charaagh e raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

212
المیزان یاِ اچا چاہ

Upload: abdur-rehman

Post on 28-Nov-2015

358 views

Category:

Documents


73 download

DESCRIPTION

A book ny Sheikh Fethullah gulen.

TRANSCRIPT

Page 2: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

مقدمہ

انہی معنوں کو جیمز ایلن“ سب سے دچاز عمچ سب سے زیادہ سو نے واال ہوتا ہے۔”کے مطابق (BAILEY )بیلی JAMES ALLEN)) سوچ کی کلی کے کھلنے کا نام ہے اوچ لذت یا چنج و الم اسی کے ‘حچکت ”:یوں بیان کچتا ہے

نے فچمایا ہے ملسو هيلع هللا ىلصہماچے پیغمبچ“ پھل ہیں ۔ یوں انسان اپنے ہی افعال کے تلخ اوچ میٹھے پھلوں پچ زندہ چہتا ہے۔

کہ ایک گھنٹے کا تفکچ سالہا سال کی نفلی عبادت سے بہتچ ہے سوچ کی اہمیت کے نقطہ نظچ سے اس فچمان کی اہمیت بالکل ہی جداگانہ ہے۔

میں سو تا ہوں اس لیے میں ”کا یہ کہنا کہ (DESCARTES (سوچ ایک مضطچب دماا کی عزیز اوالد ہے۔ڈیکاچٹایک ایسا ٹکال ہے جس کے مطابق زندگی کا ہدف ہی انسان کے زندہ چہنے کی حکمت اوچ سبب ہے۔ اگچ “ ہوں

کوئی خیال ہم سے پہلے کسی اوچ کے ذہن میں آ کا ہو تو وہ ہماچی سوچ کی چاہ میں چکاوٹ نہیں بنتا۔ بالکل اسی طچح ہماچی سوچ بھی کسی اوچ کے ذہن میں آنے والی اسی طچح کی سوچ کے داخلے کی چاہ میں حائل نہیں ہوتی۔ لیکن ہم میں سے کوئی شخص بھی ایک ہی خیال کو ہو بہو کسی دوسچے شخص کے اسلوب میں بیان نہیں کچ سکتا۔ اسلوب ایک ایسا طچز بیان ہے جو ہچ شخص کی اپنی ذات سے منسلک ہوتا ہے۔یعنی ہچ انسان کا اسلوب دوسچوں کے اسلوب سے مختلف ہوتا ہے۔اگچ ایک اسلوب کسی دوسچے شخص کی سوچ کو بھی متاثچ کچے اوچ دو افچاد کے

پھچ بھی ان میں اس نقطہ نظچ سے ک ھ نہ ک ھ اختالف ضچوچ پایا ‘ خیاالت بظاہچ ایک جیسے دکھائی دیتے ہوں جائے گا۔

ہستی مختلف چازوں کو خود بخود ”سو نا ایک صالحیت ہے جبکہ کسی خیال کو ایک خاص شکل دینا مہاچت ہے۔ہماچے سامنے نہیں ال چکھتی۔یہ چاز اس وقت ہماچے سامنے آتے ہیں جب ہم سوچ کی چاہوں سے گزچ کے ہوتے

کی عالمگیچ موزونیت کی “ علت۔تاثیچ”انسان سوچ کے قوانین کو بھی سوچ ہی کے ذچیعے منکشف کچتا ہے۔“ ہیں ۔ عمدہ تچین شکل بھی صچف سوچ ہی میں موجود ہے۔

اگچ تفکچ کی خلوت گاہ میں خاموش لیکن نہایت مصچوف کاچکچدگی کی پیدا کچدہ تھکان کے بعد سوکھی ہوئی عقل اوچ منطق الہام کی چاہ بند نہ کچیں اوچ نہ ہی مخیلہ کے پچ نکلنے کا چاستہ چوکی دوسچی طچف اگچ الہام اوچ مخیلہ بھی حقیقت پسندانہ عقل اوچ منطق کی ھلنی میں سے گزچنے سے انکاچ نہ کچیں تو سجھ لیجیئے کہ بس اس مباچک

آگ پکڑ لی ہے۔ اس قسم کے خیاالت ساچی انسانیت کے لیے ایک ایسا اثاثہ ہیں ‘ جسے سوچ کہتے ہیں ‘ نگاچی نے جو کبھی کم نہیں ہوتا۔

دل و دماا ‘ شعوچ کا کلمئہ طیبہ کی حالت اپنا نا‘ ادچاک کا ایک سپچنگ کی طچح تیزی سے بلندی کی طچف جانا‘ سوچ‘ بوسہئ تلقین‘ خوشئہ تبلیغ‘ تجچبے کی اٹلس‘ چہنمائی اوچ ہدایت کی قندیل‘ کی بچکت“ مساجد کلیم‘”کا باہمی تعاون

۔۔۔یہ ہے ان پچ نوچ مندچجات کا خاکہ ‘ انسانی مشن کی ابجد‘ آئیڈیل کی ٹیک‘ موثچ علم‘ چازوں کا حوض‘ گلدستہءالہام جو آپ کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی اس کتاب کے وسیلے سے آپ کو پیش کیا جا چہا ہے۔

نام کی یہ کتاب ان احساسات اوچ خیاالت کے “ المیزان یا شمع چاہ” ہماچاداچالشاعت اپنے معزز قاچئین کی خدمت میں ساتھ پیش کچنے میں فخچ محسوس کچتا ہے کہ وہ اسے سمجھنے کی جدوجہد کو اوچ اس کتاب کو اپنا ہم سفچ بنائے چکھیں گے۔

Page 3: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ہستی کے اس پاچ کا سفچ

!اے تمام ہستیوں سے عظیم تچ ہللا

تشہیچ کے لیے نمائش میں تیچی طچف سے ہماچی چاہ پچ لگائی گئی اشیاءاوچ حوادث جن کا مشاہدہ اوچ جنہیں تو نے بالکل طبع زاد اوچ دلکش فن پاچوں کی ‘ کچنے کے لیے تو نے ہمیں دعوت دی ہےتیچی فنکاچی کے ان جمالیاتی فن پاچوں کو ہم نے دیکھا ‘ طچح بڑی احتیاط سے لپیٹ چکھا تھا

سچ کچا دینے والی تصاویچ میں سے سب سے ‘ ہے۔اوچ پھچ ہم نے ان آنکھیں ندھیا دینے والی اوچ آپس میں نہایت متناسب اشیاءاوچ حوادث کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ جو ‘ موزوں تچین‘ زیادہ چوشن

تیچے پوشیدہ جمال کی تجلیوں کے طوچ پچ ہزاچوں چنگوں کو جنبش میں التی ہیں اوچ جنہیں تو نے اپنے فن کاچوں کے مجموعے یعنی قدچت کے سینے میں ایک مقام عطا کچ چکھاہے۔ہم تیچے قلم سے

اوچ اس قلم سے تیچی تحچیچ کچ کے ظاہچ کی گئی کتاب کے آہنگ میں بھی تجھی ‘ نکلتی آواز میں تجھی کو محسوس کچ چہے ہیں ۔ اسی کے وسیلے سے ہماچی چوحوں کو پچ لگ ‘کو دیکھ چہے ہیں

گئے ہیں اوچ اڑتے ہوئے ہماچی نظچیں تیچے اسمائے حسنی کی چوشنی میں کھلنے والے سوچاخوں میں سے دکھائی دینے والے تمام نظاموں اوچ آہنگوں کے زیچ مشاہدہ تمام چنگوں اوچ صوچتوں کی

ان آوازوں سے پیدا ہونے والے اس سچ شمے ‘ ہچ طچف سنی جانے والی آوازوں اوچ نغموں میں میں اٹک گئی ہیں جہاں سے تمام کوچس اوچ سمفونیاں نکلتی ہیں ۔ اوچ ہماچے دل ان بلندوباال عالموں کے اسچاچ میں گم ہو کے ہیں جو ہچ شے کا سچ شمہ ہیں ۔۔۔

ہماچے دل اوچ ایمان کی آنکھ کے سامنے کھلنے والی ان الگ الگ کھڑکیوں کے اس پاچ کی دنیا میں جس کا بیج ہماچے دلوں میں ‘ غوطہ زن ہو کچ ہم نے اس بات کی بھی جچآت کی ہے کہ طوبیءجنت

اسے دچخت کی اصل شکل میں مشاہدہ کچیں ۔۔۔ اوچ پھچ ہم ایک ایسی سیاحت پچ ‘ بویا جا کا ہے‘ بلکہ اس سے بھی بہت دوچتک پھیلی ہوئی بے حد لمبی‘ نکلنے کے قصوچواچ ہوئے جو اگلے جہان

لیکن نہایت دل سپ سیاحت تھی۔اس سیاحت کے دوچان بھی ہم تیچے مقدس بیان کو ‘ بے حد دشواچابدیت کی ‘ تیچے اسماءحسنی اوچ صفات کی معلومات سے بھچی چوشنیوں تلے‘ اپنا چاہبچبناتے ہوئے

طچف جانے والے تمام چاستوں کو منوچ کچنے والے تیچے نوچ کے بال وپچسے مزین ہو کچ انہی چاہوں پچ نکل کھڑے ہوئے۔

تو نے ہمیں وجود عطا کیا اوچ ہماچے دلوں کو وجودیت کی ! ں کے خوبچو خالق اعلی ؤاے خوبچوسطح پچ پہن نے کے بے انتہا ذوق سے نوازا۔ تو ہی ہے جس نے معظم کائناتوں کو ایک کتاب کی طچح ہماچے سامنے کھول کچ پھیال دیاہے۔تو ہی ہے جس نے ان کے بھیدوں سے ہماچے وجدانوں

اوچ تو ہی ہے جس نے ہماچے وجدانوں کو اس ملک کا ساحل بنا دیا ہے جہاں ‘ کو آگاہ کچ دیا ہےاگچ تو ہمیں صفحہءہستی پچ نہ التا تو ہم ! الہوتی بھید موجوں کی شکل میں آ کچ ٹکچاتے ہیں

صفحہءہستی پچ نہیں آ سکتے تھے۔ اگچ تو ان عظیم الشان کائناتوں کو ایک کتاب کی طچح ہماچے سامنے کھول کچ نہ چکھ دیتا اوچ پھچ اپنے عظیم چئیس المچاسم اوچ مداحوں کے ذچیعے اس کی

Page 4: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

تیچے دل کی وسعتوں تک پہن نے سے محچوم ‘ تشچیح نہ کچ دیتا تو ہم تیچی ہستی سے بے خبچجاہلوں کے گچوہ کی طچح بچباد ہو کچ ختم ہو جاتے۔ اگچ تو ہم پچ کچم کچتے ہوئے ہماچے قدوقامت

ں اوچ ہماچے دچمیان اچتباط قائم کچ کے اپنی ؤبیچونی دنیا‘ کے حساب سے اپنے آپ کو بیان نہ کچتا‘ ذات الوھیت کے نام پچ ان اشیاءکو جنہیں ہم جانتے ہیں اوچ انہیں جنہیں ہم آئندہ جان لیں گے

علم کو علم ‘ گچیبانوں سے پکڑ کچ ایک شکل عطا کچ کے ا نہیں صحیح استقامت میں ڈالنے والےا س سب سے پہلے تصدیق کنندہ کو ہماچی چوحوں میں مقام عطا ‘ اوچ معچفت کو معچفت بنانے والے

نہ کچتا توپھچ ہم کہاں سے تجھے اوچ انہیں جان سکتے تھے اوچ تیچی چاہوں کے باچے میں ہماچی حیچت کہاں سے آ سکتی تھی؟۔۔۔۔

ہم تیچے دچ کے غالم ہیں جن کی گچدنوں میں تیچی غالمی کے طوق پڑے ہوئے ہیں ۔ ہماچے وجدانوں پچ منعکس ہوتی چہنے والی مک بھی تیچی ہی ہستی کی ضیاءہے۔ہم جن اشیاءکے مالک

تیچی ہی عطا کی ہوئی ہیں ہم اس بات کا ایک مچتبہ پھچ اعالن کچتے ‘ ہیں وہ سب تیچی ہی دین ہیں ہیں اوچ اعتچاف کچتے ہیں کہ ہم تیچے دچ کے آزادی قبول نہ کچنے والے غالم ہیں اوچاس سلسلے میں ہم اپنے عہدوپیمان کو پھچ سے تازہ کچنے کے خواہشمند ہیں ۔

تو نے جو باتیں ہمیں ! اے ذکچوفکچ کچنے والی چوحوں کو اطمینان بخشنے والے سلطان القلوبجن لوگوں کے دل ہماچے ‘ ان باتوں کو‘سکھائی ہیں اوچ جن کا احساس ہماچی چوحوں کو دالیا ہے

دلوں کی طچح مچدہ اوچ دچبدچ ہو کے ہیں ان تک پہن انے کے لیے ہم تیچی ہستی کے دیداچ کی جانب کھلنے والی کھڑکیوں اوچ تیچے حضوچکی بلندی تک پہن انے والی چاہوں کی تالش اوچ تصدیق کی کوشش میں مصچوف چہے ہیں ۔ اس کام کے لیے ہم جا بجااشیاءاوچ حوادث کی الماچیوں میں داخل ہو کچ اوچ بعض اوقات اپنی خودی کے پاس واپس جا کچ وقوع پذیچ ہونے والے واقعات اوچ اشیاءکی کھوج لگانے کا طچیقہ استعمال کچتے چہے ہیں ۔ہماچی خواہش تھی کہ تیچے ساتھ ہونے والی ہماچی مالقات کے مباچک دن کا حال محتاج دلوں کو سناتے لیکن ہم ان بلند حقیقتوں سے منسلک نہ چہ سکے جن کی تصویچ خالص تچین اوچ صاف ستھچے طچز بیان نے ہم پچ نقش کچ چکھی تھی۔ بنجچ چہ جانے والی ک ھ نا پختہ چوحوں کو جو اس دنیا کی ظاہچی خوبصوچتیوں کے جال

بعض باتیں بتانے کے خیال سے غیچ مادی قدسی دیواچوں کو ہال ہال کچ ‘ میں پھنس کی تھےں مادی اوچ غیچمادی دونوں کی تعچیفوں کے نعچے لگاتے چہے۔ شاید کہ ہم سب سے عیاں حقیقتوں

کہ یوں ہم نے اپنی ہی ‘ کو اصل وفاداچی کے ساتھ پیش نہ کچنے پچجچائم کے مچتکب ہو گئے ہوں اگچ ہم نے غلطی کی ہے تو تیچی طچف آنے کے دوچان اوچ ! ہواوحوس کی خدمت کچ ڈالی ہو گی۔۔۔

دوسچوں کو تیچی چاہ دکھانے کی کوشش میں کی ہے۔اگچ ہم سے کوئی قصوچ سچزد ہوا ہے تو وہ بھی تیچی چاہ پچ لتے ہوئے ہوا ہے۔خطا ہمیشہ خطا اوچ قصوچ بھی ہمیشہ قصوچ ہی ہوتا

ہماچی گچدنوں میں طوق ‘ ہماچی چوحیں جھک کچ دوہچی ہو چہی ہیں ‘ہے۔ہماچے دل کانپ چہے ہیں ہم ہزاچ جان سے تیچے حکم کے منتظچ ہیں ۔ یہ کہتے ہوئے بھی ہمیں معلوم ہے کہ ‘ پڑے ہوئے ہیں

تیچی المتناہی چحمت ہمیشہ تیچا غضب نازل ہونے سے پہلے ہوتی ہے۔تیچے دچ کے غالم جو تیچی نوازشوں کو سمجھ کے ہیں وہ یقیناجانتے ہیں کہ سچزد ہونے واال قصوچ تیچی شان کو زیب دیتا

لیکن بچائے کچم ہمیں یہ کہنے کی اجازت دے دو کہ تیچی عفو تجھے بہت زیب دیتی ‘ ہے یا نہیں !ہے

سلطان کو سلطانی اتنی ہی زیب دیتی ہے جتنی کہ گداگچکوگداگچی”:میچے سلطان‘ جی ہاں “

Page 5: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

اگچ اب تو ہمیں معاف کچ دے تو ہم اپنی اگلے جہان کی سیاحت کی حقیقت کوسینوں کے مخصوص تچین مقام تک محفوظ کچتے ہوئے ایک باچ پھچ نئے سچے سے تیچی اس کائنات کی کتاب کے صفحات کو الٹ پلٹ کچ ایک نئی سیاحت کی غچض سے لمبے لمبے مطالعے میں کھو جائیں ۔ ہم تیچا

اوچ تیچے متعلق نغمے سن سن کچ آپے سے باہچ ہو جانے کے ‘ بیان کچنے والے داللوں کو سننےمحتاج اوچ دچبدچ انسانوں کو بال و پچ عطا کچ ‘ خواہشمند ہیں ۔تیچی محفل تک پہن نے کے مشتاق

۔۔۔!کے انہیں اپنے وصال کے ذچیعے دلشاد کچ دے

Page 6: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

سیاح کے باچے میں

انسان ایک سیاح ہے جبکہ کائناتیں اس کے مطالعے کے لیے پیش کی گئی چنگا چنگ بیش قیمت چنگین کتابیں ہیں ۔انسان اس جہان میں اس مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے کہ وہ ان کتابوں ‘ نمائیشیں ہیں

اوچ انسانیت کی بلندی پچ پہنچ جائے۔یہ چنگین اوچ لطف انگیز سیاحت ہچ انسان ‘ اپنے علم میں اضافہ کچے‘ کو پڑھےکو صچف ایک باچ نصیب ہوتی ہے۔۔۔اوچ میچا خیال ہے کہ جن لوگوں کے احساسات ہوشیاچ اوچ دل وکنے ہوتے ہیں ان کے لیے یہ اکلوتی سیاحت با غات اچم جیسی جنیتں بنانے کے لیے کافی سے زیادہ ہوتی ہے۔اوچ جو لوگ آنکھوں پچ پٹی باندھ کچ زندگی گزاچ دیتے ہیں وہ ہچ شے کے باوجود ایسے ہوتے ہیں جیسے دنیا میں صچف ایک سانس

یعنی ان کا دنیا میں آنا او چ واپس لے جانا بیک وقت ہو جاتا ہے۔‘ لینے کی خاطچ آئے ہوں

جو لوگ قدچت اوچ حیات کے باچے میں زیادہ سے زیادہ گہچی سوچ میں مصچوف چہتے ہیں اوچ ان کی قدچ جاننے آسمانی ‘کی کوشش کچتے چہتے ہیں وہ پھولوں کے بھڑکیلے چنگوں سے لے کچ دچختوں کی لہلہاتی ڈالیوں تک

بجلیوں کی دہال دینے والی گڑ گڑاہٹ سے پچندوں اوچان کے ب وں کے پچ آہنگ نغموں تک ہچ شے میں المتناہی ‘ عشق‘خوبصوچتی کے جلووں کا نظاچہ کچتے ہیں اوچ ہچ آواز میں قدچت المتناہی کے تقدس کا ذکچ سنتے ہیں

کیمیائی تعلق اوچ جانداچوں کے نظم و نسق کے قوانین اوچ حوادث میں الہی تجلیوں کے نشان اوچ ‘ جاذبیت‘ حچاچتاشاچے مشاہدہ کچتے ہیں ۔ چوح جب تک مادی عالم کے پچ شوچ اوچ ہنگامہ خیز ماحول سے دوچ نکل کچ عالم وحدت کی گہچائیوں میں ڈوبی چہتی ہے تب تک خالق اعظم کی کائنات میں ظہوچ پزیچ ہونے والی شانداچتجلیوں کا نظاچہ

اوچ خود کو دائمی ‘ کچتے کچتے آپے سے باہچ ہو ئی چہتی ہے۔اپنے احساسات میں یوں وصال الہی تک پہنچ جانےوجد اوچ استغچاق کی لہچوں کے مدوجزچ کے حوالے کچ دینے کی وجہ سے دچج ذیل حقیقتیں ہللا تعالی کی انسان کو مسحوچ کچ دینے والی دائمی خوبصوچتیوں کے عکس نہیں تو پھچ کیا ہیں ؟

بادلوں کے ساتھ ‘ تنہا جنگالت کا خاموش منظچ‘ سمندچوں کا اپنی گہچائیوں سے بھی نی ے ابلنا اوچ اس کے ولولےگہچی سبز ڈھالنوں کے ن لے کناچوں میں کھیلتے شام کے ‘ قد کا مقابلہ کچنے وال معظم وٹیاں اوچ ان کا باوقاچ انداز

اوچساچی زمین پچ پھیلے ہوئے وہ جادو اثچ ساخت والے باغات سے نکل کچ اچد گچد کے ساچے ماحول کو ‘ سائےگچمیوں کی شاموں کو لنے والی ہواوئں سے کھیلنے والے ننھے ‘ مست کچ دینے والی قسم قسم کی خوشبوئیں

ننھے پھول اوچ پھولوں کے لیے تخت بنا کچ ماحول سے غمزے کچنے والی شبنم۔

جب ہچ آواز اس کا نغمہ اوچ ہچ شے اس کی طچف سے بھیجا : ہماچا ہللا تعالی کو جاننا یا نہ جاننا کیا معنی چکھتا ہےہم اپنی چوح میں بھی اوچ فطچت میں بھی ہللا کی ”:گیا ایک مکتب ہے تو پھچ۔۔۔؟جچمن حکیم اوچ شاعچ گوئٹے کہتا ہے

ہم ہللا کی حقیقت کے باچے میں ! ہستی کو پاتے ہیں ۔ہماچے اس کی حقیقت کو نہ جاننے کی کیا اہمیت ہے؟ جی ہاں کیا جانتے ہیں ؟ ہللا کے باچے میں ہماچے محدود اوچ تنگ خیاالت سے کیا ظاہچ ہوتا ہے؟ اگچ میں اسے اس کے سینکڑوں ناموں اوچ بے شماچ صفات سے یاد کچوں تو پھچ بھی حقیقت سے بہت پی ھے ہوں گا۔کیونکہ جسے ہم

فطچت کے ‘ دنیا کے ھوٹے بڑے تمام حوادث میں ‘ الوھیت کا نام دیتے ہیں وہ اعلی ہستی صچف انسان میں نہیں بیش قیمت اوچ طاقتوچ سینے میں ہچ شکل میں بھی تجلی پذیچ ہے۔ کیا ایک ایسی ذات اکمل کے باچے میں بشچی

ذات “ موجودومجہول”یہ کہتے ہوئے گوئٹے اس “اوصاف کے ذچیعے تعمیچ کیا گیا تخیل کافی اوچ جامع ہو سکتا ہے؟کی طچف توجہ مبذول کچاتا ہے جو اپنی نشانیوں کے ذچیعے اپنے آپ کو ظاہچ کچتی ہے مگچ بذات خوددنیاوی زندگی میں نظچ نہیں آتی۔

Page 7: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

وہ ذات عالی جو ہماچی آنکھو ں سے پنہاں ہے اوچ اپنے آپ کو اپنی نشانیوں کے ذچیعے ہم سے شناسا کچانا اہتی ‘ اس کی تالش میں ہم بھی سیاحوں اوچ سیاحتوں کے باچے میں سو تے ہیں ۔ ہمیشہ اس کی چاہ پچ لتے چہنے‘ ہے

اس تک پہن نے والے دچوازوں کی دہلیزیں

گھساتے گھساتے اس کی کبھی ختم نہ ہونے والی چاہ پچ لتے نظچ آتے ہیں ۔ساچا جہان لتے لتے چک جائے پھچ بھی ہم اس کے گیتوں سے اپنے اچد گچد کے لوگوں میں جوش و خچوش پیدا کچنے پچ تلے ہوئے ہیں ۔ جوش و

کہ ہم سب اوچ ہچ یز کا وجود ہی اس لیے ہے کہ اسے پہ انیں اوچ اسی کی شناخت ‘ خچوش کیوں نہ پیدا کچیں کچوائیں ۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس سے بڑھ کچ کو ئی اوچ بڑا فچض ہماچے ذمے نہیں ہے۔ ہم سب اسی کی ہستی کے سائے ہیں ۔اوچ وہ ذات ہچ یز کا منبع ہے جس کی طچف ہچ شے چجوع کچتی ہے۔

جس نے سوچج کے گچد چوشنی ‘وہ جس کی چضا سے زمین سے پانی نکلتا ہے اوچ فیاضی سے شمے پھوٹتے ہیں یہ اسی کی ذات ‘ کا کمچ بندباندھا ہوا ہے اوچزمین کو بیک وقت ہزاچوں قسم کے لباسوں میں ملبوس کچ چکھا ہے

بادل سمندچوں کی نگاہوں سے اسی ‘ زمین اوچ وسیع و عچیض سمندچوں کا وجود اسی کے دم سے ہے‘ہے۔آسمانوں کا دیداچ کچ چہے ہیں اوچ سمندچ بھی بادلوں کی زبان میں اسی کا ذکچ کچ چہے ہیں ۔زمین کے پیٹ کو ہزاچہا قسم کے دکھوں اوچ مصیبتوں سے اسی نے بھچ چکھا ہے۔مچجانوں کے جگچ کو سچخ خون میں چنگنے واال بھی وہی

دنیائیں بھی اپنی گچدنوں میں اسی آقا کے طوق پہنے اسی کی غالم ہیں ۔‘ہے۔سوچج اسی کے دچ کے غالم ہیں

دنیا کے تمام ممالک اوچ سلطنتیں تیچے پچ م تلے تیچے آگے گچدنیں جھکائے ہوئے ہیں اوچ ساچے ! اے خالق اعظمتجھی سے اپنی ہستی کا سوال کچتی ‘ہچ شے تیچی طچف دوڑتی ہے!سلطان تیچے دچ پچ تیچی غالمی میں حاضچ ہیں ایک خاص ‘ امانت کے طوچ پچآنے والی ہستیاں وجود میں آتی ہیں ! ہے۔اوچ تو تو اپنی ہستی کا خود ہی خالق ہے

آزاد ہے۔ تو ‘ تو ان سب مچحلوں سے بچی ہے!اوچ پھچ بجھ کچ غائب ہو جاتی ہیں ۔مگچ تو‘شکل اختیاچ کچتی ہیں تمام موجودات تیچی وحدت سے مدد کی امید کچتی ہیں ۔! تیچا کوئی ثانی نہیں ہے۔تو ضچوچتمند نہیں ہے‘ واحد ہے

جنت ہے۔ یہ جگہیں تیچے ہی حکم سے اپنے اپنے مقام پچ ‘تیچی وحدت صحچا میں بھٹکتے لوگوں کے لیے کوثچ ہے کھڑی ہیں ۔۔۔قبہءفلک تیچی ہی قدچت اوچ اچادے سے اپنے نظام حیات کی حفاظت کچتا ہے۔اگچ ان تمام یزوں کا انحصاچ تجھ پچ نہ ہوتا تو ستاچے دھاگہ ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طچح کائنات کے سینے میں بکھچ کچ غائب ہو جاتے اوچ کوئی اسے چوک نہ سکتا۔

ہم سب کا خوشیوں سے ہمکناچ ہونا تیچے ہی دم سے ہے۔تجھے جان کچ ہم حقیقی مسچت کے معنی جان گئے ہیں ۔وہ مسچت جو تجھ پچ منحصچ نہیں اوچ تیچی طچف سے عطا نہیں کی جاتی ہم اس سے ب تے ہیں اوچ جس مسچت کے

ہچ وہ شے جو تیچا ذکچ نہیں کچتی ہمیں اس کے !باعث ہم تجھے بھول جائیں اس پچ لعنت بھیجتے ہیں ۔جی ہاں سامنے خاموش چہنا اہیے اوچ ناچاضگی اختیاچ کچنی اہیے اوچ تجھے یاد نہ کچنے والوں کو بھول جانا اہیے۔

اوچ اسی حیثیت سے دنیا اوچ عقبی سے گزچ جانے کا ‘ ہم تیچے دچ کے غالم! اے چحمت المتناہی والے خالق عظیمآج تک کسی کے آگے سچبسجود ہو کچاس کے غالم نہیں بنے۔ آج تک ہم نے اپنا ‘ اچادہ کیئے ہوئے یہ صادق بندے

دکھ دچد تیچے سوا کسی اوچ کے آگے نہیں کھوال۔اگچ کھوال بھی ہو توہزاچ باچ توبہ کچتے ہوئے تیچی دچگاہ میں پناہ لی ہے۔تو اس دچ سے جدا نہ ہونے والوں کے پیمانے اپنی محبت سے بھچ دے اوچ ان لوگوں کے ہچوں پچ مسکچاہٹیں پیدا کچ دے جن کے ہونٹ صدیوں سے تبسم سے ہمکناچ نہیں ہوئے۔

اپنے ال اچ بندوں کے لیے کوئی ! اے اچہ گچ بے اچگان!اے غچیبوں کے مالک! اے مایوس بندوں کی امید و سکون‘ ۔۔۔۔ہم نے اہا تھا کہ تصویچوں کے ذچیعے!ان کی بھوک چفع کچ دے اوچ ان کے دچدوں کا دچماں بن جا‘ پچدہ ہٹا دے

شکلوں کی مدد سے تجھے بیان کچ کے دوسچے لوگوں سے تیچی ان خوبصوچتیوں کا ذکچبھی کچتے جو ہماچے وجدانوں نے محسوس کی ہیں ۔ اگچ یوں ہم ناقابل فہم علوی حقیقتوں کے ساتھ انصاف نہ کچ سکے ہوں تو پھچ تجھ سے معافی کے خواستگاچ ہیں اوچ اہتے ہیں کہ تو ہمیں بخش دے۔

Page 8: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

علم کے باچے میں

ان علوم سے دوچ چہنا ب پنا ہے۔ ان ‘اس ڈچ سے کہ مثبت علوم الحاد کی طچف لے جائیں گےعلوم کو سو فی صد دین اوچ ایمان کی ضد کے طوچ پچ دیکھتے ہوئے ان کی تعلیم سے انکاچ کاوسیلہ بنانا پیشگی فیصلہ صادچ کچنے کے بچابچ ہے اوچ یہ چویہ جہالت ہے۔

* * * * *

علوم ہماچی فالح کی گاچنٹی دے کچ ہمیں جتنا انسانیت کی بلندی تک پہن اتے ہیں ۔اتنے ہی ہماچے لیے مفید ثابت نے خواب دکھاتی چہتی ہے۔ وہ ایک جادو ؤہوتے ہیں ۔اس کے بچعکس جو علم اوچ ٹیکنالوجی عمچ بھچ بنی آدم کو ڈچا

ہے۔ ایک شیطان ہے جو ہماچاچاستہ چوک دیتا ہے۔

* * * * *

موجودہ صدی کی ابتداءمیں علم کو خدائی کا دچجہ دے کچہچ شے کو اس پچ قچبان کچ دینے والے بعض تنگ نظچ مادہ بے دین علم اندھاہوتا ہے اوچ بے علم دین ” اس دوچ کے بین االقوامی علماءکا کہنا ہے کہ‘ پچستوں کے مقابلے میں

یوں ایک صدی پچ محیط ہیبت ناک ہذیان کو نہایت لطیف طچیقے سے نشانہ بنایا گیا ہے۔نہ جانے اگچ “ لنگڑا ہوتا ہےوہ لوگ آج ہماچے زمانے کے ان علماءکو دیکھتے جو اندھے بھی ہیں اوچ لنگڑے بھی تو اس سلسلے میں کیا !کہتے

* * * * *

یہ دعوی کچناجہالت اوچ تعصب کی عالمت ہے کہ مثبت علوم میں ک ھ بھی نہیں ہے ۔ ان علوم کے عالوہ دوسچی ہچ شے کو چد کچ دینا بھی جاہالنہ تعصب ہے۔ ہچ نئے حاصل کچدہ علم کی چوشنی میں اس بات کا احساس ہو جانااوچ

ایک صحیح علمی ذہنیت اوچ سوچ ‘ اسے قبول کچ لینا کہ ابھی ڈھیچوں یزوں کے باچے میں ہم ک ھ بھی نہیں جانتے کی جہت ہے۔

* * * * *

علم اوچٹیکنالوجی انسان کی خدمت میں حاضچ ہیں ۔ان سے ڈچنے کا کوئی سنجیدہ سبب موجود نہیں ہے۔علمیت اوچ العلمی میں اوچ ‘ علم کی چوسے ایک نئی دنیا کی بنیاد چکھنے میں بھی کوئی خطچہ نہیں ہے۔خطچہ صچف جہالت میں

اپنی ذمہ داچی کا بوجھ اٹھانے سے گچیز کچنے میں ہے۔

Page 9: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

علم سے متوقع مقاصد

انسان کی اوالد کے لیے اصل زندگی علم و عچفان سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ نان ہ جو لوگ پڑھنے پڑھانے کو نظچاندازکچ دیتے ہیں وہ اگچ زندہ بھی ہوں تو مچدہ گنے جاتے ہیں ۔ کیونکہ انسان کی تخلیق کا اہم تچین مقصد مشاہدے کے ذچیعے علم حاصل کچنے اوچ جو ک ھ خود سیکھا ہے وہ دوسچوں کو سکھانے پچ مشتمل ہے۔

* * * * *

کسی شخص کے بنائے گئے منصوبے اوچ عین نشانے پچ بیٹھنے والے فیصلوں کی کامیابی کا انحصاچ اس بات پچ ہے کہ تیاچکچدہ منصوبے اوچ فیصلوں کا عقل اوچ منطق کے ساتھ کتنا گہچا چشتہ ہے۔ جہاں تک عقل اوچ منطق کا تعلق ہے تو وہ بھی علم و عچفان کے ساتھ اسی نسبت سے پنپتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ علم و عچفان کی غیچ موجودگی میں عقل غالم ہوتی ہے اوچ منطق گمچاہ کن۔ ایسے میں کیے گئے فیصلے کبھی بھی نشانے پچ نہیں بیٹھتے۔

* * * * *

ایک انسان کی انسانیت اس بات سے عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ خود سیکھ کچ دوسچوں کوکس حد تک سکھاتا اوچ ان کے ذہنوں کو کس حد تک چوشن کچتا ہے۔جو شخص یہ

اوچ وہ شخص جو ‘ نہیں سو تا کہ وہ جو ک ھ نہیں جانتا اسے کوشش کچ کے جان لےاوچ دوسچوں کے لیے خود کو مثال ‘ سیکھے ہوئے علم سے اپنی تعمیچنو نہیں کچتا

وہ صوچت سے انسان دکھائی دے تو دے سیچت کے نقطہ نظچ سے ہمیں ‘ نہیں بناتا !شک میں ڈال دیتا ہے

* * * * *

جن یزوں کے باچے میں ہمیں خود علم حاصل کچیں اوچ پھچ دوسچوں کو سکھائیں وہ انسان کی ماہیت اوچ کائنات کے بھیدوں کے انکشاف کی طچف مائل ہونی اہئیں ۔ وہ علم علم نہیں ہوتاجو خودی کے بھیدوں پچاوچ تخلیق کے باچے میں ابھی تک تاچیکی میں ڈوبے نکات پچ چوشنی نہیں ڈالتا اوچ جو گچہیں ابھی تک کھل نہیں سکیں انہیں کھول نہیں سکتا ۔

Page 10: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

علم و عچفان کے ذچیعے حاصل شدہ عہدے اوچ حصے دوسچے طچیقوں سے حاصل صاخب ‘ کچدہ مقام کے مقابلے میں زیادہ بلندہوتے ہیں اوچ زیادہ دیچپا بھی۔کیونکہ علم

علم کو دنیا کی بچائیوں سے دوچ چکھتا ہے اوچ اسے صاحب فضیلت بناتا ہے۔ اس کے دل میں اپنے لیے دوسچی دنیا میں جس مقام کا تصوچ ہوتا ہے اس مقام سے کہیں بلند مقا م عطا کچ کے اسے خوش کچ دیتا ہے۔

یہ سب ک ھ علم و عچفان ہی کے بل بوتے پچہوتا ہے۔

* * * * *

ہچ ماں باپ کو اہیے کہ پیشتچ اس کے کہ ان کے ب وں کے دماا غیچ ضچوچی یزوں سے بھچ جائیں انہیں ہچ حالت میں علم اوچ عچفان سے بھچ دیں ۔ کیونکہ خالی دل اوچ معچفت سے محچوم چوحیں واقعی ہچ قسم کے بچے خیاالت کے بیج ھڑکنے اوچ ان کی پودوں کی طچح افزائش کے لیے نہایت موزوں کھیتوں کی طچح ہوتی ہیں ۔ان کھیتوں میں جو بیج پہلے ڈال دیا جائے گا کٹائی بھی اسی بیج کی فصل کی ہو گی۔

* * * * *

علم سیکھنے کا مقصد یہ ہے کہ دائچہ علم ابن آدم کا مچشد اوچ چہبچ بنے اوچ علم سے حاصل کچدہ یزوں کے ذچیعے انسانی کماالت کی جانب لے جانے والی چاہیں منوچہوں ۔ نا ہ وہ علوم جو چوح کے حوالے نہیں کئے جاتے وہ اپنے مالک کی پیٹھ کا بوجھ ہوتے ہیں ۔ اس طچح وہ معچفت جو انسان کا چخ علوی اہداف کی طچف نہیں موڑتی وہ محض دل اوچ سوچ کے حمال کا کام کچتی ہے۔

علم علم کو جاننے کا نام ہے۔

علم اپنے آپ کو جاننے کا نام ہے۔

اگچ تو خود کو بھی نہیں جانت

یونس ایمچے)! تو پھچ یہ علم کس قسم کا ہے )

* * * * *

اپنے مالک کے لیے ابدی بچکت کا ایک وسیلہ ‘ وہ علم جس کا ہدف اوچ مقصد معلوم ہواوچ ایک الزوال خزانہ ہے۔ اس خزانے کے مالک جب تک زندہ چہتے ہیں بلکہ اس کے

مچکزاوچ وسیلہءخیچ بنے ‘ ایک میٹھے پانی کے شمے کی طچح ہمیشہ زیاچت ‘ بعد بھیچوحوں کے ‘ چہتے ہیں ۔ اس کے بچعکس دلوں میں شبہات اوچ تچدد پیدا کچنے والے

Page 11: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

‘ وہ جن کے خالی خولی مفچوضوں کا ہدف بھی مجہول ہو‘ ہچوں کو سیاہ کچنے والےوہ سب لوگ یوں ہیں جیسے نا امید بھٹکتی چوحوں کے گچد اڑتے چہنے کے بعد چک جانے واالگندگی کا ڈھیچ یا چوحوں کو پھانسنے کا پھندا۔

* * * * *

علم اوچ سائنس کی کئی شاخیں ہیں ۔ اوچ ہچ شاخ جن مختلف مضامین پچ مشتمل ہوتی ہچ انسان کے لیے مفید ہوتے ہیں لیکن انسان کی عمچ اوچ اس ہے وہ اگچ ہ تقچیباکے وسائل محدود ہونے کے باعث ان سب مضامین کی تعلیم حاصل کچ کے ان سے استفادہ کچنا ممکن نہیں ہے۔ اس اعتباچ سے ہچ شخص کو اہیے کہ وہ ان مضامین کی قدچوقیمت کا حساب لگائے جواس کے اپنے لیے اوچ اس کی قوم کے لیے ضچوچی ہیں

اوچ غیچ ضچوچی مضامین پچ اپنی عمچ خواہ مخواہ ضائع نہ کچے۔‘

* * * * *

سب سے ‘اگچ ایک حقیقی صاحب علم اپنے کام اوچ تحقیقات کو اپنے تجچبے کی بنا پچدچست خبچوں اوچ سب سے کم گمچاہ کن بیانوں کی چوشنی میں تیاچ کچ کے آگے بڑھاتا جائے تو اس کا دل ہچ وقت پچسکون اوچ اس کا کام آسان چہے گا۔ وہ بے اچی چوحیں جو علم کے صحیح سچ شموں سے محچوم ہوتی ہیں وہ لگاتاچ اپنی چاہ اوچ سمت بدلتی

کسی طچح بھی خام خیالی سے ھٹکاچا نہیں پا سکیں گی۔ اس لئے ہچ وقت آہ ‘ چہیں گیکچتے کچتے پچیشانی اوچ بد دلی میں ہی کچاہتی چہیں گی۔‘ و بکا

* * * * *

ہچ شخص کی قدچو قیمت کا انحصاچ اس کی حاصل کچدہ تعلیم پچ اوچ اس بات پچ ہوتا ہے کہ اس کی تعلیم میں کون کون سے مضامین شامل تھے اوچ ان مضامین میں وہ کتنے پانی میں ہے۔ جو شخص اپنے علم کو محض چ ے کے ایک عنصچ کی طچح استعمال کچتا ہے اس کی قدچو قیمت بھی اتنی ہی کم ہوتی ہے۔ اوچ وہ جو اپنے علم کو اشیاءاوچ ) Prism)حوادث کی پہ ان کے لیے ایک منشوچ مثلثی ‘ کے طوچ پچ استعمال کچ کے

اوچ جو ‘مکان کے سب سے زیادہ اندھیچے گوشوں تک اس کی چوشنی پہن اتے ہیں اپنے علم و عچفان کی مدد س پچ لگا کچ مابعدالطبیعات کی حقیقتوں سے چوشناس ہوجاتے ہیں ان کی قدچوقیمت بھی اس کے مطابق زیادہ ہوتی ہے۔

Page 12: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

علم اوچ جہالت

علوم کی کتابوں میں نشان لگا کچ انہیں کھنگالتے چہنا موجود اشیاءکے بیان کو دھچاتے چہنے کے نقطہءنظچ سے تو مفید ہو سکتا ہے مگچجہاں تک الہام اوچ اس سے نتائج اخذ کچنے کا تعلق ہے یہ سلسلہ بالکل مفلوج ہو کچ چہ جاتا ہے۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ ایسا کچنے کے ہزاچوں نقصان ہیں ۔

* * * * *

بالخصوص وہ علم جو وحی پچ منحصچ ہو اوچوحی سے ہی پھال پھوال ہو۔ ایسا ‘علم ہدایت کے لیے ایک اہم چہبچ ہے علم اچض و سماکو پھالنگنے کی حدود تک پہنچ جاتا ہے اوچ اسے خاص وقعت حاصل ہو جاتی ہے۔

* * * * *

موجودہ زمانے میں موجد اوچ محقق تچبیت کے ذچیعے نہیں تیاچ کیئے جاتے۔ اب ایسے لوگ نقل کے ذچیعے تیاچ جو ہچ شے سے ‘ ہوجاتے ہیں ۔ اب ایسی چوحوں کی ضچوچت ہے جو کسی حد تک ہچ یز کو بدلنے کے قابل ہوں

قطاچیں سبھی ک ھ۔ اب ہچ شے کی ‘ دچوازے‘ مکتب‘ بغاوت کچ سکتی ہوں ۔ اب ہچ یز بدل جانے کو ہے۔ کتاب ابتداءتنقید سے کی جانے کی بنیاد چکھی جا کی ہے۔

* * * * *

جہالت بدتچین دوست ہے۔سب سے وفاداچ ہمچاہی علم ہے۔

* * * * *

علم اوچ حلم اکٹھے ہو جائےں تو علم سچ کچا دینے والی گہچائیوں تک جا پہن تا ہے۔

* * * * *

جاہل کو غصہ آئے تو وہ یختا التا ہے۔ عقلمند کو غصہ آ جائے تووہ ان اشیاءکے باچے میں اپنا منصوبہ بناتا ہے۔جو اس کام کے لیے الزم ہوتی ہیں ۔

* * * * *

اوچ عبادت۔ (نچم مزاجی)‘حلم‘ علم:فضیلت کا انحصاچ تین یزوں پچ ہے

* * * * *

اگچ علم عمل کامبنع نہیں بن سکتا تو اس کے مقدچ میں خشک ہو جانا ہی لکھا گیا ہے۔

* * * * *

علمی انکشافات کے لیے چہبچی کچنے کے لیے ایک ضچوچت نہایت خوچد بین پیشچو ہے۔

* * * * *

Page 13: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

سمجھنا اوچ بات ہے اوچ جاننا ک ھ اوچ۔ہزاچ یزوں کو جاننے سے ایک یز کو سمجھنا بہتچ ہے۔

* * * * *

کہنے کی شچمندگی نہ “ میں نہیں جانتا ”کہنے کی عادت ڈالو۔ تا کہ تمہیں کبھی بھی“ میں نہیں جانتا” اپنے آپ کو !اٹھانی پڑے۔۔۔۔

* * * * *

مختلف قسم کے مقابلوں کی طچح اگچ غچبت کا بھی مقابلہ کچایا جا سکتا تو جہالت اس مقابلے میں ضچوچ بادشاہ بن جاتی۔

Page 14: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

سوچ کا احتچام

ہچ بات پچ اعتچاض کچنا ایک تخچیبی حملہ ہے۔اگچ انسان کوئی یز پسند ‘ہچ شے پچ تنقید کچنانہیں کچتا تو اسے اہیے کہ اس یزسے بہتچ کوئی یز بنانے کی کوشش کچے کیونکہ گچانے سے کھنڈچات بنتے ہیں اوچ بنانے سے آبادیاں وجود میں آتی ہیں ۔

* * * * *

علی االعالن غصے اوچ تندی کی نسبت خفیہ دشمنی اوچ وچی وچی کے غصے سے زیادہ ڈچنا اہیے۔ دوست اگچ منہ پچ کوئی زیادتی کچتے بھی ہوں تو پیٹھ پی ھے ہمیشہ ایک محافظ فچشتے کا کچداچ ادا کچتے ہیں ۔جہاں تک دشمنوں کا تعلق ہے تووہ نچمی سے جال ب ھاتے ہیں اوچ بالکل ایک مکڑی کی طچح ہی جال میں پھنسے ہوئے شکاچ کو پیستے وقت اپنی سختی کا اظہاچ کچتے ہیں ۔

* * * * *

اوچ آپ ان ! میچی جان قچبان ہو ایسے شخص پچ“ !فالں شخص ہوا میں سے بھی نمی اڑا لیتا ہے” کہاوت ہے کہ !لوگوں کے باچے میں کیا کہیں گے جو باچش میں کھڑے ہو کچ بھی اپنے آپ کو گیال نہیں ہونے دیتے۔۔۔۔

* * * * *

یہاں تک کہ جن افکاچ سے آپ اتفاق نہیں کچتے ان کو بھی فوچا چد ! محفل میں کہی جانے والی ہچ بات کی قدچ کچو !مت کچو۔ یہ سو و کہ ممکن ہے وہ افکاچ کسی اوچ مناسبت سے کہے گئے ہوں ۔لہذا آخچ تک صبچ کچکے سنتے چہو

* * * * *

تجچبہ عقل کا استاد اوچ سوچ کا چہبچہے۔

Page 15: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

دین

ابن آدم کو پیدائش سے اب تک حقیقی امن دین کی خوشگواچ فضاءمیں ہی مال ہے اوچ وہ محض دین کے بل بوتے پچ ہی خوش چہ سکا ہے۔جہاں دین نہ ہو وہاں بلند اخالق اوچ فضیلت کے متعلق بحث کچنا ممکن نہیں ہوتا۔اسی طچح خوشی کے باچے میں بات کچنا بھی خاصہ مشکل ہو جاتا ہے۔کیونکہ اخالق اوچ فضیلت کا سچ شمہ ضمیچ ہے۔ اوچضمیچ پچ حکم النے واال واحد عنصچ دین ہے جو ہللا اوچ انسان کے دچمیان چابطے پچ مشتمل ہے۔

* * * * *

دین ایک بے حد فیض پہن انے واال نہایت بابچکت مکتب ہے جو عمدہ عادتوں اوچ خصلتوں کے نام انسانوں (یعنی تمام)پچ کھوال گیا ہے۔ اس بلند پایہ مکتب کے طلباءسات سے ستچ سال کی عمچ کے

حفاظت اوچ ‘ پچ مشتمل ہیں ۔اس مکتب سے منسلک ہچ شخص اس انتساب کے باعث جلد یا بدیچ امناطمینان پا لیتا ہے۔ اس مکتب سے باہچ چہنے والے لوگ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی اصلیت سمیت ہچ شے کھو بیٹھتے ہیں ۔

* * * * *

الہی اصولوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو انسانوں کو ان کی آزادانہ چضامندی سے نیکیوں کی ‘ دینطچف جانے کی چغبت دالتا ہے۔انسان ہچ وقت دین کے اصولوں میں وہ ساچے بنیادی عناصچ پا سکتا ہے جو اس کی مادی اوچ معنوی تچقی کے لیے اوچاسی وسیلے سے اس کی دنیاوی اوچ اخچوی فالح کے لیے ضچوچی ہوتے ہیں ۔

* * * * *

اس کی چاہ میں حچکت کچتے کچتے اپنی چوح ‘ دین کا مطلب ہے ہللا کواوچ اس کی وحد ت کو جاننادوسچے لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات اس طچیقے سے سنواچنا کہ ‘ کی پاکیزگی کی حد تک پہنچ جانا

یہاں تک کہ اسی کے نام پچ اپنے دل میں ساچی ‘ وہ ہللا کے نام پچ اوچ اسی کے احکام پچ مبنی ہوں مخلوقات کے لیے گہچی دل سپی اوچ محبت کا احساس پیدا کچنا۔

* * * * *

وطن اوچ قوم جیسے بلند مفہوموں سے ‘ دین کو قبول نہ کچنے والے لوگ وقت کے ساتھ عزت نفس بھی نازیبا سلوک کچنے لگ جاتے ہیں ۔

* * * * *

Page 16: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

بداخالقی ایک تاچیک گندگی ہے جو تقچیبا ساچی کی ساچی الدینی کے سچ شموں سے پھوٹ کچ نکلتی ہے۔ ہچ طچح کے جھگڑے فساد اوچ القانونیت بھی الدینی کی وادیوں میں اگنے والی ایک قسم کی مکچوہ زقوم ہیں ۔

* * * * *

اپنی زندگی کو دین کی دشمنی کے لیے وقف کچ دینے والے ایک طچح کے منکچ لوگوں کے لیے کیا یہ الزم نہ تھا کہ وہ الدینیت کے اگچ کوئی میوے ہیں تو ان کی مدد سے کم از کم یہ ثابت کچ سکتے کہ ال دینی کس کام آتی ہے؟

* * * * *

ں کی طچح ہیں ۔ دین انسان کو صحیح چاہوں پچ التا ہے ؤدین اوچسائنس ایک ہی حقیقت کے دوپہلواگچ سائینس کا مقصد اوچ ‘اوچ اسے خوش کن نتیجوں سے ہمکناچ کچاتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں

صحیح استعمال ٹھیک طچح سمجھ لیا جائے تو وہ ایک مشعل کی طچح انہی چاہوں پچ اوچ اپنے دائچہ عمل کے اندچ انسان کے آگے آگے چوشنی بکھیچتی ہے۔

* * * * *

تمام خوبصوچت پھول دین ہی کے باغوں اوچ باغی وں میں اگتے ہیں ۔ تو گویا دین کے اصولوں پچ ! اولیاءاوچ صوفیائے کچام کی طچح م م مکتے لوگ دین ہی کے پھل ہیں ۔۔۔‘ لنے والے انبیائ

منکچ لوگ گچ ہ جان بوجھ کچ ان پھلوں کو نظچانداز کچدیتے ہیں پھچ بھی ان کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ انہیں کتابوں کے صفحات سے اوچ انسانوں کے سینوں سے مٹا سکیں ۔

* * * * *

انسانوں کے دچمیان پیغمبچوں کی حیثیت پہاڑوں جیسی ہوتی ہے۔جس طچح پہاڑ زمین کے استقچاچ پیغمبچ بھی انسانوں کے ‘ اوچ ہوا کی صفائی کویقینی بنا کچ حفظ و امان کے عنصچ کا کام کچتے ہیں

ذکچ (یعنی پیغمبچوں اوچ پہاڑوں کا)دچمیان یہی کام سچانجام دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کاحضچت دمحم ‘ حضچت موسی اوچ طوچ‘ جگہ جگہ ایک ساتھ آیا ہے۔ مثال حضچت نوح اوچ جودی

اس معمے پچ سے بھید کا پچدہ اٹھانے کے لئے ایک اشاچہ ہیں ۔‘ اوچحچا

* * * * *

عقل سلیم اوچ سائینس پچ مبنی ہے اس لحاظ سے بھی کسی دینی ‘ دےن ونکہ صحت مند خےاالتمسئلے پچ تنقید کچنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں چہتی۔ جو لو گ دین کو جان بوجھ کچ نظچ انداز

یاسائینس کے باچے میں ان ‘ کچدیتے ہیں یا توان کی سوچ کے سسٹم میں کوئی خچابی ہوتی ہےیا پھچ ان کا ساچا حساب کتاب ہی نا کافی ہوتا ہے۔‘کادچاک صحیح نہیں ہوتا

* * * * *

مدنیت کے حقیقی اصولوں پچ مشتمل ایک بابچکت سچ شمہ ہے ۔ اس کی بچکت سے انسان قلبی ‘ دیناوچ جذباتی دنیامیں بلند مقام حاصل کچ لیتا ہے۔ اس کا دماا ما بعدالطبیعات عالموں میں پہنچ جاتا

Page 17: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

اوچ ‘ عمدگیوں ‘ اوچ وہ ایک ایسے افق تک چسائی پا لیتا ہے۔جہاں سے وہ تمام نیکیوں ‘ ہے فضیلتوں کے حقیقی شمے سے جی بھچ کچ اپنی پیاس بجھا سکتا ہے۔

اگچ فضیلت کی تالش ہو تواسے دین میں ہی تالش کچنا اہیے۔کسی ال دین کا صاحب فضیلت ہونا او چکسی حقیقی صاحب دین کا بے فضیلت ہوناایسے واقعات میں سے ہیں جوشاذوناد چ ہی سامنے آتے ہیں ۔

* * * * *

انسانیت کے صحیح معنوں کو سمجھتا ہے اوچ یوں دوسچی جانداچ یزوں ‘ دین کے ذچیعے انسانسے الگ نوعیت کی تخلیق شماچ ہو تا ہے۔کسی بے دین کی نظچ میں انسانوں اوچحیوانوں کے دچمیان کوئی فچق ہی نہیں ہوتا۔

* * * * *

دین ہللا کی چاہ ہے اوچ الدینیت شیطان کا چاستہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ دین اوچ الدینی کی جنگ حضچت آد م کے زمانے سے ہماچے موجودہ زمانے تک لڑی جا چہی ہے اوچ یہ جنگ اسی طچح قیامت تک جاچی چہے گی۔

Page 18: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

قچآن

قچآن مکمل تچین پیغامات اوچ قوانین الہی کا ایک ایسا مجموعہ ہے عقل اوچ جسمانیت کو زیچ ‘ چوح‘ جوبنی آدم کی قدچو قیمت کے تناسب سے اس کے دل

نظچ چکھتے ہوئے اس ذات عالی مچتبہ نے افق انسانیت پچ نازل فچمایا تھا۔

* * * * *

ایک ایسی بے ‘ قچآن جس کے آج تقچیبا ایک ہزاچ ملین پیچوکاچ دنیا میں موجود ہیں واحد کتاب ہے جو ابدی اوچنا قابل تغیچ الہی اصولوں کے ذچیعے پوچی انسانیت ‘ نظیچ

کی چفاح اوچ اس چفاح تک چسائی کا نزدیک تچین اوچ چوشن تچین چاستہ دکھاتی ہے۔

* * * * *

قچآن ایک ایسی کتاب ہے جو کچہءاچض کی تقدیچکی حاکم نہایت عالیشا ن اوچ نوچانی ہزاچہا فلسفی ‘جماعتوں کے لیے ایک سچ شمہ نوچ ہے۔ ان جماعتوں میں الکھوں عالم

اوچ مفکچ بھی شامل ہیں ۔ اوچ اس لحاظ سے قچآن کی سلطنت جیسی اوچ کوئی سلطنت بھی موجود نہیں ہے۔

* * * * *

نزول سے آج تک قچآن کو کیسے کیسے اعتچازات ا وچتنقید کا سامنا کچنا پڑا ہے۔ لیکن اس موضوع پچ قائم کی گئی تمام عدالتوں نے باآلخچقچآن کو بچی قچاچ دیا ہے اوچ اس سلسلے کی تمام لڑائیاں قچآن کی فتح پچ منتج ہوئی ہیں ۔

* * * * *

چوحوں کو چوشنی مہیا کچنے واال ‘ قچآن دلوں میں بلوچ کی طچح مکنے واال ایک نوچچوشنی کا سچ شمہ اوچ سچاسچ حقیقتوں کا مظہچ ہے۔اسے اس کی حقیقی شکل میں صچف وہی صاحب ایمان چوحیں پہ ان اوچ سمجھ سکتی ہیں جو ایک پھول میں کائنات کی تمام خوبصوچتیوں کو محسوس کچنے اوچ ایک

Page 19: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

قطچے میں طوفان کو دیکھنے کی قابلیت چکھتی ہیں ۔

* * * * *

قچآن کا اسلوب بیان ایسا ہے کہ اس کی آیات کو سننے والے عچبی اوچ عجمی اصحاب اس کے مضامین کی خوبصوچتیوں کا ادچاک ‘ بالغت اسے سجدہ کچتے چہے ہیں اوچ

کچنے والے حقیقت شناس ادیب اس سلطان البیان کی حاضچی میں ادب سے جھک کچ دہچے ہو جاتے چہے ہیں ۔

* * * * *

مسلمان ہمیشہ صچف قچآن کی تصدیق کچ کے اوچ اس پچ ایمان ال کچ ہی آپس میں اتحاد پیدا کچ سکے ہیں اوچ اسی طچح آئندہ بھی اس کی تصدیق کچنے او چ اس پچ ایمان النے سے ہی متحد ہو سکیں گے۔جو لوگ قچآن کی تصدیق نہیں کچتے وہ جس طچح مسلمان نہیں ہو سکیں گے اسی طچح یہ بھی ناممکن ہے کہ ان کے دچمیان مستقبل میں کبھی اتحاد پیداہو سکے۔

* * * * *

” تو اس سے یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ“ ایمان ضمیچ کا مسئلہ ہے”جب ہم کہتے ہیں کہ

محض زبان سے ہی نہیں اپنے ضمیچ سے ‘ اوچ قچآن کی‘ کیملسو هيلع هللا ىلصپیغمبچ‘کی‘ میں ہللا ہلالج لج

ان معنوں سے منسلک ہچ قسم کی عبادت اسی صحتمند تصدیق “ ہوں ۔بھی تصدیق کچتا کا اظہاچ کچتی ہے۔

* * * * *

وہ دوچ جس میں جہالت اوچ کفچ کی دچ ندگی کے باعث انسانیت پچیشان اوچ سچگچداں تھی اس وقت اس وحشیانہ ماحول میں ایک نوچ کا طوفا ن اٹھا تھا جس نے ایک ہی ہلے میں ساچی دنیا کو نوچ میں ڈبو دیا تھا۔اس طچح کا سب سے بڑا انقالب ایک ہی مچتبہ آیا تھا اوچ تاچیخ اس کی کوئی اوچ مثال پیش نہیں کچ سکتی۔ اوچ اس انقالب نے قچآن کے وسیلے سے حقیقت کی شکل اختیاچ کی تھی۔ اس کی گواہی دینے کے لیے بس !تاچیخ ہی کافی ہے۔

* * * * *

ہللا ‘ حکمت‘ حق‘ انسان کو حساس تچین موازنے کے ذچیعے انسان کے معنی اوچ ماہیتاس کی صفات اوچ اسمائے حسنی کے باچے میں معلومات مہیا کچنے ‘ تعالی کی ذات

والی کتاب قچآن ہے۔ اس میدان میں قچآن کے مقابلے میں کوئی دوسچی کتاب سامنے

Page 20: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

النا بعید از امکان ہے۔ اگچ تم صوفیائے کچام کی حکمتوں اوچ حق پچست فلسفیوں کے گےؤ توتم بھی یہ بات سمجھ جاؤ فلسفوں پچ نظچ دوڑا !

‘ ناموس‘ خیچ‘متوازن مساوات‘ حقیقی آزادی‘ قچآن ایک واحد کتاب ہے جو حقیقی انصافنا ‘ شچک‘ یہاں تک کہ حیوانوں سمیت ہچ ہستی سے شفقت کا حکم دیتی ہے۔ظلم‘ فضیلتجھوٹ اوچ جھوٹی شہادت سے کھلم کھال منع فچماتی ہے۔‘ سود ‘چشوت ‘جہالت ‘ انصافی

* * * * *

مدعی اوچ ‘ کمانڈچ اوچ سپاہی کو‘بادشاہ اوچ غالم کو‘فقیچ اوچ مظلوم کی حمایت کچنا‘ یتیممدعا علیہ کو ایک ہی کچسی پچ بٹھا کچ باہمی معامالت پچ غوچ کچنا سکھانے والی کتاب بھی محض اوچ محض قچآن ہی ہے۔

* * * * *

قچآن کو فچضی قصے کہانیوں اوچ خچافات کے سچ شمے کے طوچ پچ دکھانا ایک طچح کے بودے ہذیان کے سوا ک ھ بھی نہیں جوآج سے ودہ سو سال پہلے زمانہ جاہلیت کے عچبوں کی طچف سے آج کل کے الدینوں کو وچثہ میں مال تھا۔ حکمت اوچ حقیقی فلسفہ دونوں اس قسم کے ادچاک کا مذاق اڑاتے ہیں ۔

* * * * *

جو لوگ قچآن اوچ اس کے مندچجات پچ باتےں بناتے ہیں کیا ان پچ واجب نہیں تھا کہ وہ امن و امان اوچ حفاظت پائی جاتی ہے اس کے ‘ ہم آہنگی‘ انسان کے اندچ جو نظام‘

ک ھ تو کہتے؟ دچ حقیقت اگچ قچآن سے نا ‘خواہ وقتی طوچ پچ ہی سہی ‘باچے میں بھی اوچ قچآن کی چوشنی سے ‘ واقف تہذیبوں میں پائے جانے والے انتشاچ اوچ بد نظمی کو

محچوم دلوں کو اپنی مصیبتوں اوچ بحچانوں کے باعث شدیدآہ و بکا کچتے دیکھا جائے تو ان کی ضد اوچ عناد کو سمجھنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔

* * * * *

انسانیت کے لئے سب سے زیادہ منظم حیات کا آسان طچیقہ وہ ہے جو قچآن نے بتا دیا ہے۔ نان ہ ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ آج متمدن اقوام نے دنیا کے اچوں کونوں میں پائی جانے والی جن خوبصوچتیوں کو سچاہا ہے اوچ جنہیں یاد کیا جاتاہے ان سب کو صدیوں پہلے قچآن نے پسند کچ کے ان کی سفاچش کی تھی۔ اب بھال اس میں قصوچ ؟!یا قباحت کس کی ہے

* * * * *

ہماچے ہاں ایک زمانے سے ایسے لوگ موجود ہیں جو قچآن کے باچے میں خواہ

Page 21: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

مخواہ شیخی بگھاچتے ہیں اوچ جنہوں نے قچان کے ساتھ سچ کھپانے کو اپنا پیشہ بنا چکھا ہے۔ عام طوچ پچ یہ وہ جاہل لوگ ہیں جو یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ دچ حقیقت ک ھ بھی نہیں جانتے ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ یہ بے اچے جس کتاب کی مخالفت کچتے ہیں انہوں نے آج تک نہ اس کتاب کے باچے میں کوئی تحقیق کی ہے اوچ نہ ہی

جو ‘ ک ھ پڑھا پڑھایا ہے۔ دچاصل ان کے دعووں میں اوچ ان جاہلوں کے دعووں میں مثبت علوم کے خالف اپنی ضد پچ اڑے ہوئے ہیں کوئی خاص فچق بھی تو نہیں ہے۔ مگچ حقیقتوں کو ا ھی طچح جاننے کے لیے عوام کو ابھی ک ھ عچصہ او چانتظاچ کچنا پڑے گا ۔

* * * * *

پچ اوچ جو ملسو هيلع هللا ىلصیقین کیا جاتا ہے کہ جو لوگ قچآن پچ ایمان چکھتے ہیں وہ حضچت دمحم

پچ بھی ایمان چکھتے ہیں ۔ نان ہ قچآن ‘ پچ ایمان چکھتے ہیں وہ ہللا ہلالج لجملسو هيلع هللا ىلصحضچت دمحم

پچ بھی ایمان نہیں التے اوچ جوحضچت ملسو هيلع هللا ىلصپچ ایمان نہ النے والے لوگ حضچت دمحم

کو بھی نہیں مانتے۔ گویا یہ ہیں ایک س ا ‘ پچ ایمان نہیں التے وہ ہللا ہلالج لجملسو هيلع هللا ىلصدمحم

!مسلمان ہونے کی حدود

* * * * *

قچآن کے وسیلے سے انسان ایک ایسے بلند تچین مچتبے تک پہنچ کا ہے جہاں وہ خدا سے خطاب کچ سکتا ہے۔ جس شخص کو اپنے اس قدچ بلند چتبے پچ پہنچ جانے کا شعوچ ہے وہ قچآن کو اپنی زبان میں سنتے ہوئے دچحقیقت اپنے چب کو سن چہا ہوتا

اپنے چب سے کالم کچ چہا ہوتا ہے۔ اوچ اگچ وہ قسم کھائے کہ اس نے اپنے چب کے ‘ہے ساتھ کالم کیا ہے تو اس کی قسم جھوٹی نہیں سمجھی جاتی۔

قچآن کے منوچ ماحول میں انسان اپنی دنیاوی زندگی میں ہی قبچ اوچ بچزخ سے گزچ کچ جہنم کی دہشت سے کانپ اٹھتا ہے اوچ اسے یوں ‘محشچ اوچ پل صچاط کو دیکھ لیتا ہے

محسوس ہوتا ہے جیسے وہ جنتوں کی خوشگواچ ڈھالنوں پچ ل پھچ چہا ہے ۔

جو لوگ مسلمانوں کو قچآن پڑھنے سے اوچ اس کی گہچائیوں میں جانے سے چوکتے ہیں وہ اس طچح ان لوگوں کودین کی چوح اوچ اسالم کے ن وڑ سے دوچ کچ چہے ہوتے ہیں ۔

* * * * *

مجھے یوں لگتا ہے جیسے مستقبل قچیب میں ہی انسان کی تعچیف اوچ حیچت سے بھچی آنکھوں کے دیکھتے ہی دیکھتے جب اوقیانوس قچآن کی جانب بہنے والے

فنون لطیفہ اوچ صنعتوں کے دھاچے اپنے سچ شمہ حقیقی سے ‘ تکنیک‘ مختلف علوم

Page 22: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

فنکاچ ‘ محقق‘جا ملیں گے اوچیوں اس کے ساتھ یکجان ہو جائیں گے تو تمام علمائ اوچصنعتکاچ بھی ایک باچ پھچ اپنے آپ کو اسی اوقیانوس میں پائیں گے۔

* * * * *

کیونکہ ! مستقبل کے دوچ کے قچآن کا دوچ ہونے کو کوئی بڑی بات نہیں سمجھنی اہیےقچآن اس ذات عالی کا کالم ہے جو ماضی کو حال سے اوچ حال کو مستقبل سے مال کچاکٹھا کچکے دیکھتی ہے۔

ملسو هيلع هللا ىلصحضچت دمحم

Page 23: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

انسانیت نے حقیقی تمدن کو حضچت دمحم کے وسیلے سے پہ انا اوچ اپنایا تھا۔ انہیں کی بتائی ہوئی بنیادوں کی تقلیداوچان میں ‘ بعد ازاں اس جہت میں کی جانے والی کوئی کوشش

کئے جانے والے معمولی چدوبدل سے آگے نہیں جا سکی۔اس اعتباچ سے بھی انہیں حقیقی تمدن کا بانی کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔

‘ جومحنت کچنے کو عبادت سمجھتے تھے‘ وہ جو سستی اوچ سست انسانوں کو منہ نہیں لگاتے تھےاپنے پی ھے آنے والوں کو مابعدالحیات کی جھلک دکھاتے ‘ جومحنتی لوگوں کی تعچیف کچتے تھے

وہ ‘تھے اوچ پوچی انسانیت کو ایسے نکات دکھاتے تھے جن سے وہ موازنے کا عنصچ بن سکتے حضچت دمحم ہی تو تھے۔

* * * * *

حضچت دمحم کی ذات وہ ذات تھی جو کفچ اوچ وحشی پن کے خالف شجاعت اوچ بالغت کی تلواچ بن کچ اچوں طچف بلندبانگ اعالن حقیقت کچنے میں اوچ انسانیت کو حقیقی ‘میدان میں نکل آنے میں

زندگی کے چاستے دکھانے میں اپنا ثانی نہیں چکھتی تھی ۔

* * * * *

اوچ وحشی پن کی نا پسندیدہ ہستی گزچی ہے تو وہ‘ کفچ‘ کچہءاچض پچ اگچ کوئی جہالت

تالش ‘ حقیقت کے متالشی اوچ علم و عچفان کے پیاسے دل‘حضچت دمحم ہی تھے۔ خواہ ک ھ بھی ہو کچتے کچتے جلدی یا بدیچ انہیں پا لیں گے اوچپھچ کبھی ان کے نقش قدم سے الگ نہیں ہوں گے۔

* * * * *

ان کی خاطچ لڑی جانے والی ‘ وطن اوچ قوم کا دفاع کچنے اوچ ان پچ نظچ چکھنے والے’ ناموس‘ دینجنگ کو جہاد کا دچجہ دینے والے اوچ ایک غیچ معمولی توازن قائم چکھتے ہوئے تبلیغ کے ذچیعے انسانوں میں یہ پیغام پہن انے والے بھی حضچت دمحم ہی ہیں کہ غالمان دین کے لیے جہاد ایک ایسا فچض ہے جسے ادا کچنا آسان کام نہیں ہے۔

* * * * *

لوگوں کے ضمیچ کو یہ بتانے والے کہ ‘ انسانوں کے لیے حقیقی آزادی کا پہلی باچ اعالن کچنے والےفضیلت اوچ تقوے میں بچتچی ‘ اخالق‘ انسانی حقوق اوچانصاف کے معاملے میں سب انسان بچابچ ہیں

ظالم اوچ ظالمانہ خیاالت کے خالف بآواز بلند حقیقت کا اعالن کچنے کو عبادت کا ‘ تالش کچنے والے دچجہ دینے والے حضچت دمحم تھے۔

* * * * *

Page 24: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

قبچ کو ابدی عالم سعادت کے ‘ موت اوچ انسان کے فانی ہونے کے ہچے پچ پڑے پچدے ہٹانے والےہچ عمچ اوچ ذہن میں خوشیوں کے متالشی دلوں کو ‘ انتظاچ گاہ کے طوچ پچ پیش کچ نے والے

شمہئ خضچ تک پہن ا کچ انہیں اکسیچ الیموت پالنے والے حضچت دمحم ہیں ۔

تصوف

Page 25: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

تصوف وہ مسلک ہے جس کے ذچیعے انسانی ضمیچ کو اسالم کی حقیقت کا احساس دال کچحقیقت کے ادچاک میں اس کی مدد کی جاتی ہے۔ اس اعتباچ سے جو لوگ اپنی موجودہ زندگی کا شعوچ نہیں چکھتے وہ اسالم کا ادچاک نہیں کچ سکیں گے۔ اسی طچح وہ لوگ جن کی دوسچوں کے قصے کہانیوں سے ہی تسلی ہو جاتی ہے وہ بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکیں گے۔

* * * * *

فقچاوچاس کی بے قدچی کا ادچاک کچتے ہوئے اس کی ہستی کی بنیاد تشکیل ‘ عجز‘ نتیجے کے اعتباچ سے انسان کے دینے والے حق تعالی کے وجود سے نکلتی شعاعوں اوچ اس کی صفات کی تجلیوں کے سامنے انسان کے مکمل طوچ پچ پگھل کچ نابود ہو جانے کا دوسچا نام تصوف ہے۔

* * * * *

انسان کی چوح کی وہ کیفیت ہے جس میں وہ پاک صاف ہو جانے کے بعد اس کی ذات سے مل کچ یک جان ‘ تصوف ہو جاتی ہے اوچ زمان ومکان کی تمام حدود کو پاچکچ کے ایک نا معلوم بعد تک جا پہن تی ہے۔ نان ہ تصوف کے

پھچ اپنے چب ‘ وسیلے سے ہچ فچد معچاج نبوی کے دوچان کھولے جانے والے دچوازے سے گزچ کچ آگے جاتا ہےاوچ یوں ایک طچح معچاج کا مظہچبن جاتا ہے۔ بے شک یہ معچاج متعلقہ شخص کی قابلیت اوچ ‘ سے مالقات کچتا ہے

استعداد کے مطابق ہوتا ہے۔

* * * * *

فلسفہ اوچ حکمت انسان کی سوچ کے افق کو وسیع کچتے ہیں اوچ اسے اشیاءاوچ حوادث کو پہ اننے میں مدد دیتے ہیں ۔ جہاں تک تصوف کا تعلق ہے تو یہ ایک نا قابل ادچاک بعد میں خالق اشیاءو حوادث سے انسان کے مالپ کا انتظام کچتا ہے اوچ اسے ہللا کا دوست اوچ ساتھی ہونے کے مچتبے تک پہن اتا ہے۔

* * * * *

سے فیض یاب “ کماالت الہیہ”تصوف ذکچوفکچ کے ذچیعے ال متناہی‘ جیسا کہ اہل طچیقت کے ہاں بھی دیکھا گیا ہےہو کچ انسانی چوح کو منوچ کچنے پچ مشتمل ہے۔یہ انسان کی خودی کو پیمانہ بنا کچ ابدیت پچ ایک طچح کا فچضی خط کھینچ لینے سے شچوع ہوتا ہے اوچ خودی اوچ اسچاچ خودی سے ہاتھ کھینچ کچ ہچ شے کے باچے میں جاننے کے لیے اس ذات سے دچخواست کچنے پچ ختم ہوتا ہے۔

* * * * *

الوھیت کی حقیقت معلوم کچنے کے لیے جہاں فلسفے کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا وہاں تصوف اس موضوع پچ دل کے ں اوچ آنکھ سے تحقیق کچنے کا ایک چاستہ مہیا کچتا ہے۔یہ وہ چاستہ ہے جس سے عقل ننگے سچ اوچ ؤلیے ہاتھ پااپنے خیاالت سمیت مایوسی سے لوٹ آئی تھی۔اس چاہ پچ دل کو ایک فاختہ کی طچح پچ لگ جاتے ہیں ‘ ں ؤننگے پا

کو پہ اننے کی کوشش کچتا ہے۔اس کے بعد حاصل “ مجہول” و“موجود”اوچ وہ اپنے قدچ شناس اصولوں کی بنا پچ تجھے ہم حقیقی طوچ پچ پہ ان ”کچدہ عچفان کے متعلق یہ کہہ کچ اعالن کچ دیتا ہے کہ ماعاچفنک حقا معچ فتک یعنی

“نہ سکے ۔

* * * * *

Page 26: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

تصوف اسالم کی چوح ہے ۔ اس کے بغیچ اسالم کے متعلق سو نا بھی محال ہے۔جہاں تک مختلف طچیقتوں کا تعلق ہے تو انہوں نے اسے اوچ زیادہ منظم بنا دیا ہے۔

Page 27: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ثقافت

ثقافت ایک ایسا سچ شمہ ہے جس کی طچف ہچ قوم اپنے مخصوص خطوط پچتعمیچ و تچقی کچنے اوچ بلندیوں کی طچف بڑھنے کے سلسلے میں باچ باچ چجوع کچتی ہے۔ قوم کی زندگی میں پائے جانے والے آہنگ اوچ قوم کی منتخب کچدہ سمت کے ساتھ ثقافت کے مصدقہ سچ شموں کے گہچے تعلقات ہمیشہ موجود چہے ہیں ۔

* * * * *

صنعت اوچ فن جیسے جذبات سے معچض وجود میں ‘ چوایات‘ تچبیت‘ ثقافت ایک معاشچے کی زبانآتی ہے۔اوچ پھچ جوں جوں یہ زیچ عمل آتی ہے توں توں اس معاشچے کی طچز حیات کی صوچت اختیاچ کچتی جاتی ہے۔اس کے تقچیبا ہچ حصے میں ایک طچح کے بنیادی عناصچ کا مجموعہ موجود ہوتا ہے۔ ان بنیادی عناصچ کو جان بوجھ کچ نظچانداز کچنانابینا پن ہو گا۔ معاشچے کو ان عناصچسے دوچ چکھنے کی کوشش کچنے کا مطلب یہ ہو گا کہ معاشچے کو گمچاہ کچ کے اسے غیچ منظم کیا جا

میں مبتال کیا جا چہا ہے۔ؤ چہا ہے اوچ یوں اسے ذہنی الجھا

* * * * *

کسی حد تک ‘ قوموں کے ایک دوسچے کے ساتھ تھوڑا بہت میل جول چکھنے کی وجہ سے ثقافت تمدن کی طچح ایک معاشچے سے دوسچے معاشچے تک پہنچ سکتی ہے۔لیکن اگچ بیچونی ثقافت کی

جس کے باعث ثقافت میں ‘ دچآمد کے وقت قومی چوح کا آلہءتقطیچ صحیح طوچ پچکام نہیں کچتاتو پھچثقافت اوچ تمدن کے بحچان سے کسی صوچت ب ا ‘ ضچوچی کاٹ ھانٹ اوچ صفائی نہیں ہوتی

نہیں جا سکتا ۔

* * * * *

فضیلت اوچ حاصل کچدہ علوم کی کٹھالی میں ابل ابل کچ پختہ ‘ بلند اخالق‘حقیقی دین‘ حقیقی ثقافتبداخالقی اوچ جہالت حکمچان ہوں وہاں نہ حقیقی ثقافت کے متعلق ‘ہوتی ہے۔ جس ماحول پچ بے دینی

بحث کچنے کا کوئی امکان ہوتا ہے اوچ نہ ہی اس ماحول میں پچوچش پانے والے انسانوں کے لیے اس سچ شمے سے استفادہ کچنا ممکن ہوتا ہے۔

* * * * *

وہ معاشچے جو دوسچی قوموں کی ثقافت اوچ تمدن کے ساتھ ایک طچح کے ازدواج میں آ کچ اپنی ہستی اوچ بقا کے دوام کی کوشش کچتے ہیں وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے وہ دچخت جن کی شاخوں پچ دوسچوں کی ملکیت کے پھل لگا دئیے جائیں ۔ یہ لوگ اپنے آپ کو دھوکا بھی دیتے ہیں اوچ دوسچوں کے مذاق کا نشانہ بھی بنتے ہیں ۔

Page 28: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

ثقافت قوم اوچ جمیعت کی فطچت سے معچض وجود میں آتی اوچ پچوان ڑھتی ہے۔ ایک قوم کی ثقافت ایسے ہی ہوتی ہے جیسے ایک دچخت کے پھل اوچ پھول۔ جو قومیں اپنی ثقافت کو پختگی کی منزل تک نہیں پہن ا سکتیں یا اسے کھو دیتی ہیں وہ اس دچخت کی طچح ہوتی ہیں جسے پھل لگتا

یا لگ کچ جھڑ گیا ہو۔ ایسے دچختوں کے مقدچ میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ آج نہیں تو کل ‘ ہی نہ ہو انہیں کاٹ کچ ایندھن بنا لیا جائے گا۔

ہچ قوم کی زندگی میں ثقافت کا ایک نہایت اہم مقام ہوتا ہے۔ کسی قوم کے ماضی سے ا ھی طچح گندھی ہوئی اوچ اس کی چوح کی جڑوں سے خوب ا ھی طچح بندھی ہوئی ثقافت اس قوم کے زندہ چہنے اوچ تچقی کچنے کی چاہیں کھول دیتی ہے اوچ انہیں چوشن کچ دیتی ہے۔اس کے بچعکس ہچ چوز ثقافت کے باچے میں سوچ اوچ ادچاک کے مختلف اوچ مسلسل پیچ و خم قوم کو کھاتے چہتے ہیں اوچ پھچ اسے دھڑام سے گچا دیتے ہیں ۔

Page 29: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

(آزادی)حچیت

حچیت کا مطلب ہے چوح کے بلند احساسات اوچ خیاالت کے عالوہ کسی قسم کی بندش یا خیچ اوچفضیلت کے عالوہ اوچ کسی قسم کے اصول کا مقید نہ ہونا۔‘ پابندی قبول نہ کچنا

* * * * *

بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بیڑیوں اوچ زنجیچوں میں جکڑے ہونے کے باوجود ہمیشہ اپنے ضمیچ کی آزاد ں میں اڑتے پھچتے ہیں اوچ خواہ ایک پل کے لیے ہی کیوں نہ ہو اپنے آپ کو قید یا اسیچی میں محسوس نہیں ؤفضا

کچتے۔ اوچ کئی دوسچے لوگ بھی ہیں جو محلوں اوچ کاشانوں کے دماا کو کچا دینے والے اوچ آنکھیں ندھیا دینے وا لے جاہ و جالل اوچ دبدبے کے باوجود حچیت کو اس کی ساچی گہچایوں کے ساتھ کسی طچح محسوس نہیں کچتے اوچ نہ اس کا ذائقہ کھ سکتے ہیں ۔

* * * * *

جو لوگ حچیت کو مکمل آزادی سمجھتے ہیں وہ جان بوجھ کچ یا نادانستگی میں انسانی آزادی اوچ حیوانی آزادی کو ایک دوسچے سے خلط ملط کچ دیتے ہیں ۔ حاالنکہ گھٹیا قسم کی نفسانی اوچ جسمانی خواہشات پوچا کچنے کو مادچ پدچ آزاددلوں کی طچف سے حچیت کے زمچے میں شامل کچنا کلی طوچ پچ ایک حیوانی خاصیت ہے۔اس کے مقابلے میں وہ آزادی جو چوح کی چاہ سے چکاوٹیں ہٹا کچ ضمیچ کے جچائت مند بننے کے امکانات پیدا کچتی ہے وہ مکمل طوچ پچ ایک انسانی خاصیت ہے۔

* * * * *

انسان کے ‘ حچیت کی تعچیف یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ یہ غیچ مشچوطیت اوچ الابالی پن کے پاتال تک گچے بغیچ دماا کااپنی مادی اوچ معنوی تچقی کی چاہ میں چکاوٹ بننے والے بندھنوں سے آزاد ہونے کا نام ہے۔

* * * * *

تم حق کے متعلق خیاالت سے مچبوط چہتے ہوئے دوسچوں کو نقصان پہن ائے بغیچ اپنی ” :حچیت انسان کو کہتی ہے “مچضی کے مطابق جو اہو کچ سکتے ہو۔

* * * * *

مقبول حچیت تمدنی حچیت ہوتی ہے۔ اوچ یہ وہ حچیت ہے جو دین اوچ اخالق کی جواہچات سے جڑی ہوئی زنجیچوں سے اوچ صحیح و سالم خیاالت کی سونے کی پیٹی سے بندھی ہوتی ہے۔

جوفضیلت کا گہواچا نہیں ‘ جو اخالق کی قدچ نہیں کچتی‘ وہ حچیت جو دینی احساسات اوچ دینی سو چ کو نہیں مانتیوہ ایسی خاچش جیسی بیماچی ہے جس سے ہچ قوم نفچت کچتی اوچ دوچ بھاگتی ہے۔ اس بیماچی میں مبتال ‘ ہوتی

اپنا تمام آچام و آسائش کھو بیٹھیں گے۔ اسی طچح وقت کے ساتھ یہ ناممکن ہو ‘ہونے والے معاشچے جلد یا بدیچ جائے گا کہ اچد گچد کے معاشچے اس سے قطع تعلق نہ کچ لیں ۔

Page 30: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

(تہذیب)تمدن

جسمانی خواہشوں کے پوچا کچنے اوچ مادی عیاشیوں کے ‘ ظاہچی شچافت‘ امیچی‘ تمدناوچ دوسچوں کے ‘ نظچ کی گہچائی‘ چوح کی شائستگی‘ دل کی امیچی‘ سمندچ میں تیچتے پھچنے کا نام نہیں ہے۔تمدن

زندہ چہنے کے حق کو ماننے اوچ انہیں قبول کچنے کا نام ہے۔

حقیقی تمدن ہمیشہ ان ممالک میں پچوان ڑھ سکا ہے جہاں سائینس اوچ اخالق کو ایک ساتھ آگے بڑھایا جاتا ہو۔یہی جب کہ ‘وجہ ہے کہ مغچبی تمدن جو ہچ یز کو محض سائینس سے شچو ع کچتا ہے ہمیشہ مفلوج ہو کچ چہ جاتا ہے

خود کو سائینس سے ب ا کچ اپنی ذات کے اندچ (جو ایمان اوچاخالقی فلسفے کا گہواچہ تو ہیں مگچ)مشچقی تمدن وحشت کا شکاچ ہو کے ہیں ۔مستقبل کا ‘ وہ حال حاضچ کے مطابق جزوی طوچ پچ ہی سہی‘محدود ہو کے ہیں

تمدن وہ ہو گا جو مغچب کی سائینس ا وچ فنون اوچ مشچق کے ایمان اوچ اخالقی فلسفے کی نچسچی میں بڑا ہو کچپھلے پھولے گا۔

* * * * *

اوچ جو عقل اوچ ضمیچ کے تاالبوں سے سیچاب نہیں ہو گا ‘ وہ تمدن جس کا انحصاچ اخالق اوچ فضیلت پچ نہیں ہو گااوچ ند ہوس پچستوں کی ہوس کی خدمت کے ‘ وہ انسانیت کی فالح کے لیے نہیں بلکہ محض گنے نے امیچوں کی

لیے وقتی طوچ پچ منایا جانے واال چاغاں ہو گا۔ حیف ہے ان لوگوں پچ جو اس چاغاں کی جلتی بجھتی چوشنیوں کے ! دھوکے میں آ جاتے ہیں

* * * * *

سمندچی اوچ ہوائی ‘ یہ نہیں سمجھنا اہیے کہ تمدن طبعی سائینس اوچ مختلف فنون سے بہت آگے نکل جانے پچکھلی کھلی سڑکوں اوچ بلند ‘ اوچ چیل گاڑیوں جیسے جدید وسائل کے مالک ہونے پچ یابڑے بڑے شہچوں ‘جہازوں

عماچتوں میں زندگی گزاچنے پچ مشتمل ہے۔ صاحب ایمان اوچ دیانتداچ لوگوں کی نظچ میں ان سب اشیاءکوجن میں اس کے سوا ک ھ بھی ‘تمدن کے طوچ پچ قبول کچ لینا محض سچاب ہے‘ سے ہچ ایک تمدن کا وسیلہ گچدانی جاتی ہے

نہیں ۔

* * * * *

لوگوں کا مہذب اوچ متمدن ہونا اس بات سے ظاہچ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی ذات میں پائی جانے والی اعلی خوبیوں کی اصالح کچتے کچتے انہیں کس حد تک اپنی دوسچی فطچت بنالیا ہے۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا متمدن ہونا

تو وہ ایک طچح سے ا ن لوگوں ‘ ان کے لباس سے اوچ ہچ طچح کے مادی ذوق سے استفادہ کچنے سے ظاہچ ہوتا ہےمیں شماچ ہوں گے جو صحیح تخمینہ لگانا نہیں جانتے۔ ایسے لوگ دچجنوں جسمانی زندگیوں کے بوجھ تلے پسے جانے والے بدبخت ہیں ۔

* * * * *

ظالم اوچ لٹیچی ہوتی ہیں ۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے ‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ وحشی اوچ بدوی قومیں خونخواچکہ ونکہ ان قوموں کے اس چجحان طبع سے ہچ کوئی بڑی ا ھی طچ ح واقف ہے اس لیے یہ لوگ اوچوں کے لیے

کے باچے میں کیا کہیں گے جو جدید “ ں ؤمہذب بدو” زیادہ ضچچ چساں نہیں ہوتے۔ یہ تو ٹھیک ہے مگچ آپ ان ! ہتھیاچوں سے لیس ہوتے ہیں اوچہچ وقت خون پینے کے مواقع کی تالش میں چہتے ہیں

Page 31: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

اگچ کسی قوم کواپنے تشخص کے باچے میں لیک چ دینا پڑ جائے توتہذیب و تمدن سے متعلقہ اس مجوزہ لیک چ کا مختلف ‘ اخالقی اوچ تکنیکی تصانیف پچ مشتمل ہونا اہیے۔ کیونکہ اجتماعی تچبیت‘ ضچوچی مواد اس قوم کی علمی

اوچ صنعتیں اوچ آچٹس ہی تمدن کو ایک پیکچ عطا کچتے ہیں ۔ جہاں تک اخالق کا تعلق ہے تو یہ ایک ‘ قسم کے ہنچ بلیغ زبان کی حیثیت سے کسی قوم کے تمدن کومشتہچ کچتا ہے۔

Page 32: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

تچقی

کسی قوم کی نشوونما اوچ تچقی کا انحصاچ اس قوم کے لوگوں کی فکچی اوچ حسیاتی میدان میں تچبیت پچ ہوتا ہے۔ جن قوموں کے افچاد کی سوچ اوچ چوشن خیالی کی نشوونما نہیں ہوتی ان قوموں کی تچقی کی امید نہیں کی جا سکتی ۔

* * * * *

قوموں کی تچقی کے لیے قوم کے افچاد کا قومی مقصد اوچ ہدف کے باچے میں متفق ہونا الزمی ہے۔ ایک ایسے اوچ جہاں کبھی بائیں بازو ‘ معاشچے میں جہاں کوئی شخص ایک یز کو سفید کہے اوچ دوسچا اسی کو سیاہ کہے

تو وہاں کسی حالت میں بھی تچقی اوچ نشوونما نہیں ہو سکتی۔‘ ہو جائے اوچ کبھی دائیں بازو سےؤ سے ٹکچا

* * * * *

جن نسلوں نے مشتچک تچبیت نہ پائی ہو وہ انفچادی طوچ پچ سیکھی ہوئی ثقافت کے مطابق ہمیشہ الگ الگ گچوہوں میں تقسیم چہتے ہیں اوچ ایک دوسچے کواپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔ ایک ایسا معاشچہ جو اندچونی طوچ پچ ٹکڑے ٹکڑے ہو کا ہو اس سے تچقی کی امید چکھنا اگچ خالف عقل نہ بھی ہو تو کم از کم اتنا مشکل ضچوچ ہوتاہے کہ اسے نا ممکن کہا جا سکے۔

* * * * *

اوچ اس ‘ پھچ عوام سے قبولیت حاصل کی جاتی ہے‘ تچقی کا ہچ کام پہلے تصوچ اوچ سوچ کی شکل میں سامنے آتا ہےکے بعد ان لوگوں کی ہمت سے پایہءتکمیل تک پہن ایا جاتا ہے جو ہاتھ سے ہاتھ اوچ دل سے دل مال کچ کام کچتے ہیں ۔ اس کے بچعکس تچقی کی ہچ کوشش اگچ سوچ کے مچحلے میں علم کا ٹھپہ نہ لگوائے یا اتنی بدقسمت ہو کہ اسے عوام کے سامنے تفصیال بیان نہ کیا جا سکا ہو تو اس کی قسمت میں اس کا انجام صفچ ہی لکھا ہو گا۔

زیادہ منظم اوچ زیادہ دلکش اس وقت ہوتی ہے جب اس کی تچقی پایہئ ‘ زیادہ مکداچ‘ کوئی یز زیادہ صاف ستھچیجبکہ مچوجہ معیاچ سے بڑھ کچ اوچ ‘ تکمیل تک پہنچ جائے۔ اس اصول کے تحت مچوج معیاچ پچ اکتفا کچنا کم ہمتی ہے

اوچ زیادہ بلندپاےہ یزیں سامنے النا تچقی ہے۔‘ زیادہ منظم ہونا

* * * * *

باغوں اوچ باغی وں کو گندگی کے ڈھیچوں میں بدل دینا ‘ سبز ہ زاچوں اوچ لشکچ گاہوں کو ویچانوں میں تبدیل کچدیناگندگیوں کے ڈھیچوں کو باغوں اوچ باغی وں کی شکل دینا تچقی ‘ زوال ہے۔ویچانوں میں بہتچی النا‘ ایک تنزل ہے

ان کی عبادت گاہیں شانداچ محل ہوتی ہیں ۔ ان کے مقابلے میں ‘ ان کے پہاڑ باا‘ہے۔تچقی یافتہ قوموں کے ملک جنتان کی گلیاں گندگی کے ڈھیچاوچ عبادت گاہیں پھپھوندی سے بھچے حجچ ے ہوتی ‘ پسماندہ ممالک کے شہچ ویچانے

ہیں ۔

* * * * *

Page 33: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ا گچ ہ معاشچوں کی پیشچفت اوچ تچقی میں لکھائی پڑھائی کا کچداچ اتنا زیادہ ہے کہ اس سے انکاچ نہیں کیا جا سکتا لیکن ونکہ تمام نسلوں کو قومی ثقافت کے مطابق ایک مخصوص سمت میں تچبیت نہیں دی جاتی اس لیے متوقع نتائج حاصل کچنا کبھی ممکن نہیں چہااوچ نہ ہی آئندہ کبھی ممکن ہو گا۔۔۔۔۔۔

* * * * *

تچقی کی ہچمہم اسی حد تک نتیجہ خیز ہو سکتی ہے جس حد تک اس پچ عمل دچآمد کے دوچان دوچ حاضچ کی صوچتحال کا تجزیہ کیا گیا ہو اوچ گزشتہ نسلوں کے تجچبات سے فائدہ اٹھایا گیا ہو ۔ اس کے بچعکس اگچ ہچ نئی نسل اپنے آباواجداد کے تجچبات سے استفادہ کچنے کو ذہن میں الئے ہی نہ اوچ ہچ فچد اپنی ہی ایک الگ چاہ پکڑ کچ اس پچ لنا شچوع کچ دے توایسی حالت میں اس قوم کے لوگ اپنی ب گانہ چوش اوچ طچیق کاچ کے باعث ہچ وقت آپس میں لڑتے جھگڑتے ہی چہیں گے اوچ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔

Page 34: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

صنعت وفن

صنعت تچقی کی چوح ہے او یہ چاہ ان چاہوں میں سب سے اہم چاہ ہے جو جذبات و احساسات کا انکشاف کچواتی ہیں ۔ وہ بدقسمت ذکی لوگ جو اس چاہ پچ لنے کا موقع گنوا دیتے ہیں وہ زندگی بھچ بالکل مفلوج لوگوں کی طچح اپنے ایک پہلو کے بغیچ ہی گزاچہ کچتے ہیں ۔

* * * * *

خفیہ خزانوں کا پتہ ال کچ انہیں کھولنے والی ایک جادو کی ابی کی طچح ہے۔ اس سے کھلنے والے ‘ صنعت اجسام کی صوچت اختیاچ کچتے دچوازوں کی دوسچی طچف سو یں اپنا مخصوص لباس پہنتی ہیں اوچ خیاالت عموما ہیں ۔

* * * * *

ں میں گھما ؤآسمانوں کی بلندیوں اوچ نیلگوں فضا‘ اگچ انسان کو سمندچوں کی بے پایاں وسعتوں اوچ گہچائیوں میں پھچا کچسیچ کچانے والی کوئی خیالی فاختہ ہو سکتی ہے تو وہ بھی صنعت ہے۔ صنعت کی بدولت انسان زمینوں اوچ آسمانوں کی وسعتوں میں بادبان کھول کچ وہاں جا پہن تا ہے جہاں سے اسے زمان اوچ مکان کی قید سے ا زاد

ں کے تاثچات اوچ احساسات حاصل ہوتے ہیں ۔ؤفضا

* * * * *

صنعت و فنون ان عوامل میں سچ فہچست آتے ہیں جو انسانی احساسات کی حفاظت کچ کے ہچ لمحہ ان احساسات کو بلند تچین ہدف دکھا کچ حساس چوحوں کو ایک گہچائی سے دوسچی گہچائی تک پہن اتے ہیں ۔ اگچ صنعت و فنون نہ ہوتے توہم انسان کی مداخلت اوچ اختچاعات کی وساطت سے معچض وجود میں آنے والی دوچ حاضچ کی دلکش

منصوبوں اوچ ‘اشیاءمیں سے ایک بھی نہ دیکھ سکتے۔ اوچ وہ متعلقہ آتشیں فنکاچ چوحیں بھی اپنی تمام تجاویز تصوچات سمیت زمین دوز ہو کچ دنیا سے جا کی ہوتےں ۔

* * * * *

فن ہی کی بدولت سب ! بنی آدم کی باطنی گہچائیوں کی منظچ کشی کچنے والی سب سے پہلی تصویچ فن ہے۔جی ہاں سب سے جذباتی آچزوئیں یوں قلمبند کچ دی گئی ہیں ‘ سب سے دلکش عالمات‘ سے گہچے انسانی جذبات اوچ خیاالت

جیسے وہ سب ایک ہی چیکاچڈ میں محفوظ کچکے ابدی بنا دی گئی ہوں ۔

* * * * *

ایمان کے ساتھ فن کی چفاقت ہی کی بدولت یہ پچ شکوہ دنیا تتلیوں کے پچوں جیسے خوبصوچت نقوش پچ مشتمل شہادت کی ‘ دلکش اشیاءکی ایک ایسی گیلچی بن کی ہے جس میں بپھچے ہوئے گھوڑوں کی طچح عباد ت گاہیں

سنگ مچمچ کے ماتھے پچ وہ مباچک ڈیزائن اوچ امتیازی ‘ انگلیوں کی طچح اگلے جہان کی طچف اشاچہ کچتے محچاب م م کچتے سونے ‘ قسم قسم کی خطاطی کے فن پاچے‘ نشان جن میں سے ہچ ایک کسی نہ کسی پیغام کا حامل ہے

اوچ کبھی ماند نہ پڑنے والی میناکاچی جیسی وہ اشیاءہیں جنہیں دیکھ دیکھ کچ کبھی جی نہیں ‘زیوچاتؤ کے جڑا بھچتا۔

Page 35: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

حقیقی علم خود کو فن کی چفاقت میں ہی ظاہچ کچتا ہے۔ جب تک کوئی شخص اپنی بنائی ہوئی فن کے نام کی کوئی شے بھی سامنے نہیں ال سکتااس کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بہت ک ھ جانتا ہے۔

* * * * *

انسان کی مہاچتوں کے جانداچ ہونے کا ان کی فنی چوح سے بڑا قچیبی تعلق ہے۔ فن سے عاچی ایک شخص اگچ مچدہ نہیں تو زندوں میں بھی شماچ نہیں ہو سکتا۔

* * * * *

یا نا ‘نا قابل اعتباچ‘ اگچ ماہچ فنکاچ کسی کے بڑی کوشش سے بنائے گئے تمام فن پاچوں کو مچوجہ فیشن کے خالفپسندیدہ قچاچ دیتے ہیں تو اس کی یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ متعلقہ شخص ان فن پاچوں کی شکل اوچ چوح میں تمیز نہ کچ سکا ہو۔

* * * * *

فن کی بدولت نہایت کم ! لوہے کو سونے سے اوچ تانبے کو کانسی سے زیادہ قیمتی بنانے والی یز فن ہے۔جی ہاں اندی اوچ الماس سے بھی زیادہ قیمتی ہو جاتی ہیں ۔‘ قیمت دھاتیں سونے

* * * * *

جس طچح ہماچی سوچ کی حدود میں آنے والے تمام فنون لطیفہ انسان کو فنکاچوں کی مباچک چوحوں کی طچف سے اسی طچح ہمیں وقت بتانے والی گھڑیوں سے لے کچ ان عینکوں تک جو ہماچی کمزوچ ‘ پیش کچدہ ابدی تحائف ہیں

دوچ دچاز فاصلوں کو قچیب النے والے وائچلیس اوچ ٹیلیفون سے لے ‘ نظچ کو طاقت حاصل کچنے میں مدددیتی ہیں کچدنیا بھچ کے اچوں گوشوں سے آوازوں اوچ صوچتوں کو کھینچ کچ ہماچے چہائشی کمچوں میں منعکس کچنے

بسوں اوچ طیاچوں ‘ ہمیں ایک جگہ سے دوسچی جگہ تک اٹھا کچ لے جانے والی چیل گاڑیوں ‘ والے ٹیلی وژن تکسے لے کچخالئی شٹل اوچہوائی جہازوں تک انسانیت کے لیے امن اوچ خوشحالی کا وسیلہ سمجھے جانے والے تمام ذچائع بھی ان لطیف چوحوں کے ہی کاچنامے ہیں جن کے دچوازے فن کے لیے کھلے ہیں ۔

* * * * *

نہ ‘ ان کا نہ خود انہیں ‘ وہ تمام چوحیں جن کے د چوازے فن کے لیے بند ہیں اوچ جن کا ہونا یا نہ ہونا ایک بچابچ ہےاوچ نہ ہی ان کی قوم کو کوئی فائدہ پہن تا ہے۔ بلکہ وہ ایک طچح کے ایسے ناکاچہ اژدھام پچ ‘ ان کے خاندان کو

مشتمل ہوتے ہیں جو فائدو مندہونے کی بجائے ضچچ چساں بھی ہو سکتاہے۔

Page 36: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ادبیات

سوچ اوچ عچفان کی دنیا کی ایک فصیح و بلیغ زبان ہوتی ‘ ادبیات کسی قوم کی چوحانی ساختاوچ عچفان کی زندگی مشتچک نہیں ہوتی وہ خواہ ایک ہی قوم کے افچاد ‘ سوچ کا نظام‘ ہے۔ جن افچادکی چوحانی ساخت

کیوں نہ ہوں ان کے لیے ایک دوسچے کو سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔

* * * * *

ایک چوح سے دوسچی چوح تک خیاالت منتقل کچنے کے اہم تچین وسیلوں ‘ الفاظ ایک دماا سے دوسچے دماا تکمیں سے ایک وسیلہ ہیں ۔ جو اچباب فکچ اس وسیلے کو کامیابی سے استعمال کچسکتے ہیں انہیں تھوڑے ہی عچصے میں اپنی چوح میں جوش کھاتے خیاالت کی نمائندگی کے لیے بے شماچ انسان مل جاتے ہیں اوچ وہ اپنے خیاالت کی بنا پچزندہ ءجاوید ہو جاتے ہیں ۔ جن لوگوں کے لیے یہ بات ممکن نہیں ہوتی وہ عمچ بھچ خیاالت کی ٹیسیں بچداشت کچتے چہنے کے باوجود اپنا کوئی نقش قدم پی ھے ھوڑے بغیچ مچ مٹ جاتے ہیں ۔

* * * * *

کہ جن میں اس کا اپنا منفچد سازو سامان اوچ ادا کا مقصدبھی شامل ‘ ادبیات کی ہچ نوع اپنی تمام خصوصیات کے ساتھبذات خود بیان کی ایک چاہ اوچ متعلقہ نوع کی مخصوص زبان ہوتی ہے۔ ہچ شخص کسی حد تک سمجھتا ہو تو ‘ ہیں

بھی اس زبان کو حقیقی معنوں میں استعمال کچنے اوچ اس میں کالم کچنے والے محض شاعچ اوچ ادیب ہی ہوتے ہیں ۔

* * * * *

جس طچح سونے اوچ اندی کی پہ ان صچ ف زچگچکو ہوتی ہے اسی طچح الفاظ کے جواہچات کو بھی الفاظ کے جوہچی ہی سمجھتے ہیں ۔حیوان زمین پچ گچے پھول کو منہ میں لے کچ بانا شچوع کچ دیتے ہیں ۔ یا پھچ پھول کی

ں تلے چوند کچآگے نکل جاتے ہیں لیکن انسان اسی پھول کو سونگھ کچ اپنے سینے پچ ؤقدچ نہ جانتے ہوئے اسے پا ٹکا لیتے ہیں ۔

* * * * *

اوچ چوح کی طچف سے ‘دلوں میں ہیجان پیدا کچیں گے‘ بلند خیاالت اوچ مفہوم ہچ صوچت میں ذہن پچاثچانداز ہوں گےانہیں خوش آمدید کہا جائے گا۔انہیں خوش اسلوبی سے بیان کچنا اہیے وچنہ ایک طچح کے لفظ پچست لوگ معنوں کی کمچ پچ پھٹے پچانے اڑتے بکھچتے لباس دیکھ کچان کے اندچ ھپے ہوئے جوہچات کی قدچوقیمت نہیں پہ ان سکیں گے۔

* * * * *

‘ نہ فلسفہ دوچ حاضچ تک پہنچ سکتا‘ ادبیات کی غیچ موجودگی میں نہ حکمت کو اس کا موجودہ پچ شکوہ مقام ملتافلسفے اوچ خطابت نے ادبیات کے ‘ اوچ نہ ہی خطابت ہماچا متوقع کچداچ ادا کچ سکتی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ حکمت

سامنے ایک الزوال سچمائے کی طچح اپنے خزانوں کی نمائش کچ کے اسے حیات ابدی حاصل کچنے میں مدد دی ہے۔

* * * * *

Page 37: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ادباءاوچ شعچاءباطنی اوچ مادی دنیا کی خوبصوچتیوں کومشاہدے کے وسیلے سے محسوس کچ کے انہیں بالنے میں ایک نے نواز کی طچح ہوتے ہیں ۔ ان کی وساطت سے انسان اس گیت کی بلند ہونے والی آوازوں کے معنی اوچ ماہیت کو سمجھتا ہے جو کئی گویے مل کچ گاتے ہیں ۔وگچنہ جذبات کے ذچیعے ان کی چوحوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والے شعلوں سے بے خبچ کوئی شخص یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ نے کیا ہے اوچ نے سے نکلنے والی فچیاد کیا معنی چکھتی ہے۔

* * * * *

آب و ہوا کے مختلف طبقات کی الگ الگ ‘ اگچ اس کا ماخذ پاک صاف ہو توفن کی ہچ شاخ اوچ فن کا ہچ ٹکڑاں کا اظہاچ کچنے کے لحاظ سے ؤاوچ ان کے ذائقوں اوچ خوشبو‘ان کے مخصوص پھولوں اوچ پھلوں ‘خوبصوچتیوں

دلکش اوچ نفیس ہوتا ہے۔‘ کم و بیش ایک ہی جیسا خوبصوچت

* * * * *

باالئے ‘ اشیاءکے ساتھ یک جان ہونے‘ ادب کا ماجچا بھی بالکل فن کی دیگچ اصناف کی طچح ہے۔یہ بھی ھٹی حس کے ذچیعے ابدیت تک جا پہن تا ہے۔اس لیے (یا ابعاد ثالثہ )اوچ اس کیفیت ‘ ہدف ا وچ فوق الزمان ہونے کی کیفیت

فنکاچ کے لیے یہ بات نہایت اہم ہے کہ وہ مشاہدے میں آنے اوچ محسوس کی جانے والی ہچ شے کو پھالنگ کچ عالم باال سے آنے والے جھونکوں کی آمد کے لیے اپنے آپ کو کشادہ دل چکھے۔

* * * * *

نظم ہو یا نثچ مقاصد کے اظہاچ کے لیے استعمال کیا جانے واال ہچ لفظ ایسا ہونا اہیے کہ وہ جواہچات کی صندوق ی کی طچح تفکچ کے گوہچ پاچوں کی حفاظت کچ سکے۔ الفاظ ایسے ہونے اہیئں جو نہ سوچ کی جگہ اپنا لےں اوچ نہ

یعنی سوچ یا )اپنے اندچ چکھی ہوئی یز‘ ہی اسے گہنا دیں ۔ الفاظ کی یہ صندوق ی خواہ زمچد ہی کی کیوں نہ ہوغیچ ) کو جتنا گہنائے گی اتنا ہی متعلقہ الفاظ کی تاثیچ اوچ معنی بیان کچنے کی قوت کو کم کچ دے گی۔ایسے (مقصد

الفاظ کا دیچپا ہونا بھی بعیداز امکان ہے۔ (ضچوچی طوچ پچبھڑکیلے

* * * * *

حسن اوچ ادب کے موضوعات سے بھی گہچا تعلق ‘فن‘ سوچ کے اظہاچاوچ ادچاک کا ایک ذچیعہ ہونے کے عالوہ‘ زبان زبان کے اسی پہلو کو ظاہچ کچتا ہے۔“ ادبیات”چکھتی ہے۔لفظ یقینا

* * * * *

ادبیات میں بنیادی عنصچ معنی ہیں ۔ اس لحاظ سے بھی یہ بات اہم ہے کہ جو الفاظ بھی کہے جائیں ھوٹے ہوں مگچ تکچاچ اوچ ذومعنویت‘ تلمیح‘کنایہ‘ استعاچہ‘متمول اوچ بھچپوچ ہوں ۔ بعض لوگوں نے تشبیہہ (PUN ) جیسے الفاظ اوچ

اصطالحات استعمال کی ہیں جوپچانے لوگ علم البیان اوچ علم نحوسے متعلقہ موضوعات میں استعمال کچتے تھے۔ مگچ میچے خیال میں عمیق تچین معنوں والے الفاظ کو ان صاحب یقین اوچ تچکیب ساز دماغوں کے پاس تالش کچنا اہیے جو دنیا اوچ عقبی کا یوں مطالعہ کچنے میں کامیاب ہو کے ہیں جیسے یہ دونوں عالم ایک ہی حقیقت کے دو چخ ہوں ۔ اوچ ایسے الفاظ کو ان پچ ہیجان چوحوں میں ڈھونڈنا اہیے جو الہام کے وسیلے سے جوش میں آ جاتی ہیں ۔

* * * * *

جس طچح کچہ اچض پچ علیحدہ علیحدہ معاشچے اوچ ثقافتیں موجود ہیں اسی طچح ادبیات کی الگ الگ قسموں کا اوچ فطچت ‘حسن کی محبت‘موجود ہونا بھی ایک قدچتی امچ ہے۔البتہ یہ بات ضچوچ ہے کہ اپنی چوح میں پوشیدہ ادب

کی کتاب سے متعلق خاکے اوچ نغمات کے وسیلے سے ادبیات کے اس تنوع ہی میں وحدت بھی پائی جاتی ہے اوچ ہمہ گیچی کی خاصیت بھی۔

* * * * *

Page 38: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

یہ بعض ‘ جو مختلف ثقافتوں اوچ تہذیبوں کے گہواچے میں پل کچ پختگی کی سطح تک پہن تی ہے‘ دیوان ادبیاتاوچ ال یعنی دکھائی دیتی ہے۔ مگچ اس نقطہ نظچ کے اسباب ہمیں خود ‘ بیجا آچائش میں ڈوبی ہوئی‘لوگوں کو مشکل

اپنے محدود افق میں ڈھوندنے اہئیں ۔میں یہ کہتے ہوئے معذچت خواہ ہوں کہ وہ ادب جس کا خمیچ ان بہادچوں کے پچ ہیجان سینوں میں اٹھایا گیا ہو جو کتاب و سنت کے سماوی ماحول میں عالم باال سے اتچنے والے نوچ کو ابد تک اپنے دلوں میں سنبھال کچ چکھنے کا مصمم اچادہ کچ کے ہوں اوچ جن کی بلند قامت چوحیں ساچے عالموں کو ایک

کیا اس بات کا کوئی امکان ہو سکتا ہے کہ ایسے ‘ نئی شکل دینے کے اچادے سے جوش و خچوش میں چہتی ہوں !ادب کو وہ لوگ سمجھ سکیں جو ایک مچدہ دوچ کے بے جان جنازے ہیں ۔۔۔۔۔؟

* * * * *

اوچ اس ‘ ہچ حقیقت پہلے انسان کی چوح میں ایک خصوصی حیثیت سے ظاہچ ہوتی ہے اوچ پھچمحسوس کی جاتی ہےاوچ اسے ‘ اسے بلوچی شکل دی جاتی ہے‘ قلم سے اوچ ہتھوڑے سے جان ڈالی جاتی ہے‘ کے بعد اس میں الفاظ سے

لکیچ لکیچ جوڑ کچ فنی اثچ کے ہچے پچ یا کسی فنی اثچ کی شکل میں ظاہچ کچنے کی کوشش کی جاتی ‘ نقطہ نقطہہے۔ ایسے فنی اثچ کے فوق الزمان اوچ فوق المکان حدود تک پہن نے کا تعلق مکمل طوچ پچ یقین اوچ اس یقین کے عشق کی سطح سے ہے۔

* * * * *

ایک ہی ماحول اوچ ایک ہی ملک کے انسانوں کے دچمیان بھی بعض اوقات ادبی بےگانگی اوچ کشیدگی پائی جا سکتی ہے۔یہ محض ظاہچی تفاوت ہے جس کا سبب مختلف اشیاءاوچ حوادث کے باچے میں لوگوں کے نقطہءنظچ کا باہمی فچق ہوتا ہے۔ عالوہ ازیں یہ تفاوت لوگوں کے اعتقاد اوچ دیگچ اقداچ کو قبول کچنے یا نہ کچنے کے باعث بھی پیدا ہو سکتا ہے۔جس طچح پہاڑ کی وٹی پچ چہنے والوں کے نزدیک گہچی وادی کے چہائشیوں کے نغمے بے معنی بڑبڑاہٹ ہوتے ہیں اسی طچح گہچی وادی کے باشندوں کے نزدیک پہاڑ کی وٹی پچ چہنے والوں کے الفاظ بھی بڑبڑاہٹ سمجھے جاسکتے ہیں ۔

* * * * *

اسے معچض وجود میں النے والے عناصچ کی کاملیت سے گہچا تعلق ہوتا ہے۔ ان عناصچ کی ‘ یک ا ھے فن پاچے کاہی صحیح سالم (جوہچ)کاملیت کا تعلق ان افچاد کی کاملیت سے ہوتا ہے جو ان عناصچ کا جزو ہوتے ہیں ۔ جہاں گودا

نہ ہو وہاں پاک صاف حس کی موجودگی بعیدازامکا ن ہوتی ہے۔اوچ جہاں پاک صاف حس موجود نہ ہو وہاں شعلوں اوچ دہکتے چہنے والے انگاچوں سے فن پاچے تخلیق کچنا بھی نا ممکن ہوتا ہے۔

* * * * *

اوچ ان کی نوک پلک ‘ انہیں ظاہچی شکل دیتے‘ ہچ فنکاچ کی طچح ادیب بھی کائنات کی حقیقتوں میں چنگ بھچتےسنواچتے ہوئے ہمیشہ اپنی ذات سے متعلقہ مواد کی تالش میں چہتا ہے۔جس چوز اسے اپنا مطلوبہ مواد مل جاتا ہے

اوچ خود محو حیچت و تحسین ‘ بچش پھینک دیتا ہے‘ اوچ وہ اس کا اظہاچ کچ لیتا ہے اس چوز وہ اپنا قلم توڑ دیتا ہےہو کچ آپے سے باہچ ہو جاتا ہے۔اسی لیے سب سے بڑے فنکاچوں کی تالش حق تعالی کے ان بندوں میں کی جانی اہیے جو اس کے وفاداچ مفکچ ہوں اوچ ایک حساس زندگی بسچ کچتے ہوں ۔

Page 39: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

شعچوشاعچی

ہستی کے ہچے کے تبسم ‘کائنات کی چوح میں پوشیدہ حسن اوچ تناسب‘شعچاوچ دل خوش کن کیفیت کے شاعچانہ چوحوں کی طچف سے اظہاچکے سوا کوئی شے نہیں ۔ان بلند چوح انسانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے دل ایک دوات اوچ چوح االمین کے چوشنائی بن کے ہیں ۔

* * * * *

یا اس مقصد کے لیے منتخب شدہ ‘ ہوؤ شعچ اگلی دنیا کی تالش کی چاہ میں سنی جانے والی ہااستقامت کے کچاہنے کی آواز ہے۔ شعچ کی صدا اوچ نغمے بعض اوقات محض غچغچانے کی طچ ح اوچبعض اوقات لطیف سے لطیف شکل میں ظہوچ پزیچ ہوتے ہیں ۔اس کا انحصا انسان کی اپنی باطنی گہچائی پچ اوچ چوح کی اس حالت پچ ہے جس میں انسان جی چہا ہوتا ہے۔اس اعتباچ سے بھی شعچسے متعلق ہچ آواز کو ا ھی طچح سمجھنے کا انحصاچ اس بات پچ ہوتا ہے کہ جب وہ شعچ زبان پچ آتا ہے تو اس وقت چوح کی کیا حالت ہوتی ہے۔صچف زبان پچ آتے وقت چوح کی جو حالت ہوتی ہے اسے ہی پوچی طچح سمجھا جا سکتا ہے۔

ثقافت اوچ طچز خیال کے مطابق ‘شاعچ کی بصیچت اوچ تاثچات پچ اثچانداز ہونے والے عقیدے‘شعچمعچض وجود میں آتا ہے اوچ اسی کے مطابق ساخت اختیاچ کچتا ہے۔ ان کے عالوہ اسے گہچائی بہم پہن اکچفو ق االدچاک سطح تک پہن انے واال واحد سچ شمہ الہام ہے۔ الہام کے باعث جوش میں آنے والے دل میں ذچہ سوچج بن جاتا ہے اوچ قطچہ دچیا۔

* * * * *

اس کا ایک گہچا پہلو وہ بھی ہوتا ہے جو ‘شعچ میں عقل اوچتخیل کا کچداچ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہومیچا سخن ہی لشکچ شعچاءکا ”:اسے انسان کا دل اپنی ہی طچف سے دیتا ہے۔فضولی کے الفاظ میں

۔ دل میں پھوٹنے والی سو وں کو جب خیاالت کے پچ لگ جاتے ہیں تو وہ ابدیت کے “علمبچداچ ہے دچوازوں پچ زوچآزمائی شچوع کچ دیتی ہیں ۔

* * * * *

‘ مستقبل کی طچف چوشنی ڈالنے واال ایک پچوجیکٹچ‘شعچ حال حاضچ کو چوشن کچنے واال ایک شعلہاوچ اگلی دنیا کے سچ شمے سے نکلنے والی عشق اوچ ہیجان کی موسیقی کی ایک دھن ہے۔ حقیقی

‘ دوچی نزدیکی میں بدل جاتی ہے‘ شعچوں کے ماحول میں آنکھیں چوشنی کے پاس جا پہن تی ہیں اوچ چوح کی چسائی ایسے عزم و شوق تک ہو جاتی ہے جو کبھی نہیں بجھتا۔

* * * * *

Page 40: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

شعچ بھی بالکل مناجات کی طچح انسان کی باطنی دنیا میں آنے والے جواچ بھاٹوں اوچ شوق و حزن کے ساتھ اچتکاز کے لحاظ سے “ عظیم حقیقت”کی کیفیتوں کو زبان پچ التے ہیں اوچ شاعچ کی اس

الہوتی سانسوں کی طچح آتے چہتے ہیں ۔دچاصل ہچ مناجات ایک شعچاوچ ہچ شعچ ایک مناجات ہے۔ نا ہ مناسب ہوگااگچ شعچ ابدیت کی طچف پچ تول کچاڑنا جانتا ہو۔

* * * * *

جو شعچ ابدیت کی سوچ میں پچوان ڑھا ہو اوچ دل کے پچوں اوچ چوح کی قوت کے زوچ سے سوچ وہ علوم کی طچح مثبت سوچ پچ زیادہ اعتباچ نہیں کچتا۔ متعلقہ موضوع کے ‘ ں میں اڑتا ہوؤکی فضا

ساتھ اس کا تعلق ایک وسیلے کے طوچ پچ ہوتا ہے۔ اس کا ایک ہی ہدف ہوتا ہے اوچ وہ ہے غیچ مادی شےہستی کی تالش کچ کے اس کا شکاچ کچنا۔ اگچ شعچ میں ہچ اس شے کا تصوچ کیا جا سکتا

اوچ اگچ تصوچات تنقید ‘ ہو جو محسوس کی جا سکتی ہے اوچ جس کے باچے میں سو ا جا سکتا ہےاوچ پھچ اگچ شاعچ کی اندچونی دنیا میں ہوا کے ‘ کے عمل سے بغیچکاٹ ھانٹ کے گزچ سکتے ہیں

ایک جھونکے کی طچح ظاہچ ہو جانے والے یہ خفیہ عناصچالفاظ اوچ جملوں کی شکل میں سانس لینا شچوع کچنے تک اپنے وجود اوچ زیست کی حفاظت کچ سکتے ہیں تو ان شعچوں کے ہمیشہ تازہ دم اوچ زندہءجاوید چہنے میں کوئی شک نہیں ہونا اہیے۔بصوچت دیگچ زبچجد جڑی ہوئی تانبے کی

یاکوئلہ جڑے ہیچوں کے ایک ہاچ میں اوچ شعچ کے نام سے پیش کیئے جانے والے ‘ ایک انگوٹھی مواد میں کوئی فچق نہیں چہ جاتا۔

* * * * *

اس لیے شعچ ایک ایسی آواز کی طچح ہوتا ہے ‘ کی تالش ہے“ گمنام ہستی” ونکہ شعچ کا ہدف اسجس کی سوچ دھندلے دھندلے ‘ جو مشکل سے سمجھی جا سکتی ہے اوچ جو کثیچالبعود ہوتی ہے

وہ جن چاہوں سے گزچتا ہے وہ بے حد تاچیک ہوتی ہیں اوچ جو ایسی ‘ اسچاچ پچ مشتمل ہوتی ہےاقلیم سے آتی ہیں جس کی متعدد اطچاف بند ہوتی ہیں ۔اسی وجہ سے حقیقی شعچ کے ہچ لفظ اوچ ہچ

ایک ایسے سیاح کے مشاہدات اوچ تاثچات کو محسوس کیا جا سکتا ہے جو کسی پچا ‘ جملے میں سچاچمحل میں ہچ آواز اوچ ہچ تاثچ پچ وچطہئ حیچت میں ال جاتاہے۔

* * * * *

ایک چوح کا ہیجان اوچ آنکھوں کا ایک آنسو ہے۔ اوچ آنسو بھی تو دچاصل ‘ شعچ ایک دل کی دھڑکن وہ حقیقی شعچ ہی ہوتے ہیں جو بغاوت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔

* * * * *

شعچاءکے کبھی نہ مچجھانے والے ایک طچح کے پھول ہیں اوچ ان پھولوں کی ہچ سو پھیلنے ‘ شعچاوچ بیج بھی مستند ہوں ‘ پانی صاف شفاف ہو ‘ والی خوشبو ہیں ۔جن پھولوں کی مٹی پاک صاف ہو

تو پھچ ان پھولوں کے چنگوں اوچ خوشبو سے کبھی جی نہیں بھچتا۔

* * * * *

بغیچ سمجھے بوجھے ک ھ کہنے والوں کی نسبت ان شاعچوں کی تعداد بھی کوئی کم نہیں ہے دوسچی ‘ جوبغیچک ھ کہے سب ک ھ سمجھ جاتے ہیں ۔ پہلی قسم کے شاعچوں کی الف و گذاف کا بدل

Page 41: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

الفاظ اوچ جملوں کی ضچوچت کے بغیچ ہی انسان ‘قسم کے شاعچوں کی شاعچانہ نگاہیں اوچ خیاالت کو بہت سی یزیں بتا سکتے ہیں ۔

* * * * *

شعچوں کو محض ان کے الفاظ کی موزونیت کی بناءپچ پچکھنا غلط ہے۔ کیونکہ نثچ کے بے شماچ اوچ جن کا مضمون اوچ بیان دلوں میں حیچت ‘ کلمات ایسے ہیں جو چوح کے لیے پچکشش ہوتے ہیں

اوچ تحیچ جگا دیتا ہے۔ ان میں سے ہچ لفظ بذات خود ایک ایک شعچ کی یادگاچ ہوتا ہے۔ فن کی ہچ شاخ کی طچح شعچ بھی اگچ نتیجے کے اعتباچ سے المتناہیت کے ساتھ ا ھی طچح بغل گیچ نہ ہو

‘ بجھا بجھا ہو گا۔ انسانی چوح جو المتناہیت کے حسن و جمال کی شیدائی ہوتی ہے‘ تووہ بانجھ ہوگاانسان کا ضمیچجس کی تسلی ہی ابد اوچ ابدیت کے ‘ انسان کا دل جو المتناہیت سے محبت کچتا ہے

یہ سب ہچ وقت فنکاچ کے کانوں میں سچگوشیاں کچ کے اسے اگلی دنیا کو کچیدنے ‘ بغیچ نہیں ہوتیاوچ ضمیچ سے بلند ہونے والی اس کچاہتی آواز اوچ اشتیاق ‘چوح‘پچاکساتے چہتے ہیں ۔جو فنکاچدل

کے اظہاچ کو محسوس نہیں کچتے وہ ساچی زندگی اس جھالچ والے پچدے کے دوسچی طچف دیکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

* * * * *

اس کے بچعکس دونوں ‘ جس شعچ میں معنی پچ شکل کو اوچ شکل پچ معنی کو قچبان نہ کیا جائےمحاذوں پچ جسم اوچ چوح کے تعلق کو قائم چکھتے ہوئے شعچ تچتیب دیا جا سکے تو اس حالت میں شعچ ہچ ضمیچ کا پسندیدہ اوچ طبعی آہنگ حاصل کچ لیتا ہے۔ایسے شعچ کے باچے میں سو ا بھی نہیں جا سکتا کہ شاعچ کا تخیل ا س شعچ کے لیے کوئی اوچ امتیازی خصوصیت پیش کچ سکتا تھا۔

* * * * *

ادا جیسی ‘ میزان‘ جملے‘ شعچ کا ایک ظاہچی ہچہ بھی ہوتا ہے کہ جس میں زیادہ تچ کلماتشاعچ کے ‘ خصوصیات حاکم ہوتی ہیں ۔ جہاں تک شعچ کے باطنی ہچے کا تعلق ہے اس میں چوح

عالم باطنی میں مایع لگے ہوئے خیاالت کے اظہاچ کے لیے کہیں پھولوں کے ہچوں اوچ تتلیوں کے کہیں شعلوں کی طچح ہچ گچنے والی جگہ ‘ پچوں جیسے نہایت آچائشی اوچ ظچیف جملے ڈھونڈتی ہے

اوچ کہیں نے کی فچیادوں کی متوازن آہیں پیدا کچنے والے الفاظ ‘ کو جال دینے والے آتشیں کلماتتالش کچتی ہے۔انھیں پا لینے کے بعد ان سب کو مناسب مقامات پچ جوڑ دیتی ہے۔ اسے ہم شعچ کا موسیقی میں بدل جانا بھی کہہ سکتے ہیں ۔

شعچ کے سچ شموں میں سب سے بڑا سچ شمہ چاز اوچ اشاچے کنائے ہوتے ہیں ۔ یہ شعچ میں وسعت اوچ احاطے کا ایسااحساس پیدا کچتے ہیں جو حقیقت میں اس میں ہوتا ہی نہیں ہے۔ مگچ یہ

اس کی دیواچوں کے دچمیان محدود چہتا ہے۔شعچ میل ‘ احاطہ پھچ بھی شعچ کے تقدس کے اندچ اندچں میں ابعاد حاصل کچ کے معنوں کی چنگ بچنگی اقلیموں کی سمت میں پھیلتے ؤمالپ کے بازو

پھیلتے وسیع سے وسیع تچ ہوتے لے جاتے ہیں مگچ پھچ بھی شعچ ہی چہتے ہیں ۔

* * * * *

شعچ پچ ایک ایسا چنگ غالب ہوتا ہے جو بنیادی طوچ پچ تخیل اوچ تاثچ کے باہمی امتزاج سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن انسان کی ساخت میں موجود ایک دماغی غدے کی طچح تخیل اوچ احساس کے پی ھے

Page 42: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ان پچ حکم النے والے اوچ ہچ نقطے پچ اپنے آپ کو محسوس کچوانے والے نیت اوچ بینائی جیسے دو اہم عناصچ بھی موجود ہوتے ہیں ۔ یہ عناصچ تمام شعچوں اوچ مصچعوں میں اپنا چنگ منعکس

ں لڑکھڑاتا ہے یہ عناصچ اسے ہاتھ سے پکڑ کچ احساس کے آگے ؤکچتے ہیں جہاں بھی تخیل کا پا آگے ایکجادوئی چاا کی طچ ح چاہوں پچ چوشنی بکھیچتے جاتے ہیں ۔

* * * * *

امیدوں اوچانکساچ سمیت بیج سے نکل ‘ اضطچاب‘ ہیجان‘ نفچت‘شعچ جس معاشچے میں اپنے کینےکچ پھلتے پھولتے ہیں اسی معاشچے کے سانس کی مانند ہوتے ہیں ۔ جبکہ شاعچ کبھی اسی

اوچ کبھی اس کی زبان اوچ ہونٹوں کی طچح ہوتا ‘ معاشچے کی سانس کی نالی اوچ پھیپھڑوں کی طچحہے۔اس نقطہ نظچ سے دیکھا جائے تو ہچشعچ کے باچے میں ک ھ کہنے سے پیشتچ اس معاشچے کی خصوصیات کا مطامعہ کچنا ضچوچی ہے جس میں وہ شعچ اپنے بیج سے نکل کچ پھال پھوال ہو اوچ جس نے شعچ کی تشکیل کا مواد مہیا کیا ہو۔ وچنہ اگچ اس معاشچے کی خصوصیات کو بالکل ہی نظچانداز کچدیا جائے جو شعچ کی دایہ کا کچداچ ادا کچتا چہاہے تو پھچ اس شعچ کے باچے میں ک ھ سمجھ سکنا خاصامشکل کام ہو گا۔

Page 43: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

حیات اوچ چوح

حیات ایک خدائی بھید ہے۔ اس کی ماہیت صچف وہی جانتے ہیں جو حق تعالی کے بھیدوں سے آشنا ہیں ۔

* * * * *

حیات مطلق ایک جسمانی زندگی ہے۔جسم کی حچاچت اوچ دم خم سب فطچی ہیں اوچ یہ پیٹ میں جانے والی غذا کے خون اوچ انچجی میں تبدیل ہونے کے عمل سے حاصل ہوتے ہیں ۔

* * * * *

حچکت اوچ طاقت جیسے بعض جسمانی فچائض انجام دیناہے۔اس قسم کی زندگی ‘مادی حیات کا مقصدکے لحاظ سے انسان اوچ حیوان میں بالکل کوئی فچق نہیں ہے۔لیکن حقیقی انسانی زندگی وہ زندگی

اوچ مابعدالحیات کا تصوچ بھی پایا جاتا ہے۔ اوچ اصلی حیات بھی یہی ہے۔‘ ادچاک‘ہے جس میں شعوچ

* * * * *

حیات کا مطلب چوح نہیں ہے۔ یہ تو ایک جسمانی زندگی ہے۔جہاں تک چوح کا تعلق ہے تو وہ ایک ‘ ایسی لطیف ہستی ہے جس کی نہ تحلیل ممکن ہے نہ تقسیم۔جو مادی خصوصیات سے مختلف ہے

ہے۔“قانون امچی”جو با شعوچ

* * * * *

چوح کا جسم کے ساتھ تعلق زندگی کے ساتھ ہی قائم چہتاہے۔زندگی کے جسم سے جدا ہوتے ہی چوح کے زندہ چکھنے سے ‘ مگچ چوح ہللا ہلالج لج‘ بھی جدا ہو کچ لی جاتی ہے۔زندگی محو ہو کچ بجھ جاتی ہے

ابد تک زندہ چہتی ہے۔

* * * * *

حیات کا سچ شمہ فطچت ہے اوچ اس کے اسباب قدچت مہیا کچتی ہے جبکہ چوح ایک خدائی تحفہ ہے مگچ ‘ موت کی طابع ہے ‘ جو فطچت اوچ قدچت سے مبچا اپنی ذاتی پہ ان کی مالک ہے۔حیات فانی ہے

چوح غیچفانی ہے اوچ اس میں ابدیت کی ادا پائی جاتی ہے۔

* * * * *

Page 44: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

محسوس کچنے واال اوچاپنی مچضی ‘ ذہنی نظام سے باال تچ ہو کچ بذات خود ادچاک کچنے واال‘ چوح کی خواہش یا آچزوکچنے واال ایک وجودہے۔اس کا جسم سے تعلق وقتی طوچ پچ چہائش پذیچ ایک ہمسایہ ہونے اوچ ایک ہی تقدیچ کے تابع ہونے پچ مشتمل ہے۔

* * * * *

با آسانی قبچ کے گڑھے کو عبوچ کچ جاتی ‘چوح ایک الیموت ہستی ہے جو موت سے متاثچ ہوئے بغیچجو بچزخ اوچ محشچ کی اونچ نیچ میں پھنسے بغیچ جہنم اوچ جنت کی ابدیت تک پہنچ جاتی ہے۔‘ ہے

اوچ بعض اوقات ‘ بعض اوقات ایک ہلکی سی دھند کی شکل میں ‘ چوح بعض اوقات انسانی شکل میں یا خیالی ‘خوابوں میں ‘کسی دوسچی قسم کی خصوصیت کے ساتھ خودکو دھندلے آئینوں میں

یا شیطانوں ‘ پیکچوں میں منعکس کچتی ہے اوچ فچشتوں کی طچح خیچ اوچ فالح کی بچکتوں کے ساتھبدیوں کے ہمچاہ گڈمڈہوتی دکھائی دیتی ہے۔‘کی طچح شچ کے ساتھ

* * * * *

حقیقی حیات وہ ہے جس میں چوحانی اوچ جسمانی حیات ایک دوسچی کے شانہ بشانہ اوچ معمولی سے فچق کے ساتھ بچابچبچابچ ل چہی ہوں ۔اس قسم کی زندگی بیک وقت اس دنیا میں حقیقی انسانی حیات کے لیے سنبل کے بیج کا کام کچتی ہے اوچ اگلی دنیامیں ایسی جنتی زندگی بن جاتی ہے جس میں یہ گ ھوں کے گ ھے پھل دینے والے پودوں کی طچح نشوونما پاتی ہے۔

* * * * *

شعوچ اوچ پاکیزگی قلبی حیات کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔

* * * * *

و لوگ اپنی زندگی کو سنجیدگی سے نہیں گزاچتے ان کی قلبی حیات نہیں ہو سکتی ۔ ۔ ۔ ان کاپچیشانی کے آنسو بہانا ایک الگ جھو ٹ ہوتا ہے۔

ہچ انسان کے اس دنیا میں آنے کی گھڑی کے ساتھ ہی اسے حقیقی حیات اوچ حیوانی حیات امانت کے طوچ پچ ایک دوسچی سے لپٹی ہوئی شکل میں اس مقصد کے لئے ملتی ہیں کہ وہ ان کے

ں کا انکشاف کچے۔ جب تک چوح اوچ بدن کا تعلق بگڑ نہیں جاتا یہ کام ہچ انسان کی ذمہ ؤمختلف پہلو داچی چہتا ہے۔

* * * * *

انسان حیوانی حیات کے اعتباچ سے حیوانوں کے ساتھ اوچ چوحانی حیات کے لحاظ سے مالئکہ کے ساتھ یک جان اوچ دکھ دچد کا ساتھی ہوتاہے۔ جو لوگ اپنی ذاتی استعداد اوچ قوت متحچکہ کا جائزہ

ان کی قسمت میں لکھا ہوتاہے کہ وہ وقت گزچنے کے ساتھ فچشتہ بن جائیں گے۔ ‘ لے سکتے ہیں اسی طچح جو لوگ اپنی ان خصلتوں کو کند کچ دیتے ہیں یہاں تک کہ بدی کے کثچت استعمال سے اسے یک تخچیبی عنصچ بنا ڈالتے ہیں ان کا جلدی یا بدیچ حیوانوں سے بھی زیادہ گہچی پستی میں

۔بلکہ شیاطین میں تبدیل ہو جانا بھی ناگزیچ ہے‘ گچ جانا

Page 45: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ
Page 46: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

معجزہ اوچ کچامت

جو شخص معجزوں پچ یقین نہیں چکھتا وہ گویا ابھی تک ہللا تعالی اوچاس کی معجزے سے اند کے ٹکڑے نہیں کیئے جا ”قدچت کی قدچ نہیں کچ سکا۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ

۔جو لوگ “ہللا تعالی اند کو ٹکڑے ٹکڑے نہیں کچ سکتا” وہ اس سے یہ معنی لیتے ہیں کہ“ سکتے ان کا دعوی یہی ہوتا ہے کہ ہللا یہ کام نہیں کچ “ مچدے زندہ نہیں کیئے جا سکتے”یہ کہتے ہیں کہ

سکتا۔

* * * * *

کچامت ایک فوق العادت قوت ہے جو ولیوں میں ظہوچپزیچ ہوتی ہے اوچ جو پیغمبچوں کے معجزوں اوچ ان کی پیغمبچی کی تائید کا وسیلہ بنتی ہے۔

* * * * *

کچامت ایک خدائی تحفہ ہے جو وہ دوستان حق پیش کچتے ہیں جو پیغمبچ ہونے کا دعوی نہیں کچ تے اوچجسے صچف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو انسان کو سمجھ سکتے ہیں ۔

* * * * *

ہللا سے محبت کچنے اوچ ہللا کی طچف سے محبت کئے جانے کا مقام ہے۔ ہللا اپنے دچ کے ان ‘ والیتبندگان صادق کو ایسے ایسے لطف و احسانات سے نوازتا ہے جو کسی کی عقل یا خیال میں بھی نہیں سما سکتے۔ان احسانات کو ہللا جس طچح اہے عوام کے سامنے ظاہچ کچ دے اوچ جس طچح

خود ان ‘ اہے صدف کے اندچ پوشیدہ موتیوں کی طچح آخچی منزل کے اختتام تک پوشیدہ چکھے سے بھی اوچ دوسچوں سے بھی۔

* * * * *

اوچ سمجھ کی سطح سے بہت بلندسطح کے تحائف کے مستحق بلند ‘ ادچاک‘ عام انسانوں کی حسقامت لوگ ایک لحاظ سے پیغمبچی کی حقیقت کے سائے کی نمائندگی کچتے ہیں ۔ ان کے اوچ عام انسانوں کے مابین فاصلے بھی اسی لحاظ سے کم یا زیادہ ہوتے ہیں ۔

* * * * *

ولی کے معنی ہیں صاحب حکمت۔ حکمت فلسفے سے جتنی بلند تچ ہوتی ہے ولی بھی فلسفیوں سے اتنا ہی بلندتچ ہوتا ہے۔یہاں تک کہ ان کی اس بلندی کا تخمینہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔

Page 47: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

خواب

خواب ان مشاہدات پچ مشتمل ہوتے ہیں جو عالم حقیقت کی جانب کھلنے والی جو ماضی میں پیش آ کے ہیں یا مستقبل میں پیش آئیں )کھڑکیوں میں سے نظچ آنے والے واقعات

‘ کے ہوبہو یا بعض حاالت میں مختلف اشاچات کے ذچیعے سامنے آتے ہیں ۔ انسان کا ذہن (گےاوچپیش بینی سے جس قدچ دوچ ہوتا ہے اتنا ہی اس کا ہچ خواب ماوچا الحیات ؤمختلف قسم کے دبا

ایک اشاچے کی طچح اس کے آگے پھیلے ہوئے اندھیچوں کو چوشن کچ ‘ سے آنے والی ایک چوشنی کے اسے چاہ دکھا سکتا ہے۔

* * * * *

دکھائی دینے والی ‘ مادے اوچ چوشنی کی ضچوچت محسوس کئے بغیچ‘خوابوں میں آنکھوں اشیاءبصیچت اوچ چوح کے ادچاک کے ذچیعے محسوس کی جا سکتی ہیں ۔ لہذا اکثچ اوقات خواب انسان کو ایسی خوبصوچت اوچ وسیع پیمانے کی اشیاءدکھا سکتے ہیں جنہیں وہ ہوش کی حالت میں

آج ‘ سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس طچح کی مثالوں کی کوئی کمی نہیں جن میں صچف ایک ہی خواب کلاوچ مستقبل کے متعلق اس قدچ وسیع معلومات فچاہم کچ دیتا ہے کہ ان کا بیان کئی کتابوں میں بھی نہیں سما سکتا۔

* * * * *

وہ لوگ جنہوں نے کبھی خواب نہ دیکھا ہو ان کی تعداد نہ ہونے کے بچابچ ہے۔ اس اعتباچ سے بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ خواب چوح کا طبعی مشاہدہ ہے۔ اس مشاہدے کے ذچیعے انسان عموماجسمانی حدود سے باہچ چہتے ہوئے ایک مکمل طوچ پچ علیحدہ بعد میں زندہ چہت ہے جہاں اس کی چسائی خداجانے قدچت کے کتنے چازوں تک ہوسکتی ہے ۔

* * * * *

ایک ہی قسم کے خواب نظچ آنا اس قدچ عام ہے کہ اگچ ہچ شخص اپنے دیکھے ہوئے خوابوں کی محض تعبیچ بتانے والوں کی توثیق کچ سکتا تو اسی سے کتابوں کی جلدوں کی جلدیں معچض وجود میں آ جاتیں ۔

* * * * *

ہچ پاک و صاف دل کی استعداد کے مطابق عالم ماوچا سے سچک کچ انسان کے مشاہدے کے افق پچ اوچ ایک گالب کے باا ‘ اتچ آنے والے کس قدچ خواب ہیں کہ جن میں داخل ہو کچ دل سیاحت کچتا ہے

جیسے ان خوابوں کے باغوں میں بہتے کوثچ کے شموں تک پہنچ کچ جی بھچ کچ اپنی پیاس بجھاتا ابدیت میں کھلنے والے اس مخفی چاستے میں ایسے ایسے مناظچ کا مشاہدہ کچ کے آپے سے ‘ ہے

Page 48: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

اوچ جن ‘ باہچ ہو جاتا ہے جنہیں نہ کبھی کسی کی آنکھوں نے دیکھا اوچ نہ کسی کے کانوں نے سنا کا تصوچ کچنے سے بھی چوح عاجز ہوجاتی ہے۔

* * * * *

خوابوں ہی کی بدولت ہم قلب اوچ بصیچت جیسی اپنی دو الگ الگ صالحیتوں کی موجودگی کا ادچاک کچتے ہیں اوچ جسمانی بعود ثالثہ کی قید اوچ جیل خانے سے آزاد ہوجاتے ہیں ۔ دچاصل وہ بلند

انہیں ماوچاالحیات کے مشاہدے کے لئیے خوابوں ‘چوحیں جو حقیقت کے ساتھ یک جان ہو کی ہوں کی کوئی ضچوچت نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ ہچ وقت اس دنیااوچ اس عالم کو ایک ساتھ دیکھتے ہیں اوچ ابدیت کی خوبصوچتیوں کے ہمچاہ مست و مخموچ زندگی بسچ کچتے ہیں ۔البتہ یہ بات ضچوچ ہے کہ یہ دچہچ ایک کے لیے کھال نہیں ہوتااوچ جن کے لیے کھال ہوتا ہے ان کے لیے بھی نہایت سنجیدہ جہاد اوچ چوحانی تجچبات کے بعد کھلتا ہے۔

* * * * *

بعض لوگ انسانی ذہن کو گندگی کے ایک ایسے ڈھیچ کی طچح سمجھتے ہیں جس میں حقیچ تچین اشیاءایک دوسچی میں گھل مل کچ مغلوبہ بن کی ہوں یا اس موضوع پچ اپنی تحقیقات کو حیوانی

اوچ خوابوں کو محض تحت الشعوچ میں چنگ ‘ ں میں ڈھونڈتے پھچتے ہیں ؤاحساسات کی مبہم دنیا چلیاں منانے والے جن بھوتوں کے ایک کاچچوان کی شکل میں دیکھتے اوچ دوسچوں کو دکھاتے ہیں ۔حاالنکہ خواب ہزاچوں الہاموں کا واضح سچ شمہ بنتے لے آ چہے ہیں ۔ ہزاچوں موجد اوچ یاچان حق ایسے ہیں جنہیں ان کا پہال الہام خوابوں ہی میں مال تھا۔یہ موخچالذکچ لوگ ہمیشہ عالم چویا کے اس فیاض اوچ با بچکت ماحول کے شکچگزاچ چہیں گے۔

* * * * *

وہ معچفت کے سمندچوں میں خوابوں کے ‘ جس چوح معظم نے دنیا کو چوشنی میں ڈبویا ہوا ہےبادبان کھولے گھومتے پھچتے ہوئے بھی جگہ جگہ اس پہلی مباچک سیڑھی کی طچف لوٹ کچ اس

جو پیغمبچی کے الیس سے ‘ کی سیاحت کو جاتے چہے (یعنی خوابوں کی دنیا )مباچک نچسچی۔زائدشعبوں میں سے ایک شعبہ ہے

Page 49: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

عشق

چحمت ابدی کی طچف سے اوالد آدم کو عطا کی جانے والی سب سے ‘ عشقایک تخم کی صوچت میں موجود ‘ خفیہ نوازشوں میں سے ایک ہے۔یہ تقچیبا ہچ فچد میں ایک مچکز

پھولوں کی ‘ ہوتا ہے۔مساعد شچائط کی حد تک یہ ت خم دچختوں کی طچح شاخیں اوچٹہنیاں نکالتا ہےطچح کھلتا ہے اوچ پھلوں کی طچح ابتدا اوچ انتہا کو ایک نقطے پچ ال کچ حلقہ تکمیل کو مکمل کچتا ہے۔

* * * * *

کانوں اوچقلب کے چاستے ایک احساس کی طچح بہتا ہوا انسان کی باطنی دنیامیں ‘ آنکھوں ‘ عشقایک گلیشیئچ ‘ پہنچ جاتا ہے اوچ وصال ہونے تک ایک دچیائی بند کے پانی کی طچح ڑھتا چہتا ہے

اوچ ایک شعلے کی طچح انسان کے ہچ پہلوکو اپنی لپیٹ میں لیتا جاتا ‘کی طچح بڑا ہوتا چہتا ہے‘ ہے۔جب عشق وصال کے نقطے تک پہنچ جاتا ہے توہچ شے ساکن اوچ مدھم ہونا شچوع ہو جاتی ہے

اوچ گلیشیئچ بھی پگھل پگھل کچ نا پید ہو جاتا ہے۔‘ ڈیم خالی ہو جاتا ہے‘ آگ بجھ جاتی ہے

* * * * *

عشق جو پیدائش کے وقت سے ہی ایک مچکز اوچ معنی کی شکل میں تقچیبا ہچ انسان کی چوح کا اسے اپنا حقیقی لہجہ اوچ چنگ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ اپنے آپ کو ‘ ایک اہم پہلو ہوتا ہے

میں تبدیل کچ لیتا ہے۔یہ لہجہ اوچ چنگ ملنے کے بعد وہ ابدیت حاصل (یعنی عشق الہی)حقیقی عشق کچ لیتا ہے اوچ وصال کی دہلیز پچ پہنچ کچ خود کو ایک پاک و صاف لذت میں تبدیل کچ لیتا ہے۔

* * * * *

اوالد آدم کے لیے تجلیات حق کے لیے کھلی چہنے والی طوچ کی وٹی دل ہے۔ دلوں کا ان تجلیات کے عشق کا مظہچ ہونے کی سب سے آشکاچ عالمت خالق اعظم کے ‘ اوچان کے وسیلے سے ہللا ہلالج لج

لیے انسان کا وہ عشق اوچ اشتیاق ہے جو اس کے سینے میں پنہاں ہوتا ہے۔

* * * * *

نزدیک تچین اوچ سب سے ‘ انسان کو افق کامل تک پہن انے کی چاہوں میں سے سب سے یقینیچاہ عشق ہے۔جوچاہیں عشق اوچ اشتیاق کے لیے کھلی نہ ہوں ان کے ذچیعے اس افق ‘ صحتمند چاہ

عجز ”کامل تک پہن نا خاصہ مشکل کام ہے۔ نا ہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت تک چسائی کے لیے کی چاہ کے عالوہ چاہ عشق جیسی دوسچی کوئی اوچ چاہ نہیں ہے۔“ شوق و شکچ‘ و فقچ

* * * * *

Page 50: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

عشق وہ بچاق ہے جو جناب حق تعالی نے ہمیں جنت گم گشتہ کو تالش کچنے کا چاستہ طے کچنے کے لیے عطا کی ہے۔ اوچ یہ وہ بچاق ہے جس کے سواچوں میں سے آج تک کوئی بھی ایسا نہیں ہو ا جو چاستے ہی میں چہ گیا ہو۔البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس سماوی بچاق کی پیٹھ پچ سواچلوگو ں

پیدل لتے عیاشی اوچ نشے میں مدہو ش لوگوں کا دکھائی دینا بھی “ سڑک کے کناچے کناچے”کو بعیدازقیاس نہیں ہے۔ لیکن اس معاملے کا تعلق تمام تچ ان کے اوچ حق تعالی کے باہمی تعلقات کے معیاچ سے ہے۔

* * * * *

عشق ونکہ انسان کو مکمل طوچ پچ جال کچ چاکھ کچ دیتا ہے اس لیے آئندہ اسے نہ اس دنیا کی آگ کے شعلے جال سکیں گے اوچ نہ ہی عقبی کی ناچ جہنم۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دو سالمتیاں اوچ دو

دو اشتیاق اوچ دو اضطچاب ایک ہی وقت میں ایک ہی انسان میں نہیں پائے جا سکتے۔اس ‘ خوف‘ ساچی زندگی میں اپنا سینہ عشق کی آگ کے سامنے کھال چکھنے والے‘ بنیادی اصول کے مطابق

اپنی باطنی دنیا میں جہنم کی آگ سے مقابلہ کچنے والے لوگوں کا اسی اضطچاب اوچ اسی الم میں دوباچہ زندگی گزاچنا بعیداز عقل ہے۔۔۔

* * * * *

انسان کو اپنی ہستی بھال کچ اپنے محبوب کی ہستی سے یک جان کچ دیتا ہے۔انسان کے دل کو ‘ عشقاسی کی آچزو اوچ خواہش میں پگھل ‘ کسی غچض اوچ بدلے کے بغیچمحض معشوق کا طالب بنا دینا

کچ ختم ہو جاناہی عشق کا عنوان ہے۔اوچ میچے خیال میں انسان ہونے کا مقصد بھی تو یہی ہے۔

مسلک عشق کے مطابق عاشق کی آنکھوں میں دوسچے خیاالت کا دچآنا حچام ہے اوچ اس حچام پچ عمل دچآمدکچنا عشق کی موت ہے۔ عشق کی زندگی اس وقت اوچ حد تک باقی چہتی ہے جب تک

اس کے حسن ‘ عاشق کو اپنے اچد گچد سنی جانے والی باتوں میں محبوب کا نام اوچاس کے عنواناوچ اس کے کماالت کی داستانیں سنائی دیتی چہتی ہیں ۔بصوچت دیگچ عشق بجھ کچناپید ‘ کی خوبیاں

ہو جاتا ہے۔۔۔۔

* * * * *

عاشق کسی بھی معاملے میں معشوق کی مخالفت کے باچے میں نہ سو تا ہے اوچ نہ سوچ سکتا ہے۔وہ خاص طوچ پچ یہ تو کسی حال میں نہیں اہتا کہ کوئی شے اس کے محبوب پچ سائے کی طچح ھا جائے یا خود سامنے آ کچ اس کی یاد بھالنے کی کوشش کچے۔یہاں تک کہ وہ تمام ایسے الفاظ کو بے فائدہ اوچ عبس قچاچ دیتا ہے جن میں اس کے محبوب کا ذکچ نہ ہو۔وہ اپنے محبوب سے غیچ متعلقہ ہچ کام کو محبوب کے خالف حچام خوچی اوچ بے وفائی سمجھتا ہے۔

* * * * *

‘ احساسات کی اغیاچ سے تطہیچ‘ اچادے کی چغبت‘عشق ایک ایسی حالت ہے جس میں دل کا چشتہاوچ انسان کے احساسات کاتعلق معشوق کے خوابوں اوچ تصوچات کے عالوہ کسی دوسچی یز سے ‘ نہیں ہوتا۔ اس حالت میں عاشق کی ہچ حچکت میں معشوق کے باچے میں ایک معنی مک اٹھتا ہے

اس کی زبان ہچ وقت محبوب ہی کا نام گنگناتی ‘اس کا دل معشوق کے اشتیاق کے ساتھ دھڑکتا ہے اوچ اس کی آنکھیں اسی کے خیال میں کھلتی اوچ بند ہوتی ہیں ۔‘ چہتی ہے

Page 51: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

‘ یختے التے جنگل میں ‘ں میں ؤآبشاچیں بناتے دچیا‘ بچستی باچش میں ‘ لتی آندھی میں ‘ عاشقچوشن ہوتی صبح اوچ سیاہی کی طچف مائل چات میں ہمیشہ اپنے دوست کی خوشبو سونگھ کچ نئی

ہوا ‘ اپنے ماحول میں منعکس ہوتے محبوب کے حسن کو دیکھ کچ جوش میں آتا ہے‘ زندگی پاتا ہےاوچ قدم قدم پچ ‘ کے ہچ جھونکے میں دوست کی سانسوں کو محسوس کچ کے لطف اندوز ہوتا ہے

محبوب کے مظالم کو محسوس کچکے آہیں بھچتا ہے۔۔۔

* * * * *

شفق پچ اپنے معشوق کے آثاچ دیکھ کچ نیند سے جاگنے والے عاشق اپنے لبوں پچ گہچا سچخ خون اوچ اپنے سینوں میں آگ کے شعلوں کا ایک طوفان دیکھتے ہیں اوچ اپنے آپ کو آگ کے ایک دائچے میں گھچا ہوا پاتے ہیں ۔ وہ ایک مچتبہ بھی اس پچ لذت جہنم سے باہچ نہیں نکلنا اہتے۔

* * * * *

یہ خیال کچنا کہ س ا عشق فاسق لوگوں کی شہوانی محبت پچ مشتمل ہوتا ہے ایک غلطی اوچ نادانستگی کی عالمت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات مجازی عشق بھی حقیقی عشق میں تبدیل ہو جا تے ہیں لیکن اس کا کسی حال میں بھی یہ مطلب نہیں نکلتا کہ مجازی عشق کی بھی کوئی قدچوقیمت ہوتی ہے۔ اس کے بچعکس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس قسم کے عشق میں

اوچ یہ ابدیت کا اظہاچنہیں کچتا۔‘ خامیاں بھی ہیں اوچقصوچبھی

* * * * *

س ے عاشق جس عشق میں مبتال ہوتے ہیں اس کی تپش کے باعث ان کی باطنی دنیا ہمیشہ ایک آتش فشاں پہاڑ کی طچح دھوئیں میں اٹی چہتی ہے اوچ بچی طچح کچاہتی چہتی ہے۔جو لوگ انہیں کچاہتا سن کچ نتیجہ نکال سکتے ہیں ان کے مطابق ان عشاق کی ہچ آہ ان کے سینوں سے پھوٹ کچ نکلنے واال ایک ایسا الوا ہوتی ہے جو ہچ جگہ کو آگ لگا کچ تباہ کچتا ہے اوچ جدھچ جدھچ جاتا ہے ادھچ ہی توڑ پھوڑ کچتا اوچ آگ لگاتا جاتا ہے۔

* * * * *

عشق کو الفاظ میں بیان کچنا خاصا مشکل بلکہ ناممکن کام ہے۔یہی وجہ ہے کہ عشق کے نام پچ بیان کی گئی باتوں کے ایک بڑے حصے میں اس کے سطحی اثچات کو بیان کچنے کے سوا ک ھ بھی نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عشق ایک حالت کا نام ہے اوچ اسے بیان کچنے والی زبان خود عاشق ہے۔

* * * * *

‘ عاشق ایک ایسا سچمست انسان ہے جو حق تعالی کی محبت کو اپنا دین بنا کچ اپنی زندگی کو حیچتاستعجاب اوچ اپنے محبوب کی تعچیفوں کے احساسات سے سجا چکھتا ہے اوچ جو قیامت کا صوچ پھونکے جانے پچ شاید ہی ہوش میں آ سکے۔

* * * * *

Page 52: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

عاشق ایک فواچے کی طچح ہے جو ہمیشہ اپنے ہی اندچ سے پھوٹتا چہتا ہے۔

* * * * *

دکھ دچد میں اٹھنے بیٹھنے والی چوحوں کے اضطچا چکی آگ ‘ فانی ہونے کے دکھ کو کم کچنے والی سالہا سال سے ! کو ٹھنڈا کچنے والی صچف ایک ہی شے ہے اوچ وہ ہے حقیقی عشق ۔ جی ہاں

‘ ہماچے خوف اوچ اندیشوں کا ‘ ہماچے دچدوں کا اوچ ان بیماچیوں کا جنہیں ہم ال عالج سمجھتے ہیں ہماچی الجھنوں اوچ بحچانوں کا واحد دچمان اوچیکتا عالج محض عشق ہے۔

* * * * *

علم و عچفان اوچ ہماچی مچوجہ ثقافت کے ذچیعے نسل انسانی کے احیاءکی کوششیں تو کی جا چہی کی نگاچیاں نہیں ھڑکتے (الہی)عشق ‘ ہیں مگچجب تک ہم لوگوں کے دلوں پچ خواہ کم ہی سہی

تب تک یہ کوششیں نا کافی اوچ ناقص ہی چہیں گی اوچ کسی صوچت میں بھی ان کی مادیت کوزیچ نہیں کچ سکیں گی۔

Page 53: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

عوچت

امن اوچ آہنگ کے زاویہءنگاہ سے عوچت مکتب ‘ گھچ کے نظام‘ ب وں کی تعلیم و تچبیتہماچا ‘ انسانیت کی سب سے پہلی استاد ہے۔ آج کل جب کہ عوچت کے لیے نئے نئے مقام تالش کیئے جا چہے ہیں

خیال ہے کہ اگچ ہم ایک باچ پھچ دست قدچت کے عوچت کو عطا کچدہ اس مستثنے مقام کی یاد تازہ کچا دیں توشاید ایسی تالش بے جا کو چوک سکیں ۔

* * * * *

مہذب اوچ اپنے گھچ میں گہچی دل سپی لینے والی عوچت موجود ہو وہ جنت کے گوشوں ‘جس گھچ میں غیچ ت مندمیں سے ایک گوشہ ہوتا ہے۔ اس گھچ سے سنی جانے والی آوازیں اوچ سانس حوچوں اوچ غلمانوں کے نغموں اوچ کوثچ کے بہتے پانی کی آواز کی طچح ہوتی ہیں ۔ ان سب میں کوئی فچق نہیں ہوتا۔

* * * * *

نہ جانے یہ عوچت ”: بعض اوقات انسان ظاہچی زینت تلے پسی ہوئی کسی عوچت کو دیکھ کچ اپنے دل میں سو تا ہےعفت اوچ فضیلت جیسی اندچونی زینت کو بھی کوئی اہمیت دیتی ہوگی یا نہیں ؟‘ناموس “

* * * * *

عفت اوچ ‘عوچت کو فچشتوں سے زیادہ علوی اوچ نادچ الما س کی طچح بنانے والی خوبیاں اس کی اندچونی گہچائیوقاچ ہیں ۔جس عوچت کی عفت کے باچے میں باتیں کی جاتی ہوں وہ ایک جعلی سکے کی مانند ہوتی ہے۔اگچ وہ بے وقاچ ہو گی تو مذاق کا موضوع بننے والی ایک پتلی کی طچح ہو گی۔ اس قماش کی عوچتوں کے جان لیوا ماحول میں نہ تو صحتمند گھچانے کی اوچ نہ ہی صحتمند نسلوں کی بات کچنا ممکن ہے۔

* * * * *

ایک عوچت جسے اپنے باطن کے ذچیعے فضیلت کا احساس ہوا ہو وہ اپنے گھچ میں ایک بلوچ کے فانوس کی طچح ہوتی ہے۔ا س کی ہچ حچکت سے گھچ کے اچوں گوشوں میں چوشنیاں بکھچنے لگتی ہیں ۔ جہاں تک عوچت کے

اپنی چوح کی دنیا میں اندھیچے خیاالت کے سپچد ‘ لباس میں ملبوس اس بد نصیب عوچت کاتعلق ہے جو اپنے آپ کوتو وہ دھند اوچ دھوئیں کا ایک ایسا سچ شمہ ہوتی ہے جو جس جگہ سے گزچتا ہے اسے گندا کچ جاتا ‘ کچ کی ہو

ہے۔

* * * * *

اجتماعی تچبیت کی کتاب وہ واحد کتاب ہے جسے عوچت کو اہیے کہ ہاتھ سے ھوڑے بغیچ ہچ وقت پڑھتی چہے۔ اس کے باچے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کتاب پوچی کی پوچی تحچیچ کی جا کی ہے۔

* * * * *

Page 54: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

عوچت کی عقل ھوٹی ”اپنے آپ کو نفسانی ہوس کے سپچد کچنے والی عوچتوں کو دیکھ کچ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ۔میں ایسے لوگوں کو عقل کے اندھے سمجھتا ہوں ۔ میچا خیال ہے کہ اگچ یہ بات کہنے والے لوگ آج کی “ہوتی ہے

عوچت کو اشتہاچات کا موضوع بنتا دیکھ لیتے تو انہیں ک ھ کہنے کی ضچوچت ہی محسوس نہ ہوتی۔

* * * * *

عوچت کے ہاتھ میں سوئی ایسے ہوتی ہے جیسے مجاہد کے ہاتھ میں ” پچانے زمانے کے لوگ کہا کچتے تھے کہ ۔ سچ پو ھیں تو مجھے ان الفاظ میں ذچہ بھچ بھی مبالغہ دکھائی نہیں دیتا۔“نیزہ

* * * * *

موضوع ‘ ماضی میں ایسے ادواچ کی کسی طوچ پچ کمی نہیں چہی جن میں عوچتوں کو دوسچوں کے لیے متاع ذوقاوچ اشتہاچی مواد بنایاجاتا چہا ہے۔شکچ ہے خدا کا کہ ان تمام بد نصیب ادواچ میں آج تک ہمیشہ اس بات کی ‘ عیاشی

ابتداءہی کی جاتی چہی ہے کہ عوچت کو دوباچہ زندہ کچ کے اسے ایک نئی شکل دی جائے اوچ اس کی حقیقت معلوم کی جائے۔

* * * * *

یعنی ہیتی یا ہیتا کے “ آنکھ کی پتلی”کہا جاتا تھا کیونکہ یہ الفاظ “ کچیمہ”اوچ بیٹی کو “ مخدوم”کبھی بیٹے کو ہم معنی ہیں ۔ ان معنوں میں یہ الفاظ ایک نہایت قیمتی انسانی عضو کو اس کی پوچی اہمیت کے ساتھ بیان کچتے ہیں ۔

اوچ جتنا الزم ہے اتنا ہی نازک تچین بھی ہے۔‘ اوچ یہ عضو جتنا قیمتی ہے اتنا ہی الزم بھی ہے

* * * * *

۔ نہ معلوم ہم اس کہاوت سے یہ اندازہ کچ سکتے ہیں یا نہیں ؤ“اپنے لہنگے کو گچد اوچ کی ڑ سے ب ا”ہم کہتے ہیں کہ ایک ہیتی عوچت کو کتنی حفاظت کی ضچوچت ہے اوچ اسے کس حد تک کنٹچول میں چکھا جانا ضچوچی ہوتا ہے۔

* * * * *

جس طچح ایک با فضیلت عوچت کی زینت اوچ سنگھاچ اس کی عفت اوچ ناموس ہوتے ہیں اسی طچح اس کا سب سے زیادہ قابل ستائش اوچ حیچان کن پہلو اجتماعی تچبیت اوچ اپنے خاوند سے صداقت ہے۔

* * * * *

اوچ طچز عمل میں ہچ شخص کی ‘ چوح میں نفاست اوچ لطافت ہو‘ ا ھی عوچت وہ ہے جس کے منہ میں حکمت ہوں کا احساس ؤعزت اوچ حچمت کی تلقین کچنا دکھائی دے ۔ ایسی عوچت کہ آشنا نگاہیں بھی اس کے ان مقدس پہلو

کچتے ہوئے اپنے اندچ بشچی کمزوچیوں کے باعث پیدا شدہ گدلے پن کو اپنی مالمت اوچ مچاقبے میں تبدیل کچ لےں ۔

* * * * *

اپنی جسمانی زندگی کے ساتھ نشوونما پاتی ہوئی ایک عوچت پچ اگچ اپنے دل اوچ چوح کی کونپلوں کا انکشاف نہیں توباوجود اس کے کہ اس کے ذہن میں ایک مخصوص عچصے کے لیے پھول گھومتے پھچتے چہے ہوں وہ ک ھ ‘ہوتا

ں تلے چوندے جا نے سے ہچ گز نہیں بچ سکتی ۔ ابدیت ؤاوچ پھچ پا‘ ہی عچصے کے بعد مچجھا کچپتہ پتہ ہو جانے !کی چاہ نہ پا سکنے والے لوگوں کی یہ عاقبت کس قدچ حزین ہے

* * * * *

عوچت ایک ایسا قیمتی ہیچا ہے جس کے ساتھ تغافل بچتتے ہوئے اسے گندی نالی میں نہیں پھینکا جا سکتا۔ ہم نے فی الحال اس امید کو ہاتھ سے نہیں جانے دیاکہ آنے والی خوش قسمت نسلیں جو علم و عچفان اوچ حقیقت کی اہمیت

وہ عوچت کو اپنی آنکھ کی پتلی کی طچح عزیز جانیں گی۔‘ سمجھ کچبیداچ ہو کی ہیں

Page 55: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

ہماچی عوچت ہماچے قومی شچف اوچ ہماچی نجات کا بھی ا یک بے عیب بنیادی پتھچ ہے ۔ہماچی بے حد لمبی اوچ شانداچ ماضی کی ساخت میں اس کا حصہ کسی طوچ بھی ان مجاہدوں سے کم نہیں ہے جو د شمنوں سے نبچد آزما چ ہتے ہیں ۔

* * * * *

نسوانی د نیا کے حقوق اوچ حچیت کے دا عیوں کی ا کثچیت عوچتوں کو ان کی جسمانی لذتوں کے نام پچ جو ش دال نے اوچ ان کی چوحوں میں خنجچ گھونپنے کے سوا ک ھ نہیں کچ چہی۔

* * * * *

جو عوچت چوح کی پختگی کی حد تک پہنچ کی ہو اس کی پال پوس کچ پی ھے ھوڑی ہوئی نیک اوالد کے وسیلے سے اس کاگھچ ایک ہمیشہ جلنے والے بخوچدان کی طچح دھواں ھوڑتا ہے جو ہچ طچف دلوں کو ہشاش بشاش کچنے والی خوشبو بکھیچتا ہے۔ تویہ اخچوی مکان جس میں خوشبوئیں اڑتی چہتی ہیں ہچ قسم کی تعچیف و توصیف

مکمل طوچ پچ جنت کا ایک باغی ہ ہے۔‘ سے باال تچ

* * * * *

اوچ اپنے دماا کو علم اوچ اجتماعی تچبیت کے ذچیعے منوچ کچ کی ‘ایک عوچت جو اپنے دل کو ایمان کے نوچ سے یوں جیسے وہ ہچچوز نئے سچے سے ‘ ہے وہ اپنے گھچ میں خوبصوچتی کی نئی نئی ابعاد کا اضافہ کچتی چہتی ہے

اپنا مکان بنا چہی ہو ۔ جہاں تک بد لن او چخودناشناس لوگوں کا تعلق ہے تو وہ اپنے موجودہ گھچوں کو بھی توڑ پھوڑ کچ کھنڈچوں میں اوچ مایوس کن ماحول سے قبچوں میں تبدیل کچتے چہتے ہیں ۔

* * * * *

جس طچح عوچت ایک گندے بچتن یا کسی مفت کی دھات کے ٹکڑے کی طچح نہیں ہوتی اسی طچح اس کا مقام بھی وہ نہیں ہے جو گندے بچتنوں یا دھات کے ٹکڑوں کا ہوتا ہے۔ وہ ایک بے مثال مکداچ ہیچا ہے جسے ہچ حالت میں صدف جڑے ڈبوں میں حفاظت سے چکھنا اہئیے۔

* * * * *

اوچ حساسیت کے لحاظ سے عوچت کا ایک مستثنی مقام ہے۔ ان خصوصیات کے ساتھ وہ جب تک اپنی ‘ لطافت‘نفاستفطچت اوچ اپنے مزاج کی حدود کے اندچ چہتی ہے صچف اس وقت تک اپنے گھچ کے لیے اوچ یوں اپنے معاشچے کے لیے بھی فائدہ مندہو سکتی ہے

* * * * *

آج تک حقوق نسواں کے داعیوں کی طچف سے عوچت کے نام پچ پیش کی گئی ہچ تجویز ایسی چہی ہے جس میں اوچ اس کی ہیت کو بگاڑ کچ پیش کیا گیا ہے۔حاالنکہ عوچت ہستی کی زنجیچ کا ‘ حقیچ کیا گیا‘ اسے اجڈگنواچ بنایا گیا

اک نہایت اہم حلقہ ہے اوچاس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس کی فطچت اوچ مزاج کی حدود کو عزت کی نگاہ سے ۔دیکھا جاتا چہے

Page 56: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

فطچت

‘ ان کی خصوصیات ‘(کائنات)عام معنوں میں فطچت سے مچاد ہے تمام موجوداتاوچ تخلیق سے اب تک ان میں پائی جانے والی امتیازی صفات۔ انسان کے معاملے میں فطچت کے

اوچ ال لن ہے۔ فطچت کو جن معنوں میں بھی لیا جائے یہ قدچت المنتہی ‘ مزاج‘معنی اس کی عاداتاوچ اس ‘کے اپنے ہاتھوں سے بنی ہوئی ایک جھالچ ہے۔ یہ خالق قوی کے ہاتھوں میں ایک قانون

بے شعوچ اوچ ‘کی حکمتوں کے گن گاتی ایک کتاب ہے۔فطچت بھی بالکل مادے کی طچح بے حساوچ ‘ادچاک سے عاچی ہے۔ اس اعتباچ سے وہ اپنی گود میں ہچ چوز پیدا ہونے والی ان گنت تخلیقات

اچادے اوچ علمی پالنوں کی ضچوچت مند تمام موجودات کی زبان سے ال ال کچ اپنی عاجزی ‘ شعوچاوچ عقل ‘ محتشم قدچت‘ اوچ تہی دامنی کا اظہاچ کچ چہی ہے۔ یعنی وہ اپنی کمچ کے بوجھ علمی ماحول

کو شل کچ دینے والے اچادے کا بآواز بلند اعالن کچ چہی ہے۔

* * * * *

ونکہ فطچت مادے کی تمام خصوصیات اوچ تخلیق سے لے کچ آج تک تمام موجودات میں پائی لہذا اسے مادے پچ اولیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ نان ہ ہستی اوچ ‘ جانے والی صفات کے متچادف ہے

حوادث کو فطچت پچ منحصچ دکھانا فطچت کے وسےلے سے ان کی وضاحت کچنا دھوکہ بازی کے سوا ک ھ بھی نہیں ۔

* * * * *

موجودہ زمانے میں طبعی علوم سے کم سے کم تعلق چکھنے والے لوگ بھی بڑی ا ھی طچح جانتے ہیں کہ فطچت ایک اندھی اوچ بہچی قوت پچ مشتمل ہے اوچوہ کسی قسم کی کوئی بھی یز پیدا نہیں کچ سکتی۔جب معاملہ یوں ہو تو پھچ فطچت کو تخلیقی قوت کا مقام دینے کی کوشش کچنا کفچانہ تعصب کے سوا ک ھ نہیں ہو سکتا۔

* * * * *

جب فطچت کی ماہیت کا بالکل واضح طوچ پچ پتہ ل کا ہے تو اسے اس کی حقیقت سے مختلف علوم کے ساتھ ‘ شکل میں دکھا کچانسانی نسلوں کے آگے ایک تخلیقی قوت کے طوچ پچ پیش کچنا

جھگڑا کچنے کے متچادف ہے۔ اوچ یہ ان تمام آثاچ قدیمہ کی حقاچت سمجھا جاتا ہے جوساچی دنیا اوچ جن میں سے ہچ ایک بذات خود فن کا ایک نمونہ ہے۔‘ میں نمائشوں میں چکھے گئے ہیں

* * * * *

قدچت ”بذات خود ہستی ہی پچ مشتمل ہوتی تو جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ (یعنی قدچت)فچض کچیں فطچتنہ جانے انہیں اس بات کا احساس ہے یا نہیں کہ وہ ان الفاظ میں یہ کہہ چہے ہوتے ہیں “ نے پیدا کیا

Page 57: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

سے ان کا “قدچت”یا“ فطچت”۔ لیکن اگچ لفظ “قدچت نے خود اپنے آپ کوپیدا کیا ہے”کہنظم و ضبط جیسی یزیں ہوتی ہیں تو پھچ کیاان کے لیے اس بات کی ‘ قانون‘کچداچ‘مزاج‘مقصدعادت

وضاحت کچنا ضچوچی نہیں ہے کہ بھالفطچت ان اشیاءاوچ حوادث کو کیسے پیدا کچ کے نظم و ضبط کے تحت ال سکتی ہے جو خود اسی کے گہواچے اوچ کاچگاہ کا کچداچ ادا کچتے ہیں ؟

Page 58: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

بصیچت

تجچبے اوچ نوچ فچاست کی مدد سے مشاہدہ کچ کے محسوس کچنے اوچ ‘ علمکسی یز کوسمجھ لینے کے بعد اس کی قدچوقیمت کاتخمینہ لگانے کے بنیادی عناصچ کا جامع اوچ مفصل ادچاک بصیچت کہالتا ہے۔اس لحاظ سے سمجھ لیں کہ صاحب بصیچت انسان اگچعالم باال کے

قہچمان معنویات ثابت ہو سکتا ہے جس نے ‘تو وہ ایک ایسا بندہ حقیقت‘ باچے میں بھی کشادہ دل ہو انسان کامل بننے کا مصمم اچادہ کچ چکھا ہے۔

* * * * *

عقل علم کا ایک اہم منبع ہے جبکہ بصیچت ثقافت کا ایک حقیقی سچ شمہ ہے۔ جس شخص میں عقل تو ہو مگچ بصیچت نہ ہواوچ وہ بہت ک ھ جانتا اوچ بہت ک ھ سمجھتا ہو پھچ بھی اس کے لیے اس علم کے بل بوتے پچ کسی مقام پچ پہن نا نہایت دشواچ بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔

* * * * *

سمجھنے کا نام ہے (یا اصلیت کے قچیب قچیب)اگچ بصیچت کسی یز کو اس کی اصلیت کے مطابق تو بھی ہچ صاحب عقل انسان کا صاحب بصیچت ہونا ضچوچی نہیں ہو سکت

* * * * *

اوچ تذبذب دکھائی دیتے ہیں ۔ اس کے ‘ تچدد‘جس عقل کے ساتھ بصیچت نہ ہو اس میں اکثچ شبہاتاچادے کی پختگی اوچ احساس حفظ و امان ‘ نچمی‘گچمجوشی‘مقابلے میں بصیچت کی دنیاہمیشہ اعتدال

میں ڈوبی چہتی ہے۔

* * * * *

عقل و فکچ ذہن کی سب سے آخچی حد فہم ہے جبکہ بصیچت چوح کی اولین منزل ادچاک ہے۔بصیچت کی وٹی حکمت ہے کہ جس کے باچے میں قچآن کچیم یہ کہہ کچ اس حقیقت کو نظچوں کے سامنے

جسے حکمت عطا کی گئی ہو سمجھ لو کے بے شک وہ بہت سی نیکیوں تک پہن ا ”لے آیا ہے کہ۔.دیا گیا ہے “

* * * * *

وہ لوگ جو ہستی کومحض اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ہستی کے باچے میں ان کی فہم بھی صچف ان کی نظچ کی حد تک ہی محدود چہتی ہے۔ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بصیچت کے ذچیعے ہچ یز کا معائنہ کچتے ہوئے انتہائی باچیکی سے بال کی کھال اتاچ لیتے ہیں ۔ جیسے شہد کی مکھی

Page 59: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

پھولوں سے شہد کے ذچات اکھٹے کچتی ہے اسی طچح یہ لوگ بھی تقچیبا ہچ یز سے میٹھے میٹھے معنی نکال لیتے ہیں ۔

* * * * *

مگچ ‘ اوچ قدوقامت نظچ آتے ہیں ‘ وضع قطع‘آنکھ جن لوگوں کو دیکھتی ہے اسے ان کی شکلفضیلت اوچ چوح کی قدچوقیمت کا بھی ‘ بصیچت ان یزوں سے بھی آگے متعلقہ لوگوں کے اخالق

اندازہ لگاتی ہے۔

* * * * *

جبکہ بصیچت ان کے ‘ اشیاءاوچ حوادث کو ان کے ظاہچی اوچ مادی پہلو دیکھ کچ‘ آنکھیں غایت اوچ حکمت جیسے اندچونی پہلو دیکھ کچ پہ انتی اوچ سمجھتی ہے۔‘ فوائد‘مندچجات

* * * * *

جس طچح بصیچت سے مچاد عقل نہیں ہے اسی طچح بصیچت کا مطلب سوچ بھی نہیں ہوتا۔ جس طچح سو نا عقل اوچ عقل کے ماحصل سے بلند ہے اسی طچح بصیچت بھی سوچ سے بہت پچے ایک چبانی صالحیت ہے۔

بصیچت اوچ پھچ الہام اوچ حکمت پچ ‘ انسان کو حیوانوں سے ممتاز کچنے والی شے اس کا شعوچانہیں جس نقطے ‘ عبوچ ہے۔ ان خواص سے محچوم لوگوں کی شکل و صوچت کیسی ہی کیوں نہ ہو

پچ پہن نا اہیے وہاں نہ پہنچ سکنے والوں میں شماچ ہوتے ہیں ۔

Page 60: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

حس شعوچ

انسان کے دائچہ احساس میں داخل ہونے والی اشیاءکو ان کے ظاہچی اوچ باطنی یعنی بیچونی اوچ اندچونی معنوں کے ساتھ سمجھنے کو حس کہتے ہیں ۔ اس لحاظ ‘ خواص کے ساتھ

سے اس موضوع پچایک یا ند اشیاءکو بیک وقت سمجھ جانے والے شخص کو حساس کہاجاتا ہے۔

* * * * *

دماا کے کسی یز کو محسوس کچکے سمجھنے کو عقل کہتے ہیں جبکہ چوح کے کسی یز کو کہہ کچ تعچیف کی جائے “جاننا”سمجھنے کو وجدان یا ضمیچ کہا جاتا ہے۔ ان میں سے اول الذکچ کی

کہنا مناسب ہو گا۔ اسی ا عتباچ سے وہ لوگ جو عقل کاہل کے مالک ہیں اوچجن “حس”تو آخچالذکچ کوکا ضمیچ مچ کا ہے ان کے باچے میں یہ بات کسی حال میں بھی سو ی نہیں جا سکتی کہ انہیں ہستی کا کوئی احساس ہو گا یا ا نہیں ہستی میں وقوع پذیچ ہونے والے واقعات اوچ حاالت کا ک ھ علم ہو گا۔

* * * * *

حکمت کے نقطہءنظچ سے حس وہ وجدان یا ضمیچ ہے جو بذات خود چوح کے ادچاک کا ایک نظام ہے۔اس لحاظ سے اس کے یہ معنی ہوئے کہ بے حس انسان ایک طچح سے بے ضمیچ انسان ہوتا ہے اوچ بے ضمیچ انسان بے حس ہوتا ہے۔

* * * * *

اپنے اندچونی شعوچ کے ذچیعے ا ھے اوچ خوبصوچت کو بچے اوچ بد ‘ زیادہ واضح الفاظ میں حسصوچت سے ممیز کچنے کا نام ہے کہ اس طچیقے سے بہت سے انسانی اوصاف کا انکشاف کیا جا

جب ہم اپنے دشمن کو قید کچ لیتے ہیں تو کیا اسے ماچ دینا اہیے یا معاف کچ دینا ” سکتا ہے۔ مثال اگچ کوئی ہماچی عفت پچ دھبہ لگائے تو کیا ہمیں بھی اس کی عفت پچ دھبہ لگانا ا ”یا پھچ“ اہیے؟

ہم ان صوچتوں میں سے کسی ایک کو “ ہیئے یا اس کے ساتھ انسانیت کے ساتھ پیش آنا اہیے؟ تچجیح دیتے ہوئے ہمیشہ ان معنوں میں استعمال کی جانے والی حس کی مدد لیتے ہیں ۔

* * * * *

وہ ‘ حس کی تچبیت اوچ نشوونما حکمت کے ذچیعے ہوتی ہے۔ جہاں تک مادی فلسفے کا تعلق ہےحس کو بجھاتا اوچ کند کچتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہچ مسئلے کو لے جا کچ عقل سے وابستہ کچنے والے لوگ حس کی چوشن دنیا کو کبھی بھی پہ ان نہیں سکتے۔

* * * * *

Page 61: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

صحیح حس کے لیے بے غچض اوچ بے لوث ادچاک کی ضچوچت ہوتی ہے۔ اوچ حقیقی اوچ مکمل ادچاک حقیقی اوچ مکمل حس سے معچض وجود میں آتا ہے۔

* * * * *

بے حس اوچ بے ضمیچ لوگوں کی تمام فتوحات مکمل طوچ پچ حیوانی فتوحات ہوتی ہیں ۔ ان فتوحات میں سے ہچ فتح ذلت اوچ چسوائی کے ایک سلسلے پچ مشتمل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ باآلخچ جسمانیت

نفسانیت کے دوزخ کے سب سے گہچے گڑھے میں تبدیل ہو ‘ کے ایک خونخواچ حد تک پہن نےں کے ٹوٹ جانے اوچ ضمیچ کے نظام کے مفلوج ہو جانے پچ ختم ہوتا ہے۔ؤچوح کے ہاتھ پا‘ جانے

وطن اوچ قوم پچ نازل ہونے والی مصیبتوں کے اضطچاب اوچ دچد کو ‘ وہ لوگ جن کے ضمیچ دینوہ ایک طچح کی ایسی بلند پایہ چوحیں ہوتی ہیں جو اپنے عالم حساسیت کے ‘ محسوس کچتے ہیں

باعث خواب سے بیداچ ہو کی ہوتی ہیں ۔یہ لوگ ان علوی اقداچ کی خاطچ جنہیں وہ دل و جان سے خوشی خوشی اپنی جان تک قچبان کچنے سے بھی دچیغ نہیں کچتے۔ جہاں تک بے حس ‘ اہتے ہیں

ان ‘ اوچ بے شعوچ لوگوں کا تعلق ہے تو وہ قچبانی کے باچے میں زبانی خواہ جو ک ھ کہتے چہیں میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ اپنے منہ سے نکلنے والی باتوں میں سے ھوٹی سے ھوٹی بات پچ ہی عمل بھی کچ سکیں ۔

* * * * *

ان کے لیے ‘ اگچ ایک انسان دوسچوں کا خیال چکھنے‘ خواہ اپنا نقصان ہی موضوع بحث کیوں نہ ہوجن میں )ان کے دکھوں اوچ خوشیوں میں شچیک ہونے جیسی خصلتوں ‘ اپنی زندگی وقف کچدینے

کا مالک ہے تو اس شخص کی ان خصلتوں کا (سے ہچ خصلت بذات خود ایک قدچ کا دچجہ چکھتی ہے سبب اس کی چوحانی حس کی مضبوطی ہے۔جو لوگ ایسی حس سے مکمل طوچپچ محچوم ہوتے

ایسی ایک آدھ خصلت کی موجودگی کا دکھائی دینا بھی ‘ہیں ان میں یہ ساچی خصلتیں تو ایک طچفناممکن ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں میں فضیلت اوچ جوانمچدی کے نام سے پائی جانے والی خصوصیات کی بات کچیں تو ان لوگوں کی اکثچیت ایسی ہوتی ہے جو دوسچے موسیقاچوں کے بنائے ہوئے نغموں کی نغمہ سچائی کے دوچان اپنی آواز میں منمنا کچ کسی حصے میں شچیک ہوجاتے ہیں تاکہ انہیں بھی موسیقاچ سمجھا جائے۔

* * * * *

حس کا بلندتچین دچجہ یہ ہے کہ اگچ دینی اوچ قومی اقداچ سے زیادتی کی جا چہی ہو تو انسان پچ ایک ‘ ایسا اعصابی بخاچ طاچی ہو جائے جو حساس چوحوں کو ملیچیے کے بخاچ کی طچح ہال کچ چکھ دے

کچے جو یہ زیادتی کچ چہے ہوں ۔ اس چویہ ؤ اوچنتیجے کے طوچ پچوہ ان لوگوں سے سختی کا بچتابھی کہہ سکتے ہیں ۔“ حمیت”کو ہم

* * * * *

وہاں چوح جو خفقان اوچ ‘ اعلی اوچ اچفع اقداچ زمین بوس ہو جائیں ‘ جہاں اقداچ تہس نہس ہو جائیں کہتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی واضح خاصیت ہے جو حقیقی “ حمیت”اضطچاب محسوس کچتی ہے اسے

انسان اوچ انسان کی شکل کی دیگچ مخلوقات کو ایک دوسچے سے جدا کچتی ہے۔بلندی پچموجود اس

Page 62: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

بلند تچین چوح سے لے کچ موجودہ زمانے کے مضطچب انسانوں تک وہ تمام دچدبھچے ذہن جو اپنے اس جلتے ہوئے بخاچ ‘ بخوچات کی دھونی دینے والے بچتن کی طچح مسلسل سلگتے چہتے ہیں

‘ کبھی غاچوں میں اوچ کبھی مزاچوں پچ اٹھتے بیٹھتے‘ کے ساتھ کبھی پہاڑوں کی وٹیوں پچتڑپ تڑپ کچ کچاہتے اوچ بے حال ہوتے چہتے ہیں ۔اوچ میچے خیال ‘ سوچ میں گم‘ گھومتے پھچتے

۔ میں تاچیخ کے نہایت شانداچ ادواچ کے معماچ بھی یہی حساس اوچ صاحب حمیت قہچمان ہیں

Page 63: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

حکمت کی شعاعیں فلسفے کے مطابق

عوام کی مخالفت غلطی ہے۔لیکن یہ مقولہ اسی وقت الگو ہوتا ہے جب عوام واقعی عوام ہوں ۔اگچ حالت اس کے بچعکس ہو توعوام سے موافقت کا اظہاچ کچنا غلطی ہے۔ایک بیماچ کے باچے میں انجینیچوں کی چائے سے مخالفت غلطی تصوچ نہیں کی جائے گی۔اسی طچح تعمیچاتی حساب کتاب میں ڈاکٹچوں کی چائے نہ لینا بھی غلطی شماچنہیں ہو گی۔

* * * * *

عجز محض طاقت یا اقتداچ کی عدم موجودگی کے معنوں میں نہیں لیا جانا اہیے۔ کتنے ہی طاقتوچ اوچ صاحب استعداد لوگ ہیں جو اس وجہ سے عجز کے مقام پچ پڑے ہیں کہ ان کی استعداد کی تشخیص نہ کی جانے کے باعث ان سے استفادہ ہی نہیں کیا گیا۔

* * * * *

جن کی چوشنی کا سچ شمہ ان کی اپنی ذات ہو ان کی ضیاءاندھیچوں سے نہیں بجھائی جا سکتی۔ اسی طچح ایسی ضیاءکو کسی اوچچوشنی سے بھی مغلوب نہیں کیا جا سکتا۔ چوشنی کا ایسا سچ شمہ اپنی طبعی عمچ کے دوچان ہچ شے کے باوجود نہایت مکیلی چوشنی دیتا اوچ اپنے ماحول کو منوچ کچتا چہتاہے۔

* * * * *

جو لوگ اپنے آپ کو ایمان کے زیوچ سے نہیں سجا سکتے ان کے لیے عقل ایک پچیشان کن آلہ ہے۔

* * * * *

محض دوسچوں کو دیکھ کچ ان کی طچح کام کچنے والے لوگ اتنے کامیاب نہیں ہوتے جتنے اسی کام کو سمجھ کچ کچنے والےہوتے ہیں ۔اسی طچح جو شخص کسی کام کوسمجھ کچ کچتا ہے وہ اتنا کامیاب نہیں ہوتا جتنا وہ شخص جو وہی کام اپنے ضمیچ کی آواز سن کچ کچتا ہے۔

* * * * *

اوچ ہنچ کی عدم موجودگی بھی غچبت ہی کے جدا جدا ‘ سوچ‘صچف پیسے کا نہ ہونا ہی غچبت نہیں ہوتی بلکہ علماوچ سوچ سے محچوم امیچ لوگ بھی ایک طچح سے فقیچ ہی سمجھے ‘ بے ہنچ‘ چنگ ہیں ۔ اس اعتباچ سے بے علم

جاتے ہیں ۔

* * * * *

بصیچت ضمیچ کے لیے اوچ ‘ عقل بصیچت کے لیے ‘ آنکھ ہمیشہ عقل کے لیے ‘ عینک بعض اوقات آنکھ کے لیے ضمیچ چوح کے لیے مشاہدے اوچ بینائی کا کام کچنے والے ایک چوزن کی طچح ہے۔

* * * * *

Page 64: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

پاگل خانے میں سب سے قابل چحم شخص وہ ہے جو صاحب عقل ہو۔ اگچ کوئی پاگل ہم لوگوں میں آ شامل ہو تو قابل چحم وہ خود بن جاتا ہے۔تمام لوگ پاگل تو ہیں مگچ ان میں صچف پاگل پن کی شدت کا فچق ہوتا ہے۔

* * * * *

ں کی طچح ہیں ۔اپنی شدت کے مطابق یہ ؤانسانیت ایک دچخت ہے۔قومیں اس دچخت کی شاخیں ہیں ۔حوادث تندوتیز ہواہچ شخص ”ہوائیں ان دچختوں کو ایک دوسچے کے ساتھ ٹکچاتی ہیں ۔قدچتی بات ہے نقصان تو دچخت ہی اٹھاتا ہے۔

۔اس محاوچے کا مطلب بھی ضچوچ یہی ہو گا۔“جوک ھ کچتا ہے خود اپنے ساتھ ہی کچتا ہے

* * * * *

چاتیں ان میدانوں کی طچح ہیں جن میں انسان کا انکشاف اوچ نشوونما ہوتی ہے اوچ جہاں انسانیت کی خوشی اوچسعادت تیاچ کی جاتی ہے۔بلند سوچ اوچ بلندپایہ اثچات ہمیشہ انہیں چاتوں کے اندھیچے کے چحم میں پھلتے پھولتے چہے ہیں اوچ پھچ انسان کے استفادے کے لیے پیش کچ دئیے گئے ہیں ۔

* * * * *

جن لوگوں کو آسمان کے ا س طچف سے سفچ کا بالوا آتا ہے وہ تقچیبا ہمیشہ ان لوگوں میں سے نے جاتے ہیں جو سحچہوتے ہی اپنے چاستے پچ ل نکلتے ہیں ۔

* * * * *

اوچ پھچ ان کے ‘ ں کو باہچ پھینک دیتا ہے جو ہضم نہیں ہوتیں اوچ جو جسم کے لیے مضچ ہوتی ہیں ؤمعدہ ان غذا اوپچ تھوک دیتا ہے۔وقت اوچ تاچیخ بے فائدہ انسانوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کچتے ہیں ۔

* * * * *

اوچ اشیاءکو خوامخواہ ضائع کچنا چوح کا زیاں ہے۔اشیاءکا نا جائز زیاں اگچ ‘سکہ الماس کا‘ زنگ لوہے کا دشمن ہے آج نہیں تو کل یقینا گل سڑ کچ بچباد ہو جانے کا سبب بن جائے گا۔

* * * * *

ہچ بہتی یز پانی نہیں ہوتی۔۔۔۔‘ ہچ مکداچ شے چوشنی‘ ہچ پیلی یز سونا

* * * * *

ہچ سیالب ان ننھے ننھے قطچوں سے معچض وجود میں آتا ہے جنہیں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اوچ جوباآلخچ ایک ایسی سطح پچ پہنچ جاتے ہیں جہاں ان سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔معاشچوں کی بنیادیں بھی ہچ لمحہ اس قسم کے سیالبوں کے لیے کھلی چہتی ہیں ۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ یہ سیالب ان لوگوں کو بھی اپنے ساتھ بہا کچ لے جاتے ہیں جو ان بنیادوں کے سامنے مقیم ہونے کے خواہشمند ہوتے ہیں ۔

ان پڑھوں کو علم اوچ حقیقت کے باچے میں سمجھانا پاگلوں کے ساتھ مغز کھپانے کی طچح مشکل تو ہوتا ہے مگچغالمان اچشادکو اہئیے کہ یہ فچض خوشی خوشی سچ انجام دیا کچیں ۔

* * * * *

سب سے خطچناک بال وہ ہے جو ہچے کی طچف دیکھ کچ ہنستے ہنستے آتی ہے۔

* * * * *

Page 65: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

بچمال حقیقتوں کو ہچ شخص ایک ہی سطح پچ دیکھنے سے قاصچ ہوتا ہے۔ اس لیے انفچادی چاہ کو تچک کچ کے تشخیص اوچ تمثیل کی چاہ کا انتخاب کیا گیا ہے۔

حاالنکہ اصل مجچم جہالت ہے۔ زمان اوچ فلک دونوں بے گناہ ہیں مگچ ‘ شکایت ہمیشہ زمان و مکان سے کی جاتی ہے انسان نمک حچام بھی ہے اوچ جاہل بھی۔

* * * * *

وطن جنگل نہیں بلکہ ایک باغی ہ ہے۔اس کو تچتیب دیتے ہوئے پھلداچ پودوں اوچ پھولوں کی تعداد کو بڑھانے کی ضچوچت ہوتی ہے۔

* * * * *

نہ جانے اس شخص کو کیا کہا جائے جو اپنے باغی ے کو جنگلی بوٹیوں کے تسلط میں جانے دیتا ہے اوچ بعد میں کہہ کہہ کچ شکایت کچتا چہتا ہے۔“ !آہ فلک”

* * * * *

گھاس اوچ پھولوں سے لدی سڑکیں ایسی ہیں جو لتے لتے ‘ سوچج کی دھوپ سے چوشن‘ بے شماچ صاف ستھچیں سے جا ملتی ہیں ۔اوچ بے شماچ ایسی خاچداچ پگڈنڈیاں بھی ہیں جو کھڑی ٹانوں کے ساتھ ساتھ ؤجان لیوا صحچا

لتی ہوئی پل صچاط کے جنت والے کناچے سے جا ملتی ہیں ۔

* * * * *

میچے “ انسان اپنی زبان تلے پوشیدہ ہے۔”:سب سے بڑی دانائیوں میں سے ایک دانائی یہ ضچب المثل ہو سکتی ہےساتھی اہتے ہو تو قچآن۔‘دوست اہتے ہو تو ہللا ہی کافی ہے”:خیال میں اس سے بھی بڑی حکمت یہ الفاظ ہیں “

* * * * *

ادچاک کنندہ چوح ! لوگ ادچاک کو اوچ جس کا ادچاک کیا جائے اس کو تو جانتے ہیں مگچ ادچاک کنندہ کو نہیں جانتے ہوتی ہے جو عقل کے ذچیعے سمجھتی ہے۔دیکھنے والی بھی چوح ہی ہوتی ہے جو آنکھوں کے ذچیعے دیکھتی ہے۔

اوچ اگچ اچادی اوچ وجدانی ‘ اگچ حچکت کسی عقلی یا طبعی محچک کے نتیجے میں کی جائے تو وہ حیوانی ہے محچکوں پچ منحصچ ہے تو پھچ چوحانی اوچ انسانی ہے۔

* * * * *

غچبت ایک بھیانک نیستی ہے۔نیستی ایک ایسا المنتناہی اوچ سچگچداں کچ دینے واال میدان ہے جس میں ایسا ایک ذچہ ڈھونڈ نکالنا بھی نا ممکن ہے جو ہستی پچ داللت کچ سکے۔

* * * * *

باطل کے پیدا کچدہ ڑ ڑے پن کے باعث کسی یز پچ اڑے چہنے ‘ اب دیانتداچ لوگوں کو متعصب کہا جاتا ہے۔تعصب کو کہتے ہیں ۔حق کے معاملے میں اصچاچ کچنا تو ایک فضیلت ہے اوچ مومن کا یہ طچز عمل قطعا تعصب نہیں ہوتا۔

* * * * *

وہ فلسفہ جو الہام خداوندی پچ مبنی نہیں ہوتا وہ سوچ کی ایک فاش غلطی ہوتا ہے ۔

* * * * *

Page 66: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

حقیقی فلسفہ چوح اوچ سوچ کا ایک لہ ہے۔ یہ صچف اوچ صچف ہللا کی طچف سے انسان کو حکمت کے موضوع پچ کی جانے والی تنبیہ کا نتیجہ ہوتا ہے۔

Page 67: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

حکمت

حکمت ایک الہی مشعل ہے جو عقل کی چاہ کو چوشن کچ کے اس کے لیے نئے افق آشکاچ کچ دیتی ہے۔وہ چاہیں جو ایک سال میں عبوچ کی جاتی ہیں اس مشعل کی چوشنی میں ایک گھنٹے کے اندچ اندچ عبوچ کی جا سکتی ہیں ۔ اس مشعل کا نام ہے سوچ۔

* * * * *

سوچ کا کام سچ پچ تحقیق کچنا ہے۔ اس مقصد کے لیے الزم مواد خداداد صالحیت ہے جو اسی کی لیباچٹچی میں مل جاتی ہے جہاں بے شماچ س ائیوں کو س ائی کی مد میں پے دچ پے تبدیل کیا جاتا چہتا ہے ۔سوچ کے بلندپایہ ہونے کا ثبوت بھی اسی عمل میں ہے۔

* * * * *

فکچ کا مطلب سوچ ہے۔ سو نا یہ نہیں ہوتا کہ انسان بغیچ غوچوفکچ کے جو ک ھ دماا میں آئے اس پچ یقین کچتے ہوئے دوسچوں کے عیب ڈھونڈنے اوچ پھچ ان پچ اعتچازات کچنے میں اپنی ساچی عمچ

حکمت اوچ ‘ بچباد کچدے۔ سو نا اس سے کہیں آگے بڑھ کچ ایک ایسی نیک جدوجہد ہے جو منطق الہام الہی سے قوت حاصل کچتی ہے اوچ انسان کو حقیقت تک پہن ا دیتی ہے۔

* * * * *

سوچ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہ عقل کی نفاست او چاس کے نوچانی پن تک پہن نے کا نام ہے۔سوچ کی عدم موجودگی کا مطلب عقل کی غیچ موجودگی نہیں ہوتا۔عقل ہچ یز کو چوشنی میں

جبکہ اس کے مقابلے میں فکچ کو اشیاءکا ‘ قابو کچ کے اس کے باچے میں ھان بین کچتی ہےفکچ اوچ !مطالعہ کچنامقصود ہوتا ہے وہ زیادہ تچ اندھیچے میں مطالعہ کچنا پسند کچتی ہے۔ جی ہاں

چوح دونوں اندھیچے میں بہت زیادہ کام کچ سکتے ہیں ۔

* * * * *

حکمت یا اسالمی فلسفہ ہمیشہ انہی معنوں میں سوچ کی ڈھالنوں پچ پچوچش پا کچ پھال پھوال ہے۔ ہچ اس جگہ پچ اوچ ہچ اس دوچ میں جہاں بے عیب سوچ حاکم چہی ہے وہاں بے عیب حکمت موجود چہی ہے۔ اوچ جہاں جہاں ناقص اوچ نا مکمل سوچ حکم فچما چہی ہے وہاں ناقص اوچ گمچاہ کن فلسفے کا ظہوچ چہا ہے۔

* * * * *

ناتمام فلسفے کو حکمت کہہ سکتے تو پھچفالسفچ کا مطلب بھی حاکم ہوتا ‘ اگچ ہم چخنوں سے پچ کیونکہ حاکم کے معنی ہیں حکمت کو پسند کچنے واال۔

Page 68: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

چوشنی کے سب سے اہم سچ شموں میں سے ایک سچ شمہ حکمت یا اسالمی فلسفہ ہے جو انسانی سوچ کو ابہام سے اوچ انسا ن کووحشت سے ب اتااوچ اس کی چوح کی تطہیچ کچکے اس کے ضمیچ کے ہاتھ میں ایک ایسی مشعل پکڑا دیتا ہے جو ان سب مقاموں کوچوشن کچ دیتی ہے جہاں اس

اوچ جس چوشنی میں وہ ہستی کے ہچے پچ لکھی ہچ عباچت کو پڑھنے میں ‘ انسان کو جانا ہوتا ہے انسان کی مددکچتا ہے ۔

* * * * *

عقل کے دائچے میں گھومتے چہتے ہیں جبکہ حکمت چحمانی ماحول میں جڑ پکڑتی اوچ ‘ علومنشوونما پاتی ہے۔ اخالقی اوچ دینی معامالت عقل اوچ چوح کے دائچے سے دوچ چوحانیت کے ماحول میں پیدا ہو کچ وہیں بڑے ہوتے ہیں ۔

* * * * *

حکمت کا مقصد ان چاہوں کو چوشن کچنا ہے جو ہللا اوچ چوح کی طچف جاتی ہیں ۔ چوشن کچنے کایہ عمل کبھی تصنیف سے صاحب تصنیف تک اوچ کبھی صاحب تصنیف سے تصنیف تک چوشنی پہن انے کی شکل میں ہوتا ہے۔یہ دونوں چاستے مشعل حکمت کو ہاتھ میں پکڑنے والے شخص کی نیت اوچ اس کی نگاہ کے بے عیب ہونے کی نسبت سے اسے نیکی اوچ مکمل خوبصوچتیوں تک پہن ا سکتے ہیں ۔

* * * * *

عالم وہ نہیں ہوتا جو محض جانتا ہو بلکہ وہ ہوتا ہے جو اپنے علم کواپنے ضمیچ میں بھی محسوس کچتا ہو۔ جو حیثیت جاہل کے مقابلے میں عالم کی ہوتی ہے وہی عالم کے سامنے حکیم اوچ فالسفچ کی ہوتی ہے۔

* * * * *

عالم عالم شہادت سے اوچ صچف سلطنت الہی کی تمام موجودات کے ساتھ اپنا چشتہ قائم کچتا ہے جبکہ حکیم لگاتاچعالم غیب اوچ عالم ماوچا الحیات کا کھوج لگانے میں مصچوف چہتا ہے۔

* * * * *

عالم ان خوبصوچت اشیاءکو بدیوں میں شماچ کچ سکتا ہے جنہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ کچ وہ ان کا شاہد تو ہوتا ہے مگچجو اس کے وجدان میں ایک چبانی ذوق کے طوچ پچ محسوس نہیں ہوتیں ۔حکیم ہچ یز کے قچیب اس وقت جاتا ہے جب وہ پس پچدہ ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اپنی تمام فکچی کاچوایاں عموما عبادت کے شگفتہ ماحول میں جاچی چکھتا ہے۔

* * * * *

ہچ ناپسندیدہ شے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہچ حال میں بدصوچت اوچ بچی ہو گی ۔ ب ے پڑھنے اوچ ٹیکوں اوچ دوائیوں کو پسند نہیں کچتے۔ مگچ آگ اوچ سانپ کے ساتھ کھیلنے کے لیے ‘سو نے کو

جان دیتے ہیں علمی عقل اوچ حکمتی عقل کا مطالعہ بھی اسی پیمانے کے مطابق کیا جا سکتا ہے۔

Page 69: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ہماچے ہاں نئے فالسفچ وہ لوگ ہیں جن کا فلسفے سے بہت دوچ کا تعلق ہوتا ہے۔ان میں سے بہت سوں کی کاچکچدگی ایک بچائے نام تچجمے پچ مشتمل ہوتی ہے۔ کاش کہ وہ کم از کم اس تچجمے کو ہی مکمل تو کچسکتے۔

* * * * *

چوح کی تصدیق اوچ گواہی کے وسیلے سے سچاہا جاتا ہے۔جی ہاں ‘ حکمت کو عقل کے ذچیعے نہیں آخچ حکمت کو حکمت ہی سمجھتی ہے۔عقل یا تو اس کی دشمن ہے یا پھچ غیچ صمیمی دوست!

* * * * *

کئی مچتبہ عقل کی طچف سے حکمت کی نا پسندیدگی کا سبب یہ ہوتا ہے کہ عقل حکمت کا ادچاک نہیں کچ سکتی۔حکمت کے مسائل اس قدچ دقیق اوچ عقل کی سمجھ سے بعید ہیں کہ جو عقل الہام کے پچوں سے محچوم ہو اس کا حکمت کی بلندیوں تک پہن نا نہایت دشواچ بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔

* * * * *

اگچ عقل کو آنکھ کا سفید حصہ تصوچ کچ لیا جائے تو حکمت اس کے سیاہ طبقے کی طچح ہے کیونکہ عقل اپنے نوچ کے بعد آنے والی تاچیکی میں پیدا ہوتی ہے۔

* * * * *

عقل اشیاءکو ہاتھ سے ھو کچ سمجھنے کا اوچ حکمت انہیں نظچوں کی گچفت میں النے کا نام ہے۔ حکمت اسے دوچبین سے یا ٹیلی سکوپ سے دیکھنے کا نام ‘ عقل ہستی کو عینکوں سے دیکھنے کا

ہے۔

* * * * *

عقل مادے کی حدود کو پاچ نہیں کچ سکتی جبکہ مادے سے ادھچ کی دنیا کو حکمت اوچ حقیقی فلسفہ ہی دیکھ کچ سمجھ سکتے ہیں ۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ انسان حکمت کی ٹن ٹن کچتی آواز کوجس

غوچ سے سننے کی بجائے جا کچ ڈھول شہنائی سنتے چہتے ‘ میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہیں ۔

زندگی کی تاچیک اوچ پی یدہ چاہوں کو چوشن کچنے والی دو مشعلیں ہیں ۔ ایک عقل سلیم اوچدوسچی حکمت۔

* * * * *

علوم عقل کی چوشنی ہیں اوچ حکمت فلک چوح پچ مکتی چہنے والی آسمانی بجلی۔

* * * * *

مادی فلسفے اوچ حکمت کو ایک دوسچے میں خلط ملط کچ دینا اس بات کی عالمت ہے کہ یہ کام کچنے واال دونوں کو ہی سمجھ نہیں سکا۔کتنی عجیب بات ہے کہ اب ہچ طچف سنی جانے والی آواز اسی قسم کے جاہلوں کی بڑ بڑاہٹ ہے۔

Page 70: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

وہ حکیم جس کا خمیچ حکمت سے اٹھایا گیا ہو اپنے حجچے کی تنگ اچدیواچی میں چہتے ہوئے بھی کائناتوں کا نظاچہ کچتا چہتاہے۔اوچایسے ناقابل چسائی مقامات پچ جا پہن تا ہے کہ جن کے ایک فیصد حصے کو بھی دنیا میں گھومنے پھچنے والے سیاح نہیں دیکھ سکتے۔

* * * * *

فلسفیوں کو کائنات شناس کہتے ہیں ۔ جو شخص حقیقت شناس اوچ عاچف باہلل نہ ہو وہ حقیقی فلسفی نہیں ہو سکتا۔

* * * * *

ہچ لفظ متعلقہ شخص کے عچفان اوچ ثقافت کے معیاچ کے مطابق اس کی چوح سے پھوٹ کچظہوچ پذیچ ہوتا ہے۔کہ اسے صچف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کا افق اوچ پایہ اس شخص جتنا ہوتاہے۔ دقیق الفاظ اوچ دقیق حقیقتوں کونہ سمجھ سکنا یا انہیں معمولی سمجھنا چوح کی العلمی یا بھونڈے پن کے باعث نہیں ہوتا بلکہ اس میں عچفان کی عدم موجودگی کے باعث ہوتا ہے۔

* * * * *

قومیں اکثچ ایسی طاقت کے پہیوں کے نی ے آ کچ پستی چہتی ہیں جس میں حکمت کا نام و نشان نہیں طاقت سے محچوم حکمت کو ک لتی ہے تو ایک ‘ ہوتا۔ دچاصل جب کوئی حکمت سے محچوم طاقت

ایسی شے بھی ہوتی ہے جو حقیقتا اس کے ک لے جانے پچ آنسو بہاتی ہے۔ اوچوہ ہے حقیقت۔

* * * * *

اوچ انسان کی قدچ وہ کامل لوگ ‘ صاحب علم انسان کی قدچ عالم‘ جواہچات کی قدچ جوہچی جانتے ہیں جانتے ہیں جو خودانسانیت کی بلندی تک پہنچ کے ہوں ۔ جواہچ ت پیتل فچوشوں کی ماچکیٹ میں

اوچ حکیم ایسی دنیا ‘ انسان حیوانی چوحوں کے دچمیان‘ عالم جاہلوں کے دچمیان‘ عجیب لگتے ہیں میں عجیب لگتے ہیں جہاں لوگ تشخیص اوچ وجدان پچ کان نہیں دھچتے۔۔۔۔

Page 71: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

حکمت کے زاویہءنظچ سے وجدان

حکمت ایک الہی مشعل ہے جو عقل کی چاہ کو چوشن کچ کے اس کے لیے نئے افق آشکاچ کچ وجدان انسان کے خود اپنے آپ کو اوچ اپنی ہستی کو پہ اننے کا نام ہے۔ یہ ایک چوحانی سسٹم ہے جوخواہش کچتا

اوچ بغیچ کسی وقفے کے ابد کے لیے کھال چہتا ہے۔‘ سمجھتا ہے‘ محسوس کچتا ہے‘ہے

* * * * *

ذہن اوچ قلب جیسے وسائل بیک وقت وجدان کے بھی اہم تچین سنگ بنیاد ہیں ۔ یہ عناصچانسان ‘ حس‘ چوح کے اچادےکو اس دنیا میں کمال انسانیت پچ پہن اتے ہیں اوچ اگلی دنیا میں ابدی خوشیوں اوچ حق تعالی کے دیداچ کا وسیلہ بنتے ہیں ۔

* * * * *

وجدان ایک ایسا م م کچتا آئینہ ہے جو حق تعالی کا دیداچ کچاتا ہے اوچ ذات الوہیت کی تچجمانی کچنے میں جس کاکوئی مد مقابل نہیں ہے۔اگچ وجدان ایک ایسی چوح حاصل کچ لے جو ذات عالی منصب کی ہستی کا احساس کچ سکے اوچ ایسے کان حاصل کچ لے جو اس ذات کی آواز سن سکیں تو بس اس کے لیے یہی کافی ہو گا۔

* * * * *

عالم باال کے ‘ اس لیے اسے ہمیشہ کون و مکاں سے باال تچ‘ مشاہدہ اوچ ادچاک ہے ‘ وجدان ونکہ چوح کی حساوچ فچشتوں جیسا صاحب عصمت قبول کیا گیا ہے۔‘ ایک بے عیب تچازو واال منصف‘ لیے وا

* * * * *

مفتی توبہت ہیں جو تقچیبا سبھی اپنی سمجھ کے مطابق ایک ہی جیسے مشتچک منبعوں کا چخ کچ تے اوچ فتوی دیتے کسی کو ‘ ہیں ۔مگچ وجدان ایک ایسا گہچی نظچ واال مفتی ہے جو فتوے دیتے وقت حقیقت کے مطابق فتوی دیتا ہے

گمچاہ نہیں کچتا اوچ کسی سے نا انصافی نہیں کچتا۔

* * * * *

فہم اوچ ادچاک ہے۔وجدان عمومی شاذو نادچ ہی ‘ کہالنے والی اکثچیت کی حس“ سودائے اعظم”وجدان عمومی کا مطلبخاص طوچ پچ جب اس کی معلومات اوچ استعداد دونوں الہام کے سچ شمے پچ اعتماد کچتی ہوں ۔‘ غلطی کھاتا ہے

* * * * *

ایک حاکم کی شکل میں جب وجدان عمومی کا یہ عالم ہو کہ وہ غلطی بھی نہیں کھاتا اوچ کسی کے دھوکے میں بھی توپھچ ہچ شخص کا فچض ہے کہ اس کے احکام پچ چاضی ہو اوچ اسے حاکم قبول کچے۔اس کے یہ معنی ہیں ‘ نہیں آتا

کہ بعض مسائل میں مچاجعت کچنے کے لیے وہی آخچی اتھاچٹی واال حاکم ہے۔

* * * * *

Page 72: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

فچض وہ کام ہے جس کے کچنے کا حکم ہللا دیتا ہے ۔ یہ انسان کے وجدان میں بھی ایک ایسی جان ڈال دیتا ہے کہ وہ حاکم ‘ انبیاءکے وجدان کی طچح بے عیب ہو جاتا ہے۔ غچضیکہ اسے قبول نہ کچنا انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔حق

مطلق ہے اوچوجدان اس کا سب سے س ا آئینہ۔ یہ آئینہ کبھی کبھاچ دھندال عکس دکھا دے تو دکھا دے مگچ اکثچ جو عکس بھی دکھاتا ہے صحیح ہی دکھاتا ہے۔

* * * * *

اس کی چوح اوچ سوچ کے نظم و ضبط کی پیداواچ ہوتا ‘ ایک انسان کے طوچواطواچ اوچ طچز عمل میں نظم وضبطہے۔اس کی حچکات میں پائے جانے والے چبانی معمے اوچ چاز اس وجہ سے پائے جاتے ہیں کہ اس کا وجدان اگلی ۔دنیا کے لیے کھال چہتا ہے

Page 73: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

حکمت کے زاویہ نظچسے علم

اوچ معچفت کا متالشی ہونا چوح کی اہم تچین ‘ مطالعے میں مشغول چہنا‘ پڑھناں میں سے ہیں ۔کسی شخص کا ان سے محچوم ہونا ایک ایسی سنجیدہ محچومیت ہے جس کی ؤغذا

تالفی ناممکن ہے۔

* * * * *

صنعت ‘ جب غیچ ملکی لوگ گچوہ دچ گچوہ ہماچے ملک کے ہچ گوشے کو ھان پھٹک کچ ہماچے علماوچ ثقافت کے خزانوں سے استفادہ کچنے میں مصچوف ہوں اوچ ہم خود اپنے ماضی کے علوم اوچ

تو ‘ ان کامطالعہ نہ کچیں یا نہ کچ سکیں ‘ ثقافت کے سچ شموں کے باچے میں تحقیقات نہ کچیں ہمیں اہیے کہ بیٹھ کچ اپنے حال پچ آنسو بہائیں ۔

* * * * *

س ی بات ہے کہ ہماچے عظیم الشان آباواجداد ہماچے لیے جو میچاث ھوڑ گئے ہیں اوچ جس کے پی ھے پڑ کچ آج کی دنیا محبت اوچ ذوق و شوق سے تحقیقات کچ چہی ہے ا ن التعداد علوم اوچ ادبی اثچات کے باچے میں بحیثیت قوم ہماچی بے اعتنائی ہماچی سمجھ سے بالکل ہی باہچ ہے۔

وہ لوگ جنہیں علم کامل حاصل نہ ہو یا جو اپنے علم کو ہضم نہ کچ سکتے ہوں وہ اسی علم سے اپنی نسلوں کی سوچ اوچ افکاچ کو دھندال کچ دینے کے ذمہ داچ ہوتے ہیں ۔یہ لوگ محض ضچچچساں ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی ملک اوچ قوم کے غداچ بھی سمجھے جاتے ہیں ۔

* * * * *

الہام کا شفاف تچین سچ شمہ ہے۔‘اضطچاب

* * * * *

کسی قوم کی بقا اوچ شان و شوکت اس قوم کی ثقافت اوچ فنون کی گہچائی سے بچاہ چاست متناسب ہوتی ہے۔وہ قوم جو دنیاکے اچوں طچف اپنی ثقافت اوچ فنی اثچات کی نمائش کچتی ہے وہ اپنے ان

۔“میں بھی ہوں ”اثچات کی تعداد کے مطابق گویا اپنی زبان میں یہ کہہ چہی ہوتی ہے کہ

* * * * *

انسانوں کے مابین کسی کی قدچوقیمت اوچ شچف اس کے علم اوچ استعداد سے متعین ہوتا ہے۔ ایک خسیس اوچ بے قدچ شخص کسی وقت بھی امیچ بن سکتا ہے مگچ وہ کسی صوچت بھی معزز نہیں ہو سکتا۔

Page 74: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

کوئی انسان خواہ کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو اسے مزید پڑھنے لکھنے سے ہچگز نہیں چوکنا اہیے۔ حقیقی اصحاب علم کی اکثچیت ان لوگوں میں سے پیدا ہوتی ہے جو اپنی لگاتاچ تحقیقات کے باوجود اپنے عمل کو نا کافی سمجھتے ہیں ۔

* * * * *

مگچ علم ہمہ ‘ تعصب مشتعل ہو جاتا ہے‘ جب حق کی بات کی جاتی ہے تو جہالت کو غصہ آ جاتا ہے تن گوش ہو کچ سنتا ہے۔

* * * * *

ہچ جاہل کو ان پڑھ کہنا دچست نہیں ہے۔ حقیقی جاہل وہ ہے جو سچ کو محسوس کچنے سے قاصچ ہو۔ اس قسم کا انسان بہت ک ھ جاننے کے باوجود جاہل ہوتا ہے۔

* * * * *

زندگی محض دیکھ کچ جاننے اوچ کھانے پینے کا نام نہیں ہے۔حیات سن کچ محسوس کچنے کا نام ہے۔جاننے واال مفید اوچ نہ جاننے واال مضچ ہوتا ہے۔کم جاننے واال ک ھ نہ جاننے والے سے زیادہ مضچ ہوتا ہے۔سب ک ھ جاننے والے اوچ با لکل ک ھ نہ جاننے والے اگچ کبھی کبھاچ دھوکہ کھالیں

لیکن کم جاننے واال بہت زیادہ دھوکا دیتا ہے۔‘ تو بھی دھوکا نہیں دیتے

* * * * *

جو باتیں علم کے نام سے بتائی جا سکتی ہیں ان کے باچے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سمجھ میں آ گئی انہیں کسی حد تک غیچ ہضم شدہ گنا جاتا ہے۔اس اعتباچ سے ‘ ہیں ۔ اوچ جو نہیں بتائی جاسکتیں

حاالنکہ وہاں ‘مداچس میں جن نوجوانوں کو دچس کی سمجھ نہیں آتی ان پچ زیادہ توجہ دی جاتی ہے اساتذہ کی قابلیت کے معیاچ کی جانچ پڑتال کچنا بھی ضچوچی ہوتا ہے۔

* * * * *

جیل خانوں کے ‘ جب تک مکاتب حقیقی اساتذہ کے ہاتھو ں معبدوں کی شکل میں تبدیل نہیں ہوتے خالی ہو جانے کی امیدچکھنا خام خیالی ہے۔

* * * * *

جب انسان کوئی کام کچنے کی نیت کچ لیتا ہے تو اسے سب سے پہلے یہ کوشش کچنی اہیے کہ وہ اس موضوع سے متعلقہ باتوں کو ا ھی طچح سیکھ لے۔ جب اسے پوچا یقین ہو جائے کہ وہ مجوزہ کام کچ سکے گا تو پھچ اسے اپنی مہم کی تکمیل میں کوئی کسچ نہیں ھوڑنی اہیے۔

* * * * *

ہچ شخص کو اپنے کام اوچ مسلک سے ا ھی طچح واقفیت ہونی الزمی ہے اوچ جہاں تک ممکن ہو اسے اپنے اختصاص ہی کی حدود میں چہنا اہیے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہچ کوئی اپنے اختصاص

Page 75: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

سے باہچ کے کسی موضوع میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اسی لیے ضچوچی ہے کہ طبیب طبیب کے طوچ اوچ انجینئچ انجینئچ کے طوچ پچ ہی کام کچتا چہے۔۔۔ معلم کو طبابت نہیں کچنی اہیے اوچ طبیب کو ‘پچ

۔بھی اہیے کہ وہ اپنے آپ کو قانون دا ن بننے پچ مجبوچ نہ کچے

Page 76: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

حکمت کی زبان میں ناموس

وفا اوچ صداقت سے حاصل شدہ ایک ایسا مباچک خمیچ ہے جو اگچ ‘عفت‘ ناموسکسی عماچت کی تعمیچ میں مسالے کے طوچ پچ استعمال کیا جائے تو اس عماچت کا جھٹکے کھا کچ

یا شاید شاذونادچ ہی دیکھا گیا ہو۔‘ گچ جانا کبھی نہیں دیکھا گیا

* * * * *

ناموس ایک جوانمچد کا سب سے اعلی پہلو اوچ اس کی اہم تچین صفت ہے۔کسی جوانمچد کی پست اوچ حقیچ تچین حالت وہ ہوتی ہے جس میں وہ ناموس کے موضوع پچ بے تکلفی کا اظہاچ کچتا ہے۔

* * * * *

ایک عوچت کا سب سے شچیفانہ اوچ بیش قیمت پہلو یہ ہے کہ وہ عفت اوچ ناموس کے اعتباچ سے بالکل بے داا ہو۔ جو لوگ اپنے ناموس اوچ خاندان کی عفت کی حفاظت کے موضوع پچ حساس نہ ہوں تو صاف ظاہچ ہے کہ وہ اپنی قومی حیثیت اوچ قومی وقاچ کی حفاظت کچنے اوچ ان کی چکھوالی کچنے کے معاملے میں بھی حساس نہیں ہوں گے۔

ناموس الگ یز ہے اوچ عزت الگ۔ ثچوت عزت کی بنیاد تو ہو سکتی ہے مگچ یہ ناموس عطا نہیں کچتی۔جہاں تک غچبت کا تعلق ہے تو یہ کبھی ناموس سے انحچاف نہیں کچتی۔

* * * * *

ناموس اس حد تک مقدس شے ہے کہ تمام قومیں اس کے نام کی قسم کھاتی ہیں ۔ اوچ یہ فضیلت کے تمام عناصچ میں سب سے بیش بہا ہیچوں میں سے ایک ہیچا ہے۔جن لوگوں کو ناموس کا علم نہیں

جھوٹ ہوتی ہے۔‘ ہوتا ان کی عزت اوچ فضیلت پچوچی بھی جعلی ہوتی ہے

* * * * *

ناموس ایک بے مثال الماس ہے جسے زیوچات کے کسی نفیس تچین ڈبے میں محفوظ چکھنا اہیے۔ یوں اس کی قیمت دگنی ہو جاتی ہے۔

* * * * *

جو لوگ اپنی عصمت اوچ ناموس کی طچح دوسچوں کی عصمت اوچ ناموس کی حفاظت کے موضوع پچ حساس نہیں ہوتے انہیں کوئی یز امانت کے طوچ پچ نہیں دی جا سکتی اوچ نہ ہی کسی معاملے میں ان پچ اعتماد کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔

Page 77: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

بد اخالق لوگ ‘جاہل لوگ علم‘ جس طچح مگادڑ چوشنی نہیں اہتی اسی طچح بے دین لوگ دیناوچ ناموس سے بے خبچ لوگ ناموس کے خواہشمند نہیں ہوتے۔‘ اخالقی اصول

Page 78: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

حکمت کی نگاہ میں جھوٹ

جھوٹ ایک کافچانہ لفظ ہے۔ یہ انسان کو اس دنیا میں جلدی یا بدیچ وجدان عمومی کے مطلع کچنے پچناقدچی کا محکوم بنا دیتا ہے اوچ اگلے جہان میں جہنم کا۔

* * * * *

‘ حقیقت سنجیدہ اوچ مستغنی ہوتی ہے۔ جھوٹ باتونی اوچ تیز زبان ہوتا ہے‘ جھوٹ خوشامدی ہوتا ہے حقیقت باوقاچ اوچمحتشم ہوتی ہے۔

* * * * *

افتچاپچدازی عام ہو جائے وہ بچباد ہو جاتے ہیں ۔ ایسے ‘ وچی‘حیلہ گچی ‘جن ممالک میں جھوٹ ممالک کے باشندے غچیب اوچ ان کے فوجی سپاہی انقالب پسند ہوتے ہیں ۔

* * * * *

دچوا گوئی خواہ جو لباس اہے پہن لے مگچ اپنے آپ کو اجتماعی وجدان سے نہیں ھپا سکتی۔ خاص کچ نوچ حق سے دیکھنے والے اچباب فچاست کی نظچوں سے تو اپنے آپ کو ہچگز نہیں ! ھپاسکتی

* * * * *

جب جھوٹ کا چواج پھیل جائے اوچ تمام حلقے اسی کے باعث کچاہتے چہیں تو سمجھئے کہ حقیقت کی زبان جڑ سے کھینچ لی گئی ہے۔

* * * * *

وجدان عمومی ایک سمندچ کی طچح ہے۔اگچ جھوٹ سچک کچ اس کے دچمیان تک پہن نے میں کامیاب ہو بھی جائےں تو پھچ بھی سمندچ انہیں اکٹھا کچ کے ساحل پچ اٹھا پھینکتا ہے۔

* * * * *

جھوٹی تاویلوں اوچ چیاکاچی کے منہ پچ تھوک کچ انہیں ہمیشہ حقاچت کی ‘انکاچ‘ اگچ کوئی جھوٹ نگاہ سے دیکھنے واالہے تو وہ وجدان ہے۔

جھوٹ اوچ دکھاوا شوچ اوچواویال کچتے ہیں جبکہ حقیقت اوچ صمیمیت کا کام خاموشی ہے۔بجلیاں آسمان سے ا نے والی گڑگڑاہٹ سے پہلے ہی اپنے نشانوں پچ واچ کچ کی ہوتی ہیں

Page 79: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

حکمت اوچ فضیلت

عوام کے دچمیان فضیلت گدی پچ یا ننگی زمین پچبیٹھتی ہے جبکہ غچوچ شانداچ کچسیوں میں بھی نہیں سماتا۔اگچ قبہ نما غچوچ کوایک الٹائے گئے کنویں کا متشابہ گچدانا جائے تو فضیلت کو ایسے آسمان سے مشابہت دی جا سکتی ہے جو زمین پچ اتچ آیا ہو۔۔۔۔

* * * * *

جہالت انسان کو غچوچ کی طچف لے جاتی ہے او چ حکمت فضیلت کی طچف۔ غچوچ جہالت کا وہ ب ہ جبکہ فضیلت حکمت کی اعلی نسل کی اوالد ہے۔ غچوچ ظلم وستم ‘اجداد ہی نہیں ہیں ؤہے جس کے آبا

کا حامی ہے اوچ فضیلت آزادی اوچ مشاوچت کی۔

* * * * *

غچوچ ہمیشہ تنہائی میں گھومتا پھچتا اوچ اپنی مثالیں ڈھونڈتا چہتا ہے۔ فضیلت متواتچ عوام کے ساتھ چہتی ہے کیو ں کہ وہ مطمئن ہوتی ہے کہ اسے اپنی امثال مل کی ہیں ۔

یہ بالکل بجا ہے۔ بڑائی بھی زبچدستی سے “ زبچدستی سے خوبصوچتی نہیں ہوتی۔”ایک محاوچہ ہے حاصل نہیں ہوتی۔ ان دونوں کو اجتماعی وجدان مقچچ کچتا ہے۔

* * * * *

بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے پسند کچنے والوں کو نیک بین اوچ پسند نہ کچنے والوں کو بد بین کہتے ہیں ۔یہ لوگ پہلی قسم کے لوگوں کی تعچیف کچتے ہیں اوچ انہیں اپنے سینے سے

ں دوچ تک پی ھا کچ کے انہیں بھگا ؤلگائے چکھتے ہیں جبکہ دوسچی قسم کے لوگوں کا سات گاں دوچ بھگانے کی ضچوچت ہوتی ہے وہ تو یہ ؤدیتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو سات گا

خودبین لوگ خود ہیں ۔

* * * * *

نیک بین کو ہچ شے ا ھی اوچ بد بین کو ہچ شے بچی دکھائی دیتی ہے۔بد بین ضچچ چساں ہوتے ہیں ۔ ہے۔“حقیقت بینی ”ا ھی یز کو ا ھاکہنااوچبچی یزکو بچ ا ہی دیکھنا

Page 80: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

حکمت کے زاویہءنگاہ سے مطبوعات

عوام کا چہبچ اوچان کے افکاچ کا ناشچ یعنی لوگوں کی ‘ میڈیا قوم کے احساسات کا تچجمانسوچ اوچ افکاچ کا نشچ کچنے واال ہوتاہے۔ ظلم و استبداد کچنے والے نظاموں میں میڈیا ہمیشہ یا تو قید میں بند چہا ہے اوچ یا خوشامدی کے طوچ پچ کام کچتا چہا ہے۔

* * * * *

ہچ لکھاچی کو اہیے کہ وہ اپنے الفاظ اوچ طچز عمل میں با ادب اوچ دل اوچ قلم میں صاف ستھچا چہے۔ بصوچت دیگچ وہ یقینا کسی موہوم سے فائدے کی خاطچ باعث ضچچ ہو سکتا ہے۔ ۔۔۔

* * * * *

اپنی مچضی کے مطابق قومی احساسات اوچ قومی سوچ سے مطابقت (لفؤمصنف اوچ م)وہ قومیں جن کے اہل قلمکی تصویچ ہوتی ہیں اوچ اسی کی “ اساچت بابل”چکھنے والے مضامین تحچیچ نہیں کچ سکتے وہ قلم کاچوں سے زیادہ

ہچ قسم کے افکاچ کے ‘ نمائندگی کچتی ہیں ۔ میڈیا ونکہ ایک ایسا اداچہ ہے جس کے دچوازے موزوں یا غیچ موزوں اظہاچ کے لیے کھلے ہوتے ہیں اس لیے ضچوچی ہے کہ اس میں قوم اوچ قومی چوح کے مطابق نظم و ضبط قائم کیا جائے۔

* * * * *

اخباچات اوچ ٹیلی وژن دونوں میں لوگوں کی ذاتی ہوا و ہوس کی خدمت گزاچی سے سختی سے گچیز کچنا اہیے۔ ان کا واحدمقصد صچف اوچ صچف قوم کی چہنمائی ہونا اہیے۔

* * * * *

ایسے بے شماچ انسانوں کی کھوپڑیوں کی ہڈیاں گلنے سڑنے کے لیے قبچستانوں میں پڑی ہیں جو ظلم و استبداد اوچ ۔سنسچشپ کے باعث ایسی ان گنت کتابیں اپنے ساتھ لے گئے جنہیں وہ اپنی زندگی میں احاطہءتحچیچ میں نہ ال سکے

Page 81: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

حکمت کے زاویہءنگاہ سے محبت

مادی اوچ معنوی خوبصوچتیوں کی طچف میالن کو کہتے ہیں ۔ مادی ‘محبت اشیاءکی محبت جسمانی یا بدنی ہوتی ہے جبکہ معنوی یزوں کی محبت چوحانی اوچ وجدانی ہوتی ہے۔اس لحاظ سے ظاہچی خوبصوچتیوں کی محبت میں جدائیاں پیدا ہوتی ہیں کیونکہ یہ خوبصوچتیاں ابدی نہیں ہوتیں ۔ معنوی اشیاءکی محبت دائمی ہوتی ہے اوچ اس میں جدائی نہیں ہوتی۔

* * * * *

اگچ ایک دل میں محبت حقیقی ہو تو عداوت مجازی ہوتی ہے اوچ اگچ عداوت حقیقی ہو تو محبت ”یہ ایک ایسی خفیہ کنجی ہے جو بہت سی مشکالت کو حل کچ دیتی ہے۔“ مجازی ہوتی ہے۔

* * * * *

امید اوچ محبت دونوں کی موت کے ‘ یہ امید چکھناکہ محبت میں کئی قسم کے لطف حاصل ہوں گےمتچادف ہے۔ امید اوچ عشق متالشی چوحوں کے پچ ہیں اوچ یہ پچ تالش کے تمام مچاحل کے دوچان ان کے ساتھ ہی چہتے ہیں ۔

* * * * *

طبیب بیماچی کی عالمتوں سے بیماچی کے اثچات کا پتہ التے ہیں جب کہ بیماچ ان اثچات کو خود جذبے کو ‘ عشق کو عاشق‘ جھیلتا اوچ محسوس کچتا ہے۔ اسی طچح محبت کو محبت کچنے واال

علم ا لحال” مجذوب اوچ چوحانی ذوق کو عاچف لوگ ہی سمجھتے ہیں ۔ اوچ یہی ہے !“

Page 82: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

تاچیخ عبچت کے صفحات پچ مشتمل ہے

اس بات کی امید لگائے چکھنا کہ تاچیخی حوادث بعینہ دوباچہ وقوع پذیچ ہوں گے غلطی ہے۔ واقعات خواہ ایک دوسچے سے ملتے جلتے ہی ہوں مگچ پھچ بھی ہچ واقعے پچ وقت اوچ ماحول کی اپنی ھاپ لگی ہوتی ہے۔ اس اعتباچ سے تاچیخ سے سبق کے بجائے عبچت حاصل کی جاتی ہے۔

* * * * *

جن اشیاءپچ سوچج طلوع ہو کچ غچوب ہو جاتا ہے ان میں سے ایک یز بھی ایسی نہیں ہوتی جو تازہ چہ سکے۔

* * * * *

آج تک کوئی شخص اوچ کوئی قوم ایسی نہیں گزچی جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وٹی پچ کھڑی چہ سکی ہو۔

* * * * *

انسان کو اہیے کہ وہ تاچیخ کے خوش کن او چ پچ لطف صفحات کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت ایسے صفحات کا بھی مطالعہ کچلیا کچے جو دہشتناک ہیں اوچ انسان کے جسم میں کپکپاہٹ پیدا کچ دیتے ہیں ۔ اس سے اسے ضچوچی تنبیہہ حاصل ہو گی۔بصوچت دیگچ ممکن ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے اپنے افکاچ میں ب گانہ سطح پچ ہی پڑا چہ جائے۔

Page 83: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

بڑی بڑی اشیاءکو کندھوں پچ اٹھانے والی ھوٹی ھوٹی یزیںاسے ما س کی ایک ‘ ایک وسیع وعچیض جنگل جسے پیدا ہونے یا لگانے کے لیے دنیا بھچ کا وقت دچکاچ ہوتا ہے

تیلی ایک ہی لمحے میں جالکچ خاک کچ سکتی ہے۔

* * * * *

بعض اوقات نے کے دانے جتنا ایک جسم ایک دیو جیسے انسان کو زمین پچ پٹخ سکتا ہے۔

* * * * *

* * * * *

‘ یہ مکچم انسان کسی ننھے منے جانداچ جچثومے سے‘ایک وسیع وعچیض دچخت ایک ننھے سے بیج میں سےسوچج ذچات سے اوچ دچیا پانی کے قطچوں سے پیدا کیئے گئے ہیں ۔ ان کے عالوہ اوچ کتنے سچ کچا دینے والے !نتائج ہیں جو کتنے ھوٹے ھوٹے مچاکز یا وسیلوں سے معچض وجود میں آتے ہیں ۔۔۔

Page 84: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

وقت کے باچے میںجب ہم کھانے پینے کی اشیاءمنہ میں ڈال کچ انہیں اپنے جسم کے سپچد کچتے ہیں تو ہمیں ایک لذت ملتی ہے اوچ ہم

اوچ ہفتوں کو جتنا ‘ دنوں ‘ گھنٹوں ‘ منٹوں ‘ ان اشیاءسے مستفید ہوتے ہیں ۔ یہی حالت وقت کی ہے۔ہم سیکنڈوں اپنے آپ پچ خچچ کچتے ہیں اتنا ہی ان سے لطف اٹھاتے ہیں اوچ یہ بھی نہیں اہتے کہ یہ گزچ جائیں ۔ ہم زندگی کی

اوچ اپنے حال اوچ مستقبل کے نام پچ کئی ‘ اس کی خوشیوں کو محسوس کچتے ہیں ‘ لذت سے لطف اندوز ہوتے ہیں یزوں کا وعدہ کچتے ہیں ۔ ان سب باتوں کے تناسب سے ہمیں زندگی ایک ایسی نعمت لگتی ہے جس کی لذت سے کبھی جی نہیں بھچتا۔ اس کے باوجود اگچ زندگی الپچواہی اوچ الشعوچی میں گزاچ دی جائے تو اس میں اوچ انسان کی پیٹھ پچ لدے ہوئے کسی بھاچی بوجھ میں کوئی فچق نہیں چہتا۔۔۔۔ ۔

* * * * *

یہ ایک ایسا خط ہے جونہ ‘وقت کسی بجلی گھچ میں لگی ہوئی ایسی کمانی کی طچح ہے جو ابدیت تک پہن ی ہوئی ہو۔ہے“ لوح تغیچ”بھی ۔حقیقی زمان کا وجودؤ گول ہوتا ہے اوچ نہ بالکل سیدھا۔ اس میں اتاچ بھی ہیں اوچ ڑھا

Page 85: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

لعنتیں بددعائیںجس طچح انسان کے وجود میں بعض ایسی اہم جگہیں ہیں جواس کے لیے حیاتی اہمیت کی حامل ہیں

قومی ثقافت اوچملی آئیڈیل جیسی نہایت اہم ‘ تاچیخ کا شعوچ‘اسی طچح قوم کے وجود میں بھی اعتقاد‘ خصوصیات موجود ہوتی ہیں ۔ جس طچح ایک شخص کے وجود کے ان حیاتی نکتوں میں سے کسی ایک کے وٹ کھانے سے اس شخص کا گچ جانا نا گزیچ ہوتا ہے بالکل اسی طچح قوموں کے ایسے نکتوں میں سے کسی ایک کے زخمی ہونے سے اس قوم کازوال بھی یقینی ہو جاتا ہے۔ ہزاچ لعنت

ہزاچ لعنت ہو ! ہو ان لوگوں پچ جو قوم کے اعتقاد و ایمان اوچ اس کی تاچیخ کے ساتھ کھیلتے ہیں ہزاچلعنت ہو ان پچ جو قومی ثقافت اوچ قومی آئیڈیل کو ! ان پچ جو قوم کے ماضی کے دشمن ہیں

ہزاچ لعنت ہو ان بد بین اوچ قنوطی لوگوں پچ جو مستقبل کو تاچیک دیکھتے ہیں ! بچباد کچتے ہیں ! اوچ دوسچوں کو بھی ایسا ہی دکھاتے ہیں

Page 86: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

مغچب کا دھ کاصنعتی انقالب دنیائے اسالم کو ہال کچ چکھ دینے واال پہال حادثہ تھا۔ بالکل اسی طچح جیسے بلی پہلے وہے کو دماغی صدمہ

مغچب بھی اسی طچح دنیائے اسالم کو ذہنی صدمہ پہن ا کچاس ‘ پہن اتی ہے اوچپھچ اس سے کھیلتی ہے۔ وہ دن اوچ آ ج کا دن

۔کے ساتھ بلی وہے کا کھیل کھیلنے میں مصچوف ہے

جنتجنت نہ ترقی کی جگہ ہے اور نہ زوال کی۔ وہ ایک ایسی سلطنت ہے جس میں ذوق کوگہرائی حاصل ہوتی ہے۔

عبادت

عبادت انسان کی طچف سے ایک نہایت معصوم طچیقے سے اس بات کا اظہاچ معبود ہے اوچ انسان اس کا غالم ہے۔ عبادت میں انسان کے طچز عمل (‘ہلالج لج )کچنے کا نام ہے کہ ہللا

کا وہ نظام شامل ہے جو ایک حقیقی غالم کو اپنے حقیقی معبود کے ساتھ خالق اوچ مخلوق کے چشتے میں چہتے ہوئے اپنانا اہیے۔

* * * * *

ادچاک اوچ ایمان جیسی ‘ شعوچ‘ اپنی زندگی‘ عبادت اس شکچیے کا نام ہے جو انسان اپنے وجودنعمتوں کے عوض ان تمام نعمتوں ہی کی زبان سے ادا کچتا ہے۔ عبادت نہ کچنا اگچ مکمل اندھا پن نہ بھی ہو تو بھی متعلقہ شخص کے بدتچ ین نمک حچام ہونے میں کوئی شبہہ نہیں ھوڑتا۔

* * * * *

عبادت دنیا اوچ عقبی کی سعادتوں جیسی ان خصوصیات میں سے وصال کی ایک چاہ ہے جو ایمان کا ہدف ہوتی ہے۔ وصال کے ک ھ آداب ہیں جو ہمیں ایمان کا حکم دینے والی ذات نے کھول کچ ہماچے

Page 87: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

سامنے چکھ دیئے ہیں ۔ جو لوگ وصال کی اس چاہ کو ڈھوند نہیں سکتے اوچ اس کے لئے الزم آداب کو حاصل نہیں کچ سکتے ان کا حق تعالی تک پہن نا نا ممکن ہے۔

* * * * *

بے حد محفوظ چاستہ ہے جس کے ذچیعے سب سے بڑی ‘ نظچی لحاظ سے عبادت ایک نہایت یقینیتک چسائی ممکن ہے۔انسان اس “ حق ا لیقین”یعنی انسان کے وجدان میں ‘جانی پہ انی حقیقیت تک

دبدبے اوچ احتچام کے بال وپچ لگا کچ یقین کی تالش میں نکلتا ہے۔اس چاہ کی ہچ منزل ‘ چاہ پچشعوچ پچ وہ ایک مختلف قسم کے وصال سے ہمکناچ ہوتا ہے۔

* * * * *

بعض چوحیں جو حقیقت کو قبول نہیں کچتیں اوچاپنی ساچی عمچ حقیقت کے نام پچ محض فطچی مسائل کی کہانیوں میں ہی صچف کچ ڈالتی ہیں وہ اگچ اپنی ساچی زندگی فصیح تچین زبانوں اوچ جادو اثچ بیانوں کے ما حول میں گزاچ دیں تو بھی سوئی بھچ چاستہ طے نہیں کچ سکتیں ۔

* * * * *

خوبصوچتی اوچ س ائی کے باچے میں انسانی سوچ کو قوت دینے کا ایک بابچکت سچ ‘ نیکی‘ عبادتکو دچست کچ کے ؤ شمہ ہے۔یہ ایک ایسی خفیہ اکسیچ ہے جو بدی کی طچف نفس کے جھکا

فچشتوں کی دنیا میں تبدیل کچ دیتی ہے۔ وہ چوحیں جو دن میں کئی باچ ذکچوفکچ کے ذچیعے اس سچ بنانے کی چاہ اختیاچ کچ کی ہوتی ہیں “ انسان کامل” شمے کی طچف چجوع کچتی ہیں وہ انسان کو

۔انہیں کسی حد تک نفس کی سازشوں کے خالف ایک ڈھال مل کی ہے جسے وہ صحیح مقام پچ لگا کے ہیں ۔

* * * * *

جو انسان اس بات کی تحقیق کی چاہ اختیاچ کچتے ہیں کہ جنت میں جانے کا اہل کیسے بنا جا سکتا عبادت ان کی چوح میں پنہاں فچشتوں کی سی قابلیتوں کو اجاگچ کچنے اوچ ان کی جسمانی اوچ ‘ ہے

حیوانی قابلیتوں کو چبط وضبط تلے النے کی کاچوائیوں سے آگاہ کچتی ہے۔ جس طچح ایسے لوگ موجود ہیں جو کل سے آج تک عبادت کے وسیلے سے فچشتوں کو دوچ پی ھے ھوڑ کے ہیں اسی طچح ان لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں جو عبادت نہ کچنے کے باعث قالبازیاں کھاتے ہو ئے پستی سے بھی گہچی پستیوں کی طچف لڑھکتے جا چہے ہیں ۔

* * * * *

اوچ ‘ کو جاننا ہللا سے محبت کچنا(‘جل جال لہ)سب سے فضیلت والی عبادت وہ ہے جس میں ہللاانسانوں کے لئیے مفیدثابت ہونا شامل ہو ۔بلند وٹیوں میں اس سب سے بلند وٹی پچ پہن نے کے

جس کے لئے اس کے ‘لئے انسان کو ہچ کام میں حق تعالی کی خوشنودی کا خیال چکھنا ضچوچی ہےوجدا ن کی سوئی ہچ دچست بات کی طچف اشاچہ کچ دیتی ہے۔ دوسچے ایک مومن کے لئیے ضچوچی

کی چوشنی میں (یعنی قائم چہو اس پچ جیسے تمہیں حکم دیا گیا ہے )“فاستقم کما امچتو”ہے کہ وہ سچ کی تالش میں لگا چہے۔

Page 88: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

انسان

انسان ایک بلند جذبات سے مزین ہستی ہے جس میں فضیلت کی استعداد اور ابدیت کے لئے جنون پایا جاتا ہے۔ایک سب سے زیادہ حقیر دکھائی دینے والے انسان کی روح میں بھی خوبصورتی کے عشق اورفضیلت کے احساس کی پیدا کردہ ابدیت کی سوچ یوں موجود ہوتی ہے جیسے قوس قزح۔اس شخص کے بلندیوں پر پہنچ کر ابدیت سے ہمکنار ہونے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اس کی شخصیت میں پائی جانے والی یہ قابلیتیں کس حد تک پھلتی پھولتی ہیں ۔

* * * * *

انسان کی انسانیت اس کی فانی حیوانی جسم میں نہیں بلکہ اس کی ابدیت کی متالشی اور عاشق روح میں تالش کرنی چاہیے۔ وہ جب کبھی روح کی طرؾ سے ؼفلت برتتے ہوئے محض اپنے جسم کے

اور نہ ہی کبھی مطمئن کیا جا سکا۔‘قابو میں ہوا تو کبھی بھی نقطہ تسکین و تشفی تک نہ پہنچ سکا

* * * * *

سب سے خوش قسمت اور دلشاد انسان وہ ہے جس کا وجدان ہمیشہ اگلے جہان کے عشق اور اشتیاق تنگ اور گال گھونٹنے والی قید میں رہ ‘ سے سرمست رہتا ہو ۔وہ لوگ جو اپنی زندگی جسم کی محدود

کر گزار دیتے ہیں وہ خواہ محلوں میں ہی کیوں نہ ہوں پھر بھی قید میں ہی سمجھے جاتے ہیں ۔

* * * * *

اور اس ‘ ہر انسان کا سب سے پہال اور بنیادی فرض یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو منکشؾ کر کے پہچانےوسیلے سے اپنی روشن شدہ حیثیت کے عدسے سے اپنا رخ رب کی طرؾ موڑ لے۔وہ بد بخت لوگ

اور جو اپنے خالق اعظم کے ساتھ رشتہ نہیں ‘جو اپنی حیثیت کو پہچان کر اپنے آپ کو نہیں جانتےجوڑ سکتے وہ اپنی زندگی اس طرح گزار دیتے ہیں جیسے ایک حمال جو اپنے کاندھوں پر خزانہ اٹھائے ہوے ہو مگر اسے اس کا علم نہ ہو۔یہ لوگ اسی حمال کی طرح زندگی گزار کر مر کھپ جاتے ہیں ۔

* * * * *

اگر چہ انسان اپنی ذات میں تو ایک عاجز ہستی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ قدرت ال متناہی یہ اس قدرت ال ! پر انحصار رکھنے کے وسیلے سے نہایت اعلی اقدار کا مالک بن جاتا ہے۔ جی ہاں

اور گدا سے سلطان ‘ ذرے سے سورج‘ متناہی پر آسرا رکھنے ہی کا نتیجہ ہے کہ وہ قطرے سے آبشار بن جاتا ہے۔

* * * * *

Page 89: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

کی کتاب کے ساتھ گہرا تعلق پیدا کر کے جتنا اس کے ساتھ (واقعات)انسان اپنے وجود اور حادثاتزیادہ یک جان ہو جاتا ہے اتنا ہی اس کے دل کی دنیا میں حکمت کی روشنیاں ظاہر ہوتے لگتی ہیں ۔

معرفت ہللا تک پہنچ جاتا ہے اور پھر رخصت ہو کر ‘اس وسیلے سے وہ اپنی اصلیت کو جان جاتا ہےہللا تعالے سے واصل ہو جاتا ہے۔مناسب یہی ہے کہ سوچ کی سطح پر جس سیر سیاحت کے حقیقت میں بدلنے کا ارادہ ہو اسے انکار اور الحاد سے نہ باندھا جائے۔

* * * * *

نسل کشی اور اپنی ‘ حقیقی انسان وہ ہے جو دوسری جاندار چیزوں کے ساتھ مشترک حرکات مثالاس شعور سے کرتا ہے کہ وہ فرض ہیں اور پھر ‘ نوع کے دوام کے سلسلے میں کئے جانے والے کام

انہیں ضرورت کی حدود میں رہتے ہوئے سر انجام دیتا ہے۔ وہ لوگ جو بؽیر کسی حدوحساب کے جسمانی لطؾ اندوزی میں پھنسے رہتے ہیں وہ انسان اور دوسری موجودات کا درمیانی فاصلہ کم

۔پیدا کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں ؤ کرنے اور انسانی حدود میں کھچا

حچمت انسانیکوئی حیوان مچ جاتا ہے تو ہم اسے بھول جاتے ہیں ۔اس کی قبچ بھی غائب ہو جاتی ہے۔ مگچ انسان کے ساتھ ایسا

نہ جانے اینہیں اس بات ‘ اجداد کی یاد اوچ ان کے مزاچوں کی حفاظت نہیں کچتیں ؤ نہیں ہوتا۔۔۔وہ قومیں جو اپنے آباکا احساس ہوتاہے یا نہیں کہ وہ حیوانوں کی سطح تک گچ گئی ہیں ۔ دچاصل مچدوں کی حچمت ایک امانت ہے جو مستقبل کے نام پچ دوچ حاضچ کے زندہ لوگوں کے نام کی گئی ہے۔

جسمانیت اوچ قلب کے مابین توازن

Page 90: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

حقیقی زندگی وہ ہے جو دل کی سطح پچ گزاچی جائے۔ جو انسان اپنے دل کے ساتھ زندہ چہتا ہے۔ اس کے نزدیک ماضی اوچ مستقبل ایک ہی وحدت کے دو چخ ہیں ۔یوں وہ زمان کی سطح سے ایک باالتچ ہستی بن جاتا ہے۔ایسی چوح نہ ماضی کے غموں سے داغداچ ہوتی ہے اوچ نہ مستقبل کے کسی خوف سے خوفزدہ۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق

اوچقنوطیت میں گزاچتے ہیں (کج بینی)ہے جو دل میں اپنے آپ کو نہیں پا سکتے وہ اپنی سطحی زندگی ہمیشہ بد بینی۔ اس قسم کے لوگوں کی نظچوں میں ماضی ایک دہشتناک مزاچ اوچ مستقبل ایک اتھاہ کنواں ہے۔وہ اگچ مچیں تو بھی عذاب زندہ چہیں تو بھی۔۔۔۔

* * * * *

انسان کا اس کے بے حد لمبے ماضی اوچ کبھی نہ ختم ہونے والے مستقبل کے ساتھ چشتہ محض اس ایک بات پچ منحصچ ہے کہ وہ اپنے دل اوچ چوح کی سطح زندگی کو کس حد تک سمجھتا ہے۔ اس سطح پچ زندگی گزاچنے والی اوچ اسے سمجھنے والی خوش بخت چوحیں ماضی کو اپنے آباواجداد کے شانداچ خیموں اوچ شاہی تختوں کی شکل میں او چ اپنے مستقبل کو جنت کو جانے والی چاہوں کے طوچ پچ دیکھتی ہیں ۔ یہ لوگ اپنے وجدان میں پھوٹنے والی کوثچ کی نہچوں سے پانی پی پی کچ دنیا کی اس سچائے سے اگلے جہان چخصت ہو جاتے ہیں ۔ جو بد بخت اس سطح پچ گزاچی جانے والی زندگی کا ادچاک نہیں کچ سکتے ان کی زندگی موت سے بدتچ اوچ ان کی موت اندھیچوں سے بھی زیادہ اندھیچا جہنم ہوتی ہے۔

* * * * *

طچز عمل اوچ اس کی باطنی زندگی کے دچمیان ایک چشتہ ہوتا ہے۔ جو ایک دوسچے کی مدد ‘ کسی شخص کے عمل دونوں میں تچتیب پیدا کچتا ہے اوچ انہیں پختگی مہیا کچتا ہے۔ اسے ہم دائچہ فاسد کے مقابلے میں دائچہ ‘ کچتا ہے

اوچ فیصلہ کچنے کی قابلیت ’ اصچاچ‘ صالح کا نام بھی دے سکتے ہیں ۔اس چشتے کے وسیلے سے انسان کا عزممنعکس ہو کچ اس کی باطنی دنیا کو چوشن کچ دیتی ہے۔ بالکل اسی طچح اس کے وجدان کی چوشنی بھی اس کے عزم اوچ اچادے کو ابک لگا کچ اسے اوچ زیادہ بلند افق دکھائے گی۔

* * * * *

وہ خوش نصیب لوگ جو اپنے طچز عمل میں اپنی چوح کے تابع ہوتے ہیں وہ اپنے خالق حقیقی کی خوشنودی اوچ ہمیشہ ایک ہی محچاب (یعنی قطب نما)انسانیت اوچ فضیلت کی طچف جانے والی چاہوں پچ لتے ہیں ۔ ان کے قبلہ نما

اوچ ان کی حچکت کی سوئیاں بھی ہمیشہ ایک ہی چاستہ دکھاتی ہیں ۔اگچ کبھی کبھاچ وہ ‘ کی طچف اشاچہ کچتے ہیں تھوڑا بہت ادھچ ادھچ ہو بھی جائیں پھچ بھی تہ دل سے ندامت کے اظہاچ اوچ دل سے اٹھنے والی آہ سے ان کے دلوں کو گھیچے میں لینے والے گناہ ان کی چوحوں میں گھل جاتے ہیں اوچ وہ پھچ اپنی چاہ پچ ل کچ اپنا سفچ جاچی چکھتے ہیں ۔

* * * * *

وہ خوش قسمت انسان جو اپنے تمام فچائض کو ان کی ھوٹی سے ھوٹی جزیات تک نہایت احتیاط سے بجا التے اوچ فچائض کے عشق کے ساتھ ساتھ اپنے باطنی عالم کے اعتباچ سے بھی ‘ آہنگ‘ وہ اپنی بیچونی دنیا کے نظام‘ ہیں

متواتچ اپنے بخوچدان کی طچح سلگتے چہتے ہیں اوچ دن میں کئی مچتبہ پچ نکال کچ فچشتوں کی محفلوں میں جا پہن تے ہیں ۔

* * * * *

اوچ ہماچے دلوں میں عشق ال متناہی کا ‘ بن جانے (منصوچ)صدیوں تک ابدیت کی سوچ میں ابل ابل کچ حالجوقت کے ساتھ ساتھ اپنا مقام ایک ایسے عاچفانہ ادچاک کے حوالے کچ گیا ہے جس میں بے ‘ خمیچاٹھنے واال ادچاک

ں کے جسموں سے نکلنے ؤجگنو‘ فاچموال بازی اوچ بے حسی بھی شامل وہ گئے ہیں ۔وہ دن اوچ آج کا دن‘ چوحوالے ننھے ننھے شچاچوں کی حیثیت والے الہاموں اوچ وحی کے چوشن کئے ہوئے ساچے ماحول کو ایک جیسا قچاچ

ہماچی چوشن چاہوں پچ دھند اوچ دھواں ھوڑ ھوڑ کچہم انسانوں کے فلق کو کاال ‘دینے والی یہ منحوس سو یں سیاہ کچ چہی ہیں ۔

Page 91: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

جسمانی لحاظ سے وہ :ان سب باتوں کے بعد ہماچے خیال میں ہم ایک حقیقت کے غالم کو یوں بیان کچ سکتے ہیں ایک ایسے بدن کا مالک ہوتا ہے جو ہچ قسم کی آفت کا ھاتی نکال کچ مقابلہ کچ سکے۔سوچ کے اعتباچ سے اسے ایک ایسا ذہن دچکاچ ہے جو حال حاضچ کی سمجھ کے مطابق حق کے بیان کو گڈ مڈ کچ کے ابال سکے اوچ ایک ماہچ کیمیاگچ کی طچح اتنی تعمیچی قابلیت کا مالک ہو کہ ہچ آن اس آمیزش سے دوسچے مچکب بنا سکے۔۔چوحانی

اوچ (موالنا چومی جیسے لوگ)ں ؤصالحیتوں اوچ قلبی لحاظ سے ایک ایسی چوح کا مالک ہو جو صدیوں سے موالناکی طچف سے تیا چکی گئی کٹھالی میں پکتے پکتے خوب پختہ کاچ ہو کی (یونس ایمچے جیسے لوگ)یونسوں

کے فلسفے پچ “ انسانوں کے دچمیان انسانوں میں سے ایک انسان” ہو۔باآلخچ ایک ایسے پختہ کاچ دل کا مالک ہو جو یقین چکھتا ہو اوچ اتنا فدا کاچ ہو کہ دوسچوں کی خوشی کی خاطچاپنی لذتوں کو بھول جائے۔

(تحمل مچوت)بچداشت

اپنا سینہ ہچ انسان کے لئیے جتنا کھول سکتا ہے کھول دے۔ اتنا ‘ کھول دےکھول دے کہ سمندچوں کی طچح ہو جائے۔ ایمان سے پوچا پوچا کام لے اوچ انسانوں کے ساتھ محبت کچ۔ کوئی پچیشان دل ایسا نہ چہ جائے جس کے باچے میں تجھے تشویش نہ ہو اوچ جس کی طچف تو !نے ہاتھ نہ بڑھایا ہو۔۔۔۔۔۔

* * * * *

ا ھے لوگوں کی تعچیف ان کے ا ھائیوں کے ساتھ کچو۔ایمان والے دلوں کے ساتھ مچوت کے ساتھ ۔کافچوں کی طچف اتنی نچمی سے بڑھو کہ ان کے دل کا کینہ اوچ نفچت پگھل کچ عائب ہو ؤپیش آ

!جائے۔ اوچ اپنے سانسوں میں ہمیشہ مسیحا بنو۔۔۔۔۔

* * * * *

بیانات میں سے جاذب تچین بیان کے ساتھ آفاک سے لین دین ‘سڑکوں میں سے چنگین تچین سڑک پچاوچ جن لوگوں کے ! مت بھول! کچتے ہوئے یہ مت بھول کہ تو ایک چاہبچ عظیم کی پیچوی کچ چہا ہے

!پاس ان خصوصیات میں سے ایک خصوصیت بھی نہیں ہے ان کا خیال کچتے ہوئے انصاف کچ

* * * * *

Page 92: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ہچ ! اگچ کوئی بداخالقی سے پیش آئے تو اسے نظچانداز کچ دے‘بچائیوں کو نیکیوں سے چد کچشخص اپنے طچز عمل سے اپنے ال لن کی عکاسی کچتا ہے۔ تو بچداشت اوچ تحمل کی چاہ اختیاچ !کچ اوچ چسم و چواج سے نابلد لوگوں کے ساتھ عالی ظچفی سے پیش آ۔۔۔۔

* * * * *

محبت سے محبت کچنا اوچ دشمنی کا دشمن ہونا ایمان کے جوش سے بھچے دل کا سب سے ممتاز دل کو شیطان کے حوالے کچ دینے کایا پاگل پن کا نتیجہ ہے۔ تو ‘ وصف ہے۔ہچ ایک سے نفچت کچنا

!انسان سے محبت کچ اوچ انسانیت پچ حیچت کا اظہاچ کچ۔۔۔۔۔

* * * * *

بے حد احتیاط کچ کہ تجھے ایک مچتبہ بھی نفس کی حاکمیت میں نہیں گچنا اہیے۔کیونکہ اس کے ہچ فچد بد بخت ہے۔ اوچ یہ بات سب سے س ی بات کہنے ‘مطابق تیچے سوا ہچ شخص مجچم ہے

والے کے بیان کے مطابق متعلقہ شخص کی ہالکت کا نام ہے۔ تو اپنے نفس کے خالف خوب سخت ہو !اوچ دوسچوں کے خالف نچم سے بھی نچم تچ ہو۔۔۔۔۔

* * * * *

تواپنے ایسے طچز عمل اوچ طوچ طچیقے پچ دھیان چکھ جو دوسچوں کو تجھے اہنے والے بناتا ہے یہ مت بھول کہ وہی یزیں تجھے بھی اہے جانے اوچ ! اوچ تیچی نظچوں میں انہیں محبوب بناتا ہے

!پسند کئے جانے کا وسیلہ بن سکتی ہیں ۔ہمیشہ انسانوں کی طچح سلوک کچ اوچ چحمدل ہو۔۔۔۔

* * * * *

حق تعالے جو سلوک تیچے ساتھ کچتا ہے اسے میعاچتسلیم کچتے ہوئے تجھے بھی عوام کے ساتھ اسی طچح کا سلوک کچنا ائیے۔اس حالت میں عوام کے بیچ میں تو حق تعالی کے ساتھ ہوتا ہے او چ اکیلے پن کی وحشت کے دونوں موقعوں سے بچ جاتا ہے۔

* * * * *

خالق کی نظچوں میں تیچی کیا حیثیت ہے اس کا اندازہ تو یوں لگا سکتا ہے کہ تیچے دل میں خالق کے لیے مخصوص کئے گئے مقام کی حیثیت کیا ہے۔ اوچ عوام کے نزدیک تیچا کیا مقام ہے۔ اس کا

دونوں صوچتوں میں ہللا اوچ عوام )اندازہ تیچے ان کے ساتھ کئے گئے طچز عمل سے ہو سکتا ہے۔ تو ایک لمحے (کے ساتھ اپنے طچزعمل کو تچازو میں چکھ کچ دیکھ لے کہ کون سا پلڑا بھاچی ہے۔

انسانوں کے دچمیان انسانوں میں سے ایک انسان ”اوچ! کے لیے بھی حق تعالی سے غافل نہ ہو ہوجا۔

* * * * *

اگچ تیچی چوح میں یہ بات پوچی طچح گھچ کچ کی ہے کہ ایمان چکھنے والے لوگ تیچے ساتھ تیچے ایک کمزوچ ‘ بڑائی کچ سکیں گے تو سمجھ لے کہ یہ خیال تیچے غلط فیصلے اوچ کم عقلی پچ

نا ہ فوچا کسی ایسے متقی سے چجوع کچ ! انسان ہونے پچ اوچ تیچی چوح کی پستی پچ مبنی ہے جو تیچے دل کو گچما سکے اوچ تیچی آنکھوں سے آنسو جاچی کچ واسکے۔

Page 93: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

مختصچ یہ کہ انسانوں کے دچمیان اپنے لیے محبت اوچ اعتباچ کی حفاظت کے لیے محبت بھی حق اوچ ایک ایسا انسان بن جا جس کا دل حق تعالی کے لیے کھال ہوا ہو۔۔۔۔! کی خاطچ کچ اوچ نفچت بھی !

عجزوانکساچی

جن لوگوں کا منہ زمین کی طچف چہتا ہے ان کے لیے حق تعالے کے پاس بھی اوچخلق خدا ہچ شخص کو حقیچ ‘ کے پاس بھی بے انتہا حصے ہیں ۔ اس کے بچعکس وہ لوگ جوناک ڑھا کچ ھاتی اکڑاتے ہیں

سمجھ کچ اپنی اکڑ دکھاتے ہیں وہ تقچیبا ہمیشہ ہی لوگوں کی نفچت کا نشانہ بنتے چہتے ہیں ۔ اوچ حق تعالے کی طچف سے بھی ان پچ عذاب نازل ہوتا چہا ہے۔

* * * * *

انسان کی خودپسندی اوچ تکبچ اس میں عقل کی کمی اوچ چوح کی نا پختگی کی عالمت ہے۔ ایک عقلمند انسان جو چوحانی طوچ پچپختگی حاصل کچ کا ہواسے جو ک ھ ملتا ہے وہ اسے خالق اعظم کی عطا سمجھتا ہے اوچ ہمیشہ تشکچ کے احساس کے طوچ پچ اس ذات کے آگے جھک کچ دہچا ہوا چہتا ہے۔

* * * * *

خالق حقیقی کی طچف سے قدچ شناسی اوچ عوام کی طچف سے حقاچت اوچ سچزش دونوں کے ‘منکسچ مزاج ہوناجو شخص شچوع سے ہی اپنی حد کو جان !مقابلے میں انسان کے دل میں خوشنودی کی حس پیدا کچتا ہے۔جی ہاں

کچ انکساچ کے بال وپچ اتنے نی ے کچلے کہ وہ زمین سے ھونے لگیں ۔ وہ یوں ہے جیسے انسانوں کی طچف سے حقاچت والی ہچ نظچ کے خالف محفوظ تچین زچہ میں گھسا ہوا ہو اوچ اس نے حفاظت کی بہتچین تدبیچ اختیاچ کچلی ہو۔

* * * * *

عجزوانکساچ انسان کی پختگی اوچ صاحب فضیلت ہونے کی نشانی ہے اوچ تکبچ کچ کے اپنی بڑائی کی بڑ ماچنا اس ان ‘ کے کم وقعت اوچ ناقص ہونے کی۔کامل تچین اشخاص دوسچے لوگوں میں زیادہ سے زیادہ گھل مل جانے والے

اوچ ناقص تچین اشخاص بدنام اوچ بدبخت لوگ ہیں جن کے غچوچ کا پیٹ دوسچوں کے سا تھ ‘ کے ہمدم لوگ ہیں ملنے جلنے سے ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھے سے نہیں بھچ سکتا۔

* * * * *

وہ اپنے کچداچ کے عجزوانکساچ کے وسیلے ‘ وہ لوگ جن کی قدچوقیمت ان کے اپنے معاشچے میں کوئی نہیں جانتاسے جلد یا بدیچ اون ے مقام پچ پہنچ کچ شچف حاصل کچ لیتے ہیں ۔جو اپنے احساس بزچگی کی زد میں آئے چہتے ہیں ان کا معاشچہ ان کی اتنی نکتہ ینی کچتا ہےکہ وہ جس محیط میں چہتے ہیں وہاں وقت کے سا تھ ان کی حیثیت پچدیسی عناصچ کی سی ہو جاتی ہے۔

Page 94: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

اوچ عجزوانکساچ اس بات سے آشکاچ ہوتا ہے ‘کسی انسان کا انسانیت کی سطح تک پہن نا اس کے عجزوانکساچ سےوہ اس میں تبدیلی نہ الئیں ‘ اوچ علم جیسی یزیں جن پچ لوگوں کا اعتماد ہوتا ہے‘ دولت‘ عہدہ‘کہ اس شخص کا مقام

۔ جو شخص متذکچہ باال اوصاف میں سے کسی ایک کے باعث بھی اپنی سوچ اوچ اپنے طچز عمل میں تبدیلی کا شکاچ ہو جاتا ہے نہ اس کا عجزوانکساچی اوچ نہ ہی اس کا انسانیت کی سطح پچ پہنچ جانا موضوع بحث بن سکتاہے

* * * * *

عجزوانکساچی تقچیبا تمام اعلی عادات کی کنجی کی طچح ہے۔ جو اسے حاصل کچ لیتا ہے وہ دوسچی اعلی عادات کا بھی مالک بن سکتا ہے۔اوچ جو اس کا مالک نہیں بن سکتا وہ غالبا دوسچی عادات سے بھی محچوم چہتا ہے۔حضچت

جب لغزش کھا کچ گچ پڑے تو انہوں نے عاجزی اوچ انکساچی سے آسمانوں کی پچلی طچف کی (علیہ اسالم)آدم ساچی گم گشتہ یزوں کو دوباچہ حاصل کچ لیالیکن اسی حادثے میں لڑھکتا لے جانے واال شیطان اپنے تکبچ اوچ غچوچ کی چاہ میں قچبان ہو گیا۔

* * * * *

تکیوں اوچ حجچوں میں ہمیشہ وہ لوگ پچواز کچ کے بلندیوں پچ پہن ے ہیں جو اپنے ہچے زمین کی طچف چکھتے ہیں ۔مکتبوں اوچ مدچسوں میں بھی ہمیشہ عاجز اوچ منکسچ لوگ ہی اس سے فائدہ اٹھانا جانتے ہیں اوچ وہی اپنے

‘ تکیوں کے آداب اوچ اصولوں کا پاس نہیں کچتے‘ معاشچے کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں ۔وہ لوگ جو ناک ڑھا کچوہ کسی استاد کے سامنے گھٹنے ٹیک کہ ک ھ سیکھنے پچ اپنے غچوچکو آمادہ نہ کچسکنے والے لوگ بہت بدنصیب ہوتے ہیں ۔ ایسے بد نصیب لوگ ہمیشہ بچبادہو کچ غائب ہوجاتے ہیں ۔

* * * * *

وہ جو اپنی بڑائی کی بڑ ماچ تے اوچ گستاخی کچتے ہیں ‘ کی صفات میں سے ہیں “ ذات الوہیت”کبچ اوچ علویت ونکہنہایت وکنے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں اوچ ہالک کچ دیئے گئے ہیں ۔ جو لوگ اپنی “ قہاچ”وہ تقچیبا ہمیشہ ہی اسکے

حدود کو جانتے ہیں اوچ عجزوانکساچی سے کام لیتے ہیں وہ بلندی پچ جا کچ اس کے حضوچ میں پہنچ کے ہیں ۔

نسانیت

انسان کو اہیے کہ وہ دوسچوں کے مقابلے میں ا ھے بچے طچز ہچ شے کا اسی سے وزن کیا ‘ عمل کے تمام طچیقوں کو اپنے نفس کا تچازو قبول کچ کے

کچے۔ جو یزیں اس کے نفس کو پسند آئیں وہ دوسچوں کے لیے بھی پسند کچے اوچ

Page 95: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ان کے باچے میں اپنے دل سے یہ بات ‘جو اشیاءخود اس کے نفس کو نہ پسند آئیں ہچگز نہ نکالے کہ وہ اوچوں کو بھی پسند نہیں آئیں گی۔ اس طچح وہ نہ صچف غلط طچز عمل سے بچ جائے گا بلکہ دوسچوں کو چنجیدہ کچنے سے یھی بچ جائے گا۔

* * * * *

اگچ آپ یہ سو یں کہ آپ کے ساتھ کیئے گئے احسانات نے کیسے آپ کے وجدان کو نچم تو آپ ‘کچ دیاتھا اوچ آپ کے اندچ اپنے محسن کے لیے محبت اوچ دل سپی پیدا کچدی تھی

پچ ایک ایسی چاہ کا انکشا ف ہو سکتا ہے جس کے ذچیعے آپ بھی دوسچوں کے دلوں نیکی “ انسان نیکی کا غالم ہے” میں اپنے لیے محبت اوچ دل سپی پیدا کچ سکتے ہیں ۔

بھی ایک مضبوت پناہ گاہ ہے ان لوگوں کے خالف جن سے انسان کو شچ کا اندیشہ ہو۔

* * * * *

ا نسان کی پختگی اوچاس کا کمال اس بات سے ظاہچ ہوتا ہے کہ وہ حق پچستی کو ہاتھ سے ھوڑے بغیچ جہاں تک ممکن ہو ان لوگوں کے ساتھ بھی نیکی ہی کچے جنہوں

انسان کو اہیے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں اسے بدی ! نے اس سے بدی کی ہو۔جی ہاں سے دو اچ ہونا پڑا ہو ان کے ساتھ بھی مچوت اوچ انسانیت کے مطابق سلوک کچنے سے باز نہ آئے۔ اس لیے کہ بچائی کچنا ایک حیوانی فعل ہے۔بچائی کا بچائی سے مقابلہ کچنا انسان کے لیے ایک سنگین قصوچ اوچ اس کے اندچ ایک اہم کمی ہے۔ جبکہ بچائی کا ا ھائی سے بدلہ لینا جوانمچدی اوچ عالی ظچفی ہے۔

* * * * *

دوسچوں کے لیے مفید ثابت ہونے کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔جو شخص عالی ہمت ہو وہ دوسچوں کے لیے اپنی چوح کو قچبان کچ دینے کی حد تک بے غچض ہو سکتا ہے۔البتہ یہ بات ضچوچ ہے کہ ا س طچح کی عالی ظچفی کا انسان کے لیے ایک فضیلت ہونااس

اس کی بے غچضی اوچ نیت کی صفائی پچ اوچ اس بات پچ منحصچ ہے کہ ‘ کے خلوص وہ نسلی اوچ قبائیلی تعصب سے کتنا دوچ ہے۔

* * * * *

دوست و احباب سے اس کی قچبت اوچ اس قچبت کے ‘کسی شخص کی انسانیت اوچ مچوتقائم و دائم چہنے پچ منحصچ ہے۔ان پچ اس قچبت کا اظہاچ کیئے بغیچ مچوت کا دم بھچنا محض ایک خیالی دعوی ہے۔ ان کے ساتھ کی جانے والی نیکیوں کو ان نیکیوں سے جا

اوچ پھچ گھڑی گھڑی اپنی طچف سے کی ‘ مالنا جو انہوں نے ہماچے ساتھ کی ہوں جانے والی نیکیوں کو چوک کچ انہیں سزا دینا ہماچی چوح کی ناپختگی اوچ حقیقت تک نہ پہن ے ہوئے ہونے کی عالمت ہے

Page 96: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

ایک انسان دوسچوں کے ساتھ جو بڑی بڑی نیکیاں کچتا ہے ان میں سے ایک نیکی یہ ہے کہ ان کی نامناسب حچکتوں سے نظچ چالی جائے اوچ ان کی غلطیوں پچ آنکھیں بند چکھی جائیں لوگوں کے قصوچ تالش کچنا بے ادبی ہے اوچ ان قصوچوں کا دائیں بائیں ڈھنڈوچا پیٹنا ایک نا قابل معافی عیب ہے۔ جہاں تک ان سے سچزد ہونے والی بچائیوں کا ان کے منہ پچ ذکچ کچنے کا تعلق

ہے تو وہ ایک ایسی وٹ ہےجو لوگوں کو ایک دوسچے سے وحدت کے بندھن میں باندھ چکھنے کی بھائی اچے کی زنجیچ پچ پڑتی ہے۔کاش کہ اس طچح کی وٹ سے لوگوں کی چنجیدہ ہو جانے والی خودی نئے سچے سے جڑ سکتی اوچ ان کی وحدت دوباچہ قائم ہو سکتی ۔

* * * * *

جو لوگ دوسچوں سے کی گئی بڑی سے بڑی نیکیوں کو غیچ اہم سمجھتے ہیں اوچ دوسچوں کی طچف سے کیئے گئے ھوٹے ھوٹے احسانات کو بڑا سمجھتے ہوئے ان کی تعچیف کچتے ہیں وہ ایسے کامل انسان ہیں جو خداوندانہ اخالق کی بلندی پچ پہنچ کے ہےی اوچ جن کے وجدان امن اوچ سکون پا کے ہیں ۔اس قسم کے لوگ نہ تو اپنی طچف سے کی گئی ا ھائیوں کو ا ھالتے ہیں اوچ نہ ہی اپنے ساتھ ہونے والی ال تعلقی کی شکایت کچتے ہیں ۔

انسانیت یا مچوت

دوسچوں کا تجھ سے امید کیا جانے ‘ جیسے سلوک کی امید تو دوسچے لوگوں سے کچتا ہے واال سلوک بھی ویسا ہی ہے۔

* * * * *

دوسچوں کی مدد کو بھاگنا ہللا تعالے کی عنایت میں پیش کیا جانے واالبلیغ تچین دعوت نامہ ہے۔

Page 97: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

تجھے اپنے بھائی کو خوش کچنے میں غفلت نہیں بچتنی اہیے۔‘ خواہ ایک ہی مسکچاہٹ سے کیوں نہ ہو

* * * * *

انسانوں سے محبت کچنا اوچ اس محبت کا انہیں احساس دالنا آدھی عقل کے بچابچ ہے۔

* * * * *

انسانوں کے دچمیان تیچا مقام وہی ہے جو تیچی نظچوں میں ان کا مقام ہے۔

* * * * *

وہ اپنی خواہشوں کے خالف دوستوں سے ‘ جو لوگ مسلسل اپنے اچدگچد کے لوگوں پچ یختے التے چہتے ہیں ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں اوچ دشمنوں کو ہنسنے کا موقع فچاہم کچتے ہیں ۔

* * * * *

جو شخص ہچ جگہ ناک گھسیڑتا چہتا ہے وہ کبھی بھی تہمت سے نہیں بچ سکتا ۔

یہ مت بھول کہ تجھے خوشی پہن انے والی یزیں ساچے جہان کو بھی خوش کچنے والی یزیں ہوتی ہیں ۔

* * * * *

عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے ماحول کی طاقت کو بھی اپنی طاقت کے طوچ پچ استعمال کچنا جانتا ہے۔۔۔۔۔بے عقل اوچ اناڑی انسانوں کے لئے اس امکان کا استعمال تو ایک طچف وہ اپنے گچدونواح کو قصوچواچ ٹھچا کچ اس طاقت کوخود اپنے خالف استعمال کیئے جانے کا سبب بنتے ہیں ۔

* * * * *

ہمسائیگی ہمسائیوں سے ہی کی جاتی ہے۔

* * * * *

تو اسے اپنی نیکیوں سے نچم کچنے کی کوشش تو کچ‘ تجھے جس کسی کے شچ سے اندیشہ ہے !

جب تجھے سزا دینے کی طاقت حاصل ہو جائے تو لوگوں کو معاف کچ تا کہ معافی کی بھی قدچ ہو۔

* * * * *

یہ مت بھول کہ تیچے بہت سے بھائی ایسے بھی ہیں جنہیں تیچی ماں کی گود میں بیٹھنا نصیب نہیں ہوا۔۔۔! خبچداچ !

* * * * *

متعصب قسم کے لوگ اپنے اچد گچد کے لوگوں کو چوند کچ گزچ ‘ماسوا غیچ مشچوط طوچ پچ اطاعت کچنے والوں کے جاتے ہیں ۔

ہچ شخص کو خوش چکھنا ہچ بہادچ شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔

* * * * *

نیکی پانے کا چاستہ نیکی کچنے کی چاہ سے گزچتا ہے۔

Page 98: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

بہچہ اوچ بے حس بنا دیتی ہے۔‘ غچض انسان کو اندھا

* * * * *

کل ہمیں پیش آنے والے سلوک کا بیج ہوتا ہے۔‘ ہماچا دوسچوں کے ساتھ ا ھا یا بچا سلوک

* * * * *

چوح کے آئینے میں ا ھائیوں کے ساتھ ساتھ بچائیاں بھی قطاچ دچ قطاچ نظچ آتی ہیں ۔

* * * * *

آئیڈیل انسان اہے نہ اہے ایک موم بتی کی طچح جلتا اوچ دوسچوں کو چوشن کچتا ہے۔

لمبی زبان اوچ ھوٹا ہاتھ سانپوں کو تو شاید زیب دیتا ہو مگچ انسان کے لیے سانپ بن جانے کے متچادف ہے۔

* * * * *

معاف کچنے کی قیمت اسی نسبت سے بڑھتی یا کم ہوتی ہے جس نسبت سے سزا دینے کے امکانات اوچ اختیاچات بڑھتے اوچ کم ہوتے ہیں ۔

گناہ اوچ تالفیئ گناہ

اگچ گناہ فطچت کے ہچے پچ ایک بدنما دھبہ ہے تو توبہ اوچ ندامت دوباچہ فطچت کی طچف پلٹ جانے

کا نام ہے۔

* * * * *

دل میں جو زنگ گناہ ھوڑ جاتا ہے وہ جسم پچ مسلط ہو جانے والے ایک وائچس کی طچح ہوتاہے جو جلد یا بدیچ اپنی

موجودگی کو محسوس کچوا لیتا ہے۔

* * * * *

موت کے باچے میں نہ سو نا دل کو زنگ لگ جانے کا نتیجہ ہوتا ہے۔اوچ موت کا ڈچ ایمان کی کمی کی وجہ سے ہے۔

* * * * *

Page 99: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

سوئے زن عقل کی بیماچی ہے یا دل کی گندگی۔اس سے ھٹکاچے کا عالج یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں کے باچے میں ہوش

سے کام لے۔

الپچواہی کے نتیجے میں ہم جن گڑھوں میں جا گچتے ہیں ان سے نکلنے کا واحد ذچیعہ اپنی الپچواہیوں کی تالفی ہے۔

* * * * *

!اگچ تیچی چہائش گاہ بلوچ کی ہے تو دوسچوں کی مچغیوں کے دڑبے پچ پتھچ نہ پھینک

* * * * *

جو شخص دوسچوں کے عیب گننے میں مشغول چہتا ہے وہ خود بھی ساچی زندگی عیبوں ہی کا مچتکب ہوتا چہتا ہے۔

* * * * *

اوچ نہ ہی کوئی ایسا گھوڑا ہے جو کبھی بدکا نہ ‘ نہ کوئی ایسا دلیچ انسان ہے جو گھوڑے سے کبھی نہ گچا ہو”کہتے ہیں

اہم بات یہ ہے کہ انسان گچنے کے بعد اٹھ کھڑا ہو اوچ اپنے آپ میں آ جائے۔“ہو۔

* * * * *

” کی سوچ اچادے کے فقدان کی ایک دوسچی شکل ہے۔“کل کچوں گا

* * * * *

بڑے بڑے گناہ شہوت کے جنگل میں پچوان ڑھتے اوچ بڑھتے ہیں ۔۔۔ شہوت پچ حکومت سب سے بڑی حکومت ہے۔

* * * * *

گناہ کے باچے میں ال پچواہی سب سے بڑا گناہ ہے۔

* * * * *

دچخت اگچ سوکھا نہیں ہے تو اسے بہاچ کا احساس ہو جاتا ہے۔

* * * * *

تجھ پچ اگچ ہللا کا قہچ نازل نہیں ہوا تو آپے سے باہچ نہ ہو۔ یہ سوچ کچ کانپ جا کہ ہللا مہلت بھی دیتا ہے۔

* * * * *

کے ساتھ چہے۔گناہ وہ ضچچ چساں شچاچے ہیں جو اس اچتباط کو (‘جل جال لہ)حقیقی مومن وہ ہے جس کا چابطہ ہچ لمحے ہللا

کاٹ دیتے ہیں ۔

چاز اوچ چازداچی

Page 100: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

اوچ ‘ بھید طاقت کا ایک ایسا سچ شمہ ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کچ سکتا ایک ایسی فوج کی طچح ہے جسے شکست نہیں دی جا سکتی۔

* * * * *

خواہ چاز اس کا ذاتی ہو یا ‘ چاز ناموس ہے۔ چاز کی حفاظت کچنے واالناموس کی حفاظت کچتا ہےحفاظت ‘ کسی اوچ کا ۔چاز فاش کچنے واال اپنے شچف اوچ حیثیت کو سچ عام ھوڑ کچ ان کی کما حقہ

نہ کچنے واال تصوچ کیا جاتا ہے۔

* * * * *

بعض کاموں میں چاز حضچت خضچ سے مشابہت چکھتا ہے۔ وہ یوں کہ جب تک عیاں نہ ہو عنائت سمجھا جاتا ہے۔

خاموشی بھی ایک حکمت ہے لیکن اس کے حکیم یا بہت کم ہیں یا پھچ بالکل ہی نہیں ہیں ۔

* * * * *

انسان اپنا چاز جس شخص کے سپچد کچتا ہے وہ شخص اتنا امین ہونا اہیے کہ اس کے پاس ناموس امانت کے طوچ پچ چکھی جا سکے۔اوچ اس کی حفاظت کچنے کے باچے میں وہ اتنا حساس ہونا اہیے جتنا خود اپنی ناموس کی حفاظت کے لئے محتاط ہوتا ہے۔امانت کسی ایسے ناقابل اعتباچشخص کے سپچد نہیں کچنی اہیے جو امین نہ ہو اوچچاز ایسے شخص کے سپچد نہیں کچنا اہیے جو چاز کو ناموس نہ سمجھے۔

* * * * *

اپنی زبان کو قید میں چکھنے واالالفاظ کی قید میں پھنسنے سے ب اچہتا ہے۔

* * * * *

بھید چکھنا اوچ دوسچوں کے بھیدوں کی پاسداچی کچنا ایک ایسی ا نسانی خوبی ہے جس کا تعلق سوفی صد اچادے اوچ ادچاک سے ہے۔جس طچح ان لوگوں سے چازداچی کی امید نہیں کی جاتی جن

اسی طچح کبھی یہ بھی نہیں سو ا جاسکتا کہ جو لوگ اتنے سادہ لوح ‘ میں قوت اچادی کا فقدان ہووہ چاز ھپا سکتے ہوں ۔‘ ہوں کہ اپنے کاموں اوچ اپنی باتوں کو ہی نہ سمجھ سکیں

* * * * *

Page 101: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

اگچ کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو چازدان بناتا ہے جوپہلے ہی سپچد کچدہ کئی چاز فاش کچ کا ہو تو یہ ایسے انسان کو چازداں بنانے والے شخص کی ناسمجھی یا بھیدی کے انتخاب میں اس کی نا اہلی کی عالمت ہے ۔ جس شخص نے اپنے دل میں ا ھی طچح بٹھا لیا ہواوچاس کی آنکھیں کھل

اسے زندگی بھچ یوں نہ تو دھوکاکھانا اہیے اوچ نہ ہی گمچاہ ہونا اہیے‘ کی ہوں !

* * * * *

اگچ انسان کسی ایسی صوچت حال سے دو اچ ہو جہاں چاز فاش کچناضچوچی ہو جائے تو اسے اہئیے کہ وہ جو ک ھ جانتا ہے بتا دے۔مگچ خواہ مخواہ دل کا ڈھکنا کھول کچچاز فاش کچنے سے ہچ حالت میں گچیز کچنا اہیے۔ یہ بات دل سے ہچگز نہیں نکالنی اہئیے کہ ایک دن آئے گاجب ہچ جگہ بے دچیغی سے دل کے ساچے چاز بکھیچتے پھچنے والے لوگ خودکو بھی اوچاس معاشچے کو بھی

موت کے منہ کی طچف گھسیٹ کچ لے جائیں گے اوچ انہیں کوئی اس سے ‘ جس میں وہ چہتے ہیں ب ا نہیں سکے گا۔

* * * * *

انسان کو اہیے کہ اپنی خفیہ باتوں کو ادھچ ادھچ فاش ہونے سے ب انے کے لئیے خاص احتیاط یا نتیجے کے اعتباچ سے بے فائدہ ہوں ‘ بچتے۔خاص طوچ پچاگچ یہ باتیں معیوب یا غیچ دلکش ہوں

تو۔۔۔ کیوں کہ ایسی حالت اکثچ ایسی صوچت حال پیدا کچ دیتی ہے جو دوستوں کی شچمندگی اوچ دشمنوں کے مذاق کا باعث بن سکتی ہے۔

* * * * *

سینے اس لئیے بنائے گئے ہیں کہ وہ چاز چکھنے کے لئیے ایک صندوق ے کا کام دیں ۔عقل ان صندوق وں کا تاال اوچ قوت اچادی ان کی کنجی ہے ۔جب تک اس تالے اوچ کنجی میں کوئی نقص نہیں پڑتا تب تک صندوق ے کے اندچ پڑے جواہچات تک کسی کی چسائی کا کوئی احتمال نہیں ہوتا۔

* * * * *

جو شخص دوسچوں کے چازتمھاچے پاس التا ہے وہ تمھاچے چاز بھی دوسچوں تک لے جا سکتا ہے۔ اس لئےے ایسے بے اعتباچ لوگوں کو ہچ گز ایسا موقع نہیں دینا اہیے کہ وہ ہماچی بالکل غیچ اہم خصوصیات سے بھی واقف ہو سکیں ۔

* * * * *

احمق کا دل اس کی زبان کی نوک پچ ہوتا ہے اوچ عقلمند کی زبان اس کے سینے کے سب سے پ ھلے بچج میں ہوتی ہے۔

* * * * *

بدی کچنے کے عالوہ وہ بعض اوقات نیکی کچنے احمق کو چازدان بنانے سے ب نا الزم ہے۔ اچادتا کا سو تے سو تے بھی بدی کچ جاتا ہے۔

* * * * *

Page 102: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

بعض ایک خاندان کی اوچ بعض پوچے معاشچے اوچ قوم کی ‘ بعض چازصچف ایک شخص کی ایک عائلی چاز منظچ عام پچ آ ‘ دل سپی کے ہوتے ہیں ۔ایک انفچادی چاز فاش ہو تو شخصی حیثیت

اوچ معاشچے کے کسی بھید کے فاش ہونے سے قومی حیثیت سے دوسچوں ‘ جائے تو عائلی حیثیتکو کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ نان ہ چاز جب تک سینے میں چہتا ہے صاحب چاز کے لئیے طاقت کا کام دیتا ہے۔ مگچ جب دوسچوں کے ہتھے ڑھ جائے تو وہ ایک ایسا ہتھیاچ بن جاتا ہے جو

تیچ ا ” :صاحب چاز کے خالف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماچے بزچگوں نے کہا ہے “چاز تیچا اسیچ ہے۔ فاش کچتے تو تم اس کے اسیچ بن جاتے ہو۔

* * * * *

بہت سے گچاں قدچ کام کسی خاص چاز کو حاصل کیے بغیچ سچ انجام نہیں دئیے جا سکتے۔ اصوالاگچاس بھیدسے واقف افچاد اسے فاش ہونے سے ب ائے چکھیں تو اوچوں کے لئیے اس کام کے ایفا میں ایک قدم آگے بڑھانا بھی نا ممکن ہو جاتا ہے۔یہاں تک کہ ایسے چاز کا فاش ہوجانا بعض اوقات سچمایہ کاچوں کے لئیے شدیدخطچے کا باعث بن جاتا ہے۔ خاص کچ جب متعلقہ کام کا تعلق کسی !ایسے نازک موضوع سے ہو جس پچ قوم کی حیات و بقا کا داچومداچ ہوتا ہے۔۔۔۔

* * * * *

ایک فوج نے اپنی کسی چیاست نے اپنے ملکی بھید اپنے دشمن کے ہاتھوں میں جانے دئیے۔ مثالساچی جنگی حکمت عملی اپنی دشمن کی فوج کے آگے کھول کچ چکھ دی۔ اب اگچ اپنے یہ چاز کھو

اس ملک کے سنبھل ‘ دینے واال ملک اپنے لئیے خواہ کتنا ہی کاچآمدمچد عمل کیوں نہ ڈھونڈ نکالےاس کی فوج کے فتح حاصل کچنے اوچ اس کے مچد عمل کے کامیابی حاصل کچنے کا ‘ جانے

کوئی امکان باقی نہیں چہتا۔ قطعا

نیکی کی سوچانسانوں کے دلوں کو فتح کی طرؾ لے جانے والی سب سے اہم راہوں میں سے اہم ترین ایک راہ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ ان لوگوں سے نیکی کرنے کے موقعوں کی تالش میں رہے اور جونہی کوئی ایسا

ان سے نیکی کر ڈالے۔ کاش کہ ہم اپنے دلوں کوہمیشہ ´ موقع ہاتھ لگے تو وقت ضائع کیے بؽیر فورا۔۔نیکی کرنے کی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ کر سکتے۔۔ !

سب سے بڑا سچمایہ

Page 103: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

تچبیت اوچ نفاست اس سکے کی طچح ہیں جو ہچ ملک میں ل جاتا ہے۔یہ ایک ایسے مکداچ ہیچے کی طچح ‘ اخالق اوچ ضمیچ

سے متاثچ نہیں ہوتی۔ جو لوگ یہ سکہ حاصل کچ لیتے ہیں وہ ان نہایت ؤ ہیں جس کی قیمت سکے کی قیمت کے اتاچ ڑھا

اعتباچی تاجچوں کی طچح ہوتے ہیں جواپنے پاس کسی دوسچے سچمائے کی عدم موجودگی میں ہچ جگہ خچیدوفچوخت کچ

۔ سکتے ہیں

خوف اوچ امیدکے باچے میںانسانوں کے ڈر سے مفلوج ہو جاتا ہے۔ان کے مفلوج ہاتھوں کو دیکھ کر ان سے کسی چیز کی توقع کرنا اکثر ‘ انسان

سکوت خیال اور نا امیدی کا سبب بن جاتا ہے۔ کسی سے نہ ڈرنے کا ایک ہی عالج ہے۔اور وہ ہے اس ذات سے ڈرنا جس کی طرؾ ہر انسان رجوع کرتا ہے۔ نا امیدی میں کبھی نہ پھنسنے کی راہ بھی یہی ہے کہ انسان اس ذات پر اعتماد ۔کرے جو دائمی طورپر طاقتور ہے اور وعدہ پورا کرنے کی قوت رکھتی ہے

ہچ شخص کے لیے دو چوزہمارا یقین ہے کہ ہر شخص کے لئے دو دن ہوتے ہیں ۔ایک وہ جو ہر انسان کا اپنا دن ہوتا ہے اور دوسرا وہ جو آنے والی نسلوں کا ہوتا ہے۔۔۔ اگر ہم ان دو دنوں میں سے ایک کے لئیے روتے اور چالتے ہیں تو دوسرے دن کے سلسلے میں رحمت ابدی کی عنائت پر بھروسہ کرتے ہوئے ہنسیں گے۔ یہی ہے ہمارا یقین۔

چوتی ہنستی نسلوہ روح جو عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی عبودیت سے یک جان نہیں ہو جاتی وہ نفع کے افق پر نقصان میں پڑ جانے کی بدقسمتی کا شکار ہو جاتی ہے۔اگر اسے اس بات کا ادارک ہوتا تو وہ آج ہنسنے والوں پر روتی اور شرمندگی سے دوہری ہوہو جاتی۔۔۔

با برکت عمر والےسب سے زیادہ لمبی عمر پانے والے وہ نہیں ہوتے جوزیادہ عر صہ زندہ رہتے ہیں بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر ممکن کوشش کر کے ز ندگی سے زیادہ سے زیادہ ثمر حاصل کرنے کاطریقہ جانتے ہیں ۔اس پیمانے کے مطابق سو برس کی عمرکے لوگ بھی کم عمر ہو سکتے ہیں ۔اسی طرح پندرہ

Page 104: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

سالہ عمر میں ہی ہزاروں سال کی برکت اور فیض اکٹھا کر کے اپنا سر آسمانوں تک بلند کر لینے ۔والے لوگ بھی مل سکتے ہیں

حیات حقیقیؤ بچپن میں ؼنچوں کی طرح کھلنے اور مست رہنے کا نام ہے۔جوانی مافوق الفطرت تنا‘ زندگی

اور بڑھاپے میں بچھڑے ہوئے دوستوں سے ملنے کی آرزو میں ہمیشہ چاق و ‘ اورجہادی روح کاچوبند رہنے کا نام ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ منکرانہ نگاہوں نے زندگی کو کبھی ایک کامیڈی

اور اوالد آدم میں شوق اور شکر کے ‘ کے روپ میں دیکھا اور کبھی ایک ٹریجیڈی کے روپ میں !تصور کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔۔۔

تنہائیتنہائی کا احساس ان شکستہ حال اور آوارہ گرد لوگوں کا ال عالج درد ہے جو اپنے دل کو ابدیت کے ساتھ ہم وقت نہیں کر سکتے اور اپنی روح میں ؼیر فانی ہونےکی سوچ کا خمیر نہیں اٹھا سکتے۔ یوں لگتا ہے کہ اس قسم کے لوگ اپنے جذبات کو ضد کے طور پر جوش دالتے رہتے ہیں ۔اور جب تک ان کی روحوں کو ہستی کا حقیقی چہرہ دکھائی نہیں دیتا تب تک یہ قنوطیت کی دھندلی فضا سے نجات حاصل نہیں کر سکیں گے۔اور نہ ہی ساری ہستی کے ساتھ گھل مل کر ہر شے سے دوستی اور بھائی چارہ قائم کر سکیں گے۔

یہ ایک گہچائیانسان کی حسیاتی بناوٹ اس کی گزری ہوئی زندگی، اس کی برداشت کردہ اذیتوں اور اضطراب کے ساتھ براہ راست متناسب پیمانے پر نشوونما پاتی رہتی ہے۔جو لوگ ہمیشہ زندگی سے الگ تھلگ رہے ہوں ، جن کی سوچ صفر ہو، جنہیں اضطرب سے کبھی واسطہ نہ پڑا ہوان کی حسیاتی دنیا بھی ان کی دیگر صالحیتوں کی طرح کسی حالت میں منکشؾ نہیں ہوتی۔ اس قسم کے لوگ کبھی بھی اپنی ہستی کے ساتھ یک جان نہیں ہو ۔سکتے

Page 105: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ایک قسم کی قلبی بیماچیاںحقیقی دیندار انسان وہ ہے جو بلند ترین اخالق کا مالک بھی ہو۔اس کی عبادت میں نمود یا

اور اس کے دل میں خودؼرضی اور نفاق نہیں ‘دکھاوا، اس کے معامالت میں دھوکہ بازیہوتا۔نمودونمائش انسان کو حق سے اوردھوکہ بازی اسے صرؾ حق ہی سے نہیں بلکہ خلق خدا سے بھی دور لے جاتی ہے۔۔۔خودؼرض انسان کو نفرت سے اور منافق کو لعنت ۔سے یاد کیا جاتا ہے

مجچم چوحیںانسان اکثچ اوقات دوسچوں کو اپنے دل کی عینک کے شیشوں میں سے دیکھتا ہے۔ اوچ ان پچ لگی دھند اوچ دھوئیں کی وجہ سے اسے تمام اشیاءاوچ انسان دھندلے دھندلے دکھائی دیتے ہیں ۔ اس صوچت میں وہ تمام فیصلے مکمل اندھیچے میں اوچ بے دچدی سے کچتا ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ جب کوئی خود غچض انسان ایسی صوچت حال میں پھنستا ہے تووہ یہی سمجھتا ہے کہ ہچ شے بچباد ہو کچ ختم ہو کی ہے۔ حاالنکہ دچ حقیقت وہ خود بچباد ہو کچ ختم ہو کا ہوتا ہے۔

طفالنہ چوحوں والےبزرگوں کی ہم پر عنایات او ر توجہ ہماری ضرورت ہے۔ انہیں ان کی عظمت کی عالمت سمجھنا اور پھر اس ؼرض سے کہ ہم پر وہ عنایات جاری رہیں بزرگوں کے ساتھ با ادب اور با عزت سلوک کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا اور ال ابالی پن سے بچنا ہم پر الزم ہے تاکہ ہم الڈ پیار میں ڈوب کرشرارتی انسان نہ بن جائیں ۔حیؾ ہے ان بچگانہ روحوں والے سر پھروں پرجو بزرگوں کی ۔طرؾ سے کی جانے والی عنایات کاسوئے استعمال کرتے ہیں

Page 106: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

بلندپایہ احساسات کی عالمگیچ حیثیتآبرواور ناموس کی دشمنی کاکھلم کھال مظاہرہ کرنے والے لوگ پست انسان ہوتے ہیں

ا ور اپنے آپ ‘ ہللا سے شرم نہ کر نے والے‘جبکہ چوری چوری یہ کام کرنے والے‘کوشناخت نہ کرنے والے لوگ نادان ہوتے ہیں ۔دراصل جن لوگوں میں آبرو ا ور ناموس کی حس ہی موجود نہیں ہوتی ان میں قومی اور وطنی حس بھی نہیں ہوتی۔

مشعل بچزختہجد کی نماز انسان کے ہاتھ میں ایک مشعل کی طرح ہے جو برزخ کے اندھیرے کو

انسان کے کسی نہ ‘ دور کرتی ہے۔ دراصل پانچ وقت کی نمازوں میں سے ہر نماز بھیکسی اندھیرے گوشے کو روشن کرتی ہے۔وقت کے معین حصوں پر روشنی بکھیرتی ہے۔نماز کے بؽیر انسان دین کی راہ پر نہیں چل سکتا اور ایماندار بھی نہیں رہ

اگر رات کو تہجد نہ پڑھ سکتے تو دن کو قضا کر کے پڑھ ملسو هيلع هللا ىلصسکتا۔ہمارے پیؽمبر

ینا چاہتے تھے کہ زندگی میں خال نہیں چھوڑنا لیتے تھے۔ یقینا اس سے وہ ہمیں یہ درس د چائیے۔

بالئے زبان

بسیار گفتاری ایک بیماری ہے جوذہنی اور روحانی تناسب کے فقدان کا اظہار کرتی ہے۔ قابل قبول الفاظ وہ ہیں جنہیں سمجھنے کے لئیے مدعاءبیان ہو جائے۔ اپنے مخاطب کو اپنا سر نہ پٹخنا پڑے اور اسے مختصرامخاطب کو چند باتیں بتانے کے لئیے لمبی چوڑی بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ اکثر اوقات لمبی بات اپنے ہمراہ ایک طرح کے

Page 107: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

نقصانات بھی لے آتی ہے۔کیونکہ زیادہ الفاظ باہمی تضاد سے خالی نہیں ہوتے اور باہمی تضاد دوسری طرؾ کے ذہن میں قسم قسم کے نئے سواالت کھڑے کر دینے سے عاری نہیں ہوتے۔ ایسی صورت حال مخاطب کے لئیے فائدہ مند ہونے سے زیادہ نقصان دہ بن سکتی ہے۔

* * * * *

عقلمند انسان وہ ہے جو خود بات کرنے کی بجائے ایسے اشخاص کوبات کرنے دیتا ہے جو نہ صرؾ خود اس کے لئیے بلکہ دوسروں کے لئیے بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں ۔اصل میں وہ شخص جن کی عقل کائناتی فنون اورعلوم سے اور دل الہی استعداد سے پر ہو اور وہ لوگ جو پختگی کی سطح تک پہنچ چکے ہوں ان کی موجودگی میں دوسروں کا بات کرنا بے ادبی ہوتی ہے۔اوران کامل روحوں کا خاموشی اختیار کیے رکھنا معاشرے کے لئیے محرومیت ہوتا ہے۔

* * * * *

کم بولنا اور زیادہ سننا فضیلت اور پہنچا ہوا ہونے کی عالمت ہے۔ متواتر بولتے چلے جانے کی خواہش اگر ہمیشہ پاگل پن نہ سمجھی جائے تو بھی یقینا اس کے توازن کا فقدان اور بے حیائی سمجھے جانے میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے۔

* * * * *

کہا جانے واال ہر لفظ ایسا ہونا چاہیے جس کا مقصد ایک مسلئے کا حل یا ایک سوال کا جواب مہیا کرتا ہو۔بات کرتے ہوئے سوال پوچھنے والے کو اور دوسرے سامعین کودق کر دینے سے ہر صورت احتراز کرنا ضروری ہے۔

* * * * *

اور جہاں خاموش رہنا ضروری ہو ‘ انسان کا جہاں بولنا ضروری ہو وہاں بولناوہاں خاموش رہنا تو قدرتی بات ہے۔مگرایک بات ہے کہ جن لوگوں کا بات کرنا زیادہ مفیدثابت ہو سکتا ہے ان کے بات کرنے کوہمیشہ ترجیح دینی چاہیے۔یہ بھی تو ہرشے سے پہلے اس بات پر منحصر ہے کہ اس میں ادب کا کس حد تک دخل ہے اور خاموش رہنے کی کتنی فضیلت ہے۔ ہمارے بڑوں نے

Page 108: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

تمہارا بولنا اگر چاندی ہے تو تمہارا خاموش رہنا سونا ”:کیا عمدہ بات کہی ہے “ہے۔

* * * * *

انسان اپنی قدروقیمت زیادہ باتیں کرنے سے نہیں بڑھاتا بلکہ اس بات سے بڑھاتا ہے کہ اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ صحیح موقع پر کہے گئے ہوں اور مفید ہوں ۔ اس کے برعکس ایسا شخص جوہر جگہ جو منہ میں آئے بولتا چال جائے خاص کر جب اس کی کہی ہوئی باتیں بلند پایہ معنی رکھنے

وہ ایک ‘ والے اور فنی مہارت کا مطالبہ کرنے والے موضوع سے متعلق ہوں تو کئی ؼلطیوں کامرتکب ہو سکتا ہے اور دوسرے اپنی قدروقیمت کھو سکتا ہے۔

” کس قدر موزوں اور “ زیادہ بولنے والے کی ؼلطیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں ۔ قیمتی ہیں یہ الفاظ۔

* * * * *

انسان اپنی گفتگو سے اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے اور اپنے طرز عمل سے اپنی روح کی عظمت کو منعکس کرتا ہے۔ وہ باتونی لوگ جو کسی کو بولنے ہی

وہ وقت ‘ جیسے ہر لفظ کا صرؾ انہی کے منہ سے نکلنا الزمی ہو‘ نہیں دیتےگزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام دوستوں کی نفرت اور حقارت کا شکاربننے لگتے ہیں ۔اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگرکبھی کبھار ان کے منہ سے عمدہ الفاظ بھی نکل جائیں تو انہیں بھی کوئی شخص ؼور سے نہیں سنتا۔بعض اوقات بہت سی عمدہ حقیقتیں محض اس وجہ سے معمولی سی لگتی ہیں کہ وہ ایک باتونی شخص نے کہی ہوتی ہیں ۔اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ ان عمدہ حقیقتوں کی بے حرمتی اور بے عزتی کی گئی ہے۔

* * * * *

کم کھانے اور کم سونے کی طرح کم بولنا بھی عرصئہ دراز سے پختہ کارلوگوں کا شعار رہا ہے۔ روحانی استعدادوں کی افزائش کے لیے انسان کو جس چیز کی سب سے پہلے سفارش کی جاتی ہے وہ ہے اپنی زبان کو قابو میں

ؼیر ضروری اور نا مناسب باتوں سے اجتناب کرنا۔ کیونکہ اس بات کا ‘ رکھنا

Page 109: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

بڑا احتمال ہے کہ ہر جگہ منہ کھول کر جو منہ میں آئے کہہ دینے والوں کی ان کے اس ‘ جو کہ ان کے سروں اور دلوں سے بھی بڑی ہوتی ہیں ‘ زبانیں

دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی مسلسل گمراہ ہو جانے کا سبب بنی رہیں ۔

* * * * *

جو لوگ کچھ بھی نہ کرنے کے باوجودبہت کچھ کرچکنے کا دعوی کرتے ہوں ان کا حال توبالخصوص قابل رحم ہوتاہے اور ان کے بارے میں دوسروں کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اسی اعتبار سے سب سے سچی بات کہنے

کے بیان میں ایک زبان کی اور دوسرے دو ٹانگوں کے (رسول کریم)والےدرمیان والی جگہ کی حفاظت کرنا جنتوں کی طرؾ پرواز کرنے کے لیے سب سے ابتدائی وسیلوں میں شمار کیا گیا ہے۔

* * * * *

دوسروں کو بات کرنے کا ‘اپنی بات کو پسند کرنے‘ کوئی شخص زیادہ بولنےحق نہ دینے جیسی بیماریوں سے جس قدردور رہتا ہے اتنا ہی اپنے خالق اورعوام کے زیادہ قریب اور ان کی نگاہوں میں عزیز ہوتا ہے۔بہ صورت دیگروہ شخص نہ حق تعالی سے اور نہ ہی خلق خدا سے کوئی ایسی شے پا سکے گا جس کی اس نے امید لگا رکھی ہو۔

وعدہ ہزار بار وعدہ کرنے کی بجائے ایک مرتبہ وعدہ نبھا دینا بہتر ہے۔

* * * * *

کیے ہوئے وعدے پر قائم رہنا انسان ہونے اور انسانی اقدار کے بارے میں خبردار ہونے کا تقاضا ہے۔

* * * * *

Page 110: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

چلتے پھرتے انسان سے خیر کی توقع نہیں کی ‘ چلتی پھرتی زمین میں کچھ پیدا نہیں ہوتا جاتی۔

* * * * *

وعدہ وفا کرنے کے احساس کا سرچشمہ ایمان ہے اور وعدے سے پھر جانے کا سرچشمہ نفاق ہے۔

انسانوں میں ایک قسم کے انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو زندگی بھر اپنے ضمیر کے مطابق یہی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ انہوں نے جو معاہدے کئے ہوئے ہیں انہیں نبھا ڈالیں ۔ ایک اور قسم ایسے لوگوں کی ہے جو زندگی ایسے معاہدوں سے بالکل بے خبری میں گزار دیتے ہیں ۔ تو جناب یہی وہ نقطہ ہے جہاں مومن منافق سے الگ ہو جاتا ہے۔

* * * * *

بلکہ اس بات کے متعلق سوچو جس کا !یہ نہ کہو کہ کسی نے وعدہ کر کے پورا نہیں کیاکسی کے بارے میں یہ کہہ کر اسے بدنام نہ !وعدہ کر کے کسی نے اسے پورا نہیں کیا

یہ یاد کرو کہ تم خود انسانیت کی سطح پر پہنچ سکنے ! کرو کہ اس میں انسانیت نہیں ہے !کے کتنے مواقع ہاتھ سے گنوا چکے ہو

ضبط نفساگر لوگ تمہیں آسمانوں پر بھی چڑھا دیں تویہ مت بھولنا کہ زمین زیادہ محفوظ جگہ ہے۔ جہاز سے

ں زمین پر ہوتے ہیں وہ ؤنیچے گرنے والے کے پرخچے اڑ جاتے ہیں جبکہ وہ شخص جس کے پا ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔

* * * * *

انصاؾ کو ہاتھ سے ہرگز نہیں چھوڑنا چاہئے کیونکہ اس سے معقول خیاالت پیدا ہوتے ہیں ۔بصورت دیگر ایسے زخم پیدا ہو جاتے ہیں جنہیں مندمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور ایسی دراڑیں پڑ جاتی ہیں جنہیں مرمت کرنا محال ہوتا ہے۔ اس کے بعد اگرتمہارا طرز عمل معقول بھی ہو تو بھی نہ تم ان زخموں کو بھر سکو گے اور نہ ہی ان دراڑوں کی مرمت کر سکو گے۔

بہت عمدہ‘ عمدہ

Page 111: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

زندگی ایک ربانی نعمت ہے۔ اس سے بھی بڑی نعمت ادھار کے بؽیر زندگی گزارنا ہے۔

* * * * *

سب سے خوش قسمت انسان وہ ہوتا ہے جس کی عمر اور گناہ سب سے کم ہوں ۔ اس سے بھی زیادہ بختاور وہ شخص ہوتاہے جو گناہوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو ہمیشہ روکے رکھتا ہے۔

* * * * *

ایسے انسان بھی ہوتے ہیں جو اپنے حساب سے وقت کو تراشتے ہیں ۔ اور ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں زندگی بھروقت ہی تراشتا رہتاہے۔

* * * * *

بڑھاپے کے دوران بڑھاپے میں مزید اضافہ کرنے واال سب سے بڑا درد بڑھاپے کا ؼم ہے۔

* * * * *

مگر اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ ‘ اندھیرے کے خالؾ محاذ قائم کرنا اچھی بات ہےاندھیرے کو گالی گلوچ دینے کی بجائے ایک مشعل جال دی جائے خواہ وہ چھوٹی سی ہی ہو۔

* * * * *

نیکی خواہ تھوڑی سی ہی کیوں نہ ہو اگر لگاتار کی جائے تو اس نیکی سے زیادہ برکت وا لی ہوتی ہے جو زیادہ تو ہو مگر کبھی کبھی بند بھی کر دی جاتی ہو۔

* * * * *

عالج کے نام پر سو قدم اٹھانے سے زیادہ فائدہ مند ‘ حفظان صحت کے نام پر ایک قدم ہے۔

Page 112: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ایک اکلوتا زندہ تھن ایک ہزار مردہ بھیڑوں سے بہتر اور زیادہ بابرکت ہوتاہے۔

* * * * *

عزت اور شرؾ مسلمان کے محمی ہونے کا رہین منت ہے۔

* * * * *

ہاتھ میں پکڑی ہوئی ایک چڑیا ہاتھ میں نہ ہونے والے کبوتر سے بہتر ہوتی ہے

لین دین اوچ طچز عمل کسی کا دیندار ہونا لین دین سے ظاہر ہوتا ہے۔

* * * * *

مومن جو کچھ کرتا ہے اس خیال سے کرتا ہے کہ اسے ہللا کے حضورپوچھ گچھ کے لئے پیش کیا جاناہے۔

* * * * *

بارش بادلوں کے موسم میں ظہور پذیر ہوتی ہے اور عمدہ طرز عمل ان دلوں میں ہوتا ہے جن کا ہللا تعالی سے رابطہ ہوتا ہے۔

* * * * *

ہر چیز پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے مگر عادت پر کنٹرول مشکل ہے۔

* * * * *

بوڑھے انسان کا شیرخوار ہونا عیب توہے مگر اس کا دودھ چھڑانا بھی مشکل ہوتاہے۔

* * * * *

جس شخص کو کبھی ؼصہ نہ آئے اسے جب ؼصہ آتا ہے تووہ مختلؾ قسم کا ہوتا ہے۔

* * * * *

جس طرح ٹیڑھے ڈنڈے کا سایہ سیدھا نہیں ہو سکتا اسی طرح جو شخص اپنے دل کا توازن ٹھیک نہ رکھ سکتا ہو اس کا طرزعمل بھی سیدھا نہیں ہو سکتا۔

* * * * *

Page 113: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

کے مطابق ایک جگہ پر بٹھا دیا ہو تو پھر جب (رسم و رواج)اگر عوام نے تجھے اپنے طرز عمل تک حاالت کو بدال نہ جائے کسی دوسرے سلوک کی امید رکھنا عبس ہوتا ہے۔

* * * * *

اور حاالت کے ‘ دوسروں کا محتاج ہونے سے زیادہ دردناک‘ کوئی شے عافیت سے زیادہ میٹھی نامناسب ہوتے ہوئے دیندار ہونے سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔

* * * * *

بے وفا کی ‘ والیت اور زہد تک نہ پہنچا سکنے واال علم‘ پارسائی کے بؽیر فقہ‘ عمل کے بؽیر الفاظیہ سب محض دھوکا ہیں ۔‘دوستی اور بال عافیت زندگی

* * * * *

چلہ خانے قوت ارادی کو بڑھاتے ہیں ۔ انسان وہاں پراپنے آپ کو پا لیتا ہے ۔چلہ خانے میں خلوت اس کے لئے ایک نیک باطن اور ایک اعلی ظاہر شرط ہے۔ لیکن مکمل انسان ‘ بنیادی شرط ہے

معاشرے میں رہ کر پھلتا پھولتا ہے ۔ بشری تعلقات کی مکمل تربیت صرؾ معاشرے کے اندر رہ کر ہوتی ہے۔

لیکن اپنے کام اور لین دین کے ؤ محبوبوں کی طرح ایک دوسرے میں گھل مل کر یک جان ہو جا !معاملے میں ؼیروں کی طرح عمل کرو

!تو اپنے آپ کو بیان کرنا چھوڑدے۔ اپنے طرز عمل سے کہہ تجھے بیان کر دے

ایثاچ

ہر شخص کی ہمت اس کے قدوقامت کی قیمت کے مطابق ہوتی ہے۔ جو شخص محض اپنا ہی خیال رکھتا ہے وہ یا تو انسان ہی نہیں ہوتا اور یا پھر ایک ایسی مخلوق ہوتا ہے جس میں کوئی کمی رہ گئی ہو۔ حقیقی انسانیت کو جانے والی راہ اس اصول سے گزرتی ہے کہ دوسروں کے بارے میں سوچتے ہوئے اگر ضرورت پڑے تو اپنے آپ کو نظر انداز کر دو۔

* * * * *

Page 114: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

اور دوسروں کے قصوروں کے معاملے میں انہی ‘انسان کو چائیے کہ اپنے عیوب کے معاملے میں سرکاری وکیل کا کی طرؾ سے مقررشدہ وکیل کا کردار ادا کرے۔

* * * * *

پہلے ”پختہ انسان اور حقیقی دوست وہ ہوتا ہے جوجہنم سے نکلتے ہوئے بھی اور جنت میں داخل ہونے سے پہلے بھیہی کہتا ہے۔“ آپ

* * * * *

حقیقی انسان اپنی بالٹی میں دودھ دوہتے ہوئے دوسروں کی بالٹیوں کو بھی خالی ‘ شرائط خواہ کیسی ہی کیوں نہ ہوں نہیں جانے دیتا۔

* * * * *

تم بیج ڈالو اور چلتے بنو ۔ فصل جس کی قسمت میں ہو گی وہی کاٹے گا۔

نعمت اوچ شعوچ نعمت

ہللا نے انسانوں کو ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے۔ان بڑی بڑی نعمتوں میں سب سے بڑی ایک نعمت ان تمام نعمتوں کے شعور کی نعمت ہے۔

* * * * *

صحتمند لوگو ں کے بدن پر پہنے ہوئے اطلسی لباس کی طرح ایک ایسی قیمتی نعمت ہے کہ ‘ صحت جس کا احساس صرؾ بیماروں کو ہوتا ہے۔

ہللا کی انسان کو عطا کی ہوئی سب سے بڑی نعمت ایمان کی نعمت ہے۔اس بڑی نعمت کا شکر ہللا کے خالؾ بؽاوت نہ کرنے سے ادا ہوتا ہے۔

* * * * *

ہر نعمت کے بدلے میں اسی نعمت سے ملتی جلتی چیز سے شکر ادا کیا جائے تو وہ قدر شناسی کی عالمت ہے۔

* * * * *

جاہل اکثر خوشی اور بہبود میں ہوتا ہے جبکہ ارباب حکمت مادی طور پر بدبختی کی زندگی گزارتے ہیں ۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دنیاوی نعمتیں انسان کی ذاتی قدرو قیمت کے مطابق نہیں ملتیں ۔

Page 115: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

ان کی قدر جاننا اہم ہے۔‘ اشیاءکی قیمت جاننا نہیں

* * * * *

ہللا تعالی کے احسانات اس کی اپنی بڑائی کے حساب سے عطا کئے جاتے ہیں ۔ اور وہ چاہتا ہے کہ اس کا شکر نعمت پانے والوں کی قامت کے مطابق ہو۔

* * * * *

وہ نعمت جو انسان کو ہللا سے دور کر د ے وہ سب سے بڑی مصیبت ہوتی ہے

توحید اوچ عشق الہی

اس سے وہ بات کہلوانے والے کو دیکھو اور یہی ‘ دل کی بات زبان پر النے والے کو نہ دیکھویوں سوچنے سے انسان ؼلطی بھی نہیں کرتا اور ایسی سوچ “اس سے یہ بات ہللا تعا لی نے کہلوائی ہے ۔”کہو کہ

خطرے سے پاک بھی ہوتی ہے۔

* * * * *

اپنی ضرورت کو ہللا تعالی سے مانگنے واال کبھی محروم نہیں رہتا۔

* * * * *

ہللا تعالی پر بھروسہ کرنے واال ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔وہ اگر مر کر اوجھل بھی ہو جائے تو بھی زندہ سمجھا جائے گا کیوں کہ اس کا رشتہ حق تعالی سے قائم ہے۔

* * * * *

اور دوسری طرؾ (مہابت اہلل)عشق الہی کی سب سے عمدہ شکل وہ انسان ہوتا ہے جو ایک طرؾ سے ہللا کے دبدبےسے گھرا ہوا ہو۔ (مخالفت اہلل)سے ہللا کے خوؾ

* * * * *

ہللا تعالی کا ہمیں اپنی ذات سے محبت کرنے کا امکان عطا کرنا ہمارے لئے کتنا عظیم انعام ہے۔۔۔

Page 116: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

فالں محرکات سے ہدؾ تک پہنچا جاتا ”ہزاروں تجربوں سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب بھی یہ کہا جاتا ہے کہتو کچھ ہی عرصے میں وہ محرکات تہس نہس ہو جاتے ہیں ۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اپنی جان کو دانتوں میں دبا “ ہے

کر ہللا کے بھروسے پر کام کرتے چلے جائیں ۔

* * * * *

جسے تم جہنم تک پہنچانا چاہتے ہو اگر وہ تمہاری پہنچ سے باہر ہو تو ایک وقت آئے گا جب قدرت خودہی اس سے بدلہ لے لے گی۔

باطنی دنیا

ہماری روح میں داخل ہو کر جڑ پکڑنے واال ہر خیال جلد یا بدیر اپنا کا میوہ بھی ہو سکتا ہے اور جہنم کا زقوم بھی۔۔۔ “ طوبی جنت”پھل دے دیتا ہے۔یہ پھلعفو اور تحمل کا مرکز ہو اس کا دل ہمیشہ جنت کے ‘ اچھائی‘ جس انسان کا دماغ نیکی

باؼات کی یاد دالتا ہے۔اس قسم کے انسان کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ زنا کر کے انسانوں کو قتل کر دے ‘ وہ بیٹھے بٹھائے چوری یا راہزنی شروع کردے گا

ہر شخص کو حقیر سمجھے گا اور ہر شے ‘ شراب پی کر منشیات کا عادی ہو جائے گا‘ گاپر نکتہ چینی کرے گا۔ان تمام نا مناسب حرکات کے ارتکاب کے لئے شرط ہے کہ وہ شخص بہت عرصہ پہلے سے ہی بعض قسم کے برے خیاالت اور بری سکیمیں بنانے میں مشؽول رہ چکا ہو۔

* * * * *

جس انسان کا دماغ برے اور شیطانی خیاالت سے پر ہو اس کی تمام حرکات اس کی باطنی دنیا کی عکاسی کرتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی باطنی دنیا کے

Page 117: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

بل پر اپنے معین نظام اور سمت تک نہیں پہنچ پاتا تو پھر وہ اپنی خارجی دنیا میں کسی طرح بھی نہ اچھا ہو سکتا ہے اور نہ ہی اچھا نظر آ سکتا ہے۔ اگر اچھا نظر آ بھی جائے تو وہ زیادہ عرصہ اچھا رہ نہیں سکتا۔

دوست اوچ دوستی

دوستوں اور ساتھیوں کو عزیز جانتے ہوئے ان پر احسان کرنے والے انسان اپنے دشمنوں کے خالؾ بے شمار محافظ اور اپنی پشت پناہی کرنے والے لوگ تیارپاتے ہیں ۔

* * * * *

انسان کے لئیے سچے دوستوں کی ضرورت اس کی دوسری ضروریات سے کسی طور پرپیچھے اور کم اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ اگر ایک شخص دوست احباب کے نقطہ نظر سے خود کو امن و امان اور حفاظت میں محسوس کرتا ہے تو وہ کئی دوسرے معامالت میں بھی اپنے آپ کو بے خطر محسوس کر سکتا ہے۔

* * * * *

عقلمندانسان وہ ہے جو اپنے اردگرد کے لوگوں سے تعلقات خراب ہونے پر آپس میں پیدا شدہ بدمزگی کو جلد از جلد دورکر کے نئے سرے سے دوستی قائم کرنا جانتا ہو۔ اس سے بھی زیادہ عقلمندشخص وہ ہوتاہے جواتنا محتاط رہتا ہے کہ اپنے دوستوں کے ساتھ کبھی ناچاقی پیدا ہی نہ ہو۔

* * * * *

خفیہ دشمنوں کی طرح انسان کے خفیہ دوست بھی ہوتے ہیں ۔خفیہ دوست خودکو دوست کہنے والے کو خوشامدی سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ جس طرح دشمن کی پہچان کرنے میں محنت صرؾ کی جاتی ہے اسی طرح دوست ڈھونڈنے کو بھی کم اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ ڈھونڈے بؽیر ہی مل جانے والے دوست شایداتنے قابل اعتبارنہ ہوں جتنی ان سے توقع کی گئی ہو۔

* * * * *

Page 118: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

دوستوں میں پیار محبت اور باہمی تعلقات کا دوام اس بات پر منحصر ہے کہ وہ جائزباتوں اور معقول کاموں میں ایک دوسرے کوسمجھیں اور ایک دوسرے کے لئے قربانی کا جذبہ رکھتے ہوں ۔ جو لوگ اپنی سوچ اور طرز عمل میں ایک دوسرے کے لئے قربانی نہ دے سکیں ان کی دوستی مختصر اور آئی گئی ہوتی ہے۔

* * * * *

ان کے دکھوں کو اپنے ضمیر میں ‘ کسی شخص کا اپنے دوستوں کا رفیق صادق ہونامحسوس کرنے اور ان کی لذتوں کو اپنی لذتوں کی طرح سمجھنے کے تناسب سے ہوتا

اور ان کے ہنسنے پر ہنس نہیں سکتا ‘ ہے۔ جو آدمی دوستوں کے رونے پر رو نہیں سکتا وہ وفاداردوست نہیں سمجھا جاتا۔

* * * * *

دوستوں اور ساتھیوں کی دنیاوی حالت اچھی نہ رہنے کے ‘ حقیقی دوستی اور بھائی چارہدوران بھی ان کے تعلقات کے دوام کے تناسب سے ظاہر ہوتا ہے ۔جو شخص برے دنوں میں اور خطرے کی گھڑی میں اپنے دوستوں کا ساتھ نہیں دے سکتا اس کا دوستی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

* * * * *

حقیقی دوست وہ ہے جو اپنے دوست کو ان جگہوں پر بازو کا سہارا دیتا ہے جہاں گرنے نہ کہ وہ جو ہر کام میں محض سرہی ہال دیتا ہو۔۔۔‘ کا ڈر ہو

* * * * *

جو لوگ اپنے ارد گرد کے لوگوں سے اکثر جھگڑا فساد کرتے رہتے ہیں ان کے دوست بھی کم ہی ہوتے ہیں ۔ جوشخص چاہتا ہے کہ اس کے دوستوں کی تعداد بھی زیادہ ہو اور وہ وفادار بھی ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ دوستوں سے ؼیر ضروری بحث مباحثوں میں الجھنے سے ہر حالت میں گریز کرے۔

* * * * *

!اگر تم اپنے آپ کو عزیز سمجھتے ہو تواوروں کو بھی عزیزجانو

* * * * *

دوستی ہر شے سے پہلے دلوں کا معاملہ ہے۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دکھاوے اور وہ ہمیشہ دھوکہ ہی کھاتے رہتے ہیں ۔ اس قسم کے ‘ دھوکے سے قائم کی جا سکتی ہے

لوگوں کے ارد گرد اگر وقتی طور پر چاپلوسی اور خوشامد کے چکر سے دھوکا کھا

Page 119: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

جانے والے پانچ سات سادہ لوح لوگ جمع ہو بھی جائیں تو اس بات کا قطعا کوئی امکان نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی دوستی کو زیادہ عرصہ قائم رکھ سکیں گے۔

قیمتی انسان

انسانوں کے درمیان نہایت معمولی اشیاءکے بدلے خریدے جا سکنے والے سستے لوگوں کی طرح اتنے مہنگے لوگ بھی موجود ہیں جو دنیا بھر کے سونے اور جواہرات کے عوض بھی نہیں خریدے جا سکتے ۔قوموں کو بلندیوں پر پہنچانے والے بھی اس دوسری قسم کے لوگ ہی ہوتے ہیں ۔ مہنگے انسان بارش سے لدے بادلوں کی طرح ہمیشہ بلند آئیڈیل اور فضیلتوں سے لدے

جب وہ رخصت ہو جاتے ہیں تو ان کے بعد وہ زمین جہاں ‘ ہوتے ہیں ۔ انہیں شہرت حاصل ہو یا نہ ہو سے ان کا گزر ہوا ہو ضرور سرسبزوشاداب ہوتی رہتی ہے۔۔۔

* * * * *

میں مر رہا ہوں مگر ابد تک زندہ رہوں گا۔مگر تم موت ”:عمر مختار نے اطالوی لوگوں سے کہا تھامسلمان اپنی زندگی بڑے مہنگے داموں فروخت کرتا ہے۔وہ حیات فانی “گے۔ؤ کے ساتھ ہی ختم ہو جا

دے کر حیات ابدی لے لےتا ہے۔جہاں تک ہماری اس صحت کا تعلق ہے جو ہمیں دنیا سے باندھے پتی کی ‘ یہ چند روزہ خوبصورتی والے گالب کی‘ یعنی یہ چیز جسے صحت کہتے ہیں ‘ رکھتی ہے

طرح ہے۔ گالب کی پتی جب تک جاندار اور صحتمند ہوتی ہے توجہ اپنی طرؾ مبذول کراتی ہے ۔مگر کمال جائے تو اس کی کوئی قیمت نہیں رہتی

فانی ہونا

Page 120: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہونے والے موت کے ‘ دل کی دھک دھک کی آوازیں راگ کی بندش کی سرسراہٹ ہیں ۔

* * * * *

یہ تو تقریبا ہر شخص جانتا ہے کہ قیامت قریب آ چکی ہے۔ مگرنہ معلوم کتنے لوگ یہ بھی سمجھتے !ہیں کہ قیامت کا ایک حصہ ہرروز بپا ہوتا رہتاہے۔۔۔

* * * * *

اگر نوجوانوں کو پہلے سے ہی احساس ہوتا کہ ان کی جوانی اور خوبصورتی کے گزر جانے کے بعد ان کی قدرو قیمت کس قدر گر جائے گی تو وہ ضرور ابدی جوانی اور خوبصورتی کی راہوں کی تالش پر مسلسل تحقیق کرتے رہتے۔

* * * * *

بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو انسان کی نظروں میں نہایت قیمتی ہیں اور جو اس کے ساتھ ہی مرکر ختم ہو جاتی ہیں ۔ مگر اس کے پیش کردہ مفید کام اور مفید خیاالت اس کے مزار میں داخل ہونے کے بعد بھی ابد تک زندہ اور باقی رہتے ہیں ۔۔۔

چونا اوچ ہنسنا

Page 121: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ں ؤحساس روحوں کے ہشاش بشاش ہو جانے اور ان کے وجدان کی جلتی آگ کو آنسو‘ رونا سے بجھانے کی کوشش ہے۔مگر اسے کیا کہئیے کہ اکثر انسان جہاں رونے کی ضرورت ہو وہاں ہنستے ہیں اور جہاں ہنسنا ہو وہاں روتے ہیں ۔۔۔؟

* * * * *

جب روح آگ پکڑتی ہے تو ضمیرجلنے لگتا ہے۔یہ وہ وقت ہے جب انسان روتا ہے۔عین اس لمحے آنسو پہنچ جاتے ہیں کے درمیان یہی تعلق ہے۔۔۔“ چشمے”اور “ چشم”اور روح کی آگ بجھا دیتے ہیں ۔میرے خیال میں

بدی

جو لوگ متواتر بدی کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں ان کے کام میں اگر کوئی بھی مداخلت نہ کرے تو بھی ان کی قسمت میں لکھا جا چکا ہے کہ وہ ایک روز

مسلسل کی جانے والی بدیوں کی !یقینا اپنی بدیوں میں پھنس کر رہ جائیں گے۔ جی ہاں راہ جلدی یا بدیروہاں جا پہنچتی ہے جہاں بدی ہو تی ہے اور جو باآلخر بدی کرنے والوں کی موت پر ختم ہوتی ہے۔

* * * * *

عارضی قسم کے شر خواہ دیکھنے میں مستقل ہی نظر آئیں مگر حقیقت میں یہ وقتی ہی ہوتے ہیں ۔ یہ قدرتی بات ہے کہ جب عمر ہی ختم ہو جاتی ہے تو ایسے شر بھی ہر دوسری چیز کی طرح مر کر ختم ہو جاتے ہیں ۔ لیکن کیا کیا جائے کہ بعض اوقات مرتے وقت یہ ہماری انسانی اقدار کو بھی اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں ۔

Page 122: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

طمع

طمع ایک ایسا جال ہے جو شیر کو چوہا بنا دیتا ہے۔جو بھی اس جال میں پھنس جاتا ہے وہ اس سے چھوٹ نہیں سکتا۔

* * * * *

طمع ایک ایسا دیو ہے جو سب سے طاقتور جوانوں کی پیٹھ بھی زمین سے لگا سکتا ہے۔

* * * * *

جس شخص کوئی کو طمع نہیں ہوتا ایک وقت آتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کاطمع کرنے لگ جاتے ہیں ۔

* * * * *

حاسدوں کا حسد اور طمع کاروں کا طمع دنیاوی جہنم ہیں ۔

* * * * *

طمع کاری انسان کی گردن میں ؼالمی کا طوق ہوتی ہے۔

* * * * *

خاص طور ‘ضرورت حیا کی حس کو کپڑے کے کیڑے کی طرح کھا جاتی ہے !پر جب اسے طمع کی مدد بھی حاصل ہو تو۔۔۔۔

* * * * *

ں میں جان دے دیتا ہے۔ؤانسان جس چیز کی ہوس میں پڑ جائے اسی کے بازو

Page 123: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

انحچاف

کی خاطرباد بان کھول کر “ مہ لقا سلطان”آج تک ہم نے ایککتنے گمنام لوگوں کا پیچھا کیا ہے۔ مگر نہ ہمیں سودائے عشق کے باعث

اور نہ ہی ہم اس ساحل پر واپس ہی پہنچ ‘ صحرا میں بھٹکتی لیلی مل سکی سکے جہاں سے چلے تھے۔۔۔

* * * * *

ایک معاشرہ جب اپنی روحانی جڑوں سے دور ہو جاتا ہے تو اس کا زاویہءنگاہ تبدیل ہو جاتا ہے اور اقدار کے اصول بھی مکمل طور پر تہس نہس ہو جاتے

اورظلم کو انصاؾ کا نام دیا جاتا ہے۔ ‘ ہیں ۔ ایسے معاشرے میں جہاد کوبؽاوتمروجہ قابل نفرت اشیاءکو تعریفوں کے پل ‘ تاریخ پر لعنتیں بھیجی جاتی ہیں

بے ‘ ادب کو نفرت سے دیکھا جاتا ہے‘ باندھ کر آسمان پر چڑھا دیا جاتا ہےبے شرمی طبعی ‘عصمت انتقام پر ختم ہوتی ہے‘حیائی کی تعریؾ کی جاتی ہے

قوم اور ماضی سے لوگوں کے رشتوں کو عامیانہ طریق ‘ سمجھی جاتی ہےجڑوں کی ؼیرموجودگی کو اور وہ لوگ جن کی جڑیں ‘ سے بدنام کیا جاتاہے

ہی نہیں ہوتیں انہیں بڑے آرام سے آسمان پر چڑھا دیا جاتا ہے۔

* * * * *

مخالؾ جنس کے افراد کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی عادت اور ہر وقت انہیں کے ساتھ رہنے کی آرزو یا توکسی کمزوری کا نتیجہ ہوتی ہے اور کسی فطری نقص کو ظاہر کرتی ہے یا پھر اس بات کی طرؾ اشارہ کرتی ہے کہ اس شخص میں دوسری جنس کی مخصوص خاصیتیں پائی جاتی ہیں

۔

Page 124: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

جہالت

اشیاءکے چہروں پر پڑے ایک نقاب کی طرح ‘ جہالتہے۔ جو بدبخت لوگ ا س نقاب کو ان اشیاءکے چہروں سے نہیں ہٹا سکتے وہ کبھی بھی کائنات کی بلندحقیقتوں پر اثراندازنہیں ہو سکتے۔ سب سے بڑی جہالت یہ ہے کہ انسان ہللا کو نہ جانے۔ خاص طور پر جب یہ بات خودؼرضی کے ساتھ مل جائے تو یہ ایک ناقابل عالج پاگل پن کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

* * * * *

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ دنیا کا انحصارایک حد تک پیسے پر اور کسی حد تک صحت و تندرستی پرہوتا ہے۔ یہ بات ان لوگوں کے لئیے تو درست ہو سکتی ہے جن کا علم اور مشاہدہ اس بات پرمبنی ہوتا ہے

مگر وہ با معنی انسان ‘ کہ دنیا کی ہر شے کا انحصار مادے پر ہےان کی ‘ جواصل حقیقت کو سمجھنے کے لئیے بیدار ہو چکے ہوں

نظروں میں یہ بات دھوکا کھا جانے کے عالوہ کچھ بھی نہیں ۔

* * * * *

اس کے انتظام کی ‘ آج کی دنیا کو برباد کرنے پر تلے ہوئے لوگحفاظت کرنے والوں سے تعداد میں بھی بہت زیادہ نظر آتے ہیں اوران کا اثرورسوخ بھی بہت دکھائی دیتا ہے۔ اگر طاقت کے توازن پر اثرانداز ہونے والی معنوی قوت نہ ہوتی توحال حاضر کی صورت

Page 125: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

احوال میں یہ کہنا دشوار تھا کہ اچھائی اور خو بصورتی کے نام پر ۔لمبی مسافتیں طے کی جا سکیں گی

خیچوشچ دین اور عقل کی نظر میں فرض ہے اور ضمیر کی نظر میں ایک ‘ نیکی کے کام کرنا

عقل ‘ یہ دین میں گناہ ہے‘ قابل قدر حرکت۔ جہاں تک نیکی کے کام نہ کرنے کا تعلق ہےاور ضمیر کی نظروں میں مادر پدر ‘ کی نگاہوں میں اخالق کی سطح سے پستگی ہے

بلکہ کسی حد تک نقصان دہ ‘آزاد ہونے کی نشانی ہے۔ نیکی بعض حاالت میں بے فائدہبھی ثابت ہو سکتی ہے مگر بدی میں ہرگز تبدیل نہیں ہو سکتی۔بدی نیکی کا سو فیصد الٹ ہے۔۔۔۔۔

زبان کے باچے میںانسان کو رحمت المتناہی کے عطا کردہ سب سے بڑے انعامات میں سے ایک انعام زبان ہے۔ اسی

اور اسی سے آنے والی نسلوں کے ‘ اسی سے علوم سیکھتا ہے‘ سے انسان انسانیت کے گن گاتاہےہمراہ زندگی گزارتا ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ زبان کوخراب کر کے اسے پرندوں کی زبان میں تبدیل کرنے والوں کو اس بات کا علم ہے یا نہیں کہ ان کی یہ خیانت کتنی بڑی خیانت ہے۔

دو چخی یا شاطچانہ سوچشروع شروع میں دوسروں کی برائیاں کر کے اپنے آپ کو روشناس کرانے اور اپنا مدعا بیان کرنے کا راستہ محض مشرق میں ایک نفاق پرست گروہ کی کارستانی سمجھا جاتا تھا۔ افسوس کی بات ہے کہ اب یہ حرکت اس قدر وسعت اختیار کر چکی ہے کہ حق کے نام پر جنگ کرنے والوں کے ایک حصے نے اس حرکت اور حملے کو دو رخی یا شاطرانہ حکمت عملی کے ساتھ جا مالیا ہے۔خدا رحم

خدا رحم کرے شاطرانہ پالیسی پر ! کرے ان لوگوں پر جو باطل کے ذریعے حق کی تالش کرتے ہیں !عمل کرنے والے تمام لوگوں پر۔۔۔۔

ا ھائی اوچ عمدگی کا غلبہزود یا بدیر ‘ یہ سب دنیا کا بنیادی خمیر ہیں ۔ خواہ کچھ بھی ہو‘ سچائی اور فضیلت ‘ عمدگی ‘ اچھائی

دنیا پٹڑی پر چڑھ کر اسی الئنپر آ جائے گی اور اسے روکنے کے لیے کسی کی طاقت کافی نہیں ہو ۔گی

Page 126: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

(قوم)ملت

‘ وہ افراد جو اپنی قوم کے اچھے فرد بننے کا ارادہ رکھتے ہیں اگر وہ اس عزم میں واقعی مخلص ہیں تو وہ اپنے ذاتی مفادات کو بھول جائیں گے مگر قومی معامالت میں چھوٹے سے چھوٹے معاملوں کو پل بھر کے لئے بھی ذہن سے نہیں نکال سکیں گے۔

* * * * *

سب سے عالی مرتبت قوم وہ ہے جو اپنے تمام کاموں پر اتحاد اور یگانگت کی حدود میں رہتے ہوئے ؼوروؼوض کرتی اور اکثریت کی رائے کو وزن دیتی ہے۔ظاہر ہے کہ ایسی قوم کے افراد کے لیے ایک نہایت اہم شرط یہ ہے کہ انہوں نے دین زبان اور تاریخی شعور جیسے حیاتی معامالت میں ایک ہی جیسی تربیت حاصل کی ہو۔

* * * * *

‘ جن لوگوں کو ہم چاہتے ہیں اور جن کی چاہت کے متعلق ہمیں یقین کامل ہےان کی طرؾ سے ہم پر کی جانے والی تنقیدہمارے لیے سب سے زیاد ہ پر لطؾ شے ہونی چاہیے۔ورنہ اس کے باوجود کہ ہم اپنے بعض نقائص کے باعث

ہمیں اس بات کا خیال بھی نہیں ‘ اپنے کئی دوستوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں آئے گا کہ ہم اپنے بعض نقائص اور کمزوریوں کو درست ہی کر لیں ۔

* * * * *

ہمیں قومی لحاظ سے کمزور بنانے والے اہم ترین عوامل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم اپنے گردونواح پر حاوی ان لوگوں کو مخلص سمجھتے ہیں جو بظاہر دوست دکھائی دیتے ہیں مگر اصل میں فریبی لوگ ہوتے ہیں ۔حاالنکہ انسان کو ہر وعدے پر بھروسہ کر کے دھوکا نہیں کھانا چاہئے۔ اور نہ ہی ہر راستہ دکھانے والے پر یقین کر لینا چاہیے۔

Page 127: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

کسی قوم کے افراد اگر حیلہ بازی اور فریب دہی کو عقلمندی سمجھتے ہیں تو یوں سمجھیے کہ وہ قوم ایک ایسے درد میں مبتال ہے جو بالکل ال عالج ہے۔ایسے ڈھانچے میں بعض اشیاءکو اچھائی کی عالمت سمجھنا دراصل اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادؾ ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی دق کا مریض یہ سمجھنے لگ جا ئے کہ اس کے جسم میں جگہ جگہ ہو جانے والی سوجن دراصل اسے موٹا تازہ بنا کر بہتری کی طرؾ لے جا رہی ہے۔

* * * * *

اگر کسی قوم کے تمام افراد کے درمیان ایسے تعلقات قائم ہوں جیسے خاندانی توان تعلقات کے وسیلے سے ‘ سطح پر لوگوں کے آپس کے تعلقات ہوتے ہیں

پانی قسمت اس قوم کی ترقی کی چوٹی کی طرؾ بڑھنے والی سڑک پر یقیناکرے گی۔ اس کے برعکس جس قوم کے افراد میں ایک دوسرے ؤ کا چھڑکا

اور ‘ ہر شخص دوسرے شخص کے خالؾ ہو‘ سے پیار محبت کا فقدان ہولوگوں کو امن و سالمتی کے سلسلے میں ایک دوسرے پر بھروسہ نہ ہو تو نہ صرؾ یہ کہ وہ قوم ابھی تک صحیح معنوں میں قوم کے درجے تک نہیں پہنچ پائی بلکہ اس قوم کے مستقبل کے بارے میں وعدے وعید کرنا بھی قبل از وقت ہو گا ۔

نوجوان

قوت اور ذکا کا نونہال پودا ہوتا ہے۔اگر اس کی ‘جوان شخص طاقتدلوں کو ‘ تربیت اور اصالح کی جائے تو وہ تمام مشکالت پرقابو پا جانے واالہرکولیس

روشن کرنے والی اور دنیا کو اعلی نظام کا وعدہ کرنے والی ایک طاقت بن سکتا ہے۔

* * * * *

Page 128: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

جمعیت ایک بلوری برتن ہے جب کہ نوجوان لوگ اس برتن میں کسی مائع شے کی مانند ہوتے ہیں جو اسی برتن کے رنگ ڈھنگ اور شکل و صورت میں ڈھل جاتے ہیں ۔ وہ اسی شکل میں دکھائی دیتے ہیں ۔نہ جانے نظام حکومت کے وہ حواری جو انہیں اطاعت

کیا انہوں نے کبھی ان نوجوانوں کی طرؾ ‘اور فرماں برداری کی تاکید کرتے رہتے ہیں پلٹ کر دیکھا بھی ہے یا نہیں ؟

* * * * *

نمکین کھا نوں جیسی ہوتی ہے۔ جب ‘ تھوڑی کھٹی (نیکی)اور فضیلت‘ ہوس خاصی میٹھیکسی نوجوان کو ان دونوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی آزادی دے دی جائے

کہ وہ ان میں سے ‘ تو نہ جانے اس بات کے کہنے کی حاجت باقی رہ جاتی ہے یا نہیں کس کا انتخاب کرے گا اور کسے رد کر دے گا۔ حاالنکہ یہ ہمارا ہی فرض بنتا ہے کہ انہیں اس بات کی تربیت دیں کہ وہ فضیلت اور نیکی کو اپنا دوست بنائیں اور بد اخالقی اور ذلت کے دشمن ہوں ۔

* * * * *

ہم جس وقت تک تربیت کے ذریعے ایک نوجوان کی مدد کو نہیں پہنچتے اس وقت تک ‘ بصیرت‘ وہ اپنی پرورش کے ماحول کااور ہوس اور ذوق کا پروانہ ہی بنا رہتا ہے۔ علم

اور خونخوار شخص ہوتا ہے۔نوجوانوں ‘ اور منطق سے بہت دور گردش کرتا ایک دیوانہ‘ کی عمدہ تربیت جو ان کے ماضی پر مبنی ہو اور انہیں اپنے مستقبل کے لیے تیار کرے

بنا دے گی۔ ان میں سے ہر نوجوان کومستقبل کا حضرت عمر

* * * * *

کسی قوم کا عروج و زوال اس قوم کی نوجوان نسلوں کی اس تعلیم و تربیت پر منحصر ہو گا جو ان کی روح اور شعور کو دی جائےگی۔ وہ قومیں جن کی جوان نسلیں پرورش

اس ‘ کے دوران اچھی تربیت حاصل کرتی ہیں ان کا ہمیشہ ترقی کے لیے نامزد کیا جاناکے برعکس وہ قومیں جو اس پہلو سے ؼفلت برتتی ہیں ان کا ہمیشہ روبہ زوال رہنا بالکل ناگزیر ہے۔

* * * * *

وہ اگر اس قوم ‘ جو لوگ کسی قوم کے مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کرنا چاہیں کے جوانوں کو دی جانے والی تربیت کامطالع کر لیں تو ان کی پیشین گوئی سو فی صد درست نکلے گی۔

Page 129: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

نوجوان

ہمارے ملک اور قوم ‘ جوان نسلوں کی طرؾ شفقت کا رجحانکے سرپرست اور مربی پیدا کرنے کی راہ پر اٹھایا واال ایک با معنی قدم ہے۔ لیکن اگر شفقت کے اس جذبے کا زور عمل ان کی قلبی اور روحانی زندگیوں پر ہو گا تو وہ فائدہ مند ہوگا۔ لیکن جب اسی جذبے کا رخ ان کی جسمانیت کی طرؾ موڑ دیا گیا تو عین ممکن ہے کہ اس کا مقصد اصل مقصد سے ہٹ کر ان کی جسمانی شخصیت کو ڈھالنے میں بدل جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ متعلقہ نوجوان اتنا قوی ہیکل شخص بن جائے کہ وہ نہایت بھدا معلوم ہونے

یہاں تک کہ اس کی مردانگی بھی مشکوک ہو جائے۔‘لگے

مگر ‘ اپنی جوان نسلوں کی قدر کرنے والی ہر قوم ہمیشہ اپنے عروج پر پہنچیجن قوموں نے انہیں جوانی کی اندھی خواہشوں کی لہروں پر چھوڑ دیا انہیں اس ؼفلت کی بہت بھاری سزا بھگتنا پڑی۔ آج اگر ہمارے ارد گرد ہر طرؾ ؼداری اور نفرت کی بہتات ہے اور ہماری نسلیں دن بدن زیادہ ہی سرکش اوربے قابو ہوتی چلی جا رہی ہیں تو یہ سب ہماری ؼفلت کا نتیجہ ہے۔ جی ہاں

ں ؤاگر آج ہمارا سر بادلوں میں گردش کر رہا ہے اور زہریلے سانپ ہمارے پا! تلے سے نکل کر ہمار گھروں کے سونے والے کمروں تک پہنچ چکے ہیں اور „ہمیں اس کی خبر تک نہیں ہوئی

نوجوان

Page 130: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ہمارے ملک اور قوم کے سرپرست اور مربی پیدا کرنے کی راہ پر اٹھایا واال ایک با معنی قدم ہے۔ ‘ جوان نسلوں کی طرؾ شفقت کا رجحان

لیکن اگر شفقت کے اس جذبے کا زور عمل ان کی قلبی اور روحانی زندگیوں پر ہو گا تو وہ فائدہ مند ہوگا۔ لیکن جب اسی جذبے کا رخ ان کی جسمانیت کی طرؾ موڑ دیا گیا تو

عین ممکن ہے کہ اس کا مقصد اصل مقصد سے ہٹ کر ان کی جسمانی شخصیت کو ڈھالنے میں بدل جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ متعلقہ نوجوان اتنا قوی ہیکل شخص بن جائے کہ وہ نہایت بھدا معلوم

یہاں تک کہ اس کی مردانگی بھی مشکوک ہو جائے۔‘ہونے لگے

مگر جن قوموں نے انہیں ‘ اپنی جوان نسلوں کی قدر کرنے والی ہر قوم ہمیشہ اپنے عروج پر پہنچیجوانی کی اندھی خواہشوں کی لہروں پر چھوڑ دیا انہیں اس ؼفلت کی بہت بھاری سزا بھگتنا پڑی۔ آج اگر ہمارے ارد گرد ہر طرؾ ؼداری اور نفرت کی بہتات ہے اور ہماری نسلیں دن بدن زیادہ ہی

اگر آج ہمارا ! سرکش اوربے قابو ہوتی چلی جا رہی ہیں تو یہ سب ہماری ؼفلت کا نتیجہ ہے۔ جی ہاں ں تلے سے نکل کر ہمار گھروں کے ؤسر بادلوں میں گردش کر رہا ہے اور زہریلے سانپ ہمارے پا

سونے والے کمروں تک پہنچ چکے ہیں اور ہمیں اس کی خبر تک نہیں ہوئی „

شادی اوچ گھچباچ

شادی ذوق اور لذت کی خاطر نہیں کی جاتی۔شادی اس لئیے کی جاتی ہے کہ فرد کے احساسات اور خیاالت کو بے ‘ قوم کو بقا اور دوام حاصل ہو سکے‘خاندان وجود میں آئے

اور جسمانی لذتوں کو ربط و ضبط کے تحت الیا جا سکے۔ فطرت ‘ ترتیبی سے نجات دالئی جا سکےاس موضوع پر بھی ذوق اور لذتیں دو عناصر پر مشتمل ہوتی ہیں ۔ ایک ‘ کے بیشتر مسائل کی طرح

ترقی اور دوسرخواہشوں کو اکسانے کی حس۔

* * * * *

وضع قطع یہاں تک کہ دولت ‘ شادی کے خواہشمند اشخاص کو شادی کا فیصلہ ایک دوسرے کے لباساور ظاہری خوبصورتی کی بنا پر بھی نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اس نہایت سنجیدہ مسئلے میں ایک

فضیلت اور چال چلن کی بلندی ‘ ناموس اوراخالص کا ادراک‘ عزت‘ دوسرے کی روحانی خوبصورتی کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔

* * * * *

Page 131: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

‘ جو لوگ شادی کرتے وقت ضروری تحقیقات نہیں کرتے یا انہیں اس کام کے لیے فرصت نہیں ملتیتو ‘ اگر ان پر ایسا وقتآ جائے کہ انہیں ایک دوسرے سے علیدگی کے سوا کوئی چارہ ہی نظر نہ آئے

مسئلہ یہ نہیں ہوتا کہ ! پھر ان کے لیے نہایت عاقالنہ اصول بھی بے فائدہثابت ہوں گے۔ جی ہاں

کہ جن بلکہ اہم بات یہ ہے ‘ نشیمن کی آگ سے کم از کم نقصان اٹھا کر کیسے جان چھڑائی جائے

ٹھنے کا امکان ہے انہیں نشیمن میں سرے سے داخل ہی نہ ہونے دیا جائے۔عناصر سے آگ بھڑک ا

* * * * *

کسی نا آشنا کو اپنی بیٹی کا رشتہ دینا ہی نہیں چاہیے۔ اور نہ ہی کسی ایسی لڑکی کا رشتہ مانگنا کہ )چاہیے جسے آپ جانتے نہ ہوں ۔ناواقؾ لوگوں سے شادی کا عقد یا طالق پر اختتام پذیر ہوتا ہے

اور یا پھردونوں طرؾ کے لیے زندگی بھر شکنجے میں پھنسے (کو نہایت نا پسند ہے‘ یہ فعل ہللا ہلالج لج رہنے کا وسیلہ بن جاتا ہے۔

* * * * *

ایسے ایسے مبارک نشیمن بھی ہیں جن کی بنیاد پہلی کوشش میں ہی حق تعالی کی پناہ لیتے ہوئے اور جو زندگی بھر بالکل ایک مکتب کی ‘منطق اور اچھی طرح کی دیکھ بھال پر رکھی جاتی ہے

طرح کام کرتے ہیں ۔ ان میں تربیت پانے والے طلباءاپنی متعلقہ قوم کے دوام اور بقا کے ضامن ہوتے ہیں ۔

* * * * *

بؽیر سوچے سمجھے ازدواج کے نام پر کی گئی شادیاں اور بندھن بعدازاں رو رو کر گلیوں میں اور دونوں خاندانوں کے ‘ یتیم خانوں میں ترک شدہ یتیم بچوں ‘ دھکے کھانے والے شادی کے رفیقوں

افراد کے دلوں کو زخمی کرنے والے مجرموں پر منتج ہوتے ہیں ۔

* * * * *

ایک فرد کے لیے اگرشادی کا ایک فائدہ ہو تو قوم کے لیے بے شمار فائدے ہوتے ہیں ۔ اس اعتبار سے ایک ناکام شادی کی طرح سرے سے شادی ہی نہ کرنے سے لڑکیاں محتاج رہ جاتی ہیں اور لڑکے ذلیل ہو جاتے ہیں ۔ یہ ایک طرح کا ہیضہ ہے جس سے قوم کا خون اور پانی ضائع ہوتا رہتا ہے۔

* * * * *

ایک ایسا نشیمن جو روز اول سے ہی مضبوط بنیادوں پر بنایا گیا ہو اور جس میں مادی اور معنوی قوم کے نقطہءنظر سے بقا کا محفوظ ترین بنیادی پتھر ہوتا ہے ‘ خوشیوں کی لہریں موجزن رہتی ہوں

اور بافضیلت افراد کی تربیت اور نشونما کے لیے بھی ایک مبارک مکتب کا کام دیتا ہے۔وہ قومیں جو اپنے گھروں کو مکتبوں کی طرح مقدس و بابرکت اور اپنے مکتبوں کو اپنے گھروں کی طرح گرمائش والے اور آرام دہ بنا سکتی ہیں ان کا شمار سب سے بڑی اصالحی تحریکوں میں ہوتا ہے۔اور وہ آئندہ نسلوں کے امن اور خوشیوں کی ضامن سمجھی جاتی ہیں ۔

* * * * *

Page 132: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

قوم گھرانوں اور افراد سے بنتی ہے۔ اس لحاظ سے اگر گھرانے اچھے ہوں گے تو قوم بھی اچھی ہو گی اور اگر گھرانے برے ہوں گے تو قوم بھی بری کہالئے گی۔ کاش کہ قوم کی اصالح کے !خواہشمند ہر شے سے پہلے گھرانو ں کی اصالح کے لیے کا م کرتے۔۔۔۔

* * * * *

ایک مکان کو اس میں رہائش پذیر انسانوں کے مطابق گھر کہا جاتا ہے۔ ایک گھر کے فراد اسی حد تک خوش سمجھے جاتے ہیں جس حد تک وہ تمام مکینوں کی انسانی اقدار میں ایک دوسرے کے

ہم کہ سکتے ہیں کہ ایک انسان اپنے گھر کے سہارے ہی انسانوں کی ! شریک ہوتے ہیں ۔ جی ہاں طرح رہ سکتا ہے اور ایک گھر اپنے اندر رہنے والے انسانوں کے باعث ہی گھر کہالتا ہے۔

* * * * *

گھر ایک چھوٹی سی قوم اور قوم ایک بڑا سا گھرہوتی ہے۔ جس شخص نے کسی بڑے یا چھوٹے گھر کا انتظام بؽیر کسی عیب کے کامیابی سے چال لیا اور جو اس گھر کے مکینوں کو انسانیت کے اونچے

وہ شخص تھوڑی سی مزید کوشش سے اس سے بڑے کسی اور ادارے کو بھی ‘ درجے پر پہنچا گیا کامیابی سے چال سکتا ہے۔

* * * * *

ایک گھر کی بد انتظامی اور گندگی اس بات کی آئینہ دار ہوتی ہے کہ اس میں رہنے والے لوگ گداگر دکانوں اور گلیوں ‘ ہیں اوران کی روحےں پریشانی کا شکار ہیں ۔ اسی طرح ایک شہر میں گھروں

اور اشیاءکی کارکردگی کے نقائص اس شہر کے بلدیہ کے عملے کے درجہ ‘بے انتظامی ‘ کی گندگی۔حساسیت کی تصویر پیش کرتے ہیں

طالق

طالق وہ فعل ہے جس کے ذریعے فرد نکاح کے بندھن سے چھٹکارا حاصل کر کے اپنے آپ کوآزاد کر لیتا ہے۔ اگرچہ طالق کے نتیجے میں متعلقہ شخص شازونادر ہی سکھ کا سانس لیتا اور آرام کرتا دکھائی دیتا ہے مگر اکثر اوقات یہ فعل اپنے ہمراہ بے چینی اور پریشانی ہی التا ہے۔

دین کی نگاہوں میں جن کاموں کے کرنے کی ممانعت نہیں ہے ان میں سب سے ناپسندیدہ فعل طالق ہے۔ مگر جتنی اس کی اجازت اور جواز ناپسندیدہ ہے اتنا ہی اسے ممنوع قرار دینا بھی ؼیر طبعی اور ؼیر فطری ہے۔

Page 133: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

جن وجوہات کی بنا پرطالق ضروری ہو جاتی ہے ان سے آنکھیں چرانے کی وجہ انسانی خصلتوں سے اور ان خصلتوں کی خصوصیات سے العلمی ہے۔ اس بات کی امید رکھنا کہ شادی کرنے واالہر جوڑا آپس میں گھل مل جائے گا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ سوچنے

ایک ‘ واال شخص سادہ لوح ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ تمام انسان بالکل سیدھے سادےسب کی بناوٹ ایک جیسی ہوتی ‘ جیسی فطرت اور ایک ہی مزاج کے مالک ہوتے ہیں

اور چال چلن میں بھی سب ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ۔‘ ہے

* * * * *

طالق دینے والے کے لیے ندامت اور مطلقہ کے لیے نا انصافی کا ‘ ہر من مانی طالقسبب بنتی ہے اور خاندان کے ہر فرد کے لیے ایسی ذہنی پریشانی کا سرچشمہ ہوتی ہے کہ بعض اوقات اس فعل کا درد اور اضطراب ایک رستے زخم کی طرح ساری عمرمحسوس ہوتا رہتا ہے۔۔۔۔

* * * * *

اگر طالق ایک بیمار عضو پر جراحی کے عمل کی طرح سمجھی جاتی ہے تو ازدواج کے عقلی اور منطقی خطوط پرجاری رہنے کے لیے شادی کو بعض صحت بخش شرائط سے منسلک کیا جانا بھی ایک مفید احتیاطی عمل ہے۔چناچہ پیشتر اس کے کہ طالق دے

ضروری ہے کہ ‘کرخاندان پر اورطالق کی بندش سے ضمیر پر ظلم کرنے کی نوبت آئےمیاں بیوی کی باہمی ہم ا ہنگی کا ازدواج سے پہلے ہی نہایت احتیاط سے پتہ چال لیا جائے اور پھر بعد میں ان شرائط میں کسی قسم کی ڈھیل قبول نہ کی جائے جن کی وجہ سے یہ ہم آہنگی قائم رہتی ہے۔

کوئی زمانہ تھا جب صدیوں تک طالق پر پابندی لگا کر یا پھر اسے کبھی پوری نہ کی جا سکنے والی ایسی شرائط سے منسلک کرکے کوشش کی جاتی تھی کہ جو خاوند اور بیوی اکٹھی ازدواجی زندگی نہ گزارنا چاہتے تھے انہیں بھی اکٹھا رہنے پر مجبور کر دیا جاتاتھا۔ پھر ایک زمانہ ایسا بھی آیا جب عورت کو ایک ایسی شے کی طرح دیکھا جاتا تھا جسے جب چاہا پا لیا اور جب چاہا اپنے سے الگ کرکے پھینک دیا۔ ان دونوں میں سے پہلے زمانے میں مرد کو عذاب پہنچانے کے سواکچھ نہیں تھا اور دوسرے زمانے میں عورتکوانسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔

ماں باپ

Page 134: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ماں اور باپ دو ایسی مقدس ہستیاں ہیں جن کی سب سے زیادہ عزت کرنا انسان پر الزم ہے۔ جو شخص ان کی حرمت کرنے میں کسر اٹھا رکھتا ہے اسے حق تعالی کے خالؾ محاذ آرا انسان سمجھا جاتا ہے ۔والدین کے ساتھ بدسلوکی کرنے واال زودیا بدیر خود بھی بدسلوکی کا شکار ہو جاتا ہے۔

* * * * *

انسان جس روز سے ایک چھوٹی سی جاندار مخلوق کی شکل میں زندگی کا آؼاز کرتا ہے اسی روز سے وہ ماں باپ کے کندھوں پر ایک بوجھ بن کر نشوونما پانے لگتا ہے۔اس سلسلے میں اس بات کا کوئی امکان ہی نہیں کہ والد اور والدہ کی اپنے بچوں کے ساتھ شفقت کی گہرائی یا بچوں کی وجہ سے والد اور والدہ کو جو مصیبتیں جھیلنا پڑتی ہیں ان سب کی حدود مقرر کر دی جائیں ۔ اس لحاظ سے ان کی حرمت اور عزت نہ صرؾ اوالد کے لیے ایک انسانی قرض کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ اوالد کا ایک فرض بھی ہے۔

* * * * *

جو لوگ والدین کی قدر سے آگاہ ہیں اور انہیں حق تعالی کی رحمت تک پہنچنے کا وسیلہ سمجھتے ہیں وہ اس دنیا میں بھی اورآخرت میں بھی سب سے زیادہ خوش قسمت انسانوں میں شمار ہوتے ہیں ۔اور جو لوگ ان کی دل آزاری کر کے ان کی زندگیوں سے بےزاری کا اظہار کرتے ہیں وہ ایسے بدبخت انسان ہیں جنہیں دربدر اور ذلیل ہونے کے لئیے نامزد کیا جا چکا ہے۔

* * * * *

ا نسان اپنے والد اور والدہ کی جتنی عزت کرتا ہے اسی نسبت سے وہ عزت اس کے خالق کی عزت کی بھی عزت اور احترام نہیں (‘ہلالج لج)بھی شمار ہوتی ہے۔ جوشخص ان کی عزت نہیں کرتا وہ گویاہللا

کرتا۔ کیا عجیب حقیقت ہے کہ آجکل صرؾ ہللا کا احترام نہ کرنے والے ہی نہیں وہ لوگ بھی مسلسل اپنے ماں باپ کی بے عزتی کرتے رہتے ہیں جوہللا تعالی سے عشق کا دعوی

کرتے ہیں ۔ اوالد کو چاہیے کہ اپنی والدہ اور والد کی بے انتہا عزت اور اطاعت شعاری کرے۔ اور والدین کو بھی چاہیے کہ وہ جتنی اہمیت اوالد کی جسمانی صحت کو دیتے ہیں اتنی ہی اہمیت ان کی قلبی اور روحانی زندگی کو بھی دیں اور جلد ازجلد انہیں تربیت کے لیے ماہر ترین اساتذہ کے سپرد کر دیں ۔ کس قدر جاہل ہوتے ہیں وہ والدین جو بچے کے قلب و روح کو فراموش کیئے رکھتے ہیں ۔ ! اورکس قدر بد نصیب ہوتے ہیں وہ بچے جو اس قسم کی بد تہذیبی کا شکار ہو جاتے ہیں

* * * * *

Page 135: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

والدین کے حقوق کی پرواہ نہ کرنے اور ان کے خالؾ بؽاوت کرنے والی اوالد انسان کی بگڑی ہوئی شکل کے جنگلی حیوان جیسی ہوتی ہے۔اور وہ والدین جو بچے کی معنوی زندگی کو یقینی بنانے کی

اور خاص کر وہ ماں باپ کہ ‘ کوششوں سے محروم ہوتے ہیں وہ دونوں مرحمت سے عاری ظالم ہیں ! جن کا بچہ صحیح راہ پا کر اس پر پرواز شروع کر دے تو وہ اسے مفلوج کر ڈالیں

* * * * *

گھر معاشرے کی بنیادئی اکائی ہے۔ گھر کے ا فراد ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریوں کا جس قدر پاس کریں معاشرہ اتنا ہی توانا اور صحتمند ہوتا ہے۔ اس کے برعکس گھر میں کھوئی ہوئی شفقت اور عزت کو معاشرے میں تالش کرنا بالکل بے ہودہ ہو گا

ب ہ

ایک درخت کی نسل اور نوع کے دوام کے لیے جو کردار گٹھلی اور بیج ادا کرتے ہیں وہی کردار انسانی نسل اور نوع کے دوام کے لیے بچہ ادا کرتا ہے۔جو قومیں اپنے بچوں سے ؼفلت برتتی ہیں ان کی قسمت میں زوال لکھا ہوا ہے۔ اور جو انہیں بیرونی ہاتھوں اور بیرونی ثقافت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہیں ان کی قسمت میں یہی لکھا گیا ہے کہ وہ اپنی خصوصی شناخت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔

* * * * *

تیس چالیس سال کے وقفے کے بعد قوم کا سب سے زیادہ مستعد اور بار آور طبقہ آج کے بچے ہوں گے ۔جو لوگ بچوں کو حقیر اور نکما سمجھتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ یہی بات سوچ کر لرز جائیں کہ وہ قوم کے ایک اہم عنصر کو کیسے گھٹیا قرار دے رہے ہیں ۔

* * * * *

بعض انتظامی اداروں میں پائی جانے والی ‘ آج کی نسلوں میں مشاہدہ کی جانے والی برائیوں اور قومی سطح پر محسوس کی جانے والی دیگر مشکالت کی ساری ذمہ داری آج سے ‘ کمزوریوں

تیس برس پیشتر کے حکمرانوں پر آتی ہے۔ آج سے ایک چوتھائی صدی بعد ہر طرح کی فالکت اور اچھائیوں کی ذمہ داری آج کی نسلوں کی تعلیم و تربیت کا نصاب پیش کرنے والوں پر آئے گی۔

* * * * *

Page 136: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

اپنے مستقبل کو یقینی بنانے کی خواہشمندہر قوم کو چاہیے کہ دائیں بائیں اپنا وقت اور قوت خرچ کرتے ہوئے اپنے وسائل کا ایک حصہ ا ج کے بچوں کی نشوو نما پر بھی خرچ کرے جو مستقبل کے بڑے آدمی ہیں ۔ دوسری سمتوں میں جن اشیاءپر پیسہ خرچ کیا جاتاہے وہ تو ضائع بھی ہو سکتی ہیں مگر نئی نسلوں کو انسانیت کی بلندیوں پر پہنچانے کی سمت میں خرچ کیا جانے واال پیس توآمدن کے ایک الزوال ذریعے کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موجود رہتا ہے ۔

* * * * *

مفلس شریر و ‘ محتاج‘ جو لوگ آج معاشرے کے چہرے پر بد نامی کا دھبہ سمجھے جاتے ہیں مثالیہ ماضی کے وہ بچے ہیں جن کی تربیت میں ہم نے ‘ افیمی وؼیرہ‘ نشئی‘عیاش‘ بد نظمی پسند‘بد کار

ؼفلت برتی تھی۔نہ معلوم کسی نے اس بات پر بھی ؼور کیا ہے یا نہیں کہ ہماری آج کی ؼفلتوں کے نتیجے میں مستقبل میں ہماری گلیاں کس قسم کی نسلوں سے بھری پڑی ہوں گی۔

* * * * *

مستقبل کی تقدیر پر ان قوموں کی حاکمیت ہو گی جو ازدواج کے ادارے کو سنجیدگی سے ہاتھوں میں نہ کہ ان قوموں کی ‘ لیتی ہیں ۔ اور اپنی نسلوں کو انسانیت کی بلندیوں تک پہنچانے کا علم رکھتی ہیں

جو محض تکنیک اور ٹیکنالوجی کے میدان میں برتری کی حامل ہوتی ہیں ۔جو قومیں ازدواج اور اور وہ جو اپنے فلسفہ تربیت ذریعے اپنی ‘ پیدائش کے مسائل سے سنجیدگی سے نہیں نپٹ سکتیں

وقت کی نا انصاؾ گراریوں میں ‘ نسلوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتیں ان کی قسمت میں آج نہیں تو کل پھنس کرکچال جانا لکھا جا چکا ہے۔

!

ب ے کے حقوق

انسان تخلیق کی گھڑی سے ہی اپنے شریک حیات کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے ۔شریک حیات کے بؽیر اس کی زندگی کادورنہ ہونے کے برابر تھا۔یوں اپنی ابتدائی وجودیت کو پہنچتے ہی اپنے شریک حیات کے ساتھ پیدا ہونا انسان کے لیے ازدواج کے ایک فطری عمل ہونے

ہے۔ لہذا جس ازدواج کا ہدؾ “ تناسل”کی طرؾ اشارہ کرتا ہے۔ اس فطری عمل کا اہم ترین مقصدنسلوں کی پرورش نہیں ہو تا وہ ایک تفریح اور قسمت آزمائی کے عالوہ اور کچھ نہیں ۔ایسے ازدواج سے وہ بد بخت بچے پیدا ہوتے ہیں جو ایک لمحے کی خواہش کی تکمیل پر قربان کر دئیے گئے ہوں ۔

* * * * *

Page 137: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ایسے انسان پر جو زندگی کی قلبی اور روحانی ‘ انسانی نسل کا دوام اب بھی انسان ہی پر منحصر ہےاور جو ‘ سطحوں پر پہنچنے کے لیے مصروؾ پرواز ہو۔وہ نسلیں جو تربیت حاصل نہیں کر پاتیں

اور جو نتیجیتا انسانیت کی بلندیوں تک نہیں ‘ اپنی روحانی صالحیتوں کی نشوو نما نہیں کر سکتیں وہ نسل آدم ہی کا حصہ ہونے کے باوجود ایک عجیب و ؼریب مخلوط النسل مخلوق ہوتی ‘ پہنچ سکتیں

ہیں ۔جن اشخاص کے کندھوں پرا س قسم کے لوگوں کے ماں باپ ہونے کا بوجھ لدا ہوا ہو وہ ایسے بد بخت انسان ہوتے ہیں جو اپنی گود میں حیوانوں کی پرورش کر رہے ہوتے ہیں ۔

* * * * *

والدین جس نسبت سے اپنی اوالد کی پرورش کر کے انہیں اخالقی خوبیوں سے مزین کرتے ہیں اسی کہہ سکیں ۔ مگر جن بچوں سے اس “ ہماری اوالد”نسبت سے انہیں حق پہنچتا ہے کہ اپنی اوالد کو

سلسلے میں ؼفلت برتی گئی ہو ان کے بارے میں اس قسم کا دعوی قطعا بر محل نہیں ہو گا۔ خاص طور پر جب والدین ایسے بچوں کو برائی اور گندگی کی تمام راہیں دکھا کر انہیں انسانیت سے کہیں دور لے جا کر چھوڑ چکے ہوں ۔

کسی قوم کا دوام اور اس کی بقا اس کی عمدہ تربیت یافتہ نسلوں سے قائم رہتی ہے۔ ان اچھی نسلوں سے جن کی قومی وجوداور قومی روح سے متعلقہ تربیت پایہءتکمیل تک پہنچ چکی ہو۔۔۔۔ جو قومیں

جسے قوم کا مستقبل امانت کے طور پر سپرد کیا ‘ ایک ایسی مکمل نسل کی پرورش نہیں کر سکتیں سمجھ لیجیئے کہ ان قوموں کا مستقبل تاریک ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نسلوں کی ‘جا سکے

عمدہ تربیت میں اولین فرض ماں باپ کا ہوتا ہے۔

* * * * *

اگر ماں باپ بچوں کو اپنا سمجھتے ہوئے ان کے احساسات اور خیاالت کی نشوو نما اس مقصد سے تو وہ قوم کو ایک نئے اور ‘ کریں کہ وہ اپنے لیے بھی اور معاشرے کے لیے بھی مفبد ثابت ہوں

مکمل فرد کے حصول کاوسیلہ بنتے ہیں ۔ اس کے برعکس اگر وہ انسانی احسا سات کے اعتبار سے بچوں کی تربیت میں تؽافل برتیں تو یوں سمجھ لیں کہ گویا انہوں نے معاشرے میں ایک قسم کے کیڑے مکوڑے چھوڑ دیئے ہیں ۔

* * * * *

جب تک ایک درخت کی بڑھی ہوئی شاخوں کی کاٹ چھانٹ کی جاتی رہے تو وہ پھل بھی دیتا ہے یہی نتیجہ ایک جاندار کی دیکھ بھال کے ذریعے ‘ اور اپنی نسل کی افزائش کا کردار بھی ادا کرتا ہے

حاصل کیا جاتا ہے۔ دیکھ بھال نہ کی جائے تو درخت بے ثمر رہ جاتا ہے اور جانداربانجھ ہو جاتا ہے۔ تو پھر انسان کے بارے میں کیا خیال ہے جو بے شماراستعداد ات اور قابلیتوں کے ساتھ دنیا میں بھیجا جاتا ہے؟ کیا اسے کم از کم ایک درخت جیسی دیکھ بھال کی ضرورت بھی نہیں ہوتی؟

* * * * *

بچے کو دنیا میں النے والے تم ہو۔ اسے بلند کر کے آسمانوں کے اس پار کے عالموں ! اے اوالد آدمپر پہنچانا بھی تمہارا ہی فرض ہے۔ اس کی جسمانی صحت کو اہمیت دیتے ہوئے جس طرح بھاگ دوڑ

ؤ‘ اس پر ترس کھا‘ کرتے ہو اسی طرح اس کی قلبی اور روحانی زندگی کی خاطر بھی بھاگ دوڑ کرواور اسے اس بات کا موقع ہی نہ دو کہ وہ فضول ہی ضائع ہو جائے! ؤخدارا اس بےچارے کو بچا !

Page 138: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

مساجد اوچ ان کے فچائض منصبی

مساجد وہ سب سے نورانی مقامات ہیں جہاں بدترین دنوں میں بھی ایمان اور قرآن کے متعلق مسائل پر بحث مباحثے ہوتے ہیں ۔

* * * * *

مساجد ہر سطح کے مکاتب کی طرح کام کرنے والی علم وعرفان کے گہوارے ہیں ۔

* * * * *

مساجد وہ سماوی عمارتیں ہیں جن میں عبودیت کے ساتھ ساتھ نہایت جاندار طریقے سے ذکروفکر جاری رکھا جاتا ہے۔

* * * * *

مساجد ایک مخصوص دور میں مجلس مشاورت کے طور پراستعمال کی جاتی رہی ہیں جہاں اراکین ریاست مشاورت کیاکرتے تھے۔

* * * * *

عالم ال ہوتی کی خاطر کھولی گئی عباد ت گاہوں میں دنیاوی کاموں کا کرنا بھی روحوں کے فائدے کے لیے اسلوب بیان کے دوسرے تمام طریقوں سے برترہے ۔

* * * * *

ہر مسجد مومنوں کی زندگیوں میں نظم وضبط پیدا کرنے کے لحاظ سے ایک سماوی درس گاہ ہوتی ۔ہے

اخالق

Page 139: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

اپنے ‘ عالم ہونا ایک الگ بات ہے ا ور ا نسان ہونا الگ۔ عالمعلم سمیت انسانیت کے ما تحت ہو کر اخالق اور نیکی سے اپنے علم کی جس نسبت سے نمائیدگی کرتا ہے اسی نسبت سے محض حافظہ بردار ہونے سے چھوٹ جاتا ہے اور ایک بلند مرتبہ انسان ہونے کے درجے پر جا پہنچتا ہے۔وگرنہ اس میں اور ایک ایسے بدبخت شخص میں کوئی فرق نہیں رہتا جس نے اپنی ساری عمر فضول ضائع کر دی ہو۔ دراصل جہالت جو کہ لوہے کی مانند سخت ہوتی ہے اسے سونے کی طرح مفید اور قیمتی بنا دینا بھی اخالق اور فضیلت ہی کا کام ہے۔

* * * * *

اگر تمارے ساتھ دھوکا ہو چکا ہے پھر بھی تم کسی دوسرے کو ہرگز دھوکا نہ عالوہ ازیں سچائی اور سیدھا راستہ سب سے بڑی خوبیاں ہونے کے ! دو۔۔۔

باوجود اگر بعض اوقات انسے نقصان دہ نتائج برآمد ہونے کا خدشہ ہو تو بھی ! ان کا ساتھ ہرگز مت چھوڑو

* * * * *

ان معنوں میں نہیں لیا جاتا جن میں پچھلے زمانے کے ‘ زمانہ حال میں اخالقلوگ سمجھتے تھے۔ وہ لوگ اخالق کو فضیلتوں کا مرقع کے معنوں میں لیتے تھے ۔آج کا انسان چاہتا ہے کہ اسے اجتماعی شائستگی اور تربیت کے معنوں میں لیا جائے۔اگر یوں بھی سمجھ لیا جائے تو بھی کتنا ہی اچھا ہوتا اگر ہم انسان !کو انہیں معنوں کے اخالق سے مزین پا سکتے

* * * * *

اخالق کے زمرے میں اوالد آدم کے طرز عمل سے متعلق بعض اعلے قوانین آتے ہیں ۔ ان سارے قوانین کا منبع روح کی عظمت ہے۔ اس حقیقت پر انحصار کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ اپنی روح سے اچھی طرح واقؾ

Page 140: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

نہیں ہو سکتے ان کے لیے مدتوں تک اخالق کے قوانین کی نمائندگی کرسکنابھی خاصا مشکل ہوتا ہے۔

* * * * *

اب “اب اخالق کتابوں میں ہی باقی رہ گیا ہے” کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ۔ اگر یوں بھی ہو تو “ اخالق پرا نی کتابوں میں ہی باقی رہ گیا ہے” کہتے ہیں

اخالق جیسی قیمتی شے کو فرسودہ قرار دینے کے لیے کتنی نئی چیزوں کو قربان کرناالزم ہو گا۔

* * * * *

اپنے مفاد کو دوسروں کے مفاد پر قربان کر دینا روحانی عظمت اور جوانمردی ہے۔کسی بھی قسم کے بدلے کی امید رکھے بؽیرہمیشہ نیکی کرنے والے اگر ایک ؼیر متوقع مقام پر اپنے کیئے گئے تمام نیک اعمال اور دوسروں کے بارے میں نیک خیاالت سے دوچار ہو جائیں تو حیرت اور تعجب سے اپنی قسمت پر مسکرانے لگیں گے۔

نصیحت

نصیحت زندگی کی کشتی کا مرکزی مستول ہے۔

* * * * *

اگر نصیحت بے فائدہ ہوتی تو کیا ہللا ایک بھی پیؽمبر بھیجتا دنیا میں ؟

* * * * *

نصیحت ایک اہم وسیلہ ہے جس کے ذریعے نیکیوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ نیکی کابدلہ نیکی ہے اور ثواب کا بدلہ ثواب۔

* * * * *

Page 141: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

نصیحت کرنے والے کو چاہئے کہ وہ ہر شخص سے پہلے خود اپنی بیان کردہ نصیحت پر عمل کرے تا کہ اس کے کہے پر یقین کیا جا سکے۔میرے خیال میں اگر ماضی میں کی گئی نصیحت کارگر ثابت ہوئی ہو مگر آج وہی نصیحت بے اثر ہو جاتی ہے تواس کیوجوہات اسی اصول میں ڈھونڈنی چاہئیں ۔

* * * * *

اندھوں کی رہبری پر انحصار کرنے والے اگر جہاں ہیں وہیں کھڑے رہیں تو اپنی منزل مقصود کو زیادہ قریب پا لیں گے۔

* * * * *

دلوں کی کنجی نرم مزاجی اور نرم زبانی میں ہے۔

* * * * *

واعظ وہ ہے جو ساری جماعت کو ایک ہی آن میں دیکھ کر قابو کر سکے۔

* * * * *

الفاظ کے ذریعے بیان کرنے کے مقابلے میں عملی طور پر بیان کرنے پر ہمیشہ جلد یقین آ جاتا ہے۔

* * * * *

نرمی سے بات کر و تا کہ دلوں کے دروازے کھل جائیں ۔ اپنے اندر قلبی گرمائش پیداکرو تا کہ سننے والوں کا ضمیرتمہار ے خیاالت کو خوش آمدید کہے۔ اپنے طرز عمل !سے خلوص کا اظہار کرو تا کہ تمہارے کہے کی تاثیر میں دوام آ جائے۔۔۔۔

* * * * *

یعنی بے اثر ثابت ہوں )جب تمہارے کہے ہوئے تمام الفاظ ہوا میں لٹکتے رہ جائیں )

تو اپنے مخاطب افراد پراچھے طریقے سے سختی کرنے کی کوشش بھی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔

* * * * *

نیکی سے زیادہ بڑی نیکی اور بدی سے زیادہ بڑی بدی بھی ہوتی ہے۔ان میں سے کسے ۔اور کب ترجیح دینی چاہیے اس کا علم عقلمندوں اور الہام پانے والوں کو ہوتا ہے

Page 142: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

فضیلت

اپنی ابدی روح کے یئے ہمیشہ اعلی وقار اور نئے نئے مراتب کی ہمیشہ چوکنے رہو کہ کہیں حاصل کردہ وقار واعزازات ہاتھ سے نہ نکل ! تالش میں رہو

جائیں ۔

اگر ایک معاشرے میں بد صورت لوگ اور بدصورتی اس قدر پھل پھول جائے کہ اس خوبصورت لوگوں اور خوبصورتی کا یوں تعاقب کیا ‘کے متعلق کوئی ؼور ہی نہ کرےحقیقت اور فضیلت کے عاشقوں کی ‘ ں کا کیا جاتا ہےؤجائے جیسے چوروں اور ڈاکو

بد اخالقی آسانی سے جہاں چاہے ‘ ڈاال جائےؤ حقار ت کی جائے اور ان پر ناجائز دبااس ملک میں فضیلت کی خاطرزندگی گزارنے والوں کے لیے زیادہ بہتر ‘ وہیں جا گھسے

ہے کہ وہ زمین کے اوپر رہنے کی بجائے زمین کے نیچے دھنس جائیں ۔

* * * * *

بجا طور پر کہا گیا ہے کہ فضیلت وہ شے ہے جس کی انسان قدر کرتے ہیں اور ذلت وہ شے ہے جس سے انسان تھر تھر کانپتے ‘ جوحیوانوں کو با لکل اچھی نہیں لگتی

ہوئے دور بھاگتے ہیں اور جسے حیوان کوئی اہمیت دئیے بؽیر ہی اپنا وطیرہ بناتے چلے آ رہے ہیں ۔

* * * * *

ناموس اور ملک جیسی بلند معنی تعبیروں کے لئیے گہری محبت کا اظہار ‘وطن‘قوم‘ دینکرنا جوانمرد روحوں کا کام ہے۔وہ ان بلند حقیقتوں کو نہ خود پامال کرتے ہیں اور نہ ہی

اور ضرورت پڑنے پر بال ترد د ان کی خاطر دل ‘دوسروں کو پامال کرنے دیتے ہیں وجان سے اپنی روحوں کو فدا کر دیتے ہیں ۔ وہ بدقسمت لوگ جو روح کی اتنی بڑی عظمت سے محروم ہوتے ہیں وہ اسے دیوانگی قراردیتے ہیں ۔

* * * * *

اگر بعض حاالت اور شرائط میں فضیلت نقصان کا باعث بن جاتی ہے تو اس کے باوجود ‘ اس کی وجہ سے پشیمان ہونا‘ وہ فضیلت ہی رہتی ہے۔اسے حقارت کی نظرسے دیکھنا

Page 143: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ہمیشہ حق تلفی ہی کے مترادؾ ہوتا ہے ۔فضیلت کے باعث ہونے والے نقصانات کو فضیلت ہی کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

* * * * *

فضیلت روح کی وہ حالت ہے جس میں حرمت کا مستحق ہونے کے باوجود حرمت نہ ملنے کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی۔اور ؼرور روح کی وہ حالت ہے جس میں حرمت کا مستحق نہ ہونے کی صورت میں بھی حرمت کی امید کی جاتی ہے۔جب فضیلت گویا ہوتی ہے تو ؼرور خودی کے سینے میں پناہ لیتا ہے اور اضطراب کی حالت میں گوش بر آواز رہتا ہے۔

* * * * *

اپنے گزرے زمانے کے بڑوں کو اچھے الفاظ میں یاد کرناان کا حق ہے اور ہمارے لیے قدر شناسی کی عالمت ہے۔کیونکہ ان لوگوں میں سے ہر فرد ایک ایسی جڑ کی مانند ہے جو قوم کے لیے باعث شرؾ ہوتی ہے۔ان جڑوں کو برباد کرنے کی کوشش اس بات کے مترادؾ ہے کہ یہ لوگ قوم کو اپنے معززانہ ماضی سے ڈرا کر دور بھگانے والے انسان ہے

* * * * *

وہ لوگ جو دوسروں کی مستحق شہرت کی قدر کرتے ہیں اور انہیں عزت سے یاد کرتے ایک روز ضرور آئے گا جب وہ بھی اسی طرح عزت سے یاد کیئے جائیں گے۔ اور ‘ ہیں

وہ جو چاہتے ہیں کہ دوسروں کی شہرت پر تنقید کرنے اوران کی شہرت کو کم تر کرکے بیان کرنے والوں کے نام سے مشہو ہو جائیں تو ایسے لوگ نہایت بری شہرت کما لیتے ہیں ۔

* * * * *

خود شناسی بصیرت ہے اور خود بینی اندھاپن۔ خود شناس انسان حق تعالی اور عوام دونوں سے قریب تر ہو جاتے ہیں ۔ مگر خودبین انسان خودپرستی کے عالوہ ہر شے سے دور ہو جاتے ہیں ۔

* * * * *

اور ماضی کے انسانوں کو کسی ‘ ں کا محاسبہ کر کے ان سے فائدہ اٹھاناؤماضی کی خطاحد تک معاؾ کر کے ان کے ساتھمشؽول نہ ہونا ایک عقلمندانہ روش ہے۔ خوا ہ مخواہ ماضی اور ماضی کے انسانوں کی برائیاں کرنا حماقت ہے۔

Page 144: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

تچبیت

کیا “ بچہ عزیز ہے تو اس کی تربیت عزیزتر ہے”:ہمارے ہاں ایک کہاوت ہےبچے کی تربیت کے سلسلے میں والدین کا طرز عمل یوں ہونا چائیے جیسے وہ ناپ ! سچ کہا گیا ہے

تول کی ؼذا کھارہے ہوں ۔ یعنی بچے کی تربیت میں بھی ان کے لیے ناپ تول کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

* * * * *

پیدائش سے پانچ سال کی عمر تک کا عرصہ ایسا ہوتا ہے کہ جس میں بچے کا تحت الشعور بالکل کھال ہوا ہوتا ہے۔ اس دورمیں بچوں کے لیے اچھی مثالوں کے طور پر جس قدر کام کیا جائے واجب ہے۔

* * * * *

بچپن اور جوانی کی عمر میں حاصل کردہ اثرات اور تاثرات کا ہر انسان کے مستقبل سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اگر بچے اور نوجوان ایسی فضا میں پرورش پائیں جس میں انہیں بلند احساسات کے ذریعے جوش میں بڑے بڑے کام کرنے کے مواقع حاصل ہوں تو وہ ذہنی اور فکری حاالت کے حساب سے زندہ اور اخالق اور فضیلت کے لحاظ سے بطور مثال پیش کیئے جانے والوں میں شمار ہونے کے لیے نامزد سمجھے جاتے ہیں ۔

* * * * *

انسان کے احساسات حقیر اور ذلیل اشیاءسے جس قدر دور ہوں گے اتنا ہی وہ حقیقی معنوں میں انسان تلے رہتا ہے اور جن کی روح نفسانیت کے شکنجے ؤ ہو گا۔ وہ لوگ جن کا دل برے احساسات کے دبا

میں جکڑی ہوتی ہے وہ اگر شکل و صورت سے انسان دکھائی دیتے ہوں تو ؼور کرنے کی بات ہو ۔ تربیت کا وہ حصہ جس کا تعلق جسم سے ہے اس سے تقریبا ہر (کہ آیا وہ واقعی انسان ہیں )گی

شخص واقؾ ہے۔ مگر جو شے صحیح معنوں میں کارآمد ہوتی ہے وہ فکری اور جذباتی تربیت ہے۔ اور اس کا علم رکھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ حاالنکہ پہلی قسم کی تربیت سے زیادہ تر

ان لوگوں کی پرورش ہوتی ہے جن کا مقصد مضبوط پٹھے اور جسم ہوتا ہے۔اور دوسری قسم کی تربیت سے روحانی اور معنوی انسانوں کی پرورش ہوتی ہے۔

* * * * *

کسی قوم کی اصالح اس کے اجزائے بد کو تباہ کر دینے سے نہیں ہوتی۔ یہ خدمت قومی ثقافت اور تاریخی ‘ قومی تربیت کے ذریعے نسلوں کو انسانیت کی بلندیوں پر پہنچا کر کی جانی چاہیے۔ اگر دین

Page 145: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

شعور اور روایات کے مؽلوبے پر مشتمل مقدس بیج ملک کے چاروں کونوں میں نہ بویا جائے اور توہر تباہ کی گئی بدی کی جگہ پر کئی نئی بدیاں خودرو گھاس کی طرح اگ ‘ پھر یہ بیج پھوٹے بھی نہ

آئیں گی۔

* * * * *

روح کو ‘ سوچ کو قوت‘ خواہ نظم ہو یا نثر‘ یہ ضروری ہے کہ بچوں کو پڑھائی جانے والی کتابیں اور عظم کی روشنی مہیا کر سکیں تا کہ قوم کو ایسی نسلیں مل جائیں جن کے ارادے ‘ امید‘ سنجیدگی

مضبوط اور خیاالت مستحکم ہوں ۔

* * * * *

آج کی بچیاں جن پر آنے والی بچیوں کی تربیت کی ذمہ داری ہو گی ان کی تربیت اگر چہ پھول کی مگر اس لحاظ سے کہ ان میں ‘ نفاست پسندی اور شفقت جیسی بنیادوں پر ہونی چاہیے‘ سی نزاکت

تصور حق کا پایا جانا بہت ضروری ہے۔اس بات کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ وہ فوالد کی طرح مضبوط ہوں ورنہ نزاکت اور نفاست پسندی کی خاطر ہم انہیں ایک قسم کی مسکین اور عاجز لڑکیوں میں تبدیل کر دیں گے۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ نر ہو یا مادہ شیرشیر ہی ہوتا ہے۔

* * * * *

تربیت بذات خود ایک خوبصورتی ہے اور یہ جس کسی میں پائی جائے اس کی قدر کی جاتی ہے۔جی خواہ کوئی جاہل ہی کیوں نہ ہو اگر وہ تربیت حاصل کر لے تو اسے پسند کیا جاتا ہے۔ وہ قومیں ! ہاں

جاہل اور آوارہ گرد افراد کی ‘ جو ملی ثقافت اور ملی تربیت سے محروم ہوتی ہیں ان کی مثال گنوار طرح ہوتی ہے کہ نہ تو ان کی دوستی میں وفا پائی جاتی ہے اور نہ ہی ان کی دشمنی میں سنجیدگی۔

جو لوگ اس قسم کے لوگوں پر بھروسہ کرتے ہیں وہ ہمیشہ مایوسی کا شکار ہوتے ہیں ۔جو ان کی مدد پر انحصار کرتے ہیں وہ جلد یا بدیر بے یارومددگار رہ جاتے ہیں ۔

* * * * *

جو استاد اور استانیاں کسی استاد کی شاگردی میں نہیں رہتے اور کسی محکم ذریعے سے تربیت وہ ان اندھوں کی طرح ہوتے ہیں جو دوسروں کو راہ دکھانے کے لیے ہاتھوں میں ‘ حاصل نہیں کرتے

چراغ لیے کھڑے ہوں ۔ بچوں میں پائی جانے والی بے حیائی اور بد تمیزی کا سبب وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی گود میں انہوں نے پرورش پائی ہوتی ہے۔اور جو خود گدلے پانی کی طرح ؼیر شفاؾ ہوتے

خیاالت اور کارکردگی کی بد انتظامی اس خاندان ‘ ہیں ۔کسی خاندان کے اندر پائی جانے والی احساساتکے بچوں کی روح پر اثر انداز ہوتی ہے۔اور پھر قدرتی بات ہے کہ اس سے یہ بد انتظامی پورے معاشرے میں بھی پھیل جاتی ہے۔۔۔۔

* * * * *

سکولوں میں تربیت اور قومی ثقافت پر بھی اگر زیادہ نہیں تو کم از کم دوسرے مضامین جتنا ہی زور دینا ضروری ہے کیونکہ اس سے ایسی نسلیں پیدا ہوتی ہیں جو اپنی محکم روح اور اعلی کردار کے ذریعے وطن کو جنت میں تبدیل کر سکتی ہیں ۔ تعلیم اور تربیت دو علیحدہ علیحدہ اشیاءہیں ۔ انسانوں کی اکثریت معلم تو بن سکتی ہے مگر مربی بننے کے قابل لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔

Page 146: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

قومی ثقافت اور قومی تربیت ‘ سب سے زیادہ ضروری درس جن پر سب سے کم توجہ دی جاتی ہےکے درس ہیں ۔ اگر کوئی دن ایسا آیا جب ہم نے اس راہ پر چلنا شروع کر دیا تو وہ ہماری ترقی کے لیے کیا جانے واال سب سے درست فیصلہ ہو گا۔

* * * * *

شاعر پیدائش سے ہی شاعر ہوتا ہے۔ عمرالقیس نے کبھی سکول کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔ آئین سٹائن سکول سے بھاگ جایا کرتا تھا کیونکہ اس کی سوچ سب سے مختلؾ تھی۔ نیوٹن حساب میں بہت کم نمبر لیا کرتا تھا مگر اس کی تھیوری کی بنیاد ہی حساب پر تھی۔ہم ہیں کہ دوسروں کی دیگ میں اپنا چمچہ چالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔

* * * * *

بچے جن کی روح آئینے کی طرح چمکدار ہوتی ہے اور کیمرے کی سی تیزی کے ساتھ تصویریں بنا ان کا اولین سکول اپنا گھر ہوتا ہے۔ اور انہیں سب سے پہلے تربیت دینے والی ان کی اپنی ‘ لیتی ہے

ں کو ادھر ادھر فضول کاموں میں ضائع کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ ان کی ؤماں ہوتی ہے۔ ماپرورش ایک تربیت دینے والے استاد کی طرح کی جائے۔ یہ ایک قوم کے وجود اور بقاکے لیے اہم ترین بنیاد ہے۔

مشاوچت

دو اشخاص کا علم ایک شخص کے ! کسی جاننے والے سے پوچھو ”۔ کسی موضوع پر کیئے جانے والے فیصلے کی درستگی کو یقینی “علم سے بہتر ہے

‘ بنانے کی پہلی شرط مشاورت ہے۔ کسی مسلئے کو اچھی طرح سوچے سمجھے بؽیراسے دوسرے لوگوں کی رائے اور تنقید کے لیے پیش کیئے بؽیرکیئے جانے والے فیصلے اکثر اوقات نقصان اورشکست پر منتج ہوتے ہیں ۔دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اپنی

جو ہر ‘ دوسروں کی سوچ کو اہمیت نہیں دیتے‘ سوچ کو اپنی ذات تک محدود رکھتے ہیں وہ ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ‘ بات کا فیصلہ خود ہی کرنے کے عادی ہوتے ہیں

ؼلط فیصلے کرتے ہیں جو خواہ کتنے ہی بلند فطرت اور ذہین کیو ں نہ ہوں پھر بھی اپنی ہر سوچ کو مشاورت کے لیے پیش کرتے ہیں ۔

Page 147: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

سب سے عقلمند شخص وہ ہے جو مشاورت کا سب سے زیادہ خیال رکھے اور دوسروں کی سوچ سے زیادہ سے زیاد ہ استفادہ کرے۔ جو لوگ اپنے مجوزہ کاموں میں محض

بلکہ دوسروں کو بھی اپنی رائے قبول کرنے پر مجبور ‘ اپنی ہی سوچ پر اکتفا کرتے ہیں کرتے ہیں وہ خام روحوں کی طرح ہوتے ہیں ۔انہیں اپنے ارد گرد کے لوگوں سے ہمیشہ نفرت اور عناد ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

* * * * *

جس طرح عمدہ نتائج حاصل کرنے کے لیے مشاورت پہلی شرط ہے اسی طرح بری عاقبت اور شکستوں سے بچنے کے لیے ایک اہم وسیلہ یہ ہے کہ دوستوں کے اعلی خیاالت سے استفادہ کرنا نہ بھولیں ۔

* * * * *

کوئی کام شروع کرنے سے پیشتر تمام ضروری مشورے حاصل کرکے اپنے منصوبے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے تا کہ بعدازاں اپنے ارد گرد کے لوگوں کو مورد

اور قسمت پر نکتہ چینی کرنے کی راہ پر نہ چلنا پڑے کیونکہ ایسا کرنے ‘ الزام ٹھہرانےکسی کام کا ارادہ کرنے سے پہلے ! سے دگنی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جی ہاں

اور تجربہ کار افراد ‘ اگر حاصل شدہ نتائج پر خوب اچھی طرح ؼوروخوض نہ کیا جائےکے ساتھ مجوزہ کام کے بارے میں تبادلہ خیاالت نہ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں مایوسی اور ندامت سے بچنا ناممکن ہوتا ہے۔

* * * * *

بہت سے کام ایسے دیکھے گئے ہیں جن کا آگا پیچھا اچھی طرح سوچے سمجھے بؽیران میں ہاتھ ڈال دیا گیا مگر انہیں پایہءتکمیل تک پہنچانے کے لیے ایک قدم بھی آگے نہ بڑھایا جا سکا۔ ایسے کاموں کو مکمل کرنے کا بیڑا اٹھانے والوں پردوسروں کا

اپنی عقل میں جو آئے اسے کر گزرنے واال شخص اس ! اعتمادبھی ختم ہو گیا۔ جی ہاں قسم کی ؼلط راہوں پر چلنے کے باعث پریشانیوں سے دوچار ہو جاتا ہے۔اس کے باعث زود یا بدیر اسے ان کاموں سے بھی نا امیدی سے دوچار ہونا پڑتا ہے جو وہ بخوبی سر انجام دے سکتے ہوں ۔

* * * * *

انسان کو ایسے دروازے ہرگز نہیں کھولنے چاہئیے جنہیں وہ بند نہ کر سکے۔ورنہ کھلی دراڑوں میں سے اندر آ گھسنے والی برائیاں اور شیاطین نہ صرؾ دوسروں کو تلؾ کر دیتے ہیں بلکہ متعلقہ شخص کی ذاتی قدروقیمت کو بھی ساتھ لے بھاگتے ہیں ۔بے

Page 148: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

شمارایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے آپ کو بڑے عقلمند سمجھتے ہوئے کسی سے مشورہ کیے بؽیرکئی قسم کے خبطوں میں مبتال ہو جاتے ہیں ۔ایسے لو گ خبردار کیے جانے کے باوجود خود کو زہریلے سانپوں سے ڈسوا لیتے ہیں اور ساتھ ہی اکھاڑے سے باہر پھینک دیئے جاتے ہیں ۔ کیا اچھا ہوتا کہ یوں اکھاڑے سے باہر پھینکے جانے والے ! لوگوں کی تعداد اکا دکا ہی ہوتی

حق اوچ انصاف

انصاؾ قوی ترین ٹینکوں سے لیس فوجی یونٹوں سے بھی زیادو طاقتور ہوتا ہے۔

* * * * *

حق اگر تمہارے سر پر گرنے والی تلوار بھی ہو تواپنی گردن اس کی طرؾ بڑھانے سے گریز نہ کرو۔

* * * * *

اس کی نمائندگی کرنے والے اور اس میں ‘ حق کو اس وقت پر لگ جاتے ہیں جب اسے بیان کرنے اور سمجھنے والے دلچسپی لینے والے مل جائیں ۔

* * * * *

انصاؾ ایک ایسا سکہ ہے جو ہر جگہ رائج الوقت رہتا ہے۔

* * * * *

انسانوں کی اکثریت اس سے ‘ انصاؾ ہللا سے قربت حاصل کرنے کی راہوں میں سے ایک راہ ہے مگر نہ جانے کیوں دور رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔

* * * * *

دروازہ انصاؾ ہے اور اندرونی حصہ سعادت‘ اسالم کی دیواریں حق ہیں

* * * * *

ہو میں ؤ محلوں سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں ۔ اور وہ محل جو ظلم کے ہا‘ وہ کھنڈرات جن پر انصاؾ کی حکمرانی ہو ڈوبے ہوں وہ کھنڈرات سے بھی زیادہ منتشر ہوتے ہیں ۔

* * * * *

حق اور انصاؾ کے متعلق سوچ کی پختگی اور درستگی کے مترادؾ ہے۔‘ دوسروں کے بارے میں یقین کی پختگی

* * * * *

Page 149: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

حق سے جنگ کرنے واالجلد یا بدیر مات کھا کر گر پڑتا ہے۔

* * * * *

۔دوسروں کو کچلتے ہوئے یہ ہر گز مت بھولو کہ ایک قوت ایسی بھی موجود ہے جو تمہیں بھی کچل سکتی ہے

(س ائی)حق

خواہ وہ مؽلوب ہی کیوں نہ ہو۔نا حق انسان کو ‘ برحق انسان پیارا بھی ہوتا ہے اور مقبول بھی لوگ چاہتے بھی نہیں اوراس سے نفرت بھی کرتے ہیں خواہ وہ ؼالب ہی کیوں نہ ہو۔

* * * * *

حق اپنی ذات میں دلکش اور بر حق انسان میٹھا ہوتا ہے۔ برحق انسان کیچڑ میں گر کر بھی پاک اور صاؾ ہی رہتا ہے۔ ناحق انسان مشک سے ؼسل کرلے تو بھی ناپاک اور قابل نفرت ہی رہتا ہے۔

* * * * *

رنگ اور شکل بدل بھی جائے مگر اصل تبدیل نہیں ہوتا۔نام اور عنوان بدلنے سے ذات نہیں بدلتی۔ جن چیزوں نے آج کی تبدیلی ہے۔‘ نام اور عنوان‘ تک انسانوں کو سب سے زیادہ دھوکے میں ڈالے رکھا ہے وہ رنگ اور شکل

* * * * *

کمزور کو کچلنے واال ؼالب بھی ہو تو مؽلوب ہی ہوتا ہے۔ برحق انسان مؽلوب ہو کر بھی ؼالب ہی رہتا ہے۔

جمہوچیت

جمہوریت کا مطلب ایک ایسی انتظامیہ ہے جس میں عوام کو انتخاب اور مشاورت کا حق حاصل ہو۔ اس کی تعلیم دینے والی سب سے پہلی مکمل کتاب قرآن کریم ہے۔جمہوری انتظامیہ کو قرآن کے برعکس ظاہر کرنا اگر کسی خاص مقصد کے لئیے نہیں تو پھرسو فیصد العلمی کانتیجہ ہے۔ جمہوریت کی طرفداری کرتے ہوئے اس کے سرچشمے کو جان بوجھ کر نظرانداز کرنا ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں ۔

* * * * *

Page 150: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

بھی ان کے ممتاز اور برگزیدہ خلفاءنے ‘ نے بادشلہت کا دعوی نہیں کیا تھاملسو هيلع هللا ىلصجس طرح پیؽمبر

اپنے آپ کو نہ خدا کہلوایانہ بادشاہ۔ بادشاہت اسالم کی رو ح سے بعد کے باعث رونما ہوئی اور جتنی اسالم سے دور ہوتی گئی اتنی ہی ظلم واستبداد کا ذریعہ بنتی گئی۔

* * * * *

ایک بلند اور محفوظ اداری شکل ‘ جمہوریت جو کہ حقیقی حریت اور انصاؾ کے مفہوم پر مبنی ہےخاص طور پر اگر اس کی ان جہتوں کو زیر ‘ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نہایت شائستہ نظام بھی ہے

نظر رکھتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ نہ رکھا جائے تو اس کے سینے میں الحاد اور طوائؾ الملوکی کا پرورش پا کر بڑھنا ناگزیر ہو سکتا ہے۔

* * * * *

حقیقی جمہوریت بلندیوں پر پہنچی ہوئی روحوں کی اداری شکل ہے جو سب سے زیادہ انسان کے وقار کے شایان شان بھی ہے۔وہ خام روحیں جو ابھی تک بلوغ کی پختگی تک نہیں پہنچ سکیں یا انسانی کماالت تک لے جانے والی راہوں کا مکمل ادراک نہیں پا سکیں ان کے لیے جمہوریت صحراءکے سراب کی طرح یا پھر عارضی طور پر کھپچیوں سے بنی ایک نا قابل رہائش ڈھانچے

کی طرح ہے۔

* * * * *

آزادی کی ماں یا مربی کی مانند ہے۔وہی حریت کی عاشق نسلوں کی پرور ش کرتی ہے اور ‘جمہوریتکا “بے لگام آزادی”وہی انہیں بڑا کرتی ہے۔ وہ پرورش کر کے بڑا تو ضرور کرتی ہے مگر جمہوریت

ایک ادارہ بھی ہرگز نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی حکومتہے جس میں فضیلت اور اخالق کی آزادی ہوتی ہے۔

* * * * *

جمہوریت انسان کو بلندیوں پر پہنچانے والی اقدار کے ذریعے اسے بلندی کی طرؾ لے جانے کے لیے زمین ہموار کرتی ہے۔ اور پھر اسے بلند اخالق اور بیدار ضمیر سے دوچار چھوڑ دیتی ہے۔ اس کے بعد ہر شخص اپنے گھر میں اور اپنے کام کے دوران ایک با ارادہ انسان کی حیثیت سے ہمیشہ اچھائیوں اور فضیلتوں کے بارے میں سوچتا اور بلند انسانی اقدارپر عمل پیرا رہتا ہے۔

* * * * *

روح اپنے خمیر میں پائی جانے والی آزادی کی آرزو کے باعث اپنے آپ پرکسی قسم کی حکمران حرکت اوراظہار خیال پر لگائی جانے والی پابندیوں ‘ طاقت برداشت نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ سوچ

کے خالؾ رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی مصلحتیں ہیں جن کی وجہ سے جمہوریت کے پرستاروں کو چاہیے کہ وہ ایک طرؾ تو عوام کے وسیع حقوق اور آزادیوں کو تسلیم کریں اور

ؼوروفکر اور سوچ کے انسان بنا کر انہیں بلندیوں کی طرؾ ‘ فضیلت‘ دوسری طرؾ عوام کو اخالق لے جائیں ۔

* * * * *

Page 151: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

دینی احساسات اور دینی خیاالت کی حفاظت کے دوران ان پر کڑی نگاہ رکھنا جمہوریت کے لیے جمہوریت جیسے ایک ادارے میں دینی احساسات اور دینی ‘ ضروری اور الزم ہے۔ اس لحاظ سے بھی

ان پر زیادتیاں کرکے ان کی بدنامی کا سبب ‘خیاالت کی بناپر میں انسانوں سے حقار ت آمیزسلوک کرنادرحقیقت جمہوریت کی حقارت اور جمہوریت پر زیادتیاں کرنے کے مترادؾ ہے۔‘ بننا

* * * * *

اس کے بارے میں ‘ جمہوریت ایسے لوگوں کی محتاج ہے جو اسے پوری طرح محسوس کرتے ہوں صاحب عقل اور (اسمبلی)ؼوروفکر کر کے اس کی حقیقت کو سمجھنے والے ہوں ۔جمہوری مجلس

صاحب فکر لوگوں پر مشتمل مجلسوں کی طرح با وقار ہونی چاہیے۔ اور اس کی کارکردگی بھی ہر شے کی تہہ تک پہنچنے والی عدالتوں کی طرح حق پرستی اور انصاؾ پر مبنی ہونی چاہیے۔

سیاست

سیاست خدا اور خلق خدا کی خوشنودی کے چوکھٹے کے اندر رہتے ہوئے اداری کنٹرول کا فن ہے۔ حکومتیں جس حدتک عوام کو طاقت اور اقتدار کے ذریعے شر سے بچاتی ہیں انہیں عدالتوں کے ذریعے ظلم و ستم سے محفوظ رکھتی ہیں اسی حد تک سیاست میں کامیاب سمجھی جاتی ہیں اور اچھے مستقبل کے وعدوں پر پوری اترتی ہیں ۔اس کے برعکس اقبال کی موم بتیاں جلد ہی بجھ جاتی ہے اور پھر

اپنے پیچھے ایک دشنام طراز ہجوم چھوڑ جاتی ہیں ‘ گر کر یہ جا وہ جا ۔

Page 152: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

باخبر اور بڑے بڑے چلتا پرزہ ‘ قدیم زمانے سے لے کر آج تک ذکیلوگوں کے ہجوموں کو کنٹرول کرتے چلے آ رہے ‘ قسم کے سیاستدان

انہیں میں سے عقلمند اور ‘ ہیں ۔اور یہ سیاستدان اچھے ہوں یا برےتجربہ کار لو گ ا نہیں کنٹرول کرتے ہیں ۔دنیا پر ہماری حکومت کے

ہمارے ہاں بھی اس ‘دوران ایسے دور دیکھنے میں آتے ہیں جن میں قسم کے لوگ پائے جاتے تھے۔

ایک اچھے منتظم اور سیاستدان کے لیے یہ نکات نہایت اہم ہیں ۔برحق الجھے ہوئے اور مشکل کاموں ‘فرائض کا شعور‘حقوق کی برتری‘سوچ

دقیق اور نازک کاموں میں مہارت اور قابلیت۔‘میں احساس ذمہ داری

* * * * *

حکومت کے معنی ہیں انصاؾ اور امن۔جس جگہ یہ دونوں چیزیں موجود نہ ہوں وہاں حکومت کا وجود مشکوک ہو جاتاہے۔اگر حکومت کاکسی پن چکی سے موازنہ کیا جائے تو چکی سے نکلنے واال آٹا

امن اور سالمتی کی نمائندگی کرتا ہے۔جو پن چکی یہ اشیاءنہ نکال ‘نظامسکے وہ سوکھے شورشرابے پر مشتمل ہوتی ہے اور ہر وقت محض ہوا ہی پیستی رہتی ہے

* * * * *

کہتی ہے تو اس سے بڑھ کر “ میری قوم”اگر ایک حکومت اپنی قوم کومیری ”اہم بات یہ ہو گی کہ قوم بھی اپنے سر پر بیٹھی حکومت کو

کہے ۔ میرے خیال میں ہمیشہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اس کے “حکومتبرعکس اگر قوم اپنے سر پر بیٹھی حکومت کو اپنے جسم پر مسلط دیمک کا ایک سلسلہ سمجھے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کا سر اور دھڑ مدت مدید پہلے ایک دوسرے سے الگ ہو چکے ہیں ۔

* * * * *

Page 153: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

عوام کے دلوں میں ریاست کے لیے عزت اور حکومت کے لیے حکومت کے کارکنوں کی سختی کے ذریعے پیدا نہیں کی جا ‘ حرمت

سکتی ۔ بلکہ اسے سرکاری اہلکاروں کے طور اطواراور طرز عمل کی ان کے کام اور خدمات کے خلوص سے پیداکرنے کی ‘ سنجیدگی سے

کوشش کرنی چاہیے۔ آج تک نہ ظالم کارکنوں کے استبداد سے اور نہ ہی عوام کو ؼفلت کا شکاربنانے سے کسی حکومت کو دوام حاصل ہو سکا ہے۔

ایک عمدہ اور فضیلت مآب ریاست کے اداری اہلکار اگر اپنے خمیر سوچ کی نجابت اور احساسات کی نجابت کے اعتبار سے ‘ کی نجابت

منتخب کیئے گئے ہوں تو و ہ ر یاست ایک اچھی اور طاقتور ریاست ہو گی۔ ان اعلی قابلیتوں سے محروم اشخاص کو سرکاری حکام مقرر کر کے جو بدنصیب حکومت ان سے کام کروائے گی و ہ ایک اچھی حکومت نہیں ہو سکتی اور ایسی حکومت کی عمرکسی حالت میں دراز نہیں ہو سکتی۔کیو نکہ اگر سرکاری مالزم مطلوبہ قابلیت کے حامل نہیں ہوں گے تو ان کے ناقص طرز عمل کی عکاسی زود یا بدیر ان کے چہروں پر سیاہ دھبوں کی شکل میں نمودار ہونے لگے گی اور عوام کے ضمیر میں بھی ان کے چہرے سیاہ ہی دکھائی دیں گے۔

* * * * *

سرکاری حکام کو چاہیے کہ وہ اپنی کارکردگی کے دوران قانون کی حدود کے اندر رہیں مگر اپنے ضمیر کی نرمی کے حساب سے نرمی ببھی برتا کرےں ۔یوں نہ صرؾ ان کا اپنا اعتبار قائم رہے گا بلکہ قوانین اور ریاست کا اعتبار بھی محفوظ رہے گا۔یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انتہائی سختی کے باعث ایسے دھماکے ہو سکتے ہیں جن کی امید بھی نہیں کی جا سکتی۔اسی طرح ان کی انتہائی نرمی بھی معاشرے میں ؼیر انسانی رجحانات کے پودے کی شکل میں ظاہر ہو سکتی ہے۔

* * * * *

Page 154: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ہر جگہ اور ہر شخص پر الگو ہوتے ہیں ۔ ان پر عمل ‘ قانون ہمیشہتا کہ عوام ‘کروانے والے جرات مند بھی ہونے چاہیئں اور عادل بھی

ایک طرؾ تو ان کے مقابل آتے ہوئے خوؾ کھائیں اور دوسری طرؾ اپنے اعتماد اور اپنی سالمتی سے مکمل طور پر ہاتھنہ دھو بیٹھیں ۔

* * * * *

جرائت مند اور متحرک افراد ایک ریا ست ‘ ذکی ‘ جس قدر پختہ یقینکی نمائندگی کرےں گے اتنی ہی وہ ریا ست مضبوط اور قائم و دائم رہے گی او ر اس کے نتیجے میں خوش قسمت سمجھی جائے گی۔

* * * * *

باؼبان پودوں کی پرورش کرتا اور انہیں بڑا کرتا ہے۔ انہیں آفات سے پھر جب پھل توڑنے کا ‘ اور دیگر ضرر رساں عوامل سے بچاتا ہے

موسم آتا ہے تو ان کا پھل اکٹھا کرتا ہے۔ حکومت اور قوم کاباہمی تعلق بھی وہی ہے جوایک باؼبان اور پودوں کے درمیان ہوتا ہے۔

* * * * *

عالیشان حکومتیں عالیشان قوموں میں ہی پیدا ہوتی ہیں ۔عالیشان قومیں مالی وسائل اور ایسی نسلوں سے بنتیہیں جن کے افراد کی ‘ علمی قابلیت

سمجھ بوجھ کا زاویہ وسیع ہو اور جو روحانی معامالت کو بھی اہمیت دیتی ہوں ۔

* * * * *

ایک ایسی قوم جس میں ہر فرد کا پختہ کار ہونا ابھی ثابت نہ ہو سکا ہو سب سے تجربہ ‘ آبادی کے سب سے عالم ‘ اس میں حکومت کا انتظام

اور سب سے ماہر اشخاص کو تالش کر کے ان کے سپرد کیا ‘ کارجاناچاہیے۔ کسی قوم کے لیے اس سے بڑھ کر کسی دوسری تباہی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت کے کام ایسے لوگوں کے

Page 155: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

سپرد کر دئیے جائیں جن کے پلے نہ علم و عرفان ہو اورنہ ہی متعلقہ کام کی مہارت۔

* * * * *

اگر ؼلطی سے بھی ایسے بد نصیب لوگ کسی محکمے کے سربراہ بنا دئیے گئے ہوں جو علم و عرفان اور شرافت سے محروم ہوں اورجنہیں سرکاری کاموں کی بھی شد ھ بدھ نہ ہو تو وہ لوگ حکومت کی طاقت

ہرمعاملے ‘ اقتدار کے نا جائز استعمال سے‘ کو ؼلط استعمال کرنے سےمیں اپنے مفاد کو پیش نظر رکھنے سے اور ایک مطلق العنان بادشاہ کی طرح محض حکم چالنے سے گریز نہیں کریں گے۔ جس ملک میں

ہو ؤ اس قسم کے لوگ اقتدار میں ہوں گے وہاں محض ظالموں کی ہااور مظلوموں کی آہ و زاری ہی سنائی دے گی۔ آج تک جہاں سے بھی ہر ایسی جگہ عاد اور ثمود ایسے بدنصیبوں کی آوازیں اٹھیں تقریبا کی عاقبت سے کسی صورت نہ بچ سکی۔

* * * * *

عملی اقدامات ‘ ہر حکومت کو چاہیے کہ وہ محض قوم کے معامالتاور طرز عمل ہی کو نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قومی تفکراورادراک کو بھی منظم کرنے کی کوشش کرے۔ انہیں یوں منظم کرنے کے عمل

احساس اور تعلیم و تربیت ‘ میں سب سے اہم اور بنیادی عناصر سوچکی یک جہتی ہیں ۔جن افراد سے مل کر قوم بنتی ہے اگروہ سب مختلؾ

ایک ‘ ثقافتوں اور مختاؾ سوچوں کے تحت پرورش پا چکے ہوں اور ایک دوسرے کی متضاد ‘ دوسرے کے خالؾ محازآرا رہتے ہوں

ادراک کے باعث اٹھنے والے جھگڑوں میں الجھے رہتے ہوں تو اس قوم کے مقدر میں یہی لکھا گیاہے کہ وہ آپس میں ہی ایک دوسرے کو کھا کراپنے آپ کو ختم کر دے گی۔

* * * * *

Page 156: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

سوچ اور ثقافت کی یک جہتی ایک قوم کے طاقتور ہونے ‘ احساساتاس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جانے ‘ کے لیے جس حد تک اہم ہے

دینی اور اخالقی وحدت میں بگاڑالنے میں بھی اسی حد تک موثر ‘ میں ہوتی ہے۔

* * * * *

ہر شے میں ایک سیاست ہوتی ہے۔جو لوگ ایک قوم کو اس کی حیات حتی ‘ نو کے لیے تیار کرتے ہیں ان کی سیاست یہ ہے کہ وہ ہر شے کو

صرؾ اور صرؾ اپنی ‘ اپنے لطؾ و مزے کو بھی باالئے طاق رکھ کرقوم کی خوشیوں اور لذتوں سے قوت پائیں اور اس کے دکھ دردسے دہرے ہو جائیں ۔

* * * * *

اعلی انتظام اور بلند پایہ سیاست نہ سفید بالوں اور نہ ہی سفید داڑھیوں نہ خوشامد اور ریاکاری کے ذریعے حاصل شدہ مناصب اور ‘میں

اور نہ ہی اس مصنوعی شہرت میں ڈھونڈنی چاہیے جو ‘رتبوں میں ایک طرح کے مقامی حلقوں کی مدد سے حاصل کی گئی ہو۔ ایسی

نہایت محنتی دماؼوں ‘سیاست تو روحانی طور پر بلند پایہ انسانوں میں میں اور ان ؼالموں میں ڈھونڈنی چاہیے جنہیں حقیقت آزاد نہیں سمجھتی۔

* * * * *

ہر گھر ایک مکتب ہے جس میں اس گھر کے افراد کی تعلیم و تربیت نی ہے جس میں عسکری ؤکی جاتی ہے۔ہر مکتب ایک چھوٹی سی چھا

نی ایک اسمبلی ہے جس میں ؤروح کی پرورش کی جاتی ہے۔ہر چھااور امن و سکون کے بارے میں بحث مباحثہ کیا جاتا ‘ بقا‘ قوم کی حیات

ہے۔اگر ہر اسمبلی اس قابل ہو کہ اس کے فرائض اور صالحیت کے پیش نظرجو مسائل اس کے سپرد کیئے جائیں ان مسائل کی قومی روح

Page 157: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

اور قومی سوچ کی روشنی میں تشخیص کرنے والی ایک اجتماحی لیبارٹری کی حیثیت سے خدمات ادا کر سکے تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ اس قوم کے پاس ایک نہایت مثالی اداری اور سیاسی عملہ موجود ہے۔

* * * * *

مختلؾ خیاالت اور مختلؾ مطالعوں کا مالک ہونا انسانوں کے پختہ کار ہونے کی عالمت ہے۔البتہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ معاشرے کو تقسیم کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور اسے مختلؾ سوچ اورمشاہدات والے گروہوں میں تقسیم کر دے اور پھران میں سے کسی ایک کی حمایت کرنے لگ جائے۔ کیونکہ تقسیم ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا اور پھر اس تقسیم کو برداشت کرنا یوں ہے جیسے کوئی اپنی قوم کو تباہ ہوتا دیکھ کرآنکھیں بند کرلے۔

* * * * *

وہ لوگ جو قومی احساسات اور سوچ میں برابر کے شریک نہیں ہوتے ان کے متعلق آپ خواہ کتنے ہی پر امیداور اچھی نیت کے مالک کیوں نہ ہوں آپ کو یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ وہ لوگ آپ کے لیے ضرر رساں ثابت ہو سکتے ہیں ۔بالخصوص انہیں ایسا موقع ہرگز ہرگز نہیں دینا چاہیے کہ وہ قوم اور معاشرے کی شہ رگ کی اہم جگہوں پر

۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ انسان ایسے حاالت سے دو !قبضہ جما لیں چار ہو جائے جہاں اسے اپنے آپ کوخطرے میں دھکیلنا پڑ جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں مگر اسے یہ حق کسی صورت میں حاصل نہیں کہ وہ قوم اور ریاست کو بھی خطرے میں دھکیل

* * * * *

بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کے خیاالت آپ کی سوچ سے مختلؾ ہوں اور جن کا دنیا کے بارے میں نقطہ نظربھی آپ سے

Page 158: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

مگر اس کے باوجود وہ نہایت مخلص اور مفید ثابت ہو ‘ مختلؾ ہوسکتے ہوں ۔ اس بات کے پیش نظرخدشہ ہے کہ آپ جلدبازی سے کام لیتے ہوئے ہر اس سوچ کے خالؾ محاذآرا نہ ہو جائےں جو آپ کے ‘ خیاالت سے مختلؾ ہے۔ایسے لوگوں کو ہاتھ سے نہیں گنواناچاہیے

بلکہ ان کے خیاالت اور مطالعے سے استفادہ کرنے کی راہیں تالش کرنی چاہئیں اور پھر ان سے بات چیت کاآؼاز کر دینا چاہیے۔ ورنہ محض یہ کہہ کر کہ وہ لوگ ہماری سوچ سے مختلؾ سوچ رکھتے ہیں ان سے ایک ایک کر کے دور ہوتے جانا یا ان کو دور ہو جانے دینا درست نہیں ہو گا۔ کیونکہ یہ ؼیر مطمئن لوگ عوام کو جوق در جوق اکٹھا کر کے انہیں آپ کے خالؾ محاذآرا کر سکتے ہیں اور یوں آپ کو خاک میں مال سکتے ہیں ۔ انسانی تاریخ میں ؼیر مطمئن عناصر نے

البتہ جن ‘ آج تک کبھی کوئی مثبت کارنمایاں توکر کے دکھایا نہیں ممالک کوانہوں نے برباد کیا ہے ان کی تعداد ان گنت ہے۔

* * * * *

اپنے ‘ انسان کو چاہئے کہ جو علم اور مشاہدات اپنے طرز حکومتجہاں کہیں سے ‘ اور اپنی دنیا کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں ‘ تفکر

ان کے بارے میں معلومات حاصل کرے ‘ بھی حاصل ہو سکتے ہوں اور خاص کر تجربہ کار لوگوں کے تجربات سے استفادہ کرنے میں تو کبھی بھی ؼلفت نہ برتے۔

* * * * *

دین ایک ایسا حیاتی ادارہ ہے کہ اگر اس کی متحد کرنے کی قوت اورتکمیل کی خصوصیت کو قوموں کے منتظموں کی نگاہوں کے سامنے رکھا جائے تو وہ اس کی ناقابل شکست قوت کے سائے تلے رہ کر ہمیشہ اس سے استفادہ کرنا ضروری سمجھیں گے۔

* * * * *

Page 159: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

سالمتی اور امن و امان کے حصول کے سلسلے میں ریاست اور قوم کے لیے دین کی قوت جیسی کوئی دوسری قوت سامنے النا نا ممکن ہے۔ کیونکہ دین جس طرح ضمیر کے لیے ایک موئثرترین طاقت ہے اسی طرح افراد کی حرکات و سکنات اور ان کے طرز عمل کو رلط و ضبط کے تحت النے کے لیے بھی ایک سب سے بڑا حاکم عنصر ہے۔اس لحاظ سے منتظمین سلطنت کو چاہئیے کہ وہ دینی حیات کو قومی حیات سمجھتے ہوئے اسے عوام کے وجدان میں ہمیشہ زندہ رکھنے کی کوشش کریں ۔

* * * * *

نوجوانوں کو اس معیار پر پہنچا دینا ‘ قوم کو بلندی کی طرؾ لے جاناجہاں سے وہ ہمارے اپنے یقین و ایمان اور سوچ کے چوکھٹے میں

ان باتوں ‘ رہتے ہوئے اپنے دور حیات کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں ؼربت دور کرنے اور ضروریات بہم پہنچانے کے لیے : پر منحصر ہے

جس سے عوام کے دلوں میں اپنے لیے پیدا ‘ ایک با شعور مہم کا اجرائاورصنعت و تجارت کو ہمیشہ علم اور ‘ شدہ اعتماد کی حفاظت ہو سکے

مہارت کے ساتھ پابند کیا جانا کہ دونوں ساتھ ساتھ آگے بڑھ سکیں ۔

* * * * *

‘ دین: قوموں کو زندہ رکھنے کے لیے تین اہم عناصر کی ضرورت ہےحکمت اور اسلحہ۔ ان میں سے حکمت کا مطلب یوں سمجھایا جا سکتا

علم حقیقت کو سمجھنے کے بعد اس علم کو زندگی کے ‘ حکمت: ہے ساتھ یک جان بنا لینے کا نام ہے۔

* * * * *

دنیا ایک تجربہ گاہ ہے۔ یہاں تجربوں کے ذریعے حاصل شدہ معنوں اور اقدار کے مطابق ہر شے کو ایک مقام دیا جاتاہے۔میرے خیال میں ایک طرؾ تو تجربات سے گزاری جانے والی اشیاءکو اہمیت دیتے

Page 160: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

اور دوسری طرؾ نئے نئے تجربات اور اشیاءکی اقدار ‘ ہوئے مقررکرتے ہوئے کوئی ؼلطی نہیں کرنی چاہیے

* * * * *

بلدیہ کے چئیرمینوں میں ‘ اور ذمہ داری‘ زودحسی‘ گورنروں میں شفقتعدلیہ کے ا ‘ صفائی اور بازاروں اور مارکیٹوں کی سالمتی‘ انتظام

ؼیر جانبداری اور شہری جسارت ‘ راکین کے لیے سچائی کا خیال بنیادی چیزیں ہیں ۔

* * * * *

ریاستوں اور قوموں کا ایک دوسری کو برداشت نہ کر سکنا ایک قدرتی امر ہے۔اس لحاظ سے ان کی باہمی سیاست یا توصمیمی دوستی کے اردگرد جاری رہتی ہے اوریا پھر اپنے اپنے مفادکے اردگرد۔ طرفین

نہ خود کسی کے ضرر کا ؤ نہ کسی کو ضرر پہنچا”کے اداروں پرکے اصول کے سوا اور کوئی پابندی نہیں ہوتی۔لیکن اگر “ نشانہ بنو

ایک ریاست کسی دوسری ریاست کو فریب دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی تو پھر بھی اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسروں کے فریب سے بچے رہنے کے لیے ہمیشہ اپنی آنکھیں کھلی رکھے۔یہ سیاست کا دوسرا رخ ہے۔

* * * * *

انتخابات ‘ پراپیگنڈا‘ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست محض پارٹی اور اقتدار کی جنگ پر مشتمل ہے وہ ؼلط سمجھتے ہیں ۔دراصل سیاست ایک ایسا وسیع و عریض انتظامی فن ہے جس میں آج کو کل سے اور کل کو پرسوں سے مال کرمجموعی طور پرؼور کیا جاتا ہے ۔اور عوام کی خوشنودی کو رضائے الہی کے ساتھ مال کر مطالعہ کیا جاتا ہے۔

* * * * *

Page 161: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ماضی ایک ایسا سکول ہے جو لوہے کی ایسی پلیٹوں سے بھرا پڑا ہے جن پر زندگی سے حاصل شدہ مثالیں اور عبرت آمیز عبارتیں کندہ ہیں ۔ جو لوگ اس لحاظ سے اس سکول کی اچھی طرح تشخیص کر سکتے ہیں کہ اس نے ہمیں کیا دیا اور کیا حاصل کرنے میں ہمارے لیے کس

وہ مستقبل کو بھی کامیابی سے کنٹرول کر ‘ حد تک مددگار ثابت ہواسکیں گے ۔ کیونکہ آج گزشتہ کل کی طرح اور گزشتہ کالس سے پہلے کے روز کی طرح ہی ہے۔۔۔۔صرؾ رنگ ہیں جو تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔

* * * * *

مگر حق اور انصاؾ کی حکومت پائیدار ‘ طاقت کا راج آناجانا ہوتا ہےہوتی ہے۔طاقت کے بل پر راج کرنے والے آج نہیں تو مستقبل قریب میں یقینا آئے گئے ہو جائیں گے۔چنانچہ سب سے بڑی سیاست حق اور انصاؾ میں تالش کرنے چاہیے۔

* * * * *

اگر ہمارے قبول کردہ پیمانوں کی حدود میں رہتے ہوئے یہ کہا جائے تو “ !تم بھی سیاست میں دخل مت دو‘ میں سیاست میں دخل نہیں دیتا”کہ

قوم کی ‘ میں وطن اور قوم کے کاموں میں ”اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ “!زندگی اور بقا کے معامالت میں دخل نہیں دیتا تم بھی دخل مت دو

* * * * *

‘ ہمارے موجودہ زمانے میں اکثر لوگ روزمرہ کے سیاسی کھیلوں اقتدار اور ذاتی مفاد ‘عوام کو دھوکا دے کرفریب کے جال میں پھنسانے

کے جھگڑوں اور ان سب سے متعلقہ تمام ؼیر مشروع حرکات کو مشروع ظاہر کرنے کو ہی سیاست کا نام دیتے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں

سوچ کی جہتوں اورحق ‘ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی قلبی زندگیوں تعالی سے تعلقات کی خاطر ہر سیاسی حرکت سے دور رہنا ضروری

Page 162: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

کہاں وہ سیاست جو انصاؾ اور حق ! سمجھتے ہیں ۔افسوس صد افسوسکی سوچ سے مکمل ہوتی ہے اور کہاں وہ گلیوں میں گھومنے والے جھوٹے مدعی جن کی اکثریت کی بنیاد ہی جھوٹ ا ور دھوکے پر رکھی گئی ہوتی ہے۔۔۔

تجاچت

روپے پیسے اور تجارتی اجناس کی زبان میں تجارت کا مطلب ہے رزق کے لیے اس ذات عالی سے رجوع کرناجس کے ہاتھ میں ہر چیز کی باگ ڈور ہے۔ اس ذات سے مراجعت کرنا ہر حال میں ضروری ہے مگر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ آپ کی خواہشات کو پور ا کرنے کا کام بھی اسی ذات کے ہاتھ میں ہے۔فن اور ٹیکنالوجی

مستقبل میں تجارت اور اس سے متعلقہ موضوعات ‘ خواہ کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر جائےکا کردار آ ج کل کے مقابلے میں اورموجودہ تخمینوں سے کئی گنا زیادہ ہو گا۔ یہاں تک کہ حکومت اور اقتدار اسی کی وصیت کی روشنی میں سامنے آئیں گے اور اسی کی مدد سے اپنی بقاءکے لیے قدم اٹھائیں گے۔

* * * * *

کسی )باقی تمام معامالت کی طرح تجارت اور صنعت کے لیے بھی علم اوراختصاصکی اہمیت بہت زیادہ ہے۔مگر اس کے ساتھ (موضوع میں خصوصی مہار ت حاصل کرنا

ہی یہ بھی ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ خاص طور پر یہ دو پیشے ایسے میں جن کا انحصار نوآموزی یعنی اپرنٹس شپ کے سسٹم پر ہوتا ہے۔بے شمار مسائل ایسے ہیں جوکتابوں میں تو بیان کیئے جاتے ہیں لیکن اگر یہ کسی ماہر استاد یا ٹیچر کے ماہر ہاتھوں سے نہ گزریں جو خود ایک نوآموز کی حیثیت سے استاد کے درجے تک پہنچے

تو کتابی بیان سے کسی صورت بھی متعلقہ نتائج کی امیدنہیں کی جا سکتی۔‘ ہوں

Page 163: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

وہ جتنا وقت ‘ وہ تاجر جو لین دین کے دوران حالل و حرام کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے اپنے کام پر خرچ کرتا ہے وہ سارا وقت اس کے لیے عبادت گنا جائے گا۔

* * * * *

کام کی جگہ اور تجارت خانے کی صفائی اور ترتیب اور صفائی یااس کی گندگی اور بے ترتیبی اکثر اوقات دکاندار اور فروخت کنندہ کی روحانی حالت کی عکاسی کرتی ہے۔لہذا یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ عنصر بھی گاہک اور اشیاءکے طلبگاروں پر مثبت یا منفی اثرڈالے گا۔

* * * * *

اپنے اس طرز عمل کے باعث سب سے پہلے اپنے رب ‘ دھوکا باز دکاندار‘دھوکاباز تاجراور اپنے ضمیر کے سامنے پیش ہوں گے۔ اور پھر جب ان کی دھوکا دہی کا پول کھل جائے گا تو عوام میں بھی ان کا اعتماد اٹھ جائے گا اور انہیں تجارت میں فائدے کی بجائے نقصان ہونا شروع ہو جائے گا۔

* * * * *

اور خریدار کے ساتھ نہایت پر اخالق اور ‘ حاالت حاضرہ کا علم‘ امن وامان‘ سچائیمہذبانہ طریقے سے پیش آناتجارت کی روح ہے۔ ان خاصیتوں میں سے کسی ایک میں

کا مرتکب ہوتا ہے ؤ بھی کوتاہی کرنے واال تاجر تجارت کی روح کے ساتھ برے برتا جس کی وجہ سے وہ اپنے منافع کی راہوں کو بند کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔

چہرے پر مسکراہٹ ‘تاجروں اور صنعت کاروں کو چاہیے کہ وہ زبان کے میٹھے ہوں بوریت سے مکمل گریز ‘ اپنی بات کے پکے ہوں ‘ خاصے منکسر مزاج ہوں ‘ رکھیں

ہر پیشہ ور کے لیے نہایت اہم ہیں ‘ کریں ‘ اور کاہلی سے بچیں ۔ یہ صفا ت جو تقریباعوام کے ساتھ گھل مل جانے اور ان کے نفع نقصان میں شریک ہونے کے لحاظ سے ان دو پیشوں کے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہیں ۔

* * * * *

اپنی دکان یاکاروبار کی جگہ کو ہر روز معمول کے اوقات سے ایک گھنٹہ پہلے کھول کر ایک گھنٹہ دیر سے بند کرنے والے تاجروں کا مہینہ پینتیس دنوں کا اور سال چارسو بیس دن کاہو جاتا ہے۔ بشرطیکہ جہاں تک ممکن ہو دکانوں یا کاروبار کی جگہوں میں ۔اپنے اصلی کام کر نظر انداز نہ کیا جائے

Page 164: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

نکات بچائے اتحاد

دور حاضر میں کئی طرح کی حرکات اور رجحانات مروج ہیں ۔ اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمارا انسان گال گھونٹ دینے والے بحرانوں میں مبتال ہے ۔ جس طرح علوم کی بنیاد تحقیق ہے جس کی رؼبت کے محرک شکوک و شبہا ت ہوتے ہیں اسی طرح ایک لحاظ سے

سوچ کی حرکات اور رجحانات کا سرچشمہ ہیں ۔جو معاشرے دور ‘ بحرانحاضر کے مطالبات کے مطابق اپنی تمام ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو چکے ہیں اور اپنی طبعی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ان کے اجتماعی مسائل نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ مگرجو معاشرے ابھی اپنی مادی اور معنوی ضروریات پوری نہیں کر سکتے اور نہ ہی ابھی اس قابل ہوئے ہیں کہ اپنی فطری ترقی

اور مجبوریاں بتدریج بڑھتی ؤ ان میں داخلی اور خارجی دبا‘ کو تیز کر سکیں چلی جا رہی ہیں جن کی وجہ سےان کو پیش آنے والے بحران بھی اسی نسبت سے بڑھ گئے ہیں ۔

شدید برفانی طوفانوں اور ‘ برؾ باری‘ اجتماعی افراتفری اور ہنگامے‘ بحرانآندھیوں کی طرح ہوتے ہیں ۔اکثر اوقات نتیجے کے اعتبار سے یہ فائدہ مند بھی ثابت ہوتے ہیں ۔کیونکہ معاشرہ بحرانوں سے نمٹنے کے لیے اپنے آپ کو بھی اچھی طرح سمجھ جاتا ہے۔ جو معاشرہ اپنے دور کے بارے میں کچھ نہیں

جو عمل اور رد عمل کے ساتھ اس دور کے حوادث کے درمیان نہیں رہ ‘ جانتاسکتا اسے ایک زندہ معاشرے کے طور پر قبول کرنا ناممکن ہے۔ کیونکہ وہ بربادی کی راہ پر چل رہا ہوتا ہے۔ ایک لحاظ سے مجبورا

ہمارے اس دور میں بشری طبقات کی سطح پر جو شورشیں اور ہنگامے برپا بالشبہ ؤ ہوتے رہتے ہیں اس طرح کے بحران اور داخلی اور خارجی دبا

موجودہ نظام کی دیواروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔ اس وجہ سے نئی تشکیل اور تعمیر کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔جو قومیں ان عمومی شورشوں

Page 165: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

اور واقعات کے باوجود تباہی سے بچ کر نکل سکتی ہیں وہ اپنے حصے کا انعام پا لیں گی اور مکمل طور پر ایک نئی دنیا قائم کریں گی۔

ہماری قوم اور جن قوموں کے ساتھ ہمارے روابط ہیں ان کے معاشروں کا ان حاالت سے مستثنی رہ جانا کسی حالت میں بھی سوچا نہیں جا سکتا۔ احتمال یہ ہے کہ یہ معاشرے بھی ایک بحران کے بعد دوسرے بحران میں اور ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں گھرے رہیں گے اور ہزار قسم کی

لیکن آخرکار یقینا وہ نئی زندگی پا کر اپنی پہچان ‘ سردردیاں برداشت کریں گے قائم رکھیں گے۔

اصل مسئلہ اس سارے ماجرے کے یعد اپنے آپ کو مکمل طور پر ایک ایسی جس میں کوئی کمی نہ چھوڑی ‘ نئی تشکیل کے لیے تیار کرنا ہے جو بنیادی ہو

گئی ہو اور جو نہایت مستحکم اصولوں پر مبنی ہو۔ اس کے برعکس اگر عالج بھی سائنسی بنیادوں پر ‘ معاشرے میں اجتماعی قوانین کے علم کا فقدان ہو

الٹا اور منفی طرز عمل اپنا لیا گیا ہوتو ہرایسے معاشرے کو ‘ نہ کیا جا سکتا ہو یہ سب کچھ تہس نہس کرسکتا ہے۔

کے مخمصے سے دوچار ہیں ۔یا تو ہم ان “ نہیں ہوں ”یا “ ہوں ”آج ہم بھی اسی تمام بحرانوں کے بعد گہری سمجھ بوجھ اورذکا کے ساتھ ایک ایسی دنیا تعمیر

اور یوں امن سے ‘ کریں گے جس کا منصوبہ ہماری پوری قوم نے بنایا ہواور یا پھراپنی سمجھ اور طرز عمل کے بل بوتے پرایک ‘ ہمکنار ہو جائیں گے

قسم کی معمولی سی جمع تفریق اور فوائد کی خاطراٹھائی گئی ہزارہا مصیبتوں ں پیچھے ہی پیچھے کی طرؾ ؤالٹے پا‘ خدا بچائے‘ کو بے ثمربنا دیں گے اور

چلتے جائیں گے۔

ایک ایسا حقیقی موضوع ہے (اتحاد اور پھوٹ )سچ تو یہ ہے کہ اتفاق اور نفاقجو ہمارے اس دور میں اپنی اہمیت برقراررکھے ہوئے ہے۔یہ موضوع اپنی

مگر ایک ایسے دور ‘ اہمیت خواہ ہر دور میں اسی طرح برقرار کیوں نہ رکھےبلکہ نہایت ‘ میں جب کہ اپنے آپ کو ایک نئی دنیا کے لیے تیار کرنا ضروری

یہ موضوع ان تمام اجتماعی مسائل میں سرفہرست آ ‘ ضروری ہو گیا ہے گیاہے جودن بدن نہایت سنجیدہ شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں ۔وہ الیعنی باہمی ‘ اختالفات اور پھوٹ جس کا خمیازہ یہ قوم صدیوں سے بھگتتی چلی آ رہی ہے

حساسیت کی صؾ اول میں پہنچے ہوئے موجودہ دور میں ہولناک حدود تک

Page 166: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

پہنچ چکے ہیں ۔ مجھے بڑے اطمینان سے کہنا چاہیے کہ یہ تصور کرنا بھی ممکن نہیں ہے کہ ہماری زندگی کی بقا کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی اور خطرہ بھی الحق ہو سکتا ہے۔

آج ہمارا معاشرہ علمی اور فکری ساخت کے اعتبار سے حتی االمکان اتھلے ‘ قلبی اور روحانی زندگی کے لحاظ سے بھی نہایت مفلس ہے‘پانی میں ہے

ں کے اعتبار سے اس کا کوئی مالک ہی نہیں اور اس کی ؤلیڈروں اور رہنماحالت انتہائی قابل رحم ہے۔ وہ معاشرہ جس کا سرچشمہ ہی رواداری کے فقدان اور تعصب کا شکار ہو اورجس کے ماحول سے یہ وبائیں ختم نہ کی جا سکی

وہاں اتفاق اور اتحاد کے بارے میں سوچنا بھی خاصا مشکل کام ہو گا۔‘ ہوں

سمجھوتہ اور باہمی مصالحت چونکہ کسی اور شے سے پیشتر عقل اور منطق پر منحصر ہیں اس لیے وہی وحدت اور قلبی اتحاد قابل برداشت ہو سکتا ہے اور دیرپا رہ سکتا ہے جو عقل اور منطق پر مبنی ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے اس دور میں زیادہ باتیں جذباتی وحدت اور بھائی چارے کے بارے میں

نا کافی اورکم عمر ‘ کی جاتی ہیں ۔ مگر ایسی وحدت اور بھائی چارہ کمزور ہوتا ہے۔

یا پھر دشمنی کے ‘ کسی ایک مخصوص گروہ کی مخالفت میں مجمع لگاناکسی پر حملہ کرنے یا خود پر حملہ کیئے جانے ‘ جذبات کے تحت اکٹھے ہونا

جذباتی اتحادوں کی وقتی لہروں پر ‘ کی روحانی حالت کے تحت اکٹھا کیا جانامبنی ہوتا ہے۔آج کل اہمیت اور کمیت کی حدود کے اندر معرض وجود میں آنے واال ایسا اتحاد چاروں طرؾ سے دشمنوں میں گھرے ہوئے ایک ملک کے لیے ناکافی ہے اور اسے خاص کر ہمارے مقدس اصولوں کے نقطئہ نظر قطعاسے تو بالکل ہی جائز نہیں سمجھا جاسکتا۔ اسی طرح یہ ہمارے قومی لحاظ سے بھی بالکل بے معنی ہو گا۔

لہذہ آپس میں پھوٹ ڈالنے والے اندرونی اور بیرونی عناصر کو پیش نظررکھتے ہوئے اس بات کی بڑی شدت سے ضرورت ہے کہ ایسے مشترکہ نکات پر مذاکرہ کیا جائے جو قومی سطح پر ہمارے اتحاد کی بنیاد بن سکیں ۔ اس کے ساتھ ہی ہمار ی قو می وحدت کو عقل اورمنطق کی روشنی میں نئے

آج اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ! سرے سے زیر ؼور الیا جائے۔ جی ہاں ہدؾ اور مقاصد کے تعین اور توثیق کے معامالت کو ازسر نو زیر ‘ اپنے وسائل

Page 167: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

‘ نظر ال کر ایک وجدانی میثاق کو مطمع نظر بنا لیا جائے۔وحدت ہماری مادیدنیاوی اور اخروی فالح و بہبود کی بنیادی اینٹ ہے۔اس کی خاطر اور ‘ معنوی

کچھ نہیں تو کم از کم اینگلو سیکسن۔ویلزمعاہدے کی نوعیت کے ایک معاہدے بلکہ نہایت اہم ضرورت ہے۔‘ کی ضرورت ہے

انہیں اپنے مسئلوں پر ؼوروفکر ‘ ہمیں اپنے دشمنوں کو مصروؾ رکھنا چاہیےاسی طرح جن مسئلوں ‘ کرنے اور اپنی آنکھیں کھولنے کا موقع نہیں دینا چاہیے

قابلیت اور ادراک کی ضرورت ہوتی ہے اگر ہم ان سے ‘ کے حل کے لیے عقلنپٹ نہیں سکتے تو بھی ہمیں کم از کم اتنی سمجھ اور قابلیت کا تو ضرور اظہار کرنا چاہیے کہ ہم دشمنوں کی چالوں میں نہ آئیں اور خود اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ختم کرنے کی تیاریاں نہ کرنے لگ جائیں ۔ دراصل یہ سب کچھ تو ہماری مجبوری بھی ہے۔۔۔ ۔۔۔۔۔

سوچ اور فہم کا اختالؾ پیدائش کے فرق کا نتیجہ ہوتاہے۔یہی خالق کی منشاءہے اور اسی میں اس کی رحمت اور حکمت پوشیدہ ہے۔لیکن انسان اس بات پر مجبور ہے کہ وہ اپنی مرضی سے بھی وہی آہنگ اور انتظام اپنائے جو شریعت فطری میں موجود ہے۔عالم اصؽر میں قضا و قدر حکم فرما ہے جبکہ عالم بشری میں عمومی شرائط کی حدود کے اندر ہی اندر خوداختیاری کا حکم چلتا ہے۔اگرسب سے پہلی ہستی کا معرض وجود میں آنا ایک احسان تھا تو بعدازاں آنے واال ہر احسان کسی نہ کسی سبب پر منحصر ہوتاہے۔

اجتماعی اتحاد اور برابری ایک احسان ہے جسے حاصل کرنے کا راستہ ضمیروں کے باہمی اتحاد اور دلوں میں پیدا ہونے والی مروت اور انسانیت

جو کہ اپنے نفس کی ‘ پسندی کے خمیر سے گزرتا ہے۔ لہذا خود پرستی کواور خود پرستی کے وسائل کو ہدؾ ‘ محبت اور اسی کی عبادت کا اظہار ہے

اور مقاصد کا مقام دے دینا پس پردہ شرک ہے۔ یہ تو ایک ایسی حق ناشناسی اگر میرے ہاتھوں ایک نیکی نہیں ہو سکتی تو ”ہے جیسے کوئی کہے کہ

مجھے دوسروں کی طرؾ سے کی جانے والی نیکی اور اس نیکی کے وسائل یہ ایک ایسا بے ڈھنگا پن اور تعصب ہے “کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

جیسے کوئی اپنے ماتحت اشخاص کی اچھائیاں تو دیکھ لے مگر اپنے ماتحت گمراہی اور گناہ کاری کا ٹھپہ لگا دے۔ میرے ‘ نہ ہونے والے ہر شخص پر کفر

Page 168: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

خیال میں اگر ایسا تعصب اوربے ڈھنگی سوچ وجدان سے الگ کر کے دور نہ پھینک دی گئی تو متذکرہ باال طرز کا سمجھوتہ یا عہدنامہ ناممکن ہوگا۔

اور ‘ بلکہ ناگزیر ہے‘ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ بہت ہی ضروری ہے ہمارے مقدس اتحاد اور بقاءکا تقاضا بھی ہے کہ ہم اپنے خیاالت کے ان باہمی تفرقات کو جو بنیادی نہیں ہیں بالکل نارمل قبول کریں اور اپنی قوم کے

خاص کر کسی دوسرے ‘ دوسرے افراد کو بھی اسی خیال میں حصہ داربنائیں خواہ بناوٹی خوش خلقی کے طور پر ہی کیوں نہ ‘ ملک کے باشندے کے سامنے

ہو۔ باقی رہے آپس میں پھوٹ ڈالنے والے ایک طرح کے وہ عناصر جو ہمارے الزمی اور مقدس قومی اتحاد کے لیے خطرے کا باعث ہیں اور جنہیں ہم

تو ان کے وجود کو قبول کرنا بھی ‘ معمولی سمجھ کر نظرانداز نہیں کر سکتے :حقیقت کا اظہار ہے۔مثال

پھر الگ الگ ‘ ۔دینی خدمات کا ایک لمبے عرصے تک بیچ میں لٹکتے رہنا۱اس حالت میں جب کہ ان ‘ افراد اور جماعتوں کا اس فرض کو اپنے ذمہ لے لینا

جماعتوں میں ایسے لوگوں کافقدان ہو جو ان افراد اور جماعتوں سے اپنی بات منوا سکتے ہوں اور ان کو لیڈر کے طور پر صحیح راستہ دکھا سکتے ہوں ۔

اس فقدان کے باعث ہر گروپ کا علیحدہ علیحدہ راہیں پکڑ کر ان پر چلنا شروع ایک ‘ ں میں قرآن کورس شروع کر کے ؤکر دینا۔ان میں سے ایک گروہ نے گا

‘ اور گروہ نے احیائے دین کے نقطئہ نظر سے لکھی گئی کتابیں پڑھ پڑھ کراور ایک گروہ نے سیاسی ‘ ایک گروہ نے روشن خیال لوگ تیار کر کے

معامالت میں حصہ لے کر اپنی قوم کی خدمت کرنے کا سوچ لیا۔ اس اعتبار

سے یہ سب لوگ دین اور وطن کی خدمت کرنے میں مصروؾ توہیں مگر ہیں سب الگ الگ۔۔۔ ۔

۔ ان گروہوں میں سے ہر گروہ کا ان افراد کو مجددوں کی طرح دیکھنا جو ۲راہبر کے طور پر ان کے راستوں کو روشن کرتے اور ان کے لیڈروں کا کام ‘ کرتے ہیں ۔یہ بات خواہ ایک لحاظ سے بالکل معصومانہ ہی کیوں نہ ہو

مسلمانوں کے وجدان ” مگرآپس میں پھوٹ ڈالنے کا سبب بن رہی ہے۔کیونکہکہ یہ سلسلہ قیامت ‘ کے مطابق جتنا عرصہ دین کی تشریح مجدد کرتے تھے

ان ادوار میں جب دین کے مقابلے میں برائیاں بڑھ جائیں ‘ تک جاری رہے گا

Page 169: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

تب علمی اور عملی خدمات کے لیے سامنے آنے والے اشخاص اور ان ‘ گیان ادوار میں عوام کی سوچ اور روح کی “ کے تابع افراد ہمیشہ مل جائیں گے۔

ں میں زندگی پھونکتے وقت ؤتشکیل کے دوران اور جمعیت کے مردہ پہلوموجود متعلقہ لوگوں کو مجدد کہا جائے گا۔ یہ لوگ اپنے تا بعین کے لیے بے ضرر ہوں تو ہوں مگر مبتدیوں اور عجمی لوگوں کے ہاتھوں میں ان کا ایک پھوٹ ڈالنے کا عنصر بن جانا بالکل نا گزیر ہے۔

۔مہدی مسلک میں بھی وارد ہونے والے لیڈروں کی انہی خصوصیات کا ذکر ۳کیا جا سکتا ہے۔ آخری زمانے کے اس دہشتناک فتنے کے خالؾ مہدی مسلک کا عقیدہ افراد کے لیے بھی اور جمیعت کے لیے بھی ڈوبنے سے بچانے والے

جس دور میں اعتقاد کے بندھن کمزور پڑ ! ایک کمربند کی طرح ہے۔ جی ہاں اور لین دین کے معامالت کو پوری طرح پس ‘ عمل ترک کر دیا جائے‘ جائیں

تو پھر ایک ایسے حریق العادت ذات کا وجود الزم ہو جاتا ‘پردہ ڈال دیا جائے ہے جو ایک ہی ہلے میں او ر ایک ہی سانس میں ان سب کاموں کے لیے جنہیں ہم محال کہتے ہیں ضروری اصالحات نافذ کر دے۔اس پالن کے مثالی

کی نیک خیالی کے بارے میں حیران ہونے کا کوئی ( ۸۹۱اس ‘ پہلو ایک طرؾپہلو نہیں ہے۔ لیکن افراد سے منسوب کرد ہ بڑائی اور جمیعت سے منسوب کردہ زودحسی کو پیش نظر رکھا جائے تو عین ممکن ہے کہ اس سے آپس میں پھوٹ یا علیحدگی پیدا ہو جائے۔

۔ان کے عالوہ ہماری ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ ہم اپنے باہمی اختالفات کے ۴بیرون ملک سے بھڑکائے جانے کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہمسایہ ممالک اور معاصر اس بات کو کبھی بھی ہضم

اور صدیوں تک ‘ نہیں کر سکے کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو سلطنتیں قائم کرتی انسان کی تقدیر پرحکمرانی کرتی رہی ہے۔

ایک ہزار سال میں لڑی گئی تمام لڑائیاں اور حملے اس دشمنی ” گزشتہ تقریبااسلحے کی ناکہ “ کی عالمت ہیں جو ہماری قوم کے خالؾ پالی جاتی رہی ہیں ۔

ہمارے یعض بین االقوامی مسائل میں ‘ بندی کے ساتھ ساتھ تجارتی ناکہ بندیاں اسی ‘ ہمارے اتحادیوں کا ہمارے مفاد کے خالؾ موقؾ کا ؼیر متوقع اظہار

اثناءمیں بعض مؽربی ممالک کا ان بین االقوامی اداروں میں بھی جن کے ہم ان سب باتوں ‘ ممبر ہیں ہمیں تیسرے درجے کی ریاست کے طور پر دیکھنا

Page 170: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک اور ہماری قوم کوابھی تک دوستانہ نگاہوں سے نہیں دیکھا جاتا۔اب جبکہ یہ معاملہ اور طرز عمل پانی کی سطح کے اوپر آ چکا ہے اگر اب بھی ہم اس کے پس پردہ بعض منفی طورطریقوں کی موجودگی کو نظرانداز کرتے رہیں تویہ یقینا ہمارے نابینا ہونے کی دلیل ہو گی۔ ایک نقطئہ نظر سے اگر یہ منفی طور طریقے مفادپرستی پر مبنی باہمی تعلقات کے حامی ممالک کی صورت میں نارمل بھی سمجھ لیے جائےں پھر بھی یہ ایک تاریخی حقیقت سے کم نہیں ہیں ۔یہ حقیقت جس کے پیچھے بالشبہ ایک

ہمیشہ سے مختلؾ قسم کے جاسوسی ‘مختلؾ قسم کی ذہنیت بروئے کار ہے اداروں کی مصروفیت کا میدان عمل بنی رہی ہے۔

آج بھی خطرہ پہلے ہی کی طرح موجود ہے۔جی ‘ پرانا بھیس بدل کر ہی سہیچنانچہ اس کا مقابلہ کرنا آسان ‘ گزشتہ زمانے میں یہ خطرہ بیرونی ہوتاتھا! ہاں

تھا۔مگر آج اس کے ساتھ اندرونی خطرہ بھی شامل ہو گیا ہے۔ لہذا مقابلہ نسبتازیادہ مشکل سمجھا جاتاہے۔بداخالقی جو ایک وبائی مرض کی طرح سارے

ں پر ؤاور اب جبکہ اس معاشرے کو اپنے پا‘ معاشرے کے گرد چپکی ہوئی ہے‘ تو وہ نسلیں جو الدینی اخالق‘ کھڑا رکھنے والی تمام بنیادیں گرچکی ہیں

تشہیری اخالق کے نام سے پہچانی جانے والی مختلؾ ذہنی ‘انکاری اخالقبیماریوں کی وجہ سے اپنی مقدس اقدار کے خالؾ بے لحاظ نسلیں بن چکی ہیں ۔ان کے بارے میں اگرنہایت شرمناک اسلوب بیاں استعمال کریں توکہہ سکتے ہیں کہ وہ فکری اور روحانی بد نسلی کا شکار ہو چکی ہیں ۔اور آج انہیں اس چیز کااحساس بھی نہیں ہے کہ وہ ایک لرزا دینے والی کشمکش میں مبتال ہیں ۔

یہ دعوی کرنا تو خاصا مشکل ہے کہ اس ساری گڑبڑ اور ابتری کا اہل ایمان ان کے نزدیک کبھی تفہیم دین کا تخمینہ !طبقے پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ جی ہاں

اور کبھی نسلی معامالت ‘ کبھی عادات و اطوار اور مزاج کی تعمیل کرانا‘ لگاناان سب معامالت کی طرؾ توجہ دینا نہایت ضروری ہے کیونکہ ‘ کو کریدنا

بیرونی طاقتیں انہیں اپنے حوالہ جات کے مرکز کے طور پر استعمال کرتی ہیں ۔یہ درست ہے کہ دین کی خدمت کرنے والے گروہوں کے بارے میں ایسا کوئی سنجیدہ قسم کا شعبہ موجود نہیں ہے کہ یہ گروہ اس قسم کے اختالفات پیدا کرنے والے رجحانات میں الجھ چکے ہیں ۔یا یہ کہ ان کی پرورش اور کنٹرول

اگر بعض دینی ”ان رجحانات کو پھیالنے والے اداروں کے ہاتھ میں ہے۔“ گروہوں کے بارے میں اس طرح کے دعوے اور افواہیں موجود ہوں بھی تو

Page 171: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ایمان اور قرآنی تعلیمات پر مبنی جماعتوں کے متعلق ایسے مضبوط شواہد موجود ہیں جن کے مطابق وہ بیرونی عناصر سے کبھی ہدایات نہیں لیں گے۔لیکن جماعتوں کے فکری اور روحانی پختگی کی سطح پر نہ پہنچ سکنے کے باعث ان میں تعصب کا موجود ہونا ممکن ہو سکتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تعصب کے باعث اندرونی چپقلشیں بھی ظہور پزیر ہو سکتی ہیں ۔

وہ دشمن کے ‘ اس قسم کی چپقلشیں جن کی موجودگی پر ال علمی کا پردہ پڑا ہو نفرت انگیز مقاصد کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں ۔

اسے باہمی امداد کی خاطر اکٹھا ہونے ‘ خواہ ترکی ہو خواہ ساری دنیائے اسالمکی ہر تحریک کے لیے مندرجہ ذیل خطرات ہمیشہ موضوع بحث ہو سکتے ہیں ۔:

۔بعض بڑے بڑے لوگوں کا اپنے مادی اور معنوی مفاد میں مقام اور شہرت ۱کے جنون کے احساس کو روبکار ال کراپنے مخالؾ گروہوں کو رقابت کی طرؾ دھکیلنا۔

۔اسالم کے نام پر کی جانے والی سرگرمیوں کے دوران خدمت خلق کرنے ۲ والی مخالؾ جماعتوں کو توڑ پھوڑ پر مبنی حرکات پراکسانا۔

۔علم وفضیلت کا پھل حاصل کرنے کا زمان و مکان آخرت ہے جسے بہت ہی ۳دور کا مستقبل سمجھا جاتا ہے۔ اس کی بجائے ہرچھوٹی سی سرگرمی اور سعی بعداس پھل کے حصول کی اسی دنیا میں امید رکھنا۔ کے فورا

۔خدمت کرنے والے اداروں میں با اثر اور حیرا ن کن طریقے سے کام لینے ۴والے عملے کے اثرورسوخ کوذائل کرنے کی خاطر ان کے مقابلے میں ایک نیا گروہ ال کھڑا کرنا اور اس متبادل گروہ کے ذریعے داخلی چپقلشوں کی ابتدا ءکر کے ملک کے اندرپھوٹ اور تقسیم پیدا کرنا اور یوں سارے معاشرے کوٹکڑے ٹکڑے کر کے ختم کر دینا۔

۔تمام قومی خدمت کرنے والوں کا بنیادی محرک ان کے اپنے مسلک کی ۵محبت ہو تو اس کی جگہ انہیں دوسرے مسلک کے لوگوں کے خالؾ دشمنی میں اتنا مشؽول کر دینا کہ ان کے پاس اپنے اصل مقصد کے لیے وقت ہی نہ بچے۔یوں خدائی مدد کے ایک اہم وسیلے کو ختم کر دینا۔

Page 172: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ان سب خطرات کے عالوہ ہم اس بات کا بھی ذکر کر سکتے ہیں کہ ہمارے لوگ اپنی تسکین نہ کر سکنے کے باعث ایک قلبی اور روحانی خالءتک

اور عوام ایک طرح کے عجیب و ؼریب خیاالت اور ‘محدود ہو کر رہ گئے ہیں سسٹم میں پھنسے ہوئے ہیں جس کے باعث وہ بڑی حد تک اپنی قلبی اور روحانی زندگی سے بہت دور پہنجا دئیے گئے ہیں ۔۔۔۔

ہمارے لوگ ایک طرؾ سے تو یوں اپنے علم باطنی کی بنیادوں اور ‘ جی ہاں ‘ قواعد سے محروم کر کے چھوڑ دئیے گئے ہیں اور دوسری طرؾ ایک الگ

ؼور طلب موضوع یہ بھی ہے کہ یہ لوگ بعض وجوہات کی بناءپر اپنی قومی کہا “ خوش باش اقلیت”حدود سے بہت دور پہنچا دئیے گئے ہیں جہاں انہیں ایک

‘ جا سکتا ہے۔ ان وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو آزاد منشاپنے حیوانی احساسات کے حوالے سے سٹیج پر پیش کیا ‘ اپنے آپ میں سرمست

جاتا ہے۔یہ کیوں کیا گیا ہے اس کے ذمہ داربعض محرکا ت اور عناصر ہیں جو دل میں شبہات پیدا کرتے ہیں ۔

عمرانیات اور علم االنسان کے ماہرین کا آپس میں اس بات پر اتفاق ہے کہ تاریخ کے کسی بھی دور ”روئے زمین پر آج تک بے دین قوم کوئی نہیں گزری۔

میں روئے زمین کے کسی بھی مقام پر آج تک کسی بھی بے دین معاشرے سے دین کا احساس فطری اور طبعی ہے۔یہ بات صاؾ ظاہر ہے کہ “ پاال نہیں پڑا۔

انسان کی اوالد کو اس احساس سے محروم کرنے سے انفرادی اور اجتماعی افسردگی کی بعض قسموں کی راہ کھل جاتی ہے۔وہ لوگ جن کا قلب اور وجدان ‘ بھوکا رہنے دیا جاتا ہے وہ کسی نظام کے مطابق یا کسی بھی نظام کے بؽیر

اپنی مرضی کے مطابق یقینا اس بھوک کی تسکین کی راہیں تالش کریں گے اورکوشش کریں گے کہ اس طبعی ضرورت کو پورا کریں ۔ اس طرح تسکین کے لیے ہر مزاج اور مشرب کے اپنے رنگ کے مطابق انتخاب کی جانے والی راہ کس قسم کی پیچیدگیوں کا باعث بنے گی۔میرے خیال میں وہ ہر طرح کی وضاحت سے بری ہے۔

ں ؤکسی معاشرے میں اقدار کی طوائؾ الملوکی اور اس کے نتیجے میں چاقو ”تو جناب یہ ہے نتیجہ زندگی کے اس فلسفے کا “ کا استعمال اور خون خرابہ۔۔۔

اور یہ ہے ہمارا ‘ جو قدرت اور فطرت کو مدنظر رکھے بؽیر اپنایا جاتا ہے !پریشان وطن جس پرہزار قسم کی ابتری اور گڑبڑ کی حکمرانی چلتی ہے

Page 173: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

اس قدر ابتری اور گڑبڑ کے ساتھ ساتھ ایک اور علیحدہ سنجیدہ ‘عالوہ ازیں اور وہ ہے ‘ موضوع بھی ہے جس پر ؼور و ؼوض کرنا ضروری ہے

“ توران”کا مطلب“ وطن”بھونچکے ہوئے لوگوں کی حالت۔ یہ وہ لوگ ہیں جوعشاق ”سمجھتے ہیں ۔ ان“ رجعت پسندی”کا مطلب“ دین”اور“فاشزم”ملت کامطلب

کے سودوسو سال سے زبان پر الئے ہو ئے الفاظ اور کاؼذ پر “ ماہ لقا سلطانلکھے ہوئے کلمات کو سمجھنا خاصہ مشکل کام ہے۔ایک وقت تھا جب یہ لوگ تمام راستوں کو مؽرب سے جا مالتے تھے۔مؽربی ڈھالنوں اور ساحلوں کی سیروسیاحت کا انتظام کیا کرتے تھے۔

یہ عجیب و ؼریب گروہ جتنا عجیب و ؼریب تھا اتنا ہی اٹلی کے سیاسی مافیا کی طرح اس کا کوئی سنجیدہ حساب کتاب بھی نہیں تھا۔ اس گروہ نے بعدازاں

اور سرمایہ داری نظام کے بارہ اماموں “ شہنشاہیت” اپنی پوری طاقت کے ساتھپر گولیاں برسانی شروع کر دیں ۔اس کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح ہمارے ہاں تقلید مؽرب کسی چھان بین کے نتیجے میں شروع نہیں کی گئی تھی اسی طرح

ں کے ساتھ ساتھ ہمارا اس سے اور اس کے نظام سے منہ پھیر ؤدوسرے سودالینا بھی کسی ایسے ویسے حساب اور پالن سے منسلک نہیں تھا۔ان کی ہر چیز محض ایک سوکھے سودا پر اور ہر حملہ ایک مہم پر مشتمل تھا۔۔۔۔

نتیجے کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس دور میں قومی اور مذہبی اقدار کی تباہی نے ایک طرؾ تو ایک ایسے گروہ کے پھلنے پھولنے کی راہ ہموار

اور دوسری طرؾ بعض مشروع ‘ کی جو الحاد اور دہریت کا حامی تھاضروریات پوری کرنے کی ؼرض سے الگ الگ گروہ قائم کر دئیے جو ایک دوسرے کے وجود سے بے خبر تھے اور کسی نظام سے بھی منسلک نہ تھے۔ ان گروہوں کے اپنے اپنے مذہبی اور اجتماعی خدمات کے حلقے مقرر کر دئیے گئے۔اس کا نتیجہ یہ نکال کہ بہت سی جماعتوں کے معرض وجود میں آنے کی راہیں کھل گیئں ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ان فرقوں کے مابین جگہ جگہ

اندیشہ آمیز جھگڑے اور خطرناک لڑائیاں شروع ‘ سخت قسم کی تو تومیں میں ہو گئیں ۔اس پر طرہ یہ کہ اخالص اور صداقت جو عمل کی روح ہیں کہیں نظر نہ آئیں ۔اگرچہ محبت نفس اور انحصار فکر نے اپناکردار ادا کیا مگر لڑائی جھگڑے بے قابو ہونے کی حد تک جا پہنچے۔

Page 174: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

جب کہ ہستی کی حفاظت بھی بہت دشوار ‘ اس قدر مشکالت اور پریشانیوں میں ہو چکی تھی یہ بات باعث شکر ہے کہ ایک دست عنایت نے ہمیں نئی اور صحتمند صورت احوال سے روشناس کرا دیا۔ اس میں بعض نئے عناصر بھی ظہور پذیر ہو گئے۔ ہماری روحیں قربان ہوں ہمارے اس رب العزت پر جس نے ہمیں ان حاالت سے دوچار کرایا۔

گروہ بندی کی حس انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہے۔احکام کا بجا النا بھی بلکہ فائدہ مند کیسے ‘ طبعی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس احساس کو بے ضرر

بنایا جائے۔ اگر اسے اچھائی کی طرؾ نہ موڑا جائے تو یہ اکثر انسان کو اور اس کی فطرت کو بھی الٹی سمت میں لے جاناشروع کر دیتی ہے۔اور خود متعلقہ شخص کے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی ضرررساں بن جاتی

ناشائستگی اور تعصب جیسے مضر انسانی ‘ہے۔ جتنا عرصہ یہ حس جہالتں سے مدد لیتی رہتی ہے تب تک سمجھ لیجیئے کہ قتل و ؼارت اور لڑائی ؤپہلو

جھگڑے تیار کھڑے رہتے ہیں ۔ اس کے برعکس جس نسبت سے تعلیم و تحمل و برداشت کا جذبہ پھیلتا جائے گا اسی نسبت سے باہمی ‘ عرفان

سمجھوتوں اور صلح صفائی کا ماحول پیدا ہوتا جائے گا او ر مختلؾ گروہوں کے دکھائی دیتے رہنے کا احتمال ہمیشہ موجود “ امن کی لکیر”کے مابین ایک

رہے گا۔میرا خیال ہے کہ یوں فطرت اور فطرت کے قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے ہمارے رد عمل کی تیزی کو بریک لگ جائے گی اورہماری گرم مزاجی اور ؼصے پر قابو پایا جا سکے گا۔

یہ اتنے ‘ہدؾ اور بنیادی اصولوں کا مشترک ہونا‘دعوے کا انصاؾ پر مبنی ہوناگہری جڑوں والے اور کبھی نہ ڈو لنے والے عناصر ہیں جو ضوابط ‘ مضبوط

اور وسیلوں کے اختالفات کو بے اثر بنا سکتے ہیں ۔اس صورت حال میں ؼیر ‘ حقیقت سے نا واقفیت‘ اہم بہانوں کے ذریعے اختالفات پیدا کرنا طفالنہ مزاجسے وصال کے ‘ ہللا ہلالج لج”اور بے مروتی کی عالمت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ

۔ اگر ہم اس حقیقت کو ہاتھ سے “راستوں کی تعداد مخلوق کے سانسوں جتنی ہےنہ چھوڑیں تو اس راہ میں جو کوشش بھی کی جائے اسے سراہنا چاہیے۔ان راہوں پر کیا جانے واال سفر عزیز سمجھا جانا چاہیے اور ہر خدمت کی تعریؾ کی جانی چاہئیے۔ دوسروں کو کفر اور گمراوی میں دیکھنا یا گنہگار کہنا بے فائدہ ہونے کے عالوہ ایک خطرناک سوچ بھی ہے۔

Page 175: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

میرے خیال میں ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی منتخب کردہ راہ کو بیان اسے متعارؾ کرانے اور اس پر چلنے کی رائے دینے میں مشؽول رہے ‘ کرنے

اور زندگی اس کی محبت میں گزارے۔یہ راستہ جس طرح عقل اور منطق کا راستہ ہے اسی طرح ایمان اور قرآن کے مطابق ایک ضرورت بھی ہے۔اس راہ

دوسرے ‘ ہر شخص اپنے مسلک کی محبت کے مطابق حرکت کرتا ہے”پردوسروں پراس کی طرؾ سے کی جانے ‘ گروہوں کے خالؾ دشمنی نہیں پالتا

اور توہین آمیز نہیں ہوتی۔وہ اپنے گروہ کا اعتماد ‘ تباہ کن‘ والی تنقید تخریبیوہ اسے بھی ‘ کسی دوسرے گروہ کی جڑ کاٹنے اور ذلت میں نہیں تالش کرتا

اس کی فضیلت ‘ ایک بھائی سمجھتا ہے اوراس کے نقائص کا کھوج نہیں لگاتامختصر یہ کہ “ اور کامیابیاں دیکھ کر ان کی قدر کرتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔

وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ بات ذہن میں سے نہیں نکالتا کہ وہ ہر شخص کے ساتھ مل کر ایک نیکی کی دوڑ میں شامل ہے اور پھر اس کی مجبوری ہے کہ وہ انہیں لوگوں کے ساتھ اپنی کمر پر ایک قیمتی خزانہ اٹھائے رکھے۔یوں

ہر ‘ وہ ہر شخص کو ایک ہی سمت میں جانے واالاپنا مددگار قبول کرتا ہےاور مدد کرنے والے ‘ ہر سعی کی تعریؾ کرتا ہے‘ کامیابی کی عزت کرتا ہے

ہر ہاتھ پر بوسہ دیتا ہے۔

دور رسالت پناہ میں لوگوں کی یہی سوچ تھی اور عملی زندگی بھی اسی سوچ کے خطوط پر جاری رہتی تھی۔ باوجود اس بات کے کہ افہام و تفہیم کے عناصر شعور کی سطح تک پہنچ چکے تھے اور دوستی کے معنی بھی خاصی

پھر بھی اس وقت تک ‘ حد تک آگے کی سطح تک پہنچائے جا چکے تھےعلیحدہ علیحدہ قسم کے پھولوں اور پھلوں کی ضمانت دینے والی مختلؾ قسم کی استعداد کسی طور پر حاصل نہیں ہو سکی تھی۔

کی ایک ادھر بالل اور حضرت عثمان‘ادھر ابو ذراور عبدالرحمن بن عوؾ

ہی موضوع پر دی جانے والی رائے کا اختالؾ کسی طرح کم اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ یہی حال بعض موضوعات کی تفصیل پر ان کے نقطئہ نظر کے اختالؾ کا تھا۔ مگر اس کے باوجود ان اختالفات پر کبھی کوئی شخص تعجب کا اظہار نہیں کرتا تھا۔

قبیلوں کے تصور کو کسی ‘ اس خیال سے کہ اجتماعی وحدت پر چوٹ نہ آئےبالکل اسی طرح جیسے مہاجر اور ‘حد تک بیچ میں نہیں الیا جاتا تھا۔ جی ہاں

Page 176: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

انصار جیسے دو معزز عنوان کبھی موضوع بحث نہیں بنائے جاتے تھے۔ عوث اور حزرج جیسے نام بھی ہمیشہ ہمیشہ سے استعمال ہوتے چلے آ رہے

کے لیے ملسو هيلع هللا ىلصحضرت پیؽمبر”تھے۔جب سعدبن معاذ کے قبیلے سے کہا جاتا

اس کی تائید کرتی۔ ہر قبیلے کو علیحدہ علیحدہ “ طبیعت بشر”تو ؤ“ کھڑے ہو جااحکام کے تحت جہاد کے لیے لے جایا جاتا تھا۔ مگر فتح اور ظفر کے نام پر وطن دوستی کے آتشدان جالئے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ آپس میں جنگ کرنے

نے قبیلوں کا فخر سے نام بلند کرنے کے لیے کیئے جانے کے عالوہ اپنے اپقرآن حفظ کرنے والے ” والے دوسرے تمام مقابلوں کو نظرانداز کر دیا جاتا تھا۔

‘ فالں ہم میں سے ہیں “” (یعنی ہمارے قبیلے کے لوگ ہیں )ہم میں سے ہیں کی طرح کے کلمات ہر موقع پر بولے جاتے تھے اور “ فالں ہم میں سے ہیں

سبھی کا ہمیشہ تحمل سے جواب دیا جاتا تھا۔ ایسی ہر بات ان میں سے تقریباتیزی سے ترقی کرنے والے متعلقہ گروہ کے لیے ترقی کے سنگ میل کا کام دیتی تھی۔

یہ سب کچھ بھی تھا اور ساتھ ہی آپس میں اتفاق اور ہم آہنگی بھی تھی ‘ جی ہاں ۔ رضائے الہی حاصل کرنے کی ڈھالن پر سمفونی کے نؽموں میں ہم آہنگی اصوات کی سی حالت کی طرح قوم کا ہر فرد نؽمے میں حصہ لینے والے باقی تمام افراد کے ساتھ ہم آہنگ آواز میں نؽمہ سراہوا کرتا تھا۔ یہ اس لیے ممکن

ہر شخص حق ‘ تھا کہ ہر شخص روحانی پختگی کی سطح کو پہنچ چکا تھااور جن اشیاءکو مقدس سمجھتا تھا ان کے افق پر جھنڈا گاڑنے کے ‘ پرست تھا

اور اس بات کا خواہشمند ہوتا تھا کہ فرائض کی تعظیم کی ‘ لیے پاگل ہو جاتا تھاجائے۔اس کے لیے یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ وہ فرض کون ادا کرتا ہے۔۔۔جب دن چڑھ آیا اور صبح ہو گئی تو پھر اگراسے سلطان بنا دیا جاتا

کیا فرق پڑتا تھا۔۔۔۔۔‘ یا بھکاری !

نئی نسل کے انصار اور ان کے حواری اپنی خوشیوں کو دوسروں کی خاطر بھول جانے والے پرلے درجے کے بے لوث انسان ہونگے جو اپنے ارد گرد کے لوگوں کی لذتوں اور خوشیوں کو دیکھ دیکھ کر اپنے دلوں میں جنت پیدا کر لیتے تھے۔

ہمارے دور کی فرقہ بندیوں میں سے شاید سب سے خطرناک وہ ہے جوخون اور نسل کی بنیاد پر قائم ہو گئی ہے۔یہ بھی بیرونی ذرائع سے یہاں پہنچی ہے۔

Page 177: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

اس کے بیرونی وسائل سے ہمارے ہاں آنے کے بارے میں ہمارے روشن خیال کوئی گنجائش نہیں ۔ اس طبقے کے کسی شخص کے دل میں شک کی قطعا

جب پوری ‘دور میں جب باہمی جھگڑے ریاستی بالکوں کے درمیان ہوتے ہیں جب ‘ مختلؾ نظریوں کے مابین ہوتے ہیں ؤ دنیا کو متاثر کرنے والے ٹکرا

ں کی شکل اختیار کر چکی ہے جس میں مختلؾ ؤساری دنیا ایک بہت بڑے گاوہاں اس طرح کی ‘ قومیں واضع یونٹوں اور بالکوں میں شامل ہو چکی ہیں

فرقہ وارانہ سوچ بڑی عجیب و ؼریب نظر آتی ہے۔ بالخصوص ایک ہی عالقے میں ایک ہی معاشرتی وضع کے باشندوں کا مختلؾ نسلی گروہوں میں مطالع کرنا بے حد مضحکہ خیز سوچ ہے۔ یہ سوچ نہ صرؾ مضحکہ خیز ہے بلکہ مستقبل میں ہنگاموں اور لڑائی جھگڑوں کے لیے زمین تیار کرنے کے نقطئہ نظر سے بھی نہایت خطرناک ہے۔ یہ سوچ اس لیے بھی مضحکہ خیز ہے کہ ہمارا وطن جس نے اپنی سر زمین پرصدیوں سے مختلؾ قوموں کو آپس میں ایک ہی قوم کی طرح گھل مل کر رہتے دیکھا ہے وہاں ایسی شے تالش کرنا

ایسا ہی ہے جیسے لوح محفوظ ‘ یعنی اصیل کہتے ہیں “ صاؾ خون”جسے ہمکے بارے میں مطلع ہونے کی کوشش کرنا ہو۔ البتہ یہ ڈضرور ہے کہ ا ناطولیہ

مؽرب مختصر یہ کہ تقریبا اس کی ہر سمت میں ایک ‘مشرق‘ جنوب‘ کے شمالدوسرے سے خاصے مختلؾ طبقوں کے لوگ آباد ہیں ۔ان میں کئی ایسے گروہ بھی ہیں جو مختلؾ نسلوں سے منسلک ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان گروہوں میں سے ہر ایک دانستہ طور پر یا ؼیر دانستگی کے باعث اس مضحکہ خیز صورت حال میں پھنسا ہوا ہے۔

اب چونکہ قرآن کریم کی سارے عالم کے لیے دی گئی دعوت کو قبول کرنے ‘ کے سوا نہ کوئی اور چارہ رہ جاتا ہے اورنہ ہی کوئی دوسری سند موجود ہے

لہذا ہمیں اپنے سیاسی اور ؼیر سیاسی تمام گروہوں کے انسانوں کو قرآن کی یہ ہللا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور ” :دعوت دے کر یوں پکارنا چاہئیے

ماضی کی طرح آئندہ بھی “ ۔ؤخبردار آپس میں تفرق سے ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو جااس قسم کے بھائی چارے کو حقیقت کی شکل دینا ممکن ہے۔ مناسب ہو گا کہ یہ نہایت سنجیدہ مسئلہ فرمان الہی کے عدس کے نیچے رکھ کر عقل اور منطق کے اصولوں کے مطابق حل کیا جائے۔

آخر اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے مسائل کو جذبات اور ہیجان سے متاثر ہو کر راگ االپنے کی طرح حل کرنے کی کوشش کی بجائے اپنے مقدس اصولوں

Page 178: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

کے اندر رہتے ہوئے ایک اجتماعی معاہدے کی شکل میں حل کریں ۔ یہ اب ہماری مجبوری بھی ہے۔کیونکہ بیرون ملک سے دخل اندازی کرنے والے

اور خود ہمارے درمیان بھی بعض ‘ عناصر کے گھڑے ہوئے مختلؾ امکاناتعالوہ ازیں اپنے مقدس نصب العینوں اور ‘ ذاتی مفادپرست گروہوں کا ظہور

ہمارے عظیم قومی ‘ تصورات کے بارے میں ہمارے جذبہءاحترام کا تذبذبنظریے اور متعلقہ قابل توقیر معنوں کی جگہ کا ایک طرح کے چھوٹے موٹے

یہ سب حقیقتیں اس بات کی متقاضی ‘ حساب کتاب اورمفادات کا قبضہ کر لینا یہ اس ‘ ہیں کہ ہم آپس کے رابطوں کو اور زیادہ مضبوط سطح پر لے آئیں

طرح ہونا چاہیے کہ اپنی تمام مشترک اقدار کو اکٹھا کر کے ان کا موازنہ ان عناصر سے کیا جائے جو ہمارے درمیان پھوٹ ڈال رہے ہیں ۔ ایمان کی

اورپھر ‘ اعمال اور عباد ت کے لحاظ سے باہمی اتفاق‘ بنیادوں پر ہمارا اتحادوطن اور ثقافت کی وحدت اچھی بری تقدیر کے معاملوں میں صدیوں پرانی

بیرونی دوستوں اور دشمنوں کا ہم سب کے لیے ایک ہی ‘ باہمی شرکتسب سے زیادہ !یہ سب ہماری اقدار مشترک ہیں ۔۔۔ جی ہاں ‘ وؼیرہ وؼیرہ‘ہونا

قابل قدر چیزوں سے بھی بڑھ کر متحد کرنے والے ان عناصر کی موجودگی میں صاؾ ظاہر ہے کہ آپس میں پھوٹ ڈالنے یا باہمی تقسیم کو ضروری گرداننے والے عناصر تو اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان کا ذکر بھی کیا جائے۔

دراصل ہمارے پیؽمبر کی طرؾ سے بھی اس مسئلے کا حل اسی شکل میں کیا گیا تھا۔ کلمئہ شہادت سب سے بڑی بنیادثابت ہونے اور قبول کیئے جانے کے ساتھ ساتھ یہ کلمہ ادا کرنے والے ہر فرد کی معصومیت کا راز بھی بن گیا

حضور کی طرؾ سے محلم ‘ہے۔اسامہ کا شدید عتاب کے بعد سر زنش کیاجانا‘ اور پھر رسول خدا کا اس کے منہ کی طرؾ بھی نہ دیکھنا‘ کا دور کر دیا جانا

اور اس طرح کے اور بہت سے واقعات ہیں جن سے صاؾ پتہ چلتا ہے کہ صاحب شریعت کے نزدیک باہمی مالپ پیدا کرنے والی بنیادی چیزیں کون کون سی تھیں ۔

جب مسئلہ اس طریقے سے سامنے رکھا جائے تو پھراہل ایمان اور دوسروں کی پاسداری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس بات کی کیسے وضاحت کی جا

اہل سجدہ اور اہل قبلہ لوگوں کے مابین سمجھوتہ نہ ہو ‘ سکتی ہے کہ اہل ایمانگمراہی اور ‘ یہاں تک کہ ان پر کفر ‘ آپس میں صلح صفائی ممکن نہ ہو ‘ سکے

اور پھر اگر یہ کام کرنے ! گناہوں کے الزام لگانے کی جرات بھی کی جائے۔۔۔۔

Page 179: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

والے ایسے افراد ہوں جن کا عوام پر گہرا اثر ہو تو کیا اس وقت تباہ کاری کی عمومی توازن کے ‘ قسم کے جرائم تک بھی نوبت نہیں آ جائے گی؟ جی ہاں

اور لیڈر ہیں جن ‘ رہبر‘ اس بگاڑ کے سلسلے میں سب سے بدبخت انسان امامجن کی اجتماعی سطح پر کی گئی ”کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں

“ایک ؼلطی ہزاروں لوگوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔

لیڈروں اور سرداروں کو ‘ راستہ دکھانے والوں ‘ ہمارے خیال میں تمام راہبروں ایک بار پھر یہ بات یاد دالنی مفید ہو گی کہ عمومی وجدان کی تعمیر کی جانب ایک قدم اٹھایا جائے۔

یہ سب ہللا کے نام پر ہو ۔آئیے باآلخر ‘ آپ کا ؼصہ‘ آپ کی نفرت‘ آپ کی محبتخودؼرضی اور نفس پرستی کو خیرباد کہیں کیونکہ اپنے نفس کی پرستش کرنے والے کے لئیے نہ حق تعالی کو اور نہ خلق خدا کو ممنون کرنا ممکن ہے۔ آئیے اپنے دوستوں سے حق کے پیمانوں کے اندر رہتے ہوئے محبت کریں اور ان کے مقابلے میں مروت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔اپنے دشمنوں کے

مقابلے میں چوکنے رہیں اور ان کی چالوں میں نہ آئیں ۔ہماری سوچ اور سمجھ کے اختالفات کو دشمنی کا وسیلہ نہ بنائیں بلکہ خوشحالی کے طور پو ان کی قدرکریں ۔

ایک دفعہ پھردہرائیں کہ کینہ اور نفرت کبھی ایک مسئلے کو بھی حل نہیں کرسکے۔یہ یقین رکھتے ہوئے کہ مہذب قوموں پر ؼالب آنا صرؾ قناعت کے

“ عہدوپیمان”آئیے ایک مرتبہ پھر اتحاد اور مساوات کا ‘ ذریعے ممکن ہو گا کریں ۔

“ ہم متحد ہو جائیں ؤ آ”اتحاد کے مبلؽوں کی طرح ہر ملنے والے سے یہ کہنا کہبڑی بے تکی سی بات ہے۔ اور پھر اگر یہ بات کہتے ہوئے ہم متعلقہ شخص کو اپنے گروہ میں شامل ہونے کی دعوت بھی دے دےں تو وہ سو فی صد بے حرمتی کے مترادؾ ہو گی۔کیونکہ اس قسم کی حرکت آج تک حق پرست لوگوں کی اپنے گروہ سے وفاداری کو شہ دینے کے سوا اور کسی کام نہیں آئی۔اس کے برعکس ہم اپنے آمنے سامنے والے لوگوں کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کے رہبروں اور بزرگوں کے بارے میں عزت کا اظہارکریں تو اس سے ہم سخت ترین اشخاص کے دلوں کو بھی موم کر سکتے ہیں ۔

Page 180: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

مہد ”ایک مومن کی حیثیت سے ہمارے لیے نہایت اہم ہے کہ ہم کائنات کو ہر فرد کے ساتھ تعلقات ‘ کی نظر سے دیکھیں (بھائی چارے کا گہوارا)“اخوت

خواہ کچھ بھی ہو دوسرے مومنوں کے ساتھ ‘ پیدا کرنے کا راستہ تالش کریں ہمیشہ نرمی سے پیش آئیں اور ان کے خیاالت سے متاثر ہونے کے لیے اپنے دل و دماغ کو کھال رکھیں ۔

ہمیں اس دست عنایت کی تنقید نہیں کرنی چاہیے جو ہمیں تیار کر کے موجودہ سطح تک لے آیا ہے اور اب ہم جس کے انصرام اور کنٹرول کے ماتحت ہیں ۔ کون جانتا ہے کہ شاید ابھی انسانیت اپنی پختگی کا پورا ادراک نہ کر سکی ہو اور اس کا کچھ مدت مقررہ کے لیے مزید موجودہ صورت احوال میں رہنا ضروری سمجھا گیا ہو۔

اور ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ تنقید کو ایک طرؾ پھینک دیں اور ذرا تقدیر پر بھروسہ کرتے ہوئے خوش خلقی کی زندگی گزاریں تاکہ ہللا بھی ہمارا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔

بندہ خدمت گزاچح

خدمت کرنے والے انسان کو چائیے کہ جس دعوے کو دل سے اپنا لے اس کی اتنا ‘ ں کو پار کر کے دوسری طرؾ جانے کا عزم اور فیصلہ کرلےؤخاطر خون اور پیپ کے دریا

ہللا ‘ کامل کہ اپنے ہدؾ تک پہنچ کر ہر شے کو اس کے حوالے کردے جو اس شے کا حقیقی مالک ہےتعالی کے سامنے مہذب اور با ادب ر ہے۔۔۔ خدمت کے نام پر ہر آواز اور ہر سانس کو ذکر و

اور ہر فرد کو معزز اور عزیز سمجھتے ۔اسے اپنے رب کے ارادوں پر اتنا یقین ہو اور وہ ‘تسبیحبذات خود اس قدر متوازن ہو کہ جن لوگوں کی کا میابیوں پران کی تحسین وآفرین کرے انہیں بالکل بت ہی نہ بنا ڈالے۔اگر کوئی کام ادھورا رہ جائے تو اس کے لیے سب سے پہلے خود اپنے آپ کو اس

اگر اسے حق کو کندھا دینے کی ضرورت پڑ جائے تو ‘ کام کی تکمیل کے لیے ذمہ دارنامزد کردےاس کام میں بھاگ کر اس کی مددکو پہنچنے والے ہر شخص کے ساتھ عزت سے پیش آئے اوراس ‘ سے انصاؾ کرے۔ اگر اس کا کوئی ادارہ مسمار ہو جائے اور یوں اس کی مجوزہ پالن برباد ہو جائے

یا آپس کا اتحاد تتر بتر ہو کر ساری قوت بکھر بکھرا جائے تو پھر بھی امید اور یقین کو ہاتھ سے نہ جب نئے سرے سے پر نکال کر بلندیوں پر پرواز کرنا شروع کرے توؼرور بالکل نہ کرے ‘ چھوڑے

اور سب کچھ برداشت کر تار ہے۔ اس کے معقول اور صاحب بصیرت ہونے کی یہ حالت ہو کہ وہ اس

Page 181: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

راستے کے دشوار گزار اورکھڑی چٹان کی مانند ہونے کو ابتداءسے ہی قبول کرلے۔ اس کا راستہ روکنے کے لیے خواہ جہنم کے گڑھے ہی کیوں نہ سامنے آ جائیں وہ پار نکل جانے پر مکمل یقین رکھے اورہمت نہ ہارے۔ اسے چاہیے کہ جس دعوے کی خاطر سر کٹوانے کو تیار ہو اس کی کامیابی کے لیے سودائیوں کی طرح کام کرے اور اتنا وفادار ہو کہ اپنی جان جاناں کو بھی قربان کر دینے

اور اسے اتنا متحمل اور ہللا لوک ہونا چاہیے کہ اپنی ساری گزشتہ کارکردگیوں ‘ سے دریػ نہ کرے میں سے کسی ایک کو بھی دوبارہ ذہن میں نہ الئے۔

بندگان اچشاد کے لیے

ہمارے رسول اکرم نے ساری زندگی میں صرؾ ایک بار حج کیا تھا۔مگر انہوں میں گزار دی۔ (رہنمائی)نے اپنی پوری زندگی تبلیػ اور ارشاد

* * * * *

جو لوگ ہللا تعالی کی عنایت کردہ نعمتوں سے مطابقت رکھنے والے کام نہیں کرتے وہ اپنے چشموں کے خشک ہونے کاسبب بنتے ہیں ۔

* * * * *

بعض آنسو بہت سے دلوں کی فتح کا وسیلہ بن جاتے ہے

* * * * *

بڑائی بڑے بڑے کاموں اور بڑے منصوبوں میں نہیں ملتی۔ اسے انسان کے اپنی آنکھیں رضائے الہی ۔‘میں تم سے راضی ہوں ”پر جمائے رکھنے میں اور ہللا تعالی کے ان الفاظ میں ڈھونڈنی چاہیے کہ „

* * * * *

خبردار بیج بونے کا کام فصل کاٹنے کے وقت تک مت چھوڑو ورنہ دونوں موسموں کی کاوش ضائع !جائے گی

* * * * *

ایک صاحب یقین انسان کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ اپنے ایمان کو ہر حالت میں عمل کے میدان میں رکھے۔ جب ایمان اور عمل دونوں کسی شخص کے احساسات پر حاوی ہو جاتے ہیں تو اس کے طرز عمل کو بھی سیدھا راستہ دکھائی دینے لگتا ہے۔

سرکاری زمین پر لوگوں کے ناجائزقبضے کی طرح ہے۔‘ ہللا تعالی کی زمین پر ہمارا قبضہ

Page 182: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

اگر انسان کو اپنی کی ہوئی ؼلطیاں پریشان کرتی ہوں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کی نیکیوں میں سے اس کے گناہ تفریق کیئے جا سکتے ہیں ۔

* * * * *

کامیابی کے دشمن خوشحالی اور عیاشی ہیں ۔ مسلمانوں کی کامیابی صرؾ ایک کمانڈو کی طرح سادہ زندگی گزارنے سے ہی ممکن ہے۔

* * * * *

اگر آپ کے پاس بہت سے انڈے اور چوزے ہیں تو خبردار ان سب کو ایک ہی ٹوکرے میں مت !رکھیئے گا۔۔۔۔

* * * * *

اگر تدبیر تقدیر کو نہ بھی بدل سکے تو بھی انسان کو آخر کار تقدیر پر پتھر برسانے سے بچاتی ہے۔

* * * * *

ان کی اپنی اپنی جگہ کا تعین کرنا ارباب فراست کا ‘ حسن ظن اور عدم اعتماد دو مختلؾ چیزیں ہیں کام ہے۔

* * * * *

تبلیػ کے لیے اہم بات یہ ہے کہ جس موضوع کا ذکر کیا جا رہا ہو وہ اخالص پر مبنی ہو اور اسے خوشی سے قبول کیا جائے۔ ہر شخص کو چاہیے کہ جن لوگوں کا علم خود اس کے علم کی سطح سے بلند ہو انہیں کسی موضوع پر تبلیػ کرنے کی کوشش نہ کرے ورنہ اس کا الٹارد عمل ہو سکتا ہے۔یہ

اور چیال اپنے گرو کو کچھ نہ ‘ شاگرد اپنے استاد کو‘ضروری ہے کہ بیٹا اپنے باپ کو

کا ہمارے پیؽمبر کو خوش آمدید نہ کہناایک قابل ؼور موضوع ہے۔ سمجھائے۔حضرت ابوطالب

* * * * *

اسالم کی ” لیکن اگر وہ کہتے ہیں کہ‘ ماں اور باپ کو کسی مقصد کے لیے قربان نہیں کیا جا سکتاتو پھر اس پابندی کے بارے میں ان کے حکم کی تعمیل جائز نہیں ہے۔ اس کے سوا “ خدمت مت کرو

ماں باپ کے حکم کی تعمیل کرنے واال اپنی زندگی میں برکت پاتا ہے۔

* * * * *

مومن دنیا بھر میں سالمتی اور اعتماد کی عالمت ہے۔

* * * * *

انسان حق بات بھی کہہ رہا ہو تو اسے اپنے باپ سے بحث نہیں کرنی چاہیے۔جالل کی خوبی ہر کسی میں کم کسی میں زیادہ۔ؼصہ کرنا پسند نہیں کیا جاتا لیکن اگر اسے تربیت ‘شخص میں ہوتی ہے

Page 183: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

محمی کے ذریعے تربیت دی جائے تو یہ دشمنوں کے لیے وقار اور مومنوں کے لیے تواضع کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

* * * * *

اگر انہیں پڑھنا ناگزیر ہو جائے ‘ وہ نشریات جو اسالم دشمنی پر مبنی ہوں یا اسالم پر حملہ آور ہوں تو ضروری ہے کہ انہیں ؼور سے پڑھا جائے۔

* * * * *

برائیوں کے بندھن میں بندھے ہوئے شریر لوگوں سے انسانیت کے ساتھ سلوک کیا جائے تو ان کے انسان اچھائی کا ؼالم ہے۔”شر کو روکا جا سکتا ہے۔یہ ضرب المثل یاد رکھنی چاہیے کہ “

* * * * *

ذاتی اقدار کے اعتبار سے کم مایہ انسان اپنے ارد گرد بھی ہمیشہ تمام کم مایہ اور گھٹیا شخصیت کے لوگوں کو اکٹھا کر لیتے ہیں ۔ ان کا خیال ہوتا ہے اس ذریعے سے انہیں تھوڑی ہی سہی کچھ نہ کچھ بلندی تو مل ہی جائے گی۔

* * * * *

شیطان اکثر ایسے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے جو اپنی زندگی دینی احکام کے مطابق بسر نہیں کررہے ہوتے۔امربالمعروؾ اور نہی عن المنکر پر نہ چلنے والے لوگ وحی کی برکتوں سے محروم رہ جاتے ہیں ۔اس قسم کے لوگوں کو کسی صورت میں بھی الہام کی ہوا نہیں لگ سکتی وہ کتابیں تو لکھ سکتے ہیں مگر جو کچھ لکھتے ہیں اس میں فالح اور برکت نہیں ہوتی بلکہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے

رہتے ہیں ۔ امربالمعروؾ اور نہی عن المنکر پر عمل کرنے والے ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جن میں سوچیں ‘ ہر وقت الہام کے جھونکے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگوں کو چاہیے کہ پڑھیں

اور ہر شخص کو بتانے کی کوشش کریں تاکہ ہم روحانی اعتبار سے زندہ و تابندہ رہیں ۔

* * * * *

کی خوشنودی ہونا چاہیے۔ اس کا مطمع نظر کسی نوعیت کے ‘ اس زمانے میں ہر مرشد کا مسئلہ ہللا ہلالج لجشاید اگرایک روز : دنیاوی احساسات اور خیاالت نہیں ہونے چاہئےں ۔ایک مرشد کو یوں سوچنا چاہیے

مجھے جہنم کی راہ لینی پڑ جائے تو مجھے جاہیئے کہ وہاں بھی کوئی آشنا چہرہ ڈھونڈ کر اسے حق ۔ تو یہ ہے ایک ایسے دعوے دار شخص کے خیاالت کا خاکہ “و حقیقت کے بارے میں کچھ بتاتا رہوں

جس کی ہمارے ہاں اشد ضروت ہے۔

ہچ سطح کا نمائندہمستقبل ‘ مثالی ادراک سے بھی بڑھ کر اعلی ادراک‘ احساس ذمہ داری‘مدافعت‘ہر سطح پر نمائندہ ہونے کے لیے سچائی

اور ہر حالت میں پاکدامنی سے زندگی ‘اور آج کو شانہ بشانہ رکھ کر حاالت کوصحیح طرح جانچنے کی صالحیت گزارنا شرط ہے۔ اگر کوئید ناظم ان اوصاؾ میں سے کوئی ایک وصؾ بھی کھو بیٹھتا ہے تو یہ اس میں ایک شدید کمی اور جن لوگوں کی وہ نمائندگی کر رہا ہو گا دان کی بدبختی شمار ہو گی۔

Page 184: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ظاہچ اوچ باطن کی عالمگیچ حیثیتدنیا کی اصالح کے لیے کمربستہ ہونے والوں کو چاہئیے کہ وہ پہلے اپنی اصالح کرےں

اور اپنے ظاہر ‘ نفرت اور حسد سے‘ انہیں چائیے کہ پہلے اپنے باطن کو کینے‘ ۔جی ہاں کو ہر طرح کے نامناسب طرز عمل سے پاک کریں تاکہ وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں

اپنے نفس سے ‘کےلیے مثال بن سکیں ۔ وہ لوگ جو اپنے باطن کو کنٹرول نہیں کر سکتےوہ اپنے ارد گرد کے ‘ اپنے عالم احساسات کو فتح نہیں کر سکتے‘نبردآزما نہیں ہو سکتے

لوگوں کی روحوں میں ‘ لوگوں کو جوپیؽام دیں گے وہ خواہ کتنے ہی تابدار کیوں نہ ہوں اور اگر جگا بھی لیتے ہیں تو اس میں دائمی تاثر پیدا نہیں کر ‘ پہچان نہیں جگا سکیں گے

سکیں گے۔

بلند اچادےکئی کئی بار مختلؾ سانچوں میں ڈھالے جائیں ‘بلند ارادے اور بلند کردارخواہ پچاس ہزار مرتبہ دیگوں میں ابالے جائیں

تو پھر بھی ان کی اصلیت ذرہ بھر کم نہیں ہو گی اور وہ اپنی بنیادی خصوصیات کو قائم رکھیں گے۔پھر ایسی ڈھلمل یقین مخلوقات کے بارے میں کیا کہا جائے جو دن میں کئی کئی بار اپنے ارادوں اور راستوں کو بدلتی رہتی ہے ؟

پچدیسیاپنے دوستوں اور اقرباءسے جدا ہوتا ہے۔ ‘پردیسی وہ نہیں ہوتاجو اپنے وطن اور گھربار سے دور

پردیسی ایک ایسے انسان کو کہتے ہیں جس کے حال چال کی پہچان اس معاشرے اور ماحول کے لحاظ سے نہیں کی جا سکتی جہاں وہ رہائش پذیر ہو ۔ وہ دوسرے معاشرے کے لوگوں کی خا طر

مختلؾ مفادات والے گروہوں سے اختالفات کے ‘ سوچ اور لذتوں کی قربانی دیتاہے‘ اپنے بلند آئیڈیلاپنے رہائشی ماحول کے لوگوں ‘ باعث بار بار ان سے ؼیر معمولی ہمت اور عزم کے ساتھ ٹکراتا ہے

کی طرؾ سے بےگانہ سمجھا جاتا ہے اوراس پر اس وجہ سے تنقید کی جاتی ہے۔ اوروہ اپنے طرز عمل کے باعث ایک عجیب و ؼریب انسان سمجھا جاتا ہے۔

قومی چاستہہمارا راستہ قوم اور وطن کی خاطر کئے جانے والے اچھے کاموں اور منصوبوں کی ستائش کرنے والے خوش قسمتوں کی فوج کی مدد کرنے کا راستہ ہے۔ ہم الزام تراشی اور درو غ گوئی کا مقابلہ

نہیں کہیں گے ۔ ۔ ۔ ۔‘ ‘ آمین”کریں گے اور لعنت بھیجنے والوں اور بد دعا دینے والوں کے پیچھے !

پہلے پالنکسی بھی کام یا منصوبے کا پالن بناتے ہوئے اس کے متوقع نتائج کے حصول میں ممدومعاون عناصر پر ؼور کرتے ہوئے تمام ممکنہ رکاوٹوں کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے تا کہ بعد ازاں وقوع پذیر ہونے والے ؼیر متوقع حوادث کے باعث نہ تقدیر کو کوسنا پڑے اور نہ ہی آپ پر اعتماد کرنے والوں کے اعتماد کو ٹھیس لگے۔

پالن منصوبہاگر کسی ورکشاپ یا کارخانے کی بنیاد ایک عمدہ منصوبے اور اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کی ٹھوس رپورٹ پر رکھی

گئی ہو تو یہ اس کے مسلسل کام کرتے رہنے کی اور ایک اچھے مستقبل کی ضمانت ہو گی۔ اس کے برعکس اگر اس کی بنیاد

Page 185: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

سمجھ اور بنیادی حساب کتاب کے مطابق نہیں رکھی گئی تو اس کی قسمت میں یقینا ناکامی ہی لکھی ہو گی ۔ ‘ قابل اعتماد سوچ

سرکاری اداروں اور انسانوں ‘ اگر یہ بات ہے تو یہ کہاں کا انصاؾ ہے کہ ایسے تمام کاموں کو جو پوری قوم کی ملکیت ہوں

!جیسی نا قابل فہم ہستیوں کی کمر پر الد دیا جائے جن کا ہر پہلو ایک معمہ ہے۔۔۔۔۔

وسیلہ۔ غچض وغایتحق مقصود ہو تو باطل طریقوں سے اس تک نہیں پہنچا جا سکتا۔اس مقصد کے لیے اختیار کیے جانے والے وسائل ہر

ہونے چاہئیں ۔ (سچے)حالت میں حق

وسیلہ ءباطلجو نظام جھوٹ او ر مبالؽے پر مبنی ہو وہ اگرلمبا عرصہ بھی قائم رہے پھر بھی جلدیا بدیر اپنے

اور ایسا ہر نظام ایک افسوس ناک خواب اور پر حسرت خیال بن کر ‘ معمار کے سر پر ہی پھوٹتاہے رہ جاتا ہے۔

معیاچ کی خچابیگزشتہ زمانے سے آج تک ہمیں تمام تر برائیاں دکھا کربروں اور برائیوں کو قبول کرنے پر مجبودر

کا نام دے کر ہم سے (برائیوں میں سب سے اچھی برائی)کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ انہیں اہون شر بے دین کو دیکھ کر بے ”:ان کی تعریؾ بھی کرائی جاتی رہی ہے۔ بالکل یوں جیسے ضرب المثل ہے

۔۔۔ یہ ؼدارانہ سوچ خواہ کسی بھی ملعون سسٹم کی پیداوار ہو اس اضافیت کو “ایمان کو دعا بھیجنااور ہمارے رسم و رواج کے نام سے ایک حقیقت کی طرح ‘ ہماری تاریخی سوچ‘ ہمارے اعتقادات

الزوال تنزل اور اعلی خوبیوں کے ‘قبول کر لینا اور پھر اسے ایک معیار بنا لینا بس اور کچھ نہیں ۔نقصان کو قبول کر لینے کے مترادؾ ہے

!

افچاط و تفچیط‘ ہر سوچ میں افراط و تفریط ہو سکتی ہے۔ ان دونوں کی نوعیت ایک مہلک زہر جیسی ہے۔ جی ہاں

وہ لوگ صحیح راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں جو بھولے پن اور سادگی پر زور دیتے دیتے لباس اور پہناوے کے بھکاریوں کی طرح ایسی اشیاءکی تالش میں بھاگتے پھرتے ہیں جیسے ایک پرانی

کوئی مکڑی کے جالوں سے اٹا پڑا گھر وؼیرہ۔ انہی لوگوں کی ‘ کوئی ٹوٹا پھوٹا مٹی کا برتن‘ پوستینطرح وہ لوگ بھی دھوکے کا شکار ہو چکے ہیں جو اسی مقصد کے لیے ایک انگریزی سر پوش اور ۔نیم برہنہ سلے سالئے یا بازاری لباس کی تالش میں رہتے ہیں

انہ تصوچؤبدا گر کسی بلند آئیڈیل کے حصول کی راہ پر تصورات کو ایک قطار میں کھڑا کیا جائے اور عقل سوچ کی مدد کرے تو انسان کے خیاالت میں آب و تاب پیدا ہو سکتی ہے اور وہ پے در پے کامیابیاں

ں کی طرح کے تصورات کا نہ علمی سرگرمیوں کو کوئی ؤحاصل کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس بدو۔فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ہی ان سے حقیقت کی تالش میں مدد ملتی ہے

اس مجموعے کے باچے میں ایک اوچ مشاہدہ

Page 186: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ہے اس کے ذریعے خدمت کرنے والے اگر یہ (Sızıntı) آپ کے ہاتھ کامیں جو مجموعہسمجھیں کہ ان کے اس فرض کی ادائیگی دارومدار اس مجموعے کی بکری پر ہے تو یہ ان کی ؼلط فہمی ہوگی۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں مجموعے کے مضامین کے

اور اس میں علوم پر بحث مباحثہ ‘ ان کی ترتیب و تنظیم کی خوبصورتی‘ سیرحاصل ہونےکرنے کے نئے انداز کے باعث اس کی بکری ان سب مجموعوں کی مجموعی بکری جتنی ہے جنہیں مثالی مجموعوں کے طور پرقبول کیا جاتا ہے۔کیونکہ یہ مجموعہ ان سب مجموعوں کی روح میں سرایت کر کے ان کے دوش بدوش زندگی گزار رہا ہے۔

عظیم تچین انسانوں کا عقیدہ

میری زندگی کے وہ مقاصد جن کے حصول سے میں کسی حالت میں ہللا کی خاطر انسانیت کی خدمت کرنے کے اپنے آئیڈیل کو : باز نہیں رہ سکتا یہ ہیں اسے تمام بشری خواہشات اور ہر قسم کی ‘ ں سے بلند رکھناؤنفسانی اور جسمانی آرز

حقیقت کو پانے کے بعد اسے جاننا اور پھر اس حد اپنے تک عہد کا ‘ طلب پر ترجیح دیناپکا ہوناکہ اپنے عزیزوں اور قلبی تعلقات سے منسلک رشتہ داروں کو بھی قربان کرنے

اپنے بلند آئیڈیل کی خاطر سب سے ناقابل برداشت حوادث کا بھی سامنا ‘ سے دریػ نہ کرنااپنے آپ کو مادی اور ‘ کرتے ہوئے آئندہ آنے والی نسلوں کی خوشحالی کی راہیں کھولنا

معنوی تمام لذتوں سے بچا کر اپنی زندگی کو دوسروں کی خوشیوں کے لیے صرؾ کرنا کے فلسفے پر عمل “ اجرت لینے میں پیچھے کی صفوں میں جگہ لینا‘ خدمت میں آگے‘”

کرتے ہوئے عہدے اورمنصب کی جنگ سے اور سنہری موقعوں کے جنون سے دور رہنا ۔

* * * * *

جس طرح عمل اور حرکت کے معاملے میں پیش پیش رہنے والے لوگ اپنے مقام کے اعتبار سے اپنی ہر اچھی عادت اور خصلت کو بعد میں آنے والے لوگوں کواپنی رضا سے منتقل کرتے ہیں اسی طرح پیشرووں کا ہر نا مناسب حال اور طرز عمل بھی بعد میں

انہیں ایک ذلیل روح اور ‘ آنے والے لوگوں کو ان کی اصلیت سے دور لے جا سکتا ہے والیتی نقال میں تبدیل کر سکتا ہے۔

Page 187: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

فدائین محبت

مستقبل کی روشن اور مسرور دنیائیں صرؾ محبت سے جوش و خروش میں آنے والے محبت کے قہرمان ہی قائم کر سکیں گے۔ وہ جن کے ہونٹوں پر

جن کی نگاہیں انسانی احساسات ‘ جن کے دل محبت کی وجہ سے کھلیان‘ محبت کا تبسم‘ جو ہر شخص اور ہر شے کو شفقت سے ؼمزے دکھاتے ہیں ‘ کےباعث دھندلی دھندلی

طلوع ہوتے اور ڈوبتے سورجوں سے لے کرٹمٹماتے ستاروں تک سب سے محبت کے پیخامات وصول کرنے والے محبت کے قہرمان۔۔۔

* * * * *

ان ‘ محبت کے یہ فدائی جو اپنے آپ کو محبت کی بناءپر اپنے ماحول میں ڈھال لیتے ہیں کی گرم مزاجی اور ؼصے سے بھی لوگوں میں نظم و ضبط پیدا ہو جاتا ہے اور ا نہیں سیدھی راہ نظر آنے لگتی ہے۔ اس وجہ سے ان کے طرزعمل سے سنجیدگی اور دبدبہ ۔ٹپکتا ہے ۔چنانچہ وہ اصالحی اور مفید انسان تصور کیئے جاتے ہیں

صالح مشوچہ

مشورہ محدودعقل اور محدود سوچ کو المحدود بنانے کا اہم راستہ ہے۔

* * * * *

مشورے جتنی امیر کوئی ریاست نہیں اور اس جیسی طاقتور کوئی فوج نہیں ۔

Page 188: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

ان کے کام باہمی مشورے سے کئے ”جب صحابہ کرام کی تعریؾ کی جاتی ہے توکہا جاتا ہے کہ ۔ ان کی دیگر صفات سے نہیں بلکہ باہمی مشورے کے وسیلے سے یاد کیا جاتا ہے۔“جاتے تھے

* * * * *

عقلمند سے چند قدم بڑھ کر عقلمند وہ شخص ہے جو دوسروں کی عقل اور سوچ کی قدر بھی کرتا ہے۔

* * * * *

خیاالت کا زنگ دور کرنے کے لیے سب سے موثر اور اکثیر شے صالح مشورہ ہے۔

اگر ایک عقل سے دو عقلیں بہتر ہوتی ہیں تو سینکڑوں عقلیں یقینا ایک عقل سے بہتر ہوں گی۔ تو گویا باہمی مشورہ اس عقلوں کے یکجا ہونے کا نام ہے۔

* * * * *

وہ لوگ جو اپنی عقل پر بھروسہ کرتے ہوئے دوسروں کے خیاالت کی طرؾ توجہ نہیں دیتے وہ خواہ بے عقل سمجھے جاتے ہیں کیونکہ وہ مشورے کو ‘ ؼیر معمولی ذہانت کے مالک ہی کیوں نہ ہوں

ترک کر دیتے ہیں جو کہ استدالل کو اہم گہرائی مہیا کرتا ہے۔

دعا

دعا روح کی ؼذا ہے۔یہ ؼذا روح کو کسی وقفے کے بؽیر دی جانی چاہئیے۔

* * * * *

دعا ایک ایسا جادو ہے جو ارادے کوپرواز سکھاتا ہے۔ اسے جاری نہ رکھنے والے لوگ دعا کے اس زبردست بھید کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔

* * * * *

دعا ہللا کی قوت اور انسانی کمزوریوں کا اعالن ہے جو سبب اور وسیلوں کو پھالنگتا چال جاتا ہے۔

* * * * *

Page 189: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

سب سے خطرناک وائرس جو دعا پر مسلط ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اسباب کو تاثیر حقیقی سمجھ لیا جائے۔ جو روح اس وائرس کے پنجے میں پھنس جائے اسے خاص طور پر خصوصی عالج کی ضرورت ہوتی ہے۔

* * * * *

تشدد کے خالؾ کی جانے والی سب سے عمدہ دعا وہ ہے جو آرام اور سکون کی حالت میں کی جاتی ہے۔

* * * * *

ثناءاور دعا میں میرے اعتماد کو بڑھا دے۔میرے ضمیر کو بتا دے کہ اسباب پر توجہ ‘اے میرے ہللا دینا اپنے فرض کے احساس کے سوا کچھ نہیں ہے۔

* * * * *

اور نہ میری اتنی مجال ہے ‘ نہ میں اس حال میں ہوں کہ تیرا عذاب برداشت کر سکوں ‘ اے میرے ہللا کہ میں تیری درحمت سے محروم رہوں ۔

* * * * *

اگر میں تجھ سے بے وفائی کرتے ہوئے تجھ سے دور رہوں تو بھی میری حالت چال ‘ اے میرے ہللاچال کر کہتی ہے کہ میں تیرے بؽیر نہیں رہ سکتا۔ میری بے وفائی کے اعتبار سے نہیں بلکہ اس اعتبار سے کہ مجھے تیری ضرورت ہے جس کی خاطر میں تیری عنایت کا طلبگار ہوں ۔۔۔

نتیجہ اوچ انجام

نتیجے میں ہاتھ آنے واال پھل کا خوشہ ‘ابتداءکا شورشرابا اور اکڑ اہم نہیں ہوتی اہم ہوتا ہے۔

* * * * *

جن کاموں کے انجام کے بارے میں سوچ بچار کیے بؽیر ہی فیصلے کر لیے جاتے ہیں اکثر اوقات ان کی عاقبت ندامت ہوتی ہے۔

* * * * *

!مرؼیوں کے دڑ بے کی رکھوالی کا کام لومڑیوں کو نہیں سونپا جاتا۔

Page 190: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

اگرآج کے شہد اور باالئی کل تمہارے لیے نمک مرچ پھانکنے کا سبب بنیں تو وہ زہر سے زیادہ کڑوے ہوتے ہیں ۔

* * * * *

انجام کے بعد کی خوشی صحیح معنوں میں خوشی ہوتی ہے۔

* * * * *

نتیجے کے اعتبار سے فائدہ مند ہوتی ہیں ۔ اور ‘ بہت سی چیزیں جو ضرر رساں سمجھی جاتی ہیں بہت سی چیزیں جو فائدہ مند سمجھی جاتی ہیں وہ ضرر رساں ہوتی ہیں ۔

* * * * *

تنگ آ جانے کا آخری مرحلہ وہ ہوتا ہے جب انسان سب کچھ گنوا کر آرام کرنا شروع کر دیتا ہے۔

مدعی

بندگان حق کے لیے ضروری نہیں کہ وہ پوست نشین بھی ہوں ۔

* * * * *

بندئہ دعوی اپنا طور طریقہ نہ اپنی فتح میں بدلتا ہے اور نہ ہی اپنی شکست میں ۔

* * * * *

ہر ‘ یعنی صبر سے پک کر پختگی کی حد تک پہنچے بؽیر‘ ابن ارقم کے گھر میں پرورش پائے بؽیر قسم کی امید محض خام خیالی ہوتی ہے۔

صبچ

Page 191: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

صبر دردوں کو دور کرنے والی کڑوی بوٹی کی طرح ہے۔یہ انسان کی جان کو جالتا بھی ہے اور اس کا عالج بھی کرتا ہے۔

* * * * *

ہر مشکل کے پیٹ میں آسانی کا جرثومہ بھی ہوتا ہے مگر مدت حمل کا صبر سے انتظار کرنا بھی الزم ہے۔

* * * * *

صبروثبات اور کامیابی ایک دوسرے سے مختلؾ دکھائی دیتے ہیں مگر دونوں جڑواں بچے ہیں ۔

* * * * *

دریا قطروں سے معرض وجود میں آتے ہیں مگر قطروں کے دریا بننے کے لیے درکار وقت کو کم کرنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔۔۔۔

* * * * *

تمنا کے پورا ہونے کی بہترین راہ صبرواطمینان

* * * * *

جلدباز کے کھلیان میں جس شے کی بہتات ہوتی ہے وہ ہے ؼلطی۔

* * * * *

چوٹیوں کا راستہ وادیوں سے شروع ہوتا ہے مگر صرؾ صبر کرنے والوں کے لیے ۔۔۔۔

* * * * *

اگر کسی چیز کی ابتداءزہر اور انتہا شربت و شکر ہے تو وہ صبر ہے۔

* * * * *

حوادث کے مقابلے میں مثبت طرز عمل کا نام صبر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا رسیدہ لوگ صبر کا ۔وقت آنے سے پہلے صبر خواہش کرنے کو ناپسند گردانتے ہیں

قصد اوچ وسیلہم

Page 192: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ہر کام اور مہم کے لیے پہلے اس کا ہدؾ اور مقصد مقرر کرنا الزمی ہوتا ہے تا کہ انسان اپنے وسائل سے ہی بندھا نہ رہ جائے۔ قوم کی راہ میں کی جانے والی خدمات کے سلسلے میں اگر روحانی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہدؾ مقرر نہ کیا جائے تو خیاالت ایک گرداب کی شکل حاصل کر لیتے ہیں اور خدمت کرنے والے لوگ خیاالت کے اس گرداب کے رحم و کرم پرچکرکاٹتے رہ جاتے ہیں ۔

* * * * *

ؼوروفکر کے پلیٹ فارم پر ضروری ہے کہ پہال مقام ہدؾ اور مقصد کو دیا جائے اور یہ بالکل ہو گا۔ ایسے ؤ واضح ہوں ۔ورنہ آپ سوچ بے اعتدالی کا شکار ہو جائے گی جس کا نتیجہ ذہنی الجھا

بے شمار منصوبے دیکھنے میں آئے ہیں جو دیکھنے میں تو بڑے شاندار تھے مگر مقصد اور وسائل کے آپس میں خلط ملط ہو جانے کے باعث بے ثمر رہ گئے۔ایک تو ان سے کوئی فائدہ مند نتیجہ حاصل نہ ہو سکا اوردوسرے یہ اپنے پیچھے بے انتہا کینہ اور نفرت چھوڑ گئے۔

* * * * *

فعال انسان اور منصوبے بنانے والے ہر شخص کو چاہئیے کہ ہر شے سے پہلے خا لق اعظم اور اس باطل حق ‘ کی خوشنودی کوپیش نظررکھے ورنہ کئی قسم کے بت بیچ میں ٹانگ اڑا سکتے ہیں

اور مذہبی جنگ کے نام ‘ ہوس اور اللچ سوچ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں ‘ دکھائی دے سکتا ہے پر جرائم کئے جا سکتے ہیں ۔

* * * * *

اور ہر آن ‘ ہر قطرہ دریا‘ حق تعالی کی خوشنودی کی راہ میں کیے جانے والے کاموں کا ہرذرہ سورجابد کی قیمت رکھتی ہے۔ادھر تو یہ بات ہے اور ادھر جس راہ پر چلنے سے ہللا تعالی کی خوشنودی نہ ‘ حاصل ہوتی ہواس سے دنیائیں بے شک جنتوں میں تبدیل ہو جائیں مگر اس کام کا اثر صفر ہی ہو گا

اور یہ متعلقہ شخص کی کمر پر ایک وبال ہو گا۔‘ قیمت کچھ نہیں ہو گی

وسائل اور ذرائع کی قدروقیمت کا پیمانہ یہ ہے کہ مقصد کا حصول کس حد تک ممکن رہا اور مقصد کے حصول کی راہ میں نقائص کس حد تک حائل ہوئے۔ اسی اعتبار سے جو وسائل مقصد کے حصول

کہا جاتا ہے۔ “ ملعون”تک نہیں پہنچاتے بلکہ مقصد کے حصول کی راہ میں روڑا اٹکاتے ہیں انہیں دنیا پر لعنت کا بھیجا جانا بھی خدائے تعالی کے اسی پہلو سے منسلک ہے۔ ورنہ یہ دنیا جو ہزاروں

یہ ایک ‘اسمائے الہی کے جلووں کی عکاسی کرنے والی ایک محتشم نمائش گاہ کی حیثیت رکھتی ہے ایسی جگہ ہے جس سے محبت بھی کی جاتی ہے اور جس کی تعریؾ کے پل بھی باندھے جاتے ہیں ۔

* * * * *

Page 193: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

حق کو ہاتھ میں لے کر بلند کرنے کے موضوع سے متعلق قسم قسم کے راستے اور ذرائع موجود ہیں ۔ ان کی قدروقیمت اس بات پر منحصر ہے کہ یہ حق کی کس قدر عزت اور احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہیں اور حقیقت کے بارے میں انسانی دسوچ کی کس حد تک نشوونما کرتے ہیں ۔ اگر ایک

ایک معبد اپنے محراب ‘ گھر اپنے اندر پناہ لینے والوں کو اپنی مہارت سے اڑنے کے قابل بنا دیتا ہےاور ‘ میں جمع ہونے والی جماعت کے ابدیت کے تصو ر کا خمیر اٹھا کر اس کی ماہیت بدل دیتا ہے

ایک مکتب اپنے طلباءکو امید اور یقین کے ذریعے بڑے بڑے کام کرنے کی جرات عطا کر دیتا ہے تو گویا یہ سب ان کاموں کا وسیلہ بننے کا فرض ادا کر دیتے ہیں ۔لہذہ یہ سب مقدس ہیں ۔ ورنہ ان میں

‘ ادارے‘ سے ہر ایک ایک ایسا جادو کا جال ہے جو اوالد آدم کی راہ کاٹ دیتا ہے۔ یہی حال معاشرےسیاستدانوں وؼیرہ کا بھی ہے۔۔۔۔‘ اوقاؾ !

* * * * *

اس کے بانی کو چاہیے کہ وہ اس ادارے کے بنانے کا مقصد اور اس ‘ ہر ادارہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا کے جاری رہنے کی حکمت کواکثر ذہن میں التا رہا کرے تاکہ اس کے کام کا ہدؾ ہاتھ سے نہ

یتیم خانے اور مکتب جو اپنے ‘چھوٹے اور ادارہ بارآور ثابت ہو سکے ۔ اس کے برعکس وہ ہوسٹلبالکل ان انسانوں کی طرح ہوتے ہیں جو اپنی پیدائش کے ‘ہدؾ اور قیام کے مقصد کو بھول جاتے ہیں

مقصد کو بھول چکے ہوتے ہیں اور اصل راہ سے ہٹ کر الٹی راہ پر چلتے رہتے ہیں مگر اپنے اصل ہدؾ تک کبھی نہیں پہنج سکتے۔

ذہنی اجارہ داری اور سچ کو صرؾ اپنے آپ تک محدود رکھنا وسیلہ پرستی اور ہدؾ تعین نہ کرنے ایک جیسے احساسات اور خیاالت کے لوگوں کے خالؾ کینہ پروری ‘ کی عالمت ہے۔ ایک ہی یقین

اور نفرتیں اگر ہدؾ اور مقصد کے خیال سے محرومیت کی داللت نہیں ہیں تو پھر کیا ہیں ؟ حیؾ ہے او ر ‘ ان لوگوں پر جویہ سوچتے ہیں کہ کائنات کا نظام انہیں کے ناقص حساب سے چالیا جا رہا ہے

ان نفس کے ؼالموں پر جو نفس سے آزادی کو قبول نہیں کرتے۔۔۔۔‘ حیؾ ہے اس ذلیل مخلوق پر !

(احتیاط)پیش بندی

پیش بندی ایک ایسا اہم طرز عمل ہے جو کسی کام یا منصوبے کے دوران نقصان کے احتمال کے پیش نظر اور ایسی مصیبتوں کے خالؾ اختیار کیا جاتا ہے جن میں انسان مبتال ہو سکتا ہے۔ان مصیبتوں کے نتیجے میں آہ و بکا شروع کر دینے کی بجائے احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ بے شمار ایسے مہم جو دیکھے گئے ہیں جو حادثات کی وجوہات کی تہ تک پہنچنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ لہذا ا ن حادثات سے مقابلے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ چنانچہ حادثے کے نتیجے میں یا گھٹنے پیٹ لیتے

وہ پہلے تواپنی تدبیر میں ؼلطی کا ‘ ہیں اوریا تقدیر کو کوسنے لگتے ہیں ۔ جی ہاں

Page 194: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ارتکاب کرتے ہیں اور پھر تقدیر کی تنقید کرکے دوسری ؼلطی کے مرتکب ہو جاتے ہیں ۔

* * * * *

ہدؾ کے طور پر کسی منصوبے یا پالن کا مقرر کردہ نتیجہ جس قدر عظیم ہو گا اس کے حصول کے لیے الزم تدابیر پر عملدرآمد بھی اتنا ہی زیادہ اہم ہوگا۔ لہذا اگر ایک شخص اپنی ذمہ داری کے سائز کے حساب سے اور نفع نقصان کے اندازے کے مطابق اپنے کام کو منظم نہیں کرتا تو وہ یا تو اپنے ذمے لیے گئے منصوبوں کے ساتھ ؼیر سنجیدہ مہم جو کا سا سلوک کرتا ہے اور یا پھر وہ ایک سادہ لوح احمق ہے۔ اس قسم کے احمقوں کی کاوشیں کام کاج چھوڑ کر بیٹھ جانے سے بھی زیادہ ضرر رساں ہوتی ہیں ۔

* * * * *

اپنی امید کے مطابق نتائج حاصل کرنے میں تدبیر اور احتیاط انسان کے لیے بہت بڑے سرمائے کا کام دیتے ہیں ۔ اس سلسلے میں کی جانے والی چھوٹی سی ڈھیل یا ؼفلت بھی

ں میں شمار کی جاتی ہے جو ایک دوسرے پر الزام لگانے کا سبب بنتی ہیں ؤان بڑی خطا۔ عقلمند انسان وہ ہے جو محتمل نقصانات کے معرض وجود میں آنے سے پہلے ہی ان

‘ کی تدابیر ڈھونڈ کر ہر چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھ دے۔جی ہاں ؤ سے بچاپیشتر اس کے کہ چور آپ کو آ پکڑے آپ کو ہر حالت ”:جیسے ہمارے بزرگوں نے فرمایاتاکہ چور اور تقدیر پر الزام دھرنے کے درمیان بھاگتے “ میں چور کو پکڑ لینا چاہیے

رہنے کی نوبت نہ آئے۔

* * * * *

انسان کو چاہیے کہ کوئی کام شروع کرنے سے پہلے ایک ابتدائی پالن اور اس کی تدابیر تیار کر لے۔ نتیجے کے اعتبار سے بھی جو اشیاءمادی اور معنوی فائدے اور فضیلت کا وعدہ نہیں کرتیں ان سے ہر حالت میں بچنا چاہیے۔ اس قسم کے ابتدائی پالن کے بؽیر ہاتھ میں لیا جانے واال ہر منصوبہ عبس ہو گا۔ اور اپنے آپ کو عبس اشیاءمیں الجھانا اس بات کی دلیل ہے کہ متعلقہ شخص میں عقل کا فقدان ہے اور وہ ابھی تک اپنے بچپن ہی کی زندگی گزار رہا ہے۔

* * * * *

ایک شخص دقت طلب امتحانوں اور نامساعد شرائط میں حاصل کردہ کامیابیوں کے ذریعے اپنی قدروقیمت کی توثیق ہے اور پھر اسے دوسروں کے آگے رکھتا ہے۔ جہاں تک ان مشکل شرائط میں پیش کی جانے والی خدمات سے حاصل کی گئی کامیابی کا

اس کی قدروقیمت ہر شے سے پہلے ایک معقول پالن اور اس پالن کے مطابق ‘ تعلق ہے

Page 195: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ایک فرد کی قدروقیمت اس کی کامیابیوں کے اور ‘ عمل کرنے سے وابستہ ہے۔اس طرح اس کی کامیابیاں کسی عظیم منصوبے کی ابتداءسے پہلے کئے جانے والے فیصلوں کی نسبت سے ہوتی ہے۔

* * * * *

جس طرح احتیاط کرنا ڈر کر پیچھے کھڑے رہنے سے بالکل مختلؾ عمل ہے اسی طرح بؽیر سوچے سمجھے کام کرنے کا جسارت اور مردانگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر سال کے پہلے نصؾ حصے میں ہی اخراجات میں افراط ہو جائے تو ایک طرح کے نقصان کا سامنا ہونا موضوع بحث ہو سکتا ہے۔مگر یہ نقصان قطعا مقامی ہو گا اور یہ ان خساروں میں سے ہو گا جن کا عالج ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ جو لوگ اندھا دھند کئے جانے والے کام کو مردانگی سمجھتے ہیں ان کی بے بنیاد حرکات اور ڈان کشوٹ جیسا طرز عمل ہمیشہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔

* * * * *

ہر بری خصلت کی طرح ہمیں مؽرب کی طرؾ سے تحفے کے طور پر دی گئی ایک کہ جو محض )بات یہ بھی ہے کہ ہم ایک ہجوم کی سی روحانی حالت میں ہوتے ہوئے

ایک ہجوم کے شکار کے لیے گھر سے نکل کھڑے جو لوگ اس (ایک چال یا فریب ہےاگر ایک انڈے کے ارد ”باطل اور مورثی جھوٹے خیال پر یقین رکھتے ہیں ان کے مطابق

کووں کا ایک چیختا چالتا ہجوم منڈالتا رہے تو یہ کوئی (بچہ نکالنے کے لیے )گردمگر ہماری سوچ کے مطابق ہر قومی مسئلہ ایک مناسب ماحول “ انوکھی بات نہیں ہوگی۔

اور حدوداربعے کے اندر حل کیا جانا چاہیے۔اس کام کے لیے ماحول ایسا پر سکون ہونا چاہیے جیسا ان مقامات پر ہوتا ہے جہاں مونگے انڈوں سے بچے نکالنے کی نہایت پر اضطراب حالت میں ہونے کے باوجود صبر اور خاموشی سے بیٹھ کر انڈوں کو سینچتے اور بچے نکالتے ہیں ۔

* * * * *

حق تعالی کے نزدیک انسان کی عظمت اس کی بلند حوصلگی سے ناپی جاتی ہے۔ بلند حوصلگی کی واضح ترین عالمت یہ ہے کہ انسان دوسروں کی خوشی کی خاطر اپنی ذاتی لذتیں اور ذوق قربان کر دے۔ مجھے نہیں معلوم آیا کوئی اس سے بڑی قربانی کا بھی تصور کر سکتا ہے یا نہیں کہ ایک شخص معاشرے کی سالمتی کی خاطر اپنی

جہاں چنگھاڑنا بھی جائز ہو وہاں بھی اپنا ؼصہ پی ‘ ں تلے روند دےؤحیثیت اورشہرت پااور جو ہر ایسی جگہ پر جہاں ذاتی خوشی اور فالح مو ضوع ‘ کر برداشت کرنا جانتا ہو

بحث ہو وہاں اپنی خواہشوں اور ضروریات سے دستبردار ہو جائے۔

Page 196: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

جس طرح فاتح افواج کی بہادری کو اورجنرل سٹاؾ کے جنگی منصوبوں کو ان کی تمام اسی طرح تمام کامیابیوں کو عمومی جسارت ‘ فتوحات میں کوئی اہمیت نہ بے وقوفی ہے

سے جا مالنا اور پالننگ کو بالکل کوئی وقعت ہی نہ دینا بھی حماقت ہے۔

* * * * *

کسی کام کا بیڑا اٹھانا اور اس کام کی تدابیر دونوں ایک ایک دعوت نامے کی طرح ہیں جو حق تعالی کی خدمت کی عنایات حاصل کرنے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں ۔ یہ دونوں ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں ۔ان میں سے اگر ایک میں بھی کوئی ؼلطی ہو جائے یا کمی رہ جائے تو کئی بار عنایات باری تعالی رک جاتی ہیں جوکہ ناکامی کا سبب بن سکتی ہیں ۔ پر رکاوٹ کے بؽیر چلتے جانا اسی حالت میں ممکن ہوتا ہے جب بصیرت سے کام لیا جائے۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو یہ بات سمجھتے ہیں ۔

بچداشت‘خفگی نہیں

جب ماحول پر ابھی اچھا خاصا اندھیرا ہی چھایا ہوتا ہے اس وقت ہر طرؾ ہللا تعالی کے پیؽامات پہنچانے والے تم ہو ۔ قدرناشناس لوگوں کو اس بات کا پتہ نہ بھی ہومگر زمین و آسمان دونوں تو اس کے شاہد

تمہاری خدمات کی تعریؾ خلق ! اصولوں سے ناواقؾ لوگوں کودیکھ کرتم مالمت کرنے والے نہ بن جانا! ہیں ۔خبردار !خدا نہ بھی کرے مگر حق تعالی تو جانتا ہی ہے نا

* * * * *

تم نے اخالق کے مطالبات پورے کر دیئے اور اب تمہارا اردگرد کا ماحول ایک اللہ زار کی طرح ہے۔۔۔۔ تمہارے ماحول میں پھلنے پھولنے والے گالب اس قدر زیادہ تعداد میں ہوتے ہوئے بھی تم پانچ سات کانٹوں کی شکایت کیوں کرتے خاص طور پر جب یہ بدنصیبی پھلواریوں کی دیکھ بھال میں کی گئی کسی ؼلطی یا کمی کے ردعمل کا نتیجہ ہو

؟!تو

* * * * *

ایک دل جس نے اپنے آپ کو حق تعالی سے جوڑ رکھا ہو اس کے لیے آخرت کی راہ میں کی گئی خدمات کا بدلہ دنیا میں مانگنا آداب کی خالق ورزی نہیں تو اور کیا ہے؟ اور پھر دنیا اور اس میں رہنے والی ہر چیز تو فانی ہے جبکہ

کیا وہ باقی نہیں ہے؟ اگر یہ بات ہے تو پھر حق ‘ جس کی خوبصورتی اور احتشام سے عقل دنگ رہ جاتی ہے‘ آخرتں سے بہتر ہے۔ؤآخرت اور بعد کی دنیا ہزارہا دنیا! کی راہ میں کی گئی جدوجہد کا بدلہ مانگنے سے باز آ جا

* * * * *

تم اسے اپنی بڑائی کی عالمت ‘ خواہ وہ کتنا ہی جائز کیوں نہ ہو ‘ اگر عوام اپنی توجہ تمہاری طرؾ مبذول رکھتے ہیں ہوئے حسن ظن کے باعث ذہن میں آنے والے بلند مقامات کے لیے کمربستہ نہ ہو جانا۔ خاص کر دوسروں کو اپنے آپ

Page 197: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

کیونکہ حق تعالی کے نزدیک انسان کی ! سے گھٹیاسمجھنے کی بے ادبانہ حرکت کا ارتکاب ہر گز نہ کر بیٹھناقدروقیمت کا انحصار روح کی پاکیزگی اور دل کی عظمت پر ہوتا ہے۔ جسمانیت کو قیمتی سمجھتے ہوئے گوشت اور !ہڈیوں کے بوجھ تلے رہ کر کچال جانا کتنی اذیت ناک بد قسمتی ہے۔۔

* * * * *

بڑوں کے لیے احساس حرمت ایک بنیادی بات ہی سہی مگر یہ ضروری ہے کہ اسے خود طلب نہ کیا جائے۔ اگر تمہارے مانگے یا امید رکھے بؽیر دوسرے لوگ خود بخود تمہاری عزت کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اس کے مقابلے میں اس بات کی آرزو کرنا اور پھر دوسروں کے پیچھے پڑے رہنا ایک ایسے محبوب کی طرح ہو گا جس سے کبھی وصال نہ ہو سکے۔ یہ حرکت انسان کو ؼربت اور اضطراب میں پھنسا کرچھوڑ دیتی ہے۔

* * * * *

عوام کا تمہیں بڑا سمجھنے اور لوگوں کی نظروں میں تمہیں بڑا کر کے دکھانے پر تمہیں بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ عوام کی ایسی تو جہ آسمانوں کے اس طرؾ حسن قبول کا ایک عکس ہونے کے اعتبار سے اگر مقبول بھی سمجھی جائے پھر بھی یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی آرزوکی جائے۔اگر یہ انسان کو تھوڑی سی مدت کے لیے خوش بھی کر دے تو اسے اکثر اوقات رالتی اور کراہنے پرمجبور کر دیتی ہے۔تمہیں چاہیے کہ اس طرح کی آئی گئی نوازشوں سے دھوکا کھا کر اپنے دل کوآزردہ نہ کرو۔

* * * * *

کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ تمہاری خدمات جس قدر بڑھ کروسیع عالقے میں پھیلیں گی اسی لحاظ سے تمہیں اپنے تمہارے جن دوستوں میں ! دشمنوں اور اپنے عالقے کے لوگوں کے سامنے امتحان سے گزرنا پڑے گا۔؟ ذرا سوچو

سے ہر ایک حق تعالی کے ہاتھوں میں امتحان کے ایک عنصر کی طرح استعمال کیا جائے گا ان کے ساتھ فیاضانہ !سلوک کیا کرو

* * * * *

اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ کی ہوئی نیکیوں کو ان کے منہ پرمار کر اپنے ‘ خبردار اپنی قوم کی خاطر کی ہوئی خدماتیہ نہ بھولنا کہ جو کچھ تم نے کیا وہ تمہارا فرض ہے اور تم اسے ! داردگرد کے لوگوں کو اپنے آپ سے بیزار نہ کرنا

!کرنے کے لیے جوابدہ اور ذمہ دار بھی ہو

* * * * *

اور حق ‘ وہ موضوعات جن کے بارے میں تم نے سوچ بچار کر کے ان کا تجزیہ کیا ہے‘ جو کتابیں تم نے پڑھی ہیں ‘ کی راہ میں پھولے ہوئے سانس سے جو جہاد کئے ہیں ان سب کی نسبت سے اگر تم انکساری کی حدود میں نہیں رہتے

اور قہر و کرم کو ایک ہی چیز سمجھتے ہو تو یہ سوچ کر کانپ اٹھو کہ ہر بڑا کام کرتے وقت خودی کے خونخوار گےؤ پنجوں میں کچل دئیے جا !

* * * * *

! میرے سامنے اپنی خدمات کی بڑائی اور بڑی بڑی قربانیوں کے متعلق کبھی بات چیت نہ شروع کر بیٹھنا ! خبردار آیا تم اپنی کاروائیوں کو سرکاری مال کی ؤ اگر مجھے کچھ بتانا چاہتے ہو تو میری درخواست ہے کہ مجھے یہ بتا

طرح سر بازار ال کر وقت یہ دیکھ سکتے ہو کہ یہ سب ہللا تعالی کی مہربانیوں میں سے ایک مہربانی ہے جو تمہارے دوستوں کی کوششوں سے معرض وجود میں آئی ہے۔ یا یہ کہ خدمت کا وقت آنے پر تم اگلی صفوں میں اور اجرت

ان باتوں کا ذکر کرو تاکہ تمہاری شیریں زبان میرے دل کو آباد ! لینے کے لیے پچھلی صفوں میں کھڑے ہو سکتے ہو کر دے۔

* * * * *

Page 198: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

” جیسے الفاظ استعمال کر کے اپنی خودسری کے گیت گا گا کر اپنے دشمنوں کو “ میری شہرت‘ میری عزت‘ میرا علماگر تم میں استعداد ہے تو اسے یوں استعمال کرو کہ یہ اگلے جہان میں تمہارے ! خوش اور دوستوں کو دلگیر نہ کرو

اگر تمہاری زندگی کی کوئی قابل ذکر داستانیں ہیں تو انہیں مالئکہ کے ابدی ! بارآور ہو سکے ‘ لیے سنبل پیدا کرے۔نؽموں کی شکل میں استعمال ہونے کے لیے رہنے دو

بے ثباتی اوچ ثبات

حقیقت کو پا کر اس ‘ حقیقت کو پا لینا اور اسے اپنا دل دے دینا جس قدر اہم ہے اس کی بتائی ہوئی راہ پر ثبات سے چلتے رہنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔اور اس پر سختی ‘ سے وفاداری کرنا

سے قائم رہنا بھی ایک قابل قدر خاصیت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص روحانی طور پر حقیقت کی روشنی پا لیتا ہے اس کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ آسانی سے اپنی راہ

جہاں تک ایسے لوگوں کا تعلق ہے جو صبح شام بؽیر وقفے کے اپنے ! اور جہت تبدیل کر لے گا۔۔۔تو وہ ان بدنصیبوں میں سے ہوتے ہیں جو ابھی تک حقیقت کو نہیں پا ‘ محراب تبدیل کرتے رہتے ہیں

یا ان ناالئقوں میں سے ہوتے ہیں جنہیں حقیقت کی قدروقیمت کی سمجھ ہی نہیں آ سکی۔‘ سکے

وہ ایک ؼیر ‘ وہ خوش قسمت لوگ جنہوں نے اپنے دلوں کو حقیقت کے سمندر کا ساحل بنا لیا ہےتسکین پذیر آرزو اور اشتیاق کے ساتھ اس سمندر سے آنے والی لہروں کو اپنے سینے پر قبول کرتے

یہ وہ لوگ ہیں جن کا دور “ کیا اور بھی ہیں ؟”اور پھر یہ پوچھ کر اپنے لیے شہرت کماتے ہیں کہ اور جن کی روحوں میں حقیقت ہمیشہ کے لیے ‘جو اپنا محراب پا چکے ہیں ‘ جستجو ختم ہو چکا ہے

گھر کر چکی ہے۔ جہاں تک لگاتار موجزن رہنے والے لوگوں کا تعلق ہے تووہ یا تو جستجو کے اصولوں سے نابلد محدودے چند ناتجربہ کار شخص ہوں گے یا پھرایسے قوت فیصلہ سے محروم افراد ہوں گے جو جستجو اور حصول کے فرق سے ناواقؾ ہونے کے باعث ان دونوں کو آپس میں خلط ملط کر دیتے ہیں ۔حاصل وہی کرتے ہیں جو جستجو کرتے ہیں ۔ جو حاصل کر چکتے ہیں وہ اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے ہیں ۔ اور جو سرگرداں یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے حقیقت کو پا لیا ہے وہ زندگی بھر ایک ہی جگہ پرگھومتے رہتے ہیں ۔

* * * * *

Page 199: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ایک ہی جگہ پر ڈٹ کر اپنی پوزیشن کی حفاظت کرنا دشمن کو مؽلوب کرنے اور اپنے ہدؾ تک اپنی پوزیشن کو ترک کر دینے ‘ پہنچنے کا اولین ذریعہ ہے۔ محاذ کو ترک کر کے الگ ہو جانے والے

کی گھڑی سے ہی شکست کی راہ پر گامزن سمجھے جاتے ہیں ۔

* * * * *

محاذ سے فرار ہونے واال ہر شخص سب سے پہلے اپنے ضمیر کے سامنے اور پھر تاریخ اور آنے والی نسلوں کے سامنے اپنے آپ کو ملزم گردانتا ہے۔ اس وجہ سے گویا وہ اپنے مقصد کے دشمن عناصر کے ہاتھوں پٹ جاتا ہے۔ ہر عظیم دعوے کی خاطر اپنی پوزیشن کا ثبات کے ساتھ دفاع کرتے رہنا بہادری کی عالمت ہے۔ ہوا کی رو کے مطابق اڑتے پھرنے والے نفس کے ؼالم جو آزادی قبول

اسے سمجھنے کی نیت بھی نہ رکھتے ہوں تو وہ علیحدہ بات ہے ‘ اگر یہ بات نہ سمجھیں ‘ نہیں کرتے انسان ہیں وہ جب ایک مرتبہ حقیقت کو سمجھ لیتے ہیں تو پھر ذاتی مفادات ان کے ۔ مگر جو حقیقتا

شہوت ‘ خوؾ ان کا راستہ روک کر ان کے لیے سدراہ نہیں بن سکتا‘ ں کی زنجیر نہیں بن سکتےؤپاان کا پیچھا نہیں کر سکتی۔ وہ ان سب رکاوٹوں کے اوپر سے گزر جاتے ہیں جیسے وہ ہوا میں پرواز کر رہے ہوں ۔

* * * * *

خدمت کے دوران لگاتار اپنے افکار اور مقام تبدیل کرنے والے لوگ نہ صرؾ اپنی خوداعتمادی اور بھروسے کے احساسات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں بلکہ مسئلے کے حل میں اپنے ساتھیوں کے لیے بھی امیدشکن ثابت ہوتے ہیں ۔ جس طرح ذوق و شوق سے مارچ کرنے والی کسی جماعت میں سے کسی ایک شخص کا صؾ سے نکل کر ؼائب ہو جانا اس یونٹ کی رفتار کی روانی میں خلل اور اس جماعت میں ابتری پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے بالکل اسی طرح ایک مشترکہ آئیڈیل کے حصول کی دئیے گئے کسی گروہ میں سے بعض لوگوں کا علیحدہ ہو جانا بھی دوستوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا

جبکہ دشمنوں کو خوشیوں سے ‘ بد بینی اور ذلت کا احساس پیدا کر تا ہے (شرمندگی)ہے۔ان میں ہمکنار کر دیتا ہے۔

* * * * *

وہ لوگ جو اکثر اپنے عہدوپیمان توڑ کر فیصلے کرنے کے معاملے میں ڈھلمل یقینی کے گڑھے میں ایک دن آتا ہے جب وہ خوداعتمادی کھو کر آہستہ آہستہ دوسروں کے زیر اثر چلے ‘ جا گرتے ہیں

جاتے ہیں ۔یہ مفلوج روحیں وقت کے ساتھ ساتھ اپنی شخصیت مکمل طور پر کھو بیٹھتی ہیں اور پھر اپنے لیے بھی اور اپنے معاشرے کے لیے بھی ایک ضرررساں عنصر بن کر رہ جاتی ہیں ۔

* * * * *

اور ‘ شہرت‘ منصب‘ اپنی حیثیت‘ آج ایک قسم کے چھوٹے چھوٹے حسابوں تلے پسے جانے والےشہوت جیسی چیزوں میں الجھ کر رہ جانے والے لوگ جب مفادات کی قوس قزح کی طرح ہمارے افق

توپھر کون ‘ جب ان کے خوؾ اور اندیشے ہمارے ارادوں پر کمند پھینکیں گے‘ پر چھا جائیں گے جانے وہ لوگ کیا کچھ کر ڈالیں گے۔۔۔۔؟

* * * * *

Page 200: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

انسانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن سے پتہ چلتا ہے ہزاروں مزدوروں اور جانبازوں کا خون پسینہ بہا کر کئی شہر اور قلعے فتح کئے گئے مگر کئی بار محض ایک ؼدار اور نامرد کی ؼدارانہ حرکت کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ سب دوبارہ ہاتھوں سے نکل گئے۔ایسے واقعات

تعداد میں اتنے زیادہ ہیں کہ لؽاتوں میں بھی ‘ خواہ صرؾ کسی ایک قوم تک ہی محدود کیوں نہ ہوں نہیں سما سکتے۔

* * * * *

۔۔۔کتنی روحیں ہیں جو محض ایک ہی بار !قابل نفرت طمع کاری ‘ بے ایمان شہوت‘ قاتل شہرت‘ آہتمہارے احاطے میں آئیں اور آتے ہی پیلی زرد ہو کر مرجھا گئیں ۔ کتنے دل ہیں جو تمہاری آب و ہوا میں آ کر خزاں رسیدہ پودوں کی طرح پتہ پتہ جھڑنے سے ؼائب ہو گئے۔ اور کتنے سروقامت انسان

تمہارے ماحول ‘ تمہارے شوخ قہقہوں کے نتیجے میں معبد چھوڑ کر میخانوں میں جا گرے۔ جی ہاں پھوہڑ ہو گئے۔تمہارے اردگرد آنے والے جوان بوڑھے ہو ‘ میں آنے والے دلیر جوان تتلی بن گئے

۔۔۔!کرؼائب ہو گئے

صاحب یقین ایک ہی مچتبہ دھوکا کھاتا ہے

ہر عظیم آئیڈیل اور بلند منصوبہ منظم سوچ اور ایک صحتمند پالن کی شکل میں وجود میں آتا ہے۔ اپنے طرفدارحاصل کرتاہے اور دن میں کئی بار متعلقہ افراد کی قسمت پر مسکرا نے والے ایک محراب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔جن منصوبوں یا مسئلوں کو یہ حمائیت اور طریقہ کار حاصل نہ ہو سکے وہ پیدائش سے پہلے ہی مر جاتے ہیں ۔

* * * * *

اس کا منظم طور پر چلتے رہنا یا بدنظمی کے باعث تتر بتر ہو جانا ‘ کسی منصوبے یا دعوے کا وجود یا عدم وجوداور ؼیر یقینی محرکات پر ‘ قوتوں ‘ بعض عناصر پر منحصر ہے جن کی بنیاد کسی صورت میں بھی ایسے سہاروں

نہیں رکھنی چاہئیے جو ہمارے اپنے ہاتھ میں نہ ہوں ۔جو لوگ اپنے آئیدیلوں کی تکمیل کے لیے ایسے سہاروں پر اعتماد کرتے ہیں وہ ہمیشہ دھوکا کھاتے ہیں ۔ اپنا مستقبل ان سہاروں پر کھڑا کرنے والے ہمیشہ اپنی ہی بنا کر پیش کی گئی اشیاءکے ملبے تلے آ کر کچلے جانے کے بعد ہمیشہ کے لیے ؼائب ہو چکے ہیں ۔

* * * * *

سوچ اور پالن کا ٹھوس ہونا اور مسئلے کے نمائندوں کا ‘ کسی مسئلے میں آئیڈیل کی عظمت کے نہایت اہم عناصراخالص اور دل لگا کر مسئلے کی پیروی کرناہیں ۔دراصل ہر مجوزہ کام کی ضرورت کی وجوہات کا انتخاب اور اس ممکن ہونا بھی اسی نسبت سے اہم ہوتا ہے۔جس کام کے متوقع نتائج سے متوقع نتائج کے حساب سے اس کام کا عمال

اور جس کے ضروری ہونے کی وجوہات کی تائید متعلقہ اعلی حکام سے حاصل ‘ کا پہلے سے تجربہ نہ کیا جا چکا ہو اس کے لیے کمر بستہ لوگ نہ صرؾ ان پر اعتماد کرنے والوں کو دھوکے میں رکھ کر ان کی مایوسی ‘ نہ کی گئی ہو

کا باعث بنتے ہیں بلکہ خود بھی قابل افسوس حاالت سے دوچار ہوتے ہیں ۔

Page 201: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

حق کی جستجو بھی حق پر ہی مبنی ہونی چاہیے اور حق کی تحقیق بھی سب سے زیادہ برحق ذرایع سے کی جانی بے پرواہی ہے۔ ‘چاہیے۔حق کو ایسی آب و ہوا میں تالش کرناجہاں حق کی سوچ کے بارے میں کسی کو علم ہی نہ ہو

اور باطل وجوہات کے تاریک ماحول میں اس کا پیچھا کرنا اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادؾ ہے۔

* * * * *

مثبت اشیاءکی بنیاد منفی سوچ اور منفی نظام پر نہیں رکھی جا سکتی۔منفی اشیاءکے درمیان مثبت کا مقام بالکل ایسا ہی ہو جیسے کوئی گھومتے دروازوں کے درمیانی خالءمیں چلنے کی کوشش کرے۔ چلتے ہوئے انسان کی چال رکنی نہیں

تو ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ؤ چاہیے بلکہ اسے رکاوٹ کو پار کرکے چلتے رہنا چاہیے اور ٹکرا

* * * * *

قائم رہنے والی حقیقتیں وقتی اور تؽیر پذپر اشیاءسے نہیں باندھی جا سکتیں ۔ایک تیرتے جزیرے پر نہایت حیاتی قسم کے اداروں کی تعمیر ایسی ہی ہے جیسے کسی ایسے ادارے سے پلو باندھ کر مالزمت کرتے رہنا جس کی باگ ڈور ہمیشہ بدلتی طاقتوں کے ہاتھوں میں ہو۔

تضادات

انسانی صالحیتوں کو ‘ تم اپنے احساست اور سوچ کومانجھ کر اپنی حقیقت تک پہنچنے کی ں کے ؤسدھار کرربانیت تک پہنچنے کی سوچ رہے ہو ۔مگرنفسانی لذتوں سے چھٹکارا حاصل کر کے حیوانی آرز

؟!خالؾ بؽاوت کئے بؽیر یہ کیسے ممکن ہے

* * * * *

اور رسمی اور روحانی ذوقیات میں ڈ وبے رہنے کی آرزو کرتے ہو ‘تک پہنچنے کی“ توحید”تم اپنی قلبی زندگی میں اور تم ہر موڑ پر جسمانی ‘ مگر یہ کیسے ممکن ہے جبکہ تمہارے اندر ہزاروں برے احساسات حکمرانی کر رہے ہیں

کہتے رہتے ہو؟“ لبیک”لذتوں کو !

* * * * *

بلندیوں پر جا کر آسمانوں کے ادھر کے عالموں میں پہنچ جانے کی سوچ میں رہتے ہو۔ ‘تم پر لگوا کر پرواز کرنے؟!مگر یہ کیسے ممکن ہو سکتاہے جب تک تم ایک بچے کی طرح اس دنیا کے کیچڑ اور گندگی سے بندھے رہو گے

* * * * *

تم ہمیشہ اس امید میں رہتے ہو کہ تمہارے افق پر پلک جھپکنے میں نئے نئے شفق ظاہر ہوں جو ململ جیسے باریک ؟!کپڑے میں لپٹے دکھائی دیں ۔مگر اپنے دل کو بلند آئیڈیلوں سے آراستہ کئے بؽیر یہ کیسے ممکن ہوگا

* * * * *

Page 202: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

تم صدیوں سے ایک دوسرے پر ڈھیروں کی طرح جمع ہونے والے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہو۔مگر جب کہ تم اس بلکہ صدیوں تک عزم و ارادے کی راہ پرچلتے رہو گے تب تک یہ کیسے ممکن ‘ بات کا ارادہ نہ کر لو کہ تم سالہا سال

؟!ہو سکتا ہے

* * * * *

‘ مگر جب تک سکولوں ‘تم وطن کی ترقی کر کے بلندیوں تک رسائی اور اپنے ہم وطنوں کی فالح کی بات کرتے ہو فوج کی بیرکوں اور روحانی تکیوں کی مثلث کے ذریعے اپنی نسلوں کو پر مہیا کر کے انہیں شیطانی مثلثوں سے

؟!گے تب تک یہ کام کیسے بن سکتا ہےؤ زیادہ بلندی پر اڑنے کے قابل نہیں بنا

* * * * *

تمہارا دل صاحب مال و ملک بننے کا خواہشمند ہے اور تم اپنی حسیاتی دنیا کے اعتبار سے زندگی سے استفادہ کرنے کو ترستے ہو مگر تم اس محفل کو جاری نہیں رکھ سکتے جب تک کہ تم اپنا روزہ ؼروب آفتاب تک قائم نہیں رکھتے۔

* * * * *

تم چاہتے ہو کہ دنیا بھر کے ممالک اپنی کمر خم کر کے اور سر جھکا کر تمہارے احکام پر چلنے کو آمادہ ہو جائیں جوش میں آ کر ایک فاتح اور ‘ مگر جب تک تم اپنے ہوش و حواس سنبھال کر اپنی سستی کا لبادہ نہیں اتار پھینکتے

؟!تب تک یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے‘ یاووز نہیں بن جاتے

* * * * *

لوگ ؤ‘ تم ہمیشہ اس بات کی امید کرتے ہو اور اس انتظار میں رہتے ہوکہ لوگوں کے دلوں اور آنکھوں میں سما جاتعریفوں کے پل باندھ کر تمہیں آسمانوں پر چڑھا دیں ۔ لیکن اگر تم ہر روز دن میں پچاس مرتبہ اپنے عہدوپیمان توڑتے

؟!رہو گے تو پھر یہ کیسے ممکن ہوگا

* * * * *

تم اپنے آپ کو مکمل اور بے قصور انسان سمجھتے ہو اور چاہتے ہو کہ ہر شخص بھی تمہیں ایسا ہی سمجھے۔ مگر معاشرے میں تمہاری حالت زار اور طرز عمل کے تضادات ‘ رو زانہ تمہاری کمر پر لدے ایک ہزار گناہوں کے بار

؟!کی موجودگی میں یہ کیسے ممکن ہوگا

خدمت کا خیال

اور ان وحشیوں کی زندگی میں ‘ جس زندگی کا ہدؾ ہمارے انسانوں کی خدمت نہ ہو اس میں کیا فرق ہے کہ جن کے درمیان ہزارہا قسم کے اللچ حکومت کرتے ہیں ؟

* * * * *

سچائی اور حق کی راہ میں اٹھائے گئے ہر قدم کی تعریؾ و تحسین اس بات کی عالمت ہے کہ سچائی کو عزت کی یقین کجیئے کہ ‘نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جو لوگ سچائی کو محض اپنے ہی پیشے اور مشرب تک محدود سمجھتے ہیں

Page 203: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

وہ جلدہی اپنے آپ کو بالکل اکیال پائیں گے۔اسی طرح وہ حق کے مفہوم کی تشریح اور تفسیر کے معاملے میں بھی اپنا ۔موقؾ بدلتے رہا کریں گے اور اس سلسلے میں کسی حالت میں بھی ثابت قدم نہیں رہ سکیں گے

اتفاق کے باچے میں سوچ

ہر شخص صلح نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کے نقطئہ نظر کی اطاعت ۔“سب مل کر صلح کر لو”:فرماتا ہے (‘جل جال لہ)کریں ۔حاالنکہ ہللا

* * * * *

یا ہمارے درمیان پیداشدہ مسائل کے ‘ اگر ہم آپس میں اتفاق نہیں کر سکتے تو کم از کم اختالفات میں تو نہ پڑیں ؤ‘ آ بارے میں موجود اختالفات کو مزید تو نہ بڑھائیں ۔

* * * * *

جماعت پر ہللا تعالی کی ایک خاص عنایت تو یہ ہے کہ اپنی انتہائی کوشش کے باوجود کوئی شخص اس پر اپنا قبضہ نہیں جما سکتا۔

خودغچضی کا گچداب

انسان کو خودی کی امانت ایک مقدس تحفے کے طور پر اس لیے عطا کی گئی ہے کہ وہ عظیم ترین حقیقت کو پہچانے اور حاصل کرے۔یہ ایک ایسا تحفہ ہے جسے کام ختم ہوتے ہی پتھر مار کر توڑ دینا ضروری ہے۔اگر ایسا نہ کیا جائے توخودی اکڑ پھول کر ایک ایسے عفریت کی شکل اختیار کر لیتی ہے جو اپنے مالک کو بھی نگل سکتی ہے۔خودی کی مدد سے انسان خالق

اپنی ہر کمی اور قصورکو اس کے ‘ علم اور ارادے کے المتناہی ہونے کو‘اس کی طاقت‘ اعظم کو کھاتے میں ڈالنے کے ناممکن ہونے کے بارے میں سب کچھ جان جائے گا اور پھر اپنے سینے میں سلگائی گئی معرفت اور محبت کی آگ سے اپنی خودؼرضی کو پگھال کر ختم کر دے گا۔ا ب وہ

اسی کے ذریعے ‘ اسی کے خیال میں سوچے گا‘ صرؾ خالق اعظم کی ہستی کو ہی دیکھ سکے گااور صرؾ اسی کے دم سے آرام پائے گا۔‘ جانے گا

* * * * *

Page 204: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ہمیشہ کی خودؼرضی اس بات کی عالمت ہے کہ انسان حق کو نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی اسے سمجھ آخرت کی راہ پر فاصلہ طے نہیں کر سکتا اور آنکھیں بند کر کے ایک ہی جگہ پر گھومتا ‘ سکتا ہے

خودؼرضی کے ‘ رہتا ہے۔ جو لوگ اپنی سوچ میں ہمیشہ خودؼرضی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں اور جس شے کے متالشی ہوتے ہیں اسے اپنی انا کے اندھیرے ماحول ‘ ساتھ ہی اٹھتے بیٹھتے ہیں

وہ اگر سالہا سال پہاڑوں اور وادیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے چلتے رہیں ‘میں ہی تالش کرتے ہیں پھر بھی ذرہ بھر فاصلہ طے نہیں کر سکتے۔

* * * * *

اگر خودؼرضی کے حساب سے ‘ مجوزہ کام خواہ کتنے ہی مشکل اور تھکا دینے والے کیوں نہ ہوں کئے جائیں گے توان سے انسان کی فضیلت میں کسی صورت بھی اضافہ نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ

وہ جو اپنی خودؼرضی کے ‘دربار الہی میں قبولیت پائیں گے۔ اپنی انا کو عبور نہ کرسکنے والے لوگوہ جن کی آنکھوں پر پٹی بندھی ‘ پیٹ میں چھری گھونپ کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کر سکے ہوں

وہ آخرت کے لیے جتنی بھی کوشش کرتے ہیں وہ سب اپنے آپ کوجھوٹی تسلی اور دھوکہ ‘ ہوئی ہو دینے کے مترادؾ ہوتی اور ان کی ہرقربانی حماقت کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔

* * * * *

خودؼرضی چونکہ ایک شیطانی خصلت ہے اس لیے کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئیے کہ اس کے نرؼے میں آنے کو بھی شیطان ہی کی عاقبت تک پہنچایا جائے گا۔ شیطان کی معذرت اور اس

جب افق پر اندھیرا چھاتی گھڑی (علیہ سالم)کا اپنا دفاع بھی ایک ایک نؽمئہ خودؼرضی حضرت آدمں کے بالکل نئے بادل تیار کرکے ان سے اپنے دل کی حسرت کی آگ بجھانے کی ؤاپنے آنسو‘ میں

کوشش کر رہے تھے تو اس کے مقابلے میں ابلیس اپنی معذرت سمجھ کر جو کچھ منہ سے اگل رہا تھا اس کا ہر لفظ ؼرور اور عناد تھا اور اس کا ہر بیان گستاخی کے مترادؾ تھا۔۔۔

* * * * *

وہ جو دولت اور اقتدار پر مبنی ‘ خودؼرضی کی بہت سی قسمیں ہیں ۔مثال وہ جس کا منبع علم ہوتا ہےوؼیرہ۔۔۔ ان ‘ وہ جو عقل اور حسن و جمال کے بل بوتے پراکڑتی اور بڑھتی رہتی ہے‘ ہوتی ہے

صفات میں سے ایک بھی انسان کی ذاتی خصلت ہونے کے باعث وہ اس سلسلے میں جتنے دعوے کرتاہے ان سب کا انجام مالک حقیقی کی طرؾ سے آنے والے عذاب کا وسیلہ اور دعوت نامہ تصور کیا جاتا ہے اور یہ ایسی مؽرور روحوں کی ہالکت پر منتج ہوتا ہے۔

* * * * *

وہ جب ایک گروہ کی انا ‘ کسی شخص کی اناجو اس کی انفرادی دنیا کو اپنے زیر اثر لے آتی ہے کے ساتھ شانے سے شانہ مال لے تو یہ سب ایک مہیب عفریت کی شکل اختیار کر لیتی ہیں ۔یوں درندہ صفت بن جانے کے بعدکسی روح کی تمام اعلی سے اعلی نیکیاں بھی کالے سیاہ بادل کی طرح ہو

اس قسم کے لوگوں کا اثاثہ ءعلم ‘ جاتی ہیں اور ہر طرؾ گولے اور بم برسانے لگتی ہیں ۔جی ہاں ان کا دل کنکھجوروں ‘ ان کی دولت اکڑ اور دکھالوے کے وسیلے میں ‘ ایک مصنوعی شعاع میں

ان کا حسن و جمال ایک ؼم کا صفحہ بن کر ارد گرد کے ماحول میں ‘ کے بستر میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ان کی عقل جو دوسروں کو دو کوڑی کا انسان بھی نہیں سمجھتی وہ ‘ بدمزگی پھیالنے لگتا ہے

ایک منحوس مسخرے کا لبادہ اوڑھ لیتی۔

Page 205: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

* * * * *

اور پیؽمبری دونوں حق اور انکساری کی ‘ پرانے زمانے سے خودؼرضی کا مادہ پرست فلسفہشدت اور ‘ دھوکہ بازی‘ہچکچاہٹ‘نمائندگی کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ اول الذکر کی راہ میں شک وشبہاتکے ہیبت ناک نتیجے کی طرح ؤ ؼصہ پایا جاتا تھا جس کے باعث وہ برفانی تودوں کے باہمی ٹکرا

قلبی ‘ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں آخرالذکر کی راہ میں روشن خیالیاور ایک دوسرے کی مدد پائی جاتی ہے۔‘ امداد باہمی کے لیے تگ و دو‘مسرت اور بشاشت

* * * * *

روح کی وہ حالت جس میں موقع ملتے ہی کوئی شخص اپنے بارے میں اردگرد کے لوگوں کو معلومات فراہم لگ جاتا ہے دراصل اس شخص میں کسی چیز کی کمی اور احساس کمتری کا اظہار ہے۔ اس طرح کے لوگ جب تک عمدہ قسم کی روحانی تربیت کے ذریعے اپنا سارا مال متاع مالک حقیقی کی راہ میں قربان کرنے کو تیار نہیں ہو جاتے ان کی یہ حالت برابر جاری رہتی ہے۔ان کا ہر

ہر اظہار انکسار اور خاطر تواضع بھی یا تو سراسر دکھالوا ہوتی ہے ‘ ہر بات ببانگ دہل انا‘ کام اکڑاور یا ایک ایسی سرمایہ کاری جس کا مقصد دوسروں کو ان کے بارے میں بڑ مارنا سکھانا ہوتا ہے۔ ہزار لعنت ان خودؼرضوں پر جو حق سے نا واقؾ ہیں ۔

* * * * *

جس طرح خودؼرض انسان کا دوست کوئی نہیں ہوتا اسی طرح اس کے ضمیر کے لیے امن کا بھی فقدان ہوتا ہے۔

منصب مقام کا نشہ

ہر انسان میں بہت سی اچھی چیزوں کے گودے اور بیجوں کی موجودگی کے ساتھ ساتھ بعض قناعت ‘ ہمدردی‘خلوص‘مصلحتوں کے پیش نظر کچھ بری چیزوں کے عناصر بھی موجود ہوتے ہیں ۔ مثال تعاون

شہرت ‘ اپنے منصب کا خیال‘ جیسی عمدہ خصلتوں کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں میں اپنے مقام یا مرتبے کی محبتکی آرزو جیسی دل کو ہالک اور روح کو مفلوج کرنے والی بری خصلتیں بھی پائی جاتی ہیں ۔اس اعتبار سے ہمیں چاہیے کہ اوروں سے اپنے تعلقات استوار کرتے ہوئے ان کی ان طبعی خصوصیات کو بھی مد نظر رکھیں تا کہ ہمیں بعد میں دل شکنی اور مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

* * * * *

اور منصب کا خیال فطری ہوتا ہے ۔ جو لوگ اپنی یہ ‘ شہرت کا احساس‘ کم و بیش ہر انسان میں مرتبے کی آرزواس احساس اور اس خیال سے نجات نہیں ‘ خواہش جائز طریقوں سے پوری نہیں کر سکتے اور اپنے آپ کو اس آرزو

دال سکتے وہ خود اپنے لیے بھی اور اپنے قائم کردہ معاشرے کے لیے بھی بے حد مضر ثابت ہوسکتے ہیں ۔یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی اپنے پیٹ کی گنجائش سے بڑھ کر کھا لے اور پھر اس کے اندر قے کرنے کا رجحان پیدا

کا سبب بن سکتا ہے۔ جن بد لگام دلوں کی (آئےرتھمیا)توڑ پھوڑ اور ‘ ہو جو روکا نہ جائے تو یہ اس میں افسردگی

Page 206: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

روح شان و شوکت کی مار کھا چکی ہو اگر ان کی ان اندرونی خواہشوں کو بھی لگام ڈال کر کسی مناسب راستے پر نہ ڈاال جائے تو ان کے ہاتھوں بھی ہماری دنیا کے حساب میں لکھی گئی بربادیاں ناگزیر ہو جاتی ہیں ۔

* * * * *

ایسے نا پختہ روح انسانوں کی ہر حرکت اور کاروائی جو وہ اپنے نفس کی تسکین کے لیے کرتے ہیں اور جو نسبتا اہون ”نتیجے کے اعتبار سے وہ ‘ اسے خواہ کسی حد تک روح کی پٹائی ہی کیوں نہ سمجھا جائے‘شر سمجھی ہے

بلکہ اگر بالواسطہ دیکھا جائے تو وہ اچھائی بھی سمجھی جا سکتی ہے۔جی (یعنی برائیوں میں سے اچھی برائی)“شرتالش کرنے واال ایک موسیقارفحش گانوں سے (یعنی فائدہ حاصل کرنے کا حق)“حق تمتع”ہاں ؟ اپنے حلق کے ذریعے

کوئی جاندار قصیدہ اور ‘ ہمارے ماحول میں پھنکار پھنکار کر دھندال پن اور دھواں پھیالنے کے ساتھ ہی اگر ایک حمدبلکہ ‘ میالد سے متعلقہ کوئی موضوع بھی شامل کر کے سب کچھ اگل دیتا ہے تو ہم اسے کم ضرر رساں سمجھتے ہیں

بعض لوگوں کی نظر میں تو یہ کار ثواب بھی تصور کیا جا سکتا ہے۔

* * * * *

خلوص و اخالص ہرکام کی روح ہوتا ہے اور یہ کام کرنے والے کی ایک خوبی ہوتی ہے۔مگر شرط یہ ہے کہ عمل اور کرنے والے کے ‘ دل و جان سے اور بؽیر کسی بدلے کی نیت سے کیا جائے‘ خالق دو جہاں کے نزدیک مقبول ہو

دل میں رضائے الہی کے سوا کوئی اور عنصر موجود نہ ہو۔البتہ ہر خدمت گزار فرد کا ان شرائط پر کامیابی سے پورا اترنا بہت مشکل ہے۔لہذا ایسے لوگوں کے متعلق رائے قائم کرنے کے لیے یہ دیکھنا چاہیے کہ ان پر شر حکمران ہے

بعض ایسے کام بھی ہوتے ہیں جن کے کرنے میں نمائش اور آالئش کا پلہ بھاری ہوتا ہے تاہم یہ ‘ یا خیر۔ جی ہاں پاکیزہ سوچ اور ہمارے عوام کے لیے واقعی مضر ہیں ۔ایسے ‘دعوی نہیں کیا جا سکتا کہ و ہ کام ہمارے بلند خیاالت

ں اور خواہشات کو ملوث کر سکتے ہیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ رضائے حق کا ؤلوگ ان کاموں میں اپنی ذاتی آرزوخیال نہ کریں اور اپنی کی ہوئی ؼلطیوں کی تالفی کے لیے جھک کر آہ و بکا کرنا نہ جانتے ہوں ۔لیکن اس کے باوجود یہ کہنا بالکل ؼلط ہو گا کہ وہ اپنے عقیدوں اور پیروی کی جانے والی سمتوں کے معاملے میں حق کے ساتھ نہیں ہیں ۔

* * * * *

ان سب باتوں کے باوجود ایک جماعت یا کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے خدمت کرنے والے لوگوں میں سے اگر ہر اور اس کی ‘ کوئی کسی ایسے شعبے کی نمائندگی کا دعوی کر دے جس میں وہ خود مستقل طور پر کام کرتا رہا ہو

دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی اسی طرح نمودونمائش کی خواہش میں مبتال ہو جائیں تو معاشرے کا نظم وضبط برباد ہرشے الٹ پلٹ ہو جاتی ہے۔ اور معاشرہ تیزی سے بد نظمی کی طرؾ چل پڑتا ہے۔ بعدازاں لوگوں کی ‘ ہو جاتا ہے

ں سر ؤخودؼرضی کے باعث معاشرے کے ہر طبقے میں منفرد حرکات کی راہ کھل جاتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پاں کے ساتھ خلط ملط ہو جاتے ہیں اور مرکز کا اقتدار مکمل طور پر تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ؤکے ساتھ اور سر پا

* * * * *

یا کسی ‘ کسی ریاست میں کام کرنے والے فعال عناصر‘ اگر کسی حکومت میں کامیابی سے کام کرنے والے چہرےتنظیم میں پائے جانے والی کامیاب اور متحرک روحیں اپنی ذاتی قابلیت اور کامیابیوں کے مطابق اپنے لیے بہترین

اور وہ تنظیم سو ‘ وہ ریاست تباہ ہو جاتی ہے‘ حصہ طلب کرنے لگ جائیں تومتعلقہ حکومت مفلوج ہو کر رہ جاتی ہےاور ‘ ہر ریاست اپنے اصولوں اور اپنی بنیادوں کے باعث‘منہ واال عجوبہ بن جاتی ہے۔ حکومت اپنے ڈسپلن کے بل پر

فرمانبرداری اور حکم و احکام کی بناءپرعزت و احترام کے ساتھ قائم رہتی ہے۔ اس کے برعکس دعوی ‘ہر فوج اطاعتکرنے کا یہ مطلب ہو گا کہ ہم جان بوجھ کر ان حیاتی عناصر کو نظرانداز کر رہے ہیں جو ہماری روزبروز کی بقاءکی ضمانت دیتے ہیں ۔

* * * * *

کاش کہ لوگوں کے دل اس قابل ہوتے کہ ہللا تعالی کی عنایت کردہ اور آئندہ عنایت کی جانے والی اشیاءپر قناعت کر مگر یوں لگتا ہے کہ یہ ایک طرح کے ! ہر گوشے میں اس کی خوشنود ی تالش کرنے کے قابل ہوتے‘ سکتے

Page 207: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

خودؼرض لوگ جو اپنے ہاتھوں میں پکڑی اللٹین کی بجھی بجھی روشنی پر قناعت کرتے ہو ئے سورج کی منور ‘ شعاعوں کی طرؾ سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں یہ ابھی مزید کچھ عرصہ اپنی کمزور نظر کا عالج نہیں کروا سکیں گے

۔۔۔۔!روشنی کا دروازہ نہیں پا سکیں گے

دیت کی چاہ پچ

جس کی عظمت تمام کائناتوں ‘ خالق اعظم جس کی ہستی ہماری ہستی کا سبب ہےسارے آسمان اور زمین اسی کے نور کے عکس ‘ جس کا نور ہر شے میں نمایاں ہے‘ پر حاوی ہے

سے منور ہیں ۔تمام کی تمام موجودات اسی کی دست بستہ ؼالم ہیں ۔ وہ ان پختہ روحوں کا ابدی محراب ہے جن کے دل حقیقت کو پا چکے ہیں ۔ وہ ان عارفوں کی جانی پہچانی یکتا ہستی اور یکتا قبلہ ہے جن کے احساسات نے انہیں پر لگا کر اڑنے کے قابل بنا دیا ہے۔۔۔۔

اسے چھوڑ کر دوسروں کے پیچھے بھاگنا پاگل پن ہے۔اس کے عالوہ کسی اور کے آگے اپنے ؼموں اور دکھوں کا اظہار کرنا دھوکہ کھانے کے برابر ہے۔جو اس کے دروازے کو چھوڑ جاتے ہیں وہ ابدی نقصان اٹھاتے ہیں اور منزل کے راستے پر ہی بھٹکتے رہتے ہیں ۔ وہ دل جو اس کے نور سے منور نہیں ہوتے سراب کے پیچھے بھاگتے ہیں اور خواہ مخواہ تھکاوٹ کا شکار ہیں ۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام کائناتیں اسی کے نور سے روشنی پاتی ہیں اور ایک کتاب کی شکل اختیار کر لیتی اس کی راہ میں لیے جانے والے جادوئی سانسوں کے بل پر وقت بھی افسانیت سے نکل کر معنے اور قیمت پا لیتا ہے۔

اور ہزارہا ‘ انہیں ایک ترتیب اور نظام کا حصہ بناتا ہے‘وہی ہے جو اشیاءکو وجود عطا کرتا ہےزبانوں میں بولنا سکھاتا ہے ۔اگر وہ نہ ہوتا تو کوئی شے اپنے آپ وجود میں نہ آ سکتی۔ اگر وہ ہر چیز کو ترتیب و نظام کا حصہ نہ بناتا تو کسی شے کو نظام کا پتہ ہی دنہ چل سکتا ۔ یہ اسی کی عنایت ہے کہ تمام کائناتیں ایک انسان کی اور تمام نظام ایک زبان کی شکل اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ہر !شے اسی کے گن گاتی ہے اوراسی کی خوبصورتیوں اور حسن و جمال میں سرمست ہے

اگر موجودات اس کا آئینہ نہ ہوتیں تو پھر اس میں اور زنگ آلودہ لوہے میں کیا فرق رہ جاتا؟ اگر یہ بہرے لوگ ‘ آہ ‘ یہ تاریک روحیں ‘ انسان اس کا ذکر نہ کرے توکیا وہ انسان کہالیا جا سکتا ہے؟ آہ

Page 208: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

تم لوگ کب تک کھلونوں سے اپنے آپ کو تسلی دیتے ! جو اپنے ضمیر کی فریاد نہیں سن رہے !رہوگے اور کب تک حقیقتوں کی طرؾ سے آنکھیں بند کئے رکھو گے

انسان کی اوالد کی تخلیق چونکہ ہر طرؾ سے مادے میں لپٹی ہوئی دنیا میں ہوئی تھی اس لیے وہ سب سے پہلے چیزوں پر یقین کرتا ہے جن کی اس کے حسی عضویات توثیق کرسکتے ہیں ۔ اس کے بعد ان کے معنوں کی مدد سے اپنی گردن کے گرد پڑے انا کے طوق کو توڑ کر اپنے ضمیر کے اندر کی حقیقت کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن بعض اوقات اس پتلی سی زنجیر میں پھنس کر رہ جانے والے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ارد گرد گھیرا ڈالے کھڑی اشیاءہاتھ آئیں تو ایک کتاب کی طرح ان کا مطالعہ کرنا چاہئیے اورایک کورس کی طرح انہیں سننا چاہیے۔ اسے پڑھتے اور سنتے وقت کتاب کے مصنؾ اور کورس کے موسیقار کی طرؾ سے ؼفلت نہیں برتنی چاہیے ۔اس کے

کائنات کو ادھیڑ کر رکھ دینے ‘ ضمیر میں دھڑکتے حقیقت کے سانسوں پر کان دھرے بؽیر‘ برعکساور خود کو دلیلوں میں ڈبو دینے والے بیوقوؾ لوگ کبھی بھی اسے نہیں پا سکیں گے اور نہ ‘ والے

ہی اس کے حضور میں حاضری دے سکیں گے۔انہی لوگوں کی طرح وہ بدبخت روحیں بھی اسے نہیں پہچان سکیں گی جو اس کے بیان اور کتاب کے ساتھ اپنی آنکھوں اور کانوں کے پردوں میں بھی

اپنے ضمیر کے اندر موجود حقیقت تک نہیں پہنچ سکتیں ۔‘ سوراخ کر کے

ہماری آنکھوں میں نور بکھیر کر ہمیں نفسانی ‘ اے اپنی ہستی سے ہماری ہستیوں کو منور کرنے والیاگرتیری کائناتوں کو منور کرنے والی یہ ازلی روشنی نہ ! تاریکیوں سے دالنے والی رحمت الزوال

ہوتی تو ہم کسی شے کو ٹھیک طرح نہ دیکھ سکتے اور نہ ہی کوئی درست فیصلہ کر سکتے۔ ہم سب جو کچھ تو نے ہمیں ! نے تیری ہی عنایت سے وجود پایا۔تیری یہ عنایت ہمارے سروں پر تاج بنی رہے

بتا یاہم نے اسی سے حقیقت کو پایاہے۔ اگر ہم پر عنایت کرتے ہوئے تو ہماری روحوں کو اپنی ہستی کیسے اطمینان ہوتا۔۔۔؟‘ سے روشناس نہ کراتا تو ہمیں کہاں سے پتہ چلتا

ہر ہستی کے لیے ایک زبان اور ان زبانوں کے درمیان انسان کو ایک بلبل بنانے واال تو ہے۔ تیرذکر یہ کام کرنے کے بعد تونے چاروں سمت میں بکھری ‘ جی ہاں ! کرنے والوں کی تعداد کبھی کم نہ ہو

ہوئی اپنی آیات کو پڑھوایا اور ہماری ضمیر میں ابدی حقیقت کو ایک بار پھر ہمارے کانوں تک اس وسیلے سے ہم خالق اور مخلوق کے باہمی رشتے سے آگاہ ہو جاتے اور ہمارے دلوں میں ! پہنچایا

بہتے معرفت کے فواروں کے ذریعے بلند ہو کر تیرے پاس پہنچ جاتے ہیں ۔ اور پھر اسی وسیلے سے احساسات کی گرداب کی طرح چکر کاٹتی جہالت اور نا دانستگیوں ‘ نفس کی تاریک بھول بھلیوں سے

سے نجات پا کر اپنے آپ کو محفوظ کر لیتے ہیں ۔تجھے سمجھ کر ہم نے علم کا نچوڑ حاصل کیا اور ان خوبصورتیوں سے آگاہ ہوئے جو تونے مختلؾ اشیاءکی روح میں پیدا کر رکھی ہیں ۔اور اگر اب ہم نے موجودات کی ہستی میں پوشیدہ تیری حکمتوں کو جان لیا ہے اور ہم فطرت میں موجود ہر صدا میں پائے جانے والے سب سے میٹھے نؽموں کو موسیقی کے دلفریب ماحول میں سن سکتے ہیں تو یہ سب کچھ ہمیں تیری ہی طرؾ سے مال ہے۔ ہماری روحیں قربان ہوں اس ذات پر جو ہمیں یہ سب کچھ !سنواتی ہے

یہ پرشکوہ کتاب جو تو نے ہمارے سامنے پھیال رکھی ہے اس میں تونے اپنی بے مثال خوبصورتی کے مرقعوں کی مدد سے اپنی خوبصورتی کی تشہیر کر کے ہمارے دلوں میں جوش پیدا کیا ہے۔تونے ہماری زبان کی گرہیں کھول کرہمیں یہ شرؾ عطا کیاہے کہ ہم تیری ان خوبصورتیوں کو داستانوں کی شکل دے کر اپنا حق ادا کریں ۔تیرے بے مثال جمال کی تشہیر کرنے والی کائنات کی اس کتاب کا

Page 209: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

اور اس کتاب کو ‘ بارہا تیری ہستی کے گن گاتے نؽمے سنتے رہیں ‘ ہم سینکڑوں مرتبہ مطالعہ کریں اور نؽموں کو بار بار تیرے دیدار کے مشتاق لوگوں کی نظروں کے سامنے پیش کرنے کے لیے اپنے

پھر بھی ہم تجھے ‘ ں پر پر لگوالیں پھر بھی ہماری اس نورانی ماحول کی دپیاس نہیں بجھے گیؤبازوتجھ پر کان دھرنے کے لیے تیری ہی طرؾ بھاگیں گے اور تیری راہ کے حسرت ‘سننے کی خاطر

بھرے سودائیوں کی حیثیت سے ہمیشہ تیرا ہی نام گنگناتے رہیں گے۔

آج تک !کہ جس نے اپنی ہستی کی پوشیدہ خوبصورتیوں سے ہمارے دلوں کو آگاہ کیاہے‘ اے سلطانبارہا تیرے عشق کے پیاسوں کے دلوں کو آب کوثر کے کٹوروں کے ‘ہزارہا مرتبہ تیرا ذکر سنایا گیا

مگر وہ چمکتی دمکتی روحیں جو تیری راہ میں چل چل کر مٹی بن چکی ہیں ‘کٹورے پیش کیے گئےاس شکستہ ‘ ں کی طرح چلتے نؽموں کے مقابلے میں اس تھکی ماندی آوازؤان کے جنت کی ہوا‘

اور اس اناڑی ہاتھ کاذکر کس کام کا؟ لیکن یہ تو ہے جس نے ہر شخص کو بات کرنے کا حق ‘ ربابتیرے نقیبوں اور ‘ ہم تیری درگزر کرنے کی وسعت کو اپنے بے شرم چہرے کا نقاب بنا کر‘ عطا کیا

سنانے کی جرات کرتے اور تیری “ ٹوٹا پھوٹا نؽمہ”نمائندوں کے فصیح و بلیػ بیانات کے دوران اپنا بخشش کی پناہ مانگتے ہیں ۔

تاہم اس موضوع پر آخری لفظ انہیں کا ہو گا۔ ہم ایک مرتبہ پھر اعتراؾ کرتے ہیں کہ صورت حال اور تیری معرفت کے ‘ یہی ہے۔ ان دکے آبشاروں جیسے بیانات کے دوران ہم ازسرنو تیرا ذکر کرنے

بے کراں سمندروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

ان کی آوازوں پر کان ‘ آج تک ہم تیرا بیان کرنے والوں میں سے کچھ نقیبوں کی بات سن چکے ہیں رکھتے ہوئے ان کے اشاروں کو بھی ٹوہتے رہے ہیں ۔ اب ہماری خواہش یہ ہے کہ ہمارے دلوں تک کھلنے والے ہر راستے کو ایک ایک کھڑکی تصور کرتے ہوئے تیرے مختلؾ اشاروں اور اشارے

اور ‘ ہر جگہ پر تجھے تالش کریں ‘ کرنے والوں کے ساتھ ہر شے سے تیرے بارے میں پوچھیں ایک مختلؾ راہ سے تجھ تک پہنچنے کے لیے بلندیوں کی جانب بڑھتے جائیں ۔ اپنے نور سے ہماری

راستے میں ہی رہ جانے والوں کی مدد ! آنکھوں دکو منور کر کے ہمارے دلوں کو درماں عطا کر کے لیے بھاگ کرپہنچنے والے تیرے در کے ان سچے ؼالموں کو ایک بار پھر یہ امکان عطا کر ‘ دے کہ وہ تیری ذات کو بیان کر سکیں اور یوں اپنے ان ؼالموں کو ابدی خوشی سے ہمکنار کر دے

جن کا یقین ہے کہ تیری راہ ہر شخص کے لیے آزاد نہیں ہے۔ تیری ذات کو عظمت اور ان کی ذات کو نقابت ہی زیب دیتی ہے۔

معیاچی چوح

ہمیشہ ان کی ‘وہ لوگ جو انسانوں کے ذہنوں کو منور کرنے کی راہ میں بھاگ دوڑ کرتے ہیں زندگی کی مختلؾ عمیق ؼاروں میں گرے لوگوں کو ‘ خوشیوں کی خاطر اپنی جان مار کر کوشش کرتے رہتے ہیں

وہ ایسی خود شناس عظیم روحیں ہیں جو اپنے معاشرے کے محافظ مالئکہ ‘ باہر نکالنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں ان طوفانوں کے سامنے سینہ سپر ہو جاتی ہیں اور ان انگاروں پر ‘ کی طرح ان تمام مصائب سے پنجہ آزما رہتی ہیں

Page 210: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

چلتی ہیں جو معاشرے کو گھیرے رکھتے ہیں ۔ معاشرے کو جن جھٹکوں کا خوؾ الحق رہتا ہے یہ لوگ ہمیشہ ان سے نپٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔

* * * * *

پیشے کے انتخاب میں ترجیح کے معاملے میں اس بات کو اولین معیار بنا لینا چاہئیے کہ کوئی پیشہ ہدایت سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں ۔اس سے پتہ چلے گا کہ حقیقت کا کس حد تک لحاظ کیا گی ہے اور آپ کتنے قدر شناس ہیں ۔ جو

اس راستے پر بؽیر لرزش کے راواں دواں ‘ لوگ ماحول کی دوسری جاذب نظر اشیاءکے بالوے پر توجہ دئیے بؽیر۔رہتے ہیں وہی مستقبل کے خوش بخت معمار ہوں گے

آچام طلبی

ہر عظیم دعوے اور حقیقت کو دوام عطا کرنے اور اسے ایک بین االقوامی اور ‘ان کی صداقت‘ اس کے نمائندوں کے ارادوں کی پختگی: شناخت دلوانے والے عناصر یہ ہیں

متعلقہ دعوے اور حقیقت کا دفاع کرنے میں ان کی کوششیں ۔ اس کے برعکس کوئی دعوی اگر ایک طرؾ تو دشمنوں کے لگاتار حملوں اور زیادتیوں کی زد میں آتا رہے اور دوسری طرؾ

‘ صادق اور وفادار دوستوں سے محروم ہو تو جلد یا بدیر وہ دھڑام سے زمین پر آ رہے گا‘سمجھدارکہ یہی اس کی قسمت میں لکھا ہو گا۔‘ لوگوں کے ذہنوں سے مٹ جائے گا

* * * * *

جس طرح اپنی روانی کھو کر ساکن ہو جانے والے پانی سے بدبو آنے لگتی ہے اور وہ خراب ہو جاتا ہے اسی طرح وہ سست انسان جو اپنے آپ کو تن آسانی کے حوالے کر دیتے ہیں ان کا بھی گل سڑ کر ضائع ہو جانا یقینی ہوتا ہے۔انسان میں آرام طلبی کی آرزو اس کی موت کے خطرے کی پہلی گھنٹی اور اشارہ ہوتی ہے۔لیکن اگر ایک شخص کے احساسات مفلوج ہو چکے ہوں تو نہ وہ خطرے کی اس گھنٹی کی آواز سنتا ہے اور نہ ہی اس اشارے کا مطلب سمجھتا ہے۔ قدرتی بات ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی تنبیہ اور خبردار کرنے پر بھی کان نہیں دھرتا۔

* * * * *

ہر طرح کی ذلت اور محرومی کی وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ سستی اور تن پرستی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مردہ روحیں جو اپنے آپ کو راحت اور آرام طلبی کی گود میں دھکیل دیتی

Page 211: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

ایک دن آئے گا کہ وہ اپنی اہم ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی دوسروں پر امید لگائے ‘ ہیں بیٹھے رہنے جیسی ذلت سے دو چار ہوں گی۔

* * * * *

اس سستی اور آرام طلبی کی عادت میں اگر حد درجے کی خانہ پرستی بھی شامل کر لی جائے تو سمجھ لیں کہ باآلخر خط دفاع کو ترک کرنے کا وقت آ پہنچا ہے اور متعلقہ شخص کا اپنی روحانی موت سے دوچار ہونا اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے۔ عالوہ ازیں انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ دن بدن پیچھے کی طرؾ جا رہا ہے۔ اور اگر صورت حال کا تجزیہ اس شخص کے زیب تن کئے ہوئے لباس کے اعتبار سے کیا جائے تو وہ بالکل ہی ذلت اور تباہی کا پتہ دے گا۔

* * * * *

جنگ سے محبت اور سرحدوں کو پھیالنے کے جوش و جذبے کی وجہ سے ایک چھوٹے سے قبیلے سے ایک معظم سلطنت معرض وجود میں آئی اور پھر ایک دن آیا جب اس عشق اور آرزو کی جگہ سودائے حرم نے لے لی اور وہ معظم قوم خاک میں خاک ہو گئی۔

* * * * *

حرم کے عشق اور خانہ پرستی کے باعث پہرے کی چوکیاں ترک کرنے والوں نے کئی مرتبہ اپنے ہدؾ کے مخالفین سے مار کھائی اور اپنے آرا م دہ گھروں اور چہچہاتے بچوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔اندلس کا ایک کمانڈر تھا جو جنگ کرنے کی ضرورت پڑتی توجوانمردی سے جنگ کرنا نہیں

محاذ پر تم جوانمردوں ”جانتا تھا۔اس کی ماں نے اسے جو پر عتاب الفاظ کہے وہ کس قدر بامعنی ہیں ۔ “!کی طرح نہ لڑ سکے تو کم از کم بیٹھ کر عورتوں کی طرح رو ہی لو

* * * * *

انسان کو جب تبدیلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ گلنا سڑنا شروع کر دیتا ہے اوریہ عمل آہستہ آہستہ قافلے ‘ نہایت خاموشی سے جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ایک معمولی سی ؼفلت مثال

انسان کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ البتہ بعض لوگ ایسے ‘ سے تھوڑی سی دیر کے لیے علیحدگیبھی ہوتے ہیں جو خود کو ہمیشہ ایک ہی خط پر اور ایک ہی پوزیشن میں دیکھتے رہنے کے عادی ہونے کی وجہ سے اگر کبھی کسی مینار جیسے بلند مقام سے کنویں کی تہہ میں بھی جا گریں تو انہیں

یعنی وہ یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ ابھی تک اپنی پرانی پوزیشن پر ہی )کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا (قائم ہیں ۔

* * * * *

اور جن کے دل میں ہر بھگوڑے سپاہی کی طرح ایک ‘ جو لوگ محاذ جنگ ترک کر جاتے ہیں اور جو اپنے ان ساتھیوں کی تنقید کا شکار ‘ احساس جرم موجود رہتا ہے جو کہ بالکل طبعی ہوتا ہے

ان کے لیے یہ بات ‘ بنے رہتے ہیں جو ابھی تک محاذ پر دفاعی فرائض سرانجام دے رہے ہوتے ہیں بالکل ہی خارج از امکان ہوتی ہے کہ وہ اپنی گمراہی کے بوجھ سے نجات حاصل کر کے تقریبادوبارہ اپنی پہلے والی سطح پر آ جائیں ۔حضرت آدم علیہ سالم نے جب ؼلطی کی تو اپنے قصور کا اعتراؾ کرنے کی وجہ سے انہوں نے ایک ہی جست میں اپنا پرانا مقام پھر حاصل کر لیا۔ اس کے

Page 212: Charaagh e Raah، محمد فتح للہ گولن چراغ راہ

اپنے دفاع کے لیے اٹھ کھڑا ہوا جس کی وجہ سے ‘ مقابلے میں ابلیس اپنی بہت بڑی ؼلطی کے باوجود اسے ابدی نقصان اٹھانا پڑا۔

* * * * *

ارادہ اور شعور مفلوج ہو جاتے ہیں تو اس سے بعض اوقات اس کے اردگرد ‘جب کسی شخص کا عزمکے لوگوں کی جسارت اور معنوی قوت بھی بری طرح متاثر ہوتی دیکھی گئی ہے۔ یہاں تک کہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جو شخص اپنی قوت ارادی کھو چکا وہ اگر معمولی سی پس و پیش کرے یا کسی کام کے کرنے میں ذرا سی ہچکچاہٹ ظاہر کرے تو وہ بے شمار انسانوں کی ایسی کپکپاہٹ اور موت طاری ہونے کو ہو۔اگر ایسی صورت حال پیدا مایوسی کا سبب بن جاتا ہے جیسے ان پر حقیقتاہو جائے تو وہ محض اس کام آ سکتی ہے کہ قوم اور وطن کے دشمنوں کے حوصلے بڑھا کر انہیں اتنی جسارت مہیا کر دے کہ جو ان کی جارحانہ بھوک کو مہمیز لگا کر انہیں ہم پر حملہ کرنے کی تشویق دے۔

* * * * *

ایک امتحان ہیں ۔ اس ‘ مال و اوالد سب اپنی اپنی جگہ ایک فتنہ ہیں ‘ دنیا کی جاذب نظر دلکش اشیائامتحان میں سب سے کامیابی حاصل کرنے والے امیدوار وہ خوش بخت لوگ ہوتے ہیں جو صبح شام

جو عزم وارادے کے پکے ہوتے ہیں اور اپنے ‘ سے رہتے ہیں “ عہدوپیمان”اپنی دلدادہ حقیقت اور ارادے پر ڈٹے رہتے ہیں ۔