۔ کلیم بٹ۔ عذاب رت کے صحیفے

Post on 27-Jul-2015

142 Views

Category:

Documents

0 Downloads

Preview:

Click to see full reader

DESCRIPTION

http://kitaben.urdulibrary.org/AllBooks.html.

TRANSCRIPT

صحیفے کے رت عذاب

بٹ احسان کلیم

کلیم احسان بٹ کے دو مجموعوں پر مشتمل ایک کتاب

فہرست

15............................................انتساب

16...................................سفر کا تلاش اپنی

21..............................................نعتیں

21.......................ہے قدرت کو مجھ پہ لفظوں لاکھ

22......................کہیں کیسے نعت ہیں کار بے لفظ

23....................کے نعت نقشے لاکھ کھینچے نے ہم

24...............رکھا یاد کو مجھ بانٹی نسبت سے لقب امی

26.................واسطے کے نعت تھے نہ بھی کچھ حرف

28.............................................منقبت

28.......................ہے کا حسین روبرو مرے آاج خیال

30..............................................غزلیں

30.....................................ہیں پکڑتے جگنو چلو

لل لی کی سخن اہ 31.................سے شناس حق فن شوخ

لم 32.......................میرا فسانہ سارا کہا نے نم پپر چش

33....................ملتا نہیں پھیلا میں روح مری درد جو

33.................ہے صورت اک کی تاب بے موجۂ نفس ہر

35.....................تھا نہ سفر ہم مرا خیال تیرا تک جب

35.........................ہیں لگے کرنے ہجرتیں ے ند پر

37................دیے بھر دوبارہ میں ان سے خون اپنے رنگ

37...........دیکھے نشانے تیر ، زخمی لشکر ، الٹی صف ہر

39.....................عمر تمام برسے پہ د جو و مرے پتھر

39.........بھی عجب بھی کن خوش یہ ہے صورت لیے میرے

41...................ہے اٹھا طوفان کا درد پھر سے رزو اک

41..................تھا نہ کوئی ا دوسر تھا سرا کا تعلق اک

43...............چمکے زیور کے پھولوں یوں میں گلزار صحن

43.....................ہوا کہا کا کسی قول کی اس بات ہر

44.......................ہوئے کیا وہ نجانے ہے گیا اتر پانی

لن اس 45....................لگا اچھا روکنا کو سنج نکتہ زبا

47..............تھے صحیفے کیا وہ اترے جو میں رت عذاب

48........................مہکے خوشبو ئی ہو دیکھی ایک

49..............................ہے کھڑا حیران گل موسم

49........................گا ہو کیا بعد کے زمانے راو زمانہ

51..........رب یا وں کیاکر ہلکا طرح اس کو بوجھ کے غموں

51..................................ہوں رہتا کھویا کھویا

53..........................ہیں ہوتے رقیب یاں بھی دوست

53...........................ہوں رہا روتا کبھی ہنستا کبھی

55..........................دکھ سمجھا کا کس نے کس

56......................ہوا پھیلا حادثہ رد حادثہ لمحہ لمحہ

57.............................دو رہنے ہی معتبر کو حرف

57.........................ہیں بیٹھے میں نظر یک حسرت

58.................................رہنا میں اختیار یا جبر

59.................میں بہار دامن جو ہے گیا بھر سے اشکوں

60.................گئی رہ روسیاہی اک فقط میں نصیبوں اب

61............................ہے گیا رکھا گھومتا کو زمیں

62.....................گئے بکھر کر آا میں ذہن ہمارے آائے

63...............نکلا گریباں بھی سے دل مرے شکستہ جب

63.....................ایسا باں مہر نہ تھا ہوا بھی مہرباں وہ

64...............ہے یا د چھوڑ گلے شکوے کریں کیسے اب

66.................................گا ہو بنتا پاگل تو یوں

66.................ہوں رہا کرتا ا خد میں محبت کو بت اک

68...............................کرتا کیا گمان جانے یار

68.......جا بھول ہے گسار غم ترا سکا سنا نہ غم حرف جسے

70..............ملے کیا بھی غم ہمیں کہ دیکھئے تو حسرت

70.........................بھی میں گدا تھا کا گلیوں تری

لف مرا کہ ہے دعا یہ 71......................رہے راز دعا حر

71.......ملتے نہیں کیوں رے اشا غمزے اب سے آانکھوں تیری

71.................تھا کیا قاتل ہ و جانے نہیں کرتا بھی قتل

71..........................ہوتا نہیں ہاں ہے کہتا سے ضد

لک اب لے 71..........................ہوں رہا کر محبت تر

71....................جائیں بدل تجزیے سبھی اصول سبھی

71........................گیا رہ ہونا نہ یا ہونا اپنا حقیت بے

71..........................ہیں بولتے سر ہوئے کٹتے کبھی

71.............................پر سفر سنسان کے سوچوں

71..........................رکھنا گفتگو سے لوگوں اچھے

71...............کا پتھر تھا دھڑ آادھا جیسا انسانوں دھڑ آادھا

71...................ہے نظر حد تا کہ ہے یا رد کا خون اک

71.............................ہے مرتا کوئی آان ہر جیسے

لل میں دلوں 71...................کر لے شورشیں کی تمنا سی

qل لر بسا 71...................تھی نہ یار شکل جو میں نظر تا

71..................نے میں کی صدا تھا آایا پہ دروازے تیرے

71.......................ہے تا کر قبول خود نہ ہے دیتا دلیل

71...................کے بھلا کو دعاؤں ، سے دعاؤں ہے آاتا

71..............سے چہرے خواب تھا ھتا پڑ ، جو نام پہ ورق

71................کیا نہیں مجدد کو اس بھی کبھی نے حق

71..........................دیکھو کر دھار روپ کا رقص

71..................ہے نہیں ہی سنتا بھی بات اک سے آارام

71...........................گی دے دوسرا بعد کے ایک

71.........................دیکھیں آاسماں بھی ایسا کبھی

71.........تھے تر کم کچھ بھی سے اس کہاں فہم سخن ہم

لت ہے سے ا 71....................سکتا نہیں ہو تعجیل عاد

71...................ہے ستاتا دل د در ہمیں کہ کہیں کسے

71.................................ہے رکھی بنیاد پر پانی

71............................................شعر دو

71............................روئے تک دیر تو ٹوٹا جو دل

71.........................ہے ٹالا سے مشکلوں کن نے ہم

لف جہاں 71..........................تھا رکھا لکھ تمنا حر

71...............................تھا تھی سا کا بچپن وہ

71...........تھا نہ بھی کچھ سوا کے کدالوں میں ہاتھوں اپنے

لم 71...................................ہے کھڑا حیران گل موس

71........................تھا طریقہ اپنا مرا تھا طریقہ اپنا ترا

71..............رہا مہکا طرح کی خوشبو وہ میں آانگن میرے

71..............................والی کاتنے سوت پر چاند

71.........................ہے جھانکتی سے در و دیوار ہوا

71............................ہے گیا ہو زمانہ دیکھے اسے

71.................تھے طرح کی فقیروں میں غریباں شہر اک

71...............دیا کر کالا سے حربے کسی کو دے ا شاہز

71.....................تھا کچھ یہی سفر نج رنئ ئیگا ا ریہ

71...................ہے گیا بھی مٹ میں تاریکی لمحہ قاتل

71.........................ہوں میں اور ہے غم و درد ع متا

71............................اترا سے کمال و حسن شعر

71............میں گھروندے کے ریت سارے گئے بہہ خواب

71..................تھے دریچے تین تھے ے ز وا رد دو و د

71..........................ہے ملا لقمہ کبھی قہ فا کبھی

71....................ہے لگتا نہیں کھیل کوئی بھی ملنا ترا

71.................ہے کھلتا پر کا مور کسی میں جنگل سبز

71...........................پر شاخ پتے چند ہیں رہے ہل

71..........تھا رہا ڈھونڈ رستہ وہ اور تھا سورج پر بن جو پورے

71....................والے سفر قافلے ہیں دیکھتے کے ٹھہر

71................نہیں سودائی تنے ا آائیں میں کوچے ترے ہم

71..............خواب سجے سے تاروں وہ ملبوس کا چاند وہ

71..................ہیں ہتے رتے ڑ ا پنچھی کے کر اک اک

71.............................ہے بیٹھا مان ا بے کوئی ہر

71...................تھا یاد تو اتنا میں شہر خاک تھی اڑتی

71.......................لیا چھین قمر و شمس پھر سے ہم

71...........................کتنے باب کے زندگی کتاب

71..............کو شام پچھلی تھا ایسا مرے کا دل ہی حال

71.........................ہے مشکل بھی ندھنا با قدر اس

71.................کی اس میں سرشت ہے صفا و صدق ہزار

71.................ہے جاتا تھک آادمی ڈھوتے کو بوجھ اپنے

71............تھا نہ بھی کچھ اور تھی حیرت میں ہاتھ کے ہوا

71......................رہی ی رطا کیفیت سی عجب اک

71...................ممکن نہیں گر چارہ یہاں ج علا کوئی

71................گزریں سے نظری کم کبھی ہے ممکن عین

71..................تھے قاتل مرے کماندار کے لشکر مرے

71.............کو سند بھی سے کہیں گا لائے کے ڈھونڈ وہ

71.............کہنا اسے نہ دکھ کوئی ہے لوٹا کے کر مشقت

71.............................ہے رہتا را ہز دھڑکا کو دل

71...................ہے بو ش خو ایک میں لہجے کے س ا

71.........................ہے نہیں ہی تی ہو تھ ہا ہمارے

71............................ہو نہ رسوگوا پہ لت حا مری

71......................تھا پھر سامنے مرے قہر کوئی آان ہر

71...................ہیں لوگ ہوئے باندھے میں رشتوں کتنے

71............................میرا دشمن سامنے مرے تھا

71.................سکتے دے نہیں آازار کو شخص کسی ہم

71...............مرشد مرے ہوتے نہیں مضموں کے درد جب

71............................ہے آاتا سنورتا یسے ا بھی وہ

71......................ہے دل آاشنا سے اذیت ایک ایک یہ

71...............................ہیں چلتے کو باغوں چلو

71...................میں تیز ہوائے اک پتے خشک مراتے چر

71..................میں بستی امان بے میں شہروں فصیل بے

71.............................ہیں جاتی بن تقدیریں جب

71...............گیا ہو گھر بے اور کے بنا گھر اندر کے گھر

71..........................ہے آایا کے لے گفتار بھی جب

71...........کشید دل خون کریں بھی ہم میں ہ شا مدح چل

71...................رات نامراد وہی ہے کڑی بھی سے پہلے

71...................میں رستے کے زندگی ہے منادی قدم ہر

71...................ہے جاتا کو سمت چوتھی جب شہزادہ

71.................گیا رکھا سادہ کا چہرے کے اس نقش ہر

71.............................پرچم کے مثال شعلہ حسن

71..................گا جائے لے زندہ کے کر کو بت ے میر

71................کا گھٹن پاس کوئی ہے رستہ نہ ہے کھڑکی

71...........................گیا بیٹھ کے لگا کا دل روگ

71...............کریں کیسے حسیں سے تاروں کو دیوار و در

71.................لیے تو سانس دو میں شہر تمھارے نے ہم

71...................کرنا اطاعت کی ظالم نہیں آاتا کو مجھ

71....................لگے ڈھونڈنے کوئی زمین کی میر پھر

71.............گیا پڑ نا جا دور سے وطن پر خواہش کی جس

71............تھا میں قید کی تر چشم مری جو تھا ب خوا وہ

71...................ہے لگتی یر د میں سنورنے زلف تمھاری

71..................الہی ظل اے ہے دھوپ اڑی میں شاخوں

71................رکھ کھلا امکان کا جانے نکل سے دل ہر

71..........................ہوا روانہ سکوں و صبر سے دل

71...........................ہیں کرتے بات تو ٹھہرے درد

71..........................ہے گزرتی کہاں چے کو تیرے

71...............کرو پوچھا دل حال اور و کر بیٹھا ، کرو آایا

71...............................ہے لگتا بیان شیریں کتنا

71...............................کر دیکھا بھی روبرو آائینہ

71...................ئے جا دیا کر دشوار بھی سانس ا تمھار

71........................گئی ہو ری بھا رات راو کڑے دن

71...................ہوئی اور کل جو ساتھ ترے ملاقات اک

71..............نہیں کچھ بھی حسرت کی تعلقات سے اس

71...............ہیں سہے درد سو ہیں کھینچے الم و رنج سو

71..............تھی ساتھ کے مثالوں وہ تھی ساتھ کے حیلوں

71.............................ہے نہیں یاد ہ چہر کا اس

71...........ہیں کرتے تعمیر نگر کا خوابوں میں آانکھوں کہیں

.ہیں رکھی چھوڑ مکمل غیر نے میں کر لکھ باتیں کی دل . . .71

71.............................نکلے تاثیر بے لفظ ہمارے

71..........................میں محبت وقت ایسا آایا پہ ہم

71................ہو کیسے بیاں لطف کریں کیسے غم شرح

71................گئے چلے کے گھروں مکین کر چھوڑ گھر

71................................ہے رہا جا ہوتا دیوان مرا

71...........ہے مصروف سبب بے وہ یونہی یا ہے سبب کچھ

71..................گئے گزر سے حد کی q احتیا تھی لازم

71.......................گئی ہو فی خلا ہ وعد پھر سے ہم

71..............................ہے سا ہمی عدو یا ہے یار

71......................تھا پھر سامنے مرے قہر کوئی آان ہر

71..................تھا نہ معلوم گی جائے بگڑ بات قدر اس

71...................رہا میں آانکھوں نہ تاب شب چہرہ جلوۂ

71.............................ہوتا کیا تو نظر اک دیکھتا

71..............................ہوں رکھتا مزاج مسافر میں

71................................آایا نہیں تک اظہار درد

71........................رہی سے لگانے دل سی لگی دل

71........................دوستا آازار کو جان ہے گیا لگ وہ

71........................کی جادو وہ نہ تھی کی ی پر نہ

71....................آایا نکل سانحہ کا جانے ٹوٹ کے دل

71...................گا دے کر اداس ملنا کہ تھے جانتے یہ

انتساب

پیارے بھانجے

منیب زیب

کے نام

اپنی تلاش کا سفر

بھی رہبر میں سفر کے تلاش اپنی نے ہوں۔میں میں تلاش اپنی آاپ میں صرف جانب چاروں میری ۔رہا بھٹکتا منزل منزل میں ۔چنا کو آاپ اپنے

تک جب رہا چلتا تک دیر اتنی پر راستے ہر میں ۔تھے راستے ہی راستے پھر کر لوٹ میں ہے۔ نہیں پر راستے اس منزل میری کہ گیا ہو نہ معلوم ہوں۔ کرتا تعین کا راستے نو سر از اور ہوں۔ جاتا آا طرف کی مرکز اپنے دوسرے کسی نہیں۔ کے کام کسی میرے شعور تاریخی اور عصر روح لہذا گا۔ سکوں پہنچ پر منزل کی دوسرے کسی میں سے تجربات کے سکتے بن پھول شعلے کہ ہوں چاہتا لینا کر یقین کر جل میں آاگ میں ابراہیم میں کہ نہیں لیے اس ۔ہوں چاہتا جانا جل میں آاگ میں ہیں۔ نہیں ابراہیم میں کہ بھی لیے اس بلکہ ہوں چاہتا نفی کی تجربے کے۔ہوں چاہتا اثبات اپنا میں اور ہوں۔

کچھ زیادہ سے روٹی روٹی ہے۔ لیا دیکھ کے کر خدا کو روٹی نے دنیا موتی تو ہے کچھ سب کا انسان ہی روٹی سکی۔اگر ہو نہیں ثابت

ہم مگر بھونکتا نہیں کر کھا روٹی کتا ہیں۔ کیوں پریشان والے توندوںسکتا۔ جا کیا نہیں منع سے بھونکنے کر ڈال روٹی ہمیں ہیں۔ انسان میں تلاش اپنی آاپ ہیں۔میں چلتے واپس چلو ۔ہے اور کوئی منزل ہماری

چنا۔ کو آاپ اپنے بھی رہبر میں سفر کے تلاش اپنی نے میں اور ۔ہوںرہا بھٹکتا منزل لمنز میں ۔تھے راستے ہی راستے جانب چاروں میرے

اور گا ہو گناہ آاخری ہمارا پہلا کا آادم کہ ہے کہتا جو ہے وہ ایک اور کے اس خواہ گی۔ رہے کرتی افزائش کی جسموں گناہگار صرف دنیا گواہی کی دلوں دو صرف یا لے لے نامہ اجازت سے سماج وہ لیے

بیج جس جو ہیں مانند کی درخت ایسے ہم حال بہر سمجھے۔ کافی آادم ہے۔میں جاتا مر کر چھوڑ بیج سے بہت جیسے اس ہے اگتا سے نے میں ہے۔اور اپنا میرا ہوں رہا دہرا گناہ جو میں مگر سہی اولاد کی مگر ہوں لیتا کہہ محبت اسے میں ہے۔ لیا دے روپ کا نیکی اسے نجات سے گناہ احساس مجھے بھی حدیں آاخری کی محبت میری جسموں برہنہ میں راتوں خواب بے بھی اب میں اور سکیں دے نہیں جب اور ۔ہوں کرتا تیار مال خام کا نیند اپنی سے ہیولوں پیکر خوش کے

احساس کا تھکاوٹ یس کن خوش ایک پہر پچھلے رات کبھی

ہوں۔ جاتا آا طرف اپنی کر لوٹ پھر میں ہے۔تو پڑتا نکل سے پیکر میرےہوں۔ کرتا تعین کا رستے نو سر از اور

رہبر میں سفر کے تلاش اپنی نے میں ہوں۔ میں تلاش اپنی آاپ میں جانب چاروں میرے رہا۔ بھٹکتا منزل منزل میں۔چنا کو پ آا اپنے بھی

تھے۔ راستے ہی راستے

شے کس جانے کر جا اوپر کہیں میں ا ہو طرح کی دھوئیں جو وہ اور ہاتھوں میرے ۔خدا سوچا مگر دیکھا ان اپنا ۔ہے تاجا ا ہو تحلیل میں رکھتا خدا شخص اک ہر ، قوم اک ہر ہے۔ جاتا مٹا سے لکیروں کی میں۔ملتا نہیں سے خدا کے دوسرے کسی خدا بھی کا کسی اور ہے جاتا اتر میں مجھ یوں وہ اوقات ہے۔بعض رکھا بنا خدا اپنا اک بھی نے کے اس ہے نیچے کہیں سے کناروں تو اندر میرے جو پانی وہ کہ ہے

خون سے آانکھوں میری کہ ہے آاتا چلا بھی اوپر اتنی کر دب سے حجم اس سے روزن کسی بھی میں اوقات ہے۔بعض جاتا ٹپک بھی کر بن

اندھیرے اس ہے۔ جاتا بن سا داغ اک اور ہوں جاتا اتر میں سینے کے صدا ں۔ ہو اٹھتا چیخ ۔ہے دیتا ڈرا کو مجھ پھر رنگ کا داغ میں غار

سے جہاں میں ہوں جاتا آا وہیں پھر بھاگتے آاتی۔بھاگتے نہیں تک حلقتھا۔ نکلا پہ سفر

رہبر میں سفر کے تلاش اپنی نے میں ۔ہوں میں تلاش اپنی آاپ میںچنا۔ کو آاپ اپنے

تو اب۔پر اس ہے کیا احسان کتنا کر دے ترقی کو انسان نے تاریخ اور آاج ہم ہیں۔یا باقی نشان کے اس ابھی گو ہے آایا چلا آاگے سے بندر بندروں اور ہے جانا ہو ہی انسان کل کو جس ہیں رہے سمجھ بندر اسے ، لٹکتا اور ہے ڈالی کمند کے جا پر ہیں۔چاند عجب بھی کھیل کے

پانی کہیں ملتی نہیں مٹی ہے۔کہیں رہا چھلانگ کو سیاروں پھدکتا نہیں بندر کوئی ایسا اسے تو جائے بھی مل کچھ سب اگر ۔ملتا نہیں انسان کل کو جس یا ہو لی کر حاصل ترقی تک انسان نے جس ملتا انسان نہیں کر بن آائیں۔بندر چلے پر زمین واپس ہے ہے۔بہتر جانا ہو ہی نفی تمھاری میں دو۔کیونکہ رہنے انسان مجھے رہو بندر تم یا کر بن

تھک میں نہیں بات ہوں۔کوئی چاہتا ضرور اثبات اپنا مگر چاہتا نہیں اسی پھر۔پر زمین اپنی واپس سے مریخ اور چاند۔ہوں آایا لوٹ کے ہار

کیاتھا آاغاز کا سفر نے میں سے جہاں پر نکتے پریا نقطے

رہبر میں سفر کے تلاش اپنی نے میں ۔ہوں میں تلاش اپنی آاپ میں جانب چاروں رہا۔میرے بھٹکتا منزل منزل میں چنا۔ کو آاپ اپنے بھی

تھے۔ راستے ہی راستے

مجھ تھا۔ چکا بکھر کرچی کرچی۔تھا چکا ٹوٹ کے رہا تھک میں ریزہ ریزہ سے مشکل بڑی نے کروں۔میں آاغاز سفر تھی نہ ہمت میں

کرتا سفر گرد ارد ذرا کے اس اور اوپر کے مرکز اپنے یوں اور کیا جمع تھا مقام وہی یہ تھی۔ چکی مل مجھے منزل تو گیا جڑ میں جب ۔رہا

لوٹ طرف کی آاغاز اپنے کو شے تھا۔ہر کرتا آاغاز سفر میں سے جہاں تو منزل نے تھا۔میں لوٹا طرف کی آاغاز اپنے کے ہار تھک ہے۔میں جانا

پہلا پر تھاپ کی ڈھول ہے۔میں باقی ابھی اعلان کا اس مگر ہے لی پا بھی آاسان اتنا الحق انا نعرہ۔پڑتی نہیں ہمت مگر ہوں والا کرنے رقص

مگر ڈرتا نہیں تو سے سولی ۔میںہے تاجا چڑھ پر سولی نہیں۔منصور دوسرے نہیں۔کسی کے کام کسی میرے شعور تاریخی اور عصر روحگا۔ سکوں پہنچ تک منزل کی دوسرے کسی میں سے تجربات کے میں کہ ہوں چاہتا لینا کر یقین اور ہوں چاہتا نا جا چڑھ پہ سولی میں بلکہ ہوں چاہتا نفی کی منصور میں کہ نہیں لیے ں۔اس ہو نہیں خدا کے اس کیوں جانے ہوں۔مگر چاہتا اثبات اپنا میں کہ بھی لیے اس

میرے ہوں رہے بج ڈھول طرف چاروں میرے۔ہے خواہش میری یہ باوجود میں جاؤں کرتا رقص وار مستانہ میں اور ہو رہا بہہ خون سے آانکھوں کے خدا میرے اور میرے رہے نہ باقی بھی خون قطرہ ایک میں آانکھوں ہو روشنی ہی روشنی اندر رہے۔میرے نہ باقی فرق کوئی میں حجم

ہو فنا اور رہوں بھی باقی میں۔جاؤں ہو خدا اور ہوں نہ خدا میں۔جائے۔جاؤں

بھی رہبر میں سفر کے تلاش اپنی نے میں۔ہوں میں تلاش اپنی آاپ میں چنا۔ کو آاپ اپنے

بٹ احسان کلیم

نعتیں

لاکھ لفظوں پہ مجھ کو قدرت ہے

ہے نعمت کی خدا کہنا نعت

کرم تیرا ہے پر گناہگار مجھ

ہے رحمت حصار میان دل

رہے نصیب مجھے تیرا ہجر

ہے لذت ایک بھی سہنا درد

ا تیر ا سر آا ایک میں حشر

ہے قیامت پھر تو جائے چھوٹ

ہے کہتی یہ بسی بے کی علم

ہے ضرورت کی وقت اب دین

سلام و درود ہے تسکین ایک

ہے مصیبت طرح سو زندگی

ہو سلیقہ گر کا کہنے نعت

ہے عبادت اک بھی کہنا شعر

٭٭٭٭٭٭٭

لفظ بے کار ہیں نعت کیسے کہیں

کہیں کیسے نعت ہیں دیوار حرف

یی کہ ہم یی سے ادن یی سے ادن غلام ادن

کہیں کیسے نعت ہیں سرکار آاپ

غزل ہمیشہ ہیں رہے کہتے کہ ہم

کہیں کیسے نعت ہیں گار گنہ ہم

٭٭٭٭٭٭٭٭

لاکھ نقشے نعت کےکھینچےہم نے

کے نعت مصرعے چند ہیں سکے ہو

سلسلہ اک کا نور تھا رہا چل

کے نعت بانے تانے تھا رہا بن

ہوا آائی بھری سے درودوں پھر

کے نعت غنچے ہیں مہکے کہیں پھر

مرتسم محمد پر ہاتھوں میرے

کے نعت ستارے میں قسمت میری

بخششیں خریدی سے محشر نے میں

کے نعت سکے تھے میں جیبوں میری

امی لقب سے نسبت بانٹی مجھ کو یاد رکھا

رکھا یاد کو مجھ بانٹی الفت میں انسانوں

یی اور من نے تو ہے دیا رزق کر بڑھ بھی سے سلو

رکھا یاد کو مجھ بانٹی لذت میں دہن و کام

لق خود کو ہمت پائے نے تو بخشا مسافت ذو

رکھا یاد کو مجھ بانٹی وسعت میں جبل و دشت

مولا ہیں دیے کوہسار میں قدموں میرے نے تو

رکھا یاد کو مجھ بانٹی نصرت ، شوکت و شان

لف نے تو جب تھا میں نظروں میں لکھا قناعت حر

رکھا د یا کو مجھ بانٹی دولت کی شکر راو صبر

جیسا فرشتوں عجز ہے یا پا سے سخاوت ی تیر

رکھا یاد کو مجھ بانٹی عظمت میں نسانوں ا

درجہ کا درویشی میری کو چپ ہے دیا نے تو

رکھا یاد کو مجھ بانٹی قدرت کی نطق نے تو

یی نے تو کی عنایت تاثیر کو لفظوں ادن

رکھا یاد کو مجھ بانٹی حکمت میں سخن و شعر

کیے کرم پر مجھ بخشی عصمت کو بہنوں جب

رکھا د یا کو مجھ بانٹی غیرت میں بھائیوں جب

ڈالا دے ہا چا من کو مجھ ساتھی کا عمر نے تو

رکھا یاد کو مجھ بانٹی جنت جب میں دنیا

نوازی امان حفظ اپنی نے تو کو رکمزو مجھ

رکھا یاد کو مجھ بانٹی طاقت میں ستم اہل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حرف کچھ بھی نہ تھے نعت کے واسطے

واسطے کے نعت چنے موتی نے میں

لر میں صحرا و کوہ ہے عام ملسو هيلع هللا ىلص نبی ذک

لج واسطے کے نعت چلے یا رد مو

سلام و د درو ہوائیں تھیں رہی پڑھ

واسطے کے نعت اڑے پرندے جب

ہیں ریز لب سے محبت کے پھلوں دل

واسطے کے نعت لگے ٹپکنے رس

بشر ، ملائک ، جن کیا پیدا بھی جو

واسطے کے نعت کیے ا پید نے اس

ا روشن تنا ا ستو و د دل میرا ہر

واسطے کے نعت ملے مضموں جتنے

رہے عاجز جو میں جہاں اس ہے کون

واسطے کے نعت کہے جب خدا خود

معاف خطائیں کرنا میری خدا یا

واسطے کے نعت سکے ہو کم شعر

محیط پر سیہ ےردائ کی آاسماں

واسطے کے نعت لکھے تارے نے اس

لگ کہے محمد کے مسکرا گل بر

واسطے کے نعت گرے شبنم پہ اس

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منقبت

آاج مرے روبرو حسین کا ہے خیال

ہے کا حسین لہو میں رگوں ہے دوڑتا جو

کی یزیدوں کمک ہیں بنے ہاتھ ہمارے

ہے کا حسین تو نہ بھی میں کا حسین نہیں

لس کی کتنوں ش لا ہے ئی اٹھا د سجو پ

ہے کا حسین وضو پیمبر آل خون سو

ہے روتی فرات نہر بھی آاج کے کہہ یہ

لب پیاسا پسر کہ ہے کا حسین جو آاب ل

سکتا نہیں ہو ایک کوئی میں بھر زمانے

ہے کا حسین عدو لیکن ہے پسند حق جو

کا نسبت کو کسی ہے نہیں سے لہو شرف

ہے کا حسین بدو دو جو ہے ہوتا سے ستم

رہے بلند ا سد پرچم یہ کا صداقتوں

لک یہ ہے کا حسین گلو گویا پہ نیزہ نو

ل� تو مجھے خلش آائی یاد کی خیبر فات

ہے کا حسین بہو ہو جو ہے ہ چہر کا علی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

غزلیں

ہیں پکڑتے جگنو چلو

لل سخن کی شوخی فن حق شناس سےلاہ

سے پاس آاس چمن بوئے ہے لگی آانے

ہیں پہ یہیں چشمے وہ تھے سنے جو میں جنت

سے بیاس راوی ہوں پیتا گھونٹ کے کوثر

میں کھیت کے سرسوں سے چاند ہیں ہوئے اترے

سے کپاس ستارے کیسے ہیں ہوئے چمکے

لل پڑی آا افتاد کیا جانے پہ چمن اہ

سے ہراس تک سمن و سرو ہیں ہوئے سہمے

ہے گوار خوش چمن شام تھا سنا نے میں

سے اداس ہیں ملے پھول سارے تو کو مجھ

مٹوں مر پہ حرمت کی خاک ہے چاہتا جی

سے آاس کی مرنے ہی ایسے ہو مرا جینا

ہوں پھول کے شہادت الہی یا پہ چہرے

سے لباس ستارا چاند ہو ہوا لپٹا

٭٭٭٭٭٭٭٭

پپر نم نے کہا سارا فسانہ میرا لم چش

میرا کھلتا نہ حال کبھی تو کرتا ضبط

کیسی؟ شکایت سے غیروں ہے غیر پھر تو وہ

میرا سایہ ہے جاتا بدل ساتھ کے دھوپ

لت ہوا اتنا فائدہ مجھے کا بریدہ دس

میرا پھیلا نہ ہاتھ کبھی میں مشکل کسی

کاٹا کو سفر کے دکھ لیے کے وش پری جس

میرا چھالا کا روح نہیں ہی دیکھا نے اس

لغ خلش کردار پیمانۂ نہیں دامن دا

میرا اجلا تو جسم تھا سے ملبوس میرے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جو درد مری روح میں پھیلا نہیں ملتا

ملتا نہیں دریا دائرہ در دائرہ اب

گا کرے کام کیا بھلا مرہم کا تدبیر

ملتا نہیں ا و مدا کا زخموں کے تقدیر

ہو رہے ڈھونڈ کسے میں گلیوں کی شہر اس

ملتا نہیں مسیحا کا خوابوں ہوئے ٹوٹے

دی بدل ہی صورت کی اخلاص نے اغراض

ملتا نہیں جا بے کبھی سے کسی کوئی اب

٭٭٭٭٭٭٭

ہر نفس موجۂ بے تاب کی اک صورت ہے

ہے صورت اک کی گرداب میں ذات زندگی

تو سمجھو زباں اپنی اک ہے رکھتا بھی اشک

ہے صورت اک کی خونناب قطرۂ بھی حرف

لیکن کب دن ہوئے گزرے ہیں آاتے کر لوٹ

ہے صورت اک کی احباب صحبت بھی یاد

یارو پر یہاں تو اب ہوئے خواب بھی خواب

ہے صورت اک کی خواب بے دیدۂ بھی زخم

لن بھی چاند ہے غنچہ اک کا افلاک گلش

لت بھی پھول ہے صورت اک کی مہتاب صور

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جب تک ترا خیال مرا ہم سفر نہ تھا

لت آاشنائے میں لد لذ تھا نہ جگر در

کر تراش کو بت میرے کیوں ہے گیا ا توڑ

لل شیوۂ بھی کبھی تو یہ تھا نہ ہنر اہ

گئی بس میں سانسوں تو کی کسی تھی باس تو

تھا نا بکھر آاخر تو بھی مجھے تھا پھول میں

داستاں اشک اک ہر ہے گیا کہہ کو کہنے

تھا نہ مختصر بیاں کا دل حدیث لیکن

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پرندے ہجرتیں کرنے لگے ہیں

ہیں رہے گر کر کٹا کٹ یوں شجر

ہیں مانگتے دعائیں چولے ہرے

ہیں چکے اڑ کبوتر سے مزاروں

ہیں رہی مر میں فضا اب صدائیں

ہیں پھیلتے سے دائرے میں ا ہو

تم دیکھنا کر اتر میں لد کبھی

ہیں سہے دکھ جو واسطے ےتمھار

دینا نہ بجھنے بھی ا کو غوں ا چر

ہیں لوٹتے فر مسا ہارے تھکے

بتائیں بھی ہم تمھیں پوچھو کبھی

ہیں گلے سے تم قدر کس بھی ہمیں

ہے نہیں تو بھی خبر اتنی تمھیں

؟ ہیں مرے کیسے بھلا کیسے جیے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رنگ اپنے خون سے ان میں دوبارہ بھر دیے

دیے کر پیلے پھول جو نے زہر کے موسموں

گیا ہو نقشہ کا گھر مکمل یوں رفتہ رفتہ

دیے در کو ان نے ہم بنائیں دیواریں نے تم

تھی خاموش انا اور تھے رواں سے آانکھوں اشک

دیے کر آاگے ہاتھ اپنے خود نے ضرورت جب

؟ کیا تعبیر کی خواب کے ! زندگی الہی یا

دیے پر شکستہ پھر اور کا پرواز حوصلہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہر صف الٹی ، لشکر زخمی ، تیر نشانے دیکھے

دیکھے پرانے یار سارے میں صف کی دشمن جب

آایا دینے قیمت کی ان بیٹا کا آاجر اک

دیکھے سہانے خواب جو نے بیٹی کی مزدور اک

ہوتی کیا بھلا تسکین سے باتوں تیری کی اس

دیکھے زمانے رنگین کے یادوں تیری نے جس

بھیجا کمانے پردیس کو بچے اپنے نے ماں

دیکھے نے ماں نہ پھول پھر پر تربت اپنی دن اک

ایسا گا کرے کون گا ہو مشکل الفت ترک

دیکھے بہانے لاکھ وہ ہو نسبت سے تجھ کی جس

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

برسے تمام عمرہپتھر مرے و جو د پ

عمر تمام ترسے کو زیست لطف دوست اے

نہیں ہی پرواز ہمت میں پروں میرے

عمر تمام سے ڈر ہی یک ا پائے نہ اڑنے

دوستو ہے لازم چھاننا خاک کی رستوں

عمر تمام سے گھر نہیں ملی کبھی منزل

لیں نچوڑ بوندیں کی خون سے بدن میرے

عمر تمام سے سر کا لوں پھو بوجھ نہ اترا

شوق حیات شمع گئی بجھ جلائی بھی جب

عمر تمام سے تر دیدۂ کو جہاں دیکھا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

میرے لیے صورت ہے یہ خوش کن بھی عجب بھی

بھی سبب گا ہو کچھ کا ت یا عنا درجہ اس

عالم کا ن با بیا ہے بہتر کہیں سے گھر

بھی اب سے بیابان میرا گھر نہیں کم گو

گزارا کو اس طرح کی فرقت شب نے ہم

بھی شب وہ تھی آائی ہیں کہتے جسے وصل سب

تھے بنے خواب چند جو سے دھاگوں کے اخلاص

بھی اب ہیں یاد مجھے کا کب گیا بھول تو

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سے پھر درد کا طوفان اٹھا ہے راک زو

ہے کیا یاد کیا کو لمحات ہوئے بھولے

لیں لے نہ نام ا تر میں ٹیسوں کی درد لب

ہے لگا رسنے لہو سے زخموں کے سوچ اب

تھا دیا نے س ا کبھی میں محبت دور جو

ہے چکا سوکھ کہیں میں کتابوں پھول وہ

ہوں گیا بھول اب میں رفتار کی وقت گو

ہے رہا د یا تلک دیر مجھے ہ چہر وہ

سے مجھ ہیں جاتے ہوئے شعر کئی آاج پھر

ہے ہوا زہ تا غم کا یاد ی تر آاج پھر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی نہ تھا ااک تعلق کا سرا تھا دوسر

تھا نہ کوئی واسطہ سے اس امیر کر بڑھ سے اس

تمام عالم تھا ساتھ میرے تو نکلا سے شہر

تھا نہ کوئی سوا میرے واں تو پہنچا میں دشت

میں شہر کے دوستوں ہوں رہا جیتا طرح اس

تھا نہ کوئی آاشنا سے غم اور تھے غم لاکھ

ہوئے رخصت طرح اس ہمیشہ رخصت ہوئے جب

تھا نہ کوئی موڑتا کو منہ تھے تے جا دیکھتے

خلش میں عدالت اپنی خود کہ ہے تماشہ کیا

تھا نہ کوئی وفا بے یا وفا بے ٹھہرے ہی ہم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

صحن گلزار میں یوں پھولوں کے زیور چمکے

چمکے ساغر پہ پتوں ہوئیں مدہوش شاخیں

ہیں آائے لرز سے موتی پہ پلکوں مری پھر

چمکے منظر کے روپ اس میں آانکھ مری پھر

سکتا کر طلب انصاف میں کہ پہلے سے اس

لر ے قطر کے خون چمکے گر ستم تیغ س

رب یا دکھاؤں کو کس میں کے چیر دل اپنا

چمکے جوہر کے ذات مری میں سیپوں بند

اکثر پر زمیں تھے رہتے یہ میں زد کی پاؤں

چمکے پتھر سے مایہ کم تو پہنچے پر اوج

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہر بات اس کی قول کسی کا کہا ہوا

ہوا بڑا کتنا ہ و ہے میں عمر سی چھوٹی

رکھا سر پہ چوکھٹ کی ذات اپنی بھی نے جس

ہوا ادا سجدہ میں عمر ایک تو کا اس

لیے جی بھی تو پڑا جینا بغیر تیرے

ہوا بھلا تھا ہوا عشق سے تجھ ہی اتنا

لیا پا کو زمانے کیسے نجانے نے تم

ہوا وا نہ عقدہ کا ذات اپنی تو سے ہم

لر باریاب نگہ سکی نہ اٹھ سے کرم با

ہوا نما جلوہ پر بام تو ہ و بار سو

دھار تیز تلوار کہ ایسی جبین بر چیں

ہوا بجھا نشتر میں زہر جیسے کہ باتیں

گئے ہو شرمندہ بھی اور کے مل سے اس ہم

ہوا اکھڑ ناص� تھا پہ در کے میکدے اک

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پانی اتر گیا ہے نجانے وہ کیا ہوئے

تھے بنائے گھروندے جو کہیں یہیں نے ہم

گیا رہ کے لہرا کا لخیا کسی آانچل

تھے اڑائے کاغذ میں آاندھی تیز نے بچوں

نہیں بھولتے مجھے وجود با کے کوشش

تھے آائے لوگ مری میں زندگی ایسے کچھ

گئے آ یاد ہمیں تو ئی کو ملا کر ہنس

تھے کھائے زخم جو سے خلوص ترے نے ہم

کیا تو ملی لمنز کھئےید کی راستوں ان

تھے سائے بھی اپنے پر دھوپ کی راستوں جن

ذرا دیکھنا تو شوخیاں کی ستم اہل

تھے لائے پھول اب وہ خار کے بھر میں دامن

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لن نکتہ سنج کو روکنا اچھا لگا اس زبا

لگا اچھا بولنا کا سخن کم اس قدر اس

تر مضبوq امر رشتہ رہا سے مٹی اپنی

لگا اچھا پھیلنا تک آاسماں زمین گو

گا جائے ملتا طول تو کچھ نہ کچھ کو سفر یوں

لگا اچھا بیٹھنا میں رراہگز کا اس کر تھک

من جان اے مگر تھی قیامت بھی نگاہی کم

لگا اچھا دیکھنا کر بھر آانکھ تیرا آاج

میں جسم سے بچپنے سرایت تھی محبت یوں

لخ کا تتلیوں لگا اچھا چومنا کو گل شا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

عذاب رت میں جو اترے وہ کیا صحیفے تھے

تھے دےاز ببول کم حا کے شہر گلاب

سایہ کا باپ ے میر اٹھا سے سر آاج جو

تھے بچے یتیم کتنے کہ ہے پڑا نظر

نے غیروں ہے دیا کاندھا کو لاش کی جس وہ

تھے بیٹے چار بھی کے اس میں دیس پرائے

میں کمروں تمام ہے بسا خوف ایک اب

تھے سوتے لوگ بھی پر چھتوں کہ گئے دن وہ

مجھے تھا رہا ہو س احسا یہ بعد تمھارے

تھے ہوتے شہر کے پھولوں ہی ساتھ تمھارے

مگر میں تلخیوں کی زمانے ہیں ہوئے ہوا

تھے پارے خیال کتنے میں ذہن ہمارے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ایک دیکھی ہو ئی خوشبو مہکے

مہکے سو ہر مرے پیکر ترا

ہوں بیٹھا لیے میں پہلو کو ان

مہکے پہلو مرا ، دنیا مری

پر شانوں مرے رات کی رات

مہکے گیسو ہوئے بھیگے ترے

ہوا باز در کا یاد تری جب

مہکے جگنو کبھی چمکے لپھو

مانند کی گل تختۂ ن بد وہ

مہکے آاہو ۂناف ، مہک وہ

٭٭٭٭٭٭٭

موسم گل حیران کھڑا ہے

ہے پڑا ویران گھر کا گھر

؟ کیسے بتائیں بات کی دل

ہے بڑا نادان وہ یارو

کرتے سجدہ کو اس اور ہم

ہے گھڑا ن بہتا نے کافر

جیسے ہے پاتھ فٹ بھی جیون

ہے پڑا ن ما سا پر سڑکوں

کو جن تھے لفظ جیسے موتی

ہے جڑا آاسان میں شعروں

٭٭٭٭٭٭٭

زمانے کے بعد کیا ہو گا رزمانہ او

گا ہو کیا بعد کے مٹانے اپنا نقش یہ

گا ہو منا سا کا حقیقت تلخ ایک پھر

گا ہو کیا بعد کے سہانے خواب ایک پھر

ہمدم اے سوچ بھی تو ذرا ہوں سوچتا میں

گا ہو کیا بعد کے فسانے میرے تیرے کہ

گی ہو روشنی کیسے پھر ہے سوچا یہ کبھی

گا ہو کیا بعد کے جلانے بھی دل ہمارا

ہیں دیتے سنائے دل غم حال بھی تمھیں

گا ہو کیا بعد کے سنانے حال بھی تمھیں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کروں یا رب غموں کے بوجھ کو اس طرح ہلکا کیا

رب یا کروں کیا گیلا کو کاجل کے یار چشم میں

سہنا ہے دشوار دکھ بھی کا پتوں سوکھے تو مجھے

رب یا کروں کیا تماشا کا جلنے کے گھر اپنے میں

لغ دے عنوان کوئی ہے فسانہ اک گر قبا دا

لہ رب یا کروں کیا تمنا لقتل یا عشق گنا

کی مسرت و رنج ہے گاہ تماشا اک دنیا یہ

رب یا کروں کیا اپنا میں رب یا کروں کیا تیرا میں

نکلی زندگی تعاقب کا سرابوں ہی سرابوں

رب یا کروں کیا پیچھا میں کا فسانوں کے حقیقت

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کھویا کھویا رہتا ہوں

ہوں چنتا لمحے بکھرے

ہیں سائے جانب چاروں

ہوں ڈرتا میں دل ہی دل

سے نے کر باتیں تیری

ہوں تا جا ہو ہلکا میں

ہے فرصت تھوڑی کے اب

ہوں ٹھہرا دن کچھ کے اب

تھا دریا اک کا اشکوں

ہوں بہتا قطرہ قطرہ

ہوں تا ہو تنہا بھی جب

ہوں تا ہو تنہا کتنا

٭٭٭٭٭٭

دوست بھی یاں رقیب ہوتے ہیں

ہیں ہوتے نصیب پنے ا پنے ا

تارے ہوئے ٹوٹتے من جان

ہیں ہوتے نقیب کے زندگی

ہے اپنا اختیار کیا میں اس

ہیں ہوتے عجیب رشتے کے دل

ہیں رہتے بدلتے دیکھو بھی وہ

ہیں ہوتے قریب کتنے سائے

ہے رہنا دوام کو خلش اس

ہیں ہوتے طبیب مانا آاپ

٭٭٭٭٭٭٭٭

کبھی ہنستا کبھی روتا رہا ہوں

ہوں رہا کرتا بھر رات تماشا

تھی روشنی اک طرف چاروں مرے

ہوں رہا جلتا میں یاد تمھاری

بیٹھا پہ ملبے کے د یا پرانی

ں ہو رہا روتا تک دیر ہی بڑی

تھے پوچھتے سب کر جان مسافر

ہوں رہا ٹھہرا تک دیر میں گلی

تھا سنا قصہ کا درد کے کسی

ہوں رہا سلگا کو آاپ اپنے میں

٭٭٭٭٭٭٭٭

کس نے کس کا سمجھا دکھ

دکھ اپنا اپنا کا سب

تا سنتا دیپک وہ ہے ہر

دکھ سلگا میں من کے جس

تھا لیا پوچھ روتے روتے

دکھ لا بو ہنستے ہنستے

گا ہو سہنا بھی یوں مشکل

دکھ سہنا تنہا لیکن

نے ہم پالا کو غم تیرے

دکھ ٹالا اپنا نے ہم

کوئی سپنا سنہرا یاد

دکھ اجلا خوشیاں کالی

٭٭٭٭٭٭٭

حادثہ پھیلا ہوا رلمحہ لمحہ حادثہ د

ہوا پھیلا سلسلہ کا آارزو ہے تک دور

گیا آا تمھارے تک گھر میں چاہ تمھاری میں

ہوا پھیلا فاصلہ سمیٹو اب بھی تم تو کچھ

لش نہیں سکتی رلا کو مجھ تو حالات گرد

ہوا پھیلا آابلہ ہے گیا آا کیا تک آانکھ

نہیں دیکھی جھلک نے ہم تک دور کی منزلوں

ہوا پھیلا راستہ ہی راستہ ہے تک دور

خلش دیکھو کبھی سے آانکھوں اپنی منظر اپنا

ہوا پھیلا آائینہ میں انجمن ہے طرف ہر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حرف کو معتبر ہی رہنے دو

دو رہنے ہی مختصر کو بات

لیں بھی مل تو پڑے ملنا کبھی

دو رہنے ہی قدر اس فاصلے

رکھو بھیگتا کو آانکھوں مری

دو رہنے ہی تر کو دامن مرے

ں ہو سمجھتا ہنر کو اسی میں

دو رہنے ہی ہنر بے مجھے تم

کرو نہ رقد اس تعریف مری

دو رہنے ہی بشر بندہ مجھے

ہے ضروری بہت کرنا ت با

دو رہنے ہی مگر چپ مجھے ہاں

ملتیں نہیں طرح اس منزلیں

دو رہنے ہی سفر دیکھو دھوپ

٭٭٭٭٭٭٭٭

حسرت یک نظر میں بیٹھے ہیں

ہیں بیٹھے میں گزر راہ تری ہم

تھے آائے بسانے بستی ایک

ہیں بیٹھے میں نگر جڑے ا ایک

ہیں پتھر بھی میں تھ ہا کے پ آا

ہیں بیٹھے میں گھر کے شیشے پ آا

ہوئے اوڑھے ن سائبا کا دھوپ

ہیں بیٹھے میں شجر بے سایۂ

لائے کر تلاش منزل گ لو

ہیں بیٹھے میں مگر گر ابھی ہم

ہے اڑنا سے بازوؤں ہی اپنے

ہیں بیٹھے میں پر و بال ہی اپنے

٭٭٭٭٭٭٭٭

جبر یا اختیار میں رہنا

رہنا میں غبار اپنے اپنے

ہے ہستی فریب ہستی تری

نا میں اعتبار کسی مت ہر

ہے عادت ایک کو آانکھوں مری

نا میں انتظار ترے بس ہر

ہے حاصل کا خزاں عمر ایک

رہنا میں بہار کی دن چار

دیتا کیا زیب کو دشمن مرے

رہنا میں غمگسار صورت

ہے کرتا نصیب پتھر کتنے

رہنا میں تار تار دامن

٭٭٭٭٭٭

اشکوں سے بھر گیا ہے جو دامن بہار میں

میں بہار ساون ہی خوب آاج ہے برسا

ےروئی نہ کیسے کی غریب اس پہ قسمت

میں بہار ایندھن جو ہے گیا بن پیڑ ہ و

کہاں خوشبوئیں یہ میں نصیب ہیں کے پھولوں

میں ربہا آانگن سے ریا خیال مہکا

خزاں سم مو کٹا کیسے سے ہم تو پوچھو

میں بہار دن کچھ بھی س پا ہمارے ٹھہرو

پوچھ نہ خواہشیں مری نصیب خزاں ہوں میں

میں بہار مسکن گا بناؤں گل شاخ میں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اب نصیبوں میں فقط اک روسیاہی رہ گئی

گئی ہر بیاہی بن بیٹی سے مرنے کے باپ

گئی اٹھ نگاہی خوش ، ستائی جاں ، ربائی دل

گئی رہ نگاہی کم ، نیازی بے ، ادائی کج

میں افتاد پر شہر ہے گیا کچھ سب تو اور

گئی رہ کلاہی کج اک کی شہر امیر بس

پناہ کو قاتل تو صورت کسی ہے جاتی ہی مل

گئی رہ گواہی پھر یا گیا بک منصف کوئی

رہی نہ ، کے دوستوں تھی درمیاں محبت اک

گئی رہ پناہی بے اور میں میدان عدو سو

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

زمیں کو گھومتا رکھا گیا ہے

ہے گیا رکھا سلسلہ اک یہیں

ہے نہیں ممکن مفر سے رمقد

ہے گیا رکھا کا نام جس دکھ جو

ہوں رہا جا تکتا ہی آانکھیں تری

ہے گیا رکھا کیا میں آانکھوں مری

ہیں رہی مر صدائیں اندر مرے

ہے گیا رکھا صدا بے گنبد یہ

آاخر تھا نا ہو مبتلا ہی انہیں

ہے گیا رکھا حوصلہ میں دلوں

ہے گری صورت یہ کی مسلک مرے

ہے گیا رکھا نما خود بھی خدا

تھیں تر تیز ہوائیں پر وہیں

ہے گیا رکھا دیا جلتا جہاں

٭٭٭٭٭٭٭٭

آا کر بکھر گئے آائے ہمارے ذہن میں

گئے مر خیالات کتنے میں مصروفیت

لیے اس تھے عادی کے رات اندھیری یارو

گئے رڈ سے سائے ہی اپنے میں روشنی ہم

سکی مل نہ صورت بھی کوئی کی طرح تیری

گئے بدر در ہم کو خیال ترے کر لے

گیا آا میں قطرے ہی ایک کر سمٹ عرصہ

گئے کر کام کیا کے یاد تمھاری لمحے

پر نوک کی نشتر کو وجود مرے کر رکھ

گئے گر ہ چار مرے تو سکا ہو نہ چارہ

یوں تھا ہوا اوڑھا کو چہرے نے سفر گرد

گئے اتر سمندر کے اجنبیتوں ہم

میں انتظار خلش تھی سکی سو نہ بھی ماں

گئے گھر اپنے گر بھی بعد رات ساری ہم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جب شکستہ مرے دل سے بھی گریباں نکلا

نکلا دوراں غم سمجھا تھا عشق غم میں

کرتے کیا مری توقیر تھے لوگ تو لوگ

نکلا گریزاں سے مجھ یہاں بھی سایہ میرا

تھا دیکھا خوش میں حال ہر کو شخص جس نے میں

نکلا بیاباں کا سرابوں کے تمنا وہ

گا ہو کیا بھلا اخلاص بھی میں سچ ترے پھر

نکلا جاں مری جھوٹ جب میں بات ہر تری

مجھے ہے ندامت پہ حقیقت اپنی آاپ

نکلا نساں ا کا دور مرے اتنا غرض خود

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ مہرباں بھی ہوا تھا نہ مہر باں ایسا

ایسا جاں عذاب ہے ہوا یار خیال

جائے مٹ ذات ہی اپنی تو مٹاؤں اسے

ایسا درمیاں تو ہے رہا بھی فاصلہ جو

کر ہنس دیے رو تو آایا بھی یاد جو کبھی

ایسا آاشیاں ہیں آائے کے چھوڑ میں قفس

آایا لوٹ تو میں کے چل قدم ہی دو میں جنوں

ایسا سماں کچھ ہے دیکھا میں شہر سواد

تنہائی ایک ہے ملتی میں شہر ہجوم

ایسا دوستاں ہوں تنہا میں ذات اپنی میں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اب کیسے کریں شکوے گلے چھوڑ د یا ہے

ہے دیا چھوڑ سمے کے مصیبت بھی نے اس

تھا رہا ساتھ وہ میں دھوپ کڑی تو بھر دن

ہے دیا چھوڑ ڈھلے شام اب نے سائے کیوں

ہوں رہا گرفتار میں محبت اپنی خود

ہے دیا چھوڑ مجھے نے والے چاہنے ہر

ہو یقیں نہ شاید کا بات اس بھی کو مجھ خود

ہے دیا چھوڑ اسے گا لوں کہہ تو کو کہنے

لیکن کے چھوڑ ہ و گا جائے چلا کہ مانا

ہے دیا چھوڑ کسے وقت کسی گا سوچے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یوں تو پاگل بنتا ہو گا

گا ہو لیتا نہ م نا ا تیر

گے ہوں منزل رستے سارے

گا ہو رستہ کا لمنز ہر

تھا میرا تو تھا بچھڑا

گا ہو کا کس جانے وہ اب

مرضی کی اس چاہے نہ چاہے

گا ہو سوچا کو مجھ نے اس

لن میرا تھا کون محفل جا

گا ہو پوچھا کو مجھ نے کس

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اک بت کو محبت میں خد ا کرتا رہا ہوں

ہوں رہا کرتا وفا حال بہر ہوں مجرم

ہیں ہوئے دھوکے مجھے ہی تیرے پہ گام ہر

ہوں رہا کرتا صدا کے رک رک میں پہ در ہر

سکتا نہیں سہہ انا توہین ہوں فنکار

ہوں رہا کرتا انا توہین تھا مجبور

ہے نہیں میں تجھ ہے میں یاد تری لطف جو

ہوں رہا تا کر دعا کی بچھڑنے سے تجھ میں

سمجھا نہیں تیور ہوئے بدلے کے وقت میں

ہوں رہا کرتا ہرا کو زخموں کے سوچ میں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یار جانے گمان کیا کرتا

کرتا کیا بیان کا دل درد

آاخر گیا گر کے ت مد بعد

کرتا کیا مکان اجڑا اور

ہے برسی آانکھ میں محفل آاج

کرتا کیا دان راز بھلا اب

کو وفاؤں تری تھا جانتا

کرتا کیا امتحان ترا میں

ہے آایا بیچ کو عزت آاج

کرتا کیا کسان بھوکا اور

٭٭٭٭٭٭

جسے حرف غم نہ سنا سکا ترا غم گسار ہے بھول جا

لر واسطے ترے منتظر کوئی جا بھول ہے گزار راہ س

ذرا سنو ہے گیا کہہ جو وہ ہے عجیب بھی بر نامہ مرا

جا بھول ہے فگار دل بڑا سانحہ وہ ہے گیا گزر جو

ہے وعدۂشام روز وہی ہے دوام اضطراب وہی

جا بھول ہے اعتبار ہمیں سلسلہ کوئی نہیں نیا یہ

ہیں روگ وہی نشتریں وہیں ہیں لوگ وہی آاسماں وہی

جا بھول ہے دار راز کوئی رکھ یاد کے نصیب دکھ وہی

لگ کوئی اب ہیں سرا نغمہ ہوائیں نہ ہے خیال ساز بر

لر گیا بکھر جو آاشیاں کوئی جا بھول ہے شاخسار س

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حسرت تو دیکھئے کہ ہمیں غم بھی کیا ملے

ملے رسا نا تو میں نصیب ملے لے نا

لر ہم کچھ بھر عمر نہ نکلے سے ذات حصا

ملے وفا بے ہمیں میں زندگی دوست کچھ

چراغ ہوئے جلتے کوئی ہے گیا کر کو آانکھوں

ملے ہوا لیکن دیکھئے بھی انہیں تک کب

کہاں سفر شریک کے فتوں مسا گہری

ملے خدا نا بڑے ساتھ ساتھ کے ساحل

لیے کس تو چھپاؤں بات سے دوستوں میں

ملے ربا دل گر بھی بات بتاؤں لیکن

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تری گلیوں کا تھا گدا میں بھی

بھی میں صدا ہا ریتا د یونہی

برسوں ستم رہا تا ھا ڈ پہ خود

بھی میں چلا ہو د رہمد اپنا

ہیں آائے پہ مجھ م لا آا اتنے

بھی میں گیا ہو سا پتھر تو اب

ہوں نکلا آان میں گلیوں تیری

بھی میں ہوا ڈھونڈتا اب کو خود

ہو نہ لملو کے بھول مجھے تو

بھی میں رہا کر بھول تجھے خوش

گیا بیت ہنساتے ہنستے تو دن

بھی میں پڑا رو تھا تنہا رات

ہے دیکھا سے نظر کیسی نے تو

بھی میں گیا ہو سا شاعر تو اب

٭٭٭٭٭٭٭٭

لف دعا راز رہے یہ دعا ہے کہ مرا حر

رہے راز صدا میں سینے میرے الفت تیری

کوئی ہے نہیں ت قا ملا سے مدت ایک

لل مرا اب رہے از ربرا نامہ زبوں حا

لم کے گبھرا نے میں لیکن ہے کہا تو دل غ

رہے راز ذرا ہوں کہتا میں کے ڈر ڈر یہ اب

حیات ہے الجھنا سے اندھیروں ہوں سمجھتا میں

رہے راز ضیا کی سورج کہ ہو کہتے یہ تم

ساری کہانی کی شب کہی نے گل واشد

رہے راز صبا میں گلشن کہ تھا ممکن ورنہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آانکھوں سے اب غمزے اشا رے کیوں نہیں ملتے تیری

ملتے نہیں کیوں ہمارے حق اب ہمیں تو کچھ بتا

ہیں آاتی لوٹ بھی پھر کے جا بہاریں کی زمانے

ملتے نہیں کیوں ہمارے دن اب ہوئے بیتے ہمیں

دیکھو ستو دو مشقت خواہش ہر ہے کرتی طلب

ملتے نہیں کیوں تارے چاند تو کریں کوشش اگر

دیکھو کا پیار کے کسی میں آانکھوں رنگ کے سجا

ملتے نہیں کیوں نظارے ہے صورت خوب دنیا یہ

ہے کرتی مضبوq سدا کو شاخوں کی برگد زمیں

ملتے نہیں کیوں سہارے کو سہاروں بے میں جہاں

ہے آانا ہی واپس مگر پھر سے ان کے ٹکرا مجھے

ملتے نہیں کیوں کنارے کو موجوں تاب بے مری

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

قتل بھی کرتا نہیں جانے و ہ قاتل کیا تھا

تھا کیا حاصل کا عشق مرے کے ندامت جز

لق رکھا سے منزل دور مجھے نے مسافت ذو

لر تھا میں تو راہ سر بر تھا کیا منزل س

دشواری سہی لاکھ تمھیں میں ملنے سے مجھ

تھا کیا مشکل بھی جانا کھو میں شہر خلقت

رویا عالم تو کو رونے پہ مرگ جواں مجھ

تھا کیا شامل بھی شوخ مرا میں والوں رونے

دے سونے مجھے تو محشر ہنگامۂ چھوڑ

تھا کیا دل ، دل ئگرم مجھے د یا دلا مت

کیونکر چپ خلش دوست ہوئے کو مجھ کر دیکھ

لر لیکن تھا میرا تو ذکر تھا کیا محفل س

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ضد سے کہتا ہے ہاں نہیں ہوتا

ہوتا نہیں مہرباں کیوں پہ ہم

لیکن گماں بد ہے بھی سے غیر

ہوتا نہیں گماں بد قدر اس

یارو ہے کی غم میرے داستاں

ہوتا نہیں ستاں ا د مگر غم

حاصل کا عشق ہے پوچھا نے تم

ہوتا نہیں زیاں و سود میں اس

ہیں جاتے روز تو ملنے سے اس

ہوتا نہیں بیاں عالم کا دل

دیکھو کر پوچھ سے پتھر کسی

ہوتا نہیں مکاں بہتر سے دل

شاید امتحاں ہے بھی گھڑی وہ

ہوتا نہیں امتحاں گھڑی جس

یارو لو پوچھ سے دل ہی اپنے

ہوتا نہیں داں راز بھی کوئی

٭٭٭٭٭٭٭

لک محبت کر رہا ہوں لے اب تر

ہوں رہا کر ہجرت سے دنیا تری

ہے چکی آا عاجز سے سجدوں جبیں

ہوں رہا کر بغاوت سے خداؤں

ہیں کھیلتی بہنیں میں آانگن مرے

ہوں رہا کر حفاظت کی عزت میں

گا ہو بھی ملنا سے تفصیل کبھی

ہوں رہا کر مت سلا صاحب ابھی

ہے رہی ہو زد سر روز برائی

ہوں رہا کر نیت کی نیکی مگر

٭٭٭٭٭٭٭

سبھی اصول سبھی تجزیے بدل جائیں

جائیں بدل ضابطے سب واسطے تمھارے

ہیں ہمدم ہیں سفر ہم مرے آاج لوگ جو

جائیں بدل راستے کہاں کہ خبر کسے

ہے رلاتی بڑا نسبت سے نام کے کسی

جائیں بدل حاشیے جب کے زیست کتاب

سوچا بارہا کے گبھرا سے سلوک ترے

جائیں بدل چلے بس اگر پہ دل ا ہمار

کا یاروں ہے تذکرہ جب سامنے کے عدو

جائیں بدل واقعے ، رکھیں نہ صداقتیں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بے حقیت اپنا ہونا یا نہ ہونا رہ گیا

گیا رہ کھلونا کر بن میں ہاتھ کے زندگی

مگر تھا سمجھا نمول ا کو آاپ اپنے نے ہم

گیا رہ پونا اونا تو لگا گرنے جب دام

تھے آاثار کے دیو میں قد کے اس تو تلک کل

گیا رہ بونا میں نظروں مری تو دیکھا آاج

لر اب ہے سوچتا طرح کس لوٹوں ، شہر امی

گیا ہ رسونا کا سورج ا ہو بکھرا میں شہر

لیا کر تکیہ کو ہاتھوں وہاں سوئے جہاں ہم

گیا رہ بچھونا اپنا پر گام کس خبر کیا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کبھی کٹتے ہوئے سر بولتے ہیں

ہیں بولتے پر ہوئے ٹوٹے کبھی

ہے گئی چھا خموشی باہر مرے

ہیں بولتے تر کبو اندر مرے

پر یہاں تھا ور ثمر کوئی شجر

ہیں بولتے پتھر کے آانگن ترے

ہیں اثر جادو بھی خاموش لب یہ

ہیں بولتے منتر تو بولیں جب یہ

رکھو نجیر ز ذرا کو ہم ابھی

ہیں بولتے پرور بندہ ہم ابھی

اکثر سے لوگوں لد سادہ ایسے ہم

ہیں بولتے کر بگڑ کیوں نجانے

تھا نہیں آاساں ٹنا کا مسافت

ہیں بولتے چکر کے بھر نیا د یہ

کیوں مہرباں ہے پر حال ہمارے

ہیں بولتے گر ستم سارے جسے

٭٭٭٭٭٭٭٭

سوچوں کے سنسان سفر پر

پر سفر انسان کیسے ہے

جانا پڑھتے ناصر میں راہ

پر سفر جانادیوان لے

کے دکھ پہرے پر رستے ہر

پر سفر نادان نکلو مت

سنہری آاس کی ملن ایک

پر سفر سامان ہے کافی

ہے جاتی ہی مل بھی منزل

پر سفر جان میری لیکن

٭٭٭٭٭٭٭

اچھے لوگوں سے گفتگو رکھنا

رکھنا آابرو کی لفظوں اپنے

qنہیں تو کڑی کی دیدار شر

رکھنا وضو با کو آانکھوں صرف

دو دے سزا تم چاہے جو کو مجھ

رکھنا و بر رو نہ محضر ا مر

نے زمانے دیا کر تو خاک

رکھنا نمو میں خاک مری اب

کہنا نہیں کچھ سے تجھ تو اور

رکھنا تو خیال کا دل مرے

٭٭٭٭٭٭٭

آادھا دھڑ تھا پتھر کا آادھا دھڑ انسانوں جیسا

کا پتھر پھونکا منتر نگری نگری نے دیو کانے

بھرے تالاب کے پتھر رے سا سے پانی کے پتھر

کا پتھر برسا پھر مینہ آائی آاندھی پتھر پہلے

تھا رکھا خوشبو خوشبو کو دامن کے جس نے میں

کا پتھر اگایا پھول اندر کے صحن میرے نے اس

تھے موسم جیسے پتھر سارے تھے پھول پھل کے پتھر

کا پتھر پتا پتا تھا میں جنگل اس کے پتھر

ڈالو کر دل کا پتھر خاطر کی ملنے سے بت اس

کا پتھر ملنا سے پتھر ہے لگاتا آاگ دیکھو

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یا ہے کہ تا حد نظر ہے راک خون کا د

ہے گھر ہی اپنا نہیں بھی گر ستم کوئے راو

گے کرو تدبیر واسطے مرے کہ مانا

ہے مفر کو کس مگر سے زخموں کے تقدیر

لل زباں نے حاکم ہے چھینی یوں سے ہنر اہ

ہے نگر کا چپ کوئی شہر مرا ہے لگتا

ملتی نہیں منزل کہ ہے جا بے شکوۂ اک

ہے سفر سمت بے تو ہے مسافت نام بے

پوچھو نہ حالات کے شہر اس سے شخص اس

ہے بسر خاک ، بپا رخا ، قبا چاک جو

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آان کوئی مرتا ہے جیسے ہر

ہے برتا کو زندگی یوں نے ہم

سے لوگوں مزاج سادہ سے ہم

لم ہے سنورتا کب بھی کاکل خ

کا چہرے حسین تیرے بھی اب

ہے تا بھر ا کو دیر کچھ نقش

ہے روتا ئی کو میں گلشن رات

ہے نکھرتا تب کا پھولوں رنگ

ہے دشمن کا آادمی آادمی

ہے ڈرتا سے آادمی آادمی

ہوتی نہیں غزل تازہ کوئی

ہے اترتا میں روح اک زخم

زاہد مانیے نہ باتیں کی دل

ہے کرتا تو آارزو مگر دل

٭٭٭٭٭٭

لل تمنا کی شورشیں لے کر دلوں میں سی

کر لے رونقیں پھول کچھ ہیں آائے میں چمن

ہے پیاسی کتنی ریت اب کہ ہے دیکھنا یہ

کر لے بارشیں میں صحرا ہیں آائی دعائیں

کرنا کیا تلاش نسبت سے نام کے کسی

کر لے گردنیں ہی اپنی پہ کاندھوں گے چلیں

گی دیں کر جہان روشن ہے یقین مجھے

کر لے مشعلیں ہوں نکلا جو میں زد کی ہوا

جائے جم دھوپ پاس مرے کہ ہوں برف وہ

کر لے گرمیاں میں دریا جو ہوں ا پڑ اتر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لر نظر میں جو شکل یار نہ تھی لq تا بسا

تھی نہ بہار مگر تھے کھلے پھول ہزار

کبھی تھا نہ رغبا ایسا کہ بات اور یہ

تھی نہ گار ساز بھی پہلے تو شہر فضائے

ہے شامل بھی غم اور کوئی کے اب میں جنوں

تھی نہ تار تار بھی یوں سہی دریدہ قبا

گیا ہی سو کے لے ساتھ تھکن کی بھر عمر وہ

لب جسے بھی پل ایک وہ تھی نہ انتظار تا

نمی میں موسموں تو سوچو گی آائے سے کہاں

تھی نہ بار اشک میں ساون بھی آانکھ کی کسی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آایا تھا صدا کی میں نے تیرے دروازے پہ

نے میں کی نا ا ہین تو کو پندار توڑا

نہیں بھی کچھ سوا کے غم ترے میں دامن میرے

یی پہ اس نے میں کی وفا کہ یہ تمھیں ہے دعو

رکھو تو سزا روا سزا ہو منصف ہی تم

نے میں کی خطا مانا چلو ہوں مجرم ہی میں

لک طرح کی خنجر میں دل ہے اتری باں ز نو

لک یہ سے کس نے میں کی دعا کی تعلق تر

ہائے بھی دل پارۂ گیا بار ہر ساتھ

نے میں کی جدا یاد تری بار سو سے دل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

دلیل دیتا ہے نہ خود قبول کر تا ہے

ہے کرتا فضول بحثیں پہ بات بات وہ

ہے برستا سے آانکھ مری کے بن اشک وہ

ہے کرتا لوصو غم ترا سے دل خون جو

ہے دیکھا نے ہم ہی کر آا میں شہر تمھارے

ہے کرتا پھول بھی تجارت کی خوشبوؤں کہ

کی لوگوں اداس ہم نہیں ہی خبر اسے

اا عاد وہ ہے تا کر لملو نیا د جو ہی ت

گا دے کر معاف وہ بھی کو گناہوں مرے

ہے کرتا قبول توبہ وہ نے میں ہے سنا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آاتا ہے دعاؤں سے ، دعاؤں کو بھلا کے

کے جگا د در سو وہ ہے جاتا میں آان اک

ہے نہیں اخلاص میں دونوں ہم کہ ہے حیرت

کے وفا میں دنیا ہیں گار طلب دونوں گو

گر زر ہیں لیتے بنا انمول بھی کو پتھر

کے نوا مفہوم ہیں جاتے بدل سے لہجوں

لو گن کو ت یا عنا پنی ا سخا اہل تم

لف اک کے گدا میں کاسے ہے باقی دعا حر

لن نے تو کبھی ہے دیکھا کو چمن اسیرا

کے گنوا بال و پر ہے گزرتی پہ ان کیا

فرشتے سے ہی ازل ہیں کرتے جسے سجدہ

کے خدا میں سانچے ہے جاتا ڈھل بھی انسان

وظیفہ کا حفاظت ، کی بہنوں ہے بات ہر

لد سبھی کے ماؤں ہیں بول اور کے بلا ر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ورق پہ نام جو ، پڑ ھتا تھا خواب چہرے سے

سے چہرے کتاب سرکی جو تھا چکا سو وہ

ہے بدلا روپ ایک فقط نے اس تو ابھی

سے چہرے نقاب گے اٹھیں کتنے تو ابھی

لیکن ہے ٹھیک تو ہنسانا ہنسنا ا ہمار

سے چہرے حساب کرنا نہ کا دل کے کسی

میں آانکھوں سوال کتنے ہوں جاتا کے لے میں

سے چہرے جواب سارے ہے جاتا کے دے وہ

مصحف کوئی خلش جیسے ہے پھول ایک ہر

سے چہرے ثواب میں چمن ہے بانٹتا جو

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حق نے کبھی بھی اس کو مجدد نہیں کیا

کیا نہیں مرشد کو میر میں سخن نے جس

نہیں سبب تو تم کا آابشار کے اشکوں

کیا نہیں شاید بھی یاد تو تمھیں نے ہم

تلک اب خواب وہی ہیں رہے بس میں آانکھوں

کیا نہیں سرحد کو لکیر کسی نے دل

ہے کام کا رذیلوں تو اچھالنا پگڑی

کیا نہیں مسند صاحب کو ہم جو کیا پھر

رہی لب زیر صدا جو خامشی نیم اک

لف اک کیا نہیں گنبد جسے صدا بے حر

ہم مکین کے گھروں چراغ بے تھے بھی کل

کیا نہیں مرقد بھی آاج نے کسی روشن

بھلا کیوں تو بھی ہو محترم وہ میں دربار

لف نے جس کو لفظوں کیا نہیں مد خوشا صر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقص کا روپ دھار کر دیکھو

دیکھو کر سوار مستی پہ سر

ہے ہوتا ب ا عذ کیسا ہجر

دیکھو کر گزار چندلمحے

ہے کیا کا بہار رزوۓ آا

دیکھو کر ربہا وۓ ز رآا

نہیں بھی کچھ اور ہے لمحہ ایک

دیکھو کر شمار لمحے گزرے

میں جنگل کے خاموشیوں سبز

دیکھو کر شکار حرفروشن

ہے تا ہو وصال تو بھی ہجر

دیکھو کر پکار سے لد اسے

ہے اجالا طرف چاروں اپنے

دیکھو کر مار سانپ کا خوف

٭٭٭٭٭٭٭٭

آارام سے اک بات بھی سنتا ہی نہیں ہے

ہے نہیں ہی کچا ابھی پھل وہ ہے بھی کڑوا

بتائے روپ ہر ہوا بدلتا کا اس خود

ہے نہیں ہی ایسا ہے سکتا ہو بھی ویسا وہ

ہے رہا لسا کئی ساتھ مرے شخص وہ

ہے نہیں ہی پوچھا تو ہے گزرا سے پاس اب

آاتا نہیں کر گزر سے آانکھوں جو ہے دریا

ہے نہیں ہی ا ٹھہر میں آانکھ کبھی تو نسو آا

دے مٹا کو جھگڑوں ہوئے پھیلے میں گاؤں جو

ہے نہیں ہی دانا کوئی ایسا میں گاؤں اب

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ایک کے بعد دوسرا دے گی

گی دے نیا غم روز زندگی

دوست ہیں لوگ نصیب شبنم تو ہم

گی دے رلا سحر لد با کو ہم

صلہ کا ظلمتوں کی بھر زندگی

گی دے کیا میں بھر رات چاندنی

ہے عورت نصیب خوش بڑی وہ

گی دے بنا بادشاہ مجھے وہ

کو اغوں چر ا ہو ہوں چتا سو

گی دے بجھا ، ا ذر جو پڑی چل

پر جانے ب ڈو کہ تھی خبر کیا

گی دے دبا کو لاش بھی ریت

سے چھاتی کی ماں ہوں لپٹتا یوں

گی دے دلا بچپنا وہ جیسے

تھا خطرہ بھی میں برسات پچھلی

گی دے گرا چھت برسات کے اب

دیوار سی چراغ بے اک یاد

گی دے بچھا میں صحن کو شام

٭٭٭٭٭٭٭٭

آاسماں دیکھیں کبھی ایسا بھی

دیکھیں مہرباں کو ستاروں سب

آائی اتر میں ماحول حبس

دیکھیں کیاں کھڑ ساری ہیں بند

والے دیکھنے کو آانکھوں تیری

یکھیں د کہاں نیاں ا حیر اپنی

گیا چھوڑ کے جلا شاخیں گیلی

دیکھیں دھواں دھواں گلشن سارا

کہاں جانے ہے گئی سو زندگی

دیکھیں لڑکیاں دیر کچھ آاؤ

ہے جلدی سی ذرا کو مجھ آاج

دیکھیں ستاں دا قی با کبھی پھر

لگ ہے کھاتا کاٹ بھی کو گل بر

دیکھیں تلخیاں کی لہجے کے اس

پر سر آاندھیاں سرخ چلیں وہ

دیکھیں دباں با سارے گئے وہ

ضرور تو ہے سمکلیم ریہی

دیکھیں زباں بر انگار کے رکھ

٭٭٭٭٭٭٭٭

ہم سخن فہم کہاں اس سے بھی کچھ کم تر تھے

تھے بر ز ا سخن سارے اسے تھا رو سخن وہ

کر ہو ور شاخثمر رہا ہی جھکتا تو میں

تھے سر خود بتاں ز نا اے ہی برگ بے سے تم

میں فرقت مزا تھا ہاں سوا سے ملنے تیرے

تھے سندر بہت ب ا خو مرے سے صورت تیری

سنگت اجلی وہ کی مروت اہل کہاں اب

تھے پیکر اک کا اخلاص جو گ لو کہاں اب

تھا اپنا بس کہ تھی فضیلت اتنی بس کی اس

تھے نوکر کئی جیسے اس تو میں گھر اس ورنہ

ہیں جاتے جل سے واز قوتپر مری اب

تھے شہپر مرے جو تک کل کہ دوست مرے یہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لت تعجیل ہو نہیں سکتا ا سے ہے عاد

سکتا نہیں ہو تفصیل کی درد وہ سنے

سہی صادقین کا زمانے اپنے لاکھ وہ

سکتا نہیں ہو تمثیل جو ہے وہ حسن یہ

چراغ کے سورجوں ہیں جلائے کو دن نے جس وہ

سکتا نہیں ہو قندیل کی چاند بجھائے

ہے باقی وقار کا اس سے نام ہی مرے

سکتا نہیں ہو تذلیل کی نام میرے وہ

ہے جاتا بھی ہو تبدیل تو خون ہمارا

سکتا نہیں ہو تبدیل تو باپ ہمارا

لر کبھی فقیر یہ کہ و د کہہ سے شہر امی

سکتا نہیں ہو تعمیل کی حکم یوں کرے

میں صورت بھی کسی بھائی ہے عزیز مجھے

سکتا نہیں ہو قابیل میں طور بھی کسی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کسے کہیں کہ ہمیں در د دل ستاتا ہے

ہے مسکراتا بھی تو جب پہ حال ہمارے

تھی حاصل کا زندگی مری د یا کی جس وہ

ہے آاتا یاد سے بھولے بھی نام کا اس اب

ملتا نہیں کہیں اب مجھے میں بھر شہر وہ

ہے کھاتا م شر ب مہتا سے نام کے جس وہ

ہے عادت ایک کی اس مگر ہے نہیں ا بر

ہے جاتا بھول جلد کرے وعدہ بھی جو وہ

دی لکھ شاعری میں مقدر میرے نے جس وہ

ہے گنگناتا وہ اب غزل میری ہی سنا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پانی پر بنیاد رکھی ہے

ہے ی بھر ریت میں دیواروں

ترچھی آاڑھی ٹیڑھی سیدھی

ہے لکھی تقدیر پر ہاتھوں

تھی ٹلی ج آا مصیبت ایک

ہے کھڑی آان مصیبت ایک

سارے سائے ہیں گم سے سر

ہے تنی دھوپ پہ دیواروں

ہوں رہا دیکھ سے حیرت میں

ہے پڑی آانکھ پہ تصویر اک

کو ہم سے پکوانوں کے غیر

ہے بھلی دال کی گھر اپنے

ہوں کرتا کیا د یا کو جس

ہے چکی بھول کی کب تو وہ

٭٭٭٭٭٭٭

دو شعر

گئی چھڑ برسات تو نڈھال ہوئے سے غم

گئی چھڑ برسات تو خیال ترا یا آا

ہوئے رکے آانسو پر امید اس تھے سے کب

گئی چھڑ برسات تو حال نے تم جو پوچھا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

دل جو ٹوٹا تو دیر تک روئے

روئے تک دیر تو سوچا کو اس

زہ ا و رد بند کا وں د یا تیری

روئے تک یر د تو کھولا نے ہم

بھی ہم دیے ہنس تو ہا چا نے اس

روئے تک دیر تو چاہا نے اس

وہ کہ رنتظا ا تھا ٹا کا ایسے

روئے تک یر د تو بچھڑا کے مل

لل کہتے طرح کس اور دل حا

روئے تک دیر تو پوچھا نے تم

٭٭٭٭٭٭٭

ہم نے کن مشکلوں سے ٹالا ہے

ہے والا چلنے لچا جو وقت

دیمک گئی کھا کو خوابوں سارے

ہے تالا پہ یوں لمار ا نیند

گی ہوں لتی پا نہ بیٹے مائیں

ہے پالا کو غموں جیسے نے ہم

تھا دیتا دودھ سے ہاتھوں کو جس

ہے ڈالا مار سانپ وہ آاج

والی دیکھنے ہے دہشت کی اس

ہے پالا سے بسوں بے کچھ کا اس

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لف تمنا لکھ رکھا تھا جہاں حر

تھا ہوا بھیگا میں خون کاغذ وہ

ہے آادمی جیسا برف بالکل وہ

تھا کہا تو نے میں بھی پہلے تمھیں

کی جس آاپ فائیں و ہیں سناتے

تھا رہا دن کچھ بھی ساتھ ہمارے

ہے سکی مل فرصت سے مشکل بڑی

تھا چکا مل کا کب تو خط تمھارا

تھی نہیں کھڑکی ئی کو میں بھر شہر

تھا رہا ہو مشکل سانس تو تبھی

تھی روشنی ایسی ک ا میں اندھیرے

تھا لگا آا جیسے سے چھت سورج کہ

ہوں رہا لکھ مسلسل خط میں اسے

تھا سکا ہو نہ تک فون سے جس وہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ بچپن کا سا تھی تھا

تھا قتی و غصہ کا س ا

تھے ئم ملا لبا کے اس

تھا ی ند چا ہ چہر کا اس

تھا سم مو جھڑ پت ایسا

تھا ی پتاہلد پتا

تھی چڑیا اک میں گھر اس

تھا کھڑکی ستہ رکا جس

تھی گرمی میں ہاتھ کے اس

تھا اصلی ملنا کا اس

تھا کا اس کچھ سب میں گھر

تھا تختی کی گھر بس میں

تھیں بستی یادیں میں جس

تھا لی خا ہ کمر وہ اب

٭٭٭٭٭٭

اپنے ہاتھوں میں کدالوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا

لت تھا نہ بھی کچھ سوا کے لوں کما میں محنت دس

ڈر کیا سے کسی راو سوا کے دیمک کو مجھ

تھا نہ بھی کچھ سوا کے رسالوں میں کمرے مرے

یوں میں سال و مہ کو اس کیا تقسیم نے تم

تھا نہ بھی کچھ سوا کے خیالوں خواب تو وقت

ہے رکھتا سند آاج وہ کہ ہیں کہتے لوگ

تھا نہ بھی کچھ سوا کے حوالوں میرے کبھی جو

کر جا لیں منا کو اس شبو تیرہ اے آاؤ

تھا نہ بھی کچھ سوا کے اجالوں میں دامن کے جس

اا ہی اا قصد پہ بات ہر بھی میں تھا چپ جواب

تھا نہ بھی کچھ سوا کے سوالوں بھی مقصد کا اس

دھندلے دھندلے تھے نقش کچھ کے تصویر ایک

تھا نہ بھی کچھ سوا کے لوں جا پہ ردیوا اور

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لم ہے کھڑا حیران گل موس

ترا اپنا طریقہ تھا مرا اپنا طریقہ تھا

تھا حوالہ پہلا کا ذات ی ہمار ہی محبت

ہے تا کر تصویر جسے جادو کا روپ تمھارے

تھا لمحہ کا ت حیر ہوا ٹھہرا میں آانکھ ہماری

کیسے دیا کر تنکا آاج کو اس نے غم تمھارے

تھا ہمالہ اک ہے سنا نے ہم تو زاد آادم یہ

تھی نکلی کے لے کو مجھ ساتھ میں سفر کے خوشبو جو

تھا بچہ سا چھوٹا اک میں تھی تتلی ایک لڑکی وہ

تھے تک بادشاہ کر لے سے جوکر میں ہاتھ کے کسی

تھا یکہ کار بے ہوا ہارا میں ہاتھ کے کسی

ہیں رہتے آاسیب بڑے میں حویلی اس ہے سنا

تھا گھنٹا کا مندر کسی پہلے وہاں ہے چھت جہاں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تھی خواہش کی بھیگنے بھر عمر

تھی بارش ایک میں قدرت کی اس

ا میر گھومنا پہ سڑکوں یونہی

تھی کوشش کی بھولنے اسے بس

تھی نرمی ایک میں لہجے کے اس

تھی دانش ایک میں باتوں کی اس

ہیں کہتے پیار بھی اب جسے ہم

تھی لغزش وہ بتا ! سچ ناصحا

ہیں آانسو آاج میں آانکھوں میری

تھی بخشش آاج میں ہاتھوں میرے

دیتے کیا شکست دشمن میرے

تھی سازش کی دوستوں کچھ میں اس

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آانگن میں وہ خوشبو کی طرح مہکا رہا میرے

رہا چمکا بھر رات ستارہ کا قسمت میری

ہوئے کہتے الوداع کے اس ہاتھ تھے رہے ہل

رہا بجتا تک دیر کنگن وہ میں کانوں میرے

طرح اس کچھ زندگی میں مشکلوں ہے گئی گھر

رہا جاتا غم کا ہونے نہ ساتھ تمھارے اب

لیا کر ا گوار کر ہنس انہیں میں دکھ ترے اک

رہا پڑتا واسطہ بھر زندگی سے غموں جن

غزل تازہ یوں اور اک گئی ہو ہوتے ہوتے

رہا روتا کر بیٹھ اکیلا میں کمرے اپنے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

چاند پر سوت کاتنے والی تھی بڑھیا یک ا میں بچپن میرے

ہے تصادم میں خواب اور خوف

بھی سیڑھی ہے میں کھیل بھی سانپ

نے آانکھوں خواب تھے دیکھے کے جس

لی لے بھی نیند سے آانکھوں نے اس

جیسے گئی ہو ت ا رطرف ہر

ہی لگتے آانکھ کی ج رسو ایک

تھے پر کے مور میں کتابوں سب

تتلی پھر یا کی پھول پتیاں

سے پوروں میرے ہی چھوتے کو اس

گی پھیلے میں بدن ے رسا دھوپ

کا چڑیا تھا گھونسلا اک میں چھت

کی نے چہچہا تھی رونق میں گھر

آاخر رہا میں سوچ بھر عمر

دی کر کیوں دیر میں آانے نے اس

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوا دیوار و در سے جھانکتی ہے

ہے لی اوڑھ چادر نے اس سے حیا

جائیں مان ہی ہم کہ ہے ضروری

ہے لگی کرنے جب ہی ضد پاگل وہ

! بچو نادان تھا کھیل تمھارا

ہے رہی مر دیکھو کو چڑیا مگر

رہنا میں زد کی ہجرتوں ہمیشہ

ہے یہی قسمت کی خاک ہماری

کو ہم تھا سمجھایا نے ماں ہماری

ہے زندگی نا ا مسکر میں غموں

ہے نشاں بے ا ہمار قاتل ابھی

ہے آادمی معزز وہ تک ابھی

پر بدن کے شاخوں ننگی نے ہوا

ہے لکھی تختی کی نام ہمارے

٭٭٭٭٭٭٭

اسے دیکھے زمانہ ہو گیا ہے ہے چکا گر لمحہ سے مٹھی مری

سے کل کا قاتل کے شہر امیر

ہے لگا ہ پہر پر شہر فصیل

ہے مستقل رشتہ سے غم ہمارا

ہے لکھا رونا میں ہاتھ ہمارے

جائیں ہار ہی ہم بار اس چلو

ہے ہوا آایا جیتنے وہ ہمیں

تھا کہا دکھ پہلا نے میں سے جس وہ

ہے پڑا آا پر مجھ بھی غم کا اس اب

اپنے شہر واپس سے جلدی چلو

ہے رہا رو کے کر یاد کو مجھ وہ

٭٭٭٭٭٭٭

اک شہر غریباں میں فقیروں کی طرح تھے

تھے طرح کی شاہوں میں توقیر جو لوگ وہ

ہیں رہے کہتے جاں دشمن ہم کو لوگوں جن

تھے طرح کی عزیزوں ہی اپنے بھی لوگ وہ

تھیں نشاں کا ہستی مری کو مجھ جو یادیں وہ

تھے طرح کی آانکھوں مری کو مجھ جو خواب وہ

ہے گیا بیت اب بھی سال یہ تو کو کہنے

تھے طرح کی مہینوں رات دن میں سال اس

آانگن تھا رہتا بسا سے خوشبو کی لہجے س ا

تھے طرح کی پھولوں بھی لفظ پھر تو بولے وہ

تھی نمی میں آانکھوں بھی کی ستاروں رات اس

تھے طرح کی چراغوں بھی آانسو تو رات اس ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ شاہز ا دے کو کسی حربے سے کالا کر دیا

دیا کر راجا کا پریوں کو دیو کانے نے اس

سبب کے جس بھرا پانی میں بنیاد کی شہر

دیا کر سارا شہر حوالے کے اس نے آاپ

بکف خنجر پھر اور پھینکا تیر نے اس پہلے

دیا کر حملہ سے تیزی بڑی پر فاختاؤں

کیا ایسا پھر اور کاٹے ہاتھ کے گر شیشہ

دیا کر اندھا کو شیشوں کے شہر سارے نے اس

نہیں پاتی رلا اکثر بھی یاد تمھاری اب

دیا کر اچھا سے پہلے بھی زخم یہ نے وقت

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نج سفر یہی کچھ تھا رئا ئیگا ن ریہ

تھا کچھ یہی کر لوٹ ہم جو آائے سے سفر

دی کر منتقل پہ کاغذ وہ گزری پہ دل جو

تھا کچھ یہی ہنر کچھ جو تھا پاس ہمارے

ہے کچھ جو احتجاج پھر یا ہے بزدلی یہ

تھا کچھ یہی تر چشم مگر میں بس ہمارے

تھا آایا کے لے پاس ترے خواب کتنے میں

تھا کچھ یہی پر خاک تری ن سما آا اے

رسوائی و ریا ، ملامت و طعن و سنگ یہ

تھا کچھ یہی خبر کیا اب میں شہر تمھارے

اپنا کر نہ ا بر جی ب ا لیاں گا کے کھا تو

تھا کچھ یہی بر نامہ اے بھی میں خط ہمارے

کرے نہ کرے ناتواں دل علاج اب تو

تھا کچھ یہی گر چارہ اے میں جیب ہماری ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

قاتل لمحہ تاریکی میں مٹ بھی گیا ہے

ہے رہا رینگ بھی اب پر زمیں خون تازہ

ہیں جاتے بجھ کر جل شعلے برنگے رنگ

ہے رہا گونج سے آاوازوں کمرہ خالی

تھیں آائی ٹیمیں گشتی بھی سال پچھلے

ہے پڑا پھوٹ ہیضہ بھی سال اس میں بستی

تھا لڑتا میں گھر خاطر کی لڑکی جس

ہے چکا بھول نقشہ اور ناک صورت کی اس

ہیں لیتے کر محبت لوگ کیسے جانے

ہے دیا چھوڑ ادھورا کام یہ تو نے میں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

متا ع درد و غم ہے اور میں ہوں

ہوں میں اور ہے بم و زیر ساز یہ

تھا گو شعر کشیدہ سر وہ کہاں

ہوں میں اور ہے خم میں گردن کہاں

کمرہ ہے خالی سے تیب تر کسی

ں ہو میں اور ہے کم سے کم اجالا

ہیں چکے تھک بازو کے قاتل مرے

ہوں میں اور ہے دم میں سینے ابھی

کرنا سیراب کو صحراؤں کہاں

ہوں میں راو ہے نم قحط یہ کہاں

اثاثہ میرا ہیں لفظ کچھ یہی

ہوں میں اور ہے قلم غذ کا یہی

٭٭٭٭٭٭٭

شعر حسن و کمال سے اترا

اترا سے خیال بام وہ جب

چہرہ کا چاند ہے دیکھا نے ہم

اترا سے جمال رنگ تیرے

نقشہ کا وقت پہ چہرے میرے

اترا سے سال و ماہ زینہ

میں آانگن ہمارے سایہ ایک

اترا سے لتھا کے سونے رات

یہاں تھا جانتا کون کو حسن

اترا سے مثال ی تیر نقش

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

خواب بہہ گئے سارے ریت کے گھروندے میں

میں رستے کے وفا اب ہے دیتا جان کون

دیکھا نہیں انہیں اب سے مدت ایک کہ گو

میں تالے ہیں بھی آاج تصویریں ساری کی اس

تھا سویا تو میں رات میں پہرے کے دوستوں

میں غے نر کے دشمنوں آایا طرح کس جانے

کر مل چلیں ڈھونڈنے یاد کی دنوں ان آاؤ

میں میلے عید کے مل تھے جاتے میں دنوں جن

کو رعایا ہے بھوک سے محنت کی دن رات

میں خزانے کے شاہ ہے دولت رشما بے

سے باتوں ساری کی اس تھے برستے سے پھول

میں لہجے نرم کے اس تھا ڈیرا کا خوشبوؤں

ہیں لکھے کھیت خشک میں لکیروں کی ہاتھ

میں ورثے کو بارشوں ہے سکتا بانٹ کون

آانکھیں جاگتی کی گھر سارے پھر ہیں گئی کھا

میں بٹوے آاج نے میں تھے رکھے خواب کتنے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وا ز ے تھے تین دریچے تھے رد و دو د

تھے رشتے میں گھر تھا گھر اک سا چھوٹا

کو وں تقدیر ہوئی بگڑی تا بنا ن کو

تھے نقشے جو پر ہاتھوں تا مٹا ن کو

کی چہروں روشن یادیں میں گٹھڑی اک

تھے ستارے ، چاند ، سورج میں گٹھڑی اک

تھے منڈلاتے گدھ پر و ا کے بستی یوں

تھے بستے پر یہاں گ لو دہ مر جیسے

ہیں رہتے تیرتے آانسو میں آانکھ کی اس

تھے شکوے کیا کیا سے مجھ جانے کو اس

تھے تے ہو پنچھی پہ پیڑ کے آانگن گھر

تھے جاتے آا واپس کو شام اڑتے بھر دن

ہوں سوتا کے کھا گولی کی نیند تو اب

تھے رہتے مچلتے خواب میں آانکھوں ان

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کبھی فا قہ کبھی لقمہ ملا ہے

ہے ملا ورثہ سے باپ یہ مجھے

خاطر کی رہنے میں شہر تمھارے

ہے ملا کمرہ اک سے مشکل بڑی

گا ہو رپو بھر سے طعن اگرچہ

ہے ملا نامہ ترا ہوں خوش مگر

ہے رہی جا سے ہم دور کتنی وہ

ہے ملا رشتہ میں پردیس اسے

ہے سادگی کتنی میں لہجے و لب

ہے ملا نکتہ میں ت با ہر مگر

ہوں گیا ہو جب سفر ہم تمھارا

ہے ملا خطرہ میں راہ ہر مجھے

٭٭٭٭٭٭٭٭ ترا ملنا بھی کوئی کھیل نہیں لگتا ہے

ہے لگتا مکیں کا نگری کی چاند کسی تو

ہے اڑتا دھواں پہ چہرے کے شہر سے خوف

ہے لگتا کہیں آاگ کوئی ہے بھڑکتی پھر

جاؤں کمانے میں ساور د ہے خواہش تری

ہے لگتا یہیں س پا ترے کہ ہے دل ا مر

سورج ستارے چاند سبھی میں ہاتھوں کے اس

ہے لگتا نہیں بھی کچھ یہاں میں ہاتھوں مرے

دو کہہ سے ہوا یہ گا پڑے پچھتانا کو اس

ہے لگتا حسیں سے پرندوں پتوں تو پیڑ

اتنا جتنا پہ شاخ حسیں ہے لگتا پھول

ہے لگتا نہیں میں کالر کسی جوڑے کسی

ہے جاتا سنا جھوٹ نیا بار ہر جو وہ

ہے لگتا یقیں روز اک گا جائے آا کو مجھ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سبز جنگل میں کسی مور کا پر کھلتا ہے

ہے کھلتا در کا خواب پھر تو ہے لگتی آانکھ

گا ہو صحرا تو آایا نکل سے جنگل جو میں

ہے کھلتا سفر ایک نیا قت و ہر پہ مجھ

میں جانے ڈھل کے خورشید ہے دیر ذرا بس

ہے کھلتا نظر دام اب میں دیر ا ذر بس

ہے کھلتی ھر د ا کی مسائل زنبیل ایک

ہے کھلتا گر کا تمناؤں را ز با ایک

بولے کر ہنس میں بزم اس جو ہوں بولا آاج

ہے کھلتا ہنر و عیب سب دیکھئے طرح اس

غلط حرف بجز میں معانی جیب تھا نہ کچھ

ہے کھلتا ہنر باب یہ سے فیق تو یعنی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہل رہے ہیں چند پتے شاخ پر

پر شاخ پرندے بیٹھے گئے اڑ

بڑے ہیں بستے آاسیب اب میں ان

پر شاخ تھے گئے رہ جو گھونسلے

گئے کھو ہمارے دن کے بچپنے

پر شاخ جھولے وہ لیکن ہیں بھی اب

سے خطرات خطر بے چڑیا ایک

پر شاخ آاگے ہے لپٹا اک سانپ

سے پیڑ پریاں کی سپنوں گئیں اڑ

پر شاخ جالے کے یادوں گئے رہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پورے جو بن پر سورج تھا اور وہ رستہ ڈھونڈ رہا تھا

تھا رہا ڈھونڈ رستہ وہ اور تھا سورج سر کے نڈھال ایک

ہے تاجا آا واپس پھر اور چڑھتا سیڑھی کی کرنوں وہ

تھا رہا ڈھونڈ رستہ وہ اور تھا سورج گھر شاید کا اس

گا جائے کھا جنگل یہ اب کو اس جیسے ہے لگتا یوں

تھا رہا ڈھونڈ رستہ وہ اور تھا سورج بھر لمحہ اب بس

گا ہو جاتا کو گھر کے اس رستہ اندھا کتنا جانے

تھا ڈھونڈرہا رستہ وہ اور تھا سورج پر ہتھیلی پ آا

تھا لگتا ڈر تھی سرخی ایسی پہلے سے غروب آاج

تھا ڈھونڈرہا رستہ وہ اور تھا سورج تر جیسے میں خون

تھا رہا کھوج رستہ میں راو تھی ظلمت باہر تو میرے

تھا رہا ڈھونڈ رستہ وہ اور تھا سورج راند تو کے اس

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ٹھہر کے دیکھتے ہیں قافلے سفر والے

والے در و بام ہیں رشتے سے روپ تمھارے

ہے والا گزرنے طوفاں سے شہر ہمارے

والے پر ہیں ہوئے بیٹھے کے سمیٹ پر کہ

لیکن خلعتیں ہیں ئی پا نے دانوں زبان

والے سر ہیں ہوئے رسوا میں شہر تمھارے

ہے رکھتا اتنا بھی تعلق سے دوستوں وہ

لے وا کر وہ رقد جس کبھی کام ہو اسے

تلقینیں کے کر کی بچنے سے حرام مجھے

والے گھر ہیں نہیں خوش اب سے کمائی مری

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آائیں ا تنے سودائی نہیں ہم ترے کوچے میں

نہیں رسوائی تیری کیا بتا ہی تو طرح اس

قتال مصروف ہے اعدا لشکر اک طرف اس

نہیں بھائی بھی ایک میں صفوں برہم طرف اس

کہاں بھی فرصت کی رونے میں یاد تمھاری اب

نہیں تنہائی شام ہ و ہمیں ہی میسر اب

کی دستار طرہ اس کلف بھی تم دیکھنا

نہیں پسپائی میں ہی لکیروں کی ہاتھوں کے اس

کلیم ہے تمنا کی داری دربار اک بھی یہ

نہیں دانائی تو لڑنا سے وقت ریا شہر

٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ چاند کا ملبوس وہ تاروں سے سجے خواب

خواب نئے ہے دیتی کو رات تھکن کی بھر دن

کے سنبھل اور ذرا رفتار نرمی اے

خواب تلے پاؤں ترے میں رستے جو ہیں رکھے

تھا یقیں پہ خوابوں کہ ہے گزرا وہ وقت اک

خواب ہوئے بھی دن وہ کہ ہے آایا یہ وقت اک

کر رہا نہ گریزاں سے حقیقت طور اس

خواب گئے ٹوٹ گر ا وقت کسی گا ہو کیا

میں دل ہیں قی با ابھی تمنائیں شکر صد

خواب رہے ہ زند کئی میں آانکھوں کہ شکر صد

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہتے ہیں راک اک کر کے پنچھی ا ڑ تے

ہیں رہتے جلتے پتے میں ہوا سرد

گیا لبھو بیٹھنا کوا پہ یوار د بس

ہیں رہتے آاتے میں گھر بھی اب تو لوگ

نہیں ص خا یسی ا میں ان کت شر اپنی

ہیں رہتے چلتے ے دھند کے نیا د یہ

دن سارا تھا نہیں کام کچھ بھی کو ان

ہیں رہتے سوتے رغ فا بھر دن بھی ہم

تھا ھتا پڑ کی ہی صر نا غزلیں بھی وہ

ہیں رہتے تے رو کے پڑھ کو میر بھی ہم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہر کوئی بے ا مان بیٹھا ہے

ہے بیٹھا گمان و وہم میں دل

ہیں رینگتے کے آا میں خوابوں سانپ

ہے بیٹھا آان میں کمرے خوف

پر آاسمانوں ہے اڑتی ک خا

ہے بیٹھا آاسمان پر ک خا

میں بستی اجاڑ بالکل ایک

ہے بیٹھا رفتگان غم بس

چھیڑیں غزل ئی کو بھی ہم آاج

ہے بیٹھا وہدرمیان آاج

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

خریدا ہتھیار جو نے میں گیا بیکار

خریدا رسالا کا فوج مری نے دشمن

ملائے ندار کما پہ فصیلوں تھے جتنے

خریدا دیوار پس محافظ کا در شاہ

خریدی دستار کی رنگ ہر سے بازار

خریدا خوار نمک اپنا اک سے شہر ہر

دار علم نے اس کیا کو محنث جنس ہر

خریدا زنگار سے شمشیر صاحب ہر

عمامہ ہے لایا کے ھونڈ ڈ لیے کے مسجد

یدا خر زنار و قشقہ لیے کے مندر

تھا بہت بھی فع منا میں تجارت کی خوشبو

خریدا زار چمن سے بہاروں نے ںچی گل

کمایا دیدار تو رہن رکھا کو آانکھوں

خریدا دیدار تو ہے خریدا کے دے دل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اڑتی تھی خاک شہر میں اتنا تو یاد تھا

تھا باد گرد کوئی کہ تھی غبار مشت

مجھے گھر نے محبت کی ماں ہے ہوا باندھا

تھا شاد میں جا بے مسافت اک میں ورنہ

مجھے خضر ہے رہا روک سے طرف چوتھی

تھا سواد مینو کوچہ تو وہیں لیکن

تھی مراد صورت تری خبر کیا سے آافت

تھا مراد دل مرا جانے کون سے بستی

گیا کھو میں عالم کے نیند سے مجھ رات وہ

تھا زاد خواب مرا جو ا پھر ڈھونڈتا میں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ہم سے پھر شمس و قمر چھین لیا

لیا چھین در نے دربان ایک

لکھا چلنا میں ربیگا نے اس

لیا چھین سر میں تاوان نے اس

ہے دی یہ سزا کی کرنے بات

لیا چھین ہنر کا کرنے بات

کا نے جا نکل سے گھر حوصلہ

لیا چھین سفر وقت پھر نے دل

کلیم کا پرندوں م معصو کتنے

لیا چھین گھر نے طوفان ایک

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گے رہو میں عالم کے نی یشا پر دیر تا

گے ملو سے کس یہاں ہے خرابی شہر یہ

ہے نہیں شرq کوئی کی نبھانے ساتھ اب

گے چلو ساتھ مرے دیر ذرا دوست اے

گے ملیں رکا ہوس کو تم جب میں راہ ہر

گے کرو یاد پھر کو داروں وفا جیسے ہم

ہے نسب و نام کوئی نہ منصب نہ مال کچھ

گے کہو سے اس کیا میں تعارف میرے اب

تھا دیا روک وہاں نے اس مجھے کے کہہ یہ

گے سنو میری یا گے جاؤ کہے ہی اپنی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭ کتاب زندگی کے باب کتنے

کتنے یاب نا گئے ہو لمحے وہ

ہوں ہا رجا ہی ڈوبتا میں ان میں

کتنے گرداب ہیں میں باتوں تری

ہے نہیں ہی فرصت سے رونے لہو

کتنے خواب تھیں دیکھتی آانکھیں یہ

ہے ہی رجا بنتی بوجھ محبت

کتنے اعصاب لگے تھکنے ے مر

ہے گیا ہو قامت دیو سے جب وہ

کتنے ب یا پا گئے ہو رسمند

رکھا ہاتھ پر جبیں نے اس ادھر

کتنے ب ا مضر لگے بجنے ادھر

ہیں بھری سے ستاروں جیبیں مری

کتنے مہتاب ہیں میں قدرت تری

٭٭٭٭٭٭٭٭

حال ہی دل کا مرے ایسا تھا پچھلی شام کو

کو شام پچھلی تھا رویا بہت میں اکیلے میں

رہا چمکا سبب کے اندھیروں میں بستی ساری

کو شام پچھلی تھا رکھا پر طاق جو دیا اک

گا آائے لشکر کا ابابیلوں پھر تھی خبر اک

کو شام پچھلی تھا پہرا کڑا پر فصیلوں سب

بجا جا ہیں کھڑے ٹیلے کے ریت پر جگہ جس

کو شام پچھلی تھا دریا ہوا بہتا جگہ اس

کہو عر شا کہو عاشق کہو پاگل مجھے تم

کو شام پچھلی تھا نکلا سے چاند سایہ ایک

میں جسم تھا بجھا شعلہ کوئی یا تھا گیا وہ

کو شام پچھلی تھا اٹھتا مرے میں دل سا درد

کلیم کو مجھ گئے ہو اب برس دو بچھڑے سے اس

کو شام پچھلی تھا میلہ کا ہجر میں گھر میرے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭ اس قدر با ندھنا بھی مشکل ہے

ہے مشکل بھی دھڑکنا اب کو دل

لگتی نہیں بھی نکھ آا میں ہجر

ہے مشکل بھی جاگنا تک یر د

کو کرنے ہے نہیں کوئی کام

ہے مشکل بھی بیٹھنا یوں میں گھر

میرے ہ و قریب ہے قدر اس

ہے مشکل بھی دیکھنا اسے اب

چھنک کی پائلوں میں جنگل ایسے

ہے مشکل بھی بھاگنا سے خوف

سورج کا ب خوا ہے روشن اتنا

ہے مشکل بھی لنا کھو تک آانکھ

٭٭٭٭٭٭٭٭

ہزار صدق و صفا ہے سرشت میں اس کی

کی اس میں سرشت ہے وفا سے دوستوں کہ

ہے باعث کا شعلگی مری وہ ہوں آاگ میں

کی اس میں سرشت ہے ہوا تیز یک ا کہ

ہے لگتا حریص کتنا کا تاج و تخت وہ

کی اس میں سرشت ہے غنا و فقر تھا سنا

دیتا نہیں دعا بد وہ میں حال بھی کسی

کی اس میں شت سر ہے دعا ف حر ایک کہ

ہوں آایا تو نکل پر سفر ساتھ کے اس میں

کی اس میں سرشت ہے دغا ہوں جانتا میں

کا ملنے سے بشر ہے نہیں قرینہ اسے

کی اس میں سرشت ہے خدا کیسا جانے نہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آادمی تھک جاتا ہے اپنے بوجھ کو ڈھوتے

ہے جاتا تھک دمی آا بیٹھے رغ فا بھر دن

ہے رہتا گزرتا وقت کرتے باتیں سے سفروں ہم

ہے تاجا تھک آادمی تنہاچلتےچلتے

ہیں جاتے اٹھائے ناز ے تیر تک اب

ہے تاجا تھک آادمی تے ٹھا ا رنج خر آا

چل نہ تیز اتنا ہے دوڑ لمبی جیون

ہے جاتا تھک آادمی یسے ا کہ ہیں کہتے

جائیں کر ہجرت بھی ہم شاید دن اک

ہے جاتا تھک آادمی تے لڑ سے قتور طا

ذرا دیکھ شمع پہلے سے نے جا بجھ

ہے جاتا تھک آادمی پہلے سے نے جا رک

ہیں تی جا آا تیں با سچی میں شعر خر آا

ہے جاتا تھک آادمی تے سنا ٹ جھو خر آا

میں لفظوں سادہ باتیں چھوٹی چھوٹی

ہے جاتا تھک آادمی چے سو زیادہ اتنا

ہے سایا اک سب جیون میرا تیرا

ہے جاتا تھک آادمی گے بھا پیچھے کے اس

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوا کے ہاتھ میں حیرت تھی اور کچھ بھی نہ تھا

تھا نہ بھی کچھ راو تھی محبت سے تم تو مجھے

کھڑی گوار سو ہے میں چمن صحن ربہا

تھا نہ بھی کچھ اور تھی ہجرت پہ پیڑ پیڑ کہ

جائے بھر ہی جی کہ ہم ملیں اتنا سے اس اب

تھا نہ بھی کچھ اور تھی صورت کی گریز یہی

ہمیں میں رت پچھلی تھا ملتا جو کے مسکرا وہ

تھا نہ بھی کچھ اور تھی ضرورت اپنی کی اس یہ

کیا شکایت یا سے زمانے ، شکوہ را تمھا

تھا نہ بھی کچھ اور تھی قسمت وہ بھی جو ہے ملا

کلیم انتظار کا راتوں کی وصال وہی

تھا نہ بھی کچھ اور تھی حالت کی فراق وہی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ی رہی راک عجب سی کیفیت طا

رہی چلتی ہوا ٹھنڈی بھر رات

گیا اڑ کے چہچہا پرندہ اک

رہی بیٹھی پر دیوار خامشی

گئے کھو پھر میں یاد تمھاری ہم

رہی پھیلی شنی رو جانب رچا

چکا جا کر بچھڑ اور بھی ملا وہ

رہی جلدی میں کام ہر اسے بس

کلیم میں آانکھوں خواب بھرتا کون

رہی خالی جگہ خالی تک دیر ٭٭٭٭٭٭٭

کوئی علا ج یہاں چارہ گر نہیں ممکن

ممکن نہیں نظر جز جگر چاک فوۓ ر

مانند کی خاک میں ہے ہوا تیز ایک وہ

ممکن نہیں سفر لمبا تو ساتھ کے اس اب

طرح کی بادلوں ہیں پھرتے بھاگتے خیال

ممکن نہیں تر چشم ابھی بند بھی کوئی

شاید پھروں بدر در یونہی عمر تمام

ممکن نہیں گھر گا جاؤں کے لوٹ میں مگر

جائے کٹ رات کی فرقت یہ سے طرح کسی

ممکن نہیں گر ا لمحہ کا وصال چلو

٭٭٭٭٭٭٭٭٭ عین ممکن ہے کبھی کم نظری سے گزریں

گزریں سے سری شوریدہ وہ ہیں دانا جتنے

رب یا اٹھائے ن کو نظر احسان بار

گزریں سے گری بخیہ جگر و دامان چاک

ہے جانتا جی کہ ہے جلایا کو جی وہ نے اس

گزریں سے ی سفر ہم و سائیگی ہم شوق

جانب اپنی ہیں لیتے بلا یوار د و در

گزریں سے خبری بے جب سے شہر ترے ہم

چلیں لوٹ طرف کی گھر نہیں ہی ممکن یہ اب

گزریں سے بدری در نہیں ہی ممکن یہ اب

یادیں نیلم کی درد اس ہیں جاتی مل بھی اب

گزریں سے مری ہسار کو جو میں سرما کبھی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مرے لشکر کے کماندار مرے قاتل تھے

تھے قاتل مرے ریا نہیں تو دشمن مرے

رنہ و کو عدو تیغ دیا خون خود نے میں

تھے قاتل مرے خوار بڑے میں دنیا بھری

پر ان لمحہ کا قتل مرے تھا آاساں کتنا

تھے قاتل مرے چار دو یہ سے مشکل کیسی

الے و پہننے دستار کی نام ے مر وہ

تھے قاتل مرے بردار حاشیہ مرے وہ

لائے بل مقا کے قد مرے مینار کتنے

تھے قاتل مرے خبردار سے عظمت مری ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ ڈھونڈ کے لائے گا کہیں سے بھی سند کو

کو رد کے بات مری ہے سمجھتا وہ لازم

ہے نہیں آاسان بھی جانا نکل سے بستی

کو حد کی طوفان ہے آاتا ھا چڑ بھی دریا

میں ستم مشق ابھی اغیار ہیں مصروف

کو مدد کا یاروں بھی ا لشکر نہیں پہنچا

عزت کی اسلاف سے نام مرے ہے روشن

کو جد سے نام مرے لوگ ہیں جانتے اب

لو بڑھا اور ذرا کو منڈیروں کی گھر تم

کو قد کے بہن کسی کیسے بھلا گے روکو

٭٭٭٭٭٭٭٭

مشقت کر کے لوٹا ہے کوئی دکھ نہ اسے کہنا

کہنا اسے نہ دکھ کوئی ہے بیٹھا کے آا گھر ابھی

ہے خوش وہ ہو سمجھے ہوا ہنستا کر دیکھ تم جسے

کہنا اسے نہ دکھ ئی کو ہے گھیرا نے غم بھی اسے

گا دے بہا ہی دریا وہ پر آانسو ایک تمھارے

کہنا اسے نہ کھ د کوئی ہے گزرا پہ تم جو یہاں

ہیں تے ہو محسوس بڑے دکھ ہوں خوش گ لو سب جہاں

کہنا اسے نہ دکھ کوئی ہے میلا آاج پر یہاں

میں دنیا ہے جیتی کر دیکھ خوشیاں تیری ماں تری

کہنا اسے نہ دکھ کوئی ہے بیٹا کا اس تو اگر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭ رہتا ہے ردل کو دھڑکا ہز ا

ہے رہتا رپا کے سمندر وہ

ہوں شامل عائیں د میں زندگی

ہے رہتا رقرا بر حوصلہ

والا چھوڑنے میں مشکل مجھے

ہے رہتا رشرمسا بڑا اب

ہے بیٹھا ہی سامنے مرے وہ

ہے رہتا انتظار پھر کا کس

کرتے نہیں وفا وعدہ آاپ

ہے رہتا اعتبار کا آاپ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ا س کے لہجے میں ایک خو ش بو ہے

ہے دو جا نام کا باتوں کی اس

ویا رنہیں میں سے مدت ایک

ہے قابو پہ نسوؤں آا رقد اس

ہے رکھتا ب میا کا مجھے وہ

ہے و را د کا کامیوں نا مری

ہو سمجھتے کیا کو ابرو و چشم

ہے پہلو ہزار جنبش ایک

ہے کھاتا د راستہ مجھے وہ

ہے جگنو ایک میں مٹھی مری

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہمارے ہا تھ ہو تی ہی نہیں ہے

ہے نہیں ہی تی ہو ت ما تو اسے

ہے جاگنا ہی جاگنا پر یہاں

ہے نہیں ہی ہوتی رات پر یہاں

تھا ہوا طے ملنا وز رسے جس وہ

ہے نہیں ہی ہوتی بات سے اس اب

بستی میں ے خطر کے سیلاب کبھی

ہے نہیں ہی ہوتی برسات کبھی

ہے گیا ہو کیا کو جیب ہماری

ہے نہیں ہی تی ہو اوقات گزر

٭٭٭٭٭٭٭٭

نہ ہو رمری حا لت پہ سوگوا

ہو نہ گار ساز ہی مقدر جب

تھا تک حد کی نظر دریا ایک

ہو نہ رپا کے نظر کشتی ایک

حاصل لا ہے گفتگو ہر سے اس

ہو نہ اعتبار کا باتوں کی جس

جائے کٹ وقت بھی ا ہمار جب

ہو نہ رانتظا بھی ا تمھار جب

بہتر گی د سا کی معنی و لفظ

ہو نہ مستعار ن ما سا و سر

٭٭٭٭٭٭٭

آان کوئی قہر مرے سامنے پھر تھا ہر

تھا پھر سامنے مرے شہر بھرا دھوپ اک

تھا ہوا لحظہ ہوئے بھولے جسے ہ چہر اک

تھا پھر سامنے مرے ٹھہر ا ذر دوست اے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کتنے رشتوں میں باندھے ہوئے لوگ ہیں

ہیں لوگ ہوئے رے ما کے مروت ہم

دوستو ہیں کون ہم ہے چھا پو نے تم

ہیں لوگ ہوئے ہوتے پید نا جو وہ

ہے چاپ کی خوف سے نام بے پہ چھت

ہیں لوگ ہوئے سہمے میں کمروں بند

سنو و ند پر تے جا کو نوں شیا آا

ہیں لوگ ہوئے اکھڑے سے ٹھکانوں ہم

بدن برہنہ ، شکستہ ، بریدہ سر

ہیں لوگ ہوئے کرتے بین ، چیختے

ڈر کا رہزن نہ رہبر نہ منزل کوئی

ہیں لوگ ہوئے بیٹھے میں رستوں یونہی

ہوا ٹپکا میں آانکھوں ہے سا لہو اک

ہیں لوگ ہوئے جاگے سے صدیوں جیسے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تھا مرے سامنے دشمن میرا

نکلا سے کماں کی کس پھر تیر

بھی پھر تھا خوش میں حال ہر تو میں

پھیلا میں لہو ن سرطا کا غم

رکھی ہمیشہ رات اک نے اس

دیکھا ہمیشہ ب خوا اک نے میں

ہے پریشانی کی چڑیوں ایک

کاٹا برگد سے چوپال نے تم

نے آانکھوں مری ہے رویا خون

لکھا تمنا حرف جب نے میں

رکھتا زندہ کو نام مرے وہ

ہوتا بیٹا سا چاند بھی شعر

کلیم ہوں رہتا سوچتا یہی اب

کرتا نہ اگر پیار اسے میں

٭٭٭٭٭٭٭

آازار نہیں دے سکتے ہم کسی شخص کو

سکتے دے نہیں تلوار میں ہاتھ کے آاپ

ہیں دیتے سفر کا سمندر سات اگر وہ

سکتے دے نہیں دیوار سایہ پھر تو وہ

جاتی دیکھی نہیں دنیا کی طرح اس سے ہم

سکتے دے نہیں بیدار یدہ د تمھیں ہم

جانب چاروں ہے رکھا بسا شور وہ نے ہم

سکتے دے نہیں اظہار صورت ئی کو اب

مگر میں فسانے ہے ضروری ذکر کا غیر

سکتے دے نہیں رکردا مرکزی کو غیر

دو رہنے سر ہی اپنا مرا پہ شانوں مرے

سکتے دے نہیں دستار و خلعت اگر تم

چاہے جگنو کبھی ، تتلی کبھی ، شبنم کبھی

سکتے دے نہیں درکار ہو بھی کچھ جو کو دل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جب درد کے مضموں نہیں ہوتے مرے مرشد

مرشد مرے ہوتے نہیں موزوں بھی شعر پھر

میں کہوں نہ یا کہوں بیمار کو چشم اس

مرشد مرے ہوتے نہیں افسوں سے چشم اس

ہیں نہیں دار ثمر شاخ جنوں و حسن کیا

مرشد مرے ہوتے نہیں مجنوں و لیلی اب

برادر کے یوسف ہیں آاتے نکل سے گھر ہر

مرشد مرے ہوتے نہیں ہاروں و سی مو اب

بھی ہنر کار مگر ہے ہوتا سے فیق تو

مرشد مرے ہوتے نہیں برسوں بھی بول دو

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آاتا ہے وہ بھی ا یسے سنورتا

ہے آاتا تا نکھر سم مو جیسے

ہے تی جا برستی ش ربا ایک

ہے آاتا جتا گر بادل ایک

میں سینے ہے لگا رکنے سانس

ہے آاتا اترتا ینے ز ف خو

ہیں چہرے ہزار کتنے کے اس

ہے آاتا لتا بد ے چہر کتنے

کلیم ہے کرن کی امید ایک

ہے آاتا چمکتا جگنو ایک

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آاشنا دل ہے یہ ایک ایک اذیت سے

ہے دل آاشنا سے محبت درد ہمارا

میں بارش آاج گی برسے بھی آانکھ ہماری

ہے دل آاشنا سے طبیعت اپنی ا ہمار

نہیں خرید فرصت اب کہ بات اور یہ

ہے دل آاشنا سے قیمت بھی تیری وگرنہ

کا اس نشاں نہ نام کچھ نہ شکل کی اس نہ

ہے دل آاشنا سے مدت کی عمر کا جس وہ

دھوپ کی جمال ترے تک ابھی ہے رہی چمک

ہے دل آاشنا سے حدت کی قرب تمھارے

دن کے ہجر کہ یا ہوں راتیں کی یار وصال

ہے دل آاشنا سے مصیبت کی طرح ہر یہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

چلو باغوں کو چلتے ہیں

ہیں پکڑتے چلوجگنو

شبنم راو لپھو ستارے

ہیں سمجھتے ہمارادکھ

ہے اڑتی راکھ میں ہوا

ہیں جلتے سے کاغذ کہیں

ہیں کرتے ت با تمھاری

ہیں لکھتے م نا تمھارا

ہیں ھتے پڑ کو ناصر چلو

ہیں سنتے راگ پہاڑی

ہیں دیتے دودھ ہم جنھیں

ہیں ستے ڈ کو خر آا وہی

ہیں رستے ردشوا ے بڑ

ہیں تے جا ٹ لو سے یہیں

ہو آاتے یاد تم ہمیں

ہیں سکتے بھول ہم تمھیں

ہیں کہتے شعر ہم تبھی

ہیں اترتے جب فرشتے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

چر مراتے خشک پتے اک ہوائے تیز میں

میں تیز ہوائے اک لمحے زرد ہیں رہے اڑ

میں افلاک وسعت سے طرح کس گا اڑے وہ

میں تیز ہوائے اک کھولے نہ پر اپنے نے جس

طرح کس میں بستیوں ہے رہی پھر اڑتی راکھ

میں تیز ہوائے اک دیکھے کھول آانکھیں کون

تھا معلوم کیا خواب میرے گے جائیں بکھر یوں

میں تیز ہوائے اک کھینچے نقش جو پر خاک

کلیم میں گلیوں تیرہ کی دل تھی ہیبت قدر کس

میں تیز ہوائے اک پہلے سے جلنے دیے دو

٭٭٭٭٭٭٭٭٭ بے فصیل شہروں میں بے امان بستی میں

میں بستی دھیان بے آائے نکل ف طر کس

پر رستوں اداس سب ہے تی پھر اڑتی راکھ

میں بستی نشان اک ہے حیرت نشان بس

ہے کہانی کی درد پر ہونٹوں کے کسی ہر

میں بستی بیان ہم کرتے دکھ اپنا سے کس

ہو عاری سے خلعتوں کی حاضر علوم جو

میں بستی دان نکتہ جائے مل کوئی کاش

آایا بھاگ سے گہ رزم وہ تو پڑا معرکہ

میں بستی پہلوان تھے کہتے لوگ کو جس

نکلے طرف کی شاہ کاذب و صادق سارے

میں بستی زبان ہم اپنا پھرے ڈھونڈتے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جب تقدیریں بن جاتی ہیں

ہیں جاتی بن لکیریں نئی

ہیں جاتی مٹ تصویریں کچھ

ہیں جاتی بن تصویریں کچھ

ہیں ہوتے کیا معنی کے چپ

ہیں جاتی بن تفسیریں کیا

ہیں ہوتے کیا نجانے خواب

ہیں جاتے بن رانجھے بھی ہم

ہیں جاتی بن ہیریں بھی وہ

کی دیوانوں صحرا صحرا

ہیں جاتی بن جاگیریں جب

تو ہو ملنا جب میں قسمت

ہیں جاتی بن تدبیریں سو

میں پیروں ان بھاگتے بھاگتے

ہیں جاتی بن زنجیریں خود

٭٭٭٭٭٭٭

گھر کے اندر گھر بنا کے اور بے گھر ہو گیا

گیا ہو منظر سرد جیسا ایک ہی طرف ہر

دوستاں ہجوم اک تھا رہا چل پیچھے میرے

گیا ہو پتھر سے حیرت پھر اور دیکھا کے مڑ

لگی آانے پا آاواز اک میں شب سکوت پھر

گیا ہو معطر گھر ا سار سے یادوں تری پھر

گیا کھو میں تاریکیوں کی رات سایہ جیسے

گیا ہو کر بچھڑ سے تجھ قدر کس اکیلا میں

کو ذات اپنی آاپ ہمالہ تھا سمجھتا جو

گیا ہو برابر تنکے اک میں آاندھی کی وقت آایا ہے جب بھی گفتار لے کے

ہے آایا کے لے رکا پر حرف

کے لوگوں بریدہ سر درمیاں

ہے آایا کے لے دستار ایک

میں آانگن میرے ہے آایا بھی جب

ہے یا آا کے لے گلزار و گل

تھے سمجھتے بھنور ہم جسے وہ

ہے آایا کے لے پار کشتیاں

میں گھر خیریت ! ہو الہی یا

ہے آایا کے لے تار ڈاکیا ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

چل مدح شا ہ میں ہم بھی کریں خون دل کشید

مروارید مالائے پارچہ ہفت و پیچ سر

ذکرکیا کا قاتل بازوئے و دست زور اب

نوید نو قفل ہے واسطے کے قفس اہل

جمال ارزانی میں شہر ہے لگی ہونے

خرید قوت رہی نہ جب میں طلب جیب

آارزو دامان تنگی کہ واحسرتا

عید ہلال دعائے اہتمام کہ مژدہ

معاملہ کا عمل و فکر ہے رہا الجھا

یزید بیعت یا ہے بیت اہل راہ یا

پہلے سے بھی کڑی ہے وہی نامراد رات

رات نامراد وہی ہے پڑی آا میں رستے

صب� خوشگوار اک میں خواب نے ہم تھی دیکھی

رات نامراد وہی ہے کھڑی پھر تو جاگے

پر بام گا چمکے میں دیر سی ذرا سورج

رات نامراد وہی ہے گھڑی دو ایک بس

خوف کا ظلمتوں مرے میں دل ہے بڑا جتنا

رات نامراد وہی ہے بڑی کہاں اتنی

ہم گے رہیں روتے تک دیر کتنی جانے نہ

رات نامراد وہی ہے جڑی پھر سے تاروں

گئی اتر بیانی شعلہ تیری میں دل ہر

گئی اتر روانی ساتھ ساتھ کے دریا

خیال طائر لگا اڑنے پہ فلک اوج

گئی اتر معانی روح میں قلم و حرف

رہے دیکھتے ہم ہوئے ڈوبتے کو سورج

گئی اتر سہانی شام ایک میں آانکھوں

گیا اکھڑ پلستر بوڑھا سارا کا کمرے

گئی اتر پرانی یاد ایک سے دل یا

سے بکھرنے خوشبو کی زلف تیری پہ شانوں

گئی اتر رانی کی رات جیسے میں سانسوں

کلیم مانتا نہیں ہی سچ کوئی کو سچ اب

گئی اتر کہانی جھوٹی کی اس میں دل ہر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہر قدم منادی ہے زندگی کے رستے میں

میں رستے کے زندگی ہے دی بچھا کیوں موت

جلدی کیا بھی قدر اس تیزی کیا بھی قدر اس

میں رستے کے زندگی ہے دی اڑا سی خاک

تک منزل پہ قدم ہر ہے نصیبی کم ایک

میں رستے کے زندگی ہے نامرادی ایک

سے بستی کی سامری ہوں آاگے کے گزر جب

میں رستے کے زندگی ہے زادی شاہ ایک

پائیں آا نہ کہیں دکھ ہوں حائل نہ کبھی غم

میں رستے کے زندگی ہے دی دعا یہ نے ماں

سورج ڈوبتاہوا ہے کہتا سے آادمی

میں رستے کے زندگی ہے آادھی تو خوشی ہر

کی خیالوں روشنی گے جائیں چھوڑ کہ ہم

میں رستے کے زندگی ہے دی جلا اک شمع

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شہزادہ جب چوتھی سمت کو جاتا ہے

ہے بتلاتا راہ کو س ا پرندہ سبز

ہے دیتا کا ھو د کو ہم ہی آاپ اپنا

ہے کھاتا کا ھو د ورنہ سے کسی کون

میں رستے بچھڑے ساتھی کے کر اک اک

ہے آاتا کیا کیا سامنے اب ہیں دیکھتے

ہے والی اترنے دھوپ میں بستی اس

ہے سمجھاتا یہ کو ہم برگد بوڑھا

ہے لگتا دن نیا ایک وہ لیے اسی

ہے لاتا ہمیشہ ساتھ کو سورج وہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ہر نقش اس کے چہرے کا سادہ رکھا گیا

گیا رکھا لبادہ کا فقت منا پر اس

گئے دیے زیادہ سے حد کو ہم بوجھ کچھ

گیا رکھا زیادہ سے حد سہل کو ہم کچھ

گئے اٹھ سے مجلس کے دیکھ آانکھیں کی اس ہم

گیا رکھا بادہ و ساغر و جام و مینا

رہا بانٹتا علم و فیل میں بزدلوں وہ

گیا رکھا پیادہ کو وں رد بہا جبکہ

گئیں کٹ میں مکانوں تنگ ہماری عمریں

گیا رکھا کشادہ کو دل ہمارے لیکن

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حسن شعلہ مثال کے پرچم

پرچم کے خیال ہیں گئے کھل

لشکر ہے کی ستم تیغ میں زد

پرچم کے سنبھال رکھنا بھی پھر

ہے لیتا تھام کے بڑھ حوصلہ

پرچم کے حال خستہ بازوؤے

ہیں اڑتے میں ہوا طائر سبز

پرچم کے جمال و حسن کہ یا

ہیں چمکتے سے چاند میں آانکھ

پرچم کے وصال عہد شام ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

میر ے بت کو کر کے زندہ لے جائے گا

گا جائے لے پرندہ سبز جانب کی اس

کی غلطی یاں کی سنانے خواب نے جس

گا جائے لے درندہ ایک آاخر کو اس

تھے نکلے کے چھوڑ سے شہر کو گلیوں جن

گا جائے لے شرمندہ دل میں گلیوں ان

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کھڑکی ہے نہ رستہ ہے کوئی پاس گھٹن کا

کا گھٹن احساس کو سانس مری ہے رہتا

سے ہوا تازہ کسی ہوں تا پھر ہوا بچھڑا

کا گھٹن راس مجھے یہ گز ہر نہیں موسم

سایا کا خوف اک میں اطراف کی شہر ہے

کا گھٹن انفاس مل شا ا ہو زہر ک ا

سجاؤ نہ بیلیں کی یاد کسی میں لد اب

کا گھٹن گھاس یہ گی لے کر کیا میں کمرے اس

رقصاں ہیں آاسیب تو میں مکانوں بند ان

کا گھٹن الناس سورۂ بس تو ہے چارہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

روگ دل کا لگا کے بیٹھ گیا

گیا بیٹھ کے جا میں کونے تو وہ

اب کر تر ا سے دیوار و در

گیا بیٹھ کے آا میں کمرے خوف

کو جس طرف ہر ہے دیکھا نے ہم

گیا بیٹھ کے گرا پردے آاج

ہے جلدی آاج تھا کہتا سے مجھ

گیا بیٹھ کے اٹھا کو مجھ پ آا

دیا نہ تک جواب کو مجھ نے اس

گیا بیٹھ کے چرا نظریں بھی میں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭ در و دیوار کو تاروں سے حسیں کیسے کریں

کریں کیسے زمیں کی گھر ترے کو آاسمانوں

کی جس فضیلت دستار ہے اغیار رہن

کریں کیسے یقیں کا عظمت کی سردار ایسے

وطن ارض مگر ہے سنت کی اجداد تو یوں

کریں کیسے مکیں تیرے بتا وز رتیں ہجر

سکتے دے نہیں کہ ہے لیا مانگ وہ نے اس

کریں کیسے نہیں کو اس ہیں میں چ سو اسی ہم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہم نے تمھارے شہر میں دو سانس تو لیے

ہوا کیا تو میں لہو زہر ہے ہوا شامل

کر ٹوٹ تدبیر سوزن ہے پڑی وہ لے

ہوا کیا تو میں رفو کام سارا ہے بگڑا

لیا کر زیر کو دشمنوں ہمیشہ نے ہم

ا ہو کیا تو میں عدو ہے گیا ہو یار اب

گئی بکھر سی قزح قوس ایک کی رنگوں

ہوا کیا تو میں کسو جو ڈھب تمھارا پایا

ہے نشین منبر بھی کے پی شراب واعظ

ہوا کیا تو میں وضو رند آاج ہیں آائے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

چھین نہ کتاب ، قلم ، کاغذ

چھین نہ خواب میرے سے مجھ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ہیں رہے دیکھ خرچہ کا گھر اور جیب اپنی

ہیں رہے دیکھ ہفتہ یہ گا گزرے کیسے

ہے اترا جا میں بستی کس نجانے چاند

ہیں رہے دیکھ رستہ سے مدت بس تو ہم

ہے والی برسنے گ آا پر بستی اس

ہیں رہے دیکھ نقشہ جو ہم کا مستقبل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آاتا نہیں ظالم کی اطاعت کرنا مجھ کو

کرنا بغاوت ہے لکھا میں تاریخ میری

اتنا ہے نہیں بھی ضروری کام یہ کہ گو

کرنا محبت ساتھ ترے ہے ضد بس کی دل

ہے لگتا ڈر تو ہیں چھوڑے میں میراث لفظ

کرنا حفاظت ہے مشکل سے اولاد مری

بھی کچھ کرتے نہیں شکایت ہے شیوہ اپنا

کرنا محبت طور اسی ہے سیکھا نے ہم

ثواب کا عبادت نفل کسی گا ہو کیا کو اس

کرنا عبادت فرض کبھی نہ آایا کو جس

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پھر میر کی زمین کوئی ڈھونڈنے لگے

لگے سوجھنے کئی شعر تو ملا دکھ اک

ہے زبان بد مگر ہے نہیں برا کا دل

لگے بولنے اگر ہے نہیں چتا سو وہ

رہا ہرا کا ہرے انتظار زخم اک

لگے سوکھنے اب کے راہگزار بھی شیشم

گیا بدل کچھ سب دیکھتے ہی دیکھتے یوں

لگے بھولنے مجھے کے گلی اس بھی رستے

کلیم مجھے تھا پڑا کام پہلا سے یاروں

لگے سوچنے طرح کی دشمنوں کو مجھ وہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جس کی خواہش پر وطن سے دور جا نا پڑ گیا

تھے بھی نسو آا میں آانکھ کی اس تو دیکھا کر لوٹ

تھا نہ ہ چار کچھ پاس کے اس کا غم ہمارے اک

تھے بھی جگنو تھی بھی تتلی میں جیب کی س ا ورنہ

درمیاں کے اس میرے تھی نہیں ہی محبت اک

تھے بھی پہلو دوسرے ہزاروں کے تعلق اس

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ وہ خوا ب تھا جو مری چشم تر کی قید میں تھا

تھا میں قید کی گر شیشہ ابھی تو مہ عکس کہ

نکلا سفر مرا گے آا سے وجود مرے

تھا میں قید کی پر و لبا مرے تو آاسماں یہ

تھے معانی کئی کے اس سے نام تمھارے

تھا میں قید کی ہنر دست جو لفظ یک ا وہ

پر مجھ تنگ سے طرح اس جہت شش ہیں ہوئے

تھا میں قید کی در و بام انہی ہوں گیا جدھر

یاد کی ماں ہماری ہے پھری ساتھ ہمارے

تھا میں قید کی گھر بھی لمحہ ی خر آا کا سفر ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تمھاری زلف سنورنے میں د یر لگتی ہے

ہے لگتی یر د میں ڈھلنے کے رات د سر کہ

ہے جاتا مان جلد بہت کہ ہے ٹھیک یہ

ہے لگتی دیر میں نے مکر کہ کہو تمھی

نہیں ہی مانتا تو چاہے ماننا نہ لد یہ

ہے لگتی یر د میں سمجھنے بات سی ذرا

واعظ اے ہوں ہوا بیٹھا پہ بلندی جس میں

ہے لگتی دیر میں اترنے سے یہاں مجھے

ےمار ہوا میں گلی گلی چرچا کا عشق ہہے لگتی یر د میں بکھرنے کے خوشبوؤں کہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شاخوں میں اڑی دھوپ ہے اے ظل الہی

الہی ظل اے ہے دھوپ پڑی لدھو اک

ہے نہیں بھی کچھ ا سو کے ندھیروں ا میں آانکھوں

الہی ظل اے ہے دھوپ جڑی میں شیشوں

ا ہمار ہے مقدر رات سیاہ ایک یا

الہی ظل اے ہے دھوپ سڑی سوکھی یا

لیکن دیجیے کٹا کو درختوں سبز سر

الہی ظل اے ہے دھوپ بڑی میں رستوں

شکایت جائے یہ نہ ہے شکایت حرف یہ

الہی ظل اے ہے دھوپ گھڑی چار دو

برسا نہیں قطرہ بھی ایک کوئی کا ش بار

الہی ظل اے ہے دھوپ کھڑی میں کمروں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہر دل سے نکل جانے کا امکان کھلا رکھ

رکھ کھلا سامان کا موم مت میں دھوپ یا

عفریت ہیں آاتے اتر شام ہر میں گاؤں اس

رکھ کھلا نگہبان پہ پیڑوں کا ورد اک

لیکن کے اشکوں رہیں جلتے دئیے پہ پلکوں

رکھ کھلا دیوان کا میر مرے میں ہاتھوں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ دل سے صبر و سکوں روانہ ہوا

ہوا زمانہ ہوئے دیکھے کو اس

تھا سا بوجھ ایک بھی پہلے پہ دل

ہوا بہانہ ک ا تو نا جا ا تیر

ہیں والے نصیب کیسے بھی ہم

ہوا خزانہ غلط ف حر ایک

ہے بہتر ہی سادھنا چپ تو اب

ہوا نہ میا عا اتنا سخن جب

سے اک ہر کلیم ملنا کے ہنس

ہوا نہ خسا شا کا فتنے ایک

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

درد ٹھہرے تو بات کرتے ہیں

ہیں کرتے بات تو لے آا چین

کھلتے نہیں کبھی سے کسی ہم

ہیں کرتے بات تو سمجھے کوئی

ہیں شکوے ہزار میرے میں دل

ہیں کرتے بات تو دے کہہ وہ جب

کہتے نہیں کچھ وہ کیونکر سے ہم

ہیں کرتے بات تو پیچھے آاگے

کو اس بس ہیں دیکھتے ابھی ہم

ہیں کرتے بات تو ڈوبے چاند

ہیں بیٹھے میں مگو گو اسی ہم

ہیں کرتے بات تو لے کہہ غیر ٭٭٭٭٭٭٭٭

تیرے کو چے کہاں گزرتی ہے

ہے گزرتی ئگاں ا رگی ند ز

خالی آاسماں سے تاروں چاند

ہے گزرتی نماں خا بے رات

باقی نہیں مزا میں زندگی

ہے گزرتی باں مہر مرے بس

کی اس ہے یاد میں کونے اسی

ہے گزرتی جہاں سی شنی رو

کلیم ہے فیت عا میں ہی خامشی

ہے گزرتی گراں کو ان بات ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آایا کرو ، بیٹھا کر و اور حال دل پوچھا کرو

کرو ا ٹھہر تو دیر تھوڑی پاس ہمارے تم

رہی پھرتی چاندنی بھر شب یوں میں گلشن صحن

کرو دیکھا ہوئے چلتے میں نیند کو اس جیسے

کرے دیکھا راستہ ا تمھار فرصت کسے اب

کرو جا کھو کو وقت میں البموں پرانی اب

رہو پڑھتے کو میر بیٹھے کے لے نم میں نکھ ا

کرو سوچا ا مر ہ چہر میں دھند کی آانسوؤں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کتنا شیریں بیان لگتا ہے

ہے لگتا مہربان وہ آاج

میں بستی اجاڑ ہمارا دل

ہے لگتا ن مکا خالی ایک

بونا کر بیٹھ پہ شانوں میرے

ہے لگتا جوان کڑیل ایک

کا وں لکیر میں ہاتھ ہے کھیت

ہے لگتا کسان بوڑھا وقت

ہوں گزرا بار بار میں سے جس

ہے لگتا امتحان وہی پھر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آائینہ روبرو بھی دیکھا کر

کر دیکھا بھی سو رچا مگر تو

ہے چپ طرح کی تصویر جو وہ

کر دیکھا بھی گفتگو م د وہ

ہے کرتا بات کے ہنس ہنس جو تو

کر دیکھا بھی لہو کا دل میرے

٭٭٭٭٭٭٭٭

تمھار ا سانس بھی دشوار کر دیا جا ئے

جائے دیا کر انکار سے حکم ایسے ہر

ہے گرایا کو سردار میں جنگ نے جس وہ

جائے دیا کر سردار کا قبیلے اسے

ہے کیا فائدہ سے چھپانے پیار میں دل یوں

جائے دیا کر اظہار سامنے کے اس اب

ہوئے پہنے تاج ہے بیٹھا پہ تخت آاج وہ

جائے دیا کر ہشیار کو خوانوں قصیدہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رات بھا ری ہو گئی ردن کڑے او

گئی ہو طاری موت پر گی ند ز

تھا نہ بیچا کبھی جو ہیں بیچتے

گئی ہو گاری روز بے قدر اس

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اک ملاقات ترے ساتھ جو کل اور ہوئی

ہوئی اور غزل ایک پڑا اور غم ایک

حیات ہے دائم کہ ہیں کہتے کے وقت اس بعد

ہوئی اور اجل شام گر بھی اور اجل اک ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس سے تعلقات کی حسرت بھی کچھ نہیں

نہیں کچھ بھی محبت ہے نہیں کچھ بھی نفرت

ہوئے اگے جنگل ہیں کے ضرورتوں میں گھر

نہیں کچھ بھی صورت کی گار روز میں بستی

بھی لفظ ہیں اثاثہ تھا رہا سمجھ تو میں

نہیں کچھ بھی قیمت کی خیال کھلا لیکن ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سو رنج و الم کھینچے ہیں سو درد سہے ہیں

ہیں کہے بول دو یہ جان مری کے جا تب

چلنا پہ سنگ رہ و خاک و خس و خار یوں

ہی بہے پھوٹ مری سے آانکھوں کہ ہیں چھالے

ہیں گزر راہ سر کاہ پر لوگ ہم

ہیں رہے کاٹ سزا کی مسافت وجہ بے

آارا دل حسن وہ پہ بام جہاں ہے بیٹھا

ہیں رہے پوچھ پتہ کا گھر اسی سے اک ہر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حیلوں کے ساتھ تھی وہ مثالوں کے ساتھ تھی

تھی تھ سا کے لوں ا حو م تما گفتگو وہ

گیا دیا کر کھڑا پہ سر میرے کو سورج

تھی ساتھ کے جالوں ا بھی سزا مری یعنی

ب ا گئی کھو کہاں نے نجا روشنی وہ

تھی ساتھ کے لوں خیا پہلے دیر تھوڑی جو

سے والدین مجھے ہیں ملے جو میں ترکے

تھی ساتھ کے رسالوں پرانے ان بھی دیمک

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ اس کا چہر ہ یاد نہیں ہے

ہے نہیں د یا لہجہ ، باتیں

ہے گیا بچھڑ سے کب جانے

ہے نہیں د یا یہ سا میرا

تھا بھی پہلے سے بستی اس

ہے نہیں د یا رشتہ کوئی

لیکن ہے یاد تھوڑا تھوڑا

ہے نہیں یاد قصہ سارا

لیکن تک اب ہے یاد دن وہ

ہے نہیں یاد مہینہ سال

چھیڑو نہ بات کی کوچے اس

ہے نہیں یاد کوچہ وہ اب ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آانکھوں میں خوابوں کا نگر تعمیر کرتے ہیں کہیں

ہیں کرتے تعمیر گھر بھی میں رستے کے پانی کہیں

ہیں مٹاتے خفگی طرح اس کی قامتی ہ کوتا وہ

ہیں کرتے تعمیر در شاہ پر وہاں جائیں جہاں

ہے ہوتا ہی اگھر ہمار منزل آاخری ہماری

ہیں کرتے تعمیر سفر ہیں بناتے رستے بڑے

ہیں دیتے دستار اسے ہوتا نہیں سر کا جس وہ

ہیں کرتے تعمیر پر م نا پھر بقے سا ہزاروں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭ دل کی باتیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ رکھی ہیں

ہیں رکھی چھوڑ مکمل غیر نے میں کر لکھ غزلیں کتنی

ہے چھوڑا رکھ سادہ بالکل کو جن سادہ ہیں ورق کتنے

ہیں رکھی چھوڑ مکمل غیر نے میں کر لکھ سطریں پر کچھ

رہوں بیٹھ کے کھول کاغذ پرانے آاج ہے چاہا جی

ہیں رکھی چھوڑ مکمل غیر نے میں کر لکھ یادیں میں جن

ہے حسرت کتنی کی دید تمھاری کو مجھ جانو بھی تم

ہیں رکھی چھوڑ مکمل غیر نے میں کر لکھ آانکھیں اپنی

ہو پہنچا صدمہ گہرا کوئی لکھتے لکھتے جیسے

ہیں رکھی چھوڑ مکمل غیر نے میں کر لکھ سوچیں پاگل ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہمارے لفظ بے تاثیر نکلے

نکلے تعمیر صورت تو کوئی

ہے گئی کھو کیسے نیند ہماری

نکلے تعبیر کی خواب ہمارے

توڑے کشکول و کاسہ تو کوئی

نکلے توقیر صاحب تو کوئی

ہے گری آا پر ہمی چھت ہماری

نکلے تیر شہ کھوکھلے ہی بڑے

ہیں ہوئے سمجھے رسن و دار جسے

نکلے زنجیر کی زلف تمھاری

ہے بہت مشکل بولنا سچ یہاں

نکلے گیر کف ترے سب پر یہاں

٭٭٭٭٭٭٭٭

آایا ایسا وقت محبت میں ہم پہ

میں صحبت کی اس باقی تھی گھٹن ایک

ہوں والا جانے کے چھوڑ میں شہر یہ کل

میں حالت ہر میں صورت ہر ملو آاج

ہے لگتا ایسا کر رہ میں گھر اپنے

میں ہجرت ہو ہا ربیت جیسے جیون

میں سوچوں ی د گنوا عمر ساری نے ہم

میں مہلت اس سکا نہ ہو بھی کچھ سے ہم

ہے پہنچا آا تعلق دور کتنی تو اب

میں حیرت پہلی تک اب ہیں بیٹھے ہم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شرح غم کیسے کریں لطف بیاں کیسے ہو

ہو کیسے زباں کی منہ ترے میں لہجے اپنے

لیکن قصیدہ ئی کو کریں نذر جا بھی ہم

ہو کیسے زیاں کا لفظوں یہ سے غریبوں ہم

کریں کیسے گلہ کا تغافل طرز اس کے اس

ہو کیسے میاں کہ ہے رہا پوچھ وہ سے ہم

کلیم کا شیشم پیڑہے وہ نہ ہے برگد تو اب

ہو کیسے یہاں بھی بسیرا کا پرندوں اب

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر چھوڑ کر مکین گھروں کے چلے گئے

گئے لکھے جالے کی مکان اس میں قسمت

گیا کیا پیمبر آال قتل تو پہلے

گئے کیے ماتم پر شام کی کربلا پھر

ملی سزا کی رسن و دار کو خطا بے ہر

گئے چنے قاتل واسطے کے منصفی جب

گیا دیا نقشہ کا جنگ پہلے کو دشمن

گئے دیے کو ہم کے شکست پھر الزام

نظر رہے چراتے سے حقیقتوں بھی کل

گئے سنے قصے بھی آاج سے چسپیوں دل ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مرا دیوان ہوتا جا رہا ہے

ہے رہا جا ہوتا آاسان غم کہ

ہے رہی جا بنتی روگ محبت

ہے رہا جا ہوتا سرطان مجھے

ہیں گئی اڑ چڑیاں سے شیشم ہرے

ہے رہا جا ہوتا سنسان گھر یہ

بھی فا و نقد ہم ہیں بیٹھے لٹا

ہے رہا جا ہوتا نقصان بڑا

میں بھر شہر ف تعار اک تھا وہی

ہے رہا جا ہوتا انجان وہی ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کچھ سبب ہے یا یونہی وہ بے سبب مصروف ہے

ہے مصروف شب و روز یاں لیے کے کس آادمی

رہے بیٹھا تلے کہ پیپل فرصت کسے ب ا

ہے مصروف اب بھی وہ اور ہوں مصروف اب بھی میں

کیے دیکھا اسے سم گم میں سوچ اکیلے ہم

ہے مصروف غضب کیسا مگر ہے نازک اتنا

سبب یہ بس کا تاخیر ہے میں ہونے فیصلہ

ہے مصروف لقب دل عا ، زمن شاہ ، حشم ذی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لازم تھی احتیا q کی حد سے گزر گئے

گئے گزر سے حد کی اختلاq سے اس ہم

گیا ہو کا پتھر میں شہر ے تمھار یوں دل

گئے گزر سے حد کی انبساq و قبض ہم

گئے چلے آاگے سے اڑان جو لوگ وہ

گئے گزر سے حد کی بساq جو لوگ وہ

کیوں ہیں گئے ہو گم سے بات ہماری معنی

گئے گزر سے حد کی انحطاq کے لفظوں

گئے ڈر سے پڑنے میں امتحان لوگ کچھ

گئے گزر سے حد کی صراq پل لوگ کچھ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ہم سے پھر وعد ہ خلا فی ہو گئی

گئی ہو کافی رات میں راستے

گئے بک آاگے کے اس منصف سارے

گئی ہو معافی سے عدالت ہر

پر جان ہے پڑا آا غم ا تر اک

گئی ہو تلافی کی خوشیوں ساری

کہیں غزلیں کل آاج اتنی نے اس

گئی ہو فی با نور بھی ی شاعر

٭٭٭٭٭٭٭٭

یار ہے یا عدو ہمی سا ہے

ہے سا ہمی بہو ہو آائنہ

پھر کی کسی نہیں سنتا بات

ہے سا ہمی گفتگو دم وہ

ہے چمکتا جو پہ خنجر اپنے

ہے سا ہمی لہو یہ یکھنا د

یارو ہو نہ آائنہ کہیں یہ

ہے سا ہمی روبرو کوئی پھر

پھر آاگے گی چلے کیسے بات

ہے سا ہمی خو تند اگر وہ

ملتے نہیں واسطے اسی ہم

ہے سا ہمی تو کہ ہیں جانتے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آان کوئی قہر مرے سامنے پھر تھا ہر

تھا پھر سامنے مرے شہر بھرا دھوپ اک

تھا ہوا لحظہ ہوئے بھولے جسے ہ چہر اک

تھا پھر منے سا مرے ٹھہر ذرا دوست اے

مقدر زندان رہے ہوتے میں عہد ہر

تھا پھر سامنے مرے زہر اک میں عہد ہر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس قدر بات بگڑ جائے گی معلوم نہ تھا

تھا نہ مفہوم کا بات مری ہے سمجھا جو وہ

کلیم تھیں برابر عنایات پہ سب کی ہ شا

تھا نہ محروم سے لطف اس بھی کوئی میں شہر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آانکھوں میں رہا جلوۂ چہرہ شب تاب نہ

رہا میں آانکھوں نہ خواب صد منظر وہ حیف

قطرہ قطرہ ہیں لیتے رو میں یاد تری اب

رہا میں آانکھوں نہ سیلاب وہ کا اشکوں یعنی

کیسے کیسے کو غیر دیے الزام نے تو

رہا میں آانکھوں نہ محراب بھی کا ماتھے کے اس ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ دیکھتا اک نظر تو کیا ہوتا

ہوتا کیا تو ادھر تا ہو غیر

ہی یوں آاسماں ہے دشمن اپنا

ہوتا کیا تو ہنر ہوتا بھی کچھ

بھی اب نہیں کیا تو ہے نہیں وہ

ہوتا کیا تو گر ا ہوتا بھی وہ

پایا نہیں چل ساتھ قدم دو

ہوتا کیا تو سفر ہم مرا وہ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

میں مسافر مزاج رکھتا ہوں

ہوتا کیا تو گھر بھی ہوتا میرا

کلیم تھی گی زند سخت رقد کس

ہوتا کیا تو بسر ہوتی یونہی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آایا درد اظہار تک نہیں

آایا نہیں تک یار در میں

سایہ تھا سمجھتا میں جسے وہ

آایا نہیں تک تار شب وہ

خیریت کے اس ہو میں گھر آاج

آایا نہیں تک آاجبازار

لیکن میں ہوں گیا آا تک دار

آایا نہیں تک کردار تیرے

دیکھا منے سا کو جاں دشمن

آایا نہیں تک رتلوا ہاتھ

خانہ مے کون ہے کہتا کو اس

آایا نہیں تک خوار مے ایک

لیکن ہے بلند سر بہت وہ

آایا نہیں تک معیار مرے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

دل لگی سی دل لگانے سے رہی

رہی سے بہانے اس رونق ایک

پر جان ہیں پڑے صدمے قدر اس

رہی سے مسکرانے ب ا زندگی

گیا بج بدلتے پہلو تو ایک

رہی سے آانے نیند پھر شب آاج

چارگی بے گئی بن چارہ ایک

رہی سے آازمانے ہمت ایک

دوستی سے آاسماں ہے کی نے میں

رہی سے دانے و آاب نسبت کی اس

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آازار دوستا وہ لگ گیا ہے جان کو

دوستا زار بے سے جان ہوں ہوا بیٹھا

کچھ ہے نہیں پنہاں میں آاستینوں شکر صد

دوستا تلوار میں ہاتھ تیرے حیف صد

کوئی نہیں مسیحا سا تجھ تھا سنا نے ہم

دوستا بیمار گیا مر کہ سنا نے ہم

گیا بدل اپنے راستے بھی وہ کہ قسمت

دوستا بار گھر واسطے کے جس تھا چھوڑا

ہاتھ کے دشمنوں یوں کبھی پہنچتے نہ تک مجھ

دوستا چار دو بھی اور سے تم جو ہوتے ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نہ پر ی کی تھی نہ وہ جادو کی

کی جگنو ایک تھی نی کہا وہ

ہے آاتی میں خامشی کی موت

کی گھنگھرو جیسے آاواز کو مجھ

ےآئ نکل زن تیغ طرف ہر کی و ابر نے کس تھی چھیڑی بات

کلیم نہ سکا سو پہ تکیوں نرم

کی بازو کے ماں تھی عادت کو مجھ

ہیں تے ہو دام و دانہ و ناوک و شکار

ہیں ہوتے اہتمام وہی سے پھر میں چمن

جلوے ہیں لیتے روک ہمیں پہ قدم م قد

ہیں ہوتے گام تیز کہاں لوگ ایسے ہم

باتیں کی حلال اکثر ہیں ہوتی پہ زباں

ہیں ہوتے حرام لقمے میں ہاتھ اگرچہ

ہے سلامت جگہ اپنی بھی عشق تمھارا

ہیں ہوتے کام اور مگر میں ندگی ز جو

کلیم تھے رہے کہہ یہ بچے کے گاؤں میں گلی

ہیں ہوتے عام دیدار میں شہر ہے سنا ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آایا دل کے ٹوٹ جانے کا سانحہ نکل

آایا نکل زائچہ سے لکیروں کی ہاتھ

نے ئی نما خود شوق تھا بسایا جہاں وہ

آایا نکل آائینہ بھی پیچھے کے آائینے

کا مہری سرد کی اس تھا چھیڑا ذکر نے کس

آایا نکل سلسلہ کا زاروں برف و باد

ہیں لگتے ہی دائرے بھی باہر کے دائرے

آایا نکل دائرہ بھی اندر کے دائرے

سرسوں لگی پھوٹنے میں خیالوں مرے پھر

یا آا نکل مسئلہ کا حشت و و جنون پھر

ں؟ لو کر کیوں یقین میں پر باتوں جھوٹی کی اس

آایا نکل سہ وسو پھر سے بل ٹھائے ا پھن

تھا لوٹا کے لے کو گھر دھول کی سفر ابھی میں

آایا نکل راستہ کا مسافت نئی پھر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یہ جانتے تھے کہ ملنا اداس کر دے گا

گا دے کر اداس اتنا کہ تھی خبر کسے

عزیز خیال ترا کتنا ہے بھی کر جان یہ

گا دے کر اداس رہنا کا خیال ترے

ہوں میں کوششوں کی ہونے تو ہوں نہیں میںکچھ

گا دے کر اداس ہونا میں بعد اگرچہ

کا خوشیوں ڈھیر گا لگائے گرد میرے وہ

گا دے کر اداس دگنا مجھے طرح اس اور

رہا پھرتا میں پریشانیوں میں دن م تما

گا دے کر داس ا کتنا کو شام چاند کہ

پروف ریڈنگ اور ای بک: اعجاز عبید

آارگ، کتابیریاردو لائبر آائںی ڈاٹ ڈاٹٹی فاسٹ نی ڈاٹ شکشی مشترکہ پی ڈاٹ کام کی فر250کام اور کتب ڈاٹ

http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com,

http://kutub.250free.com

top related