ہم وطنوں پر اثر ڈالو۔لیکن انجیل جلیل کا سرس��ری مط��العہ ہم پ��ر ظ��اہر

لاف ہے۔ جب ہم کلمتہ اللہ کی زندگی اورنم��ونہکردیتاہے کہ یہ مشورہ خداوند کی منشا ء کے خآاپ نے اپ��نے پر غ��ورکرتے ہیں ت��وہم دیکھ��تے ہیں کہ گوس��یدنا مس��یح کی زن��دگی کام��ل تھی ت��اہم آاپ نے اپنی کامل زندگی کے خ�اموش پیغ��ام پ��ر کبھی قن��اعت نہ کامل نمونہ دینے پراکتفا نہ کی۔ کی۔ کوئی مسیحی خداون�د کی س�ی کام�ل زن�دگی بس�ر نہیں کرس�کتا۔ کی�ونکہ ک�وئی " ش�اگرد

(۔ پس جب کلمتہ نے کام��ل نم��ونہ ہ��ونے کے ب��اوجود۲۴: ۱۰اپنے استاد سے ب��ڑا نہیں ہوت��ا")م��تی آاپ کے نم��ونہ س��ے۳۸: ۲خاموش زندگی پر قناعت نہ کی)مرقس وغیرہ( حالانکہ ہزاروں اشخاص

وغیرہ ( توماوش��ما جن کی زن��دگیاں غ��یر مکم��ل۵: ۶۔ یوحنا ۱: ۵۔ متی ۳۱: ۵متاثر تھے)مرقس ہیں کس طرح محض خاموش گواہی پر قنادت کرسکتے ہیں ؟ کت��اب اعم��ال الرس��ل س��ے ظ��اہر ہےآاپ کہ خداون��د مس��یح کے رس��ولوں نے یہ وط��یرہ کبھی اختی��ار نہ کی��ا۔ بلکہ خ��ود کلمتہ اللہ نے اور کے رس��ولوں نے اپ��نے پ��یروؤں پ��ر یہ ف��رض کردی��ا ہے کہ وہ نہ ص��رف اپ��نے افع��ال س��ے اپ��نے منج��ئی

( پس ہم کلمتہ۹: ۱۰۔ رومیوں ۳۲: ۱۰کوظاہر کریں بلکہ اپنے اقوال سے اس کا اقرار کریں )متی اللہ کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرکے مسٹرگاندھی کے مشورہ کومردہ سمجھتے ہیں۔

اگر بنیم کو نہ بینا وچاہ امتوگر خاموش ہنشینم گناہ است

آاواز بلن�د خدا ک�ا حکم ہے" گلا پھ��اڑ ک�رچلا۔ دری��غ نہ ک�ر۔ نرس�نگھے کی مانن��د اپ�نی (۔ مس��ٹر گان��دھی کے ب��رعکس مق��دس۱: ۵۸کرو اورلوگوں پر ان کے گناہوں کوظاہر ک��ر")یس��عیاہ

اانہ��وں نے نہیں پولوس صاف طورپر فرماتے ہیں۔"ایمان سننے سے پیدا ہوت��اہے لیکن جس ک��ا ذک��ر (۔۱۴: ۱۰سنا اس پر ایم�ان کی�ونکر لائیں اوربغیرمن��ادی ک�رنے والے کے کی�ونکر س�نیں"؟ )رومی�وں

آاپ کے رس��ول مش��نری اورمبل��غ تھے۔ )م��رقس وغ��یرہ(۔۱: ۱۰۔ لوق��ا ۳۸: ۲خود خداوند مس��یح اورآاپ کے مبارک رسول صرف خاموش زندگی بسر کرنے پر ہی قناعت کرتے اورمن�ادی ک�رنے ک�ا اگر

آاتی۔۸: ۱ف���رض )اعم���ال وغ���یرہ(۔ادا نہ ک���رتے تومس���یحی کلیس���یا کبھی مع���رض وج���ود میں نہ مسیحیت کی اشاعت کی وجہ یہ تھی کہ منجئی کونین کے شاگرد نجات کی بشارت کے پیغام

:۱۵۔ رومی��وں ۲۰: ۶کولوگوں تک پہنچانا اپنی زن��دگی ک��ا واح��د مقص��د س��مجھتے تھے)افس��یوں ۔ وغیرہ( اورانجیل کی منادی کے حکم کی تعمیل کرن�ا س�عادت دارین ک�ا ب�اعث خی�ال ک�رتے۲۰

ت��ا۲۱: ۲۱۔ ۲۳ت��ا ۲۱: ۲۰ ۔ یوحن��ا ۴۹ت��ا ۴۷: ۲۴۔ لوق��ا ۱۹: ۱۸۔ ۔ ۲۰ ت��ا ۱۸: ۱۸تھے)م��تی وغيرہ(۔جب ہم نے خ�دا کی محبت ک�ا جومس�یح میں ہے ذاتی۸تا ۴: ۱ ۔ اعمال ۴۷: ۲۴۔ ۲۳

تجربہ کرلیا ہے اورخدا کی نج��ات س�ے بہ��رہ ورہوگ�ئے ہیں ت�وہم کس ط�رح خ�اموش رہ ک��ر لاکھ��وں انسانوں کو لاپروائی س��ے ہلاکت کی ط��رف ج��اتے دیکھ س��کتے ہیں کی��ونکہ " گن��اہ کی م��زدوری

ااسی اطمینان اورشانتی کی ضرورت ہے جوہم کو۲۳: ۶موت ہے"؟ )رومیوں (ان گنہگاروں کوبھی حاصل ہوگئی ہے۔ پس جوشخص جان بوجھ کر ایس��ے انس��انوں ک��و" اس بخش��ش س��ے جوہمیش��ہ

۔ ( محروم رکھتاہے۔ وہ اپ��نے افع��ال س��ے ث��ابت کردیت��اہے کہ اس نے۲۳: ۶کی زندگی ہے)رومیوں یہی محبت کا تجربہ نہیں کیا۔ کیونکہ محبت ک��ا خاص��ہ یہ ہے کہ وہ دوس��روں ک��و اپ��نی خوش��ی ال

یہی محبت ونج���ات کی بخش���ش۳: ۱یوحن���ا ۱میں ش���ریک ک���رتی ہے) ( پس ک���وئی ش���خص ال کوحاص��ل ک��رکے خ��اموش نہیں رہ س��کتا۔ منج��ئی ک��ونین ک��ا یہ حکم ہے کہ" تم نے مفت پای��ا

مفت دو" پس مسیحی ہونا اورمسیحیت کا مبلغ ہونا درحقیقت مترادف الفاy ہیں۔عاشقی چیست بگومگر بندہ جانال بودن

ہرمسیحی ایماندار منجئی کونین کی نجات کا مبلغ ہے۔ چونکہ اس نے خداوند مسیح کی محبت کے مطلب اورمقصد کو جان لیا ہے اوراس بات کا تجربہ کرلیاہے کہ خدا نے اپنی بے

Page 89: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

باب(لہذا یہ میرا ف��رض ہے کہ مین دوس��رے۱۵قیاس محبت سے مجھ گنہگار کوتلاش کیاہے)لوقا یوحن��ا۱گنہگاروں پر بھی ظ��اہر ک��ردوں کہ خ��دا کی لازوال محبت ان کی بھی تلاش ک��رتی ہے۔ )

آایاہوں کہ انسان زندگی پ��ائیں اورک��ثرت س��ے۹: ۴ وغیرہ( کلمتہ اللہ نے فرمایا ہے کہ" میں اس لئے (۔ ہرہندوستانی مسیحی عاجزی سے خدا کا شکر کرتاہے کہ اس کو۱۰: ۱۰زندگی پائیں")یوحنا

وغ�يرہ(پس اس کی خل�وص نیت س�ے یہ خ�واہش ہ��وتی ہے کہ وہ۱۷، ۴: ۱زن�دگی ملی ہے)یوحن�ا آام دے ت�اکہ وہ بھی ک�ثرت س�ے زن�دگی پ�ائیں " اپنے ہم وطن�وں کوج�ومردہ ہیں اس نج�ات ک�ا پیغ�

(۱۵: ۱۵اورہمارے ملک وقوم ہند کی ت�رقی ہ��و۔ ہم مس��یح کے بغ��یر زن�دہ نہیں رہ س��کتے )یوحن��ا اورہم اس کی برداشت نہیں کرسکتے کہ اس کے بغیر اس دنیا کا کوئی شخص بھی زندگی بس��ر کرے۔ ہم جوبھی ہیں ایسی دنیا کا تصور بھی نہیں کرسکتے جس میں ایسے انس��ان بس��تے ہ��وں

آاب حی��ات" )یوحن��ا اروحیں پیاس��ی ہ��وں اوروہ" ( س��ے مح��روم۳۷: ۷ج��و گنہگ��ارہوں اورجن کی ااس نے کسی ملک یا قوم یافرد کو رکھیں جائیں۔ جب خدا نے انسان کی نجات کا انتظام کیا تویی نہیں کیا۔ ہم کون ہیں کہ ہم خاموش رہ کر اس نجات کے پیغ��ام س��ے دوس��روں ااس سے مستشن کو محروم کریں؟ یہ زندگی کا پیغ��ام ہم��ارا نہیں کہ ہم ک��و اختی��ار ہ��و کہ اس ک��ااعلان ک��ریں ی��ا نہ کریں۔مسیحی نجات کی پیغام بری کا حکم خود پیغام کے اندر مضمر اورموج�ود ہے۔ نج��ات ک�ایہی پیغ��ام ہے اورخ��ود خ��دا نے ہم��ارے س��پرد کی��اہے۔اورخ��دا کے حکم کے س��امنے ہم یہ پیغ��ام ال مس��ٹرگاندھی کے مش��ورہ ک��وکہ خ��اموش مس��یحی زن��دگیوں س��ے دنی��ا ک��و مت��اثر ک��روبے حقیقت

سمجھتے ہیں۔ مسٹر گاندھی کانگریسی خیالات کے پرچار کے معاملہ میں کیوں اپنی اصلاح پر عمل پ�یرا نہیں ہ�وتے۔ک�انگریس کے اخب�ارات کی�وں ج�ار ی ہیں ک�انگریس کے کارن�دے کی�وں خ�اموشآازادی کی خ��اطر کی��وں آاج ک��ل تقری��ر کی زندگیاں بسر کرنے پر قناعت نہیں کرتے ؟ مسٹرگاندھی آاپ کے گورنمنٹ سے الجھ کر ہزاروں کو جیل خ��انہ بھیج رہے ہیں؟ خداون��د مس��یح ک��ا نم��ونہ اور

سنہری اصول ہم کو دنیا کے تمام سیاسی مفکرین کی دریوزہ گری سے بے نیاز کردیتےہیں۔

۱۹ حق تویہ ہے کہ تب��دیلی م�ذہب کے ب�ارے میں ہم�ارے غ��یر مس�یحی ہم وطن ای�ک ایس�ا وط��یرہ اختی��ار ک��رتے ہیں جوتن��گ دلی بے انص��افی اور تعص��ب پ��ر مب��نی ہے۔ ای��ک ط��رف ت��ووہ ان شخاص کو اپنی جماعت سے خارج کردیتے ہیں ج�و مس��یحیت کہ حلقہ بگ�وش ہوج��اتے ہیں اور لطائف الحیل سے ان پر ظلم وستم ک��رکے ان پ��ر عرص��ہ حی��ات تن��گ کردی��تے ہیں اور ای��ذائیں دے دے ک��ر ان ک��و مجب��ور کردی��تے ہیں کہ وہ ان کی جم��اعت س��ے نک��ل ج��ائیں۔دوس��ری ط��رف وہ دھمکیاں دے کر کہتے ہیں کہ اپنی الگ جماعت ق�ائم نہ ک�رو۔ اگ�رتم نے ال�گ ای�ک ف��رقہ بنالی�ا توتم فرقہ پرست ہوگے۔ تم ایک اقلیت ہو۔ہماری اکثریت ہے اوری��وں اپ��نی اک��ثریت کے غلبہ اوراقت��دار

سے مسیحی کلیسیا کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں ۔الاماں ازروح گاندھی الاماںالاماں ازگاندھیاں این زماں

مذہبی رواداری کے مبلغ اپنے قول کے خلاف تعصب سے کام لے کر ہم ک��و جم��اعت سے خاجر ک��رکے یہ ث�ابت کردی�تے ہیں۔ کہ ان کے ق�ول اورفع�ل میں مط��ابقت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گومسیحی مبلغین ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں۔ جن کا ج��ائز ہون��ا ع��دالت میں بھی ث��ابت ہوسکتاہے توبھی غیر مس�یحی تب�دیلی م�ذہب کی مخ�الفت ک�رتے ہیں۔ کی�ونکہ ف�رقہ وارانہ تناس�ب کی وجہ سے ہر فرقہ کا سیاسی وقار اس کی تعداد پ��ر منحص��ر ہوگی��ا ہے۔ پس یہی م�ذہبی رواداری کے وکی��ل اس ب��ات کی برداش��ت نہیں کرس��کتے کہ ک��وئی ش��خص اپ��نے م��ذہب کوتب��دیل ک��رکے مسیحی ہوکر ان کے سیاس��ی اقت��دار میں خل��ل ڈالے۔ ح��الانکہ انہی غ��یر مس��یحی وکلائے رواداری کے طرز عمل کی وجہ سے مذہب کی تبدیلی ایک جماعت سے نکل ک��ر دوس��ری جم��اعت میں داخل ہوکر ہی ہوس��کتی ہے۔ اس ک��ا ص��حیح علاج یہ نہیں کہ وہ نومری��دوں ک��ونت ن��ئی دھمکی��اں دیں اور مشنریوں کوملک ب��دکرنے کی ب��ڑیں ہ��انکیں۔واجب ت��ویہ تھ��اکہ مس��ٹر گان��دھی اورک��انگریسااس ک��و اانہ��وں نے کی طرح فرقہ وارانہ تناسب جیسے تباہ کن اصول کو سرے س��ے ردکردی��تے پ��ر

Page 90: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

قومی مفاد کے خلاف تسلیم کرنے کے باوجود اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کی وجہ سے رد نہ کیا۔ غ��یر مسیحیو ں کوچاہیے کہ وہ اپنا طرز عمل بدلیں۔تعصب اورتنگدلی کوچھ��وڑ ک��ر فراخ��دلی اورحقیقی رواداری اختیار کریں اورنومریدوں پر ظلم وستم ک��رکے ان ک��و اپ��نی جم��اعت س��ے خ��اجر ک��رنے کےآازادی حاص��ل ہ��و اوران ک��و یہ آازادی دیں تاکہ ان کو ضمیر اورمذہب کی کام��ل عوض ان کومذہبی ح�ق ہ��و کہ بغ�یر کس�ی قس�م کی روک ٹ�وک کے وہ جم�اعت س�ے خ�ارج ہ��وئے بغ��یر جس م�ذہبآازادانہ اپ��نے خی��الات کی تبلی��غ کرس��کیں۔ اگ��ر ہم��ارے غ��یر کوچ��اہیں قب��ول ک��رلیں۔اوردوس��روں میں مسیحی برادران موجود رویہ کو اختیار نہ کرتے اور اپنے گھر خاندان اوران جماعت سے نکلنے کی ضرورت نہ پڑتی اورنہ مسیحی جماعت کے الگ وج��ود کی ض��رورت پ��ڑتی بلکہ جس ط��رح لنک��اآاباواج��داد اوردیگ��ر رش��تہ داروں چین وجاپان کے مسیحی منجئی کونین کے حلقہ بگوش ہوکر اپ��نے کے ساتھ ایک ہی جم�اعت میں رہ ک��ر بودوب��اش ک�رتے ہیں ۔ ہندوس�تانی مس�یحیوں ک�و بھی اپ�نےآاتی۔ ہندوستان میں مسیحی جماعت کا وج��ود ہم��ارے غ��یر گھروں کوخیر باد کہنے کے نوبت نہ

مسیحی برادران کی تنگ دلی کا نتیجہ ہے۔آایاع اان کودیتے تھے قصور اپنا نکل ہم الزام

ہمارے غیر مسیحی برادران مسیحی نومریدوں کو اپنی ذات برداری جماعت س��ے خ��اجر کرنے پ�ر ہی قن��اعت نہیں ک�رتے۔ بلکہ جب ان ک��و مس�یحی جم��اعت میں قب�ول کرلی��ا جات�اہے ت�و مسٹر گاندھی کی طرح طعنے دی�تے ش�روع کردی��تے ہیں کہ مس�یحی مبلغین دنی�اوی م�ال ک�ا لالچ دے کر ان کو مسیحی جماعت میں شامل کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ خیال نہیں ک�رتے کہ وہ غ��ریب ان کے م��ذہبی تعص��بات کی وجہ س��ے بے خانم��ان اوربے سروس��امان ہوج��اتے ہیں۔ اوراگ��ر مس��یحی

کلیسیا اس حالت میں ان کی مدد نہ کرے تووہ کیا کریں اورکہاں جائیں؟اتر کر مجھے کہاہے کہ اس جا سے نکل جا پر ک

ایسی بے پر کی اڑاتانہ تھا صیاد کبھی

اا یہ الزام اس غرض سے وضع کیا گیا ہے تاکہ مس��یحی مبلغین اس ال��زام س��ے خ��وف غالب کھاکر کسی شخص کو جومذہب کی وجہ سے اپنے خاندان اورذات برداری سے خارج کیا جائے

مسیحیت میں قبول نہ کریں اوریوں اس چال سے مسیحیت کی اشاعت بند ہوجائے۔ مسٹرگاندھی کویادرکھنا چاہیے کہ کلیسیا ک��ا ف��رض ہے کہ ایس��ے بے س��رو س��امان اوربے خانمان شخص کی مدد کرے جواہل ہنود کی تنگدلی اور کم ظرفی کی وجہ سے لاچار ہوجاتاہے

۔ کیونکہ سیدنا مسیح نے فرمایاہے کہ : " جوبھوکوں کوکھانا کھلاتاہے ۔ پیاسوں کو پانی پلاتاہے ۔ پردیس��وں ک��و اپ��نے گھ��ر میں ااتارتاہے ۔ ننگوں کو کپڑا پہناتاہے ۔ بیماروں کی خ��بر گ��یری کرت��اہے وہ ان کے س��اتھ نی��ک س��لوک

باب(۔۲۵نہیں کرتا ۔ بلکہ خود خداوند مسیح کے ساتھ نیک سلوک کرتاہے")متی اگ��ریہ کہ��ا ج��ائے کہ مس��یحی کلیس��یا اچھ��وت ذات کے لوگ��وں ک��و بہ��تر س��لوک کی تحریص وترغیب دے کر ان کو مسیحیت ک��ا حلقہ بگ��وش ک��رتی ہے ت��و ہم یہ ج��واب دیں گے کہااخوت ومساوات کے اصول کل بنی نوع انس�ان پ�ر ح�اوی ہیں اوریہ مس�یحیت ک�ا امتی�ازی مسیحی ادور ہوج��اتی ہیں اورب��رہمن اورش��ودایک دوس��رے نش��ان ہے کہ مس��یحیت میں ہ��ر قس��م کی امتی��ازات آاپس میں براداری کے رشتہ میں منسلک ہوجاتے ہیں۔ ہم اچھوت کےساتھ بھائیوں کی طرح رہ کر آاریہ سماجیوں کو یہ کہ کر منع کریں آاپ اادھار کے حامی مسٹر گاندھی سے پوچھتے ہیں کہ کیا آاپ یہ آاریہ سماج میں داخل ہوجائیں توان سے بہ��تر س��لوک نہ کی��ا ج��ائے؟ اگ��ر گے کہ اگر اچھوت ارو س��ے مس��یحیوں ک�و اچھ��وت ذات�وں کے س�اتھ مس�اویانہ آاپ کس منط��ق کی نہیں کہہ سکتے تو

اوربردارانہ سلوک کرنے سے منع کرسکتے ہیں؟ اگر مسٹر گاندھی تواریخ کلیسیا سے واقف ہوتے تو ان پر واضح ہوجات��اہے کہ مس��یحیت کی ترقی اس کی دنیاوی ترقی پر موقوف نہیں ہے۔بلکہ یہ اس کی اندرونی قوت اورروحانی ط��اقت پ��ر منحص��ر ہے۔ پہلی تین ص��دیوں میں مس��یحیوں ک��وہر ط��رح کی ای��ذائيں برداش��ت ک��رنی پ��ڑیں۔ قیاصرہ روم نے اپنا تم��ام زورمس��یحیت ک��و تب��اہ ک��رنے کی خ��اطر خ��رچ کردی��ا لیکن مس��یحیت دن

Page 91: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

دگنی اوررات چوگنی ترقی کرتی گئی۔ یہی حال ہر ا یک ملک میں کلیسیا کی ترقی کا ہوا۔ انشا اللہ یہی حال ہندوستان میں ہوگا۔ جس قدر مسٹر گاندھی اوران کے ہم خیال اص��حاب مس��یحیت کو دبائیں گے اورمسیحی تبلیغ واش��اعت کی راہ میں رک��اوٹیں ڈالیں گے اس��ی ق��در مس��یحیت کی

ترقی ہوگی کیونکہ شہدا کا خون کلیسیا کا بیج ہے۔ آانکہ دلش زندہ شد بعشق ہرگز نمیرد

ثبت است ہرجریدہ عالم دوام ما

۲۰آاپ ان ک�و مسٹرگاندھی نے اچھوت ذات کے لوگوں کیلئے ایک نیا ن��ام تج�ویز کی��ا ہے۔ "ہریجن" کے نام سے موسوم کرتے ہیں جس کے معنی " وشنو کا بیٹا" ہیں۔ یہ ای��ک عجیب ب��ات ہے کہ سوائے مسیحیت کے شمالی ہندوستان کے ہرمذہب نے ان غریبوں کیلئے نئے ن�ام تج��ویز ک�راا جب ک��وئی چ��وہڑہ اس��لام ک��ا حلقہ رکھے ہیں۔ اوری��و ں ذات کے وج��ود ک��و برق��رار رکھ��اہے۔ مثلآاریہ دھرم قب��ول کرلیت�اہے امسلی" کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔اگر وہ بگوش ہوجاتاہے تواس کو" اشدھ نہ ہوتو" ہ��ریجن" اشدھ ہونے کے باوجود وہ " ہندو" نہیں بلکہ" مہاشہ" کہلاتاہے۔ اوراگروہ تو کہلاتاہے ۔لیکن مسٹر گاندھی کسی برہمن یاکشتری کو"ہریجن" ی�ا " وش�نو ک�ا بیٹ��ا" کہ��نے کی ج��رات نہیں ک��رتے۔ جب ک��وئی چ��وہڑہ س��کھ م��ذہب میں داخ��ل ہوجات��اہے ت��ووہ م��ذہبی س��کھ کہلاتاہے۔ علی ہذا القیاس ہرمذہب نے اس بچ��ارے کونی��ا دے رکھ��اہے ت��اکہ ذات کی تم��یز برق��رار رہے۔ لیکن مسیحیت ہی ای��ک ایس��ا م��ذہب ہے جس میں کس��ی نومری��د کوک��وئی نی��ا ن��ام نہیں دی��ا جاتا۔ اگربرہمن یا سید یا ش�یخ مس�یحی ہوج�ائے۔ ت�ووہ " مس�یحی "کہلات�اہے۔ اگرچ�وہڑہ مس�یحی ہوجائے تو وہ بھی " مسیحی" کہلاتاہے۔ ذات کی تمیز کوسرے سے اڑادیا جات��اہے۔دیگ��ر م��ذاہب کے پیرو نہ صرف نیانام دے کر اس تمیز کو برقرار رکھتے ہیں بلکہ وہ اپ��نی لڑکی��وں ک��ا بی��اہ ت��ک ان نومری�دوں س�ے نہیں ک�رتے اوری�وں اس تم�یز ک��و مس�تحکم کردی�تے ہیں۔ لیکن مس�یحیت کے

اونچی ذاتوں س�ے مس�یحی ہ�وتے ہیں ۔ وہ بے تام�ل حلقہ میں یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ جولوگ ااان قابل نومریدوں کودے دیتے ہیں جواچھوتوں سے مس��یحی ہ��وتے ہیں۔ پس مس��یحیت اپنی لڑکیاں اپنی تعلیم اورکلیسیا اپنے فع��ل س�ے ہندوس��تان پ��ر ث��ابت ک��ررہی ہے کہ ذات پ�ات کی لعنت ص��رف مسیحیت کے قبول کرنے سے ہی دورہوسکتی ہے۔ جب یہی لوگ جوبالفاy مسٹر گاندھی" گائے بیل سے بدتر تھے اورجن میں روحانی بھوک نام کو بھی نہیں"مس��یحیت کے حلقہ بگ��وش ہوگ��ئے

ء کی مردم شماری کے مطابق جہ��اں پن��درہ فیص��دی ہن��دو۱۹۳۱اانہوں نے یہاں تک ترقی کی کہ فی ص��دی م��رد۳۲مرد اور ڈیڑھ فی صدی ہندوعورتیں پڑھ لکھ سکتی ہیں وہ��اں ان مس��یحیوں میں

فی صدی عورتیں لکھ پڑھ سکتی ہیں۔ کیا یہ ترقی ح�یرت انگ�یز نہیں ؟ ہن�دومت اوراس�لام۱۸اور میں س��رے س��ے یہ اہلیت ہی نہیں کہ وہ ان اچھ��وت اق��وام کی ت��رقی ک��ا وس��یلہ ہوس��کیں۔ مس��ٹر گان��دھی نے پون��ا پیکٹ س��ے لے ک��ر تاح��ال ان اچھوت��وں کے ل��ئے کی��ا ک��ام کی��ا؟ اور ان کی زی��راادھ��ار س��رکردگی ان اق��وام نے کی��ا ت��رقی کی؟ ہ��اں مس��ٹر گان��دھی نے ان کی خ��اطر چن��د ای��ک " آائے دن ان اادھ��ار کھ��ائے بیٹھے ہیں اور سبھائيں" ضرور قائم کردی ہیں۔ جن میں چند بے فک��رے آامدنی کے صیغہ میں غبن ہوتا رہتاہے۔ اچھ��وت اق��وام کے ای��ک لی��ڈر جگ��دیش ش��نکر سبھاؤں کی

ودیار تھی کہتے ہیں:آاریہ " درحقیقت ہم اچھ��وت ، ش��ودر نہیں ہیں۔۔۔ دراص��ل ہم باش��ندگان ق��دیم ہن��دوجوآاری��وں نے غلام بن��انے آاوروں سے پیشتر ب��راعظم ایش�یا کے حقیقی مال��ک اور حکم�ران تھے ۔ حملہ اانیس ک�روڑ کی تع�داد ک�و کے بعد نہایت ناپاک مکروہ ن�اموں س�ے ن�امزد ک�رکے تاقی�امت ہم�اری محض برہمن کشتری بنئے کی خدمت گذاری کرکے اسی ک�و ہم�ارا ج�زو ایم��ان بنادی�ا۔۔۔ حی�واناانہی کے س��ڑے گلے باس��ی جھ��وٹے ٹک��ڑوں کوکھ��اکر کی ط��رح رات دن بلا معاوض��ہ ک��ام کرن��ا اوراپرانے چیتھڑوں سے تن پوش��ی کرن��ا۔ گن��دی جگہ��وں میں گھ��اس پھ��ونس شکم پروری کرنا۔ پھٹے کی جھونپڑیاں بناکر رہنا۔ گندے جوہڑوں سے جہ�اں گ�ائے بھینس وغ�یرہ پ�انی پی ک�ر اک�ثر پاخ�انہ پیشاب کردیا کرتی ہیں۔ ایسا پلید پانی پینے پر ہم کو مجبور کی��ا جات��اہے۔ تعلیم وہ��نر ہم��اری اق��وام

Page 92: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

وول سے قسمت میں نہیں لکھی ۔ ہندو مذہب نے ہم کو حیوان بنا ڈالا۔اس پ��ر ط��رفہ یہ لز ا کے رو ہم کو تاحال ہندومذہب میں رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ہن��دوؤں ک��ا اخلاق ف��رض ت��ویہ ہے کہ ہمارے ساتھ تم�ام بدس�لوکیاں والا وط�یرہ چھ��وڑ ک�ر رش��تہ ن�اطہ میں منس�لک کردی�ا جات�ا جیس�ا کہاانیس کروڑ کی تعداد کوہندؤ لکھواکر ہمارے تم�ام حق��وق عیسائی ہوجانے پر کرلیا جاتاہے۔ ہماری حاصل کرکے برہمن کشتری ۔ بنئیے قوم کی سیاسی مالی ، دماغی ، فلاح اوربہبودی کے سامان مہی��ا ک��ئے ج��اتے ہیں۔ لیکن ہم��ارے س��اتھ منوس��مرتی والا س��لوک کی��ا جات��اہے۔۔۔ ہن��دوؤں کے من��دروں، دیواس��تھا ن��وں ،ہن��دو ہوٹل��وں ۔دھ��رم ش��الاؤں ۔س��رائے کن��وؤں ۔ ت��الابوں ۔ ب��ادلیوں وغ��یرہ پ��ر س��خت مم��انعت ہے۔ بلکہ مرج��انے پ��ر بھی ہمیں ہ��ریجن مرگھٹ��وں میں پھینک��ا جات��اہے۔۔۔ ہم��ارے حقوق کو قبضے میں لاکر ہندو اپنی ترقی کررہے ہیں ۔ اورہماری غریب مظل�وم ج��اتیوں کے ل�ئے نہ

ء(۔۱۹۴۱ فروری ۲۶کوئی سکول نہ اخبار نہ لائبریری نہ تعلیم وتربیت کاانتظام ہے۔ )احسان لاہور اامید کس کی دل ہی نہ رہا آاروز کی جڑ کٹ گئی نخل

ابدھ اسدھ لر مذلت س��ے نک��الا ہے۔ مس��یحیت کی طفی��ل ان ک��و مسیحیت نے ان کو قع آاگئی ہے۔ ہندومت نے ہ��زاروں س��ال س��ے اوراس��لام نے ص��دیوں س��ے ان س�ے حیوان��وں ک��ا ساس��لوک کرکے ان کو پائمال کر رکھا تھا۔ مسیحیت نے پچاس سال کے اند اندر ان کو تیرہ وتاریک زنداں سے نکال ک��ر ان کے جس��م دم��اغ اورروح کی خبرگ��یری کی اوروہ اب اس قاب��ل ہوگ��ئے ہیں کہ وہآاپ کو انسان سمجھ کر اپنی اقتص��ادی اورسیاس��ی ت��رقی کے خواہ��اں ہ��وں۔ پن��ڈت ج��واہر لال اپنے

نہرو نے کیا خوب کہا ہے: " مس��تقبل زم��انہ کی اش��د ض��رورت ہے یہ تم��دنی اوراقتص��ادی ح��الات کی بنی��اد ع��دنی اورانصاف کے اصولوں پر قائم ہو۔ اور اگرہندو مت یا اسلام یہ کام نہیں کرسکتے۔ توان کا ک��وئی

مستقبل نہیں ہے"۔

ہندوس�تان کی ت�اریخ نے یہ فیص�لہ کردی�اہے کہ ہن�دومت اوراس�لام اپ�نے جم�ود تعط��ل کی وجہ سے عدل اورانصاف کے اصولوں پر کاربند نہیں رہے۔ لہذا بالف��اy پن��ڈت جی" ان ک��ا ک��وئی مستقبل نہیں ہے" ہندوستان کا مستقبل صرف مسیحیت کے ہ��اتھوں میں ہے جس س�ے ق��وم ہن�د

اامید ہوسکتی ہے، ورنہ کی ترقی کی جہاں اہل تواے غالب رہا گررتا یونہیہوگئیں ویراں کو تم کو بستیوں ان دیکھنا

۲۱ گاندھی جی کے مذکورہ بالا بیان کا ایک ای�ک لف��ظ مس�یحی کلیس�یا کے ل�ئے خط��رہآازادی اورمس��یحیت کی کی سرخ جھنڈی کا ک��ام دیت��اہے۔ ہم ک��و اب پتہ چ��ل گی��ا ہے کہ م��ذہبی لض خط�ر میں ہیں اوروہ گان�دھی جی اوران کے مقل�دوں کے اشاعت وتبلیغ کے بنیادی حق��وق مع�ر ہاتھوں میں محفوy نہیں ہیں۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ گاندھی جی کیوں تبدیلی مذہبآارائی کرےت ہیں ۔ ان کو اوردیگر قوم پرستوں کو اس امر کی طرف سے بے نیاز پر اس قدر غوغا ہونا چ��اہیے کہ ک��ون کس م��ذہب ک��ا پ�یرو ہے۔ ت��اوقتیکہ وہ مل��ک س��ے غ��داری نہ ک�ریں۔ لیکن ق��وم پرستوں کی طرف سے تبدیلی مذہب پر جو نکتہ چینی کی جاتی ہے۔ اس س�ے یہ معل�وم ہوت�اہےکہ یہ اصحاب خود قوم کے دلدادہ نہیں بلکہ فرقہ وارانہ ذہنیت رکھتے ہیں اوران کی اص��لی غ��ایت ہے کہ وہ ہندوؤں کی اک��ثریت ک��و ق��ائم رکھیں ت��اکہ وہ ہندوس��تان پ��ر غ��الب رہیں۔ اس پہل��و س��ے جباان کی روش پ��ر روش��نی پ��ڑتی ہے ت��وہم مس��ٹر گان��دھی اوردیگ��ر ہن��دوؤ لی��ڈروں کے خی��الات پ��ر اوراجدا سمجھ سکتے ہیں کہ جب وہ مسیحیوں سے مخاطب ہوتے ہیں تووہ مذہب اور سیاسیات کو نہیں کرتے اورایک ہندو کی حیثیت س�ے بول��تے ہیں اورجب برط�انوی س�لطنت س�ے مخ��اطب ہ��وتے ہیں توقوم پرس�ت ہ��وکر کہ�تے ہیں کہ م�ذہب اور سیاس�یات دوج�داگانہ ب�اتیں ہیں۔ لیکن ان کااص�ل

امدعا یہ ہے کہ ہندوستان کی حکومت میں ہندوؤں کا غلبہ قائم رہے۔۲۲

Page 93: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

لل غور یہ ہے کہ گاندھی جی مس�یحی مبلغین ک��و قی��د کی اس بیان میں ایک اور امر قابآاہمس��ہ کی تعلیم اان کی دھمکی دیتے ہیں جومجذوب کی بڑسے زیادہ وقت نہیں رکھ��تی۔ کی��ا یہ آاپ کے ک��ا عملی پہل��و ہے؟ ہمیں ایس��ا معل��وم ہوت��اہے کہ چ��ونکہ برط��انوی گ��ورنمنٹ کے خلاف آاہمس��ہ پ��ر زوردی��تے ہیں لیکن اپ��نے ہم آاہمسہ سے زیادہ زبردس��ت ح��ربہ نہیں ہے لہ��ذا وہ ہاتھوں میں آاپ وطنوں کے خلاف وہ تشدد استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ ایس��ا معل��وم ہوت��اہے کہ جب آاہمس�ہ اورس�تیاہ گ�راہ کے اص�ولوں ک�و ال��وداع کہہ دیں گے۔ اورن�رمی آاپ آازادی مل جائیگی تو کو اورمحبت کی بجائے ہندوستانی مسیحیوں کو قید اورسختی کی دلیل سے سمجھایا جائیگا۔ لیکنااس شخص کے لئے بے معنی چ��یزیں ہیں ان کو خود اپنے تجربہ سے جاننا چاہیے کہ قید اورتشدد یی ترین اصولوں کے ہتھیاروں سے مقابلہ کرت�اہے۔ ان ک�ویہ ج�ان لین�ا چ�اہیے جوپہاڑی وعظ کے اعلکہ شہیدوں کا خو ن کلیسیا کا بیج ہے اورمسیحی کلیسیا کو پودا اسی خون سے پرورش پاتاہے۔ حقیقت ت���ویہ ہےکہ گان���دھی جی قی���در وتش���دد کی دھمکی���اں اس واس���طے دی���تے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مسیحیت ہندودھرم پر اورہندوستان پر غالب ہ��وکر رہیگی۔ کی��ونکہ ک��وئیاردہ چ��یز س��ے جوخ��ود ہی دم ت��وڑی رہی ہوخ��ائف وہراس��اں ہ��وکر ش��خص کس��ی بے ج��ان اورنیم م��آاتی ہے۔ دھمکیاں نہیں دیتا۔مہاتما جی جانتے ہیں کہ اگرچہ مسیحیت اس ملک میں کمزور نظر لیکن بے جان اوربے حس نہیں ہے۔ اس میں مسیح اپنا دم پھونک ک��ر زن��دہ کرس��کتاہے۔ اورکریگ��ا

اورمسیح ہندوستان کا واحد تاجدار اورحکمران ہوکر رہیگا۔۲۳

ہم حیران ہیں کہ ہر شراب کش کا رخانہ کو شراب کے اشتہارات دینے کا ح�ق حاص�للم قات��ل ک��ا ک��ام دی��تی ہے۔ ہ��ر ہے ۔ حالانکہ شراب خانہ خراب ہندوستانی قوم کے حق میں ہیں۔سآازاد نہ لب اخلاق تماش�وں کے اش�تہارات تماشہ گاہ اورسینما والوں کو یہ ح�ق حاص�ل ہے کہ مح�ز دیں اوریوں قوم کے اخلاق کو تباہ ک�ریں۔ لیکن مس�یحی کلیس�یا ک�ویہ ح�ق نہیں دی��ا جاس�کتا کہ

ااخوت ومس��اوات کے اص��ول ق��ائم ہ��وں اورخ��دا کی اب��وت انجیل کا پرچار کرے تاکہ ہندوستان میں ااصول ہندوستان کی بکھری قوم کا شیرازہ بندی کریں۔ ااخوت ومساوات کے اورانسانی

لز عمل کو دیکھیں آاپ ہی اپنے ذرا طرہم جوکچھ عرض کرینگے توشکایت ہوگی

اا روکا گیا تو یہ ظاہر ہے کہ وہ اپ��نے خداون��د اور اگرمسیحیوں کو اشاعت وتبلیغ سے قانون منجئی کے حکم کی اطاعت کرنا اورلوگوں کو نجات کی خوشخبری سننا اپن��افرض اولین س��مجھاامن طریقوں سے ایسے ناجائز قانون کی خلاف ورزی کریں گے ۔ ستیا گارہ کا ہتھیار مسٹر کر پر گاندھی ، ہندوستان اور ہندوستانیوں کے لئے نیاہے ۔ لیکن مسیحیوں کے ل��ئے اورکلیس��یا کیل��ئے وہآازمایا ہوا ہتھیار ہے۔خداوند مسیح نے سب سے پہلے اس ہتھیار کو استعمال کی��ا۔ دوہزار سال سے

آاپ نے اپنے حواری پطرس کو فرمایا: جب " اپنی تلوار کو میان میں کر۔ جوتلوار کھینچتے ہیں وہ تلوار سے ہلاک کر دئیے ج��ائیں گے ۔ کیا تونہیں جانتا کہ میں اپنے باپ س��ے منت کرس��کتاہوں اور وہ فرش��توں کی بہ��تر ہ��زار س��ے

زیادہ فو ج ابھی موجود کردیگا"۔ منج��ئی ع��المین نے ت��رکی بہ ت��رکی ج��واب دئ��یے بغ��یر ص��لیب کی راہ اختی��ار کی۔ یہیآاپ کو ع��دالت میں س��ردار حربہ خداوند کے رسول مقدس پطرس اورسولوں نے استعمال کیا۔ جب

کاہن نے کہا: "ہم نے تم کوس��خت تاکی��د کی تھی کہ یس��وع کے ن��ام کی تعلیم نہ دین��ا۔ مگ��ر تم نے

تمام یروشلیم میں یہ تعلیم پھیلادی ہے،اس پر سردار کاہن کوجواب دیا گیاکہ:

آادمیوں کے حکم کی نس��بت خ��دا ک��احکم مانن��ا زی�ادہ ف��رض ہے۔ خ��دا نے یس�وع ک��و " مالک اور منجئی ٹھہرایا تاکہ لوگوں کو توبہ کی توفیق اورگن��اہوں کی مع��افی بخش��ے اورہم ان ب��اتوں

کے گواہ ہیں"۔

Page 94: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

اس پر سردار کاہنوں نے ان کو پٹوایا، لیکن وہ ہر روز اس بات کی خوشخبری دینے سےآائے")اعم��ال لر۵کہ یس��وع ہی مس��یح ہے ب��از نہ ب��اب( ہندوس��تانی مس��یحی انجی��ل جلی��ل کے دس��تو

حیات کو تسلیم کرکے اپنے منجئی کا پیغام تم�ام خل�ق اللہ ک��و پہنچ��انے س��ے کبھی ب��از نہیں رہ سکتے۔کیونکہ یہ ایک ایسی بشارت کا پیغام ہے جوہر زمانہ اورہر مل��ک کے ل��ئے خوش��ی کی خ��بر ہے۔ بالخص��وص ہم��ارے وطن ہندوس��تان ک��واس کی اش��د ض��رورت ہے ت��اکہ ہم��ارے مل��ک کیلہ زندگی کی کایاپلٹ جائے۔اورہم��ارے مل��ک وق��وم کی ح��الت میں انقلاب برپ��ا ہوج��ائے اور وہ چ��ا ذلت سے نکل کر روح�انیت کے اوج پ�ر پہنچ ج�اؤ مرح�وم لارڈ م�ارلے ای�ک ملح�د ش�خص تھ�ا۔

لیکن اس نے کہاکہ: " اگ��ر میں فی الحقیقت اس ب��ات ک��ا قائ��ل ہوت��اکہ یس��وع مس��یح نے م��یری نج��ات کی خاطر اپنی جان دی ہے تومیری زبان کبھی کسی دوسری بات کا تذکرہ ہی نہیں ک��رتی اورم��یرا قلم

کسی دوسرے مضمون پر کبھی ایک سطر بھی نہ لکھتا"۔ آاگ س�ے یہی محبت اور غ��یرت کی جب ایک ملحد کا یہ حال ہے توایک مسیحی جوال جل رہا ہواپنے کرڑوں ہموطنوں کوجوبغیر مسیح کی نج��ات اوربائب��ل کے علم کے اپ�نی زن��دگی کے

دن کاٹ رہے ہیں۔ کس طرح سردمہری سے دیکھ سکتاہے؟خسرو اورعشق بازی کم زہندوزن مباشآاں برائے مردہ سوزدزندہ جان خویش را ک

جرمن فلاسفر ٹروٹیش نے کیا خوب کہا ہے کہ: "اگ��ر ایم��ان میں تبلی��غ واش��اعت یاتوس��یع کی ج��رات نہیں ت��ووہ " ایم��ان" کہلانے ک��ا حقدار نہیں ہوسکتا۔ ایمان کے اندر ایک ایسا جبرپاای�ا جات��اہے جوایمان��دار ک��واس ب�ات پ��ر مجب��ور کرتاہے۔ کہ وہ اپنے ایمان کی خصوصیات دوسروں تک پہنچائے۔اگرہم رواداری کی حد ک��و ق��ائم نہیں ک�رتے ت�ورواداری ک�ا ص��حیح مفہ��وم نہیں ج�انتے اورالح��اد کے کن��ارے ج��اپہنچتے ہیں۔۔۔۔۔

سچ پوچھو تورواداری موجودہ زمانہ کی بیماری ہے اورایما ن کی کمزوری اور لاچ��اری ک��ا دوس��رانام15ہے

ااس ہندوستان کی کلیسیا ہرگز اس قسم کی رواداری کواپنا دستور العمل نہیں بناسکتی۔ اروح کوپہنچان�ا اپن�ا ف�رض ااس نجات بخش پیغام ہ�رذی کا خداوند زندہ غالب اورفاتح ہے۔ لہذا وہ آاخرت��ک اس ف��رض کوخ��دا کے فض��ل س��ے ادا کرن��ا م��وجب لز اولین س��مجھتی ہے اوراس ک��ا ہرفردرو

لت دارین خیال کرتا رہےگا۔ سعاد

The writer wishes to acknowledge his indebtedness to the following authors, books

and periodicals in the preparation of this work:

1. Andrews, C.F. Mahatma Gandhi’s Ideas.2. Badley Bishop, the Solitary Thorne.3. Bhagwat Gita, Tr. Mrs. Besant.4. Cash, Missionary Church.5. Cave, Hinduism and Christianity.6. Das Gupta, History of Indian Philosophy.7. Edward’s India’s Challenge to Christian Missions.8. Frazer, Sir J.G.The Golden Bough.9. The Guardian, Madras.10. Gandhi, M.K.Story of my Experiments with Truth.11. The Harijan,ed. By M.K.Ghandhi.12. Hukely, J.S.Essays of Biologist.13. The Indian Social Reformer, Bombay.14. Iqbal, Sir Muhammad.

15 Troeltsch, Quoted by Cave p.31

Page 95: Are All World Religions The Same? - Muhammadanismmuhammadanism.org/Urdu/book/allama_ullah/documents/worl… · Web viewرام کرشن وجد میں آگے اوربرہما کے ساتھ

15. Jawaharlal Nehru, Autobiography.16. Kraemer, Christian Message in a Non-Christian World.17. Lecky, History of European Morals.18. Mirror of Indian Philosophy.19. Mahatma Gandhi by Gray and Parekh.20. Mozamdar, Pramahama Rama Krishan.21. Morely, On Compromise.22. Mufti Ghulam Rasul’s Version of Bhagwat Gita.23. Macnicol Nicole.24. Otto Idea of the Holy.25. Paton, William.26. Polak Mr. Gandhi the Man.27. The Quran.28. Radha Krishnan Sir. S.Philosphy of Rabindra Nath Tagore.29. Radha Krishnan Sir’s. Hindu View of Life.30. Radha Krishnan Sir’s. Idealist View of Life.31. Roy. Raja Ram Mohan Works.32. Rethinking Missions, Appraisal Commission’s Report.33. Satyarath Parkash,Tr. By Radha Kishen Mehta.34. Sorely Moral Values and the Idea of God.35. The Student World.36. The Student Outlook.37. Similarity of All Religions.38. Tagore, Sir Rabindranath, Letters to a Friend.39. Tagore, Sir Rabindarnath, Sadhan.40. Tagore, Sir Rabindarantth, Personality.41. Taylor, the Faith of a Moralist.42. Temple, William-Archbishop of York.43. Vivekanand Swami Works.44. World’s Parliament of Religions, 1893.45. World Mission of Christianity.

BARAKAT ULLAH. C.M.S

PATTOKI, DIST, LAHOREFEB.28TH 1941