اللہ الرحمن-الرحیم

12
مِ تحریل عن اورروق اعظم رضی ال فا ہ ہ متع ہدیم رسول سعینا غلم مول عل ہت اسلم کی شخصی عبقریل عن کیروق رضی ال حضرت عمر فا ہ ہ تاریخ آپ کا دور تی حیثیت رکاب کیں ایک زریں ب می ہے۔ ھومت کی خلفت،حکلی اورم کی خوشحاانی،عوا کی فراونصافت،عدل و ا وسع ترویجون کی اسلمی فن ایوانوں پر حضرت عمر مشرکین کر اور کفا اقی کا دور ت و تر ے ھ۔ یبت اور دشت و کی ہم لرز براندام حکا رعب س ی،ان ک تی حکومت جبل پر ان ک ہ ے ے ھا اور صحر اور ت ھے ی ن تم عدولی کی جرات ی حک دریا کو ب ہھ ھ-———————————————————— زیاد جتنحاسن و کمالت م ی عن ک تعالل ق اعظم رضی الِ فارو ہ ے ے ہ ہ یوں تومامی حضرات ا ی کثرتن کی ب قدر حاسدیں،اسی ی ہ ہے۔ ھ ہروق اعظم س جناب فا یں لیکن ت عداوت رکام صحاب س تم ے ھےہ ے ہ با ر انداز سس کا بیان ا قدر بغض و حسد ان کو جس ہے۔ ہ ے ہ ہےرت اسلم کو عما خدمات جن سام عمر کی و تم حضرت ے ہ یںوب نظر آتیجموع عی مل ان یں مستحکام ا ۔ ہ ہ ہ ک کیا جاتا ی پر ایک اعتراض ی بر کی ذات گرامی حضرت عم ہ ہے ہھ محض اپن رائ س متعی الرغم علام ک اسلمی احک ان وں ن ہ ے ے ے ے ے ہ دمَ کسی کو سامن کٹیٹر شپ ک اور ان کیم کردیا کو حرا ے ے ڈرا ل تقی کا س ا یی ک حضرت علی ب ن وئی ح ت کی جرأت مارن ے ہ ہ ھ ہ ۔ ہہ ے ک حضرت علید دم بخود ر جاتی عقل و خر کر خاموش وگئ ہ ہے ہ ے۔ ہ

Upload: other

Post on 31-Oct-2014

536 views

Category:

Documents


3 download

DESCRIPTION

 

TRANSCRIPT

Page 1: اللہ الرحمن-الرحیم

م ہفاروق اعظم رضی الل عن اور تحری ہہمتع

ہعلم مولنا غلم رسول سعیدی

ہحضرت عمر فاروق رضی الل عن کی عبقری شخصیت اسلم کی ہتاریخ

تی آپ کا دور ہے۔میں ایک زریں باب کی حیثیت رک ھخلفت،حکومت کی

وسعت،عدل و انصاف کی فراوانی،عوام کی خوشحالی اوراسلمی فنون کی ترویج

کفار اور مشرکین ک ایوانوں پر حضرت عمر ا ےو ترقی کا دور ت ۔ ھیبت اور دشت و ہکی

ی،ان ک رعب س حکام لرز براندام ہجبل پر ان کی حکومت ت ے ے ھھےت اور صحرا اور

ی ی حکم عدولی کی جرات ن ت ھدریا کو ب ہ ھ-————————————————————

ی عن ک محاسن و کمالت جتن زیاد ہفاروق اعظم رضی الل تعال ے ے ہ ہحضرات امامی یوں تو ی کثرت ہیں،اسی قدر حاسدین کی ب ہے۔ ھ ہیں لیکن جناب فاروق اعظم س ت ےتمام صحاب س عداوت رک ہ ے ھ ے ہ

ر ہے۔ان کو جس قدر بغض و حسد اس کا بیان انداز س با ہ ے ہ ہےےحضرت عمر کی و تمام خدمات جن س عمارت اسلم کو ہ

یں یں مجموع عیوب نظر آتی ۔استحکام مل ان ہ ہ ہی کیا جاتا ک ہحضرت عمر کی ذات گرامی پر ایک اعتراض ی ب ہے ھ ہوں ن اسلمی احکام ک علی الرغم محض اپن رائ س متع ہان ے ے ے ے ے ہ

دم کٹیٹر شپ ک سامن کسی کو ےکو حرام کردیا اور ان کی ے ڈارا ل ی تقی کا س تی ک حضرت علی ب ح وئی ےمارن کی جرأت ن ہ ہ ھ ہ ۔ ہ ہ ے

وگئ عقل و خرد دم بخود ر جاتی ک حضرت علی ہکر خاموش ہے ہ ے۔ ہ

Page 2: اللہ الرحمن-الرحیم

ی ک ان ک سامن بروایت شیع حضرت سید ہکو جان اتنی پیاری ت ہ ے ے ہ ھکلم الل میں ت ر ہکی ب عزتی کی گئی اور و خاموش دیک ہے۔ ے ھ ہ ے

شریعت مصطفوی میں ل ے۔تحریف کردی گئی اور ان ک لب ن ہ ہ ےی اور علی ساکت و جامد وتی ر ہعمر کی رائ س ترمیم ہ ے ے

،عزت و آبرو ک تحفظ اور ناموس ملت ک لئ اگر جان ن دی ہر ے ے ے ہے؟ ر اس جان کا اور کیا مصرف ہےجاسک تو پ ھ ے

یں مارا موضوع ن ار خیال سردست ہے۔تقی ک موضوع پر اظ ہ ہ ہ ے ہذ ےعنوان گفتگو اس وقت ی ک حضرت عمر ک دامن کو تنفی ہ ہے ہ

ےحرمت متع ک سبب ترمیم دین اور تحریف شریعت ک غلط الزام ے ہوں ک لئ دلئل کی بصیرت ،بلک ان آنک ےس پاک و صاف کیا جائ ے ھ ہ ے ے

یں آتی یں اس دامن کی پاکیزگی نظر ن یا کی جائ جن ۔م ہ ہ ے ہےمتع کی تعریف اور اس ک احکام ہ

یں جس میں مقرر معاوض س معین مدت ت ہمتع اس عقد کو ک ے ہ ہ ہ ے ہ ہوت ک لی حاصل کیا جاتا ہے۔ک لئ کسی عورت کو قضاء ش ے ے ہ ے ے

وں کی ضرورت ن ممنوع عورتوں ک ےاس عقد ک لی ن گوا ہ ہ ہے ہ ہ ے ےنی،ن نسب، ن میراث ،ن سک ۔لی تعداد کی کوئی قید ن نفق ہ ہ ہ ہ ہ ہے۔ ے

اں فریقین ار، طلق اور عدت،متع اس سب س آزاد ج ہایلء،ظ ہے۔ ے ہ ہیں جنسی تسکین کا عمل وئی و ،مدت اور اجرت ط وئ ہراضی ہ ے ے ہ

وگیا ہشروع ہرواج متع اور حضرت عمر

ی اسلم الت کی قبیح رسموں میں س ایک رسم ت ۔متع زمان ج ھ ے ہ ہ ہہن جس طرح تدریجی عمل ک ذریع دوسری برائیوں کو رفت رفت ہ ہ ے ےی فتح مک ک بعد حرام کر دیا اور ےختم کیا،اسی طرح متع کو ب ہ ھ ہ

ےکتاب و سنت میں اس کی حرمت ک دلئل پوری وضاحت س ےیں ۔سات موجود ہ ھ

ےحضرت عمر ن جس طرح شریعت ک دوسر قوانین پر سختی ے ےات ھس عمل کرایا،شراب و زنا پر حدود جاری کیں،چوروں ک ہ ے ے

وں کو سزائیں دیں،اسی طرح آپ ن پوری شدت وٹ گوا ،ج ےکاٹ ہ ے ھ ےی تبلیغ اور تنفیذ کی جو لوگ ب ی س حرمت متع کی ب ےو تند ۔ ھ ہ ے ہ

یں سخت الفاظ ت ت ان ہعلمی اور غفلت کی بناء پر متع کرت ر ھے ے ہ ے ہو ن دین جس طرح حضرت ابوبکر ن زک دید کی ےس تنبی اور ت ہ ۃ ے ۔ ہ ہ ےہوالوں کو للکارا اور سختی س ان کا محاسب کیا تو اس کا ی ہ ے

یں،اسی طرح حضرت عمر و ک شارع ا ک و زک رگز ن ت ہمطلب ے ۃ ہ ہ ھ ہ ہد ےن متع کرن والوں کو بروقت ٹوکا اور اپن دور خلفت میں حدو ے ہ ے

Page 3: اللہ الرحمن-الرحیم

ی پس حضرت عمر ب ون دیا یں ی کی حرمت کو پامال ن ل ھا ۔ ے ہ ہ ہیں مبلغ ت ھے۔حضرت ابوبکر کی طرح شارع ن ہ

ےشریعت اسلمی ن متع کو قطعی طور پر قیامت تک ک لی حرام ے ہ ے ہم اس ک ثبوت میں قرآن کی آیات اور احادیث صحیح ہکردیا ے ہ ہے۔ےرقم کریں گ اور امامی کی طمانیت کی خاطر ان کی صحاح س ہ ےلراء دلئل و د لئیں گ اور اخیر میں امامی ک معرک ا ی شوا ۃب ے ہ ے ہ ھ

ین پر نقد و نظر کریں گ فنقل و بالل التوفیق ۔برا ہ ۔ ے ہےحرمت متع کتاب الل س ہ ہ

: ہےالل عزوجل فرماتا ہل أ تم ف إن خ ف ع با ور لث ث و نى ث ء م نسا كم من ال ل طاب ا ما كحو فان

كم ن يما أ كت ل و ما م أ ة د واح ف ا لو د ع ت، تین تین یں ان س نکاح کرو،دو دو س ے“جو عورتیں تم کو پسند ے ہ

یں ان ک درمیان نا انصافی کا ےس اور چار چار س اور اگر تم ہ ے ے” و تو صرف ایک س نکاح کرو یا اپنی کنیزوں پر اکتفا کرو ۔خدش ے ہ ہ

)3(النساء :جرت ک بعد ےی آیت سور نساء س لی گئی جو مدنی اور ہ ہے ہے ے ہ ہ

ل استطاعت س ، اس آیت میں الل تعالی ن ا وئی ےنازل ہ ے ہ ہے ہوت کی جائز صورتیں بیان ہخطاب فرمایا اور ان ک لی قضاء ش ے ےیں اور اگر ان میں ہفرمادیں ک و ایک س چار تک نکاح کرسکت ے ے ہ ہ

ر اپنی کنیزوں اور باندیوں س نفع ےعدل قائم ن رک سکیں تو پ ھ ھ ہوت کی جائز ی قضاء ش یں اور بس اگر متع ب ہاندوزی کرسکت ھ ہ ۔ ہ ے

ی ان صورتوں ک سات ذکر وتا تو الل تعالی اس کا ب ھصورت ے ھ ہ ہی اس بات کا بیان ک ہفرمادیتا اور اس جگ متع کا بیان ن کرنا ہے ہ ہ ہ ہیں اور اس طرح اوائل اسلم س ل کر فتح مک تک ہو جائز ن ے ے ہے ہ ہ

ی،اس آیت ک ذریع اس کو ہمتع کی جو شکل معمول اور مباح ت ے ھ ہ۔حرام کردیا گیا

و ک اس آیت میں لفظ نکاح متع ہامامی حضرات کو اگر شب لحق ہ ہ ہ ہوگیا ی ثابت ذا نکاح ک سات متع کا جواز ب ل ی شامل ہکو ب ھ ہ ھ ے ہ ہے۔ ھہتو اس ک ازال ک لی گزارش ک اس آیت میں بتا دیا گیا ک ہے ہ ہے ے ے ہ ے

ہنکاح کی حد صرف عورتوں تک اور متع میں عورتوں کی تعداد ہےر یں تو ظا پس جب ی متضاد حقیقتیں یں ہک لی کوئی قید ن ہ ہ ہے۔ ہ ے ے

ورن اجتماع یں کیا جاسکتا ہ ک ایک لفظ س ان دونوں کا اراد ن ۔ ہ ہ ے ہ ہےہضدین لزم آئ گا اور الل تعالی کا کلم اس قسم کی خرافات کا ے

ہے۔محل بنن س بلند و برتر ے ے

Page 4: اللہ الرحمن-الرحیم

ہاس کی مزید تفصیل ی ک نکاح اور متع دو الگ الگ حقیقتیں ہ ہے ہوتا متع عارضی،نکاح میں منکوحات ہیں نکاح میں متع دائمی ہے ہ ہ ۔ ہہکی تعداد محدود اور متع میں ممنوعات کی تعداد کی کوئی حد ہے

یں اور وت نی،نسب اور میراث لزم ،سک یں،نکاح میں نفق ہن ے ہ ہ ہیں اور متع میں ن ان وت ار ،لعان،طلق اور عدت عارض ہایلء،ظ ہ ہ ے ہ ہ

پس نکاح اور متع س وتا اور ن عارض ےمیں س کوئی لزم ہ ۔ ہ ہے ہ ےوتا لیکن جب نکاح اور ونا معقول وتا تو اس کا متع شامل ۔عام ہ ہ ہ ہ

یں تو ایک ضد کا دوسری ضد کو شامل ہمتع دو متضاد حقیقتیں ہا غیر ،متصور اور سراسر غیر معقول ہے۔ونا قطع ہ

دائمی یں یں ک نکاح کی دو قسمیں ۔بعض امامی حضرات ک دیت ہ ہ ہ ے ہہ ہہےاور عارضی دائمی نکاح معروف اور عارضی نکاح متع اور ہ ہے ۔

ا عرض ک نکاح کی ی ،جواب ہمطلق نکاح دونوں کو شامل ہ ہے ہےہے۔تقسیم امامی حضرات کی محض طبع زاد اور خان ساز قرآن ہ ہ

ہےکریم ن س عقد کو نکاح قرار دیا اس میں تعداد منکوحات کی ے ےنی،نسب اور میراث لزم اس ک ،سک ےایک حد اور اس نفق ہے۔ ہ ے ہےیں کیا اس لی ےعلو کسی اور عقد پر قرآن ن نکاح کا اطلق ن ۔ ہ ے ہ

ی نکاح عارضی محض ایجاد بند اور اختراع ایک ب دلیل دعو ے ہے۔ ہہے۔اور سراسر مخالف قرآن تصور

ے۔سور نساء کی ایک اور آیت ملحظ فرمائی ہ ہفمن ما نات ؤم لم نات ا لمحص كح ا ين أن ل و ط كم ع من ط ت يس لم ومن

لمن خشي لك ذ نات (الی ان قال) ؤم لم كم ا ت يا ت ف كم من ن يما أ كت ل مكم ل ير ا خ برو تص أن و كم ن نت م ع ل )25(النساء :ا

ے“اور جو شخص تم میں س آزاد مسلمان عورتوں س نکاح کی ےو تو مسلمان کنیزوںس نکاح کر ل اور ی حکم تا ہاستطاعت ن رک ے ے ہ ھ ہ

) اپن نفس پر زنا کا وت س ےاس شخص ک لی جو (غلب ش ے ہ ہ ہے ے ے“ تر ار لی ب و اور صبر کرنا تم تا ہے۔خوف رک ہ ے ے ھ ہ ھ

ن وال نادار شخص ک وت رک ! اس آیت میں غلب ش ےغور فرمائی ے ے ھ ہ ہ ےیں ایک ی ک و باندیوں س ےلی صرف دو طریق تجویز کی گئ ہ ہ ہ ۔ ہ ے ے ے ے

،دوسرا ی ک و ضبط نفس کر اور تجرد کی زندگی ےنکاح کر ہ ہ ہ ےوتا تو کنیزوں س نکاح کی طاقت ن ی مشروع ہگزار اگر متع ب ے ہ ھ ہ ے۔یں دایت دی جاتی،لیکن ایسا ن ن کی شکل میں اس متع کی ہرک ہ ہ ے ے ھ

یں کرسکتا،اس نکاح و ک کوئی شخص متع ن پس معلوم ےکیا گیا ہ ہ ہ ہ ۔ی نکاح کی ھی کرنا پڑ گا خوا باندیوں س کر اور اگر ان س ب ے ے ے ہ ے ہ

متع ک لی کوئی ر اس صبر کرنا پڑ گا تا تو پ یں رک ےطاقت ن ے ہ ۔ ے ے ھ ھ ہ

Page 5: اللہ الرحمن-الرحیم

یں ہے۔سبیل جواز ن ہ،اس کی ایک آیت ملحظ فرمائی ے۔سور نور مدنی سورت ہ ہے ہ

ه ل فض له من هم ال ي ن غ ي تى كاحا ح ن دون يج ذين ل ل فف ا ع ت يس ل وت ان پر لزم ک و ضبط یں رک ہ“اور جو لوگ نکاح کی طاقت ن ہ ہے ے ھ ہ” یں اپن فضل س غنی کرد اں تک ک الل تعالی ان ے۔نفس کریں ی ے ے ہ ہ ہ ہ

)33(النور :م الفاظ میں دو ٹوک ہاس آیت کریم میں الل تعالی ن غیر مب ے ہ ہ

یں کرسکت تو ضبط نفس کرو اب ۔فیصل فرمادیا ک اگر نکاح ن ے ہ ہ ہے ہون کی ی،ورن استطاعت نکاح ن یں ر ےجواز متع کی کوئی وج ن ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ

ہصورت میں متع کی اجازت د دی جاتی اور جبک اجازت نکاح کی ے ہوگیا ک اسلم میں جواز متع کا ر ہجگ جبط نفس کا حکم دیا تو ظا ہ ہ ہ ہ

یں ہے۔کوئی تصور ن ہ ہقرآن کریم کی ان تین آیتوں کی روشنی میں حرمت متع کی

ےوضاحت ک بعد ایک مصنف مزاج شخص ک لی اس حقیقت کو ے ےئی ک حضرت فاروق اعظم ونا چا یں ہقبول کرن میں کوئی عذر ن ے ہ ہ ہ ے

ا، اپنی رائ س دایت س نافذ کیا ت ےن حرمت متع کو قرآن کی ے ھ ے ہ ہ ےیں ۔ن ہ

ل سنت س ےحرمت متع صحاح ا ہ ہیں: ہامام بخاری اپنی “صحیح” میں روایت فرمات ے

ی عن ھعن علی بن ابی طالب ان رسول الل صلی الل علی وسلم ن ہ ہ ہ۔متع النساء یوم خیبر (بخاری ج )606 ص2ۃ

ےحضرت علی س روایت ک حضور صلی الل علی وسلم ن فتح ہ ہ ہ ہے ے۔خیبر ک دن عورتوں ک سات متع کرن س منع فرمادیا ے ے ہ ھ ے ے

ر ھغزو خیبر ک بعد فتح مک ک موقع پر تین دن ک لی متع پ ہ ے ے ہ ے ہ ے ہوا،اس ک بعد حضور صلی الل علی وسلم ن قیامت تک ک ےمباح ے ہ ہ ے ہ

ہلی متع کو منسوخ فرمادیا، چنانچ امام مسلم اپنی “صحیح” میں ہ ےیں: ہروایت فرمات ے

ہعن ابی سلم قال رخص رسول الل صلی الل علی وسلم عام او ہ ہ ۃاالناس انی ا و باسناد اخر قال یای ا عن ھطاس فی المتع ثلثا ثم ن ھ ھ ۃ ہقد کنت اذنت لکم فی الستمتاع من النساء وان الل قد حرم ذالک

)451 ص 1(مسلم جۃالی یوم القیام ہابی سلم س روایت ک حضور صلی الل علی وسلم ن فتح مک ے ہ ہ ہ ہے ے ہ

ر اس س ی،پ ےک موقع پر تین دن متع کرن کی اجازت دی ت ھ ھ ے ہ ہ ےیں : ا لوگو! میں ن تم ھمنع فرمادیا اور دوسری روایت میں ے ے ہے

Page 6: اللہ الرحمن-الرحیم

ی اور اب الل تعالی ن ل عورتوں س متع کی اجازت دی ت ےپ ہ ھ ہ ے ے ہہے۔قیامت تک ک لی اس کو ممنوع فرمادیا ے ے

یں، ہاحادیث صحیح میں حرمت متع کی بکثرت روایات موجود ہ ہم ن طوالت کی وج س ان دو حدیثوں پر اکتفاء کیا ہے۔لیکن ے ہ ے ہ

دایت ک متع ک حرام کرن وال م مستقیم ک لی ان میں ےف ے ے ہ ہ ہے ہ ے ے ہیں اور عمر تو صرف اس حرمت کو ہحضور صلی الل علی وسلم ہ ہ

یں ۔نافذ کرن وال ہ ے ےےحرمت متع صحاح امامی س ہ ہ

م السلم قال رسول الل صلی الل ہعن زید بن علی عن آبائ علی ہ ھ ہلی و نکاح المتع ۃعلی وسلم لحوم الحمر ال ۃ ھ ص2۔ (ال ستبصار جہ

77(ہحضرت علی رضی الل عن س روایت ک حضور صلی الل علی ہ ہ ہے ے ہ ہ

وں کو اور متع کو حرام فرمادیا ہے۔وسلم ن پالتو گد ہ ھ ے“

ہاستبصار” ک علو امامی کی دوسری ہ ی حرمتے ھ کتب صحاح میں بیں شیع حضرات ان ک جواب میں ب ےمتع کی روایات موجود ے ہ ۔ ہ ہ

بیان یں ک حضرت علی ن ایسی روایت تقی ڑک ک دیت ۃد ے ہ ہ ے ہہ ھیں اور جان بیان فرمائی یں اور جان ک خوف س تقی ہفرمائی ۃ ے ے ہوٹ بولنا عین دین کیونک “کافی کلینی” ج ہک خوف س تقی ہے۔ ھ ۃ ے ے

” جو ضرورت ک وقت تقی ن کر و :”من ل تقی ل ل دین ل ہمیں ے ہ ہ ے ہ ہ ۃ ہےسوال ی ک حضرت امام حسین رضی الل عن ن جب ےب دین ہ ہ ہ ہے ہ ہے۔ ے

ا مخالفوں ک سامن زار ےیزید ک خلف آواز حق بلند کیا اور ے ہ ہ ہ ےاڑ میں بیعت یزید س نکار اور تیر و تفنگ کی بوچ ےتلواروں ک ج ھ ھ ے

ےانکار کیا تو کیا اس وقت امام حسین تعک تقی کی وج س (معاذ ہ ہی تقی ن ؟ اور اگر ایس شدید ابتلء میں ب وگئ ت ) ب دین ہالل ہ ھ ے ھے ے ہ ے ہ

ا تو حضرت علی کا بغیر کسی ابتلء ک ب ی حق و صواب ت ےکرنا ے ھ ہوگا؟ کاش! بیان کرنا کس طح حق و ثواب ہحساب روایات تقی ۃ

وں ھامامی حضرات میں س کوئی شخص اس نکت کو حل کرک لک ے ہ ے ہنی خلش کو دور کرسک ےانسانوں کی ذ ہ

Page 7: اللہ الرحمن-الرحیم

لت متع پر امامی ک استدلل کا جواب ےح ہ ہےحضرات امامی ن جواز متع پر قرآن کی حسب ذیل آیت س ہ ے ہ

ہے۔استدلل کیا ر ادا یں ان کا پورا م ہجن بیویوں س تم ن عمل زوجیت کرلیا ان ہ ہے ے ے

۔کرویں: اس آیت کا مطلب ی ک جن عورتوں ت ہامامی حضرات ک ہے ہ ہ ے ہ ہ

ہس تم ن متع کر لیا ان کو اس کی اجرت ادا کرو اور ی ہے ہ ے ےل اس لی ک متع کی حقیقت و ہاستدلل متعدد وجو س باطل ا ہ ے ہے۔ ے ہ

و اور اس آیت میں تعین مدت کا ہی ک اس میں مدت متعین ہ ہے ہیں نی متع کرنا صحیح ن ذا”استمتعتم” کا مع ل یں ل ذکر ن ہے۔اص ہ ہ ہ ہے۔ ہنی نفع ہےاصل میں ی لفظ”استمتاع” س ماخوذ جس کا مع ہے ے ہ

ی انا اور آیت کا صاف اور صریح مطلب ی ہحاصل کرنا اور فائد اٹ ھ ہے ک جن بیویوں س تم عمل زوجیت کرک جسمانی نفع حاصل ے ہ ہے

ل ا اس آیت میں س پ ر ادا کرو،ثانی یں ان کا پورا م ، ان ےکرلیا ہ ے ہ ہ ہےےاور بعد کی آیات میں نکاح کا بیان اور اس ک احکام ذکر کی گئ ے ےےیں اب درمیان میں اس آیت کو متع پر محمول کرن س نظم ے ہ ۔ ہا اس ثالث ونا لزم آئ گا ۔قرآن کا اختلل اور آیات کا غیر مربوط ے ہ

لی آیت میں فرمایا:” ہآیت س متصل پ أنے كم ل ذ ء ورا كم ما ل أحل وفحين ير مسا غ نين كم محص ل وا أم ب ا غو ت ب ) یعنی24 “(النساء ت

ار نکاح ک لی حلل کردی ےمحرمات ک سوا باقی عورتیں تم ے ے ھ ےیں حصن اؤ بشرطیک تم ان ر د کر اس س فائد اٹ یں،تم م ہگئی ہ ھ ہ ے ے ہ ہ، یعنی عورت س نفع :قلع نی ےبناؤ اور سفاح ن کرو حصن کا مع ہ ہے ۔ ہ

ار نطف کی حفاظت ک لی قلع ہاندوزی تب حلل جب و تم ے ے ہ ے ہ ہ ہےلو فت دوسر ک پ ر یں بنتی، ہبن جائ اور متع س عورت قلع ن ے ے ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ے

تا،اب یں ر ،اسی وج س متع س نسب محفوظ ن وتی ہمیں ہ ے ہ ے ہ ہے ہنی متع کرلیا جائ تو قرآن کریم کی دو ےاگر”فما استمتعتم” کا مع ہ

لی آیت س متع ل تصادم لزم آئ گا ک پ ہمتصل آیتوں میں ک ے ہ ہ ے ھوا اور دوسری آیت س حلل اور قرآن کریم اس تضاد کا ےحرام ہوت اور : محض قضاء ش نی ا سفاح کا مع یں رابع ہمتحمل ن ہے ہے۔ ہ، ہےنطف گرادینا اور مطلب ی ک عورت س نفع اندوزی حلل ے ہ ہے ہ ہ

و وت اور جنسی تسکین ن ارا مقصد محض قضاء ش ہبشرطیک تم ہ ہ ہ ہر ک متع سوائ قضاء و اور ظا ےبلک اولد کو طلب کرنا مقصود ہ ہ ہے ہ ہ ہ

وتا پس متع یں وت اور جنسی تسکین ک اور کچ مقصود ن ہش ۔ ہ ہ ھ ے ہوا تو اس س اگلی ا اور جب اس آیت س متع حرام ےجائز ن ر ہ ہ ے ہ ہ

Page 8: اللہ الرحمن-الرحیم

وگا لت متع کا معنی کرنا باطل ۔آیت میں ح ہ ہاجل مسمی“ لی ” کی قرأت کا جواب ا

یں ک بعض روایات میں مذکور ک بعض ت ہامامی حضرات ک ہے ہ ہ ے ہ ہنقرأت میں “ ھفما استمتعتم ب من ی الی اجل مسمی”ے” ک بعدہ ھ” ب

وگا: جن عورتوں س تم ن مدت معین نی یوظ ، اب مع ا گیا ہپڑ ے ے ہ ہے ھایا ان کو اجرت د دو ی بعین متع کیونک اب آیت ہتک فائد اٹ ہے ہ ہ ہ ے ھ ہ

یں،ی ی متع ک ارکان ہمیں مدت اور اجرت دونوں کاذکر آگیا اور ی ہ ے ہ ہیک ک ی روایت خبر واحد اور اس روایت س ی الفاظ قرآن ہٹ ے ہے ہ ہ ہے ھ

یں بن سکتا لیکن متع ثابت کرن ک لی اس قدر کافی ےکا جزو ن ے ے ہ ۔ ہیں ۔ ک بعض قرأت میں “الی اجل مسمی” ک الفاظ موجود ہ ے ہ ہے

ل معروض ک “الی اجل مسمی” و ہاس استدلل ک جواب میں ا ہے ے” ک سات لحق وگا جب اس “فما استمتعتم ب ھس استدلل تب ے ہ ے ہ ے

ی ی تسلیم ہکرک قرآن کا جزو و مانا جائ اور شیع حضرات کو ب ھ ہ ے ےے ک بغیر تواتر ک محض خبر واحد س کوئی لفظ قرآن کا جزو ے ہ ہےذا اس قرأت سء جواز متع پر استدلل صحیح ن ل یں بن سکتا ہن ہ ہ ۔ ہ

ا ۔ر ہیں تصریح کردی اں اس روایت کو ذکر کیا و ا تفاسیر میں ج ہثانی ہے ہ

یں اور قرآن کریم میں اس کی تلوت ہے ک ی روایت معتمد ن ہ ہ ہ ہے،چنانچ ابوبکر یں ہکرنا اور اس س کوئی حکم ثابت کرنا جائز ن ہے ہ ے

یں370رازی الجصاص المتوفی ۔ فرمات ہ ے ھہفان ل یجوز اثبات الجل فی تلوت عند احد من المسلمین فال جل ہ

) )148 ص 2احکام القرآن ج۔اذا غیر ثابت فی القرانیں اور ی نا کسی مسلمان ک نزدیک جائز ن ہ“تلوت میں اجل پڑ ہے ہ ے ھ

“ یں ہے۔لفظ قرآن میں ثابت ن ہیں:310اور ابن جریر طبری المتوفی ہ فرمات ے ھ

ما فما استمتعتم ھواما ماروی عن ابی بن کعب وابن عباس من قرأتن الی اجل مسمی فقرا بخلف ما جاء ت ب صحائف وغیر ہب من ھ ہ

ہجائز لحد ان یلحق فی کتاب الل تعالی شیئا لم یات ب الخیر القاطع ہ)13 ص 3(تفسیر طبری جز

“ابی بن کعب اور ابن عباس کی ایک قرأت میں جز “الی اجلیں و تمام مصاحف المسلمین ک خلف ےمسمی” ک الفاظ مروی ہ ہ ےیں ک و کتاب الل میں بغیر خبر متواتر ہیں اور کسی ک لی جائز ن ہ ہ ہ ے ے ہ

“ ے۔ک کسی چیز کا اضاف کر ہ ےت ک لی کافی ونا اس کی ثقا ا صرف کسی روایت کا موجود ےثالث ے ہ ہ

Page 9: اللہ الرحمن-الرحیم

ر قسم کی موجود روایات تو صحیح س ل کر موضوع تک یں ہن ے ے ۔ ہر طرح ک بد عقید لوگوں ن می ےیں کیونک رافضی،قدری،ج ہ ے ہ ہ ہ ۔ ہ

یں ی ب ک موافق روایات وضع کرک شائع کردی ت ہاپن اپن مذ ۔ ھ ے ے ہ ے ےوں ن علم ےمحدثین کرام کا ملت اسلمی پر احسان عظیم ک ان ہ ہ ہے ہ

ن کا ر حدیث کی صحت اور وضع پرک ےاسماء رجال ایجاد کرک ھ ہ ےیا کردیا ۔ذریع م ہ ہ

”الی اجل مسمی” کی ار امامی حضرا ن ےجس روایت ک س ے ہ ے ہ ےم آپ ک سامن اس روایت ک طرق اور ، ےقرأت کو تسلیم کیا ے ے ہ ہےیں،جس س روایت کی حقیقت سامن ےاسانید کا حال بیان کردیت ے ہ ے

یں: ابن جریر طبری اس روایت کی سند بیان کرت ہآجائ گی ے ۔ ے حدثنا محمد بن الحسین قال حدثنا احمد بن المفضل قال ثنا اسباط

ن م الی اجل مسمی فاتو ھعن السدی فما استمتعتم ب من ھ ہن ۔اجور ھ

)12ص5(تفسیر طبری جا:ی ،ازدی ن ک ہاس سند کا ایک راوی احمد بن مفضل ہ ے ہے

ےمنکرالحدیث اور ابو حاتم ن بیان کیا ک ی رؤسا شیع میں س ہ ہ ہ ے ہےذیب ج ذیب الت (ت ا ہت ہ ۔ ) اس سند کا تیسرا آدمی اسباط96ص6ھ

” لیس ا ا ابن معین ن ک ا:ی قوی ن ت ۔،امام نسائی ن ک ہ ے ۔ ھ ہ ہ ہ ے ہےذیب (ت ا ت ضعیف ت ا:ب ابو نعیم ن ک یں ی ن ہبشیء”ی کچ ب ۔ ھ ہ ہ ے ۔ ہ ھ ھ ہ

ذیب ج ا راوی اسماعیل بن81ص1ہالت ھ) اس سند کا چوتا،صحاب کرام کو ا:ی کذاب ت ،جو زجانی ن ک من السدی ہعبدالرح ھ ہ ہ ے ہے

ا:میں سماع حدیث ک لی ا حسین واقد ن ک ےسب و شتم کرتا ت ے ہ ے ۔ ھل ا ک ی حضرت ابو بکر و عمر کو برا ب ھاس ک پاس آیا،جب دیک ہ ہ ھ ےیں گیا ان ابی ی اس ک پاس ن ر کب تا تو میں چل آیا اور پ ۔ک ہ ے ھ ھ ہے ہطبری ن ا ا ک ی شیخین کی شان میں بدگوئی کرتا ت ےسلین ن ک ۔ ھ ہ ہ ہ ے

ذیب ج ذیب الت (ت یں یں ا: اس کی روایات لئق استدلل ن ہک ہ ۔ ہ ہ ص1ہ317(

و ۔اس روایت کی دوسری سند ملحظ ہ ہ حدثنا ابو کریب قال حدثنا یحیی بن عیسی قال حدثنا نصیر بن ابی

الشعث قال حدثنی حبیب بن ابی ثابت قال اعطانی ابن عباسذا علی قرا ابی قال ابو بکر قال یحیی فرایت ۃمصحفا فقال ھ

ن الی اجل مسمی ھالمصحف عند نصیر فی فما استمتعتم ب من ہ ۔ہ)263ص5(تفسیر طبری ج

ا: ی قوی ن سی،نسائی ن ک ی بن عی ہاس سند میں ایک راوی یحی ہ ہ ے ہے

Page 10: اللہ الرحمن-الرحیم

(میزان العتدال ج ا ۔ت ا:اس میں ضعف402-401ص4ھ ہ) سلم ن ک ے ہا:اس عجلی ن ک ا ا:”لیس بشیء” ی کچ ن ت ابن معین ن ک ا ہت ے ۔ ھ ہ ھ ہ ہ ے ۔ ھ

ذیب ج ذیب الت (ت ا ہمیں تشیع ت ہ ۔ )263ص11ھ ان دونوں سندوں میں رافضی منکرالحدیث اور کذاب راوی موجود

ےیں پس ایس لوگوں کی بنیاد پر کوئی روایت کس طرح قابل ۔ ہ، ان دونوں سندوں ک بعد ایک اور سند پیش وسکتی ےقبول ہے ہ

: ہےخدمت ۃحدثنا ابن المثنی قال ثنی عبدالعلی قال ثنی داؤد عن ابی نضر

ہ۔قال سالت ابن عباس عن المتع فذکر نحو (طبری جز )12ص5ہا ا:ی قوی ن ت لی،ابن سعد ن ک ۔اس سند میں ایک راوی عبدالع ھ ہ ہ ہ ے ہےذیب (ت ا ا:ی قدری عقائد کا حامل ت ہابن حبان اور امام محمد ن ک ۔ ھ ہ ہ ہ ے

ذیب ج ند،اس96ص6ہالت ہ) اس سند کا ایک راوی داؤد ابن ابی ہےا اور ی ہک بار میں تصریح ک اس کی روایات میں اضطراب ت ھ ہ ہے ے ے

ذیب ج ذیب الت ( ت ا ہکثیر الخلف ت ہ ۔ ر205ص3ھ ہ) ان حوالوں س ظا ےےوگیا ک اس روایت ک طرق میں بکثرت رافضی قدری جیس ے ہ ہ ہبدعقید اور کذاب،منکرالحدیث،کثیرالخلف اور ضعیف راوی

ا باطل اور جعلی ذا ی روایت قطع ل یں ہے۔موجود ہ ہ ۔ ہت ت اور استمتاع س ا ابن عباس اس آیت کو کس طرح پڑ ےرابع ھے ے ھ

ی یا نکاح، اس بار میں ابن جریر ن جو ےان کی مراد متع ت ے ھ ہ: ہےروایت صحیح سند ک سات ذکر کی و ی ہ ہ ہے ھ ے

ۃحدثنی المثنی قال ثنا عبد الل بن صالح قال ثنی معاوی بن صالح بن ہن ن فاتو ھابی طلح عن ابن عباس قول فما استمتعتم ب من ھ ہ ہ ۃ

ا مر واحد ن فریض یقول اذا تزوج الرجل المرأ ثم نکح ۃاجور ۃ ھ ۃ ۃ ھو النکاح ا کل وال ستمتاع ھوجب صداق ہ ص5۔( تفسیر طبری جزھ

11(ن ”فما استمتعم ب من وں ن ھحضرت ابن عباس س روایت ک ان ہ ے ہ ہ ہے ے

) اور اس کی ا(بغیر”الی اجل مسمی”ک ن”پڑ ن اجور ےفاتو ھ ھ ھی ھتفسیر میں فرمایا: جب شادی ک بعد کوئی شخص ایک بار ب ے

وجاتا اور ر واجب ہےعمل زوجیت کر تو اس پر پورا م ہ ہ ےہے۔فرمایا:اسمتاع س مراد نکاح ے

ا جائ تو ےاگر “فما استمتعتم”ک بعد”الی اجل مسمی” پڑ ھ ےی وسکتا متع یں ہاستمتاع س مراد نکاح کسی صورت میں ن ہ ۔ ہ ہ ے

ےمراد لینا پڑ گا اور جب ابن عباس ن فرمایا: استمتاع س مراد ے ےوا ا تو معلوم ہنکاح اور بغیر “الی اجل مسمی” اس آیت کو پڑ ھ ہے

Page 11: اللہ الرحمن-الرحیم

ن کی نسبت اس کی طرف کرنا ےک “الی اجل مسمی” پڑ ھ ہہےسراسر افتراء اور ی روایت صحیح السند اور مصاحف ہ ہے

وڑ کر رافضیوں اور قدریوں کی ھمسلمین ک مطابق اس چ ے ہے۔ ےےروایت کو لینا جو مصاحف مسلمین ک مخالف اور نظم قرآن س ے

رمی ک سوا اور کیا ٹ د ، صریح ہے۔متصادم ے ھ ہ ہےی کا جواب ابن عباس ک فتو ے

ی دیت ت یں ک ابن عباس جواز متع کا فتو ت ھےامامی حضرات ک ے ہ ہ ہ ے ہ ہل سنت ک نزدیک حضرت ابن عباس کی شخصیت ےاور چونک ا ہ ہ

ی کا احترام واجب التسلیم اس لی اس پر لزم ک ان ک فتو ے ہ ہے ے ہےما ن ماری گزارش ی ک ابن عباس رضی الل تعالی عن ےکریں ہ ہ ہ ہے ہ ۔ہ

یں دیا، و متع کو مردار اور خنزیر کی طرح ی ن ا جواز کا فتو ہمطلق ہ ہ ت ت اور جس حالت اضطرار میں مردار اور خنزیر ھےحرام سمج ے ھ

انا جائز اسی طرح ان ک نزدیک حالت اضطرار میں متع ہک ے ہے ھا چنانچ علم نیشا پوری المتوفی ی جائز ت ہکرنا ب ہ ۔ ھ ے فرمات728ھ ھ

ہیں: ۃان الناس لما ذکروا الشعار فی فتیا ابن عباس فی المتع قال

ا تحل ا علی الطلق لکنی قلت ان م الل الی ما افتیت با باحت ھقاتل ھ ہ ھ۔ۃللمضطر کما تحل المیت والدم ولحم الخنزیر

جو میں ی کی وج س ان کی ہ“جب لوگوں ن ابن عباس ک فتو ے ہ ے ے،میں ن علی لک کر ا: خدا ان کو وں ن ک ےاشعار ک تو ان ے ہ ہ ے ہ ہے

ا ک متع ا ت یں دیا، بلک میں ن ک ہالطلق متع کی اباحت کا فتوی ن ہ ھ ہ ے ہ ہ ہہے۔مضطر ک لی حلل جیس مردار،خنزیر اور خون کا حکم ے ہے ے ے

ص2ےاس روایت کو ابو بکر رازی الجصاص ن “احکام القرآن”جمام المتوفی 147 ے ن “فتح القدیر” ج861ہ پر اور ابن 386ص2ھ

ے ن “روح المعانی” جز1270اور علمی آلوسی المتوفی پر6ص5ھہے۔ذکر کیا

ی ی دینا ب ھحضرت ابن عباس کا مضطر ک لی اباحت متع کا فتو ہ ے ےوگیا تو ا اور جب ان پر حق واضح ادی خطاء پر مبنی ت ہان کی اجت ھ ہ

ی س رجوع کرلیا اور الل تعالی س توب کی، وں ن اس فتو ہان ے ہ ے ے ہیں: ت ہچنانچ علم نیشاپوری لک ے ھ ہ ہ

ۃان رجع عن ذالک عند موت وقال انی اتوب الیک فی الصرف والمتع ہ ہ)16ص5(غرآئب القرآن جز

ی س رجوع کیا اور ل اپن فتو ے“ابن عباس ن اپن مرن س پ ے ے ہ ے ے ے ےوں ا:میں صرف اور متع س رجوع کرتا ۔ک ہ ے ہ ہ

Page 12: اللہ الرحمن-الرحیم

ا” “صحیح روایت ی ہے“فالصحح حکایت من حکی عن الرجوع عن ہ ھ ہا” ۔ک حضرت ابن عباس ن جواز متع س رجوع کرلیا ت ھ ے ہ ے ہ

یں: ہنیز فرمات ےۃنزل عن قول فی الصرف و قول فی المتع“ ہ ص6”(احکام القرآن جہ

ا”"147-179 ۔)”ابن عباس س صرف اور متع س رجوع کرلیا ت ھ ے ہ ے

ۃ ن “عمد القاری“ جز ھ855ہعلم بدر الدین عینی المتوفی ص17ےے ن “فتح852ہ پر اور علم ابن حجر عسقلنی المتوفی 246 ھ

ے پر حضرت ابن عباس کا متع س رجوع بیان77 ص11الباری“ ج ہار لسنت ک تمام محقیقین ن اسی پر اعتماد کا اظ ہفرمایا اور ا ے ے ہ ہے

ر کس قدر حیرت اور افسوس کی بات ک جس ، پ ہفرمایا ہے ھ ہےیں اس ان کا مسلک ےبات س حضرت ابن عباس رجوع فرماچک ہ ے ے

ے۔قرارد کر اس کی بنیاد پر اپن مسلک کی دیوار استوار کی جائ ے ے

یں ہم ن بادلل واضح کردیا ک اسلم میں متع کا کوئی تصور ن ہ ہ ہے ے ہ،اللہے ہ اور الل اور اس ک رسول برحق ن متع کو حرام کردیا ہے ہ ے ے ہ

وں ن حرمت متع کو نافذ کرک اور و حضرت عمر پر جن ےکا سلم ہ ے ہ ہےاس پر عمل کراک ملت اسلمی کو ایک مکرو غلظت س ہ ہ ے

ہے۔محفوظ کرایا

ا جس ن مسلمانوں میں کسبیوب ک رواج ی کا تصور ت ےی متع ے ھ ہ ہ ہ

ر حسن کو تحفظ دیا اور متع کی ہکو جنم دیا،اسی اصطلح ن بازا ےول دیا آج قوم ک سار ےآڑ میں عصمت فروشی کا چور درواز ک ے ۔ ھ ہ

ر و قانون جس س جنسی کجی کو ار ختم کردیئ جائیں اور ےس ہ ہ ے ے ہو مٹا دیا جا مسئل متع کا وجود فحاشی ک فروغ ےتقویت ملتی ہ ہ ے۔ ہ ہے۔کا ضامن فاروق اعظم کی ایمان افروز شخصیت پر خدا کی

وں ن حرمت متع کی تبلیغ اور تنفیذ وں جن ہب شمار رحمتیں ے ہ ہ ے۔کرک سفین ملت کو معصیت ک گرداب س نکال آج اس معصیت ے ے ہ ے

ر فاروقی بصیرت کی وت میں اسیر قوم کو پ ھزد اور پنج ش ہ ہ ہہے۔ضرورت

ے(اس پور مضمون میں آپ قارئین کو کو کمپوزنگ کی غلطی نظرشعیب قادری ۔آئ تو ضرور آگا کر ے ہ ے