muhammad, islam & christianity —...

268
وع س ٰ ! ! , ً 0 ! 9 ! ق, 0 I ! ٰ ! , 0 م! ت ت 0 ! 0 ! v , وہ وع v ! ! ٰ ! , ہر م ک اس ا 0 ! ! 0 @ ا ر ت غ9 ں 9 ٰ ! 0 v ! َ می! ماث ! v ! ! v ! 0 ! 0 ! م، اور, ! 0 0 v v اور ا;ث, ! 0 ! ت ی ک ے ئ 9 0 , 0 ! ک مْ س 0 ی ¯ ا 9 ںَ مْ حَ ¯ ر ل ا م ي جَ ¯ ر ل اThe life of Jesus Son of Mary By One Disciple Translated by Wycliffe A. Singh ح ی س م ل ا ! رث ست م ی ر م 9 ں0 ب ا ف ت ص م

Upload: others

Post on 27-Apr-2020

69 views

Category:

Documents


0 download

TRANSCRIPT

� لفظ پیش� ی� میں حض�ور یس�وع مس�یح جنہیں اہ�� � وس��ط اا دو ہ��زار س��ال پیش�تر مش��رق آاج سے تقریبی� کہتے ہیں معب��وث ہ�وئے ۔ اس وقت وہ��اں پ�ر روم� حک�ومت ک�ا قبض�ہ تھ��ا۔ اسلام حضرت عیس

ی� مس��یح ک� مق��ام� بادش��اہ اور گ��ورنر اس کے م��اتحت ہ� حک��ومت ک��رتے تھے ۔ س��یدنا عیس��آاگ��اہ ہیں۔ بے ش��ک � انسان� کے لئے محبت سےد نیا ک� تم��ام اق��وام آاپ ک� نوع تعلیمات اور ی� مس�یح ک�ون تھے، لیکن غ��یر متعص��ب ااختلاف رائے تو پای��ا جات��ا ہے کہ سیدناعیس� اس امر میں آاپ کے نم��ونہ پ��ر عم�� آاپ ک� تعلیم��ات اور �اس بات پر متفق ہے کہ اگ��ر اشخاص ک� اکثریت کیا جائے ، تو محبت اور رحمدل� کو فروغ ہوگ��ا، اور نف��رت ، ظلم اور غرب��اء ک� استحص��ال میں

خاطر خواہ کم� واقع ہوگ�۔� ذی امو ر کو بیان کرنے ک� کوشش ک� ہے: �d ہذا میں مصنف نے حسب کتا

ی� �ا نجی شریف کے واقعات کا ترتیب وار بیان، قاری کے سامنے حضور س��یدنا عیس�� ا۔مسیح ک� تعلیمات اور خدمات کا ایک مسلس وواضح بیان پیش کرنا ۔

�ا س بات ک� ص��راحت کرن��ا کہ بیم��اروں ک� ش��فا اور غریب��وں کے ل��ئے دردمن��دی d۔ ی� ک� محبت کا مظہر ہیں۔ ی� مسیح کس طرح نوع انسان� کے لئے خدا تعال سے سیدنا عیس

ی� مس��یح کے زم��انہ کے م��ذہب� ، س��ماج� اور ت��اریخ� پس منظ��ر ک��و ج۔ س��یدنا عیس��مختصر بیان کرنا۔

�ا نجی ش��ریف د۔ ان قارئین کے لئے اصطلاحات اور حوالجات کا مفص بیان کرنا جو آاشنا ہیں۔ کے قدیم نسخہ جات ک� اص یعن� یونان� زبان سے نا

�d ہذا ی� مسیح کے نمونہ اور تعلیمات کا اطلاق ۔ کتا ہ۔ موجودہ حالات پر سیدنا عیسی مس��یح ک� شخص��یت کے گہ��رے بھی��د ک��ا درجہ ب��درجہ انکش��اف کی��ا جات��ا میں سیدناعیس��� ہے ۔ ق��ارئین ک��رام س��ے درخواس��ت ہے کہ پ��وری کت��اd ک��ا مط��العہ ک��رکے ہ� وہ کس��� ن��تیجے پ��ر

پہنچنے ک� کوشش کریں۔آایات کو حاشیہ چھوڑ کر لکھا گیا ہے ۔ ت�اکہ الہ�ام� عب�ارت مص�نف بائب مقدس ک� �د امک��ان زب��ان س��لیس اس��تعمال ک� گ��ئ� ہے ۔ بعض آائے ۔ تاح�� ک� تفس��یر س��ے علیج��دہ نظ��ر مشک الف�اظ واص�طلاحات ک� مختص�ر ط�ور پ�ر ض�میمہ میں وض�احت ک� گ�ئ� ہے ۔ ج�و

م� س� م� م� ل� م� ال ـ س�م ـل� م� ال م�ي ـل� ال

The life of Jesus Son of Mary

By One Disciple

Translated by Wycliffe A. Singh

�ت المسیح سیر� مریم �ابن

مصنف

ایک شاگرد مترجم

وکلف اے سنگھ1981

حضرات مزید معلومات حاص کرنا چاہتے ہیں بہتر ہوگا کہ انجی شریف ک� تفاسیر ک� طرفرجوع کریں۔

ی� مس�یح کے ص�حیح �d ہ�ذا ان ق��ارئین کے ل�ئے تص�نیف ہ��وئ� ہے ج�و س�یدنا عیس� کت��ا تاریخ� حالات اور اقوال وافعال ک��و س��نجیدگ� س��ے معل��وم کرن��ا چ��اہتے ہیں۔ اس کت��اd میں جنی� ک� م�دد س�ے حقائق کا ذکر کیا گیا ہے ۔ مص�نف ان پ�ر پختہ یقین رکھت�ا ہے ۔ اور خ�دا تع��الی� مس��یح نے اپ��نے اس طری��ق ک� پ��یروی ک��رنے ک� پ��وری کوش��ش کرت��ا ہے جس ک� س��یدنا عیس��

ابتدائ� صحابہ کرام کو دی ۔� پ�اک کے مط�العہ س�ے ق�ارئین ی� مس�یح ک� س�یرت میری دعا ہے کہ حضور سیدنا عیس

کرام کو بکثرت روحان� برکات حاص ہوں ۔ایک شاگرد ۔

صفحہ

101102104106108110111111115115116117119121

151157158160163164166167168170171172173174174176178179183

222223225226227229231232234237239240241424245246248249251

281285291298299

300

تعارف

قدیم نسخے� یون��ان� س��ے کی��ا گی��ا �انجی شریف کا مروجہ اردو ت��رجمہ ب�راہ راس��ت اص�� مخطوط��ات� ہذا میں بائب شریف کے حوالج��ات دی�تے وقت ہم نے اس��� ت�رجمہ ک��و اس��تعمال کی��ا dہے ۔ کتا

ہے۔آاج آائے ہیں � یون�ان� کس ط��رح اح�اطہ تحری�ر میں �انجی� ش�ریف کے اص� مخطوط�ات

آارہے ہیں ؟ تک کیسے من رعن محفوظ چلے آاپ ک� حی��ات ، تعلیم��ات وف��ات اور ص��عود۱ آاس��مان� کے بع��د ی� مس��یح کے رف��ع ۔ س��یدنا عیس��

آاپ کے آاپ نے اپنے ح�وارئین ک�و ج�و آاسمان� کے متعدد گواہ دیگر ممالک میں پراگندہ ہوگئے ۔ � عالیہ اور ک�ار ہ��ائے مب��ارکہ کے چش��م دی��دگواہ تھے ، رس��ول مق��رر کی��ا تھ��ا اور انہیں فرمودات �انجی شریف کا پیغام جا ں فزا سنائیں۔ چن��انچہ انہ��وں حکم دیا تھا کہ وہ تمام دنیا میں جاکر �ا نجی شریف کا روح پ��رور پیغ��ام پہنچای��ا۔ آاپ کے فرماں کا اتباع کرتے ہوئے تمام دنیا کو نے

ی� اہ چ�الیس س�ال کے ان�در ان�در تم�ام روم� س�لطنت اور مش�رق� ممال�ک میں س�یدنا عیس� نتیجتالمسیح کے نام لیوا مومنین ک� متعددجماعتیں قائم ہوگئیں۔

ی� المس��یح ک� م��ادری زب��ان ارام� میں ت��الیف۲ اا چندمخطوطات منج� جہان س��یدنا عیس�� ۔ ابتد ہوئے اور فلسطین ک� مسیح� جماعتوں میں مستع رہے۔ بعد ازاں ان کا ترجمہ یونان� زب��ان میں

ء کے۸۰ء ت��ا ۵۰موم��نین ک� ان جم��اعتوں کے ل��ئے کی��ا گی��ا جہ��اں یہ زب��ان ب��ول� ج��ات� تھ�۔ � انجیل� ،م��ت� ،م��رقس اور لوق��ا م��رتب ہ��وئے ۔ بع��د ازاں انجی�� ش��ریف بہ درمی��ان تین مخطوط��ات

مطابق حضرت یوحنا اور دیگر پاک نوشتے بھ� تالیف وتحریر ہوئے ۔اا سو سال تک اس�تعمال ہ�وتے رہے اور ۳ � مقدس�ہ ک�۲۰۰۔ یہ مخطوطات قریب ء میں ان تم�ام کتب

فہرست ترتیب دی گئ� جسے اتبدائ� کلیسیائيں متواتر استعمال کی��ا ک��رت� تھیں۔ ان میں اناجی�� ء کے درمی��ان� عرص��ہ میں کلیس��یا۲۰۰ء ت��ا ۸۰اربعہ م��ت� ، م��رقں، لوق��ا اور یوحن��ا ش��ام تھیں۔

کےبزرگ��وں نے متع��دد فاض��لانہ کتب تحری��ر کیں جن میں انہ��وں نے اناجی�� اربعہ س��ے اقتباس��اتپیش کئے ۔

� یون�ان� ک�ا مص�ر ک� کلیس�یاؤں کے تیسری صدی کے وسط میں ان اص� مخطوط�اتی� ک� کلیسیاؤں کے لئے سریان� زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ نیز لئے قبط� زبان میں اور مشرق وسط

لاطین� زبان میں بھ� جو تمام روم� سلطنت میں فروغ پانے لگ� تھ� ، ان کا ترجمہ ہوا۔ وتےPapyrus۔ پہل� ص��دی عیس��وی میں لکھ��نے کے ل��ئے پی��پرس ۴ تعمال ہ کے اوراق اس

(فٹ۳۰تھے ۔ یہ پیپرس کے پودے کے گودے سے بنائے جاتے ۔ ان سے تی��ار ک��ردہ طوم��ار تیس)اا بھیڑ ، بکری بچھڑوں اور ہرنوں ک� کھ��ال کے ب��نے تک لمبے ہوتے تھے۔ بعد ازاں جانوروں مثل

ء ت�ک یون�ان� زب�ان ع�ام ط��ور پ�ر ب�ڑے اور جل�۹۰۰ہوئے طومار بھ� استعمال کئے ج�انے لگے ۔ اا تین ہزار ایک سو نسخے ) (۳۱۰۰حروف میں لکھ� جات� تھ�۔ انجی شریف سے متعلق تقریب

( چ��رم� طوم��ار۲۰۰(پیپرس اور دو س��و )۸۰یا ان کے پارے دستیاd ہوئے ہیں جن میں سے اس� ) ء کا ہے جو مص��ر س��ے دس��تیا۱۵۰dپر جل� حروف میں لکھے ہوئے ہیں۔ سب سے قدیم نسخہ

� اربعہ کے بعض حصص پر مشتم ہیں ان ک��ا تعل��ق ہوا۔ پیپرس کے متعدد اہم نسخے جو انا جیء سے ہے ۔۳۵۰

۔ اہم نسخے ۔ یونان� نسخوں میں سب سے حسب ذی ہیں۔۵ نس�خہ س�ینا۔ یہ نس�خہ چ�وتھ� ص�دی عیس�وی ک�ا ہے۔ اس�ے گذش�تہ ص�دی میں ای�ک

� سینا سے دریافت کیا تھا۔ Tischendorfجرمن عالم ٹشنڈارف نے کو ہنسخہ سکندریہ ۔ یہ پانچویں صدی عیسوی کا ہے۔

۔ نسخوں ک� صحت وسالمیت ۔ دنی��ا میں جت��ن� نکتہ چی��ن� اور اعتراض�ات انجی�� ش��ریف پ��ر۶ کئے گئے ہیں اور کس� کتاd پر نہیں ہوئے ،اس کے باوجود بھ� وہ تمام وکمال اس� طرح قائم رہے ۔ جیس� پہل� صدی عیسوی میں تھ�۔ کتابت ک� غلطی��اں نہ��ایت خفی��ف ہیں اور یہ دنی��ادد علم��ا ء نے کی��ا ہے ج��و یون��ان� زب��ان ک� بہترین کتب میں پائ� جات� ہیں ۔ اس کا اقرار ان جی�� میں مختلف مخطوطات ک�ا ب�اہم مق�ابلہ ک�رتے رہ�تے ہیں۔لیکن کت�اd ک� خفی�ف س�� غلطی�اںآاپ ک� موت اور دفن اور قیامت کےتاریخ� واقعات پ��ر ی� المسیح ک� بنیادی تعلیم یا سیدنا عیس

بالک اثر انداز نہیں ہوتیں۔�انجی شریف کے ترجمے ، قدیم انجیل� مخطوطات سے ایک ہزار سے زیادہ زب��انوں میں ک��ئے۷ ۔

جاچکے ہیں۔ مترجمین ک� س��ہولت کے ل��ئے ان س�ینکڑوں ق��دیم مس�ودوں ک�ا ب�اہم م�وزانہ ک�رکے علماء نے ایک مستند یونان� متن تیار کردیا ہے۔ اس متن کے حاش��یہ میں مختل��ف ق��دیم نس��خہجات میں جو خفیف سے فرق ہیں ان پر بڑی عرق ریزی اور دیانتداری سے تبصرہ کی��ا گی��ا ہے۔ زندہ زبانوں ک� ترق� کےساتھ ساتھ ترجمے بھ� متواتر تبدی ہوتے رہ��تے ہیں ۔ انگری��زی زب��ان میں ت�و ک�ئ� ای�ک ت�رجمے ہیں اور یہ دوس�ری زب�انوں کے ح�ق میں بھ� درس�ت ہیں۔ بعض جاہ� نکتہ�انجی�� ش��ریف نع��وذ بالل��ه یےکرتے ہیں کہ چیں مختلف ترجموں ک� موجودگ� ک� بن��اء پ��ر دع��و� اعتب��ار ہے۔ جیس��اکہ ث��ابت کی��ا جاچک��ا ہے۔ ت��راجم معی��ار نہیں بلکہ ق��دیم مح��رف اور ناقاب��

ی� چاہتا ہے کہ بن� نوع انس�ان اس کے کلام کوس�مجھیں � یونان� معیار ہیں۔ خدا تعال مخطوطات اور یہ صرف اس وقت ہ� ممکن ہے جب وہ ان ک� مادری زبان میں دستیاd ہو۔

آائیے ہم یسعیاہ نب� کے ص��حیفے کے ای��ک ق��دیم نس��خہ ک� دری��افت ک� کہ��ان� س��ے� ق��دیمہ ک� دری��افت آاث��ار سبق سیکھیں کہ کس طرح اس شک وشبہ اور نکتہ چین� کے زمانہ میں

بائب شریف کے نسخہ جات ک� سچائیوں پر سے پردہ اٹھات� جارہ� ہے۔� بہ��ار ک��ا ذک��ر ہے کہ ای��ک نوج��وان ع��رd چ��رواہے نے جس ک��ا ن��ام۱۹۶۷ ء کے موس��م�ہ م��ردار کے مش��رق� س��اح کے ق��ریبMuhammad Adh-Dhibمحم��د عظب تھ��ا۔ بح��ر

آاٹھ می پر ایک غار دریافت ک� جو علماء میں اd قمران ک� غار کے نام س��ے dیریحو کےجنو مشہورہے۔ اس ک� ایک بھیڑ ڈھلوان پر بھٹک گئ� تھ�۔ جب وہ اپن� بھیڑ ک��و تلاش کررہ��ا تھ��ا ت�و اس��ے ایس�� ق��دیم ت��اریخ� دس�تاویزات ہ��اتھ لگیں ج�و اس س�ے پیش��تر انس�ان ک�و کبھ� نہ مل�

�ر م��ردارکے طوم��ار " ہے۔ ء میں اس ل��ڑکے کے ب��دوی۱۹۵۶تھیں۔ اd ان دستاویزات کا نام " بحقبیلہ تعمیرہ نے اس قسم ک� مزید غاریں دریافت کیں۔

�ہ مردارکے طوم��ار " ک� تحقی��ق ک��ررہے تھے ای��ک پروفیس��ر ان علماء میں سے جو " بحرآاپ فرماتے ہیں کہ ۱۹۲۴ تھے جو Giza Vermes گیزہ ورمشن ء کو ہنگری میں پیدا ہوئے ۔

آاس��تر ک� کت��اd پ��ائ� "قم��ران کے ب��ائبل� طوم��ار میں عہ��د ع��تیق ک� تم��ام کتب ماسواجات� ہیں۔اور یہ ان تمام نسخوں س�ے ج�وا d ت�ک دری��افت ہ��وئے تھے ای�ک ہ��زار س��ال پ�رانے ہیں۔� ح��ال اختی��ار ک� ماہرین نے وہ طریقہ دری��افت کی��اہے جس س��ے بائب�� مق��دس نے موج��ودہ ص��ورت ہے۔ مزید براں وہ یہ بھ� ث��ابت کرس��کتے ہیں کہ وہ ف� الحقیقت وہ� ہے ج��و دو ہ��زار س��ال پہلے

تھ�۔" آاج بھ� ف� � یون���ان� ہمیں یہ بھ� یقین ہے کہ انجی��� ش���ریف کے ق���دیم مخطوط���اتی� نے اپ��ن� ی� المسیح کے حواریوں کے زمانہ میں تھے۔ الل��ه تع��ال الحقیقت وہ� ہیں جو سیدناعیس

بڑی رحمت سے انہیں زمانے ک� دست برد اورشکست وریخت سے محفوظ رکھا ہے۔

--------------

آاخری صفحے کا عکس انجی شریف بہ مظابق حضرت یوحنا کے

اس قدیم مسودہ کا نام " نسخہ سینائ� " ہے۔ اور یہ چوتھ� صدی سے تعلق رکھتاہے ۔

)با اجازت ۔ برٹش میوزیم۔ لندن(

یونان� میں�انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا کا پہلا رکوع

)با اجازت ۔ یونا ئٹيڈ بائب سوسائٹیز(

ی� المسیح ک� ولادت ک� بشارت بتولہ مریم کو سیدنا عیس

� فلسطین کے گلی کے علاقہ میں ناصرت ای��ک چھوٹ��ا س��ا قص��بہ ہے اور اس��درلون ملک کے می��دان� س��رے ک� پہ��اڑیوں میں گھ��را ہ��وا ہے۔ ان پہ��اڑیوں س��ے ارد گ��رد کے تم��ام علاقہ ک��ا�ہ مشاہدہ بخوب� ہوسکتا ہے۔ اگر مطل�ع ص��اف ہ��و ت�و اس زرخ�یز می�دان کے پ�رے ش�مال میں ک�و�ہ کرم کے پار بح�یرہ حرمون ک� برف پوش چوٹیاں بھ� صاف دکھائ� دیت� ہیں۔ مغرd میں کوآامدو رفت رہت� ہے ۔اس زمانے میں دمشق کے روم ک� بندرگاہیں جن میں ہر وقت جہازوں ک� مشہور شہر ک� طرف جاتے ہ��وئے تج��ارت� س��امان س��ے ل��دے پھن��دے اونٹ��وں کے ق��افلے بھ� دیکھے جاس��کتے تھے۔ ان تین ش��اہراہوں میں س��ے ج��و س��مندر کے کن��ارے عک��و سےدمش��ق ک��و

جات� تھیں ۔ ایک ناصرت کے جنوd سے چھ می کے فاصلہ پر گزر ت� تھ�۔ اس غیر معروف قصبہ ناصرت میں خ��دا ت��رس حض��رت م��ریم ص��دیقہ رہ��ائش پزی��ر تھیں ۔

جنہیں مسیح موعود ک� باکرہ بننے کا شرف حاص ہونے والا تھا۔آام��د کے سالہاس��ال انتظ��ار اور امی��د کے ب��اعث ب��ن� یہ��وداہ ک� اک��ثر مس��یح موع�ود ک� نوجوان کنواریوں کے دل دھڑک�تے رہ��تے تھے۔ وع��دہ یہ تھ��ا کہ المس��یح ب��ن� یہ��وداہ ہ� کے ای��کآاپ کس گھ��ر گھرانے میں پیدا ہونگے ۔ لہذا اکثرلوگوں کے ذہن میں یہ سوال مچلتا رہت��ا تھ��ا کہ

میں کس عورت کے ہاں اور کب پیدا ہونگے ؟دا س��ے یہ وع�دہ کی��ا گی��ا تھ��ا کہ دول حض��رت ح��و اام ا آافرنیش ہ� سے نوع انس��ان� ک� �ز رو

"آایت ۳)بائب مقدس کتاd پیدائش رکوع "عورت ک� نس *۔1(۱۵ � مریم کو پیش کرتے وقت مصنف نے بائب مق�دس ج��و ت��وریت ، زب��ور ص�حائف الانبی�اء اور انجی�*۔1 � المسیح ابن سیرت

آایات کے حوالجات خطوط � نظر ان آایات کا اقتباس کیا ہے ۔ قارئین ک� سہولت کے پیش شریف پر مشتم ہے متعدد اا پی�دائش رک�وع آایت ۳ودان� میں دئے گ�ئے ہیں۔ مثل ک�امطلب یہ ہے کہ یہ عب�ارت بائب�� مق�دس کے اس حص�ے کے۱۵

آایت میں پائ� جات� ہے۔ جو "پیدائش" کے نام سے مشہور ہے۔ تیسرے باd ک� پندرہویں

ی� اور ب�ن� ن�وع انس�ان دون�وں ک�ا دش�من ہے س�ر کچلے گ�۔ بع�د ابلیس جوکہ خدا تع��ال� مب��ارک ک� پیش��ن آام��د ی� المس��یح ک� ازاں انبیاء کرام نے بھ� بارہا مسیح موعود یع��ن� سیدناعیس��

اا سال قب ازمسیح یسعیاہ نب� نے فرمایا تھا۔۷۰۰گوئ� ک� ۔ تقریبآاپ تم کو ایک نشان بخش�ے گ�ا۔ دیکھ�و ای�ک کن�واری ح�املہ ہ�وگ� اور بیٹ�ا ی� خداتعال

آایت ۷)بائب مقدس صحیفہ حضرت یسعیاہ رکوع پیدا ہوگا۔" (۔۱۴ ی� س��ے گہ��را لگ��اؤ بتولہ مریم ایک پاک دل اور پاک دامن دوشیزہ تھیں۔ انہیں خ��دا تع��ال

دولین سمجھت� تھیں۔ � ا آاوری اپنا فرض تھا وہ اس ک� عبادت اور اس کے احکامات ک� بجا ایک دن جب وہ اپنے مکان میں تنہا تھیں تو اچانک جبرائی فرشتہ ان پر ظ��اہر ہ��وا۔ اس سے چھ ماہ پیش�تر ص�دیقہ م�ریم ک� رش�تہ دار حض�رت الیش�بع کے خاون�د حض�رت زکری�ا پ�ر بھ� اس� فرشتہ نے ظاہر ہوکر بشارت دی تھ� کہ اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوگا ح��الانکہ دون��وں می��اں بی��ویی� ن��ب�( عمر رسیدہ تھے۔ یہ لڑکا جو ان کے ہاں پیدا ہونے والا تھا ۔حضرت یوحنا اصطباغ� )یحیی� کے مق��رd فرش��تہ ہیں۔ جنہیں وہ ق��دیم زم��انہ میں اپ��نے وف��ادار تھے۔حض��رت جبرائی�� خ��دا تع��الخادموں کے پاس ان ک� حوصلہ افزائ� کرنے اور ان تک پیغام پہنچانے کے لئے بھیجا کرتا تھا۔

خدائے رحیم ورحمان نے اپنے بے شمار فرشتگان میں سے حضرت جبرائی ہ� کو بت��ول�انجی�� ش��ریف کے مریم کے پاس یہ خاص پیغ��ام دے ک��ر بھیج��ا کہ وہ ای��ک بی��ٹے ک��و جنم دیں۔

میں اس کا ذکر یو ں ہے۔ *1پرانے نسخہ جات پر پیش لفظ دیکھئے۔۳۔صفحہ نمبر *1

آاکر کہا سلام وعلیکم ورحمتہ الله وبارکات� ۔ تم پ��ر ب��ڑا فض�� آاپ کے پاس "فرشتہ نے ہوا ہے ، پروردگار تمہارے ساتھ ہیں ۔

حضرت مریم صدیقہ فرشتہ کا یہ کلام سن کر گھبرائیں اور سوچنے لگیں کہ یہ کیسا سلام ہے ۔آا پ س�ے فرمای��ا: م�ریم تم خ��وف نہ ک��رو تم پ��ر پروردگ�ار ک� مہرب�ان� ہ��وئ� ہے۔تم لیکن فرشتہ نے ی� رکھنا۔ وہ ب��زرگ ہوگ��ا اور پروردگ��ار ک��ا حاملہ ہوگ� اور تمہارے بیٹا پیدا ہوگا تم اس کا نام عیس

�ل یعق��وd*1بیٹا آا کہلائے گا، رd العالمین اس کے باپ داؤد کا تخت اس��ے دیں گے ۔ اور وہ کے گھرانے پر ہمیشہ تک حکمران� کرے گا۔ اور اس ک� بادشاہ� کبھ� ختم نہ ہوگ�۔

dوا�تہ نے ج�حضرت مریم نے فرشتہ سے یہ پوچھا کہ یہ کس طرح ہوگا ؟ میں تو کنواری ہوں۔ فرش ی� ک� ق��درت تم پ�ر س�ایہ ڈالے گ�، اس ل�ئے وہ � پاک تم پ�ر ن�ازل ہ��وگ� اور خ�دا تع��ال دیا کہ روحی� کا محبوd کہلائے گا۔اور دیکھو ! تمہ��اری رش�تہ دار الیش�بع کے مقدس جو پیدا ہوگا خدا تعال بھ� بڑھاپے میں بیٹ��ا ہ�ونے والا ہے اور جس�ےلوگ ب�انجھ کہ��تے تھے وہ چھ م�اہ س�ے ح��املہ ہے۔ کیونکہ پروردگار کے نزدیک کچھ بھ� غير ممکن نہیں۔ حضرت م��ریم ص��دیقہ نے ج��واd دی��ا :آاپ نے فرمایا ہے الل��ه ک��رے ویس��ا ہ� ہ��و ! تب فرش��تہ ان کے میں پروردگار ک� بندی ہوں ، جیسا

پاس سے چلا گیا۔ آایت ۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع (۔۳۸تا ۲۸

دیکھئے۔۷ پر نوٹ نمبر ۲۹۴ صفحہ نمبر *1

بتولہ مریم ک� پروردگار کے فرمان ک� اطاعت اور اپ�نے جس�م میں اس معج�زه ک�و قب�ولآامادگ� ، نہ صرف جسمان� تکالیف ،بلکہ عوام کے نزدی��ک ان ک� رس��وائ� ک��ا ب��اعث کرنے پر بھ� بن سکت� تھ�۔ صدیقہ مریم پہلے ہ� حضرت یوسف سے جوکہ حضرت داؤد ک� نس سے

تھے منسوd تھیں۔ لیکن وہ ہنوز ناصرت میں اپنے گھر ہ� میں اقامت پذیر تھیں۔ جس طرح مشرق� ممالک کے دیہاتوں میں دستور ہے ،ناصرت میں بھ� لڑکیاں م ک��ر پ�ان� بھ��رنے ج��اتیں، چرخ��ا ک�ا تیتں بچ��وں اور بی��اہ ش��ادی کے متعل��ق ب�اتیں ک�رت� تھیں۔ وہ ای��ک دوسرے کے بارے میں سب کچھ جانت� تھیں۔ کس� بھ� حس�اس ل�ڑک� کے احساس�ات ک�و مجروح کرنے کے ل��ئے اتن��ا ہ� ک��اف� تھ��ا کہ لڑکی��اں اس�ے دیکھ ک�ر ای��ک دم خ��اموش ہوج��ائیں، اشاروں اشاروں میں باتیں کریں، اور اسے گہری تیکھ� نظ��روں س��ے دیکھ��نے لگیں۔ چن��انچہ اس میں حیران� ک� کوئ� بات نہیں کہ صدیقہ م��ریم جل��د ی س��ے پہ��اڑی مل��ک میں یہ��وداہ کے اس شہر کو کیوں گ��ئیں جہ��ان ان کے رش��تہ دار حض��رت زکری��ا اور ان ک� اہلیہ حض��رت الیش��بع رہ��تے

آایت ۱ھے۔)انجی شریف ، بہ مطابق حضرت لوقا رکوع ت اا (۔۳۹ دن ک��ا س��فر۴ت��ا ۳ یہ ناصرت سے تقریبتھا۔

آاگاہ کردیا تھا کہ ان ک� رشتہ دار حضرت حضرت جبرائی نے صدیقہ مریم کوپہلے ہ� آائ� اا ص��دیقہ م��ریم اس امی��د س��ے یہ��اں الیشبع جو عمر رسیدہ اور بانجھ ہیں اd حاملہ ہیں۔ غالب�� تھیں کہ ان کے رشتہ دار حضرت الیشبع اور حضرت زکریا ان ک� زچگ� کے بھید ک��و بہ��تر ط��ور پر سمجھ سکیں گے ۔ یہاں وہ لوگوں ک� انگشت نم�ائ� اور غ�یر ش�ادی ش�دہ ل�ڑک� کے ح�املہ ہونے ک� ندامت سے محفوظ رہیں گ� ج�و اپ�نے گ�اؤں میں رہ�تے ہ�وئے انہیں بہ�ر ص�ورت اٹھ��ان�

پڑت�۔

ی� نب�( ک� ولادت حضرت یوحنا اصطباغ� )یحیاا �ر حک��ومت میں۵تقریب قب�� از مس��یح میں فلس��طین کے بادش��اہ ہ��یرودیس اعظم کے دو

میں ام�امت کے ف�رائض*1حض�رت الیش�بع کے خاون�د حض�رت زکری�ا یروش�لیم ک� عظیم ہیک�ی� کے بھائ� حضرت ہ��ارون ک� انجام دے رہے تھے ۔ حضرت زکریا اور ان ک� اہلیہ حضرت موس آال میں سے تھے جو بن� اسرائي کے ابت��دائ� دور میں ام��ام اعظم تھے۔ حض��رت زکری��ا اور ب� ب�ی� کے آاوری پ��ر ب��ڑی س��خت� س��ے کاربن��د تھے اور خ��دا تع��ال الیش��بع دون��وں دی��ن� ف��رائض ک� بج��ا احکام کوہر بات پر مقدم سمجھتے تھے ۔ لیکن ای��ک افس��وس ن��اک ب��ات یہ تھ� کہ وہ بے اولاد تھے اور عمر ک� اس حد کو چھورہے تھے جہاں اولا دک� قطع� امید نہیں رہت�۔لہ��ذا پیٹ کے

پھ سے وہ بالک مایوس ہوچکے تھے۔ ۔ بیت المقدس ک� بڑی عبادت گاہ۔*1

اپنےزمانہ کے خدا ترسوں ک� طرح حضرت زکریا بھ� ، خدا سے اپنے پ��ورے دل، اپ��ن�ی� جان اور پوری عق سے محبت رکھتے تھے۔ وہ بھ� اس انتظ��ار اور امی��د میں تھے کہ خ��دا تع��ال

� موعود کو بھیجے۔ � زار پر ترس کھائے اور مسیح کب اپن� امت ی حالت

ہیک میں امامت کے فرائض انجام دینے کے لئے ابیاہ کے فری�ق کے ام�اموں ک� ب�اری تھ�۔ حضرت زکریا اس� فریق سے تعلق رکھتے تھے ۔ اس دفعہ قرعہ خدمت ان کے نام پ��ر پ��ڑا کہ وہ بیت الله کے اندر پاک مقام میں جاکر بخور جلائیں۔ جب حضرت زکریاپاک مق��ام میں داخ�� ہوئے تو اس وقت جماعت باہر دعا ونماز میں مشغول تھ�۔خوشبو کے مذبح کے نزدی��ک پہنچ��تے�م ہ� ان پر اچانک سکتہ طار ی ہوگیا۔ مذبح کے دہ��ن� ط��رف پروردگ��ار ک�ا فرش��تہ کھ��ڑا تھ��ا۔ کلا

مقدس میں اس منظر ک� یوں نقاd کشائ� ک� گئ� ہے ۔ی� �ہ الہ آاپ سے مخاطب ہوکر فرمایا: زکری��ا ڈرومت ،تمہ��اری دع��ا بارگ��ا " لیکن فرشتہ نے میں سن� گئ� ہے ۔ تمہاری بیوی الیشبع سے تمہارے لئے ایک بیٹ��ا پی��دا ہوگ��ا اور تم اس ک��ا ن��امی� رکھن��ا ، وہ تمہ��ارے ل��ئے خوش��� اور مس��رت ک��ا ب��اعث ہوگ��ا اور بہت س��ے ل��وگ ا س ک� یح��ی� عظمت ٹھہ��رے گ��ا۔ � عالم ک� نظر میں صاحب ولادت سے خوش ہوں گے۔کیونکہ وہ پروردگار�ح پاک سے معمور ہوگ��ا وہ مے اور شراd سے ہمیشہ دور رہے گا اور اپن� ماں کے پیٹ ہ� سے روآائے ۔ وہ بن� اسرائی میں بہت س��ے اف��راد ک��و پروردگ��ار ک� ط��رف ج��و ان ک��ا رd ہے واپس لے آاگے چلے گاتاکہ وال��دوں کے دل ان ک� آاگے گا۔ اور الیاس نب� ک� روح اور قوت میں اس کے اولاد ک� طرف اور نا فرمانوں کو متق� اور پرہیز گاروں ک� طرف پھیر دے اور پروردگار کے لئے

مستعد امت تیار کردے ۔ حضرت زکریا نے فرشتے سے کہا :میں کیسے یقین کروں؟ میں تو بوڑھا ہ��وں اور م��یری زوجہ بھ� عمر رسیدہ ہے ۔ فرشتہ نے فرمایا: میں جبرائی�� ہ��وں، میں رd الع��المین کے حض��ور کھ��ڑا رہت��ا ہ��وں مجھے اس ل��ئے بھیج��ا گی��ا ہے کہ میں تم س��ے کلام ک��روں اور تمہیں یہ خوش��خبری س��ناؤں۔ اور دیکھ��و ! جب ت�ک یہ ب�اتیں وق�وع نہیں ہ��وتیں تمہ��اری زب��ان بن��د رہے گ� اور تم ب�ول نہ س��کوگے

کیونکہ تم نے میری ان باتوں کا جو اپنے وقت پر پوری ہونگ� یقین نہ کیا۔ عبادت گزار باہر حضرت زکریا کا انتظار کرتے ہوئے متعجب تھے کہ وہ مقدس میں اتن�آاک��ر ان س��ے کلام نہ کرس��کے ۔بلکہ اش��اروں میں ب��اتیں دیر کیوں لگ��ارہے ہیں۔ لیکن جب وہ ب��اہر

ک��رنے لگے ت��و انہیں احس��اس ہ���واکہ انہ��وں نے بیت الل��ه میں روی��ا دیکھ� ہے۔ بع���د ازاں جب حضرت زکریا اپنے فرائض کو انجام دے کر اپنے گھر تشریف لے گئے تو جلد ہ� ان ک� اہلیہ ب�

ب� الیشبع حاملہ ہوگئیں۔ لیکن انہوں نے اس بات کو پانچ ماہ تک چھپائے رکھا اور کہا۔ "جب پروردگار نے میری رس�وائ� لوگ�وں میں دور ک�رنے کے ل�ئے مجھ پ�ر نظ��ر ک� ۔ ان

(۔۱۵ تا ۱۳آایت ۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع دنوں میں اس نے میرے لئے ایسا کیا ۔ "

جس بچے کا وعدہ حضرت زکریا سے کیا گی��ا اور جس ک��ا ن��ام جبرائی�� امین نے یوحن��اآاج ت�ک اس�� ن�ام س�ے ج��انے*1بتایا وہ بعد ازاں یوحنا اص��طباغ� کے ن�ام س��ے مش�ہور ہ��وئے اور

ی� کے نب� مقرر ہوئے تھے۔ وہ ربن��ا المس��یح ک� راہ پہچانے جاتے ہیں۔پیدائش ہ� سے وہ الله تعال�د مب��ارک ک��ا اعلان ک��رنے کے آام�� آاپ ک� تیار کرنے ، روحان� کھیت� کے لئے زمین تیار کرنے اور

آائے تھے۔ لئے ی� *1 ۔ یوحنا اصطباغ�۔ یعن� حضرت یحی

� موع�ود کے اس انتظ�ار کے م�احول میں ب�زرگ ام�ام حض�رت زکری�ا نے بط�ور ن�ب� مس�یحاپنے چھوٹے بیٹے یوحنا پر نظر کرکے کہا ۔

ی� کا نب� کہلائے گا "اے لڑکے تو خدا تعالآاگے چلے گا آاگے کیونکہ تو خداوند ک� راہیں تیار کرنے کو اس کے

تاکہ اس ک� امت کو نجات کاعلم بخشے جو ان کو گناہوں ک� معاف� سے حاص ہو۔

یہ ہمارے خدا ک� عین رحمت سے ہوگا آافتاd ہم پر طلوع کرے گا ۔ � بالا کا جس کے سبب سے عالم

تاکہ ان کو جو اندھیرے اور موت کے سایہ میں بیٹھے ہیں روشن� بخشے آایت۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع اور ہمارے قدموں کوسلامت� ک� راہ پر ڈالے ۔"

(۔۷۹ تا ۷۶

ب� ب� الیشبع کے حم کے چھٹے مہینہ میں مریم صدیقہ جیسے کہ اوپر ذکر ہوچک��اdاں ا��ئیں۔ جہ��ریف لے گ��و تش��اڑی علاقہ ک��ودیہ کے پہ��رف یہ��ک� ط dو��لیم کے جن��ہے یروش حضرت زکریا اور الیشبع سکونت پذیر تھے۔ جونہ� مریم صدیقہ نے اپ�ن� رش�تہ دار الیش�بع کے گھر میں داخ ہوکر سلام کیا تو ب� ب� الیشبع کابچہ ان کے بطن میں اچھ پڑا۔ تب انہوں نے

ی� کے روح کو تحریک سے نبوت کرتے ہوئے صدیقہ مریم کو مخاطب کیا۔ خدا تعال " تم عورتوں میں مبارک اور تمہارے پیٹ کا پھ مبارک ہے ۔۔۔۔۔اور مبارک ہے وہ ج��و ایمان لائ� کیونکہ جو باتیں خ�دا تع�ال� ک� ط�رف س�ے اس س�ے کہ� گ�ئ� تھیں۔ وہ پ�وری ہ�وں

آایت ۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع گ�۔ (۔۴۵ تا ۴۳

آامدی��د ک��ا ج��واd م��ریم ص��دیقہ نے بھ� اپ��نے دل ک� گہرائی��وں س��ے دی��ا۔ �ا س خ��وش بہت س� خدا ترس خواتین کے لئے ان کے یہ الفاظ خوش� ، اطمینان اور تسل� کا باعث ب��نے

ہیں۔ کرت� ہے ۔تعظیممیری جان پروردگار ک�

اور میری روح میرےنجات دینے والے خدا سے خوش ہوئ� ۔کیونکہ اس نے اپن� کنیز ک� پست حال� پر نظر ک�۔

دیکھو! اd سے لے کر ہر زمانہ کے لوگ مجھے مبارک کہیں گے ۔کیونکہ خدا ئے قادر نے میرے لئے بڑے بڑے کام کئے ہیں اور اس کا نام پاک ہے ۔

اس ک� رحمت اس سے ڈرنے والوں پر نس بہ نس جاری رہت� ہے ۔آاپ ک��و ب��ڑا س��مجھتے تھے ۔ اس اس نے اپنے بازو سے عظیم کام کئے ہیں۔ ج��و اپ��نے

نے انہیں تتر بتر کردیا۔اس نے حاکموں کو ان کے تخت سے نیچے گرادیا۔ اور پست حالوں کو اوپر اٹھادیا۔ اس نے بھوکوں کو اچھ� چیزوں سے س��یر کردی��ا۔ لیکن دولتمن��دوں ک��و خ��ال� ہ��اتھ لوٹ��ا

دیا۔

ی� کے مقص��د کے بھی��د یہ دوعورتیں ، ایک عمر رسیدہ اور ایک جوان ، جب خدا تعالآاپس میں گہ��ری رف��اقت پ��ات� پ��ر جودون��وں کے دل��وں میں پوش��یدہ تھ��ا غ��ور وفک��ر ک��رت� تھیں ت��و

تھیں۔اا تین ماہ ت��ک ب� ب� الیش��بع کے گھ��ر مقیم رہیں۔ اس گھ��ر کے خ��دا صدیقہ مریم قریب ترس ماحول میں انہیں اپنے دل کو اس امر کے لئے تیار کرنے کا پورا موقع ملا کہ وہ ایک ایسےآادم کے علاوہ واحد ہست� ہیں جو باپ کے بغ��یر پی��داہوں نب� کو جنم دینے وال� ہیں جو حضرت آاواز نہیں س��ن� گے ۔ اس گھر میں ایک عجیب بات یہ تھ� کہ انہ��وں نے یہ��اں کس�� م��رد ک�

کیونکہ جب تک حضر ت یوحنا پیدا نہ ہوئے حضرت زکریا تو گونگے ہ� رہے ۔ آاپہنچا ت��و م��ریم بت��ولہ اپ��نے � حم کا وقت تین ماہ بعد جب ب� ب� الیشبع کے وضعی� نے الیش�بع پ�ر رحم ک�رکے انہیں آائیں۔ رش�تہ دار اور پڑوس�� یہ س�ن ک�ر کہ خ�دا تع�ال گھر واپس

بڑھاپے میں بیٹا بخشا ہے کتنے خوش ہوئے ۔ آاٹھویں دن حضرت یوحنا کے ختنہ کے موقع پر رشتہ دار ان کا نام باپ کے نام پر زکری��ا رکھنے لگے ۔ چونکہ حضرت زکریا نے فرشتے ک� بات کا یقین نہیں کیا تھ��ا ۔ اس ل��ئے وہ ابھ�

تک گونگے ہ� تھے اور نام رکھنے ک� رسم میں پورے طور پر حصہ نہ لے سکے ۔ " مگر اس ک� ماں نے کہا نہیں ! بلکہ اس کا ن��ام یوحن��ا رکھاج��ائے ۔ انہ��وں نے اس سے کہا کہ تیرے کنبے میں کس� کا یہ نا م نہیں ۔ اور انہوں نے اس کے باپ کو اشارہ کیاکہ تو اس کا ن��ام کی��ا رکھن��ا چاہت��اہے ؟ اس نے تخ��ت� منگ��اکر یہ لکھ��ا کہ اس ک��ا ن��ام یوحن��ا ہے۔ اور سب نے تعجب کیا۔ اس� دم اس کامنہ اور زبان کھ گئ� اور وہ بولنے اور خ�دا ک� حم�د ک�رنےآاس پاس کے سب رہنے والوں پر دہشت چھا گئ� ۔ اور یہ��ودیہ کے تم��ام پہ��اڑی لگا۔ اور ان کے ملک میں ان سب باتوں کا چرچا پھی گیا۔ اور س��ب س��ننے وال��وں نے ان ک��و دل میں س��وچ ک��ر

ی� ک�ا ہ��اتھ اس پ�ر تھ��ا ۔)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابقکہا تو یہ لڑکا کیسا ہونے والا ہے ؟ کی��ونکہ خ�دا تع�ال

آایت ۱حضرت لوقا رکوع (۔۶۶ تا ۶۰

ی المسیح اور صدیقہ م��ریم کے حضرت یوسف ، حضور سیدنا عیس�محافظ

درین اثنا ، مریم صدیقہ کے حاملہ ہونے ک� خبر حضرت یوس��ف ت��ک بھ� پہنچ چک� تھ�۔ وہ یہ سن کر نہایت رنجیدہ وکبیدہ خاطر ہوئے ۔ حضرت یوسف جیسے خدا ت��رس اور متق�

*1وپرہیزگار شخص ، کس� حاملہ لڑک� سے شادی کیسے کرلیتے ! یہ ب�ات ت�و ت�وریت ش��ریف ک� تعلیم کے بالک خلاف تھ�۔ اس وقت تک ان پر اس حم کے بھید کا انکشاف نہیں ہوا

تھا۔وہ بھ� حم قرار پانے ک� بابت دوسرے لوگوں ک� نہج پر سوچ رہے تھے۔

چونکہ وہ ایک حلیم اور حساس طبیعت انس��ان تھے۔ اس ل��ئے انہ��وں نے اس نس��بت کوخاموش��� س��ے ت��وڑنے ، ص��دیقہ م��ریم کے ل��واحقین کے س��اتھ مع��املہ طے ک��رنے اور اپ��نے ل��ئے

دوسری بیوی تلاش کرنے ہ� میں بہتری سمجھ�۔ی� ک� معرفت قلمبند ہوئيں۔*1 توریت شریف : بائب مقدس ک� پہل� پانچ کتابیں جو حضرت موس

جب حضرت یوسف اس بات پر س��وچ بچ��ار ک��ررہے تھے کہ حض��رت م�ریم کے وال��دینdوا��و خ��وں نے رات ک��و انہ��ائے ، ت��ات ک� ج��رح ملاق��لہ میں کب اور کس ط��ے اس سلس��س

دیکھا ۔ کلام مقدس میں اس خواd کے متعلق یوں ذکر ہے ۔ی� کے فرشتہ نے اسے خ��واd میں دکھ��ائ� دے ک��ر کہ��ا اے یوس��ف ابن داؤد خدا تعال� ح��ق آانے س��ے نہ ڈر ۔ کی��ونکہ ج��و اس کے پیٹ میں ہے وہ روح اپن� بیوی مریم کو اپنے ہ��اں لے ی�( رکھن��ا کی��ونکہ وہ� اپ��نے ک� قدرت سے ہے ۔ اس کے بیٹا ہوگا اور تو اس کا نام یس��وع )عیس��ی� نے لوگوں کو ان کے گناہوں س�ے نج��ات دے گ�ا۔ یہ س�ب کچھ اس ل��ئےہوا کہ ج�و خ�دا تع��ال

نب� ک� معرفت کہا تھا وہ پورا ہو کہ دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگ� اور بیٹا جنیگ�

اور اس کا نام عمانوای رکھیں گے ۔۔۔۔۔

ی� کے فرشتہ نے اسے حکم دیا تھا پس یوسف نے نیند سے جاگ کر ویسا ہ� کیا جیسا خدا تعالآایا۔ اور اس کو نہ جانا جب تک اس کے بیٹ��ا نہ ہ��وا اور اس ک��ا ن��ام اور اپن� بیوی کو اپنے ہاں لے

آایت ۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع یسوع رکھا" (۔۲۵ تا ۲۰

آاگ��اہ تھے جس��ے ص��دیقہ ناصرت میں فقط چند اشخاص ایسے تھے جو اس بھید س��ے ی� المس��یح ک� مریم اور حضرت یوسف نے اپنے دل میں پوشیدہ رکھا ہوا تھا۔ حضور س��یدنا عیس���ت س��عادت کے موق��ع پ��ر رش��تہ دار ،پڑوس��� اور دوس��ت موج��ود نہیں ہوس��کتے تھے۔ کی��ونکہ ولاد�د مقدس سے پیشتر ہ� ناصرت ک��و چھ��وڑ دی��ا تھ��ا۔ وہ واپس اس وقت حضرت یوسف نے اس میلا

ی المسیح نوجوان لڑکے ہوچکے تھے۔ آائے جب حضور سیدنا عیس� �ا ن دن��وں مل��ک فلس��طین پ��ر رومی��وں کاقبض��ہ تھ��ا۔ روم� جنگ� اہمیت کے مقام��ات پ��ر چھاؤنیاں قائم کرکے اپنے مقبوضہ علاقوں پ��ر کٹھ پتل� بادش��اہوں کے ذریعہ حک��ومت ک��رتے تھے۔ی� المس��یح پی��دا ہ��وئے ، اس وقت مش��ہور روم� قیص��ر اوگوس��تس جس زمانہ میں حضور سیدنا عیس�� حکومت کرتا تھا۔ اس نے روم� تخت کے تم��ام دعوی��داروں ک��و شکس��ت دے ک��ر حک�ومت ک� باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے ل� تھ�۔ وہ شہنشاہ یولیس کے لےپال��ک بیٹ��ا بھ� تھ��ا۔ اس نے م��ارک انتھون� اور قلوپطرہ کو یونان کے ساح کے قریب ایک مشہور بحری لڑائ� میں اکیتم کے مقام پر

قب��۳۰شکست دی ۔ اس کا پورا نام کائیس یولیس قیصر اکتاویانس تھا۔ روم� سینٹ نے اس��ے ء ت��ک حک�ومت ک� ۔۱۴ قب از مس��یح ت�ا ۳۰ازمسیح میں اوگوستس کا خطاd دیا تھا۔ اس نے

�ر حکومت کو رومہ کا سنہری زمانہ کہتے ہیں۔ یہ وہ زم��انہ تھ��ا جبکہ ش��عرا اکثر مورخ اس کے دواا ورگ اور ہورلیس کے افکار اپنے پورے عروج پر تھے۔ ء اور ادیب مثل

ٹیکس وص��ول ک��رنے کے ل��ئے حک��ومت نے م��ردم ش��ماری ک��رائ� جس میں یہ ض��روریآاب��ائ� ش��ہر میں درج کی��ا ج��ائے ۔ چن��انچہ قیص��ر تھ��اکہ ہ��ر خان��دان کے س��ربراہ ک��ا ن��ام اس کے اوگوستس نے فرمان جاری کیاکہ مملکت رومہ کے تمام باشندے اپ��نے اپ��نے ن��ام درج ک��رائیں۔یہ�

اا می�� کے۱۰۰وجہ تھ� کہ حضرت یوسف کو صدیقہ مریم ک��و لے ک��ر جن��وd ک� ط��رف تقریب��

فاص�لہ پ�ر حض�رت داؤد کے ش�ہر بیت لحم ک�و جان�اپڑا ت�اکہ وہ اپن�ا اور اپ�ن� منگی�تر ک�ا ن�ام م�ردم�ہ راس��ت حض��رت داؤد ک� نس�� س��ے تھے اور بیت شماری میں درج کرائیں ۔ حضرت یوسف برااا گیارہ سو اور حض��رت داؤد لحم ہ� وہ مقام تھا جہاں حضرت داؤد کے پردادا حضرت عوبید قریباا ایک ہزار سال قب از مسیح پیدا ہ��وئے تھے۔ چن�انچہ چہ�ار اط��راف س�ے مس�افر ن�ام لکھ��وانے قریبآارہے تھے ۔یہاں تک کہ ان ک� رہ�ائش ک�ا خ�اطر خ�واہ انتظ�ام ہون�ا دش�وار کے لئے بیت لحم میں

آاپہنچا۔ � حم کا وقت ہوگیا۔ ایسے کٹھن وقت میں صدیقہ مریم کے وضع حضرت یوسف اورصدیقہ مریم تین چار دن کے طوی سفر کے بع��د بیت لحم پہنچے ۔آارام سےبسر کرسکیں گے ۔ اور شام تک بیت لحم ک� تم��ام اا یہ توقع ہوگ� کہ وہ رات انہیں یقین

سرائیں نام لکھوانے والے مسافروں سے بھر چک� تھیں۔آاب��اؤ اج��داد کے ن�ام محف��وظ حض�رت اب��راہیم خلی�� الل�ه کے زم�انہ س��ے ہ� ب��زرگ اپ��نے آاتے تھے۔ یہاں تک کہ جب یہودیوں ک� اکثریت باب�� اور ف��ارس ک� مملکت��وں میں رکھتے چلے جلاوطن تھ� تو اس وقت بھ� وہ اپنے نس��ب ن��امہ لکھ ک��ر محف��وظ رکھ��تے تھے۔ یہ نس��ب ن��امے

آاج تک جوں کے توں موجود ہیں۔ توریت شریف ، تواریخ� کتب اور صحائف الانبیاء میں حضرت یوسف اور صدیقہ مریم کو معلوم نہیں تھ��اکہ ان کے بیت لحم کے طوی� س��فری� المس�یح اس�� میں خدا تعال� کا دیرینہ مقصدبروئے ک�ار لای�ا جارہ�ا تھ��ا کہ حض�ور س�یدنا عیس�ی� المس�یح ا بتادیا تھا کہ یہ شہر حضور سیدنا عیس� شہر میں ولادت پائیں۔انبیائے سلف نے اشارة

ک� جائے پیدائش ہوگا ۔ اس ضمن میں حضرت میکاہ نب� کا بیان ملاحظہ فرمائيے ۔ " اے بیت لحم افراتاہ، اگر چہ تو یہوداہ کے ہزاروں میں شام ہونے کے لئے چھوٹ��ا ہے ت��و بھ� تجھ میں س��ے ای��ک ش��خص نکلےگ��ا اورم��یرے حض��ور۔۔۔۔۔ ح��اکم ہوگ��ا اور اس ک��ا

� مقدس صحیفہ حضرت میکاہ رکوع مصدرزمانہ سابق ہاں قدیم الایام سے ہے۔ dآایت ۵)کتا (۔۲

صدیقہ مریم اور حضرت یوسف کئ� دن�وں ت�ک کچ� س��ڑک ک�ا دش��وار گ��زار س�فر طےآاخر اپ��ن� ج��ائے مقص��ود ت�ک پہنچ گ��ئے ۔م�ریم بت��ولہ ک� ح��الت نہ��ایت خس�تہ ہ��وچک� کرکے ب��ال

آارام کا بہت خیال تھ�ا اس ل�ئے وہ س��رائے میں کس�� کم�رہ ک� تھ�۔ حضرت یوسف کو ان کے اا تلاش میں نک�� کھ��ڑے ہ��وئے لیکن ک��وئ� بھ� کم��رہ نہ م�� س��کا۔ لہ��ذا انہ��وں نے بھ� مجب��ور دوسرے مسافروں کے ساتھ صحن میں جہاں مویش� باندھے ج�اتے تھے ڈی�را لگالی�ا۔ وہ��اں چ�رن�� جہ��اں نے جنم لی��ا۔ کے قریب جہاں مویش� بیٹھے جگال� کرتے تھے۔ بتولہ مریم کے ہاں منج�

انجی شریف میں اس کا یوں بیان ہے : آاپہنچ���ا۔ اور اس "جب وہ وہ���اں تھے ت���و ایس���ا ہ���وا کہ اس کے وض���ع حم��� ک���ا وقت کاپہلوٹھا پیدا ہوا اور اس نے اس کو کپڑے میں لپیٹ کر چرن� میں رکھ��ا کی��ونکہ ان کے واس��طے

آایت ۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع سرائے میں جگہ نہ تھ� " (۔۷تا۶

پیدائش کا اعلان جس رات صدیقہ مریم کے بیٹے المسیح پی�دا ہ��وئے ، ت�و اس ک� خ�بر س�ب س�ے پہلے ان غریب چرواہوں کو دی گ�ئ� ج�و بیت لحم ک� پہ�اڑی ڈھلان�وں پ�ر رات ک�و اپ�ن� بھ�یڑ بکری�وں

�م مقدس میں اس واقعہ کویوں بیان کیا گیا ہے: ک� رکھوال� کرتے تھے۔ کلاآاکھڑا ہوا اور خداوندکا جلال ان کے چوگرد چمکا اور ی� کا فرشتہ ان کے پاس "خداتعال وہ نہایت ڈرگئے ۔ مگر فرشتہ نے ان سے کہا ۔ ڈرو مت کیونکہ دیکھو میں تمہیں ب��ڑی خوش���آاج داؤد کے ش�ہر میں تمہ��ارے ل��ئے ک� بشارت دیتا ہوں ۔ جو ساری امت کے واسطے ہ��وگ� کہ ایک منج� پیدا ہوا ہے یعن� مسیح خداوند۔ اور اسکا تمہارے لئے یہ نشان ہے کہ تم ای��ک بچہآاس��مان� لش��کر کو کپڑے میں لپٹا اور چرن� میں پڑاہوا پ��اؤ گے۔ اور یکای��ک اس فرش��تہ کے س��اتھ

ی� ک� حمد کرت� اور کہت� ظاہر ہوئ� کہ ک� ایک گروہ خدا تعال� بالا پر خدا ک� تمجید ہو عالم

آادمیوں میں جن سے وہ راض� ہے صلح اور زمین پر ان آاپس آاس�مان پ�ر چلے گ�ئے ت�و ایس�ا ہ�وا کہ چرواہ�وں نے جب فرشتے ان کے پاس س�ے ی� نے ہم ک��و آاؤ بیت لحم ت��ک چلیں اور یہ ب��ات ج��و ہ��وئ� ہے اور جس ک� خ��داتعال میں کہ��اکہ

خبر دی ہے دیکھیں۔ پس انہوں نے جلدی سے جاکر مریم اور یوسف کو دیکھ��ا اور اس بچہ ک��و چرن� میں پڑا پایا۔اور انہیں دیکھ کر وہ بات جو ا س لڑکے کے حق میں ان سے کہ� گئ� تھ� مشہور ک� ۔ اور سب سننے والوں نے ان باتوں پر جو چرواہوں نے ان سے کہیں تعجب کیا۔ مگر مریم ان سب باتوں کو اپنے دل میں رکھ کر غ�ور ک�رت� رہ�۔ اور چ��رواہے جیس�ا ان س�ے کہ��ا گی��ای� ک� تمجی��د اور حم��د ک��رتے ہ��وئے ل��وٹ تھا ویسا ہ� سب کچھ سن کر اور دیکھ ک�ر خ�دا تع��ال

آایت ۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع گئے ۔ (۔۲۰ تا ۹

ختنہ اور طہارتی� کے عہد کے مط��ابق ہ��ر حضرت ابراہیم خلی الله اور ان ک� نس کے ساتھ خدا تعالی� المسیح کا بھ� آاٹھویں دن ختنہ ہوتا تھا۔ پس صدیقہ مریم کے بیٹے حضور سیدنا عیس لڑکے کا

آاٹھویں دن ختنہ ہوااور ی�( رکھا گی��ا ج��و فرش��تہ نے اس کے پیٹ میں پ��ڑنے س��ے پہلے " اس کا نام یسوع )عیس

آایت ۲) انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع رکھا تھا ۔" (۔۲۱

دن پورے ہوگئے تو صدیقہ م��ریم اور۴۰جب شریعت کے مطابق زچہ ک� طہارت کے ی� کے حض��ور پیش ک��رنے کے ل��ئے یروش�لیم ک� ہیک�� میں لے حضرت یوسف بچہ کو خ��دا تع��ال

گئے توریت شریف میں ہر خدا ترس خاندان کے لئے یہ� ہدایت تھ� کہ ی� ک� ش��ریعت ی� کے لئے مق��دس ٹھہ��رے گ��ا۔ اور ب��اری تع��ال " ہر ایک پہلوٹھا خدا تعال

(بچے لاؤ"۲کے اس ق��ول کے مواف��ق قرب�ان� ک��ریں کہ قمری�وں ک��ا ای�ک ج��وڑا ی�ا کب��وتر کے دو)آایت ۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع (۔۲۴تا ۲۳

درے یعن� بھیڑ کے بچے ک� قربان� ک��ا حکم تھ��ا۔ لیکن اگ��ر ک��وئ� توریت شریف میں بخاندان غریب ہوتا تھا تو قمری ک� قربان� بھ� دی جاسکت� تھ�۔

حضرت یوس�ف غ��ریب تھے۔ وہ بڑھ�ئ� ک�ا معم�ول� کاروب�ار ک�رکے اپ�نے ہ�اتھ س�ے روٹ� کم��اکر اپ��نے خان��دان ک� پ��رورش ک��رتے تھے ۔ن��یز اس وقت وہ اپ��نے گھ��ر س��ے بھ� دور س��فر میں

ی� نے کس� شاہ� مح�� تھے۔ ربنا المسیح ک� ولادت کا ایک تعجب خیز پہلو یہ تھاکہ الله تعال� حرفہ کا گھر چنا۔ یا ہیک کے کس� عالم امام کے گھر ک� بجائے مزدور طبقے میں سے اہ

آاتے تھے جو ی� ک� پرستش کے لئے وہ لوگ ہیک )یعن� بیت الله ( میں ہر روز خدا تعال اس کے دیدار کے مشتاق تھے۔ وہ اپنے اردگرد بدی لالچ اور ظلم وستم ک�و دیکھ ک��ر کڑھ��اکرتےی� اپ�نے لوگ��وں ک�و نج��ات بخش��ے آاخ�ر ک�ار خ��دا تع��ال اور اس امید پر زندگ� بسر ک��ررہے تھے کہ

( شخص شمعون اور حنا ہ تھے۔۲گا ۔ ان میں سے دو )

شمعون اور حناہ� مقدس میں ان کے بارے میں یوں مذکور ہے: �م کلا

آادم� راس��تباز اور خ��دا ت��رس اور اس��رائی آادم� تھ��ا اور وہ " یروشلیم میں شمعون نام ایک آاگ��اہ� ہ��وئ� تھ� کہ �ح ح��ق س��ے � حق اس پر تھا۔ اور اس ک��و رو ک� تسل� کا منتظر تھا اور روح� ح�ق ک� ہ��دایت ی� کے مسیح کو دیکھ نہ لے موت کو نہ دیکھے گا۔ وہ روح جب تک خداتعالی�( ک��و ان��در لائے ت��اکہ اس کے آایا اور جس وقت ماں باپ اس لڑکے یس��وع)عیس�� سے ہیک میں ی� ک� حم��د لئے شریعت کے دستور پر عم کریں تو اس نے اسے اپن� گود میں لیا او باری تعال

کرکے کہاکہ " اے مالک ، اd تو اپ�نے غلام ک�و اپ��نے ق��ول کے مواف��ق س��لامت� س��ے رخص��ت کرت��ا

ہے۔آانکھوں نے تیری نجات دیکھ ل� ہے۔ کیونکہ میری

جو تونے سب امتوں کے روبرو تیار ک� ہے ۔تاکہ مشرکین کو روشن� دینے والا نور اور تیری امت اسرائی کا جلال بنے۔

اور اس ک��ا ب��اپ اور ا س ک� م��اں ان ب��اتوں پرج��و اس کے ح��ق میں کہ� ج��ات� تھیں تعجب ک��رتے تھے اور ش��معون نے ان کے ل��ئے ب��رکت چ��اہ� اور اس ک� م��اں م��ریم س��ے کہ��ا ،دیکھ یہ

اسرائي میں بہتوں کے گرنے اور اٹھنے کے لئے اور ایسا نشان ہونے کے لئے مقرر ہ��وا ہے جسآاش�ر کے ک� مخالفت ک� جائے گ�۔ بلکہ خود تیری ج�ان بھ� تل�وار س�ے چھی�د ج�ائے گ� اور قبیلہ میں سے حنا ہ نام فنوائی ک� بیٹ� ایک نبیہ تھ�۔ وہ بہت عمر رسیدہ تھ� اور اس نے اپ��نے

( ب��رس س��ے۸۴( برس ایک شوہر کے ساتھ گزارے تھے۔ وہ چوراس��� )۷کنوار پن کے بعد سات ) بی��وہ تھ� اور ہیک�� س��ے ج��دا نہ ہ��وت� تھ� بلکہ رات دن روزوں اور دع��اؤں کے س��اتھ عب��ادت کی��ای� کا شکرکرنے لگ� اور ان سب سے جو یروش��لیم کرت� تھ� اور وہ اس� گھڑی وہاں کر خدا تعال

) انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رتکے چھٹکارے کے منتظر تھے اس ک� بابت ب�اتیں ک�رنے لگ� ۔"

آایت ۲لوقا رکوع (۔۳۸تا ۲۵

� دینیہ ادا کرنے کے بعد حضرت یوسف اور صدیقہ م�ریم ہیک )بیت الله ( میں رسومات بیت لحم واپس گئے ۔ وہ کرائے کے مکان میں ف� الح��ال وہیں رہ��نے لگے ۔ م��ریم بت��ولہ ت��و بچے

ک� نگہداشت وپرورش میں لگ گئیں اور حضرت یوسف نے بڑھئ� کا کام شروع کردیا۔ اd حضرت یوسف اس مقدس بچے کے قانون� سرپرست تھے۔ اس طرح حضور س��یدنای� المسیح ان کے لے پالک بیٹے ہونے ک� حیثیت سے حضرت داؤد کے خاندان میں شام عیسی� المسیح کا باپ خی��ال ک��رتے تھے ہوگئے ۔ بیشتر لوگ حضرت یوسف ہ� کو حضور سیدنا عیسی� کیونکہ انہیں کنواری کے بطن سے پیدا ہونے کے بھید کا علم ہ� نہیں تھا۔ حضور سیدنا عیس المسیح ک� ولادت کے بعد حضرت یوسف اور صدیقہ مریم میاں بیوی ک� حیثیت س��ے زن��دگ�

بسر کرنے لگ گئے ۔

ہیرودیس بادشاہ ک� بچے کو قت کرنے ک� کوشش مش��رق� ممال��ک میں ہیت دان ج��وکہ مجوس��� کہلاتے تھے س��تاروں ک��ا مش��اہدہ ک��ررہےآاپس میں مشورہ کرنے کے تھے۔ انہوں نے اچانک ایک غیر معمول� چمکدار ستارے کو دیکھا۔ بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ کس�� بہت ب��ڑی شخص��یت کے پی��دا ہ��ونے ک��ا نش��ان ہے ج��وی� ک� امت کا بادشاہ ہوگا۔ انہوں نے اندازہ لگالی��ا کہ ماس��وا بیت المق��دس یع��ن� یروش��لیم خداتعال

ی� کے برگزی�دہ حض�رت داؤد بادش�اہ حک�ومت ک�رتے کے جہاں مقدس ہیک ہےاور جہ�اں خ�داتعالتھے ، یہ بادشاہ اور کہیں پیدا نہیں ہوسکتا ۔

چنانچہ وہ وسیع ریگستانوں کوعبور ک��رتے ہ��وئے یروش��لیم ک� ط��رف ب��ڑھے چلے گ��ئے ۔شہر مقدس میں پہنچ کر انہوں نے دریافت کیاکہ

"یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے وہ کہاں ہے ؟ کیونکہ پ��ورd میں اس کاس��تارہ دیکھآائے ہیں ۔" آایت ۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع ہم اسے سجدہ کرنے (۔۲تا ۱

ہ��یرودیس بادش��اہ ج��و کہ روم� حک��ومت ک� ط��رف س��ے کٹھ پتل� حکم��ران تھ��ا۔ اساا جاکر بادشاہ کو اطلاع دے دی ۔ کے جاسوسوں نے فور

" یہ سن کر ہیرودیس بادشاہ اور اس کے ساتھ یروشلیم کے سب لوگ گھبراگئے۔(۔۳آایت ۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع

برس تک حک��ومت کرچک��ا تھ��ا۔ وہ ابن۳۶یہودیہ کے صوبہ کا بادشا ہ ہیرودیس اعظم الوقت حکمران تھا جو بڑی ہوشیاری اور چالاک� س�ے ہ�ر روم� شہنش�اہ ک�ا اعتم�اد حاص� کرلیت�ا

آادم� تھا ۔ اس نے یہودیوں ک� عدالت عالیہ )سنہیڈرن ( کے اراکین کو۴۵تھا۔ وہ نہایت ظالم موت کے گھاٹ اتاردیا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے ظالم ہاتھوں سے اس ک� اپ�ن� بی��وی مری��ا م�نےی� المسیح ک� ولادت سے تین سال پیشتر ت��و اس نے پہلے بھ� نہ بچ سک� ۔ حضور سیدنا عیس

( ج�وان بی��ٹے۲سے بھ� بڑھ کر سنگدل� کا مظاہرہ کیا۔ اس نے مریا منے سے پیدا شدہ اپنے دو )سکندر اور ارسطبولس کو گلا گھونٹ کر مروادیا تھا۔

بڑی حیران� ک� بات ہے کہ ہیرودیس اعظم اتنا ظالم ہوتے ہوئے بھ� ہمیشہ خ��ائف رہت��ا تھا کہ کہیں کوئ� اس کو قت نہ کردے ۔ لہذا جس کے متعلق تخت کا دعوی�دار ہ��ونے ک�ا ذرا بھ� ش��ک ہوااس��ے قت�� کروادی��ا ۔ ج��ونہ� مجوس��یو ں ک� یہ خ��بر اس ت��ک پہنچ� کہ وہ کس���

نومولود بادشاہ کو تلاش کررہے ہیں تو

� اعظم��وں اور فقہی��وں ک��و جم��ع ک��رکے ان س��ے پوچھ��ا کہ " اس نے قوم کے س��ب ام��ام مسیح ک� پیدائش کہاں ہون� چاہیے ؟ انہوں نے اس سے کہ��ا یہ��ودیہ کے بیت لحم میں کی��ونکہ

نب� ک� معرفت لکھا گیا ہے کہ ااے بیت لحم ، یہوداہ کے علاقے

تو یہوداہ کے حاکموں میں ہرگز سب سے چھوٹا نہیں کیونکہ تجھ میں سے ایک سردار نکلے گا

جو میری امت اسرائي ک� گلہ بان� کرے گا" آایت ۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع (۔۶تا ۴

یہ سن کر ہیرودیس بادشاہ نے بڑی مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجوسیوں کو تخلیہ میں بلایا اور ان سے ستارہ کے نمودار ہونے کے صحیح وقت کے ب��ارے میں پوچھ��ا۔ انہ��وں نے اس��ے

اا ایک سال سے زيادہ عرصہ گز را کہ انہوں نے پہل� مرتبہ یہ ستارہ دیکھا تھا۔ بتایا کہ تقریبپھر اس نے

" یہ کہہ ک��ر انہیں بیت لحم ک��و بھیج��ا کہ ج��اکر اس بچے ک� ب��ابت ٹھی��ک ٹھی��کآاک��ر اس��ے س��جدہ ک��روں۔وہ بادش��اہ دریافت کرو اور جب وہ ملے تو مجھے خ��بردو ت��اکہ میں بھ� آاگے ک� باتیں س��ن ک��رروانہ ہ��وئے اوردیکھ��و ج��و س��تارہ انہ��وں نے پ��ورd میں دیکھ��ا تھ��ا وہ ان کے آاگے چلا ۔ یہاں تک کہ اس جگہ کے اوپر جاکر ٹھہرگیا جہاں وہ بچہ تھ��ا۔ وہ س��تارے ک�ودیکھ کر نہایت خوش ہوئے۔ اور اس گھر میں پہنچ کر بچے کو اس ک� ماں مریم کے پ��اس دیکھ��ا اورار اس ک��و پیش کی��ا اور آاگے گر کر سجدہ کیا اور اپنے ڈبے کھول ک��ر س��ونا اور لب��ان اور م�� اس کے ہیرودیس کے پاس پھر نہ جانے ک� ہدایت خ��واd میں پ�اکر دوس��ری راہ س��ے اپ��نے مل�ک ک��و روانہ

ہوئے ۔ی� کے فرشتے نے یوسف کوخ��واd میں دکھ��ائ� " جب وہ روانہ ہوگئے تودیکھو خدا تعال دے کر کہا اٹھ بچے اور اس ک� ماں کو ساتھ لے کر مصر کو بھاگ ج�ا اور جب ت�ک کہ میں

تجھ سے نہ کہوں وہیں رہنا کی��ونکہ ہ��یرودیس اس بچہ ک��و تلاش ک��رنے ک��و ہے ت��اکہ اس��ے ہلاک کرے ۔ پس وہ اٹھا اور رات کے وقت بچے اور اس ک� ماں کوساتھ لے کر مص��ر ک��و روانہ ہوگی��ا

آایت ۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع اور ہیرودیس کے مرنے تک وہیں رہا۔" (۔۱۵تا ۸

� اطہ��رہ میں ہ� آاغ��وش ی� المس��یح جب ہن��وز اپ��ن� وال��دہ ماج��دہ ک� حض��ور س��یدنا عیس�� پرورش پارہے تھے بد باطن اشخاص ک� نفرت کا نش��انہ بن گ��ئے ۔ یہ ایس��ے ل��وگ تھے ج��و خ��دای� ک� اطاعت گزاری سے ہمیشہ گردن کش� ک��رتے اور خ��دا ت��رس لوگ��وں پ��ر لعن طعن ک��رتے تعال

رہتے تھے۔ " جب ہیرودیس نے دیکھا کہ مجوسیوں نے میرے ساتھ ہنس� ک� تو نہ�ایت غص�ہ ہ��واآادم� بھیج ک��ر بیت لحم اور اس ک� س��ب س��رحدوں کے ان��در کے ان س��ب لڑک��وں ک��و قت�� اور کروادی��ا ج��و دو دو ب��رس کے ی��ا اس س��ے چھ��وٹے تھے۔ اس وقت کے حس��اd س��ے ج��و اس نے

�انجی شریف بہ مطابق حضر ت مت� رکوع مجوسیوں سے تحقیق ک� تھ�۔" آایت ۲) (۔۱۶

� ذی�� انبیائے سلف میں سے حضرت یرمیاہ نے اس المناک اور ظالمانہ فع ک� حس��بالفاظ میں پیشن گوئ� کردی تھ�۔ آاواز سنائ� دی۔ "رامہ میں

رونا اور بڑا ماتم اپنے بچوں کو رورہ� ہے *1راخ

)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��ت�اور تسل� قب��ول نہیں ک��رت� اس ل��ئے کہ وہ نہیں ہیں "

آایت ۲رکوع (۔۱۸

� امجد ہیں۔*1 راخ حضرت یعقوd ک� زوجہ تھیں جو کہ قوم یہود کے جد

� مصر میں � اطہرہ ملک خاندانی� المسیح مصر میں اپن� والدہ ماج�دہ اور حض�رت یوس�ف کے س�اتھ حضور سیدنا عیسی� رحیم و ک��ریم ہے۔ آاپ نے اس بات ک� وضاحت کردی کہ خدا تعال محفوظ تھے۔ جوان ہوکر

� انس��ان� ک��و براب��ر پی��ار آادمیوں کے کس� مخصوص گروہ یا جماعت کو نہیں بلکہ تم��ام ن�وع وہ ی� المسیح کو مصر ا س لئے بھیجا تھا تاکہ جو کچھ ی� نے حضور سیدنا عیس کرتا ہے ۔ الله تعال

اس نے ہوسیع نب� ک� معرفت فرمایا وہ پورا ہو کہ آایت ۱۱)کتاd صحیفہ حضرت ہوسیع رکوع " مصر میں سے میں نے اپنے بیٹے کو بلایا " ۱

آایت ۳اور انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع ۔(۱۵ ہیرودیس اعظم ک� وفات کے بعد ای��ک فرش��تہ نے حض��رت یوس��ف ک��و اپ��نے وطن واپسآاکر انہیں پتہ چلا کہ ہیرودیس ک��ا بیٹ��ا ارخلاؤس اپ��نے جانے کو کہا ۔ لیکن اd اپنے وطن واپس باپ ک� جگہ یہو دیہ میں تخت نشین ہوا ہے تو وہ گھبرا کر شمال میں گلی کے گاؤں ناص��رتی� کو چلے گئے ۔یہ وہ� گاؤں تھا جہاں شروع میں فرشتہ نے صدیقہ مریم کو حض��ور س��یدنا عیس��

المسیح ک� باکرانہ ولادت کے بارے میں بشارت دی تھ�۔

ناصرت میں خاموش� کے سالاا *1 ء۲۷۔ ۲۶ قب از مسیح ۴ سالہ عرصہ کے بارے میں ج��و کہ حض��ور۳۰ کے تقریب

ی� المسیح کے لڑکپن اور بلوغت کازمانہ ہے ، اس کا بائب�� مق��دس میں بہت کم بی��ان سیدنا عیس ہے۔ انجیل� بیان��ات س��ے قط��ع نظ��ر جوقص��ے کہانی��اں اور روای��ات لوگ��وں میں مش��ہور ہیں وہ� غائبانہ سے اس عرص�ہ ک� تفص�یلات پ�ردہ راز میں ی� نے اپن� مصلحت مشکوک ہیں خدا تعال

آاپ ب��ارس کے تھے اور کس��� واقعہ ک��و قلمبن��د نہیں۱۲رکھ� ہیں۔ ماس��وا ای��ک واقعہ کے جب آاپ ک� ع��وام میں خ�دمت اور کردایا گیا۔ انجی� جلی� زی��ادہ ت�ر ربن�ا المس�یح ک� ولادت س�عید آاپ ک� محبت اور رحم کے کاموں کے بارے میں تفصیلات مہیا ک��رت� نس انسان� کے لئے ی� ک� خاموش��� اور رض��ا ک��و بسروچش��م ہے۔ ہم اس عرص��ہ ک� تفص��یلات ک� ب��ابت خ��دا تع��ال

تسلیم کرتےہیں۔ ملاحظہ فرمائیے ۲ پر نوٹ نمبر ۲۹۲ صفحہ نمبر *1

ی� المسیح آای��ا۱۲جب حضور سیدنا عیس برس کے تھے تو یروشلیم میں ایک واقعہ پیش جس کا مختصر حال بیان کیا گی��ا ہے ،لیکن ا س س��ے پہلے کے عرص��ہ کے ب��ارے میں محض

اتنا بتانے پر ہ� اکتفا کیا گیا ہے کہ "وہ لڑکا بڑھتا اور قوت پاتا گیا اور حکمت سے معمور ہوتا گیا اور خدا کا فض�� اس پ��ر

آایت ۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع تھا۔" (۔۴

آاپ کے والدین ،عید فسح کے موقع پر یروشلیم جای��ا ک��رتے تھے ۔ سال میں ایک مرتبہ � غفیر مختلف شہروں اور دیہاتوں سے بیت المقدس میں امڈ پڑتا تھ��ا اس وقت زائرین کا ایک جم

اا س��ال۱۲۸۰تاکہ ہیک )بیت الله (میں عید فسح ک� تقریبات میں حصہ لے۔ یہ عید فسح تقریب��پیشتر بن� یہود ک� مصر ک� غلام� سے رہائ� ک� یاد میں منائ� جات� تھ�۔

� مقدس میں یوں بیان ہے: اس واقعہ کا کلام (ب�رس ک�ا ہ�وا ت�و وہ عی�د کے دس�تور کے مواف��ق یروش�لیم ک�و گ�ئے ۔۱۲" جب وہ بارہ )

ی�( یروش�لیم میں رہ گی��ا اور اس کے جب وہ ان دنوں کو پورا ک��رکے ل��وٹے ت�و وہ لڑک��ا یس��وع )عیس� ماں باپ کو خبر نہ ہوئ� ۔ مگر یہ سمجھ کر وہ قافلہ میں ہے ایک منزل نک�� گ��ئے اوراس��ے اپ��نے رشتہ داروں اورجان پہچ��انوں میں ڈھون��ڈنے لگے ۔ جب نہ ملا ت��و اس��ے ڈھون��ڈتے ہ��وئے یروش��لیم تک واپس گئے ۔ اور تین روز کے بعد ایسا ہ�وا کہ انہ��وں نے اس�ے ہیک� میں اس�تادوں کے بیچ میں بیٹھے ان کے سنتے اور ان سے س�وال ک�رتے ہ�وئے پای�ا۔ اور جت�نے اس ک� س�ن رہے تھے اس ک� سمجھ اور اس کے جوابوں سے دنگ تھے ۔ وہ اسے دیکھ کر حیران ہ��وئے اور اس ک� م��اں نے اس سے کہا بیٹا ! تونے کیوں ہم سے ایسا کی��ا؟ دیکھ ت��یرا ب��اپ اورمیں کڑھ��تے ہ��وئے تجھے ڈھونڈتے تھے۔ اس نے ان سے کہا تم مجھے کیوں ڈھون�ڈتے تھے؟ کی��ا تم ک�و معل��وم نہ تھ��ا کہ

؟ مگ��ر ج��و ب��ات اس نے ان س��ے کہ� اس��ے وہ نہ*1مجھے اپ��نے ب��اپ کےہ��اں ہون��ا ض��رور ہے۔آای��ا اور ان کے ت��ابع رہ��ا ۔" )انجی�� ش��ریف بہسمجھے ۔ اور وہ ان کے س��اتھ روانہ ہ��وکر ناص��رت میں

آایت ۲مطابق حضرت لوقا رکوع (۔۵۱ تا ۴۶

ملاحظہ فرمائیے۔۳ پرنوٹ نمبر ۲۹۲۔ صفحہ نمبر *1

ی� کے کلام کے۱۲ب��ارہ ) آاپ خ��دا تع��ال (س��ا ل ک� اس چھ��وٹ� س��ے عم��ر میں بھ� آاپ ہیک)بیت الله ( میں توریت شریف کے علماء کے درمی��ان بیٹھ ک��ر بھوکے پیاسے رہتے تھے۔ ان ک� پندونص�یحت س�نتے ، ان س�ے ع�ام فہم وفراس�ت س�ے ب�الا س�والات پوچھ�تے اور ان کے

آاپ نے ناص�رت کے عب��ادت خ��انہ میں ت�وریت*1ج�واd دی��ا ک�رتے تھے بالک� ویس�ے ہ� جیس�ے شریف کو حفظ کیا تھا۔

۔ عبادت خانہ : یہودیوں ک� ہیک )بیت الله (صرف ایک تھ� جو کہ یروشلیم میں تھ�۔ لیکن عب��ادت خ��انے*1 بہت تھے ۔ ہر شہر اور قصبے میں یہودیوں نے اپنے لئے عبادت ک� جگہیں مقرر کر رکھ� تھیں۔ انہیں عب��ادت

خانہ کہا جاتا تھا۔

ی� المس�یح اپ�نے ش��فیق وال��دین کے س�اتھ فرمانبردار بی��ٹے ک� ط��رح حض��ور س�یدنا عیس��آاپ � مق��دس میں دو ح��والے ہیں جن س�ے ظ��اہر ہوت��اہے کہ مق��ام� ل�وگ آاگئے ۔کلام ناصرت واپس

آایت ۱۳) انجی شریف بہ مط��ابق حض��رت م��ت� رک��وع کو "بڑھئ� کا بیٹا " ہ� سمجھتے تھے آاپ نے(۵۵ ۔ � ح�رفہ کوج�و اپ�نے اپنے سرپرست حض�رت یوس�ف س�ے بڑھ�ئ� ک�ا ک�ام س�یکھا اور اس ط��رح اہ��آاپ نے اپنے خاندان ک� مال� م�دد کے ہاتھوں سے محنت کرکے روزی کماتے ہیں عزت بخش�۔ � ل��ئے محنت مش��قت ک��رنے میں ک��وئ� ش��رم محس��وس نہیں ک�۔ حض��رت یوس��ف ک� وف��اتآاپ نے ان ک� جگہ دکان سنبھال ل� ہوگ� ۔ یہ� وجہ ہے کہ لوگ کہ��تے آایات کے بعد حسرت

تھے کہ "کیا یہ وہ� بڑھئ� نہیں جو مریم ک�ا بیٹ�ا اور یعق�وd اور یوس�یس اور یہ�وداہ اور ش�عمون

)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��رقسکا بھائ� ہے ؟ اور کیا اس ک� بہنیں یہ��اں ہم��ارے ہ��اں نہیں؟

آایت ۶رکوع (۔۳

آاپ کے نمونہ کے پیش نظر اپنے ہاتھوں سے ی� المسیح کے پیروکار ، حضور سیدنا عیس کام کرتے ہوئے نہیں شرماتے ۔ ف� زم�انہ متع��دد ایس�ے ل�وگ ہیں ج�و ام�یر گھران�وں میں پی�دا ہ��وکر� شان سمجھتے ہیں لیکن غربت کا آاسان� اورتکبر کے باعث ہاتھوں سے کام کرنا کسر اپن� تن علاج تو س��خت محنت اور پی��داوار میں اض��افہ میں ہ� ہے ۔ اگ��ر غ��ریب ممال��ک میں تم��ام ل��وگ

ی� المسیح کے نمونہ کے پیروی کریں تو چن��د س��الوں میں ان ک� ح�الت س��دھر حضور سیدنا عیسسکت� ہے۔

�ت مبارک اور تیس ی� المسیح ک� ولاد سال ک� عم��ر میں ع��وام�۳۰حضور سیدنا عیس� مق��دس میں ص��رف یہ� ای��ک واقعہ آاغاز کے درمیان� عرصے کے ب��ارے میں کلام خدمت کے

درج ہے البتہ اس تمام عرصہ کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ ی� ک� اور انسان ک� مقبولیت ی�( حکمت اور قدو قامت میں اور خدا تعال " یسوع )عیس

آایت ۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع میں ترق� کرتا گیا۔" (۔۵۲

آاغاز ی� (اصطباغ� ک� تبلیغ کا حضرت یوحنا )یحیی ن��ب�( تیس ب��رس کے ہ��وچکے تھے ۔ اd قیص��ر اوگوس��تس۳۰یوحنا اص��طباغ� )یح��ی�

ک� جگہ تبریس سلطنت رومہ میں حکمران تھا۔ یہودیہ کے صوبہ پ��ر پنطیس پلاطس اور دوس��رے دو صوبوں پر ہیرودیس اعظم کے دو بیٹے حکومت کرتے تھے ۔ شہزادہ ہیرودیس انتپاس گلی�� اور

ک� جھی�� کے مش��رق�*1پ�ریہ کے ص�وبہ پ��ر اور ش��ہزادہ ہ��یردویس فلپس دری�ائے ی��ردن اور گلی��� موع�ود ک� امی��د ع��روج پ�ر۳۰علاقہ پر حکومت کرت��ا تھ��ا ۔ ان س�الوں میں ق��وم یہ��ود میں مس�یح

آاپ کا انتظار بڑی بے تاب� سے کیاجانے لگا۔ پہنچ گئ� اور پر نقشہ دیکھئے۔۳۰۰* صفحہ نمبر 1

� ی�( حضرت زکریا اور ب� ب� الیشبع کے خدا پرست گھر میں سن حضرت یوحنا )یحیی� ک��ا خ��وف مان��ا ج��ائے اور بل��وغت ک��و پہنچ چکے تھے۔ ایس��ے گھ��روں میں جہ��اں خ��دا تع��الی� مناسب وقت پر اپنے خادموں کو اپن� خدمت کے ل��ئے اٹھ��ا محبت کا دوردورہ ہو، خدا تعال کھڑا کرتا ہے۔ خاموش� کے یہ س��ال تنہ��ا مقام��ات میں گ��ذر گ��ئے جہ��اں حض��رت یوحن��ا دع��ای� المس�یح بندگ� میں مستغرق رہے تاکہ روح میں مض�بوط بن ج�ائيں اور حض�ور س�یدنا عیس�dا��انچہ کت��کیں ۔ چن��ار کرس��آاپ کے نیک کاموں اورمنادی کے لئے راہ تی آامد اور � مریم ک� ابن

�مقدس میں مرقوم ہے"

" وہ لڑکا بڑھتا اور روح میں قوت پاتا گیا اور اسرائی پر ظاہرہونے کے دن ت��ک جنگل��وںآایت ۱) انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع میں رہا۔ " (۔۸۰

ی�( ت��ارک ال��دنیا بن ک��ر جنگل��وں میں رہ��تے تھے۔ انہ��وں نے اپ��ن� جس��مان� حض��رت یوحن��ا )یح��ی خواہشات پرقابو پانا سیکھ لیا تھا اور ٹڈیوں اورجنگل� شہد ک��و خ��وراک کے ط��ورپر پ��ر اس��تعمالد پہنے رہتے اور کمر پر چمڑے کا کمر بند باندھے کرتے تھے۔ وہ اونٹوں کے بالوں سے بنا ہوا جبہی� ک��ا کلام جنگ�� ہ� میں ن��ازل ہ��وا ت��و انہ��وں رکھتے تھے۔ اس عظیم الشان نب� پر جب خدا تعالی� تحریک ک� بناء پر تبلیغ شروع کردی ۔ اس سلس��لے میں انجی�� ش��ریف میں ی��وں اا الہ نے فور

مرقوم ہے کہ " تبریس قیصر ک� حک��ومت کے پن��درھویں ب��رس ۔۔۔۔خ��دا کلا کلام بیاب��ان میں زکری��ا کے بیٹے یوحنا پر نازل ہوا اور وہ ی��ردن کے س��ارے گ��رد ون��واح میں ج��اکر گن��اہوں ک� مع��اف� کے

لئے توبہ کے اصطباغ ک� تبلیغ کرنے لگا، جیسا یسیعاہ نب� کے کلام ک� کتاd میں لکھا ہے کہ

آات� ہے کہ آاواز بیابان میں پکارنے والے ک� ی� ک� راہ تیار کرو۔ خدا تعالاس کے راستے سیدھے بناؤ۔

ہر ایک گھاٹ� بھردی جائے گ� اور ہر ایک پہاڑ اور ٹيلہ نیچا کیاجائے گا

اور جوٹیڑھا ہے سیدھا اور جو اونچا نیچا ہے ہموار راستہ بنے گا اور ہر بشر خدا ک� نجات دیکھے گا ۔

آاتے تھے وہ ان سے کہتا تھا پس جو لوگ اس سے اصطباغ لینے کو نک کر

آانے والے غض��ب س��ے بھ��اگو ؟ پس ااے س��انپ کے بچ��و! تمہیں کس نے جتای��ا کہ " توبہ کے موافق پھ لاؤ اور اپنے دلوں میں یہ کہن��ا ش�روع نہ ک��رو کہ ابرہ��ام ہم�ارا ب�اپ ہے کی��ونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا ان پتھ��روں س��ے ابرہ��ام کے ل��ئے اولاد پی��دا کرس��کتا ہے۔ اور اd ت��وآاگ میں ڈالا درخت�وں ک� ج�ڑ پ�ر کلہ�اڑا رکھ�ا ہے۔ پس ج�ودرخت اچھاپھ�� نہیں لات�ا وہ کاٹ�ا اور

جاتا ہے ۔" (۔۱۰ تا ۱آایت ۳)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع

� پ���اک اور تعلیم���ات کے ی� ن���ب� ک� س���یرت ی� المس���یح اوریح���ی حض���ور س���یدنا عیس��� اقتباسات مستند تاریخ� ، دس��تاویزات ہیں۔ ان میں م��ذکورہ متع��دد شخص��یتوں اورمقام��ات ک� تصدیق غیر مذہب� مورخین بھ� کرتے ہیں۔ شہنشاہ رومہ جس کاذکر اوپر ہوا ہے ایس��ا ہ� ای��ک

کردار رہے ۔ی�( نے دریا ئے یردن کے دونوں کناروں کے علاقوں میں تبلیغ شروع حضرت یوحنا )یحی

لی��نے ک� تلقین ک� ۔*1ک� ۔ انہوں نے عوام کوگناہوں سے توبہ کرنے اور پان� میں سے بپتس��مہ ی� ک� راس��تبازی کے معی��ار کے مط��ابق آائن��دہ خ��دا تع��ال یہ اس ب��ات ک��ا علانیہ نش��ان تھ��ا کہ وہ زندگ� بس��ر ک��ریں گے ۔ متع��دد اش��خاص نے ان س��ے بحث مب��احثہ کی��ا کہ چ��ونکہ وہ حض�رت ابراہیم ک� نس سے ہیں اس لئے خدا کس� صورت میں بھ� ان کے گناہ محسوd نہیں کرے گا۔ ف� زمانہ بھ� ایسے لوگ ہیں جو نس پر تکیہ کرکے تائب ہونے ک� ضرورت محس��وس ہ�ی�( نے ج�واd دی�ا کہ لازم ہے کہ ہ��ر ش��خص بلا امتی��از نہیں کرتے ۔ لیکن حض��رت یوحن��ا )یح��ی

نس اپن� زندگ� میں راست بازی کے پھلوں کا ثبوت دے ۔ بپتسمہ : پان� کے غوطے ک� ایک ابتدائ� رسم ہے جس میں ایک نومرید اپنے گذشتہ گناہوں س��ے ت��وبہ اور*۔1

یدناخ��دا ک� مرض��� پ��ر چل��نے ک�ا اعلان کرت��اہے ۔ )ا( یوحن�ا اص�طباغ� ایس�ا ہ� ک�رتے تھے۔ ور س )d( حضآاپ کے حقیق� پیروکار بننے ک��ا اعلان ک��رتے ہیں ۔ بپتس��مہ لی��نے ک��ا حکم ی� المسیح نے بھ� ان تمام کوجو عیس

دیا۔

" لوگوں نے اس سے پوچھا پھر ہم کیاکریں ؟ اس نے جواd میں ان سے کہا ، جس کے پاس دو کرتے ہوں وہ اس کو جس کے پ�اس نہ ہ��و ب�انٹ دے اور جس کے پ�اس کھان�ا ہ�و وہآائے اور اس سے پوچھ��ا کہ اے بھ� ایسا ہ� کرے ۔ اور محصول لینے والے بھ� بپتسمہ لینے کو استاد ہم کی��ا ک��ریں ؟ اس نے ان س��ے کہ��ا ج��و تمہ��ارے ل��ئے مق��رر ہے اس س��ے زي��ادہ نہ لین��ا۔ اور سپاہیوں نے بھ� اس سے پوچھاکہ ہم کیا کریں؟ اس نے ان سے کہا نہ کس� پ�ر ظلم ک�رو اور نہ

آایت۳)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع کس� سے ناحق کچھ لو اور اپن� تنخواہ پرکفایت کرو ۔"

(۔۱۴ تا ۱۰

� موعود کا بڑی شدت سے انتظار کررہے تھے۔ لہذا بہتوں ک��و اس زمانہ میں لوگ مسیح گم��ان ہ��وا کہ کہیں حض��رت یوحن��ا ہ� مس��یح موع��ود نہ ہ��وں ! لیکن ن��ب� نے انک��ار ک��رکے انہیں

جواd دیا:آانے والا ہے۔ آاور ہے وہ " میں تو تمہیں پان� سے بپتسمہ دیتا ہوں مگر جومجھ س��ے زور آاگ س��ے بپتس��مہ �ح ح��ق اور میں اس ک� ج��وت� ک��ا تس��مہ کھول��نے کے لائ��ق نہیں۔ وہ تمہیں رو دے گ��ا۔ اس ک��ا چھ��اج اس کےہ��اتھ میں ہے ت��اکہ وہ اپ��نے کھلی��ان ک��و خ��وd ص��اف ک��رے اورآاگ میں جلائے گ��ا ج��و بجھ��نے ک� گیہوں کو اپنے کھتے میں جمع کرے مگر بھوس� ک��و اس

)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابقنہیں۔ پس وہ اور بہت س� نصیحت کرکے لوگ��وں کوخوش��خبری س��ناتا رہ��ا۔"

آایت ۳حضرت لوقا رکوع (۔۱۸ تا ۱۶

حض�رت یوحن��ا ک� تبلی��غ کے س�بب س�ے لوگ��وں کے حوص��لے اور بھ� ب��ڑھ گ�ئے کہ وہ حضرت یوحنا ہ� کو مسیح موعود سمجھنے لگے ۔ لیکن حقیق� مسیح اس تمام عرصہ میں پس

آاپ کو ظاہر کریں۔ آانہ پہنچا کہ وہ اپنے ی� کا مقررہ وقت پردہ ہ� رہے ۔ جب تک کہ خدا تعال

آاغاز ی� المسیح ک� خدمت کا علانیہ حضور سیدناعیس

س��ال ک� عم��ر کے درمی��ان� عرص��ہ کے ب��ارے میں۳۰ س��ال س��ے ۱۲آاپ کے متعل��ق اا تیس ب��رس کے آاپ تقریب�� ک��وئ� بھ� ت��اریخ� واقعہ معل��وم نہیں۔ اس وقت کے ب��ارے میں جب

�م مقدس میں یوں مرقوم ہے : تھے کلای�( کے پ�اس اس س��ے ی�( گلی سے یردن کے کنارے یوحنا)یحی " اس وقت یسوع )عیسآاپ تجھ سے بپتسمہ لینے ک��ا آایا۔ مگر یوحنا یہ کہہ کر اسے منع کرنے لگا کہ میں بپتسمہ لینے ی�( نے ج��واd میں اس س��ے کہ��ا اd ت��و ہ��ونے آایا ہے ؟ یسوع )عیس محتاج ہوں اور تو میرے پاس ہ� دے کیونکہ ہمیں اس� طرح ساری سچائ� پوری کرنا مناس�ب ہے ۔ اس پ�ر اس نے ہونےدی��ا ۔ی�( بپتسمہ لے کر ف� الف��ور پ��ان� کے پ��اس س��ے اوپ��ر گی��ا اور دیکھ��و اس کے ل��ئے اور یسوع )عیسآاتے دیکھ��ا۔" آاسمان کھ گیا اور اس نے خ�دا کے روح ک�و کب�وتر ک� مانن��د ات�رتے اور اپ�نے اوپ�ر

آایت ۳)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع (۔۱۶ تا ۱۳

ی� المسیح نے عوام� شہرت کا خیال نہیں کیا بلکہ اپنے چند رفیقوں حضور سیدنا عیس لے کر ہمراہ جنہوں نے م�ذکورہ ب��الا واقعہ ک��ا مش�اہدہ بچش��م خ��ود کی��ا تھ��ا بھ��یڑ ک��و چھ��وڑ ک��ر�م مق��دس میں ی��وں مرق��وم کس� ویران اور تنہا جگہ میں تشریف لے گ�ئے ۔ اس سلس��لے میں کلا

ہے : آازمای��ا ج��ائے ۔ ی�( کو جنگ میں لے گی��ا ت��اکہ ابلیس س��ے " اس وقت روح یسوع )عیس

آاخ��ر ک��و اس�ے بھ��وک لگ� " ۴۰ دن اور چ��الیس ۴۰اور چالیس ۔)انجی�� ش��ریف بہ رات ف��اقہ ک�رکے

آایت ۴مطابق حضرت مت� رکوع (۔۱

آازمائش روزے کے وس��یلے س��ے جس��مان� ض��روریات ک��و کن��ٹرول کی��ا جات��ا ہے ۔ جس��مان� خواہشات اس شخص پر حکومت ک��رنے ک� بج��ائے اس کےت��ابع ہوج��ات� ہیں۔ حض��ور س��یدناآاپ ہر وقت اپن� خواہش��ات ی� المسیح کو جسمان� خواہشات ہرگز مغلوd نہ کرسکت� تھ�۔ عیس

آاپ نے اپ��ن� علانیہ ک��و ق��ابو میں رکھ��تے اور اپ��ن� مرض��� کے مط��ابق ک��ام ک��رتے تھے۔ چن��انچہ آاخری تیاری میں طوی روزہ رکھا۔ آاغاز ک� خدمت کے

ی� ک��ا ن��وران� فرش��تہ شیطان یعن� ابلیس ہر طرح ک� راست� کا دش��من ہے۔ وہ خ��دا تع��الآاس��مان س��ے تھا۔ لیکن اس نے اپنےتکبر کے باعث اس سے بغاوت ک� ۔ اس کے نتیجے میں وہ ی� المس��یح کے گرادیا گیا اور اس نے زمین پر اپن� حکومت قائم ک�۔ اd وہ حضور سیدنا عیس��ی� ابلیس کو شکس��ت دیگ��ا۔ پھ��ر گن��اہ آاخر خدا تعال مقابلے کے لئے میدان میں نکلا۔ لیکن بالای� اس خوبصورت دنیاکو داغدار نہ کرسکے گا بلکہ نفرت اور جن��گ وج��دل ک� جگہ خ��دا تع��ال ک� تمام کائنات میں محبت اور امن ک�ا دور دور ہوگ��ا ۔لیکن ف� الح��ال ابلیس اور ب�دی ک�اف� حد تک اس کائنات پر حکومت کرتے ہیں۔ شیطان نے تین مختل��ف طریق��وں س��ے حض��ور س��یدنا

آازمانے اور مغلوd کرنے ک� کوشش ک� ۔ ی� المسیح کو عیس

آازمائش ۔ روٹ� پہل� آاک��ر اس س��ے کہ��ا ۔۔۔۔۔۔ فرم��ا کہ یہ پتھ��ر روٹی��اں بن ج��ائیں ۔ آازم��انے والے نے پ��اس "

آایت ۴)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع (۔۳

ع��ام ط��ور پ��ر سیاس��تدان انتخاب��ات جیت��نے کے ل��ئے ع��وام س��ے سس��ت� خ��وارک اور کم محنت کے� زندگ� مہیا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ روم� قصیر بھ� رعایا میں عوض زیادہ سے زیادہ ضروریات اپن� مقبولیت قائم رکھنے کے لئے مفلس عوام میں گن��دم مفت تقس��یم کی��ا ک��رتے تھے۔ بے ش��ک انس���ان ک� م���ادی ض���روریات پ���وری کرن���ا نہ���ایت اہم اور ض���روری ہے ۔ لیکن اس ک� روح���ان�ی� المسیح نے پتھروں ک��و روٹ� ضروریات ان سے کبھ� پوری نہیں ہوتیں۔ لہذا حضور سیدنا عیسآازم��ائش ک��و رد کردی��ا ۔ کی��ونکہ انس��ان ک� روح��ان� بھ��وک ک��و میں تب��دی ک��رنے ک� ش��یطان�

آاپ نے جواd دیا: جسمان� خوراک سے مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ آادم� ص�رف روٹ� ہ� س�ے جیت�ا نہ رہے گ�ا بلکہ ہ�ر ب�ات س�ے ج�و خ�دا " لکھ��ا ہے کہ

آایت (۔۴کےمنہ سے نکلت� ہے ۔)

آاگ�اہ تھے کہ وہ مفت ی� المسیح ع�وام ک� اس کم�زوری س�ے بخ��وب� حضور سیدنا عیس روٹ� مہیا کرنے والے راہنما ک� متابعت بلا چوں وچرا کرنے لگ ج��ائیں گے لیکن ج��ونہ� ک��وئ�

مصیبت برپا ہوگ� تو وہ اس� راہنما ک� مخالفت پر ت جائيں گے۔آائے تھے۔ ی� المس��یح دنی��اوی س��لطنت ق��ائم ک��رنے نہیں اس وقت حض��ور س��یدنا عیس�� � آاپ کا اختیار روحان� اصولات پر مب�ن� ہے اور ان میں س�ے پہلا ، جس ط�رح کلام انسانوں پر آام��ادگ� ی� ک� مرض� کے مطابق زن��دگ� بس��ر ک��رنے کے ل��ئے مقدس میں بتایا گیا ہے خداتعال

ہے۔

آازمائش۔ عوا م میں مقبولیت دوسر " تب ابلیس اسے مقدس شہری میں لے گیا اور ہیک کے کنگرے پر کھڑا ک��رکے اس

سے کہا کہ ۔۔۔۔۔ اپنے تیئں نیچے گرادے کیونک لکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا

اور وہ تجھے ہاتھوں پراٹھالیں گے )انجی شریف بہ مطابق حضرت م�ت� رک��وعایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے ۔"

آایت ۴ (۔۶یا ۵

ی� المسیح کس� عظیم معجزه کے توسط سے اپ��نے ت��یئں ای��ک ب��ڑے حضور سیدنا عیسآاd مقبول ع��ام اور ہ��ر آات� تو مجمع کے سامنے ہیک کے کنگرے سے گرادیتے اور خراش تک نہ دلعزی��ز ض��رور ہوج��اتے مگ��ر یہ تھ��وڑی دی��ر ک� واہ واہ س��ے زی��ادہ نہ ہوت��ا۔ ب��دکار دل تب��دی نہی� کے خلاف بغ��اوت وگن��اہ دل آات� لیکن خ��دا تع��ال ہوجاتے ۔ بے شک ظاہرا طور پ��ر تب��دیل� نظ��ر ی� المس��یح نے عق�� ک� گہرائیوں میں موجوداور لا تبدی رہتا۔ متعدد مواقع پ��ر حض��ور س��یدنا عیس��آاپ نے ہمیش��ہ اپ��ن� ق���درت وذہن ک� تس��کین کے ل��ئے معج��زات دکھ���انے س��ے انک��ار کردی��ا۔ آاپ کے معج��زات ص��رف ن��وع انس��ان� کوسطح� کاموں کے لئے استعمال کرنے سے گریز کی��ا۔

آاپ نے ابلیس ک� اس پیش کش ک��و رد کردی��ا اور س��اتھ کو فائدہ پہنچ��انے کے ل��ئے تھے۔ لہ��ذا � خدا کو موڑ توڑ کر پیش کرنےپر ملامت کرتے ہوئے فرمایا : ہ� اسے کلام

آازمائش نہ کر۔" آایت " یہ بھ� لکھاہے کہ تو خداوند اپنے خدا ک� (۔۷)

آازمائش ۔دنیا پر اختیار تیسری � مقدس میں مرقو م ہے کہ کلام

"پھر ابلیس اسے ایک بہت اونچے پہاڑ پر لے گی��ا اور دنی��ا ک� س��ب س��لطنتیں اور ا ن ک� شان وشوکت اسے دکھائ� ۔ اور اس سے کہا اگر تو جھک کر مجھے سجدہ کرے تو یہ

آایت ۴)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع سب کچھ تجھے دے دونگا ۔" (۔۹تا ۸

آاک��ر ابلیس کے پیروک��ا ر بن � ص میں متع��دد عظیم اش��خاص دنی��اوی اختی��ار ک� ح��ر گ��ئے اور اس��� کے ط��ور ط��ریقے اپن��انے لگے ۔ وہ ع��وام پ��ر اپ��نے اقت��دار ک��و ق��ائم رکھ��نے کے ل��ئے سچائ� کو پس پشت ڈال کر جھوٹ کا سہارا لیتے رہے ہیں۔ ایک موقع پر جب چن��د یہودی��وں

آاپ نے فرمایا : ی� المسیح ک� مخالفت ک� تو نے حضور سیدنا عیس " اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو مجھ سے محبت رکھتے، اس لئے کہ میں خدا سے نکلاآایا بلکہ اس� نے مجھے بھیج��ا ۔ تم م�یری ب�اتیں کی�وں نہیں آاپ سے نہیں آایا ہوں کیونکہ میں اور سمجھتے ؟ اس لئے کہ میرا کلام سن نہیں سکتے ۔ تم اپنے ب��اپ ابلیس س��ے ہ��و اور اپ��نے ب��اپ ک� خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔ وہ ش��روع ہ� س��ے خ��ون� ہے او ر س��چائ� پ��ر ق��ائم نہیں رہ��ا کی��ونکہ اس میں س��چائ� ہےنہیں۔ جب وہ جھ��وٹ بولت��ا ہے تواپ��ن� ہ� س��� کہت��ا ہے کی��ونکہ وہ جھوٹا ہے بلکہ جھ��وٹ ک��ا ب��اپ ہے لیکن میں ج��و س��چ بولت��ا ہ��وں ،اس�� ل��ئے تم م��یر ا یقین نہیں

آایت ۸) انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع کرتے ۔" (۔۴۵ تا ۴۲

ی� المس��یح نے ابلیس ک� پرس��تش ک��رنے اور اس ک� ت��دبیروں اور حض��ور س��یدنا عیس��آاپ کا نوع انسان� پر غلبہ اثر صرف سچائ� پر مبن� ہے اصولوں پرچلنے سے صاف انکار کردیا۔ آاپ نے دھ��وکے ب��ازی ، ریاک��اری، جھ��وٹ ، ف��ریب اور جھ��وٹے پراپگین��ڈے ک� م��ذمت ک� اور ۔

� قدم پرچلتے ہوئے ہر صورت میں حق کا دامن تھامے آاپ کےنقش اپنے پیروکاروں کو تاکید کہ وہ رہیں۔

یی کرت��اہے کہ اس��ے دنی��ا ک� تم��ام س��لطنتوں او ران آازم��ائش میں ابلیس دع��و اس تیس��ری ی� المس��یح نے ابلیس کے اس ک� شان وش��وکت پ��ر پ��ورا اختی��ار حاص�� ہے ۔ حض��ور س��یدنا عیس��یے کو نہیں جھٹلایا بلکہ خود بھ� اس بات ک� تص��دیق ک� کہ یہ دنی��ا ابلیس کےہ��اتھوں دعوآاپ نے یہ خوش���خبری دی کہ اس س���ے بچ���اؤ ممکن ہے۔ ج���و بھ� ابلیس اور اس میں ہے ۔البتہ آاس��مان ک� ی� ک� فرم��انبرداری ک��رے اور ک� تج��ویزوں ک��و رد ک��رے اور ت��وبہ ک��رکے خ��دا تع��ال

آاپ اس کوجھڑک کر فرمایا : بادشاہت میں داخ ہوگا ۔ ی� ک�و س�جدہ ک�ر اور " اے شیطان دور ہو کیونکہ لکھاہے کہ تو خداوند اپ�نے خ��دا تع�ال

آایت ۴)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع صرف اس� ک� عبادت کر۔" (۔۱۰

ی� المس��یح نے اپ��ن� تعلیم وتبلی��غ میں ش��ریعت کے پہلے حکم پ��ر حض��ور س��یدنا عیس��خاص زور دیا جویوں ہے :

" خداوند ہمارا خدا ایک ہ� خداوند ہے۔ اور تو خداوند اپنے خدا سے اپ��نے س��ارے دل )انجی�� ش��ریف بہاور اپن� ساری جان اور اپن� ساری عق� اور اپ�ن� س�اری ط��اقت س�ے محبت رکھ۔"

آایت ۱۲مطابق حضرت مرقس رکوع ۳۰)

ی� المس��یح نے آازمائش��وں کے ج��واd میں ج��و رویہ حض��ور س��یدنا عیس�� ابلیس ک� تم��ام � منش��ا تھے ۔چن��انچہ ی� کے حس��ب آاپ نے دئ��یے۔ وہ تم��ام خ��دا تع��ال dوا��و ج��ا اور ج��ار کی��اختی

آاپ ک� خدمت کرنے لگے ۔ آاکر ابلیس شکست کھاکر وہا ں سے چلا گیا اور فرشتگان

ی� المسیح ک� حضرت یوحنا کے پاس واپس� حضور سیدنا عیسی� المس��یح اس مجم��ع آازمائش کے چالیس دن گزر ج��انے کے بع��د حض�ور س��یدنا عیس�آائے جواd تک حضرت یوحنا کے وعظ ونص�یحت س�ننے کے ل�ئے ان کے پاس واپس تشریف لے کے گرد جمع تھ��ا۔ دریں اثن��ا ء یروش��لیم کے قائ��دین دین نے اس س��وال کے ب��ارے میں ج��و ع��وام

میں گشت کررہا تھا اپنے امام حضرت یوحنا کے پاس بھیجے ۔ جب اماموں نے حضرت یوحن��اسے سوال کیاکہ وہ کون ہیں تو انہوں نے نہایت انکساری سے جواd دیا :

" میں تو مسیح نہیں ہوں ۔" انہوں نے اس سے پوچھ��ا پھ��ر ک��ون ہے ؟ کی��ا ت�و ایلی��اہ) حض��رت الی��اس ( ہے ؟ اس نے

کہا میں نہیں ہوں کیا تو وہ نب� ہے ؟ اس نے جوا دیا کہ نہیں

dوا�و ج��وں ک��نے وال��نے بھیج�اکہ ہم اپ�ون؟ ت�و ہے ک�پس انہوں نے اس سے کہا پھر ت دیں۔ تو اپنے حق میں کیا کہتا ہے؟ اس نے کہا میں

جیسا یسعیاہ نب� نے کہا ہے آاواز ہوں کہ تم بیابان میں ایک پکارنے والے ک�

خداوند ک� راہ سیدھا کرو۔ یہ فریسیوں ک� طرف سے بھیجے گئے تھے۔ انہوں نے اس سے یہ سوال کی��اکہ اگ��ر ت��و

نہ مسیح ہے نہ ایلیاہ نہ وہ نب� تو پھر بپتسمہ کیوں دیتا ہے ؟ " یوحنا نے جواd میں ان سے کہا" میں پ�ان� س�ے بپتس�مہ دیت�ا ہ�وں۔ تمہ�ارے درمی�انآانے والا جس ک� ج��وت� ک��ا ایک شخص کھڑا ہے جسے تم نہیں جانتے ۔ یعن� م��یرے بع��د ک��ا

آایت ۱) انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع تسمہ میں کھولنے کے لائق نہیں۔" (۔۲۷ تا ۲۰

ی� کے ارادہ وتجویز ک� تکمی میں اپنا کردار پوری ط��رح ادا �د خدا نے خدا تعال اس مر کیا۔ لیکن وہ اپن� ذات کے ل��ئے کبھ� تعری��ف وتوص��یف کے متم��ن� نہ ہ��وئے ۔انہ��وں نے حض��ور

ی� المسیح کے بارے میں فرمایا: سیدنا عیسآایت۳)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت یوحن��ا رک��وع " ضرور ہے کہ وہ ب��ڑھے اور میں گھٹ��وں ۔"

(۔۳۰

ی� ام��اموں کے س��وال وج��واd کے دوس��رے دن حض��رت یوحن��ا نے حض��ور س��یدنا عیس��آاتے دیکھ کر فرمایا : المسیح کو اپن� طرف

ہے ج��و دنی��ا ک گن��اہ اٹھ��ائے لے جات��ا ہے۔ یہ وہ� ہے جس*1" دیکھو یہ خدا کا برہآاتا ہے جومجھ سے مق�دم ٹھہ��راہے کی�ونکہ ک� بابت میں نے کہا تھا کہ ایک شخص میرے بعد آای��ا کہ وہ مجھ سے پہلے تھا اور میں تو اسے پہچانتا نہ تھا مگر اس لئے پان� سے بپتسمہ دیتا ہوا

وہ اسرائی پر ظاہر ہوجائے ۔اور یوحنا نے یہ شہادت دی کہ

آاس�مان س�ے ات�رتے دیکھ�ا ہے اور وہ اس پ�ر ٹھہرگی�ا۔ اور � حق کو کبوتر ک� ط�رح میں نے روح میں تو اسے پہچانتا نہ تھا مگر جس نے مجھے پان� سے بپتسمہ دینے کو بھیج��ا اس��� نے مجھ� حق سے بپتسمہ دینے � حق کو اترتے اور ٹھہرتے دیکھے وہ� روح سے کہا کہ جس پر تو روح

آایت ۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع والا ہے ۔ (۔۳۳ تا ۲۹

دیکھئے۔۴ پر نوٹ نمبر ۲۹۳۔ صفحہ نمبر *1

ی� ن��ب� ( محس��وس ک��رنےلگے تھے کہ ایس��ا معل��وم ہوت��ا ہے کہ اd حض��رت یوحن��ا )یح��ی حکومت وقت ان ک� مخ��الفت ک��رے گ� جس ک��ا ن��تیجہ جل��دہ� ان ک� گرفت��اری ک� ص��ورت میں نکلے گا لہذا وہ اd زیادہ وضاحت سے المسیح ک� شخص��یت ک��و نمای��اں ک��رکے اپ��نےآاپ ک� ط��رف آاپ ک� پ��یروی ک��رنے ک� تلقین ک��رنے لگے ۔ چن��انچہ انہ��وں نے شاگردوں کو

دیکھتے ہوئے مزید کہا ی�( "دیکھو یہ خدا کا برہ ہے ! وہ دونوں شاگردو اس کو یہ کہتے سن کر یسوع )عیسآاتے دیکھ کر ان سے کہا تم کیا ی�( نے پھر کر اور انہیں پیچھے کے پیچھے ہولئے ۔ یسوع )عیس ڈھونڈتے ہو؟ انہوں نے اس سے کہ��ا اے رب� )یع�ن� اے اس�تا د( ت�و کہ�اں رہت�ا ہے ؟ اس نے انآاک��ر اس کے رہ��نے ک� جگہ دیکھ� اور اس روز اس س��ے کہ��اچلو دیکھ ل��وگے ۔ پس انہ��وں نے کے ساتھ رہے۔ اور یہ دسویں گھنٹے کے قریب تھا۔ان دونوں میں سے جو یوحنا ک� بات سنی�( کے پیچھے ہولئے تھے ایک شمعون پطرس کابھائ� اندریاس تھا۔ اس نے پہلے کر یسوع )عیس

یع��ن� مس��یح م�� گی��ا۔*1اپنے سگے بھائ� شمعون سے م کر اس سے کہا کہ ہم کو خرس��تس ی�( کے پاس لایا۔" (۔۴۲تا ۳۶آایت ۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع وہ اسے یسوع )عیس

خرستس اور مسیح کا ایک ہ� مطلب ہے ۔ خرستس یونان� اور مسیح عبران� لفظ ہے۔ دونوں کا مطلب " مسح کیاہوا*1۔"

ی� المسیح ک� طرح اندریاس اورپطرس بھ� صوبہ گلی کےباشندے حضور سیدنا عیسی� نب�( ک� پرجوش تبلیغ سے بڑے متاثر ہوکر آادم� تھے۔ وہ حضرت یوحنا )یحی تھے۔ دونوں جوان آاگ�ئے تھے۔ وہ م�اہ� گ��یرتھے اور ان ک� ج�ائے رہ��ائش گلی� گلی کو چھوڑ کر جنوب� علاقہ میں

ک� جھی کے ساحل� قصبہ بیت صیدا میں تھ�۔ی� المسیح نے حضرت یوحنا کوچھوڑ کر شمال ک� طرف صوبہ گلی حضور سیدنا عیس کو تشریف لے جانے کا ارادہ کیا جو وہاں سے تین چار دن ک� مس�افت پ��ر تھ��ا۔ روانہ ہ��ونے س�ےآاپ نے فلپس کو اپنے ساتھ چلنے ک� دعوت دی ۔ وہ بھ� بیت صدا ہ� کا باشندہ تھا۔ پیشتر

قانا کے مقام پر شادیآاپ ک��و ش��اگردوں س��میت آاپ اپنے گ��اؤں ناص��رت پہنچ گ��ئے ت��و کچھ دن��وں بع��د جب

می کے فاص��لہ پ��ر۸ایک گاؤں قانا سے شادی میں شمولیت ک� دعوت مل�۔ قانا، ناصرت سے آاپ نے اپ��نے پہلے تھا۔ صدیقہ مریم اوردیگر رش��تہ دار بھ� اس ش��ادی میں م��دعو تھے۔ یہ��اں پ��ر �ک فلسطین میں انگور بہتات سے معجزے سے اپن� قدرت اور اختیار کا مظاہرہ کیا۔ چونکہ مل پیدا ہوتے ہیں ا س لئے جیسے ہمارے ہاں مہمانوں کو چائے پلانے کا دستور ہے ویس��ے ہ� وہ��اں انگور کا رس بطور مشروd اس��تعمال ہوت��ا تھ��ا۔ اس ش��ادی کے دوران گھ��ر والےب��ڑے پریش��ان ہ��وئے کیونکہ انگور کارس وقت سے پہلے ہ� ختم ہونے لگا۔ خدش��ہ تھ��ا کہ انہیں ش��رمندگ� ک��ا منہ دیکھن��اپڑے ۔ چ��ونکہ ص��دیقہ م��ریم بھ� دولہ��ا ک� رش��تہ دار تھیں۔ لہ��ذا وہ بھ� میزب��انوں ک�ی� المسیح کے پ�اس پہنچیں اور پریشان� میں شریک تھیں۔ چنانچہ وہ جھٹ حضور سیدنا عیس

کہا

" ان کے پا س مے نہیں رہ� ۔۔۔۔۔ اس ک� ماں نے خ��ادموں س��ے کہ��ا ج��و کچھ یہآایت ۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع تم سے کہے وہ کرو۔" (۔۴ تا ۳

� مقدس باق� ماندہ واقعہ کو یوں بیان کرتاہے : کلام " وہاں یہودیوں ک� طہارت کے دس��تور کے مواف��ق پتھ��ر کے چھ مٹکے رکھے تھے اوری�( نے ان س��ے کہ�ا مٹک�وں میں پ�ان� ان میں دو دو تین تین من ک� گنجائش تھ�۔ یسوع )عیس بھردو۔پس انہوں نے ان کو لباd بھردیا۔ پھر اس نے ان سے کہا اd نک�ال ک�ر م�یر مجلس کے پاس لے جاؤ ۔ پس وہ لے گئے جب میر مجلس نے وہ پان� چکھا جو مے بن گی��ا تھ��ا اورجانت��اآائ� ہے )مگر خادم جنہوں نے پان� نکالا تھا جانتے تھے(ت��و م��یر مجلس نہ تھا کہ یہ کہاں سے نے دولہا کو بلا کر اس سے کہا۔ ہر شخص پہلے اچھ� مے پیش کرتا ہے اور ناقص اس وقت جب پ� کر چھک گئے ۔ مگر تو نے اچھ� مے اd تک رکھ چھوڑی ہے ۔یہ پہلا معجزه یسوعی�( نے قان��ائے گلی�� میں دکھ��اکر اپن��ا جلال ظ��اہر کی��ا اور اس کے ش��اگرد ا س پ��ر ایم��ان )عیس��

آایت ۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنارکوع لائے ۔" (۔۱۱تا ۶

ی� المس��یح ک� ش��مولیت بی��اہ ش��ادی اور ازدواج� اس ش��ادی میں حض��ور س��یدنا عیس��آاپ نے تعلیم دی آاپ ک� تعلیم��ات کے عین مط��ابق ہے۔ زندگ� ک� پ��اکیزگ� کے ب��ارے میں ی� ک� نس�� انس��ان� کے ب��ارے میں یہ منش��ا رہ� ہے کہ می��اں بی��وی کہ ابت��دا ہ� س��ے خ��دا تع��ال

کمال وفاداری سے م کر باہم زندگ� بسر کریں تاوقتیکہ موت انہیں جدانہ کردے ۔آازمانے کے لئے سوال کیا: آاپ کو ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ فریسیوں نے

" کیا ہر ایک سبب سے اپن� بیوی کو چھوڑ دینا روا ہے ؟ اس نے جواd میں کہ��ا کی��ا تم نے نہیں پڑھا کہ جس نے انہیں بنایا اس نے ابتدا ہ� سے انہیں مردا ور عورت بناکر کہ��ا کہ اس سبب سے مرد باپ سے اور ماں س�ے ج�دا ہ��وکر اپ�ن� بی�وی کے س�اتھ رہے گ�ا اور وہ دون�وں ایک جسم ہ��وں گے ۔ پس وہ دو نہیں بلکہ ای��ک جس��م ہیں۔ اس ل��ئے جس��ے خ��دا نے ج��وڑا ہے

آادم� جدانہ کرے ۔ اسے

ی� نے کیوں حکم دیا ہے کہ طلاق نامہ دے کر چھوڑ دی جائے؟ انہوں نے اس سے کہا پھر موسی نے تمہاری سخت دل� کے سبب س��ے تم ک��و اپ��ن� بیوی��وں اس نے ان سے کہا موس� کو چھوڑدینے ک� اجازت دی مگر ابتدا سے ایسا نہ تھا ۔ اور میں تم سے کہتاہوں کہ ج��و ک��وئ� اپن� بیوی کو حرامکاری کے سوا کس� اور سبب سے چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ

زنا کرتا ہے اور جوکوئ� چھوڑی ہوئ� سے بیاہ کرلے و ہ بھ� زنا کرتا ہے۔ شاگردوں نے اس سے کہا کہ اگر مرد کا بیوی کے ساتھ ایس��ا ہ� ح��ال ہےت��و بی��اہ کرن��ا

ہ� اچھا نہیں ۔" " اس نے ان س��ے کہ��ا س��ب اس ب��ات کوقب��ول نہیں کرس��کتے مگ��ر وہ� جن ک��و یہ

م�اں کے پیٹ ہ� س�ے ایس�ے پی��دا*1قدرت دی گ�ئ� ہے ۔کی��ونکہ بعض خ��وجے ایس��ے ہیں ج��و آادمی��وں نے خ��وجہ بنای��ا اور بعض خ��وجے ایس��ے ہیں ہوئے اور بعض خوجے ایسے ہیں ج��و ان ک��و آاپ کو خوجہ بنایا۔ جو قب��ول کرس��کتا ہے وہ قب��ول آاسمان ک� بادشاہ� کے لئے اپنے جنہوں نے

کرے ۔"

آایت ۱۹)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع (۔۱۲ تا ۳

آاپ نے یہ��اں تج��رد ک� ت��رغیب*۔1 ی� المسیح نے اپ��نے ح��واريئن کے اع��تراض ک��ا ج��واd دی��ا ہے ۔ یہاں حضور سیدنا عیسآاپ کا مطلب یہ تھا کہ بعض لوگ پیدائش ہ� سے ش��ادی کے ناقاب�� ہ��وتے ہیں۔ نہیں دی اور نہ اس ک� تعریف ک� ہے۔ ی� ک� خاطر شادی سے احتراز کرتے ہیں ت��اکہ آادم� اپن� اغراض ک� خاطر مخنث بنادیتے ہیں اور بعض خدا تعال بعض کو آازادی کے ساتھ کرسکیں ۔ اگر انسان اپن� نفسان� خواہشات کو قابو میں نہیں رکھ سکتا )کی��ونکہ اس ک� خدمت زیادہ �م مقدس میں مرقوم ہے " اگر ضبط نہ کرس��کیں ت��و یہ سب کے بس ک� بات نہیں ہے(تو بہتر ہے کہ وہ شادی کرے ۔ کلا

�ط اول اہ کرنتھیوں رکوع آایت ۷بیاہ کرلیں کیونکہ بیاہ کرنامست ہونے سے بہتر ہے ۔ )انجی شریف خ (۔۹

جس طرح ف� زمانہ گناہ کا دور دورہ ہے اس�� ط�رح دو ہ�زار س�ال پیش�تر بھ� گن�اہ اپ�ن� پوری شدت سے موجود تھا۔ تعلیم یافتہ طبقہ میں عام طور پر میاں بیوی ایک دوسرے کے وفادارآازادی ک� شہ پر شہزادہ ہیرودیس انتپاس زناکاری کا مرتکب ہ��وا نہ تھے اور طلاق عام تھ�۔ اس�

جس کے س��بب حض��رت یوحن��ا نے اس��ے لعنت ملامت ک� تھ� ۔ ام��راو غرب��ا دون��وں طبق��وں پ��ری� کے اخلاق� معی�ار کے مط�ابق ش�ہوان� خواہش�ات س�وار تھیں۔ نہ��ایت تھ�وڑے ل�وگ خ�دا تع�الی� المس��یح نے فرمای��ا کہ نہ ص��رف زناک��اری کے زندگ� بسر کرتے تھے ۔ مگر حضور سیدنا عیس�� عمل� گن��اہ س��ے بچن��ا ہے بلکہ ش��ہوان� خی��الات ک��و کبھ� اپ��نے نزدی��ک نہیں پھٹک��نے دین��ا

� زمانہ پہاڑی وعظ میں فرمایا: آاپ نے اپنے مشہور چاہیے ۔ " تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھ��ا کہ زن��ا نہ کرن��ا۔ لیکن میں تم س��ے کہت��ا ہ��وں کہ جس کس��� نے ب��ری خ��واہش س��ے کس��� ع��ورت پرنگ��اہ ک� وہ اپ��نے دل میں اس کے س��اتھ زن��ا

آایت ۵) انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع کرچکا ۔" (۔۲۸ تا۲۷

ی� ک� پرس��تش ک� اس دنیا میں حقیق� خوش� اس گھر میں ہوت� ہے جہاں خدا تع��ال جات� ہے اورمیاں بیوی پیارو محبت سے رہتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں ک� پرورش اور ت��ربیت اس ط��وری� کو پیار کریں اور اس کا خوف مانیں۔ اس دنیا میں حض�ور س�یدنا سے کرتے ہیں کہ وہ خداتعالی� ک� اط�اعت گ�زاری ی� المسیح ک� بعثت کا مقصد یہ تھا کہ وہ ہر م�ردو زن ک�و خ�دا تع�ال عیس کے ل��ئے ت��رغیب دیں ، کی��ونکہ حقیق� خوش��� اور حقیق� اطمین��ان اس ک� تابع��داری میں ہ�

پنہاں ہے۔آاپ ان گنہگ��اروں ک��و ی� المسیح گن��اہ س��ے م�برا م�نزہ تھے ، ت��اہم گو حضور سیدنا عیسآائندہ پیار کرتے اور ان پر رحم کرتے تھے جو پورے دل سےتوبہ کرکے مغفرت کے طالب ہوئے اور

ی� کو پسندخاطر ہو۔ آامادہ تھے جو خدا تعال ایس� زندگ� بسر کرنے پر آاپ ک� با پایاں محبت اور رحم اج��اگر ہوت��اہے۔ ای��ک دن ص��بح کے ذی کے واقعہ سے آاپ نے انہیں ی��وں درس آاپ کے چوگرد ایک بڑی جماعت بیٹھ� ہ��وئ� تھ� کہ وقت ہیک میں

دینا شروع کیا۔ " فقیہ اورفریس��� ای��ک ع��ورت ک��و لائے جوزن��ا میں پک��ڑی گ��ئ� تھ� اور اس��ے بیچ میںی�( سے کہا اےاستاد ! یہ عورت زن�ا میں عین فع�� کے وقت پک�ڑی گ�ئ� کھڑا کرکے یسوع )عیس

ی� نے حکم دیا ہےکہ ایس� عورت��وں کوسنگس��ار ک��ریں۔ پس ت��و اس ع��ورت ہے ۔ توریت میں موسک� نسبت کیا کہتا ہے ؟

آازمانے کے لئے یہ کہا تاکہ اس پر الزام لگانے کا ک��وئ� س��بب نک��الیں۔ انہوں نے اسے ی�( جھک کر انگل� سے زمین پر لکھ��نے لگ��ا۔جب وہ اس س��ے س��وال ک��رتے ہ� مگر یسوع )عیس رہے تو اس نے سیدھے ہوکر ان سے کہا جو تم میں بے گناہ ہ��و وہ� پہلے اس کے پتھ��ر م��ارے ۔ اور پھر جھک کر زمین پر انگل� سے لکھنے لگا ۔ وہ یہ سن کر بڑوں س�ے لے ک�ر چھوٹ�وں ت�کی�( اکیلا رہ گی��ا اور ع��ورت وہیں بیچ میں رہ گ��ئ�۔ ای��ک ای��ک ک��رکے نک�� گ��ئے اور یس��وع )عیس�� یس�وع نے س��یدھے ہ��وکر اس س�ے کہ��ا اے ع��ورت یہ ل�وگ کہ��اں گ�ئے ؟ کی��ا کس�� نے تجھ پ�ر حکم نہیں لگایا ؟ اس نے کہا اے مولا کس� نے نہیں ۔ یسوع نے کہا میں بھ� تجھ پ��ر حکم

(۔۱۱ تا ۳آایت ۸)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع نہیں لگاتا جا پھر گنا نہ کرنا۔"

� غ��ور ہے کہ م��ذہب کے یہ ٹھیکی��دار اس م��رد ک��و نہیں لائے بلکہ ص��رف یہ ب��ات قاب��آاخ��ر کی��وں؟ وہ بھ� ت��و س��زا ک��ا حق��دار تھ��ا۔ م��ردوں ک��ا بے بس عورت��وں پرتش��دد ان ع��ورت ک��و۔ ی� المسیح نے قانائے گلی�� کااستحصال خدا کے نزدیک نفرت انگیز گناہ ہے۔ حضور سیدنا عیس� حیات ہونے مقدس عہ��د ک��و ک� شادی میں شرکت سے میاں بیوی کے ایک دوسرے کے رفیق

آاپ کے ایک حواری پطرس اس� موضوع پر یوں رقمطراز ہیں: � جلی میں عزت بخش�۔ انجی " اے ش�وہرو! تم بھ� بیوی�وں کے س�اتھ عقلمن�دی س�ے بس�ر ک�رو اور ع�ورت ک�و ن�ازک ظرف جان کر اس ک� عزت ک��رو اور ی��وں س��مجھو کہ ہم دون��وں زن��دگ� ک� نعمت کےوارث

� اول حضرت پطرس رکوع ہیں تاکہ تمہاری دعائیں رک نہ جائيں۔ " آایت ۲)انجی شریف خط (۔۷

ی� المسیح نے عوام کو نہ صرف زبان� وعظ ونصیحت ک� بلکہ اپنے حضور سیدنا عیساعمال وکردار سے بھ� ان ک� تربیت ک�۔

آامد یروشلیم میں

ی� المس�یح اپ�ن� وال��دہ قانائے گلی ک� شادی ک� شرکت کے بعد حض��ور س�یدنا عیس�� محترمہ اور بھائيوں کے ساتھ چنددنوں کے ل��ئے کف��ر نح��وم تش��ریف لے گ��ئے ۔ اور پھ��ر وہ��اں س��ے

۱۸ ک� رس��ومات میں ش��ریک ہ��وں۔ *1جنوd ک� طرف یروشلیم شہر ک� راہ ل� تاکہ عی��د فسحآاپ نے ب��ارہ س��ال ک� عم��ر میں آاپ اس��� عی��د میں یروش��لیم تش��ریف لائے تھے جب س��ال پیش��تر آاپ نے ہیک�� کے ص��حن میں ج��و نظ��ارہ علم��ائے دین س��ے بحث ک� تھ�۔ یروش��لیم پہنچ ک��ر آاپ کا دل برانگیختہ ہوگیا۔ ایک ط��رف ت�و قرب�ان� کے ج�انوروں ک� خری�دوفروخت دیکھا اس سے آاواز س��نائ� نہیں دی��ت� تھ�۔ اور دوس��ری ط��رف اور س��ودا ب��ازی کے ش��ور وغ�� س��ے ک��ان پ��ڑی اور

ک� کھنکھناہٹ سے ہی��ک کے تق��دس ک� بے حرم��ت� ہ��ورہ�*2صرافوں کے تختوں پر سکوںی� ک� پرس��تش کے خی��ال ک� بج��ائے روپے پیس��ے تھ�۔ زائ��یرن ہیک�� کے دل میں خ��دا تع��الآاڑ میں ت��اجروں کے ہ��اتھوں ی� المس��یح نے م��ذہب ک� کابھوت سوار تھا۔ جب حضور س��یدنا عیس��

�م مقدس میں یوں مرقوم ہے : آاپ ج بھن گئے ۔ کلا غریبوں کو لٹتے دیکھا تو " اس نے ہیک میں بی اور بھیڑ اور کبوتر بیچنے والوں ک�و اور ص��رافوں ک�و بیٹھے پای�ا۔ اوررسیوں کا کوڑا بنا کر سب کو یعن� بھیڑوں اور بیلوں کو ہیک سے نک��ال دی��ا اور ص��رافو ں ک� نقدی بکھیردی اور ان کے تخت الٹ دیئے ۔ اور کبوتر فروش��وں س��ے کہ��ا ان ک��و یہ��اں س��ےآایا کہ لکھ��اہے لے جاؤ۔ میرے باپ کے گھر کو تجارت کا گھر نہ بناؤ ۔اس کے شاگردوں کو یاد

آایت ۲)انجی شریف بہ مطابق حض��رت یوحن��ا رک��وع کہ تیرے گھر ک� غیرت مجھے کھا جائے گ�۔ ت��ا۱۴

(۔۱۷

دیکھئے ۔۵ پر نوٹ نمبر ۲۹۴ صفحہ نمبر *1 ہیک میں صرف یہودی سکہ ہ� قبول کیا جاتا تھا۔ اس لئے ل��وگ روم� اور دیگ��ر ممال��ک کے س��کے یہ��ودی*2

سکہ میں تبدی کرالیتے تھے تاکہ ہیک کے خزانہ میں نذ رانہ ڈال سکیں۔ غیر یہودی سکہ ناپ��اک س��مجھا جات��اتھا۔ مترجم۔

آاڑ میں روپیہ ابتدا ہ� سے بعض پیشہ ور مذہب� راہنما عب��اد ت گ�زاروں س��ے م��ذہب ک� �ہ خ��دا ک� غ��یرت میں ج��انوروں اور ی� المس��یح نے خ��ان بٹورتے رہے ہیں۔ لیکن حض��ور س��یدنا عیس��

آاپ نے بڑی صفائ� سے فرمایاکہ تاجروں کو اس مقدس مقام سے باہر نکال دیا۔ آادم� دو مالکوں ک� خدمت نہیں کرسکتا کیونکہ یا تو ایک سے عدوات رکھے "کوئ� گا اور دوسرے سےمحبت ۔یا ایک سے ملارہے گا اور دوسرے کو نا چ��یز ج��انے گ��ا۔ تم خ��دا اور

آایت ۶)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع دولت دونوں ک� خدمت نہیں کرسکتے ۔" (۔۲۴

انجی شریف میں ان لوگوں کے بارے میں مرقوم ہے : " فریس� جو ز ردوست تھے ان سب باتوں کو سن کر اسے ٹھٹھوں میں اڑانے لگے ۔"

آایت ۱۶)انجی شریف بہ مطابق حضر ت لوقا رکوع (۔۱۴

ی� المسیح کے کئ� نام نہاد پیروک��ار ان فریس��یوں � افسوس ہے کہ حضور سیدنا عیس مقام ک� مانند ہ� تھے۔ انہوں نے روپے پیسے کو اپنا خدا بنا رکھا تھ��ا م��ذکورہ ب��الا واقعہ س��ے حض��وری� المس��یح نے اس ب��ات ک��ا اظہ��ار کی��اکہ انہیں م��ذہب کے ن��ام میں پیس��ہ بٹ��ورنے س��یدنا عیس��

سےکتن� گھن ہے۔ کچھ قائ��دین دین ع��وام کےت��وہم اور جہ��الت س��ے م��ال� فائ��دہ اٹھ��اتے ہیں ۔ وہ غ��ریب اورجاہ عوام کو بد نظری سے بچانے کے نام میں تعويذ فروخت کرتے ہیں۔ دوسرے یتیم خانوں

وغیرہ کے نام میں اپن� غرض پوری کرتے ہیں۔ ی� المس��یح نے ذخ��یرہ ان��دوزی ی� کے سچے خ��ادم حض��ور س��یدنا عیس�� خدائے تبارک تعالآاواز اور دولت نوازی ک� ہمیشہ مذمت ک� اور غریبوں ک��و استحص��ال ک��رنے وال��وں کے خلاف آاپ سے ب��ڑی ترش��� کے س��اتھ آاپ کے اس رویہ سےغضبناک ہوئے ۔ انہوں نے اٹھائ�۔ یہودی

سوال کیا:"تو جو ان کاموں کو کرتا ہے ہمیں کونسا نشان دکھاتا ہے ؟

ی�( نے جواd میں ان سے کہا اس مقدس کو ڈھادو ت��ومیں اس��ے تین دن یسوع )عیس میں کھڑا کردونگا۔ یہودیوں نے کہا چھیالیس برس میں یہ مقدس بنا ہے اور کی��اتو اس��ے تین دن

آایت ۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنارکوع میں کھڑا کردے گا ؟ (۔۲۰ تا ۱۸

آاپ ک��و گرفت��ار آاپ ک� اس عمیں رمزکو سمجھنے سے قاص��ر رہے ۔ بع��د ازاں جب وہ آاپ پر انہ� باتوں ک� بنا پر ہیک کو مسمار ک�رنے ک�ا ال�زام عائ�د کی�ا۔ لیکن کیا گیا توانہوں نے آاپ ک� پیشن گ��وئ� تھ� � اقدس ک� طرف کیا تھا۔ یہ آاپ نے یہ اشارہ درحقیقت اپنے جسد

آاکر تیسرے روز مردوں میں سے ج� اٹھیں گے۔ آاپ موت پر غالب کہ " جب وہ یروشلیم میں فسح کے وقت عید میں تھا تو بہت سے ل��وگ ان معج��زوں ک��وی�( اپ��ن� نس��بت ان پ��ر دیکھ ک��ر وہ دکھات��ا تھ��ا اس کے ن��ام پرایم��ان لائے ۔ لیکن یس��وع )عیس�� اعتبار نہ کرتا تھا ا س لئے کہ وہ سب کو جانتا تھا۔ اور اس ک� ح��اجت نہ رکھت��ا تھ��ا کہ ک��وئ�آاپ جانت�ا تھ��ا کہ انس�ان کے دل میں کی�ا کی�ا ہے ۔" انسان کے ح�ق میں گ�واہ� دے کی�ونکہ وہ

آایت ۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع (۔۲۵ تا ۲۳

تمام قائدین بد اخلاق اور استحصال پسند نہیں ہوتے ۔ہر ق��وم اورمعاش��رے کے ہ��ر طبقےی� کے حقیق� متلاش�� اور س�چائ� اور راس�ت� کے میں ایسے ل�وگ پ�ائے ج�اتے ہیں ج�و خ�دا تع��ال بھوکے ہوتے ہیں۔ ایسےمردو زن حق کو بہر صورت معلوم کرنے کے متمن� رہتے ہیں۔ جب تک کہ ان ک� دل� تسکین نہ ہوجائے وہ تحقیق وتفتیش میں سرگردا رہتے ہیں۔ اس��� قس��م ک��ا ای��کی� مرتبت یہودی فریس��یوں کے ف��رقہ س��ے تعل��ق رکھت��ا تھ��ا ۔ اس نے شخص نیکدیمس تھا۔ یہ اعلی� المسیح کو درس دیتے اور نزاع� مسائ کو بیان کرتے سنا تھا۔اس نے لوگ��وں حضور سیدنا عیسآاپ کو آاپ سے یروشلیم میں ملاقات ک�۔ اس نے ک� نظروں سے بچنے کے لئے رات کے وقت

مخاطب کرکے کہا :آایا ہے۔ کی��ونکہ ج��و*1" اے رب� ہم جانتے ہیں کہ تو خدا ک� طرف سے استاد ہوکر

معجزے ت�و دکھات�ا ہے ک�وئ� ش�خص نہیں دکھ�ا س�کتا جب ت�ک خ�دا اس کے س�اتھ نہ ہ�و ۔"آایت ۳)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع (۔۲

نیک��دیمس دوس��رے فریس��یوں ک� نس��بت زي��ادہ حقیقت پس��ند تھ��ا۔ وہ حض��ور س��یدناآاپ ای��ک ایس��ے اس��تاد ہیں ی� المسیح کے اعمال واقوال دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچ��ا تھ��ا کہ عیسی� ک� طرف سے مبعوث ہوئے ہیں۔ گو نیکدیمس امت میں دین� مس�ائ ک�ا اس�تاد جو خدا تعال سمجھا جاتا تھا تاہم اd وہ ایس� گہری حقیقتوں کے بارے میں سننے والا تھا ج��و اس ک� بھ�

فہم وادراک سے بالا تھیں۔ رب� : یہودیوں میں دین� تعلیم دینے والے استاد رب� کہلاتے تھے ۔ مترجم۔*۔1

ی�( نے جواd میں ا س س��ے کہ��ا میں تجھ س��ے س��چ س��چ کہت��ا ہ��وں کہ " یسوع )عیس جب تک کوئ� نئے سرے سے پی��دا نہ ہ��و وہ خ��دا ک� بادش�اہ� ک��و دیکھ نہیں س��کتا نیک�دیمسآادم� جب بوڑھا ہوگیا تو کیونکر پیدا ہوسکتا ہے ؟ کیا وہ دوب��ارہ اپ��ن� م��اں کے نے اس سے کہا

پیٹ میں داخ ہوکر پیدا ہوسکتا ہے؟ی�( نے ج��واd دی��ا کہ میں تجھ س��ے س��چ س��چ کہت��ا ہ��وں کہ جب ت��ک " یس��وع )عیس��آادم� پان� اور روح سے پیدا نہ ہو وہ خدا ک� بادشاہ� میں داخ نہیں ہوسکتا۔ ج��و جس�م کوئ� سے پیدا ہوا ہے جسم ہے اور جو روح سے پیدا ہوا ہے روح ہے۔ تعجب نہ کرکہ میں نے تجھ س��ےآاواز کہا تمہیں نئے سرے سے پیدا ہونا ضرور ہے ۔ ہوا جدھر چاہت� ہے چلت� ہے اور ت��و اس ک� آات� اور کہاں کو جات� ہے ۔ ج�و ک�وئ� روح س�ے پی��دا ہ��وا سنتا ہے مگر نہیں جانتا کہ وہاں سے

ایسا ہ� ہے۔ "نیک��دیمس نے ج��واd میں اس س��ے کہ��ا یہ ب��اتیں کی��ونکر ہوس��کت� ہیں ؟ یس��وعی� ( نے جواd میں اس سے کہا ب��ن� اس��رائي ک��ا اس��تاد ہ��وکر ت��و ان ب��اتوں ک��و نہیں جانت��ا ؟ )عیس میں تجھ سے سچ سچ کہتا ہ��وں کہ ج��و ہم ج��انتے ہیں وہ کہ��تے ہیں اورجس��ے ہم نے دیکھ��ا ہے اس ک� گواہ� دیتے ہیں اور تم ہماری گواہ� قبول نہیں کرتے۔جب میں نے تم سے زمین ک�آاسمان ک� باتیں کہوں تو کیونکر یقین باتیں کہیں اور تم نے یقین نہیں کیا تو اگر میں تم سے آادم ج��و آاس��مان س��ے ات�را ہے یع��ن� ابن آاسمان پر کوئ� نہیں چڑھا س�وا اس کے ج�و کروگے ؟ اور

ی� نے س��انپ ک�و بیاب��ان میں اونچے پ��ر چڑھای��ا اس��� ط��رح*1آاسمان میں ہے۔ اور جس طرح موس��آادم بھ� اونچے پر چڑھایا جائے تاکہ جو کوئ� ایم��ان لائے اس میں ہمیش��ہ*2ضرور ہے کہ ابن

ک� زندگ� پائے۔ی� نے خ��دا کے حکم کے مط��ابق پیت�� ک��ا س��انپ بن��ا ک��ر ای��ک بل� پ��ر لٹکای��ا تھ��ا ت��اکہ وہ ل��وگ جنہیں*۔1 حض��رت موس��

آایت ۲۱نافرمان� کے سبب سانپوں نے ڈسا تھا اس پر نظرکریں اور بچ جائیں۔)دیکھئے توریت شریف گنت� رکوع (۔۹ ۶ پر نوٹ نمبر ۲۹۴ دیکھئے صفحہ نمبر *2

بخش دی��ا*1"کیونکہ خدا نے دنیا سے ایس��� محبت رکھ� کہ اس نے اپن��ا اکلوت��ا بیٹ��ا ت��اکہ ج��و ک��وئ� اس پ��ر ایم��ان لائے ہلاک نہ ہ��و بلکہ ہمیش��ہ ک� زن��دگ� پ��ائے ۔ کی��ونکہ خ��دا نے بیٹے کو دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا ک�ا حکم ک�رے بلکہ اس ل�ئے دنی��ا اس کے وسیلہ سے نجات پائے۔ جو اس پرایمان لاتا ہے اس پر سزا ک��ا حکم نہیں ہوت��ا۔ ج��و اس پ��ر ایم��ان نہیں لاتا اس پر سزا کا حکم ہوچکا۔اس لئے کہ وہ خدا کے اکلوتے بیٹے کے نام پر ایم��ان نہیںآادمیوں نے ت��اریک� کون��ور س��ے آایا ہے اور لایا۔ اور سزا کے حکم کا سبب یہ ہے کہ نور دنیا میں زیادہ پسند کیا۔ اس لئے کہ ان کے کام برے تھے ۔ کیونکہ جو کوئ� بدی کرتا ہے وہ نور س��ےآاتا۔ ایسا نہ ہو کہ اس کے ک�اموں پ�ر ملامت ک� ج�ائے۔ دشمن� رکھتا ہے اور نور کے پاس نہیں آات�ا ہے ت�اکہ اس کے ک�ام ظ�اہر ہ�وں کہ وہ خ�دا مگر جو سچائ� پر عم کرتا ہے وہ نور کے پاس

(۔۲۱ تا ۳آایت ۳) انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع میں کئے گئے ہیں۔"

نیک��دیمس پ��ران ب��اتوں ک��ا گہ��را اث��ر ہ��وا کی��ونکہ بع��د ازاں وہ ان تھ��وڑے س��ے لوگ��وں میںی� المسیح ک� تکفین وتدفین میں حصہ لیا۔ اس ک��ا ذک��ر شریک تھا جنہوں نے حضور سیدنا عیس

آائے گا۔ بعد میں ۔۷ پر نوٹ نمبر ۲۹۴ دیکھئے صفحہ نمبر *1

یہودیہ میںی� المس��یح اپ��نے حواری��وں نیکدیمس کے ساتھ گفتگو کرنے کے بعد حضور س��یدنا عیس��آاپ نے وہاں لوگوں س�ے وع�ظ فرمای�ا۔ سمیت یردن دریا کے قریب� علاقے میں تشریف لے گئے ۔

آاپ کے پیروکار بن گئے ۔ دری��ائے ی��ردن آاپ پر ایمان لائے انہیں حواریوں نے بپتسمہ دیا اور وہ جو ی� نب�( بھ� تبلیغ کرتے اور بپتسمہ کے پار ہ� چند می دو پریہ کے علاقہ میں حضرت یوحنا )یحیی� المس��یح کے دیتے تھے۔ لیکن اd زیادہ تر لوگ حضرت یوحنا کو چھوڑ کر حضور سیدنا عیسآانے لگے ۔ یہ دیکھ ک�ر حض�رت یوحن�ا کے ش�اگرد پریش�ان ہ��وئے۔ فرمودات سننے کے لئے یہ��ودیہ

چنانچہ انہوں نے اپنے استاد سے کہا " اے رب� ! جو شخص یردن کے پ��ار ت��یرے س��اتھ تھ��ا جس ک� ت��ونے گ��واہ� دی ہے

آاتے ہیں۔ ۔ دیکھ وہ بپتسمہ دیتا ہے اور سب اس کے پاس آاس�مان س�ے نہ یوحنا نے جواd میں کہا انسان کچھ نہیں پاسکتا جب ت�ک اس ک�و آاگے بھیجا گیا دیا جائے ۔ تم خود میرے گواہ ہو کہ میں نے کہا میں مسیح نہیں مگر اس کے ہو ں جس ک� دلہن ہے وہ دلہا ہے ۔ مگر دولہا کا دوس��ت ج��و کھ��ڑا ہ��وا اس ک� س��نتا ہے دولہ��اآاواز س��ے بہت خ��وش ہوت��ا ہے ۔ پس م��یری یہ خوش��� پ��وری ہوگ��ئ�۔ ض��رور ہے کہ وہ ب��ڑھے ک�

آایت ۳)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع اورمیں گھٹوں ۔" (۔۳۰ تا ۲۶

اس کے بع���د اچان���ک ہ� حض���رت یوحن���ا ک� تبلیغ� خ���دمت ختم ہ���وئ� ۔ ش���ہزادہ ہ��یرودیس انتپ��اس نے س��پاہ� بھیج ک��ر انہیں قی��د کرلی��ا۔ وجہ یہ تھ� کہ وہ گن��اہوں س��ے ت��وبہ اور پ��اکیزہ زن��دگ� بس��ر ک��رنے ک� من��ادی کی��ا ک��رتے تھے۔ ش��ہزادہ انتپ��اس نے اپ��نے س��وتیلے بھ��ائ� ش��ہزادہ فلپس ک� بی��وی ہیرودی��اس ک��و اپ��ن� بی��وی بنالی��ا تھ��ا۔ حض��رت یوحن��ا نے اس��ے لعنت

آایت ۱۴)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق م��ت� رک��وع ملامت ک� تھ� کہ " اس ک��ا رکھن��ا تجھے روا نہیں۔" (۔۴

�د خدا ک� ملامت کو برداشت نہ کرسکا ۔ چونکہ وہ نہ تو بہ کرنے اور نہ اپن� ہیرودیس انتپاس مر نئ� بیوی کو الگ کرنے کو تی�ار تھ�ا اس ل�ئے اس نے حض�رت یوحن�ا ک�امنہ بن�د ک�رنے کے ل�ئے

انہیں قید میں ڈال دیا۔

ی� کے آائے ہیں۔ خ��دا تع��ال آاف��رینش س��ے ب��دکار ، نیکوک��اروں س��ے نف��رت ک��رتے ابت��دائے متع��دد وف��ادار خ��ادم اور انبی��اء محض اس بن��ا پ��ر قی��دو بن��د ک� مص��یبتیں جھیل��تے رہے کہ وہ ب��ڑی

وفاداری سے حق پر گواہ� دیتے تھے۔

گلی کے راستہ میں سوخار کے مقام پری� المسیح نے یہ سنا کہ حضرت یوحنا قید کردئیے گئے ہیں تو جب حضور سیدنا عیس

�ل ناخواستہ گلی ک� طرف چ دیئے آایت ۴)دیکھئے انجی شریف حضرت مت� رکوع آاپ باد (۔۱۲

آاپ کے ل��ئے بھ� خط��رہ پی��دا ہوگی��ا تھ��ا کی��ونکہ یہ اd دری��ائے ی��ردن کے علاقے میں آاپ س�امریہ علاقہ ہیرودیس انتپ�اس ک� عم� داری میں تھ��ا۔ ش�مال ک� ط��رف س�فر ک�رتے ہ��وئے آا پ حض��رت یعق��وd کے مش��ہور آادھ��ا راس��تہ طے ک��رکے اا کے ص��وبہ میں س��ے گ��زرے ۔ تقریب�� ومعروف کوئيں پر پہنچے ۔ اس کے قریب ہ� حضرت یعقوd کا مقبرہ اور سوخار کا ش�ہر تھ��ا۔آارام ک�رنے ک� غ��رض س�ے ی� المسیح کوئیں کے پ�اس درخت��وں ک� چھ�اؤں میں حضور سیدنا عیسآاپ کے حواری شہر سے روٹ� مول لینے چلے گئے ۔ تھوڑی دیر بعد ایک تشریف فرما ہوئے ۔ �م آاپہنچ� ۔ اس ع��ورت س��ے ملاق��ات ک��ا بی��ان کلا مقام� ع��ورت رس�� اور ڈول لے ک�ر ک�وئیں پ��ر

مقدس یوں ہوا: " یس�وع نے اس س�ے کہ�ا مجھے پ�ان� پلا۔ کی�ونکہ اس کے ش�اگرد ش�ہر میں کھان�ا مول لینے کو گئے تھے۔ اس سامری عورت نے اس س��ے کہ��ا کہ ت��و یہ��ودی ہ��وکر مجھ س��امری ع��ورت س��ے پ��ان� کی��وں مانگت��ا ہے ؟ کی��ونکہ یہ��ودی س��امریوں س��ے کس��� ط��رح ک��ا برت��اؤ نہیں

آایت ۴)انجی شریف بہ مطابق یوحنا رکوع رکھتے (" (۔۹ تا ۵

یہودی��وں کے دل��وں میں س��امریوں کے خلاف گہ��را تعص�ب تھ��ا۔ وہ انہیں یہ��ودی ہ��وتے ہوئے دیگر اق��وام س�ے خل�ط مل�ط ہ��ونے کے س�بب س�ے اپ�نے کم��تر نس�� س�مجھتے تھے۔ ن�یز اس�ہ باب نے اپنے بت پرست بابلیوں کو وہاں لاک��ر تعصب میں اس وقت اور بھ� اضافہ ہوا جب شا

بسادیا تھا۔

ی� انس��ان� تعص��ب دل کے تک��بر کے ب��اعث پی��دا ہوت��ا ہے۔ لیکن حض��ور س��یدنا عیس��آاپ آاپ یہ��ودی خان��دان میں مبع��وث ہ��وئے تھے ت��و بھ� المسیح ایسے تعصب سے مبرا تھے۔ گ��و آاپ نے خ�واتین ک�و بھ� کبھ� کم�تر نہیں ک� محبت تمام ن�وع انس�ان� کے ل�ئے یکس�اں تھ�۔ ی� ک� نظر میں ان ک� بھ� مردوں جیس� قدروقیمت ہے اس ل��ئے سمجھا تھا۔ چونکہ خدا تعالآاتے تھے۔ یہ ای�ک فط��ری ام�ر تھ��ا کہ ای�ک آاپ ان کا احترام کرتے اور ان س�ے ہم�دردی س�ے پیش پیاسا اور تھکا ماندہ مسافر کس��� س��ے جس کے پ��اس پ��ان� نک�النے کاس��امان تھ��ا۔ پی��نے کے لئے پان� مانگے ۔ لیکن جب اس عورت نے یہودیوں کے خلاف نسل� تعصب کا مظاہرہ کیا ت��و

ی� ک� طرف موڑ دیا۔ � سخن کا رخ خدا تعال آاپ نے موضوعآاپ نے جواd دیا:

" اگر تم خدا ک� بخشش ک��و ج��انت� اور یہ بھ� ج��انت� کہ وہ ک��ون ہے ج��و تجھ س��ے )انجی ش��ریف بہکہتا ہے مجھے پان� پلا تو تو اس سے مانگت� او رو ہ تجھے زندگ� کاپان� دیتا۔"

آایت ۴مطابق حضرت یوحنا رکوع ۱۰)

یہ سن کر وہ عورت قدرے پریشان ہوئ� اور کہا " اے مالک تیر ے پاس پان� بھ��رنے ک��و ت��و کچھ ہے نہیں اور ک��واں گہ��را ہے۔ پھ��رآایا ؟ کیا تو ہمارے باپ یعقوd سے ب��ڑا ہے ۔جس نے وہ زندگ� کاپان� تیرے پا س کہاں سے ہم ک��و یہ ک��واں دی��ا اور خ��ود اس نے اوراس کے بیٹ��وں نے اور اس کے مویش��� نے اس میں س��ے

آایت ۴)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع پیا؟ (۔۱۲تا ۱۱

ی� المسیح نے اسے جواd دیتے وقت پندو نص��یحت ک��ا ای��ک ایس��ا حضور سیدنا عیس� عالیہ دنیا کے کونے ک��ونے ت��ک آاپ کے اراشادات مثال� طریقہ اختیار کیا جس ک� بدولت آاپ نے روز مرہ زندگ� ک� سادہ سادی مثالوں کو نوع انس��ان� کے ل��ئے خ��دا پہنچ گئے ہیں۔ � زن�دگ� ک�ا نہ�ایت آالہ بنای�ا۔دنی�ا میں پ��ان� ض�روریات ی� کے مقصد کو بیان کرنے ک�ا م�وثر تعالآاپ نے اس کے وس��یلہ س��ے روح��ان� حقیقت��وں اہم جز ہے۔ یہ تی سے کہیں زيادہ اہم ہے ۔ لہ��ذا

کو واضح کردیا۔ عورت بھاری مٹکا اٹھاکر واپس سوخار شہر جانے کے لئے سوچ رہ� تھ�۔

ی� المسیح اس ک� توجہ جسمان� ضروریات ک� طرف س�ے ہٹ��ا ک��ر حضور سیدنا عیسآاپ نے اس سےفرمایا ی� ک� طرف لگادیتے ہیں۔ خدا تعال

" جو کوئ� اس پان� میں سےپیتا ہے وہ پھر پیاسا ہوگ��ا۔ مگ��ر ج��و ک��وئ� اس پ��ان� میں سے پئے گا جو میں اسے دوں گا وہ اب�د ت�ک پیاس�ا نہ ہوگ��ا بلکہ ج��و پ�ان� میں اس�ے دوں گ�ا وہ

) انجی�� ش��ریفاس میں ایک چشمہ بن جائے گا جو ہمیشہ ک� زندگ� کے لئے جاری رہے گا۔"

آایت ۴بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع (۔۱۴ تا ۱۳

لیکن عورت نے اپن� مادی اور جسمان� ضروریات کے پیش نظر کہا " اے مال��ک وہ پ��ان� مجھ ک��و دے ت��اکہ میں نہ پیاس��� ہ��و پ��ان� بھ��رنے ک��و یہ��اں ت��ک

آایت ۴)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع آاؤں (۔۱۵

ی المس�یح نے ب��ڑے ن�ر م الف��اظ میں اس ک� زن��دگ� کے اص�� اd حضور سیدنا عیس�آاپ نے اس ک� ت��وجہ اس گن��اہ ک� ط��رف دلائ� جس نے مسئلہ ک� طرف ب��اتوں ک��ا رخ موڑدی��ا۔ ی� کے عرفان سے اندھا کرکے جسمان� ضروریات کے خیال ک��و مس��لط ک��ر رکھ��ا اسے خد اتعال

� سخن بدل کر فرمایا: آاپ نے موضوع تھا۔ " جا اپنے شوہر کو یہاں بلا لا۔

عورت نے جواd میں اس سے کہا میں بے شوہر ہوں ۔ی�( نے اس سے کہا تونے خوd کہا کہ میں بے شوہر ہوں۔ یسوع )عیس

کیونکہ تو پانچ شوہر کرچک� ہے اور جس کے پاس تو اd ہے وہ تیرا ش�وہر نہیں ۔ یہ ت�ونے س�چکہا ۔

عورت نے اس سے کہا ۔ ۴)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحن��ا رک��وع اے خداوند مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تو نب� ہے۔"

(۔۱۹ تا ۱۶آایت

ی المسیح نے جو اس عورت ک� طرز زندگ� کے ب��ارے میں گہ��ری حضور سیدنا عیس�آانکھیں آاخر اس کے گن��اہ کے واح��د ح�� ک� ط��رف اس ک� بص��یرت اور علم رکھ��تے تھے ، ب��الا

ی� ک� طرف مگر اس عورت نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا پھیردیں۔یعن� خدا تعال " ہم���ارے ب���اپ دادا نے اس پہ���اڑ پ���ر پرس���تش ک� اورتم کہ���تے ہ���و کہ وہ جگہ جہ���اں

(۔۲۰آایت ۴) انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع پرستش کرنا چاہیے یروشلیم میں ہے۔"

آای��ا یروش��لیم ہ� آاپس میں اس بات پر بحث مباحثہ کیا ک��رتے تھے کہ یہودی اور سامری پرستش کا صحیح مقام ہے یا کوئ� اور ع��ورت نے اپناگن��اہ ک� حقیقت ک��و چھپ��انے ک� غ��رض

سے مذہب� بحث چھیڑ دی۔ی المسیح نے اس سے فرمایاکہ لیکن حضور سیدنا عیس�

آات��اہے کہ تم نہ ت��و اس پہ��اڑ پ��ر ب��اپ " اے عورت ، میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آات���ا ہے بلکہ اd ہ� ہے کہ س���چے ک� پرس���تش ک���روگے اور نہ یروش���لیم میں ۔۔۔۔ مگ���ر وہ وقت پرستار باپ ک� پرستش روح اور سچائ� سے ک�ریں گے کی��ونکہ ب�اپ اپ�نے ل��ئے ایس��ے ہ� پرس�تار

(۔۲۴آاتا ۲۱آایت ۴)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ڈھونڈتا ہے۔"

آاج ت�ک کت��نے خ��ون اگر انسان ربن��ا المس��یح کے اس فرم��ان ک��و دل س��ے س��مجھتے ت�و �ت خ��رابہ س��ےبچتے ! پرس��تش کےل��ئے مقام��ات ک� ک��وئ� قی��د اہمیت نہیں رہ� بلکہ اہم ب��ات ذای� کا عرفان اور پرس��تار میں خل��وص دل اور پرس��تش ک� درس��ت روح ہے ۔ ب��ڑے افس��وس ک��ا الہآاپ کے ان ی المس��یح کے بہت س��ے پیروک��اروں نے خ��ود بھ� مق��ام ہے کہ حض��ور س��یدنا عیس���ی� ک� ہ��روقت اور ہ��ر مق��ام پ�ر لائ�ق الفاظ کو نہیں سمجھا۔ اگر یہ س��مجھ لی��ا جات�ا کہ خ��داتعال ط��ور پ��ر پرس��تش ک� جاس��کت� ہے ت��و بیت المق��دس پ��ر قبض��ہ ک��رنے ک� م��ذہب� جنگ��وں ک�ی المسیح ک� مذکورہ ب��الا ب��اتوں ک� روش��ن� شرمناک خونریزی برپا نہ ہوت�۔ حضور سیدنا عیس� میں بیت المق��دس پرس��تش کےسلس��لے میں اd ک��وئ� خ��اص اہمیت نہیں رکھت��ا۔ جہ��اں کہیں

قبول پرستش کرسکتا ہے۔� بھ� کوئ� ہو وہ خدا ک� قاب

آاپ سے کہا عورت نے آائے گا تو ہمیں آانے والا ہے جب وہ " میں جانت� ہو کہ مسیح جو خرستس کہلاتا ہے

(۔۲۵آایت ۴)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنارکوع سب باتیں بتادے گا ۔"

آاخ��ر ای��ک رفتہ رفتہ اس عورت کا ذہن اپن� قوم ک� اس امید ک� طرف منتق�� ہوگی��ا کہ ی ی� کے بھی��د عی��اں ک�ردے گ�ا۔ اd وہ حض�ور س��یدنا عیس�� آائے گا جو ان پ�ر خ�دا تع��ال شخص

المسیح کے اس فرمان کو سننے کے لئے تیار تھ�۔آایت " میں تجھ سے بول رہا ہوں وہ� ہوں۔ (۔۲۶)

آاپ ک��و ای��ک آاگ��ئے۔ وہ آاپ کے ح��واری ش��ہر س��ےروٹ� لے ک��ر واپس اس��� اثن��ا میں آاپ کے حواری بھ� علمائے عورت سے باتیں کرتے دیکھ کر حیرا ن ہوئے ۔مقام افسوس ہے کہ دین ک� طرح عورتوں کے بارے میں تنگ دل تھے۔ ان کا خیال تھ��ا کہ عورت��وں ک��و عبادتخ��انوںی� ک� پرستش ک��رنے ک��ا ک��وئ� ح��ق نہیں اور وہ انہیں م��ردوں س��ے کم��تر س��مجھتے میں خدا تعال

آاقا ومولا سے یہ پوچھنے سے ڈرتے تھے کہ تھے۔ لیکن وہ اپنے (۔۲۷آایت ۴)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنارکوع " تو ۔۔۔ اس سے کیوں باتیں کرتاہے ۔"

عورت اپنے نئے ایمان اور ن�ئ� امی�د کے س�اتھ جل�دی جل�دی س�وخار ک�و واپس گ�ئ�۔ اس چھوٹے سے قصبے میں سب ہ� اس ک� زندگ� سے واقف تھے کہ وہ کس چلن ک� ع��ورت

ہے ۔ وہ شہر میں پہنچتے ہ� کہنے لگ�۔آادم� کو دیکھو جس نے میرے سب کام مجھے بتادیئے ۔ کی��اممکن ہے کہ آاؤ ایک "

آایت مسیح یہ� ہے۔" (۔۲۹)

یہ س��ن ک��ر ل��وگ گ��روہ درگ��روہ اس ک��و ئیں پ��ر پہنچ گ��ئے۔ ان میں س��ے بہت س��ے اسآاپ آائے ۔ انہ��وں نے ی المس�یح پرایم��ان لے عورت ک� ب�اتوں کے س��بب س��ے حض��ور س��یدنا عیس���آاپ نے ان ک� درخواست سے درخواست ک� کہ ان کے ساتھ کچھ عرصہ کے لئے قیام فرمائیں۔

آاپ ک� تبلی��غ کے �ن قی��ام �ف قب��ولیت بخش��ا او ر دودن ت��ک ان کے ہ��اں مقیم رہے۔ دورا ک��و ش��روسیلے اور بھ� لوگ ایمان لائے ۔ تب انہوں نے اس عورت سے کہا

" اd ہم تیرے کہنے ہ� سے ایم��ان نہیں لاتے کی��ونکہ ہم نے خ��ود س��ن لی��ا اور ج��انتےآایت ہیں کہ یہ ف� الحقیقت دنیا کامنج� ہے۔" (۔۴۲)

گلی میں تبلیغی المسیح اپنے حوارئین سمیت سو خار سے گلی دو دن کے بعد حضور سیدنا عیس�آاپ کا والہانہ استقبال کیا، ان میں س��ے آاپ وہاں پہنچے تو عوام نے کے سفر پرروانہ ہوئے۔ جب آاپ نے ہیک میں سے ت�اجروں کونک�الا � فسح پر یروشلیم میں موجود تھے۔ جب بہت سے عید

آاپ نے گلی میں تبلیغ شروع ک� ۔ dتھا۔ اآاگ�ئ� ہے ۔ ت�وبہ ک�رو اور خوش�خبری " وقت پورا ہوگیا ہے اور خدا ک� بادش�اہ� نزدی�ک

(۔۱۵آایت ۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع پر ایمان لاؤ۔"

آاگ ک� ی المس��یح کے پہنچ��نے ک� خ��بر جل��د ہ� گردون��واح میں حض�ور س��یدنا عیس���آاپ ک� ب��ڑائ� ک��رتے آاپ ان کے عبادتخ��انو ں میں درس دی��تے رہے اور س��ب ط��رح پھی�� گ��ئ� ۔

آایت ۴۔ )دیکھئے انجی شریف ، بہ مطابق حضرت لوقا رکوع تھے (۔۱۵

�ی گلی�� س��ےبیس می�� کے فاص��لہ پ��ر تھ��ا، ای��ک کفر نحوم کے شہر میں ج��و کہ قان�ااا مایوس ہوچک��ا تھ��ا۔ سرکاری افسرکا بیٹا بسترمرگ پر تڑپ رہا تھا۔ باپ اس ک� زندگ� سےقعطی المسیح قانا میں تشریف لارہے ہیں۔ یہ وہ� گاؤں اتنے میں خبر پہنچ� کہ حضور سیدنا عیس�آاخ�ری امی�د رکھ کرقان�ا آاپ پ�ر آاپ نے پان� کو انگ�ور کے رس میں تب�دی کی�ا تھ�ا۔ وہ ہے جہاں

پہنچا ۔ اور درخواست ک� چ کر میرے بیٹے کو شفا دیجئے ۔ی المسیح نے اس سے فرمایا: حضور سیدنا عیس�

" جب تک تم نشان اور عجیب کام نہ دیکھو گے ہر گز ایمان نہ لاؤ گے ۔" بادشاہ کے ملازم نے اس سے کہا میرے بچے کے مرنے سے پہلے چ ۔

ی�( نے اس سے کہا تیرا بیٹا جیتا ہے۔ "یسوع )عیسی�( نے اس س��ے کہ� اور چلا " اس شخص نے اس بات کا یقین کیا جو یس��وع )عیس��

گیا۔ وہ راستہ ہ� میں تھا کہ اس کے نوکر اسے ملے او رکہنے لگے کہ تیرا بیٹا جیتا ہے۔آارام ہونے لگا تھا؟" انہوں نے کہا ک " اس نے اس سے پوچھا کہ اسے کس وقت سے

ساتوں گھنٹے میں اس ک� تپ اترگئ�۔ ی�( نے اس سے کہا تھا تیرا بیٹ�ا " پس باپ جان گیا کہ وہ� وقت تھا جب یسوع )عیس جیتا ہے۔ اور وہ خود اس کا سارا گھرانا ایمان لایا۔ یہ دوس��را معج��زه ہےج��و یس��وع نے یہ��ودیہ س��ے

آاکر دکھایا۔" (۔۵۴تا ۴۸آایت ۴)دیکھئے انجی شریف ، بہ مطابق حضرت یوحنار کوع گلی میں

ی المسیح کا ناصرت میں رد کیا جانا حضور سیدنا عیس�آاب��ائ� ی المسیح اپنے چند حواریوں کے ساتھ اپنے تھوڑے عرصہ بعد حضور سیدنا عیس�

آاپ اپنے بچپن ہ� سے ہر سبت ک�و مق��ام� عب�ادت خ�انہ میں*1گاؤں ناصرت تشریف لے گئے ۔�م آاپ اس��� عب��ادت خ��انے میں کلا عبادت کے لئے جای��ا ک��رتے تھے۔ اپ��ن� ج��وان� کےدن��وں میں

آاپ کو صحائف انبیاء میں سے یسعیاہ نب�) حض��رتمقدس سے ورد پڑھا کرتے تھے۔ اس سبت کو

آاپ نے کتاd کھول کر وہ مقام نکالا جہاں لکھاہے کہ اشعیاہ( کا صحیہ پڑھنے کو دیا گیا۔ " خداوند کا روح مجھ پر ہے۔

اس لئے کہ اس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کے لئے مسح کیا۔اس نے مجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائ�

اور اندھوں کو بینائ� پانے ک� خبر سناؤں۔آازاد کروں۔ کچلے ہوؤں کو

�ل مقبول ک� منادی کروں۔ اور خداوند کے سا

پھر وہ کتاd بند کرکے اور خادم کو واپس دے کر بیٹھ گیا اور جتنے عبادت خ��انہ میںآاج یہ نوشتہ تمہارے سامنے پورا آانکھیں اس پر لگ� تھیں وہ ان سے کہنے لگا کہ تھے سب ک� ا فض باتوں پر جو اس کے منہ سے نکل��ت� تھیں۔ ہوا ہے۔ اور سب نے اس پر گواہ� دی اور ان پر

تعجب کرکے کہنے لگے کیا یہ یوسف کا بیٹا نہیں ؟آاپ ک��و ت��و اس نے ان س��ے کہ��ا تم البتہ یہ مث�� مجھ پ��ر کہ��و گے کہ اے حکیم اپ��نے

) انجیاچھا کر۔جو کچھ ہم نے سنا ہے کہ کفرنحوم میں کیا گیا یہاں اپنے وطن میں بھ� کر۔"

(۔۲۳ تا ۱۸آایت ۴شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع آارام اور عبادت کا دن مق��رر کیاتھ��ا۔ انس��ان اور*1 سبت: ہفتہ کا ساتواں دن ) سنیچر( جسے خدا نے بن� اسرائی کے لئے

آارام سے ظاہرہے۔ ی� ک� فکر مندی سبت کے اا بی ، گدھے اور اونٹ کے لئے خدا تعال باربردار جانوروں مثل

ان لوگوں نے قانا میں پان� کے مے بنانے والے معجزہ کے بارے میں سن رکھا تھا۔ ن�یزوہ کفر نحوم میں سرکاری افسر کے بیٹے ک� شفا کے متعلق بھ� جانتے تھے۔

ی المسیح نے صوبہ کے دیگر مقامات کے عبادتخانوں میں ب�ڑے اختی�ار کے حضور سیدنا عیس�آاپ آاپ ک� قدر نہ ک� گئ� ۔ متعص��ب س��امعین آابائ� گاؤں میں ساتھ کلام کیا تھا لیکن اپنے

ار فض باتیں سن کر بس اتنا ہ� کہہ سکے۔ ک� پ" کیا یہ بڑھئ� کا بیٹا نہیں؟"

آاپ نے ان لوگوں کو جوجواd دیا، اd وہ س�اری دنی��ا میں ض�رd المث�� بن چک�ا ہے ۔آاپ نے فرمایا :

" میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ کوئ� نب� اپنے وطن میں مقبول نہیں ہوتا۔"آاپ نے ص��حائف الانبی��اء میں س��ے حاض��رین کے س��امنے دومث��الیں پیش کیں جن پھ��ر

ی� ک� محبت ظاہر ہوت� ہے۔ سے غریبوں اور مظلوموں سے خدا تعالآاپ نے فرمایا :

" میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایلیاہ) حضرت الیا س( کے دنوں میں جب ساڑھے تینآاسمان بند رہا یہاں تک کہ سارے ملک میں سخت کال پڑا بہت س��� بی��وائیں اس��رائي میں برس

تھیں۔ لیکن ایلیاہ ان میں سے کس� کے پاس نہ بھیجا گی��ا مگ��ر مل��ک ص��یدا کےش��ہر ص��ارپت میں ایک بیوہ کے پا س۔ اور الیشع نب� کے وقت میں اس��رائی کے درمی��ان بہت س��ے ک��وڑھ�

تھے لیکن ان میں سے کوئ� پاک صاف نہ کیا گیا مگر نعمان سوریان� ۔ " جتنے عبادت خانے میں تھے ان باتوں کو سنتے ہ� غصے س��ے بھ��ر گ��ئے اور اٹھ ک��رآاباد تھ��ا ت��اکہ اس کو شہر سے باہر نکالا اور اس پہاڑ ک� چوٹ� پرلے گئے ۔ جس پر ان کا شہر

)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابقاسے سر کے ب�ال گ�رادیں مگ�ر وہ ان کے بیچ میں س نک� ک�ر چلا گی��ا ۔"

(۔۳۰تا ۲۵آایت ۴حضرت لوقا رکوع

مذکورہ دو واقعات یہودی تاریخ کا ایک مصدقہ حصہ تھے۔ پھ��ر کی��ا وجہ تھ� کہ حض��ور س��یدنای المسیح جو ان کے درمی��ان پلے اور ب��ڑھے تھے اور جن ک� ا ن کے دل��وں میں ب��ڑی ع��زت عیس�

وتوقیر ک� جات� تھ� یہ باتیں سن کر ایک دم ان کے خون کے پیاسے ہوگئے ۔ اا م��اننے کے ل��ئے تی��ار نہ فلسطین کے یہودی بڑے متعص��ب تھے۔ وہ اس ب��ات ک��و قطع�� تھے کہ خ��دا ان کے دش��منوں س��ے بھ� محبت ک��رکے غ��یر یہودی��وں پ��ر بھ� رحم کرس��کتا ہے۔ ص�ارپت ک� بی�وہ جس�ے ایلی��اہ)حض�رت الی�اس( نے ش�دید ک�ال کےدن�وں میں میں خ�وراک بہمی� نے نب� کو یہودیوں ک� بجائے ایک غیر یہودی عورت کے پہنچائ� غیر یہودی تھ�۔ خدا تعال پاس بھیجا تھا۔ نعمان بت پرست بلکہ دشمن قوم کا سپہ سالار تھا۔ تاہم شفا پانے کے لئے خ��دا نے اس ک� حضرت الیشع تک رہنمائ� ک� کیونکہ وہ پورے دل سےخدا کا اور شفا کا متم��ن�

(۔۲۷ تا ۱آایت ۵سلاطین رکوع ۲۔)کتاd مقدس ، تھا

ی المس�یح نے نہ��ایت ص�اف الف�اظ میں اس حقیقت ک� وض�احت حضور سیدنا عیس��ی� نے تمام بن� نوع انسان سے محبت رکھتا ہے ۔ اس کے ہاں چونکہ تخص��یص ک� کہ خدا تعالآاپ کے پیروکاروں پر لازم ہے کہ وہ نسل� امتی��از اورم��ذہب� تعص��ب س��ے وتمیز نہیں ہے۔ اس لئے

� محبت دراز کریں۔ اا باز رہیں بلکہ اپنے دشمنوں ک� طرف بھ� دست قطعآاپ کو پہاڑ ک� چوٹ� سے گرانے والا تھا اور موت چندقدموں کے فاصلہ جب مجمع آارام سے ان کے درمیان آاپ آاپ کے مخالفین پر ایک عجیب س� دہشت طاری ہوگئ�۔ پر تھ� تو

آاپ ان ک� جہ��الت اور لاعلم� سے نک گئے ۔ کس� کو اف تک کہنے ک� ج��رات نہ ہ��وئ� ۔ پر افسوس کرتےہوئے ناصرت کوچھوڑ کر کفر ناحوم تشریف لے گئے ۔

کفرنحوم۔ تبلیغ� مرکزآاپ نےگلی ک� جھی کے کنارے واقع کفرنحوم کو اپ��ن� ناصرت سے ہجرت کے بعد آاپ نے گرد ونواح کے علاقوں کے غرباء اور مس��کینوں میں تعلیم تبلیغ کا مرکز قرار دیا۔ یہاں سے آاپ نے اپنے حواریوں پر خدا ک� روحان� بادشاہ� ک� گہری باتوں ک��ا وتبلیغ ک� ۔ ساتھ ساتھ

آاپ نے اس علاقے میں بہت سے بیماروں کو شفا بھ� بخش�۔ انکشاف کیا۔ اس� اثنا میں آاپ کفرنح��وم کے عب��ادت خ��انہ میں درس دے رہے تھے ت��و ای��ک س��بت کے روز جب

آاکر چلا نا شروع کردیا۔ آاسیب زدہ شخص نے ایک آای�اہے؟ میں " اے یسوع ناصری ! ہمیں تجھ سے کیا کام؟ کی�ا ت�و ہم ک�و ہلاک ک�رنے تجھے جانتا ہو کہ توکون ہے ۔ خدا کا قدوس ہے۔یسوع نے اسے جھڑک کر کہ��ا چپآاواز س��ے چلا ک��ر رہ۔ اس میں سے نک جا۔ پس وہ ناپاک روح اسے مروڑ ک��ر اور ب��ڑی آاپس میں یہ کہہ ک�ر بحث ک�رنے اس میں سے نک گئ� اور سب لوگ حیران ہوئے اور لگے کہ کیا ہے؟یہ تو نئ� تعلیم ہے۔ وہ ناپاک روحوں کو بھ� اختی��ار کے س��اتھ حکم دیت��ا ہے اوروہ اس ک��احکم م��انت� ہیں اور ف� الف��ور اس ک� ش��ہرت گلی�� کے اس تم��ام

آایت ۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع نواح� میں ہر جگہ پھی گئ� ۔" (۔۲۸ تا ۲۳

جس طرح بہت سے لوگ جسمان� طور سے بیمار ہیں اس� ط��رح متع��دد ذہ��ن� بیم��اری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جد ید نفسیات اور خاص ادویہ ک� مدد سے بہت س� ذہ��ن� بیم��اریوں پ��ر قابو پالیا جاتاہے۔ بعض لوگ تفکرات ، گن��اہ ک� خلش ، ع��داوت اور ان��در ہ� ان��در جل��تے رہ��نے کے ب��اعث جس��مان� ط��ور پ��ر بھ� بیم��ار ہ��و ج��اتے ہیں ۔ اس قس��م کے لوگ��وں ک��ا علاج دل� اطمین��ان، گن��اہ ک� مع��اف� اور دل ک� تب��دیل� میں ہ� ہے۔ ، ج��ونفرت ک� جگہ محبت پی��دا

کرت� ہے۔

ی� پ��ر ایم��ان لیکن علم الطب میں ح��یرت انگ��یز ت��رق� کے ب��اوجود بھ� ، خ��دا تع��ال رکھنے والے لوگ��وں ک��و ابلیس اور اس کے بے ش��مار بچ��و نگ��ڑوں )ب��دروحوں( کے وج��ود ک��ا یقین ہے۔ وہ انس��انوں میں داخ�� ہ��وکر انہیں اپ��نے قبض��ہ میں کرلی��تے ہیں۔ بعض اوق��ات ای��ک ش��خص پرایک سے زیادہ بدروحیں بھ� قابض ہوجات� ہیں۔ دوسرے مواق��ع ک� ط�رح اس م�رتبہ بھ� حض�ورآاپ نے پورے ی المسیح بھانپ گئے کہ مذکورہ بالا شخص میں بدروح ہے ۔ لہذا سیدنا عیس�آاپ کے ب�دروحوں پ�ر اختیار کے ساتھ اس�ے حکم دی�ا ۔" اس میں س�ے نک� ج�ا ۔" حاض�رین

اختیار کو دیکھ کر نہایت حیران ہوئے۔" آاپ اپنے حوارئین حضرت یعقوd اور یوحنا کے ساتھ اپنے دیگ��ر دو اس واقعہ کے بعد حواریوں حضرت پطرس اور ان��دریاس کے گھ��ر تش��ریف لےگ��ئے۔اس کے ب��ارے میں بائب�� مق��دس

میں یوں ارشا د ہے : " شمعون )پطرس ( ک� س�اس تپ میں پ�ڑی تھ� اور انہ��وں نے ف� الف��ور اس ک� خ�بر اسے دی۔ اس نے پاس جاکر اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا اور تپ اس پر سے اتر گئ� اور

وہ ان ک� خدمت کرنے لگ�۔ شام کو جب سورج ڈوd گیا ت�و ل�وگ س�ب بیم�اروں ک��و اور ان ک�و جن میں ب�دروحیں تھیں اس کے پاس لائے ۔ اور سارا شہر دروازہ پر جمع ہوگی��ا۔ اور اس نے بہت��وں ک��و ج��و ط��رح طرح ک� بیماریوں میں گرفت�ار تھے اچھ��ا کی�ا اور بہت س�� ب�دروحوں ک�و نک�الا اور ب�دروحوں ک�و

آایت ۱) انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع بولنے نہ دیا کیونکہ وہ اسے پہچانت� تھیں۔" (۔۳۴ تا ۳۰

آاپ گلی ک� جھی پر تشریف لے گئے تھے۔ جہ��اں اش��تیاق دی��دار میں اس سے پیشتر آاپ نے کش�ت� منگ�وائ� اور اس میں آاپ پر گر پ�ڑتے تھے۔ ہج�وم ک� دھک�ا پی�� کے س�بب عوام آاپ کے انہ� دو حواری��وں حض��رت پط��رس اور ان��دریاس ک� بیٹھ کر درس دینے لگے۔ یہ کش��ت� آاپ حضرت یوحن��ا اص��طباغ� کےس��اتھ آاپ ک� ملاقات اس وقت ہوئ� تھ� جب تھ�۔ ان سے

دریائے یردن پر تھے۔

آاپ نے حضرت شمعون پطرس سے فرمایا: "گہ��رے میں لے چ� اور تم ش�کار کے ل�ئے اپ�نے ج�ال ڈال�و ۔ ش�معون نے ج�واd میں

آایا۔" ) انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رتکہا اے صاحب ۔ ہم نے رات بھرمحنت ک� اور کچھ ہاتھ نہ

آایت ۵لوقا رکوع (۔۴

حضرت پطرس تج��ربہ ک�ار م�اہ� گ�یر تھے ۔ وہ بچپن ہ� س�ے اس جھی�� میں مچھلی��اں پکڑتے رہے تھے لہذا انہیں خو d معلوم تھ��اکہ ش��کار ک��ا م��وزوں وقت اور مق��ام کونس��ا ہے۔ یہ انی المس��یح کے اح��ترام کے پیش نظ��ر انہ��وں نے آابائ� پیشہ جو تھ��ا۔ لیکن حض��ور س��یدنا عیس��� کا

کہا ۔(۔۶آایت ۵)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقار کوع " تیرے کہنے سے جال ڈالتا ہوں ۔"

جونہ� انہوں نے جال ڈالے تو مچھلیوں ک� اچھ�� ک��ود کے جھٹک��وں س��ے انہ��وں نے اندازه لگالیا کہ ایک بڑا غول پھنس گیا ہے ،اتنابڑا کہ ان کے جال پھٹنے لگے۔ چن��انچہ حض��رت پط��رس نے اپ�نے دوس�ت حض��رت یعق��وd اور یوحن��ا ک�و جودوس�ری کش�ت� میں تھے اش�ارہ ک��رکے مددکے لئے بلایا۔ دونوں کشتیاں مچھلی��وں س��ے ات�ن� بھ��ر گ�ئیں کہ ڈوب�نے لگیں۔ یہ ش�کار اتن��اآای��ا۔ اور اس ک��ا ی� کا صریح ہاتھ نظر غیر متوقع تھاکہ حضرت شمعون پطرس کو اس میں خدا تعالی المسیح ک� موجودگ� میں اپنے گنہگ��ار ہ��ونے فوری نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں حضور سیدنا عیس�ی کا گہرا احساس ہونے لگ�ا۔ مچھلی�وں س�ے بھ��ری ہ��وئ� کش�ت� میں ہ� وہ حض��ور س�یدنا عیس��

المسیح کے قدموں میں گر کر پکار اٹھے کہ :آادم� ہوں۔۔۔" " اے خداوند میرے پاس سے چلا جا کیونکہ میں گنہگار

آادمیوں کا ش��کار کی��ا ی�( نے شعمون سے کہا خوف نہ کر۔ اd سے تو " یسوع )عیسآائے اور سب کچھ چھوڑ کر اس کے پیچھے ہولئے ۔" کرے گا۔ وہ کشتیوں کو کنارے پر لے

(۔۱۱ تا ۴آایت ۵)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع

ی المس��یح کے یہ� ح��وارئين حض��ر ت پط��رس ، یعق��وd اور یوحن��ا حض��ور س��یدنا عیس���آادمیوں کو چن ی� کا فض معمول� سے اعمال وتعلیمات کے نہایت معتبر گواہ ٹھہرے۔ خدا تعال

� شہادت نوش کرنے کے لئے بھ� تی��ار کر ایسے دلیر گواہ بنادیتا ہے کہ وہ حق ک� خاطر جام ہوجاتے ہیں ۔ بعد ازاں حواری حض��رت ش��معون پط��رس ک��و روم� شہنش��ا ہ ن��یرو نے اور حض��رت یعقوd کو ظ��الم ہ��یردویس انتپ��اس نے ش�ہید کی��ا۔ یہ وہ� ہ��یرودیس تھ��ا جس کے ہ��اتھوں حض��رت� ش�ہادت ن�وش کرن��اپڑا۔ اd س�ے لے ک�ر م�ذکورہ ب�الا ح��وارئین اور یوحنا اصطباغ� کو بھ� جام

آاپ کے ساتھ ساتھ رہے۔ آاپ نے بطور شاگرد چنا وہ برابر آائندہ ی المسیح پر ضرورت مندوں کا م��دد کے ل��ئے تقاض��ا ش��دید ت��ر گو حضور سیدنا عیس�آاپ مراقبہ اور دعا کے لئے ضرور وقت نکال لی��تے تھے۔ ہوتا جاتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھ� ی� کے س�اتھ دع��ا میں رف�اقت رکھ��نے ل��ئے کس�� آاپ عل� الصباح اٹھ کر خدا تع��ال اا ایک دن مثلآاپ نے سنسان مقام پر چلے گئے تاکہ اگلا قدم اٹھانے کے لئے ہدایات حاص کریں۔ چنانچہ ی� ک� روح��ان� بادش��اہ� ک� ہ��دایت پ��ائ� کہ اd دیگ��ر ش��ہروں اور گ��اؤں میں بھ� خ��داتعالآاپ ک� تلاش آاپ کے دیگ��ر ح��وارئین کے س��اتھ خوشخبری ک� منادی کریں۔ حضرت پط��رس

آاپ انہیں م گئے تو انہوں نے گلہ کیاکہ میں نکلے ۔ جب (۔۳۷آایت ۱) انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع " سب لوگ تجھے ڈھونڈرہے ہیں۔"

آاپ نےفرمایا ک� خوش��خبری سناناض��رور ہے*1" مجھے اور ش��ہروں میں بھ� خ��دا ک� بادش��اہ�

(۔۴۳آایت ۴)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع کیونکہ میں اس� لئے بھیجا گیا ہوں ۔"

دیکھئے ۔۸ پرنوٹ نمبر ۲۹۴۔ صفحہ نمبر *1

آاپ کفر نحوم سے رخص�ت ہ�وکر ص�وبہ گلی� کے دیگ�ر عب�ادت خ�انوں میں درس پس آازاد کرتے رہے۔ دیتے اور جو لوگ بدروحوں ک� گرفت میں تھے انہیں

آاپ نے ای��ک ک��وڑھ س��ے بھ��رے ہ��وئے اان دنوں کا ایک دل ہلا دی��نے والا واقعہ یہ ہے کہ آاپ کے زمانہ میں کوڑھ بڑی خوفناک بیم��اری تھ� کی��ونکہ اd ت�ک اس ک�ا آادم� کو شفا دی ۔ علاج دریافت نہیں ہوا تھا۔ کوڑھیوں کو شہر سے باہر نکال دیا جاتا تھا۔ انہیں شہر میں داخ

ی� ک�ا خ��وف ہونے ک� اجازت نہ تھ� اور نہ انہیں کوئ� ہاتھ لگاتا تھا۔ عزيزو اقارd یا خدا تع��ال رکھنے والے اشخاص ان کے لئے کس� مخصوص مقام پر کھانے پینے ک� اش��یاء رکھ دی��اکرتےآاخ��ری م��رحلے پ��ر پہنچ تھے ۔ جنہیں بعد ازاں کوڑھ� اٹھ��ا ک��ر لے ج��اتے تھے۔ جن ک��ا ک��وڑھ آات� تھ�۔ آاتے تھے بلکہ ان کے زخموں سے سڑی لاش ک� س� ب��و جاتا وہ نہایت بھیانک نظر لیکن اس کے باوجود بھ� بعض ک��وڑھ� ش��فا ی��اب� ک� امی��دہاتھ س��ے ج��انے نہیں دی��تے تھے ۔

آاپ کے قدموں میں گر کر یوں منت سماجت کرنے لگا۔ ایک دفعہ کوڑھ� )انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��رقس" اگر تو چاہے تو مجھے پاک ص��اف کرس��کتا ہے ۔"

(۔۴۰آایت ۱رکوع

ی کوڑھ کے اس دیرینہ مریض کو شفا یاب� ک� تمنا کشاں کش��اں حض��ور س��یدنا عیس���المسیح کے پاس لے گئ� تھ�۔

آاپ آات��ا تھ��ا۔ چن��انچہ آاپ ک��ا دل رحم س��ے بھ��را دکھ� اور مصیبت زدوں کو دیکھ کر آاپ نے تمام احتیاط� بندشوں کو بالائے ط��اق رکھ دی��ا، اپن��ا آایا۔ کو اس کوڑھ� پر بھ� بڑا ترس

آالود بدن پر رکھا اور فرمایا : دست مبارک اس کے کوڑھ آایت " میں چاہتا ہوں تو پاک صاف ہوجا۔" (۔۴۱)

" ی�ک لخت اس ک��ا ک��وڑھ جات��ا رہ��ا ۔ اس کے زخم بھ��ر گ��ئے اور وہ تندرس��ت ہوگی��ا۔"ی المس��یح کے گ��رد ہ��ر جگہ جم��ع ہوجای��ا ک��رتے اکثر اوقات وہ مجمعے جو حض��ور س��یدنا عیس���آاپ نے ک��وڑھ� ک��و خ��بردار آاپ کے ک��ام میں رک��اوٹ ک��ا ب��اعث بھ� بن��تے تھے۔ چن��انچہ تھے کی��اکہ کس��� ک��و اس واقعہ کے متعل��ق نہ بت��ائیے ۔ البتہ یہ ہ��دایت ض��رور ک� کہ ش��ریعت کے حکم کےمطابق اپنا ص�حت ی�اd ب�دن ام�ام ک�و دکھ��ا ک�ر ش�ہر میں س�کونت اختی��ار ک�رنے ک�ا

اجازت نامہ حاص کرے۔ امام شرع� رہنما کے علاوہ صحت عامہ کے بھ� ناظر تھے۔ی المسیح نے فرمایا: چنانچہ حضور سیدنا عیس�

" خبردار کس� سے کچھ نہ کہنا مگر جاکر اپنے تئیں ام�ام ک�و دکھ��ا اور اپ�نے پ�اکی� نے مق��رر کیں ن��ذر گ�زران ت�اکہ ان کے ل�ئے صاف ہوج�انے ک� ب�ابت ان چ�یزوں ک�و ج��و موس��

آایت گواہ� ہو (۔۴۴۔")

لیکن شفا یاd ک��وڑھ� کب خ�اموش رہ س��کتا تھ��ا۔ام�ام کے پ�اس ج��اتے ہ��وئے ا س نے� شفا کس وناکس کو سنائ�۔ اس زمانہ میں جب علاج معالجہ کے ل��ئے ہس��پتال نہ اپن� داستان تھے اور محض معمول� ادویہ پر انحصار کیا جاتا تھا اس قسم ک� خبر بیماروں کو جوق در جوقآاپ کس�� ی المس�یح کے پ�اس لانے ک��ا س��بب بن��ت� تھ�۔ چن�انچہ جب بھ� حضور سیدنا عیس�آاپ آاپ ک�و گھ��یر لی�تے یہ��اں ت�ک کہ شہر میں داخ ہوتے تو بیماروں کے جتھوں کے جتھے آاپ وی�ران مقام�ات میں اا ن�ا ممکن بن گی�ا تھ��ا۔ پس کا کس� شہر میں علانیہ داخ ہونا تقریب�آاپ کے پاس پہنچ ہ� جاتے تھے ۔اس رہے۔ لیکن اس کے باوجود بھ� چاروں طرف سے مریض

�م مقدس میں مرقو م ہے کہ : سلسلے میں کلا آایت۵)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع " وہ جنگلوں میں الگ جاکر دعا کیا کرتا تھا۔"

(۔۱۶

لیکن یہ گوشہ نشین� زيادہ دیر تک قائم نہ رہ� " کئ� دن بعد جب وہ کفر نح��وم میں پھ��ر داخ� ہ��وا ت�و س�نا گی�ا کہ وہ گھ��ر میں ہے۔آادم� جمع ہوگئے کہ دروازه کے پاس بھ� جگہ نہ رہ� اور وہ ان کو کلام سنا رہا تھ��ا۔ پھر اتنے آادمیوں س�ے اٹھ��واکر اس کے پ�اس لائے ۔ مگ�ر جب وہ بھ��یڑ کے اور لوگ ایک مفلوج کو چار آاسکے تو انہوں نے اس چھت کو جہاں وہ تھا کھول دی��ا اور اس��ے سبب سے اس کے نزدیک نہ ی�( نے ان ک��ا ایم��ان دیکھ ادھیڑ کر اس چارپائ� کو جس پر مفلوج لیٹا تھا لٹکادیا۔ یسوع )عیس�� کر مفلوج سے کہا ۔" بیٹا تیرے گناہ معاف ہوئے ۔ مگر وہاں بعض فقیہ ج��و بیٹھے تھے وہ اپ��نے دلوں میں سوچنے لگے کہ یہ کیوں ایسا کہتاہے ؟ کفر بکتا ہے گناہ کون معاف کرسکتا ہے س��وای�( نے اپن� روح سے معلوم ک�رکے کہ وہ اپ�نے دل�وں ایک یعن� خدا کے؟ اور ف� الفور یسوع )عیسآاس��ان کی��ا ہے ؟ میں یوں سوچتے ہیں ان سے کہا ، تم کیوں اپنے دلوں میں یہ ب��اتیں س��وچتے ہ��و؟

مفلوج سے یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یا یہ کہنا کہ اٹھ او راپن� چار پ��ائ� اٹھ��ا ک��ر چ��ی� المسیح(کو زمین پ��ر گن��اہ مع��اف آادم )حضور سیدنا عیس پھر؟ لیکن اس لئے کہ تم جانو کہ ابن کرنے کا اختیار ہے )اس نے مفلوج سے کہا ( میں تجھ سے کہتا ہوں اٹھ اپن� چارپائ� اٹھا کر اپنے گھر چلا جا۔ اور وہ اٹھا اور ف� الف�ور چارپ�ائ� اٹھ��اکر ان س�ب کے س�امنے ب�اہر چلا گی�ا۔ چنانچہ وہ سب حیران ہوگ�ئے اور خ�دا ک� تمجی�د ک�رکے کہ�نے لگے کہ ہم نے ایس�ا کبھ� نہیں

آایت ۲) انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع دیکھا۔" (۔۱۳ تا ۱

مت� کو حواری بننے ک� دعوتآاپ ی� المسیح اپنے چند حواری��وں کے س��اتھ ج�ارہے تھے کہ ایک دن حضور سیدنا عیس نے حلف� کے بیٹے لاوی) جو مت� بھ� کہلاتا تھ��ا ( ک�و محص��ول ک� چ�وک� پ�ر بیٹھے دیکھ��ا۔

آاپ نے اس سے فرمایا : " میرے پیچھے ہولے ۔ پس وہ اٹھ کر اس کے پیچھے ہولی��ا۔ اور ی��وں ہ��وا کہ وہ اس کےی�( اور اس گھر میں کھانا کھانے بیٹھا اور بہت سے محصول لینے والے اور گنہگار یسوع )عیس کے ش�اگردوں کے س�اتھ کھ��انے بیٹھے کی�ونکہ وہ بہت تھے اور اس کے پیچھے ہول��ئے تھے۔ اور

کے س��اتھ کھ��اتے دیکھ ک��ر*1فریسیوں کے فقہیوں نے اسے گنہگ��اروں اور محص��ول لی��نے وال��وں اس کے شاگردوں سے کہا یہ تو محصول لینے والوں اور گنہگاروں کےس��اتھ کھات��ا پیت��ا ہے۔یس��وعی�( نے یہ سن کر ان سے کہا تندرستوں کو ط�بیب ک� ض�رورت نہیں بلکہ بیم�اروں ک�و میں )عیس

آای��ا ہ��وں۔" آایت ۲)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق م��رقس رک��وع راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بلانے ت��ا۱۴

(۔۱۷

دیکھئے ۔۹ پر نوٹ نمبر ۲۹۵۔ صفحہ نمبر *1

ی� المسیح ک� نظر بڑی پرکشش اور الفاظ بڑی ت��اثیر ڈوبے ہ��وئے تھے۔ حضور سیدنا عیسآاپ کا پیرو کار بن گیا۔ گو اس کے آاپ ہ� کا اعجاز تکلم تھاکہ مت� جیسا دولت کا پجاری یہ

آام��دن� کے واف��ر مواق��ع تھے۔ وہ س�ب کچھ پاس محصول لینے ک��ا ٹھیکہ ہ��ونے کے ب��اعث ب�الائ� آاپ کے پیچھے ہولیا۔ (۔۲۸آایت ۵)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع چھوڑ کر اٹھا اور

جس ط��رح اس زم��انہ میں تعلیم ی��افتہ طبقہ ، بے علم اور ج��اہلوں س��ے اور دولت من��د طبقہ غرباء سے می جول نہیں رکھت��ا ،اس��� ط��رح اس زم��انہ میں بھ� اپ��نے س��ے کم درجہ لوگ��وںآانے کا نہ ص��رف کو حقیر سمجھا جاتا تھا ۔ لیکن ربنا المسیح نے ہرطبقہ سے محبت سے پیش

درس ہ� دیا بلکہ اپنے نیک رویہ سےاس کا عمل� مظاہرہ بھ� کیا۔ی� ک� محبت اور رحم ک� حقیقت آاپ نے گن��اہ میں گ��رے ہ��وؤں کے ل��ئے خ��دا تع��ال

واضح کرنے کے لئے تین کہانیاں پیش کیں۔

ی� ک� محبت گمراہوں کے لئے خدا تعالی� مسیح پہل� کہان� ی�حضور سیدنا عیس نے گمراہ اور کھوئے ہوؤں کے ل��ئے خ��دا تع��ال

ک� محبت اور فکر مندی کو ایک گم شدہ بھیڑ ک� مثال سے یو ں واضح کیا۔آادم� ہے جس کے پاس س��و ) ( بھ��یڑیں ہ��وں اور ان میں س��ے ای�ک کھ��و۱۰۰"کون ایسا

( کو بیابان میں چھ��وڑ ک�ر ا س کھ��وئ� ہ��وئ� ک�و جب ت�ک م� نہ ج�ائے۹۹جائے تو ننا نوے ) ڈھونڈتا نہ رہے ؟پھر جب م جات� ہےتو وہ خ��وش ہ��وکر اس��ےکندھے پ��ر اٹھالیت��ا ہے اور گھ��ر پہنچ کر دوستوں کو بلاتا ہے اور کہتاہے ۔میرے ساتھ خوش� کرو کیونکہ میری کھ��وئ� ہ��وئ� بھ��یڑ م�� گئ�۔ میں تم سےکہتا ہوں کہ اس� طرح ننانوے راستبازوں ک� نسبت جوتوبہ ک� ح��اجت نہیں

آاس��مان پ��ر زي��ادہ خوش��� ہ��وگ�۔" ) انجی�� ش��ریف بہرکھتے ایک توبہ کرنے والے گنہگاروں کے باعث

(۔۷تا ۴آایت ۱۵مطابق حضرت لوقارکوع

ی� مس��یح اس کہ��ان� کے وس��یلہ س��ے ب�ڑے اہم حق��ائق ک��ا انکش�اف حضور سیدنا عیسی� گو قادر مطلق اور تمام کائن��ات ک��ا خ��ا ل��ق ہے ت��و کرتے ہیں۔ سب سے پہل� یہ کہ خدا تعال بھ� چرواہے ک� طرح ایک گم ش�دہ بھ��یڑ س��ے محبت رکھ��تے ہ��وئے اس کے ل��ئے فک�ر من��د رہت��ا ہے۔ اچھا چرواہا اپن� بھیڑ کو پہچانتا ہے اور ننانونے بھیڑوں کو چھوڑ کر اپن� ایک گم شدہ بھیڑ

کو اس وقت تک تلاش کرتا رہتا ہے جب تک کہ م نہ جائے۔ دوسری یہ کہ جب کوئ� گنہگ�ارآاس��مانیوں میں ی� ک� طرف رج��وع کرت��ا ہے ت��و اپنے گناہوں کو ترک کرکےایمان کے ساتھ خدا تعالی� مسیح اس��� مقص��د س��ے اس دنی��ا میں تش��ریف بڑی خوش� منائ� جات� ہے ۔ حضور سیدنا عیس

لائے تھے تاکہ بھٹکے ہوئے گنہگاروں کو ہلاک ہونے سے بچائیں۔ آاپ نے فرمایا : " دوسری کہان� سکہ کے بارے میں ہے۔

" کون ایس� عورت ہے جس کے پاس دس درہم ہو ں اور ایک کھو جائے تو وہ چ��راغ جلاکر گھر میں جھاڑو نہ دے اور جب تک م نہ جائے کوشش سے ڈھون��ڈت� نہ رہے۔اور جب م جائے تو اپن� دوستوں اور پڑوسنوں کو بلا کر نہ کہے کہ میرے س��اتھ خوش��� کروکی��ونکہ م��یرا کھویا ہوا درہم م� گی�ا۔ میں تم س�ے کہت�ا ہ��وں کہ اس�� ط�رح ای�ک ت�وبہ ک�رنے والے گنہگ�ار کے

آایت ۱۵)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوق�ا رک��وع باعث خدا کے فرشتوں کےسامنے خوش� ہوت� ہے۔" ۸

(۔۱۰تا

ی� مسیح یہاں پر اس عجیب حقیقت کا انکشاف کرتے ہیں کہ تم��ام حضور سیدنا عیس کائنات کا خالق ومالک خ�دا ، خ�ود غرض�� اور گن�اہ میں کھ�وئے ہ�وئے ص�رف ای�ک انس�ان ک�و

تلاش کرنے کے لئے بھ� خود پہ کرتاہے۔ تیسری کہان� کے دو حصے ہیں جن میں دو ایسے کرداروں ک� منظر کش� ک� گ��ئ�

ی� مسیح نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئےفرمایا: ہے ۔ جو خدا سے دور ہیں۔ حضور سیدنا عیس " کس� شخص کے دو بیٹے تھے۔ ان میں سے چھوٹے نے ب��اپ س��ے کہ��ا اے ب��اپ ! مال کا جو حصہ مجھ کو پہنچتا ہے مجھے دیدے۔ اس نے اپنا م��ال مت��اع انہیں ب��انٹ دی��ا۔ اور بہت دن نہ گذرے کہ چھوٹا بیٹا اپنا سب کچھ جمع کرکے دو ر دراز ملک کو روانہ ہوا اور وہ��اں اپنا مال بد چلن� میں اڑادیا۔ اور جب سب خرچ کرچکا تو اس ملک میں سخت ک�ال پ�ڑا اور وہ محتاج ہونے لگا۔ پھر اس مل�ک کے ای�ک باش�ندہ کے ہ�اں ج�اپڑا۔ اس نے اس ک�و اپ�نے کھیت��وںآارزو تھ� کہ جو پھلیاں سور کھاتے تھے انہ� سے اپنا پیٹ بھرے میں سور چرانے بھیجا۔اور اسےآاک�ر کہ�ا م�یرے ب�اپ کے کت�نے ہ� م�زدوروں مگر کوئ� اسے نہ دیتا تھا ۔ پھر اس نے ہوش میں

کو افراط سے روٹ� ملت� ہے اور میں یہاں بھوکا مررہا ہوں ! میں اٹھ ک�ر اپ�نے ب�اپ کے پ�اس ج�اؤآاسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہوا۔ اd اس لائ��ق ں گا اور اس سے کہوں گا اے باپ! میں نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں۔ مجھے اپنے مزدوروں جیسا کرلے۔ پس وہ اٹھ کر اپنے باپ کےآای��ا اور دو ڑ ک��ر اس ک��و پاس چلا۔ وہ ابھ� دور ہ� تھا کہ اسے دیکھ کر اس کے باپ کو تر س آاس�مان ک�ا اور ت�یری نظ��ر میں گلے لگالیا اور بوسے ل��ئے۔ بی�ٹے نے اس س��ے کہ�ا اے ب�اپ! میں گنہگار ہوا۔ اd اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں ۔ باپ نے اپنے نوکروں سے کہا اچھ��ا سے اچھا جامہ جلد نکال کر اسے پہناؤ اور اس کے ہاتھ میں انگوٹھ� اور پاؤں میں جوت� پہناؤ۔ اور پلے ہوئے بچھڑے ک��و لاک��ر ذبح کروت��اکہ ہم کھ��اکر خوش��� من��ائیں ۔ کی��ونکہ م�یرا یہ بیٹ��ا مردہ تھ�ا اd زن�دہ ہ��وا۔ کھوگی�ا تھ�ا۔ اd ملا ہے۔ پس وہ خوش�� من�انے لگے ۔ لیکن اس ک�ا ب�ڑاآاواز آاک��ر گھ��ر کے نزدی��ک پہنچ��ا ت��و گ��انے بج��انے اورن��اچنے ک� بیٹ��ا کھیت میں تھ��ا۔ جب وہ سن� ۔ اور ایک نوکر کو بلا کر دریافت ک��رنے لگ��ا کہ یہ کی��ا ہورہ��ا ہے ؟ اس نے اس س��ےکہا ت��یراآاگیا ہے اور تیرے باپ نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا ہے کیونکہ اسے بھلا چنگاپایا۔ وہ غصہ بھائ� ہوا اور اندر نہ جانا چاہا۔ مگر اس کا باپ ب�اہر ج��اکر اس�ے من��انے لگ��ا۔ اس نے اپ��نے ب��اپ س��ے جواd میں کہا دیکھ اتنے برسوں س��ے میں ت��یری خ��دمت کرت��ا ہ��وں اور کبھ� ت��یری حکم ع��دول� نہیں ک� مگ��ر مجھے ت��ونے کبھ� ای��ک بک��ری ک��ا بچہ بھ� نہ دی��ا کہ اپ��نے دوس��توں کے س��اتھآایا جس نے ت�یرا م�ال مت�اع کس�بیوں میں اڑادی�ا ت�و اس کےل�ئے خوش� مناتا۔ لیکن جب تیرا یہ بیٹا تونے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا۔ اس نے اس سےکہا بیٹا ! تو تو ہمیش�ہ م�یرے پ�اس ہے اور ج�وکچھ میرا ہے وہ تیرا ہ� ہے ۔لیکن خوش� منانا اور شا دمان ہونا مناس�ب تھ�ا کی�ونکہ ت�یرا یہ بھ��ائ� م�ردہ

آایت ۱۵)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع تھا اd زندہ ہوا ہے ، کھویا ہوا تھا اd ملا ہے۔ (۔۳۲تا ۱۲

آاج ک کے اکثر نوجوانوں ک� مانند ہے جو ش��ہروں میں ج�اکر اپن��ا روپیہ ب��ڑی پہلا بیٹا صحبت میں پڑ کر اڑادیتے ہیں او رجلد ہ� جانوروں ک� طرح ناقاب ذکر گندی زندگ� بسر کرنےلگتے ہیں ۔ لیکن پھر وہ اپن� گناہ اور نا امیدی ک� حالت میں توبہ کرکے اقرار کرتے ہیں کہ ۔

آاسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہوا۔" " اے باپ ! میں آاسمان� ب��اپ ک� ط��رف رج��وع ک��رتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر اور اپنے آائینہ دار ہے جب ای��ک ت��ائب آاس��مان� ب��اپ ک� اس خوش��� ک� ایسے گھر ک� شادمان� ہمارے

آاسمان� خاندان میں قبول کرتا ہے۔ بچے کو وہ اپنے دوسرا بیٹا خود غرض اور خود پسند تھا۔ وہ اپنے گھرانے ک� مسرت اور اپنے بھ��ائ� ک� واپس� سے ناخوش تھا۔ اس نے اپنے بھائ� کے ل��ئے ب��ڑی ب��یزاری ک��ا اظہ��ار کی��ا بلکہ اگ��ر وہ

گھرانے کا سربراہ ہوتا تو اسے گھر میں بھ� نہ گھسنے دیتا۔ی� مس��یح یہ��اں ارش��ادفرماتے ہیں کہ اس ک� ن�ام نہ��اد راس��تبازی س�ےحضور س��یدنا عیس��

خدا بالک خوش نہیں۔ خدا ہمیں ہر اس زن��دگ� کے ل��ئے ج��و ب��دی ک��و ت��رک ک��رکےنیک� ک� طرف راغب ہوت� ہے دل� خوش��� محس��وس ک��رن� چ��اہیے۔ فقیہ اور فریس��� اس ب��ڑے بھ��ائ� ک�

ی� مسیحمانند تھے۔ وہ آاپ گنہگ��اروں کےحضور سیدنا عیس پر اس بنا پر اع��تراض ک��رتے تھے کہ ساتھ کھ�اتے پی�تے ہیں ح�الانکہ ان میں س�ے بہت س�ے اپ�نے ب�رے ک�اموں ک�و ت�رک ک�رکے خ�داآاپ ک�و پریش�ان ک�رنے ک� س�ع� ک�رتے آاپ ک� مخ�الفت اور ی� پر ایمان لائے تھے۔ وہ متواتر تعالآاج بھ� متع��دد قائ��دین دین ان لوگ��وں کے س��اتھ ایس��ا ہ� رہے ۔ کت��نے افس��وس ک��ا مق��ام ہے کہ

ی� ک� طرف رجوع لانے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ سلوک کرتے ہیں جو خدا تعال

عید کے موقع پر یروشلیم میںی� مس��یحتھ��وڑے عرص��ہ کے بع��د عی��د کے موق��ع پ��ر پھ��ر یروش��لیمحض��ور س��یدنا عیس��

تشریف لے گئے ۔ " یروشلیم میں بھیڑ دروازہ کے پاس ایک حوض ہے جو ع��بران� میں بیت حس��دا کہلات�اآامدے ہیں۔ان میں بہت س�ے بیم�ار اور ان�دھے او رلنگ�ڑے او پ�ژ م�ردہ ل�وگ ہے اور اس کے پانچ بر )پان� کے ہلنے کے منتظر ہوکر (پڑے تھے ۔) کیونک وقت پر خداوند کا فرشتہ ح��وض پ��ر ات��ر ک��ر پان� ہلایا کرتا تھا۔ پان� ہل�تے ہ� ج��و ک��وئ� پہلےاترت�ا س��و ش��فا پات��ا۔ اس ک� ج�و کچھ بیم�اری

کیوں نہ ہو۔)وہاں ایک ش��خص تھ��ا ج��و اڑتیس ب��رس س��ے بیم��اری میں مبتلا تھ��ا۔ اس ک��و یس��وعی�( نے پڑا دیکھا اور یہ جان کر کہ وہ بڑی مدت سے ا س حالت میں ہے اس سے کہا کیا )عیسآادم� تو تندرست ہونا چاہتا ہے؟ اس بیمار نے اسے جواd دی��ا۔ اے خداون��د م��یرے پ��اس ک��وئ� نہیں کہ جب پان� ہلایا جائے تو مجھے حوض میں اتاردے بلکہ میرے پہنچتے پہنچتے دوسرای�( نے اس سے کہ��ا اٹھ اور اپ��ن� چارپ��ائ� اٹھ��ا ک��ر چ�� مجھ سے پہلے اترپڑتا ہے۔ یسوع )عیس

اا تندرست ہوگیا اور اپن� چارپائ� اٹھا کر چلنے پھرنے لگا۔ پھر۔ وہ شخص فورآاج " وہ دن سبت کا تھا۔ پس یہودی اس سے جس نےشفا پائ� تھ� کہنے لگے کہ س��بت ک��ا دن ہے ۔ تجھے چارپ��ائ� اٹھان��ا روا نہیں۔ اس نے انہیں ج��واd دی��ا جس نے مجھے تندرست کیا اس� نے مجھے فرمایا کہ اپن� چارپائ� اٹھاکر چ پھ��ر۔ انہ��وں نے اس س��ے پوچھ��ا کہ وہ کون شخص ہے جس نے تجھ سے کہا چارپائ� اٹھا کر چ پھر ؟ لیکن جو شفا پاگیا تھای�( وہاں سے ٹ�� گی��ا تھ��ا۔ ان وہ نہ جانتا تھا کہ کون ہے کیونکہ بھیڑ کے سبب سے یسوع )عیسی�(ہیک میں ملا۔ اس نے اس سے کہا دیکھ تو تندرست ہوگیا ہے۔ باتوں کے بعد وہ یسوع )عیسآادم� نے ج��اکر آائے ۔ اس آافت پھ��ر گن��اہ نہ کرن��ا ۔ ایس��ا نہ ہ��و کہ تجھ پ��ر اس س��ے بھ� زی��ادہ ی�( ہے ۔ اس ل��ئے یہ��ودی یہودیوں ک�و خ��بر دی کہ جس نے مجھے تندرس��ت کی��ا وہ یس��وع )عیس��

)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رتیسوع کوستانے لگے کیونکہ وہ ایسے کام س��بت کے دن کرت��ا تھ��ا ۔"

آایت ۵یوحنا رکوع (۔۱۶ تا ۲

ی� کلیم الله کو جو شریعت دی گئ� تھ� اس کا ایک حکم یوں تھا۔ حضرت موس " یاد کرکے تو سبت کا دن پاک ماننا۔ چھ دن تک محنت ک��رکے اپن��ا س�ارا ک��ام ک��اج کرنا۔ لیکن ساتواں دن خداوند تیرے خدا کا سبت ہے۔ اس میں نہ تو کوئ� کام کرے ۔ نہ ت�یر ا بیٹا ، نہ تیری بیٹ� ، نہ تیرا غلام، نہ تیری لونڈی ،نہ تیرا چوپایہ ، نہ کوئ� مسافر ج��و ت�یرے ہ��اں

آایت ۲۰)توریت شریف ،خروج رکوع تیرے پھاٹکوں کے اندر ہو۔" (۔۱۰ تا ۸

رحیم الرحمان خدا نے یہ اصول مقرر کیا کہ کیا انسان کیا بار بردار جانور، س��ب س��اتی� ک� یہ منش�ا آارام ک�ریں۔ اس دن ک�و س�بت کہ�ا گی�ا ۔ خ�دا تع��ال دن میں سے ایک دن مکم�

تھ� کہ انس��ان اس دن اپ��نے خ��الق ک� عب��ادت او راپ��ن� خان��دان� رف��اقت میں مس��رور ہ��وں ۔ اس حکم میں گھ�����ر کے تم�����ام اف�����راد یہ�����اں ت�����ک کہ ن�����وکر چ�����اکر، مہم�����ان اور گھ�����وڑے ، گدھے ،اونٹ ،خچر ،بی وغیرہ سبھ� شام تھے۔ اس دن خواتین کو بھ� گھریلو کام بہت کرنا پڑت��ا تھ��ا۔ جدی��د علم طب نے یہ ث��ابت ک��ردی ہے کہ زن��دگ� کے ت��واتر میں وقفہ ض��رور ی ہے ۔آارام ک� ض��رورت ہے۔ کس�ان اول ب�دل ک�ر فص� ب�ونے ک� اف��ادیت یہ��اں ت�ک کہ زمین ک�و بھ� آارام وہ اص��ول ک��و ی� کے اس آاگاہ ہیں۔بعض لوگ اپ��ن� زن��دگ� کے ل��ئے خ��دا تع��ال سے بخوب� نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ ہفتہ کے ساتوں دن اپنا کاروبار کرتے رہتے ہیں۔ اور یہاں تک کہ ن��وکروں

آارام ک��رنے کے ل��ئے چھ��ٹ� نہیں دی��تے۔ ی� مس��یحکو ایک دن بھ� نے تلقینحض��ور س��یدنا عیس��ی� نے یہ دن انسان کے فائدہ کے لئے مقرر کیا ہے۔ فرمائ� کہ خداتعال

آاپ کو س��بت کے دن ش��فا دی��نے س��ے ج��و مخ��الفت برداش��ت ک��رن� پ��ڑی اس ک� وجہ شریعت پر ست قائدین ک� خود ساختہ تفس��یر تھ� ۔وہ ش��ریعت کے معن��وی پہل��و ک� بج��ائے اس

آاپ س��بت کے دن ای��کتعمیک� لفظ� پ��ر زی��ادہ زور دی��تے تھے۔ ای��ک دفعہ ک��ا ذک��ر ہے کہ � مق�دس میں ی�و ں ذک�ر آای�ا ،اس ک�ا کلام عبادت خانہ میں تشریف لے گئے جو واقعہ وہ��اں پیش

ہے:آادم� تھ��ا جس ک��ا ہ��اتھ س��و کھ��ا ہ��وا " وہ عبادت خانہ میں پھر داخ ہوا اور وہاں ای��ک تھ��ا۔ اور وہ اس ک� ت��اک میں رہے کہ اگ��ر وہ اس��ے س��بت کے دن اچھ��ا ک��رے ت��و اس پ��ر ال��زامآادم� سے جس کا ہاتھ سوکھا ہ��وا تھ��ا کہ��ا ، بیچ میں کھ��ڑا ہ��و۔ اور ان س��ے لگائیں۔ اس نے اس کہا سبت کے دن نیک� کرنا روا ہے یا بدی کرنا ؟ ج��ان بچان��ا ی��ا قت�� کرن��ا ؟ وہ چپ رہ گ��ئے ۔ اس نے ان ک� سخت دل� کے سبب سے غمگین ہ��وکر او ر چ�اروں ط��رف ان پ�ر غص��ہ س�ے نظ��رآادم� سے کہا ، اپنا ہاتھ بڑھا۔ اس نے بڑھادیا اور اس کا ہاتھ درست ہوگیا۔ پھر فریس��� کرکے اس ف� الفور باہر جاکر ہیرودیوں کے ساتھ اس کے برخلاف مشورہ کرنے لگے کہ اسے کس طرح ہلا

آایت ۳)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع ک کریں ۔" (۔۶تا ۱

آادمی��وں کے انس�انیت س�وز رویہ س�ے ی� المس�یح ک�و ان م�ذہب پرس�ت سیدنا حضور عیس سخت غم تھا جو شریعت کے نام میں بیماروں ک� شفا اور ام�داد میں رک�اوٹ ک�ا ب�اعث بن رہےآاس��مان� ب��اپ نے ایس��ے آاپ کے محبت بھ��رے آاپ کو معلوم تھاکہ دکھ� انسان کے لئے تھے۔آاپک� م�ذہب پرس�ت اورم��ذہب کے ٹھیکی��داروں کے سخت قوانین کبھ� نافذ نہیں ک��ئے ۔ لہ��ذا ساتھ کشمکش پیدا ہوگئ� جو کہ عوام کے دین وایمان پر کماحقہ طور پر مسلط تھے۔ ہم اس

س�ال۳۸آادم� ک� ش�فا ی�اب� کے ب�ارے میں پ�ڑھ چکے ہیں ج�و کہ بیت حس�دا کے ح�وض پ�ر ی� المس��یح ک��و ہیک�� میں ملا تھ��ا۔ سے بیمار پڑا تھا اور اپن� شفایاب� کے بعد سیدنا حضور عیسآاپ س��ے بحث اس کے بت��انے پ��ر کہ جس نے مجھے ش��فادی وہ یس��وع ہے۔ یہ��ودی جم��ع ہ��وکر

آاپ نے انہیں یوں جواd دیا : کرنے لگے ۔ " میرا باپ )پروردگار (اd تک کام کرتا ہے اور میں بھ� کام کرتا ہوں ۔ اس سبب س�ے یہودی اور بھ� زياد ہ اسے قت کرنے ک� کوش�ش ک�رنے لگے کہ وہ نہ فق��ط س��ب ک��ا حکم توڑت�ا

آاپ ک��و خ��دا کے براب��ر بنات��ا تھ��ا۔ ) انجی�� ش��ریف بہ مط��ابقبلکہ خدا کوخاص اپنا باپ کہہ کر اپنے

(۔۱۸ تا ۱۷آایت ۵حضرت یوحنا رکوع

ی� المسیح اور مذہب� قائدین کے درمیان مخاص��مت ک��ا یروشلیم میں سیدنا حضور عیس ایک بڑا سبب یہ� موضوع تھ��ا۔ ان کے دل نف��رت اور ک�دورت س��ےبھرے پ��ڑے تھے۔ اس ل��ئے وہ

آاپ کو قت کرنے کےد رپے ہوگئے۔dا�ظ ب��ری وجہ لف�ک دوس�ئے*1ان ک� دشمن� ک� ای�ی� کے ل آاپ خ�دا تع�ال تھ��ا ج�و

ی� ک� وح��دانیت ک� تعلیم ہ� آاپ نے ب��ڑی ص��حت کے س��اتھ خ��دا تع��ال اس��تعمال ک��رتے تھے۔ دی۔ ایک مرتبہ جب کس� یہودی راہنما نے س��وال کی��ا کہ " حکم��وں میں اول ک��ون س��اہے ؟ ت�و

اا توریت شریف سے اقتباس پیش کیا۔" آاپ نے فور " خدا ہمارا خدا ایک ہ� خداون��د ہے۔ اور ت��و خداون��د اپ��نے خ�دا س�ے اپ��نے س��ارے دل

)انجی�� ش��ریف بہاوراپن� ساری جان اور اپ�ن� س��اری عق�� اور اپ�ن� س��اری ط��اقت س��ےمحبت رکھ۔"

آایت ۱۲مطابق حضرت مرقس رکوع (۔۳۰ تا ۲۸

ی� المس�یح خ�دا تع��ال� کے ل��ئے لف��ظ " ب�اپ" اس��تعمال فرم�اتے جب سیدنا حضور عیس ہیں تو کس� جسمان� رشتہ ک� طرف اشارہ ہرگز نہیں کرتے ۔ معزز قارئین س��ے درخواس��ت ہے کہی� ی� سےدعا کریں کہ وہ ان پر سیدنا حضور عیس�� سیرت المسیح کا مطالعہ کرتے وقت وہ خدا تعال المس��یح ک� شخص��یت کےبھی��دکا انکش��اف ک��رے، ہم نے اس مس��ئلے ک��و کت��اd کے اختت��ام

پرزیادہ وضاحت سےبیان کیا ہے۔ دیکھئے ۔۳ پر نوٹ نمبر ۲۹۲ نیز صفحہ نمبر *۔1

ی� ک� وح��دانیت پ��ر زور جن معنوں میں توریت ، زبور اور صحائف انبیاء میں خدا تع��الی� کے ل�ئے مس�تعم ہ�وا دیا گیا ہے۔ انہ� معنوں میں انجی� جلی� میں لف��ظ " ب�اپ" خ�دا تع�الی� ک� ش��فقت ک��ا ی��وں ذک��ر ہے۔ زبور شریف میں حضرت داؤ د بن� نوع انسان کے لئے خدا تعال

کرتے ہیں:" صادق خوش� منائيں ۔ وہ خدا کے حضور شادمان ہوں

بلکہ وہ خوش� سے پھولے نہ سمائیںخدا اپنے مقدس مکان میں

آایت ۶۸)زبور شریف رکوع یتیموں کا باپ اور بیواؤں کا داد رس ہے ۔ (۔۵ تا ۳

" جیسے باپ اپنے بيٹوں پر ترس کھاتا ہے ویسے ہ� خداوند ان پر جو ا س سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے۔

کیونکہ وہ ہماری سرشت سے واقف ہے۔اسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔

آایت ۱۰۳)زبور شریف رکوع (۔۱۴ تا ۱۳

ی� اپن� مظلوم امت سے ان الفاظ میں مخاطب ہوتا ہے۔: صحائف انبیاء میں خدا تعال� راس��ت پ��ر چلا ؤں گ��ا جس میں ٹھ��وکر نہ میں ان کو پ�ان� ک� ن��دیوں ک� ط��رف راہ

کھائیں گے کیونکہ میں اسرائي کا باپ ہوں اور افرائیم میرا پہلوٹھا ہے۔" آایت ۳۱)کتاd مقدس صحیفہ حضرت یرمیاہ رکوع (۔۶

اا " ب��اپ" کہہ ک��ر ی� المس��یح کے پیروک��ار خ��دائے واح��د ک��و تعظیم�� س��یدنا حض��ور عیس��ی� کے متعد د نام ہیں جن میں س��ے " پکارتے ہیں کیونکہ وہ تمام کائنات کا خالق ہے ۔ خدا تعال باپ " نہ صرف یہ ظ�اہر کرت�ا ہے کہ وہ تم�ام انس�انوں ک�ا خ�الق ہے بلکہ یہ بھ� کہ جس ط��رحاا اا ف��رد ی� بھ� ہم س�ے ف��رد ای��ک دنی��اوی ب�اپ اپ�ن� اولاد س�ے محبت رکھت��ا ہے ویس��ےہ� الل��ه تع��ال

محبت رکھتا ہے۔ی� المسیح کے فرمان کے مطابق تمام وہ انسان جو خلوص دل سے سیدنا حضور عیس توبہ کرکے خدا ک� طرف رجوع کرتے ہیں وہ اس کے نزدی�ک نہ��ایت گ��راں بہ��ا اورخ��اص معن��وں میں اس کے فرزند بن ج��اتے ہیں جن ک� وہ ب��ڑی فکرمن��دی س��ےدیکھ بھ��ال کرت�ا ہے ۔ وہ انہیںی� المس�یح نے روحان� اور جسمان� نعمتوں س�ے فیض ی�اd کرت�ا ہے ۔چن��انچہ س�یدنا حض�ور عیس�

اپنے حواریوں سے ارشاد فرمایا : " ہوا کے پرندوں کودیکھ�و نہ ب�وتے ہیں نہ ک�اٹتے ۔ نہ کوٹھی�وں میں جم�ع ک�رتے ہیں ت�وآاسمان� باپ ان کو کھلات��ا ہے ۔ کی��ا تم ان س�ےزيادہ ق��در نہیں رکھ��تے ؟تم میں ایس�ا بھ� تمہارا کون ہے جو فکر کرکے اپن� عمر میں ایک گھڑی بھ� بڑھا سکے ؟ او ر پوشاک کے ل��ئے کی��وں فکر کرتے ہو؟جنگل� سوسن کےد رختوں کوغور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھ��تے ہیں ۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کاتتے ہیں۔ تو بھ� میں تم سے کہتاہوں کہ س��لیمان بھ� ب��اوجود اپ��ن� س��اری شان وشوکت کے ان میں سے کس� ک� مانند ملبس نہ تھا۔ پس جب خ��دا می��دان ک� گھ��اسآاج ہے اور ک تنور میں جھونک� جائے گ� ایس� پوشاک پہنات�ا ہے ت��و اے کم اعتق��اد و کو جو تم کو کیوں نہ پہنائے گا ؟ اس لئے فکر مند ہوکر یہ نہ کہ��و کہ ہم کی��ا کھ��ائينگے اور کی��ا پ�ئیں گے یا کیا پہنیں گے ؟ کیونکہ ان سب چ��یزوں ک� تلاش میں غ��یر ق��ومیں رہ��ت� ہیں اور تمہ��ارا آاسمان� باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چ�یزوں کے محت�اج ہ�و۔ بلکہ تم پہلے اس ک� بادش�اہ� اور اس ک� راستبازی ک� تلاش کرو تو یہ سب چیزيں بھ� تم کو م ج��ائیں گ�۔ پس ک�� کے

آاج ہ� کادکھ ک��اف� آاج کے لئے آاپ فکر کرے گا۔ لئے فکر نہ کرو کیونکہ ک کا دن اپنے لئے آایت ۶) انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع ہے۔" (۔۳۴ تا ۲۶

یہودی دین� راہنما ان ب�اتوں ک�و اس ل�ئے نہ ج��ان س�کے کی�ونکہ وہ ان�دھے تعص�ب میںی� ک� تحقی��ق وت��دقیق میں دلچس��پ� نہیں رکھ��تے تھے۔ ہمیں بھ� اس گرفت��ار تھے اور کلام الہ

خطرہ سے محتاط وہوشیار رہنے ک� ضرورت ہے۔ی� المس�یح نے یروشلیم ک� عید سے گلی� واپس پہنچ�نے کے بع�د س�یدنا حض�ور عیس�� جلی� ۔ کچھ وقت جھی�� کے س�احل� علاقے میں گ�ذارا ۔ اس عرص�ے کے ب�ارے میں انجی�

یوں فرمات� ہے۔ی�( اپنے شاگردوں کے ساتھ جھی ک� طرف چلا گیا اور گلی سے ایک "یسوع )عیس بڑی بھیڑ پیچھے ہول� اور یہودیہ اور یروشلیم اورادومیہ سے اور یردن کے پار اور صور اور ص��یدا کےآائ� ۔ پس اس آاس پاس سے ایک بڑی بھیڑیہ سن کر کہ وہ کیسے بڑے کام کرتاہے اس کے پ��اس نے اپنے شاگردوں سے کہ�ا بھ��یڑ ک� وجہ س�ے ای�ک چھ��وٹ� کش�ت� م�یرے ل�ئے تی�ار ہے ت�اکہ وہ مجھے دبا نہ ڈالیں کی��ونکہ اس نے بہت لوگ��وں ک��و اچھ��ا کی��ا تھ��ا۔ چن��انچہ جت��نے ل��وگ س�خت

) انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رتبیماریوں میں گرفتار تھے اس پر گرے پڑتے تھے کہ اسے چھولیں ۔"

آایت ۳مرقس رکوع (۔۱۰ تا ۷

( حواریوں کا انتخا۱۲dبارہ )ی� المس�یح نے اپ�نے ب�ارہ ) ( ح�واری منتخب ک�ئے ت�اکہ وہ ہمہ۱۲اd سیدنا حضور عیس�

آاپ ای��ک پہ��اڑی پ��ر آاپ ک� رف��اقت میں رہیں۔انہیں منتخب ک��رنے س��ے ای��ک دن پہلے وقت آاپ نے تشریف لے جاکر علیحدگ� میں ساری رات دع��ا ک�رتے رہے۔ بعض علم��ا ک� رائے ہے کہ ی� س��ے ہ��دایت چ��اہ�۔ آاخ��ری فیص��لے کے ل��ئے خ��د ا تع��ال اس رات اپنے حواریوں کے انتخاd کے

� جلی میں اتنا ہ� مرقوم ہے کہ البتہ انجی

آاپ چاہت��ا تھ��ا۔ ان ک��و پ�اس بلای�ا اور وہ اس " پھر وہ پہاڑ پ��ر چ�ڑھ گی��ا اور جن ک�و وہ آائے۔ اور اس نے بارہ ) )انجی�� ش��ریف بہ( کو مقرر کیات�اکہ اس کے س��اتھ رہیں۔۔۔۱۲کے پاس چلے

(۔۱۴ تا ۱۳آایت ۳مطابق حضرت مرقس رکوع

آاپ کے حواریوں کے اسمائے گرام� حسب ذی ہیں: حضرت شمعون پطر س، اور ان کے بھائ� اندریاس ، یعقوd اور ان کے بھائ� یوحن��ا ، فلپس ، برتلم��ائ� ، م�ت� )جن ک�ا دوس�را ن��ام لاوی بھ� تھ��ا( توم�ا، یعق��وd )حض��رت حلف��ئ� کے

آاپ کو پکڑوا بھ� دیا۔ بیٹے( تدی، شمعون قنان� ، اور یہوداہ اسکریوت� جس نے آاپ نے ان ک� تعلیم ی� المسیح کے ساتھ رہنے لگے ۔ اd یہ حواری سیدنا حضور عیسآاقا وم�ولا کے م�ردوں میں س��ے ج� اٹھ��نے کے وتربیت میں کوئ� کسر اٹھا نہ رکھ� تاکہ وہ اپنے آاپ حوارئین کے س��اتھ بعد دنیا کے کونے کونے میں انجی ک� خوشخبری کو پھیلائیں ۔ جب پہاڑ پر تش�ریف لے گ�ئے ت�و ی�ردن اور یروش��لیم کے تم�ام علاق��وں اور ص�ور اور ص��یدا کے س�احل�آاپ ک� حیات اف��روز ب��اتیں س��ننے اور آانے لگے ۔ وہ آاپ کے پاس صوبوں کے لوگ ہجوم درہجوم آاس��مان� بادش��اہ� کے اص��ولوں س��ے بیم��اریوں س��ے ش��فا پ��انے کے خواہش��مند تھے۔ اd انہیں روشناس کرانے لگے۔ درس وتدریس ک� یہ� باتیں دنیا بھر میں پہاڑی وعظ کے نا م سے شہرت

پذیر ہوئیں۔

پہاڑی وعظآایت ۵)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع (۱۶ تا ۳

آاسمان ک� بادشاہ� کے اصولوں کا بی��ان ی� المسیح نے اس وعظ میں سیدنا حضور عیسآاس��مان ک� بادش��اہ� " ک� اص��طلاحات پ��ر بع��د میں س��وچ بچ��ار*1فرمایا" خدا ک� بادش��اہ� اور

آاپ نے اپ��نے پیروک��اروں ی� ترین معی��ار پ��ر غ��ور ک��ریں جس��ے کریں گے لیکن ف� الحال ہم اس اعلکے لئے مقرر کیا۔

دیکھئے۔۸ پر نوٹ نمبر ۲۹۵ صفحہ نمبر *1

ی� المسیح ان لوگوں میں جن ک� دین��داری اس مشہور زماں وعظ میں سیدنا حضور عیسی� ک� مرض� کو بجالانے محض زبان تک ہ� محدود ہے۔ اور ان میں جو دل وجان سے خدا تعال

آاپ نے فرمایا: کے لئے کراہتے ہیں فرق بیان فرماتے ہیں ۔آاس��مان ک� بادش��اہ� ان ہ� ک� ہے " " مب��ارک ہیں وہ ج��و دل کے غ��ریب ہیں کی��ونکہ

آایت (۔۳)

ی� کے دی�دار کے ل��ئے ترس��تے ہیں۔ یہ وہ ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے دل میں خ��دا تع��الجو دل وجان سے اس کے طالب ہیں۔

آایت " مبارک ہیں وہ جو غمگین ہیں کیونکہ وہ تسل� پائیں گے۔" (۔۴)

� انس��ان ک� پس��ت اخلاق� اور خطاک��اری پ��ر م��اتم وہ خ��دا ت��رس م��رد وزن ج��و ن��وعی� انہیں اپن� فرمانبرداری کے لئے ہمت واستقلال بخشتاہے۔وہ انہیں یقین دلات��ا کرتےہیں۔ خدا تعالآاخر وہ نوع انسان� کے معاملات میں مداخلت کرکے راس��ت� پ��ر مب��ن� بادش��اہ� ق��ائم ہے کہ بالا

کرے گا۔آایت " مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہوں گے۔" (۔۵)

یی جتانے کانتیجہ جنگ وجدل جھگڑا اورمقدمہ ب��ازی علاقائ� توسیع اور حقوق پر دعو وغیرہ ہیں۔ تنازع کا نتیجہ اکثر اوقات مایوس�� ، غم، ع��داوت اور نف��رت ک� ص�ورت میں نکلت��ای� المس�یح اس ک�ا ای�ک بہ��ترین ح� پیش ک�رتے ہیں کہ انس�ان ج�انے اور ہے۔ س�یدنا حض�ور عیس� مانے کہ یہ دنیا خدا ک� ہے اور یہ کہ اس کے تمام بندوں کے لئے بن��ائ� گ��ئ� ہے جن میں ،میں بھ� شام ہوں۔علاوہ ازیں خدا نے وعدہ کیا کہ اس زندگ� کے بعد تمام بے انصاف� کا خ��اتمہآاخر ہم��ارا ی� بالا اا مبارک حال ہیں جو یہ جانتے ہوئے کہ خدا تعال ہوکررہے گا۔ پس وہ لوگ حقیقتیے نہیں ک�رتے ۔ حض�رت اب�راہیم خلی� الل�ه نے خ�دا حق ہمیں دے گا، کس� شے پر بھ� دعوآاپ کو فساد آاسمان� گھر پر نظریں جما رکھ� تھیں، اس لئے وہ اس زمین پر اپنے ی� اور اپنے تعال

سمجھتے ہوئے زندگ� بسر کرتے تھے۔

آاس��ودہ ہ��وں گے۔" آایت"مبارک ہیں وہ جور استبازی کے بھوکے او رپیاسے ہیں کیونکہ وہ (

(۔۶

ی� اور حقیق� راس��ت� ک� ی� المسیح ان لوگوں سے جو خدا تع��ال یہاں سیدنا حضور عیسآائیگ��ا آاخ��ر ک��ار ای��ک دن ایس��ا شدید تڑپ رکھتے ہیں۔ ای��ک عجیب وغ��ریب وع��دہ فرم��اتے ہیں ۔

ی� کادیدار حاص کرکے مطمئن ہوجائیں گے۔ آائندہ جہان میں خدا تعال جبکہ وہ آایت " مبارک ہیں وہ جو رحمدل ہیں کیونکہ ان پر رحم کیا جائے گا۔" (۔۷)

ی� خ��ودرحیم ہے ۔ اس ل��ئے اس کے پیروک��اروں کودوس��روں پ��ر رحم کرن��ا چ��اہیے خدا تع��الی� ک� رحمت سے فیض یاd ہوتے رہتے ہیں۔ کیونکہ وہ خود بھ� خدا تعال

" مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے ۔"" مبارک ہیں و ہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے۔"

" مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب سے ستائے گئے ہیں۔آاسمان ک� بادشاہ� ان ہ� ک� ہے۔" آایات کیونکہ (۔۱۰ تا ۸)

ی� کے بارے میں تبلیغ کے سبب آاواز اٹھانے او رنیک� اور خدا تعال گناہ کے خلاف آاسمان ک� ی�( کو قید کرکے شہید کردیاگیا۔ موت نے انہیں سے یوحنا اصطباغ� )حضرت یحیی� وارفع ہے۔برکات کے ان وعدوں کے بادشاہ� میں پہنچادیا جو تمام دنیاوی بادشاہتوں سے اعلآانے ی� المس�یح اپ�نے پیروک�اروں س�ے ان تک�الیف کے پیش نظ�ر ج�و ان پ�ر بعد سیدنا حض�ور عیس�

آامیز تعلیم دیتے ہیں۔ وال� تھیں مزید تسکین اا دو ہ�زار س�ال س�ے ای�ذا رس�ائ� ، ی� المسیح کے پیروک�اروں ک�و تقریب� سیدنا حضور عیس ملازمت سےبرطرف� ،اقتص��ادی ب��دحال� ، ع��داوت اور جلاوط��ن� ک��ا س��امنا کرن��ا پڑرہ��ا ہے۔ ف�آازادی اور حق��وق انس��ان� ک� ض��مانت دی گ��ئ� ہے زمانہ گو اقوام متحدہ کے چارٹر میں مذہب�

تو بھ� انہیں اس� قسم کے حالات کا سامنا ہے۔آاپ نے فرمایا: ان باتوں کے پیش نظر

" جب میرے سبب س�ے ل�وگ تم ک�و لعن طعن ک�ریں گے اور س�تائیں گے اور ہ��ر ط��رح ک� ب��ری ب��اتیں تمہ��اری نس��بت ن��احق کہیں گے ت��و تم مب��ارک ہ��وگے ۔ خوش��� کرن��ا اور نہ��ایتآاسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے اس لئے کہ لوگوں نے ان نبیوں کو بھ� جو تم سے شادمان ہوناکیونکہ

آایات پہلے تھے اس� طرح ستایا تھا۔" (۔۱۲تا ۱۱)

ی� تعلیم آاج ت��ک اعل ی� المس��یح کے پیروک��اروں ک��و بعض ممالک میں سیدنا حضور عیس�� حاص کرنے سے محروم رکھا جاتا ہے اور مال� م��دد ملازمت کے سلس��لہ میں انہیں تعص��ب ک��ا س��امنا کرن��ا پڑت��ا ہے۔ لہ��ذا وہ ذہ��ن� ق��ابلیت واہلیت رکھ��تے ہ��وئے بھ� پس مان��دہ اور غ��ریب رہ��تے ہیں۔ ایسے اشخاص سے اپ نے گویا فرمایا " فکر نہ کرو۔اس ساٹھ یا ستر سالہ دنی��اوی زن��دگ�آائندہ جہان میں تمہیں دیا جائے گا کچھ حقیقت نہیں۔" ک� اس جلال� اجر کے سامنے جو

ی� المس��یح دو تش��بیہوں س��ے اپ��نے پیروک��اروں ک� خصوص��یات اd س��یدنا حض��ور عیس��وصفات کو بیان فرماتے ہیں ۔

پہل� تشبیہ " تم زمین کے نمک ہو۔ لیکن اگر نمک کا مزہ جاتا رہے تو وہ کس چیز س��ے نمکینآادمی��وں کے پ��اؤں کیا جائے گا۔ پھروہ کس� کام کا نہیں سوا اس کے کہ باہر پھینک��ا ج��ائے اور

آایت کے نیچے روندا جائے " (۔۱۳)

اس زمانہ میں جب اشیائے خردونوش ک��و ٹھن��ڈا رکھ��نے کے ل��ئے ریفریجری��ٹر نہیں تھے۔dرا��و و ہ خ��ائے ت��ا ج��ک لگادی��ہوجاتا تھا۔ لیکن اگر مچھل� یا گوشت میں نم dکھانا جلد خرا ی� المس�یح ہونے سے محف��وظ ہوج�اتے ہیں ۔ بعینہ کس�� دف��تر ی�ا محکمہ میں س��یدنا حض�ور عیس� کے پیروکاررشوت لینے سے انکار کرنے اور فسق وفجور کو منظر عام پر لانے سے ب��دی ک� روکی� اخلاق� معی�ار حکومت�وں ک� آاپ کے پیروک��اروں ک�ا اعل تھام کرس�کتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ

روش اور تجارت کے اصول بدل سکتا ہے ۔دوسری تشبیہ

" تم دنیا کے نور ہو۔جو شہر پہاڑ پر بس��ا ہے وہ چھپ نہیں س��کتا۔ اور چ��راغ جلا ک��ر پیمانہ کے نیچے نہیں بلکہ چراغدان پر رکھتے ہیں تو اس سے گھر کے س��ب لوگ��وں ک��و روش��ن�آادمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ تمہارے نیک ک��اموں پہنچت� ہے۔ اس� طرح تمہاری روشن�

آاسمان پر ہے تمجید کریں۔" آایات کو دیکھ کر تمہارے باپ ک� جو (۔۱۶تا ۱۵)

آاپ نے نور ک� مزید وضاحت فرمائ� ہے۔ ایک دوسرے موقع پر آادمیوں نے تاریک� کو نور سے زیاد ہ پسند کی��ا ۔اس ل��ئے کہ ان آایا ہے اور " نور دنیا میں کے کام برے تھے۔ کیونکہ جو کوئ� بدی کرتا ہے وہ نور سے دشمن� رکھتا ہے اورنور کے پاسآاتا ۔ ایسا نہ ہو کہ اس کےکاموں پر ملامت ک� جائے ۔ مگر جوس��چائ� پ��ر عم�� کرت��اہے نہیں

آاتا ہے تاکہ اس کے کام ظاہر ہوں کہ وہ خدا میں کئے گئے ہیں۔" )انجی�� ش��ریف بہوہ نور کے پاس

آایت ۳مطابق حضرت یوحنا رکوع (۔۲۱ تا ۱۹

آاتے لیکن روش��ن� انہیں ظ��اہر جس ط��رح ک��پڑوں پ��ر داغ دھ��بے ت��اریک� میں نظ��ر نہیں آاپ کے پیروک��اروں ک� زن�دگیوں س�ے دنی�ا داروں ک� زن�دگیوں میں گن�اہ کردیت� ہے ۔ اس� طرح

ظہر ہوجاتا ہے ۔ی� المسیح نے اپنے پہ��اڑی وع��ظ میں اپ�نے پیروک��اروں کے ل��ئے ای��ک سیدنا حضور عیسی� وارفع معیار زندگ� مقرر کیا ہے۔ یہ دنیا کے مروجہ معیار سے اکثر وبیش��تر اختلاف نہایت اعلآاپ کے رکھتا ہے ۔ ہم زناکاری کے بارے میں میں اختلاف پ��ر پہلے ذک��ر ک��رچکے ہیں۔ اd ہم

آاپ نے انسان� تعلق کے سلسلہ میں فرمایا: ایک اور فرمان پر غور کرتے ہیں۔ " تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ خون نہ کرن�ا اور جوک�وئ� خ�ون ک�رے گا وہ عدالت ک� سزا کے لائق ہوگا۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئ� اپنے بھائ� پر غصہ ہوگا وہ ع�دالت ک� س�زا کے لائ�ق ہوگ��ا اور ج�و ک�وئ� اپ�نے بھ�ائ� ک�و پاگ� کہے گ�ا وہآاگ کے جہنم ک��ا ص��در ع��دالت ک� س��زا کے لائ��ق ہوگ��ا ۔ اور ج��و اس ک��و احم��ق کہے گ��ا وہ

آایت ۵)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع سزاوار ہوگا۔" (۔۲۲تا ۲۱

ی� کے حضور دعا نماز س��ے آاپ نے اپنے پیروکاروں کو یہ بھ� تلقین فرمائ� کہ خدا تعالقب اگر ایک بھائ� کو دوسرے سے اختلاف ہو تو وہ پہلے اس کا تصفیہ کرلے۔

آائے کہ م��یرے بھ��ائ� ک��و " پس اگر قربان گاہ پر اپن� نذر گزرانتا ہو اور وہ��اں تجھے ی��اد آاگے اپ��ن� ن��ذر چھ��وڑ دے اور ج��اکر پہلے مجھ س��ے کچھ ش��کایت ہے ت��و وہیں قربانگ��اہ کے آاکر اپن� نذر گذران ۔ جب تک تو اپنے مدع� کے س��اتھ راہ میں اپنے بھائ� سے ملاپ کر تب ہے اس س���ے جل���د ص���لح ک���رلے کہیں ایس���ا نہ ہ���و م���دع� تجھے منص���ف کے ح���والہ ک���ردے اورمنصف تجھے سپاہ� کے ح�والہ ک�ردے اور ت�و قی��د خ�انہ میں ڈالا ج�ائے۔ میں تجھ س�ے س��چ

) انجی��کہتا ہوں کہ جب تک تو کوڑی کوڑی ادا نہ ک��ردے گ��ا وہ��اں س��ے ہ��ر گ��ز نہ چھ��وٹے گ��ا۔"

آایت ۵شریف بہ مطابق حضر ت مت� رکوع (۔۲۶ تا ۲۳

ی� ک� جس س�ے وہ مع�اف� ک� امی��د رکھت�ا ہے عب��ادت کیس�ے ایک ش��خص خ��دا تع��ال کرسکتا ہے ، جبکہ وہ خود اپنے ہم جنس انسان کو معاف کرنے اور اس س��ے ص��لح ک��رنے کےی� المسیح نے ایک اور موقع پر اس� موضوع پر بڑی تفصی سے لئے تیار نہیں؟ سیدنا حضور عیس

درس فرمایا: " اگر تیرا بھائ� تیرا گناہ کرے توجا اورخلوت میں بات چیت کرکے اسے سمجھا۔ اگ��رآادمی�وں ک�و اپ�نے س�اتھ لے وہ تیری س�نے ت�و ت�و نے اپ�نے ک�و پالی��ا۔ اور اگ�ر نہ س�ننے ت�و ای�ک دو جاتاکہ ہر ایک بات دو تین گواہوں ک� زبان س��ے ث�ابت ہوج��ائے ۔ اگ�ر وہ ان ک� بھ� س�ننے س�ے انکار کرے تو کلیسیا سے کہہ اور اگر کلیسیا ک� بھ� سننے سے انکار کرے تو تواسے غ��یر ق��وم

آایت ۱۸)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع والے اور محصول لینے والے کے برابر جان" (۔۱۷ تا ۱۵

آاپ کے ایک حواری حضرت شمعون پط��رس اس ب��ات س��ے ش��ش وپنج میں پڑگ�ئے کہآاپ سے سوال کیا آاخر کہاں ہے! چنانچہ انہوں نے معاف� ک� حد

" اے خداوند! اگر میرا بھائ� میرا گناہ کرتاہے تو میں کتن� دفعہ اسے معاف ک��روں؟کیا سات بارتک ؟"

آاپ نے اسے جواd دیا:

(d ک۔۷۰(ار بلکہ سات دفعہ کے ستر )۷" میں تجھ سے یہ نہیں کہتا کہ سات��بارت) آاسمان ک� بادشاہ� اس بادشاہ ک� مانند ہے جس نے اپنے نوکروں سے حس��اd لین��ا چاہ��ا۔اور پس جب حساd لینے لگا تو اس کے سامنے ای��ک قرض��دار حاض��ر کی��ا گی��ا جس پ��راس کے دس ہ��زارآاتے تھے۔ مگ�ر چ�ونکہ اس کے پ�اس ادا ک�رنے ک�و کچھ نہ تھ�ا اس ل�ئے اس کے مال�ک ت�وڑے نے حکم دیا کہ یہ اور اس ک� بیوی بچے اور جو اس ک�ا ہے س��ب بیچ��ا ج�ائے اور ق��رض وص�ول کرلیا جائے ۔ پس نوکر نے گرکر سجدہ کی��ا اور کہ��ا اے خداون��د مجھے مہلت دے ۔ میں ت��یرا سارا قرض ادا کروں گا۔ اس نوکر کے مالک نے تر س کھاکر اسے چھ��وڑ دی�ا اور اس ک�ا ق��رض بخش دیا۔ جب وہ نوکر باہر نکلا تو اس کے ہم خدمتوں میں س��ےایک اس ک��و ملا جس پ��ر اسآات��ا ہے ادا آاتے تھے۔ اس نے اس ک��و پکڑک��ر اس ک��ا گلا گھونٹ��ا اور کہ��ا ج��و میرا کے س��و دین��ار کردے۔ پس اس کے ہم خدمت نے اس کے سامنے گر ک��ر اس ک� منت ک� او رکہ��ا مجھے مہلت دے ۔ میں تجھے ادا کردوں گا ۔ اس نے نہ مانا بلکہ جاکر اس��ے قی��د خ��انہ میں ڈال دی��ا کہ جب ت���ک ق���رض ادا نہ ک��ردے قی���د رہے۔ پس اس کے ہم خ��دمت یہ ح��ال دیکھ ک��ر بہتآاکر اپنے مالک کو سب کچھ جو ہوا تھا س��نادیا۔ اس پ��ر اس کے مال��ک نے اس غمگین ہوئے اور کو پاس بلا کر اس سے کہ��ا اے ش��ریر ن��وکر !میں نے وہ س�ارا ق��رض تجھے اس ل��ئے بخش دی��اکہ تونے میری منت ک� تھ�۔ کیا تجھے لازم نہ تھا کہ جیسا میں نے تجھ پر رحم کیا ت��و بھ� اپ��نے ہم خدمت پر رحم کرتا ؟ اور اس کے مالک نے خفا ہوکراس ک��و جلادوں کے ح��والہ کی��اکہ جبآاسمان� باپ بھ� تمہارے س��اتھ اس��� ط��رح ک��رے گ��ا تک تمام قرض ادا نہ کردے قید رہے۔ میرا

)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��ت�اگر تم میں سےہر ایک اپنے بھائ� کو دل سے معاف نہ ک��رے ۔"

آایت ۱۸رکوع (۔۳۵تا ۲۱

ی� المسیح کے حقیق� پیروکاروں ک��و تلقین ک� گ��ئ� ہے کہ وہ اپ��نے سیدنا حضور عیس قصوداروں کو صدق دل سے معاف کریں۔ دل میں تلخ� اور بغض رکھتے ہوئے اوپ��ر ے دل س��ےی� ک�ا معی�ار نہیں ہے السلام وعلیکم کہن�ا ی�ا بن�اوٹ� حلیم� دکھان�ا، ان لوگ�وں کے ل�ئے خ�دا تع�الاا قت جنہیں اس نے اپنے بڑے کرم سے معاف کیا ہے۔پیشتر ازیں کہ نفرت کے ظاہر ا افعال مثل

ی� آائیں ، وہ دل میں پہلے ہ� سے نش��وونما پ��اچکے ہ��وتے ہیں۔ خ��دا تع��ال یا انتقام وغیرہ وقوع میں ی� المس�یح ک� س�� محبت کے حقیق� پرستاروں ک� امتیازی خصوص�یت س��یدنا حض�ور عیس�ی� المس��یح ک� اور معاف� دینے کے لئے مستعدد رہنے کا رویہ ہ��ون� چ��اہیے۔ س��یدنا حض��ور عیس��ی� س� محبت اورمع�اف� دی�نے کے ل�ئے مس�تعد رہ�نے ک�ا رویہ ہ��ون� چ�اہیے۔ س�یدنا حض�ور عیس� المسیح اس مشہور ومعروف پہاڑی وعظ میں خدا ک� بادشاہ� کے اصولوں کا ای��ک اور رخ بھ�

پیش کرتے ہیں: آانکھ اور دانت کے بدلے دانت ۔ آانکھ کے بدلے " تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھاکہ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرن��ا بلکہ جوک��وئ� ت��یرے دہ��نے گ�ال پ�ر طم��انچہ مارے دوسرا بھ� اس ک� طرف پھیرد ے۔ اور اگر کوئ� تجھ پر نالش کرکے تیرا کرتا لین��ا چ��اہیے تو چوغہ بھ� اسے لینے دے۔ اور جوکوئ� تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اس کے س��اتھ دو کوس چلاجا۔ جو کوئ� تجھ سے مانگے اس��ے دے اور ج�و تجھ س�ے ق��رض چ�اہے اس س�ے

منہ نہ موڑ ۔" " تم سن چکے ہو کہ کہا گی��ا تھ��ا کہ اپ�نے پڑوس��� س��ے محبت رکھ اور اپ��نے دش��من سے عداوت ۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھ��و اور اپ��نے س��تانےآاس��ما ن پ��ر ہے بی��ٹے ٹھہ��رو۔ کی��ونکہ وہ اپ��نے والوں کے لئے دعا کرو۔ تاکہ تم اپ��نے ب��اپ ک��و ج��و سورج کو بدوں اور نیکو ں دون��وں پ��ر چمکات��ا ہے اور راس��تبازوں اور ناراس��توں دون��وں پ��ر مینہ برس��اتا ہے۔ کیونکہ اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہ� سے محبت رکھو تو تمہارے لئے کیا اج��ر ہے؟آاس�مان� کیا محصول لینے والے بھ� ایسا نہیں ک��رتے ؟ پس چ��اہیے کہ تم کام� ہ��و جیس��ا تمہ��ارا

آایت ۵)انجی شریف ، بہ مطابق مت� رکوع باپ کام ہے۔" (۔۴۸تا ۳۸

دشمنوں سےنفرت وانتقام ، استحصال اور جن��گ وج��دل ن��وع انس��ان� کے ع��ام تجرب��اتی� � ق��ادر کے حقیق� پرس�تاروں کے ل�ئے ای�ک اعل ی� المس�یح خ�دای ہیں۔یہاں س�یدنا حض�ور عیس�

آاپ کے اس آاپ کے متع�دد پیروک�ار بھ� اخلاق� معیار مقرر کرتے ہیں۔ اک�ثر ل�وگ یہ�اں ت�ک کہ آاپ نےفرمایا : حکم کو بھلا بیٹھے ہیں کہ اپنے دشمنوں سے پیار کریں۔ چنانچہ

" پس جو ک��وئ� ان چھ��وٹے س�ے چھ��وٹے حکم�وں میں س��ے بھ� کس�� ک�و توڑیگ�ا اورآاسمان ک� بادشاہ� میں سب س��ے چھوٹ��ا کہلائے گ��ا۔ لیکن ج��و آادمیوں کو سکھائے گا وہ یہ� آاسمان ک� بادشاہ� میں بڑا کہلائیگا ۔ کی��ونکہ ان پر عم کرے گا اور ا ن ک� تعلیم دے گا وہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تمہاری راستبازی فقیہ��وں اور فریس��یوں ک� راس��تبازی س��ے زی�ادہ نہ

آاسمان ک� بادشاہ� میں ہ��ر گ�ز داخ� نہ ہ��وگے ۔)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��ت� رک��وعہوگ� تو تم

(۔۲۰ تا ۱۹آایت ۵

آاپک� ی� المسیح ک� بعثت سے لے ک��ر تاریخ کے اس دور میں یعن� سیدنا حضور عیسآان��ا لازم� ہے ۔ آاپ کے پیروکاروں کو دوسروں کےساتھ مہربان� اور تحم سے پیش آامد ثان� تک �ہ کس� خطا یا گناہ کے سبب مجرم ٹھہرانے اور س��زا دی��نے ک� ذمہ داری ہم��اری نہیں بلکہ ب��را

ی� ک� ہے۔ راست خدا تعالی� المسیح کےایک مخصوص پیروکار پہاڑی وعظ کا مفہوم سیدنا حضور عیس

" بدی کے عوض کس� سے بدی نہ کرو۔ جو باتیں سب لوگوں کے نزدیک اچھ� ہیںآادمیوں کے ساتھ می ملاپ رکھو۔ ان ک� تدبیر کرو۔ جہاں تک ہوسکے تم اپن� طرف سے سب اے عزیز! اپنا انتقام نہ لو بلکہ غضب کو موقع دو کیونکہ یہ لکھ�ا ہے کہ خداون�د فرمات�اہے انتق��ام لینا میرا کام ہے۔ بدلہ میں ہ� دوں گا۔ بلکہ اگر تیرا دشمن بھوکا ہو ت��و اس ک��و کھان��ا کھلا۔اگ��رآاگ کے انگ�اروں ک�ا ڈھ�یر پیاسا ہو تو اسے پان� پلا کیونکہ ایسا ک�رنے س�ے ت�و اس کے س�ر پ�ر

آاؤ۔" )انجی شریف خ��طلگائے گا۔ بدی سے مغلوd نہ ہو بلکہ نیک� کے ذریعہ سے بدی پر غالب

آایت ۱۲اہ رومیوں رکوع (۔۲۱ تا ۱۷

آاپ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ المسیح کے متعدد نام نہاد پیروکاروں کے ک��ردار س��ے ک� تعلیمات ک� سراس�ر نف� ہ�وت� ہے۔ وہ غ�ير ممال�ک پ�ر قبض�ہ اور م�ذہب� جنگ�وں میں حص�ہ لیتے رہے۔ وہ اپنے مہلک ہتھیاروں ک� فروخت سےجنگ وج��دل ک��ا ب��ازار گ��رم رکھ��تے ہیں۔ بعض

ی� آاتش��ین ہتھی��اروں س��ےبے ان��داز نف��ع کمای��ا ہے ۔ چن��انچہ ق��ارئین س��یدنا حض��ور عیس�� نے ت��و ان آاسان� لگاسکتے ہیں کہ مغرب� ممال��ک المسیح ک� تعلیمات کے پیش نظر اس بات کا اندازه با� زندگ� سے کوسوں دور ہیں۔ بلکہ حقیقت ت��و یہ ہے کہ آاپ کے معیار کے اکثر وبیشتر باشندے کوئ� بھ� ملک مس�یح کے ن��ام س��ے کہلانے کے لائ�ق نہیں۔ البتہ ہ��ر ق��وم میں ایس��ے چھ��وٹےی� المس��یح کے حقیق� پیروک��ار ہیں۔ان لوگ��وں ک� چھوٹے گروہ موجود ہیں جو س��یدنا حض��ور عیس��

مثال ایس� ہے گویا کہ بھیڑیوں میں میمنا۔ی� المسیح ک� تعلیمات کو رد کرکے علانیہ تشدد اور انتق��ام پ��ر جو سیدنا حضور عیسآانکھ اوردانت کے دانت " کے اص��ول پ��ر چل��تے ہیں۔ ان کے آانکھ کے ب��دلے آاتے ہیں وہ " ات��ر

ی� المسیح کے ارشادات خلاف پامردی اور ناقاب عم ہیں۔ نزدیک سیدنا حضور عیسی� ک� فرم��انبرداری ک��رتے آاپ ک� تعلیمات کا اتباع کرتے ہوئے خدا تعال لیکن جو لوگ ی� بجالانے کے لئے روح��ان� تق��ویت م�� ج��ات� ہے اور وہ � الہ ہیں، انہیں دل کااطمینان او راحکام

آاسمان� باپ ک� مانند کام بنتے جاتے ہیں۔ اپنے حقیقت ہے کہ دکھ سہنے ک� روحان� قوت تشدد سے زيادہ اث��ر رکھ��ت� ہے۔چن��انچہآاک��ر ی� المسیح نے اپنے کمال حلم اور ای��ذا رس��� ہے کہ ب��اعث ب��دی پ��ر غ��الب سیدنا حضور عیسآاپ نے ح�ق گ�وئ� اپن� تعلیمات کو دنیا کے ک�ونے ک�ونے میں پھیلادی�ا۔ اپ�نے پہ�اڑی وع�ظ میں

کے بارے میں بھ� بڑی صراحت سے بیان فرمایا ہے۔ حق گوئ� اور قسمیں بھ� انسان� تعلقات کے ایک اور پہلو کو پیش ک��رت� ہیں۔ اک��ثرحضرات یہاں تک کہ بڑے بڑے مہذd او رنمازی بھ� بات بات پر قسمیں کھاتے رہ��تے ہیں۔

ی� المسیح کا ارشاد گرام� ملاحظہ ہو۔ اس ضمن میں سیدنا حضور عیس " تم سن چکے ہ��و کہ اگل�وں س��ے کہ��ا گی��ا تھ��ا کہ جھ��وٹ� قس��م ک�ا کھان��ا بلکہ اپ��ن� قسمیں خداوند کے لئے پوری کرنا۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ بالک قسم نہ کھانا ۔ نہ ت��و آاسمان ک� کیونکہ وہ خدا کا تخت ہے۔ نہ زمین ک� کیونکہ وہ اس کے پاؤں ک� چوک� ہے۔ نہ

یروشلیم ک� کیونکہ وہ بزرگ بادشاہ کاشہر ہے۔نہ اپنے سر ک� قسم کھانا کیونکہ تو ایک بال کو بھ� سفید یا کالا نہیں کرس�کتا۔ بلکہ تمہ�ارا کلام ہ�ا ں ہ��اں ی�ا نہیں نہیں ہ�و کی�ونکہ ج�و

آایت ۵)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع اس سےزیادہ ہے وہ بدی سے ہے۔ (۔۳۷ تا ۳۳

آادم� ک��و قس��م کھ��انے ک� ض��رورت قس��م جھ��وٹ ک��و چھپ��انے ک��ا پ��ردہ ہے ۔س��چے ی� المس�یح نے � خلق ک�ا ای�ک اہم حص�ہ ہے۔ لیکن س�یدنا حض�ور عیس� نہیں ۔ خیرات ۔ خدمت اس سلس��لے میں ارش��اد فرمای��ا کہ خ��یرات دکھ��اوے کے ل��ئے نہیں بلکہ پوش��یدہ ط��ور پ��ر ک�

ی� کو ہ� ہو۔ جائے ۔ اس کا علم صرف خدا تعالآادمیوں کے سامنے دکھانے کے لئے نہ ک��رو، نہیں ت��و " خبردار اپنے راستبازی کے کام

آاسمان پر ہے تمہارے لئے کچھ اجر نہیں ہے۔ تمہارے باپ کے پاس جو آاگے نرسنگا نہ بج��وا جیس��ا ریاک��ار عبادتخ��انوں اور " پس جب تو خیرات کرے تو اپنے کوچوں میں کرتے ہیں تاکہ لوگ ان ک� بڑائ� کریں۔میں تم س��ے س��چ کہت��ا ہ��وں کہ وہ اپن��ا اج��ر پاچکے۔بلکہ جب تو خیرات کرے تو جو تیرا دہناہاتھ کرت�ا ہے اس�ے ت�یرا بای�اں ہ�اتھ نہ ج�انے ت�اکہ تیری خیرات پوشیدہ رہے۔اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگ� میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے

(۔۴ تا ۱آایت ۶)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع گا"

�ہ راس�ت کلام ہوت�ا ہے۔ اس ک�ا ی� کے س�اتھ ب�را دعا۔ ایک فرد یا جماعت کا خدا تعالی� المس��یح نے تلقین مقصد عوام پر اپن� دینداری جتانا ہرگز نہیں ہے۔ چنانچہ سیدنا حض��ور عیس��

فرمائ� : " جب تم دعا کرو تو ریاکاروں ک� مانند نہ بنو کیونکہ وہ عبادت خ��انوں میں ب��ازار وں کے موڑوں پر کھڑے ہوکر دعا کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کو دیکھیں ۔ میں تم س��ے س��چ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پاچکے ۔ بلکہ جب تو دعا کرے تو اپ�ن� ک�وٹھڑی میں ج�ا اور دروازہ بن�د کرکے اپنے باپ سے جو پوشیدگ� میں ہے دعا کر۔ اس صورت میں تیرا ب��اپ ج��و پوش��یدگ� میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔ اور دعا کرتے وقت غیر قوم��وں کے لوگ��وں ک� ط��رح ب��ک ب��ک نہ

کرو کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم�ارے بہت بول��نے کے س��بب س�ے ہم�اری س��ن� ج�ائے گ�۔ پس ان ک� مانند نہ بنو کیونکہ تمہ�ارا ب�اپ تمہ�ارے م�انگنے س�ے پہلے ہ� جانت��ا ہے کہ تم کن

آایت ۶)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع کن چیزوں کے محتاج ہو۔" (۔۸ تا ۵

آاواز نہیں اٹھ��ا رہے ی� المس��یح اجتم��اع� دع��ا ونم��از کے خلاف یہاں سیدنا حضور عیس�� ہیں جو عب�ادت گ�اہوں میں ک� ج�ات� ہے بلکہ اس ریاک�ار انہ دع�ا ونم�از کے خلاف ج�و محضآاپ نے ایس��� طوی�� دع��اؤں س��ے خ��بردار کی��اجو حاضرین کو متاثر کرنے کے ل��ئے ک� ج��ات� ہے۔ آاپ نے محض رسم� طور پر ک� جات� ہیں۔ یہ سکھانے کے لئے کہ دع��ا کیس��� ہ��ون� چ��اہیے

ذی ک� نہایت سادہ لیکن پر معن� دعا کا نمونہ دیا۔آاس��مان پ��ر ہے ت��یرا ن��ام پ�اک مان�ا "تم اس طرح دعا کیا کرو کہ اے ہمارے باپ تو ج�و آاسمان پر پوری ہوت� ہے زمین پر بھ� ہو۔ ہم��اری آائے ۔ تیری مرض� جیس� جائے ۔ تیری بادشاہ� آاج ہمیں دے۔ اور جس ط���رح ہم نے اپ���نے قرض���داروں ک���و مع���اف کی���اہے ت���و بھ� روز ک� روٹ� آازمائش میں نہ لا بلکہ برائ� سے بچ��ا کی��ونکہ بادش��اہ� اور ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔ اور ہمیں آادمی��وں کے قص��ور مع��اف ک��روگے آامین( اس لئے کہ اگر تم قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہ� ہیں۔ آادمی��وں کےقص��ور مع��اف نہ آاس��مان� ب��اپ بھ� تم ک��و مع��اف ک��رے گ��ا۔ اور اگ��ر تم ت��و تمہ��ارا

)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��ت�کروگے تو تمہارا باپ بھ� تمہارے قصور معاف نہ کرے گ��ا ۔"

آایت ۶رکوع (۔۱۵ تا ۹

dوا�ا ج�اؤں ک�ی� دع ی� المسیح نے یہ دکھانے کے ل�ئے کہ خ�دا تع�ال سیدنا حضور عیسدینے کے لئے ہروقت مستعدد رہتا ہے مندرجہ ذی تمثی بیان فرمائ� ۔

آادھ� رات ک��و اس کے پ��اس " تم میں س��ے ک��ون ہے جس ک��ا ای��ک دوس��ت ہ��و اور وہ ج��اکر اس س��ے کہے اےد وس��ت مجھے تین روٹی��اں دے ۔ کی��ونکہ م��یرا ای��ک دوس��ت س��فرdوا��ے ج��در س��آاگے رکھوں وہ ان آایا ہے اور میرے پاس کچھ نہیں کہ اس کے کرکے میرے پاس میں کہے مجھے تکلی��ف نہ دے ۔ اd دروازه بن��د ہے اور م��یرے ل��ڑکے م��یرے پ��اس بچھ��ونے پ��ر ہیں۔ میں اٹھ کر تجھے دے نہیں سکتا۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر چہ وہ اس سبب سے کہ

اس ک��ا دوس��ت ہے اٹھ ک��ر اس��ے نہ دے ت��و بھ� اس ک� بے حی��ائ� کے س��بب س��ے اٹھ ک��ر جت��ن� درک��ار ہیں اس��ے دے گ��ا۔پس میں تم س��ے کہت��اہوں ۔ م��انگو ت��و تم ک��و دی��ا ج��ائے گ��ا۔ ڈھونڈو ت�و پ�اؤگے ۔دروازہ کھٹکھٹ�اؤ ت�و تمہ�ارے واس�طے کھ��ولا ج�ائے گ�ا۔ کی�ونکہ ج�و ک�وئ� مانگتا ہے اسے ملتاہے اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتاہے اورجو کھٹکھٹاتاہے اس کے واسطے کھ��ولا ج��ائے گ��ا۔ تم میں س��ے ایس��ا کونس��ا ب��اپ ہے کہ جب اس ک��ا بیٹ��ا روٹ� م��انگے ت��و اس��ے پتھ��ر دے ؟ ی��ا مچھل� م��انگے ت��و مچھل� کے ب��دلے اس��ے س��انپ دے ؟ ی��ا ان��ڈا م��انگے ت��و اس ک��وآاس�مان� ب�اپ ارے ہوکر اپنے بچوں کو اچھ� چ��یزيں دین�ا ج�انتے ہ��و ت�و بچھودے ؟ پس جب تم ب

ت��ا۵آایت ۱۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رک��وع اپنے مانگنے والوں کو روح القدس کیوں نہ دے گا؟

(۔۱۳

ی� کے تین نہ��ایت پیش بہ��ا وع��دے ج��و اس نے ہ��ر انس��ان س��ے ک��ئے ہیں وہ خ��دا تع��الی� المسیح کے ان اقوال سے عیاں ہیں: سیدنا حضور عیس

" مانگو تو تمہیں دیا جائے گاڈھونڈو تو پاؤ گے

کھٹکھٹا ؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔"ی� المسیح کے ان ارشادات سے مراد یہ ہےکہ جو بھ� ص��دق دل� سیدنا حضور عیسی� سے فری�اد ک�رے کہ " مجھے اپن��ا دی�دار بخش " اس ک� دع��ا ض�رور س�ن� ج�ائے � سے خداتعالی� ک��ا ک��وئ� بھ� گ� ، خواہ وہ کس� بھ� قوم یا مذہب س��ے کی��وں نہ تعل��ق رکھت��ا ہ��و۔ ب��اری تع��ال حقیق� متلاشت� ناکام نہیں رہ سکتا۔ جب ایک دنیاوی ب��اپ اپ��نے بی��ٹے ک� درخواس��ت کوپ��وراآاس��مان� ب��اپ اپ��نے م��انگنے وال��وں ک��و روح الق��دس کرنے ک� ہر ممکن کوشش کرے گا تو کام

جیس� افض نعمت کیوں نہ عطا کرے گا؟ی� المسیح دعا کے بارے میں یہ اور دیگر بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ سیدنا حضور عیسی� کا حقیق� متلاش� اس س��ے اس ط��رح ب��ات ک��رے جس ط��رح یہ امید رکھتے تھے کہ خدا تعالی� ہر انسان کے دل� خیالات کو جانتا ہے اور دنیا ایک بچہ اپنے باپ سےبات کرتا ہے۔ خدا تعال

ک� تمام زبانیں سمجھتا ہے۔ پس ہم علماء ک� بن��اوٹ� زب��ان ک� بج��ائے اس س��ے اپ��ن� م��ادری زب��ان میں دع��ا ک��ریں کی��ونکہ ہم اپ��ن� م��ادری زب��ان میں ہ� اپ��نے خی��الات ک��و بہ��تر ط��ورپر بی��ان کرس���کتے ہیں۔ بعض حض���رات ایس���� زب���انوں میں دع���ا ک���رتے ہیں جنہیں وہ خ���ود بھ� نہیں

سمجھتے ، لیکن اس طرح سے بچے تو اپنے ماں باپ سے بات کبھ� نہیں کرتے۔

ایک ایسا عم ہے جس کے ذریعے جسم ک� احتیاجوں پر ضبط کی�ا جات�ا ہےروزہ۔

تاکہ روحان� اقدار کو غلبہ ہو۔ روزہ بھ� اپن� پرہیزگاری جتانے کے ل��ئے نہیں بلکہ پوش��یدگ� میںآاپ نے فرمایا: رکھائے جائے ۔ چنانچہ

" جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں ک� طرح اپن� ص��ورت اداس نہ بن��اؤ کی��ونکہ وہ اپن��ا منہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ ان کوروزه دار جانیں ۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پ��اچکے ۔آادم� نہیں بلکہ ت��یرا ب��اپ ج��و بلکہ جب توروزہ رکھے تو اپنے سر میں تی ڈال اور منہ دھو ت��اکہ پوشیدگ� میں ہے تجھے روزہ دار جانے ۔ اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگ� میں دیکھتا ہے

آایت ۶)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع تجھے بدلہ دے گا۔" (۔۱۸تا ۱۶

آادم� م کربیٹھے وہا ں جلد ہ�نکتہ چینی ۔ ایک عام کمزوری ہے ۔ جہاں دو

� گ��رام� ی� المس��یح کاارش��اد نکتہ چی��ن� ش��روع ہوج��ات� ہے۔اس ض��من میں س��یدنا حض��ور عیس��ملاحظہ ہو:

آانکھ کے ش�ہتیر پ��ر آانکھ کےتنکے کودیکھتا ہے اوراپ��ن� " توکیوں اپنے بھائ� ک� آانکھ میں شہتیر ہے تو تو اپنے بھائ� سے کیونکر کہہ سکتا غور نہیں کرتا ؟ اور جب تیری ہ� آانکھ میں س�ے ت�و ش�ہتیر آانکھ میں سے تنک�ا نک�ال دوں؟ اے ریاک�ار پہلے اپ�ن� ہے کہ لاتیری آانکھ میں س��ے تنکے ک��و اچھ� ط��رح دیکھ ک��ر نک��ال س��کے گ��ا۔" نک��ال، پھ��ر اپ��نے بھ��ائ� ک�

آایت ۷) انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع (۔۵ تا ۳

اس مشہور زماں پہاڑی وعظ میں ظاہری دینداری ک� مذمت اور فرم��انبرداری ک� عمل� زندگ� پر زور ہے۔ ان قائدین دین کے بارے میں خبرد ار کیا گی��ا ہے جن کے ک��ردار پ��ر یہ مث��

ی� آات� ہے کہ ہاتھ� کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ جب ہ� سیدنا حضور عیس صادق المسیح نے فرمایا:

آاتے ہیں مگ��ر " جھ��وٹے ن��بیوں س��ےخبردار ہ��و ج��و تمہ��ارے پ��اس بھ��یڑوں کے بھیس میں باطن میں پھاڑنے والے بھیڑئیے ۔ ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچ��ان ل��وگے ۔ کی��ا جھ��اڑیوں س��ے انگور یا اونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں؟ اس� طرح ہر ایک اچھ��ا درخت اچھ��ا پھ�� لات�ا ہےاا پھ لاتا ہے۔ اچھا درخت براپھ نہیں لاسکتا ۔ نہ برادرخت اچھا پھ� لاس�کتا ارا درخت بر اور بآاگ میں ڈالا جاتا ہے ۔ پس ان کے پھل��وں س��ے تم ہے۔جو درخت اچھا پھ نہیں لاتا وہ کاٹا اور ان کو پہچان لوگے ۔ جو مجھ س��ے اے خداون��د اے خداون��د کہ��تے ہیں ان میں س��ے ہ��ر ای��کآاسمان� باپ ک� مرض� پر چلت��ا ہے۔ آاسمان ک� بادشاہ� میں داخ نہ ہوگا مگر وہ� جو میرے اس دن بہت��یرے مجھ س��ے کہیں گے اے خداون��د ! اے خداون��د ! کی��ا ہم نے ت��یرے ن��ام س��ے

تیرے نام سے بدروحوں کو نہیں نکالا اور تیرے ن�ام س�ے بہت س�ے معج�زے نبوت نہیں ک� اور نہیں دکھائے ؟ اس وقت میں ان سے صاف کہہ دوں گا کہ میری کبھ� تم سے واقفیت نہ تھ�۔

آایت ۷)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع اے بدکاروں میرے پاس سے چلے جاؤ۔" (۔۲۳تا ۱۵

آادم� آام� اور ای��ک بے وق��وف اس وعظ شریف کے اختتام پر ربنا المسیح ایک عق مند ک� تمثی پیش کرتے ہیں۔

آادم� ک� "پس جو کوئ� میری یہ ب�اتیں س��نتا اور ان پ�ر عم� کرت�ا ہے وہ اس عق�� من��د آان��دھیاں چلیں اور مانند ٹھہرے گا جس نے چٹان پر اپن��ا گھربنای��ا ۔ اورمیہ برس��ا اور پ��ان� چڑھ��ا اور اس گھر پر ٹک��ریں لگیں۔ لیکن وہ نہ گ��را کی��ونکہ اس ک� بنی��اد چٹ��ان پ��ر ڈال� گ��ئ� تھ�۔اور ج��وآادم� ک� مانن�د ٹھہ��رے گ�ا کوئ� میری باتیں سنتا ہے اور ان پر عم نہیں کرتا وہ اس بے وق�وف آان�دھیاں چلیں اور اس گھ�ر ک�و جس نے اپن�ا گھ��ر ریت پ�ر بنای�ا۔ اور مینہ برس�ا اور پ�ان� چڑھ�ا اور

آایت ۷)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع صدمہ پہنچایا اور وہ گرگیا اوربالک برباد ہوگیا" (۔۲۷تا ۲۴

�س مب�ارک ک�ا اختت�ام کی�ا ت�و مجم�ع پ�ر ی� المس�یح نے اپ�نے در جب سیدناحض�و ر عیس�آاپس میں ان گہ��رے ارش��ادات پ��ر خی��ال سکتہ طاری ہوگیا۔ پھر سرگوش��یاں ش��روع ہ��وئیں۔ س��امعین آارائ� کرنے لگے ۔ وہ اس اختیار سے جو ان فرامین عالیہ ک� پشت پر کار فرما تھابڑے متاثر ہ��وئے

۔ � اختیار ک� طرح ان ک��و تعلیم "کیونکہ وہ ان کے فقیہوں ک� طرح نہیں بلکہ صاحب

آایت ۷)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع دیتا تھا۔" (۔۲۹

آاپ کے ہمرکاd ہول�۔ آاپ پہاڑ پر سے نیچے تشریف لائے تو ایک بڑی بھیڑ چنانچہ جب

روم� افسر کے نوکر ک� شفایاب�ی� المسیح کے پہاڑ پر سے نیچے تشریف لاتے ہ� چن��د مع��زز یہ��ودی سیدناحضو ر عیسآائے ۔ یہ افس��ر ان روم� فوجی��وں ایک روم� افسر کے بیمار نوکر ک� ش��فا ک� درخواس��ت لے ک��ر � ع��امہ کے ذمہ دار تھے۔ یہ گلی� کے ص�وبہ کے بادش�اہ کا کپت�ان تھ�ا ک�و کف��ر نح�وم میں امن ہیرودیس انتپ�اس کےم�اتحت تھ�ا۔ایس�امعلوم ہوت�ا ہے کہ وہ بت پرس�ت تھ��ا اور ابھ� علانیہ حقیق�� واح��د ک� پرس��تش نہیں کرت��ا تھ��ا۔ یہ��ودی بزرگ��وں نے اس ک� درخواس��ت سیدناحض��و ر خ��دای

ی� المسیح کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا : عیس )انجی��" وہ ہماری قوم سے محبت رکھتا ہے اورہمارے عباد ت خانہ کو اس�� نے بنوای�ا "

آایت ۷شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع (۔۵

اس روم� افس��ر ک��ا ن��وکر کس��� مہل��ک بیم��اری س��ے م��رنے کے ق��ریب تھ��ا۔ افس��ر ک�آاپ ق��ریب الم�رگ ی� المس�یح پراعتم�اد تھ�ا کہ درخواست سے ظ�اہرہے کہ اس�ے سیدناحض�و ر عیس�آاپ یہ��ودی بزرگ��وں کے ہم��راہ اس کے گھ��ر ک� ط��رف تش��ریف لے ش��فادے س��کتے ہیں۔ جب آاپ کے پ��اس پہنچے اا شہر سے باہر تھا تو اسکے چنددوست یہ پیغام لےک��ر جارہے تھے جو غالب

کہ

" اے خداون��د ! تکلی��ف نہ ک��ر کی��ونکہ میں اس لائ��ق نہیں کہ ت��و م��یر ی چھت کےآانے کے لائ��ق نہ س��مجھا آاپ ک��و بھ� ت��یرے پ��اس آائے ۔ اس��� س��بب س��ے میں نے اپ��نے نیچے بلکہ زبان سے کہہ دے تو میرا خادم شفا پائیگا۔ کیونکہ میں بھ� دوس��رے کے اختی��ار میں ہ��و ںآات��و اور سپاہ� میرے ماتحت ہیں۔ اور جب ایک سے کہتاہوں جا تو وہ جاتا ہے اور دوسرے سے

آاتا ہے اور اپنے نوکر سے کہ یہ کر تو وہ کرتا ہے ۔ آایت ۷)انجی شریف بہ مطابق حض��رت لوق��ا رک��وع وہ ت��ا۶

(۔۸

اس افسر کو احس�اس ہ��ونے لگاتھ��ا کہ اس ک��ا گھ��ر بت پرس�ت� کے ب�اعث ناپ�اک ہے۔ عین ممکن ہے کہ گھر ک� خواتین اd ت�ک بت��وں کے س��امنے بخ��ور جلات� اورس��جدہ بھ� ک��رت�آاپ س��ے ملاق��ات کرےت��اہم آاپ ک��و اس لائ��ق نہیں س��مجھتا تھ��اکہ ہوں! یہ� وجہ ہے کہ وہ اپنے

آاپ ک� ذات پر کام یقین تھا۔ اسے آائے ت�و افسر کے اعتماد کے مطابق ہ� ہوا۔ جب اس کے دوس�ت پیغ��ام پہنچ�ا ک�رواپس ی� المسیح نے اپنے گ��رد جم��ع ش�دہ حاض��رین کے س��امنے نوکر شفا پاچکا تھا۔ سیدناحضو ر عیس

اس واقعہ پر یوں تبصرہ فرمایا:آاک��ر ابرہ��ام اور اض��حاق اور " میں تم س��ے کہت��ا ہ��وں کہ بہت��یرے پ��ورd اورپچھم س��ے

آاس��مان ک� بادش��اہ� ک� ض��یافت میں ش��ریک ہ��وں گے ۔)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابقیعق��وd کے س��اتھ

(۔۱۱آایت ۸حضرت مت� رکوع

ابدی زندگ� کا دروازہ تمام قوموں اور قبلیوں کے لئے کھلا ہے۔ خدا ہر اس شخص ک��وآامدید کہتا ہے ۔ جوایمان سےاس کا طالب ہوجائے ۔ یہ بات تنگ نظر اور متعصب قائ��دین خوش ی� المسیح نے ایک ایس��ے ش��خص دین نے بڑی مشک سے سیکھ� ۔ یہ سبق سیدناحضو ر عیس

کو شفا دینے سے سکھایا جو خدا ک� امت کا فرد ہ� نہ تھا۔

مردہ کا زندہ کیا جانا

ی� المسیح نائن ش�ہر ک�و تش�ریف لے گ�ئے ج�و کف��ر کچھ عرصہ بعد سیدناحضو ر عیسآاپ کےس��اتھ۲۵نحوم سے آاپ کےح�واری ہ� � معم�ول نہ ص��رف می کےفاص�لہ پ�ر تھ�ا۔ حس�ب

آاپ ش��ہر کے نزدی��ک پہنچے ت��و کی��ا دیکھ��اکہ تھے بلکہ ع��وام ک��ا ای��ک مجم��ع بھ� تھ��ا۔جب پھاٹک سے لوگ جنازے کو اٹھائے قبرستان ک� طرف لےجارہے ہیں۔

ایک بیوہ کا واحد سہارا اور اکلوتا بیٹا ف��وت ہوگی��ا تھ��ا ۔ غم زدہ م�اں ک� مس�تقب ک� تمام امی��دیں اس��� س��ے وابس��طہ تھیں۔ اس س�ے پیش�تر اس��ے اپ��نے خاون��د ک� ج�دائ� ک��ا ص�دمہ

برداشت کرنا پڑا تھا۔آاخ��ری حکم ک��ا درجہ رکھ��ت� ہے۔ ام��یر اور غ��ریب ، ع��الم اور م��وت، انس��ان کے ل��ئے جاہ، مرد اور عورت ہر ایک کو اس� راستے سے گزرنا ہے ۔ اکثر لوگ موت سے نہ��ایت خ��وف زدہ رہتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اس ام��ر کے ب��ارے میں ک��وئ� تس��ل� نہیں ہے کہ اگلے جہ��ان میںآای�ا � جہان کو اس پر بہت ت��ریس ان کا کیا حشر ہوگا۔ اس بیوہ کے شدید غم کو دیکھ کر منج�

� برحق ک� تھ�۔ آاواز ہادی آاواز سن�۔" مت رو" ۔ یہ آامیز ۔ اچانک اس نے ایک تسل� گذش��تہ چن��د گھنٹ��وں س��ے کت��نے ہ� ل��وگ اس��ے اس کے بی��ٹے ک� م��وت اور اس ک�آاواز میں واحد امی��د کے وٹ��وٹ ج��انے پ��ر تس�ل� دی��نے ک� ناک��ام کوش��ش ک��ررہے تھے۔ لیکن اس آانکھوں کے س��امنے ای��ک ح��یرت انگ��یز واقعہ ایک عجیب اثر اور اختیار تھا۔ اd سوگواروں ک� آاگے ب��ڑھ ک��ر جن��ازہ ک��و چھ��وا۔ جن��ازہ ب��ردار خ��اموش ی� المس��یح نے رونما ہوا۔ سیدناحضو ر عیسآاواز گ�ونج�" اے ج��وان!میں تجھ آاپ ک� کھڑے ہوگئے ۔ مجمع پر س��کتہ س��ا چھای��ا ہ��وا تھ��ا ت��و سے کہتا ہوں اٹھ ،" اس ہست� کے جواd میں جس نے اپنے پر ایمان لانے والوں کے ساتھ ابدیآاپ نے اس��ے اس ک� م��ا ں ک��و زن��دگ� ک��ا وع��دہ کی��ا ہے ،م��ردہ اٹھ بیٹھ��ا اور بول��نے لگ��ا۔ اس پ��ر

سونپ دیا۔ی� ک� تمجید کرنے لگے کہ یہ دیکھ کر مجمع پر دہشت چھاگئ� اور وہ خدا تعال

)انجی�� ش��ریف بہ" ایک بڑا نب� ہم میں برپا ہوا ہےاور خدا نے اپن� امت پر توجہ ک� ہے۔"

آایت ۷مطابق حضرت لوقا رکوع (۔۱۶

ی� نب� کا قید خانہ سے پیغام یحیآاپ ک� عجیب وغریب کرامات ی� المسیح کے ارشادات سن کر اور سیدناحضو ر عیس دیکھ کر حضرت یوحناا صطباغ� کے شاگردوں نے قید خانے میں اپ�نے اس�تاد ک�و اطلاع دی۔

آاپ کے پاس بھیجا۔ پس حضرت یوحنا نے اپنے شاگردوں کو یہ پیغام دیکر آانے والا ت��و ہ� ہے ی��ا ہم دوس��رے ک� راہ دیکھیں ۔")انجی�� ش��ریف ، بہ مط��ابق حض��رت لوق��ا"

آایت ۷رکوع (۔۲۰

کچھ علم��ا ء ک� رائے ہے کہ حض��رت یوحن��ا ک��ا ایم��ان قی��دو بن��د ک� مص��یبت کے باعث کمزور پڑگیا تھا اس لئے انہیں تسل� اور حوصلہ اف��زائ� ک� ض��رورت تھ�۔ اوروں ک��ا خی��الی� المسیح کے جواd کے وسیلہ سے اپ��نے ش��اگردوں ک� ہمت بڑھان��ا ہے کہ وہ سیدناحضو ر عیس

�م مقدس میں یوں مرقوم ہے۔ چاہتے تھے۔ بہر حال کلااری روح�وں س�ے نج�ات بخش�� آافت�وں اور ب� " اس� گھ�ڑی اس نے بہت�وں ک�و بیم�اریوں اور

اوربہت سے اندھوں کو بینائ� عطا ک� ۔ " اس نے ج��واd میں ان س��ے کہ��ا ج��و کچھ تم نے دیکھ��ا اور س��نا ہے ج��اکر یوحن��ا سےبیان کردو کہ اندھے دیکھتے ہیں۔ لنگڑے چلتے پھرتے ہیں ۔ کوڑھ� پاک صاف ک��ئے ج��اتے ہیں ۔ بہرے سنتے ہیں ۔ مردے زندہ ک��ئے ج��اتے ہیں ۔ غریب��وں ک��و خوش�خبری س��نائ� ج�ات� ہے

آایت۷)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت لوق��ا رک��وع اورمبارک ہے وہ جو میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے ۔"

(۔۲۳تا ۲۱

ی� المسیح حاضرین سے حضرت یوحنا کے جب قاصد چلے گئے تو سیدناحضو ر عیسبارے میں یوں مخاطب ہوئے :

" تم بیابان میں کیا دیکھنے گئے تھے ؟ کیا ہوا سے ہل�تے ہ��وئے س�رکنڈے ک�و؟ ت�و پھ��ر کیا دیکھنے گئے تھے ؟ کیا مہین کپڑے پہنے ہوئے شخص کو ؟ دیکھو ج��و چمک��دار پوش��اک پہنتے اورعیش وعشرت میں رہتے ہیں وہ بادشاہ� محلوں میں ہ��وتے ہیں۔ ت��و پھ��ر تم کی��ا دیکھ��نے

گئے تھے؟ کیا ایک نب� ؟ ہ��اں میں تم س��ے کہت��ا ہ��وں بلکہ ن��ب� س��ے ب��ڑے ک��و۔ یہ وہ� ہے جسک� بابت لکھا ہےکہ

آاگے بھیجتا ہوں " دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آاگے تیار کرے گا۔ جو تیری راہ تیرے

میں تم سے کہتا ہوں کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ان میں یوحنا بپتسمہ دینے والے س�ے کوئ� بڑا نہیں۔ لیکن جو خدا ک� بادشاہ� میں چھوٹا ہے وہ اس سے بڑا ہے۔اور سب عام لوگ��وں نے جب سنا تو انہوں نے اورمحصول لینے والوں نے بھ� یوحنا کا بپتسمہ لے ک�ر خ�دا ک��و راس��تباز مان لیا۔ مگر فریسیوں اور شرع کے عالموں نےا س سے بپتسمہ نہ لے کر خدا کے ارادہ ک��و اپ��ن�آادمی��وں ک��و میں کس س��ے تش��بیہ دوں اور وہ کس ک� نس��بت باط�� کردی��ا۔ پس اس زم��انہ کے مانند ہیں؟ ان لڑکوں ک� مانند ہیں جو بازار میں بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کو پکار کر کہتے ہیں کہ ہم نے تمہارے لئے بانسل� بجائ� اور تم نہ ناچے ، ہم نے ماتم کیا اور تم نہ روئے ۔ کیونکہآایا نہ مے پیتا ہ��وا اور تم کہ��تے ہ��و کہ اس میں ب��دروح یوحنا بپتسمہ دینے والا نہ تو روٹ� کھاتا ہوا آادم� ، محص�ول لی��نے آای�ا اور تم کہ�تے ہ�و کہ دیکھ�و کھ�اؤ اور ش�راب� آادم کھات�ا پیت�ا ہے۔ ابن )والوں اور گنہگاروں کا یار۔لیکن حکمت اپنے سب لڑکوں ک� طرف سےراست ثابت ہوئ� ۔"

آایت ۷انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع (۔۳۵تا ۲۴

شمعون فریس� کے گھر ضیافتی� المس�یح ک� ایک نزدیک� قصبہ میں شمعون نام� ایک شخص نے سیدناحضو ر عیسآاپ کو شک وشبہ ک� نظر سے دیکھنے لگے تھے، تاہم ضیافت ک� ۔ یہ فریس� تھا۔ گو فریس� یروشلیم سے دور کے علاقوں میں ایسے لوگ پائے جاتے تھے جو اتنے مشہور ومعروف استاد ک��وی� المس�یح ش��معون کے اپنے گھر مدعو کرنا اپنافرض س��مجھتے تھے۔ چن��انچہ سیدناحض�و ر عیس�� گھر تشریف لے جاکر دستور کے مطابق مہمان خصوص� ک� نشست پر بیٹھ گئے۔ جل��د ہ�

آاپ شمعون فریس� کے گھر مدعو ہیں۔ خبر پھی گئ� کہ

اس� قصبہ میں ایک بد چلن عورت رہ��ت� تھ�۔ اd وہ چن��د ٹک�وں ک� خ�اطر عص��مت�ھن کرنے لگ� تھ� اور بڑی دل برداش��تہ ہ��وچک� تھ�۔ اس��ے م��ردوں ک� خودغرض��� فروش� سے گ اور ظلم دیکھ دیکھ کر ان سے نفرت ہوگئ� تھ�۔ اd اسے اپ�نے ناپ�اک ماض�� س�ے پ�اک ہ��و

آارزو تھ�۔ کر خدا ک� پسندیدہ اور نیک زندگ� بسر کرنے کے شدید ی� المسیح ک� ش��ہرت چہ��ار اط��راف میں پھی�� چک� تھ�۔ گھ��روں سیدناحضو ر عیسآاپ ک� غریب�وں اور س�ماج س�ے خ�ارج ش�دہ لوگ��وں آاپ کا ہ� چرچ�ا ہوت��ا تھ��ا۔اور اور بازاروں میں آاپ ہر کس وناکس س��ے خن��دہ کے لئے فکر مندی خاص طور پر موضوع سخن بن چک� تھ�۔ آاپ ک��ا پیشان� سے ملتے تھے۔ اس عورت کے دل میں بھ� یہ� تمنا تھ� کہ " ش��اید مجھے دامن چھونے سےپاکیزگ� اور ن�ئ� زن�دگ� بس�ر ک�رنے کے ل�ئے ق��وت م� ج�ائے " چن�انچہ وہ ایک قیمت� عطر دان لے کر بھیڑ کو چرت� ہوئ� اس صحن میں پہنچ گئ� جہاں مہمان کھانای� المس�یح کے پیچھے ج�اکر کھ��ڑی ہوگ�ئ�۔ اس کھارہے تھے۔ وہ چپکے سے سیدناحضو ر عیس� زمانہ میں یہودی اپنے پاؤں پیچھے ک� طرف کرکے چ��وک� پ��ر بیٹھ��تے اور ب��ائیں کہ��ن� ک� ٹی��ک لگا کر نیم دراز ہوکر کھانا کھاتے تھے۔ اسے وہاں دیکھ کر حاض��رین ح��یران ہ��ورہے ہ��ونگے کہآاپ ب��د میزب��ان نے اس��ے وہ��اں س��ے کی��وں نہ نک��ال دی��ا۔ لیکن اس��ے پہلے ہ� س��ے معل��وم ہوگ��اکہ

اخلاقوں سے ملتے جلتے کھاتے پیتے تھے۔ی� ک��و اس ع��ورت آاپ نے خدا تع��ال آاپ ک� ان تین تمثیلوں کو سنا ہوگا جن میں شمعون نے شاید کے سے گنہگاروں کے لئے گہری محبت کا اظہار کیا تھا۔ بعض علماء ک� رائے ہے کہ ش��اید میزبان شمعون کا اس عورت سے پہلے سے ناجائز تعلق تھ�ا۔ چن�انچہ وہ اس�ے وہ�اں س�ے نک�النے سے جھگ�ڑا کھ�ڑا ک�رکے اپ�ن� بے ع�زت� نہیں کروان�ا چاہت�ا تھ�ا۔ ع�ورت ک�و اپ�ن� خطاک�اری ک�ا احساس بڑی ش��دت س��ے ہورہ��ا تھ��ا۔ جب اس نے عط��ر دان کھ��ولا ت��و وہ چپکے چپکے رو رہ�ی� المس��یح کے پ��اؤں پ��ر گ��رنے لگے۔ اس نے جھ��ک ک��ر آانسو سیدناحضو ر عیس تھ� اور اس کے

آاپ کے پاؤں کو چوما اور ان پر عطر ڈالا۔ اس واقعہ نے المسیح اور عورت کے متعلق میزبان کےدل میں طرح طرح کے شکوک پیدا کردئے۔ اس نے سوچا۔

" اگر یہ شخص نب� ہوتا تو جانتا کہ جو اسے چھوت� ہے وہ ک��ون ہے اور کیس�� ع�ورتہے۔ کیونکہ بد چلن ہے۔"

آاپ نے شمعون کو اس کشمکش میں مبتلا دیکھ کر فرمایا : چنانچہ "اے شمعون ، مجھے تجھ سے کچھ کہنا ہے۔

اس نے کہا اے استاد کہہ کس� ساہوکار کےدو قرضدار تھے۔ ایک پانچ سو دینار کا دوسرا پچ��اس ک��ا ۔ جب ان کے پاس ادا ک�رنے ک�و کچھ نہ رہ�ا ت�و اس نے دون�وں ک�و بخش دی�ا۔ پس ان میں س�ے ک�ون اس

سے زیادہ محبت رکھے گا؟شمعون نے جواd میں کہا میر ی دانست میں وہ جسے اس نے زیادہ بخشا۔

اس نے اس سے کہا تونے ٹھی�ک فیص�لہ کی�ا۔ اور اس ع�ورت ک� ط�رف پھرک�ر اس نےآای��ا ت�ونے م�یرے پ�اؤں شمعون سے کہا کیا تو اس عورت ک�و دیکھت��ا ہے؟ میں ت�یرے گھ��رے میں آانس��وؤں س��ے بھگودی��ئے ۔ اور اپ��نے ب��الوں س��ے دھ��ونے ک��و پ��ان� نہ دی��ا مگ��ر اس نے م��یرے پ��اؤں آای�ا ہ��وں م�یرے پ�اؤں چومن��ا نہ چھ��وڑا۔ پونچھے۔ تونے مجھ کو بوسہ نہ دیا مگر اس نے جب س�ے تونے میرے س�ر میں تی�� نہ ڈالا مگ�ر اس نے م�یرے پ�اؤں پ�ر عط�ر ڈالا ہے۔ اس�� ل�ئے میں تجھ سے کہتا ہوں کہ اس کے گناہ جوبہت تھے معاف ہوئے کی��ونکہ اس نے بہت محبت ک� ۔ مگ��ر جس کے تھ��وڑے گن�اہ مع�اف ہ�وئے۔ وہ تھ�وڑی محبت کرت�ا ہے۔ اور اس ع��ورت س�ے کہ��ا ت�یرے گن��اہ مع�اف ہ��وئے ۔ اس پ�روہ ج�و اس کے س�اتھ کھان�ا کھ��انے بیٹھے تھے اپ�نے ج� میں کہ��نے لگے کہ یہ کون ہے جو گناہ بھ� معاف کرتا ہے؟ مگر اس نے عورت س��ے کہ��ا ت��یرے ایم��ان نے

(۔۵۰ تا ۴۹آایت ۷)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع تجھے بچالیا ہے۔ سلامت چل� جا "

ی� المس�یح اپ�نے حواری��وں کے س��اتھ اس� واقعہ کے تھوڑے عرصہ بعد سیدناحضو ر عیسی� ک� بادش�اہ� ک� خوش�خبری س�نانے مختلف شہروں اور گ�اؤں میں تش�ریف لے ج��اکر خ��دا تع�ال

آاپ نے اس عورت کو بتایا تھاکہ لگے ۔ اس خوشخبری کا ایک نہایت روشن پہلو وہ تھا جو " تیرے گناہ معاف ہوئے ۔"

آاگ��اہ ہیں کہ وہ غف��ور ی� ک� ان صفات برکات سے بے شک بیشتر حضرات خدا تعال ورحیم ہے۔ لیکن اس کے ب��اوجود بھ� وہ اپ��ن� زن��دگ� اس ک� ع��دالت س��ے ڈرتے ہ��وئے بس��ر کرتے ہیں اور انہیں اپن� مغفرت ک� تسل� نہیں ہوت�۔ اکثر معاف� ک� محض امید پ��ر ہ� زن��دگ�

بسر کرتے ہیں۔� گن�اہ ک� یہ عجیب وغ�ریب خوش�خبری ص�وبہ ی� المسیح نے مغف��رت سیدناحضو ر عیسی� � الہ آاپ نےع��وام الن��اس ک�و ذات گلی کے ہر شہر اور گاؤں میں تشریف لے جاکر پہنچ��ادی ۔ آاگ��اہ آاخ��رت میں اس ک� بادش��اہ� کے یقی��ن� قی��ام س��ے � کے بارے میں روشنا س کرایا۔ نیز یوم کردیا جس وقت بے انصاف� اور غریبوں کے استحصال ک��ا قل��ع قم��ع ہوگ��ا اور راس��ت� ، محبت ،

خوش� اور اطمینان خدا کے تمام سچے طالبوں ک� میراث ہوگ�۔

ی� المسیح سفر اور شفا جاری رکھتے ہیں سیدناحضو ر عیسآاپ کے خ��اص ی� المس��یح کےس��اتھ صوبہ گلی کے اس س��فر میں سیدناحض��و ر عیس�� حواریوں اور عام معتقدوں ک� ایک بڑی جماعت کے علاوہ چند خدا ترس ع�ورتیں بھ� تھیں ج�وآاس��ائش ک��ا انتظ��ام ک��رت� تھیں۔ ان خ��واتین میں ہ��یرودیس بادش��اہ آارام و ان کے کھ��انے پی��نے اور کےدیوان خوزہ ک� بیوی بزرگ ی��وانہ بھ� تھیں۔دو اور خ�واتین ک��ا بھ� ذک�ر ہ��و ا ہے۔ ان میں س��ےآاپ نے س��ات ایک کا نام سوسناہ اور دوسری کا نام مریم مگ�دلین� تھ��ا۔ م��ریم مگ��دلین� میں س��ے ی� بدوروحیں نکال� تھیں۔ بعد ازاں مریم مگدلین� پہل� خاتون تھیں جنہیں سیدناحضو ر عیس�� المسیح کو مردوں میں سے ج� اٹھنے کے بع��د س�ب س�ےپہلے دیکھ�نے کاش��رف حاص�� ہ��وا۔ یہآاپ کے حواری��وں ک� احتی��اجیں رف�ع آاپ ک� اور خواتین بڑی عقیدت سے اپنے مال اوسباd سے

کیا کرت� تھیں ۔ یہ جماعت کفرنحوم ک�و م�ر ک�ز بن��ا ک�ر گلی�� ک� جھی� کے ن��واح� علاق��وںاا تیس می کے قطر میں بشارت� خدمت سر انجام دیت� تھ�۔ میں تقریب

آائے ، جن س��ے دکھ� آارہے تھے ت��و انہیں دو واقع��ات پیش جب وہ واپس کف��ر نح��وم آاوری ک� خ��بر آاپ ک� تش��ریف انسانوں س��ے رحمت الع��المین ک� محبت اور رحم عی��اں ہے ۔ آاپہنچے کہ"اے بن داؤد !ہم پ��ر سن کر دو اندھے بھ� لاٹھ� ٹیکتے ٹیکتے یہ چلاتے ہوئے وہ��اں آاپ ک�ا عارض��� مرک��ز تھ��ا ت��و وہ آاپ اس گھ��ر میں داخ�� ہوئےج��و کف��ر نح��وم میں رحم کر" جب

بھ� وہاں پہنچ گئے۔آاپ نے ان سے فرمایا

"کیا تم کو اعتقاد ہے کہ میں یہ کرسکتا ہوں؟"انہوں نے اس سے کہا ہا ں خداوند ۔

آانکھیں چھوکر کہا " تمہارے اعتقاد کےموافق تمہارے لئے ہو۔ تب اس نے ان ک� آانکھیں کھ گئیں۔" آایت ۹)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع اور ان ک� (۔۳۰تا ۲۸

آاج ک�� آانکھ��وں کاکھلن��ا معج��زے س��ے کم نہیں ۔ ای��ک طوی�� م��دت کے ان��دھے ک� � جراح� ک� مدد سے " موتیا بن�د" میں مبتلا م�ریض بین�ائ� حاص� کرس��کتےہیں اور جدید علم قرنیہ چشم ک� پیوند کاری سےوہ دوب�ارہ پڑھ�نے کے قاب� ہوس��کتے ہیں۔ لیکن اس زم�انہ میں یہی� المس��یح نے انک��و نہ ممکن تھا۔ نام ونمود ک� شہرت س��ے بچ��نے کے ل��ئے سیدناحض��و ر عیس��

سخت� سے منع کیا۔آایت خبردار کوئ� اس بات کو نہ جانے " (۔۳۱)

لیکن انہ���وں نے اس ب���ات ک� مطل���ق پ���روا نہ ک� بلکہ تم���ام علاقہ میں اس���ے مش���تہر می� دور یروش�لیم س�ے۱۰۰کردیا ۔ وہ اس بات ک�و نہیں س�مجھتے تھے کہ ا س ش�ہرت س�ے

آاپ کے ک�ار خ��یر میں رک�اوٹ آادھمکیں گے اور آاپ کو پریشان کرنے کے ل�ئے فریس� اور فقہیہ کا باعث بنیں گے۔

آاپ کے پاس لایا گیا جس ک� زبان ای��ک ب��دروح نے آادم� کو بعد ازاں ایک گونگے آاپ نے اس بدروح کو نک��ال دی��ا اور وہ گونگ��ا بول��نے لگ��ا۔ حاض��رین یہ م��اجرا بند کر رکھ� تھ�۔

دیکھ کر بڑے حیران ہوئے اور کہنے لگے ۔(۔۳۳آایت ۹)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع "اسرائی میں ایسا کبھ� نہیں دیکھا گیا۔"

المسیح کو " بدروحوں کا سردار " کہا گیای� المس��یح کے ارش��ادات وکرام��ات پ��ر ح��رف وہ فقیہ اور فریس� ج��و سیدناحض��و ر عیس��آاپ بعلز بول یعن� ب��دورحوں کے آائے تھے۔انہوں نے اd کہنا شروع کردیاکہ گیری ک� غرض سے

سردار ک� مدد سے بدروحوں کو نکالتے ہیں۔ جب کس� سے اتفاق نہ ہو تو کتن� جلدی اسے شیطان کہہ دیا جات�اہے ۔ سیدناحض��و

ی� المسیح نے اس الزام کا بڑے پر وقار انداز میں جواd دیا۔ ر عیس "ش��یطان ک��و ش��یطان کس ط��رح نک��ال س��کتا ہے؟اور اگ��ر کس��� س��لطنت میں پھ��وٹ پڑجائے تو وہ سلطنت قائم نہیں رہ سکت� ۔اور اگر کس� گھر میں پھوٹ پڑ جائے ت��و وہ گھ��ر قائم نہ رسکے گا۔ اور اگر شیطان اپنا ہ� مخالف ہوکر اپنے میں پھوٹ ڈالے تو وہ ق��ائم نہیں رہآاور کے گھ��ر میں گھس ک�ر آادم� کس��� زور سکتا ۔ بلکہ اس کا خاتمہ ہوجات��ا ہے ۔ لیکن ک��وئ�

آاور کو نہ باندھ لے۔" ) انجی شریفاس کے اسباd کو لوٹ نہیں سکتا جب تک وہ پہلے اس زور

آایت ۳بہ مطابق حضرت مرقس رکوع (۔۲۷ تا ۲۳

آاپ شیطان کو باندھ کر اور اسے روحان� طور پر بے آاپ ک� مراد یہ تھ� کہ اس سے آاپ نے اس پیشن گوئ� کے پورا ہونے کا ذک��ر اس بس کرکے اس کے قیدیوں کو رہا کررہے ہیں۔

آاپ نے پہل� مرتبہ ناصرت کے عبادتخانہ میں وعظ کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ وقت کیا تھا جب "۔)انجی�� ش��ریف" اس نے مجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائ� ۔۔۔پانے ک� خبر س��ناؤں

آایت ۴بہ مطابق حضرت لوقا، رکوع (۔۱۸

ی� کے خ�ادموں ک�و رد کرن�ا ی�ا انہیں ابلیس ک� اولاد کہن�ا ک�وئ� ن�ئ� ب�ات خ�دا تع�الی� ن�ب�( ک� تبلیغ� خ��دمت ک�ا بھ� یہ� حش�ر نہیں تھ�۔ بلکہ حضرت یوحنا اص��طباغ� )یح��ی ہوا تھاکہ بہتیرے انہیں مخبوط الحواس قرار دی�تے تھے ۔ فریس�یوں اور فقیہ�وں ک� مخ�الفت نےآاپ کو متواتر اشتعال انگیز سوالات سے پریشان ک��رنے تو فضا کو اور بھ� مکدرکردیاتھا۔ اd وہ

لگے ۔ بعض نے کہا۔ )انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق" اے اس��تاد ، ہم تجھ س��ے ای��ک نش��ان دیکھن��ا چ��اہتے ہیں ۔"

آایت ۱۲حضرت مت� رکوع (۔۳۸

اس سے پیشتر المسیح نے کئ� محیر العق معجزات دکھ��ائے تھے جوای��ک متلاش��ئ� ح���ق کے ل���ئے ک���اف� تھے۔ لیکن ای���ک ان���دھے کے س���امنے روش���ن� بے مع���ن� چ���یز ہے۔ اس

آاپ نے یہ دیا: dدرخواست کا جواابرے اور زنا کار لوگ نش��ان طلب ک��رتے ہیں۔ مگ��ر یون��اہ ن��ب�) حض��رت " اس زمانہ کے � ان کو نہ دیا جائےگا۔کیونکہ جیسے یوناہ تین رات دن یونس ( کےنشان کے سواکوئ� اور نشانآادم تین رات مچھل� کے پیٹ میں رہ��ا ویس��ے ہ� ابن مچھل� کے پیٹ میں رہا ویسے ہ� ابن آادم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔ نینوہ کے لوگ عدالت کے دن اس زمانہ کے لوگ��وں کے س��اتھ کھ��ڑے ہ��وکر ان مج��رم ٹھہ��رائيں گے کی��ونکہ انہ��وں نے یون��اہ ک� من��ادی پ��ر ت��وبہ ک��رل� اور دیکھ��و یہ��اں وہ ہے جویون��اہ س��ے بھ� ب��ڑا ہے ۔ دکھن ک� ملکہ ع��دالت کے دن اس زم��انہ کے لوگوں کے ساتھ اٹھ کر ان کو مج��رم ٹھہ��رائے گ�۔ کی��ونکہ وہ دنی��ا کے کنارےس��ے س��لیمان ک�

آائ� اور دیکھو یہاں وہ ہے جو سلیمان سے بھ� بڑا ہے ۔" )انجی�� ش��ریف بہ مط��ابقحکمت سننے کو

آایت ۱۲حضرت مت� رکوع (۔۴۲ تا ۳۹

حض��رت یون��اه )ی��ونس( ک� کہ��ان� محت��اج بی��ان نہیں۔ انہیں س��مندر ک� ای��ک ب��ڑی مچھل� نے زندہ نگ لیاتھا لیکن تین دن کے بعد اس نے انہیں ساح پر اگ دیا۔ اس کے بعدی� کے حکم کے بم�وجب ت�وبہ ک� تبلی�غ ک� سیدناحض��و ر انہ�وں نے نین�وہ ش�ہر ج�اکر خ�دا تع��الآاپ بھ� تین دن قبر میں رہ��نے کے ی� المسیح کے المسیح ہونے کا ایک بڑا نشان یہ ہوگا کہ عیس

بعد م�وت کے بن�د ت�وڑ ک�ر دوب�ارہ ج� اٹھیں گے ۔ فریس�یوں میں س�ے مش�ک ہ� س�ے ک�وئ� اسجواd کا مطلب سمجھ سکا۔

آاپ کے ارشادات سننے کا اصرار واشتیاق یہاں تک بڑھ گیا کہ ہجوم رفتہ رفتہ عوام کا آاپ آارام وطعام میں مخ ہ��وت� تھ�۔ اd ل��وگ آاپ کے حواریوں کے آاپ اور آامدورفت ک� متواتر ی�( ک� بے لوث کے بارے میں بھ� وہ� باتیں کہنے لگے جو وہ حضرت یوحنا اصطباغ� )یحیآاپ کے رشتہ دار ان باتوں سے خدمت دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ وہ بے خود اوردیوانہ ہے۔ پس

آاپ ک� تلاش میں نکلے۔ پریشان ہوکر آائے اورب��اہر کھ��ڑے ہ��وکر اس��ے بلوابھیجا ۔")انجی��" پھ��ر اس ک� م��اں اور اس کے بھ��ائ�

آایت ۳شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع (۔۳۱

آاپ ص��رف اس��� ک��ام آائے تھے کہ آاپ کو اس بات پر مجبور کرنے کے ل��ئے بلاشبہ وہ آارام میس��ر نہ آاپ کومناس�ب خ�وارک اور آارام بھ� ت��و کی��ا ک��ریں۔ کے نہ ہوکر رہ جائیں۔ بلکہ کچھ

آاپ ک� والدہ ماجدہ تو بہت ہ� فکر مندر ہت� ہوں گ�۔ آانے کے باعث

آاسمان� خاندانآاپ ک� والدہ اطہ��رہ اوربھ��ائ� ب�اہر ی� المسیح کو یہ خبرمل� کہ جب سیدناحضو ر عیس

آاپ نے نہایت معن� خيز جواd دیا۔ آاپ کو بلا رہے ہیں تو کھڑے "کون ہے میری ماں اور میرے بھائ� ؟ اور ان پر جو اس کے گرد بیٹھے تھے نظر ک��رکے

کہا دیکھو میری ماں اورمیرے بھائي یہ ہیں۔ کی���ونکہ ج���و ک���وئ� خ���داک� مرض���� پ���ر چلے وہ� م���یرا بھ���ائ� اور م���یری بہن اورم���اں

آایت ۳)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع ہے۔" (۔۳۵تا ۳۱

ی� آاپ یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ سچ� توبہ ک� تصدیق کے لئے خ��دا تع��ال اس سے آاپ نے ہ��ر ت��ائب گنہگ��ار کے ل��ئے کے مق��ررہ معی��ار کے مط��ابق زن��دگ� بس��ر ک��رن� لازم� ہے۔

ی� کے روحان� خاندان کا فر د بننے کے لئے دروازہ کھول دیا ہے۔ خداتعال

تمثیلوں کے ذریعہ درس اd چونکہ علمائے دین اور ان ک� جماعت المسیح ک� مخالفت بڑھ چ��ڑھ ک��ر ک��رنےآاپ نے درس وتدریس کا ایک نیا طریقہ اختی��ار کی��ا۔ یع��ن� تم��ثیل� ط��ریقہ ۔ لگے تھے ۔ اس لئے سامعین جھی کے کنارے بیٹھے تھے اور المسیح ایک چھوٹ� کش��ت� میں بیٹھے ہ��وئے ان س��ےآاواز سارے مجم�ع ک�و ص�اف س�نائ� دی�ت� تھ� آاپ ک� وعظ فرمارہے تھے۔ اس کھل� فضا میں آاپ نے بار بار خ��دا ک� آاپ ہجوم ک� دھکم پی سے بھ� بچے ہوئے تھے۔ ان تمثیلوں میں اور آاسمان ک� بادشاہ� بھ� کہ��ا۔یہ بادش�اہ� آاپ نے اس بادشاہ� کو بادشاہ� کے بارے میں بتایا۔ زمی��ن� بادش��اہتوں ک� مانن��د نہیں ہے۔ نہ اس ک� جغرافی��ائ� ح��دود میں اور نہ زمین پ��ر اس کےی� المسیح کے مبارک الفاظ متبرک مقامات ہیں۔ اس زمانہ ک� طرح اd بھ� سیدناحضو ر عیسی� ک� اور پر اسرار ارشادات کو تب ہ� سمجھا جاسکتا ہے جب انسان کے دل میں خدا تعال جستجو اور اس ک� اط��اعت گ��ذاری ک��ا ج��ذبہ موج��ود ہ��و۔ پہل� تمثی�� بیج ب��ونے والے اور بیج ک� ہے۔ اس مجمع میں زیادہ تعداد چھوٹے چھوٹے مزارعین ک� تھ�۔ شاید ان کے سامنے ہرے

آائے تھے۔ آاپ کا کلام سننے بھرے کھیت تھے۔ جن میں سے چ کر وہ

ا۔بیج بونے والے ک� تمثیی� المسیح نے فرمایا: سیدناحضو ر عیس

" ایک ب�ونے والا اپن��ابیج ب��ونے نکلا اور ب�وتے وقت کچھ راہ کے کن��ارے گ�را اور رون�دا گیا اور ہواکے پرندوں نے اسے چگ لیا۔ اور کچھ چٹان پر گرا اور اگ کر س��وکھ گی��ا اس ل��ئے کہ اس کو تری نہ پہنچ� ۔ اورکچھ جھاڑیوں میں گرا اورجھاڑیوں نے ساتھ ساتھ ب�ڑھ ک�ر اس�ے دبالی�ا۔ اور کچھ اچھ� زمین میں گرا اور اگ ک��ر س��وگنا پھ�� لای��ا۔ یہ کہہ ک��ر اس نے پک��ارا ۔ جس کے

آایت ۸) انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع سننے کے کان ہوں وہ لے ۔" (۔۸ تا ۵

ی� المسیح نے تمثی کا مطلب یو ں بیان فرمایا: پھر حضور سیدنا عیس

آاک�ر " بیج خدا کا کلام ہے۔ راہ کے کن�ارے کے وہ ہیں جنہ�وں نے س�نا۔ پھ�ر ابلیس کلام کو ان کے دل سے چھین لے جاتا ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ ایمان لاکر نج��ات پ��ائيں۔ اور چٹ��ان پر کے وہ ہیں جوسن کر کلام کو خوش� سے قبول کرلیتے ہیں لیکن جڑ نہیں رکھتے، مگر کچھآازم��ائش کے وقت پھ��ر ج�اتے ہیں ۔ اور ج��و جھ��اڑیوں میں پ��ڑا اس س��ےوہ عرصہ تک ایمان رکھ ک�ر لوگ مراد ہیں جنہ��وں نے س�نا لیکن ہ��وتے ہ��وتے اس زن��دگ� ک� فک�روں اوردولت اورعیش وعش��رت میں پھنس جاتے ہیں اور ان کاپھ پکتا نہیں۔ مگر اچھ� زمین کے وہ ہیں جو کلام کو س��ن ک��ر

)انجی شریف بہ مط�ابق حض�رت لوق�اعمدہ اور نیک دل میں سنبھالے رہتے اور صبر سے پھ لاتے ہیں۔"

آایت ۸رکوع (۔۱۵تا ۱۱

آاپ نے ایک اور تمثی سے خدا ک� بادشاہ� کے بھید کو یوں واضح کیا۔آادم� زمین میں بیج ڈالے ۔ اور رات کو سوئے "خدا ک� بادشاہ� ایس� ہےجیسے کوئ� آاپ پھ�� آاپ س��ے اور دن ک��و ج��اگے اور وہ بیج اس ط��رح اگے اور ب��ڑھے کہ وہ نہ ج��انے ۔ زمین لات� ہے۔پہلے پت� ، پھر بالیں ، پھ�ر ب�الوں میں تی�ار دانے ۔ پھ��ر جب ان�اج پ�ک چک�ا ت�و وہ ف�

آاپہنچا۔ آایت۴)انجی� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م�رقس رک��وع الفور درانت� لگاتا ہے کیونکہ کاٹنے کا وقت

(۔۲۹ تا ۲۶

دل میں سچائ� ک� پہچان کا بڑھن��ا ایس��ے ہ� ہے جیس��ے کہ مناس��ب موس��م میں بیج زمین میں اگتا ہے۔دھوپ اور پان� سے جڑ، کونپ، اور ہری ڈنٹھ ک� صورت میں معجزانہ طور پر زن��دگ�ی� ک� اب�دی زن�دگ� ک�ا بیج بھ� اس�� ط��رح ہ�ر اس دل میں نش�وونما نمودار ہوت� ہے ۔ خداتعال

پاتا ہے جو اس کے اثر کو قبول کرے۔ی� المسیح نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے فرمایا : حضو ر سیدنا عیس

" ہم خدا ک� بادشاہ� کو کس سے تشبیہ دیں اور کس تمثی میں اس��ے بی��ان ک��ریں؟وہ رائ� کے دانے ک� مانند ہے کہ جب زمین میں بویا جاتا ہے تو زمین کے سب بیج�وں س�ے چھوٹ�ا ہوتا ہے ۔ مگر جب بودیا گیا تو اگ کر سب ترکاریوں سےبڑا ہوجاتا ہے اور ایس� بڑی ڈالیاں نکالتا

) انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��رقسہے کہ ہواکے پرندے اس کے س��ایہ میں بس��یرا کرس��کتے ہیں۔"

آایت ۴رکوع (۔۳۲تا ۳۰

ی� کے ی� المسیح ایس��� تم��ثیلوں س��ےنوع انس��ان� کے ل��ئے خ��دا تع��ال حضو ر سیدنا عیسارادہ کا بتدریج انکشاف فرماتے ۔

آاپ نے مزید فرمایا:آادم� ک� مانن��د ہے جس نے اپ��نے کھیت میں اچھ��ا بیج آاس��مان ک� بادش��اہ� اس " آای�ا اور گیہ�وں میں ک�ڑوے دانے بھ� بوگی�ا۔پس بوی�ا۔ مگ�ر لوگ�وں کے س�وتے میں اس ک�ا دش�من آائیں تو وہ کڑوے دانے بھ� دکھائ� دئے۔ گھرکے مالک کے ن��وکروں جب پتیاں نکلیں اور بالیں آاکر اس سے کہا اے خداوند کیا ت�و نے اپ�نے کھیت میں اچھ��ا بیج نہیں بوی��ا تھ��ا ؟ اس نے آاگئے ؟ اس نے ان سے کہا ، یہ کس��� دش��من نے کی��ا ہے۔ ن��وکروں میں کڑوے دانے کہاں سے نے اس سے کہا تو کیا چاہتا ہے کہ ہم جا کر ان کو جمع ک�ریں؟ اس نے کہ��ا نہیں۔ ایس�ا نہ ہ�و کہ کڑوے دانے جمع کرنے میں تم ان کے س��اتھ گیہ��وں بھ� اکھ��اڑلو۔ کٹ��ائ� ت�ک دون��وں ک�و اکٹھ��ا بڑھ��نے دو اور کٹ��ائ� کے وقت میں ک��اٹنے وال��وں س��ے کہہ دونگ��ا کہ پہلے ک��ڑوے دانےجمع کرلو اور جلانے کے لئے ان کے گٹھے باندھ ل��و اور گیہ��وں م��یرے کھ��تے میں جم��ع ک��رو

شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع آایت ۱۳)انجی (۔۳۰ تا ۲۴

ی� المسیح مجمع س��ے خط��اd ک��رچکے اور کف��ر نح��وم واپس جب حضو ر سیدنا عیسآاپ سے درخواست ک� کہ آاپ کے حوارئین نے آائے تو تشریف لے

" کھیت کے کڑوے دانوں ک� تمثی ہمیں سمجھادے ۔" آاپ نے انہیں بڑی تفصی سے اس تمثی کے معان� سمجھائے:

آادم ہے۔ اور کھیت دنی��ا ہے۔ اوراچھ��ا بیج بادش��اہ� کے "اچھے بیج ک��ا ب��ونے والا ابن فرزن��د اورک��ڑوے دانے اس ش��ریر کے فرزن��د ہیں جس دش��من نے ان ک��و بوی��ا وہ ابلیس ہے اور کٹ��ائ�آاگ میں آاخر ہے ۔ اور کاٹنے والےفرشتے ۔ پس جیسے کڑوے دانے جمع ک��ئے ج��اتے اور دنیا کا آادم اپ��نے فرش��توں ک�و بھیجے گ��ا اور وہ آاخ��ر میں ہوگ��ا۔ ابن جلائے جاتے ہیں ویس��ے ہ� دنی��ا کے

سب ٹھوکر کھلانے وال� چیزوں اور بدکاروں کو اس ک� بادشاہ� میں سے جم��ع ک��ریں گے ۔ اورآاگ ک� بھ��ٹ� میں ڈال دیں گے ۔ وہ��اں رون��ا اور دانت ک��ا پیس��ناہوگا۔ اس وقت راس��تباز ان ک��و آافت����اd ک� مانن����د چمکیں گے ۔ جس کے ک���ان ہ����وں وہ س���ن اپ���نے ب���اپ ک� بادش����اہ� میں

آایت ۱۳)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع لے ۔" (۔۴۳ تا ۳۷

صاف ظاہر ہے کہ اس تمثی کا اشارہ کس� خاص قوم ، ق��بیلہ ی��ا جم��اعت ک� ط��رفنہیں ہے بلکہ اس کا اطلاق تمام اقوام عالم پر ہے۔ "کیونکہ کھیت " دنیا ہے۔

ی� کے ہاں کس� ک� رع��ایت نہیں اور نہ وہ کس��� ک��ا طرف��دار ہ� ہے۔ اس ک� حق تعال�ن حق کے ل��ئے کھلے ہیں جواپ��نے گن��اہوں س��ے ت��وبہ ک��رکے بادشاہ� کے دروازے ان تمام متلاشیاآاس��مان� بادش��اہ� کے فرزن��د بن ج��اتے ہیں۔ لیکن � رب��ان� پ��ر ایم��ان لاتے ہیں۔ اس ط��رح وہ کلام�ی برحق اس تمثی میں شیطان کے فرزندوں کو بھ� جوکڑوے دانے کے مشابہ ہیں، زبردست ہاد

انتباہ کرتے ہیں۔آاپ نے بع��د اصل� گیہ��وں ک��و خ��دا ہ� جانت��اہے ۔ فص�� ک� کٹ��ائ� کے ب��ارے میں آاپ نے فص ک� طرف صرف مختصر سا اشارہ میں تفصی سےبیان فرمایا ،مذکورہ مثال میں آاخر میں بن� نوع انس��ان دو گروہ��وں میں ج��دا ج��دا ک��ئے ج��ائیں گے ۔ ای��ک کیا۔ اس جہان کے طرف وہ ہوں گے ۔جو حکم ربان� ک� اطاعت سے انکار کرتے رہے اور دوسری طرف وہ جو اسآاس��مان کے درخش��اں س��تاروں ک� ط��رح چمکیں گے۔ اd حض��ور کے ت��ابع فرم��ان رہے ہیں۔ وہ

ی� المسیح نے دو مزيد تمثیلیں بیان فرمائ� ہیں۔ سیدنا عیس

d۔ جال ک� تمثیآاسمان ک� بادشاہ� اس بڑے جال ک� مانند ہے جو دریا میں ڈالا گیا اور اس نے ہ��ر " قسم ک� مچھلیاں سمیٹ لیں۔ اورجب بھر گیا تو اسے کنارے پ��رکھینچ لائے اور بیٹھ ک��ر اچھ�آاخ�ر میں ایس�ا ہ� اچھ� ت�و برتن�وں میں جم�ع ک�رلیں اور ج�و خ�راd تھیں پھین��ک دیں۔ دنی�ا کے آاگ ک� ہوگ��ا۔فرش��تے نکلیں گے اور ش��ریروں ک��و راس��تبازوں میں س��ے ج��دا ک��ریں گے اور ان ک��و

۱۳)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��ت� رک��وع بھٹ� میں ڈال دیں گے ۔ وہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا ۔"

(۔۵۰تا ۴۷آایت

ج۔ چھپے ہوئے خزانہ ک� تمثیآاپ ک�و پ�ورے ط��ور پ�ر بادش�اہ� کے اپنے حواریوں ک� حوصلہ اف�زائ� کے ل�ئے وہ اپ�نے

ی� المسیح نے ایک اور تمثی بیان فرمائ� ۔ لئے وقف کریں ، حضور سیدنا عیسآادم� نے آاس��مان ک� بادش��اہ� کھیت میں چھ��پے خ��زانہ ک� مانن��د ہے جس��ے کس��� " جاکر چھپادیا اور خوش� کے مارے جاکر جوکچھ اس کا تھا بیچ ڈالا اور اس کھیت کومول لی��ا

آایت ۱۳۔)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع (۔۴۶تا ۴۴

آاپ نے اپنے حواریوں سے دریافت کیا" کیا تم یہ سب باتیں سمجھ گئے ہو؟" پھر انہوں نے جواd دیا " ہاں " ۔

آاپ کے ل��ئے اپ��نے آاپ کا پیچھا کرتے تھے کہ � ملاقات سےعوام اس قدر زیادہ اشتیاقآاپ تخلیہ حواریوں ک� شخص� اور زیادہ گہری ت��ربیت کرن��ا نہ��ایت دش��وار ہوگی��ا تھ��ا۔ چن��انچہ ک� خاطر بھیڑ کو رخصت کرکے اپنے حواری��وں س�میت چھ��وٹ� چھ��وٹ� کش�تیوں میں کس��

خاموش مقام ک� طرف تشریف لے گئے تاکہ ان ک� مزید تربیت کریں۔

طوفان کو تھمانا گلی ک� جھی میں اکثر وبیشتر طوفان اٹھتے رہتے ہیں، خاص ط��ور پ��ر اس وقت جب�ہ حرمون یا گولان ک� پہاڑیوں سے ٹھن��ڈی ہ��وائیں چل��ت� ہیں۔ انجی�� ش��ریف گرم� کے باعث کو

آایا بالتفصی بیان کرت� ہے۔ اان مشتاق تجربہ کار ماہ� گیروں کو پیش اس واقعہ کو جو آائیں کہ کش��ت� پ�ان� س��ے بھ��ری آاندھ� چل� اور لہریں کشت� پ��ر یہ��اں ت�ک " تب بڑی جات� تھ�۔ اور وہ خود پیچھے ک� طرف گدی پر سورہا تھ��ا۔ پس انہ��وں نے اس��ے جگ��ا ک��ر کہ��ا اے اس��تاد کی��ا تجھے فک��ر نہیں کہ ہم ہلا ک ہ��وئے ج��اتے ہیں؟ اس نے اٹھ ک��ر ہ��وا ک��و ڈانٹ��ا اوآاپس رپان� سے کہ��ا چپ رہ ! تھم ج��ا ؟ اd ت��ک ایم��ان نہیں رکھ��تے ؟ اور وہ نہ��ایت ڈرگ��ئے اور

)انجی شریف بہ مطابقمیں کہنے لگے پس یہ کون ہے کہ ہوا اور پان� بھ� اس کا حکم مانتے ہیں؟"

آایت ۴حضرت مرقس رکوع (۔۴۱ تا ۴۷

� تدریس یع��ن� ی� المسیح نے اپنے حواریوں کو اپنے نئے طرز اس� دن حضور سیدنا عیسآاپ ک� معیت میں تھے ۔ اس ل��ئے انہیں تم��ثیلوں س��ے روش��ناس کرای��ا تھ��ا وہ ک��اف� عرص��ہ س��ے ی� ک� طرف سے ایک ایس� قدرت اوراختیار س��ے ن��وازے گ��ئے آاپ خدا تعال معلوم ہوچکا تھا کہ آایا تھا۔فط��رت ک� قوت��وں پ��ر اس اختی��ار ہیں جو ان میں سے کس� کے مشاہدہ میں کبھ� نہیں آائے ہ�وں گے جنہ��وں نے بح��یرہ قل�زم ی� اور حض��رت یش�وع ی�اد کو دیکھ ک��ر انہیں حض�رت موس�� اوردریائے یردن کے پانیوں کو دو حصے میں کردیا تھا۔لہذا وہ ایک دوسرے س��ےپوچھنےلگے "

یہ کون ہے؟" اس� سوال نے انہیں مزی��د دو س��ال ت��ک ش��ش وپنج میں مبتلا رکھ��ا۔ وہ ایم��ان اور بےآاپ درحقیقت موع�ودہ مس�یح اعتقادی ، امید او رنا امیدی کے بھن�ور میں چک�ر کھ�اتے رہے کہ ہیں ی��ا نہیں ! مگرانبی��اء نے اپ��نے زم��انے میں بھ� ب��ڑی ق��درت ک��ا مظ��اہرہ ک��رکے عظیم الش��انی� ک� معجزات دکھائے تھے۔ لیکن اd وہ ان فرس��تادہ انبی��اءک� نس��بت کہیں زي��ادہ ب��اری تع��ال

عظیم قدرت کار فرما دیکھ رہے تھے۔

آاسیب زدہ شخص ک� شفا یاب�جونہ� گراسینیوں کے علاقہ میں جھی کے دوسرے کنارے پر کشت� لگ� تو

آادم� جس میں ناپاک روح تھ� قبروں سے نک ک��ر اس س��ے ملا ۔ وہ " ف� الفور ایک قبروں میں رہا کرتا تھا اور اd کوئ� اسےزنجیروں سے بھ� نہ باندھ سکتا تھا۔ کیونکہ وہ بار ب��ار بیڑیوں اور زنجیروں س�ے بان�دھا گی��ا تھ��ا لیکن اس نے زنج��یروں ک�و ت�وڑا اور ب�یڑیوں ک�و ٹک�ڑے ٹک��ڑے کی��ا تھ��ا اور ک��وئ� اس��ے ق��ابو میں نہ لا س��کتا تھ��ا ۔ او روہ ہمیش��ہ رات دن ق��بروں او ری�( ک�و دور س�ے پہاڑوں میں چلات�ا اور اپ�نے ت�ئیں پتھ��روں س�ے زخم� کرت�ا تھ��ا۔ وہ یس�وع )عیس�ی� ی�( خ��دا تع��ال آاواز سے چلا کر کہ��ا اے یس��وع )عیس�� دیکھ کر دوڑا اور اسے سجدہ کیا۔اور بڑی

کے بی��ٹے ، مجھے تجھ س��ے کی��ا ک��ام ؟ تجھے خ��دا ک� قس��م دیت��ا ہ��وں مجھے ع��ذاd میں نہآا۔پھ��ر اس نے اس آادم� میں س��ے نک�� ڈال ۔ کی��ونکہ وہ اس س��ے کہت��ا تھ��ا اے ناپ��اک روح اس

)انجی��سے پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ اس نے اس سے کہا میرا نام لشکر ہے کیونکہ ہم بہت ہیں ۔"

(۔۹تا ۲آایت ۵شریف بہ مطابق حضرت مرقس، رکوع

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بدروحیں انسان� بدن میں رہنا پسند کرت� ہیں۔ کبھ� کبھ� ایکآائ� ہیں ج���و ب���دروح گ���رفتہ ک� آادم� میں ای���ک س���ے زی���ادہ ب���دروحیں بھ� دیکھ���نے میں ہ� شخصیت پر کنڑول کرت� ہیں ۔ اس شخص میں بدروحوں ک�ا س��مایا ہ��وا لش�کر یہ جانت��ا تھ��ا کہ قریب ہ� دو ہزار سوروں کوغول چررہا ہے۔ ان ناپ�اک ج�انوروں ک� موج�ودگ� یہ ظ��اہر ک�رت� ہے کہ جھی�� اور گ��ولان ک� پہ�اڑیوں کے درمی��ان کے زرخ��يز نش�ین� علاقہ میں بت پرس�ت رہ��ا ک�رتےی� ک� مع��رفت ہ��دایت ک� تھ� کہ بعض ج��انوروں ک��ا گوش��ت ی� نے حضرت موس�� تھے۔ خدا تعال� ع�امہ کھانے سے گريز کی�ا ج�ائے۔اس ک� ای�ک وجہ یہ تھ� کہ ان ج�انوروں ک�ا گوش�ت ص�حت کے ل��ئے نقص��ان دہ ہے۔ اس کے کھ��انے س��ے پیٹ میں ک��یڑے )ٹیپ ورم( پ��ڑنے اور ترخین��ا ک� بیماری کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس زم��انہ میں ک�وئ� بھ� خ��دا پرس��ت اس قس��م کے ج�انوروں ک�و نہیں

پالتا تھا۔ آاپ سے درخواست ک� بدروحوں نے

"ہم کوان سوروں میں بھیج دے تاکہ ہم ان میں داخ ہوں۔ پس اس نے ان ک��و اج��ازت دی۔ او رناپاک روحیں نک� ک��ر س�وروں میں داخ�� ہوگ��ئیں اور وہ غ�ول ج�و ک��وئ� دو ہ��زار ک�ا تھ��ا کڑاڑے پر سے جھپٹ کر جھی میں جا پڑا او رجھی میں ڈوd مرا ۔ اور ان کے چ��رانے وال��وں نے بھاگ کر شہر اور دیہات میں خبر پہنچائ�۔ پس ل��وگ یہ م��اجرا دیکھ��نے ک��و نک�� ک��ر یس��وعآائے۔اور جس میں ب��دروحیں یع��ن� ب��دروحوں ک��ا لش��کر تھ��ا، اس ک��و بیٹھے او ی�( کے پ��اس )عیس�� رکپڑے پہنے اور ہوش میں دیکھ کر ڈرگئے۔اوردیکھنے وال��وں نے اس ک��ا ح��ال جس میں ب��دروحیں تھیں اور سوروں ک��ا م�اجرا ان س�ے بی��ان کی�ا۔ وہ اس ک� منت ک��رنے لگے کہ ہم�اری س�رحد س�ے

(۔۱۷ تا ۱۲آایت ۵۔")انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع چلا جا

یہ ایک اور طرح ک� مخالفت تھ�۔ وہ ایک انسان ک� نسبت ج��و ج��انوروں س��ے بھ� بدتر زندگ� بسرکررہا تھا۔ اپ��نے ج��انوروں ک��و زي��ادہ اہمیت دی��تے تھے۔ جب رحمت ع��المین انآاپ لوگوں کے اس رویہ سے مغموم ہوکر کشت� میں سوار ہونے لگے تو ش��فا ی��افتہ ش��خص نے بھ�

آاپ نے اس ک� اجازت نہ دی ۔ بلکہ فرمایا: کے ساتھ جانے ک� درخواست ک� ۔ لیکن " اپنے لوگوں کے پاس اپ��نے گھ��ر ج��ا اور ان ک��و خ��بر دے کہ خداون��د نے ت��یرے ل��ئے کیسے بڑے کام کئے اور تجھ پررحم کیا ۔ وہ گی��ا اور دکپلس میں اس ب��ات کاچرچ��ا ک��رنے لگ��ای�( نےاس کے ل���ئے کیس���ے ب���ڑے ک���ام ک���ئے اور س���ب ل���وگ تعجب ک���رتے کہ یس���وع )عیس���

آایت ۵) انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع تھے۔" (۔۲۰ تا ۱۹

آاپ کے ی� المس��یح اور آارام ک� تلاش میں حضور سیدنا عیس�� چنانچہ جس تنہائ� اور آاپ نے کفرنحوم ک� واپس�� میں کش�ت� میں بیٹھے آایا ۔ تو بھ� حواری نکلے۔ وہ انہیں میسرنہ

اپنے حوارئین ک� کچھ مزید شخص� تربیت ک� ہوگ�۔

( سالہ بیٹ� کو شفا۱۲یائير ک� بارہ )ی� المس�یح کف��ر نح��وم پہنچ کرکش��ت� س��ے ات��رے توکن��ارے پ�ر جب حض��ور سیدناعیس��

آایت ای��ک ب��ڑا ہج��وم جم��ع ہوگیا اچان�ک ہ�� چ�� مچ گ�ئ� اور ان کےدرمی��ان میں س��ے مق��ام�(۔۲۱)آاپ کے ق��دموں پ��ر گ��را اور م��دد کے ل��ئے آاک��ر عب��ادت خ��انہ ک��ا س��ردار ی��ائیر دکھ��ائ� دی��ا۔ وہ

درخواست ک�:آاک�ر اپ�نے ہ��اتھ اس پ�ر رکھ ت��اکہ وہ اچھ� ہوج�ائے " میری چھوٹ� بیٹ� مرنے کو ہے ت�و

آایت ۵)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع اور زندہ رہے ؟" (۔۲۳تا ۲۲

آاپکے پیچھے آاپ یائیر کے گھر ک� ط��رف تش��ریف لے ج��ارہے تھے توہج��وم بھ� جب پیچھے چلت��ا ہ��وا ط��رح ط��رح ک� درخواس��تیں پیش ک��رنے لگ��ا ۔ بھ��یڑ میں ای��ک ع��ورت بھ� تھ�

� خ��ون ک� بیم��اری تھ� وہ کس��� دوا س��ے بھ� ش��فایاd نہ ہوس��ک�۱۲جس��ے ب��رس س��ے جری��ان

� زار بی��ان ک��رنے سےش��رمات� تھ�۔ اس نے اپ��نے دل میں تھ�۔بھ��رے مجم��ع میں وہ اپ��ن� ح��التسوچا کہ

آایت " اگر میں صرف اس ک� پوشاک ہ� چھولونگ� تو اچھ� ہوجاؤنگ� ۔" (۔۲۸)

( برس سے ڈاکٹروں اور حکیموں کے دروازوں پر دھکے کھ��ات� پھ��ررہ� تھ�۱۲وہ بارہ ) اور کبھ� ای��ک علاج ک��رت� کبھ� دوس��را۔ یہ��اں ت��ک کہ اس ک��ا تم��ام روپیہ پیس��ہ ڈاک��ٹروں او رحکیم�وں ک� فیس اور دواؤں پ�ر ہ� خ��رچ ہوگی��ا مگ�ر حاص�� کچھ بھ� نہ ہ��وا۔ اd اس نے ڈرتےد ک��ا دامن چھ��وا۔ ی� المس��یح کے جبہ ہوئے ایمان ک� کپکپاہٹ کے ساتھ حضور سیدناعیس اسے چھوتے ہ� اس نے اپنے بدن میں ایک عجیب طاقت ک� رو کو محس��وس کی��ا اور اس کے

ساتھ ہ� اس کا خون بہنا بند ہوگیا۔ی� المسیح نے یک لخت رک کر فرمایا: حضور سیدناعیس

" وہ کون ہے جس نے مجھے چھوا؟ جب سب انکار کرنے لگے تو پطرس اور اس کے ساتھیوں نے کہا اے صاحب ، لوگ

تجھے دباتے اور تجھ پر گرے پڑتے ہیں۔ ی�( نے کہا کس� نے مجھے چھوا تو ہے کی��ونکہ میں نے معل��وم کی��ا " مگر یسوع )عیس

کہ قوت مجھ سے نکل� ہے۔آائ� اور اس " جب اس ع��ورت نے دیکھ��ا کہ میں چھپ نہیں س��کت� ت��و ک��انپت� ہ��وئ� آاگے گر ک�ر س�ب لوگ�وں کے س�امنے بی�ان کی�اک میں نے کس س�بب س�ے تجھے چھ��وا اور کے کس طرح اس� دم ش�فا پ�اگئ� ۔ اس نے اس س�ے کہ��ا بی��ٹ� ! ت��یرے ایم��ان نے تجھے اچھ��ا کی��ا

آایت ۸)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع ہے ۔ سلامت چل� جا" (۔۴۸تا ۴۵

ی� المسیح ابھ� ا س عورت سے ب��ات ک��رہ� رہے تھے کہ کس��� نے حضور سیدناعیسآاکر یائیر کو بتایاکہ دوڑتے ہوئے

آایت " تیری بیٹ� مرگئ� ہے۔ استاد کو تکلیف نہ دے ۔" (۔۴۹)

آاپ نے اس پیغام کو سن کر غمزدہ باپ کو تسل� دیتے ہوئے فرمایا۔آایت " خوف نہ کر فقط اعتقاد رکھ" (۵۰)

آاپ يائیر کے گھر پہنچے تو سب اس لڑک� کے لئے روپیٹ رہے تھے۔ مگ��ر " جب اس نے کہا ، رو نہیں وہ مرنہیں گئ� بلکہ سوت� ہے۔ وہ اس پ��ر ہنس��نے لگے کہ کی��ونکہ ج��انتے

(۔۵۳تا ۵۲آایت ۸)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع تھے کہ وہ مرگئ� ہے"

آاپ نے ل��ڑک� کے وال��دین اور اپ��نے ح��واريئن پط��رس ،یوحن��ا اور یعق��وd کے علاوہ ب��اق�سب کو نکال دیا۔ پھر لڑک� کا ہاتھ پکڑکر فرمایا ۔

آایت " اے لڑک� اٹھ" (۔۵۴)

اا اٹھ کھڑی ہ��وئ� اور کم��رہ میں آائ� اور وہ فور لڑک� ک� روح اس کے بدن میں عود کر آاپ نے ارش��اد فرمای��ا کہ ل��ڑک� ک��و کھ��انے کے ل��ئے کچھ دی��ا اادھ��ر چل��نے لگ�۔ اس پ��ر �ادھ��ر آاپے س��ے ب��اہر ہ��وئے ج��ارہے جائے ۔ والدین اپنے جگر کے ٹکڑے کو جیتا دیکھ کر خوش��� س��ے

تھے۔

ناصرت کو واپس�آای��ا اور اس کے ش��اگرد اس کے پیچھے " پھ��ر وہ��اں س��ے نک�� ک��ر وہ اپ��نے وطن میں

(۔۱آایت ۶)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع ہولئے۔"

آاپ پھ��ر اس��� عب��ادت خ��انہ میں تش��ریف لے ج��اکر درس دی��نے لگے س��بت کے دن آاپک� باتیں سن کرنہایت حیران ہوکر کہنے آاپ کو پہلے نکال دیا گیا تھا۔ حاضرین جہاں سے

لگے :آاگئیں؟او ریہ کیا حکمت ہے ج��و اس�ے بخش�� گ��ئ� اور " یہ باتیں اس میں کہاں سے کیسے معجزے اس کے ہاتھ سے ظاہر ہوتے ہیں ؟ کی�ا یہ وہ� بڑھ�ئ� نہیں ج�و م�ریم ک��ا بیٹ��ا اور یعقوd اور یوسیس او ریہوداہ اور شمعون کا بھائ� ہے ؟ اورکیا اس ک� بہنیں یہاں ہمارے ہاں

آایت۶")انجی شریف بہ مطابق حضرت م��رقس رک��وع نہیں؟ پس انہوں نے اس کے سبب سے ٹھوکر کھائ�

(۔۳تا ۲

آاپ نے پھر بڑے دکھ کے ساتھ انہ� الفاظ کو دہرایا کہ " نب� اپنے وطن اور اپنے رشتہ داروں اور اپنے گھر کےسوا او رکہیں بے عزت نہیں ہوت��ا

آایت " (۔۴)

�م مقدس میں مزید بیان ہے کہ : او رکلا " وہ کوئ� معجزہ وہاں نہ دکھا سکا۔ صرف تھوڑے سے بیماروں پر ہاتھ رکھ کر انہیں

آایت اچھا کردیا۔ اور اس نے ان ک� بے اعتقادی پر تعجب کیا۔" (۔۵)

آاپ نے اپنے ح�وارئین کے ہم�راہ ناص�رت س��ے ک��وچ فرم�ا ک��ر گ��اؤں گ��اؤں اور بس�ت� dا بس��ت� اپ��ن� تبلیغ� خ��دمت ک��و ج��اری رکھ��ا۔ چ��ونکہ اd ت��ک ایس��� بہت س��ے جگہیں ب��اق�آاپ نے اپ��نے ح��وارئین ک��و بھ� آاپ ک� خوشخبری نہیں پہنچ� تھ� اس ل��ئے تھیں جہاں تک آاپ ک� انتھک تربیت سے کچھ ح��د ت��ک تج��ربہ ک��ار ہ��وچکے تھے اس خ��دمت میں ہ��اتھ جو

بٹانے ک� دعوت دی۔ " اور انہیں دو دو کرکے بھیجنا شروع کیا اور ان کو ناپاک روحوں پر اختی��ار بخش��ا ۔ اور حکم دیا کہ راستہ کے ل��ئے لاٹھ� کے س��وا کچھ نہ ل��و۔ نہ روٹ� ، نہ جھ��ول� ، نہ اپ��نے کم��ر بند میں پیسے۔ مگر جوتیاں پہنو اور دو کرتے نہ پہنو ۔اس نے ان سے کہا جہاں تم کس��� گھ��ر میں داخ ہو تو اس� میں رہ�و جب ت�ک وہ�اں س�ے روانہ نہ ہ�و۔ اور جس گھ�ر کے ل�وگ تم ک�و قبول نہ کریں اور تمہاری نہ سنیں وہاں سے چلتے وقت اپنے تلووں ک� گرد جھاڑ دوتاکہ ان پر گواہ� ہو۔ اور انہوں نے روانہ ہوکر منادی ک� کہ ت�وبہ ک�رو۔ اور بہت س�� ب�دروحوں ک�و نک�الا

آایت ۶) انجی� ش�ریف بہ مط��ابق حض�رت م�رقس رک�وع اور بہت س� بیماروں کو تی م کر اچھا کیا" ت��ا۷

(۔۱۳

آاپ نے انہیں تلقین فرمائ� کہ وہ خاص خاص مقامات ک� طرف ج��ائیں اور اپ��ن� ت��وجہ )انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رک��وع"بن� اسرائي کے گھرانے ک� کھوئ� بھیڑوں " پر مرکوز کریں

آایت ۱۰ آاپ نے انہیں حکم دیاکہ " غیر قوموں ک� ط��رف نہ جان��ا اور س��امریوں کے کس��� ش��ہر(۶ ۔آایت میں داخ نہ ہونا" (۔۵)

آاہس��تہ ایس��� ایس��� جگہ��وں آاہس��تہ ی� المس��یح اپ��نے ح��وارئین ک��و حض��ور سیدناعیس�� پربھیج��نے لگے جہ��اں وہ اپ��ن� ابت��دائ� ت��ربیت کے مط��ابق خ��دمت ک��رنے کے قاب�� تھے۔ سامریوں کے تعصب اور غیر یہودیوں ک� بت پرس�ت� ک�ا مق�ابلہ ک�رنے ک� مش�ک خ�دمت پ�ر آاپ نے انہیں اس وقت ہ� م��امور کی��ا جب وہ ایم��ان اور روح��ان� تج��ربہ میں پختہ ہوگ��ئے تھے ۔آایا جب انہیں تمام دنیامیں انجی جلی کا م��ژدہ نج��ات س��نانے ک��ا اس کے بعد وہ وقت بھ�

شرف بخشا گیا۔

حضرت یوحنا کہ شہادتی� المسیح نے اپ��نے حواری��وں ک��و تبلی��غ اور ش��فا کے مش��ن پ��ر ادھر حضور سیدناعیس بھیجا ہوا تھا۔ ادھ�ر حض�رت یوحن�ا اص�طباغ� ک�و پ�ریہ کےجن�وd میں اپ�ن� بے باک�انہ تبلی�غ کے

آارہے تھے۔ آاثار نظر باعث موت کے شکنجے میں پھسننے کے گلی کے صوبہ کے حاکم شہزادہ ہیرودیس انتپاس ک� غير منک��وحہ بی��وی ہیرودی��اس حضرت یوحنا سے کاف� عرصہ س�ے انتق��ام لی�نے ک�ا موق�ع تلاش ک�ررہ� تھ�۔ ص�ر ف وہ� ای�ک ایس�ے ش�خص تھے ج��و اس ک� خوبص�ورت� اور جنس��� کش��ش س��ے مت��اثر نہ ہ��وئے تھے۔ ن��ب� نےی� ک� اسے اور انتپاس کو متنبہ کیا تھا کہ ان ک��ا زوجین ک� حی��ثیت س��ے اکھ��ٹے رہن��ا خ��دا تع��ال

�م مقدس میں اس سلسلے میں یوں مرقوم ہے: نظر میں گناہ ہے۔ کلا " ہیرودی��اس اس س��ے دش��من� رکھ��ت� او ر چ��اہت� تھ� کہ اس��ے قت�� ک��رائے مگ��ر نہآادم� جان کر اس سے ڈرتا اور اسے بچائے ہوسکا۔ کیونکہ ہیرودیس یوحنا کو راستباز اور مقدس

۔")انجی ش��ریفرکھتا تھا اور اس ک� باتیں سن کر بہت حیران ہوجاتا تھا۔ مگر سنتا خوش� سےتھا

آایت ۶بہ مطابق حضرت مرقس رکوع (۔۲۰ تا ۱۹

آاخر ہیرودیاس کو موقع م ہ� گیا۔ بال

" ہیرودیس نے اپن� سالگرہ میں اپنے امیروں اور فوج� سرداروں اورگلی کےرئیسوں ک�آائ� اور ناچ کر ہیرودیس اور اس کے مہمانوں ک��و ضیافت ک�۔ اور اس� ہیردویاس ک� بیٹ� اندر خوش کیا توبادشاہ نےاس لڑک� سے کہا جو چاہے مجھ سے مان��گ میں تجھے دوں گ��ا۔اور اسآادھ� س��لطنت ت��ک تجھے دوں گ��ا۔ اور سے قسم کھائ� کہ جو تو مجھ س��ے م��انگے گ� اپ��ن� اس نے باہر جاکر اپن� ماں سے کہا میں کیا مانگوں؟ اس نے کہا یوحنا بپتسمہ دینے والا کا سرآائ� اور اس سے عرض ک� ۔ میں چ��اہت� ہ��وں کہ ۔ وہ ف� الفور بادشاہ کے پاس جلدی سےاندر تویوحنا بپتسمہ دینے والا کا سر ای��ک تھ��ال میں ابھ� مجھے منگ��وادے۔ بادش��اہ بہت غمگین ہ��وا مگر اپن� قسموں اور مہمانوں کے سبب سےاس سے انکار کرنا نہ چاہا۔ پس بادشاہ نے ف� الف��ور ایک سپاہ� کو حکم دے کر بھیجا کہ اس کا سر لائے ۔ اس نے جاکر قی��د خ��انہ میں اس ک��ا سر کاٹا۔ او رای�ک تھ��ال میں لاک�ر ل��ڑک� ک��و دی�ا اور ل�ڑک� نے اپ�ن� م�اں ک�و دی�ا۔ پھ��ر اس کے

آائے اور اس ک� لاش اٹھا کر قبر میں رکھ� ۔" ) انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��رقسشاگرد سن کر

آایت ۶رکوع (۔۲۹تا ۲۱

آاپ کے حواری�وں کے مح��یر ی� المس�یح اور دن گ�زرتے گ��ئے ۔ ادھ�ر حض�ور سیدناعیس� العق کام اور کلام ک� خبریں ہیرودیس انتپاس کے پاس پہنچ ک��راس ک��ا دل ہلا رہے تھے۔ ادھ��ر حض��رت یوحن��ا اص��طباغ� ک� ش��ہادت ک� خ��برحواریوں ک��ومل� جب وہ گ��اؤں گ��اؤں نیک� اور

بھلائ� کے کام کرتے پھررہے تھے۔ حض��رت یوحن��ا ک� ش��ہادت ک� خ��بر س��نتے ہ� ح��واری اپ��نے اس��تاد کے پ��اس واپسآاپ ک� عجیب آاپ ک�و بھ� یہ افسوس��ناک خ�بر م� چک� تھ�۔ دوس��ری ط��رف ہ��یرودیس آائے ۔ وغریب کرامات ک� شہرت سن کر خوفزدہ ہوگیا تھا۔ اس کا مجرم ض��میر اس��ے س��تاتا تھ��ا۔ یہ��اں

تک کہ اسے شک پڑگیا کہ ۶) انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رک��وع " یوحنا جس کا سر میں کٹوایا وہ� ج� اٹھا ہے"

(۔۱۶آایت

ی� المس��یح ک��و دیکھن��ا چاہت��ا چنانچہ وہ کس� نہ کس� طریقہ سے حض��ور سیدناعیس��آاپ اس��� عمل��داری آاپ ک��و خاموش��� س��ے گرفت��ار کرلیاج��ائے کی��ونکہ تھا۔ ایک طریقہ یہ تھا کہ

صوبہ گلی میں تبلیغ کررہے تھے۔آاں حض��ور نے حض��رت یوحن��ا ک� �م مق��دس س��ےہمیں معل��وم ہوت��ا ہے کہ ج��ونہ� کلا

شہادت ک� تفصیلات ان کے شاگردوں ک� زبان� سنیں تو ) انجی شریف بہ مطابق حضرت مت�" وہاں سے کشت� پر الگ کس� ویران جگہ کو روانہ ہوا"

(۔۱۲آایت ۱۴رکوع

� اق���دس آاپ کے م���زاج آاپ کے س���اتھ ہول���ئے ۔ لیکن اd وہ � معم���ول ح���واری حس���بی� سے مزید ہدایت پانے کے ل��ئے آاپ خدا تعال سےواقف ہوچکے تھے۔ لہذا جب انہیں چھوڑ کر آاپ نے اپ�نے دعا کرنے کس�� خ�اموش جگہ ک�و تش�ریف لے ج�اتے اور وہ مخ� نہ ہ�وتے۔ چن�انچہ حواریوں سمیت جھی کے ا س ساح پر پہنچ گئے جو شہزادہ فلپس ک� تحوی میں تھ��ا۔

آاپ گرفتار ہونے سے محفوظ تھے۔ یہاں اس زم�انہ میں کس�� مل�ک میں داخ� ہ��ونے کے ل��ئے پاس�پورٹ اور وی�زا ک� ض�رورت نہآاپ بیت صیدا کے علاقہ میں ایک پہاڑی پر تنہ��ا دع��ا ک��رنے تش��ریف لے گ��ئے ۔ dہوت� تھ�۔ ا آاپ ک� کشت� کو جاتے دیکھ ک��ر آائ� کیونکہ عوام آاپ کو زیادہ دیر تک تنہائ� میسر نہ لیکن آایا۔ چنانچہ پہ��اڑی س��ے آاپ کو بڑا ترس پیدل ہ� اس مقام تک پہنچ گئے۔اس بھیڑ کو دیکھ کر

آاپ نے ان کے بیماروں کو شفا دی آایت ۱۴)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رک���وع اتر کر آاپ کو(۔۱۴ آای��اکہ وہ پراگن��دہ اور بھٹک� ہ��وئ� بھ��یڑوں جیس��ے تھے جن ک��ا ک��وئ� چرواہ��ا نہ ہ��و۔ ان پ��ر ت��رس آاپ نے انہیں بہت س��� ب��اتوں کے ب��ارے میں نص��یحت بھ� بیماروں ک��و ش��فا دی��نے کے علاوہ

ک�۔dران ہے اور ا��نے لگے کہ جگہ وی��ر کہ��آاک " اور جب شام ہوئ� تو ش��اگرداس کے پ��اس

)انجی��وقت گزرگیا ہے ۔ لوگوں کو رخصت کردے تاکہ گاؤں میں جاکر اپنے ل��ئے کھان��ا م��ول لیں

آایت ۱۴شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع (۔۱۵

" اس نے ان سے جواd میں کہ��ا تم ہ� انہیں کھ��انے ک��و دو۔انہ��وں نے اس س��ے کہ��اکیا ہم جاکر دوسو دینار ک� روٹیاں مول لائیں اور ان کو کھلائيں؟

اس نے ان سے کہا تمہارے پاس کتن� روٹیاں ہیں؟ جاؤ دیکھو۔ )انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��رقسانہوں نے دریافت کرکے کہ��ا " پ�انچ اور دومچھلی�اں "

آایت ۶رکوع (۔۳۸ تا ۳۷

پانچ ہزار کو کھانا کھلانا گاؤں گاؤں تبلیغ کرنے کے باعث ح�واری بہت تھ��ک چکے تھے۔ چن�انچہ جب س�ورج�د عم یہ تھاکہ ان کو نزدیک� گاؤں ڈھلنے لگا تو ان کا اس بڑے مجمع کے بارے میں فطری رآاپ بندوبس�ت ک�ریں۔ لیکن اور شہروں میں بھیج دیا جائے تاکہ کھانے پی�نے اور رات گ�زارنے ک�ا ی� المسیح کو جیسے چرواہا اپن� بھیڑوں کے لئے فکر مند ہوتا ہے ، ویس��ے ہ� حضور سیدناعیس اس مجمع ک� روحان� اور جسمان� ضروریات کا احساس تھا۔ یہ ان چند واقعات میں سے ای��کآاپ نے معج��زانہ ط��ور پ��ر کھان��ا بہم � نظ��ر ہے جب انس��ان ک� جس��مان� ض��روریات کے پیشآاپ نے پ��انچ روٹی��وں اور دو مچھلی��وں پرب��رکت دے پہنچایا۔ اس ہجوم کو کھان��ا کھلانے کے ل��ئے �d مقدس میں اس حیرت انگ��یز اوراعج��ازی کر انہیں اس قدر بڑھایا کہ یہ سب سیر ہوگئے ۔ کتا

واقعہ کا ذکر یوں ہے: " اس نے ان کو حکم دیا کہ سب ہری گھاس پردستہ دستہ ہ�وکر بیٹھ ج�ائیں۔ پھ�ر اسآاسمان ک� طرف دیکھ کر برکت دی اور روٹیاں ت��وڑکر نے وہ پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں لیں اور آاگے رکھیں اور وہ دو مچھلیاں بھ� ان سب میں بانٹ دیں۔ پس شاگردوں کو دیتا گیا کہ ان کے

(ٹوکریاں بھ��ر ک��ر اٹھ��ائیں۔ اور کچھ۱۲وہ سب کھاکر سیر ہوگئے ۔ اور انہوں نے ٹکڑوں سے بارہ ) )انجی�� ش��ریف بہ مط��ابقمچھلی�وں س�ے بھ�۔ اور جنہ�وں نے روٹی�اں کھ�ائیں وہ پ�انچ ہ��زار م�رد تھے ۔"

آایت ۶حضرت مرقس رکوع (۔۴۴تا ۳۹

آاپ کو بادشاہ بنانے ک� خواہش عوام ک�

عوام کا ف� مدت س��ے ظ��الموں اور ڈکٹی��ٹروں کے ج��وئے تلے دبے ہ��وئے تھے۔ وہ روم�آاگ میں ج��� رہے تھے ۔ جب انہ���وں نے یہ س���نا کہ انتپ���اس حک���ومت س���ے انتق���ام لی���نے ک� ہیرودیس نے حضرت یوحنا کو قت کرادیا ہےتو ان ک� یہ امی��د کہ وہ انہیں رومی��وں کے ج��وئےآازاد کرے گا خاک میں م گئ� ۔ جب قوم پرست یہ��ودی روم� افس�روں اور س��پاہیوں ک�و سے روم� حکومت ک� بنائ� ہوئ� سڑکوں پر مارچ ک�رتے ی�ا بح��یرہ روم ک� بن��درگاہوں میں ات�رتےآامادہ ہوجاتے۔ ان میں ج��و دیکھتے تو ان کا جذبہ بغاوت اور بھڑک اٹھتا اور وہ جنگ کرنے پر مومن تھے۔ جب وہ رومیوں کے بتوں، زیارت گاہوں اور جنس� بے راہ روی کودیکھتے تو دل ہ� دل میں کڑھ��نے لگ��تے۔ وہ غ��یروں ک� حک��ومت کے کٹھ پتل� حکم��ران انتپ��اس اورفلپس ک��و نفرت ک� نگاہ سے دیکھ��تے اور مق��دس ش�ہر یروش�لیم پ�ر بت پرس�ت روم� حک�ومت کے گ�ورنری� المس��یح پ��ر مرک��وز � امی��د حض��ور س��یدنا عیس�� کے راج کے تلے کراہ��تے تھے۔ اd ان ک� نگ��اہی� نے پیش��ین ہوگئ� ک� یہ� وہ موعودہ نب� ہے جس ک� بابت توریت ش��ریف میں حض��رت موس��

۔انہیں یقین تھ��اکہ وہ ن��ب� انہیں روم�(۱۵آایت ۱۸)ت���وریت ش���ریف ،استش���ناء رک���وع گ��وئ� فرم��ائ� تھ�۔ آاہ��ن� پنجے س��ے رہ��ائ� دلائے گ��ا۔ چن��انچہ انہیں امی��د س��امراج اور اس کے ظ��الم ح��اکموں کے ی� المسیح اس بغاوت میں ان ک� قیادت فرما ک�ر انہیں حض�رت داؤد تھ� کہ حضور سیدنا عیس

آازاد اور طاقتور قوم بنادیں گے ۔ اور حضرت سلیمان کے وقت ک� طرح پھر ایک پرشکوہ آازم�ائش ک�و پہلے بھ� آاپ ش�یطان ک� اس لیکن یہ لوگ اس امر س�ے بے خ��بر تھے کہ ایک دفعہ رد کرچکے تھے کہ پتھروں سے روٹیاں بناکر تمام دنیا پر اقتدار حاص ک��رلیں۔ وہ اسآاپ نے اس دنیا سے بدی کومٹانے کے لئے نف��رت، جن��گ بات کو بھ� نہیں سمجھتے تھے کہ وجدل اور جبر کے استعمال کو رد کردی��ا تھ��ا۔ دو ہ��زار س��ال گ��زرنے کے ب��اوجود اd بھ� نہ��ایتآاپ ک� دشمنوں کےساتھ محبت اور جسمان� تشدد برداشت ک��رنے ک� کم لوگ ایسے ہیں جو

تلقین کو سمجھتے تھے۔

بادشاہ بننے سے انکار

آاخ��ری ی� المس��یح ج�انتے تھے کہ مص��لوبیت س��ے پیش��تر مق��دمہ ک� حضور سیدنا عیس��آاپ ک� نسبت برابا ڈاک��و ک��و ت��رجیح دیں گے ۔ پس ہج��وم کے رحج��ان سماعت کے وقت عوام آاپ ان آاپ ک���و ہنگ���ام� ط���ورپر بادش���اہ بن���انے کے ل���ئے کوش���اں ہیں۔ ک���و ج���انتے ہ���وئے کہ وہ

آایت۶)دیکھئے انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رک��وع سےعلیحدہ ہوکر پہاڑ پر اکیلے تشریف لے گئے

۔اس� سبب سے حوارئین بھ� چپکے سے کشتیوں میں بیٹھ کر چ دیئے۔(۱۵ی� کے مقررہ وقت س��ے پہلے بادش��اہ بن��نے ک� ی� المسیح نے خدا تعال حضور سیدنا عیسآازمائش سےدانستہ کنارہ کیا اور خاموش�� س�ے نک� گ�ئے ت�اکہ ع�وام میں قب� ازوقت اس سنگین dف تھ�۔ ا��ے قطع� مختل��الات س��ام خی��انہ کے ع��آاپ ک� بادشاہ� اس زم انتشار نہ پھیلے ۔ آاپ کے ارش��ادات کے مطلب تک معدودے چند اشخاص ہ� ایسے تھے جو اس سلسلے میں

کوسمجھنے لگے تھے۔آاپ آاپ اd جھی کے قریب ک� ایک پہاڑی پر تنہا دع��ا اورمراق��بے میں مس��تغرق تھے۔ آاپ ک��ودکھ اور اذیت ک��اوہ راس�تہ نے بادشاہ بن��نے ک� ع��وام� تحری�ک ک��و رد کردی��ا تھ��ا۔ کی��ونکہ

آاپ ہ� تمام دنیاکے حاکم اوربادشاہ بننے والے تھے۔ بخوب� معلوم تھا جسے طے کرکے

پان� پر چلنا دوس��ری ط��رف ح��واریئن کش��ت� میں بیٹھے ب��ڑے اطمین��ان س��ے چلے ج��ارہے تھے کہی� یکایک سخت طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ س��مندر تن��دوتیز موج�وں میں تب��دی ہوگی��ا۔حض��ور س��یدنا عیس�� المسیح اپنے حواریوں ک� طوفان کے تھپیڑوں کے خلاف جدوجہد دیکھ رہے تھے ۔ انس��ان ک�آاس��ان آاں حض��ور کے ل��ئے بغاوت خود سری اور سینہ زوری ک� نسبت اس حالت پر قابو پان��اں

�م مقدس میں مرقوم ہے: تھا۔ چنانچہ کلا "جب اس نے دیکھا کہ وہ کھینے سے بہت تنگ ہیں کیونکہ ہ��وا ان کے مخ��الف تھ�آاگے نک� آای�ا اور ان س�ے تو رات کے پچھلے پہر کے قریب وہ جھی پر چلتا ہوا ان کے پ�ا س جانا چاہتا تھا۔ لیکن انہوں نے اسے جھی پر چلتے دیکھ ک��ر خی��ال کی��اکہ بھ��وت ہے اور چلا

اٹھے ۔ کیونکہ سب اسےد یکھ کر گھبراگئے تھے مگ��ر اس نے ف� الف��ور ان س��ے ب��اتیں کیں اورآایا اور ہوا تھم گ��ئ� اور وہ کہا خاطر جمع رکھو۔ میں ہوں۔ڈرومت ، پھر وہ کشت� پر ان کے پاس اپنے دل میں نہایت حیران ہوئے ۔ اس لئے کہ وہ روٹیوں کے بارے میں نہ س��مجھے تھے بلکہ

آایت ۶)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع ان کے دل سخت ہوگئے تھے۔" (۔۵۲ تا ۴۸

آاپ کے حواریوں کے دلوں پر بھ� اd تک مسیح موعود کے بارے میں مروجہ خی��الاتآاپ ک� شخصیت کے پورے بھید کو سمجھنے سے ف� الحال قاصر اس قدر حاوی تھے کہ وہ

رہے۔

حقیق� پاکیزگ� ک� نوعیتی� المس��یح گلی�� ک� جھی�� کے ش��مال� س��اح پرنظ��ر جب کبھ� حضور س��یدنا عیس��آاپ کے گرد جمع ہوجاتے تھے۔ حضرت یوحنا ک� شہادت ک� خبر س��ننے کے بع��د آاتے تو عوام آاپ کے آاپ اور آائے ، مگ��ر ع��وام آاپ نے کئ� مرتبہ کوشش ک� تھ� کہ کس� طرح تنہائ� میس��ر آاپ ش��مال میں ص��ور اور حواریوں کا پیچھا نہ چھوڑتے ۔ اd صر ف ایک ہ� طبقہ باق� تھ��ا کہ صیدا ک� سرحدوں ک� طرف تشریف لے جائیں۔ ۔چونکہ شریعت کے مطابق سبت کو لمب��اآاپ نے گینسرت کو چھ��وڑ ک�ر س�بت کے روز کف��ر نح��وم سفر کرنے ک� اجازت نہ تھ� اس لئے آاپ کھان��ا تن��اول فرم��ارہے تھے ت��و چن��د قائ��دین دین نے نکتہ چی��ن� میں قیام فرمایا۔اس� روز جب

� مقدس میں یوں ذکر ہے: شروع کردی جس کاکلامآائے تھے۔ اور انہ��وں " فریس� اور بعض فقیہ اس کے پاس جمع ہوئے ۔ وہ یروش��لیم س��ے نے دیکھا کہ اس کے بعض شاگرد ناپاک یعن� بن دھوئے ہاتھوں سے کھان��ا کھ��اتے ہیں۔ کی��ونکہ فریس� اور سب یہودی بزرگوں ک� روایت پر ق��ائم رہ��نے کے س�بب جب ت�ک اپ�نے ہ��اتھ خ�وd نہآاک��ر جب ت��ک غس�� نہ ک��رلیں نہیں کھ��اتے اوربہت س��� اور دھولیں نہیں کھاتے ۔ اور بازار سے باتیں ہیں جو قائم رکھنے کے لئے بزرگوں سے ان کو پہنچ� ہیں جیسے پیالوں اور لوٹوں اور تانبے کے برتنوں کو دھونا ۔ پس فریسیوں اور فقیہوں نے اس سے پوچھا کیا س�بب ہے کہ ت�یرے ش��اگرد

بزرگوں ک� روایت پر نہیں چلتے بلکہ ناپاک ہاتھوں س��ے کھان��ا کھ��اتے ہیں؟ اس نے ان س��ے کہ��ایسعیاه نے تم ریاکاروں کے حق میں کیا خوd نبوت ک� ، جیسا کہ لکھا ہے :

یہ امت ہونٹوں سے تو میری تعظیم کرت� ہے۔لیکن ان کے دل مجھ سے دور ہیں۔

کیونکہ انسان� احکام ک� تعلیم دیتے ہیں۔آادمی�وں ک� روایت ک�و ق�ائم رکھ�تے ہو ")انجی�� ش��ریف بہ مط��ابقتم نے خدا ک�و ت�رک ک�رکے

آایت ۷حضرت مرقس رکوع (۔۸تا ۱

آاپ نے لوگوں کو پھراپنے پاس بلایا اورفرمایا: اس پر آادم� میں داخ ہوکر اسے ناپاک " تم سب میری سنو اور سمجھو۔ کوئ� چیز باہر سے

آادم� ک��و ناپ��اک ک��رت� ہیں" آادم� میں س��ے نکل��ت� ہیں وہ� ) انجی��نہیں کرسکت� مگر جوچیزیں

آایت ۷شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع (۔۱۵تا ۱۴

آاج بھ� بدن� طہارت ،کھانے پی��نے اور حلال وح��رام کے مس��ائ پ��ر اس زمانہ ک� طرح آاج کے دن ت��ک متع��دد ب��ڑی گ��رم جوش��� س��ے بحث وتک��رار ہ��وت� رہ��ت� ہے۔ مق��ام افس��وس ہے آاوری کے ب��اعث وہ اش��خاص اس��� امی��د پ�ر تکیہ ک�ئے بیٹھے ہیں کہ ان ظ��اہری رس�ومات ک� بج��ا آاپ کے ح�واری اس وقت ت�و پ�وری ط�رح نہ س�مجھ ی� کے حض�ور مقب��ول ٹھہ��ریں گے۔ باری تع��الآاپ آائ� ت��و انہ��وں نے آاپ کا مطلب کیا تھا، بعد ازاں جب قدرے تنہائ� میسر سکے تھےکہ

سے اس بات ک� وضاحت چاہ� ۔آاپ نے فرمایا:

" کیا تم بھ� ایسے بے سمجھ ہو؟ کیا تم نہیں سمجھتے کہ کوئ� چیز جو ب��اہر س��ے آادم� کے اندرجات� ہے اسے ناپاک نہیں کرس��کت� ؟ اس ل��ئے کہ وہ اس کے دل میں نہیں بلکہ پیٹ میں جات� ہے اور م��زبلہ میں نک�� ج��ات� ہے ۔ یہ کہہ ک��ر اس نے تم��ام کھ��انے ک� چ��یزوںآادم� ک�و ناپ�اک کرت�ا آادم� میں س�ے نکلت�ا ہے ،وہ� کو پاک ٹھہرایا ۔ پھر اس نے کہ�ا ج�وکچھ ارے خی��ال نکل��تے ہیں۔ حرامکاری��اں، چوری��اں، آادم� کے دل س��ے ب�� ہے۔ کی��ونکہ ان��در س��ے یع��ن�

خونریزی��اں ، زناکاری��اں، لالچ، ب��دیاں، مک��ر، ش��ہوت پرس��ت� ، ب��د نظ��ری ، ب��د گ��وئ�، ش��یخ� ،آادم� کوناپ��اک ک��رت� ہیں " اری ب��اتیں اندرس�ے نک�� ک��ر ) انجی�� ش��ریف بہ مط��ابقبیوقوف� ، یہ سب ب

آایت ۷حضرت مرقس رکوع (۔۲۳ تا ۱۸

ی� کے حض��ور دل ک� پ��اکیزگ� س��بب س��ے اہم ہے۔ ہادئ برحق نے فرمای��ا کہ ب��اری تع��الی� کے نزدی�ک مقب�ول ٹھہ��رنے ک� آاج ک بھ� بہت سے علم�ائے دین خ�دا تع��ال اس زمانہ میں اور

بنیاد جسمان� طہارت اور ظاہری پاکیزگ� بتاتے اور اس� پر زور دیتے ہیں۔آاپ کو رسم� پاک� کے بغیر ہ� کھانا کھ�اتے دیکھ ک�ر جب ایک اور موقع پر فریس�

آاپ نے اس مسئلے پرمزید فرمایاکہ : اعتراض کرنے لگے تو "اے فریسیو! تم پیالے اور رکاب� ک��و اوپ�ر س�ے ت�و ص��اف ک�رتے ہ��و لیکن تمہ��ارے ان��در لوٹ اور بدی بھری ہے۔ اے نادانو! جس نے ب�اہر ک�و بنای�ا کی��ا اس نے ان�در ک�و نہیں بنای�ا ؟ ہ��اں

اندر ک� چیزیں خیرات کردو تو دیکھو سب کچھ تمہارے لئے پاک ہوگا۔dر دیک�*1"لیکن اے فریسیو تم پرافسوس ! کہ پودینے اور سدا��اری پ��ک ترک�اور ہر ای

دیتے ہو اور انصاف اور خدا ک� محبت سے غاف رہتے ہو۔ لازم تھا کہ یہ بھ� ک��رتے اور وہ*2ی� درجہ ک� کرس��یاں اور بھ� نہ چھوڑتے ۔ اے فریسیو تم افس��وس ! کہ تم عب��ادت خ��انوں میں اعلآادم� ب�ازاروں میں س�لام چ��اہتے ہ��و۔ تم پرافس�وس ! کی��ا تم ان پوش�یدہ ق��بروں ک� مانن�د ہ��وجن پ�ر

(۔۴۴ تا ۳۹آایت ۱۱")انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع چلتے ہیں اور ان کو اس بات ک� خبر نہیں

اا تین فٹ کاایک خوشبودار پودا اس ک� ق��در اس وجہ س��ے ک� ج��ات� تھ� کہ وہ بط��ور دوا اس��تعمال ہوت��ا*۔1 سداd : تقریبآاتا تھا۔ اورکھانے ک� چیزوں میں مصالحہ کے کام بھ�

�ک صدق ک��و اپ��نے م��ال ک�ا دس��وا ں حص��ہ)دہ یک� ( دی��ا۔ ب��ن�*2 ۔ دہ یک�: حضرت ابراہیم خلی الله نے خدا کے امام ملآامدن� کادسوا حصہ دینے کا رواج تھا۔ اس روپیہ اور اجناس سے وہ پرستش اور ک�اہنوں کے خراج��ات برداش��ت اسرائي میں

اور غریبوں ک� مدد کرتے تھے۔

ی� المسیح ہمیں بھ� انتباہ فرماتے ہیں کہ کہیں ان فریسیوں کے ساتھ حضور سیدنا عیسی� آادمیوں ک� ایجاد کردہ روایت ورسومات پر سخت� س��ےعم ک��رنے کے ب��اعث خ��دا تع��ال ہم بھ�

کے احکام کے عدول کرنے والے نہ بن جائیں ۔

آاکر عرض کیا آاپ کے حواریوں نے پاس بعد ازاں " کیا تو جانتا ہے کہ فریسیوں نے یہ بات سن کر ٹھوکر کھائ�؟"

آاپ نے جواd دیا:آاسمان� باپ نے نہیں لگایا جڑ سے اکھ��اڑا جائيگ��ا۔ انہیں چھ��وڑدو۔ وہ "جو پودا میرے اندھے راہ بت�انے والے ہیں اور اگ�ر ان�دھے ک�و ان�دھا راہ بت��ائے گ�ا ت�و دون�وں گ�ڑھے میں گ�ریں گے

آایت ۱۵)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع (۔۱۴تا ۱۲

زندگ� ک� روٹ� کے بارے میں ارشاداتآاپ جن نے ک��و س��بت کے روز درس فرمای��ا، ان میں کف��ر نح��وم کے عب��ادت خ��انہ میں آاپ نے معج��زانہ ط��ور پ�ر کھاناکھلای�ا تھ��ا۔ حواری�وں کے طوف�ان س��ے بیشتر لوگ وہ تھے جنہیں � مب�ارک س�نیں ۔ یہ� وہ آاپ کےارش�ادات آاپ ک�و تلاش ک�ررہے تھے ت�اکہ بچنے کے بع�د ع��وام آاپ نے ان ک� خ��ود غرض��� آاپ ک��و بادش��اہ بنان��ا چ��اہتے تھے۔چن��انچہ لوگ تھے جو دودن پیشتر

ک� نیت کویوں طشت ازبام کرکے فرمایا: " میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم مجھے اس لئے نہیں ڈھونڈتے کہ معجزے دیکھے بلکہ اس ل��ئے کہ تم روٹی��اں کھ��اکر س��یرہوئے۔ ف��ان� خ��وراک کے ل��ئے محنت نہ ک��رو بلکہ اسآادم تمہیں دے گا کی��ونکہ خوراک کے لئے جو ہمیشہ ک� زندگ� تک ٹھہرت� ہے جسے ابن

آایت ۶) انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع باپ یعن� خدا نے اس� پر مہر ک� ہے" (۔۲۷ تا ۲۶

ی� المسیح نے جو ط��ریقہ ت��دریس س��وخار کےکن��وئیں � عالمین حضور سیدنا عیس رحمتآاپ نے بڑے احس��ن پر سامری عورت کے ساتھ اختیار کیاتھا ، وہ� اس وقت بھ� استعمال کیا۔آاس��مان� ب��اتوں ک� طریقے سے سامعین کے خی��الات ک��و م�ادی چ�یزوں ک� ط��رف س�ے ہٹ��اکر آاپ نے پ��ان� ک��و اپ��نے کلام کے مش��ابہ ٹھہ��را طرف منتق کردیا۔ سامری عورت کے سلس��لہ میں د ارض پ��ر پ��ان� اور روٹ� آاس��ودگ� ہ��وت� ہے ۔ اس ک��رہ ک��ر فرمای��ا اس س��ے پیاس��� روح��وں ک�

ی� ک� بادش��اہ� میں اب��دی زن��دگ� کے بنی��ادی عناص��ر ک� حی��ثیت رکھ��تے ہیں،بعینہ خ��دا تع��الزندگ� کے بھ� چند بنیادی عناصر ہیں۔

آاپ کا فرمان سن کر کہا لوگوں نے " توکون سا نشان دکھات��اہے کہ ہم دیکھ ک��ر ت��یرا یقین ک�ریں؟ ت��و کونس��ا ک�ام کرت��اہے؟ ہم��ارے ب��اپ دادا نے بیاب��ان میں من کھای��ا۔ چن��انچہ لکھ��ا ہے کہ اس نے انہیں کھ��انے کے ل��ئے

آاسمان سے روٹ� دی۔ی� نے ت��و وہ روٹ� ی�( نے ان سے کہا میں تم سچ سچ کہتا ہ��وں کہ موس�� " یسوع )عیسآاس�مان س�ے حقیق� روٹ� دیت�ا ہے۔کی�ونکہ خ�دا آاس�مان س�ے تمہیں نہ دی لیکن م�یرا ب�اپ تمہیں

آاسمان سے اتر کر دنیاکو زندگ� بخشت� ہے۔ ک� وہ روٹ� ہے جو " انہوں نے اس سے کہا اے خداوند ! یہ روٹ� ہم کو ہمیشہ دیا کر ۔

آائے وہ ی�( نے ان سے کہ��ا زن��دگ� ک� روٹ� میں ہ��وں ۔ ج��و م��یرے پ��اس " یسوع )عیس ۔") انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رتہرگز بھوکا نہ ہوگا اور جو مجھ پر ایمان لائے وہ کبھ� پیاس��ا نہ ہوگا

آایت ۶یوحنا رکوع (۔۳۵ تا ۳۰

صرف ایک ہ� شخصیت ہے جو انسان ک� روح ک� تشنگ� او ربھوک کو مٹ��ا س��کت�ی� المسیح ہیں۔ ہے اور وہ ہادئ برحق حضور سیدنا عیس

آاپ نے مزید فرمایا: چنانچہ آاسمان سے اس لئے نہیں اترا ہو ں کہ اپ�ن� مرض�� کے مواف��ق عم� ک�روں بلکہ " میں اس ل��ئے کہ اپ�نے بھیج��نے والے ک� مرض��� کے مواف��ق عم�� ک�روں۔ اور م�یرے بھیج��نے والے ک�آاخ��ری مرض� یہ ہے کہ جو کچھ اس نے دیا ہے ۔ میں اس میں سے کچھ کھو نہ دوں بلکہ اسے دن پھر زندہ کروں۔کیونکہ میرے باپ ک� مرض� یہ ہے کہ جو کوئ� بیٹے کو دیکھے اور اس پ��ر

آاخری دن پھر زندہ کروں" آایات ایمان لائے ہمیشہ ک� زندگ� پائے اور میں اسے (۔۴۰ تا ۳۸)

آاپ ان لوگ��وں � محش��ر نے ص��اف الف��اظ میں وع��دہ فرمای��ا کہ ا س اقتب��اس میں ش��افع�آاخرت مردوں میں سے زندہ کریں گے ۔ آاپ پر ایمان لاتے ہیں روز کوجو

آاس��مان س��ے " پس یہ��ودی اس پ��ر بڑب��ڑانے لگے اس لے کہ اس نے کہ��ا تھ��ا ج��و روٹ� ی�( نہیں جس کے ب��اپ اتری، وہ میں ہوں ۔ اور انہوں نے کہا کیا یہ یوس��ف ک��ا بیٹ��ا یس��وع )عیس��

آاسمان سے اترا ہوں۔ اورماں کو ہم جانتے ہیں ؟ ا d یہ کیونکر کہتا ہے کہ میں آاس��کتا آاپس میں نہ ب��ڑ ب��ڑاؤ۔ ک��وئ� م��یرے پ��اس نہیں یسوع نے جواd میں ان سے کہا آاخری دن پھر زندہ جب تک باپ جس نے مجھے بھیجا ہے ۔ اسے کھینچ نہ لے ۔ اور میں اسے

آایات کروں گا ۔" (۔۴۴ تا ۴۱)

ی� المس�یح ک��و روم� حک�ومت کے وہ� ل��وگ ج�و تھ��وڑی دی�ر پہلے حض��ور س��یدنا عیس��� موعود قب�ول ک�رنے کے ل�ئے ہرگ��ز تی�ار آاپ کو مسیح dخلاف اپنا گوریلا لیڈر بنانا چاہتے تھے۔ ا ی� کے جس ارادے ک��ا انکش��اف آاپ نے اپ��نے متعل��ق خ��دا تع��ال نہ تھے۔ اس ک� وجہ یہ تھ� کہ آای��ا فرمایا وہ ان کے خیالات سے مطابقت نہیں رکھ سکتا تھا۔ بع��د ازاں ج��و کچھ وق��وع میں

�d مقدس میں یوں ارشاد ہے : اس کے بارے میں کتا" یہ باتیں اس نے کفر نحوم کے ایک عبادت خانہ میں تعلیم دیتے وقت کہیں :

" اس لئے اس کے شاگردوں میں س��ے بہت��وں نے س�ن ک�ر کہ��ا کہ یہ کلام ن�اگوار ہے۔آاپس میں ی�( نے اپنے ج� میں جان ک��ر کہ م��یرے ش��اگرد اسے کون سن سکتا ہے؟ یسوع )عیسآادم ک��و اس بات پر بڑبڑاتے ہیں ان سے کہا کیا تم اس بات سے ٹھوکر کھ��اتے ہ��و؟ اگ��ر تم ابن اوپر جاتے دیکھو گے جہاں وہ پہلے تھا تو کیا ہوگا؟ زندہ کرنے وال� تو روح ہے ۔ جس�م س�ے کچھ فائدہ نہیں ۔ جو باتیں میں نے تم سے کہ� ہیں وہ روح اور زن��دگ� بھ� ہیں۔مگ��ر تم میںی�( ش��روع س��ے جانت��ا تھ��ا کہ ج��و سے بعض ایسے ہیں جو ایمان نہیں لائے کی��ونکہ یس��وع )عیس�� ایمان نہیں لاتے وہ کون ہیں اور کون مجھے پکڑوائے گا۔ پھر اس نے کہا اس� ل��ئے میں نے تمآاس�کتا جب ت�ک ب�اپ ک� ط��رف س��ے اس��ے یہ توفی�ق نہ سے کہا تھا کہ میرے پاس ک�وئ� نہیں

دی جائے ۔

" اس پر اس کے شاگردوں میں سے بہت��یرے ال��ٹے پھ��ر گ��ئے اور اس کے بع��د اس کےآایات ساتھ نہ رہے" (۔۶۶ تا ۵۹)

(۴۸اس مجمع میں سے المس��یح ک�و اپن��ا بادش��اہ بنان��ا چاہت��ا تھ��ا بیش�تر ل��وگ اڑت�الیس )آاپ کے دی�رینہ آاپ ک��ا س��اتھ چھ��وڑ گ��ئے ۔ ج�انے وال�وں میں ک�اف� تع��داد گھنٹ��وں کے ان�در ان�در

معتقدوں ک� بھ� تھ�۔آاپ نے اپنے بارہ ) (خاص حواریوں سےپوچھا۔ ۱۲ان ک� یہ بے رخ� دیکھ کر

" کیا تم بھ� چلا جانا چاہتے ہو؟"آاپ کے ایک حواری حضرت شمعون پطرس نے جواd دیا

" اے خداوند ! ہم کس کے پاس ج��ائیں؟ ہمیش��ہ ک� زن��دگ� ک� ب��اتیں ت��و ت��یرے ہ�آایات پاس ہیں ۔ اور ہم ایمان لائے او رجان گئے ہیں کہ خدا کا قدوس تو ہ� ہے۔" (۔۶۹ تا ۶۷)

ی� کے عرفان انسان� فان� چیزوں کے لئے اس قدر سرگرداں ہیں کہ وہ سن ہوکر خدا تعالآاس��مان� جلال ک��و پہچ��ان ہ� نہیں س��کتے ج��و خ��دا س��ے س��ے مح��روم رہ ج��اتےہیں ۔ اور وہ اس

محبت رکھنے والوں کو میراث ہے۔ی� المسیح نے عوام� لی��ڈروں س��ے مختل��ف اور ن��ئے ان��داز میں اپ��نے حضور سیدنا عیسآاپ ی� کو مقدم جگہ دے کر وعدہ فرمایا کہ جول��وگ آاپ نے خدا تعال پیروؤں ک� قیادت فرمائ�۔ آاپ ک� تعلیمات ک� پیروی ک��ریں گے ۔ ان ک� م��ادی احتی��ا جیں بھ� رف��ع ہ��وت� پر ایمان لاکر

رہیں گ�۔ اک��ثر سیاس��تدان چن��د روز ہ م��ادی اش��یا کے اح��اطہ میں گھ��ر ے رہ��تے ہیں۔ وہ ووٹ حاص�� ک�رنے کے ل��ئے انہ� چ��یزوں ک�ا وع�دہ ک�رتے ہیں ، لیکن اک�ثر اپ�نے وع��دوں ک�و پ�ورا نہیں� ص��دق وص��فا حض��ور کرسکتے اور ع��وام ک� پریش��انیاں ج��و ں ک� ت��وں ہ� رہ ج��ات� ہیں۔ ش��اہ�ہ خ��دا ک��و س��نگلاخ اور دش��وار گ�ذار آاپ نے را ی� المسیح جھوٹے وعدے نہیں فرماتے ۔ سیدنا عیس

بتا کر فرمایا:

" تنگ دروازہ سے داخ ہوکی��ونکہ وہ دروازہ چ�وڑا ہے اور وہ راس��تہ کش�ادہ ہے ج�و ہلاک کو پہنچاتا ہے اور اس سے داخ ہونے والے بہت ہیں کیونکہ وہ راستہ تنگ ہے اور وہ راس��تہ س��کڑا

) انجی شریف بہ مط��ابق حض��رت م��ت�ہے جو زندگ� کو پہنچاتا ہے اور اس کے پانے والے تھوڑے ہیں۔"

آایت ۷رکوع (۔۱۴ تا ۱۳

صور اور صیدای� المس�یح نے اپ�نے ح�وارئین کے ہم�راہ بخ��اطر یکس�وئ� ش��ہزادہ اd حضور س�یدنا عیس� انتپاس ک� عملداری یعن� صوبہ گلی کو چھوڑ کر صور اور صیدا کے علاقے ک� ط��رف تش��ریف

آاپ کے ہم��درد اور دوس��ت موج��ود(۲۱آایت ۱۵)م��ت� رک��وع لے گئے ۔ ملک کے ک��ونے ک��ونے میں آاپ صور آاگے بڑھتے گئے ۔ آاپ مختلف مقامات پران کے پا س قیام فرماتے ہوئے تھے اس لئے آاپ نے اہ�� خ��انہ س��ے آاپ ایک گھ��ر میں م��دعو ہ��وئے ت��و اور صیدا کے نواح میں پہنچ کر جب آامد کا کس� کو علم نہ ہو نے پائے مگر یہ ن��ا ممکن ث��ابت ہ��وا۔ چن��انچہ درخواست ک� کہ میری آاپ نے کئ� غیر یہودی بیم��اروں ک��و ش��فا آایا ہے کہ اس عرصہ کے دوران � مقدس میں ذکر کلام

بخش� جنہیں یہودی ناپاک سمجھتے تھے۔ اگلا واقعہ ان نبوت� الفاظ کے پ��ورے ہ��ونے ک��ا پیش خیمہ ہے کہ " ا س��کے ن��ام س��ے

آاس��مان پ��ر*1غ��یرقومیں امی��د رکھیں گے ۔ آاپ نے ۔ ان ک� پ��وری تکمی�� اس وقت ہ��وئ� جب ص��عود فرم��انے س�ے پیش�تر اپ�نے ح��وارئین ک��وبلا امتی��از رن��گ ونس�� دنی��ا میں انجی�� جلی�� ک�

خوشخبری ک� تبلیغ کرنے کا حکم فرمایا:۔ یہ یسعیاہ نب� کے صحیفے کا اقتباس ہے۔۲۱آایت ۱۲۔ مت� رکوع *1

آات��ا ہےج��و کہ ص��ور �م مقدس میں ایک غ��یریہودی ع��ورت ک��ا ذک��ر اس سلسلے میں کلای� المسیح ک� اس گوشہ نش��ین� میں مخ�� ہ��وئ� ۔وہ س��ور فی��نیک�کے نزدیک حضور سیدنا عیس

اd لبنان کا حصہ ہے ( اس ک� بیٹ� پر ب�دروح ک��ا س��ایہ تھ��ا۔ جبفینیکےنژاد یونان� تھ� ) سور

آاپ کے ہم��راہ ش��فاک� درخواس��ت ک��رت� آاپ اپ��نے حواری��وں کے س��اتھ ج��ارہے تھے ت��و وہ بھ� جارہ� تھ�۔ اورکہت� تھ�۔

اری ط��رح � داؤد مجھ پ��ر رحم ک��ر۔ ای��ک ب��دروح م��یری بی��ٹ� ک��و ب�� " اے خداون��د ! ابنآایت ۱۵)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع ستات� ہے ۔ " (۔۲۲

ی� المس��یح زي��ادہ ت��ر اہ�� ش��ریعت یہ��ود میں ہ� تبلی��غ ف� الح��ال ت��و حض��ور س��یدنا عیس�� کرکے ایک ایس� ابتدائ� جماعت کو تشکی دے رہے تھے جسے کے ب��اعث بع��د میں انجی�� جلی کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پھیلنا تھا۔اگر بن� یہود توبہ ک��رکے ایم��ان کے س��اتھ خ��دا ک� طرف رجوع کرلیتے تو وہ ساری دنیا کے لئے برکت کا ب��اعث بن��تے۔ اس پ��ر مزی��د زور دی��نےآاپ نے فرمایا کہ یہ بچوں کا حق ہے کہ پہلے ان ک� احتیاجیں رفع ک� ج��ائیں۔ ک� غرض سے اس سے مراد یہ تھ� کہ نجات ک� نعمتوں میں شریک ہونے کا پہلا حق خ��دا ک� امت ہ� ک��ا

آاپ کے قدموں میں گرگئ� اور گڑگڑا کریوں منت وسماجت کرنے لگ� ۔ ہے۔ لیکن وہ عورت آایت "اے خداوند میری مدد کر" (۔۲۵)

آاپ س��ے وہ صحیح معنوں میں متلاش� تھ�۔ وہ پ��ورے دل اور کام� ایم��ان کے س��اتھ ی� المس��یح ایس��ے آاپ ض��رور اس کے ل��ئے کچھ ک��ریں گے ۔ حض��ور س��یدنا عیس�� ملتج� ہ��وئ� کہ آاپ آای��ا آاپ ک��و اس کے ح��ال پ��ر ت��رس مخلص متلاشیوں کو کبھ� مایوس نہیں کرتے ۔ چنانچہ

آایت نے اس کے ایم��ان ک� ان الف��اظ میں تعری��ف ک� " ت��یرا ایم��ان بہت ب��ڑا ہے۔" اور اس���(۱۸) لمحہ اس ک� بیٹ� کو شفا م گئ�۔

آاپ جس آاگے تش��ریف لے گ��ئے ۔ � عالمین اپنے میزبان سے اج��ازت لے ک��ر اd رحمتآاب��اد تھے۔ لیکن ان میں چن��د اہ�� ایم��ان علاقہ میں سفر کررہے تھے وہاں زیادہ تر بت پرس��ت ہ� آاپ رات ک��و قی��ام فرم�اتے تھے۔ ان س��فروں میں اپ��نے حواری�وں ک� ت�ربیت بھ� تھے جن کےہ��اں

آاپ کے پاس کاف� وقت اور موقع تھا۔ کے لئے

dو��ر جن��ئے اور پھ�و گ��مت ک��آاپ صیدا کے علاقہ میں سے ہوتے ہوئے پہلے مشرق� س آاخ��ر ک��ار دکپلس یع��ن� " ک� طرف مڑ کر ش��ہزادہ فلپس ک� عمل��داری میں داخ�� ہوگ��ئے اور آاپ نے ب��دروحوں آاسیب زدہ شخص جس میں س��ے دس شہروں " کے علاقہ میں پہنچ گئے ۔ وہ آاپ ک� شہرت پھیلادی کا لشکر نکالا تھا ، اس نے انہ� شہروں سے گذر کر تمام علاقہ میں آاپ بہ نفس نفیس وہاں سے گذررہے ہیں تو اپ��نے بیم��اروں اور لاچ��اروں تھ�۔ یہ لوگ سن کر کہ آاپ کے پاس لانے لگے ۔ چنانچہ انہوں نے ایک بہرے شخص ک� ش��فایاب� کے ل��ئے بھ� کو

�م مقدس میں یوں ارشاد ہے: آاپ سے درخواست ک� ۔ کلا "وہ اس کوبھ��یڑ میں س��ے ال��گ لے گی��ا اور اپ��ن� انگلی��اں اس کے ک��انوں میں ڈالیں اورآاہ بھری اور اس سے کہ��ا آاسمان ک� طرف نظر کرکے ایک تھوک کر اس ک� زبان چھوئ�۔ اور �ا فتح یعن� کھ جا ۔ اور اس کے کان کھ گ�ئے اور اس ک� زب�ان ک� گ�رہ کھ�� گ�ئ� اور وہ صاف بولنے لگا۔ اور اس نے ان کو حکم دیا کہ کس��� س��ے نہ کہن��ا لیکن جتن��ا وہ ان ک��وحکم دیتا رہا اتنا ہ� زیادہ وہ چرچا ک�رتے رہے۔ اور انہ�وں نے نہ�ایت ہ� ح�یران ہ��وکر کہ�ا ج�و کچھ اس نے کیا سب اچھ�ا کی�ا۔ وہ بہ��روں کوس�ننے ک� اور گونگ�وں ک�و بول�نے ک� ط�اقت دیت�ا ہے۔"

آایت ۷)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس، رکوع (۔۳۷تا ۳۳

آاپ ک� شفا بخش قدرت ک��و دیکھ چنانچہ اس میں حیران� ک� کوئ� بات نہیں کہ آاپہنچے۔انجی�� جلی�� میں اس کے ب��ارے آاپ کے پ��اس کر اور بھ� بہت س��ے مع��ذور اور اپ��اہج

میں یوں ارشاد ہے : "ایک بڑی بھیڑ لنگڑوں ، اندھوں ، گونگوں ، ٹنڈوں اور بہت سے اور بیماروں ک��و اپ��نےآائ� اور ان ک��و اس کے پ��اؤں میں ڈال دی��ا۔ اور اس نے انہیں اچھ��ا س��اتھ لے ک��ر اس کے پ��اس کردیا۔چنانچہ جب لوگوں نے دیکھا کہ گ��ونگے بول��تے، ٹن��ڈے تندرس��ت ہ��وتے اور لنگ��ڑے چل��تے

) انجی��پھ��رتے اور ان��دھے دیکھ��تے ہیں ت��و تعجب کی��ا اور اس��رائی کے خ��دا ک� تمجی��د ک� ۔"

آایت ۱۵شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع (۔۳۱ تا ۳۰

چارہزار مردوں کو کھانا کھلانای المس��یح کے گ��رد تین دن س��ے ای��ک ب��ڑی ایک پہاڑی پر نان بقا حضور سیدنا عیس���� ع��الیہ س��ے لگات��ار مس��تفیض ہ��ورہ� تھ�۔ اس سلس��لے میں آاپ کے ارش��ادات بھ��یڑجمع تھ� وہ

� جلی میں یوں مرقوم ہے: انجیآات��ا ہے کی��ونکہ " یسوع نے اپنے شاگردوں کو پاس بلا کر کہا مجھے اس بھیڑ پر ت��رس یہ لوگ تین دن س��ے براب��ر م��یرے س��اتھ ہیں اور ان کے پ��اس کھ��انے ک��و کچھ نہیں اورمیں ان ک��و بھوکا رخصت کرنا نہیں چاہتا ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ راہ میں تھ��ک ک�ر رہ ج�ائیں ۔ ش�اگردوں نے اس سے کہا بیابان میں ہم اتن� روٹیاں کہاں سے لائیں کہ ایس� بڑی بھیڑ کو سیر کریں۔ یسوعی�( نے ان س��ے کہ��ا تمہ��ارے پ�اس کت��ن� روٹی��اں ہیں؟ انہ��وں نے کہ��ا س��ات اور تھ��وڑی س��� )عیس

چھوٹ� مچھلیاں ہیں۔ ( روٹی���وں اور۷اس نے لوگ���وں ک���و حکم دی���ا کہ زمین پ���ر بیٹھ ج���ائیں۔ اور ان س���ات )

مچھلیوں کو لے کر شکر کیا اور انہیں توڑ کر شاگردوں کودیتا گیا اور ش��اگردوں لوگ��وں ک��و ۔ اور ( ٹ�وکرے اٹھ��ائے ۔ اور۷س�ب کھ��اکر س��یر ہوگ�ئے اور بچے ہ��وئے ٹک�ڑوں س�ے بھ��رے ہ��وئے س�ات )

کھانے والے سوا عورتوں اور بچوں کےچار ہزار مرد تھے۔ پھر وہ بھ��یڑ ک��و رخص��ت ک��رکے کش��ت�آاگی��ا۔" ت��ا۳۲آایت ۱۵) انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��ت� رک��وع میں سوار ہوا اور مگدن ک� س��رحدوں میں

(۔۳۹

آاپ�نے آای�ا اور ی� المس�یح ک�و بھ�یڑ پ�ر ت�ر س ایک دوس�را واقعہ تھ��ا جب حض�ور سیدناعیس�آاپ نے آادمی��وں س��ے جنہیں انہیں معج��زانہ ط��ورپر روٹ� سےس��یر کی��ا۔ یہ گ��روہ ان پ��انچ ہ��زار د کفرنحوم کے قریب روٹ� کھلائ� تھ� قطع� مختلف تھا۔ ان میں س��ے زی��ادہ ت��ر دکپلس یع��ن� "آاپ گلی�� دس ش��ہروں " کے باش��ندے تھے ۔ جن ک��ا ط��رز زن��دگ� بت پرس��توں جیس��اتھا۔ جب آاپ کے پیچھے ک� جھی کے مغرd ک� طرف مگدن )دلمنوتہ( کو تشریف لے گئے تو بھ��یڑ ت��و

آاپ سے بحث کرنے لگے ۔ اس بات ک� تصدیق میں آاکر نہ گئ� لیکن جھی کے پار فریس� آاپ سے کوئ� معجزہ طلب کیا۔ � موعود ہیں انہوں نے آاپ مسیح

اس زم���انہ میں فریس���� بیم���اروں اور غریب���وں ک� م���دد ک���رنے ک� بج���ائے م���ذہب� بحث وتمحیص میں زی��ادہ دلچس��پ� رکھ��تے تھے۔ مق��ام افس��وس ہے کہ ف� زم��انہ بھ� متع��دد اش��خاص دکھی���وں اور غریب���وں ک� م���دد ک� بج���ائے م���ذہب� بحث وتک���رار میں لگے رہ���تے ہیں۔ حض���وری� المسیح ک� بیماروں اور ضرورت مندوں کے لئے گہری محبت کوئ� کم نشان تھ��ا! سیدناعیس آاپ بیشمار لوگوں ک� مدد اور حاجت روائ� کررہے تھے۔ جبکہ فریس� اپنے لم�بے لم�بے چوغ�وںآاپ کے ک��ام میں رک��اوٹ ڈال رہےتھے۔ وہ آاپ ک��و گھ��یر ک��ر بحث ومب��احثہ ک��رکے میں ملب��وس کس��� ک� تکلی��ف ک��و دور ک��رنے کے ل��ئے انگل� ت��ک ہلانے ک��و تی��ار نہ تھے ، فریس��یوں ک��ا یہ

آاہ بھر کر فرمایا: آاپ نے آاواز رویہ دیکھ کر دلا " اس زم��انہ کے ل��وگ کی��وں نش��ان طلب ک��رتے ہیں؟ ۔۔۔اور وہ ان ک��و چھ��وڑ ک��ر پھ��ر

کشت� میں بیٹھا اور پار چلا گیا ۔"آاپ صیدا ک� طرف روانہ ہوئے ۔

" اور وہ )حواریئن( روٹ� لین��ا بھ��ول گ��ئے تھے اور کش��ت� میں ان کے پ��اس ای��ک س��ے زی��ادہ روٹ� نہ تھ�۔ اور اس نے ان ک��و یہ حکم دی��ا کہ خ��بردار ، فریس��یوں کے خم��یر اور ہ��یرودیسآاپس میں چرچا کرنے او رکہنے لگے کہ ہمارے پ��ا س روٹ� نہیں۔" کے خمیر سے ہوشیار رہنا ۔وہ

آایت ۸)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع (۔۱۶ تا ۱۲

حواریوں کے ذہن میں روٹ� کے خمیر کا نقشہ جما ہوا تھا۔ لیکن فریس��یوں اور ہ��یرودیسی� المسیح پر بطور نجات دہندہ ایمان نہ لان��ا ہے۔ کے " خمیر سے مراد" ان کا حضور سیدناعیسآاپ نے دکھ��ائے وہ ح��ق کے متلاش��یوں کے ل��ئے وک��اف� تھے۔ لیکن ج��و نش��انات اور معج��زات دلوں ک� سخت� کے باعث عوام ک� روحان� بصارت جات� رہ� تھ�۔ یہاں ت��ک خط��رہ تھ��ا کہآاپ نے خم��یر کے مطلب ک� ی��وں آاپ کے حواری بھ� شک وشبہ میں پڑ جائیں۔ چنانچہ کہیں

وضاحت فرمائ�:

" تم کی��وں چرچ��ا ک��رتے ہ��و کہ ہم��ارے پ��اس روٹ� نہیں؟ کی��ا اd ت��ک نہیں ج��انتے اورآانکھیں ہیں اور تم دیکھ��تے نہیں؟ ک�ان ہیں اور نہیں سمجھتے ؟ کیا تمہارا دل سخت ہوگی��ا ہے؟ س��نتے نہیں؟ او رکی��ا تم ک��و ی��اد نہیں ؟ جس وقت میں نے وہ پ��انچ روٹی��اں پ��انچ ہ��زار کے ل��ئے توڑیں تو تم نے کتن� ٹوکریاں ٹک�ڑوں س�ے بھ��ری ہ��وئ� اٹھ��ائیں؟ انہ��وں نے اس س��ے کہ�ا ب�ارہ ، او رجس وقت سات روٹیاں چار ہزار کے لئے ت�وڑیں ت�و تم نے کت��نے ٹ�وکرے ٹک�ڑوں س�ے بھ��رے ہ��وئےاٹھائے ؟ انہوں نے ا س سے کہا سات ۔ اس نے ان سے کہا کی��ا تم اd ت��ک نہیں س��مجھتے ؟

آایات (۔۲۱ تا ۱۷)

بینائ� ک� بحال�آاپ کے آادم� ی� المسیح بیت صیدا پہنچے تو چن��د � عالم حضور سیدناعیس جب شاف�آاپ � چش��م عط��ا فرم��ائیں ۔ آاپ اسے بص��ارت پاس ایک اندھے کو لاکر درخواست کرنے لگے کہ اندھے کا ہاتھ پکڑ کر اسے گاؤں سے ب��اہر لے گ��ئے۔ پھ��ر اپ��ن� تھ��وک میں م��ٹ� گیل� ک��رکے اس

آانکھوں پرلگائ� اور ہاتھ اس پر رکھ کر پوچھا" کیا تو کچھ دیکھتا ہے؟" ک� آادمیوں کودیکھتا ہوں کیونکہ وہ مجھے چل��تے ہ��وئے آادم� نے نظر اٹھاکر کہا " میں اس

ایسے دکھائ� دیتے ہیں جیسے درخت ۔"آانکھوں پرہاتھ رکھے اور اس ک� بص��ارت بح��ال ہوگ��ئ� آاپ نے ایک مرتبہ پھر اس ک�

آاپ نے رخصت کرتے وقت اسے تاکید ک� کہ آانے لگیں۔ یہاں تک کہ سب چیزیں صاف نظرآایت ۸)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رک��وع "اس گا ؤں کے اندر قدم بھ� نہ رکھنا۔" تا۲۲

(۔۲۶

ی� المس��یح اپ��نے حواری�وں س��میت ش�مال میں قیص��ریہ فل�پ� کے قص��بے حضور سیدناعیسآاگے ب��ڑھے۔ یہ علاقہ ب��ڑی ت��اریخ� اہمیت ک��ا حام�� ہے کی��ونکہ یہ��اں س��ے ہ� حض��ور ک� طرف آاغ��از کی��ا تھ��ا۔ان آاخ��ری چھ م��اہ ک� ت��دریس ک��ا ی� المسیح نے اپ��ن� زمین زن��دگ� کے سیدناعیس آاخری چھ ماہ کے حالات کا بیان انجی جلی�� میں تفص��ی س��ے ہ��وا ہے ۔ لہ��ذا اس ک��ا مط��العہ

اا زیادہ گہرائ� سے کرنا چاہیے۔ درحقیقت انجی جلی کا تمام تر زور انہ� چھ مہین��وں کے نسبتفرمودات پر ہے۔

قیصریہ فلپ� میں حواریوں سے سوالی� المس��یح قیصریہ فلپ� کے قصبے ک� طرف تشریف لے جاتے ہوئے حض��ور سیدناعیس��

نے اپنے حواریوں سے یہ سوال کیا۔ " ل��وگ مجھے کی��ا کہ��تے ہیں ؟ انہ��وں نے ج��واd دی��ا کہ یوحن��ا بپتس��مہ دی��نے والا اور بعض ایلی�اہ)الی�اس( اوربعض ن�بیوں میں س�ے ک�وئ� ۔ اس نے ان س�ے پوچھ�ا لیکن تم مجھے کی��ا کہتے ہو؟ پطرس نے جواd میں اس سے کہا تو مس��یح ہے۔ پھ��ر اس نے ان ک��و تاکی��د ک� م��یری

(۔۳۰تا ۲۷آایت ۸)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع بابت کس� سے نہ کہنا ۔"

آاپ کے بارے میں اپن� گہری یوں حضرت پطرس نے تمام حواریوں کے نمائندہ بن کر آاپ کے ساتھ ساتھ رہے تھے۔ اس اثن��ا میں اا ڈھائ� سال سے قائلیت کا اظہار کیا۔ حوارئین قریب� پ��اک س��ے پھوٹ��ت� ہ��وئ� محبت ک��ا مش��اہدہ غریبوں ، دکھیوں، اور حاجتمن��دوں کے ل��ئے س��یرتآاپ ہ� مس��یح موع��ود ہیں۔ اس س��ے پیش��تر بھ� کرکرکے وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ بلاش��بہ اس حقیقت ک� چم��ک ان پ��ر اور دوس��روں پرگ��ا ہے گ��اہے پ��ڑت� رہ��ت� تھ�۔ وہ حض��رت یوحن��اآاپ ہ� ہیں۔ لیکن آانے والے " ی� ن���ب�( ک� زب���ان� بھ� س���ن چکے تھے کہ " اص���طباغ� )یح���ی حتم� نتیجہ پر وہ اd ہ� پہنچے تھے کہ اس سوال کا ج�واd ب�ڑے اعتم�اد اور یقین کے س�اتھ دے س��کیں۔ ت�اہم اپ��نے اس اق��رار ک�ا پ�ورا مطلب س�مجھنے س��ے وہ ابھ� ت�ک قاص�ر رہے تھے۔

ابھ� انہیں اوربہت کچھ سیکھنا باق� تھا۔ی� المس��یح نے ب��ڑے ص��بر کے س��اتھ اپ��نے ب��ارہ حواری��وں ک��و بتای��ا اd حض��ور سیدناعیس��

� مقدس میں مرقوم ہے ۔ المسیح سے کیا مراد ہے۔ کلام

آادم بہت دکھ اٹھ��ائے اورب��زرگ اور " پھر وہ ان کو تعلیم دینے لگ��ا کہ ض��رور ہے کہ ابن سردار کاہن )امام اعظم( اور فقیہہ اسے رد کریں اور وہ قت کی��ا ج��ائے ۔ اور تین دن کے بع��د ج�

اٹھے اور اس نے یہ بات صاف صاف کہ� ۔ " پطرس اسےالگ لے جاکر ملامت کرنے لگا ۔ مگر اس نے مڑ ک�ر اپ�نے ش��اگردوں پ��ر نگاہ کرکے پطرس کو ملامت ک� او رکہا اے شیطان ، میرے سامنے سے دور ہو کیونکہ ت��و خ��دا

آادمیوں ک� باتوں ک�ا خی�ال رکھت��اہے ۔" ) انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��رقسک� باتوں کا نہیں بلکہ

آایت ۸رکوع (۔۳۳تا ۳۱

ی� المس��یح حض��رت پط��رس اور ان کےس��اتھ� یہ س��مجھتے تھے کہ حض��ور سیدناعیس�� جیسے پاک باطن اور معصوم نب� کا قت کی��ا جان��ا ب��ڑی ذلت ک� ب��ات ہے۔ح��الانکہ انہیں معل��ومی� کے ک��ئ� ن��ب� اس��� ل��ئے قت�� ہ��وئے کہ وہ دنی��ا داروں س��ے تھاکہ زمانہ س�ابق میں بھ� خ��دا تع��الی� ع��وام کے س��امنے پیش ک��رتے تھے۔ �م الہ سمجھوتہ کرنے سے انکار کرکے بڑی دل��یر ی س��ے پی��ای� نب� کا بھ� تھوڑا ہ� عرصہ پہلے اس� بنا پر سر قلم کردی��ا گی��ا تھ��ا۔ اور جب کہ حضرت یحیی� ک� راہ میں شہید ہون��ا ف� زمانہ لفظ " شہید " ک� بڑی قدرومنزلت ہے تو المسیح کا خدا تعال

کیوں بے عزت� کا باعث سمجھا جاتا ہے؟dا�ر کت��نظ � ی� المسیح کے مصلوd ہونے کے بھی�د ک� وض�احت زی�ر حضور سیدناعیسآایت میں � مط��العہ آاپ نے یہ زي�ر آاخر میں ک� جائے گ�۔ ف� الحال یہ� بتانا مطل�وd ہے کہ کے �ل پ��اک ک��ا مردوں میں سے ج� اٹھ کر موت پر فتح حاص کرنے کے سلسلے ہ� میں اپنے وص��اآایا۔ حواریئن اس راز کو سمجھنے سے بالک�� قاص��ر ذکر فرمایا۔ تاوقتیکہ یہ سچ مچ وقوع میں نہ آاپ ک� یہ بات سن کر وہ صرف اس� فکر میں رہے کہ کس� ط��رح س��ے وہ اپ��نے اس��تاد رہے۔

کو یوحنا اصطباغ� ک� س� شہاد ت سے بچائيں۔�ل خ�ام ک� اص�لاح ک�رن� پ�ڑی کہ خ�دا ی� المسیح کو ان ک� اس خیا حضور سیدناعیسآاپ ک��و ی� کے خ�ادم کے ل��ئے م�وت بے ع��زت� ک��ا ب�اعث ہے۔ حض��رت پط��رس کے اق��رار اور تعال

آاپ نے اپنے حواریوں اور ہجوم کو پ��اس خطرہ کا سامنا کرنےسے باز رکھنے ک� کوشش کے بعد، بلاکر فرمایا:

آان�ا چ�اہے ت�و اپ�ن� خ��ود س��ے انک�ار ک�رے اور اپ�ن� ص�لیب " اگر ک�وئ� م�یرے پیچھے اٹھائے اورمیرے پیچھے ہولے۔ کیونکہ جو کوئ� اپن� جان بچانا چاہے وہ اسے کھوئے گا اور جوآادم� اگر ساری دنی��ا کوئ� میری اور انجی ک� خاطر اپن� جان کھوئے گا وہ اسے بچائے گا۔ اور آادم� اپ�ن� ج�ان کے کو حاص کرلے اور اپن� جان کا نقصان اٹھائے تو اسے کی�ا فائ�دہ ہوگ�ا؟ اور بدلے کیا دے ؟ کیونکہ جوکوئ� اس زناکار اور خطاکار قو م میں سے اورمیری ب��اتوں س��ے ش��رآائیگ��ا ت��و اس س�ے آادم بھ� جب اپ��نے ب��اپ کے جلال میں پ�اک فرش��توں کے س�اتھ مائے گ��ا ابن

آایت ۸)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس، رکوع شرمائے گا۔" (۔۳۸ تا ۳۴

ی� کے ی� المس��یح یہ ارش��اد فرم��اتے ہیں کے ب��اری تع��ال اس بی��ان میں حض��ور سیدناعیس�� مخلص متلاش� اور پرستار ک��و ح��ق پس��ندی ک� کی��ا قیمت ادا ک��رن� پ��ڑے گ�۔ ممکن ہے کہ اس��ے یہ قیمت خان��دان، رش��تہ داروں اور دوس��توں کے مق��اطع ک� ص��ورت میں ادا ک��رن� پ��ڑے ی��اآاپ ملازمت سے ہاتھ دھوکر سماج� اور اقتصادی مشکلات کاسامنا کرنے میں یہ� قیمت آاج بھ� ادا ک��رن� ک� تعلیمات ک� پیروی کرنے والے ہزاروں اشخاص کو متعدد ممال��ک میں آاپ کے ارشاد مبارک کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئ� ف� زمانہ ان کا پیروک��ار ہ��ونے س��ے پڑرہ� ہے ۔ آاخر ت میں اس ک� ش�فاعت س�ے انک�ار �ز ی� المسیح رو � محشر حضور سیدناعیس شرمائے تو شفیع

فرمائیں گے ۔

ی� اور حضرت ایلیاہ )الیاس( سے ملاقات حضرت موسی� المس��یح اd اپ��نے حواری��وں ک��و نادی��دن� جہ��ان ک� حقیقت اور حض��ور سیدناعیس�� وسعت سے روشناس ک�رانے کے ل�ئے حض��رت پط��رس، یوحن�ا اور یعق��وd ک��و ہم�راہ لے ک�ر ای�ک

� حرمون( ک� چوٹ� پر تشریف لے جاتے ہیں۔ اا کوہ پہاڑ )غالب� مقدس میں ارشاد ہے کہ کلام

ی�( نے پطرس اور یعقوd یوحناکو ہمراہ لیا اور ان کو ال��گ چھ دن کے بعد یسوع )عیس ایک اونچے پہاڑ پر تنہائ� میں لے گیا اور ان کے سامنے اس ک� صورت بدل گئ� ۔ اوراس ک� پوش��اک ایس��� ن��وران� اورنہ��ایت س��فید ہوگ��ئ� کہ دنی��ا میں ک��وئ� دھ��وب� ویس��� س��فید نہیں

(۔۳تا۲آایت ۹)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس ، رکوع کرسکتا۔"

ی� اور ایلی��اہ اس س��ے ب��اتیں ک��ررہے تھے۔یہ جلال میں "اور دیکھو دو شخص یع��ن� موس�� ۔)انجی�� ش��ریفدکھائ� دئے اور اس کے انتقال کاذکر کرتے تھے جو یروشلیم میں واقع ہ�ونے ک�و تھا

آایت ۹بہ مطابق لوقا رکوع (۔۳۱ تا ۳۰

یہ دنی��ا ک� ت��اریخ میں ان مع��دودے چن��د واقع��ات میں س��ے ای�ک ہے جبکہ انبی��اء اپ��ن�ی� نہ��ایت مع��روف ن�ب� ہیں۔ � ارض پر تشریف لائے ۔ حضرت موس� موت کے بعد سچ مچ اس کرہی� نے اپ��ن� امت ک��و ش��ریعت )ت��وریت ش��ریف ( دی تھ�۔ حض��ر ت ان ک� مع��رفت خ��دا تع��الآاس��مان پ��ر اٹھ��ا لی��ا گی��ا تھ��ا۔ ان دون��وں ایلی��اہ)الی��اس( نے م��وت ک��امزہ نہ چکھ��ا بلکہ انہیں زن��دہ

آایا ہے � مقدس میں ذکر dشریف ،خروج اور واقعات کاکتا حضرت)۔۲ سلاطین ابواd او(۳دیکھئے بائب� ب�الا پ��ر رحلت فرم�ا گ��ئے ی� اور حض��رت ایلی��اہ ک��ا ف� عرص��ہ پہلے دنی��ا ئے ف��ان� س�ے ع��الم موسی� ک� تج��ویز کے متعل��ق علم رکھ��تے تھے۔ تھے۔ اور مس��یح موع��ود کے ب��ارے میں ح��ق تع��الآاپ یہ�ودی راہنم�اؤں ی� المس�یح ک� حوص�لہ اف��زائ� ک�رتے تھے ت�اکہ چنانچہ وہ حضور سیدناعیس

اور روم� حکومت ک� مخالفت کا مقابلہ کرسکیں۔ی� اور حض��رت ایلی��اہ کے س��اتھ مص��روف تکلم تھے ت��و ح��وارئین چن��انچہ حض��رت موس�� پطرس، یعقوd اور یوحنا اس جلال� منظر کا بڑے خوف اور حیران� سے مشاہدہ کررہے تھے۔ اس

سے پیشتر انہوں نے نادیدن� جہان کا نظارہ اتنے قریب سے کبھ� نہیں کیا تھا۔چنانچہ حضرت پطرس بے ساختہ بول اٹھے۔

ی� " رب� ہمارا یہاں رہنا اچھا ہے۔پس ہم تین ڈیرے بنائیں ۔ ایک ت�یرے ل�ئے۔ ای�ک موس�� کے ل��ئے ۔ ای�ک ایلی��اہ کے ل��ئے ۔ کی��ونکہ وہ جانت��ا نہ تھ��ا کہ کی��ا ج��واd دے اس ل��ئے وہ بہت

آائ� کہ م��یرا پی��ارا بیٹا آاواز ہے۔*1ڈرگئے تھے۔پھر ایک بادل نے ان پر سایہ کرلیا اور اس ب��ادل س��ے (۔۷تا ۵آایت ۹)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع اس ک� سنو "

(۔۷ پر نوٹ نمبر ۲۹۴ صفحہ نمبر *1

آاک�ر ی�( نے پ�اس " شاگرد یہ سن ک�ر منہ کے ب� گ�رے اور بہت ہ� ڈرے۔ یس�وع)عیس�آانکھیں اٹھائیں تو ای��ک یس��وع کے س��وا انہیں چھوا او رکہا اٹھو، ڈرومت ، جب انہوں نے اپن�

آایت ۱۷)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع کس� نہ دیکھا۔" (۔۸ تا ۶

آادم م��ردوں " جب وہ پہاڑ سے اترتے تھے تو اس نے ان کو حکم دی��ا کہ جب ت��ک ابن میں س�ے نہ ج� اٹھے ج�و کچھ تم نے دیکھ�ا ہے کس�� نہ کہن�ا۔ انہ�وں نے اس کلام ک�و ی�ادر

آاپس میں بحث کرتے تھے کہ مردوں میں سے ج� اٹھنے کے کی��ا مع��ن� ہیں؟" )انجی��کھا اور وہ

(۔۱۱تا۹آایت ۹شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع

آاس��مان� تج��ربہ کے بع��د پہ��اڑ پ��ر س��ے اترک��ر ان ب��اق� حواری��وں کے پ��اس آاپ اس جب آا پ کا ای�ک م�رگ� کے م�ریض س�ے آاپ پہاڑ کے دامن میں چھوڑ گئے تھے تو پہنچے ، جنہیں

سابقہ پڑا۔

مرگ� کا مریضآاگے آای��ا اور اس کے آادم� اس کے پ��اس " جب وہ بھ��یڑ کے پ��اس پہنچے ت��و ای��ک آات� گھٹنے ٹیک کر کہنے لگ��ا۔ اے خداون��د ، م�یرے بی��ٹے پ��ر رحم ک��ر کی��ونکہ اس ک�و م��رگ� آاگ میں گ��ر پڑت��ا ہے اور اک��ثر پ��ان� میں بھ�۔اور ہے۔ اور وہ بہت دکھ اٹھاتا ہے اس لئے کہ اکثر ی�( نے میں اس کو تیرے شاگردوں کے پاس لایا تھا مگر وہ اسے اچھا نہ کرس�کے ۔ یس�وع )عیس� ج��واd میں اے بے اعتق���اد او رکجرونس�� میں کب ت��ک تمہ��ارے س��اتھ رہونگ��ا؟ کب ت��کی�( نے اس��ے جھڑک��ا اورب��دروح تمہاری برداشت کرونگا؟ اسے یہاں میرے پاس لاؤ۔ یسوع )عیس��آاک�ر اس سے نک گئ�۔ اور وہ لڑکا اس� گھڑی اچھا ہوگیا۔ تب شاگردوں نے یسوع کے پ�اس خلوت میں کہا ہم اس کو کی��وں نہ نک��ال س��کے ؟ اس نے ان س��ے کہ��ا اپ��نے ایم��ان ک� کم�

کے سبب سے کیونکہ میں تم سے سچ کہت��ا ہ��وں کہ اگ��ر تم میں رائ� کے دانے کے براب��ر بھ� ایمان ہوگا تو اس پہاڑ سے کہہ سکوگے کہ یہاں سے سرک کر وہاں چلا جا اور وہ چلا جائے گا

آایت ۱۷)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��ت� رک��وع او رکوئ� بات تمہارے ل�ئے ن�ا ممکن نہ ہ��وگ�۔" ت��ا۱۴

(۔۲۰

اس واقعہ کے بعد ۔ "پھروہا ں سے روانہ ہوئے اور گلی سے ہوکر گزرے اور وہ نہ چاہتا تھاکہ ک��وئ� ج�انے ۔آادمیوں کے حوالہ کیا آادم اس لئے وہ اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتا تھا اور ان سے کہتا تھا کہ ابن جائے گ��ا اور وہ اس��ے قت�� ک��ریں گے اور وہ قت�� ہ��ونے کے تین دن بع��د ج� اٹھے گ�ا ۔ لیکن وہ

)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رتاس بات کو سمجھتے نہ تھے اوراس س�ے پوچھ�تے ہ�وئے ڈرتے تھے۔"

آایت ۹مرقس رکوع (۔۳۲ تا ۳۰

آاگ��اہ فرم��اتے ی� المسیح باربار حواریوں کو اپن� قریب الوقوع موت سے حضور سیدناعیس رہے ۔ لیکن ان کے دل ودم��اغ پ��ر بچپن ک� تعلیم او ر وہ خی��الات ح��اوی تھے جن ک��ا چرچ��اآا پ جیس�ے خ��دار گل� کوچوں میں ہورہا تھ��ا۔ وہ اس ب�ات ک��و ن��ا ممکن تص�ور ک��رتے تھے کہ آاپ کے " تین دن کے بعد مردوں میں سے ج� اٹھنے " کے سیدہ نب� کو قت کردیا جائے ۔ وہ �م افسوس ہے کہ ف� زمانہ بھ� بہت سے حضرات کا بھید کو بھ� سمجھنے سے قاصرر ہے۔مقا تعصب سچائ� ک� تحقیق وتفتیش میں مخ ہوتا ہے۔ وہ تاریخ� حقائق ک� نظر غ��ائر س��ے چھان بین کرنے ک� بجائے لکیر کے فقیربن ک�ر طوط�وں ک� ط��رح دوس�روں ک� ب�اتوں ک�و دہ�راتے

رہتے ہیں۔

حواریوں میں " بڑا ہونے " ک� بابت بحثی� المسیح ح�واریئن س�میت جن�وd میں کف��ر نح��وم ک� ط�ر ف اd حضور سیدناعیسآاپ نے اختیار فرمایا وہ عام طور پ�ر گ�دھوں اور خچ�روں کے اس�تعمال تشریف فرما ہوئے ۔جو راستہ آاگاہ تھے کہ آاگے چلتے ہوئے اس امر سے بخوب� آاپ اپنے حواریوں سے چند گز آاتا تھا۔ میں بھ�

آاواز میں کس ب��ات پ��ر بحث ہ��ورہ� ہے۔ چن��انچہ انجی�� ش��ریف پیچھے ان میں دھیم� دھیم� میں اس کے متعلق یوں ارشاد ہے:

آائے اور جب وہ گھ��ر میں تھ��ا ت��و اس نے ان س��ے پوچھ��ا کہ تم "پھر وہ کفر نحوم میں راہ میں کیا بحث کرتے تھے؟ وہ چپ رہے کیونکہ انہ��وں نے راہ میں ای�ک دوس��رے س��ے یہ بحث ک� تھ� کہ بڑا کون ہے؟پھر اس نے بیٹھ کر ان بارہ کو بلایا اور ان سے کہ�ا کہ اگ�ر ک�وئ� اول

آایت۹)انجی ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��رقس رک��وع ہونا چاہے تو سب کا پچھلا اور سب کا خادم بنے ۔"

(۔۳۵تا ۳۳

بچوں کے بارے میں ارشاد آاپ نے ایک بچے کو ان کے درمیان کھڑا کرکے ارشاد فرمایا: پھر

" جو کوئ� میرے نام پر ایسے بچوں میں سے ای�ک ک��و قب��ول کرت��ا ہے وہ مجھے قب��ول کرت�ا ہے اور جوک��وئ� مجھے قب��ول کرت�ا ہے وہ مجھے نہیں بلکہ اس�ے جس نے مجھے بھیج�ا ہے

آایت ۹)انجی شریف بہ مطابق حضرت ، مرقس رکوع قبول کرتاہے ۔ (۔۳۷

ی� المس�یح کے س�چے پیروک��اروں ک� خصوص�یات قی�ادت پس�ندی حضور سیدناعیس ک� بج��ائے حلیم� ہ��وگ�۔ دل ک� حلیم� اور فروت��ن� جیس��� روح��ان� نعمت��وں ک��و حاص�� کرنا ، نہایت مشک ہے ۔ بعض اشخاص گفت�ار میں ب�ڑی انکس�اری ک�ا مظ�اہرہ ت�و ک�رتے ہیںآاپ م��یرے غ��ریب خ��انہ پ��ر اا ک��وئ� کہت��ا ہے " اگ��ر مگ��ر یہ محض دکھ��اوے ک� ہ��وت� ہے۔ مثل تشریف لائیں تو عین نوازش ہوگ�" لیکن بجائے غریب خانہ کے وہ ای��ک ع��ال� ش��ان مک��ان میںآاپ ک��ا خ��ادم ہ��وں۔" لیکن خ��دمت رہت��ا ہے۔ اس��� ط��رح دوس��را کہت��ا ہے کہ "حض��ور میں ت��و � پا ہ��وں" لیکن دل اس آاپ ک� خاک کرنیکا کبھ� نام تک نہیں لیا۔ تیسرا کہتا ہے کہ "میں تو � ی� المسیح اپنے حوارئین کے خلوص کا تو غرور ک� وجہ سے عرش پر ہے۔ حضور سیدناعیسی سے ک��ام آاپ نے چھوٹے بچوں ک� نگران� کے ادنے خدمت کو پرکھنا چاہتے تھے اس لئے کو ان کے سپرد کیا ہے۔ چھوٹے بچوں ک� دلجمع� سے خبر گیری ک��رنے کے ل��ئے تی��ار ہون��ا

ی� کے خدمت کرنا ہے۔ گویا خدا تعال

ی� المسیح کے ایک ماں جائے بھائ� )اخی��اف�( حض��رت یعق��وd نے حضور سیدناعیسآاپ کے پیروکاروں کے نام ایک خط میں یو ں تحریر فرمایا: آاپ پر ایمان لانے کے بعد

" ہمارے خدا اورباپ کے نزدیک خالص اور بے عیب دین��داری یہ ہے کہ ی��تیموں اور� حضرت یعقوd رکوع بیواؤں ک� مصیبت کے وقت ا ن ک� خبرلیں " آایت ۱)انجی شریف خط (۔۲۷

آاپ ک� اس ہدایت پر عم کرنے کے لئے ازبس کوشاں رہے المسیح کے سچے پیروکار ہیں۔ انہو ں نے جا بجا ی�تیم خ�انے اور درس�گاہیں ق�ائم کیں۔ جہ�اں وہ خ�دائے واح�د پ�ر ایم�ان، اچھے اخلاق اور نی�ک چ�ال چلن ک� ت�دریس پ�ر زور دی�تے رہے ہیں۔ ہم�ارے بیش�تر ق�ارئین ک�رام

بھ� ان درسگاہوں سے فیض یاd ہوچکے ہونگے۔ی� المس��یح نے اپ��نے ح��وارئین ک��و بچے ک� فروت��ن� � عالمین حضور سیدناعیس رحمت

آاپ نے ایک بچے کو ان کے درمیان کھڑا کرتے ہوئے فرمایا: کا ایک اورپہلو بھ� بتایا ۔ آاسمان ک� " میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم نہ پھرو اور بچوں ک� مانند نہ بنو تو آاپ ک��و اس بچے ک� مانن��د چھوٹ��ا بن��ائے بادشاہ� میں ہر گز داخ نہ ہوگے۔ پس جو کوئ� اپنے

آاسمان ک� بادشاہ� میں بڑا ہوگا۔" آایت ۱۸)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع گا وہ� (۔۴ تا ۳

بچے ک� ایک نمایاں خصوصیت یہ ہ��وت� ہے کہ وہ اپ�نے وال�دین پ�ر پ�ورا بھروس�ہ رکھت�ا ہے۔ خاص طور پر جب والدین شفیق اورنیک ہوں۔ بع��د ازاں س��ن بل��وغت میں ج��و تب��اہ کن منآانحض��ور یہ��اں جس م��ان� اور خ��ود پس��ندی پی��دا ہ��وت� ہے۔ وہ ابلیس ک� خص��لت ہے ۔ لیکن ی� فروتن� کے بارے میں بیان فرمارہے ہیں وہ اس کے قطع� ب��رعکس ہے۔ جہ��اں ت��ک خ��دا تع��الآاسمان� بادشاہ� میں داخ ہ��ونے ک��ا تعل��ق ہے وہ��اں دل ک� فروت��ن� اور اس پ��ر توک�� بنی��ادی ک�

شرائط ہیں۔ی� المسیح مزید متنبہ فرماتے ہیں کہ حضور سیدناعیس

" خبردار ان چھوٹوں میں سے کس� کو ناچیز نہ جاننا کیونکہ میں تم سے کہتاہوں کہآاسمان� ب��اپ ک�امنہ ہ��روقت دیکھ��تے ہیں ۔" )انجی�� ش��ریف بہ مط��ابقآاسمان پر ان کے فرشتے میرے

(۔۱۰آایت ۱۸حضرت مت� رکوع

" لیکن جو ک��وئ� ان چھوٹ��وں میں س�ے ج��و مجھ پ�ر ایم�ان لائے ہیں کس�� ک��و ٹھ��وکر کھلاتا ہے اس کے لئے یہ بہتر ہے کہ بڑی چک� کا پاٹ اس کے گلے میں لٹکایا ج��ائے اور وہ

آایت گہرے سمندر میں ڈبو دیا جائے ۔" (۔۶)

اس� قسم کاایک اور واقعہ انجی جلی میں یوں مندر ہے : " اس وقت لو گ بچوں کو اس کے پاس لائے تاکہ وہ ان پ��ر ہ��اتھ رکھے اور دع��ادے۔آانے دو اور ی�( نے کہا بچ��وں ک��و م��یرے پ��اس مگر شاگردوں نے انہیں جھڑکا ۔ لیکن یسوع )عیسآاس��مان ک� بادش��اہ� ایس��وں ہ� ک� ہے ۔ او روہ ان پ��ر ہ��اتھ رکھ ک��ر انہیں من��ع نہ ک��رو کی��ونکہ

آایت ۱۹۔") انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع ) انہیں برکت بخش ( وہا ں سے چلا گیا (۔۱۵تا ۱۳

ی� کے دل میں بچوں کے ل��ئے خ��اص محبت اور فک��ر من��دی ہے۔ کلمتہ الل��ه خداتعال نے اس موضوع کو جو کہ حواریوں ک� اس تکرار کے باعث شروع ہوا تھا ان میں ب�ڑا ک�ون ہے

۔ ان الفاظ سے ختم فرمایا:آاسمان� باپ یہ نہیں چاہت��ا کہ ان چھوٹ��وں میں س��ے ای��ک بھ�*1 " اس� طرح تمہارا

آایت ۱۸) انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع ہلاک ہو۔" (۔۱۴

ملاحظہ فرمائیے۔۳ پر نوٹ نمبر ۲۹۲ صفحہ نمبر *۔1

ی� المسیح کا حام� اور مخالف حضور سیدناعیس کفر نحوم کے سفر کے دوران ایک اور واقعہ بحث کا باعث بن گیا۔ انجی جلی میں

اس کا ذکر یوں ہوا ہے: "یوحنا نے اس سے کہا اے استاد ، ہم نے ای��ک ش��خص ک�و ت�یرے ن�ام س��ے ب��دروحوں کو نکالتے دیکھا اور ہم اسے منع کرنے لگے کیونکہ وہ ہماری پیروی نہیں کرت�ا تھ�ا۔ لیکن یس�وعی�( نے کہا اسے منع نہ کرنا کیونکہ ایسا کوئ� نہیں جو م��یرے ن��ام س��ے معج��زے دکھ��ائے )عیس اور مجھے جلد برا کہہ سکے ۔ کی��ونکہ ج��و ہم��ارے خلاف نہیں وہ ہم��اری ط��رف ہے۔ اور ج��و

کوئ� ایک پیالہ پان� تم کو اس لئے پلائے کہ تم مسیح کے ہ��و، میں تم س��ے س�چ کہت��ا ہ�وں کہآایت ۹)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع وہ اپنا اجر ہرگز نہ کھوئے گا۔ (۔۴۱تا ۳۸

ی� المس��یح نے ارش��اد فرمای��اکہ گ��و بعض ل��وگ � انس��انیت حض��ور سیدناعیس�� محس��نآاپ کے پیروکاروں میں شام تو نہیں ہ��وتے لیکن اپ��نے ک��ردار کے س��بب س��ے وہ درحقیقت علانیہ آاپنے ایسے مخلص لوگوں ک� مخالفت ک�رنے س�ے من��ع فرمای�ا ہے ۔اس قس�م آاپ ک� طرف ہیں۔ کا رویہ سادہ ل��وح موم�نین کے ایم��ان میں الجھن ڈال ک��ر ان کے ل��ئے ٹھ��وکر ک�ا ب��اعث بن س��کتا

ہے۔

آاسمان ک� بادشاہ� میں شریک ہونے کے لئےسخت جدوجہد ک� ضرورت ہے ۔

چونکہ خدا ک� بادش�اہ� میں ش�ریک ہون�ا انس�ان ک�ا اہم ت�رین ق�دم ہے۔اس ل�ئے کس�� قیمت پ��ر بھ� اس س��ے غاف�� رہن��ا نہیں چ��اہیے۔ او رنہ کس��� ک��و یہ اہم ق��دم اٹھ��انے س��ے روکن��ا

آاپ نے فرمایا : چاہیے۔ چنانچہ " اگر تیرا ہاتھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اسے کاٹ ڈال۔ ٹنڈا ہوکر زندگ� میں داخ ہوناآاگ میں ج��ائے ج��و کبھ� تیرے لئے اس سے بہتر ہے کہ دو ہ��اتھ ہ��وتے ہ��وئے جہنم کے بیچ اس آاگ نہیں بجھت� (۔اور اگرت�یرا پ�اؤں تجھے ٹھ��وکر بجھنے ک� نہیں۔)جہاں ان کا کیڑا نہیں مرتا اور کھلائے تو اسے کاٹ ڈال ۔ لنگڑا ہوکر زندگ� میں داخ ہونا تیرے لئے اس س��ے بہ��تر ہے کہآاگ نہیں بجھت� (۔ اور اگر دو پاؤں ہوتے جہنم میں ڈالا جائے ۔)جہاں ان کا کیڑا نہیں مرتا اور آانکھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اسے نک��ال ڈال ۔ کان��ا ہ��وکر خ��دا ک� بادش��اہ� میں داخ�� تیری آانکھیں ہ��وتے جہنم میں ڈالا ج��ائے ۔ جہ��اں ان ک��ا ک��یڑا ہونا تیرے لئے اس سے بہ��تر ہے کہ دو

آاگ نہیں بجھت� " (۔۴۸ تا ۴۳آایت ۹) انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع انہیں مرتا ۔اور

یروشلیم میں خفیہ داخلہ

� معم��ول پھ��ر پھ��ر ک��ر اش��اعت تبلی��غ ی� المس��یح گلی�� میں حس��ب حضور سیدناعیس وتدریس فرم�اتے اور ش�فا دی�تے رہے۔ لیکن اس کے ب�رعکس مل�ک کے جن�وب� علاقے یہ��ودیہ میںاا کٹ چک� تھ� اور � خزاں ک� فص�� تقریب�� آاپ کو ہلاک کرنے کامنصوبہ بنایا جارہا تھا۔ موسم� خی�ام" من�انے ک� تیاری�اں ب�ڑی دھ�وم دھ�ام بیت المقدس میں شگرگزاری ک� ہفت روزہ " عی�دآاپ کو اس عید میں شرکت ک��رنے ک��و آانحضور کے اخیاف� بھائیوں نے سے ہورہ� تھیں۔ چنانچہ

کہا۔ " یہاں سے روانہ ہوکر یہودیہ کو چلا جاتا کہ جو ک��ام ت��و کرت��ا ہے انہیں ت��یرے ش��اگرد بھ� دیکھیں۔ کیونکہ ایسا کوئ� نہیں جو مشہور ہونا چاہے اور چھپ ک��ر ک��ام ک��رے۔ اگ��ر ت��و یہ

آاپ کو دنیا پر ظاہر کر۔" آایت ۷)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع کام کرتا ہے تو اپنے (۔۴تا ۳

آائے ۔ لیکن ف� الح��ال وہ آاپ پ��ر ایم��ان لے dو��رت یعق��ائ� حض��آاپ کے بھ بع��د ازاں آاپ پر طعنہ زن� کرکے کہتے کہ ج�ائیں اور عی�د میں زائ�رین بھ� دیگر بھائيوں کے ساتھ م کر

آاپ کو ظاہر کریں۔ کے سامنے اپنے آاپ نے اس طعن وتشینع کو بڑے تحم سے برداشت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

آای�ا مگ�ر تمہ��ارے ل��ئے س�ب وقت ہیں۔ دنی�ا تم س��ے ع��داوت " م�یرا ت�و ابھ� وقت نہیں نہیں رکھ س��کت� لیکن مجھ س��ےرکھت� ہے کی��ونکہ میں اس پ��ر گ��واہ� دیت��ا ہ��وں کہ اس کے ک��ام برے ہیں۔تم عید میں جاؤ۔ میں ابھ� اس عی�د میں نہیں جات�ا کی�ونکہ ابھ� ت�ک م�یرا وقت پ�ورا

) انجی شریف بہ مطابق حض��رت یوحن��انہیں نہیں ہوا۔ یہ باتیں ا ن سے کہہ کر وہ گلی ہ� میں رہا ۔"

آایت ۷رکوع (۔۹ تا ۶

آاگاہ� پ��اکر عی��د میں ش��ام ہ��ونے کے ل��ئے یروش��لیم ی� سے آاپ خدا تعال چند دنوں بعد پہنچے۔ چنانچہ انجی شریف میں ارشاد ہو ہے کہ

"جب اس کے بھائ� عی�د میں چلے گ�ئے اس وقت وہ بھ� گی��ا۔ظ��اہرا نہیں بلکہ گوی��اآایت پوشیدہ۔ (۔۱۰)

آاپ وہ��اں کیس��ے آاپ کے اس س��فر کے ب��ارے میں تفص��ی س��ے نہیں بتای��ا گی��ا کہ اا آاپ نے غالب�� آاپ خاموش� سے یروشلیم میں داخ ہوئے ۔ رات پہنچے ۔ بس اتنا ہ� معلوم ہے کہ آاپ ک� غ�یر شہر کے ق��ریب ہ� اپ�نے دوس�توں کےہ��اں قی�ام فرم��اتے تھے۔ دری اثن��ا یروش�لیم میں

حاضری پر عوام کے درمیان چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ " بعض کہ��تے تھے وہ نی��ک ہے او ربعض کہ��تے تھے ، نہیں بلکہ وہ لوگ��وں ک��و گم��راہ کرت��ا ہے، ت��و بھ� یہودی���وں کے ڈر س���ے ک���وئ� ش���خص اس ک� ب��ابت ص���اف ص���اف نہ کہت���ا

آایات تھا (۔۱۳ تا ۱۲۔")

آاپ یہاں پر لفظ " یہودی " ق��وم کے راہنم��اؤں کے ل��ئے اس��تعمال ہ��وا ہے۔ چن��انچہ جب آاپ کو ڈھونڈنے لگے ۔ آائے تو وہ آایت عید میں نظر نہ (۔۱۱)

اتھانیم یعن� ماہ اکتوبر میں منائ� ج��ات� تھ� اور اس س��ے چن��د ہ� دن۲۲تا ۱۵یہ عیدپہلے کفارہ کا پاک دن ہوتا تھا۔

ی�( ہیک� میں ج��اکر تعلیم دی��نے لگ��ا ۔" آادھے دن گ��ذرگئے ت�و یس��وع )عیس�� " اور جب آایت (۔۱۴)

آاپ کو قت کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن دوسری طرف وہ عوام ایک طرف تو یہودی راہنما سے بھ� ڈرتے تھے کہ اگر بلوہ ہوگیا تو روم� س��پاہ ک�و م�داخلت ک�ا موق�ع ملے گ�ا اور ہم ب�دنام

ہونے سے نہیں بچیں گے ۔آاگیا۔" آاپ کو بغير پڑھے کیونکر علم آایت عوام اس امر سے بھ� حیران تھے کہ (۔۱۵)

آاپ سے ملاقات کا شرف کیونکہ ان میں سے بہت سے ایسے تھے جنہیں پہل� مرتبہ آاپ کے آاپ کے ب��ارے میں ص��رف وہ� ب��اتیں س���ن رکھ� تھیں ج���و حاص��� ہ���وا ۔ انہ���وں نے آاپ کے درمی��ان مب��احثہ ش��روع ہوگی��ا جس مخالفین بیان کرتے تھے۔ اس اثنا میں دین� راہنماؤں اور

میں عوام بھ� حصہ لے رہے تھے۔ی� المس�یح نے ان ک�و یہ ب�ات س�ن ک�ر کہ اس�ے بغ�یر � برحق حضور سیدناعیس� ہادئ

آاگیا،یوں جواd ارشاد فرمایا: پڑھے کونکر علم

" میری تعلیم میری نہیں بلکہ م��یرے بھیج��نے والے ک� ہے۔ اگ��ر ک�وئ� اس ک� مرض��� پرچلنا چاہے تو وہ اس تعلیم ک� ب�ابت ج�ان ج�ائے گ�ا کہ خ�دا ک� ط��رف س��ے ہے ی�ا میں اپ��ن� طرف سے کہتاہوں ۔ جو اپن� ط��رف س��ے کچھ کہت��ا ہے وہ اپ��ن� ع��زت چاہت��ا ہے لیکن ج��و اپ��نے

) انجی�� ش��ریف بہ مط��ابقبھیج��نے والے ک� ع��زت چاہت��ا ہے وہ س��چا ہے اور اس میں ناراس��ت� نہیں۔"

آایت ۷حضرت یوحنا رکوع (۔۱۸ تا ۱۶

آادم� کو آاپ نے اس سے پہلے یروشلیم میں ایک فالج زدہ ایسا معلوم ہوتا ہےکہ جب � موسوی سے انح��راف ک��ا ال��زام*1سبت آاپ پر شریعت کے دن تندرست کیا تھا تو انہوں نے

آاپ نے لگای��ا تھ��ا۔ اس وقت انہ��وں نے جب ک��و قت�� ک��رنے ک� کوش��ش ک� تھ�۔ اس موق�ع پ�ر ی� کا اظہ��ار ج��ان ک��ر تس��لیم ک��ریں � الہ اا فرمایا کہ وہ بیماری ک� شفا یاب� کو رحمت انہیں تاکید

خواہ یہ سبت کے دن ہ� کیوں نہ ہو۔ پر نوٹ ملاحظہ فرمائيے۔۶۵۔ صفحہ نمبر *1

آاپ کے اس ارشاد کو سن کر وہ برہم ہوکر کہنے لگے: " بعض یروش��لیم� کہ��نے لگے کی��ا یہ وہ� نہیں جس کے قت�� ک� کوش��ش ہ��ورہ� ہے؟ لیکن دیکھو یہ صاف صاف کہتاہے کہ اور وہ اس س��ے کچھ نہیں کہ��تے۔ کی��ا ہوس�کتا ہے کہ

یہ� ہے؟ اس کوت�و ہم ج��انتے ہیں کہ کہ��اں ک�ا ہے مگ�ر*1سرداروں نے سچ ج��ان لی�اکہ مس�یح آائے گا تو کوئ� نہ جانے گا کہ وہ کہاں کا ہے۔" آایت مسیح جب (۔۲۷تا ۲۵)

پر نوٹ ملاحظہ فرمائيے۔۴۵۔ صفحہ نمبر *1

آاپ نے " ہیک� ی� المس�یح نے ان کے یہ الف��اظ س��ن ل�ئے تھے۔ پس حض�ور سیدناعیس� میں تعلیم دیتے وقت پکار کر کہا کہ تم مجھے بھ� جانتے ہو اور یہ بھ� جانتے ہ��و کہ میں کہ��اآای�ا مگ�ر جس نے مجھے بھیج��ا ہے وہ س�چا ہے ۔ اس ک�و تم آاپ س�ے نہیں ں کا ہ�وں۔ اور میں نہیں جانتے ۔ میں اسے جانتا ہوں اس ل��ئے کہ میں اس ک� ط��رف س��ے ہ��وں اور اس��� نے مجھے

آایات بھیجا ہے (۔۲۹تا ۲۸")

آانحضور ک� یہ بات ناقاب برداشت تھ�۔ چنانچہ �ن یہودکے لئے ہادیا

آای��ا تھ��ا " وہ اسےپکڑنے ک� کوشش کرنے لگے لیکن اس ل��ئے کہ اس ک��ا وقت ابھ� نہ آایت کس� نے اس پر ہاتھ نہ ڈالا (۔۳۰)

ی� کے غیب� ہاتھ نے ندائے ح�ق ک�و خ�اموش ک�رنے ک� انس�ان� مس�اع� ک�و خدا تعالآاگیا۔ تب تک روکے رکھا جب تک کہ مقررہ وقت نہ

آاپ پر ایمان لاکر کہنے لگے کہ یہ باتیں سن کر متعدد اشخاص آائے گ���ا ت���و کی���ا ان س���ے زي���ادہ معج���زے دکھ���ائے گ���ا ج���و اس نے " مس���یح جب

آایت دکھائے ؟" (۔۳۱)

ی� المس��یح پھ��ر ہیک�� میں تش��ریف لے گ��ئے ت��و عی��د آاخری دن جب حضور سیدناعیسآاواز سے ارشاد فرمایا : آاپ نے مجمعے میں کھڑے ہوکر بلند ک� چہ پہ عروج پر تھ�۔ پس

آاک��ر پ�ئے۔ ج�و مجھ پ�ر ایم�ان لائيگ��ا اس کے ان��در " اگر کوئ� پیاسا ہو تو میرے پاس آایا ہے زندگ� کے پان� ک� ندیاں ج�اری ہ��وں گ�۔ اس نے یہ �d مقدس میں سے جیسا کہ کتا

ک� بابت کہ� جس��ے وہ پ��انے ک��و تھے ج��و اس پ��ر ایم��ان لائے کی��ونکر روح*1بات اس روحی�( ابھ� اپنے جلال کو نہ پہنچا تھا۔" آای��ات اd تک نازل نہ ہوا تھا۔ اس لئے کہ یسوع )عیس ت��ا۳۷)

(۔۳۹

آاپ نے سوخار کے مق��ام ی� المسیح نے پھر پان� ک� مثال دی جیسے حضور سیدناعیسآاپ نے نہ ص�رف ، روح�ان� تش�نگ�*2پ�ر س�امری ع�ورت کے س�امنے پیش ک� تھ�۔ اس م�رتبہ

� ح�ق ک� ی� اہ�� ایم�ان ک��و متلاش�یان آاس�ودگ� ک��ا وع�دہ فرمای�ا بلکہ یہ بھ� کہ خ�دا تع��ال ک� ی� المس��یح کے پ��ر روح��ان� احتی��اجوں ک�و پ�ورا ک��رنے ک��ا بھ� ذریعہ بن��ائے گ��ا۔ حض��ور سیدناعیس�آاپ ک� ع��ام فہم اور مع��ن� خ��يز تم��ثیلات کے ب��اعث اس اعتماد اور پر اختی��ار ارش��ادات اور

مجمے کےمتعدد اشخاص پر گہرا اثرا ہوا۔یہاں تک کہ وہ بے اختیار کہہ اٹھے۔ ہے اور بعض نے کہ��ا کی��وں؟*4 ہے اوروں نے کہا یہ مسیح *3" بے شک یہ� وہ نب�

آایاکہ مس��یح داؤد ک� نس�� اور بیت � مقدس میں یہ نہیں dآائے گا؟ کیا کتا کیا مسیح گلی سے

آائے گا جہ�اں ک��ا داؤد تھ��ا؟ پس لوگ�وں میں اس کے س�بب س�ے اختلاف*5لحم کے گاؤں سے ہوا۔ اور ان میں سے بعض اس کو پکڑنا چاہتے تھے مگر کس� نے اس پر ہاتھ نہ ڈالا۔

آائے اور انہوں نے ان سے کہا تم اس��ے کی��وں پس پیادےسردارکاہنوں اورفریسیوں کے پاس نہ لائے ؟ پی��ادوں نے ج��واd دی��اکہ انس��ان نے کبھ� ایس��ا کلام نہیں کی��ا۔ فریس��یوں نے انہیں جواd دیاکہ کیا تم بھ� گمراہ ہوگئے ہو؟ بھلا سرداروں اور فریسیوں میں س�ے بھ� ک�وئ� اس پ�ر

آایات ایمان لایا؟ مگر یہ عام لوگ جو شریعت سے واقف نہیں لعنت� ہیں۔ (۔۴۹ تا ۴۰)

دیکھئے۔۱۰ پر نوٹ نمبر ۲۹۶ صفحہ *1۶۲ تا ۵۹ دیکھئے صفحات *2۱۳: ۱۸ بائب شریف ، استشنا *3 پر نوٹ ملاحظہ فرمائيے ۴۸ صفحہ نمبر *4� سعید بیت لحم میں وقوع پزیر ہوئ� ۔*5 ی� المسیح ک� ولادت حضور سیدناعیس

ی� المسیح کو گرفتار نہ کرنے کے سبب پیادوں )ہیک ک� پولیس (کے حضور سیدناعیس فریسیوں اور سردار کاہنوں کا غصہ بھڑک اٹھا لیکن ساتھ ہ� وہ سخت پریشان بھ� ہوئے ۔ انہیںآاج ک�� کے متع��دد قائ��دین ک� ط��رح ایسا معلوم ہواکہ ہیک ک� پولیس پ��ر بھ� اس ش��خص نے افسون کر رکھا ہے۔ یہودی راہنما بھ� غیر تعلیم یافتہ اور غریب عوام کو حقارت ک� نگاہ س��ے� تم�یز ش�خص اس پ�ر ایم�ان یے ک�رتے کہ ک�وئ� بھ� پڑھ�ا لکھ��ا اور ص�احب دیکھ��تے اور دع��و� عالیہ ک��ا ای��ک رکن نیک��دیمس نہیں لایا لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ان ک� اپن� مجلسی� المسیح کا خفیہ شاگرد بنا ہوا ہے۔ اس نے کچھ عرص��ہ پہلے رات ک��و درپ��ردہ حضور سیدناعیسی� آاپ س��ے طوی�� ملاق��ات ک� تھ�۔ نیک��دیمس نے اص��رار بھ� کی��ا تھ��ا کہ حض��ور سیدناعیس���م پاک المسیح کو مجرم قرار دینے سے پیشتر معاملے ک� مناسب تحقیقات کرائ� جائے ۔ کلا

کا اس کے متعلق ارشاد ملاحظہ فرمائيے ۔آایا تھا اور انہ� میں سے تھا ان سے کہ��ا۔ کی��ا " نیکدیمس نے جو پہلے اس کے پاس ہماری شریعت کس� شخص کو مجرم ٹھہرات� ہے جب تک پہلے اس ک� سن ک��ر ج��ان نہ لے

کہ وہ کی��ا کرت��ا ہے؟ انہ��وں نے اس کے ج��واd میں کہ��ا کی��ا ت��و بھ� گلی�� ک��ا ہے؟ تلاش ک��رآایات اوردیکھ کہ گلی میں سے کوئ� نب� برپا نہیں ہونے کا " (۔۵۲ تا ۵۰)

�ہ زیت�ون ک� ط�رف ی� المس�یح ک�و یہ مجلس برخاس�ت ہ��ونے کے بع�د حض�ور سیدناعیس�آاپ نے اپنے چند حواریوں سمیت اس� پہاڑ پر گزاری ۔ اگل� صبح پھ��ر تشریف لے گئے ۔ رات آاپ تبلی��غ وت�دریس میں مش�غول ہوگ��ئے ۔ گذش�تہ روز کے تص��ادم کے ہیک میں تش�ریف لاک�ر �م خداوندی ک�و پہلے ک� نس�بت اd زی�ادہ ص�فائ� کے س�اتھ پیش ک�رنے لگے۔ آاپ پیا سبب

عید ختم ہوچک� تھ� ۔ زائرین واپس جانے ک� تیاریاں کررہے تھے۔

ی� المسیح دنیا کے نور حضور سیدناعیسآاپ ک� تعلیمات سے فیض یاd ہونے ک� غرض س�ے ہیک� میں جم�ع ہ��وئے جب عوام

آاپ نے ان سے مخاطب ہوکر یوں فرمایا: تو " دنی�ا ک�ا ن�ور میں ہ�وں۔ ج�و م�یری پ�یروی ک�رے گ�ا وہ ان�دھیرے میں نہ چلے گ�ا بلکہ

آایت ۸)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع زندگ� کا نور پائے گا " (۔۱۲

آاپ کے اس فرمان پر تبصرہ کیا۔ آاپ کے ایک حواری حضرت یوحنا نے چند سال بعد " جو کوئ� یہ کہت��اہے کہ میں ن�ور میں ہ��وں او راپ�نے بھ��ائ� س��ے ع��داوت رکھت��ا ہے وہ ابھ� تک تاریک� ہ� میں ہے۔ جو ک�وئ� اپ�نے بھ��ائ� س�ے محبت رکھت�ا ہے وہ ن�ور میں رہت�ا ہے۔ اور ٹھوکر نہیں کھانے کا ۔ لیکن جو اپنے بھ��ائ� س��ے ع��داوت رکھت��ا ہے وہ ت��اریک� میں ہے اورآانکھیں تاریک� میں ہ� چلتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ کہا ں جاتا ہے کیونکہ ت��اریک� نے اس ک�

آایت ۲انجی شریف ، خط اول حضرت یوحنا رکوع اندھ� کردی ہیں۔" ) (۔۱۱ تا ۹

ی� المسیح کا ارشاد ملاحظہ کیجئے ۔ نیز حضور سیدناعیسآادمی��وں نے ت�اریک� ک��و آای�ا ہے اور " اور سزا کے حکم کا سبب یہ ہے کہ ن�ور دنی��ا میں ارے تھے۔ کیونکہ جو کوئ� بدی کرتا ہے نور سے زیادہ پسند کیا ۔ اس لئے کہ ان کے کام جو بآاتا۔ ایسا نہ ہو کہ اس کے ک��اموں پ��ر ملامت وہ نور سے دشمن� رکھتا ہے او رنور کے پاس نہیں

آاتا ہے تاکہ اس کے کام ظ��اہر ہ��وں ک� جائے ۔ مگر جو سچائ� پر عم کرتا ہے وہ نور کے پاس آایت ۳) انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع کہ وہ خدا میں کئے گئے ہیں۔" (۔۲۱ تا ۱۹

تاریک رات میں روشن� س�فید ک��پڑوں پ�ر تم��ام داغ دھب��وں ک��و ظ��اہر کردی��ت� ہے۔ اس���آاپ کے عجیب وغ��ریب فرم��وادت ی� المسیح ک� بے عیب سیرت پ��اک اور طرح حضور سیدناعیس انسان کو بے نقاd کرکے اس کے گنا ہ کو اس��� پ��ر عی��اں کردی��تے ہیں جس س��ے اس ک��ا ن��تیجہ

ایک تائب زندگ� میں نکلنا چاہیے ۔ " خدا نور ہے او راس میں ذرا بھ� تاریک� نہیں۔ اگر ہم کہیں کہ ہماری اس کے ساتھ شراکت ہے او رپھر تاریک� میں چلیں ت�و ہم جھ��وٹے ہیں اور ح��ق پ�ر عم� نہیں ک�رتے ۔۔۔۔ اگ�ر اپنے گناہوں کا اقرار ک�ریں ت�و وہ ہم�ارے گن�اہوں کے مع��اف ک�رنے اور ہمیں س�اری ناراس�ت� س�ے

� اول حضرت یوحنا رکوع پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے آایت ۱۔") انجی شریف خط (۔۵،۶،۹

آاسمان� ہیں ی� المسیح حضور سیدناعیسآاپ نے ہیک کے بیت المال میں درس دیتے ہوئے فرمایا: اس� دن

"تم نیچے کے ہو۔ میں اوپر کا ہوں ۔ تم دنیا کے ہ�و۔ میں دنی��ا ک�ا نہیں ہ�وں۔ اس ل�ئے میں نے تم سے یہ کہا کہ اپنے گناہوں میں مروگے کیونکہ اگر تم ایم��ان نہ لاؤ گے کہ میں وہ�

آایت ۸۔" )انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنار کوع ہوں تو اپنے گناہوں میں مروگے (۔۲۴ تا ۲۳

ی� ک� دوسرے لفظوں میں ہادئ برح��ق نے فرمای��ا کہ میں ہ� مس�یح موع��ود اور خ��دا تع��ال طرف سے مبعوث ہوا ہوں۔ لیکن نہایت کم لوگ اس حقیقت کو سمجھ سکے۔ چنانچہ انہوںاا فرمای��ا کہ میں خ��دائے آاپ نے تفص��یل آاپ س��ے پھ��ر س��وال کی��ا " توک��ون ہے؟" اس پ��ر جب نے

آائے آاپ پ��ر ایم��ان لے آایت برحق ک� طرف سے بھیجا گیا ہوں تو بہتیرے آاپ ان نومری��د(۔۳۰) dا یہودیوں کے ایمان کوپرکھنے کے لئے ان سے مخاطب ہوئے ۔

" اگ��ر تم م��یرے کلام پ��ر ق��ائم رہ��وگے ت��و حقیقت میں م��یرے ش��اگرد ٹھہ��روگے۔ اورآازاد کریگ�۔" آایات سچائ� سے واقف ہوگے اور سچائ� تم کو (۔۳۲ ،۳۱)

مگر انہوں نے اس بات کو قبول نہ کیا اور جواd دیا: " ہم ت��و ابرہ��ام ک� نس�� س��ے ہیں اورکبھ� کس��� ک� غلام� میں نہیں رہے ۔توکی��ونکر

آازاد کئے جاؤگے ۔" آایت کہتاہے کہ تم (۔۳۳)

آازاد نہیں تھے آازاد تھے ؟ نہیں خدا کے نزدیک وہ ی� کیاوہ درحقیقت حضور سیدناعیس��المسیح نے ان کے گناہ کے غلام ہونے ک� طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

آایت " میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جو کوئ� گناہ کرتا ہے گناہ کاغلام ہے" (۔۳۴)

آازاد مل��ک کے آازادی ہے ۔انس��ان کس��� آازادی ، ب��رت ع��ادات اور گن��اہوں س��ے حقیق� آازاد باشندے ہوتے ہوئے بھ� ابلیس کے غلام ہوسکتے ہیں۔

آایت ان نومری�دوں نے س�ن ک�ر کہ��ا " ہم�ارا ب�اپ ت�و ابرہ��ام ہے۔" ا س س��ے ان ک�ا(۔۳۹)مطلب یہ تھا کہ وہ کس� غلام کو نہیں بلکہ حضرت ابراہیم خلی الله ک� اولاد ہیں۔

ی� المسیح نے انہیں سمجھایا کہ اگر وہ سچ مچ حض��رت اب��راہیم ک� حضور سیدناعیسی� ک� تابع��داری � ق��دم پ��ر چل��تے ہ��وئے انہ� ک� ط��رح خ��دا تع��ال اولاد ہ��وتے ت��ووہ انہ� کے نقشآاپ ک� ک��رتے ان ک� گھن��اؤن� زن��دگیاں ان کے دل��وں میں بھ��ری ہ��وئ� نف��رت اور ع��داوت اور تعلیمات سے انکار اس بات کے شاہد تھے کہ وہ اپنے باپ ابلیس ک� پیروی کررہے تھے ۔جو

آایات ہمیشہ سے خون�،جھوٹا بلکہ جھوٹ کا باپ ہے" ۔یہ سن ک��ر یہ��ودی طیش(۴۷ت��ا ۳۹)دیکھئے آاگئے اور کہا میں

ی�( " کیا ہم خوd نہیں کہتے کہ تو س��امری ہے اور تجھ میں ب��دروح ہے؟ یس��وع )عیس�� نے جواd دیا کہ مجھ میں بدروح نہیں ۔ مگر میں اپنے باپ ک� عزت کرتا ہ��و ں اور تم م��یری بے عزت� کرتے ہو۔ ۔۔میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر کوئ� ش��خص م��یرے کلام پ��ر عم��

کرے گا تو ابد تک کبھ� موت کونہ دیکھے گا۔" یہودیوں نے اس سے کہا کہ اd ہم نے جان لیاکہ تجھ میں بدروح ہے ۔ابرہام مرگی��ا اور نب� مرگئے مگر تو کہتا ہے کہ اگ�ر ک�وئ� م�یرے کلام پرعم�� ک�رے گ��ا ت�و اب�د ت�ک کبھ� م�وت

کامزہ نہ چکھے گا۔ ہمارا باپ ابرہام جو مرگی�ا کی�اتو اس س�ے ب�ڑا ہے؟ اور ن�ب� بھ� مرگ��ئے ۔ ت�وآاپ کو کیا ٹھہراتا ہے؟ اپنے

آاپ اپن� بڑائ� کروں تو م��یری ب��ڑائ� کچھ نہیں ی�( نے جواd دیا اگر میں یسوع )عیس لیکن میری بڑائ� میرا باپ کرتاہے جسے تم کہ��تے ہ��و کہ ہم��ارا خ��دا ہے ۔ تم نے اس��ے نہیں جان��ا لیکن میں اسے جانتا ہو ں اور اگر کہوں کہ اس�ے نہیں جانت��ا ت�و تمہ��اری ط��رح جھوٹ�ا بن��وں گ�ا ، مگر اسے جانتا اور اس کے کلام پر عم کرتاہوں ۔ تمہارا باپ ابرہام میرادن دیکھنے ک� امی��د پ��ر

بہت خوش تھا چنانچہ اس نے دیکھا اور خوش ہوا۔ یہودیوں نے اس سے کہا تیری عمر تو ابھ� پچاس برس ک� نہیں پھر کیا ت��ونے ابرہ��ام

کو دیکھا ہے؟تر اس سے کہ" یسوع ی�( نے ان سے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ پیش )عیس

آایت ۸)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنار کوع ابرہام پیدا ہوا میں ہو ں " (۔۵۱،۵۹، ۴۹ ،۴۸

آاپ حضرت ابراہیم ک� پیدائش سے پیش��تر یی کہ ی� المسیح کا یہ دعو حضور سیدناعیسآاغ��از اس ک� پی��دائش س��ےہوتاہے لیکن اس ہیں نہایت معن� خیز ہے۔ ہ��ر ش��خص ک� بدوہس��ت کا

یی یہ تھا کہ اپ ابراہیم ک� ولادت سے بھ� پیشتر موجود ہیں۔ آاپ کا دعو کے برعکس ی� کے حض��ور س��ر ح��ق کے س��نجیدہ متلاش��یوں ک��و چن��دلمحات کے ل��ئے تب��ارک تع��الی� المس��یح بسجود ہونا چاہیے کہ وہ ان کے دل ودماغ کو روشن کرے تاکہ وہ حض��ور سیدناعیس��

� حیات کو سمجھ سکیں۔ کے فرمودات میں پنہاں رازآاپ کے ارش��ادات کے گہ��رے بھی��د ک��و لیکن اس مجم��ع نے س��چائ� ک��و ج��اننے اور آاگ بگ��ولہ ہوگ��ئے اور سمجھنے سے یکسر انک��ا ر کردی��ا۔ بلکہ اس کے ب��رعکس وہ غص��ے س��ے

آاپ کو سنگسار کرنے کے لئے پتھر اٹھائے ۔آاپ ک��و گرفت��ار اور ہلاک کردی��نے ک� پ��انچویں یہ ان ک� چن��د دن��وں کے ان��در ان��در � مقدس کو خیر باد کہا۔ کس قدر کم آاپ نے بڑے دلگیر ہوکر شہر ناکام کوشش تھ�۔ چنانچہ

ی� کے سنجیدہ متلاش� ہیں اور کتنے ہ� کم سچ مچ س��مجھنے کے خ��واہش من��د لوگ حق تعالہیں!۔

دو ماہ کے دوران سفر اور درس� خ��زاں اور دس�مبر۲۹انجی جلی میں ایسے کئ� واقعات کابیان ہے جو ء کے موس��م

آاپ بیت المق��د س تش��ریف میں عی��د تجدی��د کے درمی��ان� عرص��ے میں وق��وع پ��ذیر ہ��وئے ۔ جب لےگ��ئے۔ یروش��لیم میں متعص��ب م��ذہب� راہنم��اؤں ک��ازور تھ��ا۔ وہ اپ��نے اث��رو رس��وخ کے ب��ارے میں نہایت محتاط وحساس تھے۔ لیکن دور کے علاقوں اور دیہ��اتوں میں ع��وام اس عظیم اس��تاد کے� مبارک سننے کے متمن� رہتے تھے۔ وہ بیماریوں سے شفا اور اپ��ن� غ��ربت اور خان��دان� ارشادات آاپ یروش��لیم س��ے آایا کرتے تھے۔ ایسا معلوم ہوت��ا ہےکہ دکھوں سے تسل� اور رہائ� پانے کے لئے آاپ ک� تعلیم��ات آاپ کے متعدد دوست اور پیروکار شوق سے گلی واپس تشریف لے گئے۔ وہاں

آاپ کے گرد جمع ہوگئے ۔ سننے کے لئے آاہس��تہ آاہس��تہ ی� المس��یح دو م��اہ ت��ک تبلی��غ وت��دریس فرم��اتے ہ��وئے اd حضور سیدناعیس

آاپ نے دوبارہ جنوd میں یروشلیم ک� طرف بڑھنے لگے ۔ کس� مقام پر پہنچنے سے پہلے آاگے قاص��د بھیجے ۔ وہ ج��اکر س��امریوں کے ای��ک گ��اؤں میں داخ�� ہ��وئے ت��اکہ " اپنے

)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوعاس کے لئے تیاری کریں۔ لیکن انہوں نے اس کوٹکنے نہ دیا۔"

آایت ۹ (۔۵۳ تا ۵۲

آاپ کے دو حواریوں حضرت یعقوd اور حضرت یوحنا نے یہ سنا تو ب��ڑے غض��ب جب آاپ س��ے آاق��ا ک� کی��وں بے ع��زت� ک� ہے چن��انچہ انہ��وں نے ن��اک ہ��وئے کہ س��امریوں نے ہم��ارے

پوچھا۔آاگ ن��ازل ہ��و ک��ر انہیں آاسمان سے " اے خداوند کیا تو چاہتا ہے کہ ہم حکم دیں کہ بھسم کردے )جیسا ایلیاہ نے کیا ( ؟ مگر اس نے پھر کر انہیں جھڑکا )اور کہا تم نہیں ج��انتے

آای��ا( آادم لوگ��وں ک� ج��ان برب��اد ک��رنے نہیں بلکہ بچ��انے کہ تم کیس��� روح کے ہ��و۔ کی��ونکہ ابن آایت ۹) انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع پھروہ کس� اور گاؤں میں چلےگئے " (۔۵۶ تا ۵۴

� خ��انہ ک� مرض��� کے خلاف کبھ� کس��� جگہ قی��ام نہ ی� المس��یح ص��احب حض��ور سیدناعیس���ت رج�وع دیت��ا ہے ی� جو تمام قدرت واختیار ک��ا مال�ک ہے ، انس�ان ک��و دع��و فرماتے تھے۔ خدا تعال

�ہ راست پر چلنے کے لئے مجبور نہیں کیا۔ لیکن اس نے کبھ� بھ� کس� کو را نہ کس� کو محبت کرنے پر مجبور کیا جاسکتاہے اور نہ کس� ک��و محبت ک��رنے س��ےاا ال��گ ک��رے گ��ا۔ لہ��ذا یہ �ز عدالت ہ� نیکوں کو بدوں سے ج��بر ی� رو روکا جاسکتاہے ۔ باری تعال نہایت ضروری امر ہے کہ اd ہ� سے پورے دل سے راہ حق ک� تلاش ک� جائے ۔ شاید اس� واقعہ نے ایک کمزور ایمان شاگرد کے دل میں نئے س��رے س��ے وف��اداری ک��ا ش��علہ بھڑکادی��ا جبکہآاقا ک��و اپ�نے گ�اؤں میں قی��ام فرم�انے س�ے روک دی�ا۔ لیکن اس نے دیکھا کہ سامریوں نے اس کے آاپ نے اپ��نے حواری��وں کے بے ج��ا ج��وش ک��و ٹھن��ڈا کی��ا اور وہ��اں س��ے اس کے ب��اوجود بھ�

خاموش� سے چ دئے۔ " جب وہ راہ میں چلے جاتے تھے تو کس� نے اس س��ے کہ��ا۔ جہ��اں کہیں ت��و ج��ائےی�(نے اس سے کہ��ا کہ لومڑی��وں کے بھٹ ہ��وتے ہیں اور ہ��وا میں تیرے پیچھے چلونگا۔ یسوع )عیس

آادم کے ل��ئے س��ردھرنے ک� بھ� جگہ نہیں۔" )انجی�� ش��ریف بہکے پرن��دوں کے گھونس��لے مگ��ر ابن

آایت ۹مطابق حضرت لوقا رکوع (۔۵۸ تا ۵۷

ی� المسیح نے کفر نح�وم میں ج�و مرک�ز تبلی�غ ق�ائم کی�ا تھ��ا اd اس�ے حضور سیدناعیسآاپ خانہ بدوشوں ک� طرح پھر رہے تھے اورا س زمین پر کوئ� ایس� جگہ نہ dترک کردیا تھا۔ ا آاپکے پیروکاروں ک�و بھ� یہ خدش��ہ لاح��ق رہت��ا تھ��اکہ ان کےر آاپ اپن� کہہ سکتے ۔ تھ� جسے ش��تہ دار اور دوس��ت واحب��اd کس��� وقت بھ� ان کے س��اتھ تعلق��ات منقط��ع کرس��کتے ہیں۔� نف��رت ، تش��دد ، خ��ود غرض��� اور اس��� آاپ کے س��چے اور وف��ادار پیروک��ار چونکہ ف� زم��انہ بھ� قبی کے دیگر گناہوں کے س�اتھ س�مجھوتہ نہیں کرس�کتے ۔ اس ل�ئے وہ اک�ثر وبیش�تر اپ�نے ج�ائز

حقوق سے محروم رہتے ہیں۔ جس طرح یہ ب�ات ایش�یا، اف�ریقہ اورجن��وب� ام�ریکہ میں درس�ت ہےاس� طرح یہ مغرب� ممالک میں بھ� سچ ہے۔

�م ی� المس�یح نے ق�ریب ہ� ای�ک ش�خص ک�وبڑی ت�وجہ س�ے کلا جب حض�ور سیدناعیس�ی� ک� فرمانبرداری کا جذبہ ابھرت��ا نظ��ر آانکھوں میں خد ا تعال حق کو سنتے دیکھا اور اس ک�

آاپ نے اس سے فرمایا : آایا تو " میرے پیچھے چ۔ اس نے کہ��ا اے خداون��د ! مجھے اج��ازت دے کہ پہلے ج��اکر اپنے باپ کو دفن کروں۔ اس نے اس سے کہا کہ مردوں کو اپنے م��ردے دفن ک��رنے دے۔ لیکن جاکر خدا ک� بادشاہ� ک� خبر پھیلا۔او رنے بھ� کہ��ا اے خداون��د ! میں ت��یرے پیچھے چل��وںی�( آاؤں۔ یسوع )عیس گا لیکن پہلے مجھے اجازت دے کہ اپنے گھر کے لوگوں سے رخصت ہو نے اس سے کہا جو کوئ� اپناہاتھ ہ پر رکھ کر پیچھے دیکھتا ہے وہ خ��دا ک� بادش��اہ� کے

آایت ۹)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا ، رکوع لائق نہیں۔" (۔۶۲ تا ۵۹

آاپ ک� پ��یروی کرناچ��اہتے تھے وہ اپ��نے خان��دان ان دونوں واقعات میں جو ش��خص آاپ ک� پیروی کرنے سے پیشتر اپنے باپ ک� موت کا انتظار کرنا دول درجہ دیتے تھے ۔پہلا کو ا چاہتا تھا۔ دوسرا اپنے خاندان کو الوداع کہنا چاہتا تھ��ا۔ ان متذب��ذd اور نیم گ��رم دل��وں ک��و اسآاخ�ری موق�ع ک�و گن��واں نہ آاپ ک� پ�یروی ک��رنے کے اس بات کا خطرہ لاحق تھ��اکہ کہیں وہ آاپ نظروں سے اوجھ�� ہ��ونے آاپ اس راہ سے دوبارہ نہ گزرے بلکہ چند ہ� ماہ بعد بیٹھیں۔کیونکہ آاتا ہے تو اسے غنیمت سمجھ ک�ر ہ�اتھ س�ے والے تھے۔ ہر شخص ک� زندگ� میں جب موقع

�و معط بن جائے گا۔ نہیں گنوانا چاہیے ورنہ وہ خدا ک� بادشاہ� میں عض

( شاگردوں ک� تبلیغ پرماموری۷۰ستر )ی� المسیح مختلف مقامات پ�ر تبلی�غ وت�دریس کے ل�ئے تش�ریف لے حضور سیدناعیس

آاپ نے اپ��نے پیروک��اروں میں س��ے س��تر) ( ک��و چن لی��ا اور انہیں دو دو۷۰جان��ا چ��اہتے تھے۔ لہ��ذا

آاپ خ��ود تش��ریف لے جان��ا چ��اہتے تھے۔ انہیں ک��رکے ان مقام��ات پ��ر بط��ور پیش��رو بھیج��ا جہ��اں آاپ نے فرمایا: رخصت کرتےوقت

"فص تو بہت ہے لیکن مزدور تھوڑے ہیں۔اس لئے فص کے مالک ک� منت ک�رو کہ اپن� فص کاٹنے کے لئے مزدور بھیجے۔ جاؤ، دیکھو میں تم کو گوی��ا ب��روں ک��و بھ��یڑیوں کے بیچ میں بھیجتا ہوں ۔ بٹو الے جاؤ نہ جھول� نہ جوتیاں او رنہ راہ میں کس��� ک��و س��لام ک��رو۔ اور جس گھر میں داخ ہوپہلے کہو اس گھر ک� سلامت� ہو۔ اگر وہاں کوئ� س��لامت� کافرزن��د ہوگ��ا ت�وآائے گا۔ اس� گھر میں رہ��و اور ج��و کچھ ان تمہارا سلام اس پر ٹھہرے گا ، نہیں تو تم پر لوٹ سے ملے کھاؤ، پیوکیونکہ مزدور اپ�ن� م�زدوری ک�ا ح�ق دار ہے۔ گھ��ر گھ��ر نہ پھ��رو۔ اور جس ش�ہر میں داخ�� ہ��و اور وہ��اں کے ل��وگ تمہیں قب��ول ک��ریں ت��و ج��و کچھ تمہارےس��امنے رکھ��ا ج��ائے کھاؤ۔ اور وہاں کے بیماروں کو اچھا کرو اور ان سے کہو کہ خ�دا ک� بادش�اہ� تمہ�ارے نزدی�ک آاپہنچ� ہے۔ لیکن جس شہر میں داخ ہو اور وہاں کے لوگ تمہیں قب��ول نہ ک��ریں ت��و اس کے بازاروں میں جاکر کہو کہ ہم اس گرد کو بھ� جو تمہارے شہر س��ے ہم��ارے پ��اؤں میں لگ� ہےآاپہنچ� ہے۔" تمہ��ارے س��امنے جھ��اڑ دی��تے ہیں۔ مگ��ر یہ ج��ان ل��و کہ خ��دا ک� بادش��اہ� نزدی��ک

(۔۱۱تا ۱آایت ۱۰) انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع

" ج��و تمہ��اری س��نتا ہے وہ م��یری س��نتا ہے۔ اور تمہیں نہیں مانت��ا وہ مجھے نہیں مانت��اآایت اور جومجھے نہیں مانتا وہ میرے بھیجنے والے کونہیں مانتا" (۔۱۶)

آاپ کے وہ ستر پیروکار دو دو ہوکر گ��اؤں گ��اؤں پھ��رنے لگے ۔ وہ یہ من��ادی ک��رتے ج��اتے تھے کہ المس���یح بہت جل���د ان کے پ���اس تش���ریف لائیں گے ۔ جہ���اں کہیں بھ� انہ���وں نےآامد کا اعلان وانتظام کی�ا اور ان کے بیم�اروں ک�و ش�فادی اور آاپ ک� حالات سازگار دیکھے، آاج ک ک� طرح اس زمانہ میں بھ� مزدور اورغریب کس��ان اس ب��ات س��ے بدرحووں کو نکالا۔ اا ان ک� فلاح وبہب��ود میں دلچس��پ� لے رہ��ا ہے او ران ک��ا خ��وش تھے کہ ک��وئ� ش��خص حقیقت��آانحضور کے استقبال کے ل��ئے تی��ار پای��ا۔ ممدو معاون ہے ۔ پیشتروؤں نے اکثر مقامات پرلوگوں کو

آاپ کے پاس لوٹ کر کہنے لگے۔ آاخر میں وہ خوش� خوش�

آایت " اے خداوند !تیرے نام سے بدروحیں بھ� ہمارے تابع ہیں۔" (۔۱۷)

نیک سماری ک� تمثیی� المسیح ان شہروں اور گ��اؤں میں تش��ریف لے گ��ئے جہ��اں س��تر اd حضور سیدناعیسآام���ادہ پای���ا تھ���ا۔ اس تبلیغ� دورئے آاپ کے ارش���ادات س���ننے کے ل���ئے ع���وام ک���و ش���اگردوں نے

آاپ درس دے رہے تھے تو کےدوران کا ذکر ہے کہ جب آازم��ائش ک��رنے لگ��ا کہ اے اس��تاد میں � ش��رح اٹھ��ا اور یہ کہہ ک��ر اس ک� " ای��ک ع��الم

کیاکروں کہ ہمیشہ ک� زندگ� کا وارث بنوں؟اس نے اس سے کہا

توریت میں کیا لکھا ہے؟ توکس طرح پڑھتا ہے؟ اس نے جواd میں کہا کہ خداوند اپنے خدا سےاپنے سارے دل اور اپ��ن� س��اری ج��ان اور اپن� ساری طاقت اور اپن� ساری عق سے محبت رکھ او راپنے پڑوس��� س��ے اپ��نے براب��ر محبت رکھ۔ اس نے اس سے کہا تو نے ٹھیک جواd دیا یہ� ک�ر ت�و ج�ئے گ�ا۔ مگ�راس نے اپ�نے ت�ئیں

ی�( سے پوچھا پھر میرا پڑوس� کون ہے؟ راستباز ٹھہرانے ک� غر ض سے یسوع )عیسی�( نے جواd میں کہ یسوع )عیس

آادم� یروشلیم سے یریحو ک� طرف جارہا تھ��ا کہ ڈاک��وؤں میں گھ��ر گی��ا۔ انہ��وں " ایک اا ایک کاہن اس��� راہ نے اس کے کپڑے اتارلئے اور مارا بھ� اور ادھموا چھوڑ کر چلے گئے ۔ اتفاق

آای��ا وہ بھ�*1سے جارہا تھا اور اسے دیکھ کر کترا کرچلا گیا۔ اس� طرح ای��ک لاوی اس جگہ آانکلا اور اس�ے دیکھ اسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔لیکن ایک سامری سفر ک��رتے ک�رتے وہ��اں آاک��ر اس کے زخم��وں ک��و تی�� اورمے لگ��اکر بان��دھا اور کر اس نے ت��رس کھای��ا۔ اور اس کے پ��اس اپ��نے ج��انور پ��ر س��وار ک��رکے س��رائے میں لے گی��ا اور اس ک� خبرگ��یری ک�۔ دوس��رے دن دودین��ار نکال کر بھٹیارے کو دی�ئے اور کہ��ا اس ک� خ�بر گ�یری کرن�ا اور ج�وکچھ اس س�ے زی�ادہ خ�رچ

آاکر تجھے اداکردوں گا۔ان تینوں میں س�ے اس ش�خص ک�اجو ڈاک�وؤں میں گھ��ر گی�ا ہوگا میں پھر تھا تیر ی دانست میں کون پڑوس� ٹھہرا؟ اس نےکہا وہ جس نے اس پر رحم کیا۔

ی�( نے کہا یسوع )عیسآایت ۱۰)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع جاتو بھ� ایسا ہ� کر" (۔۳۷تا ۲۵

لاوی: لاوی کے قبیلہ کا ایک فرد۔ ان کے ذمہ کہانت )امامت( کا کام تھ��ا او ریہ ہیک� )بیت الل��ه ( میں خ��دمت ک�رتے*1تھے۔ لاویوں کےسوا اور کوئ� کاہن)امام( نہیں بن سکتا تھا۔

اس عالم شرح کو جواd دیتے وقت جناd المسیح نے ایک نہایت اہم نکتہ بیان فرمای��ا ہے ۔ یہی� واح�د ولاش��ریک ہے" ک��اف� نہیں بلکہ ض��رورت اس ب��ات ک� ہے کہ خ��دائے مانن��ا کہ خ��دا تع��ال واحد کے ساتھ لگاؤ کا عمل� ثبوت اپنے پڑوس� کے ساتھ محبت کرکے دیا جائے ۔اس تمثی�� میں پڑوس� وہ شخص ہے جسے ڈاکوؤں نے ادھموا کردی�ا تھ��ا۔ ک�اہن اور لاوی قائ�دین دین ہ��ونےآاخ��ر میں جس ش��خص نے اس � رحم شخص ک� مدد کرنے س��ے ک��ترائے ۔ کہ باوجود اس قاب پر ترس کھایا وہ سامریوں سے تھا جن سے اہ یہود نفرت ک��رتے تھے ۔ وہ انہیں اس ل��ئے حق��یر جانتے تھے کہ وہ راسخ الاعتقاد نہ تھے۔ اکثر لوگ مصیبت کے وقت اپنے رشتہ داروں ک� مدد تو ک�رتے ہیں۔ لیکن کس�� غ�یر کے ل�ئے گہ��ری ہم�دردی ک�ا عمل� اظہ�ار بہت کم دیکھ��نےی� المسیح نے اپنے سامعین سے تقاضا فرمایا کہ وہ دی��ن� نظری�ات آاتا ہے۔ حضور سیدناعیس میں

ک� منادی اورضرورت مندوں ک� عمل� امداد کے درمیان جو خلیج واقع ہے اسے پاٹ دیں۔

متفرق موضوعات پر درسی� المس��یح کے متف��رق فرم��ودات ک��و ملاحظہ فرم��ائیے۔ای��ک دفعہ اd حضور سیدناعیس

آاپ نے حوارئين کو یوں تلقین فرمائ�۔ آاپ گرد ہزارہا لوگ جمع تھے تو کا ذکر ہے کہ جب " اس خم��یر س��ے ہوش��یار رہن��ا ج��و فریس��یوں ک� ریاک��اری ہے ۔ کی��ونکہ ک��و ئ� چ��یز ڈھک� نہیں ج�و کھ�ول� ج�ائیگ� اور نہ ک�وئ� چ�یز چھ�پ� ہے ج�و ج�ان� نہ ج�ائے گ�۔ اس ل�ئے ج��وکچھ تم نے ان��دھیرا میں کہ��ا ہے وہ ج��الے میں س��نا ج��ائے گ��ا اور ج��و کچھ تم نے کوٹھری��وں

)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت لوق��اکے اندر کان میں کہاہے کوٹھوں پر اس ک� منادی ک� جائے گ�"

آایت ۱۲رکوع (۔۳تا ۱

ی� المس��یح نے مکروری��ا ک� س�خت م�ذمت ک��رکے اس��ے گن��اہوں ک� حض�ور سیدناعیس��آاپ نے بعض خ��وش تقری�ر دی��ن� پیش��واؤں ک� حقیقت ک��و بھ��انپ لی��ا صف میں شام کی��ا ہے۔ آاپ نے اپ�نے پیروک�اروں کوانتب��اہ فرمای�ا کہ وہ ان ک� ط��رح اپ�ن� اص��ل� ح�الت ک�و دی�ن� تھا۔لہذا ی� عالم الغیب ہے۔ جس طرح ایک فلم بار بار آاڑ میں نہ چھپائیں کیونکہ خدا تعال ظاہرداری ک� �ر محش�ر ہم�ارے دیکھ� اور ٹیپ ریکارڈ بار بار سنا جاس�کتا ہے اس�� ط�رح ای�ک نہ ای�ک دن داو تمام اعمال اقوال ہمارے تمام خی�الات ک�ومنظر ع��ام پ�ر لائے گ�ا۔اس وقت ک�وئ� بہ�انہ ک�ارگر نہ

ہوگا۔� المسیح نے اپنے سچے پیرکاروں کو تلقین فرمائ� کہ وہ انس�ان ک��و خ��وش ک��رنے dجنا ی� ہ� کا خوف م�انیں۔ خ�دائے برت�ر پ�ر توک� ک��رنے وال�وں ک�ووہ خ�ود س�نبھالتا ک� بجائے حق تعال

ہے ، بلکہ انکے توسر کے بال بھ� اس نے گنے ہوئے ہیں: " تم دوستوں س��ے میں کہت��اہوں کہ ان س��ے نہ ڈرو ج��و ب�دن ک�و قت�� ک��رتے ہیں اور اس کے بع��د اور کچھ نہیں کرس��کتے ۔ لیکن میں تمہیں جتات��ا ہ��وں کہ کس س��ے ڈرن��ا چ��اہیے ۔ اس سے ڈرو جس کو اختیار ہے کہ قت کرنے کے بعد جہنم میں ڈالے۔ ہاں میں تم سے کہتا ہوں کہ اس� سے ڈرو۔ کیا دو پیسے ک� پانچ چڑیاں نہیں بکتیں؟ تو بھ� خدا کے حض��ور ان میں س��ے ای����ک بھ� فرام����وش نہیں ہ����وت�۔ بلکہ تمہ����ارے س����ر کے س����ب ب����ال بھ� گ����نے ہ����وئے ہیں۔ ڈرومت ،تمہ�اری ق��درتوبہت س�� چڑی�وں س�ے زي�ادہ ہے۔ اورمیں تم س��ے کہت�ا ہ��وں کہ ج��و ک�وئ�آادم بھ� خدا کے فرشتوں کے سامنے اس کا اق��رار ک��رے � آادمیوں کے سامنے میرا اقرار کرے ابنآادمیوں کے سامنے میرا انکار کرے خدا کے فرش�توں کے س�امنے اس ک�ا انک�ار کی�ا گا۔ مگر جو

آایت ۱۲")انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع جائے گا (۔۹تا ۴

ی� ک� نس��بت آاتے ہیں مگ��ر و ہ خ��دا تع��ال بسا اوقات مومنین کلمتہ الله پر ایمان تو لے �ت ش��ریف ی� المس��یح اپ��ن� ذا اپنے رشتہ داروں اور مالکوں سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ حضور سیدناعیس��

آاپ ک�ا دل�یری کے س�اتھ علانیہ اق�رار پ�ر دل س�ے ایم�ان لانے وال�وں س�ے تقاض�ا فرم�اتے ہیں کہ وہ کریں۔

ثالث ہونے سے انکاری� المسیح سے درخواست ک� کہ مجمع میں سے ایک شخص نے حضور سیدناعیس

" اے استاد !میرے بھائ� سے کہہ کر میراث کا م��یرا حص��ہ مجھے دے۔ اس نے اسآایت ۱۲)لوق��ا رک��وع سے کہا میاں! کس نے مجھے تمہارا منصف یا بانٹنے والا مقرر کی��ا ہے؟" ت��ا۱۳

(۔۱۴

ی� المسیح اس جہ��اں میں دوب��ارہ تش��ریف لائیں آائے گا جب حضور سیدناعیس ایک دن آاپ نے آاپ دنی�ا ک� ع�دالت فرم�ائیں گے ۔ مگ�ر ف� الح�ال نہیں۔ گے۔ اس وقت بط�ور منص�ف

گفتگو کا رخ اس قسم کے جھگڑوں ک� اص جڑ ک� طرف پھیر کر فرمایا:آاپ کو ہر طرح کے لالچ سےبچائے رکھو کی��ونکہ کس�� ک� زن�دگ� " خبردار ! اپنے

آایت اس کے مال ک� کثرت پر موقوف نہیں۔" (۔۱۵)

انسان اکثر اپنے حقوق کے لئے ل��ڑتے اور م��ال ودولت بٹ��ورنے میں لگے رہ��تے ہیں۔ وہ اس دنیا ک� دولت کا زی��ادہ اور اچھ��ا حص��ہ طلب ک��رتےہیں۔ اس س��ے پیش��تر ہم یہ دیکھ چکے� المس���یح غرب���ا اور مس���اکین ک� احتی���اجیں رف��ع ک��رتے رہے ہیں اور بلا معاوض���ہ dا���ہیں کہ جن دول مق��ام دی��تے رہے۔ اس��� آاپ ہمیش��ہ اہم ام��ور ک��و ا بیم��اروں ک��و ش��فا بھ� دی��تے رہے ہیں۔ لیکن آاپ نے ای�ک تمثی�� کے ذریعہ اس حقیقت ک� وض�احت فرم�ائ� کہ ہ��ر ش��خص ض��من میں ی� کے ساتھ اس ک� گہری نسبت ہو یہ ام�ر دنی�اوی دولت ک� اولین ذمہ داری یہ ہے کہ خدا تعال

سے کہیں زیادہ اہمیت کا حام ہے۔

بے وقوف دولت مند� ذی تمثی فرمائ� : آاپ نے حسب پھر

"کس��� دولت من��د ک� زمین میں ب��ڑی فص�� ہ��وئ� ۔ پس وہ اپ��نے دل میں س��وچ ک��رکے کہنےلگا کہ میں کیا کروں کیونکہ میرےہاں جگہ نہیں جہاں اپن� پیداوار بھر رکھوں؟اس نے کہا میں یوں کروں گا کہ اپن� کوٹھی��اں ڈھ�اکر ان س�ے ب�ڑی بن�اؤں گ��ا۔ اور ان میں اپن��ا س��ارا ان��اج اور مال بھر رکھوں گا او راپن� جان سے کہوں گا اے جان ! تیرے پاس بہت برسوں کے ل��ئے بہت سا مال جمع ہے ۔ چین کر کھا پ� خوش رہ ۔ مگر خدا نے اس سے کہا اے ن��ادان! اس��� رات تیری جان تجھ سے طلب کرل� جائے گ�۔ پس جو تونے تی��ار کی��ا ہے وہ کس ک��ا ہوگ��ا؟ ایس��ا ہ�

") انجی�� ش��ریفوہ شخص ہے جو اپنے لئےخزانہ جمع کرتا ہے اور خدا کے نزدیک دولت من��د نہیں

آایت ۱۲بہ مطابق حضرت لوقا رکوع (۔۲۱ تا ۱۶

آام�وز ی� المسیح نے اس تمثی� ک�و اپ�نے حواری�وں کے ل�ئے زی�ادہ س�بق حضور سیدناعیسبنانے کے لئے یوں ارشاد فرمایا:

" میں تم س��ے کہت��ا ہ��وں کہ اپ��ن� ج��ان ک� فک��ر نہ ک��رو کہ ہم کی��ا کھ��ائیں گے اور نہ اپنے بدن ک� کہ کیا پہنیں گے ۔ کی�ونکہ ج�ان خ�وراک س�ے ب��ڑھ ک�رہے اور ب�دن پوش�اک س�ے ۔ ک�وؤں پ�ر غ��ور ک�رو کہ نہ ب�وتے ہیں نہ ک�اٹتے ۔ نہ ان کے کھت��ا ہوت�ا ہے نہ ک�وٹھ�۔ ت�و بھ� خ�دا

) انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رک��وعانہیں کھلاتا ہے ۔ تمہاری قدر تو پرندوں سے کہیں زیادہ ہے۔"

آایت ۱۲ (۔۲۴تا ۲۲

آاپ نے مزید فرمایا : اس سلسلہ میں " ہاں ، اس ک� بادشاہ� ک� تلاش میں رہ��و ت��و یہ چ��یزیں بھ� تمہیں م�� ج��ائیں گ�۔آای��اکہ تمہیں بادش��اہ� دے۔ اپن��ا م��ال اے چھ��وٹے گلے نہ ڈر کی��ونکہ تمہ��ارے ب��اپ ک��و پس��ند آاسمان پرایسا اسباd بیچ کر خیرت کردو اور اپنے لئے ایسے بٹوئے بناؤ جو پرانے نہیں ہوتے یعن� خزانہ جو خال� نہیں ہوتا۔ جہاں چور نزدیک نہیں جاتا اور کیڑا خ��راd نہیں کرت��ا۔ کی��ونکہ جہ��اں

آایت ۱۲")انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت لوق��ا رک��وع تمہارا خزانہ ہے وہیں تمہارا دل بھ� لگا رہے گا آایت۳۱

(۔۳۴

ہم میں سے بیشتر تاجر، فیکٹریوں کے مالک ،زمیندار، یہاں تک کہ غ��ریب س��ے غ��ریب بھ� اس بے وق��وف دولت من��د ک� مانن��د ہیں۔ وہ ص��رف اس��� زن��دگ� ک� فک��ر میں رہ ک��ر اس حقیقت ک�و فرام�وش ک�ر بیٹھے ہیں کہ کس��� نہ کس�� دن اس دنی��ائے ف��ان� ک��و چھ��وڑ ک�ر خ�دااہ یا حادثہ یا کس� بھ� ناگہ��ان� ی� کے حضور بھ� حاضر ہونا ہے، چاہے یہ بلاوا دل کے دور تعال

عارضے کے باعث کیوں نہ ہو۔

� محشر کے بلاوے کے لئے مستعد رہنا داوری� المسیح نے تلقین فرمائ� کہ ایک دوسری تمثی میں حضور سیدناعیس

آادمی��وں ک� "تمہ��اری کم��ریں بن��دھ� رہیں اور تمہ��ارے چ��راغ جل��تے رہیں۔ اور تم ان مانند بنو جو اپنے مالک ک� راہ دیکھتے ہوں کہ وہ شادی میں سے کب لوٹے گ��ا ت��اکہ جب وہاا اس کے واس��طے کھ��ول دیں۔ مب��ارک ہیں ہ��و ن��وکر جن ک��ا مال��ک آاکر دروازہ کھٹکھٹائے تو فور آاک��ر انہیں جاگت��ا پ��ائے۔میں تم س��چ کہت��ا ہ��وں کہ وہ کم��ر بان��دھ ک��ر انہیں کھان��ا کھ��انے ک��وآاکر ان ک� خدمت کرے گا۔ اور اگر وہ رات کے دوسرے پہر میں یا تیسرے بٹھائے گا اور پاس

آاکر ان کو ایسے حال میں پائے تو وہ نوکر مبارک ہیں" )انجی شریف بہ مطابق حضرت لوق��ا رک��وعپہر میں

(۔۳۹تا ۳۵آایت ۱۲

آاپ نے ایک اور تمثی کے وسیلہ سے یوں متنبہ فرمایا: ہر لمحہ مستعد رہنے ک� ضرورت پر آائیگ��ا توجاگت��ا "یہ جان رکھو کہ اگر کھرکے مالک کو معلوم ہوت��ا کہ چ��ور کس گھ��ڑی رہتا اور اپنے گھر میں نقب لگنے نہ دیتا۔ تم بھ� تیار رہو کیونکہ جس گھ��ڑی تمہیں گم��ان بھ�

آاجائے گا" آادم آایت نہ ہوگا ابن (۔۴۰تا ۳۹)

آاپ کے ح��وارئین بیش��تر تم��ثیلوں ک��ا مطلب س��مجھنے س��ے قاص��ر تھے۔ لہ��ذا حض��رتآاپ کو مخاطب کرکے کہا پطرس نے

"اے خداوند تو یہ تمثی ہم ہ� سے کہتاہے یا سب سے ۔"؟آانحضور نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

" کون ہے وہ دیانتدار اور عقلمن��د داروغہ جس ک��ا مال��ک اس��ے اپ��نے ن��وکر چ�اکروں پ�رآاک��ر مقرر کرے کہ ہر ایک ک� خوراک وقت پر بانٹ دیا کرے؟مبارک ہے وہ نوکر جس ک��ا مال��ک اس کو ایسا ہ� ک�رتے پ�ائے ۔ میں تم س�ے س�چ کہت�اہوں کہ وہ اس�ے اپ�نے س�ارے م�ال پ�ر مخت��ارآانے میں دی��ر ہے ک��ردے گ��ا۔لیکن اگ��ر وہ ن��وکر اپ��نے دل میں یہ کہہ ک��ر کہ م��یرے مال��ک کے غلاموں اور لونڈیوں کو مارنا اورکھاپ� کر متوالا ہونا شروع کرے۔ ت�واس ن��وکر ک��ا مال��ک ایس�ے دنآاموج�ود ہوگ�ا اور خ�وd ک�وڑے کہ وہ اس ک� راہ نہ دیکھتا ہو اور ایس� گھ��ڑی ک� وہ جانت�ا نہ ہ��و لگاکر اسے بے ایمانوں میں شام کرے گا۔ اور وہ نوکر جس نے اپنے مال��ک ک� مرض��� ج��ان ل� اور تیاری نہ ک� نہ اس ک� مرض�� کے مواف��ق عم�� کی��ا۔ بہت م��ار کھائیگ��ا۔ مگ�ر جس نے جان کر مار کھانے کے ک�ام ک�ئے وہ تھ��وڑی م�ار کھ��ائے گ�ا۔ اور جس�ے بہت دی�ا گی��ا اس س�ے

)انجی�� ش��ریف بہبہت طلب کیا جائے گا اور جسے بہت سونپا گیا ہے اس سے زیادہ م�انگیں گے۔"

(۔۴۸تا ۴۱آایت ۱۲مطابق حضرت لوقا رکوع

ی� المسیح کے اس فرمان کا اطلاق یوں تو سب لوگوں پرہوتا ہے لیکن حضور سیدناعیسآاپ سر پرستوں ک��و بھ� انتب��اہ جو زیادہ سمجھ رکھتے ہیں وہ زیادہ ذمہ دار ٹھہریں گے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ وہ حق تلف� اور ماتحتوں پر ظلم وستم کرکے اپنےاختیارات کا ناج��ائز اس��تعمال نہ

کریں۔

فرمانبرداری ک� قیمتآاپ کے احک��ام ک� فرم��انبرداری ک��انتیجہ خان��دان ک� المس��یح کے س��اتھ وف��اداری اور آاپ طرف سے سخت مخالفت ک� صورت میں نک� س�کتا ہے ۔ پہل� ص�دی عیس�وی ہ� س�ے آاپ کے ارش��ادات کے پیروکاروں کا اس� ط��رح کے تجرب��ات سےس��ابقہ پڑت��ا رہ��ا کہ جب ک��وئ� ک� پیروی کرنے لگتا ہے تو بسا اوقات اس کے اپنے گھر والے ہ� اس کے خلاف جارحانہ ان��داز

آاپ کے مبارک الفاظ حسب ذی ہیں: اختیار کرلیتے ۔ اس ضمن میں

آایا ہ��وں؟ میں تم س��ے کہت��ا ہ��وں کہ "کیا تم گمان کرتے ہو کہ میں زمین پر صلح کرانے آاپس میں مخ��الفت رکھیں آادم� نہیں بلکہ جدائ� کرانے ۔ کیونکہ اd سے ایک گھر کے پ��انچ گے ۔ دو سے تین اور تین سےدو ۔ باپ بیٹے سے مخالفت رکھے گا اور بیٹا باپ سے۔ ماں بی��ٹ�

")انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت لوق��ا رک��وعسے اور بیٹ� ماں سے ۔ ساس بہ��و س��ے اور بہ��و س��اس س��ے

(۔۵۳تا ۵۱آایت ۱۲

متشکر کوڑھ�ی� المس�یح س�امریہ اور گلی�� کے س��رحد عب��ور ک��رکے گ��اؤں کے جب حضور سیدناعیس��آاپ کو دس کوڑھ� ملے۔ وہ چ�ونکہ ک��وڑھ کے م��رض میں مبتلا تھے اس ل��ئے نزدیک پہنچے تو

آاپ سےدورکھڑے ہوکرچلانے لگے ۔ی�(! اے صاحب ! ہم پر رحم کر۔" " اے یسوع )عیس

آاپ نے ان پر ترس کھاکر فرمایا " ج�اؤ اپ�نے ت�یئں ک�اہنوں )ام�اموں( ک�و دکھ��اؤ۔ اور ایس�ا ہ��وا کہ و ہ ج��اتے ج��اتے پ��اکآاواز س��ے خ��داک� تمجی��د صاف ہوگئے۔ پھران میں سے ایک یہ دیکھ کر کہ میں ش��فا پاگی��ا بلن��د ی�( کے پاؤں پر گر کر اس کاشکر کرنے لگا اور وہ س��امری کرتا ہوا لوٹا۔ اور منہ کے ب یسوع)عیس

تھا۔"آاپ نے یہ دیکھ کر اس سےفرمایا:

"کیا دسوں پاک صاف نہ ہوئے ؟ پھر وہ نو کہاں ہیں؟ کی��ا اس پردیس��� کے س��وا اور نہ نکلے جو لوٹ کر خدا ک� تمجید کرتے ؟ پھر اس سے کہ��ا اٹھ ک��ر چلا ج��ا۔ ت��یرے ایم��ان نے

آایت ۱۷") انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا، رکوع تجھے اچھا کیا (۔۱۹تا ۱۱

دس کوڑھیوں کا یکجا جمع ہونا کتنا کریہ منظر تھا۔ وہ یہ جانتے ہوئے ہم ناپاک ہیںآاپ ک� ش��فقت بھ��ری نظ��ر اور ص�حت دور ہ� کھ��ڑے ہ��وکر ش�فا ک� درخواس�ت ک�رنے لگے ۔ یاب� کا پروانہ حاص کرنے کے ارشاد نے ان کے دل میں ش��فا ک� امی��د پی��دا ک��ردی۔ چن��انچہ

وہ بڑے ایمان کے س��اتھ چ� دئ�يے۔ لیکن ج�ائے افس�وس ہے کہ ش�فا ی�اب� ک�ا پ�روانہ حاص� کرنے ک� فکر میں وہ اپنے شاف� کو ہ� بھول گئے ۔ ان میں سے صرف ایک ہ� اپنے محسنآای��ا۔ یہ ش��خص راس��خ الاعتق��اد یہودی��وں میں س��ے نہیں بلکہ ک��ا ش��کریہ ادا ک��رنے کے ل��ئے واپس

آاپ نے فرمایا: سامری تھا۔ اس ک� شکر گزاری کو قبول کرتے ہوئے " تیرے ایما ن نے تجھے اچھا کیا ہے۔"

ی� کےہ��اں رن��گ ونس�� اور کلمتہ الل��ه نے ب��ار ب��ار اس حقیقت ک� وض��احت فرم��ائ� کہ خ��دا تع��ال سماج� ودین� مرتبے کا امتیاز نہیں بلکہ وہ ہر اس ش��خص ک�و ج��و اس ک� ط��رف رج��وع ک��رکے

اس پر ایمان لائے قبول کرتا ہے۔

� شفا سبت کے دن کاری� المس��یح ای��ک عب��ادت خ��انہ میں درس فرم��ارہے تھے سبت کے دن حضور سیدناعیس��آاپ ک� نظر ایک ع��ورت پ�ر پ�ڑی جس ک� کم�ر جھک� اور س�یدھ� نہیں ہ��وت� تھ�۔ وہ ا کہ معا

آاپ نے اسے قریب بلا کرفرمایا:۱۸اٹھارہ) � رحم حالت میں تھ�۔ ( برس سے اس� قاب" اے عورت ، تو اپ��ن� کم��زوری س��ے چھ��وٹ گ��ئ� " ۔ اور اس نے اس پرہ��اتھ رکھے ۔

اس� دم وہ سیدھ� ہوگئ� اور خدا ک� تمجید کرنے لگ�۔ ی�( نے س����بت کے دن ش����فا عب����ادت خ���انہ ک����ا س����ردار اس ل����ئے کہ یس���وع )عیس����آاک��ر بخش� ،خفا ہوکر لوگوں سےکہنےلگا چھ دن ہیں جن میں کام کرن��ا چ��اہیے۔پس انہ� میں

شفا پاؤ نہ کہ سبت کے دن۔"آانحضور نے یہ سن کر فرمایا: منبع شفا

" اے ریاکارو! کیا ہرایک تم میں سے سبت کے دن اپنے بی یا گ��دھے ک��و تھ��ان س��ے کھول کر پان� پلانے نہیں لے جاتا ؟ پس کی��ا واجب نہ تھ��ا کہ ج�و ابرہ��ام ک� بی��ٹ� ہے جس ک��و

شیطان نے اٹھارہ برس سے باندھ رکھا تھا۔ سبت کے دن اس بندسے چھڑائ� جات�؟"

آاپ کے س�ب مخ�الف ش�رمندہ ہ�وئے لیکن ع�وام ان آاپ ک� اس حقیقت افشان� سے (۔۱۷تا ۱۲آایت ۱۳)دیکھئے انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع کارہائے عالیشان کے باعث خوش ہوئے

آاپ نے س��بت کے دن کی��وں اس ع��ورت عبادت خانہ کے سردار ک� اس نکتہ چی��ن� پ��ر آاپ نے ش�ریعت پ�ر س�توں کے دو رخے اور س�خت ونامناس�ب معی��ار ک� م�ذمت کو شفا بخش� فرمائ�۔ وہ اپن� سہولت ک� رعایت کرتے ہوئے تو سبت کے دن ک��ئ� ک��اموں ک��و روا س��مجھتے

تھے مگر انہوں نے اس غریب عورت کےشفاپانے کو عدول� شریعت قرار دیا۔

خدا ک� بادشاہ� ک� زندگ� بخش قدرتی� المس��یح نے ای��ک تمثی�� کے ذریعہ س��ے یہ بی��ان فرمای��ا کہ ج��و حض��ور سیدناعیس��آاپ نے فرمایا: زندگ� روحان� قوت سے بھر پور ہو اسے شرع� ضابطوں سے دبایانہیں جاسکتا۔

" میں خدا ک� بادشاہ� کو کس سے تشبیہ دوں؟ وہ خم��یر ک� مانن��د ہے جس��ےایکآاٹا میں ملایا اورہوتے ہوتے س��ب خم�یر ہوگیا ")انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رتعورت نے لے کرتین پیمانہ

(۔۲۱ تا ۲۰آایت ۱۳مت� لوقا رکوع

آاٹے سےبھرے ہ��وئے ٹب میں تھ��وڑا س��ا پشاور کے نان بڑے خوش ذائقہ ہوتے ہیں۔ ایک آاٹا خمیر ہوجاتا ہے ۔ جس کے نان پک��ائے ج��اتے ہیں۔ بعینہ المس��یح کے خمیر ملانے سے سارا � مب��ارک اس تم��ام ک��رہ ارض میں خم��یر ک� ط��رح پھی�� چکے ہیں۔ انجی�� ش��ریف ک� الف��اظ آاج روئے زمین ک� تم�ام قوم�وں میں ک�ا ر خوشخبری ،زندگ� ک� ق��وت ک��ادرجہ رکھ��ت� ہے ج�و

فرما ہے۔

آافات کا مطلبی� المس�یح کس�� جگہ درس فرم�ارہے ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب حض�ور سیدناعیس�آائے۔ اس قت��ال ک��ا س�بب روم� گ�ورنر تھے تو کچھ لوگ چن��دگلیلیوں کےقت��ال ک� خ��بر لے ک��ر پیلاطس کا ناجائز رویہ تھا۔ وہ ہیک کے پاک خزانے سے پیس�ے لے ک�ر یروش�لیم او رہیک� کے گردونواح میں ایک نال بنواکر پ��ان� پہنچان��ا چاہت��ا تھ��ا۔ اس س��بب س��ے گلیل� زائ��رین نے فس��اد

کھڑا کردیا تھا جس�ےہیک کے ص�حن میں نہ�ایت خ�ونریزی کے س�اتھ دبادیاگی�ا۔ اس دن گلیل� زائرین ک��ا خ��ون بہہ ک�ر ان ک� اپ��ن� قرب�انیوں کے س��اتھ م� گی��ا۔ اس س��انحہ س�ے لوگ��وں نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھاکہ یہ قتال ان لوگوں پر خدا کے غضب کا نش��ان تھ��ا۔ المس�یح نے اس ک��ا ی��وں

جواd فرمایا: ان گلیلیوں نے جو ایسا دکھ پایا کیا وہ اس لئے تمہاری دانس��ت میں اور س��ب گلیلی��وں س��ے زي��ادہ گنہگ��ار تھے؟ میں تم س��ے کہت��اہوں کہ نہیں بلکہ اگ�ر تم ت��وبہ نہ ک��رو گے ت��و س��ب

آایت ۱۳) انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع اس� طرح ہلاک ہوگے" (۔۵تا ۲

حادثات ، بیماریاں ظلم وتشدد ، قحط ،مری اور جنگ ،یہ سب بلائیں گناہ ک��ا ن��تیجہ ہیں۔ گناہ ہ� نے اس خوبصورت دنیا کو تب��اہ وبرب��اد کردی�اہے۔ لیکن ض�روری نہیں کہ یہ مص��ائبی� ک� براہ راست سزا ہوں۔ البتہ انہیں ان لوگوں کے لئے تنبیہ سمجھنا چ��اہیے متاثرین پر خدا تعالی� المس��یح نے اپ��نے ی� ک� طرف رجوع لانے سے گریز کرتے ہیں۔ حضور سیدناعیس�� جو حق تعالdاعث ا��اہوں کے ب��وم کے گن��ودی ق��انہ یہ��بر کاپیم��ی� کے ص اس فرمان ک� دلی میں کہ خدا تعال

چھلکنے ہ� والا ہے۔ ایک تمثی سے وضاحت فرمائ�: " کس� کے تاکستان میں ایک انجیر کا درخت لگا ہ��وا تھ��ا وہ اس میں پھ�� ڈھون��ڈنے آایا اور نہ پایا۔ اس پر اس نے باغبان سے کہا کہ دیکھ تین ب��رس س��ے میں اس انج��یر کے درختآات��ا ہ��وں اور نہیں پات��ا۔ اس��ے ک��اٹ ڈال یہ زمین ک��و بھ� روکے رہے؟ اس نے میں پھ�� ڈھون��ڈنے جواd میں اس سے کہا اے خداوند اس سال ت�و اور بھ� اس�ے رہ��نے دے ت�اکہ میں اس کےآاگے ک��و پھلا ت��و خ��یر نہیں ت��و اس کے بع��د ک��اٹ گ��رد تھ��الہ کھ��ودوں اورکھ��ا دڈال��وں ۔ اگ��ر

(۔۹تا ۶آایت ۱۳۔") انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع ڈالنا

ء میں روم� جنرل ططس نے یورش ک��رکے یہودی��وں۷۰ا س کے اکتالیس سال کے بعد ی� نے انہیں ک� رہ� سہ� طاقت ختم ک� اور یروش��لیم ک� اینٹ س��ے اینٹ بج��ادی ، خ�دا تع��ال

توبہ کرنے اور رجوع لانے کا موقع دیا تھا لیکن انہ��وں نے گ��ردن کش��� ک� جس کے ن��تیجے میںانہیں اس المیہ سے دوچار ہوناپڑا۔

یے فکر عقبی� المس��یح گ��اؤں گ��اؤں اور ش��ہر ش��ہر درس دی��تے ہ��وئے مبل��غ عظیم حض��ور سیدناعیس��

یروشلیم ک� طرف تشریف لے جارہے تھے۔ چلتے چلتے کس� نے دریافت کیا۔"اے خداوند ! کیا نجات پانے والے تھوڑے ہیں؟"

آاپ نے چند نہایت اہم حقائق بیان فرمائے جن کے تحت اس سوال کے جواd میں آاپ نے اپ��نے س��امعین ک��و آاخری فیصلہ صادر کرے گا۔ خدا ئے قدوس نوع انسان� کے لئے اپنا

ی لگانے ک� بجائے پہلے اپن� ہ� عاقبت ک� فکر کریں۔ تاکید فرمائ� کہ و ہ دوسروں پرفتوے " جانفشان� کروکہ تنگ دروازے سے داخ� ہوکی��ونکہ میں تم س�ے کہت��اہوں کہ بہت��یرے داخ ہ��ونے ک� کوش�ش ک�ریں گے اور نہ ہوس�کیں گے ۔ جب گھ��ر ک��ا مال�ک اٹھ ک�ر دروازہ بن�د کرچکا ہو اور تم ب�اہر کھ��ڑے دروازه کھٹکھٹ�اکر یہ کہن�ا ش�روع ک�روکہ اے خداون�د ! ہم�ارے ل�ئے کھ��ول دے اور وہ ج��واd دے کہ میں تم ک��و نہیں جانت��ا کہ کہ��اں کے ہ��و۔ اس وقت تم کہن��ا شروع کروگے کہ ہم نے تو تیرے روبرو کھایا پیا اور ت�و نے ہم�ارے ب�ازاروں میں تعلیم دی۔مگ�ر وہ کہے گا میں تم سے کہتا ہ��وں کہ میں نہیں جانت��ا تم کہ��اں کے ہ��و۔ اےب��دکارو! تم س��ب مجھ

آایت ۱۳") انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع سے دور ہو (۔۲۷ تا ۲۴

ی� ک� پ��اک حض�وری ک� دائم� مس��رت میں ش��ریک ہون��ا ہلک� س��� ش��ے نہ ح��ق تع��ال س�مجھ� ج��ائے۔جن��اd المس�یح نے فرمای�ا کہ اس میں داخ�� ہ��ونے کے ل��ئے ب�ڑی جانفش�ان� ک� ضرورت ہے ۔ کوئ� شخص بھ� محض دین� رسومات ک� ادائيگ� پ��ر تکیہ ک��رکے نہ بیٹھ��ا رہےی� سےاپن� مخلص� کاطالب ہو۔ خدا کو واحد ولاشریک تس��لیم بلکہ پورے دل سے حق تعال کرنا تو اچھا ہے لیکن اگ�ر اس ک� تابع��داری نہ ک� ج�ائے ت�و عین ممکن ہے کہ ایس�ے ش�خص

ی� میں ان کو جو حق شناس ہوتے ہ��وئے �م الہ کے لئے جنت کا دروازه کبھ� بھ� نہ کھلے ۔ کلابھ� حق پر عم نہیں کرتے ، حسب ذی تنبیہ ک� گئ ہے۔

" تو اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ خدا ای�ک ہ� ہے۔ خ�یر ، اچھ��ا کرت�ا ہے ۔ ش�یاطینآادم� ! کی��ا ت��و یہ بھ� جانت��ا ہے کہ ایم��ان بھ� ایم��ان رکھ��تے اور تھرتھ��راتے ہیں۔ مگ��ر اےنکمے

�ط حضرت یعقوd رکوع بغیراعمال کے بیکار ہے ؟ (۔۲۰تا ۱۹آایت ۲)انجی شریف خ

ی� المس�یح نے روز محش�ر ک�و ایس�ے بے عم� لوگ�وں � کام حضور س�یدنا عیس� منصفکے حال ک� یوں عکاس� فرمائ� ہے:

" وہاں رونا اوردانت پیسناہوگا۔ جب تم ابرہام اور اضحاق اور یعق��وd اور س�ب ن��بیوں ک�و، dور����و گے ، اور پ����وا دیکھ����اہر نکلا ہ����و ب����آاپ ک خ����دا ک� بادش����اہ� میں ش����ام اور اپ����نے آاکر خدا ک� بادشاہ� ک� ض�یافت میں ش�ریک ہ��وں گے اور دیکھ��و پچھم ،اتر ،دکھن سے لوگ

آاخ��ر ہ��وں گے ۔" آاخر ایسے ہیں جو اول ہوں گے اور بعض اول ہیں ج��و )انجی�� ش��ریف بہ مط��ابقبعض

آایت ۱۳حضرت لوقارکوع (۔۳۰ تا ۲۸

آاپ کو اطلاع دی کہ آاکر آاپ کہیں درس فرمارہے تھے تو چند فریسیوں نے ایک دفعہ آاپ نے " نک�� ک��ر یہ��اں س��ے چ�� دے کی��ونکہ ہ��یرودیس تجھےقت�� کرن��ا چاہت��ا ہے۔"

اا فرمایا: جوابآاج اور ک�� ب��دروحوں ک��و نکالت��ا اور ش��فا " جاکر اس ل��ومڑی س��ےکہہ دو کہ دیکھ میں آاج او رک اور بخشنے کا کام انجام دیتارہوں گا اور تیسرے دن کمال کو پہنچوں گا۔ مگرمجھے

")انجی��پرسوں اپن� راہ پر چلن��ا ض��رور ہے کی��ونکہ ممکن نہیں کہ ن��ب� یروش��لیم س��ے ب��اہر ہلا ک ہو

(۔۳۳ تا ۳۱آایت ۱۳شریف بہ مطابق حضرت لوقارکوع

آاپ ک�و محض آاپ کے خ��یرخواہ تھے ی�ا یہ��اں یہ س��وال پی��دا ہوت��ا ہے کہ کی��ا فریس�� آاپ کوحض��رت یوحن��ا ڈران��ا چ��اہتے تھے؟ کی��ا واقع� ہ��یرودیس انتپ��اس یہ ٹھ��ان چک��ا تھ��ا کہ آاگ��اہ تھے کہ ی� المسیح اس بات سے ی�( ک� طرح قت کرے ؟ حضور سیدنا عیس اصطباغ� )یحی

آاپ بھ� یروشلیم ہ� میں وفات پائیں گے ، لہ��ذا انس��ان� ع��داوت ک� انتہ��ا ک��ودیکھ ک��ر حض��ورآاپ ان الفاظ میں چلا اٹھے: کے دل میں ایک ہوک سے اٹھ� اور

" اے یروش��لیم ! اے یروش��لیم ! ت��و ج��و ن��بیوں ک��و قت�� ک��رت� ہے اور ج��و ت��یرے پ��اس بھیجے گ��ئے ان ک��و سنگس��ار ک��رت� ہے کت��ن� ہ� ب��ار میں نے چاہ��ا کہ جس ط��رح م��رغ� اپ��نے بچوں کو پروں تلے جمع کرلیت� ہے اس� طرح میں بھ� ت��یرے بچ��وں ک��و جم��ع کرل��وں۔ مگ��ر تم نے نہ چاہا ! دیکھو تو تمہارا گھر تمہارے ہ� ل�ئے چھ�وڑا جات�ا ہے اور میں تم س�ے کہت��ا ہ��وں کہ مجھ کو اس وقت تک ہرگ��ز نہ دیکھ��وگے جب ت��ک نہ کہ��وگے کہ مب��ارک ہے وہ جوخداون��د کے

آاتا ہے۔" آایت ۱۳) انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع نام سے (۔۳۵ تا ۳۴

بیت عنیاہ میں یروشلیم کے نواح میں ایک گ��اؤں بن��ام بیت عنی��اہ تھ��ا۔ یہ��اں ای�ک خان��دان میں حض��ورآاپ ک��و اور ی المسیح گاہے بہ گاہے قی��ام فرم�اتے تھے۔اس گھ��ر ک� م�الکہ مرتھ��ا نے سیدنا عیس� آاپ کے حواریوں کا خیرمقدم کیا اور ب��ڑی ع��زت وتک��ریم کے س��اتھ اپ�نے گھ��ر میں ات�ارا۔ اس گھ��ر میں مرتھا ک� چھوٹ� بہن مریم اور اس کا بھائ� لعزر بھ� تھے۔ ان کے لئے ات��نے عظیم الم��رتبتآاپ کے قی��ام وطع��ام میں اس استاد ک� خاطر تواضح کرنا بڑے فخ��ر ک�ا ب��اعث تھ��ا۔ لیکن مرتھ��ا آاپ کے ق��دموں میں بیٹھ��نے ک� فرص��ت نہ مل�۔ ق��در مش��غول رہ� کہ اس��ے ذرا س��� دی��ر بھ�

انجی شریف میں اس واقعہ کا یوں ذکر ہوا ہے: " پھر جب ج��ارہے تھے ت��و وہ ای�ک گ�اؤں میں داخ�� ہ��وا اور مرتھ��ا ن��ام ای�ک ع��ورت نے

اؤںاسے اپنے گھ��ر میں ات�ارا ۔ اورم�ریم ن�ام اس ک� ای�ک بہن تھ�۔ وہ یس�وع ی�( کے پ )عیس کے پاس بیٹھ کر اس ک�ا کلام س�ن رہ� تھ�۔ لیکن مرتھ�ا خ�دمت ک�رتے ک�رتے گھبراگ�ئ� ۔ پسآاک��ر کہ��نے لگ� اے خداون��د ! کی��ا تجھے خی��ال نہیں کہ م��یری بہن نے خ��دمت اس کے پ��اس کرنے کو مجھے اکیلا چھوڑدی�ا ہے؟ پس اس�ے فرم��اکہ م�یری م�دد ک�رے۔ خداون��د نے ج��واd میں

اس سے کہا مرتھا ! مرتھا تو تو بہت س� چیزوں ک� فکروت��ردد میں ہے۔لیکن ای��ک چ��یز ض��رور )انجی شریف بہ مطابق حض��رتہے اور مریم نے وہ اچھا حصہ چن لیا ہے جوا سے چھینا نہ جائے گا۔"

(۔۴۲ تا ۳۸آایت ۱۰لوقا رکوع

آاپ ک� جائے پناہ بننے والا تھ��ا۔ اس��� آاخری ہفتے میں آانحضور ک� زندگ� کے یہ گھر آاپ نے گھر میں ایک عظیم ترین معجزه بھ� ظہور پذير ہونے والا تھا۔ یہ اس وقت رونم�ا ہ��وا جب

مرتھا کے مرحوم بھائ� لعزر کو چار دن کےبعد زندہ کیا۔� تجدید منانے کے لئے پھر یروش��لیم ی� المسیح عید چشمئہ بصارت حضور سیدنا عیسآاٹھ دن�وں میں من��ائ� ج�ات� تھ�۔ ان دن�وں ہیک� آاخری تشریف لے گئے ۔ یہ عید ماہ دسمبر کے میں چراغاں کیاجاتا تھا اور عوام عید ک� اس خوش� میں اپنے گھروں کو خ��وd س��جاتے تھے۔آاج ایک ایسا شخص تھا جو اس تہوار ک� مسرت اورگہما گہم� کو دیکھ��نے س��ے مع��ذور لیکن

تھا وہ اس شہر کا ایک بیکس نابینا بھکاری تھا۔

اندھے بھکاری کو بینائ�ی� المسیح بیت عنی��اہ س��ے یروش��لیم تش��ریف لے ج��ارہے تھے۔ج��و دو حضور سیدنا عیس

آاپ نے ایک شخص کو دیکھا جوجنم کا اندھا تھا۔ می ک� مسافت پر تھا توراہ میں آاپ سے دریافت کیا۔ آاپ کے حواریوں نے

" اے رب� ! کس نے گناہ کیا تھا جو یہ اندھا پیدا ہوا۔ اس ش�خص نےی�ا اس کے م�اںباپ نے ؟

ی�( نے جواd دی�ا کہ نہ اس نے گن��اہ کی��ا تھ��ا نہ اس کے م��اں ب��اپ نے " یسوع )عیس بلکہ یہ اس لئے ہوا کہ خ��دا کے ک��ام اس میں ظ��اہر ہ��وں۔ جس نے مجھے بھیج��ا ہے ، ہمیں اسآانے وال� ہے جس میں ک��وئ� ش��خص ک��ام نہیں کے ک��ام دن ہ� دن ک��و کرن��ا ض��رورہے۔ وہ رات

کرسکتا ۔ جب تک میں دنیا میں ہوں دنیا کا نور ہوں۔

" یہ کہہ ک��ر اس نے زمین پ��ر تھوک��ا اور تھ��وک س��ے م��ٹ� س��ان� اور وہ م��ٹ� ان��دھے ک� آانکھوں پر لگا کر اس سے کہا جا شیلوخ ) جس کا ترجمہ بھیجا ہوا ہے( کے حوض میں دھ��ولے

۔" آانکھیں آاپ کے فرمان کے مطابق ش��یلوخ کے ح��وض پ��ر ج��اکر اس اندھے شخص نے آائ�۔جب اس کے پڑوس��یوں اورمحلے داروں نے ج��و دھ��وئیں اور دھ��وتے ہ� اس ک� بین��ائ� ع��ود

اسے بھیک مانگتے دیکھا کرتے تھے بینا پایا تو بڑی حیرت سے کہا "کیا یہ وہ نہیں جو بیٹھا بھیک مانگا کرتا تھا ؟

اوروں نے کہا نہیں لیکن کوئ� اس کا ہم شک ہے۔آانکھیں کی��وں ک��ر اس نے کہ��ا میں وہ� ہ��وں۔ پس وہ اس س�ے کہ��نے لگے پھ��ر ت��یری

کھ گئیں؟ی�( ہے مٹ� سان� اور م��یری اس نے جواd دیاکہ اس شخص نے جس کا نام یسوع)عیس

آانکھوں پر لگاکر مجھ سے کہا شیلوخ میں جاکر دھو لے ۔پس میں گیا اور دھوکر بینا ہوگیا۔انہوں نے اس سے کہا وہ کہاں ہے؟

(۔۱۲تا ۱آایت ۹۔")انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع اس نے کہا میں نہیں جانتا

اس ان��دھے بھک��اری ک��و جس نے اپ��ن� س��اری زن��دگ� محت��اج� اور ان��دھیرے میں ٹھوکریں کھا کھ�ا ک�ر گ�ذاری تھ� اس�ے چن�د ہ� س�اعت میں بین��ائ� جیس�� بیش بہ��ا نعمت� عید س��ے بھی��ک مان��گ رہ��ا تھ��ا۔ اس ک� ش��فایاب� حاص ہوگئ� ۔ چند لمحات پہلے وہ زائرین ی� المس�یح کے سے حیرت زدہ ہوکر ہجوم اس کے گرد جمع ہوگی�ا۔ ان میں حض�ور س�یدنا عیس� مخالفین بھ� تھے۔ وہ اس بچ��ارے ک��و تف��تیش ک� غ��رض س��ے گھیس��ٹ ک��ر علم��ائے دین کے

�م حق میں یوں ارشاد ہے۔ پاس لے گئے ۔ اس کے بارے میں کلا " لوگ اس شخص کو ج��و پہلے ان��دھا تھ��ا فریس��یوں کے پ��اس لے گ��ئے ۔ اور جس روزآانکھیں کھول� تھیں وہ س��بت ک��ا دن تھ��ا۔ پھ��ر فریس��یوں ی�( نے مٹ� سان کر اس ک� یسوع )عیس

آانکھوں پ��ر م��ٹ� نے بھ� اس سے پوچھا تو کس طرح بینا ہوا؟ اس نے ان سے کہا اس نے میری آادم� خ��دا ک� لگ��ائ�۔پھ��ر میں نے دھولی��ا اور اd بین��ا ہ��وں۔ پس بعض فریس��� کہ��نے لگے کہ یہ آادم� کی��ونکر طرف س��ے نہیں کی��ونکہ س�بت کے دن ک�و نہیں مانت��ا مگ��ر بعض نے کہ��ا گنہگ��ار ایسے معجزے دکھا سکتا ہے؟ پس ان میں اختلاف ہوا۔ انہوں نے پھ��ر اس ان��دھے س��ے کہ��ا اسآانکھیں کھولیں ت��و اس کے ح��ق میں کی��ا کہت��ا ہے؟ اس نے کہ��ا وہ ن��ب� ہے لیکن نے جو تیری آایا کہ یہ اندھا تھا اور بینا ہوگیا ہے۔ جب ت��ک انہ��وں نے اس کے م��اں ب��اپ یہودیوں کو یقین نہ کو جوبینا ہوگیا تھا بلا کر ان سے نہ پوچھ لیا کہ کیا یہ تمہارا بیٹا ہے جسے تم کہتے ہ��وکہ ان��دھا پیدا ہوا تھا؟ پھر وہ اd کیونکر دیکھتا ہے ؟ اس کے ماں باپ نے ج��واd میں کہ��ا ہم ج��انتے ہیں کہ یہ ہمارا بیٹا ہے اور اندھا پیدا ہوا تھا۔ لیکن یہ ہم نہیں جانتے کہ اd وہ کیونکر دیکھتا ہے اورآانکھیں کھولیں ۔ وہ تو بالغ ہے ۔اس�� س�ے پوچھ�و۔ وہ اپن�ا نہ یہ جانتے ہیں کہ کس نے اس ک�

آاپ کہہ دے گا۔ حال " یہ اس کے ماں ب�اپ نے یہودی��وں کے ڈر س�ے کہ��ا ۔ کی��ونکہ یہ��ودی ایک�ا ک�رچکے

س��ے خ��ارج کی��ا ج��ائے*1تھے کہ اگر کوئ� اس کے مسیح ہونے کا اقرار کرے تو عباد ت خ��انہاس واسطے اس کے ماں باپ نے کہا کہ وہ بالغ ہے اس� سے پوچھو۔

" پس انہوں نے اس شخص کو جو اندھا تھا دوبارہ بلاکر کہا خدا ک� تمجید کر، ہمآادم� گنہگار ہے۔ تو جانتے ہیں کہ یہ

" اس نے جواd دیا میں نہیں جانتا کہ وہ گنہگار ہے یا نہیں۔ ایک بات جانتا ہ��وں کہمیں اندھا تھا۔ اd بینا ہوں۔

"پھر انہوں نے اس سے کہا اس نے تیرے ساتھ کیا کیا؟آانکھیں کھولیں؟ کس طرح تیر ی

" اس نے انہیں جواd دیا میں تو تم سے کہہ چکا اور تم نے نہ سنا۔ دوبارہ کیوں س��نناچاہتے ہو؟ کیا تم بھ� اس کے شاگرد ہونا چاہتے ہو؟

ی� کے ش��اگرد " وہ اسے برا بھلا کر کہنے لگے کہ توہ� اس کا شاگرد ہے۔ ہم تو موسی� کے ساتھ کلام کیا ہے مگر اس شخص کونہیں ج��انتے کہ ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ خدا نے موس

کہاں کا ہے۔آادم� نے جواd میں ان س��ے کہ��ا یہ ت��و تعجب ک� ب��ات ہے کہ تم نہیں ج��انتے " اس آانکھیں کھ��ولیں ۔ ہم ج��انتے ہیں کہ خ��دا گنہگ��اروں کہ وہ کہ��اں ک��ا ہے ح��الانکہ اس نے م�یری ک� نہیں س��نتا لیکن اگ��ر ک��وئ� خ��دا پرس��ت ہ��و اور اس ک� مرض��� پ��ر چلے ت��و وہ اس ک� س��نتاآانکھیں آای��ا کہ کس��� نے جنم کے ان��دھے ک� ہے ۔ دنیا کے شروع سے کبھ� سننے میں نہیں

کھول� ہوں۔ اگر یہ شخص خدا ک� طرف سے نہ ہوتا تو کچھ نہ کرسکتا۔ " انہوں نے جواd میں اس س�ے کہ�ا توت�و بالک� گن�اہوں میں پی�دا ہ�وا۔ ت�و ہم ک�و کی�ا

آایت ۹")انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع سکھاتا ہے؟ اور انہوں نے اسے باہر نکال دیا (۔۳۴ تا ۱۳

عبادت خانہ سے خارج: اس کا مطلب یہ تھا کہ اسے اسرائي قوم سے خارج کردیا ج��ائے اور اس کے س��اتھ غ��یرقوموں*۔1کا سا سلوک کیا جائے۔

اس اندھے بھکاری نے اپن� عجیب وغریب شفا کے تجربے کا بڑے وثوق س��ے ی��وں ام��رکیا " ایک بات جانتا ہوں کہ میں اندھا تھا۔ اd بینا ہوں۔"

یہودی پیشوا اس قدر ناراض کیوں تھے؟ اس کے والدین واقعہ کا اقرار ک��رنے س��ے کی��وں خ��وف زدہ تھے؟ کتن��ا افس��وس ہے کہ ف� زم��انہ متع��دد متلاش��یان ح��ق ک��ا بھ� یہ� رویہ ہے۔ وہ� مقدس کے صریح شہادت س��ے چش��م پوش��� ی� المسیح کے بارے میں کلام حضور سیدنا عیس

کرکے اپنے ایمان کے اظہار سے کتراتے ہیں۔ی� المس��یح ک� مب��ارک شخص��یت جب فریسیوں نے اس شخص سے حضور سیدنا عیسکے بارے میں پوچھا تو اس کا جواd نہایت صاف اور سادہ تھا۔ اس نے کہا " وہ نب� ہے" ۔

آانحض�ور نے س�بت کے روز ش�فا جب فریس� اس بات پر بحث کررہے تھے کہ چ�ونکہ آاپ نعوذ بالله گنہگار ہ� تو بھکاری نے اپن� س��مجھ ب��وجھ س��ے ک��ام لی��تے ہ��وئے دی ہے اس لئے آای��ا کہ کس��� نے جنم کے ان��دھے ک� جھٹ کہ��ا "دنی��ا کےش��روع س��ے کبھ� س��ننے میں نہیں

آانکھیں کھ��ول� ہ��وں" اس زم��انے میں علم طب اتن��ا وس��یع نہ تھ��ا کہ ک��وئ� ڈاک��ٹر اس قس��م ک��ا علاج کرس��کتا۔ پھ��ر جس ن��تیجہ پ��ر وہ پہنچ��ا تھ��ا۔ اس نے بی��ان کردی��ا اگ��ر یہ ش��خص خ��دا ک� برداشت تھ�، لہذا انہ��وں� طرف سے نہ ہوتا تو کچھ نہ کرسکتا ۔" پیشواؤں کے لئے یہ بات ناقاب

نے اسےعباد ت خانہ سے خارج کردیا۔ کس قدر افسوس ک� بات ہے کہ ان لوگوں نے ایسے محسن کے لئے کدورت وتعص��ب کا اظہار کیا جس نے ان کےای�ک ان�دھے بھ��ائ� ک�و بین�ائ� بخش�� تھ�۔ وہ اپ�ن� ک�ور چش�م� کے ب��اعث یہ س��مجھنے س��ے مع��ذور رہے کہ یہ محس��ن انس��انیت ان کے موع��ود ہ مس��یح ہیں۔آادم� ک��و ی� المس��یح ک��و بھ� معل��و م ہوگی��ا کہ فریس��یوں نے اس ش��اف� اطہ��ر حض��ور س��یدنا عیس��

آاپ نے دریافت فرمایا: عبادت خانہ سے خارج کردیا ہے۔ اس سے م کر" کیا تو خدا کے بیٹے پر ایمان لاتا ہے؟

اس نے جواd میں کہا، اے خداون��د وہ ک��ون ہے کہ میں اس پ��ر ایم��ان لاؤ؟ یس��وع نےاس سے کہا

تونے تو اسے دیکھا ہے اور جو تجھ سے باتیں کرتا ہے وہ� ہے")انجی شریف بہ مطابق(۔۳۷تا ۳۵آایت ۹حضرت یوحنا رکوع

حقیق� گلہ بان� المس��یح نے مجم��ع س��ے ہم کلام ہ��وتے ہ��وئے dاس اندھے کو شفا دینے کے بعد جنا

یی فرمایا: اپن� جان نثاری کا ایک اور دعو ) انجی�� ش��ریف بہ" اچھا چرواہا میں ہوں۔ اچھا چرواہا بھیڑوں کے لئے اپن� جان دیت��ا ہے"

(۔۱۱آایت ۱۰مطابق حضرت یوحنا رکوع

بھ��یڑیں پ��النے وال��وں کے نزدی��ک اس ک��ا مطلب واض��ح تھ��ا۔ فلس��طین ک� پہ��اڑیوں پ��ر گڈریوں کو اپن� بھيڑوں ک� ہر وقت جنگل� جانوروں سے حفاظت کرن� پڑت� تھ� اور بعض تو ان

ک� حفاظت کرتے کرتے اپن� جان ہ� گنوابیٹھتے تھے۔

عظیم المرتبت بادشاہ حضرت داؤد جب اپنے لڑکپن میں بھیڑیں چرایا ک��رتے تھےت��و اس نگران� کے دوران انہوں نے ایک شیر اور ایک ریچھ کو ہلاک کیا تھ��ا۔ یہ حض��رت داؤد کے ل��ئے� خداون��دی کے بادش��اہ ب��نیں، ت��و اس ک� اس��� ط��رح ای��ک تربی��ت� عرص��ہ تھ��ا کہ جب وہ امت � dا��رت داؤد جن��وائ� حض��اظ پیش��رتے تھے۔ بلح��يڑیں ک� ک��حفاظت کریں جس طرح کہ وہ بھ

آانحضور نے ارشاد فرمایا: المسیح کے مثی ہیں۔چنانچہ " اچھا چرواہ�ا میں ہ��وں جس ط��رح ب�اپ مجھے جانت��ا ہے اور میں ب�اپ ک�و جانت�ا ہ�وں۔ اس� طرح میں اپن� بھیڑوں کو جانتا ہوں اور میری بھیڑیں مجھے جانت� ہیں اور میں بھیڑوں کے لئے اپن� جان دیتا ہوں۔ اور میری اور بھ� بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ ک� نہیں مجھے ان کوآاواز سنیں گ�۔ پھر ایک ہ� گلہ اور ایک ہ� چرواہا ہوگ��ا۔۔۔۔ میں لانا بھ� ضرور ہے اور وہ میری آاپ اپن� جان دیتا ہوں تاکہ اسےپھر لے لوں۔ ک��وئ� اس��ے مجھ س��ے چھینت��ا نہیں بلکہ میں اس��ے

)انجی��ہ� دیتا ہوں ۔ مجھے اس کے دینے کا بھ� اختیار ہے اور اسےپھر لینے کا بھ� اختیار ہے۔"

(۔۱۸تا ۱۴آایت ۱۰شریف بہ مطابق حضر ت یوحنا رکوع

ی� المسیح اپن� جان بھ� قربان کرنے کے بھیڑوں کو بچانے کے لئے حضور سیدنا عیسآاپ اس�ے دوب�ارہ لئے تیار تھے او ریہ کام بہ رض�ا ورغبت ک�ررہے تھے۔ لیکن اپ�ن� ج�ان دے کے لینے کا بھ� پ�ورا پ�ورا اختی��ار رکھ��تے تھے۔ ک�ئ� اش�خاص ایس�ے ہ��وگزرے ہیں جنہ��و ں نے اپ��ن�dا�نے ک� ان میں ت�ےدوبارہ نکل��ن� پنجے س��آاہ جان کس� کے لئے قربان� توکردی لیکن ق��بر کے یے فرم��ارہے ی� المسیح اس� قدرت واختی��ار کے مال��ک ہ��ونے ک��ا دع��و نہیں تھ�۔ حضور سیدنا عیسآاپ کے وص��ال اور دوب��ارہ ج� اٹھ��نے کےان ارش��ادات ک��و س��مجھنے س��ے تھے۔ لیکن ح��واريئن

قاصر رہے۔ جناd المسیح ک� اس قرب��ان� ک��ا ای��ک ن��تیجہ یہ نکلا کہ ہ��ر ق��وم وق��بیلے میں س��ے جن

آاپ کو اپنا حقیق� گلہ بان قبول کیا وہ ایک ہ� گلہ میں شام ہوگئے ۔ لوگوں نے

� تجدید عید

ی� المس��یح دس��مبر ء میں یروش��لیم تش��ریف لے گ��ئے ۔ اس کے۲۹حض��ور س��یدنا عیس��متعلق انجی جلی میں یوں ارشاد ہے۔

" ان میں سے بہتیرے ت�و کہ�نے لگے کہ اس میں ب�دروح ہے اور وہ دی�وانہ ہے۔ تم اس ک� کیو ں سنتے ہو؟ اوروں نے کہ��ا یہ ایس��ے ش��خص ک� ب��اتیں نہیں جس میں ب�دروح ہ��و۔ کی��ا

آانکھیں کھول سکت� ہے؟ بدروح اندھوں ک� ی�( ہیک�� )بیت " یروشلیم میں عید تجدید ہوئ� اور جاڑے کا موسم تھا۔ اور یسوع)عیسآامدہ میں ٹہ رہا تھا۔ پس یہودیوں نے اس کے گرد جم�ع ہ��وکر اس س�ے الله( کے اندر سلیمان� بر کہا تو کب تک ہمارے دل کو ڈانواں ڈول رکھے گا؟ اگر تو مس�یح ہے ت�و ہم س��ے ص�اف کہہ

دے "اا فرمایا: � المسیح نے جواب dجنا

" میں نے تو تم سے کہہ دیا مگر تم یقین نہیں ک��رتے ۔ ج��و ک��ام میں اپ��نے ب��اپ کے نام سے کرتا ہوں وہ� میرے گواہ ہیں، لیکن تم اس ل��ئے یقین نہیں ک��رتے کہ م��یری بھ��يڑوں میںآاواز س��نت� ہیں اور میں انہیں جانت��ا ہ��وں اور وہ م��یرے پیچھے س��ے نہیں ہ��و۔ م��یری بھ��یڑیں م��یری پیچھے چل�ت� ہیں۔ اور میں انہیں ہمیش�ہ ک� زن�دگ� بحش�تا ہ��وں اور وہ اب�د ت�ک کبھ� ہلاک نہ ہوں گ� اور کوئ� انہیں م��یرے ہ��اتھ س��ے چھین نہ لے گ��ا۔ م��یرا ب��اپ جس نے مجھے وہ دی ہے س��ب س��ے ب��ڑا ہے اور ک��وئ� انہیں ب��اپ کےہ��اتھ س��ے نہیں چھین س��کتا۔ میں اور ب��اپ ای��ک ہیں

(۔۲۹تا ۲۰آایت ۱۰")انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنارکوع

ی� ہ��ر انس��ان زن��دگ� کے اس��رار ک��و ج��اننے کے ل��ئے بے ت��اd ہے۔ حض��ور س��یدنا عیس��آاپ کےفرم��ودات ک� پ��یروی ک��ریں اور � نظر وعدہ فرمایا کہ جو المسیح نے اس بے تاب� کے پیشی� ن��ازل نہیں � الہ dذا��ر ع��وں گے اور ان پ��دوام کے وارث ہ � آاپ س��ے محبت رکھیں وہ حی��اتیے فرمای��ا آاپ نے اس بات ک��ا پ��رزور دع��و آاپ کے ہاتھوں میں محفوظ ومامون رہیں گے ۔ ہوگا۔ وہ آاپ اور خدا ئے غفور ایک ہیں اس لئے تمام ایمان لانے والے ہمیشہ زندہ وپائندہ رہیں کہ چونکہ

گے ۔

آاپ ک�و آانکھوں پ�ر رکھ�تے الٹ�ا وہ آاپ کے اس ارشاد کو سر اس ک� بجائے کہ یہودی ہلا ک ک��رنے کے درپے ہوگ��ئے ۔ وہ اس ب��ات کے زبردس��ت ح��ام� ت��و تھے کہ خ��دا واح��د ہے لیکن ان کے متعصب ذہنوں نے اس ک� وح��دانیت کےا س��رار کوس��مجھنے ک� کبھ� کوش��شآاپ نے ان کے س��وال ک��اجواd ت��و دی��ا تھ��ا لیکن وہ س��ننے ک��و تی��ار ہ� نہ تھے۔ چن��انچہ نہ ک� ۔

انجی شریف ک� اس کے بارے میں یہ شہادت ہے:" یہودیوں نے اسے سنگسار کرنے کے لئے پھر پتھر اٹھائے "

ی�( نے انہیں جواd دیا کہ یسو ع)عیس " میں نے تم کو ب�اپ ک� ط��رف س�ے بہت��یرے اچھے ک�ام دکھ��ائے ہیں۔ ان میں س�ے

کس کام کے سبب سے مجھے سنگسار کرتے ہو؟ " یہودیوں نے اسے جواd دیاکہ اچھے کام کے سبب سے نہیں بلکہ کفر کے س��بب

آاپ ک�و خ�دا بنات�ا ہے ۔" آادم� ہ�وکر اپ�نے )انجی��سے تجھے سنگسار کرتے ہیں اور اس لئے کہ تو

(۔۳۳تا ۳۱آایت ۱۰شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع

آاپ نے تلخ کلام� س��ے نہیں دی��ا۔ بلکہ ب��ڑی dاجوا��یری اور تلخ کلام� ک��خت گ��ان ک� س نرم� سے یوں فرمایا:

" اگر میں اپنے باپ کے کام نہیں کرتا تو میرا یقین نہ کرو۔ لیکن اگر میں کرتا ہوں ت��و گو میرا یقین نہ کرو مگر ان کاموں کا تو یقین کرو ت��اکہ تم ج��انو اور س��مجھو کہ ب��اپ مجھ میں

(۔۳۸تا ۳۷آایت ۱۰)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ہے اور میں باپ میں "

آاپ آاپ کے ارشادات سن سن کر یہودیوں کاپارہ چڑھ گیا۔ انہوں نے پتھ��ر اٹھ��ائے اور کو سنگسار کرنے پر ت� گ�ئے لیکن کس�� غی�ب� ط��اقت نے انہیں ایس�ا ک�رنے س�ے ب�از رکھ�ا ۔

� مقدس میں اس کا ذکر یوں ہوا: کلام"انہوں نے پھر اسے پکڑنے ک� کوشش ک� لیکن وہ ان کے ہاتھ سے نک گیا۔

ی�( پہلے بپتسمہ دی��ا " وہ پھر یردن کے پار اس جگہ چلا گیا جہاں یوحنا )حضرت یحیآائے او رکہتے تھے کہ یوحنا نے کوئ� معج��زہ نہیں کرتا تھا اور وہیں رہا۔ اور بہتیرے اس کے پاس

دکھاگیا مگر جو کچھ یوحنا نے اس کے حق میں کہا تھا وہ سچ ہے ۔ اور وہ��اں بہت��یرے اس پ��ر(۔۴۲تا ۳۹آایت ۱۰)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنار کوع ایمان لائے "

� ماتقدم کس� دوسرے مقام پر منتق ہوگئے � المسیح یروشلیم کو چھوڑ کر حفظ dجنا آاپ ک� ج��ان آاپ کے دشمن ہروقت مخ��الفت پ��ر کمربس��تہ رہ��تے تھے۔ اور کیونکہ یروشلیم میں آاپ دریائے یردن کے مشرق� ساح پر تشریف لے جاکر ع��وام ک��و درس مستق خطرہ میں تھ�۔ � آائے جن میں سے ایک کا بیان حس��ب آاپ کے بقیہ ایام میں متعدد واقعات پیش فرمانے لگے۔

ذی ہے۔

فریس� کے گھر میں دعوت " پھ��ر ایس��ا ہ��وا کہ وہ س��بت کے دن فریس��یوں کے س��رداروں میں س��ے کس��� کے گھ��ر کھانا کھانے کو گیا۔اور وہ اس ک� تاک میں رہے۔ اور دیکھو ای��ک ش��خص اس کے س��امنے تھ��ا

ی�( نے ش��رع کے ع��الموں اور فریس��یوں س��ے کہ��ا کہ س��بت کے*1جسے جلندر تھا ۔ یسوع )عیس�� دن ش���فا بخش���نا روا ہے ی���ا نہیں؟ وہ چپ رہ گ���ئے ۔ اس نے اس���ےہاتھ لگ���اکر ش���فا بخش���� اور رخصت کیا۔ اور ان سے کہا تم میں ایسا کون ہے جس کا گدھا یا بی�� ک��وئیں میں گ��ر پ��ڑے

اا نہ نک��ال لے ؟ وہ ان ب��اتوں ک��ا ج��واd نہ دے س��کے ")انجی��اور وہ س��بت کے دن اس ک��و ف��ور

(۔۶آایت تا ۱۴شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع

جلندر: پیٹ میں پان� پڑنے کا مرض ۔ استقا۔*۔1

آاپ ک� مخ��الفت س��بت کے دن ای��ک بیم��ار ش��خص ک��و ش��فا دی��نے کےب��اعث وہ پھ��ر آاپ نے فرمایا کہ ایک ایس� جو سبت کے دن اپ��نے گ��دھے ی��ا بی�� ک��و بچ��انے کرنے لگے اس پر ک� محنت کرے اور وہ اس� دن کس� بیمار انسان کو ش��فا دی��نے کے عم�� پراع��تراض ک��رنے ک��ا

حق نہیں رکھتا۔

ی� المس�یح نے میزب�ان اور مہم�ان دون�وں ک�و نص��یحت اس� گھر میں حضور س�یدنا عیس�آای��ا وہ م��یز کے س��رے پ�ر آائ� کہ ج��و مہم�ان پہلے آاپ کے مش��اہدہ میں یہ ب��ات فرم��ائ�۔ وہ��اں پ��ر

آاپ نے ارشاد فرمایا: صدر نشست پر براجمان ہوگیا۔ انہیں مخاطب کرکے " جب ک��وئ� تجھے ش��ادی میں بلائے ت��و ص��در جگہ پ��ر نہ بیٹھ ک��ر ش��اید اس نے کس� تجھ سے بھ� زيادہ عزت دار کو بلایا ہو۔ اور جس نے تجھے اور اسے دون��وں ک��و بلای��ا ہے آاکر تجھ سے کہے کہ اس کو جگہ دے ۔ پھر تجھے شرمندہ ہوکر سب سے نیچے بیٹھنا پ��ڑےآائے ت�و ۔بلکہ جب ت��و بلای��ا ج��ائے ت��و س��ب س��ے نیچ� جگہ ج��ا بیٹھ ت��اکہ جب ت��یرا بلانے والا آاگے ب��ڑھ ک��ر بیٹھ ! تب ان س��ب ک� نظ��ر میں ج��و ت��یرے س��اتھ تجھ س��ے کہے اے دوس��ت آاپ کو ب��ڑا بن��ائے گ��ا وہ چھوٹ��ا کھانا کھانے بیٹھے ہیں، تیری عزت ہوگ�۔ کیونکہ جو کوئ� اپنے

آاپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کیا جائيگا" )انجی شریف بہ مطابق حض��رت لوق��ارکیا جائے گا اور جو اپنے

(۔۱۱ تا ۷آایت ۱۴کوع

ی� المسیح کے پیروکاروں ک� اہم صفت یہ ہ��ون� چ��اہیے کہ وہ ف��روتن حضور سیدنا عیسیے سمجھیں۔ آاپ کو دوسروں سے ادن بن کر اپنے

آامیز تلقین فرمائ� ۔ آاپ نے اپنے میزبان سے مخاطب ہوکر اسے نہایت حیرت پھر " جب تو دن کا یا رات کا کھانا تیار کرے تو اپنے دوستوں یا بھ��ائیوں رش��تہ داروں ی��ا دولتمن��د پڑوس��یوں ک نہ بلات��ا کہ ایس��ا نہ ہ��و کہ وہ بھ� تجھے بلائیں اور ت��یرا ب��دلہ ہوج��ائے ۔ بلکہ جب تو ضیافت کرے ت��و غریب��وں ، لنج��وں، لنگ��ڑوں ، ان��دھوں ک��و بلا ، اور تجھ پ��ر ب��رکت ہ��وگ� کیونکہ ان کے پاس تجھے ب�دلہ دی�نے ک�و کچھ نہیں اور تجھے راس�تبازوں ک� قی��امت میں ب�دلہ

(۔۱۴تا ۱۲آایت ۱۴")انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع ملے گا

اکثر ضیافتوں میں اونچے طبقے کے حضرات ک��و م�دعو کی�ا جات�ا ہے۔ت�اکہ ان کےم�رتبہآاڑے وقت م�دد حاص� سے کوئ� نہ کوئ� فائدہ اٹھایا جائے۔ش�اید ان س�ے ش�ادی ، ملازمت ی�ا � المس�یح نے دنی�ا کے م�روجہ معی�ار ک�و پلٹ dا�رعکس جن�د ہے۔ لیکن اس کے ب�کرنے ک� امی

آادمی��وں ک� م��دد ک��ریں جن کے آاپ نے اپنے پیروکاروں ک��و تلقین فرم��ائ� کہ وہ ایس��ے کررکھ دیا۔ پاس بدلہ چکانے کو کچھ نہ ہو۔

مہمانوں میں سے ایک نے روز قیامت ک� جزا کے بارے میں ارشاد سن کر یوں کہا :آایت (۔۱۵"مبارک ہے وہ جو خدا ک� بادشاہ� میں کھانا کھائے۔" )

�d المسیح نے اسے جواd دیاکہ بہت کم ایسے انسان ہیں جو ہ��ر ح��ال میں خ��دا جنای� ی� ک� اطاعت کو مق��دم س�مجھتے ہیں۔اک��ثر اپ��نے دنی��اوی مش��اغ میں الجھ ک��ر ف��رامین الہ تعال

آاپ نے اس نکتہ ک� وضاحت کے لئے حسب ذی تمثی بیان فرمائ� : سنتے ہ� نہیں ۔ " ایک شخص نے بڑی ضیافت ک� اور بہت سے لوگوں کو بلایا۔ او رکھ��انے کےوقتآاؤ۔اd کھانا تی��ار ہے۔ اس پ��ر س��ب نے م�� ک��ر ع��ذر اپنے نوکر کو بھیجا کہ ہلائے ہوؤں سےکہے کرنا شروع کیا۔ پہلے نے اس سے کہا میں نے کھیت خریدا ہے مجھے ضرور ہے کہ جاکر اسے دیکھوں۔ میں تیری منت کرتا ہوں مجھے معذور رکھ۔ دوس��رے نے کہ��ا میں نے پ�انچ ج��وڑی بی��آازمانے جاتا ہوں۔ میں ت�یری منت کرت�ا ہ�وں مجھے مع�ذور رکھ۔ ای�ک اورنے خریدے ہیں اور انہیں آاکر اپنے مالک ک��و آاسکتا ۔ پس اس کو نوکر نے کہا میں نے بیاہ کیا ہے۔ اس سبب سے نہیں ان باتوں ک� خبردی ۔ اس پر گھر کے مالک نے غصہ ہوکر اپنے نوکر س��ے کہ��ا جل��د ش��ہر کےآا۔ ن��وکرنے کہ��ا اے بازاروں اورکوچوں میں جاکر غریبوں، لنجوں، اندھوں اور لنگڑوں کو یہ��اں لے خداوند! جیسا تو نے فرمایا تھا ویسا ہ� ہوا اور اd بھ� جگہ ہے۔ مالک نے اس ن��وکر س��ے کہ��ا کہ سڑکوں اور کھیت ک� باڑوں ک� طرف ج�ا اور لوگ�وں ک�و مجب�ور ک�رکے لات�ا کہ م�یرا گھ��را بھر جائے۔ کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ جو بلائے گئے تھے ان میں سے کوئ� شخص میرا

(۔۲۴ تا ۱۶آایت ۱۴)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع کھانا چکھنے نہ پائے گا۔"

ی� المس��یح یہ��اں ان یہودی��وں ک� ط��رف اش��ارہ فرم��ارہے تھے۔ بلاشبہ حض��ور س��یدنا عیس�ی� ک� طرف رج�وع لانے ک� نہ فرص�ت تھ� اور نہ ہ� رغبت چن�انچہ جنہیں توبہ کرنے اور خداتعال

اd اس ک� دعوت تمام اقوام عالم کے ل�ئے ہے جن میں مص��نف اور ق��ارئین ک�رام ہ��ر دو ش�امہیں۔

سرمایہ دار نوجوانآایا اور حض��ور اا مقام� عبادت خانہ کا سردار ، دوڑتا ہوا " ایک مرتبہ ایک نوجوان غالب

ی� المسیح کے قدموں میں گر کریوں کہنے لگا۔ سیدنا عیس" اے نیک استاد ! میں کیا کروں تاکہ ہمیشہ ک� زندگ� کا وارث بنوں"؟

� المسیح نے اسے فرمایا : dجنا " تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے ؟ کوئ� نیک نہیں مگر ایک یعن� خ��دا ۔ ت��و حکم��وں کو تو جانتا ہے ۔ زنا نہ کر ، چوری نہ کرنا ۔ خون نہ کر ۔ جھوٹ� گواہ� نہ دے ۔ اپنے باپ ک�

اور ماں ک� عزت کر۔ اس نے کہا " میں نے لڑکپن سے ان سب پر عم کیا ہے ؟"

آاپ نے یہ سن کر اس سے فرمایا: " ابھ� ت��ک تجھ میں ای��ک ب��ات ک� کم� ہے ۔ اپن��ا س��ب کچھ بیچ ک��ر غریب��وں ک��وآاک��ر م��یرے پیچھے ہ��ولے۔ یہ س��ن ک��ر وہ بہت آاس��مان پ��ر خ��زانہ ملے گ��ا او ر ب��انٹ دے ، تجھے

غمگین ہوا کیونکہ بڑا دولت مند تھا ۔"ی� المسیح نے اس کااترا ہوا چہرہ دیکھ کر فرمایا : جب حضور سیدنا عیس

" دولت مندوں کا خدا ک� بادشاہ� میں داخ ہوناکیسا مش�ک ہے! کی�ونکہ اونٹ ک�اآاسان ہے کہ دولت مند خدا ک� بادشاہ� میں داخ�� سوئ� کے ناکے میں سے نک جانا اس سے

آایت ۱۸)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع ہو (۔۲۵ تا ۱۸

آاپ نے تمام لوگوں پر عائد نہیں ک� کہ وہ اپنا مال غریبوں میں بانٹ کر ک�یہ شرط ہمیشہ ہ� آاپ کے پیروک��ار بن س��کتے ہیں۔ لیکن چ��ونکہ اس س��ردار نے دولت ک��و اپن��ا زندگ� کے وارث ی��ا

آاپ نے اس�ے اس بت کوت�وڑنے اور خ�دا ک� اط��اعت گ�ذاری ک�و مق��دم خدا بنا رکھا تھ�ا اس ل�ئے جاننے کو فرمایا۔ مگر یہ دولت کا پجاری خدا کو اول درجہ دینے کو کب راض� تھا!

سامعین نے یہ سن کر قدرے تعجب سے کہا ۔" پھر کون نجات پاسکتا ہے"؟

جناd المسیح نے جواd میں فرمایا:" جو انسان سے نہیں ہوسکتا وہ خدا سے ہوسکتا ہے۔"

آاپ آاپ کے ح��واری حض�رت ش��معون پط��رس کے دل میں س��وال ابھ��را چن��انچہ انہ��و ں نے اس پر سے وضاحت چاہ�۔

"دیکھ ہم تو اپنا گھر بار چھوڑ کر تیرے پیچھے ہولئے ہیں۔" آاپ نے ان سے فرمایا :

" میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایسا ک��وئ� نہیں جس نے گھ��ر ی��ا بی��وی ی��ا بھ��ائيوں ی��ا ماں باپ یا بچوں کو خ�دا ک� بادش�اہ� ک� خ�اطر چھ�وڑ دی�ا ہ�و۔اور اس زم�انہ میں ک�ئ� گن�اہ

آانے جہان ہمیشہ ک� زن��دگ� آایت ۱۸")انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت لوق��ا ، رک��وع زیادہ نہ پائے اور ت��ا۲۶

(۔۳۰

� المسیح ک� پیروی ک� قیمت dجناآاپ کے گرد جمع ہوگئے تھے ارشاد فرمایا : حضور المسیح نے ان لوگوں سےجو

آائے اور اپ�نے ب�اپ اور م�اں اور بی��وی اور بچ��وں اور بھ�ائيوں اور " اگر کوئ� میرے پ�اس نہ ک�رے ت�و م�یرا ش�اگرد نہیں ہوس�کتا ۔جوک�وئ� اپ�ن�*1بہنوں بلکہ اپن� ج�ان س�ے بھ� دش�من�

آائے وہ میرا شاگرد نہیں ہوس��کتا ")انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رتصلیب نہ اٹھائے اور میرے پیچھے نہ

آایت ۱۴لوقا ، رکوع (۔۲۷ تا ۲۶

۔یہاں لفظ "دشمن� " سے لفظ� معن� مراد نہیں بلکہ یہ لفظ استعارے کے طور پر استعمال ہوا۔یعن� ہرص��ورت میں خ��دا*1ی� کو اپنےعزيزو اقارd سے اول جگہ دینا ہے۔ تعال

ی� ک� پ��اک آاپ کاپیروکار بننے کے لئے یہ امر لازم� ہے کہ ح��ق تع��ال مطلب یہ ہے کہ صداقتوں ک� حرمت اور اس کے فرامین ک� اطاعت گزاری دل وج��ان س��ے ک� ج��ائے۔ اس ل��ئےآاپ نے لاگت کا اندازه ک��رنے ک� ض��رورت کے استاد ک� پیروی شاگرد کے لئے ناگزیر ہے۔ پھر

بارے میں بیان فرمایا : "تم میں ایس��ا ک��ون ہے کہ جب وہ ای��ک ب��رج بنان��ا چ��اہے ت��و پہلے بیٹھ ک��ر لاگت ک��اآایا میرے پاس اس کے تیار کرنے کا سامان ہے ی��ا نہیں ؟ ایس��ا نہ ہ��و کہ جب حساd نہ کرلے کہ یہ نیو ڈال کر تیار نہ کرسکے تو سب دیکھنے والے یہ کہہ کر اس پر ہنسنا ش��روع ک��ریں کہ اس شخص نے عم�ارت ش�رع ت�و ک� مگ�ر تکمی� نہ کرس�کا۔ ی�ا ک�ون ایس�ا بادش�اہ ہے ج�و دوس�رےآای�ا میں دس ہ�زار س�ے اس ک�ا مق�ابلہ بادشاہ سے لڑنے جاتا ہو اور پہلے بیٹھ ک�ر مش�ورہ نہ ک�رے آات�ا ہے؟ نہیں ت�و جب وہ ہن�وز دور ہ� ہے کرسکتا ہوں ی�ا نہیں ج�و بیس ہ�زار لے ک�ر مجھ پ�ر چ�ڑھ � صلح ک� درخواست کرے گا۔ پس اس� طرح میں تم سے جو کوئ� ایلچ� بھیج کر شرائط

")انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت لوق��ا رک��وعاپنا سب کچھ ترک نہ کرے و ہ میرا شاگرد نہیں ہوسکتا ۔

(۔۳۳تا ۲۸آایت ۱۴

غرباءسے بے التفات� اور سماج� بے انصاریی المسیح نے ایک کہان� � انسانیت حضور سیدنا عیس� ایک دوسرے موقع پر محسنی� انس��ان ک� زن��دگ� ک��و کس زوائیہ ک� مدد سے اس ب��ات ک� وض��احت فرم��ائ� کہ خ�دا تع��ال نظر سے دیکھتا ہے۔ کیونکہ اس سلسلہ میں خالق ومخلوق ک� نظریات قطع� مختلف ہ��وتےآاڑ میں غرباء اور مس��اکین کے آایا ہےکہ سماج میں بارسوخ اشخاص ک� ہیں۔ اکثر دیکھنے میں

حقوق نظر انداز کردئیے جاتے ہیں جناd المسیح نے فرمایا: "ایک دولت مند تھا جو ارغوان� اور مہین کپڑے پہنتا اور ہر روز خوش� منات��ا اور ش��انوشوکت سےرہتا تھا۔ اور لعزر نام ایک غریب ناسوروں سے بھرا ہوا اس کےدروازہ پ��ر ڈالا گی��ا تھ��ا۔

آارزو تھ� کہ دولت مند ک� میز سےگرے کتےاسے بلکہ بھرے پیٹ اپنا سے ٹکڑوں ہوئے

آاکر اس کے ناسور چاٹتے تھے۔ اور ایساہوا کہ وہ غ��ریب مرگی��ا اور فرش��توں نے اس��ے لے ج�اکر بھ� � ارواح کے درمی��ان ابرہ��ام ک� گ�ود میں پہنچادی�ا اور دولتمن��د بھ� م�وا اور دفن ہ��وا۔ اس نے ع��المآانکھیں اٹھ��ائیں اور ابرہ��ام ک�و دور س�ے دیکھ��ا اور اس ک� گ��ود میں عذاd میں مبتلا ہ��وکر اپ�ن� لع��زر ک��و۔ اور اس نے پک��ار ک��ر کہ��ا اے ب��اپ ابرہ��ام مجھ پ��ر رحم ک��رکے لع��زر ک��و بھیج کہ اپ��ن�آاگ میں تڑپت��ا ہ��وں۔ ابرہ��ام انگل� کا سرا پان� میں بھگو کر میری زبان ت��ر ک��رے کی��ونکہ میں اس نے کہا بیٹا ! یاد کر کہ تو اپن� زندگ� میں اچھ� چیزیں لے چکا اور اس� طرح لعزر بری چیزیں لیکن اd وہ یہ��اں تس��ل� پات��ا ہے اورت��و تڑپت��ا ہے ۔اور ان س��ب ب��اتوں کے س��وا ہم��ارے تمہ��ارے درمیان ایک بڑا گڑھا واقع ہے۔ایسا کہ جو یہاں سے تمہاری طرف پار جانا چاہیں نہ جاسکیں اورآاسکے ۔ اس نے کہا پس اے باپ ! میں تیری منت کرتا ہوں کہ نہ کوئ� ادھر سے ہماری طرف تواس��ے م��یرے ب��اپ کے گھ��ر بھیج۔ کی��ونکہ م�یرے پ�انچ بھ��ائ� ہیں ت�اکہ وہ ان کے س��امنے انآائیں۔ ابرہ��ام نے اس س��ے کہ��ا باتوں ک� گواہ� دے۔ایسا نہ ہو وہ بھ� اس ع��ذاd ک� جگہ میں ی� اور انبیاء تو ہیں ۔ ان ک� س��نیں۔اس نے کہ��ا نہیں اے ب��اپ ابرہ��ام ۔ ہ��اں اگ��ر ان کے پاس موسی� کوئ� مردوں میں سے ان کے پاس جائے تو وہ ت��وبہ ک��ریں گے ۔اس نے اس کہ��ا جب وہ موس�� او رنبیوں ہ� کو نہیں سنتے تو اگر مردوں میں س�ے ک�وئ� ج� اٹھے ت�و اس ک� بھ� نہ م�انیں

آایت ۱۶)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع گے۔" (۔۳۱ تا ۱۹

آانے والا سماج� بے راہروی طاقت کے ب بوتے سےدور نہیں ک� جاسکت� ۔ ای��ک دور ی� ہ� تمام برائيوں کا انصاف کریگا۔ اس کہان� میں غ��ریب لع��زر � کام خداتعال ہے جب منصف حضرت ابراہیم کے ساتھ ہے جہاں سے کام اطمینان اور مسرت میسر ہے جبکہ ام��یر ب��ڑی اذیت

میں مبتلا ہے۔ اd حالات کا پانسہ پلٹ چکا ہے اور عدل وانصاف کا بول بالا ہوا۔ی� المسیح کے ف��رامین ع��الیہ اورمب��ارک نم��ونہ س��ماج� ڈھ��انچہ تو بھ� حضور سیدنا عیس پر اثر انداز ہو کر اس میں تبدیل� ضرور پی�دا کرت�ا ہے۔ مس�یح� ہس�پتال غریب�وں ک� بے غ�رض خ��دمت ک��رتے ہیں۔ نابین��اؤں ک��و دس��تکاریاں س��کھائ� ج��ات� ہیں ت��اکہ وہ اپ��ن� روزی کماس��کیں۔

اا کال، سیلاd اور زلزلوں کے موقعوں پر جناd المسیح کے متع��دد پیروک��ار ب��ڑی �ت سماوی مثل آافا ف��راخ دل� س��ے م��د ک��رتے ہیں۔ دوس��رے ب��ڑی دل��یری اور پ��امردی س��ے رش��وت س��تان� اور دیگ��ر س��ماج� ب��داطواریوں کے خلاف ص��دائے احتج��اج بلن��د ک��رتے رہ��تے ہیں۔ ج��و ج��برو تش��دد کاس��ہارا لی��تے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ غریب��وں ک� وق��ت� ط��ور پ��ر ت��و م��دد کرس��کیں لیکن حض��ورآاپ المسیح نے فرمایا کہ " جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار س��ے ہلاک ک��ئے ج��ائیں گے "۔

نے سماج� بے انصاف� ک� درست کرنے کے لئے تشدد کو ذریعہ کار نہیں بنایا۔ خدشہ ہے کہ مذکورہ بالا تمثی کے مطابق کوئ� انبیاء کرام کے فرمودات س��ے واق��ف ہوتے ہوئے پھر بھ� ان ک�و نظ��ر ان��داز ک�ردے جس ک��ا خمی�ازه اگلے جہ��ان کے ع��ذاd میں پڑک�ر

اسے بھگتنا پڑے گا۔آادم� بخ��وب� جانت��ا تھ��ا کہ اس��ے لع��زر ک� م��دد ک��رن� چ��اہیے تھ� لیکن اس کے ام��یر

باوجود بھ� اس نے اس کار خیر سے روگردان� ک�۔یی ہے کہ م��ذہب غریب��وں ک� زن��دگ� ک��و اس جہ��ان ک� بج��ائے بعض معترض��ین ک��ادعو آائندہ جہان میں ہ� بہتر بناتاہے۔ پس اس ک� مثال افیون ک� س� ہے ۔ ج��و غریب��وں ک��و خ��اموش رکھ ک��ر انہیں م��ردہ دل بن��ادیت� ہے۔ اس ک��ا ج��واd یہ ہے کہ جب کبھ� ک��وئ� ش��خص حض��ور المسیح ک� تعلیمات پر عم پیرا ہوتا ہے تو اس کا رویہ اپنے پڑوسیوں کے بارے میں بدل جات��ا

ہے۔ جب کس� شخص ک�اکردار اور چ�ال چلن ب�دل جات�ا ہے ت�و وہ نہ ص�رف اپ�نے خان�دانآامدن� بڑھانے کے قاب بن جاتا ہے بلکہ اپنے ماحول کے معیاروں پر بھ� اثر ان��داز ہوت��اہے۔ ک� بہت سے ممالک میں غربت اور پس ماندگ� کاایک بڑا سبب رشوت ستان� اور اس� قبی�� ک�ی� المس�یح اس مص�یبت ک� ج��ڑ پ�ر سماج� برائیاں یعن� اپن� تعلیم�ات میں حض�ور س�یدنا عیس� انگل� رکھ��تےہوئے فرم��اتے ہیں کہ انس��ان کے دل اور اس کے ک��ردار ہ� میں تب��دیل� ک� ض��رورت

آاپ آاپ ک� تعلیم��ات پ��ر ایم��ان لائے ہیں وہ��اں ہے۔ جب کبھ� اور جہاں کہیں ل��وگ ت��وبہ ک��رکے انہیں زندگ� ک� قوت عطا کرکے ان میں ایک تخلیق� کام کرتے ہیں۔

فریسیوں کو انتباہی� المس��یح کے فرم��ودات س��نتے رہے ان فریسیوں کو جو اکثر وبیش��تر حض��ور س��یدنا عیس��

آاپ نے فرمایا: انہیں " کوئ� نوکر دو مالکوں ک� خدمت نہیں کرسکتا کیونکہ یا توایک س��ے ع��داوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت یا ایک س�ے ملارہے گ�ا اور دوس�رے ک�و ن�اچیز ج�انے گ�ا۔ تم خ�دا ور

آایت ۱۶۔") انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقار کوع دولت دونوں ک� خدمت نہیں کرسکتے (۔۱۳

� مقدس میں فریسیوں کے ردعم کا یوں بیان ہے۔ کلام " فریس� جو زردوست تھے ان سب باتوں ک�و س�ن ک�ر اس�ے ٹھٹھ�وں میں اڑانے لگے ۔"

آایت (۔۱۴)

آاپ نے ان سے فرمایا : لیکن آاپ ک�و راس��تباز ٹھہ��راتے ہ��و لیکن خ��دا تمہ��ارے آادمیوں کے سامنے اپ��نے " تم وہ ہو کہ ی ق��در ہے وہ خ��دا کے نزدی��ک مک��روہ آادمیوں ک� نظر میں عال� دلوں کو جانتا ہے کیونکہ جو چیز

آایت ہے" (۔۱۵)

آاپ کو راس��تباز س��مجھتے تھے اور دوس��روں ک��و ن��اچیز ج��انتے آاپ نے ان سے جو اپنے تھے یہ تمثی فرمائ�:

" دو ش��خص ہیک�� میں دع��ا ک��رنے گ��ئے ۔ ای��ک فریس���، دوس��را محص��ول لی��نے والا۔ فریس� کھڑا ہوکر اپنے ج� میں یوں دعا کرنے لگا کہ اے خ��دا! میں ت�یرا ش��کر کرت��ا ہ��وں کہ ب�اق� آادمیوں ک� طرح ظالم، بے انصاف زناکاریا اس محصول لی��نے والے ک� مانن��د نہیں ہ��وں۔ میں ہفتہآامدن� پر دہ یک� دیت��ا ہ��وں۔ لیکن محص��ول لی��نے والے نے دور میں دوبار روزہ رکھتا اور اپن� ساری آانکھ اٹھائے بلکہ چھات� پیٹ پیٹ کر کہ��ا اے آاسمان ک� طرف کھڑے ہوکر اتنا بھ� نہ چاہا کہ

خدا! مجھ گنہگار پر رحم ک��ر۔میں تم س�ے کہت��اہوں کہ یہ ش�خص دوس�رے ک� نس�بت راس�تبازآاپ کو بڑا بن��ائے گ��ا وہ چھوٹ��ا کی��ا ج��ائے گ��ا اورج��و ٹھہر کر اپنے گھر گیا کیونکہ جو کوئ� اپنے

آاپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کیا جائے گا" (۔۱۴تا۹آایت ۱۸)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع اپنے

ہم��ارے ل��ئے بھ� یہ� خدش��ہ ہے کہ ہم اپ��ن� نم��ازوں اور روزوں پرفخ��ر کرتےہ��وئے کہیںی� دل�وں ک� اص� ح�الت دوسروں کو اپنے س�ے کم�تر نہ س�مجھ بیٹھیں۔ ع�الم الغیب ب�اری تع�ال

آاہ بکا کوسنتا ہے۔ سے واقف ہے اورایک تائب گنہگار ک�

لعزر کو زندہ کرنے کے لئے بیت عنیاہ میں واپس�ی� المسیح دریائے ی�ردن کے مش�رق� کن��ارے پ�ر جہ��اں حض�رت یوحن��ا حضور سیدنا عیسی�( قت ہونے سے پیشتر تبلیغ کیا کرتے تھے ، درس فرمارہے تھے کہ ای��ک اصطباغ� )حضرت یحی قاصد بیت عنیاہ گاؤں ک� ب� ب� مریم اور مرتھا ک� طرف سے پیغام لے کر پہنچا کہ ہمارا بھائ�اا دو دن اور اس� مقام پر بیم�اروں ک�و ش�فا اور ع�وام ک�و آاپ قصد لعزر سخت بیمار ہے۔ یہ سن کر آاپ دری��ا عب��ور ک��رکے بیت عنی��اہ ک� ط��رف تش��ریف فرم��اہوئے۔ درس فرم��اتے رہے۔اس کے بع��د ہ� آاپ یروش�لیم کے اس ق�در نزدی�ک ج�ارہے ہیں ب�ڑی تش�ویش ہ�وئ� کی�ونکہ حواریئن کو یہ دیکھ ک�ر

آاپ سے کہا بیت عنیاہ یروشلیم سے دو ہ� می کے فاصلہ پر تھا۔ پس انہوں نے "اے رب� ! ابھ� تو یہودی تجھے سنگسار کرنا چاہتے تھے اور توپھر وہاں جاتا ہے؟

ی�( نے جواd دیا " یسوع )عیس کی��ا دن کے ب��ارہ گھن��ٹے نہیں ہ��وتے ؟ اگ��ر ک��وئ� دن ک��و چلے ت��و ٹھ��وکر نہیں کھات��ا کیونکہ وہ دنیا ک� روشن� دیکھتا ہے۔ لیکن اگر کوئ� رات ک��و چلے ت��و ٹھ��وکر کھات��ا ہے کی��ونکہ اس میں روشن� نہیں۔اس نے یہ باتیں کہیں اور اس کے بعد ان س�ے کہ��نے لگ�ا کہ ہم��ارا دوس�ت

لعزر سوگیا ہے لیکن میں اسے جگانے جاتا ہوں۔ی�( نے " پس شاگردوں نے کہا اے خداوند! اگر سوگیا ہے تو بچ جائیگ��ا۔ یس��وع )عیس��آارام ک� نیند ک� بابت کہا ۔ تب یس��وع تو اس ک� موت ک� بابت کہا تھا مگر وہ سمجھے کہ

نے ان سے صاف کہہ دیاکہ لغرر مرگیا۔ اور میں تمہارے سبب سے خوش ہوں کہ وہ��اں نہ تھ��ا کہآاؤ ہم اس کے پاس چلیں" (۔۱۵ تا ۸آایت ۱۱) انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا ، رکوع تم ایمان لاؤ لیکن

آاپ آاپ کے ایک حواری حضرت توما )جنہیں توام کہ��تے تھے( نے یہ محس��وس کی��اکہ کایروشلیم کے قریب جان�ا کس ق��در خطرن��اک ہے ۔ انہ��وں نے تھ��وڑا ہ� عرص��ہ پہلے یروش��لیم کےآاپ ک�و قت�� ک�رنے ک� ٹھ��ان رہے یہ��ودی راہنم�اؤں ک� نف��رت اور غیض وغض��ب کودیکھ��ا تھ��ا کہ

� نظر دیگر حواریوں سے کہا تھے۔ پس انہوں نے اس� سنگین خطرے کے پیشآاؤ ہم بھ� چلیں تاکہ اس کے ساتھ مریں" آایت " (۔۱۶)

� ذی واقعہ ان تمام عجیب وغریب کارہائے خیر اور معجزات سے جو اپ اپ��نے حسبمسیح موعود ہونے کےثبوت میں کئے تھے۔ سب سے حیران کن ہے۔

آاکر معلوم ہوا کہ اسے قبر میں رکھے چ��ار دن ہ��وئے بیت عنی��اہ ی�( کو " پس یسوع )عیساا دو می کے فاصلہ پ��ر تھ��ا۔ اور بہت س��ے یہ��ودی مرتھ��ا اور م��ریم ک��و ان یروشلیم کے نزدیک قریبآانے ک� خبر سن کر اس آائے تھے۔ پس مرتھا یسوع کے کے بھائ� کے بارے میں تسل� دینے

سے ملنے گئ�۔ لیکن مریم گھر میں بیٹھ� رہ�۔ی�( س�ے کہ�ا اے خداون�د! اگ�ر ت�و یہ��اں ہوت�ا ت�و م�یرا بھ��ائ� نہ " مرتھا نے یسوع )عیس�

مرتا۔ اور اd بھ� جانت� ہوں کہ جو کچھ تو خدا سے مانگے گا وہ تجھے دے گا۔"ی� المسیح نے ب� ب� مرتھا سے فرمایا: حضور سیدنا عیس

" تیرا بھائ� ج� اٹھے گا۔"آاپ سے کہا مرتھا نے

آاخری دن ج� اٹھے گا۔" " میں جانت� ہوں کہ قیامت میں یسوع نے اس سے کہا

" قیامت اور زندگ� تو میں ہوں۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر جائے تو بھ� زندہ رہے گا۔اورجو کوئ� زندہ ہے اور مجھ پر ایم�ان لات�ا ہے وہ اب�د ت��ک کبھ� نہ م��رے گ��ا ، کی��ا ت��و

اس پر ایمان رکھت� ہے؟ مسیح*1" اس نے اس سے کہا اے خداوند ، میں ایمان لاچک� ہوں کہ خدا کا بیٹا

آانے والا تھا توہ� ہے۔ جو دنیامیں " یہ کہہ کر وہ چل� گئ� اور چپکے سے اپن� بہن مریم کو بلا کر کہا استاد یہیں ہےی�( ابھ� گ��اؤں میں آائي۔)یس��وع )عیس�� اور تجھے بلاتا ہے۔وہ سنتے ہ� جلد اٹھ کر اس کے پ��اس نہیں پہنچا تھا بلکہ اس� جگہ تھ��ا جہ�اں مرتھ�ا اس س�ے مل� تھ� (۔ پس ج�و یہ��ودی گھ��ر میں اس کے پاس تھے اور اسے تسل� دے رہے تھے یہ دیکھ کر کہ م��ریم جل��د اٹھ ک��ر ب��اہر گ��ئ� اس

خیال سے اس کے پیچھے ہولئے کہ وہ قبر پر رونے جات� ہے ۔ی�( تھا اور اسےد یکھا تو اس کے" جب مریم اس جگہ پہنچ� جہاں یسوع )عیس

قدموں میں گر کر اس سے کہا اے خداوند! اگر تو یہاں ہوتا تو میرا بھائ� نہ مرتا۔آائے تھے" جب یس��وع اتھ و اس کے س و ج وں ک ے اور ان یہودی ی�( نے اس )عیس

روتے دیکھا تو دل میں نہایت رنجیدہ ہوا اور گھبرا کر کہا تم نے اسے کہا رکھا ہے؟نے" انہوں نے کہا اے خداوند! چ کر دیکھ لے ۔ یسوع و بہ آانس ی�( کے )عیس

لگے۔ پس یہودیوں نے کہا دیکھو وہ اس ک�و کیس�ا عزی��ز تھ��ا۔ لیکن ان میں س�ے بعض نے کہ��اآادم� نہ مرت�ا؟ یس�وع آانکھیں کھ�ولیں اتن�ا نہ کرس�کا کہ یہ کی��ا یہ ش�خص جس نے ان�دھے ک� آای�ا ۔وہ ای�ک غ�ار تھ�ا اور اس پ�ر پتھ�ر دھ�را ی�( پھر اپنے دل میں نہ�ایت رنجی�دہ ہ�وکر ق�بر پ�ر )عیس

(۔۳۸تا ۱۷آایت ۱۱۔")انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع تھا

ملاحظہ فرمائيے۔۷ پر نوٹ نمبر ۲۹۴ صفحہ نمبر *۔1

آاپ ک��ا اپ��ن� حضور المسیح ک��ا یہ فرم��ان کہ " قی��امت اورزن��دگ� ت��ومیں ہ��وں" آاپ بہ نفس نفیس ق��بر س�ے زن�دہ یے تھ�ا۔ اور جل�د ہ� � پاک کے متعلق سب س�ے ب�ڑا دع��و ذات

یے ک� صداقت پر مہر لگانے والے تھے۔ ہوکر اپنے اس دعو اکثر لوگوں کو یہاں تک کہ خدائے واحد کو ماننے والوں کو بھ� یہ خوف پریشان کررہای� المس��یح نے ب� ب� ہے کہ موت کے بعد ہمارا کیا حال ہوگا۔ چشمئہ حیات حضور س��یدنا عیس��

آاپ پرایمان لاتے ہیں یہ وعدہ فرمایا ہے کہ جو مرتھا اوران تمام افراد سے جو " مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھ� نہ مرے گا"۔

آاپ پر ایمان لانے والے کے لئے مرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک بیمار اور ناتواں ب��دنی� ک� بہشت ک� مسرتوں میں شریک ہوجائے گا۔مطلب یہ ہے کہ اسے سے چھوٹ کر خدا تعال ایمان لانے کے ساتھ ہ� یہ خوش�� اوراطمین�ان م� جات�ا ہے کہ جس�مان� م�وت کے بع��د وہ دوزخ

�ر رحمت میں رہے گا۔ ی� کے جوا میں نہیں بلکہ ابد تک خدا تعالآاپ ج��انتے تھے کہ ی� المسیح لع��زر کے ب�ارے میں کی��وں روئے جبکہ حضور سیدنا عیسآاپ کو اس ام�ر ک�ا ش�دت س�ے احس�اس ہ��وا کہ گن�اہ وہ ج� اٹھے گا ؟ اس ک� وجہ یہ ہوگ� کہ

ی� ترین تخلیق نوع انسان� کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ ی� کے اعل نے خدا تعال اگر انسان نافرمان� نہ کرت��ا توم��وت اس پ��ر ہرگ��ز وار د نہ ہوس��کت� ۔م��وت ک��ا عم�� دخ��ی� المس�یح اس�� ل�ئے مبع�وث ہ�وئے کہ �ر دو ع�الم حض�ور س�یدنا عیس� گناہ ک�ا ہ� ن�تیجہ ہے۔ مخت�اآاپ نے لع��زر ک� ق��برپر کھ��ڑے ہ��وکر ابلیس کے کاموں کومٹا کر موت کا قلع قمع کردیں۔ چنانچہ

فرمایا: "پتھر کوہٹاؤ۔ اس مرے ہوئے شخص ک� بہن مرتھا نے اس سے کہا اے خداوند! اسی�( نے اس س��ے کہ��ا کی��ا آات� ہے کیونکہ اسے چاردن ہوگئے۔ یس��وع )عیس�� میں سے تو اd بدبو میں نے تجھ سے کہا نہ تھا کہ اگر تو ایمان لائے گ� تو خدا کا جلال دیکھے گ�؟ پس انہ��وں

آانکھیں اٹھاکر کہا ۔ ی�( نے نے اس پتھر کو ہٹادیا۔" پھر یسوع )عیس

" اے باپ میں تیرا شکرکرتا ہوں کہ تونے میری س��ن ل�۔ او رمجھے ت��و معل��وم تھ��اکہ ت��وآاس پ�اس کھ��ڑے ہیں میں نے یہ کہ��ا ت�اکہ وہ ہمیشہ میری سنتا ہے مگ�ر ان لوگ��وں کے ب�اعث ج��و آاواز سے پک��ارا کہ اےلع��زر ایمان لائیں کہ تو ہ� نے مجھے بھیجا ہے۔ او ریہ کہہ کر اس نے بلند آایا اوراس کا چہ��رہ روم��ال س��ے لپٹ��ا آا۔ جو مرگیا تھا وہ کفن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے نک نک

ی�( نے ان سے کہا اسےکھول کر جانے دو۔" ہوا تھا۔ یسوع )عیسی� المس��یح ک��ا یہ عظیم الش��ان اور بے مث�� اعج��از � کرام�ات حض��ور س��یدنا عیس� ص��احبآائے تھے متع��دد ایم��ان لائے ۔ لیکن ان دیکھ کر ان یہودیوں میں سے جو ب� ب� م��ریم کے س��اتھ میں سے چند بد باطن اشخاص نے اس واقعہ کے بارے میں جاکر فریسیوں کو خبر دی اور انہیں

ی� المسیح کے خلاف اکسایا۔ حضور سیدنا عیس� ع��الیہ ک��ا اجلاس طلب ک��رکے اا اپ��ن� مجلس چن��انچہ س��ردار ک��اہن اور فریس��یوں نے ف��ور

کہا :آادم� ت���و بہت معج���زے دکھات���ا ہے۔ اگ���ر ہم اس���ے ی���وں ہ� " ہم ک���رتے کی���ا ہیں؟ یہ آاکر ہماری جگہ اور قوم دونوں پر قبضہ کرلیں آائیں گے اور روم� چھوڑدیں تو سب اس پر ایمان لے

گے ۔"آاپ � عالمین ک�و قت�� ک�رنے ک� کوش�ش ک�رنے لگے ۔لہ��ذا پس اس دن سے وہ محسن نے یہویوں میں علانیہ نق وحرکت ترک کردی اور وہاں سے جنگ کے نزدی��ک واق��ع ای��ک ش��ہر

(۔۳۹،۴۸،۵۳،۵۴آایت ۱۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع بنام افرائیم میں تشریف لے گئے

آاپ ک� قریب الوقوع وفات ک� دوبارہ اطلاع حواریوں کو آاہس��تہ آاہس��تہ آاپ اپ��نے حواری��وں س��میت اس شہر میں کچھ عرص��ہ قی��ام فرم��انے کے بع��د � فس��ح یریحو سے ہوتے ہوئے بیت المقدس ک� ط��رف بڑھ��نے لگے ، کی��ونکہ یہوودی��وں ک� عی��د قریب تھ�۔ اس عید س�ے کچھ دن پہلے ہ� ل��وگ ق��رd وج�وار کے ش�ہروں اورگ��اؤں س�ے یروش�لیم

آاپ ک�و ک� طرف گروہ در گروہ سفر کرنے لگے تاکہ عی�د س��ے پیش�تر ش�ریعت کے مط��ابق اپ�نے پاک کریں۔دریں اثنا

"سردار کاہنوں اور فریسیوں نے حکم دے رکھا تھا کہ اگر کس� کو معلوم ہو کہ وہ کہا(۔۵۷آایت ۱۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ں ہے تو اطلاع دے تاکہ اسے پکڑلیں"

آاپہنچاتھا۔ آاخری کشمکش کا وقت قریب dای�( ان کے " اور وہ )حوارئین( یروشلیم کو ج�اتے ہ��وئے راس��تے میں تھے اور یس��وع )عیس��

آاگے جارہ��ا تھ��ا۔ وہ ح�یران ہ�ونے لگے اور ج�و پیچھے پیچھے چل�تے تھے ڈرنے لگے ۔")انجی��آاگے

(۔۳۲آایت ۱۰شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع

ی� المسیح بڑے اعتماد کے ساتھ اپ��ن� قت�� گن��اہ یروش��لیم �ی برحق حضور سیدنا عیس ہادآاپ عنق��ریب ہ��ونے والے واقع��ات کے ب��اعث ب��ڑے س��نجیدہ ک� ط��رف ق��دم بڑھ��ائے ج��ارہے تھے ۔ آاپ کے آاپ کے ب��ارے میں گ�ردش ک��ررہ� تھیں ، آارہے تھے ۔ ن�يز ان افواہ��وں کے ب�اعث ج��و نظ��ر

تمام ساتھیوں کے دلو ں پرمایوس� کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ آاپ اپنے بارہ حواریوں سےیوں مخاطب ہوئے ۔ پس

" دیکھو ہم یروشلیم کو ج��اتے ہیں اور جت��ن� ب��اتیں ن��بیوں ک� مع��رفت لکھ� گ��ئ� ہیںآادم کے حق میں پوری ہوں گ�۔کیونکہ وہ غیر ق��وم وال��وں کے ح��والہ کی��ا ج��ائے گ��ا اورل��وگ ابن اس کو ٹھٹھوں میں اڑائیں گے اور بے ع��زت ک��ریں گے اور اس پ��ر تھ��وکیں گے اور اس ک�و ک�وڑے

ماریں گے اور قت کریں گے اور وہ تیسرے دن ج� اٹھے گا۔"آاپ کے حواریوں نے لیکن

" ان میں سے کوئ� بات نہ سمجھ� اور یہ قول ان پر پوشیدہ رہا اور ان باتوں کا مطلبی� المسیح نے متعدد بار اپنے حواریوں ک��و اپ��ن� تبلی��غ کے المن��اک �� اعظم حضور سیدنا عیس مبلغی� ک��ا برگزی��دہ ن��ب� ی��وں آاگاہ فرمایا تھا۔ لیکن وہ کب تصور کرسکتے تھے کہ خدا تعال انجام سے آاپ نے کتن� ہ� بار توریت ، زب��ور اور ص��حائف انبی��اء س��ے پیش ذلت اٹھاکر قت کردیا جائے گا۔ گوئيوں کا حوالہ دیا۔کہ المسیح اپنے جاہ و جلال میں داخ ہونے سے پیش��تر دکھ اٹھ��ائیں گے۔

ی� آاج ک کے بہت سے عزی��زوں ک��ا س��اتھا۔ وہ مغف��رت گن��اہ اور ح��ق تع��ال لیکن حوارئین کا حال کے ساتھ انسان ک� صلح کے اس اسرار کو سمجھ نہ پائے ۔

اندھے بھکاری ک� شفایاب�ی� المسیح یریحو شہر میں پہنچے جو یروش��لیم س��ے اٹھ��ارہ می�� جب حضور سیدنا عیس

آاپ کو راہ کے کنارے بیٹھا ہوا ایک بھکاری ملا جو اندھا تھا۔ کے فاصلہ پر تھا تو آاواز سن ک�ر پوچھ��نے لگ�اکہ یہ کی�ا ہورہ��ا ہے ؟ انہ�وں نے اس�ے " وہ بھیڑ کے جانے ک� ی�( ابن داؤد ی�(ناص�ری جارہ�ا ہے۔ اس نے چلا ک�ر کہ�ا اے یس�وع )عیس� خبر دی کہ یسوع )عیس�آاگے ج��اتے تھے وہ اس ک��و ڈانٹ��نے لگے کہ چپ رہے مگ��ر وہ اور بھ� مجھ پ��ر رحم ک��ر۔ ج��و ی�( نے کھ�ڑے ہ�وکر حکم دی�ا کہ اس ک�و چلای�اکہ اے ابن داؤد مجھ پ�ر رحم ک�ر۔ یس�وع )عیس�آایا تو اس نے اس سے پوچھا تو کیا چاہت��ا ہے کہ میں ت�یرے ل��ئے میرے پاس لاؤ۔ جب وہ نزدیک کروں؟ اس نے کہا اے خداوند یہ کہ میں بینا ہوجاؤں ۔ یسوع نےاس سے کہ��ا بین��ا ہوج��ا۔ ت��یرے ایمان نے تجھے اچھا کیا۔ وہ اس� دم بینا ہوگیا اور خدا ک� تمجید کرتا ہ��وا اس کے پیچھے ہولی��ا

ت��ا۳۵آایت ۱۸)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت لوق��ا رک��وع اور سب لوگوں نے دیکھ کر خدا ک� حم�د ک�۔"

(۔۴۳

ی� المسیح زکائ� کے گھر میں حضور سیدنا عیسا پیچ گلیوں میں س��ے گ��زررہے تھے ی� المسیح یریحو کے شہر ک� پر حضور سیدنا عیسآاپ کے کہ ان ک� ایک دولت مند شخص زکائ� نام جو کہ ٹیکس کمشنر تھا ملاقات ہوئ�۔وہ

� پاک کا مدت سے مشتاق تھا۔ انجی شریف میں اس واقعہ کا یوں بیان ہے: دیدار " لیکن وہ بھیڑ کے سبب س�ے دیکھ نہ س�کتا تھ�ا اس ل�ئے کہ اس ک�ا ق��د چھوٹ�ا تھ��ا۔آاگے دوڑ ک��ر ای�ک گ�ولر کے پ��یڑ پ��ر چ��ڑھ گی��ا کی��ونکہ وہ اس��� راہ س��ے پس اس��ےدیکھنے کے ل��ئے جانے کو تھا۔ جب یسوع اس جگہ پہنچا تو اوپر نگاہ کرکے اس سے کہا اے زکائ� ، جل��د ات��رآاج مجھے تیرے گھر رہناضرور ہے ۔وہ جلد اتر کر اس ک��و خوش��� س��ے اپ��نے گھ��ر لے آا کیونکہ

گیا۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا تو سب بڑب�ڑا کرکہ��نے لگے کہ وہ ت�و ای�ک گنہگ�ار ش�خص کےہ�اںآادھ�ا م�ال غریب��وں جا اترا ۔ اورزکائ� نےکھڑے ہ��وکر خداون�د س�ے کہ�ا اے خداون�د دیکھ میں اپن�ا ی�( کودیتاہوں اور اگر کس� کا کچھ ناحق لے لیا ہے تو اس کو چوگن��ا ادا کرت��ا ہ��وں۔ یس�وع )عیس��آائ� ہے۔اس ل�ئے کہ یہ بھ� ابرہ�ام ک�ا بیٹ�ا ہے۔ کی�ونکہ آاج اس گھ�ر میں نج��ات نے اس سے کہ�ا

آایاہے" آادم کھوئے ہوؤں کوڈھونڈنے اور نجات دینے تا۳آایت ۱۹) انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع ابن

(۔۱۰

یہ دونوں واقعات یعن� اندھے بھکاری کو شفا دین��ا اور گنہگ��ار زک��ائ� ک� دع��وت قب��ولآاپ ک� ض�رورت من��دوں س�ے آاٹھ دس دن ہ� رہ گ�ئے تھے اا آاپ ک� وف�ات میں تقریب�� کرن�ا جبکہ �ہ راس�ت پ�رلانے کے دل س�ے آاd س�بھوں ک�و را گہ��ری محبت ک�ا ثب�وت ہیں۔ غ��ریب ہ�و ی�ا ام�یر

آاپ نے فرمایا : متمن� تھے۔ تب ہ� آایا ہے۔" آادم کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے "ابن

اشرفیوں ک� تمثیآاپ کے ارش�ادات ک�و اازک�ائ� کے گھ�ر میں ( " جب بہت سے ل�وگ جم�ع ہ�وکر )غالب

آاپ نے ایک تمثی بیان فرمائ� : بڑی توجہ سے سن رہے تھے۔ تو آائے۔اس نے اپ��نے "ای��ک ام��یر دوردراز مل��ک ک��و چلا ت��اکہ بادش��اہ� حاص�� ک��رکے پھ��ر آانے ت��ک نوکروں میں سے دس کو بلا کر انہیں دس اشرفیاں دیں اور ان سے کہ��ا کہ م��یرے واپس آادم� اس س��ے ع��داوت رکھ��تے تھے اور اس کے پیچھے لین دین کرن��ا۔ لیکن اس کے ش��ہر کے ایلچیوں ک� زب��ان� کہلا بھیج��ا کہ ہم نہیں چ��اہتے کہ یہ ہم پ��ر بادش�اہ� ک�رے۔ جب وہ بادش��اہ�آایا تو ایسا ہواکہ ان نوکروں کو بلا بھیجا جن کو روپیہ دیا تھا۔ تاکہ معلوم کرے حاص کرکے پھر کہ انہ��وں نے لین دین س��ے کی��ا کی��ا کمای��ا۔ پہلے نے حاض��رہوکر کہ��ا اے خداون��د ت��یری اش��رف� سےدس اشرفیاں پیدا ہويئں۔ اس نے اس سے کہا اے اچھے نوکر شاباش ! اس لئے کہ تو نہایتآاک��ر کہ��ا اے خداون��د تھوڑے میں دیانتدار نکلا اd تو دس شہروں پر اختی��ار رکھ۔ دوس��رے نے

تیری اشرف� سے پانچ اشرفیاں پیداہوئیں۔ اس نے اس سےبھ� کہا تو بھ� پانچ شہروں کا ح�اکمآاک��ر کہ��ا اے خداون��د ، دیکھ ت��یری اش��رف� یہ ہے جس ک��و میں نے روم��ال میں ہ��و۔تیس��رے نے آادم� ہے۔ ج��و ت�ونے نہیں باندھ کررکھا ۔کیونکہ میں تجھ سے ڈرت�ا تھ�ا اس ل�ئے کہ ت��و س�خت رکھا اسے اٹھالیتا ہے اور جو تونے نہیں بوی��ا اس��ے کاٹت��ا ہے۔ اس نے اس س��ے کہ��ا اے ش��ریر ن�وکرآادم� ہ��وں اور ج��و میں تجھ کو تیرے ہ� منہ سے ملزم ٹھہراتا ہوں۔ تومجھے جانت��ا تھ��ا کہ س��خت میں نے نہیں رکھا اسے اٹھالیتا ہوں اور جو نہیں بویا اسے کاٹت��ا ہ��وں۔پھ��ر ت��ونے م��یرا روپیہ س��اہوکارآاکر اسےسود سمیت لے لیتا ؟اوراس نے ان سے کہا جو پ��اس کےہاں کیوں نہ رکھ دیا کہ میں کھڑے تھے کہ وہ اشرف� اس سے لے لو اور دس اش��رف� والے ک�و دے دو۔ )انہ��وں نے اس س��ے کہا اے خداوند اس کے پاس دس اشرفیاں ت��و ہیں (۔ میں تم س��ے کہت��ا ہ��وں کہ جس کے پ��اس ہے اس کو دی�ا ج�ائے گ�ا اور جس کے پ�اس نہیں اس س��ےوہ بھ� لے لی��ا ج��ائے گ�ا ج�و اس کے پاس ہے۔ مگر میرے ان دشمنوں کو جنہوں نے نہ چاہا تھاکہ میں ان پر بادشاہ� کروں یہ��اں لاک��ر

(۔۲۷تا ۱۱آایت ۱۹) انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا ، رکوع میرے سامنے قت کرو۔"

ہر ط��رح ک� نعم��تیں اور ص��لاحیتیں ہمیں اس ل��ئے دی گ��ئ� ہیں کہ ہم ان س��ے روپے�د آام� ی� المس��یح ک� پیسے ک� طرح لین دین کریں۔ان سب ک�ا حس��ب ہمیں حض�ور س��یدنا عیس�ی� ک� عط��ا ک��ردہ نعمت��وں اور ص��لاحیتوں ک��و بطری��ق ثان� پر دینا پ��ڑے گ�ا۔ وہ ل��وگ ج�و خ��دا تع��ال احسن استعما ل کرتے ہیں۔ اس ک� بادش�اہ� میں اج�ر پ�ائیں گے۔ مگ�ر جوسس�ت� او رلاپ�رواہ� کے باعث انہیں درست طریقہ سے استعمال نہیں کرتے وہ ج��و کچھ ان کے پ��اس ہے اس��ے بھ�آادم� ک� ی� المس��یح اس گنوا بیٹھیں گے۔ مگر تھوڑے ہ� لوگ سمجھے کہ حض��ور س��یدنا عیس�آائے، اس دنیا کو جلد ہ� چھوڑ طرح جو دور دراز ملک کوگیا تاکہ بادشاہ� حاص کرکے واپس آاپ اس رات زک��ائ� کے گھ��ر ہ� آاک��ر ع��دالت ک��ریں گے ۔ نے والے ہیں۔ وہ بھ� پھ��ر اس جہ��ان

میں قیام فرما کر دوسرے دن بیت عنیاہ تشریف لے گئے۔

آاخری سات دن

آاخری سات دنوں ک� جو تاریخ قلمبن�د ہ�وئ� ہے۔ وہ نہ�ایت اہم آاپ ک� زندگ� کے ان آاپ آاپ ک� اور حواریوں ک� سرگرمیوں کا مرکز بن گی��ا۔ان دن�وں اور نتیجہ خیز ہے۔ اd بیت عنیاه �م پ��اک میں آائ� ۔ کلا آارام اور خل��وت میس��ر آاپ ک��و ہ��ر ط��رح ک��ا لع��زر کے گھ��ر مقیم رہے جہ��اں

ارشاد ہواہے۔آایا جہ��اں لع��زر تھ��ا جس�ے ی�( فسح سے چھ روز پہلے بیت عنیاہ میں "پھر یسوع )عیس

(۔۱آایت ۱۲) انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع یسوع نے مردوں میں جلایا تھا۔"

ی� المسیح � سخن حضور سیدنا عیس آائے، ان کا موضوع عید فسح پر جو زائرین یروشلیم ک� ذات شریف ہ� بن� رہ� ۔

آاپس میں کہ��نے لگے ی�( ک��و ڈھون��ڈنے اور ہیک�� میں کھ��ڑے ہ��وکر "پس وہ یسوع )عیسآائے گ�ا؟ اور س�ردار ک�اہنوں اور فریس�یوں نے حکم کہ تمہارا کیا خی�ال ہے؟ کی�ا وہ عی�د میں نہیں

۔")انجی��دے رکھا تھا کہ اگر کس� کو معلوم ہوکہ وہ کہا ں ہے تو اطلاع دے تاکہ اسے پک��ڑلیں

(۔۵۷تا ۵۶آایت ۱۱شریف بہ مطابق حضرت یوحنارکوع

پہلا دنی� المس��یح اس اہم ترین ہفتہ کے پہلے دن جو کہ م��روجہ ات��وار ہے ، حض��ور س��یدنا عیس��آاپ یروشلیم تش��ریف لارہے یروشلیم کے دومی کے سفر پر روانہ ہوئے ۔ جب زائرین عید نے سناکہ

آاپ کے استقبال کے لئے نکلے آایت۱۲)انجی شریف بہ مطابق حض��رت یوحن��ا رک��وع ہیں تو وہ جوق درجوق

(۔۱۳تا ۱۲

" اور جب وہ یروش��لیم کے نزدی��ک پہنچے اور زیت��ون کے پہ��اڑ پ��ر بیت فگے کے پ��اسی�( نے دو شاگردوں کو یہ کہہ کر بھیجا کہ اپنے س��امنے کے گ��اؤں میں ج��اؤ۔ آائے تو یسوع )عیس وہاں پہنچتے ہ� ایک گدھ� بندھ� ہوئ� اور اس کے س��اتھ بچہ پ��اؤگے۔ انہیں کھ��ول ک��ر م��یرےآاؤ۔اور اگر کوئ� تم سے کچھ کہے تو کہن��ا کہ خداون��د ک��و ان ک� ض��رورت ہے وہ ف� پاس لے

الفور انہیں بھیج دے گا۔ یہ اس لئے ہوا کہ جو نب� ک� معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ

صیون ک� بیٹ� سے کہو کہ آاتا ہے۔ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس

وہ حلیم اور گدھے پر سوار ہے (۔۵تا ۱آایت ۲۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع بلکہ لادو کے بچے پر "

آانے س��ے پ��انچ س��و س��ال ی� کے نب� حضرت زکری��ا نے اس واقعہ کے ظہ��ور میں خدا تعال آایت۹)دیکھ��ئے بائب�� ش��ریف ص��حیفہ حض��رت زکری��ا رک��وع پیشتر اس کے بارے میں پیشین گوئ� ک� تھ�۔

ی� ، حضرت داؤد اور ان جیسے دیگر انبیائے(۹ �م مقدس میں حضرت ابراہیم ، حضرت موس ۔کلا کرام ک� متعدد پیشین گوئی�اں ہیں ج�و س��ب مس�یح موع�ود ک� نش�اندہ� ک� ک�رت� ہیں۔ انہ�

ی� المسیح اd تکمی فرمانے والے تھے۔ پیشین گوئيوں ک� حضور سیدنا عیسی�(نے ان ک��و حکم دی��ا تھ��ا ویس��ا ہ� کی��ا۔ "پس شاگردوں نے جاکر جیسا یسوع )عیس�� اور گدھ� اور بچے کو لاکر اپنے کپڑے ان پر ڈالے اور وہ ان پربیٹھ گیا۔ او ربھ��یڑمیں اک��ثر لوگ��وں نے اپنے کپڑے راستہ میں بچھائے اور اوروں نے درختوں س�ے ڈالی�اں ک�اٹ ک�ر راہ میں پھیلائیں۔آات� تھ� پک��ار پک��ار ک��ر کہ��ت� آاگے ج��ات� او رپیچھے پیچھے چل� آاگے اور بھ��یڑ ج��و اس کے

�م ب��الا پرہوش��عنا ۔*۔1تھ� ابن داؤد کو ہوشعنا آات�ا ہے ،ع��ال مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام س��ے اور جب وہ یروشلیم میں داخ ہوا تو سارے ش��ہر میں ہلچ�� پڑگ��ئ� اور ل��وگ کہ��نے لگے یہ ک��ون

ی�( ہے۔" ) انجی�� ش��ریف بہ مط��ابقہے؟ بھیڑ کے لوگوں نے کہا یہ گلی کے ناصرة کا نب� یسوع )عیس��

(۔۱۱تا ۶آایت ۲۱حضرت مت� رکوع

ہوشعنا عبران� لفظ ہے۔ اس کے معن� ہیں کرم کرکے نجات دے۔*۔1

ی�( اپ��نے جلال " اس کے شاگرد پہلے تو یہ باتیں نہ سمجھے لیکن جب یس��وع )عیس��آای��اکہ یہ ب��اتیں اس کے ح��ق میں لکھ� ہ��وئیں تھیں اورلوگ��وں نے اس کے کو پہنچا ت��و ان ک��و ی��اد

(۔۱۶آایت ۱۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ساتھ یہ سلوک کیا تھا۔"

آاج��اتے تھے۔ ان میں بیت عید فسح منانے کے لئے اکثر زائرین ک��اف� دن پہلے یروش��لیم � موع��ود ک��و چ��ار دن کے م��دفون لع��زر ک��و دوب��ارہ عنیاہ کے مقام� لوگ بھ� تھے جنہوں نے مسیح

زندہ کرتے دیکھا تھا۔ انہوں نے دور دراز کے زائرین کو بھ� اس محیر العق�� واقعہ کے ب�ارے میںبتادیا تھا۔

" اس� سبب سے ل��وگ اس کے اس��تقبال ک��و نکلے کہ انہ��وں نے س��نا تھ��اکہ اس نے یہآاپس میں کہا س��وچوتو ! تم س��ے کچھ نہیں بن پڑت��ا ۔ دیکھ��و معجزہ دکھایا ہے۔پس فریسییوں نے

(۔۱۹آایت ۱۲) انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع جہان اس کا پیرو ہو چلا ہے "

ی� المس��یح کے ارش��ادات س��ننے کے مش��تاق تھے۔ اd وہ عوام ہمیشہ حضور سیدنا عیسآاپ کا ش��اہانہ اس��تقبال ک��رنے آاپ کو مسیح موعود اور بادشاہ سمجھ کر بڑے جوش وخروش سے

کو نکلے ۔ وہ یہ نعرہ لگاتے تھے کہ � ب��الا پ��ر آاسمان پر صلح اور عالم آاتا ہے ۔ "مبارک ہے وہ بادشاہ جو خداوند کے نام سے

(۔۳۸آایت ۱۹)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع جلال!

آاپ ک���ا یہ پرش���کوہ آاپ کے کچھ فریس���� دش���من بھ� ش���ام تھے۔ اس مجم���ع میں آاپ کو کہا استقبال دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا۔ انہوں نے

" اے استاد ! اپنے شاگردوں کو ڈانٹ دے۔"آاپ نے انہیں جواd دیا

" میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر یہ چپ رہیں تو پتھر چلا اٹھیں گے ۔" آاپ ک�ا دل آاپ شہر کے اور زیادہ ق��ریب پہنچے ت�و اس کے نج��ام کے پیش نظ��ر جب

آاپ نے گویا مقدس شہر سے مخاطب ہوتے ہوئےفرمایا : آاپ رونے لگے ۔ آایا اور بھر آانکھ��وں " کاشکہ تو اپ�نے اس�� دن میں س�لامت� ک� ب�اتیں جانت�ا ! مگ�ر اd وہ ت�یری آائیں گے کہ تیرے دشمن تیرے گرد مورچہ باند ھ کر سے چھپ گئ� ہیں۔ کیونکہ وہ دن تجھ پر تجھے گھیر لیں گے اور ہر طرف س��ے تن��گ ک�ریں گے ۔ اور تجھ ک��و اور ت�یرے بچ��وں ک�و ج��و تجھ میں ہیں زمین پر دے پٹکیں گے اور تجھ میں کس� پتھر پر پتھر ب��اق� نہ چھ��وڑیں گے اس

۔") انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رتلئے کہ تونے اس وقت کو نہ پہچانا جب تجھ پر نگ�اہ ک� گ��ئ�

(۔۴۴تا ۳۹آایت ۱۹لوقا رکوع

آانحض�ور ک�و اپن��ا مس�یح موع�ود اور ن�ب� آاخ�ری موق�ع تھ��ا کہ وہ بن� اسرائی کے ل��ئے یہ آانکھیں ہیک کے سفید خوبصورت پتھروں آاپ ک� آاپ نے شہر پر نطر ڈال� تو قبول کریں۔جب ک� چم��ک دم��ک س��ے ہٹ ک��ر مس��تقب کے ان واقع��ات ک��ا مش��اہدہ ک��رنے لگیں جب روم�

ء میں یروش��لیم کامحاص��رہ ک��رکے ش��ہر ک� اینٹ س��ے اینٹ بج��ادے گ��ا اور ہ��ر۷۰ج��نرل ططس آاپ پر ایمان نے لانے کے ن��تیجہ میں ان آاتش زن� اور تباہ� کا بازار گرم ہوگا۔ طرف قت وغارت آاپ کے احساس دل پر نہایت گہرا اثر ہوا ۔ یہاں تک آانے وال� تھیں ، ان کا پر جو جو تباہیاں

آانسو بہنے لگے ۔ آاپ کے کہ ان کےدل ک� سخت� کودیکھ کر آاپ ہیک میں تشریف لے گئے " اور چاروں ط��رف س��ب چ�یزیں یروشلیم میں داخ ہوکر

آاپ نے لالچ� ص��رافوں ک�(۔۱۱آایت ۱۱)انجی��� ش���ریف بہ مط���ابق حض���رت م���رقس، رک���وع ملاحظہ " کیںآانکھ��وں میں ناج��ائز نف��ع ک� انگلی��وں ک� ت��یزی اور قرب��ان� کے ج��انور ف��روخت ک��رنے وال��وں ک� حرص وہوس کو دیکھا۔ ہر طرف نفع اندوزی اور خود غرض� کا ب��ازار گ��رم تھ��ا۔ اس ب��دعنوان� ک��اآاپ اپ�نے حواری�وں �دباd کرنے والے تھے۔ چونکہ اd " شام ہوگئ� تھ� " )اس لئے آاپ اگلےدن س

سمیت بیت عنیاہ واپس تشریف لے گئے ۔

دوسرا دنبے پھ انجیر کا درخت

ی المسیح بیت عنیاہ سے واپس یروش��لیم تش��ریف پیر ک� صبح جب حضور سیدنا عیس�آایا جو یروشلیم کے خلاف ای��ک نب��وت ک� حی��ثیت رکھت��ا لے گئے تو ایک نہایت اہم واقعہ پیش

�م حق میں اس واقعہ کا ذکریوں ہے: ہے کلا " دوسرے دن جب وہ بیت عنیاہ سے نکلے تو اسے بھوک لگ�۔ اور وہ دور س��ے انج��یر کا درخت جس میں پتے تھے دیکھ کر گیاکہ شاید اس میں کچھ پائے۔ مگر جب اس کے پاسآائن��دہ پہنچا تو پتوں کے س��وا کچھ نہ پای��ا کی��ونکہ انج��یر ک��ا موس��م نہ تھ��ا۔اس نے اس س��ے کہ��ا

)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رتکوئ� تجھ سے کبھ� پھ نہ کھائے اور اس کے شاگردوں نے سنا "

(۔۱۴تا ۱۲آایت ۱۱مرقس رکوع

آاخ�ر میں انج��یر کے درخت میں پت�وں میں چھپ�ا ہ��وا گذش��تہ موس��م ک�ا � بہ�ار کے موسم پھ م جاتا تھا یا پھر نیا پھ جو کہ ابھ� کچ��ا تھ��ا ت�و بھ� کھای�ا جاس�کتا تھ��ا۔ لیکن م�ذکورہ� یہ�ود مس�یح موع�ود ک�و رد ک�رنے درخت بے پھ تھا۔ اس میں پت�وں کے س�وا کچھ نہ تھ��ا۔ امت

کے باعث اس انجیر کے درخت ک� مانند بے پھ تھ�۔آاپ ای�ک روز پیش�تر ک�رچکے تھے ت�و آاپ ہیک میں داخ� ہ�وئے جس ک�ا مع��ائنہ جب �م مق��دس میں اس سلس��لے میں آال��ودگ� س��ے پ�اک ص��اف کی��ا۔ کلا آاپ نے ہیک کو ہر قسم ک�

مرقوم ہے کہ ی�( ہیک� میں داخ� ہ�وکر ان ک�و ج�و ہیک� آائے اور یس�وع )عیس� " پھر وہ یروشلیم میں میں خریدوفروخت کررہے تھے باہر نکالنے لگ��ا اور ص��رافوں کے تخت��وں اور کب��وتر فروش��وں ک� چوکیوں کو الٹ دیا۔ اور اس نے کس� کو ہیک میں سے ہوکر ک��وئ� ب��رتن لے ج��انے نہ دی��ا۔ او راپن� تعلیم میں ان سے کہا کی��ا نہیں لکھ��ا ہے کہ م��یرا گھ��ر س��ب قوم��وں کے ل��ئے دع��ا ک��ا گھ��ر کہلائے گا۔ مگر تم نے اسے ڈاکوؤں کو کھوہ بنادیا ہے۔ اور سردار کاہن اور فقیہ یہ سن ک��ر اس کے ہلاک کرنے کا موقع ڈھونڈنے لگے کیونکہ اس سے ڈرتے تھے اس لئے کہ سب ل��وگ اس

(۔۱۹تا ۱۵آایت ۱۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع ک� تعلیم سے حیران ہوتے تھے۔"

ان لوگوں سے نپٹ کر جنہوں نے مذہب کو نفع کاذریعہ بنا رکھا تھا اور جو غریب��وں ک��اآانکھیں کھ��ولیں اور لنگ��ڑ وں ک� س��وکھ� آاپ نے ہیک میں ان��دھوں ک� dخون چوستے تھے۔ ا

ہوئ� ٹانگوں کو توانائ� بخش� ۔آائے اور اس نے انہیں اچھ��ا کی��ا۔ لیکن " اور اندھے اور لنگڑے ہیک میں اس کے پاس جب سردار کاہنوں اور فقیہوں نے ان عجیب کاموں کو جو اس نے کئے اور لڑکوں کو ہیک�� میں ابن داؤد کو ہ��و ش�عنا پک��ارتے دیکھ��ا ت��و خف��ا ہ��وکر اس س�ے کہ��نے لگے ۔ ت��و س�نتا ہے کہ یہ کی��ای�( نے ان سے کہا ہاں۔ کی�ا تم نے یہ کبھ� نہیں پڑھ�ا کہ بچ��وں اور ش�یر کہتے ہیں؟ یسوع )عیس

خواروں کے منہ سے تونے حمد کو کام کرایا؟ اور وہ انہیں چھوڑ کر شہر س��ے ب��اہر بیت عنی��اہ(۔۱۷تا ۱۴آایت ۲۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع میں گیا اور رات کو وہیں رہا۔"

تیسرا دنآاپ کے ح��واريئن بیت عنی��اہ ی المس��یح اور منگ�� ک� ص��بح جب حض��ور سیدناعیس��� سے پھر یروشلیم ک� طرف جارہے تھے تو راستے میں وہ اس انجیر کے درخت کے پاس س��ے

�م حق میں یوں ہے۔ گذرے جس کاذکر کلا "پھر صبح کو جب وہ ادھر سے گذرے تو اس انجیر کے درخت کو جڑ تک س��وکھاآائ� اور اس س��ے کہ��نے لگ��ا اے رب� ! دیکھ یہ انج��یر ک��ا ہ��وا دیکھ��ا۔پط��رس ک��و وہ ب��ات ی��اد

آایت۱۱) انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��رقس رک��وع درخت جس پر تونے لعنت ک� تھ� سوکھ گیا ہے۔"

(۔۲۱تا ۲۰

اا یہ دکھای��ا کہ ی� المسیح نےتمثیل انجیر کےدرخت کو سکھادینے سے حضور سیدناعیسقوم یہود ک� دین� ظاہرداری اوربے اعتقادی کا کیا نتیجہ نکلے گا۔

آاخ��ری موق��ع ک��و بھ� گنوادی��ا اور ان ک��ا پیش��وائے دین اور م��ذہب پرس��ت ع��وام نے اس انجام اس انجیر کے درخت کا سا ہوگیا تھا۔

آاپ پھر ہیک میں تشریف لائے توعلمائے دین کو اپنا منتطر پایا۔ جب آائے اور اس سے کہنے لگے ت��و ان ک��اموں " سردار کاہن اور فقیہ اور بزرگ اس کے پاس

کو کس اختیار سے کرتا ہے؟ یا کس نے تجھے یہ اختیار دیاکہ ان کاموں کو کرے ؟ ی�( نے ان سے کہا میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں تم جواd دو تو میں "یسوع )عیسآاسمان ک� طرف سے تم کو بتاؤں گا کہ ان کاموں کو کس اختیار سے کرتا ہوں۔ یوحناکا بپتسمہ

تھا یا انسان ک� طرف سے؟ مجھے جواd دو۔آاسمان ک� طرف سے تو وہ کہے گا آاپس میں صلاح کرنے لگے کہ اگر ہم کہیں " وہ پھر تم نے کیوں اس کایقین نہ کیا؟ اور اگر کہیں انسان ک� طرف س�ے ت�و لوگ�وں ک�ا ڈر تھ��ا اس

لئے کہ سب لوگ واقع� یوحناکو نب� ج�انتے تھے۔ پس انہ�وں نے ج�واd میں یس�وع س�ے کہ�ا ہمنہیں جانتے۔

ی�( نے ان س��ے کہ��ا میں بھ� تم ک��و نہیں بتات��ا کہ ان ک��اموں ک��و کس " یس��وع )عیس��(۔۳۳تا ۲۷آایت ۱۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع اختیار سے کرتا ہوں۔"

آاپ نے ان سے حسب ذی تمثی بیان فرماکر ان سے اس کامطلب پوچھا: پھر آاج تاکس��تان آادم� کے دو بیٹے تھے۔ اس نے پہلے کے پ��اس ج��اکر کہ��ا بیٹ��ا ، "ایک میں کام کر۔ اس نے جواd میں کہا میں نہیں جاؤں گا مگر پیچھے پچھتایا کرگیا۔ پھر دوس��رے کے پاس جاکر اس نےاس� طرح کہا ۔ اس نے جواd دیا اچھا جن��اd مگ��ر گی��ا نہیں۔ ان دون��وںی�( نے ان س��ے کہ��ا میں سےکون اپنے باپ ک� مرض� بجالایا ؟ انہوں نے کہا پہلا۔ یسوع )عیس میں تم سے سچ کہتاہوں کہ محصول لینے والے اور کسبیاں تم س��ے پہلے خ��دا ک� بادش��اہ� میںآای��ا۔ اور تم نے ی�(راستبازی کے طریق پر تمہارے پ��اس داخ ہوت� ہیں۔ کیونکہ یوحنا )حضرت یحی اس ک��ا یقین نہ کی��امگر محص��ول لی��نے والے اور کس��بیوں نے اس ک��ا یقین کی��ا اور تم یہ دیکھ ک��ر

ت��ا۲۸آایت ۲۱)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��ت� رک��وع پیچھے بھ� نہ پچھتائے کہ اس کا یقین کرلی��تے "

(۔۳۲

(مزید تمثیلیں۲دو )� برحق حضورالمسیح نے ان سے یہ تمثی بیان فرمائ� : پھر ہادی

" ایک شخص نے تاکستان لگا کر باغبانوں کو ٹھیکے پر دی�ا اور ای��ک ب��ڑی م��دت کے لئے پردیس چلا گی�ا۔ اورپھ�� کےموس�م پ�ر اس نے ای�ک ن�وکر باغب��انوں کے پ�اس بھیج��ا ت�اکہ وہ تاکس��تان کےپھ�� ک��ا حص��ہ اس��ے دیں۔ لیکن باغب��انوں نے اس ک��و پیٹ ک��ر اور بے ع��زت ک��رکے خال� ہاتھ لوٹادیا۔ پھر اس نے تیسرا بھیجا۔ انہوں نے اس کو بھ� زخم� کرکے نکال دیا۔ اس پ��ر تاکستان کے مالک نے کہا کہ کیا کروں؟ میں اپنے پیارے بیٹے کو بھیج��وں گ�ا ۔ ش��اید اس ک�اآاپس میں ص��لاح ک��رکے کہ��ا یہ� وارث ہے۔ لح��اظ ک��ریں۔ جب باغب��انوں نے اس��ے دیکھ��ا ت��و

dا۔ ا��کی اسےقت کریں کہ میراث ہماری ہوجائے ۔ پس اس کو تاکستان سے ب��اہر نک��ال ک��ر قت��آاکر باغبانوں کو ہلاک کرے گا اور تاکس��تان تاکستان کا مالک ان کے ساتھ کیا کرے گا ؟ وہ

۔") انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رک��وعاوروں کو دے دیگا۔" انہوں نے یہ سن کر کہا خدا نہ کرے

(۔۱۶تا ۹آایت ۲۰

ی� ک� پرستش اور بڑائ� اس تمثی کے معن� صاف اور واضح تھے۔ دین� پیشوا خدا تعالی� نے اپ��نے کا احق ادا کرنے سے انکار کرکے خود مذہب کے ٹھیکیدار بن بیٹھے تھے۔ باری تع��الآاخ��ر میں کلمتہ الل��ه مس��یح نب� بھیجے مگ�ر انہ��وں نے ان ک��ا پیغ��ام رد ک�رکے ان پ�ر تش��دد کی��ا۔ آاپ کو بھ� قت کرنے کے لئے ساز باز کررہے تھے ایسا نہ ہ��و کہ موعود کو بھیجا گیا اور اd وہ �ن ح�ق ان کامذہب کا ٹھیکہ خطرہ میں پ�ڑ ج�ائے ۔لیکن ایس�ے لوگ�وں ک�ا ن�تیجہ تب�اہ� ہوگ�ا اور دی

ک� خاص خدمت کا اعزاز ان سے لے کر دوسروں کو سونپا جائيگا۔ ی� المس��یح اپ��نے س��امعین ک�و نہ��ایت س��نجیدہ الف��اظ میں انتب��اہ پھ��ر حض��ور س��یدنا عیس�

فرمایا: " اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا ک� بادشاہ� تم سے لے ل� جائے گ� اور اس

(۔۴۳آایت ۲۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع قوم کو جو اس کے پھ لائے دی جائے گ� "

ی� ک� اپن� امت ک��و دع��وت ک� وض��احت ک� گ��ئي ۔ ج��و دوسری تمثی میں خدا تعالاپنے ہ� کاموں میں مگن رہنے والے اس عظیم ضیافت میں شام ہونے سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے۔

آاسمان ک� بادشاہ� اس بادش�اہ ک� مانن�د ہے جس نے اپ�نے بی��ٹے ک� ش�ادی ک�۔اور " آان�ا نہ چاہ��ا۔ پھ��ر اس اپنے نوکروں کو بھیجا کہ بلائے ہوؤں کو شادی میں بلا لائیں مگر انہوں نے نے اور نوکروں کو یہ کہہ کر بھیجا کہ بلائے ہوؤں سے کہو کہ دیکھو میں نے ضیافت تیار ک��رل�آاؤ۔ ہے ۔ میرے بی اور م�وٹے م�وٹے ج�انور ذبح ہ�وچکے ہیں اور س�ب کچھ تی�ار ہے۔ ش�ادی میں مگر وہ بے پروائ� کرکے چ دیئے۔ کوئ� اپ�نے کھیت ک�و ک�وئي اپ�ن� س�وداگری ک�و۔ اور ب�اقیوں نے اس کے نوکروں کو پکڑ کر بےعزت کیا اور م��ار ڈالا۔ بادش��اہ غض��ب ن��اک ہ��وا اور اس نے اپن��ا لشکر بھیج کر ان خونی�وں ک�و ہلاک کردی�ا اوران کاش�ہر جلادی�ا۔ تب اس نے اپ�نے ن�وکروں س�ے

کہا کہ شادی ک� ضیافت تو تیار ہے مگر بلائے ہوئے لائق نہ تھے پس راستوں کے ناکوں پر ج��اؤارے اورجتنے تمہیں ملیں شادی میں بلا لاؤ۔ اور وہ نوکر باہر راستوں پر جاکر جو انہیں ملے کیا ب��

")انجی�� ش��ریف بہ مط��ابقکیا بھلے سب کوجمع کر لائے اور شادی ک� محف مہمانوں سےبھر گئ�

(۔۱۰تا ۲آایت ۲۲حضرت مت� رکوع

یہ بھانپ کر کے یہ تمثی ہماری تنبیہ کے لئے ہے۔ " فریسیوں نے جاکر مشورہ کی��ا کہ اس��ے کی��ونکر ب��اتوں میں پھنس��ائیں ۔ پس انہ��وں نے

کےس��اتھ اس کے پ�اس بھیج��ا۔ اور انہ��وں نے کہ��ا اے اس�تاد ، ہم*1اپنے شاگردوں کو ہ��یردویوں جانتے ہیں کہ تو سچا ہے اور سچائ� سےخدا ک� راہ ک� تعلیم دیتا ہے اور کس� ک� پرواہ نہیںآادم� کا طرف دار نہیں۔ پس ہمیں بتا۔ تو کی��ا س��مجھتا ہے؟ قیص��ر ک��و ج��زیہ کرتا کیونکہ توکس�

دینا روا ہے یا نہیں؟آازماتے ی�( نے ان ک� شرارت جان کر ان سے کہا اے ریاکارو مجھے کیوں یسوع )عیس

ہو؟جزیہ کا سکہ مجھے دکھاؤ۔ وہ ایک دینا اس کے پاس لائے ۔ اس نے ان سےکہا ۔یہ صورت اور نام کس کا ہے ؟

انہوں نے اس سے کہا قیصر کا اس پر اس نے ان سے کہا پس جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خ�دا ک�ا ہے خ��دا ک��و

ادا کرو۔"انہوں نے یہ سن کر تعجب کیا اور اسے چھوڑکر چلے گئے۔

(۔۲۱تا ۱۵آایت ۲۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع

یہودیوں کا ایک فرقہ *1

آاپ ک� مذہب� راہنماؤں کے ساتھ سخت بحث وتک��رار ہ��وت� رہ�۔ اس روز یروشلیم میں آاپ کو بحث میں نیچا دکھانا چاہتا تھا۔ اس� دن صدوق� فرقہ کے علم��اء نے یہودیوں کا ہر فرقہ

آاپ سے بحث ک� اور کہا بھ� جومردوں ک� قیامت کو نہیں مانتے

ی نے کہا تھا کہ اگر کوئ� بے اولاد مرج��ائے ت�و اس ک�ا بھ�ائ� اس " اے استاد موس� ک� بیوی سے بیاہ کرلے اور اپ��نے بھ��ائ� کے ل��ئے نس� پی��دا ک��رے ۔ اd ہم�ارے درمی��ان س��ات بھائ� تھے اور پہلا بیاہ کرکے مرگی��ا اور اس س��بب س��ے کہ اس کے اولاد نہ تھ� اپ��ن� بی��وی اپ��نے بھائ� کے لئے چھوڑ گیا۔ اس� طرح دوس�را اور تیس�را بھ� س�اتویں ت�ک۔ س�ب کے بع�د وہ ع�ورت بھ� مرگئ� ۔ پس وہ قیامت میں ان س��اتوں میں س��ے کس ک� بی��وی ہ��وگ� کیون�ک س��ب نے اس

سے بیاہ کیا تھا؟�d مقدس کو ی�( نے جواd میں ان سے کہا تم گمراہ ہو اس لئے کہ نہ کتا یسوع )عیسآاس��مان پ��ر جانتے ہو نہ خدا ک� قدرت کو، کی��ونکہ قی��امت میں بی��اہ ش��ادی نہ ہ��وگ� بلکہ ل��وگ فرشتوں ک� مانند ہوں گے۔ مگرمردوں کے ج� اٹھنے ک� بابت جو خدا نےتمہیں فرمایا تھا کیا تم نے وہ نہیں پڑھا کہ ۔ میں ابرہام کا اور اضحاق کا اور یعقوd کا خدا ہ��وں؟ وہ ت�و م�ردوں ک�ا

)انجی شریف بہ مط��ابقخدا نہیں بلکہ زندوں کا ہے۔ لوگ یہ سن کر اس ک� تعلیم سے حیران ہوئے۔"

(۔۳۳تا ۲۳آایت ۲۲حضرت مت� رکوع

آانحض��ور نے ت��وریت ش��ریف س��ے یہ ث��ابت کی��اکہ م��وت کے بع��د ان ص��دوق� علم��اء ک��و آاپ نے واض��ح فرمای��اکہ حض��رت اب�راہیم، حض��رت زن��دگ� ختم نہیں ہوج��ات� بلکہ ب�اق� رہ��ت� ہے۔ �ر رحمت میں ہیں ی� کے ج��وا اض��حاق اور حض��رت یعق��وd دوس��رے جہ��ان میں زن��دہ اورخ��دا تع��الآاپ نے اس ب��ات ک� بھ� وض��احت کی��ونکہ " وہ ت��و م��ردوں ک��ا نہیں بلکہ زن��دوں ک��ا خ��دا ہے۔ اا نہیں ہوں گے ۔ بلکہ وہ��اں فرمائ� کہ بہشت میں زمین� زندگ� کے سے جنس� تعلقات قطع

مومنین فرشتوں ک� مانند ہوں گے۔

مخالفین کو لاجواd کرناآاپ آاگیا تھا کہ ان نام نہاد مذہن� راہنماؤں ک�امنہ بن�د کردی�ا ج�ائے ۔ چن��انچہ اd وقت نے اپنے اردگرد جمع شدہ فریسیوں سے مسیح موعود کے نسب نامہ کے بارے میں سوال فرمایا:

" تم مسیح کے حق میں کیا سمجھتے ہو؟ وہ کس کا بیٹا ہے؟

انہوں نے اس سے کہا داؤد کا۔ اس نے ان سے کہا پس داؤد روح ک� ہدایت سے کیونکر اسے خدا وند کہتا ہے کہ

نے میرے خداوند سے کہا *1" خداوندمیری دہن� طرف بیٹھ

جب تک میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں کے نیچے نہ کردوں؟پس جب داؤد اس کو خداوند کہتا ہے اور تو وہ اس کا بیٹا کیونکر ٹھہرا؟

اور کوئ� اس کے جواd میں ایک حرف نہ کہہ سکا اور نہ اس دن سے پھر کس��� نے(۔۴۴تا۴۲آایت ۲۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع اس سے سوال کرنے ک� جرات ک� ۔"

۔۱آایت ۱۱۰ زبور شریف رکوع *۔1

� انس��ان� انبی��ائے ک��رام ک� پیش��ین گوئي��وں س��ے واض��ح تھ��اکہ مس��یح موع��ود ک� بعثت حضرت داؤد ک� نس سے ہوگ�۔ وہ بن� کے ایک عظیم الشان بادش��اہ اور ن��ب� تھے۔ ان ہ� ک�آای��ات میں حض��رت داؤد خ��ود معرفت ہمیں زبور شریف ملے ۔لیکن زبور ش��ریف ک� م��ذکورہ ب��الا � موع��ود کے ذات مب��ارک آاپ کو خداوند کہتے ہیں۔مس��یح آاتے ہیں اور مسیح موعود کے منتظر نظرآایت س�ے آاج ت�ک اک�ثرلوگوں ک� فہم وادراک س�ےبالا ہے۔ فریس�� زب�ور ش�ریف ک� اس ک�ا اس�رار لاعلم نہیں تھے لیکن وہ اس کے معن� س��مجھنے س�ے قاص��ر رہے۔ اور نہ وہ اس ق��در ف��روتن تھے کہ اس بات کو پہچان لیتے کہ جو ان سےمخاطب ہے اس� سے پیشین گوئ� ک� تکمی�� ہ��وئ�

ہے۔ی المس��یح کے درج ذی�� فرم��ان ک��ااطلاق دور حاض��رہ کے ان حض��ور س��یدنا عیس��� آاڑ میں خود پرست� میں لگے ہ��وئے ہیں اور مذہب� پیشواؤں پر بھ� عائد ہوتا ہے جو خدا پرست� ک�

ی� ک� عزت ک� نسبت اپن� ہ� عزت کا لالچ کرتے ہیں۔ باری تعال " فقیہوں سے خبردار رہنا جو لمبے لمبے جامے پہن کر پھرنے کا شوق رکھ��تے ہیں اوری� درجے ک� کرس��یاں اور ض�یافتوں میں ص��در نش��ین� ب�ازاروں میں س��لام اور عبادتخ��انو ں میں اعل

پسند کرتے ہیں ۔ وہ بیواؤں کے گھ��روں ک��و دب��ا بیٹھ��تے ہیں اوردکھ��اوے کے ل��ئے نم��از ک��و ط��ول(۔۴۷تا ۴۵آایت ۲۰)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا، رکوع دیتے ہیں۔ انہیں زیادہ سزا ہوگ�۔"

� عام اورحواریئن سے مخاطب ہوکر ی المسیح نے مجمع اس وقت حضور سیدنا عیس� فرمایا:

ی� ک� گ��دی پ��ر بیٹھے ہیں۔ پس ج��و کچھ وہ تمہیں بت��ائیں وہ " فقیہ اور فریس��� موس�� س��ب ک��رو اور م��انو لیکن ان کے س��ے ک��ام نہ کروکی��ونکہ وہ کہ��تے ہیں اور ک��رتے نہیں۔ وہ ایس��ےآاپ ان ک��و بھاری بوجھ جن کو اٹھانامشک ہے باندھ کر لوگوں کے کندھوں پر رکھتے ہیں مگ��ر اپ��ن� انگل� س��ے بھ� ہلانہ نہیں چ��اہتے ۔ وہ اپ��نے س��ب ک��ام لوگ��وں ک��و دکھ��انے ک��و ک��رتے ہیں

بڑے بناتے اور اپن� پوش��اک کے کن��ارے چ��وڑے رکھ��تے ہیں اور ض��یافتوں*1کیونکہ وہ اپنے تعویذآادمی��و ی� درجہ ک� کرسیاں ۔ اور بازاروں میں سلام اور میں صدر نشین� اور عبادت خانوں میں اعل ں سے رب� کہلا نا پسند کرتے ہیں۔مگر تم رب� نہ کہلاؤ کی��ونکہ تمہ��ارا اس��تاد ای��ک ہ� ہے اور تم سب بھائ� ہو۔ اور زمین پر کس� ک��و اپن��ا ب��اپ نہ کہ��و کی��ونکہ تمہ��ارا ب��اپ ای��ک ہ� ہے ج��و آاسمان� ہے۔ اور نہ تم ہادی کہلاؤ کیونکہ تمہارا ہادی ایک ہ� یع��ن� مس�یح ۔لیکن ج�و تم میںآاپ کو بڑا بنائے گ�ا وہ چھوٹ�ا کیاج�ائے گ�ا اور ج�و بڑا ہے وہ تمہارا خادم بنے ۔ اور جوکوئ� اپنے

آاپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کیا ج��ائے گ��ا ت��ا۱آایت ۲۳۔")انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��ت� رک��وع اپنے

(۔۱۲

آایات ہوت� تھیں۔*1 چمڑے کے ان تعویذوں میں توریت شریف ک�

آاپ نے ہن��وز ان گ��ئے ۔لیکن فقیہ اور فریس��� ش��اید برح��ق کے ارش��ادات س��ن ک��ر ج�� بھآاپ نے سلس��لہ کلام ج��اری رکھ��ا اور علانیہ ان ک� ریاک��اری اور دوغلے پن ک��ر بے پ��ردہ کردی��ا۔ نہایت سخت الفاظ میں ان ک� مذمت فرمائ�۔ وہ سادہ لوح عوام ک��و گم��راہ ک��رکے انہیں ح��قی المس��یح ک��و �ح موع�ود حضورس��یدنا عیس�� ک� پیروی سے باز رکھتے تھے۔ یہ��اں ت��ک کہ وہ مس��ی

بھ� قت کرنے ک� سازش کررہے تھے۔

آاس��مان ک� بادش��اہ� لوگ��وں پ��ر بن��د " اے ریاک��ار فقیہ��و اور فریس��یو تم پ��ر افس��وس ! کہ آاپ داخ ہوتے ہو اور نہ داخ ہونے والوں کو داخ ہونے دیتے ہو۔ کرتے ہو کیونکہ نہ تو

" اے ریاکارفقیہو اور فریسیو تم پر افسوس ! کہ تم بیواؤں کے گھروں کو دب��ا بیٹھے ہ��واور دکھاوے کے لئے نماز کو طول دیتے ہو۔ تمہیں زیادہ سزا ہوگ�۔

اے ریاک��ارفقیہو اور فریس��یو تم پ��ر افس��وس ! کہ ای��ک مری��د ک��رنے کے ل��ئے ت��ری اور خش��ک� ک��ادورہ ک��رتے ہ��و اور جب وہ مری��د ہوچکت��ا ہے ت��و اس��ے اپ��نے س��ے دون��ا جہنم ک��ا فرزن��د

بنادیتے ہو۔ " اے اندھے راہ بتانے والوتم پر افسوس !جو کہتے ہو کہ اگ��ر ک��وئ� مق��دس ک� قس��م

کھائے تو کچھ بات نہیں ۔ لیکن اگر مقدس کے سونے ک� قسم کھائے تو اس کاپابند ہوگا۔ " اے احمقوں اور اندھو! کونسا بڑا ہے سونا یا مقدس جس نے سونے ک��و مق��دس کی��ا؟ اور پھر کہتے ہو کہ اگر کوئ� قربانگاہ ک� قسم کھائے تو کچھ بات نہیں لیکن جون��ذر اس پ��ر چڑھ� ہواگر اس ک� قسم کھائے تو اس کا پابند ہوگا۔ اے اندھو کونس� بڑی ہےہے نذر قربانگاہ جونذر کو مقدس کرت� ہے؟ پس جو قربانگاہ ک� قسم کھات��ا ہے وہ اس ک� اور ان س��ب چ��یزوں کو ج��و اس پ��ر ہیں قس��م کھات��ا ہے۔ اورج��و مق��دس ک� قس��م کھات��ا ہے وہ اس ک� اس کے رہ��نےآاس���مان ک� قس���م کھات���ا ہے وہ خ���دا ک� تخت ک� اور اس والے ک� قس���م کھات���ا ہے۔ اور ج���و

(۔۲۲تا ۱۳آایت ۲۳)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع پربیٹھنے والے ک� قسم کھاتا ہے"

� عامہ میں جھ��وٹ بول�تے تھے ت�و اپ�نے ق��ول ک�و س�چ گردان�نے اکثر لوگ جب تعلقات ک� غرض سے بات بات پر قسم کھاتے تھے۔ لیکن وہ اس قسم کو کچ� قسم سمجھ ک�ر اپ�نے ض��میر ک�و مطمئن رکھ��تے تھے۔ ی��وں جھ��وٹ بول��نے ک� انہیں کھل� چھ��ٹ� تھ�۔ لیکن خ��دائے برحق اندھا یا بہرہ نہیں ہے۔ وہ ہر قسم کے جھوٹ سے نف��ر ت کرت��ا اور مک��اروں ک��ا ف��ریب نہیں

کھاتا ۔

" اےریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افس��وس ک��و پ��ودینہ اور س��ونف اور زی��رہ پ��ر ت��ودہ یک� دیتے ہو تم نے شریعت ک� زیادہ بھاری باتو ں یعن� انصاف اور رحم اور ایم��ان ک��و چھ��وڑ دی��ا۔ لازم تھ��اکہ یہ بھ� ک��رتے اور وہ بھ� نہ چھ��وڑتے ۔ اے ان��دھو راہ بت��انے وال��و ج��و مچھ��ر ک��و ت��و

(۔۲۴تا ۲۳آایت ۲۳) انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع چھانتے ہو اور اونٹ کو نگ جاتے ہو۔"

اا فریس� اپنے مذہب ک� چھوٹ� چھوٹ� باتوں پر بڑی سخت� س�ے عم� ک�رتے تھے۔ مثل کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا یا دعا کرنا ، مگر سماج� انصاف کو نظرانداز ک��رتے تھے ۔ان اعتم��اد� کے دل��وں میں غرب��اء کے ل��ئے ہم��دردی نہیں تھ� اور نہ لین دین اور وع��دہ وعی��د میں قاب�آاپ نے ان کے اس رویے ک� م��ذمت فرم��ائ� کہ وہ ع��وام کے س��امنے ت��و انبی��ائے آاخ��ر میں تھے۔ ی� اور حضرت داؤد ک� بڑی ع��زت ک��رتے ہیں لیکن اپ��نے اا حضرت ابراہیم، حضرت موس سلف مثل

زمانہ ک� انبیاء کو قت کرتے ہیں۔ "اے ریاک��ار فقہی��و اور فریس��یو تم پ��ر افس��وس ! کہ ن��بیوں ک� ق��بریں بن��اتے اورراس��تبازوںآاراستہ کرتے ہو۔ او رکہتے ہ��و کہ اگ��ر ہم اپ��نے ب��اپ دادا کے زم��انہ میں ہ��وتے ت��و ن��بیوں کےمقبرے کے خون میں ان کے شریک نہ ہوتے۔ اس ط�رح تم اپ�ن� نس�بت گ�واہ� دی�تے ہ��و کہ تم ن�بیوں ک� قاتلوں کے فرزند ہو۔ غ��رض اپ�نے ب�اپ دادا ک��ا پیم�انہ بھ��ردو۔ اے س��انپو! اے افع� کے بچ�و! تم جہنم ک� سزا سے کیونکر بچوگے ؟ اس لئے دیکھو میں نبیوں اور داناؤں اور فقیہوں کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں ۔ ان میں س�ے تم بعض ک�و قت�� ک��روگے اور ص�لیب پ��ر چڑھ��اؤگے اور بعض ک��و اپنے عبادتخانوں میں کوڑے ماروگے اور شہر بشہر ستاتے پھروگے ۔ تاکہ سب راستبازوں کا خ��ون

آائے (۔۳۵تا ۲۹آایت ۲۳۔") انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع جو زمین پر بہایا گیا تم پر

آانکھوں کے سامنے پھر عدالت کا منظر پھر گیا۔جس ی المسیح ک� حضور سیدناعیس�آاپ اس بات سے کا نتیجہ چالیس سال بعد یروشلیم اور اس کے باشندوں ک� ہولناک تباہ� تھ�۔ آاپ کے چن��د حواری�وں ک�و قت�� ک�رنے ک� ٹھ��ان چکے آاپ ک�و اور آاگ�اہ تھے کہ وہ بھ� بخوب�

آاپ نے بڑے دردوکرd کے ساتھ فرمایا: ہیں۔ پس

" اے یروشلیم! اے یروشلیم! توجو نبیوں کو قت کرت� اورجو تیرے پ�اس بھیجے گ�ئے ان کوسنگسار کرت� ہے ! کتن� بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغ� اپنے بچوں کو پروں تلوں جمع کرلیت� ہے اس� طرح میں بھ� تیرے لڑکوں کو جمع کرلوں مگر تم نے چاہا ! دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑ جاتا ہے ۔ کیونکہ میں تم سے کہتاہوں کہ اd سے مجھے ہ��ر گ��ز

آاتاہے۔" )انجی�� ش��ریف بہنہ دیکھوگے جب تک نہ کہوگے کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے

(۔۳۹تا ۳۷تا ۲۳مطابق حضرت مت� رکوع

ہدیہی المسیح ہیک کے خ��زانہ کے س��امنے ج��ا ک��ر بیٹھ گ��ئے اور اس پر حضور سیدناعیس�

عوام کو بیت المال میں اپنا ہدیہ ڈالتے ہوئے ملاحظہ فرمانے لگے ۔آانکھ اٹھاکر ان دولتمندوں کو دیکھا جو اپن� نذروں کے روپے ہیک�� کے "پھر اس نے خزانہ میں ڈال رہے تھے۔ اور ایک کنگال بیوہ کو بھ� اس میں دو دمڑیاں ڈالتے دیکھ��ا۔ اس پ��ر اس نے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس کنگال بی��وہ نے س��ب س��ے زی��ادہ ڈالا۔ کی��ونکہ ان سب نے تو اپنے م�ال ک� بہت��ات س��ے ن�ذر ک��ا چن��دہ ڈالا مگ�ر اس نے اپ��ن� ن�اداری ک� ح��الت

آایت۲۱)انجی� ش��ریف بہ مط��ابق لوق��ا حض��رت لوق��ا رک��وع میں جتن� روزی اس کے پاس تھ� سب ڈال دی۔"

(۔۴تا ۱

بعض دولتمند مذہب� عم��ارتوں کے ل��ئے پیس��ہ دی��تے ہیں اور وہ عم��ارتیں ان کے ن��ام س��ےی� ک� نظ��ر میں روپیہ ات��ن� اہمیت نہیں رکھت��ا ہے آانحضور کا ارشاد ہے کہ خ��دا تع��ال کہلات� ہیں۔ جتن� کہ نیک نیت� ۔ خدائے علیم جانتا ہے کہ ہ��دیہ گ��ذار کت�ن� خ�ود انک�اری اور اپ�نے م�ال میں

سے کس تناسب سےہدیہ دیتا ہے۔

حق کے متلاش�آاپ کے ارش��ادات ک� آاپ ک� نہ سنتے تھے تاہم ایسے لوگ تھے ج��و گو پیشوائے دین

گہری بھوک پیاس رکھتے تھے۔ چنانچہ ان کے بارے میں انجی شریف میں ارشاد ہے:

آائے تھے ان میں بعض یون��ان� تھے ۔ پس انہ��وں نے " جو لوگ عی��د میں پرس��تش ک��رنے آاک��ر اس سےدرخواس��ت ک� کہ جن��اd ہم یس��وع �ی گلی�� کاتھ��ا فلپس کے پ��اس ج��و بیت ص��یداآاک��ر آاک��ر ان��دریاس س��ے کہ��ا ۔ پھران��دریاس اورفلپس نے ی�( کودیکھن��ا چ��اہتے ہیں۔ فلپس نے )عیس��

ی�( کو خبردی (۔۲۲تا ۲۰آایت ۱۲۔")انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع یسوع )عیس

یہ یونان� خدائے واحد برح�ق پ�ر ایم�ان رکھ�تے تھے۔انہ�وں نے یون�ان� دی�وی دیوت�اؤں ک� پرس�تش ت�رک ک�ردی تھ�۔ ان ح��ق کے متلاش��یوں کے دل میں خ��دائے برت��ر کے ل��ئے گہ��ری لگنآاپ تھ�۔انہوں نے حضور المسیح ک� پر اسرار شخصیت کے متعلق سن رکھا تھا۔ چن��انچہ وہ آاپ نے انہیں اور اپنے حلقہ بگوش سامعین ک��و اپ��ن� ق��ریب الوق��وع سے ملنے کے مشتاق ہوئے ۔ آاپ نے گیہ��وں کے دانے ک� ع��ام فہم تمثی�� ک��ا اپ��ن� رحلت پ��ر وف��ات کے ب��ارے میں بتای��ا۔

اطلاق کرتے ہوئے فرمایا:آادم جلال پ��ائے ۔میں تم س��ے س��چ س��چ کہت��اہوں کہ جب ت��ک � آاگی��ا کہ ابن " وقت گیہوں کادانہ زمین میں گر کر مر نہیں جاتا اکیلا رہتا ہے۔ لیکن جب مرجاتا ہے ت��و بہت س��اپھ لاتا ہے۔ جو اپن� جان عزیز رکھتا ہے وہ اسے کھودیتا ہے اور جو دنیا میں اپن� جان سے ع��داوت رکھت��ا ہے وہ اس��ے ہمیش��ہ ک� زن��دگ� کے ل��ئے محف��وظ رکھے گ��ا۔ اگ��ر ک��وئ� ش��خص م��یری خدمت کرے تو م��یرے پیچھے ہ��ولے اور جہ��اں میں ہ��وں وہ��اں م��یرا خ��ادم بھ� ہوگ��ا۔ اگ��ر ک��وئ�

آایت۱۲) انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت یوحن��ا رک��وع میری خدمت کرے تو باپ اس ک� عزت کرے گا"

(۔۲۶تا ۲۳

جب گیہوں کا دانہ زمین میں پڑکر مرجات��ا ہے ت��و اس میں س��ے ای��ک نی��ا پ��ودا نکلت��ا ہےی المس��یح ک� � حیات حضور سیدنا عیس� جس میں بہت سے دانے لگتے ہیں۔ اس� طرح منبع موت کے وسیلہ سے ایمان لانے وال��وں ک� ای��ک ب��ڑی فص� تی��ار ہ��ونے ک��و تھ�۔ خ�ود انک��اری اور

آاج تک عائد ہے۔ آاپ کے ہر پیروکار پر ایثار کے اس اصول کا اطلاق

اپن� قریب الوقوع وفات سے متعلق ارشادات

آاپ نے فرمایا: اپن� رحلت کے متعلق سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے " اd میری جان گھ��برات� ہے ۔ پس میں کی�ا کہ�وں؟ اے ب�اپ مجھے اس گھ�ڑی س�ےبچا لیکن میں اس� سبب سے تو اس گھڑی کو پہنچا ہوں۔ اے باپ ! اپنے نام کو جلا ل دے۔

آائ� کہ میں نے اس کو جلال دیا ہے اور پھر بھ� دوں گا۔ آاواز آاسمان سے پس جو لوگ کھڑے سن رہے تھے ، انہوں نے کہا کہ بادل گرجا۔ اوروں نے کہ��ا کہ فرش��تہ

اس سے ہم کلام ہوا۔آائ� آاواز میرے ل��ئے نہیں بلکہ تمہ��ارے ل��ئے ی�( نے جواd میں کہا کہ یہ یسوع )عیس ہے۔اd دنیا ک� عدالت ک� جات� ہے۔ اd دنیا کا سردار نکال دی�ا ج�ائے گ�ا۔ اور میں اگ�ر زمین سے اونچے پر چڑھایا جاؤں گا تو سب کو اپنے پ��اس کھینچ��وں گ��ا ،اس نے اس ب��ات س��ے اش��ارہ

(۔۳۳تا ۲۷آایت ۱۲) دیکھئے انجی شریف بہ مطابق یوحنا رکوع کیاکہ میں کس موت سے مرنے کو ہوں"

ی المسیح اپن� اذیت ناک صلیب� آاگ��اہ تھے۔*1حضور سیدنا عیس� موت س��ے بخ��وب� آائیں گے ۔ آاپ کے پاس کھینچے چلے آاپ ک� جان نثاری کے نتیجہ میں ہر قوم ونس کے لوگ آاپ ک� بے مثال قربان� آاپ کے نہایت شکرگزار ہوں گے کہ وہ محبت ک� اس انتہا کے لئے �ہ راس�ت ی� نے اس قرب�ان� ک� ب�را � گناہ نص��یب ہ��وگ�۔ خ�دا تع��ال پر ایمان لانے سے انہیں مغفرت� مبارک ک� اہمیت کو سمجھنے سے آاپ کے ارشادات آاواز سے تصدیق ک� لیکن عوام آاسمان�

قاصر رہے ،۔لہذا انہوں نے کہا " ہم نے شریعت ک� یہ بات سن� ہے کہ مسیح ابد تک رہیگا۔ پھر توکیونکر کہتا ہے

آادم کون ہے ؟" �ن آادم کا اونچے پر چڑھایا جانا ضرور ہے ؟ یہ اب کہ ابن ی�( نے ان سے کہا کہ اور تھ��وڑی دی�ر ت�ک ن�ور تمہ��ارے درمی��ان ہے۔ "پس یسوع )عیسآاپک�ڑے اور ج�و ت�اریک� جب تک نور تمہارے ساتھ ہے چلے چلو۔ ایسا نہ ہ�و کہ ت�اریک� تمہیں میں چلتا ہے وہ نہیں جانتا کہ کدھر جاتا ہے ۔ جب تک نور تمہارے س�اتھ ہے ن�ور پ�ر ایم�ان لاؤ

(۔۳۶تا ۳۴آایت ۱۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع تاکہ نور کے فرزند بنو۔"

ایک چشم دید گواہ ک� حیثیت سے حضرت یوحنا نے فرمایا : "اگر چہ اس نے ان کے سامنے اتنے معجزے دکھائے تو بھ� وہ اس پ��ر ایم��ان نہ لائے

تاکہ یسعیاہ نب� کا کلام پورا ہو جو اس نے کہا کہ " اے خداوند ہمارے پیغام کا کس نے یقین کیا ہے؟

ت��ا۳۷آایت ۱۲)انجی شریف بہ مط��ابق حض��رت یوحن��ا رک��وع اور خداوند کاہاتھ کس پر ظاہر ہوا ہے؟"

(۔۳۸

ی� المس��یح کے ب��ارے میں یہ ب��اتیں اس بن��ا پ��ر حض��رت یس��عیاہ نے حض��ور س��یدنا عیس��آانحضور ک� تجل� دیکھ� تھ�۔ کہیں کہ انہوں نے نب� ک� حیثیت سے

آائے تھے۔ لیکن وہ آاپ پ��ر ایم��ان لے یہ��ودی حک��ام میں س��ے بھ� بہت س��ے حض��رات اپنے ایمان کا علانیہ اظہار کرنے سے ڈرتے تھے کہ مبادا فریس�� انہیں عب��ادت خ�انہ س�ے خ��ارج

کردیں۔وہ خدا ک� نسبت انسان ک� خوشنودی کے زیادہ خواہاں تھے۔آاواز سے پکار کر فرمایا: ی المسیح نے بلند بعد ازاں کلمتہ الله حضور سیدنا عیس�

" جو مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ مجھ پر نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے پر ایمان لاتا ہےآایا ہوں۔ ۔ اورجو مجھے دیکھتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو دیکھتا ہے۔ میں نور ہوکر دنیا میں

") انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت یوحن��ا رک��وعت��اکہ جوک��وئ� مجھ پ��ر ایم��ان لائے ان��دھیرے میں نہ رہے

(۔۴۶تا ۴۴آایت ۱۲

آاپ کے ارشادات �د ثان� اور دنیا کے خاتمہ کے بارے میں آام اپن� � زیت��ون ک� ط��رف تش��ریف ہیک اور بھیڑ کو چھوڑ کر حضور المسیح مع ح��وارئین ک�وہاا ش�ام ک�ا وقت آاپ قائدین دین سے بحث ومباحثہ کرکرکے تھک گ�ئے ہ��وں گے تقریب� لے گئے ۔

آاپ سے دریافت کیا: تھا کہ حواریوں نے آاخر ہونے کا نشان کیا ہوگا"؟ آانے اور دنیا کے "ہم کو بتاکہ ۔۔۔۔۔ تیرے

آام�د ث��ان� س��ے عین پیش��تر آاپ ک� آاپ نے ج�واd میں ان واقع��ات ک��ا ذک�ر فرمای�ا ج��و ظہور پذیر ہوں گے :

آائیں گے اور "خبردار ! کوئ� تم کو گمراہ نہ کردے ۔ کیونکہ بہتیرے میرے نام سے کہیں گے میں مس�یح ہ��وں اور بہت س��ے لوگ��وں ک��و گم��راہ ک�ریں گے ۔ اور تم لڑائی��اں اور لڑائي�وں ک� افواہ سنوگے ۔ خبردار ! گھبرا نہ جانا ! کی��ونکہ ان ب�اتوں ک��ا واق��ع ہون��ا ض��رور ہے لیکن اس وقت خاتمہ نہ ہوگا۔ کیونکہ قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائ� کرے گ� اور جگہ جگہآائیں گے ۔ لیکن یہ سب باتیں مصیبتوں ک��ا ش��روع ہ� ہ��وں گ�۔ اس کال پڑیں گے اور بھونچال وقت لوگ تم کو ایذا دینے کے لئے پکڑوائیں گے اور تم ک�و قت� ک�ریں گے اور م�یرے ن�ام ک� خاطر سب ق��ومیں تم س�ے ع��داوت رکھیں گ�۔اور اس وقت بہت��یرے ٹھ��وکر کھ��ائیں گے اورای��ک دوسرے کو پکڑوائیں گے اور ایک دوسرے س��ے ع��داوت رکھیں گے ۔ اور بہت س��ے جھ��وٹے ن��ب� اٹھ کھڑے ہوں گے اور بہتیروں کو گمراہ کریں گے ۔ اوربے دی�ن� کے ب�ڑھ ج�انے س�ے بہت�یروںآاخر ت�ک برداش�ت ک��رے گ�ا وہ نج��ات پ�ائے گ�ا۔ اور ک� محبت ٹھنڈی پڑجائے گ�۔ مگرجو بادشاہ� ک� اس خوشخبری ک� منادی تمام دنی��ا میں ہ��وگ� ت�اکہ س��ب قوم��وں کے ل��ئے گ��واہ�

(۔۱۴تا ۳آایت ۲۴)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع ہو۔ تب خاتمہ ہوگا"

آاوری کے عین آاپ ک� دوب�ارہ تش�ریف آاخ�ر میں � حشر نے مزید فرمایا کہ دنیا کے شفیعپہلے دنیا کے حالات نہایت المناک ہوں گے ۔

"کیونکہ اس وقت ایس� بڑی مصیبت ہوگ� کہ دنیا کے شروع سے نہ اd تک ہوئ� نہ کبھ� ہوگ�۔ اور اگر وہ دن گھٹائے نہ جاتے تو کوئ� بشر نہ بچتا ۔ مگر برگزیدوں ک� خ��اطر دن

(۔۲۲تا ۲۱آایت ۲۴)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع گھٹائے جائیں گے۔"

ی� المس�یح �رحاضرہ میں ہ� ہمیں تھ��وڑا س�ا ان��دازه ہ��ونے لگ�ا ہےکہ حض�ور س�یدنا عیس� دو ک� اس پیشین گوئ� سے کیا مراد ہے۔ جدید جنگ��وں میں ہائ��ڈروجن اورک��و ب��الٹ بم��وں س��ے اس کرہ ارض کو اس حد تک تباہ وبرباد کیا جاسکتا ہے کہ ک��وئ� متنفس زن��دہ نہیں رہ س��کتا ۔ اس

ی� کے مق��ررہ اص��ولات اور ش��ریعت س��ے روگ��ردان� توس��یع پیم��انہ پرپھی�� زمین پرب��دی اور خ��دا تع��الی� ک�و قطع� نظران�داز کردی�ا جات�ا ہے ۔ �م ع��الم کے بحث ومب�احثہ میں خ��دا تع�ال چک� ہے۔ اق��وا متعدد لوگ اپنا ایمان گنواکر دہریہ اور مادہ پرست بن گئے ہیں۔مزید ب��رایں اس زم��انہ میں انجی��آاخ��رت اک��ثرلوگوں کے جلی ک� خوشخبری تم��ام اق��وام میں پھی�� چک� ہے۔ عین ممکن ہے کہ

وہم وقیاس سے بھ� زیادہ قریب تر ہو۔

�د ثان� غیر متوقع ہوگ� آام آاپ ک� آاگاہ فرمایا کہ � دو عالم نے مزید مختار

آاس��مان کے فرش��تے نہ بیٹ��ا " اس دن اور اس گھ��ڑی ک� ب��ابت ک��وئ� نہیں جانت��ا ۔ نہ آانے کے وقت ہوگ�ا۔ کی�ونکہ آادم کے � مگر صرف باپ ۔ جیسا نوح کے دنوں میں ہوا ویسا ہ� ابن جس طرح طوفان سے پہلے کےدنوں میں لوگ کھاتے پیتے اوربیاہ شادی کرتے تھے اس دن تکآاکر ان س�ب ک�و بہ��انہ لے گی��ا ان ک�و خ�بر نہ کہ نوح کشت� میں داخ ہوا۔ اور جب تک طوفان آادم� کھیت میں ہ��وں گے ای��ک لے لی��ا آان��ا ہوگ��ا۔ اس وقت دو آادم ک��ا �ن ہ��وئ�۔ اس��� ط��رح اب جائے گااور دوسرا چھوڑ دیا جائے گا۔دو عورتیں چک� پیس��ت� ہ��وں گ�۔ ای��ک لے ل� ج��ائے گ� اور دوسری چھ��وڑ دی ج��ائے گ�۔ پس ج�اگتے رہ��و کی��ونکہ تم نہیں ج�انتے کہ تمہ��ارا خداون��دآائے گ�ا۔لیکن یہ ج�ان رکھ��و کہ اگ�ر گھ��ر کے مال��ک ک�و معل�وم ہوت�ا کہ چ�ور رات کے کس دن آائے گا توجاگتا رہتا اور اپنے گھر میں نقب نہ لگانے دیتا۔ اس ل�ئے تم بھ� تی�ار ہ�وکر کونسے پہر

آاجائے گا۔" آادم � ) انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رتکیونکہ جس گھڑی تم کو گمان بھ� نہ ہو ہوگا ابن

(۔۴۴تا ۳۶آایت ۲۴مت� رکوع

آاپکے جملہ پیروک��اروں ک��و ہوش��یار وبی��دار حضور سیدناعیس� المس��یح کے یہ ارش��ادات آام��د کے ل��ئے ہ��ر وقت آاپ ک� اس زمین پ��ر اچان��ک دوب��ارہ رہنے ک� تلقین کرتے ہیں ۔ تاکہ وہ

آاپ نے اس� امر کو ایک اور تمثی سے یوں واضح فرمایا ہے۔ تیار ہیں۔

کنواریوں ک� تمثی

آاسمان ک� بادشاہ� ان دس کنواریوں ک� مانند ہوگ� جو اپ��ن� مش��علیں لے " اس وقت کر دلہا کے اس�تقبال ک�و نکلیں۔ ان میں پ�انچ بیوق�وف اور پ�انچ عقلمن�د تھیں۔ج�و بیوق�وف تھیں انہوں نے اپن� مشعلیں تو لے لیں مگر تی اپنے ساتھ نہ لیا۔ مگر عقلمندوں نے اپ�ن� مش�علوں کے ساتھ اپ�ن� ک�پیوں میں تی� بھ� لے لی�ا۔ اورجب دلہ��ا نے دی�ر لگ�ائ� ت�و س�ب اونگھ�نے لگیں اورآاگی��ا ! اس کے اس��تقبال ک��و نکل��و۔ اس وقت آادھ� رات کو دھوم مچ� ک� دیکھو دلہا سوگئیں۔ وہ سب کنواریاں اٹھ کر اپ��ن� اپ��ن� مش��ع درس��ت ک��رنے لگیں۔ اوربیوقوف��وں نے عقلمن��دوں س��ے کہ��ا اپ�نے تی�� میں س�ے کچھ ہم ک�و بھ� دے دو کی��ونکہ ہم�اری مش�علیں بجھ� ج�ات� ہیں۔ عقلمندوں نے ج�واd دی�اکہ ش�اید ہم�ارے تمہ�ارے دون��وں کے ل��ئے ک�اف� نہ ہ��و۔ بہ�تر یہ ہے کہ بیچ��نے وال��وں کے پ��اس ج��اکر اپ��نے واس��طے م��ول لے ل��و۔ جب وہ م��ول لی��نے ج��اری تھیں ت��ود لہ��ا آاپہنچ��ا اور جوتی��ار تھیں وہ اس کے س��اتھ ش��ادی کے جش��ن میں ان��در چل� گ��ئیں اور دروازہ بن��دآائیں او رکہ��نے لگیں اےخداون��د! اے خداون��د! ہم��ارے ل��ئے ہوگی��ا۔ پھ��ر وہ ب��اق� کنواری��اں بھ� دروازه کھ��ول دے۔ اس نے ج��واd میں کہ��ا میں تم س��ے س��چ کہت��اہوں کہ میں تم ک��و نہیں

)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابقجانتا۔ پس جاگتے رہوکیونکہ تم نہ اس دن کو جانتے ہ��و نہ اس گھ��ڑی ک��و"

(۔۱۳تا ۱آایت ۲۵حضرت مت� رکوع

ی المس�یح اپ��نے بہت سے مومنین اس ب�ات پرایم��ان رکھ��تے ہیں کہ حض��ور س�یدنا عیس��� وعدہ کے مطابق دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔وہ دس کنواریاں بھ� جانت� تھیں کہ دلہاآائیں گے مگر پوری تیاری صرف پانچ کنواری��وں نے ک� ۔ انہ��وں نے اپ��ن� مش��علوں اور برات� ضرور کے لئے تی بھ� ساتھ لے لیا اس لئے ضیافت میں ش�ام بھ� وہ� ہوس�کیں۔ وہ پ�انچ بے وق�وف

جنہوں نے تیاری نہیں ک� تھ� باہرہ� رہ گئیں۔

توڑوں ک� تمثی

آادم� ک��ا س��ا ح��ال ہے جس نے پ��ردیس ج��اتے وقت اپ��نے گھ��ر کے ن��وکروں " یہ اس دی��ئے۔دوس��رے ک��و دو اور تیس��رے*1کوبلاکر اپنا مال ان کے سپرد کیا۔اور ایک ک�و پ�انچ ت�وڑے

کو ایک یعن� ہر ایک کو اس ک� لیاقت کے مطابق دیا اور پردیس چلا گیا۔ جس کو پانچ ت��وڑےاا جاکر ان سے لین دین کی�ا اور پ�انچ ت�وڑے اور پی�دا کرل�ئے ۔ اس�� ط�رح ملے تھے اس نے فور جس��ے دو ملے تھے اس نے بھ� دو اور کم��ائے۔مگ��ر جس ک��و ای��ک ملا تھ��ا اس نے ج��اکر زمینآای��ا اور ان س��ے کھودی اور اپنے مالک کا روپیہ چھپادیا۔ بڑی مدت کے بعد ان نوکروں کاما ل��ک آای��ا اور کہ��ا اے خداون��د! حساd لینےگا۔ جس کو پانچ توڑے ملے تھے وہ پ��انچ ت��وڑے لے ک��ر تونے پانچ توڑے مجھے سپرد کئے تھے۔دیکھ میں نے پ��انچ ت��وڑے اور کم��ائے ۔ اس کے مال��ک نے اس سے کہا اے اچھے اور دیانتدار نوکر ش�اباش ! ت�و تھ��وڑے میں دیانت�دار رہ��ا۔ میں تجھے بہت چیزوں کا مختار بناؤں گا۔ اپ��نے مال��ک ک� خوش��� میں ش��ریک ہ��وا۔ اور جس ک��و دو ت��وڑےآاکر کہا اے خداوند تونے دو ت��وڑے مجھے س��پرد ک��ئے تھے۔ دیکھ ملے تھے اس نے بھ� پاس میں نے دو ت��وڑے اور کم��ائے ۔ اس کے مال��ک نے اس س��ے کہ��ا اے اچھے اور دیانت��دار ن��وکر شاباش ! تو تھوڑے میں دیانتدار رہا۔ میں تجھے بہت چیزوں کا مختار بناؤں گا۔ اپنے مال��ک ک�آاکر کہنے لگا اے خداوند میں خوش� میں شریک ہو۔ اور جس کو ایک توڑا ملا تھا وہ بھ� پاس آادم� ہے اور جہاں نہیں بویا وہا ں س��ے کاٹت��ا ہے اور جہ��اں نہیں تجھے جانتا تھا کہ تو سخت بکھیرا وہاں سے جمع کرتا ہے۔ پس میں ڈرا اورجاکر تیرا ت��وڑا زمین میں چھپادی��ا ۔ دیکھ ج��و ت��یرا ہے وہ موجو دہے۔ اس کے مالک نے جواd میں اس سے کہ��ا اے ش��ریر اور سس��ت ن��وکر ! ت��و جانتا تھا کہ جہاں میں نے نہیں بوی�ا وہ�اں س�ے کاٹت�ا ہ�وں۔ اور جہ�اں میں نے نہیں بکھ�یرا وہ�اںآاک�ر اپن�ا م�ال سے جمع کرتا ہوں۔ پس تجھے لازم تھا کہ میرا روپیہ سا ہوک�اروں ک�و دیت�ا ت�و میں س��ود س��میت لے لیت��ا۔ پس اس س��ے وہ ت��وڑا لےل��و اور جس کے پ��اس دس ت��وڑے ہیں اس��ےدیدو۔ کیونکہ جس کس� کے پاس ہے اسے دیا جائے گا اور اس کے پاس زی�ادہ ہوجائيگ�ا۔ مگ�ر جس کے پاس نہیں ہے اس سے وہ بھ� جو اس کے پ�اس ہے لے لی��ا ج��ائے گ��ا۔ اور اس نکمے ن�وکر

")انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوعکو باہر اندھیرے میں ڈال دو۔ وہاں رونا اوردانت پیسناہوگا۔

(۔۳۰تا ۱۴آایت ۲۵

� �ل تعلیم کے ل��ئے بہت س��ا روپیہ پیس��ہ خ��رچ ک��رتے ہیں۔ لیکن حاص�� اک��ثر ل��وگ حص��وی المسیح ک� تعلیمات کے مطابق اپ��نے ہم � انسانیت حضور سیدنا عیس� شدہ علم کو محسن جنسوں ک� بہتری کے لئے استعمال نہیں کرتے ۔ بعض ڈاک�ٹری ی�ا نرس�نگ ک� ت�ربیت حاص� کرکے دیہاتوں میں جہاں ان ک� زیارت ضرورت ہے کام کرنے سے انک��ار ک��رتے ہیں۔ بعض کے پاس زراعت وحرفت ک� اہلیت ہے لیکن وہ بھ� اپنے ذات� نفع کے لئے ۔ اس تمثی�� ک��ا س��بقی� ک� راہ میں خرچ ک� جائے ق��دروقیمت رکھ��ت� ہے، واضح ہے۔ صرف وہ� کچھ جو خدا تعالآاخ�رت دکھ��انے کے ل�ئے کچھ �ز اور اس�� ک�ا اع��تراف بھ� کی��ا ج�ائے گ�ا۔ لیکن جن کے پ�اس روی� کے ل�ئے ی�اپھر محض نہیں ہوگا، وہ نقصان اٹھائیں گے ۔ انس�ان اپ��ن� زن�دگ� ی�ا ت�و خ�دا تع��ال

اپنے لئے بسر کرسکتا ہے۔اا بیس ہزار روپے کا برابر ہے۔*1 ایک توڑا تقریب

� عالم ک� عدالت اقوامی� المس��یح ک��رہ ارض پردوب��ارہ � محش��ر حض��ور س��یدنا عیس�� مس��تقب ق��ریب میں منص��ف� زیت�ون ک� پ�ر امن فض�ا میں ی�وں آاپ نے اپنے حواریوں ک�و ک�وہ تشریف لائينگے ۔اس کے متعلق

فرمایا:آائيں گے تب وہ آائے گا اور سب فرشتے اس کے س��اتھ آادم اپنے جلال میں � " جب ابن اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا۔اور س��ب ق��ومیں اس کے س��امنے جم��ع ک� ج��ائیں گ� اور وہ ایک دوسرے سے جدا کرے گا جیسے چرواہا بھیڑوں ک�و بکری��وں س��ے ج��دا کرت�ا ہے۔ اور بھ��یڑوں کو اپنے دہنے اور بکریوں کو بائیں کھڑے کرے گا۔ اس وقت بادشاہ اپنے دہ��نے ط��رف وال��وں س��ے�ی عالم سے تمہارے لئے تی��ار ک� گ��ئ� � بنا آاؤ میرے باپ کے مبارک لوگو۔ جو بادشاہ� کہے گا ہے اسے میراث میں لو۔ کیونکہ میں بھوکا تھا۔ تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں پیاس��ا تھ��ا تم نے

مجھے پان� پلایا ۔ میں پردیس� تھا۔ تم نے مجھے اپنے گھ��ر میں ات��ارا ۔ ننگ��ا تھ��ا تم نے مجھےآائے ۔ تب راس�تباز کپڑا پہنای�ا ۔ بیم�ار تھ�ا۔ تم نے م�یری خ�بر ل� ۔ قی�د میں تھ��ا تم م�یرے پ�اس جواd میں اسے سے کہیں گے اے خداوند ! ہم نے کب تجھے بھوکا دیکھ ک��ر دکھان��ا کھلای��ا یا پیاسا دیکھ کرپان� پلایا؟ ہم نے کب تجھے پردیس��� دیکھ ک��ر گھ��ر میں ات��ارا؟ ی��ا ننگ��ا دیکھآائے ؟ بادشاہ ج��واd میں ان کر کپڑا پہنایا؟ ہم کب تجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس سے کہا گا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ چونکہ تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھ��ائيوں میں سے کس� ایک کے ساتھ یہ سلوک کیا اس ل��ئے م��یرے ہ� س��اتھ کی��ا۔پھ��ر وہ ب��ائیں ط��رف وال��وںآاگ میں چلے ج�اؤ ج��و ابلیس اور سے کہے گا اے ملعون�و ، م�یرے س�امنے س�ے اس ہمیش�ہ ک� اس کے فرش��توں کے ل��ئے تی��ار ک� گ��ئ� ہے۔ کی��ونکہ میں بھوک��ا تھ��ا ۔ تم نے مجھے کھان��ا نہ کھلایا۔ پیاسا تھا۔ تم نے مجھے پان� نہ پلای��ا۔ پ��ردیس تھ��ا تم نے مجھے گھ��ر میں نہ ات��ارا۔ ننگ��ا تھ��ا تم نے مجھے ک��پڑا نہ پہنای��ا۔ بیم��ار اور قی��د میں تھ��ا۔ تم نے م��یری خ��بر نہ ل�۔ تب وہ بھ� جواd میں کہیں گے اے خداوند! ہم نے کب تجھے بھوکا یا پیاسا پردیس� یاننگا یا بیم��ار ی��ا قید میں دیکھ کر تیر خدمت نہ ک� ؟ اس وقت وہ ان سے جواd میں کہے گا میں تم سے س��چ کہتا ہوں کہ چونکہ تم نے ان سب سے چھوٹوں میں سے کس� ایک کے ساتھ یہ س��لوک نہ کی��ا اس لئے میرے ساتھ نہ کیا۔ اور یہ ہمیشہ ک� س��زا پ��ائیں گے مگ��ر راس��تباز ہمیش��ہ ک� زن��دگ� "

(۔۴۶تا ۳۱آایت ۲۵)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� ، رکوع

� ع��دالت ی� المس��یح کے جلال� تخت � محشر حضور س��یدنا عیس�� � عالم کو قاض� تمامآاپ کے تعمی�� حکم کے ل��ئے حاض��ر ہ��وں کے سامنے کھڑا ہوناپڑے گا۔ لاکھوں لاکھ فرش��تے آاپ اقوام عالم کو دو گروہوں میں تقسیم ک��ریں گے۔ ای��ک ک��ا حص��ہ ہمیش��ہ ک� گے ۔اس وقت زندگ� اور دوسرے کا دائم� لعنت اور تباہ� ہوگا۔ اس تمثی سے واضح ہے کہ اپنے ہم جنس��وں سے رحم اور ہمدردی کے عمل� اقدام جو ہمارے دل� ایمان اور عقیدے کا اصل� اظہار ہیں۔

ہمارے ہمیشہ ک� ک� زندگ� کے لائق یا نا لائق ٹھہرنے کا موجب ہوں گے ۔

آائن��دہ چن��د دن�وں میں وق��وع میں لیکن حواریوں کو مستقب کے خواd سے جگ�ا ک��ر آانے والے حقائق ک� طرف متوجہ کرنا تھا چنانچہ

ی�( یہ سب باتیں ختم کرچکا تو ایسا ہواکہ اس نے اپنے ش��اگردوں " جب یسوع )عیسآادم مصلوd ہونے کو پکڑادی��ا � � فسح ہوگ� اور ابن سے کہا ۔تم جانتے ہو کہ دو دن کے بعد عید

(۔۲تا ۱آایت ۲۶)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع جائے گا"

� فس��ح ک� زور ش��ور س��ے تیاری��اں ک��ررہے ایک طرف تو یروشلیم اور ہیک میں عوام عید تھے۔ دوسری طرف سردار کاہنوں ، بزرگ��وں اور فقیہ��وں میں حض��ور المس��یح ک��و گرفت��ار ک��رنے کے

منصوبے بنائے جارہے تھے۔ " اس وقت سردار کاہن اور قوم کے بزرگ کائفا ن��ام س��ردار ک��اہن کے دی��وان خ��انہ میںی�( کو فریب سے پکڑ ک��ر قت�� ک��ریں۔ مگ��ر کہ��تے تھے جمع ہوئے ۔ اور مشورہ کیاکہ یسوع )عیس

آایت۲۶)انجی شریف بہ مطابق حضرت م��ت� رک��وع کہ عید میں نہیں ایسا نہ ہو کہ لوگوں میں بلواہوجائے ۔"

(۔۵تا ۳

� ع��الیہ اور فقیہ��وں اور فریس��یوں ک� ایس��ا معل��وم ہوت��ا ہے کہ ش��اید برح��ق اپ��ن� تعلیم��ات ریاکاری پر ان ک� علانیہ ملامت کرنے کے باعث ع��وا م میں نہ��ایت ہ��ر دلعزی�ز ہوگ��ئے تھے اس

آاپ کو ہلاک کرنے سے ڈرتے تھے۔ لئے پیشوائے دین

چوتھا دنبیت عنیاہ میں ضیافت

آاپ کے دوس��توں نے آاپ کے قت ک� ساز باز کے ب��رعکس سردار کاہن ک� نفرت اور آاپ اپ��نے حواری��وں کے ہم�راہ ش��معون ک�وڑھ� آاپ کو اعزاز میں ایک شام ضیافت کا اہتم�ام کی��ا۔آاپ نے اسے کوڑھ سے شفا بحش� تھ�( کے گھر میں تشرف فرما تھے۔ جب کھانا تن��اول اا )غالب�ر آاپ کے س�� آائ� ۔ اور فرمارہے توایک عورت سنگ مرمر کے عطردان میں بیش قیمت عط��ر لے ک��ر

مبارک پر انڈی دیا۔

حواریئن یہ دیکھ کر قدرے خفا ہوکر کہنے لگا۔" یہ کس لئے ضائع کیا گیا؟ یہ تو بڑے داموں کو بک کر غریبوں کو دیا جاسکتا تھا"

آاپ نے حوارئین کا عندیہ بھانپ کر فرمایا : " اس عورت ک�و کی�وں دق ک�رتے ہ��و؟ اس نے ت�و م�یرے س�اتھ بھلائ� ک� ہے۔ کی��ونکہ غریب غرباء تو ہمیشہ تمہارے پ�اس ہیں لیکن میں تمہ��ارے پ�اس ہمیش�ہ نہ رہ��وں گ�ا۔ اور اس نے جو یہ عطر میرے بدن پر ڈالا یہ میرے دفن ک� تیاری کے واسطے کیا۔ میں تم سے سچ کہت��ا ہوں کہ تمام دنیا میں جہاں کہیں اس خوشخبری ک� منادی ک� جائےگ� یہ بھ� جو اس نے

(۔۱۳تا ۶آایت ۲۶)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع کیا اس ک� یادگاری میں کہا جائے گا ۔"

چشم دید گواہوں میں سے حضرت یوحنا نے اس واقعہ پر مزید روشن� ڈالتے ہ��وئے فرمای��ا اسکریوت� نے کہا تھا کہ " یہ عطر تین سو دینار میں بیچ کر غریبوں کو کی��وں نہ دی��ا*1کہ یہوداہ

گیا؟" آاپ آام�یز الف��اظ اس وقت کہے تھے جب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہوداہ اسکریوت� نے یہ حق��ارت آاپ کے آاپ نے م�ردوں میں س�ے زن�دہ کی�ا تھ��ا کے گھ��ر کھان�ا کھ��ارہے تھے ۔ لع��زر لعزر جس��ے آاپ � حیات حضور المسیح گھر میں موج��ود ہیں ت��و ساتھ ہ� میز پر تھا۔ جب معلوم ہواکہ منبع کو اور لعزر کودیکھنے کے ل��ئے ای��ک مجم��ع اکھٹ��ا ہوگی��ا۔ لع��زر کے مرک��ر زن��دہ ہ��ونے ک��ا ای��کآاپ ہ� مس�یح موع�ود ہیں۔ یہ نتیجہ نہ نکلاتھا کہ بہت سے لوگ��وں ک�و یقین ہوت�ا جارہ��ا تھ��ا کہ

دیکھ کر سردارکاہن اور بھ� پریشان ہوئے ۔ "۔۔۔۔۔ س��ردار ک��اہنوں نے مش��ورہ کی��ا کہ لع��زر ک��و بھ� م��ار ڈالیں ۔ کی��ونکہ اس کے

ی�( پر ایمان لائے " )انجی شریف بہ مط��ابق حض��رتباعث بہت سے یہودی چلے گئے اور یسوع )عیس

(۔۱۱تا ۱۰آایت ۱۲یوحنا رکوع

آاپ کو بعد ازاں پکڑوادیا۔*۔1 ی� المسیح کا ایک حواری تھا جس نے غداری کرکے یہوداہ اسکریوت� حضور سیدنا عس

ددار یہوداہ اسکریوت� غ

یہ��وداہ اس��کریوت� ح�واریئن ک��ا خ��زانچ� تھ��ا۔ اس کے دل میں لالچ س��ماگیا اور وہ اک��ثر وبیش��تر خی��انت کرت��ا تھ��ا۔ حض��رت یوحن��ا نے یہ��وداہ ک� غرب��اء کے ب��ارے میں فک��ر من��دی کے

اظہار پر بتصرہ کرتے ہوئے فرمایا: " اس نے یہ اس لئے نہ کہا کہ اس کو غریبوں ک� فک��ر تھ� بلکہ اس ل��ئے کہ چورتھ��ا

")انجی��اور چونکہ اس کے پاس ان ک� ہتھیل� رہت� تھ� اس میں جوکچھ پڑت��ا وہ نک��ال لیت��ا تھا

(۔۶آایت ۱۲شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع

�ش ق��دم پ��ر چل��تے ہ��وئے خی��انت کے کت��نے ہ� خ��زانچ� ایس��ے ہیں ج��و یہ��وداہ کےنقمرتکب ہوئے ہیں۔ اس کے بعد یہوداہ کے بارے میں یوں مرقوم ہے:

" اور شیطان یہوداہ میں سمایا جو اسکریوت� کہلاتا اور ان بارہ میں ش��مار کی��ا جاتھ��ا۔ اس نے ج��اکر س��ردارکاہنوں اور س��پاہیوں کے س��رداروں س��ے مش��ورہ کی��اکہ اس ک��وکس ط��رح ان کے حوالہ کرے۔ وہ خوش ہوئے اوراسے روپے دینے کا اقرار کیا۔ اس نے مان لیا اور موقع ڈھونڈنے لگ��ا

(۔۶تا ۳آایت ۲۲")انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع کہ اسےبغیر ہنگامہ ان کے حوالہ کردے

ی� المسیح ک� گرفت��اری ک��ا مع��املہ آاخر ش چاندی کے تیس سکوں پرحضور سیدنا عیس� جلی میں اس کا ذکر یوں ہے: طے ہوگیا۔انجی

" اگر میں اس�ے تمہ��ارے ح�والہ ک�رادوں ت�و مجھے کی�ا دو گے ؟ انہ�وں نے اس�ے تیس ") انجی شریف بہروپے تول کردے دئيے۔ اوروہ اس وقت سے اس کے پکڑوانے کا موقع ڈھونڈنے لگا

(۔۱۶تا ۱۵آایت ۲۶مطابق حضرت مت� رکوع

ی المسیح ک� بڑھ��ت� ہ��وئ� ہ��ر دلعزی��زی س��ے �ل عوام حضور سیدنا عیس� سردار کاہن مقبوآاپ نے لع��زر ک��و زن��دہ کی��ا تھ��ا ، ت��و انہ��وں نے پریش��ان اور خ��ائف تھے ۔ چن��د م��اہ پیش��تر جب � پ�اک فریسیوں کے ساتھ م کر یہودی ع��دالت ع�الیہ میں بھ� س�از ب�از ک� جس کابی�ان کلام

میں یوں ہے:آادم� ت��و بہت معج��زے دکھات��ا ہے ۔ اگ��ر ہم اس��ے ی��وں ہ� " ہم ک��رتے کی��ا ہیں ؟یہ آاکر ہماری جگہ اور قوم دون��وں پرقبض��ہ ک��رلیں آائیں گے اورروم� چھوڑدیں تو سب اس پر ایمان لے

گے۔ اور ان میں سے کائفا نام ایک شخص نے جو اس س��ال س��ردار ک��اہن تھ��ا ان س��ے کہ��ا تمآادم� امت کے واسطے کچھ نہیں جانتے اور نہ سوچتے ہو کہ تمہارے لئے یہ� بہتر ہے کہ ایک مرے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو۔۔۔۔ پس وہ اس� روز سے اسے قت کرنے ک��ا مش��ورہ ک��رنے لگے

(۴۷،۵۰،۵۳آایت ۱۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنارکوع

آاپ کے قت کا فیصلہ چندماہ پیشتر لعزر کے زن��دہ ہ��ونے پ��ر کی��ا جاچک��ا تھ��ا۔ لیکن ان کے فیص���لے س���ے ع���دل وانص���اف ک���ا دور ک���ا بھ� تعل���ق نہیں تھ���ا بلکہ اس میں سیاس����آاپ کے دشمن اقتدار واختیار ک� گدیوں پر بدستور قابض رہیں۔ مصلحتیں کار فرما تھیں تاکہ آاپ ک��ا ہم انہوں نے اس سازش میں غدار یہوداہ کو بطور ہتھیار استعمال کیا جو سالہاسال سے

آاپ کو چاندی کے تیس سکوں میں بیچنے کے لئے تیار ہوگیا تھا۔ نوالہ وہم پیالہ تھا۔ اd وہ

�ح تدفین ی� المسیح کا مس حضور سیدنا عیس ای��ک نی��ک خ��اتون نے م��احول ک� کش��یدگ� اور اس خط��رہ ک��و بھ��انپ لی��ا تھ��ا ج��وآاپ کے سر پ��ر ان��ڈی دی��ا۔ آانحضور کودرپیش تھا۔ پس اس نے عطر دان لے کر بیش قیمت عطر

آاپ نے فرمایا: سارا گھر اس عطر ک� خوشبو سے مہک اٹھا۔ اس پر " اس نے ج���و یہ عط���ر م���یرے ب���دن پ���ر ڈلا یہ م���یرے دفن ک� تی���اری کے واس���طے

(۔۱۲آایت ۲۶)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع کیا"

ی� س��ے آاگاہ تھے کہ اس نیک خاتون کا قدم رضائے الہ �ر دو عالم اس بات سے مختاآاپ نے فرمایا: آاپ ک� موت کے ساتھ فیصلہ کن جنگ سے تعلق رکھتا تھا۔ پس تھا اور یہ

" میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تمام دنیا میں جہاں کہیں اس خوش�خبری ک� من��ادیآایت ک� جائے گ� یہ بھ� جو اس نے کیا اس کیا یادگاری میں کہا جائے گا" (۔۱۳)

پانچواں دن�د فسح ک� ضیافت عی

ہر یہودی گھر میں فسح ک� قربان� ک� تیاریاں زور وشور س�ے ہ��ورہ� تھیں۔ ہ��ر خان�دان برہ یا بکرا ذبح کرکے ش��ام کے وقت اس��ے ک��ڑوے س��اگ پ��ات اور بے خم��یری روٹ� کے س��اتھی� المس��یح ش�ور کھانے کھانے والا تھا۔ اس دن گھروں میں بڑا ہنگامہ برپاتھا۔ حضور س��یدنا عیس�� وشغب سے بچ کر کس� پر امن جگہ پر اپنے حواریئن کے ساتھ عید منانا چاہتے تھے۔ یہوداہآاپ سے دورہوں اور یوں کس� اسکریوت� بھ� ایسے ہ� موقع ک� تاک میں تھا۔ جب کہ عوام ی� المس��یح یہ��وداہ کے ق��بیح خی��الات ہنگ��امہ ی��ا بل��وہ ک��ا خدش��ہ نہ رہے ۔ حض��ور س��یدنا عیس��� ح�ال س�ے بے خ��بر تھے۔انہیں آاگاہ تھے لیکن ح�واری اس س�نگین ص�ورت اورمنصوبہ سے بخوب�

یہوداہ ک� سازش پر شک تک نہ گزرا ۔ آاک�ر کہ��ا ت��و کہ��اں*1" عید فطیر ی�( کے پاس کے پہلے دن شاگردوں نے یسوع )عیس

آایت۲۶)انجی شریف بہ مطابق حضرت م��ت� رک��وع چاہتا ہے کہ ہم تیرے لئے فسح کھانے ک� تیاری کریں؟

(۔ ۱۷

ی المس��یح ج�انتے تھے کہ یہ�وداہ ان ب�اتوں ک� ط��رف � اسرار حض�ور س��یدنا عیس�� محرماا س��ردار ک��اہنوں ک�و آاپ اس گھر کا پتہ ص��اف ص�اف بت��اتے ت��ووہ ف��ور کان لگائے بیٹھا ہے۔ اگر آاپ نے اپنے دو نہایت معتمدد حواری��وں ک��وبلا ک��ر فس��ح ک� ض��یافت ک��ا اہتم��ام خبر دیتا ۔ لہذا

انہیں سونپ دیا۔ اس سلسلے میں انجی نویس یوں رقمطراز ہے:ی�( نے پطرس اور یوحنا کو یہ کہہ کر بھیجا کہ جاکر ہمارے کھ��انے کے " یسوع )عیس لئے فسح تیار کرو۔انہوں نے اس سے کہا تو کہاں چاہت��ا ہے کہ ہم تی��ار ک��ریں؟ اس نے ان س��ےآادم� پان� کا گھڑا لئے ہوئے ملے گا۔ جس گھ��ر کہا دیکھو شہر میں داخ ہوتے ہ� تمہیں ایک میں وہ جائے اس کے پیچھے چلے جانا۔ اورگھر کے مال��ک س��ے کہن��ا کہ اس��تاد تجھ س��ے کہت��ا ہے کہ وہ مہمان خانہ کہا ں ہے جس میں اپنے شاگردوں کے ساتھ فسح کھاؤں؟ وہ تمہیں ایکآاراستہ کیا ہوا دکھائے گا ۔ وہیں تی��اری کرن��ا۔ انہ��وں نے ج��اکر جیس��ا اس نے ان س��ے بڑا بالا خانہ

(۔۱۳تا ۸آایت ۲۲) انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع کہا تھا ویسا ہ� پایا اور فسح تیار کیا۔"

� فطیر کو عید فسح بھ� کہتے ہیں ۔*1 عید

آاپ کے باق� حواری��وں ک��و اس جگہ ت��ک پہنچ��نے میں ی� المسیح اور حضور سیدنا عیسجہاں حضرت پطرس اور یوحنا نے ضیافت کا اہتمام کیا تھا مشک سے ایک گھنٹہ لگا۔

� یہ��ود کے س��ال بھ��ر کے تم��ام تہ��واروں میں یہ س��ب س��ے اہم تہ��وار تھ��ا۔ فس��ح امتآاگ پر بھن��ا ہ��وا ب��رہ اور کھانے ک� اس شام سے ان ک� بہت س� یادیں وابسطہ تھیں ۔ اس شام اا ڈی�ڑھ ہ��زار س��ال پیش�تر جب ق��وم یہ��ود مص��ر کے بت بے خمیری روٹ� کھائ� ج��ات� تھ�۔ تقریب��ی� نے انہیں مخلص�� دلانے کے ل��ئے اپ�نے خ��ادم پرست بادشاہ فرعون کے غلام تھے ت��و خ��دا تع��الی� کو بھیجا تھا۔ فرعون اپنے غلاموں کو ملک چھوڑنے ک� اج��ازت دی��نے کوتی��ار نہ حضرت موسی� نے اسے متنبہ فرمایاکہ اگ��ر ت��ونے م��یری امت ک��و ج��انے نہ دی��ا توی��اد آاخری دن حضرت موس تھا۔

رکھ اس� رات تیری علمداری کے ہر خاندان کا پہلوٹھا مرجائے گا۔"آاگ��اہ� ہ��وئ� کہ ہ��ر یہ��ودی گھ��ر ک� ی� ک� ط��رف س��ے ی� ک��و خ��دا تع��ال حض��رت موس��آاگ پ��ر بھ��ون ک��ر بے چ��وکھٹ پ��ر قرب��ان� کے ب��رے ک��ا خ��ون لگای��ا ج��ائے ۔ پھ��ر وہ اس ب��رہ ک��و خمیری روٹ� کے ساتھ گھر کے اندر کھائیں۔ اور جب رات کو موت کا فرشتہ نک کر مل��کی� کے فرمان کے مطابق پہلوٹھوں کو ہلاکر کرے تو یہ خون ا میں گشت کرے گا تو خدا تعال س ب��ات ک��ا نش��ان ہوگ��اکہ یہ��اں س��زا ک� تعمی�� ہ��وچک� ہے۔ وہ تم��ام اف��راد ج��و گھ��ر کے ان��در

موجود ہوں گے اس خون کے نشان کے باعث بچ جائیں گے ۔� می�� ک� حی��ثیت رکھت��ا �ت یہودیہ کے لئے مخلق� کے لئے س�نگ یہ عظیم واقعہ امآاغاز ہوا ۔ اس تاریخ� مخلص� ک� ی��اد میں تھا، جس سے ان ک� تاریخ میں ایک نئے زمانہ کا ی� المس��یح اس بالاخ�انہ میں اپ�نے ح��واریئن کے س��اتھ ض�یافت میں ش��ریک حضور س��یدنا عیس��آاس��مان� ب��اپ ک��ا ہوکر بھنا ہوا برہ اوربے خمیری روٹ� تناول فرمارہے تھے ۔ کھانے کے لئے اپنے

آاپ حوارئین سے یوں مخاطب ہوئے۔ شکر ادا کرنے کے بعد آاروز تھ� کہ دکھ سہنے سے پہلے یہ فسح تمہارے ساتھ کھاؤں کی��ونکہ " مجھے بڑی میں تم سے کہتا ہوں کہ اس��ے کبھ� نہ کھ��اؤں گ��ا جب ت��ک وہ خ��دا ک� بادش��اہ� میں پ��ورا نہ

آاپس میں بانٹ لو۔ کی��ونکہ میں ہو۔ پھر اس نے پیالہ لے کر شکر کیا اور کہا کہ اس کو لے کر تم س�ے کہت�ا ہ��وں کہ انگ�ور ک�ا ش�یرہ اd س�ے کبھ� نہ پی�وں گ�ا جب ت�ک خ�دا ک� بادش�اہ� نہ آالے ۔ پھر اس نے روٹ� ل� اورشکر کرکے ت��وڑی اور یہ کہہ ک��ر ان ک��ودی کہ یہ م��یرا ب��دن ہے ج��و تمہارے واسطے دیا جاتا ہے۔ میر ی یادگاری کے لئے یہ� کیا کرو۔ اور اس� ط��رح کھ��انے کے بعد پیالہ یہ کہہ کر دیا کہ یہ پیالہ میرے اس خ��ون میں نی��ا عہ��د ہے ج��و تمہ��ارے واس��طے بہای��ا

(۔۲۰تا ۱۵آایت ۲۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع جاتا ہے"

ی� المس�یح نے اپ�ن� ج��ان دے ک��ر خ��الق ومخل�وق کے �ر عالم حضور سیدنا عیس فدیہ کا درمیان ایک نیا عہد قائم کیا۔ اس عہد کے تحت جو بھ� حض��ور المس��یح پ��ر خل��وص دل س��ے� یہ��ود کے پہل��وٹھے آائے وہ خ��دا کے عض��ب س��ے محف��وظ رہے گ��ا۔جیس��ے کہ امت ایم��ان لے

آاہن� پنجے سے سلامت بچے ۔ دروازے پر خون کے نشان کے باعث ملک الموت کے � موعود آانے والے مسیح آاگاہ� ہوئ� تھ� کے ی� نب� ( کو حضرت یوحنا اصطباغ� ) یحیآاپ ہ� ک� ذات � ش��ریف ہے اور یہ کہ انبی��ائے س��لف ک� پیش��ین گويئ��وں ک� آاپ ہ� ک� ذاتآاپ ک�و دری�ائے ی�ردن کے مش�رق� بابرکات سے تکمی ہوگ�۔ جب حضرت یوحنا اص�طباغ� نے

آاپ ک� طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں فرمایا: کنارے پر تشریف فرما دیکھا تو انہوں نے "دیکھو یہ خدا کا برہ ہے جو دنی��ا ک��ا گن��اہ اٹھ��ائے لے جات��ا ہے ۔ یہ وہ� ہے جس ک�آاتا ہے جو مجھ سے مقدم ٹھہرا ہے کی��ونکہ وہ بابت میں نے کہا تھا کہ ایک شخص میرے بعد

(۔۳۰تا ۲۹آایت ۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع مجھ سے پہلے تھا"

ی المسیح ک� کفارہ بخش موت ہ� فسح ک� اص تکمی�� ہے ۔ حضور سیدنا عیس�آاپ کے پیروکار فسح کے کھانے کو عام طور پر " عشائے رب��ان� " کے ن��ام س��ے اس دن کے بعد پکارتے ہیں۔ بہت س��ے مس��یح� عش��ائے رب��ان� ، ہ��رہفتہ کے پہلے دن یع��ن� ات��وار ک��و من��اتے ہیں۔ بعض ہر روز اور دیگر خاص خاص مواقع پر ہ�۔مسیحیوں کے نزدیک یہ ان کے گناہوں ک� خ��اطر

آاپ ک� اس تلقین ک� تعمی ی� المسیح ک� وفات ک� اہم ترین یادگار ہے ۔ یہ حضور سیدنا عیسہے کہ " میری یادگاری کے لئے یہ� کیا کرو۔"

فروتن� کا سبقآاپ کے ب��ارہ ح��واری ابھ� کھ��انے کے ل��ئے ی المس��یح اور جب حض��ور س��یدنا عیس��� بیٹھے ہ� تھے تو حالات ک� نزاکت س��ے قط��ع نظ��ر حواری��وں میں بحث چھڑگ��ئ� کہ ہم میں

آاپ نے دلگیر ہوکر فرمایا: بڑا کون ہے۔ اس بشری کمزوری کو دیکھ کر �د غیر قوموں کے بادشاہ ان پر حکومت چلاتے ہیں اور جو ان پر اختیار رکھتے ہیں خداون نعمت کہلاتے ہیں ۔ مگر تم ایس��ے نہ ہون��ا بلکہ ج��و تم میں ب��ڑا ہے وہ چھ��وٹے ک� مانن��د اور ج��و

(۔۲۶تا ۲۴آایت ۲۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع سردار ہے وہ خدمت کرنے والے ک� مانند بنے "

اا یہ بحث اس وقت چھڑی جب یہ سوال پیدا ہوا کہ دستور کے مط��ابق ک��ون اٹھ غالبآاق��ا کر دوسروں کے ہاتھ پاؤں دھوئے ۔ جب حوارئین ہنوز بحث میں الجھے ہ��وئے تھے ت�و ان کے

�ت خود اٹھ کر نے بذا " کپڑے اتارے اور رومال لے کر اپن� کمر میں باندھا۔ اس کے بعد برتن میں پ��ان� ڈال کر شاگردوں کے پاؤں دھونے اور جو رومال کمر میں بن��دھا تھ��ا اس س��ے پونچھ��نے ش��روع ک��ئے ۔ پھر وہ شمعون پطرس تک پہنچا۔ اس نے اسے کہا ! اے خداوند!کیا تو میرے پ��اؤں دھوت��ا ہے ؟ی�( نے جواd میں اس سے کہا ج��و میں کرت�ا ہ��وں ت��و اd نہیں جانت��ا مگ�ر بع��د میں یسوع )عیس سمجھے گ�ا۔پط�رس نے اس س�ےکہا ت�و م�یرے پ�اؤں اب�دتک کبھ� دھ�ونے نہ پ�ائے گ�ا۔ یس�وعی�( نے اس��ے ج��واd دی��ا کہ اگ��ر میں تجھے نہ دھ��وؤں ت��و ت��و م��یرے س��اتھ ش��ریک نہیں۔ )عیس�� شمعون پطرس نے اس سے کہا اے خداوند! صرف میرے پاؤں ہ� نہیں بلکہ ہاتھ اور س��ر بھ�ی�( نے اس س�ے کہ��ا ج�و نہک�ا چک�ا ہے اس ک�و پ�اؤں کے س��وا اور کچھ دھودے ۔ یسوع )عیس دھ��ونے ک� ح��اجت نہیں بلکہ سراس��ر پ��اک ہے اور تم پ��اک ہ��و لیکن س��ب کے س��ب نہیں ۔

چونکہ وہ اپنے پکڑوانے والے کو جانتا تھا اس لئے اس نے کہا تم سب پاک نہیں ہو۔

پس جب وہ ان کے پاؤں دھوچکا اور اپنے کپڑے پہن کر پھر بیٹھ گی�ا ت�و ان س�ے کہ��ا کیا تم نہیں جانتے ہو کہ میں نے تمہارے ساتھ کی��ا کی��ا؟ تم مجھے اس��تاد اور خداون�د کہ��تے ہ��و اور خ��وd کہ��تے ہ��و کی��ونکہ میں ہ��وں ۔ پس جب مجھ خداون��د اور اس��تاد نے تمہ��ارے پ��اؤں دھوئے تو تم پر بھ� فرض ہے کہ ایک دوسرے کے پ��اؤں دھوی��ا ک��رو کی��ونکہ میں نے تم ک��و ای��ک نمونہ دکھایا ہے کہ جیس�ا میں نے تمہ�ارے س�اتھ کی��ا ہے ۔ تم بھ� کی��ا ک�رو۔ میں تم س�ے س�چ سچ کہتا ہوں کہ نوکر اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا اور نہ بھیجا ہوا اپنے بھیجنے والے س��ے ۔ اگ��ر

") انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رتتم ان باتوں کو جانتے ہو تو مبارک ہوبشرطیکہ ان پ�ر عم� بھ� ک�رو

(۔۱۷تا ۴آایت ۱۳یوحنا رکوع

ی� المس��یح ک� حقیق� فروتن� اور نوع انسان� ک� خدمت کا جذبہ حضور سیدنا عیسآاپ نے واض��ح �ت ش��ریفہ کے نم��ونے س��ے � مبارک کا ایک نہایت تابناک پہلو ہے۔ اپ��ن� ذا ذاتی� ڈن��ڈے کے زور س��ے حک��ومت کردیاکہ حقیق� عظمت کس ب��ات میں ہے۔ اک��ثر قائ��دین اعلی� المس�یح نے ع�وام ک�و �ر دو جہاں حضور سیدنا عیس کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، لیکن مختا

اپن� زندگ� اورخدمت کےنمونے سے متاثر کیا۔

یہوداہ اسکریوت� ک� دشمنوں سے ملاقاتآاپ نے ی� المسیح حوارئین کےساتھ دستر خوان پربیٹھے تھے ت��و حب حضور سیدنا عیس

فرمایا: " میں تم سے س��چ کہت��ا ہ��وں کہ تم میں س��ے ای�ک ج��و م�یرے س��اتھ کھات��ا ہے مجھے

پکڑوائے گا۔"یہ سن کر وہ بڑے دلگیر ہوئے اور باری باری کہنے لگے

"کیا میں ہوں ؟"آاپ نے انہیں بتایا۔

( میں س�ے ای�ک ہے ج�و م�یرے س�اتھ طب�اق میں ہ�اتھ ڈالت�ا ہے ۔ کی�ونکہ۱۲"وہ ب�ارہ )آادم� پ��ر افس��وس جس کے آادم ت��و جیس��ا اس کے ح��ق میں لکھ��ا ہےجات��ا ہ� ہے لیکن اس � ابن

آادم� پی�دا نہ ہوت�ا ت�و اس کے ل�ئے اچھ�ا ہوت�ا آادم پکڑوای�ا جات�ا ہے ! اگ�ر وہ ")انجی��وسیلہ س�ے ابن

(۔۲۱تا ۱۸آایت ۱۴شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع

ی�( اپنے دل میں گھبرایا " )انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رک��وع" یہ کہہ کر یسوع )عیس

(۔۲۱آایت ۱۳

�م مقدس میں اس واقعہ ک� مزید تفصیلات یوں مندرج ہیں: کلای�(محبت رکھت��ا تھ��ا یس��وع کے س�ینے ک� ط��رف " ایک شخص جس سے یسوع )عیس� جھکا ہوا کھانا کھانے بیٹھا تھا۔ پس ش��معون پط��رس نے اس س�ے اش�ارہ ک�رکے کہ��ا کہ بت�ا ت�و وہی�( ک� چھ��ات� ک��ا س��ہارا لے ک�ر کہ��ا کس ک� نسبت کہتا ہے؟ اس نے اس� طرح یسوع )عیس�ی�( نے جواd دیاکہ جسے میں نوالہ ڈب�و ک�ردوں گ�ا وہ� کہ اے خداوند! وہ کون ہے؟ یسوع )عیس ہے ۔ پھر اس نے نوالہ ڈبویااور لے کر شمعون اسکریوت� کے بیٹے یہوداہ کودےدیا۔ اور اس نوالہی�( نے اس سے کہا کہ جو کچھ توکرتا ہے کے بعد شیطان اس میں سمایا گیا ۔ پس یسوع )عیس جلد کرلے۔ مگر جو کھانا کھانے بیٹھے تھے ان میں سے کس� ک��و معل��وم نہ ہ��وا کہ اس نے یہ اس س���ے کس ل���ئے کہ���ا ۔ چ���ونکہ یہ���وداہ کے پ���اس تھیل� رہ���ت� تھ� ۔ ا س ل���ئے بعض نےی�( اس سے یہ کہتا ہے کہ جوکچھ ہمیں عی��د کے ل��ئے درک��ار ہے خری��د سمجھا کہ یسوع )عیس لے یا یہ کہ محتاجوں کو کچھ دے ۔ پس وہ نوالہ لے کر ف� الفور باہر چلا گیا اور رات کا وقت

(۔۳۰تا ۲۳آایت ۱۳")انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع تھا

آاواز سے آانحضور کے سینہ ک� طرف جھکے ہوئے دھیم� جو سوال حضرت یوحنا نے پوچھا تھا کہ " اے خداوند وہ کون ہے ؟" اسے کوئ� بھ� نہ سن سکا تھا۔ یہ��وداہ ک��و یہ گم��ان تھ��ا کہ اس کے ب��ارے میں کس��� ک��و معل��وم نہیں ، لہ��ذا اس نے بھ� دیگ��ر حواری��وں ک� ط��رح

پوچھا۔(۔۲۵آایت ۲۶)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع " اے رب� کیا میں ہوں؟"

ی� المسیح نے نوالہ ڈبوکر یہ��وداہ ک��و دے دی��ا ۔تونش��اندہ� لیکن جب حضور سیدنا عیس ک� جاچک� تھ�۔ اس پر کلمتہ الله نے یہوداہ کو مخاطب کرکے فرمای��ا" ج��و کچھ ت��و کرت��ا ہے جل��د ک��رلے ۔" حض��رت یوحن��ا اورپط��رس کے علاوہ ب��اق� حواری��وں نے یہ س��مجھا کہ ش��اید اس��ے کس� کام کے لئے بھیجا گیا ہے۔ یہوداہ وہاں سے اٹھ کر رات ک� تاریک� میں گم ہوگیا تاکہ

اپنے مذموم فع کو انجام دے۔

آاخری ہدایات " یہوداہ کے دستر خوان سے اٹھ کر چلے جانے کے بعد کے واقعات کا انجی جلی��

میں یوں ارشاد ہوا ہے۔آادم نے جلال پای��ا اور �ن ی�( نے کہ��ا کہ اd اب " جب وہ ب��اہر چلا گی��ا ت��و یس��وع )عیس�� خدانے اس میں جلال پای��ا۔ اور خ��دا بھ� اس��ے اپ��نے میں جلال دیگ��ا بلکہ اس��ے ف� الف��ور جلال دے گا۔ اے بچو! میں اور تھوڑی دیر تمہارے ساتھ ہوں۔ تم مجھے ڈھونڈوگے اور جیسا میں نےآاس�کتے ویس�ا ہ� اd تم س�ے بھ� کہت�ا ہ�وں۔ یہودیوں سے کہا کہ جہاں میں جاتا ہ�وں تم نہیں میں تمہیں ایک نیاحکم دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت رکھ�و کہ جیس�ے میں نے تم س�ےآاپس میں محبت رکھوگے تو اس س��ے یہ محبت رکھ� تم بھ� ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ اگر

(۔۳۵تا ۳۱آایت ۱۳)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع سب جانینگے کہ تم میرے شاگرد ہو"

ی� المس��یح کے پیروک��اروں ک�ا امتی��ازی نش��ان ای�ک �س نوع انس�ان� حض�ور س��یدنا عیس� انیدوسرے سے محبت ہے۔

حضرت پطرس اور دیگرحواریئن کوبزدل� سےانتباہی�( نے " شمعون پط�رس نے اس س��ے کہ��ا اے خداون�د!ت��و کہ��اں جات�اہے؟ یس�وع )عیس�آانہیں س�کتا مگ�ر بع�د میں م�یرے پیچھے جواd دیاکہ جہاں میں جاتا ہوں اd توتوم�یرے پیچھے

آائے گا۔

آاسکتا؟ میں تو "پطرس نے اس سے کہا اے خداوند! میں تیرے پیچھے اd کیوں نہیں (۔۳۷تا ۳۶آایت ۱۳)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع تیرے لئے اپن� جان دوں گا"

حضور المسیح نے حضرت پطرس سے مزید فرمایا" شعمون ! شمعون! دیکھ ش�یطان نے تم لوگوں کو مانگ لیا تاکہ گیہوں ک� طرح پھٹکے ۔ لیکن میں نے ت��یرے ل��ئے دع��ا ک� کہ ت��یرا

)انجی ش��ریف بہ مط��ابقایمان جاتا نہ رہے ۔ اور جب تو رجوع کرے تو اپنے بھائیوں کو مضبوط کرنا"

(۔۳۲تا ۳۱آایت ۲۲حضرت لوقا رکوع

ی�( "پطرس نے اس سے کہا گو سب ٹھوکر کھائیں لیکن میں نہ کھاؤنگا۔یسوع )عیسآاج اس� رات مرغ کے دو بار بانگ دی��نے نے اس سے کہا میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ تو س��ے پہلے تین ب��ار م��یرا انک��ار ک��رے گ��ا لیکن اس نے بہت زور دے ک��ر کہ��ا اگ��ر ت��یرے س��اتھ مجھے مرنا بھ� پ�ڑے ت�و بھ� ت�یرا انک�ار ہرگ�ز نہ ک�روں گ�ا۔ اس�� ط�رح اور س�ب نے بھ� کہ�ا "

(۔۳۱تا ۲۹آایت ۱۴)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع

حواریئن ک� پریشان�" حواری اپنے بے نظیر استاد ک� پر اسرار باتوں کو سمجھنے سے قاصر رہے۔

آاپ نے فرمایا: " تھ��وڑی دی��ر میں تم مجھے نہ دیکھ��وگے اور پھ��ر تھ��وڑی دی��ر میں مجھے دیکھ ل��وگے

(۔۱۶آایت ۱۶")انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع

آایت " میں باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے " (۔۱۰)

" تمہارا دل نہ گھبرائے ۔ تم خدا پر ایمان رکھتے ہ��و مجھ پ��ر بھ� ایم��ان رکھ��و۔ م��یرے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں۔ اگ��ر نہ ہ��وتے ت�و میں تم س��ے کہہ دیت��ا کی��ونکہ میں جات�اآاک��ر ہوں تاکہ تمہارے لئے جگہ تیارکروں۔ اور اگر میں جاکر تمہارے لئے جگہ تیار ک��روں ت��و پھر تمہیں اپنے ساتھ لے لوں گا ۔ تاکہ جہاں میں ہوں تم بھ� ہو۔ اور جہ��اں میں جات��ا ہ��وں تم وہ��اں ک� راہ جانتے ہو۔ توما نے اس سے کہا اے خداوند ہم نہیں ج�انتے کہ ت�و کہ�اں جات�ا ہے۔پھ��ری�( نے اس س�ے کہ��ا کہ راہ ح��ق اور زن��دگ� میں ہ��وں۔ ک��وئ� راہ کس طرح جانیں ؟ یس�وع )عیس��

آاتا۔ اگر تم نے مجھے جان�ا ہوت�ا توم�یرے ب�اپ ک�و بھ� میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں جانتے ۔ اd اسے جانتے ہو اور دیکھ لیا ہے۔ فلپس نے اس سے کہا اے خداوند! ب�اپ ک�و ہمیںی�( نے اس س�ے کہ��ا اے فلپس ! میں ات�ن� م�دت س�ے دکھا۔ یہ� ہمیں کاف� ہے۔ یسوع )عیس� تمہ��ارے س��اتھ ہ��وں کی��ا ت��ومجھے نہیں جانت��ا ؟ جس نے مجھے دیکھ��ا اس نے ب��اپ کودیکھ��ا۔ توکیونکر کہتاہے کہ باپ کو ہمیں دکھا؟ کیا ت��و یقین نہیں کرت��ا کہ میں ب��اپ میں ہ��وں اور ب��اپ مجھ میں ہے؟ یہ باتیں جو میں تم سے کہت�ا ہ��وں اپ�ن� ط��رف س�ے نہیں کہت�ا۔ لیکن ب�اپ مجھ میں رہ کر اپنے کام کرتا ہے ۔میرا یقین کروکہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں۔ نہیں توم��یرے کا موں ہ� کے سبب سے میرا یقین کرو۔ میں تم سے سچ سچ کہت��ا ہ��وں کہ ج��و مجھ پ��ر ایم��ان رکھتا ہے یہ کام جو میں کرتاہوں وہ بھ� کرے گ�ا بلکہ ان س�ے بھ� ب�ڑے ک�ام ک�رے گ�ا کی��ونکہ میں باپ کے پاس جاتا ہ��وں۔اور ج�وکچھ تم م�یرے ن�ام س�ے چ�اہو گے میں وہ� ک�روں گ�ا ت�اکہ باپ بیٹے میں جلا ل پائے ۔ اگر میرے ن�ام س�ے مجھ س�ے کچھ چ�اہوگے ت�و میں وہ� ک�روں گ�ا

(۔۱۴تا ۱آایت ۱۴")انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع

ی� المسیح نے بالاخانہ پر اپ��نے ح��وارئین س��ے یہ مبارک کلمات جو حضور سیدنا عیسآاپ ک� عجوبہ شخصیت کے بھید کامزید انکشاف ک��رتے ہیں۔ ب��ڑے اعتم��اد کے س��اتھ فرمائے آاپ پ��ر آاپ ان کے ل��ئے جگہ تی��ار ک��ریں گے ج��و آاپ نے وعدہ فرمایا کہ اپنے باپ کے گھر جاکر آاپ پ�ر ایم�ان لاک�ر آاپ ہ� ہیں۔ یی بھ� فرمای�ا کہ راہ ص�رف ایمان لائیں گے ۔ علاوہ ازیں یہ دعوآاپ اور باپ میں نہ�ایت گہ�را اور قری�ب� تعل�ق ہے یہ��اں ی� تک رسائ� ہوسکت� ہے۔ ہ� خدا تعالی المسیح میں ی� اور حضور سیدنا عیس� آاپ باپ میں ہیں۔ خدا تعال آاپ میں ہے اور تک کہ باپ آاپ نے سلسلہ کلام جاری رکھ��تے ہ��وئے لاثان� یگانگت اور کام یکتائ� ک� مثال نہیں ملت�۔

فرمایا:آاتا ہے کہ پھر تم س��ے تم��ثیلوں " میں نے یہ باتیں تم سے تمثیلوں میں کہیں ۔ وہ وقت میں نہ کہ��وں گ��ا بلکہ ص��اف ص��اف تمہیں ب��اپ ک� خ��بردوں گ��ا۔ اس دن تم م��یرے ن��ام س��ے مانگوگے اور میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ باپ سے تمہ��ارے ل��ئےد رخواس�ت ک�روں گ�ا۔ اس ل�ئے

آاپ ہ� تم کو عزيز رکھتا ہے کیونکہ تم نے مجھ کو عزيز رکھاہے اور ایمان لائے ہ��و کہ کہ باپ تو آای��ا ہ��وں۔ پھ��ر دنی��ا س��ے میں ب��اپ ک� ط��رف س��ے نکلا ۔ میں ب��اپ میں س��ے نکلا اور دنی��ا میں

آاپ کے حواریوں نے کہا رخصت ہوکر باپ کے پاس جاتا ہوں ۔" " دیکھ اd تو صاف صاف کہتا ہوں اور کوئ� تمثی نہیں کہتا۔ اd ہم جان گئے کہ تو سب کچھ جانتا ہے اور اس کا محتاج نہیں کہ کوئ� تجھ سے پوچھے۔ اس سبب س��ے ہم

ایمان لاتے ہیں کہ تو خدا سے نکلا ہے۔" آاپہنچ� آات� ہے بلکہ آاپ نے ج��واd دی��ا کی��ا تم اd ایم��ان لاتے ہ��و؟ دیکھ��و وہ گھ��ڑی کہ تم س��ب پراگن��دہ ہ��وکر اپ��نے اپ��نے گھ��ر ک� راہ ل��وگے اورمجھے اکیلا چھ��وڑدوگے ۔ت��و بھ� میں اکیلا نہیں ہ��وں کی��ونکہ ب��اپ م��یرے س��اتھ ہے۔ میں نے تم س��ے یہ ب��اتیں اس ل��ئے کہیں کہ تمآای��ا مجھ میں اطمینان پاؤ۔دنیا میں مصیبت اٹھاتے ہو لیکن خاطرح جمع رکھو ،میں دنیا پر غالب

(۔۳۳تا ۲۵آایت ۱۶)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ہوں"

بائب مقدس ک� ص�حت ک�ا ای�ک ہم ثب�وت یہ ہے کہ اس میں نہ��ایت دیانت��داری کےآایا۔ ای��ک موق��ع پ��ر اا کہا گیا اور سچ مچ وقوع میں � وعن وہ� کچھ درج ہے جو حقیقت ساتھ من حواریئن یہ کہتے ہیں کہ " اd تو صاف صاف کہت��ا ہے۔۔۔۔ اس س��ب س��ے ہم ایم��ان لاتے ہیںآاگاہ کرنا پڑا کہ وہ ی� المسیح کو انہیں کہ تو خدا سے نکلا ہے ۔" لیکن پھر حضور سیدنا عیسآاپ کو تنہا چھوڑ کر فرار ہوجائیں گے اور چند گھنٹوں کے بع��د ہ� یہ ب�ات س��چ ث�ابت بھ� سب ی� المس�یح ہوئ� ہے۔ پہلے شک و بے یقین� پھ��ر مض�بوط ایم�ان اورپھ��ر ش�ک حض�ور س�یدنا عیس�آاپ اا یہ� تجربہ اپنے حواریوں ک� انہ� کمزوری��وں کے پیش نظ��ر اا فوقت کے تمام پیروکاروں کا وقت

آایا ہوں۔" نے فرمایا" خاطر جمع رکھو میں دنیا پر غالب ی�( یہ باتیں کہہ کر اپنے شاگردوں کے ساتھ قدرون کے ن��الے کے پارگی��ا۔ "یسوع )عیس وہاں ایک باغ تھ��ا۔ اس میں وہ اور اس کے ش��اگرد داخ�� ہ��وئے ۔ اوراس ک��ا پک��ڑوانے والا یہ��وداہ

ی�(اک�ثر اپ�نے ش��اگردوں کے س�اتھ وہ��اں جای�ا کرت�ا بھ� اس جگہ کو جانتا تھ��اکیونکہ یس��وع )عیس�(۔۲تا ۱آایت ۱۸)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع تھا۔"

� زیت��ون پ��ر تش��ریف لے جب ہ��ادئ برح��ق اپ��نے ح��واریئن س��میت یروش��لیم س��ے ب��اہر ک��وہآاپ نے ان سے فرمایا جارہے تھے تو

آازمائش میں نہ پڑو۔" (۔۴۰آایت ۲۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع " دعا کروکہ

باغ میں اذیت وجان کن�گتسمن��ہ زیتون پر ایک خوشنما ب��اغ تھ��ا ج�و کہلات�ا تھ��ا۔ وہ��اں پہنچ ک��ر حض��رتگتس�من�کو

غمخوار عالم نے اپنے حواریوں سے فرمایا " یہیں بیٹھے رہنا جب تک کہ میں وہاں جاکر دعا کروں۔"

آاپ اس پر "پطرس اور زبدی کے دونوں بیٹوں کوساتھ لے کر غمگین اور بیقرار ہ�ونے لگ�ا۔ اس وقت اس نے ان سے کہا میری جان نہایت غمگین ہے۔ یہاں تک کہ مرنے ک� نوبت پہنچ گ��ئ� ہےآاگے بڑھا اور منہ کے ب گ�ر ک�ر ی�وں دع�ا ۔ تم یہاں ٹھہرو اورمیرے ساتھ جاگتے رہو۔ پھر ذرا ک� کہ اے م��یرے ب��اپ ! اگ��ر ہوس��کے ت��و یہ پی��الہ مجھ س��ے ٹ�� ج��ائے ۔ ت��و بھ� نہ جیس��ا میںآاک��ر ان ک��و س��وتے پای��ا اور چاہتاہوں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے ویسا ہ� ہو۔ پھ��ر ش��اگردوں کے پ��اس پطرس سے کہ�ا کی�ا تم م�یرے س�اتھ ای�ک گھ�ڑی بھ� نہ ج�اگ س�کے ؟ ج�اگو اور دع��ا کروت�اکہ آازمائش میں نہ پڑو۔روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزو رہے ۔ پھر دوبارہ اس نے ج��اکر ی��وں دع��اآاک�ر ک� کہ اے میرے باپ ! اگر یہ میرے پیئے بغیر نہیں ٹ سکتا تو تیری مرض� پ�وری ہ��و۔ اور آانکھیں نیند سے بھری تھیں۔ اور ان کو چھ��وڑ ک��ر پھ��ر چلا انہیں پھر سوتے پایا کیونکہ ان ک� آاک�ر ان س�ے کہ�ا گیا اور پھر وہ� ب�ات کہہ ک�ر تیس�ری ب�ار دع��ا ک� ۔ تب ش�اگردوں کے پ�اس آادم گنہگاروں کے ح��والہ کیاجات�ا ہے " آاپہنچا ہے اور ابن آارام کرو۔ دیکھو وقت اd سوتے رہو اور

(۔۴۵تا ۲۶آایت ۲۶)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع

ی المس��یح اس ق��در غمگین اور بے ق��رار " کی��وں تھے جبکہ ت�اریخ حض�ور س��یدنا عیس�� عالم میں کئ� ایس� مثالیں ملت� ہیں کہ شہیدوں نے بڑی دل�یری اور خوش�� س�ے م�وت ک�و گلےآانحض�ور لگالیا ؟ تین بار یہ دعا کرنا کہ " اگر ہوسکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹ� ج�ائے" اس س�ے

کا کیا مطلب تھا؟ پیالے سے کیا مراد تھ�؟ی� ک� نوع انس��ان � انسانیت حضور المسیح ک� وفات اور قیامت کابھید خدا تعال انیس� موع��ود ک� اس زمین پ�ر بعثت کے مقص��د سے محبت کے اظہ��ار ک� مع��راج ہے۔ ن��یز یہ مس��یح

آاپ نے صاف فرمایا کہ ک� تکمی ہے ۔ آایاکہ خدمت لے بلکہ اس لئے کہ خدمت کرے اور اپن� ج�ان آادم اس لئے نہیں " ابن

(۔۲۸آایت ۲۰)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے ۔"

آاپ ک� پاک زندگ� کا مقصد ہ� یہ تھا کہ انسان کو گناہ س��ے مخلص��� دلاک��ر اسآاپ دنی��ا ک�ا گن��اہ اپ��نے اوپ�ر اٹھ��اکر ہم��ارے ع��وض ی� کے س��اتھ می�� ملاپ ک��رادیں۔ کا خ��دا تع��الی� سے بچ جائیں۔ ہمارے بدلے گناہ ہمارے گناہ کا خمیازہ بھگتنے والے تھے تاکہ ہم غضب الہآاپ ک� بے گناہ اور پاک روح ک� لعنت کو اٹھانے کا وہ ہولناک تجربہ تھا جس کے خیال سے آاپ ص���لیب ک� ظالم���انہ جس���مان� اذیت س���ے نہیں گھ���براتے تھے۔ جس���ے روم� ل���ررزاں تھ�۔ حکومت میں اس لئے رواج دیا جاتا تھ��ا ت�اکہ ع��وام ک� دہش�ت زدہ ک�رکے اط��اعت پ��ر مجب��ورآاپ نے بن� نوع انسان سے محبت کے کردے۔ یہ تھاخدا ئے عادل کے غضب کا وہ پیالہ جسے

باعث نوش فرمانا تھا۔

چھٹا دنگرفتاری

آاپ ی المس��یح چ��اہتے تودش��منوں کے ہ��اتھ س��ے ف��رار ہوس��کتے ، اگر حضور سیدنا عیس�آاہٹ پت��وں ک� چرچ��راہٹ اور تل��واروں ک� جھنک��ار س��ن رہےتھے۔ دور س��ے س��پاہیوں کے پ��اؤں آارہ� تھ�۔ لیکن اس کے آانے وال� مش��علوں ک� روش��ن� ص��اف نظ��ر درخت��وں میں س��ے چھن ک��ر آاپ دنی��ا میں تش��ریف لائے تھے آاپ نے مصمم ارادہ ک��ر رکھ��ا تھ��ا کہ جس مقص��د س��ے برعکس

اسے پورا کرکے ہ� چھوڑیں گے ۔آاپ نے اپنے سوتے ہوئے حواریوں کو جگاکر فرمایا

آاپہنچ��ا ہے۔" ) انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت" اٹھو چلیں۔ دیکھو میرا پکڑوانے والا نزدی��ک

(۔۴۲آایت ۱۴مرقس رکوع

آای��ا اور اس کے۱۲" وہ یہ کہہ ہ� رہا تھا کہ یہ��وداہ ج��و ان ب��ارہ ) ( میں س��ے ای��ک تھ��ا س��اتھ ای��ک ب��ڑی بھ��یڑ تل��واریں اور لاٹھی��اں ل��ئے س��ردار ک��اہنوں اور ق��وم کے بزرگ��وں ک� ط��رف س��ے آاپہنچ�۔ اور اس کے پکڑوانے والے نے ان کو یہ نشان دیا تھا کہ جس ک��ا میں بوس��ہ ل��وں وہ� ہےآاک�ر کہ��ا اے رب� س�لام! اور اس کے ی�( کے پ�اس اا اس نے یس�وع )عیس� اس�ے پکڑلین��ا ۔ اور ف��ور

آایا ہے وہ کرے " ی�( نے ان سے کہا میاں ! جس کا م کو )انجی�� ش��ریف بہبوسے لئے۔یسوع )عیس

(۔۵۰تا ۴۶آایت ۲۶مطابق حضرت مت� رکوع

آادم ک��و پکڑوات��ا ہے ؟" )انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت لوق��ا رک��وع" کی��ا ت��و بوس��ہ لے ک��ر ابن

(۔۴۸آایت ۲۲

آاگئے تو جب سردار کاہنوں کے پیادے نزدیک ی�( ان سب باتوں کو جو اس کے ساتھ ہونے وال� تھیں جان کر باہر نکلا " یسوع )عیس اور ان سے کہنے لگا کہ کسے ڈھونڈتے ہو؟ انہوں نے اسے جواd دیا یس��وع ناص��ری ک��و۔یس��وع نے ان س�ے کہ��ا میں ہ� ہ��وں ۔ اور اس ک�ا پک�ڑوانے والا یہ�وداہ بھ� ان کے س�اتھ کھ�ڑا تھ��ا۔ اس کے یہ کہتے ہ� کہ میں ہ� ہ��وں وہ پیچھے ہٹ ک��ر زمین پ�ر گ�ر پ�ڑے ۔ پس اس نے ان س�ے پھ��ر پوچھا کہ تم کسے ڈھونڈتے ہو؟ انہو ں نے کہا یسوع ناصری ک��و ۔یس��وع نے ج��واd دی��اکہ میں

تم سے کہہ تو چکا کہ میں ہ� ہوں۔

پس اگر مجھے ڈھونڈتے ہو تو انہیں جانے دو۔ یہ اس نے اس لئے کہا کہ اس کا وہ قول پ��ورا ہ��و کہ جنہیں ت�ونے مجھے دی�ا میں نے ان میں س�ے کس�� ک�و بھ� نہ کھوی��ا۔ پس ش�معون پط��رس نے تلوار جو اس کے پاس تھ� کھینچ� اور سردار کاہن کے ن�وکر پ�ر چلا ک�ر اس ک�ا دہن��ا ک�ان

(۔۱۱تا ۴آایت ۱۸) انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع اڑادیا۔ اس نوکر کا نام ملخس تھا۔"

"یسوع نے اس سے کہا اپن� تلوار کو میان میں کرلے کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تل�وار س�ے ہلاک ک�ئے ج�ائيں گے۔ کی��ا ت��و نہیں س�مجھتا کہ میں اپ�نے ب�اپ س��ے منت

سے زيادہ میرے پاس ابھ� موجود کردے گا؟ مگ��ر*1تمن ۱۲کرسکتا ہوں اور وہ فرشتوں کے بارہ )انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��ت� رک��وعوہ نوشتے کو یونہ� ہونا ضرور ہے کیونکہ پورے ہوں گے ۔"

(۔۵۴تا ۵۲آایت ۲۶

یونان� لگیون یعن� چھ ہزار سپاہ� *۔1

آاپ نے ترس کھاکر ملخس کے کان کو دوبارہ جوڑدیا۔ پھر ی�( نے سردار کاہنوں او رہیک کے سرداروں اور بزرگوں سے جو اس پ��ر " پھر یسوع )عیسآائے تھے کہا کیا تم مجھے ڈاکو جان کر تلواریں اور لاٹھیاں لے ک��ر نکلے ہ��و؟ جب میں چڑھ ہ��ر روز ہیک�� میں تمہ��ارے س��اتھ تھ��ا ت��و تم نے مجھ پ��ر ہ��اتھ نہ ڈالا لیکن یہ تمہ��اری گھ��ڑی اور

(۔۵۳تا ۵۲آایت ۲۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع تاریک� کا اختیار ہے۔"

" اس پر سب شاگرد اسے چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ مگر ای�ک ج�وان اپ�نے ننگے ب�دن پ�ر مہین چادر اوڑھے ہوئے اس کے پیچھے ہولیا۔ اسے لوگوں نے پک�ڑا۔ مگ�روہ چ�ادر چھ�وڑ ک�ر ننگ�ا

(۔۵۲تا ۵۰آایت ۱۴)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع بھاگ گیا "

غیر قانون� مقدمہی�( ک��وپکڑکر " تب سپاہیوں اور ان کے صوبہ دار اور یہودیوں کے پیادوں نے یسوع )عیس باندھ لیا۔ اور پہلے اسے حنا کے پاس لے گئے کیونکہ وہ اس برس کے سردار کاہن کائفا کاسسرآادم� ک��ا تھا۔ یہ وہ� کائفا تھا جس نے یہودیوں ک��و ص��لاح دی تھ� کہ امت کے واس��طے ای��ک

ی�( کے پیچھے ہولی��ا اورای��ک اور ش��اگرد بھ�۔ یہ مرن��ا بہ��تر ہے ۔ اور ش��معون پط��رس یس��وع )عیس��� خ��انہ ی�( کے ساتھ سردار کاہن کے دیوان شاگرد سردار کاہن کا جان پہچان تھا اور یسوع )عیس میں گیا۔ لیکن پط�رس دروازه پ�ر ب�اہر کھ�ڑا رہ��ا۔ پس وہ دوس�را ش�اگرد ج�و س�ردار ک�اہن ک�ا ج�ان

)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابقپہچان تھا باہر نلکا اور دربان عورت سے کہہ ک��ر پط��رس ک��و ان��در لے گی��ا۔"

(۔۱۷آایت ۱۲آایت ۱۸حضرت یوحنا رکوع

ی� المس��یح ک��و س��ب س��ے پہلے ای��ک عم��ر رس��یدہ معص��وم ومظل��وم حض��ور س��یدنا عیس�� سردار کاہن حنا کے پاس لے جایا گیا جو کہ کائفا سردار کاہن ک��ا سس�ر تھ��ا۔ یہ ش�خص ب��ڑے اثرو رسوخ کا مالک تھا۔ مورخین کے خی�ال کے مط�ابق اس ک� ہیک� ک� تج�ارت پ�ر اج�ارہ

داری تھ� جس کے باعث اس کا خاندان بہت امیر بن گیا تھا۔

سردار کاہن کائفا کے سامنے پیش�ی المسیح کو سردار کاہن حنا کے بعد حضور سیدنا عیس�

" کائف��ا ن��ام س��ردار ک��اہن کے پ��اس لے گ��ئے جہ��اں فقیہ اور ب��زرگ جم��ع ہوگ��ئے(۔۵۷آایت ۲۶)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع تھے۔"

�ن ع��ام میں فقیہ��وں اور فریس��یوں کے س��اتھ بیٹھ��ا ہ��وا تھ��ا اور سردار کاہن کائفا اپنے دی��وا�ر دو جہ��ان ای��ک مج��رم ک� حی��ثیت س��ے ان کے س��امنے کھ��ڑے تھے۔ص��حن میں ای��ک مخت��اآاگ کے گ��رد دیگ�ر ل��وگ اور آاگ ت��اپ رہے تھے ۔ الاؤروشن تھا اور حضرت پطرس وہ��اں کھ��ڑے ن��وکر چ��اکر بھ� تھے ج��و کھ��ڑے ک��ا رروائ� دیکھ رہے تھے ۔ م��ورخین کے خی��ال میں " دوس��را ش��اگرد " حض��رت یوحن��ا تھے، جن ک� دی��وان خ��انہ میں ک��اف� ج��ان پہچ��ان تھ� اور ج��و درب��ان عورتوں کو بھ� جانتے تھے۔ جب حضرت یوحنا رنے دربان عورت سے کہا کہ وہ حضرت پطرس

آانے دے تو اس لونڈی نے حضرت پطرس سے کہا کو اندر )انجی ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت یوحن��ا" کیا تو بھ� اس شخص کے شاگردوں میں سے ہے؟"

(۔۱۷آایت ۱۸رکوع

آاقا کا پہل� مرتبہ انکار کرتے ہوئے کہا اس موقع پر حضرت پطرس نے اپنے " میں نہیں ہوں۔"

ی المس��یح کے خلاف جھ��وٹ� سردار کاہن اوراس کے مشیروں نے حضور س��یدنا عیس���یی ص�ادر کی�ا جاس�کے۔ چن�انچہ آاپ پ�ر م�وت ک�ا فت�و گواہیاں تلاش ک�رنے ک� کوش�ش ک� ت�اکہ

� مقدس میں مرقوم ہے ۔ کلامی�( ک�و م�ار ڈال�نے کے ل�ئے اس � عدالت والے یسوع )عیس " سردار کاہن اور سب صدر

آائے۔" )انجی��کے خلاف جھوٹ� گواہ� ڈھونڈنے لگے مگ��ر نہ پ��ائ� گ��وبہت س��ے جھ��وٹے گ��واہ

(۔۵۹آایت ۲۶شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع

ی المسیح کے خلاف � صداقت حضور سیدنا عیس� ک��ا یہ سلس��لہ رات ک��وتفتیشمہرآاپ کےس�اتھ تعل�ق کے ب�ارے میں کئ� گھنٹے تک جاری رہا۔اس عرصہ میں حضرت پطرس سے

� مقدس میں اس ک� بابت یوں مرقوم ہے۔ دو مرتبہ پوچھا گیا ۔ کلام " اورجب وہ ڈی��وڑھ� میں چلا گی��ا ت��و دوس��ری نے اس��ے دیکھ��ا اور ج��و وہ��اں تھے انآادم� سےکہا یہ بھ� یسوع ناصری کے ساتھ تھا۔ اس نے قسم کھاکر پھر انکار کی��اکہ میں اس آاکر کہا کو نہیں جانتا۔ تھوڑی دیر کے بعد جو وہاں کھڑے تھے انہوں نے پطرس کے پاس بے شک تو بھ� ان میں سے ہے کیونکہ تیری بول� سے بھ� ظاہر ہوتا ہے۔ اس پر وہ لعنت ک��رنےآادم� کو نہیں جانتا اور ف� الفور م��رغ نے بان��گ دی۔ پط��رس ک��و اور قسم کھانے لگا کہ میں اس آائ� جو اس نے کہ� تھ� کہ م�رغ کے بان�گ دی�نے س�ے پہلے ت�و تین ب�ار یسوع ک� وہ بات یاد

ت��ا۷۱آایت ۲۶)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��ت� رک��وع میرا انکار کرے گا اور وہ باہر جاکر زار زار روی��ا۔"

(۔۷۵

آاپ ک� پیش��ین گ��وئ� آاپ کا انکار کرنے کے بارے میں یوں حضرت پطرس کا تین بار آاگاہ تھے۔ آاپ اپنے تمام حواریئن ک� کمزوریوں سے پوری ہوئ� ۔

ارس سردار کاہن ک� حضور المسیح سے باز پ

"پھر سردار ک�اہن نے یس�وع س�ے اس کےش�اگردوں اور اس ک� تعلیم ک� ب�ابت پوچھ��ا۔ی�(نے اس���ے ج���واd دی���اکہ میں نے دنی���ا ے علانیہ ب���اتیں ک� ہیں۔ میں نےہمیش���ہ یس���وع )عیس��� عبادت خانوں اور ہیک میں جہاں سب یہودی جم��ع ہ��وتے ہیں تعلیم دی اور پوش��یدہ کچھ نہیں کہا۔ تومجھ سے کیوں پوچھتا ہے۔ سننے والوں سے پوچھ کہ میں نے ان سے کیاکہا ۔ دیکھ ان کو معلوم ہے کہ میں نے کیا کیا کہا۔ جب اس نے یہ کہا تو پیادوں میں سے ایک ش��خص نےی�( کے طمانچہ مار کر کہا تو سردار کاہن کو ایسا ج��واd دیت��ا جو پاس کھڑا تھا یسوع )عیسی�( نے اسے جواd دیاکہ اگر میں نے برا کہا تو اس برائ� پ��ر گ��واہ� دے اور اگ��ر ہے؟ یسوع )عیس

(۔۲۳تا ۱۹آایت ۱۸)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع اچھا کہا تو مجھے مارتا کیوں ہے؟"

کفر کا الزامآاپ کے آاخر انہیں دو ایسے شخص م ہ� گئے جنہوں نے بسیار کوشش کے بعد بالا

خلاف جھوٹ� گواہ� دی کہ " اس نے کہا ہے کہ خدا کے مقدس کو ڈھاسکتا اور تین دن میں اسے بناسکتا ہوں۔"

آاپ سے کہا اس پر سردار کاہن نے کھڑے ہوکر " تو جواd نہیں دیتا ؟ یہ تیرے خلاف کیا گواہ� دیتے ہیں؟"

�ر دو جہان خاموش ہ� رہے۔ آایت۲۶)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت حض��رت م��ت� رک��وع مگر مختا

(۔۶۳تا ۶۱

آاپ ک��و ہلاک ک��رنے ک��اپہلے ہ� � ع��الیہ ج��واd دی��نے ک��ا کی��ا فائ��دہ تھ��ا جبکہ ع��دالتآاپ نے جو یروشلیم کے مقدس کو ڈھادینے ک� مثال دے کر اپن� م�وت فیصلہ کئے بیٹھ� تھ� آاپ کے اور ج� اٹھنے کے روحان� پہلو کو بیان کیا تھا اس کو س�مجھنے ک� کوش�ش کے ل�ئے

دشمن بالک تیار نہ تھے۔ہر طرف خاموش� کا عالم تھا۔ پس سردار کاہن نے سکوت کو توڑتے ہوئے کہا

" میں تجھے زندہ خدا ک� قسم دیتا ہوں کہ اگر تو خدا کا بیٹا مس��یح ہے ت��و ہم س��ےکہہ دے۔"

آاپ نے بڑی دلیری سے جواd دیاآادم ک�و ق��ادر " ت�ونے خ�ود کہہ دی�ا بلکہ میں تم س�ے کہت�اہوں کہ اس کے بع��د تم ابن

آاتے دیکھو گے ۔" آاسمان کے بادلوں پر انجی شریف بہ مط��ابق)مطلق ک� دہن� طرف بیٹھے اور

(۔۶۴تا ۶۲آایت ۲۶حضرت مت� رکوع

اس پر انہوں نے کہا " اd ہمیں گواہ� ک� کیا حاجت رہ� ؟ کیونکہ ہم نے خود اس��� کے منہ س��ے س��ن

(۔۷۱آایت ۲۲)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع لیا ہے"

" اس پر سردار کاہن نے یہ کہہ کر کپڑے پھ��اڑے کہ اس نے کف��ر بک�ا ہے۔ اd ہم ک��ولوگوں ک� کیا حاجت رہ� ؟ دیکھو تم نے ابھ� یہ کفر سنا ہے ۔ تمہاری کیا رائے ہے؟

" انہوں نے جواd میں کہا وہ قت کے لائق ہے۔"آاپ ک�ا تمس�خر اڑانے لگے ۔ یہ�اں ت�ک کہ بعض نے � مبارک پر تھ��وک ک�ر آاپ کے چہرہ پھر وہ

آاپ کے طمانچے مارے او رکہا )انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت" اے مسیح ہمیں نبوت سے بت��ا کہ تجھے کس نے م�ارا؟"

(۔۶۸تا ۶۵آایت ۲۶مت� رکوع

ی� کے برگزی��دہ اور بے گن��اہ ن��ب� ی المسیح خدا تع��ال �ر معصومیت حضور سیدنا عیس� پیکیی ک��رنے ک��و تی��ار نہ ہوتے ہوئے اپن� بریت کےلئے کبھ� بھ� جھوٹ کا سہارا لینے اور جھوٹا دعوی� المس�یح ک�و منج�انب الل�ه اور انجی� جلی� ک�و الہ�ام� تھے۔ ج�و حض�رات حض�ور س�یدنا عیس�

آاپ کے ابن الله یی*1کتاd مانتے ہیں ضرور ہے کہ وہ اور مسیح موعود ہونے کے اس صریح دع��وکے پر اسرار مطلب کو ٹھنڈے دل سے سمجھنے ک� کوشش کریں۔

۔۷ پر نوٹ نمبر ۲۹۴*۔ دیکھئے صفحہ نمبر 1

آاپ کو آاپ پر کفر کا الزام عائد کیا اور ساتھ ہ� منصوبہ بنایا کہ جب وہ پس انہوں نے آاپ ک� موت کا مطالبہ کریں روم� گورنر کے سامنے پیش کریں گے تو کس الزام کے تحت وہ

گے ۔

روم� گورنر پنطس پیلاطس کے سامنے پیش�ی�( کے " جب ص��بح ہ��وئ� ت��و س��ب س��ردار ک��اہنوں اور ق��وم کے بزرگ��وں نے یس��وع)عیس�� خلاف مشورہ کیا کہ اسے مار ڈالیں۔ اور اسے باندھ ک��ر لے گ��ئے اور پیلاطس ح��اکم کے ح��والہ

(۔۲تا ۱آایت ۲۷)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع کیا"

آانحضور پر سیاس� نوعیت کا الزام تراشا کہ اd انہوں نے آاپ " اسے ہم نے اپن� قوم کوبہکاتے اور قیصر کو خراج دینے سے منع کرتے اور اپ��نے

کو مسیح بادشاہ کہتے پایا۔" آاپ سے پوچھا پیلاطس نے

" کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟"آاپ نے فرمایا۔

" تو خود کہتا ہے ۔"آاپ کا جواd سن کر سردار کاہنو اور عام لوگوں سے کہا ۔ پیلاطس نے

" میں اس شخص میں کوئ� قصور نہیں پاتا۔"لیکن وہ ان الزامات پر اور بھ� زیادہ زور دے کر کہنے لگے ۔

" یہ تمام یہودیہ میں بلکہ گلی سے لے کر یہاں تک لوگ��وں کوسکھاس��کھا ک��ر ابھارت�اہے۔"

ی� المس��یح ہ��یرودیس بادش��اہ ک� جب پیلاطس ک��و یہ معل��وم ہ��وا کہ حض��ور س��یدنا عیس��آاپ ک�و ہ�یرودیس کے پ�اس بھیج دی�ا کی�ونکہ وہ بھ� ان علمداری سے تعلق رکھتے ہیں تو اس نے

دنو ں یروشلیم میں تھا۔

ی المس�یح ک�ود یکھ ک�ر بہت خ�وش ہ�وا کی�ونکہ وہ م�دت ہیرودیس حض�ور سیدناعیس��آاپ س��ے آاپ کے متعلق بہت کچھ سنا رکھا تھا اور آارزومند تھا۔ اس نے آاپ کو دیکھنے کا سے آاپ نے قطع� آاپ س�ے متع�دد س�والات ک�ئے لیکن کوئ� معج��زہ دیکھ�نے کامش�تاق تھ�ا۔ اس نے آاپ پر زور ش��ور س��ے الزام��ات لگ��اتے رہے۔ پس وہ کوئ� جواd نہ دیا حالانکہ سردار کاہن اور فقیہ آاپ کو ذلی کروا چک��ا ت��و آاپ کا تمسخر اڑانے لگا۔ جب وہ بھ� اپنے سپاہیوں کے ساتھ م کر آاپ کو چمکدار پوشاک پہنا ک��ر واپس پیلاطس کے پ��اس بھیج دی��ا۔ پیش��تر ازیں یہ دون��وں اس نے

۔")دیکھ��ئے انجی��ایک دوسرے کے جان� دشمن تھے مگر اس دن سے وہ گہرے دوست بن گئے

(۔۱۲تا ۲آایت ۲۳شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع

� ذی الفاظ میں ان پھر پیلاطس سردار کاہنوں ،سرداروں اور عوام کوجمع کرکے حسبسے مخاطب ہوا۔

" تم ا س شخص کو لوگ��وں ک��ا بہک��انے والا ٹھہراک��ر م��یرے پ��اس لائے ہ��و اور دیکھ��و میں نے تمہارے سامنے ہ� اس ک� تحقیق ک� مگر جن ب�اتوں ک�ا ال�زام تم اس پ�ر لگ�اتے ہ�و ان ک� نس�بت نہ میں نے اس میں کچھ قص��ور پای�ا ۔ نہ ہ��یرودیس نے کی��ونکہ اس نے اس�ے ہم�ارے پاس واپس بھیجا ہے اور دیکھو اس سے کوئ� ایسا فع سرزد نہیں ہوا جس سے وہ قت کے لائ��ق

ت��ا۱۳آایت ۲۳) انجی ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت لوق��ا رک��وع ٹھہرتا۔ پس میں اس کو پٹواکر چھوڑے دیتا ہوں۔"

(۔۱۶

�ت مب�ارکہ میں عی��د فس�ح کے ای�ک دس�تور ک�ا ذک�ر ب�دیں آای�ا انجی�� ش�ریف ک� دیگ�ر الفاظ میں ملتا ہے۔

"حاکم ک�ا دس�تور تھ��ا کہ عی��د پ�ر لوگ��وں ک� خ��اطر ای�ک قی��دی جس�ے وہ چ��اہتے تھے چھوڑدیت��ا تھ��ا۔ اس وقت براب��ا ن��ام ان ک��ا ای��ک مش��ہور قی��دی تھ��ا۔ پس جب وہ اکٹھے ہ��وئے ت��و پیلاطس نے ان س��ے کہ��ا تم کس��ے چ��اہتے ہ��و کہ میں تمہ��اری خ��اطر چھ��وڑدوں؟ براب��ا ک��و ی��ای�( کو جو مسیح کہلاتا ہے؟ کیونکہ اسے معلوم تھ��ا کہ انہ�وں نے اس ک�و حس�د س�ے یسوع)عیس� عدالت پر بیٹھا تھا ت��و اس ک� بی��وی نے اس��ے کہلا بھیج��ا کہ ت��و پکڑوایا ہے۔ اور جب وہ تخت

آاج خواd میں اس کے س�بب س��ےبہت دکھای�ا اس راستباز سےکچھ کام نہ رکھ کیونکہ میں نے (۔۱۹تا ۱۵آایت ۲۷)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع اٹھایا ہے۔"

لیکن س��ردار ک��اہنوں اور بزرگ��وں نے مجم��ع ک��و ابھ��ارا کہ وہ براب��ا ک� رہ��ائ� اورحض��ور� مقدس میں یوں ہوا ہے: المسیح کے قت کا مطالبہ کریں۔برابا کا ذکر کلام

"یہ کس� بغاوت کے باعث جوشہر میں ہوئ� تھ� او خون نہ کرنے کے سبب سے قید(۔۱۹آایت ۲۳)دیکئھے انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع میں ڈالا گیا تھا۔"

پھر گورنر پیلاطس نے ان سے کہا " ان دونوں میں سے کس کو چاہتے ہو کہ تمہاری خاطر چھوڑدوں؟

انہوں نے کہا برابا کو پیلاطس نے ان سے کہا " پھر یس�وع ک�و ج�و مس�یح کہلات�ا ہے کی�ا ک�روں؟ س�ب نے کہ��ا اس ک�و ص�لیب دی

(۔۲۳تا ۲۱آایت ۲۷)انجی شریف ، بہ مطابق حضرت مت� رکوع جائے۔"

آانحضور سے تنہائ� میں پ��وچھ گچھ کرچک��ا یہ سن کر پیلاطس نہایت پریشان ہوا۔ وہ � مقدس میں یوں بیان ہے: تھا۔ جس کا کلام

پیلاطس" کیا تویہودیوں کا بادشا ہے؟آاپ ہ� کہتا ہے یا اوروں نے میرے حق میں تجھ سے کہ� ؟" المسیح" تو یہ بات

پیلاطس " کیا میں یہودی ہوں؟ تیری ہ� قوم اور سردار کاہنوں نے تجھ ک�و م�یرے ح�والہکیا۔ تونے کیا کیا ہے؟"

المسیح" میری بادش��اہ� اس دنی��ا ک� نہیں۔ اگرم�یری بادش�اہ� دنی��ا ک� ہ��وت� ت�و م�یرےخادم لڑتے تاکہ میں یہودیوں کے حوالہ نہ کیا جاتا۔ مگر اd میری بادشاہ� یہاں ک� نہیں"

پیلاطس " کیا توبادشاہ ہے؟ المسیح" تو خ��ود کہت��ا ہے کہ میں بادش��اہ ہ��وں ۔ میں اس ل��ئے پی��دا ہ��وا اور اس واس�طے

آاواز سنتا ہے۔" آایا ہوں کہ حق پر گواہ� دوں۔ جو کوئ� حق سے ہے میری دنیا میں

(۔۳۸تا ۳۳آایت ۱۸)دیکھئے انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع پیلاطس" حق کیا ہے؟

پیلاطس نے ایک مرتبہ پھر سردار کاہنوں اور عوام سے مخاطب ہوکرکہا۔ " اس نے کیا برائ� ک� ہے؟ میں نے اس میں قت�� ک� ک��وئ� وجہ نہیں پ��ائ�۔ پس میں

اسے پٹواکر چھوڑے دیتا ہوں ۔"آاخ��رش لیکن انہ��وں نے اس ک� ای��ک نہ س��ن� بلکہ چلاتے ہ� رہے کہ اس��ے ص��لیب دی ج��ائے ۔ ان کا چلانا کارگرہوا اور اس نے حکم دے دیا کہ ان ک� درخواست کے مطابق کیا ج��ائے۔ اس نے براب��ا ک��و ج��و قت�� وغ��ارت اور بغ��اوت کے س��بب س��ے قی��د تھ��ا رہ��ا کردی��ا اور پیک��ر معص��ومیت

۔)دیکھ��ئے انجی��حضور سیدنا عیس� المسیح کو صلیب دی�نے کے ل�ئے س�پاہیوں کے ح�والہ کردی�ا

(۔۲۵تا ۲۲آایت ۲۳شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع

ی� المسیح ک� م�وت ک��ا ذمہ وار ہ��ونے س��ے کترات�ا رہ��ا لیکن پیلاطس حضور سیدنا عیس�م مق��دس میں اس کے متعل��ق مرق��وم آاپ معصوم وبے گناہ ہیں۔ چنانچہ کلا کیونکہ وہ جانتا تھاکہ

ہے: " جب پیلاطس نے دیکھا کہ کچھ بن نہیں پڑتا بلکہ الٹا بلوا ہوت�ا جات�ا ہے ت�و پ�ان� لے کر لوگوں کے روبرو اپنے ہاتھ دھوئے او رکہا میں اس راستباز کے خون س��ے ب��ری ہ��وں۔ تم ج��انو، سب لوگوں نے جواd میں کہا اس کا خون ہماری اور ہماری اولاد ک� گردن پراس پر اس نے برابا

)انجی��کو ان ک� خاطر چھوڑدیا اور یسوع کو کوڑے لگواکر حوالہ کی��ا ت��اکہ ص��لیب دی ج��ائے "

(۔۲۶تا ۲۴آایت ۲۷شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع

کوڑوں ک� سزا روم� دستور کے مطابق جس شخص کو صلیب ک� سزا دی ج�ات� اس�ے ک�وڑے بھ� لگائے جاتے تھے۔ کوڑے سزا کا ایک حصہ تھا۔ کوڑا چمڑے کے تسموں کو بن ک��ر بنای��ا جات��ا تھا اور اس میں لوہے یا رانگے کےچھوٹے چھوٹے ٹکڑے پروئے جاتے تھے۔ اس ک� ضرd نہایتآاپ کو �ر دو جہان یہودیوں کے قیدی نہ رہے بلکہ شدید اور تکلیف دہ ہوا کرت� تھ�۔ اd مختا

بے دین روم� حکومت کے سپاہیوں کے حوالہ کردیاگیا تھا جنہو ں نے سزا دینے کا پورا پورا حقادا کیا۔ کوڑے لگنے کے بعد

" س��پاہ� اس ک��و اس ص��حن میں لے گ��ئے ج��و پرتی��ورین کہلات��ا ہے اور س��اری پلٹن ک��و بلالائے ۔اور انہوں نے اسے ارغوان� چوغہ پہنایا اور کانٹوں ک�ا ت�اج بن�ا ک�ر اس کے س�ر پ�ر رکھ�ا۔آاداd ! اور وہ اس کے س��ر پ��ر س��ر کن��ڈا اور اسے سلام ک��رنے لگے کہ اے یہودی��وں کے بادش��اہ

) انجی ش��ریف بہ مط��ابقمارتے اور اس پر تھوکتے اور گھٹنے ٹیک ٹیک کر اسے سجدہ کرتے رہے۔"

(۔۱۹تا ۱۶آایت ۱۵حضرت مرقس رکوع

(۳آایت ۱۹)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع " اور اس کے طمانچے بھ� مارے "

آاخری ی المسیح کو بچانے ک� پیلاطس ک� حضور سیدنا عیس�کوشش

ی� انجی جلی کے بغور مطالعہ سے معل��و م ہوت��ا ہے کہ پیلاطس نے حض��ور س��یدنا عیس��المسیح کو ایک مرتبہ اور بچانے ک� کوشش ک�۔

" پیلاطس نے پھر باہر جاکر لوگوں سے کہا کہ دیکھو میں اسے تمہارے پاس ب��اہر لےی�( کانٹوں کا ت��اج رکھے اور آاتا ہوں تاکہ تم جانو کہ میں اس کاکچھ جرم نہیں پاتا ۔ یسوع )عیسآادم� ! جب س��ردار ک��اہن آای��ا اور پیلاطس نے ان س��ے کہ��ا دیکھ��و یہ ارغوان� پوشاک پہ��نے ب��اہر

اورپیادوں نے اسے دیکھا تو چلا کر کہا صلیب دے صلیب ۔ "پیلاطس نے ان سے کہا کہ تم ہ� اسے لے جاؤ اور ص��لیب دو۔ کی��ونکہ میں اس ک��ا

کچھ جرم نہیں پاتا۔ " یہودیوں نے اسے جواd دیاکہ اہم اہ شریعت ہیں اور شریعت کے موافق وہ قت کے

آاپ کو خدا کا بیٹا بنایا۔ لائق ہے کیونکہ اس نے اپنے

" جب پیلاطس نے یہ ب���ات س���ن� ت���و اور بھ� ڈرا۔ اور پھ���ر قلعہ میں ج���اکر یس���وعی�( سے کہا تو کہاں کا ہے؟ )عیس

ی�( نے اسے جواd نہ دی��ا۔ پس پیلاطس نے اس س��ے کہ��ا ت��و مجھ " مگر یسوع )عیسdلو��ار ہے اور مص�ا بھ� اختی�نے ک�سے بولتا نہیں ؟ کیا تو نہیں جانتا کہ مجھے تجھ کو چھوڑدی

کرنے کا بھ� اختیار ہے؟ی�( نے اسے جواd دیاکہ اگر تجھے اوپر سے نہ دیا جات��ا ت��و ت��یرا مجھ پ��ر " یسوع )عیس

کچھ اختیار نہ ہوتا۔ اس سبب سے جس نے مجھے تیرے حوالہ کیا اس کا گناہ زیادہ ہے۔ " اس پر پیلاطس اس�ے چھوڑدی��نے میں کوش��ش ک��رنے لگ��ا۔ مگ��ر یہودی��وں نے چلا ک��رآاپ ک�و بادش�اہ کہا اگر تو اس کو چھوڑے دیتا ہے تو قیص�ر ک�ا خ�یر خ�واہ نہیں۔ج�و ک�وئ� اپ�نے

بناتا ہے وہ قیصر کا مخالف ہے۔ ی�( ک��و ب�اہر لای�ا اور اس جگہ ج�و چب��وترہ اور " پیلاطس یہ ب�اتیں س�ن ک�ر یس�وع )عیس��ت ع��دالت پ��ر بیٹھ��ا۔ یہ فس��ح ک� تی��اری ک��ا دن اورچھ��ٹے ع��بران� میں گلگت��ا کہلات� ہے ۔ تخ

گھنٹے کے قریب تھا۔ پھر اس نے یہودیوں سے کہا دیکھو یہ ہے کہ تمہارا بادشاہ ۔" پس وہ چلائے کہ لیجا ! اسے صلیب دے ۔

"پیلاطس نے ان سے کہا کیا میں تمہارے بادشاہ کو صلیب دوں؟"سردار کاہنوں نے جواd دیاکہ قیصر کے سوا ہمارا کوئ� بادشاہ نہیں۔ ۔") انجی�� ش��ریف بہ" اس پ��ر اس نے اس ک��و ان کے ح�والہ کی��ا ت�اکہ مص��لوd کی��ا ج�ائے

(۔۱۶تا ۴آایت ۱۹مطابق حضرت یوحنا رکوع

پیلاطس کمزور ارادے کا شخص تھا۔ وہ درس��ت فیص��لہ ک��رنے س��ے ڈرت��ا تھ��ا مب��ادا اس کاوقار خطرے میں پڑ جائے ۔چونکہ مجمع کا مطالبہ زور پکڑتا جاتا تھا اس ل��ئے اس نے ان کے سامنے جھ�ک ک�ر ب�دی کے س�اتھ س�مجھوتہ کرلی�ا۔ لیکن س�اتھ ہ� اس نے س�ب کے س�امنے

اپنے ہاتھ دھوکر یہ ثابت کرنا چاہا کہ وہ اس معاملہ میں بری الذمہ ہے۔

ء میں یہ��ودیہ کے ص��وبہ کاح��اکم مق��رر کی��ا۲۶پیلاطس ک��و روم� شہنش��اہ تبری��اس نے تھا۔ بعد ازاں سوریہ کے گورنر وطالیس نے اسے واپس رومہ بھیج دی��ا کی��ونکہ اس نے س��امریہ میںآاخر اس��ے ایک مذہب� تحری�ک ک��و کچل�نے کے ل��ئے ف��وج� ط��اقت اس�تعمال ک� تھ� اور ب�ال

معزول کردیا گیا۔

یہوداہ اسکریوت� ک� خودکش�ی المسیح ک��و بھگت��نے اس ک� غداری کےسبب سے جو تلخ نتائج حضور سیدنا عیس�

پڑے ان کود یکھ کر یہوداہ بڑا پیشمان ہوا۔ اس سلسلے میں انجی جلی کا ارشاد ہے کہ " جب اس کے پکڑوانے والے یہوداہ نے یہ دیکھا کہ وہ مجرم ٹھہرایا گیا تو پچھتای��ا اور

(روپے س��ردار ک��اہنوں اور بزرگ��وں کے پ��اس واپس لاک��ر کہ��ا۔ میں نے گن��اہ کی��اکہ وہ۳۰وہ تیس ) بےقصور ک�و قت� کے ل�ئے پکڑوادی�ا۔ انہ�وں نے کہ��ا ہمیں کی�ا؟ توج�ان۔ اور وہ رپی�وں ک�و مق�دسآاپ کو پھانس� دی۔ سردار کاہنوں نے روپے لے کر کہا ان میں پھینک کر چلاگیا اور جاکر اپنے ک��و ہیک�� کےخ��زانہ میں ڈالن��ا روا نہیں کی��ونکہ یہ خ��ون ک� قیمت ہے۔ پس انہ��وں نے مش��ورہ کرکے ان روپیوں سے کمار کا کھیت پردیسیوں کے دفن کرنے کے لئے خری��دا۔ اس س��بب س��ے

آاج تک خون کا کھیت کہلاتا ہے۔" (۔۸تا ۳آایت ۲۷)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع وہ کھیت

آای�ا تھ�ا۔ کی��ونکہ اا وق�وع میں اس واقعہ ک� صداقت میں ک�وئ� ش�ک نہیں کہ یہ حقیقت� کاف� عرصے تک جب کوئ� پردیس� یروشلیم میں فوت ہوجات��ا ت��واس ک� ت��دفین کے ل��ئے مق��ام� لوگ اس� قبرس��تان ک� ط��رف اش��ارہ ک�رکے اپ��ن� زب��ان میں کہ��تے "ہق�� دم�ا" جس ک�ا مطلب ہے

"خون کا کھیت۔"آاپ کے ب��ارہ حواری��وں میں زی��ادہ قاب�� ش��خص تھ��ا ۔ یہ� وجہ ہے کہ یہوداہ اس��کریوت� آاخر ک��ار اس��ے لے ڈوب��ا۔ اس نے ا اسے خزانچ� مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن روپے اور اختیار کالالچ ز خود پھانس� لے کر اپنا کام تمام کیا۔ بعض لوگ " پھانس��� " اور " مص��لوبیت " ک��و گ��ڈ م��ڈی المسیح ک� جگہ یہ�وداہ ک�و کرکے اس غلط فہم� کا شکار ہوئے ہیں کہ حضور سیدنا عیس�

ی المسیح صلیب دیا گیا تھا جیسے کہ اگلے صفحات میں دیکھیں گے کہ حضور سیدنا عیس� ک� وفات کا غیب� مشاہدہ اتنے زیادہ چشم دیدگواہوں نے کی��ا کہ اس قس��م ک� س��نگین غلط�

کا ارتکاd نا ممکن تھا۔

� عالم حضور المسیح ک� تصلیب انیس وہ مقام جہاں پر سزائے موت کے مجرموں کو قت کیا جاتا تھا۔ یروشلیم سے باہر تھ��ا۔ یہ ای��ک پہ��اڑی تھ� ج��و گلگت��ا یع��ن� کھ��وپڑی ک� جگہ کہلات� تھ�۔ جب پیلاطس نے حض��ورآاپ کو اس نے ی المسیح کے مقدمہ ک� سماعت مکم کرل� تو یہودیوں کے ایما پر سیدناعیس�آاپ آاپ کے ذات� ک��پڑے ات��روائے اور ش��اہ� چ��وغہ پہن��ا ک��ر س��پاہیوں کے ح��والہ کردی��ا۔ انہ��وں نے آاپ کے اپ��نے ک��پڑے پہن��ا ک��ر دس��تور کے کوٹھٹھوں میں اڑایا۔ پھر ارغ��وان� چ��وغہ ک��و اتروالی��ا اور

آاپ کے کندھے پر دھردیا۔ آاپ مصلوd کئے جانے والے تھے مطابق اس صلیب کو جس پر روم� حکم��ران س��زائے م��وت کے مجرم��وں ک��و مص��لوd کی��ا ک��رتے تھے۔ یہ ب��ات روم� تاریخ سےثابت ہے ۔ مجرم اپن� صلیب اٹھاکر جائے مقت�� ت��ک خ�ود لے جاتاتھ��ا۔ لیکن حض��ور� انسان� سے اپن� بے پایان محبت کے سبب ہ� س��ے ذلت آاپ نے نوع المسیح بے گناہ تھے۔

آامیز صلیب� موت گوارا ک�۔آاپ اٹھ�ائے ہ�وئے اس جگہ ی�( کو لے گئے ۔ اور وہ اپن� ص�لیب " پس وہ یسوع )عیس ت���ک ب���اہر گی���ا اور ج���و کھ���وپڑی ک� جگہ کہلات� ہے ۔ جس ک���ا ت���رجمہ ع���بران� میں گلگت���ا

(۔۱۷آایت ۱۹) انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ہے۔"

ی المسیح مختلف ع��دالتوں میں ب��ار ب��ار ک� پیش��یوں کے ب��اعث حضور سیدنا عیس��ن مب��ارک ک��وڑوں ک� ض��ربوں س��ے ش��دید آاپ ک��ا ب��د ساری رات بی��دار رہے تھے۔ اس کے علاوہ آاپ آاپ اس لکڑی ک� بھاری ص��لیب ک��و اٹھ��ائے زی��ادہ دور نہ جاس��کے۔ جب زخم� تھا۔چنانچہ نقاہت ک� وجہ سے قدم قدم پر ٹھوکر کھ��انے لگے ت��و روم� ص��وبہ دار نے ادھ��ر ادھ��ر نگ��اہ دوڑا

آادم� کو پکڑا اور اسے جائے مقت تک صلیب اٹھاکر لے جانے کا حکم دیا۔ کر ایک

آادم� کو پاکر اسے بیگ��ار میں آائے تو انہوں نے شمعون نام ایک کرین� " جب باہر (۔۳۲آایت ۲۷)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع پکڑا کہ اس ک� صلیب اٹھائے "

" اور لوگوں ک� ایک بڑی بھیڑ اور بہت س� ع��ورتیں ج��و اس�کے واس��طے روت� پیٹ��ت�ی�( نے ا ن ک� طرف پھر کر کہا اے یروشلیم تھیں اس کے پیچھے پیچھے چلیں۔یسوع )عیسآاتے ہیں ک� بیٹيو! میرے لئے نہ رو بلکہ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے رو۔ کیونکہ دیکھ��و وہ دن جن میں کہیں گے مب��ارک ہیں ب��انجھیں او روہ پیٹ ج��و نہ ج��نے اور وہ چھاتی��اں جنہ��وں نے دودھ نہ پلایا۔ اس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلو ں سے کہ ہمیں چھپالو۔ کیونکہ جب ہردرخت کے ساتھ ایسا ک��رتے ہیں ت�و س�وکھے کےس�اتھ کی�ا کچھ نہ

کیا جائے گا؟آادمی��وں ک��و بھ� ج��و ب��دکار تھے ل��ئے ج��اتے تھے کہ اس کے س��اتھ قت�� اور وہ دو اور

کئے جائیں۔ جب وہ اس جگہ پہنچے جس��ے کھ��وپڑی کہ��تے ہیں ت��و وہ��اں اس��ے مص��لوd کی��ا اور

آایت۲۳)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت لوق��ا رک��وع بدکاروں کو بھ� ایک دہن� اور دوسرے کو بائيں طرف

(۔۳۳تا ۲۷

ی المس�یح ک�و*1اکثر قاریئن کرام صلیب ک� ش�ک س�ے جس پ�ر حض�ور س�یدنا عیس�� مصلوd کیا گیا تھا واقف ہوں گے۔صلیب کو زمین پر رکھ کر مجرم کو اس پر پشت کے ب اس طرح لٹایا جاتاکہ مجرم کا سر اوپر ک� طرف لکڑی پر ٹ��ک جات��ا۔ پھ��ر دون��وں ہ��اتھ دائیں اور ب��ائيں کن��دوں پ��ر پھیلادئے ج��اتے اور پ��اؤں نیچے ک� ط��رف ہ��وتے تھے۔ دون��وں ہ��اتھوں ک� ہتھیلی��وں میں میخیں ٹھونک کر انہیں کندوں سے جڑدیا جاتا۔ پھر دونوں پاؤں کو اوپر تلے رکھ کر ای��ک لم��ب� کی سے لکڑی پر جڑ دیتے تھے۔ بعد ازاں وہ صلیب کو کھڑا کرتے اور بڑے جھٹکے کے س��اتھ اس گڑھے میں رکھ دیتے جو صلیب کو گاڑنے کے لئے زمین میں کھودا جات��ا تھ��ا۔ اس جھٹکے

سے مصلوd کو شدید جس��مان� تکلی��ف ہ��وت� تھ� ۔ بعض مص��لوd ت��و ای��ک پ��ورے دن س��ےبھ� زیادہ شدید اذیت میں صلیب پر لٹکے رہتے اور بڑی مشک سے وفات پاتے تھے۔

۔۱۱ پر نوٹ نمبر ۲۹۵ دیکھئے صفحہ نمبر *۔1

ی المسیح مرتے دم تک تمام لوگوں س��ے یہ��اں ت��ک �ب انسانیت حضور سیدنا عیس� محآا پ کے ہ��اتھوں اور پ��اؤں میں کی�� ٹھ��ونکے کہ اپنے دش��منوں س��ے بھ� محبت ک�رتے رہے۔ جب

آاپ نے اس سخت جسمان� اذیت ک� حالت میں بھ� دعا مانگ� کہ جارہے تھے تو " اے باپ ان کو معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں"

(۔۳۴آایت ۲۳)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع

آاپ ک��و دوا مل� ہ��وئ� مے دی �ت درد کم ک��رنے کے ل��ئے بعض ک��ر م فرم��اؤں نے ش��دآاپ کو صبح کے نوبجے مصلوd کیا گیا آاپ نے چکھ کر پینا نہ چاہا۔ )دیکھ��ئے انجی�� ش��ریفمگر

(۔۲۳آایت ۱۵بہ مطابق حضرت مرقس رکوع

یس��وع ناص��ری"پیلاطس نے ایک کتابہ لکھ کر ص��لیب پ��ر لگادی��ا۔ اس میں لکھ��ا تھ��ا ۔ اس کت��ابہ ک��و بہت س��ے یہودی�وں نے پڑھ��ا۔اس ل��ئے کہ وہ مق��ام جہ��اں یس�وعیہودیوں کا بادش�اہ

مصلوd ہوا شہر کے نزدیک تھا اور وہ عبران� ، لاطین� اور یونان� میں لکھا ہ��وا تھ��ا۔ پس یہودی��وں کے سردار کاہن نے پیلاطس س�ے کہ��ا یہودی�وں ک�ا بادش�اہ ہ لکھ بلکہ یہ کہ اس نے کہ��ا میں

یہودیوں کا بادشاہ ہوں۔پیلاطس نے جواd دیاکہ میں نے جولکھ دیا وہ لکھ دیا۔ی�( ک�و مص�لوd ک�رچکے ت�و اس کے ک�پڑے لے ک�ر چ�ار " جب سپاہ� یس�وع )عیس� حصے کئے ۔ ہر سپاہ� کے لئے ایک حصہ اور اس کا کرتہ بھ� لیا۔ یہ کرتہ بن سلاسر کا بن�ا ہ��واآاپس میں کہا اسے پھاڑیں نہیں بلکہ اس پر قرعہ ڈالیں ت��اکہ معل��وم تھا۔ اس لئے انہو ں نے

ہوکہ کس کا نکلتا ہے۔ یہ اس لئے ہوا کہ وہ نوشتہ پورا ہوجوکہتا ہے کہ نے میرے کپڑے بانٹ لئے *1"انہوں

(۔۱۹آایت ۱۹۔")انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع اور میری پوشاک پر قرعہ ڈالا

۔۱۸آایت ۲۲ زبور شریف رکوع *۔1

توریت شریف ، زبور شریف اور دیگر انبیائے کرام کے صحائف میں مس��یح موع��ود ک�آاپ ک� المناک موت کے بار ے میں متعدد پیش��ین گوئي��اں آاپ ک� زندگ� کے واقعات اور آامد ،آاپ � س�عادت س��ے بھ� پہلے موج��ود تھے۔ اس ل��ئے آاپ ک� ولادت محف��وظ ہیں۔یہ پ��اک نوش�تے

ک� بعثت کے بعد انہیں تبدی کرنا نا ممکن تھا۔

صدیقہ مریم اپنے لخت جگر ک� صلیب کے پاسی�( ک� ص��لیب کے پ��اس اس ک� م��اں اور اس��ک� م��اں ک� بہن م��ریم " یس��وع )عیس��ی�( نے اپ��ن� م��اں اور اس ش��اگرد ک��و کلوپاس ک� بیوی اورمریم مگدلین� کھڑی تھیں۔یسوع )عیس�� جس سے محبت رکھتا تھا پا س کھڑے دیکھ کر ماں س��ے کہ��ا اے ع��ورت، دیکھ ت��یرا بیٹ��ا یہ ہے۔ پھر شاگرد سے کہا دیکھ تیری م�اں یہ ہے اور اس�� وقت س�ے وہ ش�اگرد اس�ے اپ�نے گھ�ر لے

(۔۲۷تا ۲۵آایت ۱۹گیا" )انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ی المسیح نے جان کن� ک� حالت میں بھ� اپن� والدہ محترمہ کو حضور سیدنا عیس�آاپ نے اپنے پیارے ش�اگرد حض�رت یوحن�ا ک�و ان ک� دیکھ بھ��ال کے ل��ئے فراموش نہ کیا چنانچہ مقرر کیا۔اگر متعرضین کے خیال کے بموجب جناd المسیح کے عوض یہوداہ اسکریوت� یا کوئ� اور شخص مصلوd کیا جاتا۔ تو وہ کبھ� صدیقہ مریم کو حض��رت یوحن��ا کے س��پرد نہ کرت��ا اورآاپ ک� وال��دہ مح��ترمہ اپ��نے بی��ٹے ک��و پہچ��اننے میں آاک��ر کھ��ڑی ہ��وتیں۔ نہ وہ ص��لیب کے نیچے آاپ کے پہچ��اننے میں غل��ط آاپ ک� پیروکار دیگر خواتین بھ� کبھ� غلط� نہیں کرسکت� تھیں۔آاپ کے ح��وارئین فہم� ک��ا ش��کار نہیں ہوس��کت� تھیں۔ اور نہ ہ� روم� افس��ر ، س��ردار ک��اہن اور� کام�� تھ��ا کہ آاپ کوپہچ��اننے میں غلط� کرس��کتے تھے۔ انہیں یقین میں سے حضرت یوحنا آاپ صلیب پرلٹکاہوا شخص واقع� مسیح ناصری ہ� ہے۔ مزید یہ کہ صلیب� اذیت میں جو ص��بر آاپ جیس� عظیم آاپ نے جان کن� ک� حالت میں ادا فرمائے ان ک� نے دکھایا اور وہ الفاظ جو

ہست� سے ہ� توقع ک� جاسکت� تھ�۔

آاپ ک� صلیب کے گرد جمع تھے ت��و س��ورج تین آاپ کےدوست اور دشمن جس وقت آاd وتاd سے چمکتا رہا مگر دوپہر کے بعد اس ک� تابان� زائ ہوگ��ئ� اور اس گھنٹے تک بڑی آاث�ار نمای�اں ہ�ونے لگے ۔ کے ساتھ ہ� تمام علاقہ پر ت�اریک� چھ��اگئ� اور ای�ک ب�ڑے طوف�ان کے آاپ ک��ا تمس�خر اڑارہے آاپ ک� مصلوبیت کا تماشہ دیکھ رہا تھا او رک��اہن اور دیگ��ر ل��وگ مجمع

آائے تھے۔ تھے۔ ان میں وہ زائرین بھ� شام تھے جو عید فسح منانے کے لئے یروشلیم " اور راہ چل��نے والے س��ر ہلا ہلا ک��ر اس پ��ر لعن طعن ک��رتے او رکہ��تے تھے کہ واہ! مقدس کے ڈھانے والے اور تین دن میں بنانے والے صلیب پر سے اتر کر اپنے ت��ئیں بچ��ا۔ اس���آاپس میں ٹھٹھے س��ے کہ��تے تھے۔ اس نے اوروں طرح سردار کاہن بھ� فقیہوں کے ساتھ م ک��ر آائے ت��اکہ ہم کو بچایا۔ اپنے تیئں نہیں بچا سکتا۔ اسرائی کا بادشاہ مسیح اd صلیب پر سے ات��ر دیکھ کر ایمان لائیں اور جو اس کے س��اتھ مص��لوd ہ��وئے تھے وہ اس پ��رلعن طعن ک��رتے تھے۔

(۔۳۲تا ۲۹آایت ۱۵")انجی شریف بہ مطابق حضر ت مرقس رکوع

دو ڈاکوdلو�و دو ڈاکومص�ائیں ج�یح کےدائیں اور ب�ی المس �ر معصومیت حضور سیدنا عیس� پیک

آاپ کے بارے میں متضاد نظریہ رکھتے تھے۔ ہوئے تھے وہ آاپ کو لعنت ملامت کرتے ہوئے کہا ایک ڈاکو نے

آاپ کو اور ہم کو بچا۔" " کیا تومسیح نہیں؟ تو اپنے مگر دوسرے نے اسے جھڑک کرکہا

" کیا تو خدا سے بھ� نہیں ڈرتا حالانکہ اس� سزا میں گرفتار ہے ؟او رہماری س�زا ت��و واج��ب� ہے کی��ونکہ اپ��نے ک��اموں ک��ا ب��دلہ پ��ارہے ہیں ؟ لیکن اس نے ک��وئ� بے ج��ا ک��ام نہیں

کیا۔" پھر اس نے حضور المسیح سے مخاطب ہوکر کہا آائے تو مجھے یاد کرنا ۔" " جب تو اپن� بادشاہ� میں

حضورالمسیح نے فرمایا

آاج ہ� تو میرے ساتھ فردوس میں ہوگا ت��ا۳۹آایت ۲۳۔")انجی شریف بہ مط��ابق حض��رت لوق��ا رک��وع "

(۔۴۳

آاپ آاخ�ری لمح��ات میں ای�ک ب�دکار اپ�ن� ب�دکاری اور � برح�ق ک� زن�دگ� کے ہ�ادیی ک� بے گناہ� کا اقرار کرت��ا ہے ۔ اس میں ت�وبہ ک� پک��ار کے ج��واd میں حض��ور س��یدنا عیس�� المس��یح اس کے گن��اہوں ک� مع��اف� اور اس کے اس��� دن بہش��ت میں داخ�� ہ��ونے ک��ا وع��دہ فرماتے ہیں۔اس ڈاکو ک� کہان� س��ے یہ ث��ابت ہے کہ ب��ڑے س��ے ب��ڑے گنہگ��ار کے ل��ئے بہش��ت

میں داخ ہونے ک� امید بشرطیکہ وہ خلوص دل سے توبہ کرے ۔ لیکن س��ردار ک��اہنوں ک� طعنہ زن� اس ب��ات پ��ر دلالت ک��رت� ہے کہ وہ حض��ور س��یدناآاپ موت کے دروازوں میں داخ ہوکر موت ی المسیح کے اس منصوبہ سے بے خبر تھے کہ عیس�آاپ کے م��ردوں میں س��ے ج� اٹھ��نے کے تھ��وڑے آاپ کے ای��ک پ��یرو نے آائیں گے ۔ پ��ر غ��الب

عرصہ بعد درج ذی بیان قلم بند کیا: " پس جس صورت میں کہ لڑکے خون اور گوشت میں شریک ہیں تو وہ خ��ود بھ� ان ک� طرح ان میں شریک ہواتاکہ موت کے وسیلہ سے اس کو جسے م��وت پ��ر ق��درت حاص�� تھ�

� عبرانیوں رکوع یعن� ابلیس کو تباہ کردئے " �ط اہ (۔۱۴آایت ۲)انجی شریف خ

ی المس�یح ص�لیب پ�ر ا س روح�ان� وجس�مان� اذیت کے موق�ع پ�ر حضور س�یدنا عیس��تمام دنیا کے گناہ اپنے اوپر اٹھائے ہوتے تھے۔

" جو گناہ سے واقف نہ تھا اس� ک��و اس نے ہم��ارے واس��طے گن��اہ ٹھہرای��ا ت��اکہ ہم اس� کرنتھیوں رکوع میں ہوکر خدا ک� راستبازی ہوجائیں۔" �ط دو ئم اہ (۔۲۱آایت ۵)انجی شریف خ

� معص��ومیت حض��ور المس��یح ک��ا خ��ون ہ� ج��و بط��ور کف��ارہ ص��لیب پ��ر بہای��ا گی��ا پیک��ر�م مق��دس میں خدائے عادل کے ہمیں معاف ک��رنے کے ل��ئے بنی��اد ٹھہ��را ہے۔ اس کے متعل��ق کلا

یوں ارشاد ہے عبرانیوں رکوع " بغیر خون بہائے معاف� نہیں ہوت�۔"� �ط اہ (۔۲۲آایت ۹)انجی شریف خ

اور

آاپ کو قربان کیا۔" " اسے وہ ایک ہ� بار کر گزرا جس وقت اپنے عبرانیوں رکوع � �ط اہ (۔۲۷آایت ۷)انجی شریف خ

ی ی�( کے وہ الف�اظ ج�و انہ�وں نے حض�ور س�یدنا عیس�� حض�رت یوحن�ا اص�طباغ� )یح�یالمسیح ک� طرف اشارہ کرتے ہوئے کہے تھے وہ اd پورے ہورہے تھے کہ

"دیکھو یہ خدا کا برہ ہے جو دنیا کا گناہ اٹھائے جاتا ہے۔ یہ وہ� ہے جس ک� ب��ابتآاتا ہے جو مجھ سے مقدم ٹھہ��را ہے کی�ونکہ وہ مجھ میں نے کہا تھا کہ ایک شخص میرے بعد

(۔۳۰تا ۲۹آایت ۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع سے پہلے تھا۔"

ی المس��یح ک� بعثت مب��ارک س��ے پہلے کے پن��درہ س��و س��ال ک� حض��ور س��یدنا عیس���آاپ نے آاپ ک� صلیب� وفات سے تکمی� ہ�وئ�۔ درے ک� قربانیوں کے نبوت� پہلو ک� فسح کے ب

ی� سے چھوٹ جائے۔ �ن مبارک گنہگار انسان ک� جگہ بہایا تاکہ اd وہ غضب الہ اپنا خو

� حیات ک� وفات منبع آاپ ک� تمام دنیا کا گناہ اپنے اوپ��ر اٹھ��انے ک� روح��ان� اذیت ک�ا ان��دازه لگ��انے س��ے

اا عاجز ہے۔انجی نویس یوں رقمطراز ہے: خاک� انسان قعط دوپہر سے لے کر تیسرے پہ��ر ت�ک تم�ام مل�ک میں ان�دھیرا چھای�ا رہ�ا اور تیس�رے پہ�رآاواز سے چلا کر کہا ایل� ایل� لم�ا ش�بقتن� ؟یع��ن� اے م�یرے ی�( نے بڑی کے قریب یسوع )عیس

؟ ج��و وہ��اں کھ��ڑے تھے ان میں س��ے بعض*1خدا اے میرے خدا !تونے مجھے کی��وں چھوڑدی��ا اا ان میں سے ایک ش��خص دوڑا اور س��پنج لے ک��ر نے سن کر کہا یہ ایلیاہ کو پکارتا ہے اور فور سرکہ میں ڈبویا اور سر کنڈے پر رکھ کر اس�ے چس�ایا مگ�ر ب�اقیوں نے کہ�ا ٹھہ�ر ج�اؤ دیکھیں ت�و

آاتا ہے۔یا نہیں ۔" (۔۴۹تا ۴۵آایت ۲۷)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع ایلیاہ اسے بچانے

کو ملاحظہ فرمائیے۔۱آایت ۲۲ زبور شریف رکوع *۔1

آاخر الفاظ تین بجے سہ پہر کے قریب فرمائے : ہادئ برحق نے

)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوق��ا" اے باپ! میں اپن� روح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں "

(۔۴۶آایت ۲۳رکوع

آاواز سے چلائے ۔ آاپ بلند پھر " تمام ہوا۔"

آاپ نے سر جھکا کرجان دے دی۔ آایت۱۹)انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت یوحن��ا رک��وع اس پر

(۔۳۰

ی المس��یح جس مقص��د ک��و پ��ایہ تکمی�� ت��ک � ع��المین حض��ور س��یدنا عیس��� رحمتآاپ نے اپ��ن� ج�ان د ارض پ��ر تش�ریف لائے تھےوہ اd پ�ورا ہوچک�ا تھ��ا۔ پہنچانے کے لئے اس کرہ عزیز گنہگار نس انسان� کے لئے بطور کفارہ دے کر ابلیس کے منص��وبوں ک�و کچ�� دی��ا۔ تینآاپ قبر سے ج� اٹھ کر اس فتح عظیم ک�ا علانیہ ثب��وت دی�نے والے تھے۔ مگ�ر اس دن کے بعد آانے کے مطلب اور اس کے نت��ائج پ�ر غ�ور ک�ریں۔ آانحضور کے موت پر غالب سے پیشتر کہ ہم آاپ ک� وف��ات اور کفن دفن ک��و قطع� اور لاز م ہے کہ ہم ان واقع��ات ک��ا کھ��وج لگ��ائیں ج��و حتم� طور پر ثابت کرتے ہیں۔ کیونکہ انہ� ک� شہادت پر بعد ک� تاریخ کا دارومدار ہے۔

" تمام ہوا" ک� فتح ک� للکار کے وقت یکے بعد دیگرے متعدد واقع��ات ب��ڑی س�رعتسے وقوع پذیر ہوئے ۔

" مقدس کا پردہ اوپر سے نیچے تک پھٹ کر دوٹکڑے ہوگیا اور زمین لرزی اور چٹ��انیں تڑک گئیں۔ اور قبریں کھ گ��ئیں اور بہت س��ے جس��م ان مقدس��و ں کے ج��و س��وگئے تھے ج� اٹھے۔ اور اس کے ج� اٹھنے کے بع��د ق��بروں س��ے نک�� ک��ر مق��دس ش��ہر میں گ��ئے اوربہت��وں ک��وی�( ک� نگہب��ان� ک��رتے تھے دکھ��ائ� دي��ئے۔پس ص��وبہ دار اور ج��و اس کے س��اتھ یس��وع )عیس�� بھونچال اور تمام ماجرا دیکھ کر بہت ہ� ڈر کر کہ��نے لگے کہ بے ش��ک یہ خ��دا ک�ا بیٹ��ا تھ��ا۔"

(۔۵۴تا ۵۱آایت ۲۷)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع

ی�( ک� خ�دمت ک�رت� ہ�وئ� اس " وہاں بہت س� ع�ورتیں ج�و گلی� س�ے یس�وع )عیس�dو��دلین� تھ� اور یعق��ریم مگ��آائ� تھیں دور سے دیکھ رہ� تھیں۔ ان میں م کے پیچھے پیچھے

آایات اور یوسیس ک� ما ں مریم اور زبدی کے بیٹوں ک� ماں " (۔۵۵،۵۶)

آائےتھے یہ ماجرا دیکھ کر چھات� پیٹتے ہوئے لوٹ گ��ئے " اور جتنے لوگ اس نظارہ کو آائ� تھیں دور ۔ اور اس کے س��ب ج��ان پہچ��ان اور وہ ع��ورتیں ج��و گلی�� س��ے اس کے س��اتھ

(۔۴۹تا ۴۸آایت ۲۳) انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع کھڑی یہ باتیں دیکھ رہ� تھیں۔"

آائے ان ک� تفص��ی چش��م دی��د گ��واہ نے ذی�� کے بع��د ازاں ج��و واقع��ات ظہ��ور میں الفاظ میں ک� ہے۔

" پس چونکہ تیاری ک�ا دن تھ�ا یہودی�وں نے پیلاطس س�ے درخواس�ت ک� کہ ان ک� ٹانگیں ت�وڑدی ج�ائیں اور لاش�یں ات�ارل� ج�ائيں ت�اکہ س�بت کے دن ص��لیب پ�ر نہ رہیں کی�ونکہ وہآاکر پہلے اور دوس��رے ش��خص ک� ٹ��انگیں ت��وڑیں ج��و سبت ایک خاص دن تھا۔ پس سپاہیوں نے آاک�ر دیکھ�ا ی�( کے پ�اس اس کے ساتھ مصلوd ہوئے تھے۔ لیکن جب انہوں نے یس�وع )عیس� کہ وہ مرچکا ہے تو اسک� ٹانگیں نہ ت��وڑیں۔ مگ��ر ان میں س��ے ای��ک س��پاہ� نے بھ��الے س��ے ان ک� پسل� چھیدی اورف� الفور سے خون اورپان� بہہ نکلا جس نے دیکھا ہے اس� نے گواہ� دی ہے اور اس ک� گواہ� سچ� ہے اور وہ جانتا ہے کہ سچ کہت��ا ہے کہ ت��اکہ تم بھ� ایم��ان لاؤ۔یہ باتیں اس لئے ہوئیں کہ یہ نوشتہ پورا ہو کہ اس ک� کوئ� ہڈی نہ توڑی ج�ائے گ�۔پھ��ر ای��ک اور

نوشتہ کہتاہے کہ جسے انہوں نے چھیدا اس پر نظر کریں گے ۔ی�( ک��ا ش��اگرد تھ��ا " ان باتوں کے بعد ارمتیہ کے رہنے والے یوسف نے جو یسوع )عیس��ی�( لاش لے )لیکن یہودیوں کے ڈر سے خفیہ طور پر (پیلاطس سے اجازت چاہ� کہ یسوع )عیس��

(۔۳۸تا ۳۱آایت ۱۹)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع جائے ۔"

" اور پیلاطس نے تعجب کی���ا کہ وہ ایس���ا جل���د مرگی���ا اور ص���وبہ دار ک���و بلا ک���ر اس سےپوچھا کہ اس کو مرے ہوئے دیر ہوگئ� ؟ جب صوبہ دار سے حال معلوم کرلیا تو لاش یوسف

(۔۴۵تا ۴۴آایت ۱۵)انجی شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع ک� دلادی۔"

آادم� تھے۔وہ یہودی��وں ک� ارمتیہ شہر کے شخص حضرت یوسف بڑے نیک اور راس��تباز� عالیہ کے رکن بھ� تھے۔ مگ��ر ان کے ک��ام اور مش��ورہ س��ے متف��ق نہ تھے۔ )دیکھ��ئے انجی��عدالت

(۔۵۱آایت ۲۳شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع

یی لگادی�ا ت��و دو ی� المس�یح پ�ر م��وت ک�ا فت��و �ر عدالت نے حضور سیدنا عیس�� جب صد آادمیوں نے اس کے حق میں ووٹ نہیں دیئے۔ ایک تو یہ� حض��رت یوس��ف اور دوس��رے حض��رت

آائے تھے۔*1نیکیدیمس آاپ سے ملنے تھے جورات کوچھپ کر ی المس��یح �ی برحق حض��ور س��یدنا عیس��� �م عالم کے متعدد وبلند مرتبت حضرات ہاد اقوا ک� تعلیم��ات ک��و ب��ڑی ق��درومنزلت ک� نگ��اہ س��ے دیکھ��تے ہیں، لیکن وہ ارم��تیہ کے حض��رات یوسف اور حضرت نیکدیمس ک� طرح ڈر کے مارے اپنے ایمان کا علانیہ اظہار نہیں کرتے ۔آاپ ک��و حض��ور کے پ��یرو ظ��اہر ک��رنے آان پڑتا ہے تو وہ بڑی دلیری سے اپنے مگر جب نازک وقت

سے دریغ نہیں کرتے ۔ ۵۷، ۵۵ دیکھئے صفحات *۔1

�ن مبارک حضور المسیح ک� تدفیآانحض��ور کے خفیہ ش��اگرد تھے ارمتیہ کے حض��رت یوس��ف اور حض��رت نیکی��دیمس ج��و آاپ ک� تدفین کاانتظام اپ�نے ہ�اتھ میں لی�ا جس کے متعل�ق ای�ک چش�م دی�د گ�واہ ی�وں انہوں نے

رقمطراز ہے۔آايا ۔ جو پہلے یس��وع آاکر اس ک� لاش لے گیا۔ اور نیکدیمس بھ� " پس وہ )یوسف ( اود ملا ہوا لای��ا۔ پس انہ��وں نے یس��وع ار اور ع کے پاس رات کو گیا تھا او رپچاس سیر کے قریب می�( ک� لاش لے کر اسے سوت� کپڑے میں خوشبودار چ��یزوں کے س��اتھ کفنای��ا جس ط��رح )عیس

کہ یہودیوں میں دفن کرنے ک�ا دس��تور ہے۔ اور جس جگہ وہ مص�لوd ہ��وا وہ��اں ای�ک ب�اغ تھ��ا اور اس میں ای��ک ن��ئ� ق��بر تھ� جس میں کبھ� ک��وئ� نہ رکھ��ا گی��ا تھ��ا۔ پس انہ��وں نے یہودی��وں ک�

ی�( ک��و وہیں رکھ دی�ا کی��ونکہ ق��بر نزدی�ک تھ�۔" )انجی�� ش��ریف بہتیاری کے دن باعث یسوع )عیس��

(۔۴۲تا ۳۸آایت ۱۹مطابق حضرت یوحنا رکوع

آافت��اd کے بع��د ش��روع ہوت��ا تھ��ا۔ ش��ریعت کے مط��ابق � dرو��و غ�سبت کا دن جمعہ ک س��بت کے دن ک��ام ک��رنے ک� س��خت مم��انعت تھ�۔ جب حض��رت یوس��ف نے پیلاطس س��ے� مب�ارک م�انگ� ت�و وہ چ�ار بجے کے بع�د ک�ا وقت ہوگ��ا۔ ی المس�یح ک� میت حضور سیدنا عیس�� مبارک کو صلیب پر سے اتار کر اس غار نم��اقبر میں ب��ڑے اح��ترام آاپ کے جسم پس انہوں نے اا اپ�نے خان�دان کے ل�ئے بن�وائ� تھ�۔ پھ�ر ای�ک ب�ڑے سے دفن کردیا۔جو حضرت یوسف نے غالب��م مقدس میں پتھر سے جوبڑی چک� کے پاٹ کے مشابہ تھا اس غار کامنہ بند کردیا گیا ۔ کلا

اس ک� بابت یوں ارشاد ہے:آائ� تھیں پیچھے پیچھے ج��اکر اس ق��بر " ان عورتوں نے جو اس کے ساتھ گلی س��ے کو دیکھا اور یہ بھ� کہ اس ک� لاش کس ط�رح رکھ� گ�ئ� ۔ اور ل�وٹ ک�ر خوش�بودار چ�یزیں

(۔۵۵آایت ۲۳)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع اور عطر تیار کیا"

آاغاز ہوتا تھا۔ اس لئے یہ اا ساڑھے چھے بجے سبت کا چونکہ جمعہ ک� شام کو تقریب نا ممکن تھا کہ اتنے قلی عرصہ میں مخصوص رسومات کے مطابق میت کو کفنایا اور دفنای�ای المسیح کے دوستوں نے مشورہ کیا کہ سبت کے بعد اتوار ک��و جاتا۔ پس حضور سیدنا عیس�� جنازہ ادارک��ریں گے ۔ ان میں س�ے کس��� آاکر مناسب اورباعزت طریقہ سے رسم صبح سویرے ی آاپ م��ردوں میں س��ے ج� اٹھیں گے ۔ گ��و حض��ور س��یدنا عیس��� ک��و بھ� یہ امی��د نہیں تھ� کہ آاپ کے پ�یرواس بھی�د المسیح نے بار ہا ارشاد فرمایا تھاکہ میں تیسرے دن زندہ ہوجاؤں گا ت�اہم

کو سمجھنے اور اس کا یقین کرنے سے قاصررہے۔

� مبارک پرسرکاری مہر ی المسیح ک� قبر حضور سیدنا عیس� سردار" سردار کاہنوں اورفریسیوں نے پیلاطس کے پاس جمع ہ��وکر کہ��ا خداون��د ! ہمیں یاد ہے کہ اس دھوکے باز نے جیتے ج� کہا تھا میں تین دن کے بعد ج� اٹھو ں گا۔پس حکمآاک��ر دے کہ تیسرے دن تک قبر ک� نگہب��ان� ک� ج��ائے ۔ کہیں ایس��ا نہ ہ��و کہ اس کے ش��اگرد اسے چرالے ج��ائيں اور لوگ��وں س��ے کہہ دیں کہ وہ م��ردوں میں س��ے ج� اٹھ��ا اور یہ پچھلا دھوک��ا

پہلے سے بھ� برا۔ "پیلاطس نے ان سے کہا تمہارے پاس پہرے والے ہیں جاؤجہاں ت��ک تم س�ے ہوس�کے اس ک� نگہبان� کرو۔ پس وہ پہرے والوں کو ساتھ لے ک��ر گ��ئے اورپتھ��ر پ��ر مہ��ر ک��رکے ق��بر ک�

(۔۶۶تا ۶۲آایت ۲۷)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع نگہبان� ک�۔"

آات��ا ہے کہ حض��ور المس��یح ک� وف�ات ی� ک��اغیب� ہ��اتھ نظ��ر اس تمام انتظام میں خدا تعال� بدن ک� حقیقت کے معتبر ثبوتوں کو محف��وظ کی��ا ج��ائے ۔ چن��انچہ گ��ورنر ک� تدفین اور قیامت طرف سے تربیت یافتہ روم� سپاہیوں کا دستہ اس مہر شدہ قبرک� نگران� پر مق��رر کردی��ا گی��ا۔ ق��براا نہیں رہ��ا تھ��ا۔ ای��ک پر حکومت روم ک� مہر کے لگ جانے شہادت میں ردوبدل کا امکان قطع��آاپک� پس�ل� مب�ارک کوچھی�د ک�ر مہی�ا آاپ ک� وف�ات ک�ا حتم� ثب�وت پہلے ہ� روم� س�پاہ� ت�و

کرچکا تھا۔ آاپ اپن� وف��ات کے بع��د ی المسیح نے پیشین گوئ� فرمائ� تھ� کہ حضور سیدنا عیس�آافتاd تک مان�ا جات�ا تھ��ا۔ ان تین دن�وں تیسرے دن ج� اٹھیں گے ۔ اس زمانہ میں پورا دن طلوع اا تین بجے وف���ات پ���ائ� تھ�۔ میں س���ے پہلا دن جمعہ تھ���ا۔ جن���اd المس���یح نے اس دن تقریب���آاپ کے ح�وار ی دوسرے دن یع��ن� س�بت ی�ا م�روجہ س�نیچر ک�و ک�وئ� ب�ات وق�وع پ�ذیر نہ ہ��وئ� ۔آاپ ک� وف�ات ک�ا س��وگ من��اتے رہے ۔ تیس�را دن پہ��رے نہ��ایت دل شکس��تگ� ک� ح��الت میں داروں کےبدلنے سےشروع ہوتا ہے۔روم� فوج� قواعد کے مط��ابق پہ��رے داررات ک��و تب��دی ک��ئے جاتے تھے۔ اتوار کے صبح س�ویرے پیش�تر اس کے کہ ش�فق پھ��وٹے ای�ک نہ�ایت ح�یران کن واقعہ

پھوٹے ایک نہایت ح��یران کن واقعہ رونم��ا ہ��وا جس نے تم��ام ت��اریخ انس��ان� ک��ارخ پلٹ ک��ر رکھدیا۔

آاغاز نئے ہفتہ کا پہلا دن۔ ایک نئے زمانہ کا موت پر فتح حضور المسیح کا قبر سے ج� اٹھنا

� حق سے نہایت غ��وروفکر سیرت المسیح کےتاریخ� واقعات کا یہ سلسلہ تمام متلاشیانکامطالبہ کرتاہے۔

آاپ ک� میت پر ملنے کے ل�ئے خوش�بودار مص�الحہ تی�ار رکھ��ا خواتین کے دوگروہوں نے اا ان کے علم میں یہ بات نہیں تھ� کہ قبر پر پہرہ بٹھادیاگیا ہے ۔ وہ صرف اس ب��ات تھا۔ غالب کے لئے فکرمند تھیں کہ ان ک� خاطر اس بھاری پتھر کو ج��و ق��بر کے منہ پ��ر رکھ��ا ہ��وا ہے ک��ون ہٹائےگ��ا۔ جب مح��ترمہ س��لوم�، م��ریم مگ��دلین� اور یعق��وd ک� م��اں م��ریم پ��ر مش��تم گ��روہ منہ

اندھیرے اٹھ کر قبر ک� طرف روانہ ہوئیں تو وہ آاپس میں کہت� تھیں کہ ہمارے لئےپتھر کو قبر کے منہ سے کون لڑھکا يئگا؟" " )انجی���

(۔۳آایت ۱۶شریف بہ مطابق حضرت مرقس رکوع

اا اس� وقت تقریبآاک��ر پتھ��ر ک��و آاسمان سے اترا اور پ��اس آایا کیونکہ خداوند کا فرشتہ " ایک بڑا بھونچال لڑھکادیا اور اس پر بیٹھ گیا۔اس ک� ص��ورت بجل� ک� مانن��د تھ� اور اس ک� پوش��اک ب��رف ک�

۔") انجی�� ش��ریف بہمانند سفید تھ�۔ اور اس کے ڈر سے نگہبان کانپ اٹھے اور م��ردہ س��ے ہوگ��ئے

(۔۴تا ۲آایت ۲۸مطابق مت� رکوع

ی� کے فرشتہ نے اس پتھر کو قبر کے منہ سے ہٹادیا تھا ت��اکہ ہ��ر ش��خص دیکھ خدا تعالآانحضور ک� لاش مبارک وہ��اں نہیں ہے ۔ ص��بح س��ویرے جب خ�واتین ق��بر کے نزدی�ک سکے کہ آاچک��ا ہے ۔ پہری��دار م�ردہ س�ے پہنچیں تو انہیں معل�وم ہ��واکہ ک��وئ� غ��یرمعمول� واقعہ ظہ��ور میں

زمین پرپڑے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ نہایت پریشان ہوئيں اورچ��ونکہ ان کے س��اتھ ک��وئ� م��رد نہیں تھا اس لئے انہوں نے مریم مگدلین� کوجو ان میں سب میں کم عمر تھیں حض��رت پط��رساا دوسری خواتین ق��بر س��ے کچھ فاص�لہ پ��ر خ��وفزدہ اورحضرت یوحنا کوبلانے کے لئے بھیجا ۔ غالب

�م مقدس میں مریم مگدلین� کے بارے میں یوں ارشاد ہوا ہے: ہوکر ٹھہرگئیں۔ کلا " پس وہ شمعون پطرس اور اس دوس�رے ش�اگرد کے پ�اس جس�ے یس�وع عزی�ز رکھت�ا تھ��ا دوڑی ہوئ� گئ� اور ان سے کہا کہ خداوند کو ق��بر س��ے نک�ال لے گ��ئے اور ہمیں معل�وم نہیں کہ

(۔۲آایت ۲۰) انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع اسے کہاں رکھ دیا"

کچھ عرصہ کے بعد جب صبح صادق ک� روشن� پھیلنے لگ� ت��و ب� ب� س��لوم� او رآائیں توایک یعقوd ک� ماں مریم ڈرتے ڈرتے قبر کے پاس

ی�( ک��و " فرشتہ نے عورتوں سے کہا تم نہ ڈرو کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم یس��وع )عیس��آاؤ ڈھونڈت� ہو جو مصلوd ہوا تھا۔وہ یہاں نہیں ہے کیونکہ اپنے کہ��نے کے مط��ابق ج� اٹھ��ا ہے۔ یہ جگہدیکھو جہاں خداوند پڑا تھا۔ اور جل��د ج��اکر اس کے ش��اگردوں س��ے کہ��و کہ م��ردوں میں س��ے ج� اٹھ��ا ہے اوردیکھ��و وہ تم س��ے پہلے گلی�� ک��و جات��ا ہے ۔ وہ��اں تم اس��ے دیکھ��و گے ۔ دیکھو میں نے تم س�ے کہہ دی�ا ہے۔ اور وہ خ�وف اور ب�ڑی خوش�� کےس�اتھ ق��بر س�ے جل�د روانہ

(۔۸تا ۵آایت ۲۸) انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع ہوکر اس کے شاگردوں کو خبردینے دوڑیں ۔"

اا ب� ب� ی��وانہ بھ� تھیں۔اس ب��ات دریں اثناء معزز خواتین کادوسرا گ��روہ جس میں غالب��� مقدس میں مرقوم ہے کہ �م آایا۔ کلا آاچکا ہے قبر پر سے بے خبر کہ کیا وقوع میں

آائیں۔ " وہ صبح سویرے ہ� ان خوشبو دار چیزوں ک�و ج�و تی�ار ک� تھیں لے ک�ر ق�بر پ�ر ی�( ک� لاش نہ پ��ائ�۔ اور پتھر کو قبر پر سے لڑھکا ہوا پایا۔ مگر اندر جاکر خداون��د یس��وع )عیس�� اور ایسا ہ�واکہ جب اس ب�ات س�ےحیران تھیں ت�و دیکھ�و دوش�خص ب�راق پوش�اک پہ�نے ان کےآاکھڑے ہوئے۔جب وہ ڈرگئیں اور اپ�نے س�رزمین پ�ر جھک�ائے ت�و انہ��وں نے ان س�ے کہ�اکہ پاس زندہ کو مردوں میں کی��وں ڈھون��ڈت� ہ��و؟ وہ یہ��اں نہیں بلکہ ج� اٹھ��ا ہے ۔ ی��اد ک��رو کہ جب وہ

آادم گنہگ�اروں کے ہ��اتھ میں ح�والہ گلی میں تھا تو اس نے تم س�ے کہ�ا تھ�ا۔ ض�رور ہے کہ ابن آائیں۔ اور ق��بر س��ے کیا جائے اور مص��لوd ہ��و اورتیس��رے دن ج� اٹھے ۔ اس ک� ب��اتیں انہیں ی��اد لوٹ کر انہوں نے ان گیارہ اور باق� سب لوگوں کو ان سب ب��اتوں ک� خ��بر دی ۔۔۔۔ مگ��ر یہ

۔") انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رتباتیں انہیں کہان� س� معلوم ہوئیں اور انہوں نے ان ک��ا یقین نہ کیا

(۔۱،۹،۱۱آایت ۲۴لوقا رکوع

آاقا کے ج� اٹھنے کا حضرت پطرس اور حضرت یوحنا ب� ب� مریم مگدلین� سے اپنے پیغام سن کر خال� قبر کودیکھنے کے لئے دوڑے اور م��ریم مگ��دلین� بھ� ان کے پیچھے پیچھے

�م مقدس میں یوں ارشاد ہوا ہے: آاگئیں۔ کلا دوبارہ قبر پر " پس وہ پطرس اور دوس�را ش�اگرد نک� ک�ر ق��بر ک� ط��رف چلے اور دون�وں س�اتھ س��اتھآاگے بڑھ کر ق��بر پ��ر پہلے پہنچ��ا۔اس نے جھ��ک ک��ر نظ��ر ک� دوڑے مگر دوسرا شاگرد پطرس سے اور س��وت� ک��پڑے پ��ڑے ہ��وئے دیکھے مگ��ر ان��در نہ گی��ا۔ ش��معون پط��رس اس کے پیچھے پیچھے پہنچا اور اس نے قبر کےاندر جاکر دیکھاکہ سوت� کپڑے پڑے ہیں۔ اور وہ رومال جو اس کے سر سے بن�دھا ہ�وا تھ��ا س��وت� ک��پڑوں کے س�اتھ نہیں بلکہ لپٹ��ا ہ�وا ای�ک جگہ ال�گ پ�ڑ ا ہے۔ اس پ�رdونکہ وہ ا��ا۔ کی��ر یقین کی��ا اور اس نے دیکھ ک��آایا تھا اندر گی دوسرا شاگرد بھ� جو پہلے قبر پر تک اس نوشتہ کو نہ جانتے تھے جس کے مطابق اس کا م�ردوں میں س��ے ج� اٹھن��ا ض��رور تھ��ا۔

(۔۱۰تا ۳آایت ۲۰) انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع پس یہ شاگرد اپنے گھر کو واپس گئے ۔"

ی المسیح ک� اپنے پیروکاروں سے ج� اٹھنے کے بعد حضور سیدنا عیس�ملاقات

مریم مگدلین� سے ملاقات ۔ حضرت پطرس اوریوحنا کے چلے جانے کے بعد ب� ب� مریم مگدلین� قبر ہ� پر ٹھہری رہیں۔ اچانک حضور المسیح ان پر ظاہر ہوئے۔ انجی جلی�� میں

ذکر ہے:

" مریم باہر قبر کے پاس کھڑی روت� رہ� اور جب روتے روتے قبر ک� ط��رف جھ��ک ک��ر اندرنظر ک� تو دو فرشتوں کو سفید پوشاک پہنے ایک ک�و س�رہانے اور دوس�رے ک�و پیت�انے بیٹھےی�( ک� لاش پڑی تھ�۔انہوں نے اس سے کہا اے عورت تو کیوں روت� دیکھا جہاں یسوع )عیس ہے؟ اس نے ان سے کہا اس ل��ئے م��یرے خداون��د ک��و اٹھ��ا لے گ��ئے ہیں اور معل��وم نہیں کہ اس��ےی�( کوکھڑے دیکھا اور نہ پہچانا کہ یہ کہاں رکھا ہے۔ یہ کہہ کر وہ پیچھے پھری اور یسوع )عیس یسوع ہے ۔یسوع نےاس س��ے کہ��ا اے ع��ورت ت��و کی��وں روت� ہے؟ کس ک��و ڈھون��ڈت� ہے؟ اس نے باغبان سمجھ کر اس سے کہا میاں اگ�ر ت�ونے اس ک�و یہ��اں س�ے اٹھای�ا ہ�و ت�و مجھے بت��ادے کہ اسے کہاں رکھا ہے تاکہ میں اسے لے جاؤں ۔ یسوع نے اس سے کہ��ا م�ریم ! اس نے م��ڑ ک��ر اس سے عبران� زبان میں کہا ربون�! یعن� اے استاد ! یسوع نے اس سے کہا مجھے نہ چھو کیونکہ میں اd تک باپ کے پاس اوپر نہیں گیا لیکن میرے بھ��ائيوں کے پ��اس ج��اکر ان س��ے کہہ کہ میں اپنے باپ اور تمہ�ارے ب�اپ اور اپ�نے خ�دا اور تمہ��ارے خ�دا کے پ�اس اوپ�ر جات�ا ہ�وں ۔ م�ریمآاکر شاگردوں کو خبردی کہ میں نے خداوند کودیکھا اور اس نے مجھ سے یہ باتیں مگدلین� نے

(۔۱۸تا ۱۱آایت ۲۰) انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع کہیں۔"

حضرت کلیپاس اور اس کے ساتھ سے ملاقاتی المسیح کے ایک شاگرد حضرت کلیپاس اپنے ایک دوپہر کے بعد حضور سیدناعیس�آانحضور کے ج� اٹھنے کے تعجب خیز واقعہ سے بے خبر اپنے گاؤں واپس جا ساتھ� کے ساتھ

رہے تھے۔آادم� اس گاؤں ک� طرف جارہے تھے جس کا نام " اوردیکھو اس� دن ان میں سے دو اا سات می کے فاصلہ پر ہے۔ اور وہ ان سب باتوں ک� بابت جو اماوس ہے۔ وہ یروشلیم سے قریبآاپس میں بات چیت کرتے جاتے تھے۔ جب وہ بات چیت اور پوچھ پاچھ کررہے واقع ہوئ� تھیں آانکھیں بن��د آاکر ان کے ساتھ ہولی��ا۔ لیکن ان ک� آاپ نزدیک ی�( تھے تو ایسا ہوا کہ یسوع )عیسآادم� اس گ��اؤں ک� ط��رف ک� گ��ئ� تھیں کہ اس ک��و نہ پہچ��انیں ۔ اس��� دن ان میں س��ے دو

اا سات می کے فاصلہ پر ہے ۔ اور وہ ان جارہے تھے جس کا نام اماؤس ہے ۔ وہ یروشلم سے قریبآاپس میں بات چیت ک��رتے ج��اتے تھے ۔ جب وہ ب��ات سب باتوں ک� بابت جو واقع ہوئ� تھیں آاک��ر ان کے ی� مسیح ان کے نزدی��ک چیت اور پوچھ پاچھ کررہے تھے تو ایسا ہوا کہ سیدنا عیسآاپ نے ان آاپ ک��و نہ پہچ��انیں۔ آا نکھیں بن��د ک� گ��ئ� تھیں کہ س��اتھ ہول��ئے ۔ لیکن ان ک� آاپس میں ک��رتے ؟ وہ غمگین س��ے کھ��ڑے س��ے فرمای��ا یہ کی��ا ب��اتیں ہیں ج��و تم چل��تے چل��تے آاپ س��ے کہ��ا کی��ا تم یروش��لم میں اکیلے ہوگئے ۔ پھر ایک جس کا نام کلیپاس تھا ج��واd میں آاپ نے ان س��ے فرمای�ا کی�ا ہ��وا ہے ؟ مسافر ہے جو نہیں جانتے کہ ان دنوں یہاں کیا کیا ہواہے ؟ ی� ناصری کاماجرا جو پروردگار اور س��اری امت کے نزدی��ک ک��ام اور آاپ سے کہا عیس انہو ں نے کلام میں قدرت والا نب� تھا ۔ اور امام اعظم اور ہمارے ح��اکموں نے اس ک��و پکڑوادی��ا ت��اکہ اس پر قت کا حکم دیا جائے اور اسے شہید کردیا۔ لیکن ہم کو امید تھ� کہ اسرائی کو رہائ� یہ�آاج تیس�را دن ہوگی�ا۔ او رہم میں س�ے چن�د دے گا اور علاوہ ا ن سب باتوں کے اس ماجرے ک�و عورتوں نے بھ� ہم کو حیران کردیاہے جو سویرے ہ� قبر پر گئ� تھیں۔ اور جب اس ک� لاش نہآائیں کہ ہم نے روی��ا میں فرش��توں ک��و بھ� دیکھ��ا۔ انہ�وں نے کہ�ا وہ زن�دہ پائ� ت�و یہ کہ��ت� ہ��وئ� ہے ۔ اور بعض ہمارے ساتھیوں میں سے قبر پر گئے اور جیسا عورتوں نے کہا تھا ویسا ہ� پایای نے ان س��ے فرمای��ا:اے ن��ادانو اور ن��بیوں ک� س��ب ب��اتوں کے مگر اس کو نہ دیکھا۔سیدنا عیس� ماننے میں سست اعتقاد و کیا مسیح کو یہ دکھ اٹھاکر اپنے جلال میں داخ ہونا ضرور نہ تھ��ا؟ی� سے اور سب نبیوں سے شروع کرکے سب نوشتوں میں جتن� ب��اتیں اس کے ح��ق میں پھر موس لکھ� ہ��وئ� ہیں وہ ان ک��و س��مجھا دیں۔ ات��نے میں وہ اس گ��اؤں کے نزدی��ک پہنچ گ��ئے جہ��اںآاپ ک��و یہ آاگے بڑھنا چاہتا ہیں۔ انہ��وں نے آاپ آاپ کے انداز سے ایسا معلوم ہوا کہ جاتے تھے اور کہہ کر مجبور کیاکہ ہمارے ساتھ رہیں کیونکہ شام ہوئ� ج��ات� ہے اور دن اd بہت ڈھ�� گی��ا۔آاپ ان کے س�اتھ کھان�ا کھ��انے بیٹھے ت�و ایس�ا آاپ اندر گئے تاکہ ان کے س�اتھ رہیں۔ جب پس آانکھیں آاپ نے روٹ� لے ک��ر ب��رکت دی اور ت��وڑ ک��ر ان ک��و دی��نے لگے ۔ اس پ��ر ان ک� ہ��واکہ

آاپ ان ک� نظروں سے غائب ہوگئے ۔ انہ��وں نے آاپ کو پہچان لیا اور کھ گئیں اور انہوں نے آاپس میں کہا کہ جب وہ راہ میں ہم سے باتیں کرتا اور ہم پر نوشتوں کا بھید کھولتا تھا ت��و کی��ا ہمارے دل جوش سے نہ بھر گئے تھے؟ پس وہ اس� گھڑی اٹھ کر یروشلم کو لوٹ گ��ئے اور ان گی��ارہ اور ان کے س�اتھیوں ک�و اکھٹ�ا پای�ا۔ وہ کہے رہے تھے کہ م�ولا بیش�ک ج� اٹھیں ہیں اور شمعون کو دکھائ� دیئے ہیں ۔ اور انہوں نے راہ کا حال بیان کیا اور یہ بھ� کہ اس��ے روٹ� ت��وڑتے

(۔۳۵تا ۱۳آایت ۲۴)انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع وقت کس طرح پہچانا ۔

حضرت شمعون پطرس سے ملاقاتی المسیح نے حضرت پطرس پر تنہائ� میں ظاہر ہوکر ان کے س��اتھ حضور سیدنا عیس�آاق��ا ک��ا انک��ار ک��رنے محبت اور شفقت کا اظہار فرمایا تھا۔ یہ اس لئے ضروری تھا کیونکہ وہ اپ��نے کے ب���اعث نہ���ایت رنجی���دہ خ���اطر تھے۔لیکن اd پریش���ان� اور بے اعتق���ادی ک� جگہ یقین اور

مسرت نے لے ل� اور وہ فخرو انبساط کے ساتھ اعلان کرتے ہیں۔"خداوند بے شک ج� اٹھا۔"

بالا خانہ میں پیروؤں سے ملاقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تین روز پیشتر جس بالاخ�انہ پ�ر حض�ور المس�یح نے اپ�نے ح�وارئین سمیت فسح ک� ضیافت کھائ� تھ� ، اd وہاں پر شاگرد رف��اقت وش��راکت کے ل��ئے جم��ع ہ��وتے تھے۔ جب اس بالاخانہ میں اماؤس کے دو اشخاص راستے میں فاتح اج حضور سیدنا عیس�

ی المسیح سے اپن� عجیب ملاقات کا ذکر کررہ� ہے تھے تو۔آاکھ��ڑے ہ��وئے اور ان س��ے فرمای��ا آاپ ان کے بیچ میں وہ یہ ب��اتیں ک��ر رہ� رہے تھے کہ اسلام وعلیکم۔ مگر انہوں نے گھبرا ک��ر اور خ��وف کھ��اکر یہ س��مجھا کہ کس��� روح کودیکھ��تےآاپ نے ان سے فرمایا تم کیوں گھبراتے ہ�و؟ اور کس ل�ئے تمہ��ارے دل میں ش�ک پی�دا ہ�وتے ہیں۔ ہیں؟ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں دیکھو کہ میں ہ� ہوں ۔ مجھے چھوکر دیکھ��و کی��ونکہ روح کے

آاپ نے انہیں اپنے ہاتھ اور گوشت اور ہڈی نہیں ہوت� جیسا مجھ میں دیکھتے ہو۔ او ریہ کہہ کر آاپ نے ان س��ے آای��ا اور تعجب ک��رتے تھے پاؤ ں دکھائے۔ جب مارے خوش� کے ان کو یقین نہ آاپ کو بھن� ہ��وئ� مچھل� ک��ا قتلہ دی��ا ۔ فرمایا کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے ؟ انہوں نے

آاپ نے لے کر ان کے روبرو کھایا۔آاپ نے ان س��ے فرمای��ا یہ م��یری وہ ب��اتیں ہیں ج��و میں نے تم س��ے اس وقت کہ� تھیں جب پھ��ر ی� ک� توریت اور صحائف انبی��اء اور زب��ور میں تمہارے ساتھ تھا کہ ضرور ہو کہ جتن� باتیں موسی� ک��و س��مجھیں۔ آاپ نے ان کا ذہن کھ��ولا ت��اکہ کلام الہ میری بابت لکھ� ہیں پوری ہوں ۔ پھر اور ان سے فرمای�ا : ی�وں لکھ��ا ہے کہ مس�یح دکھ اٹھ�ائے گ�ا اور تیس�ر ے دن م�ردوں میں س�ے ج� اٹھے گا۔ اور یروشلم سے شروع کرکے سب قوموں میں توبہ اور گناہوں ک� مع�اف� ک� من�ادی

اس کے نام سے ک� جائے گ�۔ یہ بیان��ات مس��تند ہیں کی��ونکہ یہ چش��م دی��د گواہ��وں ک� ش��ہادتوں س��ے پ��ائہ ثب��وت ک��وی المس�یح کے ج� اٹھ��نے ک� حقیقت ک�و قب�ول ک�رنے پہنچے ہیں لیکن حض�ور س�یدنا عیس��آا میں حوارئين کو کچھ وقت لگ ہ� گیا۔ ان کے ذہن کچھ دی��ر کے بع��د ہ� روش��ن ہ��وئے کہ آاکر توریت، زبور اور ص��حائف انبی��اء ک� پیش��ین گوئی��وں ک��و پ��ورا پ نے حقیقت موت پر غالب � خ��ود اس بالاخ��انہ میں اپ��نے ش��اگردوں کے درمی��ان تش��ریف کردیاہے۔ گو حضور المسیح ب��ذاتی آاق��ا ک��و زن��دہ دیکھ ک��ر وہ نہ��ایت ہراس��اں ہوگ��ئے ۔ حض��ور س��یدنا عیس��� فرم��ا تھے۔ ت��اہم اپ��نے المس��یح ک��ا یہ جلال� جس��م ق��بر ک� س��نگین دی��واروں اور بالاخ��انے کے بن��ددروازوں میں س��ےآاپ زمین� قوانین ک� قید میں نہیں تھے جو انسان� جسم ک��و کن��ٹرول dگذرسکتا تھا۔ چونکہ ا

کرتے ہیں۔ اس لئے شاگرد وں کا شک میں پڑجانا کوئ� انوکھ� بات نہ تھ�۔

متشکک حضرت توما سے ملاقاتی�( " مگر ان بارہ میں سے ایک ش�خص یع�ن� توم�ا جس�ے ت�وام کہ�تے ہیں یس�وع )عیس�آانے کے وقت ان کے ساتھ نہ تھا۔ پس باق� شاگرد اس س��ے کہ��نے لگے کہ ہم نے خداون��د کے

کو دیکھا ہے۔ مگر اس نے ان سے کہا جب تک میں اس کے ہاتھوں میں میخوں کے سوراخ نہ دیکھ ل��وں اورمیخ��وں کے س��وراخوں میں اپ��ن� انگل� نہ ڈال ل��وں اور اپناہ��اتھ اس ک� پس��ل� میں نہ

ڈال لوں ہر گز یقین نہ کروں گا۔ آاٹھ روز کے بع���د جب اس کے ش���اگرد پھ���ر ان���در تھے اور توم���ا ان کے س���اتھ تھ���ا اورآاکر اوربیچ میں کھڑا ہوکر کہا تمہ��اری س��لامت� ہ��و۔ پھ��ر اس ی�( نے دروازے بند تھے یسوع )عیس نے توما سے کہ��ا اپ�ن� انگل� پ�اس لاک�ر م�یرے ہ��اتھوں ک�ودیکھ اور اپن��ا ہ��اتھ پ�اس لاک��ر م�یری پسل� میں ڈال کر اور بے اعتق��اد نہ ہ��و بلکہ اعتق��اد رکھ۔ توم��ا نے ج��واd میں اس س��ے کہ��ا اےی�( نے اس سے کہا ت��و ت��و مجھے دیکھ ک��ر ایم��ان میرے خداوند! اے میرے خدا! یسوع )عیس

آایت۲۰) انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت یوحن��ا رک��وع لایا ہے۔ مبارک وہ ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لائے ۔"

(۔۲۹تا ۲۴

اس وقت سے لے کر اd تک حضرت توم��ا جیس��ے بے ش��مار اش��خاص گ��زرے ہیں ج��وی المس��یح اس ب��ات ک��ا یقین ک��رنے میں ب��ڑی دقت محس��وس ک��رتے ہیں کہ حض��ور سیدناعیس���آاپ نے اپ��ن� اعج��ازی قی��امت صلیب پر جان دے کر دفن ہوئے اور پھر ج� اٹھے ہیں۔ ج��و ثب��وت آاپ نے ان ک���ا حض���رت توم���ا ک���و دی���ا وہ ہم س���ب کے ل���ئے بھ� ک���اف� ہے اور وہ� الف���اظ ج���و

آاج ہمارے لئے بھ� بڑی اہمیت کے حام ہیں۔ سےفرمائے وہ

" مبارک وہ ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لائے"ی� المسیح کے دش��من تھے اور نیک� اور ح��ق �س عاصیاں حضور سیدنا عیس جو لوگ انیآاپ کے جلال� دیدار کا مشاہدہ نص��یب نہ ی� سے باغ� تھے انہیں سے نفرت کرتے اور خدا تعال ہوسکا ۔ اور جب روم� سپاہ� ان حیرت انگیز واقعات ک� خبر دینے کے لئے س��ردار ک��اہنوں کے پ�اس پہنچے ت��و وہ س��ن ک��ر ہک�ا بک�ا رہ گ�ئے ۔ چن��انچہ انہ�وں نے حقیقت پ�ر پ�ردہ ڈال��نے ک�

کوشش ک� ۔ کلام مقدس میں اس ک� بابت یوں ارشاد ہوا ہے:

آاک�ر م�اجرا " جب وہ جارہ� تھیں تو دیکھو پہ��رے وال�وں میں س��ے بعض نے ش�ہرمیں سردار کاہن س�ےبیان کی�ا۔ اور انہ�وں نے بزرگ��وں کے س�اتھ جم�ع ہ��وکر مش�ورہ کی�ا اور س�پاہیوں ک�وآاکر اسے چرالے بہت ساروپیہ دے کر کہا ۔ یہ کہہ دینا کہ جب ہم سورہے تھے اس کے شاگرد گئے ۔اور اگر یہ بات حاکم کے کان تک پہنچ� توہم اسے سمجھا کر تم کو خطرہ سے بچالیںآاج ت��ک یہودی��وں گے ۔ پس انہوں نے روپیہ لے کر جیسا سکھایا گیا تھا ویسا ہ� کی��ا اور یہ ب��ات

(۔۱۵تا ۱۱آایت ۲۸)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنارکوع میں مشہور ہے۔"

� برح��ق کے تم��ام پیروک��اروں نے جھ��وٹ پ��ر اتف��اق ک��رکے یہ ن��ا ممکن ام��ر ہے کہ ہ��ادئآاپ ک� لاش چ��رائ� ہ� گ��ئ� تھ� ت��و کم از کم ان � مح��ال اگ��ر خاموش� اختیار کرل� ہو۔ بفرضآاپ ک� لاش کہ��ا ں آادھ اتنا دیانتدار توضرور ہوتاکہ یہودی راہنماؤں کو بتادیتا کہ میں سے ایک دفن ک� گ��ئ� ہے۔ پھ��ر یہ ب��ات بھ� قاب�� غ��ور ہے کہ کی��وں حض��ور المس��یح کے ش��اگرد ای��ک جھوٹ ک� خاطر دکھ سہنے بلکہ موت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوگ��ئے ؟ ہ��ر گ��ز نہیں ان ک� بے بیان خوش� اور ان کے چہروں سے عیاں مسرت اور چشم دید گواہ��وں ک� دل��یری اس ب��ات ک��ا بین ثب��وت تھ� کہ ج��و کچھ وہ کہ��تے ہیں ح��رف بہ ح��رف ص��حیح ہے اور وہ اس پ��ر

ایمان بھ� رکھتے ہیں کہ " بے شک وہ زندہ ہے ۔ "ی� المسیح ک� وفات ک� بابت کئ� متض��اد اف��واہیں اس محرم اسرار حضور سیدنا عیس

وقت گشت کررہ� تھیں۔ لیکن یہاں دو امور زیادہ قاب غور ہیں۔ ۔ بیشتر لوگ اولی��ا ء ک�رام کے مق��بروں اور خانق��اہوں ک� ع��زت وتوق�یر ک� نگ�اہ س�ے دیکھ��تے۱

ی� المس�یح ک� ق��بر ک�ا یہ ح�ال نہیں ہے ، کی�ونکہ وہ �ح اج� حض�ور س�یدنا عیس� ہیں۔ لیکن ف�اتآاپ ہ� ایک ایس� ہست� ہیں جو مردوں میں سے زندہ ہوئے اور پھ��ر نہیں م��رنے خال� تھ�۔ صرف آاپ ک��ا زن��دہ ہون��ا اور آاپ نے زندہ کیا پھ��ر م��ر ک��ردفن ہ��وئے ۔ لیکن کے ۔ وہ اشخاص جنہیں آاپ اپنے چالیس دن تک متواتر اپنے دوستوں کو اپنا دیدار بخشنا اس بات ک� پختہ دلی ہے کہ

یی کے مطابق سچ مچ مسیح موعود اور ابن الله ہیں۔ دعو

۔ اکثر ممالک میں اتوار کے دن ک�و س��رکاری تعطی�� ک��ا درجہ حاص�� ہے۔ ایس��ا کی��وں ہے؟ اس۲آاپ کے ی المسیح مردوں میں سے زن��دہ ہ��وئے تھے۔ لئے کہ یہ وہ دن ہے جب حضور سیدناعیس�آاپ کے آاپ کے فرم��ودات ک� تلاوت اور اس ب��ات کے ل���ئے آاپ ک� پرس��تش ، پیروک���اراس دن � انس��ان� کے �ن عزی��ز نس�� آاپ نے اپن� جا حضور ہدیہ شکر ادا کرنے کے لئے جمع ہوتے ہیں کہ

لئے قربان کردی۔

�ح اج ک� متعدد اشخاص سے ملاقات فاتآاپ نے متعدد اش��خاص آاسمان پر صعود فرمانے سے پیشتر کے چالیں دنوں کے دوران

کو اپنے دیدار کا شرف بخشا۔ آاپ کے پیروک��اروں ک� اک��ثریت گلی�� کے علاقہ میں س��کونت پ��ذیر تھ�۔وہ اس وقت آائے تو۔ � فسح منانے کے لئے گئے تھے۔ جب وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ یروشلیم صرف عید

� " پانچ س�و س�ے زی�ادہ بھ�ايئوں ک�و ای�ک س�اتھ دکھ��ائ� دی�ا۔" �ط اول اہ�� ) انجی�� ش��ریف خ��

(۔۶آایت ۱۵کرنتھیوں رکوع

اگ�ر کس�� واقعہ ک� پ�انچ س�و گ�واہ تص�دیق ک�ریں ت�و اس ک� ص��حت وص��داقت کےبارے میں ذرہ بھر شک وشبہ ک� گنجائش باق� نہیں رہت�۔

اا بعد �م مقدس میں ارشاد ہے کہ اس� وقت یا اس کے فور کلای�( نے ان کے ل��ئے مق��رر کی��ا " گیارہ شاگرد گلی کے اس پہاڑ پر گئے جو یسوع )عیسی�( نے پ��اس تھا۔ اور انہوں نے اسے دیکھ کر سجدہ کیا۔ مگر بعض نے ش��ک کی��ا۔ یس��وع )عیس��آاس��مان اور زمین کاک�� اختی��ار مجھے دی��ا گی��ا ہے۔ پس تم آاک��ر ان س��ے ب��اتیں کیں۔ اور کہ��ا کہ جاکر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور ان کو باپ بیٹے اور روح الق��دس کے ن��ام س��ے بپتس��مہ دو۔ اور ان ک��و یہ تعلیم دو کہ ان س��ب ب��اتوں پ��ر عم�� ک��ریں جن ک��ا میں نے تم ک��و حکم دی��ا

آاخر تک ہمیشہ تمہارے س��اتھ ہ��وں۔" )انجی�� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م��ت� رک��وعاوردیکھو میں دنیا کے

(۔۲۰تا ۱۶آایت ۲۸

ی� المسیح نے سات حواريئن کو کھانا � بقا حضور سیدنا عیس نانکھلایا

ی المس��یح ای��ک دن پھ��ر گلی�� ک� جھ��ال پ�ر اپ�نے ح��واریئن پ��ر حضور سیدنا عیس�آاپ کے سات حواریئن ایک جگہ جمع تھے۔ انجی شریف میں اس ک��اذکر ظاہر ہوئے۔ اس مرتبہ

یوں ہے:آاپ ک��و تبری��اس ی� نے پھ��ر اپ��نے ک� جھی�� کے*1" ان ب��اتوں کے بع��د س��یدنا عیس��

کنارے صحابہ کرام پر ظاہر کیا اور اس طرح ظاہر کیا۔ شمعون پطرس اور تو ما جو توام کہلات��اآاپ کے صحابہ کرام میں س��ے دو ہے اور نتن ای جو قانائے گلی کا تھا اور زبدی کے بیٹے اور اور شخص جمع تھے۔ شمعون پطرس نے ان س�ے کہ��ا میں مچھل� کے ش�کار ک�و جات�ا ہ�وں۔ انہوں نے اس سے کہاہم بھ� تمہارے ساتھ چلتے ہیں۔ وہ نک ک�ر کش�ت� پ�ر س�وار ہ�وئے مگ�رآاکھ��ڑا ہ��وئے مگ�ر ص�حابہ ک�رام ی� کنارے پ�ر اس رات کچھ نہ پکڑا۔ اور صبح ہوتے ہ� سیدنا عیسی� نے ان س�ے فرمای�ا بچ��و تمہ�ارے پ�اس کچھ کھ�انے آاپ ہیں۔ پس سیدنا عیس� نے پہچانا کہ یہ آاپ نے ان س��ے فرمای�ا کش�ت� ک� دہ��ن� ط��رف ج�ال کو ہے ؟ انہوں نے ج��واd دی��ا کہ نہیں۔ ڈالو تو پک��ڑوگے ۔ پس انہ��وں نے ڈالا اور مچھلی��وں ک� ک��ثرت س��ے پھ��ر کھینچ نہ س��کے۔ اسی� محبت ک�رتے تھے پط��رس س�ے کہ�ا یہ ت�و م�ولا ہیں ۔ لئے اس صحاب� سے جسے س�یدنا عیس� پس شمعون پطرس نے یہ سن کر کہ مولا ہیں کرتہ کمرسے باندھا کیونکہ وہ ننگا تھ��ا اور جھی��آائے میں کود پڑا ۔ اور باق� صحابہ چھوٹ� کشت� پر سوار مچھلیوں ک��ا ج��ال کھینچ��تے ہ��وئے اا دو س�و ہ��اتھ ک�ا فاص�لہ تھ��ا۔ جس وقت کی��ونکہ وہ کن�ارے س�ے کچھ دور نہ تھے بلکہ تخمین��آاگ اور اس پ�ر مچھل� رکھ� ہ��وئ� اور روٹ� دیکھ�۔ کنارے پر اترے تو انہ��وں نے کوئل�وں ک� ی� نے ان س��ے فرمای��ا ج��و مچھلی��اں تم نے ابھ� پک��ڑی ہیں ان میں س��ے کچھ لاؤ۔ س��یدنا عیس�� شمعون پطرس نے چڑھ کر ایک سو تریپن مچھلی�وں س�ے بھ�را ہ�وا ج�ال کن�ارے پ�ر کھینچ�ا مگ�ر

آاؤ کھاناکھ��الو اور ی نے ان سےفرمایا باوجود مچھلیوں ک� کثرت کے جال نہ پھٹا۔ سیدنا عیس�آاپ ک��ون ہیں؟ کی��ونکہ وہ آاپ سے پوچھتے کہ صحابہ کرام میں سے کس� کو جرات نہ ہوئ� کہ آائے اور روٹ� لے ک��ر انہیں دی۔ اس��� ط��رح مچھل� ی� ج��انتے تھے کہ م��ولا ہ� ہیں۔ س��یدنا عیس��ی� مردوں میں سے ج� اٹھنے کے بعد یہ تیس��ری ب��ارہ ص��حابہ ک��رام پ��ر ظ��اہر بھ� دی۔ سیدنا عیس

(۔۱۴تا ۱آایت ۲۱۔)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ہوئے

گلی ک� جھی کا دوسرا نام*۔1

آاپ پ��ر ایم��ان نہیں لائے آاپ کے ای��ک اخی��ان� بھ��ائ� ( بھ� اd ت��ک ( dحضرت یعقو آاپ کے آاپ م�ردوں میں س��ے زن�دہ ہ��وئے ت�و وہ بھ� آاپ ہ� مسیح موعود ہیں۔ لیکن جب تھے کہ

آاپ نے انہیں بھ� اپنے دیدار کا شرف بخشا �ط دوئممعتقد ہوگئے ۔ چنانچہ )دیکھ�ئے انجی� ش�ریف خ�

� کرنتھیوں رکوع (۔۷آایت ۱۵اہ

ی المسیح ک� اپنے موت پر فتح پانے کے چالیس دن بعد فاتح اج حضور سیدنا عیس�آاخری گفتگو ہوئ� اس کے متعلق انجی نویس یوں رقمطراز ہے: حوارئین سے جو

آاپ کو ان پ��ر زن��دہ ظ��اہر بھ� " اس نے دکھ سہنے کے بعد بہت سے ثبوتوں سے اپنے آاتا اور خدا ک� بادشاہ� ک� باتیں کہتا رہا۔ اور ان س��ے کیا چنانچہ وہ چالیس دن تک انہیں نظر م کر ان کو حکم دیا کہ یروشلیم سے باہر نہ جاؤ بلکہ باپ کے اس وع��دہ کے پ��ورا ہ��ونے کے منتظر رہو جس کا ذکر تم مجھ سے پہلے سن چکے ہو۔ کیونکہ یوحنا نے تو پ��ان� س��ے بپتس��مہ

دیا مگر تم تھوڑے دنوں کے بعد روح القدس سے بپتسمہ پاؤ گے۔ " پس انہوں نے جمع ہوکر اس سے یہ پوچھا کہ اے خداوند !کیا تو اس� وقت اس��رائي کو بادشاہ� پھر عطا کرے گا ؟ اس نے ان س��ے کہ��ا ان وقت��وں اور معی��ادوں کاجنن��ا جنہیں ب��اپ نے اپنے ہ� اختیار میں رکھا ہے تمہارا کام نہیں۔ لیکن جب روح القدس تم پر نازل ہوگ��ا ت��و تم ق�وت پ�اؤ گے اور یروش�لیم اور تم�ام یہ�ودیہ اور س�امریہ میں بلکہ زمین ک� انتہ�ا ت�ک م�یرے گ�واہ

�d اعمال الرس رکوع ہوگے۔" (۔۸تا ۳آایت ۱)انجی شریف ، کتا

ی� المس�یح ک� تبلیغ� خ�دمت ک�و برق�رار رکھ��نے ک�ا حوارئین ک�و حض�ور س�یدنا عیس�� مبارک ک� ش��ہادت آاپ کے فرمودات آاپ نے انہیں دنیا کے کونے کونے تک شرف بخشا گیا۔

آاپ ک� پیروی کرنے ک� تلقین کرنے ک� اہم خدمت پر مامور فرمایا۔ دینے اور لوگوں کو " تم ان باتوں کے گواہ ہو ۔ اوردیکھو جس کا میرے باپ نے وعدہ کیا ہے میں اس کو� ب�الا س�ے تم ک�و ق��وت ک�ا لب�اس نہ ملے اس ش�ہر میں تم پرنازل ک��روں گ��ا لیکن جب ت�ک ع��الم

(۔۴۹تا ۴۸آایت ۲۴) انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع ٹھہرے رہو۔"

آاپ � زیت��ون پ��ر پہنچ ک��ر ان ب��اتوں کے بع��د وہ بیت عنی��اہ ک� ط��رف روانہ ہ��وئے۔ ک��وهآاس�مان� ک�ا واقعہ پیش � آاپ کے رف�ع � خط�اd تھے کہ اچان�ک ہ� ح�واریئن س�ے ابھ� مص�روف

�م مقدس میں یوں ہوا ہے: آایا۔ بعد کے حالات کا ذکر کلاآاپ ک��و ان ک� آاپ ان کے دیکھتے دیکھتے اوپر اٹھالئے گئے اور بدل� نے یہ کہہ کر آاس�مان ک� ط��رف غ�ور س�ے دیکھ آاپ کے جاتے وقت جب صحابہ ک�رام نظروں سے چھپالیا۔اور آاکھ��ڑے ہ��وئے۔ اور کہ��نے لگے اے گلیل� رہے تھے تو دو مرد سفید پوشاک پہ��نے ان کے پ��اس آاسمان پ��ر ی جو تمہارے پاس سے آاسمان ک� طرف دیکھتے ہو؟ یہ� عیس� مردو! تم کیوں کھڑے آاس�مان پ�ر ج�اتے دیکھ��ا آائیں گے جس ط��رح تم نے انہیں تشریف لے گ�ئے ہیں اس��� ط��رح پھ�ر

ہے۔ تب صحابہ کرام اس پہاڑ سے جو زیتو ن کا کہلاتا ہے اور یروش�لیم کے نزدی�ک س�بت منزل کے فاصلہ پر ہے یروشلیم کو لوٹے اور جب اس میں داخ ہوئے تو اس ب��الا خ��انہ پ��ر تش��ریفی� اور حضرت یعقوd اور حض��رت ان��دریاس اور لئے گئے جس میں حضرت پطرس اور حضرت یحیdو��رت یعق��احبزادے حض��ائ� اور حلف� کے ص��رت برتلم��حضرت فلپس اور حضرت توما اور حض اور حضرت شمعون زیلوتس اور یعقوd ک�ا بیٹ��ا حض��رت یہ��وداہ مقیم تھے۔یہ س��ب کے س��ب چن��دی� ک� وال�دہ ماج�دہ حض�رت م�ریم بت�ولہ اور ان کے بھ�ائیوں کے س�اتھ ای�ک خواتین اور سیدنا عیس

�d اعمال الرس رکوع دل ہوکر دعا میں مشغول رہے۔ (۔۱۴تا ۹آایت ۱)انجی شریف ، کتا

ی المسیح جن بارہ ) ( حوارئين ک�و منتخب کرلی�ا تھ�ا ت�اکہ وہ ہ�ر۱۲حضور سیدنا عیس�� مب��ارکہ ک��ا مش��اہدہ ک��ریں ، آاپ کے کارہائے عج��وبہ اور فرم��ودات آاپ کے ساتھ ساتھ رہ کر وقت

آاپ نے رسول کا لقب عطا فرمایا اور ان(۔۱۶آایت ۱۳۔)دیکھئے انجی شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع انہیں ی� المس�یح ک� وف�ات اور قی�امت کے چش�م دی�د گ�واہ تھے ہ� ک�و ج�و کہ حض�ور س�یدنا عیس�ی المس��یح ک� تعلیم��ات شرف واختیار بخشا گیا کہ وہ دنیا کے کناروں تک حضور س��یدنا عیس���

آاپ کے ارشادات گرام� نشرو اشاعت کریں۔ مبارکہ اور

� المسیح ک� اہمیت قیامت� اقدس ،لعزر ،یائیر ک� بیٹ� اور بیوہ کےلڑکے ی المسیح ک� قیامت حضور سیدنا عیس�آادمی�وں ک� ط�رح دفن ہ�وئے ۔ کے ج� اٹھنے سے قطع� مختلف تھ�۔ وہ پھر م�ر گ�ئے اور دیگ�ر آاپ ک� مب�ارک قی�امت آاس�ک�۔ ی المسیح پ�ر م�وت غ�الب نہ مگر فاتح اج حضور سیدنا عیس�آاپ کے مب��ارک ہ��اتھ اور پ��اؤں میں آاپ کے ب��دن اطہ��ر ک� ش��ک وش��باہت ت��و وہ� تھ�۔ کے بعد میخوں اور پسل� میں نيزے ک� ض��رd کے واض��ح نش��ان موج��ود تھے ت��و بھ� اd یہ پ��اک جس��مآاپ ان کم��روں میں جنک� ک� کھڑکی��اں ،دروازے اور روش��ندان پہلے س��ے بہت مختل��ف تھ��ا۔

آاپ یروشلیم سے آاسان� سے گذرسکتے تھے ۔ می دور گلی�� میں ظہ��ور فرم��ا۱۰۰بند تھے بڑی ی �ہ زیت��ون کے دامن میں بھ� پہنچ س��کتے تھے۔ ف��اتح اج� حض�ور س��یدنا عیس��� اا ک�و کر پھر ف��ورآاپ دیگ��ر نف��وس س��ے قطع� المس��یح ک��ا ق��بر س��ے ج� اٹھن��ا اس ب��ا ت ک��ا بین ثب��وت تھ��ا کہ آاپ کے ان ارشادات ک� تصدیق ہے کہ " اس سے پیشتر کہ ابرہام تھ��ا میں ہ��وں مختلف ہیں۔یہ آاپ نے س��مندر " نیز یہ بھ� کہ " میں اوپر س��ے ہ��وں"اور " م�یری بادش��اہ� اس دنی��ا ک� نہیں۔" آاپ ہ� مبعث آاd پ��ر پاپی��ادہ چ�� ک��ر ظ��اہر فرمای��ا تھ��ا کہ کے طوفان کو ساکن کرکے اور س��طح آاپ نے متع�دد مواق�ع پ�ر فرمای�ا" ت�یرے کون ومکان ہیں اور قوانین فط�رت پ�ر اختی�ار رکھ��تے ہیں۔ آاپ نے اس مفل��وج س��ے فرمای��ا تھ��ا کہ " بیٹ��ا خ��اطر جم��ع رکھ ت��یرے گن��اہ گناہ مع��اف ہ��وئے "

معاف ہوئے ۔" جس کے جواd میں فریسیوں نے کہا تھا کہ " کف��ر بکت��ا ہے۔ گن��اہ ک��ون مع��افکرسکتا ہے سوا ایک یعن� خدا کے ۔"

آاپ کو " اعمانوای" کا نام دیا گی��ا تھ��ا جس ک��ا مطلب ہے " �ت سعید پر آاپ ک� ولادی�(۔۳۳آایت ۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع خدا ہمارے ساتھ" حضرت جبرائی�� امین خ��دا تع��ال

ک� طرف سے صدیقہ مریم کے لئے یہ پیغام لائے تھے۔ی� ک� قدرت تجھ پر س��ایہ ڈالے گ� اور " روح القدس تجھ پر نازل ہوگا اور اور خدا تعال

� مقدس خدا کا بیٹا کہلائے گا" آایت۱)انجی� ش��ریف بہ مط�ابق حض�رت لوق�ا رک��وع اس سبب سے وہ مولود

۳۵)

آاس�مان س�ے ی� ک�و آاپ کو اصطباغ دیا تھا تو حاضرین نے خدا تعال ی� نب� نے جب یحییہ فرماتے سنا تھا۔

آایت۳)انجی� ش��ریف بہ مط��ابق حض��رت م�ت� رک��وع " یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں"

(۔۱۷

ی المسیح پر یہودی راہنما ج��و ال��زام عائ��د ک��رتے تھے مہر صداقت حضور سیدنا عیس�آاپ ک��و آاپ اپنے کو "خدا ک��ا بیٹ��ا " کہ��تے ہیں۔ اس��� ال��زام کے تحت انہ��وں نے وہ یہ تھا کہ � لاثان� کے اسرار کا کھوج لگانے کے ل��ئے کبھ� تی��ار نہ تھے۔ آاپ ک� ذات قت کروادیا تھا۔ وہ آاپ ک� لاثان� بعث ک� آاپ کے ایک شاگرد نے آاپ ک� اعجازی قیامت کے تھوڑا عرصہ بعد

ی� نے : آایات میں اس طرح ک� ہے کہ خدا تعال وضاحت درج ذیی� مسیح ک� نسبت وعدہ کیا تھا ج��و جس��م آاقا ومولا سیدنا عیس " اپنے بیٹے ہمارے کے اعتبار س�ے س��ے حض�رت داؤد ک� نس�� س�ے پی�دا ہ��وا ۔ لیکن پ�اکیزگ� ک� روح کے اعتب�ار سے مردو ں میں سے ج� اٹھنے کے سبب سے قدرت کے س��اتھ خ��دا ک��ا بیٹ��ا ٹھہ��را۔ جس ک� معرفت ہم ک�و فض�� اور رس��الت مل� ت�اکہ اس کے ن��ام ک� خ��اطر س��ب قوم��وں میں س�ے ل��وگ

�ط اہ رومیوں رکوع ایمان کے تابع ہوں" (۔۵تا ۳آایت ۱) انجی شریف خ

ی المسیح کے ح��وارئین اور ان کے وس��یلے ایم��ان لانے ہادئ برحق حضور سیدنا عیس�آاپ کے ہر زم��انہ کے پ��یروؤں نے والے ابتدائ� مسیحیوں کا پختہ ایمان تھاکہ خدا ایک ہ� ہے ۔ آاہستہ ہ� ان ک�ا ذہن اس حقیقت آاہستہ ایک سے زیادہ خدا یا تین خداؤں کے خیال کو رد کیا۔ ی المس��یح ہ� خ��دائے واح��د ک��و قب��ول ک��رنے کے ل��ئے کھلا کہ کلمتہ الل��ه حض��ور س��یدنا عیس���آاپ کے ایک ش��اگرد حض��رت فلپس نے برحق نے نوع انسان� پر اپنا انکشاف کیا ہے۔ ایک دفعہ آاپ نے آاپ سے درخواست ک� تھ� کہ اے خداون��د " ب��اپ " ک��و ہمیں دکھ��ا۔ یہ� ک��اف� ہے"

فرمایا: " اےفلپس ! میں اتن� مدت سے تمہارے ساتھ ہوں کی��ا ت��و مجھے نہیں جانت��ا؟ جس نے مجھے دیکھا اس نے ب�اپ کودیکھ�ا ۔ ت�و کی�ونکر کہت�ا ہے کہ ب�اپ ک�و ہمیں دکھ��ا؟ کی�ا ت�و یقین نہیں کرتا کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے؟ یہ ب�اتیں ج�و تم س�ے کہت�ا ہ��وں اپ�ن� طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مجھ میں رہ کر اپنے ک��ام کرت��ا ہے ۔م��یرا یقین ک��رو کہ میں ب��اپ

)انجی� ش��ریفمیں ہوں اور باپ مجھ میں ۔ نہیں تو میرے کاموں ہ� کے سبب سے میرا یقین کرو"

(۱۱تا ۸آایت ۱۴بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع

ارنور کے عقیدت مند اور خدمت گذار علمائے کرام اکثر وبیش��تر اس �ر پ کلمتہ الله حضوی� واحد ہونے ک� صورت میں اپن� ذات بلند عظیم بھید پر سوچ بچار کرتے رہے ہیں کہ خدا تعالی المس�یح ک� شخص��یت کے وس�یلے س��ے صفات کو ب�ن� ن�وع انس�ان پ�ر حض��ور س�یدنا عیس��

کیسے منکشف کرسکتا ہے۔آاپ کے کارہ���ائے عج��وبہ اور ی المس���یح کے ای��ک ح��واری نے حض��ور س���یدنا عیس���

تعلیمات عالیہ کے چشم دید گواہ ہونے ک� بنا پر اسے یوں بیان کیا ہے: "ابتدا میں کلام تھا او رکلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خد ا تھا۔ یہ� ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔ سب چیزیں اس کے وسیلہ سے پیدا ہوئيں اور جو کچھ پی��دا ہ��وا ہے اس میں س��ےآادمیوں کا نور کوئ� چیز بھ� اس کے بغیر پیدا نہیں ہوئ�۔ اس میں زندگ� تھ� اور وہ زندگ�

تھ�۔"

" اور )یہ� (کلام مجسم ہوا اور فض اور س�چائ� س�ےمعمور ہ��وکر ہم�ارے درمی��ان رہ��ا اور ہم نے اس کا ایسا جلال دیکھ��ا جیس�ا ب��اپ کے اکل�وتے ک�ا جلال۔ یوحن��ا نے اس ک� ب�ابتآات��ا ہے گواہ� دی اور پکار کر کہا ہے کہ یہ وہ� ہے جس کا میں نے ذکر کیاکہ جو م��یرے بع��د

وہ مجھ سے مقدم ٹھہرا کیونکہ وہ مجھ سے پہلے تھا۔" " خدا کو کس� نے کبھ� نہیں دیکھا۔ اکلوتا بیٹا جو ب�اپ ک� گ�ود میں ہے اس�� نے

(۔۱۸تا ۱۵آایت ۱۴۔رکوع ۴آایت ۱)انجی شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ظاہر کیا"

ی� ک� معم��و ی المسیح ک� سیرت پ��اک اور تعلیم��ات میں خ��دا تع��ال حضور سیدنا عیس�آاپ کے ای��ک رس��ول نے اس��ے ی��وں آاتا ہے ۔ انجی جلی میں رترحم ہست� کا کام عکس نظر

بیان فرمایا ہے۔آاباؤ اجداد سے حص�ہ بہ حص�ہ اور ط�رح بہ ط��رح ی� نے "اگلے زمانہ میں الله وتبارک تعالآاخ��ر میں ہم س��ے ازل� محب��وd کے ذریعہ کلام دام کے انبی��اء ک��رام کے ذریعہ کلام ک��رکے ۔ اس ای��آاپ کے وس��یلہ س��ے اس نے ع��الم � عالم نے تمام چ��یزوں ک��ا وارث ٹھہرای��ا اور کیا جسے پروردگارآاپ ر d الع��المین ک� ب�زرگ� ک�ا عکس اور ان ک� م�اہیت ک�ا عین نقش ہ��وکر تم�ام کو خلق کیا۔ی� پ�ر �ش معل آا پ گن�اہوں ک� تطہ�یرکرکے ع�ر چیزوں ک�و اپ�ن� ق��درت کے کلام س�ے س�نبھالتے ہیں۔

� اہ عبرانیوں رکوع حشمت ک� دہن� طرف جا بیٹھے ۔" (۳تا ۱آایت ۱)انجی شریف خط

امید واثق ہے کہ قاریئن ک�رام کے ذہن ع��الیہ س�ےان مس�یح� اص�طلاحات کے ب�ارے� الل�ه ہیں ک�اف� ح�دتک غل�ط فہم� ک�ا ی� ہس�ت� ، اکلوت�ا بیٹ�ا اور ابن میں کہ حضور المسیح الہ غبار چھٹ چکا ہوگا، کیونکہ یہ روز روشن ک� طرح عی��اں ہے کہ حض��ور کلمتہ الل��ه دنی��ا کے ہ��ر انسان سے خواہ وہ کتنا ہ� عظیم کیوں نہ ہو اپن� ذات میں مختلف اور صفات میں بلند وبالا� اطہ��ر س��ے آاپ ک� کام شخصیت کا بھید جو بن باپ ایک مقدس کن��واری کے بطن ہے۔ اا بالاتر ہے۔ ہم خدائے واحد وبرحق کے حضور اس امر کا تولد ہوئے انسان� فہم وادراک سےقطعآاپ ک� ذات ہدیہ شکرو سپاس ادا کرتے ہیں کہ المسیح اس کا دیدن� پرت��و اور مظہ��ر ہیں ت��اکہ

� بابرکت ک� معرفت بن� نوع انس�ان خ��دائے عظیم ک� ہس��ت� س��ے روش��ناس ہوج��ائیں ۔ حض�ورآاپ ک� رفاقت میں رہے اپ��نے عظیم ی المسیح کے ایک شاگرد جو تین سال تک سیدنا عیس�

استاد ک� پراسرار شخصیت ک� بابت یوں رقمطراز ہیں۔ " اس زندگ� کے کلام ک� بابت ج�و ابت�دا س�ے تھ��ا اور جس�ے ہم نے س�نا اور اپ�ن� آانکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چھوا۔ یہ زندگ� ظاہر ہوئ� او رہم

� اول حضرت یوحنا رکوع نے اسے دیکھا اور اس ک� گواہ� دیتے ہیں۔" (۔۲تا ۱آایت ۱)انجی شریف خط

ی� کےمظہر ہونے ک� ایک اہم وجہ یہ ہے کہ خدائے �ت باری تعال حضور المسیح کا ذاآاہنگ� پی�دا ک� ج�ائے ۔ یہ اس ل�ئے ہ�واکہ ب�ن� رحیم کے رحم اور عدل ک� صفات میں کام ہم نوع انسان ک� گمراہ� اور بغاوت کے گناہوں ک� سزا حضور المسیح برداشت ک��ریں۔ جس ط��رح ای��ک مین��ڈھا حض��رت اب��راہیم کے بی��ٹے اور فس��ح ک��ا ب��رہ مص��ر میں ہ��ر اس��رائيل� خان��دان کے پہلوٹھے بیٹے کے بچاؤ کے لئے ذبح ہوا اس� طرح حضور المسیح نوع انسان� کے بدلے قرب��ان� ی� کے حض�ور قاب� آاپ پر ایمان لانے وال�وں ک�و گن�اہوں سےمخلص�� دلا ک�ر خ�دا تع�ال ہوئے تاکہ

قبول بنادیں۔ آاپ کے م��ردوں میں س��ے آای��ات اور ی المسیح ک� وفات حسرت یوں حضور سیدنا عیس�آاپ آاہن� شکنجے سے چھ��وٹ گی��ا ہے۔ ج� اٹھنے کے باعث ہر تائب ایمان لانے والا ابلیس کے

کے ایک نامور حواری نے اس حقیقت کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے۔ " پس جس صورت میں کہ لڑکے خ�ون اور گوش��ت میں ش��ریک ہیں ت�و وہ خ��ود بھ� ان ک� طرح ان میں شریک ہوا تاکہ موت کے وسیلہ سے اس کو جسے م��وت پ��ر ق��درت حاص�� تھ� یع��ن� ابلیس ک��و تب��اہ ک��ردے ۔ اورج��و عم��ر بھ��ر م��وت کے ڈر س��ےغلام� میں گرفت��ار رہے انہیں

� عبرانیوں رکوع چھڑالے " � اہ (۔۱۵تا ۱۴آایت ۲)انجی شریف خط

اا دو ہ�زار س�ال آاس�مان� ک�و تقریب� ی المس�یح کے رف�ع آاش�یان� حض�ور س�یدنا عیس�� عرش آاپ آاپک� تلقین کے مط��ابق آاسمان پر اورنگ کبریا کے دہن� طرف بیٹھے ہیں۔ آاپ ہوچکے ہیں۔

�ت قب��ولیت دی �م نجات کو دنیا ک� ہ��ر ق��وم ت��ک پہنچادی��ا ہے۔ دع��و کے وفادار پیروکاروں نے پیای ا ج��اچک� ہے اور اس وقت س��ے اd ت��ک لاکھ��وں قب��ول ک��رچکے ہیں ۔ حض��ور س��یدنا عیس���آاسمان کے انتظام� ام��ور ک� ذمہ داری س��نبھالنے لمسیح کے وفادار معتقدین نئ� زمین اور نئے کے لئے تربیت پارہے ہیں۔ شب انتظار کا یہ عرصہ ختم ہونے والا ہے۔ن�ئ� دنی�ا ک� ن�ئ� س�حرآاخ��رت میں ب��ڑے � بہت جلد طلوع ہونے وال� ہے ۔ فاتح اج فتح ک� بڑی للکار کے س��اتھ روز جاہ وجلال کے ساتھ دوبارہ تشریف لانے والے ہیں ۔ اس دن ک� منظر کش��� ک��ا جب دنی��ا ک�آاپکے ای�ک ح�واری نے حس�ب ذی�� الف��اظ میں نقش�ہ تاریخ کا ب�اd اپ�نے اختت��ام ک�و پہنچے گ�ا۔

کھینچا ۔آاس��مان س��ے آاگ میں ی�( اپنےقوی فرشتوں کے ساتھ بھڑکت� ہوئ� " خداوند یسوع )عیسی�( ک� خوش�خبری ک�و ظاہر ہوگا۔ اور جو خدا کونہیں پہچانتے اور ہمارے خداوند یسوع )عیس� نہیں مانتے ان سے بدلہ لے گا ۔وہ خ��دا ون��د کے چہ��رہ اور اس ک� ق��درت کے جلال س��ے دور ہوکر ابدی ہلاکت ک� سزا پائیں گے۔ یہ اس دن ہوگ��ا جبکہ وہ اپ��نے مقدس��وں میں جلال پ��انےآائے گا کیونکہ تم ہماری اور سب ایمان لانے والوں کے سبب سے تعجب کا باعث ہونے کے لئے

� تھسلنیکیوں رکوع گواہ� پر ایمان لائے" �ط دوئم اہ (۔۱۰تا۷آایت ۱)انجی شریف خ

�رکت��اd ک�ا دوس�را حص��ہ بھ� انش�ا الل�ه ش�ائع کردی�ا ی� نے زن�دگ� بخش�� ت�و زی باری تعال جائيگا ۔ اس میں تاریخ کلیسیا کا اح��وال بی��ان کی��ا جائيگ��ا کہ کہ��اں کہ��اں اور کس کس ط��رحآاپ کے پیغام کوپھیلایا کتن��وں نے اپ��نے ل��ئے ایم��ان ک� خ��اطر حضور کلمتہ الله کے پیروکاروں نے � شہادت نوش کیا اور کس کس طرح روح القدس ان ش�ہدائے ک�رام ک� تق��ویت اور حوص�لہ جامآان ان حقائق کا کس� حد تک انجی جلی ک� ایک کتاd بنام " رسولوں افزائ� کا باعث بنا۔

کے اعمال" میں ملاحظہ فرماکرسکتے ہیں۔ی المسیح نے ایک نہایت حوص��لہ حق کے سنجیدہ متلاشیوں سے حضور سیدنا عیس�

افزا عدہ فرمایا ہے کہ

" مانگو تو تم کو دیا جائے گا ڈھونڈو توپاؤگے۔۔۔۔

کیونکہ جو کوئ� مانگتا ہے اسے ملتا ہے اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے ۔"

(۸تا۷آایت ۷)انجی شریف بہ مطابق حضرت مت� رکوع

۲ نوٹ نمبر

تاریخوں اور واقعات کا سلسلہ � پرانے زمانہ کے اہم واقعات ک� تاریخات ہمیں کاف� ح��د ت��ک معل��وم ہیں کی��ونکہ علمآاثار قدیمہ نے مورخین کو واقعات ک� تواریخ ک� بہت حد تک جانچ پڑتال کے قاب بنادیا ہے۔

ق ۔ م میں وف��ات پاگی��ا۔ ن��یز یہ۴روم� ت��اریخ س��ے ہمیں معل��وم ہے کہ ہ��یرودیس اعظم آاپ ک��و ہلاک ک��رنے �ت س��عید کے موق��ع پ��ر اس نے بھ� معلوم ہے کہ حضور کلمتہ الله ک� ولاد

آاپ ک� تاریخ ولادت ق ۔ م متعین ک� گئ� ہے۔۴ک� امکان بھر کوشش ک� تھ�۔ اس� سے مصنف کتاd ہذا حضور المسیح ک� اس� سن میں ولادت کا حام� ہے۔

۳ نوٹ نمبر باپ

ی� کے واح��د ہ��ونے پ�ر ب��ار ب��ار ش�ہادت دی ہے۔ اور �ت باری تع��ال حضور المسیح نے ذاآاپ نے توریت شریف کے اس فرمان کا متعدد بارہ اعادہ فرمایا کہ

"خداوند ہمارا خدا ایک ہ� خداوند ہے۔")انجی شریف بہ مطابق حضرت م�رقس رک��وع(۔۲۹آایت ۱۲

ی� کو " باپ" کہنے سے اس ک� وحدت سے ہرگز انحراف نہیں ہوتا۔اس لہذا خدا تعال حقیقت ک� بھ� وضاحت ک� گئ� ہے کہ لفظ " باپ " کبھ� بھ� جسمان� معنوں میں خدای� ک� ذات سے منسوd نہیں کیا گیا۔ اس سے روحان� تعلق کو ظاہر کیا گیا ہے جو خدا تع��ال

اور ان لوگوں کے درمیان ہے جو اس سے محبت رکھتے ہوئے اس کے اطاعت گزار ہیں۔ انبیائے کرام نے متعدد بار خدا کو باپ کہہ کر پک��ارا جیس��ا کہ حض��رت داؤد کے ذي��

کے دو مزامیر سے بھ� واضح ہے:" لیکن صادق خوش� منائیں۔ وہ خدا کے حضور شادمان ہوں۔

بلکہ وہ خوش� سے پھولے نہ سمائیں ۔

خدا کے لئے گاؤ۔ اس کے نام ک� مدح سرائ� کرو۔صحرا کے سوار کے لئے شاہراہ تیار کرو۔

اس کا نام یاہ ہے اور تم اس کے حضور شادمان ہو۔خدا اپنے مقدس مکان میں

آایت ۶۸ی��تیموں کاب��اپ اور بی��واؤں ک��ا دادرس ہے۔" )زب��ور ش��ریف رک��وع ت��ا۳ (۔۱۵

" جیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہےویسے ہ� خداوند ان پر جو اس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے۔

کیونکہ وہ ہماری سرشت سے واقف ہے۔آایت ۱۰۳اسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں")زبور ش�ریف رک�وع (۔مزی�د۱۴ت�ا ۱۳،

ملاحظہ فرمائیے۔۸۱صفحہ نمبر

۴ نوٹ نمبر درہ خدا کا ب

درہ ی�ا بزغ��الہ مخلص�� کے نش�ان کے بن� یہود ک� تاریخ کے ابت��دائ� زم�انہ میں ای�ک ب�ی� کے حکم سے اپنے بیٹے ک��و قرب��ان طور پر قربان کیا جاتا تھا۔ پھر حضرت ابراہیم جب خدا تعال کرنے لگے توفرشتہ نے انہیں روک دیا اورایک مینڈھا دکھایا جو انہوں نے اپ��نے بی��ٹے کے ع��وضی� � مصر ک� غلام� سے نکلے تو اس رات بھ� خدا تع��ال قربان کیا۔ جس دن بن� اسرائي ملک نے انہیں برہ یا بزغالہ قربان کرنے اور اس کا خون اپنے دروازوں ک� چوکھٹوں پر لگانے کے لئے کہا تاکہ وہ موت کے فرشتہ کے لئے نشان ٹھہرے۔ وہ برہ ی��ا بزغ��الہ ب��ن� یہ��ود کے ہ��ر گھ��ر کے

پہلوٹھے کے عوض ذبح ہوا ۔

درہ کہ��ا � معصومیت حضور المسیح کو خدا ک��ا ب�� ی� نب� ( پیکر جب حضرت یوحنا )یحی تو مومنین بن� یہود ج�و اپ�ن� ق��وم� ت�اریخ س�ے واق�ف تھے ج�ان گ�ئے کہ ان ک�ا مطلب یہ تھ�ا کہ حضور المسیح دوسروں کو بچانے کے لئے ان کے گن�اہ خ�ود اٹھ�ائيں گے اور ان کے ع��وض اپ�ن�

جان دیں گے ۔ پر ملاحظہ فرمایئے۔۲۳۷تا ۲۳۴عید فسح ک� تفصیلات صفحات نمبر

۵ نوٹ نمبر � فسح عید

پر بیان کیا گیا ہے۔۲۳۷تا ۲۳۴اس عید ک� اہمیت صفحات

۶ نوٹ نمبر آادم � ابن

حضور المسیح کے زمانہ میں مومنین بن� یہود اس اص��طلاح س��ے واق��ف تھے۔دان� ای��آادم نب� نے اس کو اپ�نے ص�حیفے میں اس�تعمال کی��ا تھ��ا۔ مقدس�ین نے دیگ�ر کتب میں بھ� ابن ی� بط��ور المس��یح اس جہ��ان میں بھیجے گ��ا۔ اس اص��طلاح کے کا ذکر کیا تھ��ا جس��ے خ��دا تع��الآانحض��ور ہ� موع��ود المس��یح ہیں استعمال سے ایک حقیق� متلاش� کو جان لین��ا چ��اہیے تھ��اکہ

جو امت کو ان کےگناہوں سے مخلص� دیں گے ۔ اس کے علاوہ یہ اصطلاح حضور المسیح کے انسانوں سے قریب� تعلق کو بھ� ظاہرآاپ اپن� لاثان� اص کے آاپ غرباء سے بلا امتیاز ملتے تھے۔ آاپ کا پیشہ نجاری تھا۔ کرت� ہے۔

آادم ٹھہرے۔ � � انسان� کے قریب� دوست اور ہمدرد بن کر سچ مچ ابن باوجود نوع

۷ نوٹ نمبر اکلوتا بیٹا ۔ خدا کا بیٹا

پ�ر ملاحظہ فرم�ائيے۔ یہ�اں پ�ر اتن�ا۲۸۸ت�ا ۲۸۶اس اصطلاح کا مفص بیان ص�فحات ذکر کرنا ہ� کاف� ہوگا کہ حض�ور المس�یح ب�ڑی ص�فائ� س�ے اس حقیقت ک� تص�دیق فرم�اتے رہے کہ خدائے قدوس واحد وحید ہے۔ جب بھ� انجی جلی میں حضور کلمتہ الله کو خدا ک��ا بیٹا کہا گیا ہے۔ تو یہ اصطلاح ہر گز جس��مان� تعلق��ات ک� ط��رف اش��ارہ نہیں ک��رت�۔ خ��دائے

بزرگ وبرتر روح ہے۔ وہ ازدواجیت سے متشنا ہے۔ی� کو باپ کہنے کے دوسرے پہلو کو پیش کرت��ا ہے ۔ خدا کے بیٹے کا لقب خدا تعال

اس سے جسمان� تعلق ک� بجائے گہرا روحان� تعلق سمجھنا چاہیے۔ جب مسیح� حضرات حضور المسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں ت�و اک�ثر س�امعین ک�وآاخ��ر ت�ک �d ہذا ک�ا ش�روع س��ے ٹھوکر لگت� ہے۔ ایسے تمام اصحاd سے التماس ہے کہ وہ کتاآانحض��ور ک� پ�ر اس��رار س�یرت پ�اک کے ب�ارے میں ن�تیجہ نک�النے ک� کوش�ش مطالعہ ک�رکے ہ�

کریں۔

۸ نوٹ نمبر آاسمان ک� بادشاہ� خدا ک� بادشاہ� ۔

اس اصطلاح کا پہلا اور بنیادی مطلب کس� بادشاہ کا مرتبہ اختیار اور حکومت ہے۔ انجی شریف میں اس زمین� سلطنت نہیں بلکہ روحان� بادشاہ� م��راد ہے۔ ج��و ل��وگی� ک� مرض��� ک��و قب��ول ک��رکے اس ک��و اپن��ا بادش��اہ م��ان لی��تے ہیں وہ اس ک� دل س��ے خ��دا تع��ال

روحان� بادشاہ� کے شہری بن جاتے ہیں۔آاسمان ک� بادشاہ� کے شہری وہ لوگ ہیں جو اپنے گناہوں س��ے خدا ک� بادشاہ� یا

تائب ہوکر خدا کے مقرر کردہ روحان� بادشاہ حضور المسیح ک� تابع فرمان ہوگئے ۔

۹ نوٹ نمبر محصول لینے والے

روم� حک�ومت ، ٹیکس وص�ول ک�رنے ک�ا ٹھیکہ نیلام کردی�ت� تھ�۔ لہ��ذا محص�ول ک�ا ٹھیکیدار روم� حکومت کا ایجنٹ بن کر عوام سے ٹیکس وصول کرتا تھا، اس لئے عوام اسے ملک دشمن غذا ، اور غاصب سامراج کا حام� سمجھتے تھے ۔ حض��ور المس��یح اس قس��م کےی� کے پیغ�ام کوس�ننے کے مش�تاق تعصب کو نظر انداز کرکے ان تمام لوگوں سے جو خدا تعال

ہوتے ، می جول رکھتے تھے۔

۱۰ نوٹ نمبر پاک روح یا روح القدس ۔ روح

آاپ کے حضور کلمتہ الله نے پاک روح ک� بابت بڑی تفصی سے بی��ان فرمای��ا ہے ج��و آاسمان� کے بعد زمین پ��ر ن��ازل ہ��ونے والا تھ��ا۔ خ��دائے برت��ر روح آاپ کے رفع موت پر فتح پانے اور ہے اور قدوس ہے۔ چن�انچہ ای�ک خ�اص جہت س�ے خ�دائے روح نے حض�ور المس�یح ک� وف�اتآاسمان� کے دس دن بعد زمین پر نزول فرمایا۔ پاک روح کے اس آاپ کے رفع کے پچاس دن اور

خاص نزول کے مبارک یاد میں حضور المسیح کے بیشتر پیروکار عید پنتکست مناتے ہیں۔

۱۱ نوٹ نمبر مصلوبیت ۔ صلیب

� ذی خطوط ہر کرتے ہیں۔ تختہ دار پر اذیت ناک موت صلیب ک� شک کو حسب

روم� سنگین مجرموں او رحکومت کے باغیوں کو مصلوd کیا کرتے تھے۔ مزی�د س�زائے موت مجرموں کو صلیب پر کیلوں سے جڑ کر یارسو ں سے جکڑ کر چھوڑ دیا جات��ا جہ��اں وہ بے

� وح��رکت بھ��وک وپی��اس ک� ت��اd نہ لاتے ہ��وئے ت��ڑپ ت��ڑپ ک��ر مرج��اتے تھے۔ یہ عبرتن��اک حسلعنت� سزا کس� کھل� جگہ پر جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ تماشہ دیکھ سکیں دی جات� تھ�۔

English books for the further study

The New Atlas of the Bible, published by CollinsThe Bible and Archaelogy.J.Arthur Thompson, Paternoster, PressThe Text of the New Testment. Bruce Metzger. Clarendon PressBiblical Archaelogy. G.Ernest Wright, Westminster PressThe Dead Sea Scrolls, G.Vermes. Penguin BooksThe People of the Dead Sea Scrolls, J.M.Allegro, Routledge and Kigan Paul.