muslim’s rule in south asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ ·...

79
Muslim’s Rule in South Asia یشیا میں جنوبی امدٓ ون کی ا مسلمان

Upload: others

Post on 17-Jul-2020

26 views

Category:

Documents


0 download

TRANSCRIPT

Page 1: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

Muslim’s Rule in South Asia جنوبی ایشیا میں مسلمانون کی امد

Page 2: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

a. Arrival of Muhammad bins Qasim and his successors

محمد بن قاسم اور مسلمان تاجروں کی امد

کی ناکام جنگ ۱۸۵۷اسالمی سلطنت کا قیام ، زوال اور ازادیپہلے پہل عرب میں جنوبی ایشیا میں عیسوی ۷۱۲

مسلمان تاجر تجارت کی غرض سے جنوبی ایشیاء میں ائے ان کی بدولت اسالم کی تبلیغ اور

اشاعت ممکن ہوئی۔

Page 3: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

b. Tolrance , Religious Freedom toward Non Muslims

ہندوستان میں اشاعت اسالم کے اسباب و عوامل

تعارف

اسالم کی آمدکے وقت یہاں کے دوقدیم مذہب ہندومت اور بدھ مت ہندوستان میں کے درمیان کش مکش جاری تھی۔جس میں بدھ ازم کودوبارہ عروج حاصل

ہورہاتھا ۔ان مذاہب کے رہنماسماجی تفریق کے ناسورکا مداوا پیش کرنے سے قاصر رہے۔اگراس طرح کی برائے نام کوئی کوشش کی بھی تو اس میں انہیں

امیابی نہ مل سکی۔اس کش مکش کا اور سماجی تفریق کا عوام کوئی کبالخصوص سماج کے پچھڑے طبقہ پر کافی اثر پڑا ۔اسی درمیان اسالم اپنی صاف ستھری تعلیمات لے کر ان کے سامنے کھڑاہوا،توعوام کونظرآیا کہ طمانینت قلب کے ساتھ ساتھ اسالم نے جونظریہ حیات پیش کیاہے اس میں

رنگ ونسل سب برابر ہیں اور انہیں اپنے اندر جگہ دینے کے لیے بالتفریق اسالم تیارہے ،لہذاان لوگوں نے ایک نظر اپنے ماضی پرڈالی اور الوداع کہتے ہوئے اپنے مذہب کوچھوڑ کراسالم کی آغوش میں آتے چلے گئے اور مستقبل

اہندو کودینی ودنیوی اعتبارسے سنوارنے میں لگ گئے۔اب کوئی اونچی ذات ککسی نائر سے چھوجانے اور غسل کیے بغیر کچھ کھاپی لینے کے جرم میں غریب الوطنی ،قید اور غالمی کی صعوبتیں اٹھانے کے لیے مجبور نہ تھا۔یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اسالم کی اشاعت میں صرف صوفیاء اورعرب تجار کا

Page 4: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

عوامل کار صرف حصہ ہے۔بلکہ اس کامیابی کے پیچھے مندرجہ ذیل اسباب :فرما تھے

۔ عرب تجار کی تبلیغی مساعی۔۱ ۔ سالطین کاپے درپے ہندوستان پر حملہ کرنا اور مسلمانوں کاآباد ہونا ان ۲

سالطین کے زیر اثر جنہوں نے نوواردمسلمانوں کو اپنے سماج میں بالفرق وامتیاز جذب کیا۔

۔ علماء کی تدریسی،تقریری اورتحریری خدمات۔۳ رام کی جدوجہد۔۔ صوفیاء ک۴ ۔ انسانی مساوات وبشر دوستی کا اسالمی عقیدہ۔۵ ۔ ذات پات کی تفریق سے نفرت وبیزاری۔۶

ان میں سے ہر عامل نے اپنے اپنے خطوط پر نمایاں کردار اداکیا۔اگر ان میں سے کسی ایک کو اشاعت اسالم کی بحث سے خارج کردیا جائے تو کئی اہم

ذایہ بات یقینی طور پرکہی جاسکتی کہ اسالم کی سواالت پیدا ہوجائیں گے ۔لہاشاعت تلوار کے ذریعہ ممکن ہی نہ تھی۔ بلکہ ان سب عوامل واسباب نے مل

کر ہندوستانی سماج کو متاثر کیا اور جس کے نتیجے میں اس کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا۔ چوں کہ مذکورہ اسباب ومحرکات کے امین وعامل مسلمان ہی تھے اس

نہیں ابتدائی مزاحمت کے بعد جلد ہی اپنے مشن میں کامیابی مل گئی۔لیے ا

سالطین ہند کا کردار

اور ان کے بعد مسلمان حکمران ۷۱۲محمد بن قاسم

اور قطب الدین ایبک ۱۱۹۲اور شہاب الدین غوری ۱۰۰۰محمود غزنوی

Amīn-ud-Dawla Abul-Qāṣim Maḥmūd ibn Sebüktegīn (Persian: ا مینالدوله ابوالقاسم

;محمود غزنوی) more commonly known as Mahmud of Ghazni ,(محمود بن سبکتگین

November 971 – 30 April 1030), also known as Mahmūd-i Zābulī ( ود زابلیمحم ), was the most

prominent ruler of the Ghaznavid Empire. He conquered the eastern Iranian lands, modern

Afghanistan, and the northwestern Indian subcontinent (modern Pakistan) from 997 to his death

in 1030. Mahmud turned the former provincial city of Ghazna into the wealthy capital of an

extensive empire which covered most of today's Afghanistan, eastern Iran, and Pakistan, by

looting the riches and wealth from the then Indian subcontinent.[2][3]

Page 5: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

He was the first ruler to carry the title Sultan ("authority"), signifying the extent of his power,

though preserving the ideological link to the suzerainty of the Abbasid Caliphate. During his

rule, he invaded and plundered parts of Hindustan (east of the Indus River) 17 times

Page 6: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم
Page 7: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

ان ان میں سلطان شمس الدین التمش ۱۲۹۰ سے ۱۲۱۰خاندان غالماں ناصر الدین اور ان کا جرنل غیاث الدین کی بیٹی رضیہ سلطانہ اور ان کا بیٹا

بلبن

سال تک خکومت میں رہے ۴۰خاندان خلجی

سال ۴۰لودھی خاندان نے تغلق خاندان اس کے بعد سید خاندان اس کے بعد تک حکو مت کی

تک حکومت کی ۱۷۴۸سے ۱۵۳۰مغلیہ خاندان نے

• 315 Years – peak 1552-1719; In this period peace prevailed – riched the land in agriculture and

Page 8: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

industry – fruits, rice, textiles, silk, more than 1000 carpet factories in the time of Akbar.

Mughal Empire• Under the Mughals, India was the heart of a great Islamic empire and

a prolific center of Islamic culture and learning.

• Dynasty was the greatest, richest and longest lasting Muslim dynasty

to rule India.

• Mongol Descendents

• The Great Mughal Emperors were:

– Babur (1526-1530) The First of the Mughals

– Humayun (1530-1556)

– Akbar (1556-1605)

– Jehangir (1605-1627)

– Shah Jehan (1627-1658)

– Aurangzeb (1658-1707)

یہ بات درست ہے کہ سالطین ہند علما، صوفیاء اور مشائخ کی طرح دین اسالم

ین کے کے نمائندے نہ تھے ،مگر اس سے بھی مفرنہیں کہ ان کاہر اقدام دمنافی نہ تھا،یا ان کا فکرکلی طور پر اسالم کے اصول ومبادی سے متضاد

ومتصادم تھا۔اگر ان سالطین میں بہت سے نااہل تھے تو بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو دینی روح سے مزین اور عدل پرور تھے۔چنانچہ ان دونوں قسم کے

ی اور رعایاپروری حکمرانوں کے کارناموں ،ان کی دینی خدمات ، عدل پرور :کا موازنہ کرتے ہوئے سید صباح الدین عبد الرحمن نے لکھتے ہیں

فخرمدبر کابیان ہے کہ قطب الدین ایبک نے سخاوت میں حضرت ابوبکر کی ”اور عدل میں حضرت عمر کی تقلید کرنے کی کوشش کی ،حضرت بختیار

ے عام اجازت کاکی کے ملفوظات فوائد السالکین میں ہے کہ التمش کی طرف س

Page 9: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

تھی کہ جولوگ بھی فاقہ کرتے ہوں اس کے پاس الئے جائیں اور جب وہ آتے تو ان میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ دیتا اور ان کو قسمیں دے کرتلقین کرتا کہ جب ان کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ رہے یا ان پر کوئی ظلم کرے تو

کی ہوئی ہے ہالئیں تاکہ وہ ان وہ یہاں آکر عدل وانصاف کی زنجیر جوباہر لٹکے ساتھ انصاف کرسکے،ورنہ قیامت کے روز ان کی فریاد کا بار اس کی

طاقت برداشت نہ کرسکے گی ۔غیاث الدین کے بارے میں مورخ ضیاء الدین برنی نے لکھا ہے کہ وہ اپنی داد

دہی اور انصاف پروری میں بھائیوں،لڑکوں اور مقربوں کامطلق لحاظ نہ اور جب تک مظلوم کے ساتھ انصاف نہ کرلیتا،اس کے دل کو آرام نہ کرتا

پہونچتا ۔انصاف کرتے وقت اس کی نظر اس پر نہ ہوتی کہ ظلم کرنے واال اس کاحامی و مددگارہے ۔اس کے لڑکے، اعزہ مخصوصین ،والی اور مقطع اس کی

عدل پروری سے واقف تھے ،اس لیے کسی کی بھی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ سی کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی کریں،اس کے عدل وانصاف کے قصے ک

بہت مشہور ہیں، خود اس زمانہ کے ہندوؤں نے اس کی حکومت کو دل کھول کر سراہاہے ۔

ء کا ایک سنسکرت کتبہ پالم میں مال ہے جس میں ۱۲۸۰بکرمی مطابق ۱۳۳۷اچھی لکھا ہے کہ بلبن کی سلطنت میں آسودہ حالی ہے۔اس کی بڑی اور

حکومت میں غور سے غزنہ اوردراوڈسے رامیشورم تک ہرجگہ زمین پربہار ہی بہار کی دل آویزی ہے ،اس کی فوجوں نے ایساامن و امان قائم کیا ہے جوہر

شخص کو حاصل ہے ، سلطان اپنی رعایا کی خبر گیری ایسی اچھی طرح در میں کرتاہے کہ خود و شنو دنیا کی فکر میں آزاد ہوکر دودھ کے سمن

جاکرسورہے ہیں۔امیرخسرو عالء الدین خلجی کے بارے میں خزائن الفتوح میں لکھتے ہیں کہ

اس نے حضرت عمر کے ایساعدل قائم کررکھا ہے اور عوام کے معامالت میں وہ المستنصر باہلل اور المستعصم بناہوہے ۔محمد بن تغلق کے بارے میں سالطین

رخین لکھتے ہیں کہ وہ عدل نوازی دہلی اور مغل بادشاہوں کے د ورک ے موٴکے سلسلہ میں مشائخ اور علماء کی بھی رورعایت نہ کرتا ،وہ اگر مجرم ہوتے تو ان کو بھی بالتامل سزائیں دیتا۔مسالک االبصار میں ہے کہ سلطان ہفتہ میں شنبہ کو دربارعام منعقد کرتا اور اس کے افتتاح کے موقعہ پر ایک نقیب بلند

پکارتا تاکہ مظلومین اپنی فریادسنائیں،اہل حاجت اپنی ضرورتیں پیش آوازسے کریں ،جس کو کوئی شکایت ہو یاجوحاجت مندہووہ حاضرہوجائے ،نقیب کے

Page 10: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

بالتکلف سامنے آجاتے اور سامنے کھڑے ہوکر خاموش ہوتے ہی اہل غرض نہایت صفائی سے حاالت بیان کرتے ،اثنائے بیان میں کسی کوکسی کے روکنے

ی مجال نہ تھی۔تاریخ مبارک شاہی اور مال عبد القادر بدایونی کی منتخب کالتواریخ دونوں میں ہے کہ سلطان نے اپنے شاہی محل کے اندر چار مفتی

مامور کر رکھے تھے، جب کوئی فریادی آتاتو سلطان ان مفتیوں سے مشورے کی بدولت کرتااور ان کو تنبیہ کررکھی تھی کہ اگرکوئی معصوم ان کی فیصلہ

تہ تیغ ہواتواس کاخون ناحق ان کے گردن پر ہوگا۔اس لیے مفتیوں سے کوئی رخین بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں فروگزاشت نہ ہوتی۔موجودہ دور کے ہندو موٴکہ فیروز شاہ کی حکومت عدل وانصاف کی حکومت تھی،کسی شخص کو بھی

امن وسکون تھا دوسرے پر ظلم وتعدی کرنے کاحق نہ تھا،تمام ملک میں ،چیزوں کی فراوانی تھی،اعلی وادنی ہرطبقہ کے لوگ مطمئن تھے،عام

رعایاقانع اوردولت مندہوگئی تھی۔

سالطین دہلی کی حکومت میں عدل پروری کی جو روایت قائم ہوئی اس کو مغل بادشاہوں نے بھی اوربھی شاندار طریقے پر برقرار رکھا ۔بابرنے اپنی تزک

ہے کہ اس کی فوج بھیرہ سے گزررہی تھی تو اس کو معلوم ہوا میں خود لکھاکہ سپاہیوں نے بھیرہ والوں کوستایاہے اور ان پر ہاتھ ڈاالہے ،تو فوراان

سپاہیوں کو گرفتار کرکے بعض کو سزائے موت کا حکم دیا اور بعض کی ناکیں کٹواکر تشہیر کرایا۔

پہر عدل و انصاف کے لیے مقرر ابوالفضل کابیان ہے کہ اکبر نے روزانہ ڈیڑھ کر رکھاتھا۔ جہاں گیر اور بھی سخت تھا،وہ دو گھنٹے روزانہ عوام کی شکایتیں

سنتا،اس نے تو اپنے محل میں ایک زنجیر لگارکھی تھی تاکہ ہرشخص کسی روک ٹوک کے بغیر براہ راست اس سے فریاد کرسکے ،وہ سفر میں بھی

فریادسنتا اور ظالموں کو سزادیتا تھا،عاللت ہوتاتو روزانہ تین گھنٹے بیٹھ کر کے زمانہ میں بھی اس کایہ معمول جاری رہتا ۔اس نے اپنی تزک میں لکھا ہے

مخلوق خداکی نگہبانی کے لیے میں رات کوبھی جاگتاہوں اور سب کے ”کہ لیے اپنے آپ کو تکلیف دیتاہوں ۔

پر موت کی سزا وہ تو نور جہاں کوبھی ایک عورت کے شوہر کو ہالک کرنےسے “عدل جہاں گیری”دینے کے لیے تیار ہوگیا تھا۔جیساکہ موالنا شبلی کی نظم

ظاہر ہوگا۔مغل بادشاہوں کایہ دستورتھاکہ وہ دیوان عام میں عوام کی شکایتیں سنتے جہاں

Page 11: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

ادنی سے ادنی آدمی ان کے پاس آسانی سے پہونچ سکتاتھا۔جوبھی چاہتا ہوکر خود اپنا استغاثہ پیش کردیتا ،دربار کے دربارعام کے سامنے حاضر

عہدے دار اس کولے کر بادشاہ کے سامنے پیش کردیتے، بادشاہ اس کو پڑھواکر سنتا،مدعی سے جرح کرتااور پھر مناسب کاروائی کے لیے فیصلہ صادر کردیتا، اگر مجرم کوئی بڑاعہدیدار یاشاہی خاندان کا بھی ہوتاتواس

مل نہ کیاجاتا۔کوسزائیں دینے میں تا شاہ جہاں نے گجرات کے ناظم حافظ محمدنصیر کوحبس دوام کی سزااس لیے دی کہ وہاں کے تاجروں کے ساتھ وہ ظالمانہ طریقہ پرپیش آتاتھا،اسی طرح ایک بار بنگال کے ناظم فدائی خاں کو اس کے عہدہ سے برطرف محض اس

قدین بھی اس پر یہ لیے کردیاکہ عوام اس کے شاکی تھے ۔اورنگ زیب کے ناالزام نہیں رکھ سکتے کہ وہ عدل پرور نہیں تھا،اس نے شاہ جہاں کواس کی

معزولی کے بعد ایک رقعہ میں لکھا کہ خدا وندتعالی اس کوکچھ عطا کرتاہے جس میں رعایا کی حالت سدھارنے اور ان کی حفاظت کی صالحیت ہوتی ہے ،

ہ کہ تن پروری اور عیاشی۔حکمرانی کے معنی لوگوں کی نگہبانی ہے ن اوراسی عدل پروری کا نتیجہ تھا کہ جوسالطین مذہبی ہوتے انہوں نے جزیہ یا نئے مندر کے بننے اور نہ بننے کاسوال تو اٹھایا لیکن یہاں کہ غیر مسلموں پر اپنا مذہب زبردستی الدنے کی کوشش نہیں کی ،وہ خود تو اسالم کے محافظ اور

مسلمانوں کو بھی اوامرونواہی کی پابندی کرانے کی نگہبان ضرور ہے اورکوشش کی لیکن کبھی اپنی غیر مسلم رعایا کے مذہبی عقائد میں مداخلت نہیں کی اور ان کی معاشرتی زندگی کو درہم برہم نہیں کیا۔اکبر نے انسان دوستی کے جذبہ سے ستی کے رسم کو روکنے کی کوشش کی،کمسن بیواؤں کے

تم کردینا چاہا ،بچپن کی شادی کے خالف بھی کچھ عملی کار رواج کو بھی خوائی کی، لیکن اپنی ہمدردانہ خواہشوں کو کبھی تلوار کی نوک سے عمل میں نہیں الیا ۔بعض فرماں رواؤں پر جبری تبلیغ کاالزام عائد کیا جاتاہے ، لیکن

تحقیقات سے یہ الزامات زیادہ تر بے بنیادثابت ہورہے ہیں۔رخین لکھتے ہیں کہ یوپی چھ سوسال تک مسلمانوں کے زیر نگیں ہندوموٴ

رہا،لیکن یہاں مسلمان صرف چودہ فیصدی ہیں ،اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندو مذہب محفوظ رہا اورجبری اشاعت اسالم نہیں ہوئی،اور ہندوؤں کوزبوں

اسی مفاد حال نہیں بنایاگیا ،تمام سالطین اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ ان کاسیاسی میں ہے کہ یہاں کے لوگوں کے مذہبی اور معاشرتی نظام میں مداخلت نہ کریں،اس رواداری کے بغیر ان کی حکومت زیادہ دنوں تک قائم بھی نہیں رہ

Page 12: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

سکتی تھی۔صوفیاء کرام نے خدمت خلق ہللا اور عدل پروری کی جو تعلیم دی یمانہ اور روادارانہ اخالق اور خود یہاں کے غیر مسلموں کے ساتھ ان کاجو کر

لیکن یہ ملحوظ رکھنا چاہیے … رہا اس سے سالطین کو مزید تقویت پہونچی ۔ کہ جس سالطین کا ذکر اوپر کی سطروں میں کیا گیا ہے،وہ مسلمانوں کے دور عروج کے اچھے حکمراں تھے،اگر ان میں واقعی یہ خوبیاں نہ ہوتیں تو خون

پرسررکھ کرلڑنے والے ، اپنے سینوں کو نوک سے ہولی کھیلنے والے ،ہتھیلیشمشیر اور نوک سنان سے چھلنی کرنے والے راجپوتوں کی سرزمین میں ان کا اور ان کے ہم مذہبوں کا قدم جمنا آسان نہ تھا۔اس لیے یہ تسلیم کرنا پڑے گاکہ مسلمانوں کی حکومت کے دور عروج میں زیادہ تر اچھے حکمراں

گزرے۔یں آرام شاہ،رکن الدین فیروز شاہ،معزالدین بہرام شاہ،عالء الدین غالم سالطین م

مسعود شاہ اور کیقبادجیسے بے جان حکمراں بھی گزرے۔لیکن اسی خاندان میں التمش کی نیک نفسی اور انتظامی کاکردگی ،بلبن کے جاہ وجالل اور عدل

گستری کی بدولت حکومت کو غیر معمولی قوت حاصل ہوئی ۔خلجی سالطینکے عہد میں قطب الدین مبارک شاہ جیسارند اور ناصرالدین خسروجیسا مفسد حکمراں بھی ہوا، لیکن ان کے عہد کی بدعنوانیاں اور کمزوریاں ان کے پیش رو سلطان عالء الدین خلجی کی نبرد آزمائی اور رعایا پروری سے دب کررہ

برقرار رہی ۔ گئیں،ان کے خاندان کوتو ان سے نقصان پہونچا لیکن حکومت غیاث الدین کی مردانگی اور فرزانگی ، محمد تغلق کی بلندحوصلگی اور اولو العزمی اور فیروز شاہ کی غیرمعمولی رحم دلی اورعیت نوازی سے جوقوت بنی اس کے سہارے ان کے کمزور جانشیں کچھ عرصہ تک حکومت کرتے

ڑا۔ان میں سے اچھے رہے ۔ابراہیم لودھی کو اپنی کمزوریوں کانتیجہ بھگتنا پسالطین کی اچھائیوں کاذکر کرنے میں جس طرح منہاج سراج)مولف طبقات ناصری( موالنا ضیاء الدین برنی )صاحب تاریخ فیروز شاہی(اور شمس سراج عفیف )کاتب تاریخ فیروز شاہی(نے فیاضی سے کام لیاہے، اسی طرح موجودہ

رخین میں کے۔ایس۔ لعل۔ نے اپن ی تاریخ ہسٹری آف دی دور کے ہندو موٴخلجیز،ڈاکٹر ایشوری پرشاد نے ہسٹری آف قرونہ ٹرکس اور ڈاکٹر ایشورٹوپا

نے پولی ٹکس ان پری مغل ٹائمس میں قابل قدر سالطین کی خوبیاں بیان کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔

مغل خاندان کے پہلے چھ بادشاہوں کے حربی،سیاسی،اقتصادی اور تمدنی نااہل اور ناالئق حکمراں /۱۳ے شاندارہیں کہ اس خاندان کے آخری کارنامے اتن

Page 13: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

انہیں شاندار کارناموں کی بدولت ڈیڑھ سو برس تک تخت وتاج کے مالک بنے رہے،اور جس طرح نظام الدین بخشی نے طبقات اکبری ، ابوالفضل نے

دشاہ اکبرنامہ،مستعد خان نے اقبال نامہ جہانگیری،مال عبد الحمید الہوری نے بانامہ لکھ کر مغل بادشاہوں کے قابل قدر حکمرانوں کی مدح سرائی کی ہے،اسی رخوں میں ڈاکٹر رام پرشادترپاٹھی نے رائیز آف طرح موجودہ دور کے ہندو موٴدی مغل ایمپائر،ڈاکٹر بینی پرشاد نے ہسٹری آف جہانگیراور بنارسی پرشاد نے

ظر سے ان حکمرانوں کوخراج ہسٹری آف شاہ جہاں لکھ کر اپنے اپنے نقطہ نتحسین اداکیاہے۔البتہ عالم گیر کی تعریف وتوصیف میں جس طرح عالمگیر نامہ کے مصنف کاظم شیرازی کا قلم چال ہے اس طرح سرجادو ناتھ سرکارجیسے رخ نے اس بادشاہ کی تاریخ لکھنے میں بیس برس کی مدت گزاری دیدہ ورموٴ

جلدوں میں مرتب کی آج تک کسی /۵خ اوربڑی کدوکاوش کے بعد اس کی تاریکی تاریخ اتنی جلدوں میں نہیں لکھی گئی۔“ نااہل بادشاہ” “

۱۰۹-ہندوستان کے سالطین،علمااور مشائخ کے تعلقات پر ایک نظر،ص: )۲۹-۳۳۔اسالم ،مسلمان اور غیر مسلم، ص: ۱۱۴ )

س بدقسمتی سے ہندوستان کی وسطی اور جدید تاریخ کے واقعات وکردار کو اطرح سے مسخ کردیا اور جھوٹ سے بھر دیاگیا ہے کہ غلط اور دروغ بیانی

کو الوہی صداقت کی طرح قبول کرلیاگیاہے ،اور جولوگ حقیقت اور فسانہ میں اصلیت اور بناوٹ میں سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کی کوشش کرتے ہیں

رقہ اس لیے انہیں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اس طرح سے فواریت سے ناجائز فائدہ اٹھانیوالوں کا تاریخ کو مسخ کرنے اور دروغ آمیز

بنانے کاکام جاری ہے ،اور بالعموم اس طرح کے منافقانہ اور سیاسی رہنماؤں کی سرپرستی وقیادت ہی میں انجام پاتے ہیں ،چنانچہ اس سیاسی متعصبانہ

دوی نے آل انڈیا ہسٹری نظریہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے عالمہ سید سلیمان ناء ( کے خطبہ صدارت میں کہا ۹۴۴کانگریس اجالس منعقدہ مدارس)دسمبر

:تھاکہپالٹیکس کے کھیل سے اس ملک کا علم تاریخ بھی بچا ہوا نہیں ،بلکہ صاف ”صاف کہنا چاہیے کہ یہی وہ بیج ہے جس سے ہندوستان کا مشہور پھل پھوٹ

ی برائی اور اچھائی کی بھی بہت سی پیدا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی حکومت کباتیں کہی جاسکتی تھیں،مگر ان کے بعد اس ملک میں جو حکومت آئی اس کے زمانہ میں تعلیم کاسررشتہ پوراکاپورا غیر ملکیوں کے ہاتھ میں تھا،ان لوگوں

Page 14: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

کے ہر جتھے کی ہر طرف سے یہ کوشش تھی کہ اپنے راج کی بڑائی کو ہر ٹھادے اور ساتھ ہی ایک ایسا کرتب کرے جس سے ان ہندو ستانی کے دل میں ب

کے دل کے شیشے ٹوٹ کر پھرجٹنے نہ پائیں۔تعلیم کے سارے مضمونوں میں اس کام کے لیے تاریخ کے سوا کوئی اور چیز مناسب نہ تھی، چنانچہ انہوں

نے ملک کے لیے تاریخ کی جو کتابیں شروع سے آخر تک لکھیں اور پڑھائیں یں سو سو طرح سے الٹ پلٹ کر سمجھائیں کہ جو دل ان سے ان میں یہی بات

ہندوستانی ہی کورس کی کتابیں … ٹوٹے تھے وہ پھر اب تک جٹ نہ سکےبتاتے ہیں اور تاریخ کے مختلف دور کے بادشاہوں کے حاالت کی تحقیق پر

کتابیں لکھاتے ہیں۔لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ان کے چلنے کا راستہ وہی ہے جو ان کے پہلے پرانی بدیسی بناکر چھوڑ گئے ۔ ابھی تک مقاالت )“

۱،ج:۳۸۱-۳۸۷سلیمانی،ص: )

a. Tolrance , Religious Freedom toward Non Muslims

رگان دین اور صوفیا کرام کی مساعی غیر مسلم کی ازادی مذہب بز اور برداشت کے ضمن میں

پورا سہرا صوفیاء کے سر دعوت اسالم کے مصنف آرنلڈنے اشاعت اسالم کا۲۷۱-ڈاال ۔ )ٹی ،ڈبلو،آرنلڈ،دعوت اسال)مترجم اردو:محمد عنایت ہللا(ص:

ء( اسی رائے کو زیادہ تر لوگوں نے قبول ۱۸۹۸،مطبع فیض عام،آگرہ،۳۱۴رخوں نے کرکے ان کی خدمات کوسراہاہے ۔عصر حاضر کے کچھ محتاط موٴ

اسالم کی اشاعت صوفیائے اپنی تمام بحث اس بات پر مرکوز کردی ہے کہ کرام کی ترجیحات یا عمومی ذمہ داریوں سے خارج تھی اور انہوں نے کوئی

-عملی جدوجہد نہ کی۔) سہ ماہی تحقیقات اسالمی،علی گڑھ،جوالئی،مضمون:بر صغیر میں اسالم کی توسیع و اشاعت ۱۹-۴۶ء،ص:۱۹۸۵ستمبر

د ظلیمیں صوفیائے کرام کاحصہ،مضمون نگار:ڈاکٹراشتیاق احم اسی طرح (رخ نے اپنے ایک طویل مضمون میں اس بات کی صراحت کی ہے ایک اور موٴکہ اسالم کی اشاعت میں علماء قدیم نے کوئی نمایاں سرگرمی نہیں دکھائی ،ان کادائرہ کار صرف تعلیم وتعلم اور کتاب لکھنا رہاہے ۔دین کی تبلیغ کم از کم

فرائض اورکاموں میں شامل قرون وسطی کے بر صغیر کی حدتک ان کے

Page 15: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

دکھائی نہیں دیتی، البتہ کہیں کہیں چندمثالیں مل جاتی ہیں جوانگلیوں کی پوروں -پر گنی جاسکتی ہیں۔) سہ ماہی تحقیقات اسالمی،علی گڑھ،جنوری

میں مندرجہ ذیل رصغیر میں اشاعت اسالم،مضمون:ب۴۵-۶۸ء،ص:۱۹۸۷مارچمظہر صدیقپروفیسر یسین : خدمات قابل ذکر ہیں

۔ علماء کی تدریسی،تقریری اورتحریری خدمات۔۱ ۔ صوفیاء کرام کی جدوجہد۔۲ ۔ انسانی مساوات وبشر دوستی کا اسالمی عقیدہ۔۳ کی تعلیم اور عملی کردار ات پات کی تفریق سے نفرت وبیزاری۔ ذ۴

میں مندرجہ ذیل بزرگ گان دین برصغیر میں اشاعت اسالم کی کوششیں قابل ذکر ہیں

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری

سید ابوالحسن علی بن عثمان الجالبی الہجویری ثم الہوری معروف بہ داتا گنج بخش ، ہجویر اور جالب غزنین کے دو (ء1079تا ء1009 / ھ465تا ھ400) رحمۃ ہللا علیہ

گاؤں ہیں شروع میں آپ کا قیام یہیں رہا اس لیے ہجویری اور جالبی کہالئے۔ سلسلہ نسب علی مرتضی کرم ہللا وجہہ سے ملتا ہے۔ روحانی تعلیم جنیدیہ سلسلہ کے بزرگ

ء1039ابوالفضل محمد بن الحسن ختلی رحمۃ ہللا علیہ سے پائی ۔ مرشد کے حکم سے میں بھاٹی دروازہ آپ کی مشہور تصنیف ہے۔ الہور پہنچے کشف المحجوب میں الہور

[1]کے باہر آپ کا مزار مرجع خالئق ہے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری

حضرت مجدد الف ثانی حضرت سلطان سخی سرور حضرت میراں حسین زنجانی

حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی

Page 16: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

مہرؤلی، دہلی میں درگاہ قطب الدین بختیار کاکی

کے صوفی اسالم، خاص طور پر سلسلہ چشتیہ مذہب

سلسلہ چشتیہ نسب نامہ

اسمادیگر ملک المشایخ

(موجودہ کرغیزستان) اوش1173 پیدائش

دہلی1235 انتقال

مہرؤلی، دہلی مقام استراحت

دہلی شہر

قطب االقطاب خطاب

تیرہویں صدی کا ابتدائی دور

معین الدین چشتی پیشرو

بابا فرید الدین گنج شکر جانشین

Page 17: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

حضرت شیخ بہائو الدین زکریا ملتانی حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر

فرید الدین گنج شکر

گنج شکر، شیخ العام

تاریخ پیدائشکوٹھوال گاؤں، ملتان،

پاکستان

تاریخ وفات1266 / 1280

پاکپتن،پاکستان

مؤثر

شخصیات قطب الدین بختیار کاکی

اقوال زریں انسانوں میں رذیل ترین وہ

ہےجوکھانےپینےاورپہننےمیں مشغول رہے۔ جوسچائی جھوٹ کےمشابہہ ہواسےاختیارمت کرو۔

نفس کواپنےمرتبہ کےلئےخوارنہ کرو۔ اگرتم بزرگوں کامرتبہ چاہتےہوتوبادشاہوں کی

اوالدسےدوررہو۔ جب کوئی مومن بیمارہوتواسےمعلوم ہوناچاہیےکہ

ماری اس کےلئےرحمت ہے۔جوگناہوں سےاس یہ بی کوپاک کرتی ہے۔

Page 18: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

دوریش فاقےسےمرجاتےہیں مگرلذت نفس کےلئےقرض نہیں لیتے۔

جس دل میں ہللا کاذکرجاری رہتاہےوہ دل زندہ ہےاورشیطانی خواہشات اس پرغلبہ نہیں پاسکتیں۔

وہ شےبیچنےکی کوشش نہ کروجسےلوگ خریدنےکی خواہش نہ کریں۔

اچھائی کرنےکےلئےہمیشہ کسی بہانےکی تالش میں رہو۔

دوسروں سےاچھائی کرتےہوئےسوچوکہ تم اپنی ذات سےاچھائی کررہےہو۔

ہرکسی کی روٹی نہ کھابلکہ ہرشخص کواپنی روٹی کھال۔

وہ لوگ جودوسروں کےسہارےجینےکاارادہ رکھتےہیں،وہ تساہل پرست،کم ظرف اورمایوس

ہوتےہیں۔ اطمینان قلب چاہتےہوتوحسدسےدوررہو۔

حضرت مخدوم عالئو الدین احمد صابر کلیری حضرت سید جالل الدین بخاری حضرت شیخ نظام الدین اولیاء

حضرت سید محمد غوث

شاہ ولی ہللا اور ان کے شاگردوں کی حضرت تحریک مجاہدین

حضرت عبد ہللا شاہ غازی )کراچی( شہباز قلندر حضرت لعل

حضرت بابا شاہ عنایت قادری

حضرت بابا بلھے شاہ

، حضرت ،منگھو پیربابا

Page 19: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

،حضرت درگاہ حضرت سخی عبدالوہاب شاہ جیالنی

،حضرت ، درگاہ سیدی موسانی

حضرت درگاہ شاہ عبدالطیف بھٹائی

ان بزرگوں کی مساعی اور دعائوں سے پورے بر صغیر میں دور دور تک اسالم پھیال۔ ان کی خدمات سے سماجی اثرات ، سیاسی اثرات میں غیر مسلم

معاشرے پر برداشت اور امن و محبت کا بہت زیادہ اثر ہوا۔

عام رجحان یہ ہے کہ اسالم کی اشاعت میں سالطین نے ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ رخوں نے اس کے برعکس یہ باور کرایا ہے کہ انہوں نے نہی ں کیا،متعصب موٴ

(جبرااسالم کوپھیالیا۔ ی

اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر اس نیک کام کو ہندوستان کی حد تک کس نے انجام دیا،عوام نے یاصرف تجارنے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسالم کی اشاعت میں

کسی حدتک عام مسلمان بھی شامل ہیں سالطین،صوفیاء،علماء،عرب تجاراور اور سبھوں نے اپنے اپنے دائرہ میں رہ کراس کام کوانجام دیاہے ۔

سالطین نے ملک فتح کرکے یہاں کے باشندوں کو ایک مرکز سے جوڑااور مسلمانوں کو ا ن کے درمیان رہنے کاموقع فراہم کیاجن کی معاشرت ،تہذیب

متأثر ہوئے اور اس طرح گاہے بہ گاہے اور عادات واطوار سے مقامی باشندے وہ مسلمان معاشرہ میں اسالم قبول کرکے ضم ہوگئے۔دوسری طرف ان

بادشاہوں نے جب کسی عالقہ پر فتح حاصل کی توان کے سامنے قبول اسالم کی پیش کش رکھی جس کو بہت سے ہندوؤں نے قبول کیا۔اس کے بعد پھر یہی

ام سے نوازتے جس کے اچھے اثرات سالطین مقامی باشندوں کواعزازواکر پڑے جس کی آخری شکل حلقہ اسالم میں شمولیت تھی۔

اگر مسلمان ہندوستان میں سیاسی افق پر کمزور ہوتے تو بقول ایک ہندودانشور کہ یہ بھی امکان تھا کہ ہندی ادیان کے گھنے جنگل میں اسالم کی شخصیت ہی

د کتنی ہوتی؟) گم ہوجاتی قطع نظر اس کے مسلمانون کی تعدا

Page 20: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

،نظامی پریس ۱۰این۔سی۔مہتا،ہندوستانی تہذیب میں اسالم کا حصہ،ص:ء۱۹۳۵،بدایوں، )

اگر یہ تمام باتیں نہ ہوتیں تو پھر صوفیائے کرام جو سالطین وقت سے الگ تھلگ ہوکر دین کی دعوت کو عام کیے ہوئے تھے کیسے اور کیوں کر یہاں

قال ہللا وقال الرسول کی آواز بلند کرنے آتے اور کون انہیں اپنے کفرستان میںکی اجازت دیتے،جسے سن کر دیکھ کراور ان کے کشف وکرامات سے متاثر ہورکربہت سے لوگوں نے اسالم قبول کیا جس کی تعداد کاکوئی حتمی ریکارڈ تو نہیں ملتا البتہ تاریخ اور تذکرہ کی کتابوں میں ایسے واقعات بکھرے پڑے

جہ اخذکیا جاسکتاہے کہ ان پاک نفوس کی برکت اور ان کی ہیں جن سے یہ نتی مساعی سے بے شمارلوگ حلقہ اسالم میں داخل ہوئے۔

سید عابد حسین نے صوفیائے کرام اور مبلغین عظام کے تبلیغی مشن کے : سلسلے میں جونقطہ نظر پیش کیا ہے وہ بجا معلوم ہوتا ہے

” ااٹھایا،مگر ان کی راہ میں بڑی حضرات صوفیانے اپنے طور پر اس کام کا بیڑمشکلیں حائل تھیں ،ملک کانہایت وسیع اور زیادہ تر چھوٹے چھوٹے قریوں پر مشتمل ہوناجوبعض عالقوں میں ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر واقع تھے

،آمدورفت کی دشواریاں،بدامنی،جنگ وجدل،اس کے عالوہ ہندو مذہب کی جڑیں قائم تھیں،اگر چہ مسلمانوں کامعاشرتی مضبوطی سے لوگوں کے دلوں میں

نظام جس میں ابھی تک اخوت ومساوات کاکچھ رنگ باقی تھا، ہندوؤں کے نچلے طبقے کو اپنی طرف کھینچتاتھا،لیکن ان کی قدامت پسندی اور وہ وحشت جواجنبی فاتح قوم سے ہواکرتی ہے انہیں روکتی تھی۔اونچے طبقے عمومااپنے

ر اپنی سماجی حالت سے بھی۔اس میں شک نہیں کہ مذہب سے مطمئن تھے اوصوفیوں کی جماعت نے ان ناسازگار حاالت میں عام طور پر بغیر حکومت کی

مددکے محض اپنے جوش ایمانی سے تبلیغ کے میدان میں حیرت انگیز کام کیااور زبردست کامیابی حاصل کی،الکھوں کروڑوں ہندو جن میں اونچے طبقے

شامل تھے مسلمان ہوگئے ۔پھر بھی مسلمانوں کی تعداد کے بھی بہت سے لوگغیر مسلموں کے مقابلے میں اس قدر کم رہی کہ ریاست کے لیے یک جہتی

)سید عابد حسین،قومی “ اور ہم آہنگی کی جوفضادرکار ہے وہ پیدانہ ہوسکی۔ء۱۹۹۸،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،دہلی،۷۲-۷۳تہذیب کا مسئلہ،ص: )

رام نے بھی یقینا خالص دینی جذبے کے تحت ہی اسالمی تعلیمات کو علمائے کہندوستان کے کونے کونے میں عام کیا۔دراصل یہ علماء ایک ایسی کڑی کاکام انجام دے رہے تھے جس کے تانے بانے ایک طرف سالطین وقت سے ملتے

Page 21: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

تھے تو دوسری طرف صوفیاء اور مشائخ کی خانقاہوں سے۔م تک محدود نہیں بلکہ ان کی تعلیم وتربیت اور دینی فہم مسئلہ صرف قبول اسال

کی بھی ضرورت تھی جس کے لیے یہ علماء کرام تھے ۔ ان کی تعلیم وتدریس کے ذریعہ پرورش وپرداخت کرتے تھے ۔ اسی طرح مناظرے کی گرم بازاری

نے بھی اسالم کو وسعت دینے میں کافی تقویت پہونچائی ہے۔بھی ملک کے ایک حصے میں اپنے اخالق وکردار اسی طرح عرب تجار نے

اورصفائی معامالت کی وجہ سے اسالم کی اشاعت میں کوشاں تھے۔ اگر صرف انہیں لوگوں کواسال م کی اشاعت کا ذمہ دار ٹھہرایاجائے تو پھر شمالی

ہند کے لوگوں کو کس بات نے مجبور کیا کہ وہ اسالم قبول کریں۔

خالصہہندوستانی تناظر میں کسی ایک اہم آدمی کے ذریعہ ہرگز انجام دراصل یہ کام

نہیں پاسکتاتھا۔ اس لیے یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ اسالم کی اشاعت میں مذکورہ تمام لوگوں نے حصہ لیا، جن کی بے لوث خدمات اور مساعی کو تاریخ

مات اپنے دامن میں سمیٹے ہوئی ہے ۔ضرورت ہے کہ ہم ان تمام لوگوں کی خدکاغیر جانبدارانہ طریقے سے مطالعہ کریں اور جن لوگوں نے اس کام کو

سالطین کے خانے سے بالکل خارج کردیاہے ان سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ خالفت راشدہ کے بعد دواہم سلطنت اموی اور عباسی وجود میں آئی کیاوہ دین

یرمسلموں کو کے نمائندہ تھے اور انہوں نے اپنی ذاتی دلچسپی سے کتنے غمسلمان بنایا ۔ انہوں نے اقتدار کے حصول کے لیے جو جھگڑے اور مناقشے کیے کیاوہ بھی دینی جذبہ کے تحت تھے؟سیاست اورمذہب کوالگ رکھ کر ہی

ان خلفاء کی دینی مساعی کو سمجھاجاسکتاہے ،دیکھنا یہ ہے کہ اسالمی ے بیزاری یادلچسپی حکومت کے قیام واستحکام کے بعد ان سالطین نے مذہب س

کاکس حد تک مظاہرہ کیا اور اسالمی اقداروتہذیب کوفروغ دینے میں کوتاہی یاالپرواہی تو نہیں کی ۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سالطین ہند نے اپنے اپنے عہد میں اسالمی اقدارو تہذیب کو بڑی حدتک فروغ دیا۔چند رسومات ہند کواپنا کر

رہی عمل کیا۔انہوں نے رواداری کے اصول پ

رہی بات جبری اشاعت اسالم کی تو اس پورے بحث میں اسی بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اسالم کی اشاعت جبراہرگز نہیں ہوئی ۔جبر سے لوگوں پر قابو تو پایا جاسکتا ہے مگر دلوں کو ہرگزفتح نہیں کیاجاسکتا اور اگر معاملہ ایسا ہی

Page 22: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

جب جب مسلمانوں کااقتدار کمزور پڑا یہاں ہوتاتو تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی کہکے نومسلم اسالم سے پھر جاتے ،دوچند واقعات کے استثنا کے ساتھ تاریخ میں مزید کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ انگریزی عہد میں مسلمان بالکل مغلوب ہوگئے تھے اور اسالم کو دبانے کی ہرممکن کوشش کی جارہی تھی باوجود اس کے

مانوں کی تعداد میں جواضافہ ہوا وہ آسمان سے ٹپک کر آنے اس عہد میں مسلوالے نہ تھے ،بلکہ ہندوستان کے ہی باشندے تھے اور غیر مسلم تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان فرمارواؤں نے بڑی حدتک کوشش کی کہ مذہبی رواداری

سے قطع نظر نہ کیاجائے ۔ان کے عہد میں مندر توڑے جانے کی شہادت کاپس بس اتنا ہے کہ وہ عموماجنگ کے دوران توڑے گئے جن میں بہت سے منظر

منادر کی بعد میں دوبارہ تعمیر بھی کردی گئی ۔مجموعی طور پر مسلمان حکمراں امن وامان قائم رکھتے تھے ،انصاف کے ساتھ حکومت کرتے تھے اور انہوں نے ہندورعایا کو مذہبی اور تہذیبی آزادی

ر ہے کہ انہوں نے ریاست کا قانون بدل کر اسالمی دے رکھی تھی ،یہ ضروقانون رائج کردیاتھا ،لیکن ہندوستان میں یہ کوئی نئی بات نہیں تھی کہ حکمران طبقہ اپنامذہبی قانون جاری کرے ۔ہندو اوربدھ فرماں روابھی یہی کرتے آرہے

ری تھے ۔ بلکہ سالطین دہلی نے تو اتنی رواداری برتی کہ صرف قانون عام جاں کے دھرم شاشتروں کے اصول کو کیا اور شخصی ومذہبی امور میں ہندووٴجاری رکھا اور اس کے نفاذ میں مدد دینے کے لیے ملک کی مرکزی عدالت اور صوبوں کی عدالتوں میں پنڈت مقر کیے۔اگرکوئی بادشاہ ہندو رعایا پر بے

عموماخود جاسختیاں کرتا تو وہ حکومت کے خالف اٹھ کھڑی ہوتی تھی جو ۷۶-حکمراں یا اس کے خاندان کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوتا تھا۔) ایضا،ص:

۷۷)

Page 23: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

امریکہ یورپ افریقہ ہندوستان وغیرہ میں انبیاء کیوں نہیں بھیجے گئے ؟

عرب کے عالوہ باقی عالقوں امریکہ، یورپ، افریقہ، ہندوستان، چین وغیرہ میں یہ سوال اس طرح بھی کیا جاتا ہے کہ اگر عرب ؟انبیاء کیوں نہیں بھیجے گئے

کے عالوہ باقی عالقون میں بھی انبیاء آئے ہیں تو قران پاک میں ان تمام انبیاء کا ذکر کیوں نہیں ؟

چند خاص دعوتوں اور قوموں کا ہی ذکر کیا کئی مقامات پر قرآن نے اگرچہ ہے۔اس نے جا بجا یہ ہے لیکن اس کا دعوی عام ہے اور اسی پر استدالل مبنی

بات واضح کر دی ہے کہ ہدایت وحی کا ظہور جمیعت بشری کا عالمگیر واقعہ ،چند آیات ہے ،اور کوئی قوم نہیں جس میں ہللا کے رسول کا ظہور نا ہوا ہو

مالحطہ کیجیے۔ة رسول فإذا جاء رسولهم قضي بینهم بالقسط و ه (۔47: 10م ال يظلمون )و لكل أم

اور ہر ایک امت کی طرف پیغمبر بھیجا گیا جب انکا پیغمبر آتا ہے تو ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا ہے اور ان پر کچھ ظلم نہیں کیا جاتا۔

اور دوسرے مقامات میں فرمایان ربه إنما أنت منذر ولکل قوم هاد ) رعد ويقول الذين کفروا لوال أنزل علیه آية م

٧) اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ اس )پیغمبر )صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم( پر اس کے

پروردگار کیطرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی؟ سو )اے محمد )صلی

Page 24: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

ر ہر ایک قوم کیلئے ہللا علیہ وآلہ وسلم( تم تو صرف ہدایت کرنے والے ہو او رہنما ہوا کرتا ہے۔

و اجتنبوا الطاغوت فمنهم من هدى الل ة رسوال أن اعبدوا الل و لقد بعثنا فی کل أم

٣٦)النخل )

اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ خدا ہی کی عبادت کرو اور بتوں ناب کرو۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جن کو خدا نے )کی پرستش( سے اجت

ہدایت دی اور بعض ایسے ہیں جن پر گمراہی ثابت ہوئی۔ سو زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹالنے والوں کا انجام کیسا ہوا ؟

ة إال خل فیها ن أم ٢٤نذير )فاطر إنا أرسلناك بالحق بشیرا ونذيرا وإن م ) ہم نے تم کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے واال اور ڈرانے واال بنا کر بھیجا

ہے اور کوئی امت نہیں مگر اس میں ہدایت کرنے واال گزر چکا ہےال ھم والذین من بعد ألم یأتكم نبأ الذین من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود –

)ابراھیم ۹یعلمھم إال الل ) بھال تم کو ان لوگوں )کے حاالت( کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے تھے

یعنی( نوح )علیہ السالم( اور عاد و ثمود کی قوم؟ اور جو ان کے بعد تھے جن ) (کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں )جب

کردی ہے کہ قران میں تمام رسولوں کا لیکن ساتھ ہی اس نے یہ تصریح بھی _ ذکر نہیں کیا گیا

ن لم نقصص علیک ن قصصنا علیک ومنھم م ن قبلک منھم م ولقد أرسلنا رسال م فإذا جآء أمر قضی بالحق وخسر وما کان لرسول أن یأتی بآیة إال بإذن الل الل

ھنالک المبطلون اور اے پیغمبر ہم نے تم سے پہلے کتنے ہی رسول مبعوث فرمائے _ ان میں ”سے کچھ ایسے ہیں جن کے حاالت تمھیں سنائے جاتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں

۷۸جن کےحاالت نہیں سنائے) غافر ) گزر چکی ہی ہیں اور اسکی بھی قرآن میں یہ ظاہر ہے کہ قومیں بے شمار

تصریح موجود ہے کہ ہر قوم میں دعوت حق کا ظہور ہوا ہے ، جن میں سے چند ہی کا قرآن نے ذکر کیا ہے _ باقی کا نہیں کیا۔

: قرآن نے ایسا کیوں کیا ؟

Page 25: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

اس کا سبب بالکل واضح ہے۔ قران کا مقصود ان سرگزشتوں کے بیان سے یہ یخ کی طرح تمام واقعات کا استقصاء کیا جائے بلکہ صرف تذکیر نہیں تھا کہ تار

و موعظت تھا اور تذکیر و موعظت کیلئے اس قدر کافی تھا کہ چند اہم دعوتوں اور قوموں کی سرگزشتیں بیان کردی جاتیں اور باقی کا جہاں ضروری

کا ہوتااشاروں سے بتادیا جاتا ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس بارے میں قرآن اسلوب بیان ہر جگہ عام ہے ،جا بجا اسکی تعبیرات پائی جاتی ہے کہ پچھلے قرنوں میں ایسا ہوا ۔ پچھلی قوموں میں ایسا ہوا ۔پچھلی آبادیوں میں ایسا ہوا۔ پچھلے رسولوں کے ساتھ اس طرح کے معامالت پیش آئے ۔البتہ جہاں کہیں

کی سرگزشتیں بیان کی تخصیص کیساتھ ذکر کیا ہے وہاں صرف چند قوموں ہی ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ یہ چند سرگزشتیں پچھلی قوموں کے ایام وو قائع کا نمونہ سمجھا جائیں ۔ اور ان سے یہ اندازہ کر لیا جائے کہ اس بارے

میں تمام اقوام عالم کی رودادیں کیسی رہ چکی ہیں ؟

یت کے ساتھ ان چند اگال سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن میں کیوں خصوصقوموں ہی کا ذکر کیا گیا ہے جو ایک خاص خطہ ارضی میں گزر چکی تھیں

دوسرے خطوں کے اقوام میں سے کسی کا ذکر کیوں نہیں کیا ؟اس کی وجوہ بھی واضح ہیں اگر تھوڑی سی دقت نظر کام میں الئی جائے _ یہ

ئے استشہاد تھا ظاہر ہے کہ ایام ووقائع کے ذکر سے مقصود بعض مقاصد کیلاور یہ استشہاد جب ہی موثر ہو سکتا تھا کہ جن ایام ووقائع کا ذکر کیا جائے ان کے وقوع سے اولین مخاطب بےخبر نا ہوں۔ کم از کم انکی بھنک کانوں میں پڑ چکی ہو۔ یا نا پڑ ی ہوتو اپنے پاس کے آدمیوں سے حال پوچھ لے سکتے ہوں ۔

پہلے ان وقائع کا وقع ثابت کردو ۔ پھر ان ورنہ ظاہر ہے لوگ کہہ دیتے کہسے ہمیں عبرت دالنا۔۔!اور اس طرح عبرت و تذکیر کا سارا مطلب ہی فوت

ہوجاتا ۔اب دیکھیں قران نے جن ایام ووقائع کا ذکر کیا ہے وہ زیادہ تر کن خطوں میں

خود واقع ہوئے تھے ؟ یعنی ان کی جغرافیائی حدود کیا ہیں ؟ یہ تمام وقاع یا توعرب میں ہوئے یا سر زمین دجلہ و فرات میں یا پھر مصر و فلسطین اور یہ تمام خطے ایک دوسرے سے متصل تھے ۔تجارتی قافلوں کی شاہراہوں سے

باہمدگر پیوستہ تھے، آمدورفت کے عالئق کا قدیم سلسلہ رکھتے تھے اور نسلی ہوئے تھے ۔ ولسانی تعلقات کے لخاظ سے بھی ایک ایک دوسرے کیساتھ جڑے

پس قران نے انہی خطوں کا ذکر کیا جو فی الحقیقت تاریخ اقوام کا ایک ہی

Page 26: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

وسیع خطہ رہ چکا ہے ۔ دوسرے خطوں سے تعرض نہیں کیا کیونکہ مخاطبین کیلئے ان خطوں کا ذکر ان کی شب وروز کی باتوں کا ذکر تھا اور وہ جھٹالنے

تھا ۔ عراق کیساتھ ان کے کی جرات نہیں کر سکتے تھے عرب خود ان کا ملکتعلقات تھے ۔ فلسطین کے کھنڈروں پر ہر سال گزرتے رہتے، مصر ان کی

تجارتی قافلوں کی منڈی تھی ۔ ان ملکوں کا نام سننا گویا اپنی چاروں طرف نظر اٹھا کر دیکھ لینا تھا ۔پھر جن قوموں کا ذکر کیا گیا ان کے ناموں سے بھی وہ

اور اصحاب احدود یمن سے تعلق رکھتے تھے اور یمن ناآشنا نہ تھے ۔قوم تبععرب میں ہے ۔ عاد اور ثمود کی بستیاں بھی عرب ہی کے حدود میں تھیں ۔ قبیلہ مدین بالکل عرب کے پڑوس میں تھا ۔ قون لوط کے کھنڈر ات میں سے

سینکڑوں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے ۔ سرزمین دجلہ وفرات کی قوموں ائتوں سے بھی نا آشنا نہیں ہو تھے ۔ مصر میں گو مصر کے اور ان کی رو

فرعون اب نہیں رہے تھے لیکن مصر میں برابر آتے جاتے رہتے تھے فراعنہ کے نام ان کے لئے اجنبی نام نہیں ہو سکتے تھے۔ عالوہ بریں یہودی اور

عیسائی خود ان کے اندر بسے ہوئے تھے۔ انبیائے بنی اسرائیل کے نام انکی تفصیالت ربیوں اور راہبوں کو معلوم تھیں ۔ یہ ان سے پوچھ ‘ نوں پر تھے زبا

سکتے تھے ۔اور پوچھا کرتے تھے ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قران نے ایام ووقائع کے بیان و استدالل میں جابجا اس طرح کا اسلوب اختیار کیا ہے ۔ جیسے

!__ جابجا فرمایاایک جانی سوجھی ہوئی بات کی طرف اشارہ کیا جائے ۔ مثال( جو قومیں تم سے پہلے گزر چکی ہے ۹ذین من قبلكم ) ابراھیم ـالم یاتكم نبا ال

کیا تم تک ان کی خبریں نہیں پہنچ چکی ہیں ؟۔ یا مثال جابجا اس طرح کی تعبیرات ملتی ہیں

( کیا یہ 4كان عاقبة الذین من قبلھم )) فاطر أولم یسیروا في الرض فینظروا كیف لوگ ملک میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھے پچھلی قوموں کا کیا انجام ہو چکا

ہے ؟کیونکہ واقعہ یہ تھا کہ وہ برابر چلتے پھرتے رہتے تھے ۔ یعنی ہر موسم میں

وئی بستیاں مٹتے تجارت کیلئے نکلتے تھے ۔ اور اسنائے سفر میں کتنی اجڑی ہہوئے نشان اور سنسان کھنڈر ات ا ن کی نظر سے گزرتے تھے ۔ بلکہ بعض اوقات انہی میں منزل کرتے اور انہی کے سایوں میں دوپہر کاٹتے تھے ۔ اور پھر جابجا اس طرح کی تصریحات ہیں کہ یہ مقامات تم دور سے نہیں کہ بعد

ھی کہا کہ کیا علماء بنی اسرائیل کی وجہ سے بالکل بے خبر رہو ہو ۔ اور یہ بسے یہ سرگزشتیں نہیں سنیں ؟ اور اگر بےخبر ہو تو علم والوں سے یعنی

Page 27: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

علمائے اہل کتاب سے دریافت کرلو جو تم ہی میں بسے ہوئے ہیں اور پھر بعض مقامات میں عرب کے حوالی و اطراف کی بھی تصریح کر دی ہے ۔ جس

قائع میں قصدا یہ بات ملخوط رکھی گئی ہے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیان و وکہ سر زمین عرب و اطراف جو انب ہی کے وقائع ہوں مثال سورہ احقاف کی

ن میں قوم عاد کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ۔ ۲۷آیت ولقد أهلكنا ما حولكم م

فنا اليات لعلهم يرجعون حقاف( ا 27) القرى وصر – یہ ظاہر ومعلوم ہے کہ ان واقعات کی تفصیالت سے لوگ آشنا تھے۔ اور بعض وقائع ایسے تھے جن کی صرف کانوں میں بھنک پڑ چکی تھی کوئی نہیں جانتا کہ معاملہ کس طرح واقعہ پیش آیا ہے اور صحیح سرگزشت کیا ہے ؟ نہ صرف

ئع کا ذکر تورات میں عرب میں بلکہ ان خطوں میں جہاں وہ پیش آئے ۔ جن وقاموجود تھا ان کی بھی بعض حقیقتیں مخرف ہوگئیں تھیں ۔اور خود اہل کتاب کو بھی خبر نہ تھی کہ اصلیت کیا رہ چکی ہے پس قران نے انکی حقیقت ٹھیک

ٹھیک واضح کردی ہر معاملہ اپنی اصلی صورت میں نمایاں ہوگیا ۔ بعض وقائع دگان عرب بالکل ناآشنا تھے یعنی نام کی نسبت تصریح کردی کہ اس سے باشن

تو سن لیا تھا لیکن اسکی یہ تفصیالت اور جزئیات کسی کو بھی معلوم نہ تھیں ۔ مثال اسی سورت میں حضرت نوح علیہ السالم کی سرگزشت بیان کرکے آیت

میں تصریح کردی کہ یہ باتیں نہ تو تجھے معلوم تھیں نہ تیری قوم کو۔۔ ٤۹

ت اور اقوام متذکرہ قرآنجدید اثری تحقیقا :

پھر فہم وتدبر کا ایک نقطہ اور بھی ہے اور اس طرف اشارہ کردینا بھی ضروری ہے ۔ قرآن نے جن خطوں کی اقوام کا ذکر کیا ہے دنیا کو انکی قدیم

تاریخ بہت کم معلوم تھی ۔ اور خود عرب اور عربی نسل کی ابتدائی سرگزشتیں ۔ لیکن اٹھاریں صدی سے آثار قدیمہ کی تخقیقات بھی پردہ خفا میں مستور تھیں

کا نیا سلسلہ شروع ہوا اور پھر انیسویں صدی میں نئے پردے اٹھے اور بیسویں اور اکیسویں صدی کے اثری انکشافات روز بروز ایک خاص رخ پر جا رہے ہیں ۔ ان سب سے عرب ،عراق، فلسطین ،شام اور مصر کی قدیم قوموں کے

االت منکشف ہوئے ہیں انہوں نے ان خطوں کی قدیم تاریخ کو تمدنوں کے جو حبالکل ایک نئی شکل دے دی ہے اور روزبروز نئی نئی حقیقتیں ابھرتی جاتی

ہے۔ سب سے عجیب بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ عربی نسل اور عربی زبان کے صرف اتنے ہی معنی نہیں ہیں جتنے آج تک سمجھے گئے ہیں ۔ بلکہ یہ قوموں

Page 28: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

ر وسیع داستان ہے اور وہ دنیا کے ابتدائی تمدنوں نسلوں کی نہایت قدیم او اور میں عظیم الشان حصہ لے چکے ہیں ۔

ان تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عربی زبان اور اسکی ابتدائی شکلوں کے بولنے والوں کی ایک خاص نسل تسلیم کرلیا جائے تو یہ دراصل بہت

وعہ ایک تھا اور عرب ، شام، فلسطین مصر اور گروہوں اورقبیلوں کا مجمعراق کے خطوں میں پھیال ہوا تھا ۔ اس نے دنیا کے ابتدائی تمدن کی تعمیر میں

بڑے بڑے حصے لئے ۔ ان ملکوں کی وہ تمام قدیم قومیں جو آج تک ایکدوسرے سے الگ سمجھی جاتی تھیں مثال اشوری، سریانی، فینیقی، مصری

لحقیقت الگ نہ تھیں اور عربی زبان کا ابتدائی مواد اور ، آرامی وغیرہ فی اعربی رسم الخط کے ابتدائی نقوش ان سب میں مشترک تھے ۔ حتی کہ انہی قوموں نے مصر کے تخت عظمت و جبروت پر عرصہ تک شہنشاء کی اور اپنی زبان وقت کی تمام متمدن قوموں کو مستعار دے دی ۔چنانچہ دارا کے

ے ہیلو غیفی نقوش میں عربی الفاظ آج تک پڑھے جا سکتے کتبوں اور مصر کہیں ۔ اور یہ بات تو ایک تاریخی حقیقت کی طرح مان لی گئی ہے کہ یونانیوں

نے فن کتابت کا پہال سبق انہی اقوام سے حاصل کیا تھا ۔کون کہہ سکتا ہے کہ آئندہ اس سلسلے میں کیا کیا انکشافات ہونے والے ہیں ؟

انکشافات ہو چکے ہیں ان سے ایک بات واضح ہوگئی ہے یعنی تاہم جس قدرایک زمانہ میں یہ تمام خطے ایک خاص نسل کے عروج و انشعاب کے مختلف

میدان تھے اور یہی نسل عربی قبائل کی ابتدائی نسل تھی ۔ پس اگر قران نے صرف انہی خطوں کے اقوام کا ذکر کیا ہے کوئی اور قوم اس دائرے میں داخل

ہیں ہوسکی ہے تو بہت ممکن ہے کہ علت اس سے کہیں زیادہ گہری ہو جس ن قدر اس وقت تک ہم سمجھتے رہے ہیں ۔

؟ کیا واقعی عرب کے عالوہ کہیں بھی وحی/نبوت کے اثرات نہیں ملتے

ہللا تعالی قرآن کریم میں ہرامت میں انبیائے کرام کے مبعوث ہونے کی خبر دی و اجتنبوا ۔ارشادخداوندی ہے:﴿و ل سوال ان اعبدوا اللہ ۃ ر قد بعثنا فی کل ام

اور ہم نے ہر امت میں کوئی پیغمبر بھیجاکہ ہللا ہی کی (‘‘۳۶الطاغوت﴾)النحل:لیکن انسانیت نے ان عظیم ’’عبادت کرو اور بتوں کی پرستش سے اجتناب کرو۔

جلد ہی فراموش کردیا،بلکہ انہی انبیائے ہستیوں کے پڑھائے ہوئے سبق کوکرام کو تقدس و الوہیت کا مقام دے کر صراط مستقیم سے انحراف اختیارکر

Page 29: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

لیااور دوبارہ بت پرستی میں مبتال ہوگئی۔یونان کے کوہ اولمپس سے لے کر ہندوستان کے دریائے گنگا تک انسانی ذہن

کے موجودہ خدو خال اپنی کے تخلیق کردہ سینکڑوں بت ملتے ہیں۔ ان مذاہبابتدائی شکل وصورت سے بہت مختلف ہیں، لہذا چین کے کنفیوشس

اورہندوستان کے برہما و مہاتما بدھ کو ان کے ظہورپذیرہونے کے معروف حاالت و اسباب کے تناظرمیں دیکھنا درست معلوم نہیں ہوتا،کیونکہ زمانہ

ساتھ ساتھ انسان کی آراء و ہرچیز کو بوسیدہ کر دیتا ہے اوروقت گزرنے کے اقدار تبدیل ہوتی رہتی ہیں، لہذااس کا درست اندازہ لگانابھی ممکن نہیں کہ ان حضرات کی طرف منسوب موقف ان کے ابتدائی اصل موقف سے کس قدر

مختلف ہے۔ یہی دیکھ لیجیے کہ اگرقرآن کریم حضرت عیسی علیہ السالم کی انداز میں آگاہ نہ کرتاتوہمارے لیے کلیسا شخصیت کے بارے میں ہمیں غیرمبہم

کی چاردیواری میں حضرت عیسی علیہ السالم کی مورتیوں کے گرد بت پرستانہ رسوم اداکرنے والے پادریوں کے خیاالت و افکار کی روشنی میں آپ

علیہ السالم کی شخصیت کی حقیقت سے آگاہی ممکن نہ ہوتی۔انسان کو نسان کے مقام تک گرانا، تین کو ایک اورایک کو تین خداکامقام دینا اور خداکو ا

قراردینے کے واضح عقلی تضاد کا شکار ہونا، عقیدے کو مسخ کرنااورعقل و دانش کامذاق اڑاناہللا تعالی کے حق میں سب سے بڑی گستاخی اورتوہین ہے۔آج اس بات کا مشاہدہ کیاجاسکتاہے کہ مسیحی عبادت خانوں میں تحریف شدہ

شعائر شکل وصورت کے لحاظ سے یونانی اوررومی بت پرستی سے دینی زیادہ مختلف نہیں۔اگرقرآنی وضاحتیں اورہدایات نہ ہوتیں توکلیسا اوراس میں

کے ’’اپالو‘‘ہونے والی رسوم وعبادات کودیکھ کرحضرت عیسی علیہ السالم اور درمیان امتیاز کرنامشکل ہوتا۔

ترہونے کے باوجودمسیحیت کی کتاب لہذاجب زمانی لحاظ سے ہم سے قریباورنبی کے بارے میں اس قدرتحریف ہوئی ہے تواس سے بھی پہلے ادوارمیں

نہ جانے کتنے مسیح گزرے ہوں گے اورتحریف وتبدیل کانشانہ بنے ہوں کایہ ارشادبھی بڑی اہمیت کاحامل ہے کہ ہرنبی ملسو هيلع هللا ىلصگے۔اس سلسلے میں نبی کریم

بعد اپنی ذمہ داریاں اداکرتے رہے، لیکن کے حواری اپنے نبی کی رحلت کے ان کے بعد آنے والوں نے ہرچیزکوبدل ڈاال۔آج باطل دکھائی دینے والے نہ

جانے کتنے مذاہب آغاز میں وحی کے چشمہ صافی سے پھوٹے ہوں گے،لیکن اپنے پیروکاروں کی جہالت اور دشمنوں کی ظالمانہ عداوت کے نتیجے میں

وخرافات کامجموعہ بن گئے۔ لہذاآج باطل مظاہرکے باآلخر مکمل طورپراوہام

Page 30: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

حامل اکثر مذاہب عام طورپرماضی میں صحیح اورمضبوط بنیادوں پر قائم تھے اوریوں لگتاہے کہ ہردورمیں کسی نہ کسی نبی کی تعلیمات کے اثرات باقی

رہے ہوں گے۔فاصلے علم تاریخ ،ادیان،فلسفہ اور انتھراپولوجی سے ایک دوسرے سے بہت

پرواقع انسانی معاشروں کے عقائد میں بہت سے مشترکہ نقاط کی نشاندہی ہوتی ہے، مثالتمام معاشروں میں کثرت سے وحدت کی طرف سفرپایا جاتاہے،

غیرمعمولی طورپربڑی مصیبت کے وقت ہرچیزسے رخ موڑکرایک ہی ذات ہاتھ اٹھائے عالیہ سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں اوراس کے سامنے دعا کیلئے

جاتے ہیں، دوسرے لفظوں میں ماورائے طبیعت ہستی سے متعلق طرزعمل اورکردارکے مظاہرمیں مشابہت پائی جاتی ہے، جس سے سرچشمے اور معلم Canary) کی وحدت کی طرف اشارہ ملتاہے، یہی وجہ ہے کہ جزائر کناری

Islands) ے لے سے لے کرمالئیشیا کے اصلی باشندوں اورریڈانڈینز ستک ایک جیسے دینی شعائر، مذہبی رنگ، انداز اورنغمات ’’ ماوماو‘‘کرقبائل

ملتے ہیں۔ڈاکٹرمحمودمصطفی نے دوقدیم وحشی قبائل کے بارے میں جومعلومات فراہم کی ہیں ان سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ڈاکٹرمحمودلکھتے ہیں کہ قبیلہ

اہے۔یہ خدا اپنی ذات اور افعال میں یکتا نامی خدا پر ایمان رکھت’’موجای‘‘ماوماوہے۔ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے اورنہ ہی اس سے کوئی پیدا ہوا ہے،کوئی چیزاس

سے مشابہت رکھتی ہے اورنہ ہی اس کی ہمسرہے۔ اسے آنکھیں دیکھ سکتی ہیں اورنہ ہی ذہن اس کا احاطہ کرسکتے ہیں، تاہم اس کے آثارسے اسے

جیسی باتیں منقول ’’ ماوماو‘‘سے بھی قبیلہ ’’نیام نیام‘‘ پہچاناجاسکتا ہے۔ قبیلہہیں۔ وہ ایک ایسے معبود پر ایمان رکھتے ہیں جوہرچیزپرحکومت کرتاہے،

جنگل میں موجودہرچیزکواپنی مرضی کے مطابق حرکت دینے اور چالنے پر قدرت رکھتاہے اورشرپسندوں پربجلی کے شعلے پھینکاوہے، دوسرے لفظوں

عبود حقیقیم‘‘میں وہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ ’’اس سے ظاہرہوتاہے کہ خدا سے متعلق ان لوگوں کاعقیدہ قرآنی عقیدے سے

تقریباسورۃاالخالص ’’ ماوماو‘‘ہے کہ قبیلہ بہت مشابہت رکھتاہے،بلکہ کہاجاسکتاکے مضمون کا اظہار کرتا ہے۔ تمدن سے دور اور معروف انبیائے کرام کے

ے والی یہ قدیم ترین اقوام ایسے وقت میں کیسے خدا سے حلقہ اثرسے باہررہنمتعلق اتنے عمیق اورصحیح عقیدے تک پہنچ گئیں جب وہ زندگی کے سادہ

ۃ ترین قوانین سے بھی ناآشنا تھیں۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ آیت مبارکہ ﴿ولکل أم

Page 31: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

سول فإذا جاء رسولہم اور ہر (‘‘۴۷ط وھم ال یظلمون﴾)یونس:قضی بینہم بالقس رامت کی طرف پیغمبر بھیجا گیا پھر جب ان کا پیغمبر آجاتا ہے تو ان میں

ایک ’’ انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا۔عالمی اورعمومی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے اورکوئی خطۂ ارض اس کی

ں ہے۔حدودسے خارج نہی عراق کے شہرکرکوک میں ریاضیات کے پروفیسرعادل زینل لکھتے ہیں کہ امریکا میں اعلی تعلیم کی غرض سے قیام کے دوران میں امریکا کے اصل باشندوں ریڈانڈینزسے بکثرت مالقات ہوتی تھی اور ان کی بہت سی باتوں پر

م آہنگ مجھے سخت تعجب ہوتا۔امریکاکے اصل باشندے عقیدہ توحید سے ہمختلف دینی شعائر کی پابندی کرتے تھے۔وہ زمانے سے ماورا ایک ایسے

خداپرایمان رکھتے تھے،جو کھاتاہے اورنہ پیتاہے۔وہ بکثرت کہتے کہ کائنات میں جوکچھ بھی ہورہاہے وہ اس خداکی مشیت وارادے سے ہورہاہے۔وہ خداکی

انیت،قیام بذاتہ بہت سی سلبی اوروجودی صفات ان سے مراد وجود، قدم، وحداورحوادثات سے پاک ہونے کی خدائی صفات مرادہیں، مثالصفت وجود عدم

کی، صفت وحدانیت تعددکی اورصفت قدم فناکی نفی کرتی ہے۔ کاتذکرہ کرتے تھے۔ اس قدربلندافکار ان کی سادہ اورغیرمتمدن زندگی سے میل نہیں کھاتے

رائج ان عقائد کی توجیہہ ۔اب مشرق ومغرب اوردنیاکے دوردرازعالقوں میںصرف ان رسولوں کے ذریعے کرنا ہی ممکن ہے، جنہیں ہللا تعالی نے شہروں اور عالقوں کی طرف بھیجاتھا، کیونکہ بڑے بڑے فلسفیوں کے حیطۂ ادراک سے خارج اس قدرمتوازن عقیدہ توحید کوماوماو،نیام نیام اورمایاقبائل ایسے

نتیجہ قرار دیناممکن نہیں، لہذا ثابت ہواکہ غیرمتمدن لوگوں کی ذاتی فکر کاجس انتہائی مہربان ذات نے شہدکی مکھیوں اورچونٹیوں کو سربراہ سے

محروم نہیں رکھا اس نے انسانیت کوانبیائے کرام کے بغیرنہیں چھوڑا،بلکہ تمام روئے زمین میں روشنی پھیالنے کے لیے انبیائے کرام کومبعوث فرمایا۔

وستان کے متعلق مشہور محقق ڈاکٹر حمیدہللا بیان کرتے ہیںایران اور ہند : بعض ایسے انسان بھی ہیں جن کو صراحت کے ساتھ نبی تو تسلیم نہیں کیا ”جاسکتا لیکن ان کی نبوت کے امکان کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے

نبوت کی ہے۔ پارسی انہیں اپنا نبی مانتے ہیں۔ ان کی ” زردشت“ایک شخصیت کا امکان اس بنا پر بھی ہے کہ قرآن مجید میں مجوس قوم کا ذکر آیا ہے۔

آوستا پر مبنی ہے۔۔ آوستا میں “مجوسیوں کا مذہب زردشت کی الئی ہوئی کتاب میں نے دین کو مکمل “دوسری باتوں کے عالوہ زردشت کا یہ بیان ملتا ہے:

Page 32: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

تکمیل کرے گا۔ اور اس کا نہیں کیا۔ میرے بعد ایک اور نبی آئے گا جو اس کی یعنی ساری کائنات کے لیے باعث رحمت۔” نام رحمۃ للعالمین ہو گا

ہندوستان میں بھی کچھ دینی کتابیں پائی جاتی ہیں۔ اور ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ یہ خدا کی طرف سے الہام شدہ کتابیں ہیں۔ ان مقدس کتابوں میں دید، پران، اپنشد

یں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سب کتابیں ایک ہی نبی اور دوسری کتابیں شامل ہپر نازل ہوئی ہیں۔ ممکن ہے متعدد نبیوں پر نازل ہوئی ہوں، بشرطیکہ وہ نبی

نامی کتابوں میں کچھ دلچسپ اشارے ملتے ” پران“ہوں، ان میں بھی خصوصا یعنی قدیم ہے۔ اس کی طرف ہمیں ” پرانا“وہی لفظ ہے جو اردو میں ” پران“ہیں

قرآن مجید میں ایک عجیب و غریب اشارہ ملتا ہے: )وانہ لفی زبر االولین اس چیز کا پرانے لوگوں کی کتابوں میں ذکر ہے(۔ میں نہیں جانتا کہ (26:196

اس کا پران سے کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ بہرحال دس پران ہیں، ان میں سے ستان کے آخری زمانے میں ایک شخص ریگ“ایک میں یہ ذکر آیا ہے کہ

عالقے میں پیدا ہو گا۔ اس کی ماں کا نام قابل اعتماد، اور باپ کا نام، ہللا کا غالم ہو گا۔ وہ اپنے وطن سے شمال کی طرف جا کر بسنے پر مجبور ہو گا۔ اور پھر

وہ اپنے وطن کو متعدد بار دس ہزار آدمیوں کی مدد سے فتح کرے گا۔ جنگ اور وہ اونٹ اس قدر تیز رفتار ہوں گے میں اس کی رتھ کو اونٹ کھینچیں گے

۔ اس کتاب میں جو مذکورہ الفاظ ہمیں ملتے ہیں ”کہ آسمان تک پہنچ جائیں گےان سے ممکن ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی طرف اشارہ مستنبط کیا

(جاسکے۔)خطبہ تاریخ قرآن، خطبات بہاولپورانبیائے کرام کے وجودسے محروم خالصہ کالم یہ کہ زمین کاکوئی خطہ یاشہر

رہااورنہ ہی زمانہ فترت کبھی بہت طویل ہوا۔ہر دور کا انسان کسی نہ کسی نبی کی چالئی ہوئی بادنسیم کے معطر جھونکوں سے محظوظ ہوتارہا، تاہم جن

عالقوں میں مرور زمانہ سے وہاں کے نبی کا نام تک لوگوں کو بھول گیا اور ات مٹ گئے،ایسے دور کو دوسرے نبی کے اس کی تعلیمات کے نشان

ظہورپذیرہونے تک زمانہ فترت سے تعبیرکیاجاتاہے اور ایسے دورکا انسان اگرکفر اختیار کر کے شعوری طورپر ہللا تعالی کی ذات کا انکار نہ کرے تو

اس کی مغفرت کردی جائے گی۔ور, ڈاکٹر حمید ہللا, استفادہ تحریر : ترجمان القرآن ابوالکالم آزاد , خطبات بہاولپ

ڈاکٹر فتح ہللا

عجاز القرآن

Page 33: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

قرآن کریم کی حقانیت کی ایک واضح دلیل اس کا اعجاز ہے، یعنی قرآن ایک ہے، اسی وجہ ایسا کالم ہے جس کی نظیر پیش کرنا انسانی قدرت سے باہر

کا سب سے بڑا معجزہ کہاجاتا ہے۔ اس تحریر ی ملسو هيلع هللا ىلص سے اس کو سرور کونینمیں ہم مختصرا قرآن کریم کی ا ن وجوہ اعجاز کی طرف اشارہ کریں سلسلے

گے جن پر غور کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ یقینا ہللا تعالی ہی کا کالم ہے، اور کسی بشری ذہن کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ آگے پڑھنے سے پہلے

بنیادی طور پر دو باتیں سامنے رکھنی ضروری ہیں۔ہ فصاحت و بالغت اور کالم کی سحر انگیزی ایک ایسی صفت ہے ایک تو یہ ک

جس کا تعلق سمجھنے اور محسوس کرنے سے ہے، اور پوری حقیقت و ماہیت کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ، آپ تالش و جستجو اور استقراء کے ذریعہ فصاحت وبالغت کے اصول و قواعد مقرر فرماسکتے ہیں، لیکن درحقیقت ان

صول وقواعد کی حیثیت فیصلہ کن نہیں ہوتی، کسی کالم کے حسن وقبح کا اآخری فیصلہ ذوق اور وجدان ہی کرتاہے، جس طرح ایک حسین چہرے کی

کوئی جامع و مانع تعریف نہیں کی جاسکتی ، جس طرح ایک خوش رنگ پھول کی رعنائیوں کو الفاظ میں محدود نہیں کیا جاسکتا، جس طرح مہکتی ہوئی

شک کی پوری کیفیت بیان کرنا ممکن نہیں، جس طرح ایک خوش ذائقہ پھل م کی لذت وحالوت الفاظ میں نہیں سماسکتی ، اسی طرح کسی کالم کی فصاحت و بالغت کو تمام و کمال بیان کردینا بھی ممکن نہیں، لیکن جب کوئی صاحب ذوق

پتا چل جائے انسان اسے سنے گا، تو اس کے محاسن و اوصاف کا خود بخود .گا

Page 34: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

دوسری یہ کہ کسی کالم کےحسن اور فصاحت و بالغت کا اندازہ اس کالم کی رنہیں لگایا جاسکتا ، اس لیے فصاحت وبالغت کے زبان کو سمجھے بغی

معاملے میں ذوق بھی صرف اہل زبان کا معتبر ہے، کوئی شخص کسی غیر م کے معاملے میں وہ زبان میں خواہ کتنی مہارت حاصل کرلے، لیکن ذوق سلی

اہل زبان کا کبھی ہمسر نہیں ہوسکتا۔

ر کیجئے، خطابت اور شاعری ان اب ذرا زمانہءجاہلیت کے اہل عرب کا تصوکے معاشرے کی روح رواں ہے، عربی شعر و ادب کا فطری ذوق ان کے

بچے بچے میں سمایا ہوا ہے، فصاحت و بالغت ان کی رگوں میں خون حیات دوڑتی ہے، ان کی مجلسوں کی رونق، ان کے میلوں کی رنگینی ، ان بن کر

کے فخروناز کا سرمایہ اور ان کی نشرواشاعت کا ذریعہ سب کچھ شعروادب ” عجم“ہے ، اور انھیں اس پر اتنا غرور ہے کہ وہ اپنے سوا تمام قوموں کو ی )جناب محم ایک ملسو هيلع هللا ىلص ( دیعنی گونگا کہا کرتے ہیں ۔ ایسے ماحول میں ایک ام

کالم پیش کرتا ہے اور اعالن کرتا ہے کہ یہ ہللا کا کالم ہے، اسکے غیر انسانی :کالم ہونے کی دلیل کے طور پر ایک چیلنج بھی دیتا ہے

لئن اجتمعت االنس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القران الیاتون بمثلہ ولوکان اگر تمام انسان اور جنات مل کر اس قرآن ( “88بعض ظھیرا۔)االسراء بعضھم ل

جیسا)کالم( پیش کرنا چاہیں تو اس جیسا پیش نہیں کرسکیں گے، خواہ وہ ایک ”دوسرے کی کتنی مدد کیوں نہ کریں۔

یہ چیلنج کوئی معمولی بات نہ تھی۔ یہ دعوی اس کی طرف سے تھا جس نے دباء اور شعراء سے کوئی علم حاصل نہ کیا تھا، کبھی کبھی وقت کے مشہور ا

مشاعرے کی محفلوں میں کوئی ایک شعر بھی نہیں پڑھا تھا، اور کبھی کاہنوں کی صحبت بھی نہ اٹھائی تھی، خود شعر کہنا تو درکنار، اسے دوسرے شعراء

کے اشعار تک یاد نہیں تھے، پھر اگر یہ اعالن سچا ثابت ہوجاتا تو ان کے ائی دین کی ساری عمارت منہ کے بل گر پڑتی ، اور ان کی صدیوں پرانی آب

رسوم و روایات کا سارا پلندہ پیوند زمین ہوجاتا تھا کیونکہ یہ کالم ایک دین بھی پیش کررہا تھا، اس لیے یہ اعالن درحقیقت ان کی ادبی صالحیتوں کو ایک

ک کاری وار تھا، یہ ان کی زبردست چیلنج تھا، یہ ان کے دین و مذہب پرایقومی حمیت کے نام مبازرت کا ایک پیغام تھا، یہ ان کی غیرت کو ایک للکار

تھی، جس کا جواب دئیے بغیر کسی غیور عرب کے لیے چین سے بیٹھنا ممکن نہیں تھا،

Page 35: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

اس اعالن کے بعد ان آتش بیان خطیبوں اور شعلہ نوا ـــــــــلیکن ہوا کیا؟ شاعروں کی محفل میں سناٹا چھا گیا، کوئی شخص اس چیلنج کو قبول کرنے : کے لیے آگے نہ بڑھا، کچھ عرصہ کے بعد قرآن کریم نے پھر اعالن فرمایا

لنا علی عبدنا فا توا بسور ا نز م ن وان کنتم فی ریب م ثلہ و ادعواشھدآ ءکم م ن م ۃ مفان لم تفعلواولن تفعلوا فاتقواالنارالتی و قودھا الناس 0دون ہللا ان کنتم صدقین

اور اگر تم کو اس کتاب کے بارے میں ( “23)البقرہ:0والحجارۃ ۔اعدت للکفرین شک و شبہ ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس جیسی ذرا بھی

بناالؤ، اگر تم سچے ہو، اور ہللا کے سوا تمھارے جتنے (ایک سورت)ہیحمایتی ہیں ان سب کو بال لو، پھر بھی اگر تم ایسا نہ کرسکے ، اور یقین ہے پتھر کہ ہرگز نہ کرسکوگے، تو پھر اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور

”ہوں گے، وہ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔اس پر بھی بدستور سکوت طاری رہا، اور کوئی شخص اس کالم کے مقابلے

میں چند جملے بھی بنا کر نہ السکا، سوچنے کی بات ہے کہ جس قوم کی کیفیت بقول عالمہ جرجانی یہ ہو کہ اگر اسے یہ معلوم ہوجائے کہ دنیا کے

وئی شخص اپنی فصاحت و بالغت پر غیر معمولی گھمنڈ آخری حصے پر کرکھتا ہے، تو وہ اس پر تنقید کرنے اور اپنے اشعار میں اس پر چوٹیں کسنے سے باز نہ رہ سکتی تھی۔ اس بات کا کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ قرآن

ر اعالنات کے بعد بھی چپکی بیٹھی رہے، اور اسے دم کے ان مکرر سکر،المطبوعۃ فی ثالث مارنے سالۃ الشافیۃ،لعبدالقاہر الجرجانی کی جرات نہ ہو؟ )الر

(، دارالمعارف مصر109رسائل فی اعجاز القرآن، ص اس بات کی کوئی تاویل اس کے سوا نہیں ہوسکتی کہ فصاحت و بالغت کے

سورما قرآن کریم کا مقابلہ کرنے سے عاجز آچکے تھے ۔ انھوں نے آنحضرت پہنچانے کے لیے ظلم و ستم کا توکوئی طریقہ نہیں چھوڑا ، آپ کو کو زک ملسو هيلع هللا ىلص

ستایا، مجنوں کہا، جادوگر کہا، شاعر اور کاہن کہا،لیکن ان سے اتنا نہیں ہوسکا کہ قرآن کے مقابلے میں چند جملے پیش کردیتے۔پھر صرف یہی نہیں کہ یہ

ں کرسکے، بلکہ ان شعلہ بیان خطیب اور آتش نوا شاعر قرآن کریم کا مقابلہ نہیمیں سے بہت سے لوگوں نے اس کالم کی حیرت انگیز تاثیر کا نا چاہتے ہوئے

بھی اعتراف کیا، امام حاکم اور بیہقی نے قرآن کریم کے بارے میں ولید بن مغیرہ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: وہللا ان لقولہ الذی یقول حالوۃ و ان علیہ

خدا کی قسم ، جو یہ کالم بولتے ہیں اس میں ” ایعلی۔ وانہ لیعلوا وم … لطالوۃ )”بال کی شیرینی اور رونق ہے، یہ کالم غالب ہی رہتا ہے، مغلوب نہیں ہوتا۔

Page 36: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

،ص 2ج 117، واالتقان،ص 1ج 113الخصائص الکبری،للسیوطی ) یہ ولید بن مغیرہ ابو جہل کا بھتیجا تھا، ابوجہل کو جب یہ پتہ چال کہ میرا

جا اس کالم سے متاثر ہورہا ہے تو وہ اسے تنبیہ کرنے کے لیے اس کے بھتیپاس آیا، اس پر ولید نے جواب دیا کہ خدا کی قسم تم میں کوئی شخص شعر کے حسن و قبح کو مجھ سے زیادہ جاننے واال نہیں، خدا کی قسم ، محمد جو کہتے

۔) اخرجہ الحاکم و ہیں شعر کو اس کے ساتھ کوئی مناسبت اور مشابہت نہیں ہے1ج 13البیہقی عن ابن عباس )الخصائص الکبری ص ))

اسی طرح عتبہ بن ربیعہ قریش کے سر برآور دہ لوگوں میں سے تھا، وہ کے پاس مصالحت کی گفتگو کرنے آیا، آپ نے سورہ حم السجدہ ملسو هيلع هللا ىلص آنحضرت

حمن کی ابتدائی آیات اس کے سامنے تالوت فرمانا شروع کیں حم تنزی ن الر ل ملت آیاته قرآنا عربیا لقوم یعلمون بشیرا ونذیرا فأعرض أکثرھم حیم کتاب فص الرفھم ال یسمعون۔۔۔وہ ہمہ تن گوش سنتارہا، یہاں تک کہ آپ نے آیت سجدہ پر

میں اٹھ کر سیدھا گھر چال گیا، لوگ اس سجدہ کیا، تو وہ بدحواسی کے عالم خدا کی قسم! محمد “کے پاس گفتگو کا نتیجہ معلوم کرنے آئے تو اس نے کہا

نے مجھ کو ایسا کالم سنایا کہ میرے کانوں نے تمام عمر ایسا کالم نہیں سنا، اخرجہ البیہقی و ابن اسحق ”) میری سمجھ میں نہ آسکا کہ میں کیا جواب دوں؟

( و ابو یعلی عن جابر )جمع 1ج115محمد بن کعب )الخصائص الکبری،صعن 2ج 26الفوائد، ص )

:ایک شبہ

بعض غیر مسلم مصنفین یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کسی نے قرآن کریم کے مقابلے پر کوئی کالم پیش کیا ہو، لیکن ہم تک اس کا کالم نہ پہنچ سکا

ھ( اس خیال پر تبصرہ کرتے ہوئے 388طابی )متوفی ہو، عالمہ ابو سلیمان خیہ خیال بالکل غلط ہے ، اس لیے کہ ابتداء سے عام اور خاص ” لکھتے ہیں:

لوگوں کی یہ عادت چلی آتی ہے کہ وہ اہم واقعات کو ضرور نقل کرکے آئندہ نسلوں کے لیے بیان کرجاتے ہیں، بالخصوص وہ واقعات جن کی طرف لوگوں

لگی ہوئی ہوں، یہ معاملہ )قرآن کریم کا چیلنج( تو اس وقت کی نظریں چاردانگ عالم میں شہرت پاچکا تھا ، اگر اس کا کوئی مقابلہ کیا گیا ہوتا تو اس

، 50ثالث رسائل فی اعجاز القرآن، ص “) کا ہم تک نہ پہنچنا ممکن ہی نہ تھا، روایات جمع دارالمعارف مصر( قدیم مسلمان مورخین کی دیانت داری اور

Page 37: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

کرنے کے شوق کا حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے نبی اور صحابہ کے متعلق باطل فرقوں کے لوگوں کی گھڑی ہوئی روایتوں کو بھی برابری کی بنیاد پر

اپنی کتابوں میں جگہ دی ہوئی ہے، جنکو لے کر مستشرقین و ملحدین وئی عبارت قرآن کی اعتراضات کا طوفان اٹھائے رکھتے ہیں۔ حقیقۃ اگر ایسی ک

مثل تیار کی گئی ہوتی تو آج ہم تک ضرور پہنچتی۔ پھر یہودی اور عیسائی جو طعن و تشنیع کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ، وہ ایسی کسی آیت

کو کہاں چھوڑنے والے تھے؟ البتہ چند مسخروں نے قرآن کریم کے مقابلے وہ تاریخ کے صفحات میں آج تک میں کچھ مضحکہ خیز جملے بنائے تھے

محفوظ ہیں۔ آج کوئی مسیلمہ کا کلمہ گو اور نام لیوا موجود نہیں ہے جو انکو دنیا کے سامنے پیش کرے لیکن اسالمی تاریخیں آجتک انکی حفاظت کی ذمہ داری اور دنیا کے سامنے پیش کرنے کی خدمت زمانوں سے ادا کرتی چلی

پن کا انداہ غیر عرب بھی کرسکتے ہیں ۔ آرہی ہیں ۔ ان جملوں کے مسخرےکے مقابلے میں جملے” سورۃ الفیل” مسیلمہ کے :

ہاتھی! کیا ہے ” الفیل وماالفیل، وما أدراک ما الفیل، لہ ذنب دبیل وخرطوم طویل م ہے اور ایک ہاتھی! اور کیا معلوم تجھے کہ ہاتھی کیا ہے۔اس کی ایک سخت د

لمبی سونڈ ہے۔یا مسیلمہ کذاب نے ان جملوں کو قرآن کے مقابلے میں ” اسی طرح سیف وحشی

یا ضفدع بنت ضفدعین ، نقی ما تنقین، نصفک في “” اپنی وحی قرار دیا تھا کہ اے مینڈک !بیٹی “وال الشارب تمنعین المائ ونصفک في الطین، ال المائ تکدرین

دو مینڈکوں کی! تو صاف ستھری ، کیا ہی تو صاف ستھری ہے۔ تیرا آدھا دھڑ پانی میں اور آدھا مٹی میں ہے۔ نہ تو پانی کو گدال کرتی ہے اور نہ پینے والے

کو روکتی ہے۔( ، المطبوع فی فی اعجاز القرآن، ص ثالث رسائل “بیان اعجاز القرآن ، للخطابی

50،51)

:عرب اور شاعری

عربوں کو من حیث القوم شاعری کا ذوق فطری طور مال تھا ، یہ قوم بدوی زندگی گزارتی تھی۔ ان کی نسل ہر طرح کی آزادی کے ساتھ آغوش فطرت میں

پروان چڑھتی تھی۔ حد نگاہ تک پھیال ہوا صحرا، تیز اور جھلسا دینے واال تند صحرائی آندھیاں ، چمکتا دمکتا چاند، ہنستے مسکراتے سورج، سخت اور

Page 38: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

ا سرمایہ فکر و نظر تھیں۔ستارے ، نشیلی صبحیں اور پر کیف شامیں ان ک چنانچہ عرب شاعر اپنے فطری ماحول میں ڈوب کر اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار شعر میں کرتے تھے, زبان دانی اورفصاحت وبالغت کا عروج تھا ۔

اس میں کمال پیدا کرکے ایک دوسرے کو مقابلے کا چیلنج دیتے تھے ۔ یہ لوگ چیزیں سرمایہ فخرومباہات شمار کی جاتی تھیں چنانچہ اس سلسلے میں سات

مشہور قصیدے خانہ کعبہ میں لٹکائے گئے کہ ان جیسا کوئی کالم موجود نہیں یزاں کردے ۔ ، کسی میں ہمت ہےہو تو ان کے مقابلے کے قصیدے ال کریہاں آو

کہا جاتا ہے۔ انکا کچھ حصہ آج بھی موجود ‘ المعلقات السبعہ ‘ انہی قصیدوں کو ہے اور دینی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔

غور کریے اس دور میں ایک امی جس نے کبھی کوئی کتاب چھوئی ہو نہ قلم س ہاتھ میں پکڑ ا ہو بلکہ باوجود اعلی درجہ کے قریشی ہونے کے چالیس بر

تک ایک شعر بھی زبان سے نہ کہا ہو ، جس میں عرب کی چھوکریاں تک فطری سلیقہ اور ملکہ رکھتی تھیں۔۔ کیسےگمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ بغیر تعلیم و تعلم کے دفعۃ ایسی کتاب بنا الئے کہ ان قصیدوں کے وارثین خود ان

غریب معلومات ، قصیدوں کو اتارنے پر مجبور ہوجائیں ، پھر اس قدر عجیب و مؤثر ہدایات اور کایا پلٹ دینے والے قوانین و احکام پر مشتمل ہو ۔ ناگزیر کہنا پڑے گا کہ کوئی دوسرا شخص اسے یہ باتیں سکھالتا اور ایسا کالم بناکر دے دیتا ہے۔ وہ شخص کون تھا جس کی بے اندازہ قابلیت سے قرآن جیسی کتاب

یعیش ۔ کئی عجمی غالموں کے نام لئے گئے تیار ہوئی۔ حیر ، یسار ، عائش ، ہیں جن میں کوئی یہودی تھا کوئی نصرانی۔ بلکہ بعض کی نسبت کہا گیا ہے کہ وہ نصرانیت کو چھوڑ کر مذہب اسالم قبول کر چکے تھے۔ کہتے ہیں حضور صلی ہللا علیہ وسلم گاہ بگاہ آتے جاتے ان میں سے کسی ایک کے پاس بیٹھتے

صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں کبھی حاضر ہوا کرتا تھا۔ تھے یا وہ حضور تعجب ہے ، اتنے بڑے قابل انسانوں کا تو نام بھی تاریخ نے تیقن و تعین کے

ساتھ یاد نہ رکھا۔ اور جو ان سے سیکھ کر محض نقل کر دیا کرتا تھا ، دنیا اس ہیں بھی اسے کےقدموں میں گر پڑی، حتی کہ جنہوں نے اسکو نبی نہ مانا ، ان

دنیا کا سب سے بڑا مصلح اور کامل انسان تسلیم کرنا پڑا۔اس سفیہانہ اعتراض سے یہ ضرور ثابت ہو گیا کہ دعوئے بعثت سے پہلے

ی ہونا ان کےنزدیک ایسا مسلم تھا کہ قرآنی علوم و معارف کو آپ ملسو هيلع هللا ىلص آپ کا اما تھا کہ کوئی کی امیت مسلمہ سے تطبیق نہ دے سکتے تھے ۔ اسی لئے کہنا پڑت

دوسرا شخص آپ کو یہ باتیں سکھال جاتا ہے۔ بالشبہ آپ سکھالئے ہوئے تھے ،

Page 39: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

حمن ۔ علم القران لیکن سکھالنے واال کوئی بشر نہ تھا ، وہ رب رحمان تھا : الر۔(۱،۲سورت الرحمن۔ )

اگر قرآن کے علوم خارقہ اور دوسری وجوہ اعجاز کو اپنی غباوت کی وجہ ے تم نہیں سمجھ سکتے تو اس کی زبان کی معجزانہ فصاحت و بالغت کا س

ادراک تو کر سکتے ہو۔ جس کے متعلق باربار چیلنج دیا جا چکا اور اعالن کیا جا چکا ہے کہ تمام جن و انس مل کر بھی اس کالم کا مثل پیش نہ کر سکیں

استثناء عاجز گے۔ ۔!پھر جس کا مثل النے سے عرب کے تمام فصحاء بلغاء بال و درماندہ ہوں ایک گمنام عجمی بازاری غالم سے کیونکر امید کی جاسکتی ہے کہ ایسا کالم معجز تیار کر کے پیش کر دے؟اگر تمام عرب میں کوئی شخص بالفرض ایسا کالم بنا سکتا تو وہ خود حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم ہوتے۔

یرہ قرآن کے بیان کردہ مگر قرآن کے سوا آپ کے دوسرے کالم کا ذخموضوعات پر موجود ہے ، جسے حدیث کہتے ہیں ، جو باوجود انتہائی

فصاحت کے کسی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت قرآنی کی ہمسری نہیں کر سکتا۔

تاریخ میں بعد میں بھی بہت سے لوگوں نے طبع آزمائی کی ۔ عربی کے مشہور ھ( 143مترجم کلہلہ وومنہ)متوفی ادیب اور انشاء پرداز عبدہللا بن المقفع

نے قرآن کریم کا جواب لکھنے کا ارادہ کیا، عرصہ ایک عبارت کو لکھتے/بدلتے رہے ۔ ایک دفعہ کہیں سے گزرتے ہوئے کسی بچے کو یہ آیت

پڑھتے سنا کہپنا پانی نگل اور کہا گیا اے زمیں!ا”وقیل یا أرض ابلعی ماء ک ویا سماء أقلعی۔۔۔

٤٤سورئہ ہود:”) جااور اے آسمان رک جا۔۔۔ ) تو پکار اٹھے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کالم کا معارضہ ناممکن ہے، اور

، ص”) یہ ہرگز انسانی کالم نہیں۔ ، ھامش 1ج 50اعجاز القرآن ، للباقالنی (االتقان

معلوم ہوتا ہے اس قسم کے بہت سے واقعات تاریخ میں محفوظ ہیں، جن سے یہکہ ہر دور کے عرب کے صف اول کے فصیح و بلیغ ادباء و شعراء ہ قرآن

کریم کا معارضہ نہیں کرسکے ۔ آج بھی ہزاروں ادیب موجود ہیں جو دنیا میں فصاحت و بالغت کے حوالے سے اپنی ایک شہرت رکھتے ہیں، عرب میں غیر

باد ہے، لیکن آج تک مسلموں عیسائیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شروع سے آکوئی قرآن کی کسی آیت کے مقابل کوئی برابر کی آیت پیش کرنے کی جرات

نہیں کرسکا۔

Page 40: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

مسیلمہ کذاب کی طرح کے کچھ جملے جوڑ کے کچھ ملحدین و متعصبینعربی زبان سے العلم اہل عجم کو دھوکے دینے کے لیے پیش کرتے رہتے

علمی دنیا میں ایسے مسخروں کا ہیں، ان سے وہ اپنا دل ہی بہال سکتے ہیں،کچھ کام نہیں ۔ انکے عالوہ کچھ مشنریز نے قرآنی آیات میں سے کچھ الفاظ بدل

کے عبارتیں بنانے کی کوشش کی ۔ لیکن انکو کبھی کسی مسلم یا غیر مسلم ادبی لٹریچر میں جگہ نہیں دی گئی ، کسی محقق، مستشرق نے بھی کبھی انکو

جواب میں پیش کرنے کی جرات نہیں کی کیونکہ قرآن قرآن کے اس چیلنج کے کے معیار کی ہونا تو بعد کی بات وہ قرآن ہی کا سرقہ ہیں ۔ ۔ قرآن کی فصاحت

و بالغت کو سمجھنے کے لیے اک واقعہ مالحظہ کیجیےمصری عالم عالمہ طنطاوی لکھتے ہیں کہ وہ ایک مجلس میں اپنے جرمن

ھے ۔مستشرقین نےان سے پوچھا :کیا آپ یہ مستشرق دوستوں کے ساتھ بیٹھے تسمجھتے ہیں کہ قرآن جیسی فصیح وبلیغ عربی میں کبھی کسی نے گفتگو کی

ہاں میرا ایمان :”ہے نہ کوئی ایسی زبان لکھ سکا ہے ۔عالمہ طنطاوی نے کہا ہے کہ قرآن جیسی فصیح و بلیغ عربی میں کسی نے کبھی گفتگو کی ہے نہ

انھوں نے مثال مانگی تو عالمہ نے ایک جملہ دیا کہ اس ۔”ایسی زبان لکھی ہے :کا عربی میں ترجمہ کریں

” جہنم بہت وسیع ہے”جرمن مستشرقین سب عربی کے فاضل تھے ،انہوں نے بہت زور مارا۔جہنم واسعة ،جہنم وسیعة جیسے جملے بنائے مگر بات نہ بنی اورعاجز آگئے تو

رآن کیا کہتاہےلو اب سنو ق”عالمہ طنطاوی نے کہا : ”: زید )) ((یوم نقول لجھنم ھل امتالت وتقول ھل من م

جس دن ہم دوزخ سے کہیں گے : کیا تو بھر گئی ؟ اوروہ کہے گی :کیا کچھ ” ”اور بھی ہے ؟

اس پر جرمن مستشرقین اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوے اور قرآن کے اعجاز ے حیرت کے اپنی چھاتیاں پیٹنے لگے۔بیان پر مار

( 141-138اسالم کی سچائی اور سائنس کے اعترافات۔ ص )

قرآن کریم کا بلیغانہ وفصیحانہ اسلوب ایسا اعجاز سدا بہار ہے جس میں کوئی آسمانی کتاب تک شریک و سہیم نہیں، بیانی اعجاز کی یہ جہت اتنی نمایاں ہے

ن و بیان میں پہچان رکھتا ہو یا عربی کی کہ جو بھی سنے خواہ وہ عربی زباالف با سے بھی واقف نہ ہو لیکن اس کا جذب اندرون پکار اٹھتا ہے۔ واللہ انہ

Page 41: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

وانہ لیعلو وما یعلی خدا کی قسم جو یہ ․․․یقولہ الذي یقول حالوۃ وان علیہ لطالوۃہی رہتا کالم بولتے ہیں اس میں بال کی شیرینی اور رونق ہے، اوریہ کالم غالب

لیکن جو شخص نے یہ ( ۱/۱۱۳ہے مغلوب نہیں ہوتا ہے۔)الخصائص الکبری: ہی دل میں ٹھان لے کہ یقین نہیں کروں گا ، اسکو ہدایت بھی نہیں ملتی ۔ جتنا

سمجھائیے کبھی نہ سمجھے گا۔

استفادہ تحقیق: : ہندوستان میں اشاعت اسالم سے متعلق اعتراضات کا جائزہ از محمد شمیم اختر قاسمیریسرچ اسکالر شعبہ سنی دینیات،علی گڑھ ڈاکٹر مفتی

مسلم یونیورسٹی علی گڑ

اسالمی ریاست میں غیر مسلم رعایا کے حقوق

اسالم ان تمام حقوق میں،جو کسی مذہبی فریضہ اور عبادت سے متعلق ہی نہ ہونبلکہ ان کا تعلق ریاست کے نظم و ضبط اور شہریوں کے بنیادی حقوق سے ہو غیرمسلم اقلیتوں اور مسلمانوں کے درمیان عدل و انصاف اور مساوات قائم

کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں ان غیرمسلموں کے ساتھ، جو اسالم اور مسلمانوں سے برسرپیکار نہ ہوں اور نہ ان کے خالف کسی شازشی سرگرمی

ایت دی گئی میں مبتال ہوں، خیرخواہی، مروت، حسن سلوک اور رواداری کی ہد ہے۔

ہللا تم کو منع نہیں کرتا ہے ان لوگوں سے جو لڑے نہیں تم سے دین پر اور

Page 42: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

نکاال نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان سے کرو بھالئی اور انصاف کا ۸سلوک۔)الممتحنة: )

اسالمی ریاست میں تمام غیرمسلم اقلیتوں اور رعایا کو عقیدہ، مذہب، جان و مال و کے تحفظ کی ضمانت حاصل ہوگی۔ وہ انسانی بنیاد پر شہری اور عزت و آبر

آزادی اور بنیادی حقوق میں مسلمانوں کے برابر شریک ہوں گے۔ قانون کی نظر میں سب کے ساتھ یکساں معاملہ کیا جائے گا، بحیثیت انسان کسی کے ساتھ

کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ جزیہ قبول کرنے کے بعد ان پر وہیواجبات اور ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو مسلمانوں پر عائد ہیں، انھیں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں اور ان تمام مراعات و

سہولیات کے مستحق ہوں گے، جن کے مسلمان ہیں۔

:تحفظ جانجان کے تحفظ میں ایک مسلم اور غیرمسلم دونوں برابر ہیں دونوں کی جان کا

کساں تحفظ و احترام کیا جائے گا اسالمی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یاپنی غیرمسلم رعایا کی جان کا تحفظ کرے اور انھیں ظلم و زیادتی سے محفوظ

:رکھے۔ پیغمبر صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد ہےجو کسی معاہد کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا، جب کہ

وشبو چالیس سال کی مسافت سے بھی محسوس ہوتی ہے۔)بخاری اس کی خ۴۴۸، ص: ۱شریف کتاب الجہاد، باب اثم من قتل معاہدا بغیر جرم، ج: )

:حضرت عمر نے اپنی آخری وصیت میں فرمایامیں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو ہللا اور اس کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم ”

ں کہ ذمیوں کے عہد کو وفا کیا جائے، ان کے عہد و ذمہ کی وصیت کرتا ہوکی حفاظت و دفاع میں جنگ کی جائے، اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بار

ابو یحیی امام : ۹۳حضرت عمر کے سیاسی نظرئیے، ص: “) نہ ڈاال جائے۔ (خان ، مطبوعہ گوشہٴ ادب چوک انارکلی الہور

:تحفظ مالکے مال وجائیداد کا تحفظ کرے گی، اسالمی ریاست مسلمانوں کی طرح ذمیوں

انھیں حق ملکیت سے بے دخل کرے گی نہ ان کی زمینوں اور جائیدادوں پر زبردستی قبضہ، حتی کہ اگر وہ جزیہ نہ دیں، تو اس کے عوض بھی ان کی امالک کو نیالم وغیرہ نہیں کرے گی۔ حضرت علی نے اپنے ایک عامل کو

:لکھا

Page 43: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

” اسالمی “) کی گائے اور ان کے کپڑے ہرگز نہ بیچنا۔ خراج میں ان کا گدھا، ان۲۰حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: )

ذمیوں کو مسلمانوں کی طرح خرید و فروخت، صنعت و حرفت اور دوسرے تمام ذرائع معاش کے حقوق حاصل ہوں گے، اس کے عالوہ، وہ شراب اور

ی امالک میں مالکانہ خنزیر کی خریدوفروخت بھی کرسکتے ہیں۔ نیز انھیں اپنتصرف کرنے کا حق ہوگا، وہ اپنی ملکیت وصیت و ہبہ وغیرہ کے ذریعہ

دوسروں کو منتقل بھی کرسکتے ہیں۔ ان کی جائیدادانھیں کے ورثہ میں تقسیم بھی ہوگی، حتی کہ اگر کسی ذمی کے حساب میں جزیہ کا بقایا واجب االدا تھا

نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے اور وہ مرگیا تو اس کے ترکہ سے وصول ورثہ پر کوئی دباؤ ڈاال جائے گا۔

کسی جائز طریقے کے بغیر کسی ذمی کا مال لینا جائز نہیں ہے حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد ہے:خبردار معاہدین کے اموال حق کے بغیر حالل نہیں

(ابوداؤد کتاب االطعمة باب ما جاء فی اکل السباع )ہیں۔ :تحفظ عزت و آبرو

مسلمانوں کی طرح ذمیوں کی عزت وآبرو اور عصمت و عفت کا تحفظ کیاجائے گا، اسالمی ریاست کے کسی شہری کی توہین و تذلیل نہیں کی جائے

گی۔ ایک ذمی کی عزت پر حملہ کرنا، اس کی غیبت کرنا، اس کی ذاتی و پیٹنا اور گالی دینا شخصی زندگی کا تجسس، اس کے راز کو ٹوہنا،اسے مارنا،

ایسے ہی ناجائز اور حرام ہے، جس طرح ایک مسلمان کے حق میں۔اس کو تکلیف دینے سے رکنا واجب ہے اوراس کی غیبت ایسی ہی حرام ہے جیسی کسی مسلمان کی۔ )اسالمی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص:

۱۵) :عدالتی و قانونی تحفظ

مات مسلم اور ذمی دونوں کے لیے یکساں اور فوج داری اور دیوانی قانون ومقدمساوی ہیں، جو تعزیرات اور سزائیں مسلمانوں کے لیے ہیں، وہی غیرمسلموں کے لیے بھی ہیں۔ چوری، زنا اور تہمت زنا میں دونوں کو ایک ہی سزا دی جائے گی، ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ قصاص، دیت اور

نوں برابر ہیں۔ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو قتل کردے، ضمان میں بھی دو :تواس کو قصاص میں قتل کیاجائے گا۔ حدیث شریف میں ہے۳۸۱، ص: ۲ان کے خون ہمارے خون ہی کی طرح ہیں۔ )نصب الرایة، ج: )

حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل

Page 44: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

وسلم نے اس کو قصاص میں قتل کرنے کا حکم دیا کردیا، تو آپ صلی ہللا علیہ :اور فرمایا

میں ان لوگوں میں سب سے زیادہ حقدار ہوں جو اپنا وعدہ وفا کرتے ہیں۔ ۱۱)اسالمی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: )

ذمیوں کے لیے شراب اور خنزیر کو قانون سے بھی مستثنی کردیاگیا ، چنانچہ ھانے اور خرید و فروخت کرنے،اسی طرح شراب انھیں خنزیر رکھنے، ک

بنانے، پینے اور بیچنے کا حق ہے۔

:مذہبی آزادیذمیوں کو اعتقادات و عبادات اور مذہبی مراسم وشعائر میں مکمل آزادی حاصل ہوگی، ان کے اعتقاد اور مذہبی معامالت سے تعرض نہیں کیا جائے گا، ان کے

اہوں کو منہدم نہیں کیا جائے گا۔کنائس، گرجوں، مندروں اور عبادت گ قرآن نے صاف صاف کہہ دیا:ال اکراہ في الدین قد تبین الرشد من الغي

دین کے معاملہ میں کوئی جبر واکراہ نہیں ہے، ہدایت گمراہی سے جدا (ہوگئی۔)البقرہ

وہ بستیاں جو امصار المسلمین )اسالمی شہروں( میں داخل نہیں ہیں، ان میں نکالنے، ناقوس اور گھنٹے بجانے اور مذہبی جلوس نکالنے ذمیوں کو صلیب

کی آزادی ہوگی، اگر ان کی عبادت گاہیں ٹوٹ پھوٹ جائیں، تو ان کی مرمت اور ان کی جگہوں پر نئی عبادت گاہیں بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔ البتہ امصار ئر المسلمین یعنی ان شہروں میں، جو جمعہ عیدین، اقامت حدود اور مذہبی شعا

کی ادائیگی کے لیے مخصوص ہیں، انھیں کھلے عام مذہبی شعائر ادا کرنے اور دینی و قومی جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اور نہ وہ ان جگہوں میں نئی عبادت گاہیں تعمیر کرسکتے ہیں۔ البتہ عبادت گاہوں کے اندر

بھی کرسکتے انھیں مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ اور عبادت گاہوں کی مرمت ہیں۔

وہ فسق و فجور جس کی حرمت کے اہل ذمہ خود قائل ہیں اور جو ان کے دین و دھرم میں حرام ہیں، تو ان کے اعالنیہ ارتکاب سے انھیں روکا جائے گا۔

خواہ وہ امصار المسلمین میں ہوں یا اپنے امصار میں ہوں۔ذمی اپنے بچوں کی بھی قائم کرسکتے ہیں۔ انھیں اپنے دین تعلیم و تربیت کے لئے مذہبی درسگاہیں

و مذہب کی تعلیم و تبلیغ اور مثبت انداز میں خوبیاں بیان کرنے کی بھی آزادی ہوگی۔

Page 45: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

اسالمی ریاست ذمیوں کے پرسنل الء میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی، بلکہ انھیں ان کے مذہب و اعتقاد پر چھوڑ دے گی وہ جس طرح چاہیں اپنے دین و

عمل کریں۔ نکاح، طالق، وصیت، ہبہ، نان و نفقہ، عدت اور وراثت مذہب پرکے جو طریقے ان کے دھرم میں جائز ہیں، انھیں ان پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہوگی، خواہ وہ اسالمی قانون کی رو سے حرام و ناجائز ہی کیوں نہ ہوں۔

ائز ہے، تو مثال اگر ان کے یہاں محرمات سے نکاح بغیر گواہ اور مہر کے جاسالمی ریاست انھیں اس سے نہیں روکے گی؛ بلکہ اسالمی عدالت ان کے

قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرے گی۔حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حضرت حسن سے اس سلسلے میں ایک استفتاء کیا تھا:کیا بات ہے کہ خلفاء راشدین نے ذمیوں کو محرمات کے ساتھ نکاح اور

معاملہ میں آزاد چھوڑدیا۔جواب میں حضرت حسن نے شراب اور سور کے لکھا:انھوں نے جزیہ دینا اسی لیے تو قبول کیاہے کہ انھیں ان کے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت دی جائے۔ آپ کاکام پچھلے طریقے کی

اسالمی حکومت میں “)پیروی کرنا ہے نہ کہ کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنا۱۱قوق، ص: غیرمسلموں کے ح )

:منصب ومالزمتاسالمی آئین سے وفاداری کی شرط پوری نہ کرنے کی وجہ سے اہل ذمہ

زارتوں اور ان مناصب پر فائز نہیں ہوسکتے ہیں، پالیسی ساز اداروں، تفویض وجو اسالم کے نظام حکومت میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، بقیہ تمام مالزمتوں

ے کھلے ہیں۔ اس سلسلے میں ماوردی نے اور عہدوں کے دروازے ان کے لی :ذمیوں کی پوزیشن ظاہر کرتے ہوئے لکھاہے

ایک ذمی وزیر تنفیذ ہوسکتا ہے، مگر وزیر تفویض نہیں۔ جس طرح ان دونوں ”عہدوں کے اختیارات میں فرق ہے، اسی طرح ان کے شرائط میں بھی فرق ہے۔

کہ وزیر تفویض خود ہی یہ فرق ان چار صورتوں سے نمایاں ہوتا ہے: پہلے یہ احکام نافذ کرسکتا ہے اور فوج داری مقدمات کا تصفیہ کرسکتا ہے، یہ

اختیارات وزیر تنفیذ کو حاصل نہیں۔ دوسرے یہ کہ وزیر تفویض کو سرکاری عہدے دار مقرر کرنے کا حق ہے، مگر وزیر تنفیذ کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔

امات خود کرسکتا ہے وزیر تنفیذ کو تیسرے یہ کہ وزیر تفویض تمام جنگی انتظیہ حق حاصل نہیں ہے۔ چوتھے یہ کہ وزیر تفویض کو خزانے پر اختیار حاصل ہے وہ سرکاری مطالبہ وصول کرسکتا ہے اور جو کچھ سرکار پر واجب ہے

اسے ادا کرسکتا ہے۔ یہ حق بھی وزیر تنفیذ کو حاصل نہیں ہے۔ ان چار

Page 46: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

یسی نہیں جو ذمیوں کو اس منصب پر فائز شرطوں کے عالوہ اور کوئی بات ا۳۱۱بنیادی حقوق، ص: “)ہونے سے روک سکے )

اسالمی خزانے سے غیرمسلم محتاجوں کی امدادصدقات واجبہ )مثال زکوۃ عشر( کے عالوہ بیت المال کے محاصل کا تعلق جس طرح مسلمانوں کی ضروریات و حاجات سے ہے، اسی طرح غیرمسلم ذمیوں

و حاجات سے بھی ہے، ان کے فقراء ومساکین اور دوسرے کی ضروریاتضرورت مندوں کے لیے اسالم بغیر کسی تفریق کے وظائف معاش کا سلسلہ قائم کرتا ہے۔ خلیفہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اسالمی ریاست کا کوئی شہری

محروم المعیشت نہ رہے۔یک ایک مرتبہ حضرت عمر نے گشت کے دوران میں ایک دروازے پر ا

ضعیف العمر نابینا کو دیکھا آپ نے اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ تم اہل کتاب کے کس گروہ سے تعلق رکھتے ہو،اس نے جواب دیا کہ میں یہودی

ہوں۔حضرت عمر نے دریافت کیا کہ گداگری کی یہ نوبت کیسے آئی۔ یہودی نے کہا۔

کی وجہ سے۔ حضرت ادائے جزیہ، شکم پروری اور پیری سہ گونہ مصائب عمر نے یہ سن کر اس کا ہاتھ پکڑ کر گھرالئے اور جو موجودتھا،اس کو دیا

:اور بیت المال کے خازن کو لکھایہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو۔ خدا کی قسم ہرگز یہ ”ہمارا انصاف نہیں ہے کہ ہم جوانی میں ان سے جزیہ وصول کریں اور بڑھاپے

نھیں بھیک کی ذلت کے لیے چھوڑ دیں قرآن کریم کی اس آیت )انما میں االصدقات للفقراء والمساکین( میں میرے نزدیک فقراء سے مسلمان مراد ہیں اور

مساکین سے اہل کتاب کے فقراء اور غرباء۔ اس کے بعد حضرت عمر نے ایسے تمام لوگوں سے جزیہ معاف کرکے بیت المال سے وظیفہ بھی مقرر

۱۵۱اسالم کا اقتصادی نظام، ص: “) یا۔کرد ) حضرت ابوبکر کے دور خالفت میں حضرت خالد بن ولید نے اہل حیرہ کے

لیے جو عہدنامہ لکھا وہ حقوق معاشرت میں مسلم اور غیرمسلم کی ہمسری کی :روشن مثال ہے

اورمیں یہ طے کرتاہوں کہ اگر ذمیوں میں سے کوئی ضعف پیری کی وجہ ”جائے، یا آفت ارضی و سماوی میں سے کسی آفت میں مبتال سے ناکارہ ہو

ہوجائے، یا ان میں سے کوئی مالدار محتاج ہوجائے اوراس کے اہل مذہب اس کو خیرات دینے لگیں، تو ایسے تمام اشخاص سے جزیہ معاف ہے۔ اور بیت

Page 47: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

المال ان کی اور ان کی اہل وعیال کی معاش کا کفیل ہے۔ جب تک وہ داراالسالم )اسالم کا اقتصادی نظام“ ں مقیم رہیں۔می )

معاہدین کے حقوقمذکورہ باال حقوق میں تمام اہل ذمہ شریک ہیں، البتہ وہ غیرمسلم رعایا، جو

جنگ کے بغیر، یا دوران جنگ مغلوب ہونے سے پہلے،کسی معاہدے یا صلح نامے کے ذریعہ اسالمی ریاست کے شہری ہوگئے ہوں تو ان کے ساتھ شرائط

کے مطابق معاملہ کیا جائے گا۔ ان شرائط پر سختی سے عمل کیا جائے صلحگا۔ ان سے ایک سرمو بھی تجاوز نہیں کیا جائے گا، نہ ان پر کسی قسم کی

زیادتی کی جائے گی، نہ ان کے حقوق میں کمی کی جائے گی۔ نہ ان کی مذہبی ے گا۔آزادی سلب کی جائے گی، نہ ان پر طاقت سے زیادہ بوجھ ڈاال جائ

معاہدے کی خالف ورزی کرنے والے کو آخرت میں باز پرس کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا اور رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم اس کے خالف قیامت کے

دن مستغیث ہوں گے۔خبردار! جو شخص کسی معاہد پر ظلم کرے گا، یا اس کے حقوق میں کمی

بار ڈالے گا، یا اس سے کوئی کرے گا، یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر چیزاس کی مرضی کے خالف وصول کرے گا،اس کے خالف قیامت کے دن میں خود مستغیث بنوں گا۔) اسالمی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص:

۶)

محمد بن قاسم

عماد الدین محمد بن قاسم بن یوسف سقفی

Page 48: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

محمد بن قااسم جنگ میں سپہ ساالری کرتے ہوئے

پیدائش

دسمبر 31 695ءطائف

عرب ) سعودی عرب کا ایک شہر

وفاتجوالئی 18

ء715

وابستگی

حجاج بن بنو ,یوسف

کا امیہگورنر

الولید خلیفہ اول

امیر عہدہ

جنگیں/محارب

فتوحات اور سندھمغربی پنجاب

Page 49: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

خالفت بنو کے امیہ

لئے

محمد بن قاسم کی فتح دیبل معروف مصور آفتاب ظفر کی نظر میں

کا پورا نام عماد الدین محمد بن (محمد بن القاسم الثقفي :عربی)محمد بن قاسم کے بھتیجا کے ایک مشہور سپہ ساالر حجاج بن یوسف قاسم تھا جو بنو امیہمیں فتح کرکے ہندوستان تھے۔ محمد بن قاسم نے 17 سال کی عمر میں سندھ

کے کو متعارف کرایا۔ ان کو اس عظیم فتح کے باعث ہندوستان و پاکستان اسالمرو کا اعزاز حاصل ہے اور اسی لئے سندھ کو "باب مسلمانوں میں ایک ہی

االسالم" کہا جاتا ہے کیونکہ ہندوستان پر اسالم کا دروازہ یہیں سے کھال۔

میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد خاندان کے ممتاز محمد بن قاسم 694ء میں طائفکا گورنر مقرر کو عراق افراد میں شمار کئے جاتے تھے۔ جب حجاج بن یوسفکیا گیا تو اس نے ثقفی خاندان کے ممتاز لوگوں کو مختلف عہدوں پر مقرر کیا۔

کی گورنری پر فائز تھے۔ ان میں محمد کے والد قاسم بھی تھے جو بصرہ سال کی 5اسطرح محمد بن قاسم کی ابتدائی تربیت بصرہ میں ہوئی۔ تقریبا

عمر میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔

فہرست

1 ابتدائی دور 2 ابتدائی کارنامے

3 نظام رواداری

Page 50: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

4 شخصیت و کردار 5 افسوسناک انجام

6 سندھ محمد بن قاسم کے بعد 7 حوالہ جات

8 بیرونی روابط

ابتدائی دور

بچپن ہی سے محمد مستقبل کا ذہین اور قابل شخص نظر آتا تھا۔ غربت کی وجہ ہش پوری نہ کرسکے اس لئے ابتدائی سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خوا

تعلیم کے بعد فوج میں بھرتی ہوگئے۔ فنون سپہ گری کی تربیت انہوں نے دمشق م عمری میں اپنی قابلیت اور غیر معمولی صالحیت میں حاصل کی اور انتہائی ک

کی بدولت فوج میں اعلی عہدہ حاصل کرکے امتیازی حیثیت حاصل کی۔

ابتدائی کارنامے

کی بغاوت کے خاتمے کے میں کردوں ءکو ایران708سال کی عمر میں 15کے حکمران اس وقت بنو امیہ [1]لئے سپہ ساالری کے فرائض سونپے گئے۔

کا گورنر تھا۔ اس مہم عراق کا دور تھا اور حجاج بن یوسف ولید بن عبدالملککو میں محمد بن قاسم نے کامیابی حاصل کی اور ایک معمولی چھاؤنی شیراز

کے دار الحکومت ایک خاص شہر بنادیا۔اس دوران محمد بن قاسم کو فارس،اپنی تمام [2]کا گورنر بنایا گیا،اس وقت اس کی عمر 17 برس تھی شیرازسال 17خوبیوں کے ساتھ حکومت کرکے اپنی قابلیت و ذہانت کا سکہ بٹھایااور

کی مہم پر ساالر بنا کر بھیجا گیا۔ محمد بن قاسم کی کی عمر میں ہی سندھانہوں نے [1]فتوحات کا سلسلہ 711ء میں شروع ہوا اور 713ء تک جاری رہا۔کو فتح کرکے سندھ کی فتوحات کو پایۂ سندھ کے اہم عالقے فتح کئے اور ملتان

ی خواہش حاالت نے تکمیل تک پہنچایا لیکن شمالی ہند کی طرف بڑھنے ک پوری نہ ہونے دی۔

نظام رواداری

محمد بن قاسم کم سن تھے لیکن اس کم سنی میں بھی انہوں نے نہ صرف ایک ک کامیاب منتظم ہونے کا بھی عظیم فاتح کی حیثیت سے اپنا نام پیدا کیا بلکہ ای

Page 51: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

ے لیکن اس مختصر عرصے سال سندھ میں گذار 4ثبوت دیا۔ انہوں نے تقریبایں انہوں نے فتوحات کے ساتھ ساتھ سلطنت کا اعلی انتظام کیا اور سندھ میں م

ایسے نظام حکومت کی بنیاد ڈالی جس نے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کیا۔

محمد بن قاسم نے اپنی صالحیتوں، جرات اور حسن تدبر و اخالق کے باعث سندھ کے عوام کے لئے ہندوستان میں جو کارنامے انجام دیے وہ قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے رواداری کی بڑی عمدہ پالیسی اختیار کی۔

محمد بن قاسم کی سندھ کی فتح سیاسی، معاشرتی، مذہبی اور عملی ہر اعتبار سے بے شمار اثرات کی حامل تھی۔

شخصیت و کردار

محمد بن قاسم ایک نو عمر نوجوان تھے۔ اس کم عمری میں انہوں نے سندھ کی پہ ساالر کی حیثیت سے جو کارنامے انجام دیے وہ ان کے کردار کی مہم پر س

پوری طرح عکاسی کرتے ہیں۔ وہ زبردست جنگی قابلیت اور انتظامی صالحیتوں کا مالک تھے۔ ان کی ان صالحیتوں کے ثبوت کے لئے سندھ کی

مہم کی کامیابی ہی کافی ہے۔ ان کے اخالق و کردار کا اندازا اس بات سے بھی یا جاسکتا ہے کہ ایک غیر قوم ان کی گرویدہ ہوگئی تھی۔ سندھ کے عوام ان لگا

کے مصنف اعجاز سے حد درجہ چاہت کا اظہار کرنے لگے تھے۔ تاریخ سندھ تحریر کرتے ہیں الحق قدوسی

محمد بن قاسم جب سندھ سے رخصت ہونے لگے تو سارے سندھ میں ان ”کے کے جانے پر اظہار افسوس کیا گیا۔ ان کی وفات پر شہر کیرج

اور بدھوں نے اپنے شہر میں ان کا ایک مجسمہ بناکر اپنی ہندوؤں “ [3]عقیدت کا اظہار کیا۔

نے بھی کیا ہے۔ کے مصنف بالذری یہی ذکر فتوح البلدان

محمد بن قاسم کی شخصیت انتہائی پروقار تھی۔ ان کا اخالق دوسروں کو ”جلد گرویدہ بنالیتا تھا۔ ان کی زباں شیریں اور چہرہ ہنس مکھ تھے۔ وہ “

Page 52: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

ایک باہمت، بامروت، رحمدل اور ملنسار انسان تھے۔ وہ ہر شخص سے حد درجہ عزت و احترام محبت سے پیش آتے اور ان کے ماتحت ان کی

کرتے تھے۔ عام زندگی میں لوگوں کے غم بانٹتے تھے۔ انہوں نے ہر موڑ پر عقل و فراست کو پوری طرح استعمال کیا اور ان کا ہر قدم

کامیابی کی راہیں تالش کرتا تھا۔ ان کی بلند خیالی اور مستحکم ارادے ان کی کامیابی کی دلیل تھے۔

افسوسناک انجام

ن کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے شمالی ہند کر سر سبز و شاداب عالقے ملتاکے راجہ کو دعوت کی جانب متوجہ ہونے کے لئے قدم بڑھائے۔ پہلے قنوج

م نے قنوج پر حملے کی اسالم دی لیکن اس نے قبول نہ کی تو محمد بن قاسکا انتقال ہوگیا جس تیاری شروع کردی۔ اس دوران 95ھ میں حجاج بن یوسف

ے واپس آگیا۔پر محمد بن قاسم نے قنوج پر فوج کشی کے بجائ

نے حجاج بن یوسف کے انتقال کے کچھ ہی عرصے بعد ولید بن عبدالملکگورنروں کے نام احکامات جاری کئے کہ وہ تمام مشرقی ممالک کے تمام

فتوحات اور پیشقدمی روک دیں۔ محمد بن قاسم کی شمالی ہند کی فتوحات کی خواہش پوری کرنے کی حاالت نے اجازت نہ دی اور کچھ ہی ماہ بعد خلیفہ ولید

ھ میں انتقال ہوگیا۔96بن عبدالملک کا بھی

ال کے ساتھ ہی فاتح سندھ محمد بن قاسم اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے انتق کا زوال شروع ہوگیا کیونکہ ولید کے بعد اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک

جانشیں مقرر ہوا جو حجاج بن یوسف کا سخت دشمن تھا۔ حجاج کا انتقال اگرچہ اس کی خالفت کے آغاز سے قبل ہی ہوگیا لیکن اس عداوت کا بدلہ اس نے

حجاج کے تمام خاندان سے لیا اور محمد بن قاسم کی تمام خدمات اور کارناموں ج کے خاندان کا فرد ہونے کے جرم میں کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں حجا

عتاب کا نشانہ بنایا۔

کو سندھ کا والی بناکر بھیجا اور حکم دیا کہ محمد سلیمان نے یزید بن ابی کبشہبن قاسم کو گرفتار کرکے بھیجو۔ محمد بن قاسم کے ساتھیوں کو جب ان

گرفتاری کا پتہ چال تو انہوں نے محمد بن قاسم سے کہا کہ ہم تمہیں اپنا امیر

Page 53: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

کرتے ہیں، خلیفہ کا ہاتھ ہرگز جانتے ہیں اور اس کے لئے آپ کے ہاتھ پر بیعتتم تک نہیں پہنچنے دیں گے لیکن محمد بن قاسم نے خلیفہ کے حکم کے سامنے

اپنے آپ کو جھکادیا۔ یہ ان کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو ان کی امداد کے لئے سندھ کے ریگستان کا ہر ذرہ آگے آتا لیکن

ابی کبشہ کے سپرد کردیا۔ محمد بن قاسم کو گرفتار انہوں نے اپنے آپ کوکرنے کے بعد دمشق بھیج دیا گیا۔ سلیمان نے انہیں واسط کے قید خانے میں قید

ماہ قید کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت 7کروادیا۔ ہوگئے۔ اس طرح محسن سلطنت کی خلیفہ نے قدر نہ کی اور ایک عظیم فاتح

ہ کی ذاتی عداوت و دشمنی کی بناء پر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو محض خلیفبیٹھا۔ لیکن انہوں نے جنگي صالحیتوں، جرات اور حسن تدبر و اخالق کے

باعث ہندوستان میں جو کارنامے انجام دیے وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے گئے۔ ان کی موت سے دنیائے اسالم کو عظیم نقصان پہنچا۔

بن قاسم کے بعدسندھ محمد

سال رہا۔ فتح سندھ کے بعد انہوں نے یہاں کا 4محمد بن قاسم سندھ میں تقریبا

نظام حکومت انتہائی کامیابی سے چالیا۔ اس نظام کی کامیابی یقینا ان کی

شخصیت کی مرہون منت تھی۔ اسے سندھ کی گورنری سے معزول کرکے یزید

کن ان کا چند ہی دن بعد انتقال ہوگیا۔ اس بن ابی کبشہ کو گورنر مقرر کیا گیا لی

کے انتقال اور نئے گورنر کے آنے تک محمد بن قاسم کی گرفتاری کے اثرات

سندھ میں بدنظمی کی صورت میں نظر آنے لگے۔

فتح سندھ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

نے اپنے کے دور میں حجاج بن یوسف خلیفہ ولید بن عبدالملک ء کواموی712پر حملہ کرنے لیے بھیجا۔ اس لشکر نے ملتان کو سندھ بھتیجے محمد بن قاسم

تک کے عالقے کو فتح کرکے اسالمی قلمرو میں شامل کیا۔

Page 54: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

فہرست

1 وجوہات o 1.1 فتح مکران کے موقع پر تصادم

o 1.2 باغیوں کی پشت پناہی o 1.3 راجہ داہر کی ظالمانہ حکومت

o 1.4 ایران پر قبضہ کی وجہ سے استحقاق o 1.5 فوری وجہ

2 واقعات o 2.1 عبید ہللا اور بدیل کی مہمات کی ناکامی

o 2.2 محمد بن قاسم کی فتوحات o 2.3 دیبل کی فتح 712ء

o 2.4 نیرون o 2.5 سیوستان کی فتح

o 2.6 سیسم کی فتح o 2.7 اشیہار کی فتح

o 2.8 راجہ موکا کی اطاعت o 2.9 راجہ داہر سے مقابلہ

o 2.10 رواڑ کی فتح o 2.11 بہرور اور وہلیلہ کی فتح

o 2.12 راجہ کے وزیر سی ساکر کی اطاعت o 2.13 برہمن آباد کی فتح

o 2.14 ارور کی فتح o 2.15 ملتان کی طرف پیش قدمی

o 2.16 ملتان کی تسخیر 714ء 3 فتح سندھ کی اہمیت

وجوہات

فتح مکران کے موقع پر تصادم

Page 55: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

حاکم سندھ نے مسلمانوں کے ساتھ خواہ مخواہ کی دشمنی شروع کر راجہ داہرھ میں مسلمان مجاہد ایران فتح کرنے کے بعد مکران پر حملہ آور 22دی تھی۔

اور ہوئے تو سندھیوں نے ان کی بھرپور مخالفت کی۔ مسلمانوں نے سندھپر کے متحدہ لشکر کو شکست دی ۔ لیکن اس وجہ سے مسلمانوں اور مکران

حکومت سندھ کے درمیان عناد کا بیج بویا گیا۔

باغیوں کی پشت پناہی

باہمی دشمنی کی فضا کو راجہ داہر نے برقرار رکھا اور جب مکران میں ایک سردار محمد عالفی نے مکران کے گورنر کو قتل کرکے سندھ کی راہ لی تو

اہ دی اور اپنی فوج میں اسے عہدہ بھی دیا۔راجہ داہر نے اسے اپنے ہاں پن

راجہ داہر کی ظالمانہ حکومت

راجہ داہر چونکہ متعصب ہندو اور برہمن زادہ تھا ۔ اس لیے اس نے بدھ مت کے پیروکاروں پر بے پناہ مظالم ڈھائے ۔ اور بزور شمشیر ان کو مٹانے کی

ھی شامل تھیں۔ جن کو پالیسی پر عمل کیا ۔مظلومین میں جاٹ اور لوبان قومیں براجہ داہر کے باپ چچ نے ذلیل و رسوا کرنے کے لیے ان پر پابندی لگا دی تھی کہ وہ اصلی کی بجائے مصنوعی تلوار اپنے پاس رکھیں۔ قیمتی کپڑے ، ریشم مخمل اور شال استعمال نہ کریں۔ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سواری کریں

ے باہر نکلتے ہوئے اپنا کتا ساتھ ننگے سر اور ننگے پیر رہیں اور گھر سرکھیں۔ راجہ داہر نے بھی ان پابندیوں کو قائم رکھا ۔ سندھ کے یہ مظلوم طبقے

مسلمانوں سے مدد کے طالب تھے۔

پر قبضہ کی وجہ سے استحقاق ایران

حکومت کا حصہ رہا ۔ جو اب مسلمانوں کے سندھ قدیم زمانے میں ساسانیہوا قبضے میں آ چکی تھی۔ اس لیے مسلمان اسے اپنی حکومت کا ایک ٹوٹا

حصہ قرار دیتے تھے۔

فوری وجہ

Page 56: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

میں آباد ہو گئے تھے۔ لنکا کے تجارت کی غرض سے کچھ مسلمانوں تاجر لنکاکے ساتھ بہت خوشگوار تعلقات تھے۔ اس نے ان تعلقات کو راجہ کے حجاجمزید خوشگوار بنانے کے لیے کچھ قیمتی تحائف اور وفات شدہ تاجروں کے بیوی بچے ایک جہاز میں سوار کرکے بصرہ روانہ کر دیے۔ لیکن جب دیبلکے قریب پہنچا میدھ قوم کے کچھ ڈاکوؤں نے اسے لوٹ لیا اور عورتوں کو قیدی بنا لیا۔ انہی عورتوں میں سے ایک عورت نے حجاج کے نام دہائی دی۔

ائی کرنے کا اس واقعہ کی اطالع جب حجاج کو ملی تو اس نے فوری کارروارادہ کیا۔ اس نے راجہ داہر کو سامان واپس کرنے ، یتیموں اور عورتوں کو رہا کرنے اور ڈاکوؤں کو اسالمی حکومت کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔

لیکن اس نے بڑا روکھا جواب دیا۔ اور کہا ڈاکوؤں کو پر میرا کوئی اختیار نہیں اں تک قیدی عورتوں کا تعلق ہے انہیں اور نہ ہم ان کی تالش کر سکتے ہیں۔ جہ

تم خود ہی چھرانے کی کوشش کرو۔ حجاج یہ جواب سن کر آگ بگوال ہوگیا۔ اور فورا فوجی کارروائی کا انتظام کیا اس طرح راجہ کی ہٹ دھرمی نے

عربوں کو سندھ پر حملہ آور ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔

واقعات

اکامیعبید ہللا اور بدیل کی مہمات کی ن

ء میں 710حجاج بن یوسف نے راجہ داہر کے نامعقول رویہ کی وجہ سے عبید ہللا کی قیادت میں ایک فوج بھیجی لیکن اسے شکست ہوئی۔ اگلے سال

دوسری مہم بدیل کی سرکردگی میں بھیجی گئی لیکن اسے بھی راجہ داہر کے حکومت کے بیٹے نے شکست دی۔ ان دونوں مہمات کی ناکامی کے بعد مسلم

وقار کو بحال کرنے کے لیے سندھ کی فتح ناگزیر ہوگئی تھی۔ اس لیے حجاج بن یوسف نے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے اس کی اجازت حاصل کی۔

کی فتوحات محمد بن قاسم

حجاج کا بھتیجا تھا بعض روایت کے مطابق چچیرا بھائی تھا۔ وہ محمد بن قاسمہ سال کا کم عمر نوجوان ہونے کے باوجود اس وقت فارس کا گورنر تھا ۔ ستر

ہزار فوج 12انتہائی ہوشیار اور قابل جرنیل تھا۔ حجاج نے اس کی نگرانی میں تک ضرورت کی ہر چیز کا تیار کی اور سوئی دھاگہ سے لے کر منجنیق

Page 57: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

سامان مہیا کیا۔ بھاری سامان ایک بحری بیڑے کے ذریعے روانہ کیا گیا۔ حجاج نے گزشتہ مہمات سے سبق لیتے ہوئے بڑی احتیاط سے کام لیا۔ فوج کی اصل کمان اس کے اپنے ہاتھ میں تھے۔ اور محمد بن قاسم کو ہدایت کی گئی کہ وہ

عمل کرے۔ فوجی کارروائی کے دوران مرکز کی ہدایات پر

ء712دیبل کی فتح

محمد بن قاسم مکران کے راستے سندھ کی طرف روانہ ہوا اور پنجگوار اور ارمن بیلہ کو فتح کرتا ہوا دیبل پہنچا۔ بحری راستے سے روانہ ہونے والی فوج یہیں اس سے آملی ۔ دیبل کی بندر گاہ کراچی کے قریب تھی۔ اہل شہر قلعہ بند

ماہ محاصرہ جاری رہا لیکن شہر فتح ہونے میں نہ آتا تھا۔ ہو کر بیٹھ رہے۔ کئی آخر کار حجاج بن یوسف کی ہدایت کے مطابق منجنیق کو ایک خاص زاویہ پر نصب کرکے شہر پر سنگباری شروع کی گئی اسی اثناء میں محمد بن قاسم کو

معلوم ہوا کہ جب تک شہر کے وسط کا گنبد محفوظ ہے۔ شہر والوں کے د رہیں گے۔ چنانچہ محمد بن قاسم نے خصوصی طور پر گنبد کو حوصلے بلن

نشانہ بنایا ۔ گنبد گرنے سے اہل شہر کے حوصلے پست ہوگئے اور راجہ داہر کا حاکم شہر چھوڑ کر بھاگ گیا۔ محمد بن قاسم نے شہر پر قبضہ کرکے ایک مسجد تعمیر کروائی ۔ اس نے دشمن کر مرعوب کرنے کے لیے تمام مخالف

ر کو تہ تیض کر دیا ۔ اور بدھ مت کے پجاریوں اور مسلمان قیدیوں کو ظالم لشکہندوؤں سے نجات دالئی ۔ اس سے بدھ مت کے حامی کھلم کھال مسلمانوں کی

حمایت کرنے لگے۔

نیرون

کا پیروکار تھے ۔ وہ مسلمانوں سے خائف نیرون کی آبادی اور حاکم بدھ متبھی تھی۔ اور انہیں اپنا نجات دہندہ بھی سمجھتے تھے۔ اس لیے محمد بن قاسم کے نیرون پہنچنے سے پہلے ہی نیرون کے حاکم نے حجاج سے امان نامہ

ش کیا۔ منگوا لیا تھا۔ چنانچہ اسالمی لشکر کے پہنچنے پر اس نے امان ناہ پیساالر لشکر کی خدمت میں تحائف پیش کیے اور سندھ کی تسخیر کے لیے قابل قدر مشور ے دیے۔ اسالمی لشکر کے لیے اس نے رسد کا بھی انتظام کیا۔ محمد بن قاسم نے بھی اس کی ہر طرح قدر افزائی کی ۔ شہر میں ایک مسجد تعمیر

کی گئی اور مسلمانوں کی کالونی بسائی گئی۔

Page 58: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

سیوستان کی فتح

نیرون کے بعد محمد بن قاسم سیوستان کی طرف بڑھا۔ نیرون کا بدھ راجہ رہنمائی کے لیے ساتھ تھا۔ راستے میں بہرج کی بدھ آبادی نے اطاعت قبول کر لی۔ سیوستان پر راجہ داہر کا بھتیجا بجہرا حکومت کرتا تھا۔ اگرچہ یہاں کے

یار تھے لیکن راجہ مقابلہ کرنا چاہتا عوام مسلمانوں کی اطاعت کر لینے پر تتھا۔ تاہم جب مقابلہ ہو ا تو شہر کی آبادی نے اس کاساتھ نہ دیا۔ اور وہ شہر

چھوڑ کربھاگ گیا شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔

سیسم کی فتح

راجہ بجہرا سیوستان سے بھاگ کر سیسم چال گیا۔ جہاں کا راجہ بدھ مت کا انوں سے لڑنا نہ چاہتا تھا۔ اس نے مسلمانوں کی خدمت پیروکار تھا۔ اور مسلم

میں حاضر ہو کر اطاعت قبول کر لی۔ محمد بن قاسم نے اس کی بہت عزت افزائی کی۔ جس سے اہل سندھ بہت متاثر ہوئے ۔ اور کاکاکو اس کی ریاست کا

انتظام دوبارہ سونپ دیا گیا۔ اس نے تسخیر سندھ میں تعاون کا وعدہ کیا اور دہ مہمات میں ساتھ رہا۔ راجہ بجہرا کو جو ابھی تک سیسم میں ہی مقیم تھا۔ آئن

وہاں سے نکاال نہ جا سکا۔ اس پر محمد بن قاسم نے سیسم پر حملہ کر دیا۔ راجہ بجہرا نے دوسرے سرداروں کے ساتھ مل کر مقابلہ کیا اور سبھی مارے گئے۔

ج نے مسلمانوں کی اطاعت سیسم پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ باقی ماندہ فو قبول کر لی۔

اشیہار کی فتح

سیسم کی فتح کے بعد حجاج کی طرف سے حکم مال کہ راجہ داہر کے پایہ تخت پر حملہ کیا جائے اور خود راجہ داہر سے مقابلہ کیا جائے ۔ اس لیے محمد بن قاسم نیروان واپس پہنچا اور داہر کے پایہ تخت پہنچنے کی تیاریاں

لگا۔ چنانچہ اس نے اشیہار کے قلعہ پر حملہ کیا ۔ جہاں لوگوں نے خندق کرنے کھود کر زبردست حفاظتی انتظامات کر رکھے تھے۔ ایک ہفتہ کے سخت

محاصرہ کے بعد اہل قلعہ نے اطاعت قبول کر لی۔ اور محمد بن قاسم ان سے حسن سلوک سے پیش آیا۔

راجہ موکا کی اطاعت

Page 59: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

ا عبور کرنا مشکل تھا۔ جب تک اسے سورتہ کے محمد بن قاسم کے لیے دریحاکم راجہ موکا کا تعاون حاصل نہ ہو۔ چنانچہ اس نے موکا کو خط لکھ کر

اطاعت اسالم قبول کرنے کی دعوت دی اور اسے اپنے عالقے کے عالوہ کچھ کا حکمران بھی بنانے کا وعدہ کیا۔ راجہ نے لکھا کہ میری داہر کے ساتھ

س لیے اگر کھلم کھال میں آپ کا ساتھ دیتا ہوں تو خاندان کی قرابت داری ہے۔ اناک کٹتی ہے۔ اپنے بیس سرداروں کے ساتھ لڑکی کی شادی کرنے کے بہانے ساکڑ جاتا ہوں۔ آپ ایک ہزار سپاہ بھیج کر مجھے گرفتار کرو لیجیے۔ چنانچہ

ہوگئے۔ محمد بن قاسم نے موکا کو گرفتار کر لیا۔ اور اسے بیس ٹھاکر گرفتار محمد بن قاسم نے راجہ موکا کی عزت افزائی کے لیے ان کے رواج کے

مطابق اسے سردربار کرسی پر بٹھایا اور خلعت فاخرہ سے نوازا تاکہ تالیف قلب ہو سکے۔

راجہ داہر سے مقابلہ

محمد بن قاسم چاہتا تھا کہ دریائے سندھ کو عبور کرکے داہر کا مقابلہ کرے کہ اطاعت سے برہم ہو کر ایک فوج بھیجی جو دریائے سندھ کو داہر نے موکا کی

عبور کرکے مسلمانوں کے مقابلہ پر آئی لیکن شکست کھائی ۔ محمد بن قاسم نے ایک نو مسلم کو راجہ داہر کے دربار میں سفیر بنا کر بھیجا۔ سفیر جو دیبل

جانتا کا ایک معزز ہندو گھرانے سے متعلق تھا اور راجہ داہر اسے اچھی طرحتھا۔ اس کے دربار میں شاہی آداب بجا النے سے انکار کر دیا۔ اس پر راجہ داہر

افسوس تم سفیر بن کر آئے ہو ورنہ قتل کے سوا ’’سخت برہم ہوا اور کہا کہ سفارت ناکام ہوگئی اور راجہ داہر اپنا لشکر لے کر ‘‘ تمہاری کوئی سزا نہ تھی۔

ہ زن ہو گیا اور اپنے ایک سردار کو دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر خیمدریائے سندھ کی حفاظت پر متعین کر دیا۔ تاکہ اسالمی لشکر دریا عبور نہ کر سکے ۔ اسی دوران سیوستان میں بغاوت ہو گئی ۔ جس کو فرو کرنے کے لیے

محمد بن قاسم کو ایک دستہ روانہ کرنا پڑا۔

تھا۔ داہر نے موکا کے بھائی محمد بن قاسم کے لیے بڑا مسئلہ دریا عبور کرنا راسل کو دریا کی حفاظت پر متعین کر رکھا تھا۔ مسلمانوں نے کشتیوں کا پل بنانے کا ارادہ کیا۔ لیکن دوسرے کنارے پر راسل کے سپاہی اس کوشش کو

کامیاب نہیں ہونے دیتے تھے۔ باآلخر ایک رات مسلمانوں نے کشتیوں کو دریا انہیں عرض کے رخ پر کھینچ دیا۔ راجہ کے طول کے رخ پر کھڑا کرکے

Page 60: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

راسل کے جن سپاہیوں نے مزاحمت کی وہ تیر اندازوں کے ہاتھ سے مارے گئے اور مسلمانوں فوج نے دریا عبور کرکے راسل کی فوج پر بھرپور حملہ کر دیا اور ان کے قلعے فہم کے پھاٹک تک ان کا تعاقب کیا۔ صبح راجہ داہر

بور کرنے اور راسل کی شکست کی خبر سنائی کو مسلمان فوج کے دریا عگئی۔ تو اس نے اسے بدشگونی قرار دیا اور راجہ راسل نے بھی بدلتے ہوئے

حاالت کو بھانپ کر محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کر لی۔

اسالمی لشکر پیش قدمی کرتا ہوا ۔ نرانی ۔ نامی گاؤں پر قابض ہو گیا۔ راجہ بہ کاجی جاٹ میں مقیم تھا۔ درمیان میں صرف داہر کے بالکل سامنے واقع قص

ایک جھیل تھی۔ موکا اور راسل نے ایک کشتی کے ذریعے تین تین آدمی جھیل کے پار بھیجنے شروع کر دئیے۔ یہاں تک کہ تمام لشکر پار جا اترا ۔ راجہ نے اپنے اہل و عیال کو دراوڑ کے قلعے میں بند کر دیا اور خود لڑائی کی تیاری

کی۔

جہ داہر ایک سو ہاتھیوں ، دس ہزار زرہ پوش سوار اور تیس ہزار پیدل فوج راکے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے مقابلہ پر آیا۔ چار دن تک مقابلہ جاری رہا۔

منہ زور ہاتھیوں کے سامنے مسلمانوں کا زور نہ چلتا تھا۔ آخر پانچویں ہاتھیوں پر پھینکنا مسلمانوں مسلمانوں نے پچکاریوں کے ذریعہ آتش گیر مادہ

شروع کیا۔ جس سے وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ راجہ داہر کا ہاتھ بھی میدان سے بھاگا۔ لیکن راجہ داہر ہاتھی سے اتر کر پیادہ لڑتا رہا یہاں تک کہ ایک عرب نے اس کا کام تمام کر دیا۔ اس کے مرتے ہی فوج قلعہ دراوڑ کی طرف بھاگ

کی کل فوج ساڑھے پندرہ ہزار تھی جن میں گئی۔ اس معرکہ میں محمد بن قاسم ہزار سندھی جاٹ بھی شامل تھے۔ اور تین ہزار فوج موکا کی تھی۔ 4

رواڑ کی فتح

راجہ داہر کے لڑکے جے سنگھ نے شکست خورہ فوج کو راوڑ میں جمع کیا اور مقابلہ کی ٹھانی لیکن اس کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ رواڑ کی بجائے

دہ محفوظ مقام ہے وہاں جاکر مقابلہ کرنا چاہیے۔ جے سنگھ تو برہمن آباد زیابرہمن آباد چال گیا۔ لیکن راجہ داہر کی بیوی رانی بھائی )راجہ داہر کی بہن

( نے مقابلہ کیا۔ 78جس کے ساتھ اس نے خود شادی بھی کی تھی ۔ تاریخ سندھ

Page 61: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

سمیت ستی لیکن جب دیکھا کہ قلعہ بچانا مشکل ہے تو اس نے دوسری عورتوں کی رسم ادا کی اور راوڑ پر مسلمانوں کے قدم مضبوط ہوگئے۔

بہرور اور وہلیلہ کی فتح

محمد بن قاسم راوڑ سے برہمن آباد کی طرف بڑھا۔ راستے مین بہرور اور وہلیلہ دو مضبوط قلعے پڑتے تھے۔ محمد بن قاسم پہلے بہرور پر حملہ آور ہوا۔

و روز کی جنگ کے بعد بہرور پر اور دو ماہ کے سخت محاصرے اور شبقبضہ کر لیا۔ اس کے وہلیلہ پر حملہ کیا۔ یہاں کے لوگ بد دل ہوکر بھاگ کھڑے

ہوئے ۔ اور قلعہ با آسانی فتح ہو گیا۔

راجہ کے وزیر سی ساکر کی اطاعت

راجہ داہر کا دور اندیش وزیر سی ساکر بھانپ گیاتھا کہ اب مسلمانوں کے ہے۔ اس نے محمد بن قاسم کے پاس جان بخشی کی حملے کو روکنا ناممکن

درخواست کی او ر تعاون کا یقین دالیا ۔ اور وہ عورتیں بھی پیش کیں جن کو قزاقوں نے لوتا تھا ۔ اور جن کی وجہ سے سندھ پر حملہ ہوا تھا۔ سی ساکر نے خیر خواہی اور وفاداری سے محمد بن قاسم کا اعتماد حاصل کر لیا۔ محمد بن بن قاسم نے بھی اسے اپنا مشیر خصوصی بنا لیا او راس کے مشورے سے وہلیلہ

کی حکومت ایک ہندو نوبہ کے حوالے کی گئی۔

برہمن آباد کی فتح

راجہ داہر کا لڑکا جے سنگھ اپنی فوج کے ساتھ یہاں مقیم تھا۔ جن دنوں برہمن ات کے آباد پر محمد بن قاسم نے حملہ کیا۔ ان دنوں جے سنگھ فوجی ضروری

تحت باہر گیا ہو تھا۔ جب وہ واپس لوٹا تو اسالمی فوجیں شہر کا محاصرہ کر چکی تھیں۔ جے سنگھ نے مسلمانوں کی رسد بند کرنے کی کوشش کی۔ لیکن راجہ موکا کی قیادت میں ایک دستے نے اس پر حملہ کیا تو وہ شہر کو اپنے

د دنوں بعد شہر پر بھائی گوپی کے حوالے کرکے کشمیر کی طرف نکل گیا۔ چنمسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ۔ یہاں راجہ داہر کی بیوی الڈی گرفتاری وئی۔ محمد

بن قاسم نے حجاج کی اجازت سے اس کے ساتھ شادی کر لی۔

ارور کی فتح

Page 62: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

سے پانچ میل کے فاصلے پر واقع ہے ، راجہ داہر کی ارور جو روہڑیراجدھانی اور سندھ کا اہم ترین مقام تھا۔ برہمن آباد کی فتح کے بعد حجاج بن یوسف نے ملکی انتظام کے بارے میں بہت سی ہدایات دیں اور ساتھ ہی ارور

ئی اور ملتان فتح کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ محمد بن قاسم برہمن آباد کی رہنمامیں اسالمی لشکر ارور پہنچا ۔ ایک ماہ کے بعد اہل قلعہ صلح پر آمادہ ہوگئے۔ اور عربوں نے شہر پر قبضہ کر لیا۔ داہر کا بیٹا گوپی قلعہ چھوڑ کر بھاگ گیا۔

کی طرف پیش قدمی ملتان

ارور کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے ملتان کی طرف پیش قدمی کی راستے میں قلعہ بابیہ تھا ۔ جن پر راجہ داہر کا بھتیجا کسکا حکمران تھا۔ جو داہر کے قتل کے بعد اس قلعہ پر قابض ہوگیا تھا۔ محمد بن قاسم نے لوگوں سے تحقیق

ے بعد کاہ کہ اگر میرے پاس کی کہ وہ واقعی داہر کے خاندان سے ہے۔ اس کآئے تو میں اس کی قدر افزائی کروں ۔ کسکا کو معلوم ہوا تو فورا حاضر خدمت

ہوا اور وزیر مال مقرر ہوا۔ اور قلعہ فتح ہو گیا۔ اس کے بعد اسکندہ پر حملہ کیاگیا جو کم و بیش ایک ہفتہ کی مزاحمت کے بعد فتح ہوا۔ یہاں کے حاکم سنگھ

سکہ چال گیا۔ جہاں کا حاکم بجہرا کا نواسہ تھا۔ اس لیے اپنے رائے بھاگ کر نانا کا انتقام لینے کے لیے لڑا۔ لیکن ایک رات قلعہ سے بھاگ کر ملتان کی

طرف نکل گیا۔ اورقلعہ مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔

ء714ملتان کی تسخیر

ر سنگھ کی ملتان سندھ کا اہم سیاسی ، ثقافتی اور مذہبی مرکز تھا۔ یہاں گوحکومت تھی۔ جو بہت مضبوط راجہ سمجھا جاتا تھا۔ اس نے دو روز تک قلعہ سے باہر نکل کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ سخت جنگ ہوئی۔ جس میں بہت سے اہم مسلمان جرنیل شہید ہو گئے۔ اس کے بعد وہ قلعہ بند ہو گیا۔ اس بے آب و

ک محاصرہ جاری رکھنا ممکن نہ گیاہ عالقہ میں مسلمانوں کے لیے زیادہ دیر تتھا۔ ان کے لشکر میں قحط پڑ گیا۔ اس لیے انہوں نے بھرپور حملہ کرکے شہر

پر قبضہ کرکے قحط سے نجات پانے کا منصوبہ بنایا بہت زودار معرکے ہوئے۔ باآلخر مسلمانوں کو اس نالے کا علم ہو گیا جو اہل شہر کو پانی مہیا کرتا

خ بدل دیا۔ اہل شہر پیاسے مرنے لگے اور مجبورا قلعہ تھا۔ انہوں نے اس کا رسے باہر نکل کر لڑے۔ لیکن شکست کھا کر پھر قلعہ بند ہوگئے اتفاقا ایک قیدی

Page 63: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

سے مسلمانوں کو قلعہ کی فصیل کا کمزور حصہ معلوم ہوگیا۔ اور دو تین دن کی سنگ باری سے شہر کی فصیل ٹوٹ گئی۔ اور مسلمان قلعہ میں داخل

ئے۔ ملتان سے محمد بن قاسم کو ایک مندر کا محفوظ خزانہ ہاتھ لگا جو ہوگسینکڑوں من سونے پر مشتمل تھا۔ محمد بن قاسم نے اس خزانہ سے وہ وعدہ

پورا کیا جو حجاج نے خلیفہ ولید سے کیا تھا کہ وہ مہم پر خرچ ہونے والی تمام رقم کا دگنا شاہی خزانہ میں داخل کر دے گا۔

د بن قاسم کی آخری قابل ذکر فتح تھی۔ اس کے بعد اس نے کچھ ملتان محمسرحدی قلعے مزید فتح کیے۔ انتظام سلطنت کو درست کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ

قنوج پر بھی حملہ کرے ۔ اس مقصد کے لیے اس نے ایک لشکر روانہ کیا اور جاج اودہے پور تک گیا۔ خود وہ کشمیر کی طرف بڑھا۔ لیکن اس دوران میں ح

بن یوسف کا انتقال ہوگیا۔ نیز خلیفہ ولید بن عبدالملک بھی چل بسا ۔ اور نئے خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے محمد بن قاسم کی گرفتاری اور واپسی کے احکام

صادر کر دئیے

فتح سندھ کی اہمیت

عربوں نے فتح سندھ ولید بن عبدالملک کے زمانے کی بہت سی فتوھات میں لیکن تاریخ عالم میں اس واقعہ کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس سے ایک ہے۔

اہمیت کے چند نکات درج ذیل ہیں

برصغیر جنوبی ایشیاء میں اسالم کی بھرپور لہرآئی۔ سندھ کو باب االسالم ہونے کا شرف حاصل ہوا اور ایک ایسے خطہ زمین میں اسالم کا بیج بویا گیا جو

م مظلوموں کی پناہ گاہ ثابت ہوا۔منگولوں کے فتنہ کے زمانے میں تما

سندھ میں نئے حکمرانوں کے ساتھ نیا مذہب ، نئی تہذیب اور سوچ کے نئے انداز بھی داخل ہوئے اور ایک زیادہ ترقی یافتہ نظام حکومت بھی برصغیر میں پہنچا جس میں عوام کی فالح کا خیال رکھا جاتا تھا۔ لوگوں کے انسانی حقوق

مذہبی آزادی بھی ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انسانی جان و بھی حاصل تھے اور مال اور عزت و آبرو کو تحفظ مل گیا۔

اسالمی تہذیب و تمدن نے سندھ کو متاثر کیا۔ اور وہاں ایک مشترکہ ثقافت وجود میں آئی۔ سندھ زبان کا عربی رسم الخط ، سندھی میں شامل بے شمار عربی

Page 64: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

رات اسی فتح کے نتیجہ کے طور پر الفاظ اور معاشرت میں عربوں کے اثوجود میں آئے ۔ عربی گھوڑا ور صحرائی جہاز اونٹ ، صحرائے سندھ میں بھی استعمال ہونے لگا۔ فن تعمیر میں محراب و مننبر اور مینار کا استعمال شروع ہوا اور کھلی اور ہوا دار عمارتیں بننے لگیں اور عوام میں قانون و

ہ پیدا ہوا۔اخالق کی پابندی کا جذب

فتح سندھ کے نتیجہ کے طور پر پرصغیر میں تاریخ نویسی کا آغاز ہوا۔ اور اس کے بعد کی برصغیر کی تاریخ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی نہیں ہے

فتح سندھ نے برصغیر کی فتح کا راستہ کھول دیا۔ کیونکہ سندھ میں اسالمی ہوگئی اور مسلمان حکومتیں تہذیب و ثقافت کے مراکز قائم ہوئے۔ آبادی مسلمان

قائم ہوئیں اور مسلمانوں کو اس خطہ زمین کے اندرونی حاالت سے آگاہی ہوئی نیز یہ بھی اندازا ہوگیا کہ اس ملک کی فتح کے لیے سندھ کے شمال میں واقع

زرخیز میدانوں کی طرف پیش قدمی ہونی چاہیے

ولید بن عبد الملک

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

بنو امیہ

خلفائے بنو امیہ

680-661معاویہ بن ابو سفیان، 683-680یزید بن معاویہ، 684-683معاویہ بن یزید، 685-684مروان بن حکم،

705-685عبدالملک بن مروان، 715-705ولید بن عبدالملک،

717-715سلیمان بن عبدالملک، 720-717عمر بن عبدالعزیز، 724-720یزید بن عبدالملک،

Page 65: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

Al-Walid ibn Abd) ولید بن عبدالملک

al-Malik) (715-668) کا چھٹا بنو امیہنامور خلیفہ جو بڑا فیاض فاتح اور رفاہ

عامہ کے کاموں میں بڑی دلچسپی لیتا تھا۔ کے عالقے فتح اور وسط ایشیا اندلس، سندھ

اس کے اور محمد بن قاسم کیے۔ حجاج بن یوسف، طارق بن زیاد، قتیبہ بن مسلم نامور سپہ ساالر تھے۔

فہرست

1 ابتدائی حاالت اور تخت نشینی 2 فتوحات

o 2.1 بلخ و طخارستان کی فتح o 2.2 بیکند کی فتح

o 2.3 فتح بخارا o 2.4 تسخیر سمرقند

o 2.5 خوارزم کی فتح o 2.6 شاش اور فرغانہ پر قبضہ

o 2.7 چین پر حملہ o 2.8 ولید بن عبدالملک اور پاکستان o 2.9 اندلس، یورپاور دنیا پر اثرات

o 2.10 بازنطینی روم کے خالف مہمات 3 ولید کا سنہری زمانہ

o 3.1 وسعت و سلطنت اور فتوحات o 3.2 امن و امان کا قیام

o 3.3 علمی ترقی و سرپرستی o 3.4 مسجد نبوی کی تعمیر

o 3.5 جامع مسجد دمشق o 3.6 دیگر تعمیراتی کام

o 3.7 رفاہ عامہ

743-724ہشام بن عبدالملک، 744-743ولید بن یزید،

744یزید بن ولید، 744ابراہیم بن ولید،

750-744مروان بن محمد،

Page 66: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

o 3.8 بحری بیڑا کی تنظیم 4 مجموعی جائزہ o 4.1 حوالہ جات

ابتدائی حاالت اور تخت نشینی

نے اپنی زندگی ہی میں اپنے دونوں بیٹوں ولید اور سلیمان بن عبدالملککو علی الترتیب اپنا جانشین نامزد کر دیا تھا۔ چنانچہ باپ کی وفات عبدالملک

705کے بعد ملک علم و فنون کا دلدادہ تھا ء میں ولید سربراہ سلطنت ہوا۔ عبداللیکن ولید کو علم و ادب سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ جس قدر کوششیں تحصیل علم میں اس کے لیے کی گئیں وہ ناکام رہیں۔ لیکن اس کمی کے باوجود ایک حکمران کی حیثیت سے وہ اصول جہانبانی اور کشور کشائی میں اپنے پیشرو

و امان کا زمانہ تھا۔ اسے باپ سے عظیم سلطنت سے کم نہ تھا۔ اس کا دور امن ورثہ میں ملی تھی۔ خوش قسمتی سے اپنے زمانے کے بہترین سپہ ساالر اس کے ساتھ تھے۔ جن کی بدولت فتوحات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس سے عہد کی یاد تازہ ہوگئی۔ ان فتوحات کی بدولت اس دور کو تاریخ اسالم میں فاروقی

ایک خاص مقام حاصل ہے۔

فتوحات

کے وسیع اور پاکستان خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں سپین، ترکستان۔ خلیفہ ولید کے دور میں عرب اپنی تاریخ کی سب سے بڑی ۓعالقے فتح ہو

سلطنت قائم کر چکے تھے جس کا دنیا میں کوئی حریف نہ تھا۔

بلخ و طخارستان کی فتح

سے شمال مشرق کی جانب واقع کا عالقہ جو خراسان (ماوراء النہر) ترکستان تھا ، کے حکمران اکثر سرکشی اور بغاوت پر آمادہ رہتے تھے۔ قتیبہ بن مسلمبھی بہادر اور نامور جرنیل تھا اس نے ترکستان کے تمام عالقہ کی مکمل

تسخیر کا جامع منصوبہ بنایا۔ 86ھ /705ء میں قتیبہ پہلی بار دریائے جیحوںکو عبور کرکے ماوراء النہر کے عالوہ میں داخل ہوا۔ ترکستان کے حکمران اس کی آمد سے گھبرا گئے اور یکے بعد دیگرے اطاعت قبول کرنے لگے ۔

کے حکمرانوں کو مطیع کرنے کے بعد قتیبہ نے اپنے بھائی اور طخارستان بلخ

Page 67: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

میں قیام پزیر صالح کو وہاں کا نگران مقرر کرکے واپسی اختیار کی اور مرو کی تسخیر مکمل کر لی ۔ اور فرغانہ ہوا۔ صالح نے کاشان

کی فتحبیکند

اور پر لشکر کشی کی ۔ شعدی کے ایک اہم شہر بیکند ء قتیبہ نے بخارا706قبائل نے مل کر مزاحمت کی مگر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اور قلعہ بند بخاریہوگئے مسلمانوں نے یلغار جاری رکھی۔ اہل بیکند نے گھبرا کر صلح کر لی۔ قتیبہ صلح کے بعد ابھی واپس پلٹا ہی تھا کہ اہل بیکند نے بدعہدی کے مرتکب ہو کر مسلمان حاکم اور اس کے عملہ کو قتل کر دیا۔ چنانچہ قتیبہ فورا پلٹا اور

کو فتح کرنے کے بعد مجرمین کو قرار واقعی سزا دی ۔ بیکند

فتح بخارا

ء میں قیتبہ دوبارہ ترکستان 708ھ /89د کی تسخیر کے بعد دوسرے سال بیکنچین کے بھتیجے نے قتیبہ کی آمد کی خبر پاکر 2 الکھ پر حملہ آور ہوا۔ خاقانقبائلیوں کے ہمراہ اس کی راہ روکنے کی کوشش کی ۔ مسلمانوں اور سغد ترک

ن کے حوصلہ اور عزم کے سامنے کی تعداد اگرچہ مقابلتا بے حد کم تھی لین ادشمن کی ایک نہ چلی اور اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پرا۔ قتیبہ نے پیش قدمی کا نقشہ منگوایا اور نئی ہدایات روانہ کیں۔ ان جاری رکھی اور خاص بخارا

90ہدایات کے مطابق قتیبہ نے ء میں دوبارہ بخارا پر حملہ کیا۔ فریقین 710ھ / کے درمیان خونریز جنگ ہوئی اہل سغد اور ترک بڑی بے جگری سے لڑے ۔ قریب تھا نا مسلمان فوج کے پاؤں اکھڑ جاتے کہ خیموں میں مقیم عورتیں باہر

میدان جنگ میں نکل آئیں اور مجاہدین کے گھوڑوں کو مار مار کر واپسدھکیل دیا۔ مسلمان سپاہی دوبارہ میدان جنگ میں پلٹ کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑے کی اور انھیں شکست دے کر بخارا پر قبضہ کر لیا۔ قیتبہ نے وہاں ایک مسجداور دیگر عرب تعمیر کی اور مسلمانوں کے لیے مکانات بنوائے جہاں بنو تمیم

قبائل آباد ہوئے۔

تسخیر سمرقند

نے ترکستانی مہمات کے دوران مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ دوستی اہل سمرقندکو باالئے طاق رکھتے ہوئے دیگر ترکستانی ریاستوں کی مدد کی تھی۔ قتیبہ

Page 68: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

سمرقندیوں کو ان کی بدعہدی کا مزا چکھانا چاہتا تھا۔ اس لیے اب قیتبہ نے سمر قند نے اردگرد کے حکمرانوں کو مدد کے سمرقند کا محاصرہ کر لیا۔ اہل

لیے پکارا ۔ اور خود قلعہ بند ہو گئے۔ قیتبہ کو ترک ریاستوں کے ارادہ کا علم ہوگیا تو اس نے اپنے بھائی صالح کو مامور کیا کہ وہ ترکستانی فوج کو راہ ہی میں روک دے۔ صالح نے ان پر اچانک حملہ کرکے ان کو تتر بتر کر دیا اور

ال غنیمت لے کر سمرقند واپس لوٹ آیا۔ اس شکست نے سغدیوں کی کمر ہمت متوڑ دی چنانچہ انھوں نے مجبور ہو کر صلح کی درخواست کی جو منظور کر

الکھ درہم ساالنہ خراج کی ادائیگی منظور کر لی۔ 12لی گئی ۔ سغدیوں نے جو کوئی ان قتیبہ نے وہاں بھی مسجد کی تعمیر کی اہل سغد کا عقیدہ تھا کہ

بتوں کو توڑے گا وہ تباہ و برباد ہوگا ۔ لہذا قتیبہ نے خدائے واحد کی برتری، توحید کے درس اور باطل عقائد کی بیخ کنی کے لیے تمام بتوں کو توڑنے کا حکم دیا۔ جب اہل اسالم کو کوئی گزند نہ پہنچا تو بہت سے سغدی متاثر ہو کر

93مسلمان ہوئے ۔ سمرقند کی تسخیر ء میں مکمل ہوئی ۔711ھ /

خوارزم کی فتح

نے ملکی نظم و نسق پر زبردستی کے بھائی خرزاد ء میں خوارزم شاہ713قبضہ کر لیا تھا۔ لہذا خوارزم شاہ کی درخواست پر قتیبہ نے خوارزم پر فوج

خرزاد کو شکست دے کر خوارزم شاہ کو تخت نشین کر دیا مگر کشی کی اور خوارزم شاہ اپنی کمزوری کی بنا پر اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ کو باقاعدہ سلطنت اسالمیہ میں شامل کرکے اپنے چنانچہ قتیبہ نے خوارزم

بھائی عبدہللا کو وہاں کا حاکم مقرر کر دیا۔

شاش اور فرغانہ پر قبضہ

کے حکمران سابقہ جنگوں میں اپنے ترکستانی ہمسایوں کے اور فرغانہ شاشحلیف رہ چکے تھے لہذا قتیبہ نے 715ء میں شاش اور فرغانہ پر قبضہ کرکے

بھی لشکر کی حدیں چین تک پھیال دیں عالوہ ازیں خجستان اموی سلطنت اسالمی کے آگے نہ ٹھہر سکا اور اموی سلطنت کا جز بنا۔

چین پر حملہ

Page 69: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

ء میں ترکستان کی باقاعدہ تسخیر کے بعد قیتبہ نے چین پر حملہ کا 715فتح کرنے کے بعد قیتبہ چینی حددود میں داخل ہو گیا۔ منصوبہ بنایا۔ کاشغرچین کے فریقین کے درمیاں صلح کی گفتگو کا آغاز ہوا مسلمان سفیر خاقان

نے مسلمانوں کے وفد کو متاثر کرنے کی کوشش کی مگر وفد پاس گئے خاقانکو بتا دیا گیا کہ قیتبہ نے قسم کھائی ہے کہ وہ اس وقت کی طرف سے خاقان

تک چین سے نہ بیٹھے کا جب تک وہ چین سے خراج وصول نہ کر لے۔ خاقان چین کو مسلمانوں کے عزم و استقالل کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے لہذا جزیہنے بیش قیمت تحائف بھی قیتبہ کے پاس کی ادائیگی پر معاہدہ صلح ہوا۔ خاقان

روانہ کیے اس طرح لشکر اسالم فتح مندانہ واپس لوٹا۔

ولید بن عبدالملک اور پاکستان

فتح سندھ :تفصیلی مضمون کے لیے مالحظہ کریں

کا کچھ حصہ بنو اور پنجاب ولید بن عبدالملک کے دور میں سندھ، بلوچستانکا کی خالفت کا حصہ بن گیا اس طرح سے ولید بن عبدالملک قدیم پاکستان امیہپہال خلیفہ تھا اور یہ عالقہ اک ایسی ریاست کا حصہ بن گیا جس کی سرحدیں تھا اور جس کی تک تھیں، جس کا دارالخالفہ دمشق سے فرانس دریائے سندھسے اور تھی۔ پاکستان کا تعلق ہمیشہ کے لیے مذہبی طور پر اسالم زبان عربیکی قریبا 4000 سالہ ثقافتی طور پر عرب سے جڑ گیا اس طرح سے پاکستانتاریخ میں یہ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک ان چند گنے چنے لوگوں میں شامل

پر ہر لحاظ سے گہرے اثرات ڈالے۔ ہے۔ جنھوں نے پاکستان

بد قسمتی سے بنو امیہ کی روشن خیالی اور علم پروری میں سیاسی وجوہات کی بنا پر پاکستان کو حصہ کم مل سکا جتنا کہ دوسرے عالقوں کو خاص طور

کو مال۔ پر سپین

مدد کے قید خانے سے ایک عورت یہ کریڈٹ اس شخص کو جاتا ہے کہ سندھکو پکارتی ہے اور ولید کی انتظامیہ لبیک کہتی ہے اور فوری طور پر ایک

کمر ۓدور افتادہ مشکل اور دشمن ملک میں اس عورت کی مدد اور رہائی کیلیست اس وقت کئی اور محاذوں پر بھی بستہ ہو جاتی ہے۔ حاالنکہ اموی ریا

برسر پیکار تھی۔

Page 70: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

کے کردار کو میں ولید کے کردار کو کم کیا جاتا ہے اور محمد بن قاسم پاکستانزیادہ حاالنکہ فیصلہ کرنے، سپہ ساالر کا انتحاب، فوج اور وسائل کی فراہمی اور پھر مسلسل رہنمائی اور رابطہ یہ ولید اور اسکی انتظامیہ کا ہی کام تھا۔

ا پر اثراتاندلس، یورپاور دنی

فتح اندلس :تفصیلی مضمون کے لیے مالحظہ کریں عربوں کی سب سے بڑی سلطنت

کی فتح تاریخ کا اہم واقع ہے۔ جس نے مستقبل کی ولید کے دور میں اندلسکی تاریخ کو ہمیشہ کے لیۓ بدل کر رکھ دیا۔ بنو امیہ ہسپانوی، یورپی اور دنیا

کی علم دوست انصاف پسند اور روادار طبیعت نے ایسے ماحول کو جنم دیا جو ایک شاندار تہذیب کی تخلیق کا باعث بنا۔ سائنس، فلسفہ، ادب اور دوسرے فنون

نے ایک نیا جنم اندلس میں لیا جس نے یورپ اور پھر پوری دنیا کو گہرے متاثر کیا۔طور سے

بازنطینی روم کے خالف مہمات

میں فتح کے بعد کی جنگ سباستوپولیس 692ء خلیفہ عبدالملک بن مروانمیں 20 سال کا انتشار رہا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے خلیفہ بازنطینی روم

کے عالقے یعنی موجودہ ایشیائے کوچک) ولید بن عبدالملک نے بازنطینی رومکے عالقے( کے خالف مہمات شروع کیں- اس جوف کے ساالر، اس ترکیتھے۔ انہوں نے اور اس کا بیٹا عباس بن ولید کے بھائی مسلمہ بن عبدالملکاسی سال حصن بونق ، حصین اخرام اور حصین بوسن فتح کئے۔ اگلے سال

ہ کے قلعہ میں عباس کے رومیوں پر مسلسل دباؤ سے وہ پیچھے ہٹ کر طوانکے محصور ہونے پر مجبور ہوگئے ۔ باالخر محاصرہ طوانہ 707ء تا 708ء

نتیجے میں عباس نے قلعہ فتح کرکے انہیں پیچھے دھکیل دیا۔ مسلمہ نے میں گھس گیا ۔ ولید کے عہد کا قلعہ بھی فتح کیا اور عباس آرمینیا عموریہ

تک عالقے فتح کر اور انطاکیہ حکومت کے خاتمے تک یہ فاتحین طرسوس چکے تھے۔

زمانہولید کا سنہری

Page 71: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

ولید اول کا زمانہ تاریخ اسالم کا شاندار ترین دور ہے ۔ بقول سر ولیم میورسلطنت ۔ ملکی استحکام ، امن و امان ، خوشحالی اور تہذیبی و فتوحات ، وسعت

ثقافتی ترقی کے لحاظ سے یہ دور انتہائی بلند اور ممتاز مقام رکھتا ہے اس دور میں ہونے والی فتوحات کا دائرہ اس قدر وسیع تھا کہ عہد فاروقی کی یاد تازہ ہو

قرار دیا جائے جاتی ہے اگر محض فتوحات ہی کی عظمت و معراج کی کسوٹیتو بھی یہ بنوامیہ کا شاندار ترین دور کہالنے کا یقینا مستحق ہے اس دور کی

خصوصیات درج ذیل ہیں۔

وسعت و سلطنت اور فتوحات

اس دور کی سب سے بڑی خصوصیت وہ عظیم الشان فتوحات ہیں جن کا ذکر میں قیتبہ بن اور چین میں محمد بن قاسم، ترکستان پہلے کیا جا چکا ہے۔ سندھ، ایشیائے اور طارق بن زیاد میں موسی بن نصیر اور پرتگال ، سپین مسلم

اپنی شجاعت ، بہادری اور سرفروشانہ یلغاروں میں مسلمہ بن عبدالملک کوچککی بدولت دشمنان اسالم کو شکستوں پر شکستیں دے کر اسالمی عظمت کا علم بلند کر رہے تھے بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر ولید دو چار برس ہی اور

بھی مملکت اسالمیہ کا جزو ہوتے ۔ زندہ رہ جاتا تو چین اور ہندوستان

امن و امان کا قیام

بیرون ملک فتوحات کے عالوہ اندرون ملک امن و امان کا قیام اعلی نظم و نسق اور خوشحال عوام اس دور کی دوسری نمایاں خصوصیات ہیں۔ حجاج بن یوسف کی زیر سرکردگی خوارج کا مکمل استیصال کیا جا چکا تھا اور کسی بھی ملک

دشمن تحریک کو سر اٹھانے کی جرات نہ تھی اگر ملک کے اندر مکمل امن امان نہ ہوتا تو اس دور کی دیگر تعمیری خصوصیات کبھی بھی اجاگر نہ

ہوتیں۔

علمی ترقی و سرپرستی

اگرچہ ولید خود تو علم حاصل نہ کر سکا۔ لیکن علوم کی سرپرستی بدستور کی تعلیم اور ترقی کے لیے اس نے ذاتی و حدیث پہلے خلفا کی طرح کی۔ قرآنتوجہ اور دلچسپی سے کام لیا قرآن پاک سے اسے بڑی محبت تھی۔ اس کا شوق اس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی حاجت روا اس کے در پر روپیہ مانگنے آتا تو

Page 72: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

وہ قرآن پڑھوا کر سنتا اور اگر قرآن پڑھنا آتا تو اس کی خوب مدد کرتا۔ عربی کا شہر بالخصوص گرائمر میں بھی کافی سرگرمی سے کام کیا گیا۔ بصرہ

قواعد گرائمر کے سلسلے میں مشہور ہوا۔ نئے شعراء کی حوصلہ افزائی اور قدردانی کی جاتی تھی۔ علماء و فقہا کے وظائف مقررتھے۔

بوی کی تعمیرمسجد ن

کی تعمیر ولید کا سنہری کارنامہ ہے۔ ولید نے عمر بن عبدالعزیز مسجد نبویکو مسجد نبوی کی تعمیر کاحکم دیا۔ چنانچہ اس کی نگرانی میں جب کہ وہ

عامل مدینہ تھے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ فن تعمیرات کے نقطہ نے اردگرد کی نظر سے یہ اس دور کا عظیم کارنامہ ہے عمر بن عبدالعزیز۔ شاہ زمین خرید کر اسے وسعت دی ۔ باہر کے ملکوں سے کاریگر بلوائے گئے

روم نے ایک الکھ مشقال سونا اور پچی کاری کا کام کرنے والے کاریگر فراہم کیے۔ پوری مسجد پتھر سے بنوائی گئی اور اس کی دیواروں پر طالئی مینا

کاری کی گئی اور ایک فوارہ بھی بنایا گیا مسجد کی بنیادیں صحابہ کرام کے سال صرف ہوئے۔ اس کے 3یر بیٹوں سے ہاتھ لگوا کر اٹھائی گئیں۔ اس کی تعم

ہزار آدمی اکھٹے بیٹھ سکتے تھے۔ اس مسجد کی شہرت چار 20صحن میں دانگ عالم میں پھیل گئی اور دور دور سے سیاح دیکھنے کے آئے۔ جب تعمیر

ھ میں خود اسے دیکھنے کے لیے آیا 91کا کام پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تو ولید اور اس نے اسے بہت پسند کیا۔

مع مسجد دمشقجا

امیہ مسجد دمشق

Page 73: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

کی جامع مسجد حسن جمال کا ایک مرقع تھی۔ اس کی تعمیر پر بھی دمشقسے الئے گئے ۔ 8 سال کے عرصہ میں اور افریقا ، ایران کاریگر ہندوستان

ہزار مزدوروں نے اس پر کام کیا۔ مختلف رنگوں 12اس کی تکمیل ہوئی اور کا بھی بہت زیادہ استعمال اور چاندی کے پتھر کے استعمال کے عالوہ سونےسے دمشق الیا گیا۔ اس کی ہوا۔ 18 جہازوں پرسونا چاندی الد کر جزیرہ قبرصتزئین و آرائش میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق

الکھ اشرفیاں اس پر الگت ہوئی۔ بعض مورخین کے اقوال کے مطابق ملک 56شام کا سات برس کا خراج اس پر صرف ہوا۔ اس کی چھتوں اور دیواروں

طرح طرح کے نقش و نگار سے کام لے کر اسے پرطالئی مینا کاری اور دلکش بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔ چھت کے ساتھ چھ سو مرصع

ہزار آدمی 20قندیلیں طالئی زنجیروں کے ساتھ لٹکائی گئیں۔ وسیع اتنی تھی کہ بیک وقت اس میں بیٹھ سکتے تھے۔ اپنے حسن و جمال کی وجہ سے یہ مسجد

وام تھی۔ دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے تھے۔ اک زیارت گاہ خواص و عبار عمر بن عبدالعزیز نے اپنے زمانہ میں جب اس کے سونے چاندی اور دیگر

میں داخل کرنے کا ارادہ کیا تو اتفاقا قیصر روم اشیا کو اتروا کر بیت المالاسے دیکھنے کے لیے آنکال۔ دس ہمرایوں کے ساتھ مسجد کو بھی دیکھنے گیا اس پر اس کی ساخت اور تعمیراتی حسن کا اس قدر اثر ہوا کہ رنگ فق ہو گیا اور اپنے ہمرایوں سے یونانی زبان میں کہا کہ ہمارا تو خیال تھا کہ عربوں کی میں چند روزہ ہے لیکن یہاں تو انہوں نے اپنے استقالل کے سامان اقامت شامجمع کر رکھے ہیں۔ خلیفہ کو اپنے آدمیوں نے جو وہاں موجود تھے اس گفتگو

تو کفار کو غیظ دالتی ہے کے مطالب سے آگاہ کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ مسجدلہذا اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ اس واقعہ ہی سے جامعہ مسجد دمشق کی الفانی

حیثیت واضح ہو جاتی ہے۔

دیگر تعمیراتی کام

عالوہ ازیں نبی کریم کے روضہ مبارک کے چاروں طرف دوہری مضبوط کی دیوار کھڑی کی گئی۔ مملکت کے دیگر حصوں میں نئی مساجد کی تعمیر

گئی اور پرانی کی مرمت کا کام کیا گیا۔ ولید نے تعمیرات پر بہت فراخدلی سے روپیہ صرف کیا۔

رفاہ عامہ

Page 74: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

مسافروں کے آرام کے لیے سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کی گئی ۔ ان کے کناروں پر سنگ میل نصب کرائے ۔ سرائیں اور کنوئیں کھدوائے تاکہ آنے

م ہوں۔ ملکی پیداوار بڑھانے کے لیے نہریں جانے میں پیش آنے والی دقتین ککھدوائی گئیں۔ مریضوں کے عالج کے لیے سرکاری ہسپتال تعمیر کیے گئے جہاں مریضوں کو مفت دوائیں دی جاتی تھیں۔ سرکاری طعام خانے کھولے

گئے جہاں ناکارہ ، بیکار اور مسفار کھانا کھا سکتے تھے۔ اس کے عالوہ نادار لیے وضائف مقرر کیے گئے۔ ملک سے گداگری کا خاتمہ لوگوں کی امداد کے

کیا مختصر یہ کہ لوگوں کو ہر طرح کی رعائتیں اور آسائشیں فراہم کرنے کے پوری پوری کوشش کی گئی۔

بحری بیڑا کی تنظیم

ولید کے زمانہ میں فوجی نظام کو درست کرنے کے لیے خصوصی توجہ دی بھی ولید کا بہت بڑآ کارنانہ ہے گئی ۔ اس ضمن میں بحری بیڑا کی توسیع

بحری جنگوں میں کامیاب بحری فوج کی تنظیم کی بنا پر تھی۔ اس لیے نئے جہاز بنانے اور پرانے کی مرمت کے لیے ملک میں کارخانے تعمیر کئے

گئے۔ سب سے بڑا کارخانہ ٹیونس میں تھا۔ بحیرہ روم کی جنگوں میں کامیابی ی مضبوطی تھا۔کا بہت بڑا ہاتھ بحری بیڑا ک

مجموعی جائزہ

مندرجہ باال حقائق کی روشنی میں یہ کہنا درست ہے کہ ولید اول کا دور بنو

امیہ کا شاندار ترین اور سنہری زمانہ تھا۔ فتوحات کے میدان میں کامیابیاں ہی

کیا کم تھیں لیکن اس کے عالوہ علم و ادب تعمیرات اور رفاہ عامہ کے میدان

نہ میں شاندار کارہائے نمایاں انجام دئیے گئے۔ جہاں قیتبہ بن میں ولید کے زما

مسلم ۔ محمد بن قاسم ۔ موسی بن نصیر ، طارق بن زیاد اور مسلمہ بن عبدالملک

کی کامرانیاں اس دور کو ایک خاص عظمت اور شان بخشتی ہیں۔ وہاں اس دور

الخالفت ہو یا میں ہونے والی دیگر تعمیراتی خصوصیات بھی کم اہم نہیں۔ قصر

شاہی محالت ۔ قصر الزہرا ہو یا قرطبہ ، عالیشان یونیورسٹیاں ہوں یا عمومی

درسگاہیں اور اپنی خاص صنعت ، کاریگری اور فنی خوبیاں کے لحاظ سے

نوادرات زمانہ میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ سب انمٹ نقوش اسالمی عہد کی ایسی

Page 75: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

یوں اور امتداد زمانہ کے باجود ہ کی دست درازیادگاریں ہیں جو ابنائے زمان

مٹائے نہ مٹ سکیں۔ اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور درخشندہ دور کی آئینہ

دار ہیں۔

ء۷۱۳-۷۱۱فتح سندھ:

ء۷۱۱-۷۱۳فتح سندھ:

آٹھویں صدی عیسوی کے ابتدائی سالوں میں سیلون سے آنے والے عرب قافلوں پر سندھ کے برہمن حکمران راجہ داہر نے قبضہ کر لیا انہوں نے مسلم خاندانونکا سامان ہتھیاکر انہیں قید کر دیا۔ حجاج نے ایک ہزارگھوڑوں اور

مجاہدین کی تقریبا اتنی ہی تعداد میں اونٹ سواروں کی ایک فوج جس میں سے زائد نہ تھی اپنے دا ما دمحمد بن قاسم کی قیادت میں ۶۰۰۰مجموعی تعداد

روانہ کی۔ کم عمری کے باوجود نوجوان محمد بن قاسم ایک شاندار سپہ ساالر اور غیر معمولی حربی صالحیتوں سے ماال مال تھا۔

زیر قبضہ محمد بن قاسم خشکی کے ذریعے مکران کو فتح کرتا ہوا پہلے سے

Page 76: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

ء میں راجہ داہر کی ۷۱۲بلوچستان کے راستے سندھ پہنچا۔ محمد بن قاسم ریاست کے دارالحکومت دیبل پر حملہ آور ہوا راجہ فرار ہو گیا اور مسلم خاندانوں کو آزاد کرالیا گیا۔محمد بن قاسم نے راجہ داہر کا پیچھا کیا اور نیرون

اجہ داہر محمد بن قاسم کی پیش )موجودہ حیدرآباد( کے نزدیک اسے جالیا رہزار فوجیوں کا طاقتور لشکر تیار کرچکا تھا ۵۰قدمی روکنے کے لئے

مجاہدین نے دشمن کو شکست دی اور راجہ داہر لڑائی میں مارا گیا تمام سندھ فتح کیا جاچکا تھا مگر محمد بن قاسم نے اپنا سفر جاری رکھا برہمن آباد کے

اور زیریں پنجاب کی طرف بڑھتے ہوئے ملتان مقام پر ایک اور جنگ لڑیتک جا پہنچایہاں بھی وہ فاتح رہا۔ محمد بن قاسم کے اعلی اخالق اور محبت و سلوک نے مقامی لوگوں کے دل جیت لئے اسطرح برصغیر میں محمد بن قاسم نے مسلم ریاست کی بنیاد رکھی۔

سسی کا بھنبھور یا محمد بن قاسم کا دیبل؟

کلو میٹر دور ہے، 60آپ کو بتائیں گے کہ بھنبھور کراچی سے بمشکل نقشے ممکنہ طور پر اتنی ہی دور ہوگا مگر نقشے آپ کو قومی شاہراہ کی حالت کے بارے میں کچھ نہیں بتائیں گے، جہاں گز بھر گہرے گڑھے سڑک پر موجود

ہیں اور یہی خراب راستہ اس تاریخی شہر کی جانب لے جاتا ہے۔

جانے کی ڈرائیو ویسے تو ایک گھنٹہ طویل ہونی چاہیئے، مگر اس کا وہاں گھنٹے کی سخت اور چیلنجنگ ڈرائیو کے بعد سندھ کے کھنڈرات سے 2اختتام

گزر کر بھنبھور کے کھنڈرات پر ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے یہ حالت ہمیشہ برقرار رہتی ہے چاہے آپ سندھ میں کہیں بھی س صوبے کی ہے جسے صوبائی حکومت اپنی چلے جائیں اور یہ حالت ا ماں' '

قرار دیتی ہے۔

Page 77: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

بھنبھور پہنچنے کے بعد آپ کو یہاں جگہ جگہ کھنڈرات نظر آئیں گے، جن میں سے بیشتر حضرت عیسی علیہ السالم کے دور سے قبل کے ہیں، جبکہ دیگر

کی ملکیت جائز طور پر سندھ حکومت کے محکمہ ثقافت کے پاس ہے۔

مقام دریائے سندھ کے طاس پر گھارو کریک کے شمالی کنارے پر بھنبھور کاکلو میٹر دور واقع ہے۔ 30ابھرتا ہے، جو موجودہ ساحلی پٹی سے

یہ برجوں کے گھیرے میں ایک 'قلعے' پر مبنی ہے اور اس کا وسیع عالقہ ایسے کھنڈرات کا مجموعہ ہے جن میں بندرگاہ کا اسٹرکچر، شہری رہائش

نواحی عالقے، کچی بستیاں، گودام، ورکشاپس اور مصنوعی بیراج گاہیں، 65وغیرہ قابل ذکر ہیں، یہ چھوٹے قلعے اور ارگرد پھیلے مقامات مل جل کر

ہیکڑ کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔

پنوں -مقبول لوک داستانوں میں بھنبھور کو وہ مقام قرار دیا جاتا ہے جہاں سسیکہ مانا جاتا ہے کہ سسی کا تعلق بھنبھور سے کی محبت کو فروغ مال، جیسا

تھا۔

مگر کچھ تاریخ دانوں اور مقامی افراد اس کے لیے دیبل کے کھنڈرات کا حوالہ عیسوی 712بھی استعمال کرتے ہیں، یعنی وہ شہر جسے محمد بن قاسم نے

میں راجہ داہر کو شکست دے کر فتح کیا تھا۔

ویلیریا پیاسینٹینی سے اس تاریخی الجھن جب اطالوی مشن کی سربراہ پروفیسر کی وضاحت کرنے کا کہا گیا تو انہوں نے کہا 'یہ دونوں باتیں ٹھیک ہوسکتی

ہیں'۔

بھنبھور میوزیم کے نوادرات

ان کا کہنا تھا ' محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے اور سسی کی زندگی کے کہ یہ مقام دونوں درمیان آٹھ صدیوں کی دوری ہے، تو ہم تصور کرسکتے ہیں

کا مرکز رہا ہوگا'۔

غیر ملکی سیاح ان نوادرات میں دلچسپی لیتے ہوئے

Page 78: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

پروفیسر ویلیریا کے خیال میں متعدد تاریخی مقامات اس پر پورا نہیں اترتے ' لہذا ہم یہ فرض کرسکتے ہیں کہ یہ مقام سسی کا بھنبھور اور قاسم کا دیبل

دونوں ہوسکتا ہے'۔

کہا انہوں نے مزید ہمارا ماننا ہے کہ شہر کے کھنڈرات کا بیشتر حصہ اب ' بھی دریائے سندھ کے طاس کے اندر دفن ہے کیونکہ دریا ٹیلوں کے برابر سے

گزرتا ہے'۔

اطالوی ماہرین اپنی مہم کی تفصیالت بتاتے ہوئے

اطالوی پروفیسر کا کہنا تھا ' ہم اب تک کسی ہیروغلیفی کو دریافت نہیں ونکہ وہ ممکنہ طور پر دریا کی تہہ میں دفن ہوسکتے ہیں، تو ہم کرسکے کی

یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ مقام دیبل کا شہر تھا'۔

کھدائی کے مقام کے بارے میں بتاتے ہوئے اطالوی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر نکولو ماناسیرو نے کہا کہ' یہ جگہ لگ بھگ سمندری سطح اور دریائے سندھ کے

ابر واقع تھی، ہم توقع کرسکتے ہیں کہ بیشتر تاریخی آثار دریا کی طاس کے برتہہ میں دفن ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں نکالنا انتہائی مشکل ہوگیا

ہے'۔

پرانے بھنبھور شہر کا داخلی راستہ

انہوں نے اطالوی مشن کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ میں فرنچ ٹیم کے ساتھ شروع ہوا مگر 2012ا سلسلہ 'اس جگہ کی کھدائی ک

برسوں سے کام رکا ہوا ہے کیونکہ ہمارا الئسنس ری نیو نہیں ہوسکا'۔ 2گزشتہ

جب ان سے پوچھا گیا کہ الئسنس اب تک ری نیو کیوں نہیں ہوا تو ان کا کہنا ی تھا 'یہ ایک مشترکہ مشن ہے، مگر فرنچ ٹیم نے اپنی رپورٹ جمع نہیں کرائ جس کی وجہ سے الئسنس کے ری نیو ہونے عمل میں رکاوٹ پیدا ہوئی'۔

انہوں نے مزید بتایا 'ہم نے اپنا کام کرلیا، ہم نے کھدائی کی رپورٹ بھی جمع کرادی مگر فرنچ ٹیم اب تک ایسا نہیں کرسکی'۔

Page 79: Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم€¦ · Muslim’s Rule in South Asia ںیم ایشیا یبونج دمٓا یک نوناملسم

ڈاکٹر نکولو ماناسیرو نے کہا کہ ہمیں کام جاری رکھنے کی اجازت ملنی رنچ ٹیم کے بغیر بھی بہتر کام کرسکتے ہیں، لیکن ہم قیمتی وقت، چاہیئے، ہم ف

سرمایہ اور اسپانسر اس تاخیر کی وجہ سے ضائع کررہے ہیں'۔