حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · web view2018/07/18  ·...

699
مار ع ت س ی ا ب ر مغ ں می ری ع ا ی ش ک ان ی خ عل ر ف# ظ ا ولان م ے ی ی رو ت م ح ا ز م لاف خ ے ک)اردو( ی8 د9 چ ی ی ا= ب ے> ی را ب ہ ل ا ق م ی ق ت ق ح ی گار: نJ الہ ق م: ران گ ن لہ ل ا حان ب س ی عل مان ل ش ز8 کٹ ا8 زد س ی ف رو= ب اور پ عہ م ا اردو خ> ہ ب ع ش: ں ش شی15 ۔2014

Upload: others

Post on 21-Mar-2021

156 views

Category:

Documents


0 download

TRANSCRIPT

Page 1: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

مولاناظفر علی خان کی شاعری میں مغربی استعمار کےخلاف مزاحمتی رویے

تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی)اردو(

نگران:مقالہ نگار:پروفیسرڈاکٹر سلمان علیسبحان اللہ

شعبۂ اردو جامعہ پشاور2014۔15سیشن :

Page 2: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

1

وول فف ا حردل ضبط، زباں ضبط، قلم ضبط، فغاں ضبط

دنیا میں ہوئے ہوں گے یہ ساماں کہیں کم ضبط

Page 3: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

2

تحقی ق ن ام ہے تص دیق اور س چائی کی تلاش ک ا ۔ج و یقین ا مش کل ک ام ہے ۔ ہم ارے مل ک میںسسنی سسننے، سچ کا ساتھ دینے یا سچ تک رسائی حاصل کرنے کا رواج نہیں۔یہاں ص رف @@اسچ کہنے، عمومسسنائی باتوں پر یقین کیا جاتا ہے۔ اپنے مفادات کے لیے حق اورسچائی کو ت وڑ م روڑ ک ر پیش کی ا جات ا ہے۔ ایسے میں اگر محقق مروجہ روایت سے ہٹ ک ر س چ ت ک رس ائی حاص ل ک ر لیت ا ہے ت و جھ وٹ ک ا ع ادیساس کے سچ کو بھی جھوٹ ہی تصور کرتا ہے۔پی ایچ ۔ڈی سطح ک ا یہ مق الہ جھ وٹ اور س چ کے معاشرہ درمیان ایک حدفاصل کھینچنے کی علمی کاوش ہے جسے لازمی طور پ ر ہزارہ ا اعتراض ات س ے گزرن ا پ ڑے

گا۔ کی شخصیت اور شاعری میں ربط و تضاد ‘‘کے موضوع پرتحقیقی ک ام ایم ۔فل میں’’ابرار سالککرنے کے بعد میری خ واہش تھی کہ پی ایچ ۔ڈی میں لس انیات کی کس ی ش اخ پ ر تحقیقی ک ام ک ر وں ۔ لیکن کورس ورک کے دوران لسانیات کے حوالے سے رہنمائی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اس خواہش س ےدس تبردار ہون ا پ ڑا۔اس دوران ای ک پروفیسردوس ت نے حلقہ ارب اب ذوق میں ای ڈورڈ س عید کی کت اب )

Orientalisiamسان کی (کا تعارف کرایا جس نے مجھے پوری کتاب پڑھنے پر مجبور کیا ۔پھر کتابوں کا پورا س یٹ خری د ک ر پ ڑھ ڈالا ۔یوںاس تعمار پ ر دیگ ر ک ئی مض امین اور کت ابیں پڑھ نے کے بع د اسساٹھی۔ لیکن ہندوستان پر مغربی استعمارکے موض وع پ ر جس س ے بھی سامنگ جاگ موضوع پر کام کرنے کی بات ہوتی تو مایوسی ک ا س امنا کرن ا پڑت ا کی وں کہ بعض ل وگ ت و برط انوی تس لط ک و س رے س ے اس تعماریسبرا کی وں کہیں جب حکومت ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے جبکہ بعض کا موق ف تھ ا کہ انگری ز ک و ہم سان س ے پہلے ت و ہم پتھ ر کے دور میں جی رہے تھے۔مغ ل ت و پ رانے سانھوں نے ہمیں ایک سسٹم دیا ،ورنہ کہ دور کے لوگ تھے۔ شعر شاعری میں مست،جوا بازی ، کبوتر بازی ،شاہد بازی اور رنگ رنگلیاں من انے س ے سانھیں فرصت کب تھی کہ ملک کی ت رقی پ ر غ ور ک رتے۔اس پس منظ ر میں جب ڈاک ٹر س ہیل احم د س ےسانھ وں نے خ اص بات ہوئی ،جو خود اردو نظم پر استعمار کے اثرات جیسے موضوع پر کام کر رہے تھے تو سرخی مط العہ کی بنی اد پ ر رہنمائی کی اور بعض بنیادی کتابیں بھی دیں کہ اس قس م کے ل وگ ص رف ی ک خود بھی مغالطے کے شکار ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے رہتے ہیں۔اس دوران جگ ری دوس ت وہ اب

Page 4: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

3

اعجاز نے مولانا ظفرعلی خا ن کی شاعری کو استعمار کی مزاحمت کے تناظر میں پڑھ نے ک ا مش ورہ دی ا ۔ ان کی پوری کلیات پڑھنے کے بعد مجھے یہ موضوع تحقیق کے لیے مناس ب لگ ا۔چ وں کہ مولان ا ظف رعلی خان کی شاعری پر اس سے پہلے استعماری مزاحمت کے حوالے سے کوئی کام بھی نہیں ہ وا تھ ا اس ل یے اپنے نگران سے مشورے کے بعد’’مولانا ظفرعلی خان کی شاعری میں مغربی استعمار کے خلاف مزاحم تی رویے‘‘کے عنوان سے خاکہ تیار کیا۔ یونیورسٹی کے ایڈوانس س ڈی ب ورڈ نے جس وقت خ اکے کی منظ وریسچکا تھا ۔منظ وری سچکا تھا اور زیادہ تر پڑھ بھی ساس وقت تک میں کافی حد تک بنیادی مواد جمع کر دی

ااغاز کیا۔ @@ا بعد میں نے لکھنے کا کے فورااسانی س ے پ ایہ تکمی ل ت ک پہنچ انے کے ل یے چھ اب واب میں تقس یم کی ا گی ا ہے ۔پہلا مقالے کو باب مولانا ظفرعلی خان کی ’’سوانح و شخصیت ‘‘کے حوالے سے ہے جس میں مولان ا ظف رعلی خ ان کیاا ت اریخ پی دائش، ن ام، خان دانی پس منظ ر،تعلیم،ملازمت،ادبی و ص حافتی ش عور اور ش عر گ وئی ک ا سان کی شخصیت کو مدنظر غاز،مجموعہ ہائے کلام کا سرسری تعارف اوروفات پرروشنی ڈالی گئی ہے۔تا کہ

سان کی فکری جہتوں کا صحیح طریقے سے احاطہ کیا جا سکے۔ رکھ کر دوسرا باب ’’استعمار تعارف اور بنیادی مب احث ‘‘کے عن وان س ے ہے۔ا س تعمار کی ا ہے؟ ہندوس تانااغازو ارتقاء کے س اتھ مغ ربی اس تعمار کی مختل ف پالیس یوں پ ر تفص یلی گفتگ و اس میں مغربی استعمار کا باب کا حصہ ہے۔مزاحمت کیا ہے،نیزاردو شاعری میں مغ ربی اس تعمار کے خلاف م زاحمت کی روایت کی

روشنی میں مولانا ظفرعلی خان کے کلیدی سفر کا احاطہ کیا گیا۔ ء(تک کے دورمیںمولانا ظفرعلی خان۱۹۱۴ء سے لے کرپہلی جنگ عظیم )۱۹۰۸تیسرا باب’’

کی شاعری میں مغربی استعمار کے خلاف مزاحمت پر منحصر ہے۔پہلے اس دور ک ا سیاس ی منظرن امہ پیشسحب الوط نی کی روایت ک ا سرس ری ج ائزہ لے ک ر مولان ا ظف رعلی خ ان کی کی ا گی ا ہے۔اردو ش اعری میں @@ا تقس یم بنگ ال،تنس یخ ساس دور کے بڑے ب ڑے واقع ات مثل سحب الوطنی پر بحث کی گئی۔ پھر شاعری میں ااغ ازکی روش نی میں بنگال،طرابلس اور بلقان کی جنگیں،مسجد ک انپور ک ا واقعہ اور پہلی جن گ عظیم کے مولانا ظفرعلی خان کی شاعری کا مغربی اس تعمار کے خلاف م زاحمت کے مختل ف پہلوئ وں اور روی وں ک ا

جائزہ لیا گیا ہے۔

Page 5: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

4

ء ت ک کے دور ک ا سیاس ی منظ ر ن امہ پیش۱۹۳۵ء س ے ۱۹۱۵چو تھا باب’’اس باب میںپہلے ننو ،مانٹیگوچیمس فرڈ اانے والے مختل ف واقع ات،ہ وم رول،معاہ دہ لکھ ساس دور میں پیش کی ا گی ا ہے۔پھ ر اص لاحات،رولٹ ایکٹ،جلی انوالہ ب اغ،مارش ل لا،خلافت کمی ٹی ،تحری ک خلافت،ت رک م والات،س تیہ گ رہ،ع دم تع اون،س ول نافرم انی،تحری ک ہج رت،ش دھی اور س نگھٹن ،مجلس اح رار،س ائمن کمیش ن ،نہ روااب اد،گ ول م یز کانفرنس یں،قض یہ مغ ل پ ورہ،تحری ک کش میر، مس جد ش ہید رپ ورٹ،چ ودہ نک ات،خطبہ الہ

ء ایکٹ وغ یرہ کی روش نی میں مولان ا ظف رعلی خ ان کی ش اعری میں۱۹۳۵گنج ،مجلس اتحاد ملت،اور مغربی استعمار کی مزاحمت کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ء تک کے دور کا سیاس ی منظ ر ن امہ پیش کی ا۱۹۴۷ء سے ۱۹۳۶پانچواں باب’’اس باب میں ء کے انتخاب ات،دوس ری جن گ عظیم،ق رار دادلاہ ور،ک رپس مش ن،ہندوس تان چھ وڑ دو۱۹۳۷گی ا ہے۔

کے انتخابات،کابینہ مشن پلان،تقسیم ہند اور تخلیق پاکستان جیسے۱۹۴۶-۴۵تحریک،شملہ کانفرس، واقعات کی روشنی میں مولانا ظفرعلی خان کی شاعری میںمغربی استعمار کے خلاف مزاحمت کا جائزہ لی ا

اایا۔مولانا ظفرعلی خان پاکستانی ش ہری۱۹۴۷گیا ہے۔ ء کے بعد ایک نیا ملک پاکستان معرض وجود میں ء ک ا دورانیہ نہ ایت اہم۱۹۵۶ء ت ا ۱۹۴۷ء تک زندہ رہے۔ت اریخی ح والے س ے ۱۹۵۶کی حیثیت سے

@@ا اس تعماروں کے ہے کیوں کہ پاکس تان بن نے کے بع د بہت س ارے مش کلات ک ا س امنا تھ ا اس ل یے مجب ور وضع کردہ قوانین لاگو کیے گئے جن کے نتیجے میں نو استعماری پالیسی کو تقویت مل گئی۔اس دور میں مولان ا نے گن تی کی چن د نظمیں حب الوط نی کے ح والے س ے ض رور لکھیںلیکن ن و اس تعماری پالیس ی پ ر سانھوں نے صاحب فراش ہونے کی وجہ سے کچھ نہیں لکھا۔ اس لیے مذکورہ دور پر بحث کرنا موض وع کے احاطے سے باہرتھا۔یہاں پر یہ وضاحت کرنا ض روری ہے کہ مولان ا ظف رعلی خ ان نے ب العموم مغ ربی اس تعمارسان ک ا نش انہ مغ ربی اس تعماروں میں برط انوی سان کی پالیس یوں کی م زاحمت کی ہے لیکن بالخص وص اورسان کی ش اعری میں مغ ربی اس تعمار کے خلاف م زاحمت س ے زی ادہ ت ر برط انوی ہہذا حک ومت رہی ہے۔ل

استعمار کے خلافت مزاحمت مراد لی گئی ہے۔ مذکورہ باب دو حصوں پر محیط ہے جس کے دوسرے حصے میں استعماری فتنہ ’’قادیانیت ‘‘کےااغ از و ارتق ا ء پ ر ب ات کی گ ئی ہے پھ ر مولان ا ظف رعلی خ ان کے اس ف رقے کے خلاف کی گ ئی تع ارف ،

Page 6: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

5

شاعری کا جائزہ لیا گیا ہے۔چوں کہ استعمار کی جو عام تعریف کی جاتی ہے یع نی’’کس ی دوس رے مل کسان کا استحص ال کرن ا‘‘۔ اس سان کے وسائل اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا اور کی زمین پر قبضہ کرکے ااتی لیکن اس تعماری پالیس ی کے تحت یہ ف رقہ ’’ تنس یخ کے مطابق قادیانیت استعمار کے زم رے میں نہیں جہ اد‘‘’’گ ورنمنٹ کی وف اداری‘‘اور ’’حض رت مس یح موع ود اورظلی و ب روزی ن بی‘‘کے اعلان ات ک رکےسان پ ر بحث کرن ا ن اگزیر استعماری طاقتوں کے ساتھ مل کر برابر ہندوستانیوں کا استحصال کرتا رہا۔ اس لیے

تھی۔ چھٹ ا ب اب’’ح ا ص ل بحث ‘‘ کے عن وان س ے ہے جس میں پچھلے اب واب کے تم ام تحقیقی ک ام کے

نتائج پیش کیے گئے ہیں۔ اس تحقیقی کاوش میں جن دوس توں اور اس اتذہ نے م یری م دد ورہنم ائی کی ہے۔ جن احب اب کےسان ک ا ش کریہ ادا کرن ا اپن ا مشوروں، روک ٹوک اور حوصلہ افزائی سے یہ مقالہ تکمیل کے مراحل تک پہنچ ا۔

فرض سمجھتا ہوں۔ دوستوں میںنہایت ممنون و مقروض ہوں جناب ڈاکٹر وہ اب اعج از اور فض ل کب یر ک ا کہ جنھ وں نے اس تحقیقی کام میں میری بھرپوری رہنمائی بھی کی اور پروف ریڈنگ کا مشکل مرحلہ بھی سر کیا۔ ڈاکٹرسانھ وں نے بھی کبھی کبھ ار اپ نی اس رار احم د’’خ اموش‘‘ ک و بھی ش کریہ ک ا حق دار س مجھتا ہ وں کی وںکہ خ دمات س ے ن وازا۔ ش وکت محمودص احب،ش یر ب الی ش اہ، اورنگ زیب، ش اہ خال د، حمی داللہ ،ہہ دل س ے ش کر گ زار ہ وں جنھ وں نے مق الے کی ت رتیب و ت دوین شہاب،عنایت،وقار،ذاکراللہ کا بھی میں تہ

کے سلسلے میں مجھے مفید مشوروں سے نوازا۔ہر خاص شکر گزار ہوں مولانا ظفرعلی خان کے بھانجے اور ’’مولان ا ظف ر علی خ ان ٹرس ٹ میں بطوااخ ذات اور ‘‘ لاہور کے سیکرٹری جناب راجا اسد علی خ ان ک ا جنھ وں نے مولان ا کے ب ارے میں بنی ادی م اہم دستاویزات س ے ن وازا۔ٹرس ٹ س ے وابس تہ اف راد میں محم دعلی چ راغ مرح وم نے کت ابوں کے ح والے س ے کافی رہنمائی کی۔جناب پروفیسر احمد سعید جن کو اخبار ’’زمیندار‘‘ کے ترتیب و تدوین کا اعزاز حاص ل

سان کا بھی تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔ سانھوںنے ہر مشکل مرحلے پر میری مدد کی ۔اس لیے میں ہے ،

Page 7: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

6

ساردو جامعہ پشاور کی سیمی ن ار لائ بریری،س نٹرل لا ئ بریری کتب کی فراہمی کے سلسلے میں شعبہ پشاور یونی ورس ٹی، لاہ ور ک الج لائ بریری،ظف رعلی ٹرس ٹ لائ بریری،جی س ی لاہ ور،پنج اب ی ونی ورس ٹی کے

لائبریرین کا خصوصی طور پر ممنون ہوں۔ اپنے اساتذہ میں پروفیسر ڈاکٹر اظہ اراللہ اظہ ار،پروفیس ر ڈاک ٹر محم د عب اس،ڈاک ٹر جہ انزیب ش عور ص احب،جن اب زاہدحس ین ص احب،جن اب ڈاک ٹر مش تاق احم د ص احب ،پروفیس ر اظہ ار الح ق ص احب، پروفیسر فضل الرحمان،پروفیسر علی شیر صاحب کا بے حد ممنون ہوں جن کے فیض اور محبتوں کے باعث

میں پی ایچ ۔ ڈی مقالہ لکھ سکا۔ساس تاداوربے تکل ف دوس ت ڈاکٹرس ہیل احم د ک ا جتن ا بھی ساردو پش اور یونیورس ٹی کے مش فق ش عبہ سانھوں نے اپنی تدریسی اور ادبی مصروفیات س ے وقت نک ال ک ر م یری راہنم ائی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے، سالجھنوں کو دور کیا۔دیگ ر اس اتذہ میں پروفیس ر ڈاک ٹر روبینہ ش اہین، پروفیس ر ڈاک ٹر بادش اہ من یر کی اورمیری بخاری کا بھی سپاس گزار ہوں جن کی علمی فراستوں سے میں پورے تسلسل کے ساتھ فیض یاب ہوتا رہا۔ساس تاد ااخر میں اپنے نگران جناب پروفیسر ڈاکٹر سلمان علی کا شکریہ اداکرت ا ہ وں جنھ وں نے ای ک سان کی ساکس ایا۔ یا نگ ران س ے ب ڑھ کروال د ی ا ب ڑے بھ ائی کی حی ثیت س ے مجھے یہ تحقیقی ک ام ک رنے پ ر سان کے مفی د مش وروں اور روک ٹ وک کے ب اعث کت ابوں ک و ذاتی ملکیت س مجھ ک ر اس تعمال میں لای ااور

کامرانی کی یہ منزل میرا مقدر بنی۔ مقالہ نگار

سبحان اللہ۔پی ایچ۔ڈی سکالرشعبہ اردو جامعہ پشاور

Page 8: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

7

وول: باب ا

مولانا ظفر علی خان ،سوانح وشخصیت

Page 9: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

8

زن دہ ق ومیں اپ نے ماض ی اور ت اریخ س ے س یکھتی ہیں۔جس ق وم ک و اپ نی ت اریخ ک ا علم نہ ہ و،اپ نےسات رتی۔بدقس متی س ے پچھلے تین مش اہیر کے متعل ق معلوم ات نہ ہ وں وہ زن دہ ق وم کی تعری ف پ ر پ ورا نہیں صدیوں سے ہمیں گمراہ کیا جا رہا ہے۔ہماری اصل تاریخ مسخ کرکے پیش کی جارہی ہے۔ہم ارے ہ یروز ک وہی کہ ہمیں وحشی ،غیر مہذب اور درندہ صفت قوم ق رار دی نے میں کس ی تام ل س ے زیرو بنا یا جارہاہے ۔حتسرخی تصویر دکھائی جارہی ہے ۔ حقائق کوتوڑ مروڑ کام نہیں لیا جارہا۔ایک طے شدہ نظریے کے تحت یک کر انتہائی مبہم اور غیرواضح انداز میں نئی نسل کے سامنے پیش کیا جارہا ہے جسے نئی نسل بغ یر کس یااکر ای ک خ اص تحقیق کے من و عن تسلیم کرنے میں لمحہ بھر تاخیر سے کام نہیں لیتی۔ اسی بہائو میں طبقہ اپنی تاریخ،ماضی اور مشاہیر سے لاتعلقی کا اظہار بھی ک رنے لگت ا ہے۔لیکن یہ بھی ای ک حقیقت ہے کہ سچائی چھپائے نہیں چھپتی بلکہ بیج کی طرح ایک فطری عمل سے گ زر ک ر دوب ارہ ای ک تن اور درخت

کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ وقت ثابت کرتا ہے کہ درندہ صفت اور غ یر مہ ذب ک ون تھے؟ک ون کس کی وجہ س ے استحص الااج اتے ہیں۔ایس ے میں اس ام ر کی اائے۔وہ سارے عیار اور مکار چہرے بے نقاب ہو ک ر س امنے کی زد میں اال ود حق ائق اور مس خ ش دہ ت اریخی واقع ات ک و ای ک ب ار پھ ر اشدضرورت محس وس کی ج اتی ہے کہ گ رد سانہیں ترتیب نودے کر اگلی نس ل صیقل کیا جائے اور اپنے مشاہیر کی خدمات اور قربانیوں کا مطالعہ کرکے کے لیے محفوظ کیا جائے ۔ نئی نسل کوکس ی ح د ت ک گم راہ ہ ونے س ے بچ انے کے ل یے یہ عم ل ک ارگر ثابت ہو سکتاہے ۔ماضی میں کی گئی کوتاہیوںسے سبق سیکھنے کے لیے ت اریخ ک ا مط العہ از ح د ض روری ہوتا ہے۔تاریخی ورثہ ایک نامیاتی کل کی حیثیت رکھتا ہے جس میں زندگی اپنی تم ام ت ر گہم ا گہمی وں اورہق تحقی ق کے مط ابق خ اص رونقوں کے ساتھ جلوہ افروز ہ وتی ہے ۔جس س ے محق ق اپ نی افت اد طب ع اور ذو پہلو کا انتخاب کرتا ہے ۔محقق کے لیے یہ ض روری ہوت ا ہے کہ انتخ اب کے اس م رحلے میں کش ادہ قل بی

اور وسیع النظری کا مظاہرہ کرے۔

Page 10: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

9

ادب ہر دور میں عصری تقاضوں کا عکاس رہا ہے جس میں نہ صرف قوموں کی تاریخ محف وظاائینہ بھی ہوت ا ہے۔ ہندوس تان میں ہ و تی ہے بلکہ ادب تلاش و جس تجو ،شکس ت و فتح اور زوال وت رقی ک ا اازادی تک س و س ال کے طوی ل عرص ے مغل حکومت کے زوال کا دورانیہ ، جنگ پلاسی سے لے کر جنگ ااسودہ ح ال ہرگ ز نہ تھے لیکن سیاس ی ح والے س ے ابھی ت ک پر محیط ہے جس میں ہندوستانی خوشحال اورااگاہی اازادی اور غلامی کے فرق سے زیادہ اائے تھے ،اس لیے براہ راست انگریز حکومت کے زیر تسلط نہیں اازادی س ے لے ک ر تقس یم ہندوس تان ت ک ج و دور بنت ا ہے وہ اس ل یے انتش ار اور نہیں رکھ تے تھے۔جن گ سچکا تھا۔اگرچہ اس تعماری افراتفری کا دور تھا کہ اب انگریز سامراج ہندستان کا بلا شرکت غیرے حاکم بن قوتوںکے یک طرفہ ،طرز حکمرانی نے ہندوستان کو صحیح معنوں میں دارالحرب بناکراس تعماری پالیس یوں ک ا تج ربہ گ اہ بنای اتو دوس ری ط رف اس م ٹی نے سیاس ی اور م ذہبی عمائ دین کے علاوہاازاد اور علامہ محمد اقبال جیسے ناموراور نابغہ روزگار ادیب اازاد،ابوالکلام ، ی،حسرت ی،شبل ر،حال سرسید،اکب و شاعر بھی پیدا کیے۔اس فہرست کاایک معتبر ح والہ بہ ترین ش اعر، ادیب، خطیب، ص حافی، ع الم دین،سان کی ادبی معلم، ناقد، محقق، مقرر، مترجم ، سیاح اورزیرک سیاس ت دان مولان ا ظف رعلی خ ان بھی ہیں۔ سان کے سرس ری تع ارف کے ذریعے تحقی ق کے کاوشوں کا تحقیقی جائزہ لینے سے پیش تر ضروری ہوگا کہ

تقاضوں کو پورا کیا جا ئے۔)ا(

پیدائش،نام ،خاندانی پس منظراورتعلیم: مو لانا ظفرعلی خان ک ورٹ مہ رتھ )س یالکوٹ( میں مول وی س راج ال دین احم د خ ان کے ہ اں پی داسان کی ص حیح ت اریخ پی دائش بھی پ ردہ اخف ا میں ہوئے۔دیگ ر ت اریخ س از ہس تیوں اور ن امور ادیب وں کی ط رح ااپ بی تی نم بر میں مولان ا ظف ر علی ہے ،اس ل یے محققین ک و اس معمے کے ح ل میں اختلاف رہ ا۔نق وش

بی تی س ے پہلے ای ڈیٹر نے ااپ ء(لکھ ا ہے جس ک و کت ابت کی غلطی س ے۱۸۷۰ھ )۱۲۹۰خ ان کی عیسوی سال بنت ا ہے۔اس ی ط رح کی ای ک غلطی۸۷۳-۷۴ھ سے ۱۲۹۰تعبیر کیا جا سکتا ہے کیوں کہ

سانہوں نے مولان ا کی پی دائش سچکے ہیں۔ سان کا عہد‘‘ میں کر عنایت اللہ نسیم اپنی کتاب’’ظفرعلی خان اور

Page 11: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

10

ھ بت ائی ہے جس ک ا حقیقت س ے دور ک ا تعل ق نہیں بن س کتا۔اس کے علاوہ ڈاک ٹر ش ورش۱۲۵۰کاشمیری نے اپنی کتاب ’’ظفرعلی خان ادیب و شاعر‘‘ میں صرف ہجری کا حوالہ دیا:

’’۱۲۹۰(‘‘ ہے۔جری اپ کا سن پیدائش (۱ہسان کی ت اریخ پی دائش کے ب ارے میں مشہور تخلیق کار،ناقد اور محقق ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار

لکھتے ہیں:سان کا سال ولادت ہے۔‘‘)۱۸۷۳ ھجری بمطابق )۱۲۹۰’’ عیسوی(۲)

سانھوں نے ایک شاگرد کی حی ثیت س ے مولان ا ظف رعلی ڈاکٹر اشرف عطا نے جن کا دعوی ہے کہ خان کی رفاقت میں اکتیس سال گزارے ہیں نے بھی اپنی کتاب ’’مولانا ظفر علی خ ان‘‘میں ص رف قم ری

سال کا حوالہ دیا ہے۔لکھتے ہیں: ’’مولانا ظفر علی خان پنجاب کے ای ک م ردم خ یز خطہ س یالکوٹ کے

ھ کے اواخ رمیں پی دا۱۲۹۰چھ وٹے س ے گ ائوں ک وٹ مہ رتھ میں (۳ہوئے۔‘‘)

مولاناظفرعلی خان کی تاریخ پیدائش میں ہجری سال کے حوالے س ے کت ابت کی غلطی وں ک و اگ ر منہ ا کی ا ج ائے ت و بہت کم اختلاف رہ جات اہے۔البتہ یہ اں پ ر اش رف عط ا کے دع وے س ے عیس وی س ال

ھ کے اواخر میں میں پی دا ہ وئے‘‘۱۲۹۰ء کا انکشاف ضرور ہوتا ہے کیوں کہ وہ کہتے ہیں کہ’’ ۱۸۷۴ااغاز ہوت ا ہے۔ ۔ ذی قع دہ عیس وی س ال۱۱چوں کہ قمری سال کے گیارویں مہینہ سے نئے عیسوی سال کا

ااخری دن یعنی ذی قعدہ ک و عیس وی اور ہج ری س ال میں ای ک ہندس ے ک ا۱۲ دسمبر ہوتا ہے اور ۳۱کا ااجاتا ہے دوسری طرف اسلامی سال میں ذی قع دہ کے علاوہ ذی حجہ ک ا پ ورا مہینہ بھی رہ جات ا ہے۔ فرق

ء کا اطلاق ہو جاتا ہے۔ ۱۸۷۴اس لیے اشرف عطا کی درج کردہ ہجری تاریخ پر ء کی پنج اب۱۸۹۰ء کو زیادہ مستند بتانے والی ای ک اور س ند ۱۸۷۴مولانا کی تاریخ پیدائش

سبک بھی ہے۔اس حوالے سے احمد سعید’’ زمین دارلاہور،م ئی-اگس ت۔ ء‘‘کے۱۹۲۳یونی ورسٹی کا گزٹ دیباچہ میں لکھتے ہیں:

Page 12: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

11

ء میں انٹرس کا امتحان کالجیٹ ہائی سکول پٹی الہ۱۸۹۰’’مولانا نے ء ک و پنج اب۱۸۹۰۔اپری ل ۱۲س ے پ اس کی ا۔اس امتح ان ک ا ن تیجہ

ء میں ش ائع ہ وا۔۱۸۹۰یونی ورسٹی کے سینٹ ہال سے ج اری ہ و ک ر ساس کی عم ر لکھی گ ئی تھی مولان ا کے ااگے سامیدوار کے نتیجہ میں ہر

س ال درج ہے۔یہ امتح ان م ارچ میں ہ وا اور طلب اء نے۱۶ک الم میں جن وری ی ا ف روری میں داخلہ ف ارم جم ع ک روائے ہ وں گے۔اگ ر جن وری

ء۱۸۷۴ میں سے سولہ سال منہ ا ک ر دئ یے ج ائے ت و یہ س ن ۱۸۹۰(۴بنتا ہے۔‘‘)

مولانا کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے زیادہ مستند اوراہم حوالہ ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی کا بنتا ااث ار‘‘میں ہج ری اور عیس وی س ال کے سانھوں نے اپنی کتاب ’’مولان ا ظف ر علی خ ان ،اح وال و ہے کیوں کہ

علاوہ مہینے کی تاریخ بھی لکھ دی ہے:رتھ ض,,لع ہ ’’مولانا ظف,,ر علی خ,,ان موض,,ع م

ھ بمط,,,ابق۱۲۹۰ہ ذی قعد۲۷س,,,یالکوٹ میں ‘‘)۱۸۷۴ جنوری ۱۷ وئ ے۔ء کو پیدا (۵ہ

اگ ر چہ ڈاک ٹر نظ یر حس نین زی دی نے بھی دن وں کے حس اب س ے اپ نی تحری ر ک ردہ ت اریخوں میں جن وری لکھ اہے ۔راج ا اس د علی خ ان جومولان ا ظف ر علی۱۷ جن وری کی بج ائے ۱۶غلطی کی ہے اور

خان کے قریبی رشتہ داراور’’ ٹرس ٹ ‘‘کے س یکرٹری بھی ہیں نے اپ نی ت الیف ’’باب ائے ص حافت مولان ا ظف ر ۱۸ھ لکھ ا ہے ۔۱۲۹۰ ذی قعدہ ۲۹ ء بروز اتواریعنی ۱۸۷۴ جنوری ۱۸علی خان ‘‘میںتاریخ پیدائش

سان کا جنم دن مناتے ہیں۔ورنہ اس حوالے سے انھوں نے خ ود جنوری اس لیے کیوں کہ اسی روز خاندان والے بھی مختلف موقعوں پر کیے گئے سوالات کے جوابات میں عیس وی ت اریخ س ے لاعلمی ک ا اظہ ار کی ا ہے۔

ھ۱۲۹۰ ذی قع دہ ۲۷تاہم موج ودہ ش واہد کی پ وری تحقی ق س ے ث ابت ہوت ا ہے کہ مولان ا ظف رعلی خ ان ء کو بروز جمعہ پیدا ہوئے۔۱۸۷۴ جنوری۱۶بمطابق

سان ک ا ن ا م ہت خداون دی س مجھا اور گھ ر ک ا بڑابیٹ ا ہ ونے کی وجہ س ے گھ ر وال وں نے انہیں نعمسان ک ا ت اریخی ن ام )ح روف ابج د کے حس اب ہہی نے خ داداد رکھاگی ا۔بع د میں مولان ا کے وال د ک رم ال

Page 13: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

12

ھ میں پی دا۱۲۹۰سے(ظفرعلی رکھ دیا جب کہ خان، خاندانی روایت سے ن ام ک ا حص ہ بن ا۔چ وں کہ وہ ہف ابج د کے حس اب س ے ظ= ،ی=۳۰،ل= ۷۰، ع= ۲۰۰، ر= ۸۰،ف= ۹۰۰ہوئے اس لیے حرو

بنتا ہے۔ادبی و سیاس ی دنی ا میں ظف رعلی خ ان کے ن ام س ے ش ہرت پ ائی۔ش اعری میں(۱۲۹۰= )۱۰کہیں کہیں نام کا پہلا حصہ ’’ظفر ‘‘بطور تخلص بھی استعمال کیا ہے:

ہن تیرہ باطن کے جلانے کے لیے حاسدا ر پیدا ہوئے تجھ میں اے پنجاب اقبال و ظف

(۶)بھارت کی فضا گونجے گی ’’اسلام کی جے‘‘سے

ر قتل ااج ظف اائی کہ ہوا ہدن خبر جس (۷)

ش‘‘کے نام سے بھی لکھتے رہیں: ر کے علاوہ مولانا فکاہیہ کالموں اور نظموں میں’’ نقا ظف ش پر وہ جھنجلائے کیوں نہ نقا

ان کی چھاتی پہ جس نے مونگ دلے(۸)

ااباو اجداد ذات کے ح والے س ے ہن دو راجپ وت تھے جنہ وں نے بع د میں مولانا ظفر علی خان کے اسلام قبول ک ر لی ا تھ ا۔ان لوگ وں ک ا ابت دائی مس کن دری ائے جہلم کے کن ارے بتای ا جات ا ہے۔خوش حال اورسان کے پ ردادا محم د حس ن کے وال د حمی د ااسودہ حال زندگی گ زار رہے تھے کہ س کھوں کے انتش ار میں احمد خان خاندان کے باقی اف راد س میت ش ہید ہوگ ئے جس کی وجہ س ے یہ خان دان وہ اں س ے س یالکوٹ

منتقل ہونے پر مجبور ہوا۔اس حوالے سے ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی لکھتے ہیں:

’’محم د حس ن خ ان کی وال دہ اپ نے ی تیم بچے ک و لے ک ر بھ اگیں اور جل د ض لع گوجران والہ میںج ائے پن اہ تلاش کی اور وہیں اپ نے بچے کی

Page 14: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

13

ااب اد منتق ل پرورش کی۔اس کے بعد یہ خاندان کوٹ مہرتھ تحص یل وزی ر (۹ہو گیا۔‘‘)

ہہی‘‘مولان ا کے محمد حسن خان کو خداوند نے تین بیٹوں سے نوازا جن میں ایک ’’مول وی ک رم ال دادا تھے ۔جوایک بزرگ انسان تھے۔ع ربی اور فارس ی زب ان پ ر دس ترس حاص ل تھی۔مش ن س کول س یالکوٹسان کو اللہ نے تین بچے دیے ،سراج الدین )مولان ا ظف ر علی خ ان میں عربی اور فارسی کے مدرس بھی رہے۔ کے والد(،روشن الدین اوربیٹی کنیز ف اطمہ۔مولان ا کے وال د مول وی س راج ال دین کی ت اریخ پی دائش اور ج ائے

پیدائش کے بارے میں چودھری غلام حیدر لکھتے ہیں:

’’ظف ر علی خ ان کے وال د مول وی س راج ال دین احم د فتومن ڈی ض لعھ ب روز پنج ش نبہ پی دا ہ وئے ۔‘‘)۱۸۵۰ جن وری ۱۹گوجران والہ میں

۱۰)ساسی اس کول )مش ن س کول س یالکوٹ(میں ابت دائی تعلیم حاص ل کی مولوی سراج الدین احمد نے سان کی ص حیح تعلیم و ہہی کو سان کے والد مولوی کرم ال سان کے والد عربی اور فارسی کے مدرس تھے۔ جہاں ت ربیت کی کس ق در فک ر تھی اس ک ا ان دازہ اس واقعہ س ے ہوت ا ہے کہ ای ک دن ای ک بنگ الی نے مول وی ص احب س ے ع ربی اور فارس ی کی ٹیوش ن پڑھ انے کی درخواس ت کی ت و مول وی ص احب نق دی لی نے کیسان کی سان کے بی ٹے ک و انگری زی پڑھ ائے گ ا۔ بجائے اس شرط پر راضی ہوگئے کہ اس کے ب دلے وہ بنگ الی سان کے اادمی تھے ،سیاس ی بص یرت رکھ تے تھے۔ابت دائی زم انے میں شخص یت کے ک ئی پہل و ہیں ۔م ذہبی اکثر مضامین تہذیب الاخلاق میں شائع ہوتے رہے۔بے شمار ادبی،مذہبی اور سیاسی کانفرنس وں میں ش رکت کرتے رہے۔محکمہ ڈاک میں ملازم تھے۔ شاعری بھی کیا کرتے تھے ۔ نہایت خ وددار انس ان تھے انگری زوں

ء میں ملازمت۱۹۰۳کی نوکری کرتے ہوئے بھی کبھی اپ نی ع زت نفس ک و مج روح نہیں ہ ونے دی ا۔جب سے سبکدوش ہوگئے تو اخبار’’زمیندار‘‘ کا اج را کی ا جس میں وہ پنج اب کے غ ریب دہق انوں اور زمین داروں

ء کو تین مہی نے کی علالت کے بع د اس جہ ان ف انی۱۹۰۹ دسمبر ۶کو مفید مشوروں سے نوازتے تھے۔ااش یاں س راج سے کوچ کر گئے۔والد کی وفات پر مولان ا ظف رعلی خ ان نے دو مرث یے لکھے ہیں۔م رثیہ’’خل د

Page 15: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

14

ااش یاں،س راج ال دین سان کا شخصی خاکہ پیش کیا ہے جب کہ ’’خلد الدین احمد خان بانی ’’زمیندار‘‘میں سان کی وفات پر ماتم سرائی کی گئی ہے: احمد خان‘‘میں

ااشیاں سراج الدین احمد خان بانی ’’زمیندار‘‘ خلد وہ اپنے فن میں ملک کے اندر یگانہ تھے

ہد زمانہ تھے یکتائے روز گار و وحیہر فلک ہمت کے اعتبار سے تھا ہم س

یوں دیکھنے میں گر چہ قد اس کا میانہ تھااس کے قلم پہ ختم تھیں جادو نگاریاںاارا فسانہ تھا ساس کا ایک دل سنکتہ ہر

ان صاف گوئیوں کی بدولت تمام عمرجتنا کہ چاہیے تھا وہ اتنا بڑھا نہ تھا

ساسے ہع غیور دی خدا وند نے طبساس کا جھکا نہ تھا ااگے کبھی کسی کے سر

(۱۱)ااشیاں،سراج الدین احمد خان خلد دنیا مری نگاہ میں اندھیر ہو گئیااج ہت لیل و نہار سب مٹ گیا تفاو

ہن تمکین و عافیت چھوڑا ہے جاں نے دامااج توڑا ہے دل نے رشتئہ صبر و قرار

ہش جاں پہ خردہ گیر ہش جگر تپ ہے سوزااج دونوں میں مکابرہ دیوانہ وار

پاتے تھے جس سے فیض زمین دار کٹ گیاااج ہر سایہ دار افسوس جڑ سے وہ شج

Page 16: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

15

سوتے ہوئوں کو جس نے جگایا تمام عمرااج مرقد میں سو رہا ہے وہ عالی وقار

(۱۲) مولوی سراج دین احمد خان نے دو شادیاں کی تھیں۔پہلی بی وی س ے چ ار بی ٹے،مولان ا ظف ر علی خان ،چوہدری غلام حید ر خان،چوہدری غلام قادر خان،اور چوہدری اکبر خان تھے۔جب کہ دوسری بیوی

سے محمود احمد خان،حامد علی خان اور دوبٹیاں پیدا ہوئیں۔ مولانا ظفر علی خان کے والد نوکری کے سلسلے میں اکثر گھر سے باہر رہا ک رتے تھے اس ل یے وہااب ائی گ ائوں کے ’’مش ن س کول‘‘ وزی ر سانہوں نے ابت دائی تعلیم اپ نے ااگئے۔ ہہی کے زیرپرستی اپنے دادا کرم الااباد ااباد سے حاصل کی۔پانچویں اور چھٹی کے لیے علی گڑھ بھیج دئیے گئے۔ مڈل مشن ہائی سکول وزیر ااباد سے سے کیا۔ نویں جماعت کا امتحان پٹیالہ ہائی سکول سے دیاجب کہ دسویں جماعت کا امتحان الہ

ء میں سولہ سال کی عمر میںکالجیٹ ہائی سکول۱۸۹۰پاس کیا۔ انٹرنس)میٹرک( کا امتحان ایک بار پھر ء میں انٹرمیڈیٹ )ایف۔اے(کا امتح ان، ایم۔اے ۔۱۸۹۲پٹیالہ سے پنجاب یو نیورسٹی کے زیر نگرانی دیا۔

او کالج علی گڑھ سے پاس کیا۔ ظفرعلی خان پر لکھنے والے بعض احباب نے لکھا ہے کہ انھوں نے پنج ابساس دور میں میٹرک ک و ااباد ہر دو یونی ورسٹیوں سے میٹرک نہیں کیا یعنی وہ ڈبل میٹرک نہیںتھے بلکہ اور الہ انٹرنس کہا جاتا تھا۔اس لیے انٹرنس اور انٹر کی لفظی یکس انیت کی وجہ س ے یہ غل ط فہمی پی دا ہ و گ ئی

ااپ بیتی میں درج ہے۔ وہ لکھتے ہیں: سان کی اپنی لیکن اس سلسلے میں زیادہ مستند بیان خود ااٹھ ویں مش ن ہ ائی ’’میں نے مختل ف س کولوں میں تعلیم پ ائی۔پ انچویں اور چھ ٹی علی گ ڑھ میںپ اس کی۔

ااباد اور پنجاب ہر دو یونی ورسٹیوںسے پاس کیا۔‘‘) ااباد سے،میٹرک کا امتحان الہ ( ۱۳سکول وزیر

)ب(

معاش،شادی اوراولاد: ملازمت، ذریعہ ظفر علی خان علی گڑھ کالج سے ایف۔اے ک رنے کے بع د ملازمت کی تلاش میں کچھ عرص ےہہذا ہی افس ر تھے ۔ل سان کے وال د محکمہ ڈاک میں اعل کے لیے اپنے والد کے پاس کشمیر چلے گ ئے۔جہ اں

Page 17: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

16

اائی اور اازاد طبیعت کو راس نہیں سان کی سان کے توسط سے ڈاک میں ملازم ہو گئے لیکن انگریز کی نوکری جل د ہی ملازمت ک و خ یر ب اد کہہ ک ر بی۔اے ک رنے علی گ ڑھ چلے گ ئے۔ت اریخ میں اختلاف ہے لیکن

تحقیقی حوالے سے ڈاکٹرنظیر حسنین زیدی کا بیان زیادہ مدلل اور مستند ہے۔وہ کہتے ہیں:

سانھوں )ظفر علی خان(نے (۱۴ء میں بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔‘‘)۱۸۹۵’’اارنلڈ جیسے نابغہ روزگ ار اس اتذہ کے ش اگرد رہے ت و علی گڑھ میں ایک طرف وہ سرسید ،شبلی اور دوسری طرف ڈاک ٹر ض یاء ال دین کے ہم جم اعت ،محم د علی کے س ینئر اور ش وکت علی جیس ے سیاس ی رہنما کے جونیئر تھے۔مختلف ادبی حلقوں کا رکن بننے کے بعد کالج کے پلیٹ فارم س ے اپ نی ادبی ک یریر

ااغاز کیا ۔ کا باقاعدہ نمایا ں پوزیشن لے کر بی۔اے کرنے کے بعد مولانا ظف ر علی خ ان تلاش مع اش کے سلس لے میں بمب ئی چلے گ ئے جہاںمولان ا ش بلی نعم انی کے توس ط س ے ن واب محس ن المل ک کے پرائی ویٹ س یکرٹری منتخب ہوئے۔ نواب صاحب کے انگریزی مراسلوں کا جواب دیتے تھے اور س اتھ میں مختل ف مض امین کے تراجم بھی کیا کرتے تھے۔ایک سال وہاں گزارنے کے بعد جب مولانا شبلی کو کسی کام کے سلس لے میںااباد ج انے ک ا مش ورہ دی ا ۔اس سلس لے میں وہ خ ود سانہوںنے مولانا ظفرعلی خ ان ک و ک و حی در اانا ہوا تو وہاں

لکھتے ہیں:ر ح,,ال ای,,ک س,,ال اس ط,,ور گ,,زرا تھ,,ا،ک ہ’’ب ہ ہاس,,تادی و ملاذی علام ش,,بلی مرح,,وم س,,فرر اور ےحی,,در اب,,اد س واپس,,ی پ,,ر بمب,,ئی ٹھ ہ ے

ےمجھ حیدر اباد جا کر قسمت ازم,,ائی ک,,رن ےی عین م,,یر دل ک,,ا م,,دعا تھا ۔کی صلاح دی ے ہ ۔

(‘‘ (۱۵۔میں حیدر اباد چلا گیاسانہوں نے ف وج میں ملازمت اختی ار ک ر لی ۔ ای ک س ال ت ک ف وج میں لف ٹیننٹ کے ااباد میں حیدر عہدے پر خدمات سر انجام دیتے رہے ۔ ورزش کے عادی،نیزہ بازی کے ماہر اور گھڑ سواری کے شوقین کو یہاں پر بھی اپنے شوق پورا کرنے کا بھر پورموقع ملا۔لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکااوروہاں کےاافس میں مترجم بن گئے۔جب تک عزیزمرزا)ہوم س یکرٹری( حی در ہوم سیکرٹری) عزیز مرزا( کے توسط سے ہوم

Page 18: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

17

ااباد میںرہے مولانا ظفر علی خان مختلف عہدوں پر ف رائض منص بی ادا ک رتے رہے مثلا لجس لیٹو کونس ل کےااب اد م یر عثم ان رجسٹرار،اسسٹنٹ ہوم سیکرٹری وغیرہ۔ اس کے علاوہ کچھ عرصے کے لیے ولی عہد حی در علی کے اتالیق بھی رہے۔جب ہوم سیکرٹری عزیزمرزا کے تبادلے کے بعد نئے سیکرٹری نواب س ربلند ک ا تق ررسان کی ہج و ت ک لکھ ڈالی اور ااک ر سان کے م زاج س ے تن گ سان کے س اتھ مولان ا کی نہیں بن پ ائی ۔ ہوات و سچھٹی لے کر بمبئی چلے گئے۔بمبئی میں اپنے ہم جماعت دوست میر محفوظ علی کے س اتھ ہ اتھی دانتاارام ااخراس می دان کے ان اڑی م ایوس ہ وکر اا ب ال اور ریشم کا کاروبار شروع کر دیاجو کہ ناکامی سے دوچ ار ہ وسانہ وں نے مولان ا ک و ت ار دے ااب اد ہ و ا تو سے بیٹھ گئے۔اس دوران ہوم سیکرٹری عزیزمرزا کا تبادلہ دوبارہ حیدر ااب اد میں مولان ا نے ک ل ملا ک ر ت یرہ س ال کر واپس بلا لیااور لجسلیٹو اسمبلی کا رجسٹرار مقرر کردی ا۔حی در سان کے اخ راج کی ت و ک ئی ااباد سے گزارے جس کے بعد سزاوار ہوکر وہاں سے نکلنے پرمجبور ہو ئے۔حیدر

وجوہات بیان کی جاتی ہیںلیکن اس کی تردید کرتے ہوئے اصل وجہ وہ خود یوں بیان کرتے ہیں:ساس ے اس اائی ہوئی تھی۔مدرستہ العلوم کے بعض پ رانے ط الب العلموں نے ااباد میں ایک سنیما کمپنی ’’حیدر اام دنی علی گ ڑھ کے ل یے وق ف ک ردے۔رات کے وقت جب اامادہ کیا کہ ایک رات کے تماش ہ کی بات پر ہ دولت اور طبقہ متوسط کے تماشائیوں سے کھچا کچ بھرا ہوا تھ ا۔کمپ نی وال وں کھیل ہوا تو تھیٹر امراء عیان نے پردہ پر اطالوی معاشرت کا ایک حیا سوز نظارہ دکھایا۔مرد عورتوں کے ساتھ بے حجابانہ مل کر ناچ رہے تھے۔کھیل کے خاتمے پر مجھ سے فرمائش کی گئی کہ موزوں الفاظ میں کمپنی ک ا ش کریہ ادا ک روں۔میں نے ایک تقریر کی جس میں برسبیل تذکرہ مشرقی اور مغربی تہذیب کا مق ابلہ ک رتے ہ وئے ن اچ والی متح رک تصویر کا حوالہ دیا اور کہا کہ اگر ہندوستان کے مردوں اور عورتوں نے بھی اطالویوں کی تقلید شروع ک ر دی تو پھر ہمارے ایمان اور اخلاق ک ا خ اتمہ ہے۔۔۔۔۔چن د دن نہ گ زرنے پ ائے تھے کہ ح دود دکن س ے م یرے

(۱۶اخراج کا فرمان صادر ہوا۔‘‘)ااگئے۔یہ ااباد اابائی گائوں کرم ااباد سے نکلتے ہی وہ سیدھے اپنے سان۱۹۰۹حیدر ء کا زمانہ تھ ا اور

سان کو وصیت کرتے ہوئے کہا: کے والد مرض الموت میں مبتلاتھے ۔ والد نے ااباد کہنے والا ہوں لیکن اپنی زن دگی ک ا ای ک ’’میں اس جہاں کو خیر درخشاں نشاں چھوڑچلا ہوں جسے نمایاں کرنا تمھارا سب سے بڑا فرض

Page 19: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

18

ہے۔یہ یادگ ار ’’زمین دار ‘‘ہے۔اس پ ودے ک و میں نے خ ون جگ ر س ے سینچ سینچ کر ثمرو نخل بنای ا ہے اس نخ ل ک و ب اد ح وادث کے تن د و

(۱۷تیز جھونکوں سے محفوظ رکھنا۔‘‘)سانھ وں نے اپ نے۱۹۱۰ء کو اپنے والد کے وفات کے بعد یکم جن وری ۱۹۰۹ دسمبر ۶ ء س ے

والد کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے ’’زمیندار‘‘کی ادارت سنبھال لی۔کچھ عرصہ اس ہفتہ وار اخبار کو ک رم ااباد سے شائع کرتے رہے پھر دوستوں کے مشورے پر ’’زمیندار‘‘ کو لاہور منتقل کردی ا۔لاہ ور میںہفتہ وار س ے اس کی اشاعت روزانہ کر دی گئی ۔ موضوعاتی حوالے سے اخبار زمینداروں کے مس ائل س میت دنی ا جہ اں

ء میں ط رابلس اور بلق ان کی جنگیں ش روع ہ وئی ت و’’۱۹۱۱کی اہم خ بروں ک و ق ارئین ت ک پہنچات ا رہ ا۔ زمیندار‘‘ نے ایک خبررساں ایجنسی کا کردار ادا کی ا۔ تھ وڑے عرص ے میں ’’زمین دار‘‘ پ ورے ہندوس تان کےاازاد لکھ تے کونے کونے تک پہنچ گیا۔’’زمیندار ‘‘پرایک مضمون میں ’’الہلال ‘‘کے ایڈیٹر مولان ا اب والکلام

ہیں: ’’ روزانہ ’’زمین دار‘‘کی ا ش اعت س ے پہلے اخب ار بی نی ص رف طبقہ خواص میں محدود تھی۔۔۔جنگ طرابلس نے ق وم کے تم ام طبق ات ک و خبروں کا ش ائق بنای ا اور ’’زمین دار‘‘کی ع ام مقب ولیت ش روع ہوگ ئی۔اسساس کی ارزانی اورع ام کی اش اعت بیس بیس ہ زار روزانہ ت ک پہنچی اور ساسے عام دکانداروں اور ب ازار کے بیٹھ نے وال وں ت ک پہنچ ا فہم ہونے نے

(۱۸دیا۔‘‘) ’’زمین دار ‘‘کے توس ط س ے مولان ا ظف رعلی خ ان کے قلم ک و ای ک ایس ا پلیٹ ف ارم ملا جس کے

سان ک و جی ل جان ا۱۹۴۷ذریعے وہ تن،من ، دھن کی پ روا ک یے بغ یر ء ت ک ل ڑتے رہے۔ک ئی م رتبہ سان ک ا قلم س امراجی قوت وں پڑا،دھمکیاں دی گئیں،مسلسل جرمانے لگائے گئے ،ضمانتیں ضبط ہوئیں لیکن اانکھ وں ک ا کے ریشہ دوانیوں کے خلاف برابر چلتا رہا ۔ یہی وجہ تھی کہ مولانا ظفرعلی خان انگری زوں کی سپرزور الف اظ میں مخ اطب ک رکے تقری ر ااک ر ع وام ک و خار بنتے رہے۔مغربی سامراج کے خلاف وہ میدان میں کیاکرتے تھے،نظمیں پیش کرتے تھے اور اگلے روزاپنے انہی خیالات سے اخبار کے صفحے مزین کیا ک رتے

Page 20: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

19

تھے۔جب کہ انگریز سرکارسیخ پا ہوکر اخبار پر جرمانے لگا کر بندکر دیا کرتی تھی اور مولانا کو واصل جیلاازادی کے ایک سرگرم رکن اور زمیندار کے مالک و ایڈیٹر ہونے کے ناتے مولان ا نے ۱۴کردیا جاتا۔ تحریک

س الہ عم ر کے حس اب س ے انہ وں نے اپ نی زن دگی کاچھٹ ا حص ہ۸۴سال جیل میں گزاردیے ۔ یعنی اپ نیااپ کل کتنا عرصہ جیل میں رہے ؟شورش کاشمیری کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے جیل میں گزارا ۔

مولانا ظفرعلی خان کہتے ہیں: ’’دن تو گنے نہیں ،لیکن نظر بندی اور قید کے دن ملا کر کوئی چودہ سال ہو جاتے ہیںاور اگر ان میں ضبطیاں اور قرقیاں ملا لی جائیں ت و پھ ر

اادھی عمر اسی کوچہ میںکٹی ہے۔‘‘) (۱۹ااج تک ااب اد میںنظ ر بن د ک ر۱۹۱۴مولانا ظف رعلی خ ان پہلی م رتبہ جن گ عظیم اول ء کے زم انے میںک رم

میں حض رو کے مق ام پ ر تحری ک۱۹۲۰ دس مبر ۱۶دئیے گئے اور پانچ سال بعد رہ ا ہ وئے۔اس کے بع د خلافت کے حوالے سے ایک تقریر کی پاداش میں گرفتار ہوئے اور ایک ساتھ دو مختل ف دفع ات کے تحت پانچ سال اور دو سال قید کی سز اسنائی گئی۔البتہ دونوں سزائے ایک ساتھ شروع ہوئی تھیں۔س ائمن کمیش

ء میں ک انگرس۱۹۳۰کی بائیک اٹ کے جلوس وں میںش رکت کی وجہ س ے ای ک مہینہ جی ل میں جان ا پ ڑا۔ہسول نافرم انی کی تحری ک کے س بب گرفت ار ہ وئے جس میں انہیں تین س ال قی د کی س زا ہ وئی البتہ کی ’’گان دھی جی ارو ن س مجھوتے ‘‘میں ڈی ڑھ س ال بع د رہ ا کردئ یے گ ئے۔ک انگرس کی دوس ری گ ول م یز کانفرس میں شرکت کے لیے لارڈ ارون اور گاندھی کے درمیان ایک سمجھوتہ ہوا تھا جس میں خیر س گالی

ء کومس جد ش ہید گنج کے قض یہ میں بھی ڈی ڑھ س ال۱۹۳۵کے طور پر سیاسی قیدیوں ک و رہ ا کی ا گی ا۔ااباد میں نظر بند رہے۔ کرم

مولانا ظفرعلی خ ان کے علاوہ زمین دار س ے وابس تہ ب اقی اف راد جن میں محم د احم د خ ان،محم د عدیل عباسی،عبدالمجید سالک، حافظ سید احمد،چودھری عبدالحق،غلام قادر خان،اختر علی خان وغ یرہ کے نام سرفہرست ہیں ان شخصیات نے بھی قی د و بن د کی ص عوبتیں برداش ت کیں۔یہ ت و جس مانی اذیت وں کی داس تان کی مختص ر جھلکی اں تھیں اس کے علاوہ م الی ح والے س ے ’’زمین دار‘‘ک و جن ض مانت کیسان ک ا عہ د‘‘،ش ورش سان ک ا ذکرعن ایت اللہ نس یم اپ نی کت اب ’’ظف رعلی خ ان اور ضبطیوں کا سامنا کرن اپڑا

Page 21: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

20

کاش میری نے ’’قی د فرن گ‘‘،ڈاک ٹر ص ادق حس ین نے ’’انم ول م وتی‘‘ اور احم د س عید نے ’’زمین دار ‘‘ ء کے ترتیب شدہ اور تدوین شدہ جلدوں میں کی اہے۔جن کے مط ابق ’’زمین دار‘‘س ے۱۹۲۳ء اور ۱۹۲۲

کی ض مانت۲۰۰۰ء س ے ش روع ہ وا اور پہلی م رتبہ ۱۹۱۲ م ارچ ۱۲ضمانتیں جمع کرنے ک ا سلس لہ ء ک و مولان ا خ ود۱۹۱۳دس مبر ۲۵ء میں ض بط ک ر لی ا گی ا۔۱۹۱۳ دس مبر ۱۸طلب کی گئی جسے

ہی ضمانت‘‘میں اس ناخوشگوار واقعہ کا ذکر کرتے ہیں:؎ اپنی نظم’’زمیندار کی ضبطہہ برق میں خرمن میرا ہے کھٹکتا نگ

خواب یہ ہے مگر اب دیکھیے اس کی تعبیرااج ہے ناز مجھے اپنی گنہگاری پر

سان کا خیال تعزیر میں کہاں ورنہ کہاں فائدہ اس سے اگر ضبط ضمانت کرلی

کاش بتلاتے مجھے ضبط فغاں کی تدبیر(۲۰)

کوایک مضمون بہ عنوان’’چہار چیز است تحفہ، لندن۔۔خم ر و خنظیرروزن امہ۱۹۱۴ جنوری ۱۳ ء ک و۱۹۱۴ فروری ۱۸ کی ضمانت ضبط کرلی۔۱۰۰۰۰و زن‘‘کے پاداش میں سر مائیکل اوڈوائر نے

ساس وقت کے ل گ بھ گ تھی۔م ارچ۷۵۰۰۰زمین دار س ٹیم پ ریس ض بط ک ر لی ا گی ا جس کی قیمت ء میں پھ ر۱۹۲۰ کی ض مانت طلب ک رکے ض بط ک ر لی گ ئی۔س تمبر ۲۰۰۰ء میں ۱۹۲۰ کی ض مانت۳۰۰۰ء میں ۱۹۳۰ء میں دفتر زمیندار کا سامان ضبط کر لیا گیا۔۱۹۲۲،اپریل ۲۰۰۰

دس مبر میں پھ ر۳۱ء جب کہ ۲۰۰۰ میں ۱۹۳۱جم ع کی گ ئی جس ے بع د میں واپس کردیاگی ا۔ ۳۱ ہ زار،۳۰۰۰ء میں ۱۹۳۲،م ارچ ۱۰۰۰ ء میں ۱۹۳۲ کی ضمانت ضبط ہوئی۔جنوری ۲۰۰۰ ء میں۱۰۰۰،۱۹۳۵ء ک و ۱۹۳۳،اپری ل ۵۰۰۰ ک و ۱۹۳۳،جن ور ۲۰۰۰ ئک و ۱۹۳۲دس مبر ء میں تحری ک ختم نب وت۱۹۵۳ یہاں تک کہ ۸۰۰۰ء کو مزید ۱۹۴۶ پھر۵۰۰۰،اس کے ۵۰۰۰

ہق سرکار ضبط کر لیا گیا۔انہیں قرقی وں کے سلسلے میں زمیندار کا ڈیکلریشن منسوخ کرکے پریس سمیت بحاور ضبطیوں کو اشعار کا روپ دے کر انہوں نے اپنی نظم ’’ضبطی‘‘ میں یوں پیش کیاہے:

Page 22: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

21

دل ضبط، زباں ضبط، فغاں ضبط، قلم ضبطدنیا میں ہوئے ہوں گے یہ ساماں کہیں کم ضبط

ااج ’’زمیندار‘‘ پنجاب میں یوں ضبط ہوا بنگال میں جس طرح ہوا کرتے ہیں بم ضبط

برطانیہ کا شیوہ رہا گر یہی کچھ روزسسن لوگے عزیزوں کہ ہوئے دیر و حرم ضبط

(۲۱) مولان ا ظف رعلی خ ان کی ش ادی ب ارہ س ال کی عم ر میں ہ وئی۔ ظ اہری ب ات ہے کہ اس عم ر کیسان کی پس ندکا ک وئی دخ ل رہ ا ہوگ ا۔ان کے وال دین بھی شادی میں نہ ان کی مرض ی ش امل تھی اور نہ ہی ہہی ک ا ای ک اس شادی کے حق میں نہ تھے لیکن خاندانی روایت کے مطابق رشتہ داروں میں مولوی ک رم الاائے اور اپنی بی ٹی کی ب ات پکی ک ر لی۔اپ نی ش ادی کے ب ارے میں مولان ا ظف ر علی سان کے پاس تعلق دار

خان خود کہتے ہیں: ’’میری شادی ب ارہ ب رس کی عم ر میں ہوگ ئی تھی۔جب بی وی گھ ر میںاائی اائی تو میںایک مدت تک یہی سمجھتارہا کہ یہ کوئی مہم ان ل ڑکی

(۲۲ہے۔‘‘)سان کے ادبی ،سیاسی اور ہی صرف ایک بیٹے’’مولانا اخترعلی خان‘‘سے نوازا۔ جو مولانا کو اللہ تعال صحافتی زندگی میں برابر ہاتھ بٹاتے رہے۔اخ تر علی کے ہاں دو بی ٹے منص ور علی خ ان اور مس عود علی خ انہی نے ای ک بی ٹے ااگے نہیں بڑھتا جب کہ مسعود علی خان ک و اللہ تع ال پیدا ہوئے۔منصورعلی خان کا سلسلہ

معظم علی خان اور تین لڑکیوں سے نوازا ہے۔

Page 23: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

22

)ج(

ظفرعلی خان بحیثیت ادیب ، سیاست دان اور صحافی: مولاناظفر علی خان کی زندگی میں ادب اور سیاس ت کے علاوہ ص حافت بھی س اتھ س اتھ چل تی رہی۔ادب،سیاست اور صحافت مولانا کی زندگی ک ا وہ تک ون ہے جس س ے ان کی زن دگی ک ا ت وازن ق ائمسانہ وں نے سیاس ت ک و ادب میں ش امل ک رکے سیاس ت کے ل یے ادب کے می دان ک ا انتخ اب کی ا رہتا رہا۔ سان کو وراثت میں ملی ہوئی جاگیر تھی جو کہ دون وں کی طب اعت و اش اعت کے ک ام جب کہ صحافت تو

ااتی رہی۔ااغ از ک الج کے زم انے س ے کی ا لیکن ہونہ ار ب روا کے چک نے چک نے پ ات کے ش اعری کاباقاع دہ سان کے مصداق نویں جماعت ہی میںزبان سے الف اظ کلام م وزوںکی ص ورت میں ادا ہ وتے رہے۔یہ ق افیہ پیم ائی شعری سفر کا اولین نمونہ قرار دیا ج ا س کتا ہے ۔وہ خ ود اپ نے س کول کے زم انے ک ا ای ک واقعہ بی ان ک رتے

ہوئے لکھتے ہیں: ’’میں جن دنوں پٹیالہ میں نویں جم اعت میں پڑھت ا تھ ا ۔ت و ای ک رنگینساس تاد ص احب سسکھن لال نامی مجھے پڑھایا کرتے تھے ۔یہ ساستاد مزاج افیمی تھے اور باری باری لڑک وں س ے افیم کی چس کی لی ا ک رتے تھے۔سسکھن لال ص احب افیم کی چس کی لے ک ر عجیب ترن گ ای ک دن اائے فرمانے لگے’’ دیکھو لڑکو!میں ایک مص رع بولت ا ہ وں ج و لڑک ا میں دوس را مص رع کہہ ک ر ش عر پ ورا ک رے گ ا اس ے ای ک چس کی مع اف

ہوگی۔مصرع یہ تھا:سسکھن لال کیا زباں میں تری طاقت ہے وہ رے بے نظیر

لڑکے خاموش ہوئے اچانک میرے منہ سے نکلا:ایڑیا ں بھی تیری لمبی لمبی ،ٹنگڑیوںمیں بھی تیری طاقت ہےستو تو ہوتا کہیں کا چپڑاسی یاں پڑھانا تیری حماقت ہے

Page 24: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

23

ساٹھا۔‘‘) (۲۳کمرہ دبے دبے قہقہوں سے گونج جب مولان ا بی۔اے ک رنے علی گ ڑھ چلے گ ئے ت و وہ اں ک الج کی دو ادبی انجمن وں’’اخ وانسرکن بن گ ئے اور اپ نی تخلیق ات ک و تنقی د کے ل یے پیش کرناش روع کردی ا۔ الص فا‘‘اور ’’جنۃ الادب‘‘کے سانہ وں نے خ وب سرسید احمد خا ن پر فارسی زبان میں لکھی ہوئی نظم ایک ادبی محف ل میں پیش ک رنے پر داد وصول کی۔اس نظم کا حوالہ اشرف عطا نے اپنی کت اب ’’مولان ا ظف رعلی خ ان ‘‘میں دی ا ہے ای ک بن د

ملاحظہ ہو:مسخر کرو نظم کشور جادئو بیانی راہد وحشی، معانی را ااورد طبعم، می بدام

ااب از اشک ہائے چشم او باید جہاز قوم فلک چشم تو گاہے دیدہ است ایں باغبانی را

(۲۴)ساس تاد مولان ا ش بلی نعم انی س ے س یکھے ۔ زندگی کے انداز و طریقے اپ نے پس ندیدہ اور ہ رد العزی ز غ کا م رثیہ لکھ نے کی وجہ س ے بعض ساستاد کے سامنے باقاعدہ زانوئے تلمذ نہیں کیا۔دا شاعری میں کسی

کا شاگرد قرار دیا ہے لیکن مولاناخود اس بات سے انکار کرتے ہیں: سان کو داغ لوگوں نے ساستاد نہیں ۔داغ مرحوم کی عادت تھی کہ جو ’’شاعری میں میرا کوئی اادھ نک تے پ ر ساس نے ش اعری کے ای ک سان کے پاس بیٹھا ، شخص بھی ساس ک و اپ نے اادھ غزل سنا کر مشورہ طلب کیا ،تو وہ بات چیت کی یا شاگردوں کی فہرس ت میں ش امل ک ر لی تے ۔۔داغ کے ہ اں اک ثر ش عر و سخن کی محفلیں جم تیں میں بھی ش ریک ہوت ا تھ ا۔۔۔م یرے اور اقب ال کے داغ کے شاگرد ہونے کی غلط فہمی اس سے بھی پیدا ہوتی ہے کہ

(۲۵ہم دونوں نے داغ کے مرثیے لکھے ہیں۔‘‘)ااباد چلے گئے ت و ن واب محس ن المل ک مولانا ظفرعلی خان بی ۔اے کرنے کے بعد جب وہ حیدر ااب اد میں ج ان کے پرائیوٹ سیکرٹر ی مقرر ہ وئے۔یہیں س ے ان کے قلم ک و روانی اور جلا ملی اورقی ام حی در

Page 25: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

24

رجمہReligion and science Conflict ofولیم ڈری پرکی تص نیف ا ت ک ء میں ای ک م اہوار ادبی رس الہ’’افس انہ ‘‘ج اری کی ا۱۹۰۲’’معرکہ مذہب و سائنس‘‘ کے عن وان س ے کی ا۔

کا ت رجمہ’’اس رار لن دن‘‘ کے ن ام س ے چھپ ا۔The Mystries of londonجس میںء میں ’’دکن ریویو‘‘کا اجراء کیا جو اپنے زمانے کے ادبی رسائل میں اعتبار کا حامل تھا۔۱۹۰۴

اایا جس۱۹۰۵ ہی ندی‘‘ کی طغیانی کی وجہ سے ایک سیلاب ااباد میں واقع’’ موس ء میںحیدر میں لاکھوں جانیں لقمہ اجل بن گئیں تو مولاناظفرعلی خ ان اس پ ر ای ک طوی ل نظم’’ش ور محش ر‘‘کے ن ام سے لکھ کر’’دکن ریویو‘‘میںشائع کردی۔ ہ زاروں کی تع داد میں یہ نظم چھپ ک ر ف روخت ہ وئی ۔ اس کی اامدنی سیلاب زدگان کی امداد کے لیے وقف کردی گ ئی۔یہ وہ نظم ہے جس کی وجہ س ے مولان ا ظف رعلی خان کا تعارف ادبی دنیا میں ایک شاعرکی حیثیت ہوا۔مولانا شبلی کی مشہور زم انہ تص نیف ’’الف اروق‘‘ک ا

ک ا ’’خیاب انGARDEN OF PERSIAانگری زی میں ت رجمہ اورلارڈ ک رزن کی کت اب، سان کی نظمیں اور مضامین فارس‘‘ کے نام سے ترجمہ اسی دور کی یادگاریں ہیں۔’’دکن ریویو ‘‘کے علاوہ ساس دور کے مشہوررسالہ ’’مخزن‘‘ میں بھی شائع ہوتی رہیں۔پیسہ اخبارمیں شائع ہونے والی نظم’’واکر نامہ‘‘ااج بھی تحقیق طلب مسئلہ ہے لیکن موضوع اورمزاج کے اعتب ار س ے مولان ا جس کے تخلیق کارتک رسائی ظفرعلی خ ان س ے منس وب کی ج اتی ہے جس کی وجہ س ے مولان ا ک ا ش مار مزاحم تی ش اعروں میں ہ ونے

لگا۔ہر محشر‘‘ نظم کے حوالے س ے ش مار کی ا جات ا ہے مولانا کی شاعری کا پہلا مجموعہ اگرچہ ’’شوسان کی نظموں کا باقاع دہ مجم وعہ ’’بہارس تان ‘‘ ہے۔بہارس تان میں لیکن متفرق موضوعات کے حوالے سے اک ثر نظمیں ت اریخ کے س اتھ ش ائع ہیں جس ک ا ان دراج مولان ا نے خ ود کی ا تھ ا ۔ت اریخی اعتب ار س ے اساازمائی ش روع مجموعے میںشامل تیں غزلوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا نے نظم کے ساتھ غزل میں بھی طبع سانھوں نے صرف نظم کو وسیلہ اظہ ار اائی اس لیے پھر سان کے مزاج کو راس نہیں کی لیکن یہ صنف سخن

ء درج ہے۔اس کے بع د نظم ’’ص د نقش بی ک پ ردہ‘‘ج ون۱۸۹۸بنایا۔پہلی غزل وں کی تخلی ق کی ت اریخ سکتے سے سبق پڑھوسبق وفا کا‘‘۱۹۰۰ ء۱۹۰۰ اگس ت ۵ء اورایک انگریزی نظم کا اردو منظوم ترجمہ’’

ااب اد دکن‘‘اکت وبر۱۹۰۱،ای ک اور نظم ’’اپن ا نظم‘‘ کے عن وان س ے ہح تم دن حی در ء،’’انجمن اص لا

Page 26: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

25

ء،انگریزی نظم کا منظ وم ت رجمہ بہ عن وان ’’غ ریب ال وطن ش اعر ک ا خط اب اپ نی بی وی س ے‘‘ج ون۱۹۰۳ء سے درج ہے اور اس طرح پھر باقاعدہ ایک سلسلہ شروع ہے۔۱۹۰۵

ااباد چلے جاتے ہیں۔ وہیں س ے۱۹۰۹مولانا ظفرعلی خان ااباد کہہ کر کرم ااباد کو خیر ء میںحیدر سان کی ادبی،سیاسی اور ص حافتی س رگرمیوں ک ا ای ک طوی ل سلس لہ ش روع ہ وا جس کی اش اعت کے ل یے’’ زمین دار‘‘ک ارگر ث ابت ہ وا۔ ’’زمین دار‘‘ کی اش اعت پ ر پابن دی کے دوران کچھ عرص ہ کے ل یے یکم دس مبر

ااکر اسے جلد بند کرنا پڑا۔اسی۱۹۱۷ ء سے’’ستارہ صبح‘‘کے اجرا کیالیکن حکومت وقت کے زیر عتاب ااباد کی نظر بندی سے رہائی کے بعد دوبارہ’’زمیندار‘‘کی اشاعت شروع کر دی۔۱۹۲۰طرح ء کو کرم

Theمولان ا ظف ر علی خ ان نے م ذکورہ ب الا ت راجم کے علاوہ رڈیارڈکپلن گ کی تص نیف Jungle Book کا ترجمہ’’جنگ ل میں منگ ل‘‘رائی ڈر ھیگ رد کے ن اولThe People

of the Mistکا ترجمہ ’’سیر ظلمات‘‘کے نام سے جب کہ پروفیسرای۔جی ۔برائون کی تصنیف an Revolution Persiکے پہلے باب کا ترجمہ جو جمال الدین افغانی کی ح الات

زندگی کے حوالے سے تھا ’’علامہ جم ال ال دین افغ انی‘‘کے ن ام س ے کی ا۔اس کے علاوہ علامہ اقب ال کےہت بیض ا پ ر ای ک عم رانی نظ ر‘‘کے ن ام س ے، جب کہ ای ک انگری زی ای ک انگری زی خط بے ک اترجمہ،’’مل افسانے کا ترجمہ’’میری عینک‘‘کے نام سے کیا۔نثری تخلیق ات میں ’’جن گ روس و جاپ ان‘‘)ڈرامہ( ،پ انچ افسانوں اور ڈراموں کا مجموعہ ’’معاشرات‘‘، روح مع انی،غلبہ روم،لط ائف ادب،حقیقت و افس انہ،حق ائق و

معارف،جواہر لاادب،فلسفہ بوعلی سینا،انڈین پریس ایکٹ )انگریزی( وغیرہ شامل ہیں۔ مولانا ظفرعلی خان کے سیاسی شعور کو بیدار کرنے میں علی گڑھ نے اہم کردار ادا کیا۔ابتداء میں

ء کو ڈھاکہ۱۹۰۶ دسمبر ۳۰سرسید کے سیاسی فلسفے کے پیروکاربنے اورکانگرس سے دوری اختیارکی ۔ساس میں شریک ہوئے۔اجلاس میںنواب سلیم میںمسلمانوں کا جو اجلاس منعقد ہوا ۔ مولانا ظفرعلی خان بھی سان کی اللہ نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ سیاسی تنظیم کی تجویز پیش کی تو مولانا نے سب س ے پہلے سرک نی دستورس از کمی ٹی کے اہم مم بر ااا ل انڈیا مس لم لی گ کی س اٹھ اس تجویز کی بھرپور تائید کی۔مولانا

میں طرابلس اور بلقان کی لڑائیوں کی وجہ سے وہ عالم اس لام ک و درپیش خط رات۱۹۱۲۔۱۱بھی رہے۔ ء تک مسلم لیگ کے اجلاسوں میں بھی ش ریک۱۹۱۴کی جانب متوجہ ہوئے تاہم اس دور میں بھی سن

Page 27: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

26

@¤ا سیاس ت س ے کن ارہ ہوتے رہے۔پہلی جنگ عظیم میں پانچ سال کے لیے نظربن د ہ وئے جس کے بع د مجب ور میں رہائی کے بعد جب ملکی سیاست میں قدم رکھا تو ملک کی فض ا یکس ر۱۹۱۹کش ہوگئے۔ دسمبر

سچکی تھی۔تحریک خلافت،رولٹ ایکٹ،جلی انوالہ ب اغ،مارش ل لاء وغ یرہ ایس ے واقع ات تھے جس میں بدل ہہذا ک انگرس اور خلافت کمی ٹی نے فع ال ک ردار ادا کی ا اور مس لم لی گ مکم ل انجم اد ک ا ش کار رہی ۔ل

ء ت ک خلافت کمی ٹی۱۹۲۷خلافت کمیٹی میں شمولیت اختی ار کی اور ک انگرس کے ح امی بن گ ئے۔ ت ک نظری اتی ط ور پ ر ک ٹر کانگریس ی۱۹۳۱کے بھی رکن رہے جس کے بع د اح رار میں ش امل ہوگ ئے۔

سان کے خی ال میں ک انگرس کی ط اقت اور گان دھی جی کی بص یرت نظری ات ک ا ان پ ر غلبہ رہ ا کی وں اازاد کرا سکتی تھی۔ ہندوستان کو برطانوی استعمار سے

ء کے کراچی اجلاس میں نماز کے لیے وقفہ نہ رکھنے پ ر ک انگرس س ے ن اراض ہوگ ئے ۔۱۹۳۱ اانے والے واقع ات نے جل تی پہ تی ل ک ا ک ام کی ا۔ کی وں کہ اس دور میںقض یہ مغ ل پ ورہ،۱۹۳۱ میں پیش

تحریک کش میر اور مس جد ش ہد گنج کے مع املے میں ک انگرس نے س رد مہ ری ک ا مظ اہرہ کی ا ۔اس کے علاوہ دوس ری گ ول م یز ک انفرس میں ک انگرس کی ش مولیت اور م والاتی ط رز عم ل کی وجہ س ے مولان ا

ء ت ک مسلس ل ک انگریس کی پالیس وں اور گان دھی۱۹۳۴ء سے ۱۹۳۱کانگرس سے دل برداشتہ ہوگئے۔ااباد کہہ ک ر مجلس اتح اد ملت بن ائی۔۱۹۳۵جی کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ میں مجلس احرارکو خیر

ء کو مجلس سمیت مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور ایک بار پھ ر مس لم لی گ کے پلیٹ ف ارم س ے۱۹۳۶ااغاز کردیا۔ مغربی استعمار کے خلاف اپنی جدوجہد کا

)د(

شعری تخلیقات کاسرسری تعارف:

شورمحشر: ہر محش ر‘‘ ای ک طوی ل نظم پ ر مش تمل ہے، یہ کت اب سان کی پہلی کت اب’’ش و ش اعری کے ح والے

ااباد کے دوران شائع ہوئی۔یہ کتاب بدقسمتی سے اب نایاب ہے لیکن ڈاکٹر غلام۱۹۰۵ ء میں قیام حیدر

Page 28: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

27

حسین ذوالفقار نے اپنی کتاب’’ظفرعلی خان ادیب و شاعر‘‘ میں اس کے دس تیاب حص ے کوبط ور ض میمہاانے والے س یلاب کی تب اہی پ ر لکھی گ ئی ہے۔بے ہی ن امی ن دی میں شامل کرکے شائع کیا ہے۔یہ نظم موس شک یہ نظم مولا نا کی ابتدائی کاوشوں میں سے ایک ہے لیکن فکر وفن کے حوالے سے ایک بھر پ ور نظم ہے جس میں وہ ایک نیچرل شاعر کے روپ میں نمایاں ہوکر وطن پرس تی اور انس ان دوس تی ک ا پرچ ار ک رتےااتے ہیں۔فنی حوالے سے یہ نظم پاپند ہیئت میںلکھی گئی ہے۔مترنم بحر،بحر مض ارع مثمن اخ رب جس نظر کے ارکان مفعول /فاعلاتن ہیںکا سہارا لی ا ہے۔ خوبص ورت لفظی ات و ت راکیب ،برمح ل تش بیہات واس تعارات

کی مدد سے نظم کو موثر بنایاہے:اس باغ میں ہے کیسا یہ مجمع پریشاں

صورت سے فکر ظاہر چہروں سے غم نمایاںلالہ کی طرح سب کے سینوں میں داغ تاباں

اانکھوں سے اشک غلطاں شبنم کی طرح سب کی قہر خدا کی صورت نازل ہوا دکن پر

ہی ندی کا طوفاں بن کر قضائے مبرم موس(۲۶)

ی مولانا ظفرعلی خان کو خط میں لکھتے ہیں: ’’شور محشر ‘‘کے حوالے سے الطاف حسین حالااپ کی نظم ’’جنوری کا دکن ریویو سامنے رکھا ہوا تھ ا۔۔۔س رے ہی پ ر ااخر ت ک بہت ہی‘‘ پر لکھی گئی تھی،نظر پڑی ۔اول سے جو ’’رود موس غور س ے اور ب ڑے ش وق کے س اتھ پ ڑھی۔م یرا ح ال اب یہ ہ و گی اہے کہ پرانی طرز کی نظمیں تو )الاماشاء اللہ( دیکھ نے ک و جی نہیں چاہت ا کہااتی اور ن ئی ط رز کی نظم وں ان میں کو ئی نئی بات دیکھنے میں نہیں میں گ و مض امین ن ئے ن ئے ہ وتے ہیں مگ روہ چ یز نہیں ہ وتی جس ک و شاعری کی جان کہنا چ اہیے اور جس ک و’’ج ادو‘‘ کے س وا اور کس ی

Page 29: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

28

ااتی۔لیکن اس لفظ کے ساتھ تعبیر نہیں کی ا ج ا س کتا،کہیں نظ ر نہیں (۲۷نظم کو دیکھ کر میں متحیر ہو گیا۔‘‘)

حبسیات: ء میںمنص ور س ٹیم پ ریس لاہ ور س ے۱۹۲۶شاعری ک ا دوس را مجم وعہ ’’حبس یات‘‘ کے ن ام س ے

شائع ہو ا۔اس میں وہ کلام شامل ہے جس کو مولانا نے قید فرنگ کے دوران ’’منٹگم ری جی ل‘‘میں تخلی ق نظموں پر مشتمل یہ مجموعہ انگریزی استعمار کے جبر واستبداد اور ہندوستان میں برپ ا ہ ونے والی۱۴۸کیا۔

سان کی بہ ترین نعت وں مختلف شورشوں کی شعری داستان ہے۔قومی اور سیاسی نظموں کے علاوہ یہ مجم وعہ سے مزین ہے جس کو وہ خود اپنی زندگی کا بہترین سرمایہ سمجھتے ہیں۔جیل کی زن دگی دراص ل انس انی خواہشات اور مرضی کے خاتمے سے شروع ہ و تی ہے۔ یقین ا یہ ای ک تکلی ف دہ عم ل ہوت اہے اور جب ای کسان کی تخلیقی شاعر کو اس عمل سے گزارا جاتاہے جو کہ پہلے سے ہی غم دوراں کا مارا ہ وا ہوت و یہی قی د

کرب اور دردو عالم میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہے۔چند مثالیں ملاحظہ ہو:اائے ہم جیل میں تو ہم پر کھلا کہ یورپ ازل کے دن سے جب دروغ گو بھی ہے حیلہ جو بھی ، کمینہ بھی ہے،لئیم بھی ہے

(۲۸)

پیستے ہیں جیل میں چکی اسیران فرنگہن فرنگ ہش دوراں ہے زندا ااسیائے گرد

پائوں میں بیڑی گلے میں تختی اور ہاتھوں میں داغہن فرنگ سامت مرحوم پر کیا کیا ہیں احسا

(۲۹)مولانا ظفرعلی خان کی شعری تخلیق’’حبسیات‘‘ کے بارے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں:

’’مولانا کی شاعری میں اجتماعی تلخی زی ادہ اور ش یرینی کم ،بالف اظ دیگ ر وہ رنگی نی س ے زی ادہ س نگینی کے ط رف دار ہیں۔لیکن جہ اں ت ک ان کی حبس یاتی ش اعری ک ا تعل ق ہے اس میں ’’طم انچہ ب ر رخس ار

Page 30: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

29

فرنگ‘‘کا زناٹا تو ہے لیکن طنز و ہجو کا فراٹا نہیں کہ عام حالات میں ان کے جگ ری دوس ت ،سیاس ی ہم(۳۰سفر اور اخباری معاصر طنز و ہجو سے زخم کھاتے تھے۔‘‘)

بہارستان: ء میں۱۹۳۷مولانا ظفر خان کی شاعری کا تیسرا مجموعہ ’’بہارس تان‘‘ اردو اکی ڈمی لاہ ور س ے

ساس نظم ک و پیش لف ظ کی حی ثیت حاص ل ہے۔ شائع ہوا۔اس مجموعے میں مولانا الطاف حسین حالی کی ی نے مولانا ظفرعلی خان کے سفر مغرب سے واپسی کے اع زاز میں لکھ ک ر ’’زمین دار‘‘ ک و ارس ال جو حال

ہب روایت حم د و نعت۴۷۳کی تھی۔’’بہارستان‘‘ ااغ از میں حس نظموں پر مش تمل ض خیم مجم وعہ ہے۔ ء تک کے زن دانی۱۹۲۶شامل کیے گئے ہیں۔جیسے کہ ’’حبسیات‘‘ کے تاریخ اشاعت سے ظاہر ہے کہ

سشدہ کلی ات میں کلام کو اس میں ش امل کی ا گیاتھ ا ۔ بع د میں ’’ظف رعلی خ اں ٹرس ٹ،لاہ ور‘‘س ے ش ائع ء ت ک کے کلام ک و ش امل۱۹۳۶کچھ مزید اض افے بھی مل تے ہیں۔م ذکورہ مجم وعے میں اس کے علاوہ

کیا گیا ہے۔تاریخی حوالے سے یہ دور ہندوستانیوں کے لیے انتہائی نازک تھا۔انگری زوں نے ہندوس تان کوجدی دسان کی ج و گھن ائونی س وچ تعلیم اور ن ئی ٹیکن الوجی س ے روش ناس ض رور کرای ا لیکن اس کے پس پش ت کارفرما تھی وہ برداشت سے باہر تھی۔ اسی ناقابل برداشت اور گھناونی س وچ کے خلاف اس مجم وعے میں

مزاحمت کا بھرپور اظہارکیاگیا ہے۔ پہلی جن گ عظیم کے بعدہندوس تان میں مختل ف تح ریکیں ش روع ہ وئیں جس کی وجہ س ے ہن دو مسلم فسادات نے زور پکڑا،تحریک خلافت اور ترک موالات کی تحریک میں انگریز کی پالیس ی’’پھ وٹ ڈال وسشدھی اور سنگٹھن کا ش روع ہون ا اور حکومت کرو‘‘ایک بار پھرنہایت کارگر ثابت ہوئی کیوں کہ قادیانیت ،اائے روزکف ر کے فت وے لگان ا اس ی پالیس ی کی رہین منت تھ ا۔ ااپس میں ای ک دوس رے پ ر ی ا مس لمانوں ک و تحری ک اح رار، س ائمن کمیش ن،تحری ک کش میر،مس جد ش ہید گنج ک ا قض یہ،تحری ک تحف ظ مس اجد،

ء ایکٹ او انتخابات وغیرہ وہ بنیادی موضوعات ہیںجواس دور میں ظفرعلی خان کی ش اعری کے اہم۱۹۳۵موضوعات رہے۔

Page 31: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

30

اازادی سحب الوطنی کا جذبہ اپنی انتہ ا ک و پہنچ چک ا تھ ا۔ ای ک ط رف اس دور میں ہندوستانیوں میں کی تحریک زوروں پر تھی تو دوسری طرف سامراجی قوتیں تاک میں رہا کرتی تھیں۔مختلف قسم کے حربے استعمال کرکے ہندوستانیوں میں نفاق ڈالنے کی کوشش کی ج ا رہی تھی۔ایس ے ح الات میں س چ کہن ا اور سچ کا ساتھ دینا نہایت دل گردے کا کام تھاجس کی وجہ سے ب ڑے ب ڑوں کے ق دم ڈگمگ ا ج اتے۔لیکن مولانا ظفرعلی خان کا قلم بلا خوف و تردد الفاظ کو اظہار کا جامہ پہناتارہا۔ کسی کی تعریف ک رتے تھےااتا تھا۔یہ وہ دور تھا جس میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے ہند کے شاعر و صورت تو کوئی ہجو کے زد میں گر و افسانہ نویسوں کے بارے میں افسوس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے اعصاب پر عورت سوار ہے ۔دیکھا

جائے تو ظفرعلی خان کے ہاں بھی فکر کی یہ جہت قدرے تفصیل سے موجود ہے :ہن عہد سے خطاب سخنورا

اارا و سخن سنج ہن سخن اے نکتہ وراہن معانی ہن چمنستا اے نغمہ گرا

مانا کہ دل افروز ہے افسانہ عذراہی کی کہانی ااویز ہے سلم مانا کہ دل مانا کہ اگر چھیڑ حسینوں سے چلی جائےکٹ جائے اسی مشغلہ میں عہد جوانی

ی ااپ اپنے زمانہ کے نظیر مانا کہ ہیں ی ثانی ااپ میں ہے عرف مانا کہ ہر ایک ااگے ہث خط و رخسار کے مانا کہ حدی

بیکار ہے مشائیوں کی فلسفہ دا نیااپ نے سوچا لیکن کبھی اس بات کو ااپ کی تقویم ہے صدیوں کی پرانی یہ

معشوق نئے بزم نئی رنگ نیا ہےپیدا نئے خامے ہوئے ہیں اور نئی معانی

Page 32: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

31

بدلا ہے زمانہ تو بدلئے روش اپنیجو قوم ہے بیدار یہ ہے اس کی نشانی

(۳۱)

ہس مضمون پڑھ کرترقی پسند تحری ک کی لہ ر ذہن میں دوڑتی ہ وئی محس وس نظم کا موضوع اور نفساس دور میں ش روع ہ وتی ت و ناق دین ہ وتی ہے اوریقین س ے کہ ا جاس کتا ہے کہ اگ ر ت رقی پس ند تحری ک

سان ک و ص ف اول کے ت رقی پس ندوں میں ش مار ک رتے، جب کہ مولان ا کی یہ نظم ف روری۱۴ش عروادب ء کی تحریرکردہ ہے۔اس کے علاوہ مجموعے سے چند مثالیں ملاحظہ ہو:۱۹۲۹

تجھے تہذیب مغرب سبز باغ اپنا دکھاتی ہےیہ ساماں ہو رہا ہے تیری نیت کے پھسلنے کا

اگر قراں کے وعدے سچ ہیں اور کچھ شک نہیں سچ ہیںااہی گیا ہے کفر کے سورج کے ڈھلنے کا تو وقت ساس قوم کی حالت نہیں بدلی ااج تک خدا نے

ااپ اپنی حالت کے بدلنے کا نہ ہو جس کو خیال (۳۲)

ڈیڑھ سو سال تک انگریز شتر بان رہاساونٹ کی خود ہاتھ میں تھامیں گے نکیل اب ہم اس

(۳۳)

پڑا ہے سنگھٹن سے شدھی سے ہمیں پالاسادھر وہ ناگ ڈستا ہے ادھر اس بھڑ نے کاٹا ہے

(۳۴)

Page 33: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

32

نگارستان: مولانا ظف رعلی خ ان ک ا چوتھ ا مجم وعہ ’’نگارس تان‘‘ یونائیٹ ڈ پبلش ر،لاہ ور س ے ش ائع ہ وا۔مختل ف

سان ک ا اس س ے پہلا۱۹۳۶کتابوں میںسن اشاعت ء لکھی گئی ہے ۔یہ اں پ ر یہ وض احت ض روری ہے کہ ساس وقت۱۹۳۶ء میں ش ائع ہ وا ت و یہ کیس ے ۱۹۳۷مجموعہ ء میں ش ائع ہ و س کتا ہے۔ بدقس متی س ے

ء ہے۔ اس۱۹۳۸کے مجم وعے پ ر ت اریخ اش اعت موج ود نہیں ہے ت اہم قی اس کی ا جات ا ہے کہ یہ ت اریخ ااب اد س ے @@ا ش ائع ہ وتی رہیں۔ک رم @@ا فوقت مجموعے میں زیادہ تر وہ نظمیں ہیں جورسالہ ’’س تارہ ص بح‘‘ میں وقت لاہور منتقل ہوکر’ جب ’زمیندار‘‘ کی اشاعت پ ر پابن دی لگ ائی گ ئی ت و اس دوران مولان ا ظف رعلی خ ان نے

ء سے ایک ادبی رسالہ’’ستارہ صبح‘‘کا اجرا کیاتھ ا۔ان کے علاوہ۱۹۱۷کچھ عرصہ کے لیے یکم دسمبر ۱۸۸ء ت ک مولان ا نے ج و سیاس ی نظمیں لکھیں وہ بھی اس مجم وعے کی زینت بن تی رہیں۔۱۹۳۶

نظموں پر مشتمل یہ مجموعہ بھی اپنی نوعیت کا ایک منفرد مجم وعہ ہے۔جس میں ہ ر قس م کے موض وعاتااغاز ہی نظم ’’نگارستان ‘‘سے ہوتا ہے: پر نظمیں شامل ہیں۔اس کا

اائے گا ’’نگارستان‘‘ کی باری ’’بہارستان ‘‘کے بعد تو مجموعہ میرے اشعار کا نایاب ہوجائے

(۳۵) کلاسیکی روایات کے مطابق اس مجموعے کی ابت دا بھی حم د ونعت اور دیگ ر م ذہبی موض وعات س ے کی گ ئی ہے۔اس کے علاوہ س فر ی ورپ کے دوران مغ ربی تہ ذیب ک ا ق ریب س ے مط العہ ک رنے کے بعدمشرقی اور مغربی تہذیب کا موازنہ اور جائزہ ان نظموں کا بنی ادی موض وع ہے۔چ وںکہ مولاناہندوس تان کےسان اندرونی فسادات کے لیے استعمار قوتوں کو ذمہ دار ٹھہراتے تھے اوربعض مذہبی اور سیاسی نمائندوں ک و االہ کار سمجھتے تھے ۔ان شخصیات کی پرزور مذمت بھی اس مجموعے کا خاصا ہے۔بعض جگہوں پر کا اازاد، مول وی اورم الوی نظریاتی اختلاف کی وجہ سے مقامی لیڈروں ،گان دھی جی،ج واہر لال نہ رو،اب ولکلام

کی بھی خوب خبر لی ہے۔پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی

ہق گناہ سپراز شو سبحہ درکف،توبہ برلب،دل

Page 34: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

33

(۳۶)

اازاد ہو سکتا قیامت تک نہیں ہندوستاں اگر یونہی رہی ہندو سبھا کی فتنہ انگیزی

پرایوں کی دراندازی کا رونا کیا کوئی روئےاابرو ریزی ااپ اپنی جب اپنے کر رہے ہوں

ہے فرق اتنا ہی پرمانند اور چرچل کی فطرت میںوہ زہریلی یہ قہریلی وہ شبلنگی یہ چنگیزی

(۳۷)

سان س ے ان دازہ ہوت ا ہے کہ اس دور میں مس لمانوں اور اس مجم وعے میں جت نی نظمیں ش ا م ل ہیں ہندوئوں کے تعلقات خرابی کی طرف جا رہے تھے اور ہن دو ہ ر پ ل مس لمانوں ک و یہ یاددہ انی ک راتے رہے کہ

ہندوستان ہندوئوں کی سرزمین ہے ، نہ کہ مسلمانوں کی ۔ ء میں یونائیٹڈ پبلشر لاہ ور۱۹۴۴مولانا ظفرعلی خان کا پانچواں مجموعہ’’چمنستان‘‘ کے نام سے

ساس دور کی ش اعری کی ی اد گ ارہے جب۲۲۳سے شائع ہوا۔ نظموں اور ایک غ زل پ ر مش تمل یہ مجم وعہ مولانا ظفر علی خان انڈین نیشنل کانگرس سے الگ ہو کر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار ک ر چکے تھے۔سان کی پوری ش اعری ک ا مرک زی اک ائی تص ور سان کا وہ مشہور شعر بھی موجود ہے جسے اس مجموعے میں

کیا جا سکتا ہے:رر کی مدح ، اسلام کے قصے خدا کی حمد ، پیغمباایا مرے مضموں ہیں جب سے شعر کہنے کا شعور

(۳۸)

اس مجموعہ میں اگ ر چہ زی ادہ ت ر سیاس ی اور ہنگ امی نظمیں ش امل کی گ ئی ہیں لیکن مولان اکے ادب پرورقلم نے تلخی کو بھی ایک خاص قس م کی چاش نی س ے روش ناس ک رکے پیش کی ا ہے کہ ہنگ امی

Page 35: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

34

موضوعات دائمی ادب کا حصہ بن گ ئے۔بیش ک چن د نظمیں ہنگ امی بھی ہ وںگی لیکن ایس ی نظم وں کیااج کی بات کی ہے: بھی کمی نہیں جسے پڑھ کر قاری ایسا محسوس کرتا ہے کہ مولانا نے تو

تہذیب نو کی منہ پر وہ تھپڑ رسید کر جو اس حرام زادی کا حلیہ بگاڑ دے

(۳۹)

ہن برطانیہ پر ااتا ہے ہمیں دام نظر کہیں افغان کا خون کہیں ایران کا خون

(۴۰)

ارمغان قادیانیت:سان نظموں کا مجموعہ ہے جسے رسالہ’’س تارہ ص بح‘‘ میں ہن قادیانیت مولانا ظفرعلی خان کی ارمغا

ت کے سیرحاص ل مق دمہ کے س اتھ یہ مجم وعہ نظم وں اور متف رق۵۷شائع کیا گیاتھا۔چ راغ حس ن حس ر اشعار پ ر مش تمل ہے۔طب ع اول کے س ال و مطب ع ن امعلوم ہے البتہ ظف رعلی خ ان ٹرس ٹ لاہ ور نے اس ے ازس ر

ء کو شائع کیا ہے۔۲۰۱۱نوکلیات میں شامل کرکے اگست ااس ان نظموں کے اس مجموعے کی خوبی یہ ہے کہ نظم سے پہلے پس منظ ر ی ا ح والے کے ط ورپر

ااغ از ء میں م رزاغلام احم د قادی انی۱۹۱۴نثرمیں مختصر تبصرہ اورحاشیہ بھی موجود ہے۔قادیانیت جس ک ا ساوڑھ کر اپنے مذموم مقاصد کوعملی جامہ پہناتارہا یہاں ت ک۱۹۷۳نے کیااور ء تک یہ فتنہ مذہب کا نقاب

اائین میںاس فرقے کو غیر مسلم ق رار دی ا گی ا۔مولان اظفر علی خ ان نے اس فتنہ کہ وطن عزیز ’’پاکستان‘‘ کے کو کبھی بھی مذہبی صورت میں تسلیم نہیں کیا بلکہ اسے ص رف اس تعماری پالیس یوں ک ا حص ہ ق رار دےسان کے کر ایک مفاد پرست سیاسی تحریک قرار دیا اور مرتے دم تک اس کے خلاف قلمی جہاد کرتے رہے۔ تم ام ش عری مجموع وں میں اس کے خلاف مزاحم تی نظمیں اور اش عار موج ود ہیں لیکن م ذکورہ مجم وعہ

خصوصی طور پر اس کے لیے مختص کیا گیا ہے:

Page 36: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

35

خدا نے تم کو بصیرت اگر عطا کی ہےتو قادیانیوں کے تیر بے گماں سے بچوجو بات بات میں تم کو حرامزادہ کہے

ہر ایسے سفلہ بد اصل و بد زباں سے بچوبچو فرنگ کے حیلوں کی بے پناہی سے

اسی طریق سے جیسے ہو قادیاں سے بچو(۴۱)

’’وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے‘‘مرے گر کعبہ میں لندن میں گاڑو قادیانی کو

(۴۲)اس مجموعے کے دیباچہ میں چراغ حسن حسرت لکھتے ہیں:

اات ا ’’شاعری کے تمام اجزاوعناصر کو پیش نظر رکھا جائے تو علامہ اقبال کے بعد زبان قلم پ ر انھیں ک ا ن ام (۴۳ہے۔اور طنزیہ شاعری میں لسان العصر اکبر کے بعد انھیں کا درجہ ہے۔‘‘)

)ہ(

شخصیت: مولانا ظفرعلی خان متنوع شخصیت کے مالک تھے ۔وہ ای ک ہی وقت میں مولان ا،ش اعر،ادیب،ن ثر نگار، مدیر، اور صحافی تھے ۔ان سب س ے ب ڑ ھ ک ر ای ک محب وطن ہندوس تانی مس لمان تھے ج و پ وریسدکھ درد س مجھتے سان کے دکھ درد ک و اپن ا دنیا کے مس لمانوں ک و جس د واح دکی ط رح س مجھتے ہ وئے ہح رواں اازادی کے رو تھے۔اس ی سلس لے میں ت رکی س میت ک ئی ممال ک کے دوروں پ ر بھی گ ئے۔تحری ک تھے۔ ہمیش ہ اس تعماری قوت وں کے خلاف قلمی جہ اد ک رتے رہے۔تحری ک خلافت ک ا ای ک س رگرم

Page 37: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

36

ہس ملت کے بانی مبانیوں میں س ے تھے۔سیاس ی ح والے س ے ان ڈین نیش نل ہد مجل سرکن،تحریک احرار،اوراتحااانے کی معم ولی کانگرس سے وابستہ تھے لیکن اگر کسی فیصلے یا واقعہ میں اسلام یا مسلمانوں پ ر ح رف سا اشارہ بھی محسوس کرتے تو پھر کانگرس،ہندو مہاس بھا اور مس لم لی گ ک ا لح اظ ک یے بغ یر ب رس پ ڑتے

سان سے لوگ اکثر ناراض رہا کرتے تھے۔ تھے اور معاف کرنے کا نام نہیں لیتے اسی وجہ سے کے انتخاب ات۳۷ ء میں کانگرس س ے ن الاں ہ و ک ر مس لم لی گ میں ش امل ہوگ ئے ،اور ۱۹۳۶

سرکن بن گ ئے۔ ء کے انتخاب ات میں دوب ارہ۱۹۴۶- ۴۵میں لاہ ورکے حلقے س ے لجس لیٹو اس مبلی کے لاہور کے حلقے سے جیت گئے۔اسی سال کے وسط میں فالج کا حملہ ہوا اورباقی زندگی اسی بیم اری کی

ااخر کار اافرین کے سپرد کر دی۔۱۹۵۶نومبر ۲۷وجہ سے بستر علالت پر گزاری، ہن ء کو جان جاسان کا مختصر مگر جامع خاکہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خواجہ حسن نظامی ااواز بلن دو اانکھیں روش ن اور متح رک، ’’میانہ قد،گندمی رنگ،چھریرابدن، باوق ار،بول نے میں روانی اور بے ب ا کی ، ورزش کے ش وقین،مس لم راجپ وت،علی گ ڑھ کے بی۔اے،اخب ار ’’زمین دار‘‘ کے وارث،ک رم ااباد)پنجاب(کے رہنے والے۔ع ربی،فارس ی،انگری زی اوراردوکے بہت اچھے م اہر ہیں۔نظم و ن ثر لکھ نے میں پنج اب کے پ انچوں دری ائوں س ے زی ادہ

(۴۴رواں ہیں ۔قادر الکلام ہیں لیکن قلورالمزاج نہیں۔‘‘)

ہوۃکے ت و اس ق در پابن د تھے کہ ک راچی میں ک ا مولانا ایک راس خ العقی دہ مس لمان تھے۔ص وم ص لااباد کہ ا کہ عص ر کی نم از کے ل یے اجلاس۱۹۳۱ مارچ ۲۰نگرس کے ء کے اجلاس کو اس لیے خیر

سروکا گیا۔اس کے بع د نظری اتی ط ور پ ر ک انگرس س ے وابس تہ رہے لیکن کس ی جلس ے ی ا میٹین گ میں نہیں ساسی واقعہ کی یاد گار ہے: شرکت کے لیے نہیں گئے۔یہ شعر

ادب نماز کے اوقات کا وہ سیکھے گیمیں کانگرس کو مسلمان بنا کے چھوڑوں گا

(۴۵)

Page 38: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

37

پڑھتے نہیں ہیں قوم کے لیڈر نماز کیوںکھویا گیا ہے قوم سے یہ امتیاز کیوں

(۴۶)انتہائی س نجیدہ انس ان تھے ۔کھ ل ک ر بہت کم ہنس تے تھے ہمیش ہ زی ر لب مس کرایا ک رتے تھے۔

ساٹھ ک ر نم از کی تی اری ک رتے ،نم از۳ورزش کے انتہائی شوقین تھے سفر ہویا حضر،گائوں ہو یا جیل بجے سان کے س اتھ سان کے دوس ت اس ڈر س ے پڑھ کر چھ ،سات می ل ’’ت یز گ ام‘‘ ورزش کے ل یے نک ل ج اتے ۔ ورزش پر نکل نے س ے ک تراتے تھے کہ پھ ر وہ بس ک رنے ک ا ن ام نہیں لی تے تھے۔پھ ول اور پ ودے لگ انے کے نہایت شوقین تھے اسیری کے دوران بھی اسی شوق کی تکمیل کرتے رہے۔مالی کے ہوتے ہوئے باغبانی خ ود کرتے تھے۔ مشروبات میں چائے بہت پس ند تھی کھ انے کے بغ یر بھی گ زارہ کرلی تے لیکن چ ائے کے بغ یرگزارہ مشکل تھا۔ چائے کے علاوہ حقے کے انتہائی شوقین تھے ،کش لگاتے تھے اور شعر لکھتے تھے :

زندگانی کے لطف دو ہی تو ہےصبح کی چائے، شام کا حقہ

(۴۷)ااس ان سان کے لیے زی ادہ سان کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ باتیں کرنے سے شعر بولنا شعر لکھنا

تھا۔دوستوں کی فرمائش پر اکثر فی البدیہہ نظمیں کہا کرتے تھے۔ شورش کاشمیری لکھتے ہیں:ااواز کی شہ پر گنگنانا۔‘‘) ااسان تھا جیسے گھڑی اٹھا کر وقت دیکھنا،یا سان کے لیے شعر کہنا اتنا ’’۴۸)

سان پ ر یہ اع تراض کی ا جات ا ہے کہ وہ مس تقل م زاج نہیں تھے ۔ش اعری کے م زاج کے ح والے ہر عتاب رہے ۔ مس لم سان کا مزاج بھی بدلتا رہتا تھا۔ جب کانگرس میں تھے تو لیگی زی موضوعات کی طرح ساس سے ال گ ہ و ااگئے تو کانگرسی ان کے نشانے پر رہے، یعنی جس تنظیم میں بھی ہوتے تھے ، لیگ میں اال ان ڈیا کے لی ڈر بن گ ئے لیکن م زاج کی ب رق ہک خلافت میں شامل ہ و ک ر چن د دن وںمیں کر رہتے۔ تحری رفت اری کی وجہ س ے تنہ ا رہ گ ئے،اح رار اورمجلس ملت میں بھی یہی ح ال رہ ا۔ جب ت ک ک انگریس میں تھے ت و مس لم لی گ ک و نواب وں،ٹوڈی وں اور کاس ہ لیس وں کی پ ارٹی کہ ک ر پک ارتے تھے ۔گان دھی جی ک و

Page 39: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

38

ع ربی سان کے اہنسا اور ستیہ گرہ کے فلسفے کو محمد صلى الله عليه وسلمہندوستانیوں کے لیے مسیحا قرار دیتے ہوئے ااگ ئے ت و گان دھی جی کی ہج و لکھی ۔نہ رواور س ے م اخوذ تص ور ک رتے تھے لیکن جب مس لم لی گ میں اازاد تک کو نہیں چھوڑا۔اسی طرح جناح سے لے کر محمدعلی جوہر تک کس ی ک و مع اف نہیں ابوالکلام سان کے ہ ر سان کا صحیح معنوں میں کوئی دوست تھا ہی نہیں۔م زاج کی ت یز رفت اری کی وجہ س ے کیا۔یعنی

اازاد نے لکھا ہے: @@ا ابولکلام عمل پر برق کاگماں ہوتا تھا۔مثلساٹھانا چ اہو ت و ظف رعلی خ ان اور ش وکت علی ک و چھ وڑ دو وہ ’’کوئی تحریک مہینوں کی بجائے ہفتوں میں @@انک ال دو کی وں کہ وہ بن انے سانھیں فور ہت تمام عمارت کھڑی کردیں گے لیکن عمارت تیار ہو ج ائے ت و سسرع ب

(۴۹کے بعد ڈھانے لگتے ہیں‘‘)سان کے مزاج کی اس ہمہ رنگی کے بارے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں:

سان کی س ب س ے ب ڑی کوت اہی ی ا خ وبی یہ تھی کہ وہ ’’تمام عم ر دم اغ کے بج ائے دل س ے س وچتے رہے (۵۰سیاسیات میں بھی شاعری کرتے تھے ۔ان کے خیالات میں غزل کے مضامین کا تنوع تھا۔‘‘)

سان کی طبیعت میں استقلال ہوتا تو وہ ہندوستان کے مسلمان راہنمائوںمیں بہت بڑے مقام پ ر ہ وتے،سانھوں نے اپنی طبیعت کوغزل کا مضمون بنائے رکھا۔وہ رک نے اور ٹھہ رنے کے ع ادی ہی نہ تھے ،جس لیکن سان کی ط بیعت ک ا ان داز تھ ا ،جب وہ ااج اتی ہے ،یہی طرح دریائوں میں موس م برش گال کے س اتھ طغی انی

ااتے تو گرد وپیش کے کو بہا کر لے جاتے پھر ان سے سبزہ و ویرانہ کوئی نہ بچتا۔) بظاہر تو(۵۱طغیانی پر سان کے مزاج میں اتنی برق رفتاری کیوں تھی۔کل جس کی تعری ف ک ررہے ااتے ہیں کہ یہ واقعات عجیب نظر سان کے کارن اموں اور تخلیق ات ساس عہد کے تناظر میں دیکھ ا ج ائے اور سان کی ہجو کیوں ۔لیکن اگر ااج ہیں ساستادی اور شاگردی کے سلسلے کو دیکھا ج ائے ت و یہ س ارے الزام ات بے بنی اد سان کے کو دیکھا جائے ۔ ثابت ہو جاتے ہیں ۔ہندوستان کے اتنے بڑے ادبی اور سیاسی اخبار’’زمیندار‘‘ کی متواتر اشاعت،شاعری کی ایک ضخیم کلیات،نثری تخلیقات اور تراجم وغ یرہ ہی مولان ا کی منکس رالمزاجی پ ر دلالت ک رتے ہ وئے اوراادرش اور نص ب العین کے سان کے م زاج میںتن دی اور ت یزی ض رور تھی لیکن ان الزام ات ک و رد ک رتے ہیں۔ سسلہ ص رف یہ ساس تاد بھی تھے۔ بہ ترین دوس ت تھے بس م حصول کے لیے ۔وہ ایک شفیق والد ای ک مش فق سان کی زندگی میں س مجھوتہ ی ا مف اہمت ک ا ااتی تھی۔ سانھیں منافقت کرنی تھا کہ وہ منافق نہیں تھے اور نہ

Page 40: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

39

سان کی مثال پہاڑ کی مانند تھی ایک مرتبہ سچ کا ساتھ دی ا کس ی بھی ص ورت میں ہٹ تے لفظ تھا ہی نہیں سان سے نالا ںہو کر گلے شکوے کیاکرتے تھے۔ سیاست اور سان کے دوست اکثر نہیں تھے۔یہی وجہ تھی کہ سانھ وں نے لوگ وں ک و ہہذا صحافت سے ہٹ کر وہ ای ک ش اعر تھے ۔ ش اعر ج و لفظ وں ک ا مص ور ہوت ا ہے، لساس ی رن گ میں پیش کی ا ۔اگرک وئی تعری ف ک رنے کے ساس ی ش کل اور جس رنگ میںجس ش کل میں دیکھ ا

ساٹھا ہجو لکھ بیٹھے۔اشرف عطا لکھتے ہیں: قابل تھا توتعریف کی، ور نہ سودا کی طرح قلمدان ااگ اہ ااپ گھنٹ وں م یرے س اتھ بیٹھ ک ر ت رجمہ کی تکنی ک س ے ساس تاد پای ا۔ ’’میں نے مولانا کو ای ک ش فیق

(۵۲کیاکرتے اور میرے اشعار پر نہایت محبت سے اصلاح فرمایا کرتے۔‘‘)سان کی زن دگی ک ا بنی ادی مح رک رہ ا۔ عش ق مج ازی کے دل دل س ے عشق رس ول اور عش ق خ دا اازاد تھے ، مجازی عشق کو دل کی خرابی تص ور ک رتے تھے۔ای ک درویش ص فت انس ان تھے۔جی ل مکمل میں بھی کس ی س ے گلہ ش کوہ نہیں ک رتے تھے۔ خواہش ات س ے بالاترس ادہ زن دگی گ زاری۔س ادہ خ وراک کھ اتے،س ادہ لب اس اس تعمال ک رتے۔ت رکی ٹ وپی،ش یروانی اور پاج امہ اک ثر زیب تن ک رتے تھے۔چ راغ حس ن

سان کی سیرت کچھ یوں بیان کی ہے: مرحوم نے حسرت ’’مولانا ظفرعلی خان کی سیرت چند لفظوں میں بیان کرنا ہو تو یوں کہنا چاہیے کہ وہ ہاتھ کے سخی ،دل کے نرم،کان کے کچے اور دھن کے پکے ہیں۔جس طرح جھک پ ڑے،جھ ک پ ڑے۔ج و کچھ دل میں ہے وہی زباں پر ہے۔موقع و محل کا کیا ذکر؟گھر کے اندر گھر کے باہر،سیاسی صحبتوں میں ی ا ادبی محفل وں میں،دلی دروازوں کے جلسوں میں یا زمیندار کے صفحات پر،نثر میں ی ا نظم میں،تقری ر میں ی ا گفتگ و میںااپ کی اور ہم ار ی اائے گ ا ااپ کچھ کہے ج ائے ادھ ر س ے ای ک ہی ج واب بس ای ک ہی رٹ لگی ہے ۔ااج جو ل وگ ان دلیل بازی بے کار ہے۔۔۔۔با ایں ہمہ مولانا ظفر علی خان اس دور میں بہت غنیمت ہیں اور

سان پر روئیں گے۔ پر اعتراض کرتے ہیںکل پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندا طبع لوگ

ر سے صحبت نہیں رہی‘‘) (۵۳افسوس تم کو می

Page 41: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

40

ساج ا درجہ بالا تحقیقی دلائل اور حوالے مولانا ظفرعلی خان کی شخص یت کے نمای اں پہلوئ وں ک و سان کی ش اعری ک ا ص حیح تحقیقی ج ائزہ اائی نے میں گر کرنے کے لیے پیش کیے گئے تاکہ شخص یت کے سان کی شخص یت سان کی شخصی مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا کی شاعری ہی دراصل لیا جا سکے۔

کی بھرپورعکاسی کرتی ہے جس کا محوراسلام کی بالادستی اورسامراج دشمنی ہے۔

حوالہ جات:۳۱ء،ص:۱۹۰۵ شورش کا شمیری،ظفر علی خان،اردو پریس لاہور،۔۱،ص:۱۹۶۷ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار،مولانا ظف رعلی خ ان،ادیب و ش اعر،مکتبہ خیاب ات،لاہ ور،۔۲

۵۹۱۷ء،ص:۲۰۱۱اشرف عطا،مولانا ظفر علی خان،مولانا ظفرعلی خان ٹرسٹ لاہور،جون ۔۳

Page 42: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

41

،ت رتیب و ت دوین، احم د س عید،مولان ا ظف رعلی۱۹۲۳مولانا ظفرعلی خان،زمیندار،مئی -اگس ت ،۔۴ ۲،ص:۲۰۱۳لاہور،مارچ،خان ٹرسٹ

ااثار،مجلس ترقی ادب،لاہور،جون ۔۵ ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی،مولانا ظفر علی خان ،احوال و ۳۳ء،ص:۱۹۸۴

۴۳۹ء،ص:۱۹۱۱مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،مولانا ظفرعلی خان ٹرسٹ لاہور،۔۶@@ا،ص:۔۷ ۳۵۵ایض۸۱ء،ص:۱۹۱۱مولانا ظفرعلی خان،کلیات ،ارمغان قادیانیت،۔۸ااثار،ص:۔۹ ۲۰ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی،مولانا ظفر علی خان،احوال و

چودھری غلام حیدر،خود نوشت س وانح عم ری بح والہ،ڈاک ٹر نظ یر حس نین زی دی،مولان ا ظف ر علی۔۱۰۲۱ء ،ص:۱۹۸۴ااثار،مجلس ترقی ادب،لاہور،جون خان،احوال و

۵۶۳مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۱۱@@ا،ص:۔۱۲ ۵۸۲-۸۱ایضااپ بیتی نمبر:۔ ۱۳ ۷۳۲،ظفر علی خان،نقوش پریس لاہور،س۔ن،ص:۲نقوش ،ااثار،ص۔۱۴ ۴۳: ڈاکٹر نظیر حسن زیدی،مولاناظفرعلی خان احوال و ااباد۔یکم جنوری ۔۱۵ ء۱۹۱۰مولانا ظفرعلی خان،اداریہ زمیندار،ہفتہ وار کرم مولان ا ظف رعلی خ ان ،مض امین،انم ول م وتی)مولان ا ظف ر علی خ ان کی خ ود نوش ت سرگذش ت۔۱۶

۲۲/۲۳ڈاکٹر صادق حسین،جلددوم،س۔ن،ص:حیات،مرتبہ( @@ا، ص:۔۱۷ ۱۶۵ایضاازاد،بحوالہ ،اشرف عطا،مولانا ظفر علی خان،ص:۔۱۸ ۱۳۶مولانا ابوالکلام ۳۶ء،ص:۱۹۱۱شورش کاشمیری،قید فرنگ،مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ ،لاہور،جون ۔۱۹۲۶۰مولانا ظفرعلی خان،کلیات ،بہارستان،ص:۔۲۰@@ا،ص:۔۲۱ ۲۶۲ایضااپ بیتی نمبر:شمارہ نمبر ۔۲۲ ۷۳۲،ص:۰۰۱مولانا ظفرعلی خان،نقوش ،

Page 43: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

42

@@ا،ص:۔۲۳ ۷۳۲ایض۱۹اشرف عطا،مولانا ظفرعلی خان،ص:۔۲۴۷۵مولانا ظفرعلی خان،بحوالہ،ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار،ظفرعلی خان،ادیب و شاعر،ص:۔۲۵ مولان ا ظف رعلی خ ان،ش ور محش ر،ض میمہ،ڈاک ٹر غلام حس ین ذوالفق ار،ظف رعلی خ ان،ادیب و۔۲۶

۳۳۵شاعر،ص: ی،خط)۔۲۷ ۱۲۱ء(،بحوالہ شورش کاشمیری،ظفرعلی خان،ص:۱۹۰۵ مارچ ۱۱الطاف حسین حال۱۲۹مولانا ظفر علی خان،کلیات،حبسیات،ص:۔۲۸@@ا،ص:۔۲۹ ۱۰۶ایض۱۶ء،ص:۱۹۰۵شورش کاشمیری،مولانا ظفر علی خان،اردو پریس ،لاہور،۔۳۰۴۶۲مولاناظفر علی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۳۱@@ا،ص:۔۳۲ ۱۸۲ایض@@ا،ص:۔۳۳ ۳۱۸ایض@@ا،ص:۔۳۴ ۳۵۴ایض۹مولاناظفرعلی خان،کلیات،نگارستان،ص:۔۳۵@@ا،ص:۔۳۶ ۱۶۸ایض@@ا،ص:۔۳۷ ۱۲۱-۱۲۰ایض۵۶مولاناظفرعلی خان،کلیات،چمنستان،ص: ۔۳۸@@ا،ص:۔۳۹ ۵۳ایض@@ا،ص:۔۴۰ ۲۱ایض۴۰/۴۱مولاناظفرعلی خان،کلیات، ارمغان قادیانیت،ص:۔ ۴۱@@ا،ص:۔۴۲ ۴۳ایضہت ظفرعلی خان(ص:۔۴۳ ،دیباچہ، ارمغان قادیانیت،)کلیا ۱۹چراغ حسن حسرت۱۱خواجہ حسن نظامی،بحوالہ ،اشرف عطا،مولانا ظفرعلی خان،ص:۔۴۴

Page 44: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

43

۱۲۵مولانا ظفرعلی خان،کلیات ،حبسیات،ص:۔۴۵۷۹مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔ ۴۶۱۰۸مولانا ظفرعلی خان،کلیات ،چمنستان،۔۴۷۲۰شورش کاشمیری،قید فرنگ،ص:۔۴۸اازاد،بحوالہ شورش کاشمیری،ظفرعلی خان،ص:۔۴۹ ۴۹مولاناابولکلام ۶۰شورش کاشمیری،ظفر علی خان،ص:۔۵۰۷۴شورش کاشمیری،قید فرنگ،ص:۔۵۱۶اشرف عطا،مولانا ظفر علی خان،ص:۔۵۲ااب اد،نوم بر۔۵۳ سبک پاونڈیش ن،اس لام ت،م ردم دی دہ،م رتب،محم د ع ارف،نیش نل چ راغ حس ن حس ر

ء۲۰۱۵

Page 45: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

44

باب دوم:)ا(استعمار،تعارف وبنیادی مباحث

)ب(ہندوستان میں مغربی استعمار کی مختلف پالیسیاں)ج(اردو شاعری میں مغربی استعمار کے خلاف مزاحمت کی روایت

)د(مولانا ظفر علی خان کی شاعری میں مغربی استعمار کے خلاف مزاحمتی رویے) ایک تعارفی نوٹ(

)ا(استعمار،تعارف وبنیادی مباحث:

(کہ ا جات ا ہے ۔Imperialismاستعمار ع ربی زب ان ک ا لف ظ ہے ۔انگری زی میں اس ک و)اابادیات جیسے الفاظ مستعمل ہیںعام ط ور پ ر ہندی میں سامراج اردو زبان میں اس کے لیے شہنشاہیت اورنو عربی اور ہندی کے الفاظ،’’اس تعمار اور س امراج ‘‘بھی انہی معن وں میں اس تعمال ک یے ج اتے ہیں۔مختل ف تخلیق کاروں،محققین ، نقادوں،سیاس ت دان وں اور م ورخین نے اس تعمار کی مختل ف تع ریفیں کی ہیں،ت اہمہش نظر انسائیکلو پیڈیا اس سلسلے میں اکثریت ایک نکتے پر متفق ہے۔اسی بنیادی اور مشترک نکتے کے پی

برٹنیکامیں امپیریلزم کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے:"Imperialism, state policy, practice, or advocacy

of extending power and dominion, especially by direct territorial acquisition or by gaining

Page 46: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

45

political and economic control of other areas. Because it always involves the use of power, whether military force or some subtler form, imperialism has often been considered morally reprehensible, and the term is frequently employed in international propaganda to denounce and discredit an opponent’s foreign

policy."(1) ( کی تعریف :Imperalism اکسفورڈ،ایڈوانس لرنینگ ڈکشنری کے مطابق استعمار)

"A policy of extending a country's power and influence through colonization, use of military

force."(2) مشہور شرق شناس ایڈورڈ سعید نے استعمار کے معنی و مفہوم کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:

"Imperialism means thinking about,settling on controling Land that you do not possess".(3)

(Imperialsim( طلاح ک اور اص اتھ ای اتھ س امراج کے س تعمار اور س ( اسcolonialismاابادی ات کی اص طلاح اابادیات بھی استعمال کی جاتی ہے ۔ عام طور پر نو (یعنی نو

بھی انہی معنوں میں استعمال کی جاتی ہے جس کے لیے استعمار کا لفظ وضع کیا گیا ہے لیکن مختل فاابادی ات میں ف رق ناق دین ک ا کہن ا ہے کہ یہ دونوںاص طلاحیں ال گ ال گ مف اہیم رکھ تی ہیں ۔اس تعمار اور نو

واضح کرتے ہوئے ایڈورڈسعید لکھتے ہیں:ترجمہ: ’’سامراجیت )امپیریلزم(کی اصطلاح عمل اور نظریے کے معنوں میں استعمال کی ہے اور اس ’’میں نے

ااب ادیت‘‘)ج و سے ایک دور دراز علاقے پر حکومت کرنے والے می ٹروپولیٹن مرک ز کے رویے بھی م راد ہیں۔’’نو@@ا سامراجیت کا نتیجہ ہے (دور دراز علاقوں میں بستیاں بسانا ہے۔‘‘) (۴تقریب

Page 47: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

46

اش تراکی دانش ور اگ ر چہ اس تعماریت کومکم ل ط ور پ ر اقتص ادی مف ادات س ے ج وڑتے ہیں اور اس ےہی ت رین ص ورت ق رار دی تے ہیںلیکن اس کے تس لط اور کامی ابی کے ل یے وہ بھی س رمایہ دارانہ نظ ام کی اعل

اابادیاتی نظام کو لازمی قرارد دیتے ہیں۔بقول لینن: نو"imperialism was the highest form of

capitalism,claiming that imperialism developed after colonialism,and was distinguished from

colonialism by monopoly capitalism".(5) نو ہوتا ہے کہ اندازہ یہ پڑھ کر لٹریچر دیگر عمومی میں بارے بیانات سمیت اس بالا مذکورہ

اابادیات دراصل ایک عمل کا نام ہے جس میں ایک ملک کے افراد اپنی مقررہ ح دود س ے باہردوس رے مل کساس پالیس ی اور نظ ریے ک ا ن ام ہے ااب اد ہ وتے ہیں۔ جب کہ اس تعمار کی سرزمین میں در ان دازی ک رکے وہ اں اابادی ک و محک وم بنای ا جات ا اابادیا ت کی تشکیل ہوتی ہے اور مقامی جس کو عملی شکل دینے کے لیے نوااب ادیت خ ود اس تعمار ک ا ای ک ذیلی عنص ر ہے۔ لیکن جدی د دور کے لکھ نے والے محق ق ہے۔ یع نی نوہل ت وجہ ہے۔کی وں کہ وہ بھی ان دون وں ک و ییر کی رائے بھی اس سلس لے میںک افی وقی ع اور قاب ناص رعباس ن

مترادف گرداننے کے قائل نہیں ہیں:اابادیات امپیریل ازم کا نتیجہ ضرور ہے ،مگر اس کا مترادف ہر گز نہیں ۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ جہ اں ’’نو@@ا کولونیل ازم بھی ہو۔امپیریل ازم اپ نی مح دود س رزمین س ے ب اہر ممکنہ ح د ت ک پ ائوں امپیریل ازم ہو وہاں لازمااب ادیوں ک و ثق افتی پھیلانے اور وہاں اپنا پرچم لہرانے کی غلبہ پسند خواہش کا نتیجہ ہے۔۔۔اس میں محک وم طور پر مغلوب کرنے کی کوشش عام طور پر نہیں کی جاتی ۔ ۔ ۔ اس میں جبر،زبردستی ،مس خ ک رنے کے

اابادیات کا خاصہ ہے۔‘‘) (۶وہ عناصر عام طور پر نہیں جو نو ناصر عباس نیر کے بیان میں اگرچہ لفظ ’’عام طور‘‘ کے استعمال سے قاری مغالطے میں پڑ س کتااابادیاتی نظام ج و کہ ہے کیوں کہ اس وجہ سے استعمار کی تعریف مبہم ، محدود ہو کر رہ جاتی ہے اور نو سان کے سان کے خود تشکیل ہی نہیں پاتا زیادہ طاقت ور یا با الف اظ دیگ ر مہل ک ث ابت ہوت ا ہے ۔لیکن بقول سان ط اقتوں کی نش اندہی ض رور ہ وتی ہے ج و دوس رے ممال ک س ے مغ ل،افغ انی،ای رانی ،ت رک اس بیان س ے

Page 48: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

47

ااتی ہیںلیکن ان قوت وں ک و اورعرب کی صورت میں ہندوستان میںوارد ہوئیں ایسی قومیںا ستعمار کے زم رے میں مزیدذیلی گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ان قوتوں میں بعض ایس ی ق ومیں ش امل ہیںجن کے اف راد ای ک خاص مقصد کے لیے ہندوستان میں وارد ہوئے اور واپس نہیں گئے انہوں نے اس سرزمین کو اپن ا وطن تس لیمسان ک و سات رتے۔جن اق وام نے واپس ی کاس فر اختی ار کی ا ہہذا وہ استعمار کی مجوزہ تعریف پ ر پ ورے نہیں کیا۔لاا ی ا ی ا بھی دو گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک گروہ تو وہ تھا ج و کہ خ الص م ذہبی مش ن لے ک ر ہہذا یہ گ روہ بھی سانھیں بلای ا گیااوربرب ادی اور استحص ال کے بج ائے اص لاحات ک ر کے واپس چلا گیالااور کے استعمار کی مروجہ تعریف کے تحت خارج البحث ہو جات ا ہے جب کہ دوس را گ روہ وہ ہے ج وحملہ روپ میں وارد ہوا اور چور یا ڈاک و کی ط رح قت ل وغ ارت اور ل وٹ م ار ک رکے واپس چلا گی ا ۔اپ نے قی ام کے دوران اس گروہ نے نہ تو اپنی کالونیاں بنائیں اور نہ ثقافتی اجارہ داری ق ائم ک رنے کی کوش ش کی البتہ یہ اںہہذا م الی مف ادات کی بن ا پ ر اس ے اس تعمارکے کھ اتے میں ڈال دی ا کا سرمایہ اپنے ملک منتقل ض رور کی ا۔ل جاسکتا ہے لیکن یہ استعمار کا محض ایک پہلو تصور کیا جاتا ہے۔استعمار چوں کہ ای ک س وچ اور نظ ریے کا نام ہے جس کے کئی اہم عناصر ہیں اس لیے اش تراکیت پس ندو ں کی ط رح اس ے ص رف اقتص ادیات ی ا سرمایہ سے وابستہ کرنے س ے اس ک ا تص ور مح دود ہ و ک ر رہ جات ا ہے۔اس ل یے ہم ایون ادیب نے اش تراکیت

پسندوں کے مذکورہ نظریے کورد کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلت ا ہے کہ نجی س رمایہ س ے بہت پہلے ای ک ق وم ک ا دوس ری ق وم پ ر تس لط و تقلب موجود تھا۔س ویت روس میں نجی س رمایہ ک اری نہ ہ ونے کے براب ر ہے اور پی داواری ذرائ ع مملکت کے@@ا نو کروڑ غیر روس ی محکوم وں پ ر ب راہ راس ت تس لط و تقلب رکھ تی ہاتھ میں ہیں لیکن سویت حکومت قریب

(۷ہے۔‘‘) استعمار ی پالیسی اور اس کے دائرہ کار کو واضح کرتے ہوئے ڈاکٹرسہیل احم د نے مزی د ص راحت

کے ساتھ کچھ یوں لکھاہے: ’’اس تعمار ک ا دائ رہ ک ار بہت وس یع ہے جس میں اقتص ادی اور معاش رتی عناص ر کے س اتھ س اتھااتے ہیں۔مگراس تعماریت کی جدی د ص ورت سام ور تہ ذیبی ،ثق افتی ،م ذہبی،س ماجی اور سیاس ی بہت س ے

(۸اقتصادی استحصال سے زیادہ تعلق رکھتی ہے۔‘‘)

Page 49: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

48

اابادی ات ب یرونی ط اقتوں ک ا اپ نے درج بالا تعریفوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ا ستعمار یا نوسان ک ا استحص ال کرن ا ہے ۔اس ک ا ب راہ تصرف سے باہر کی زمین وں پ ر ج ا ک ر وہ اں اپ نی کولونی اں بنان ا اور راست تعلق اگر چہ لسانی، مذہبی، معاش ی، تہ ذیبی اور سیاس ی بالادس تی س ے ہوت ا ہے اور انہیں اغ راض و مقاصد کے تحت ایک مکمل استعماری نظام تشکیل دیا جات ا ہیلیکن ان س ب میں بنی ادی حی ثیت اقتص اد کو حاصل ہے اور اقتصاد کے ساتھ باقی عناصر مل کر ایک ایک مکمل سامراجی پالیسی کی شکل اختی ار

کرلیتے ہیں۔ استعمار ایک علمی اصطلاح ہے جو کہ ایک خ اص تھی وری کے ل یے اس تعمال ہ وتی ہے۔ تحقیقی مطالعے کے دوران اس تھیوری کودو سطحوں پر پرکھا جاتا ہے۔ پہلے م رحلے میں غاص ب قوت وں کے تس لطاابادی ات)کولونی ل ازم(جیس ے الف اظ کی اص طلاح اس تعمال ہ وتی ہے اور اس کے بع د جب یہی کے لیے ن و اابادیاتی قوتیں کسی سر زمین پر قابض ہو جاتی ہیں اورمحکوم قوم کی مزاحمت ختم ک رنے کے ل یے،انھیں نوسان کے مذہب،زبان،تعلیم ، مع اش،اور ثق افت پراج ارہ داری ق ائم ک رنے کے ل یے منص وبہ س ازی غلام بنانے ،ساس دور کے مروجہ لٹریچر کے مطالعہ کے ل یے کرتی ہیں تو ان منصوبوں کے نتائج کو ازسر نو ترتیب دے کراابادیات‘‘ )پوسٹ کولونیل ازم(کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔جو کہ اس تعماری ط اقتوں کی متعین ’’پس نو

کردہ مربوط پالیسیوںکے کی ایک تھیوری سمجھی جاتی ہے۔اابادی ات ) نیوکولونی ل ازم(جیس ی اص طلا ح ات دوس ری جن گ ’’ن و اس تعمار‘‘ی ا’’مابع د /جدی دنو اازاد چھ وڑ عظیم کے بعد وضع ہوئیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد استعماری طاقتیں محک وم ممال ک ک و بظ اہرسانہوں نے اپنی تعلیمی، لسانی، معاشی، ثقافتی اور مذہبی پالیسیوں کی بنی ادیں محک وم کر چلی گئیں لیکن سان کی غ یر موج ودگی میں ان پالیس یوں ک ا تسلس ل ج اری رہ ا۔ زمین میں اتنی مض بوطی س ے اس توار کیںکہ

اازاد ہ و۱۹۷۰دوسری جن گ عظیم س ے لے کر ء ت ک تم ام ممال ک بظ اہرمغربی ط اقتوں کے ش کنجے س ے ااگ ئے ن ئے س رے س ے نظ ام حک ومت ت رتیب دے گ ئے، لیکن درپ ردہ وہی اس تعماری گئے۔مقامی حکم ران سانھیں ط اقتوں ک اغلبہ رہ ا۔ناص ر عب اس ن یر نے ادبی ان داز میں اس پ ورے ،نظ ریے اور پالیسی عمل پیرا رہی اور

عمل کو کچھ یوں بیان کیا ہے:

Page 50: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

49

’’کولونیل ازم ایک ڈراما تھا ،جس کا اسکرپٹ یورپ نے لکھااور جسے کھیلنے کے لیے ایشیاء اورافریق ا کیسرزمین کو منتخب کیا ۔ڈرامے کے مرکزی کردار یورپی تھے،تاہم کچھ معاون کردار ایش یائی و اف ریقی تھے۔اابادیاتی مطالعہ اس ڈرامے اور اس کے کرداروں کے باہمی رشتوں ،واقعات، پلاٹ وغیرہ ک ا تفص یلی مابعد نو

( ۹تجزیہ کرتا ہے۔‘‘)اابادی اتی نظ ام بہت پہلے تاریخی حوالے سے دیکھا جائے ت و اس تعماری ط اقتوں ک ا وض ع ک ردہ ن و ااور ہ و تے سے موجود رہاہے۔ مختلف شکلوں میں بڑے اور طاقتور ممالک چھوٹے اور کمزور ممالک پر حملہ سان ک ا رہے ہیں۔ محکوم اقوام کی زمین اور وسائل کوا پنی مقاصد کے ل یے اس تعمال ک رنے کے س اتھ س اتھ

ااغاز کے بارے میںباری علیگ لکھتے ہیں: استحصال بھی کرتی رہی ہیں۔ اس سلسلے کے اابادیاں بنائیں۔‘‘ )۶۵۵’’ (۱۰ء ق۔م میں پہلی مرتبہ یو نانیوں نے مصر میں اپنی نو

ااری ائی اق وام جہاں تک ہندوستان میں بیرونی طاقتوں کے عمل دخل کا س وال ہے ت و ان ط اقتوں میں ااوروں میں یونانی، ترک،افغانی، ای رانی، تات ار اورمنگ و ل اق وام ش امل ہیں۔یہ س ب کے بعد دیگر بیرونی حملہ اس تعماری ق وتیں تھیں ج و دوس رے ض منی مف ادات س میت اقتص ادی مف اد کے تحت یہ اں وارد ہ وئیں۔اس@@ا ای ک سلسلے کی دوسری اہم کڑی مسلمانوںکی ہے جو محمد بن قاسم س ے اورنگ زیب ع المگیر ت ک تقریب ہ زار س ال ک ا طوی ل دور انیہ بنت ا ہے۔ ہندوس تانی ت اریخ بی ان ک رتے ہ وئے ج واہرلال نہ رو اپ نی ج گ بی تی میں

لکھتے ہیں:لیے قائم رہیں ۔ ان میں حکومت کے اور بدھ ریاستیں ہندو ’’کوئی چودہ سو برس تک ان جزیروں میں

خوب لڑائیاں ہوئیں۔کبھی ہندو برسر اقتدار ہوتے تھے کبھی بودھوں کی حک ومت ہ و ج اتی تھی۔کبھی کبھیااخر پن درھویں ص دی عیس ویں میں مس لمانوں ایسا بھی ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کو تباہ و برباد کر ڈالتے ۔بلااخ ر میں ام ریکہ نے اس علاقے پر قبضہ کر لی ا۔اس کے بع د ہی پرتگ الی،اس پینی، ڈچ، انگری ز اورس ب س ے والے پہنچے۔چینی تو قریب ہی تھے کبھی وہ بھی حملہ کرکے چھوٹے چھ وٹے علاقے فتح ک رتے تھے لیکن

(۱۱اکثر ان کا برتائو دوستانہ رہا۔‘‘)اابادیاتی سرخ کیوں کیا اور ہندوستان میں نو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بیرونی طاقتوں نے ہندوستان کا اائیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ برصغیر زمانہ قدیم سے ایک حکومتیں کیوں کر وجود میں

Page 51: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

50

زرخ یزخطہ تھ ا ج و کہ زراعت اورص نعت کے علاوہ ق درتی وس ائل س ے بھی مالام ال تھ ا۔یہی وجہ تھی کہااوروں ہندوستان’’ سونے کی چڑیا ‘‘کے نام سے مشہور تھ ا۔جیس ا کہ پہلے بی ان ہوچک ا ہے کہ ب یرونی حملہ اای ا کو کئی گروہوں میں تقسیم کیاجاتا ہے لیکن ان میں وہ گ روہ ج و سیاس ی ی ا م ذہبی مف ادات کے تحت مگر پھر واپس نہیں گیااوریہاں کے باسیوں میں گھل مل کر مستقل رہائش پذیر ہوا وہ گروہ مسلمانوں کا تھ ا جنھوں نے عدل و انصاف،مس اوات اور ذات پ ات س ے ب الاتر حکوم تیں ق ائم کیں۔ مس لمانوں نے اپ نی علم دوستی اور انسان دوستی کی وجہ سے یہاں کے وسائل میں خاطر خواہ اضافہ ک رکے ان میںمزی د بہ تری پی دا

کی۔مسلم اقتدار کے بارے میںجواہرلال نہرو نے لکھا ہے:سچکے تھے اور ہندوس تان میں بس گ ئے تھے۔افغ ان حکمران وں کے س امنے ابت دا ہی ’’افغان ہندوستان میں رہ سے یہ مسئلہ تھا کہ کس طرح رعایا کے دلوں س ے ع داوتیں کم ک ریں۔ان کی پالیس ی یہ تھی کہ رعای ا کےہک عمل کی دعوت دی جائے۔رعایا یہ محسوس کرے کہ ساتھ رواداری برتی جائے۔رعایا کو اپنے ساتھ اشترا حکمران طبقہ کے لوگ کوئی بیرونی عنصر نہیں بلکہ اسی ملک میں پیدا ہوئے ہیں۔ابتدا میں یہ چیز پالیسی کی حیثیت رکھتی تھی لیکن رفتہ رفتہ یہ ایک مستقل ذہنی کیفیت بن گئی۔اسی طرح ای ک متح دہ تہ ذیب

ااغاز ہونے لگا۔‘‘) (۱۲کا سسن ہندوس تان کی ص نعت ،زراعت اور دوس رے ق درتی وس ائل س ے مالام ال ہ ونے کی خ بر سرخ تج ارت کی غ رض س ے کی ا۔ کرپرتگیزیوں، ولندیزیوں،انگریزوں،فرانسیسیوں اورڈنم ارک وال وں نے یہ اں ک ا ساس دور میں ہندوستان کی معاشی خوشحالی کے لیے یہ ثب وت ک افی ہے کہ ب یرونی ممال ک دیکھا جائے تو سان ہی لوگ وں س ے کی نے معاشی اور تجارتی فوائد حاصل کرنے کے لیے یہاں کارخ کیا تھا۔کیونکہ تجارت جاتی ہے جو صاحب ثروت ہوں جن کے پاس بیچنے کے لیے اضافی جنس موجود ہو ۔یعنی اگر ایک مل ک بحری جہاز لے کر دوسرے ملک پہنچتا ہے تو اس سے ص اف ظ اہر ہوت ا ہے کہ وہاںض رور ایس ی ک وئی چ یز موجود ہے جو اس کے اپنے ملک میںمیسر نہیںہے۔یورپی ممالک میں سے سب سے پہلے کس نے ہندوستان

میں قدم رکھا ؟اور کیوں رکھا ؟ اس حوالے سے حسین احمد مدنی لکھتے ہیں:اای ا۱۴۹۸’’ایک مشہور پرتگیز کپتان ’’واسکوڈے گاما‘‘چند جہاز لے کر ء میں ہند کے مغربی ساحل پ ر

اور شہر کالی کٹ میں وارد ہو ا ۔وہاں کا راجہ زمورن کہلاتا تھ ا ۔اس نے واس کوڈے گام ا ک و ش اہ پرتگ ال

Page 52: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

51

کے نام ایک خط دیا ۔جس میں تحریر تھا کہ میرے ملک میں دارچی نی،لون گ،ک الی م رچ اور ادرک ک ثرت(۱۳سے ہوتے ہیں۔میں تمھارے ملک سے سونا چاندی،مونگا اور قرمزی مخمل چاہتا ہوں۔‘‘)

ساس اامد کے عہ د ک ا تعین ہوت ا ہے بلکہ مذکورہ بالا خط سے نہ صرف ہندوستان میںیورپی اقوام کی دور کی ہندوس تانی مص نوعات ک ا بھی ان دازہ لگای ا جاس کتاہے۔مغ ربی ت اجر ہندوس تانی مص نوعات میں بالخصوص سوتی مصنوعات سے متاثر ہوئے کیوں کہ بنگ الی ریش م اور ملم ل کے دس تکاریاں پ وری دنی ا کےاام دات میں خ اص تھے۔ لیے کسی عجوبے سے کم نہیں تھیں۔اس کے علاوہ شورہ،کیلیکو اور نی ل وغ یرہ بر لیکن سب سے مرغوب چیز یںیخ بستہ ممالک کی رہائشیوں کے لیے گرم مسالے ،سیاہ مرچ،ادرک،ہلدی اور

@@ا سو سال یعنی ء تک ہندوستان میں بحری تجارت کا کنٹرول پرتگیزیوں کے ہاتھ رہ ا۱۶۰۰شکر تھیں۔تقریباامد سے پہلے بھی ہندوستان ایک تجارتی مرک ز کی حی ثیت رکھت ا تھ ا ،خش کی اور بح ری ۔یورپی اقوام کی راستوں سے عرب اور چین کے ممال ک س ے ہندوس تان کے تج ارتی تعلق ات اس توار ہ و چکے تھے لیکن اس سلس لے میں یہ اں کے حکمران وں کی س ب س ے ب ڑی کم زوری چین س میت دیگ ر ایش یائی ممال ک ت کساٹھایا۔ اس حوالے سے ڈبلی و۔ایچ۔ سمندری راستوں سے عدم واقفیت تھی جس سے یورپی اقوام نے پورا فائدہ

مورلینڈ کہتا ہے: ’’سولہویں صدی کے اواخر تک پرتگیزوں نے ہندوستانی سمندروں میں بلامداخلت غیرے اپنا س کہ جم ا لی ا تھا۔اس کا سبب کو ئی خود ان کی داخلی طاقت نہ تھی بلکہ ایشیائی قوموں میں بحری طاقت کی اہمیت

(۱۴کا عدم احساس تھا۔‘‘ ) پرتگ یزوں کی کامی ابی کی ای ک وجہ ت و ان کے مض بوط جہ ازی ب یڑے تھے دوس ری وجہ ان کے محفوظ ٹھکانے اور سمندری حملوں سے بچائو کے لیے بہترین احتیاطی ت دابیرتھے۔ان لوگ وں نے پہلی م رتبہاائے اور بن درگاہوں پ ر قبض ہ تجارت میں جارحانہ انداز اختیار کیا۔اپ نے س اتھ ف وج ، ت وپیں اور اس لحہ لے ک ر ہہذا اس صورت حال میں ہندوستانی جہازوں کوان لوگوں کی تش دد س ے بچ ک ر مش رقی اف ریقہ کرنے لگے۔ ل

اور جاپان تک پہنچانا ناممکن ہوگیا۔ پرتگ الیوں نے ای ک عرص ے ت ک گ وا کے مق ام پ ر تج ارتی من ڈی بن ا ک ر کوٹھی اں بن ائیں س اتھ ہی ساحلی علاقوں پر قبضہ بھی کیا لیکن یہاںدائمی حکومت بنانے میں ناک ام رہے جس کی وجہ خ ود پرتگ ال

Page 53: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

52

میں ان درونی فس ادات و اختلاف ات بی ان کی ج اتی ہیں جب کہ انگری زوں اور دیگ ر مغ ربی اق وام نے بھی ہندوستان میں ان کے اثر رسوخ کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پرتگیزیوںکے بعد ولن دیزیوں)ڈچ( نے بھی

سرخ کیا اور ء تک کے عرصے میں کلکتہ کے مقام پر اپنی ک الونی ق ائم۱۶۰۲ ء سے ۱۵۹۵ہندوستان کا کرنے میں کامیاب ہوئے۔دوسری طرف انگلستان نے بھی پرتگ الیوں کی دیکھ ا دیکھی ہندوس تان کی ط رفااخ ر ک ار کامی ابی کی پ وری سرخ م وڑ لی ا ۔انگلس تانی جہ ازوں کی مسلس ل کوش ش،ناک امی اور جہازوں ک ا

کارگزاری بیان کرتے ہوئے ڈبلیو۔ایچ۔مورلینڈ لکھتے ہیں: ء میں ہس پانوی ارمی ڈا کی شکس ت کے بع د جس کے ن تیجے میں انگری زوں کے س اتھ س اتھ۱۵۸۸’’

سامید کے راستے سے س مندری س فر ممکن ہ و گی ا۔ ولندیزی بھی سیاسی خطرات سے محفوظ ہو گئے۔راس اس کے تین س ال بع د ج ارج ریمن ڈ کی س رکردگی میں ای ک مہم مش رق کی کے س فر روانہ ہ وئی ج و بے

اائی لیکن ان کا۱۵۹۶نتیجہ ثابت ہوئی۔۔۔ ء میں انگلستان نے مشرق کے سفر کی دوسری کوشش سامنے جہ ازی ب یڑا مکم ل ط ور پ ر تب اہ ہ و گی ا۔۔۔لن دن ش ہر کے س وداگروں نے متح د ہ و ک ر جہ ازوں اور تج ارتی سامانوں پر لگانے کے لیے بہتر ہزار پونڈ کا س رمایہ جم ع کی ا ت ا کہ مش رق یع نی ہندوس تان میں تج ارت کی

اام د ک ریں۔۔۔ جہ ازوں ک ا یہ ب یڑا ف روری ء۱۶۰۱دری افت ک رکے اپ نے مل ک مس الے اور دیگ ر اش یا کی در میںجیمس لین کی سرکردگی میں سفر پر روانہ ہوکر اگلے سال اش ین پہنچ ا اور ای ک کامی اب س فر کے بع د

( ۱۵ء میں واپس ہوا۔)۱۶۰۳اگست لندن کے مذکورہ بالا جمع شدہ تاجروں نے ملکہ ایلزبتھ اول سے اجازت لے ک ر ای ک کمپ نی ق ائم

ء میں جہانگیر سے اج ازت حاص ل ک رنے۱۶۱۵کی جو کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے مشہور ہوئی۔ کے بع د کمپ نی ک و پ ورے ہندوس تان میں تج ارت ک رنے کی اج ازت م ل گ ئی۔اس ط رح کمپ نی نے

ااباد میں کارخانے قائم کیے۔یہاں تک کہ ااگرہ،اجمیر اور احمد ء ت ک کارخ انوں ک ا سلس لہ۱۶۹۰سورت، ء تک ہندوستانی سمندری تجارت پر پرتگ یزی،ولن دیزی۱۶۶۰ء سے لے کر ۱۶۰۰کلکتے تک پھیل گیا۔

اور انگریز قابض رہے تاہم اس دور میں برتری کے ساتھ تج ارتی کن ٹرول ولن دیزوں کے ہ اتھ میں رہ ا۔ہندوس تانااخ یر ت ک ااغ از بہت بع د میں، س ترھویں ص دی عیس ویں میں ہ وا۔ت اہم میں اگ رچہ فرانسیس ی تج ارت ک ا

ء تک فرانس کو بھگاکر انگلستان یہ اں۱۷۵۵انگریزوں کا حریف ملک اس سلسلے میں فرانس ہی رہاتاہم

Page 54: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

53

ء میں۱۷۵۷ک ا واح د تج ارتی مل ک بن گی ا۔انگری زوں کی تج ارتی بالادس تی کے سلس لے میں اہم م وڑ پلاس ی کی جن گ تھی۔ کی وں کہ اس جن گ کے بع د ایس ٹ ان ڈیا کمپ نی ہندوس تان میں نہ ص رف واح د

تجارتی طاقت بن گئی بلکہ کمپنی نے ہندوستانی زمین پر قابض ہونے کی تگ و دو بھی شروع کردی۔ ء میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغل حکومت کا شیرازہ مکمل طور پر بکھرنا۱۷۰۷

سانھ وں نے بہادرش اہ کے لقب س ے شروع ہوگیا۔ اورنگزیب کے بیٹوں میں معظم کو کامی ابی حاص ل ہ وئی اور سان کے بیٹ وں میں خ انہ جنگی ش روع ہ و گ ئی ت اہم جیت چ ار س ال حک ومت کی۔ان کی وف ات کے بع د جہاندارش اہ جیس ے اوب اش اور عی اش ش ہزادے کی نص یب میں لکھی تھی ۔ تخت نش ینی کے بع د وہاائے ج و انتہ ائی نااہ ل ساس کے بع د ف رخ س یر وزیروں،مشیروں کو بااختیار بن ا ک ر خ ود عیاش ی میں مگن رہ ا۔سانھ وں نے اپ نے وزی ر قمرال دین ک و بااختی ار بنای ا اور خ ود عیش و عش رت میں ڈوبے رہے۔ بادش اہ ث ابت ہ وئے۔

سان کے علاج کے لیے کمپ نی نے ڈاک ٹرولیم ہملٹن ک و بھیج ا۱۷۱۷بدقسمتی سے ء کو بادشاہ بیمار ہوئے جس نے فرخ سیر کا علاج کیا اور وہ ٹھیک ہوگئے۔بادشاہ نے حس ب روایت انع ام و خلعت پیش کی ہملٹن نے لینے سے انکار ک رکے کمپ نی پ ر ٹیکس مع اف ک رنے کی درخواس ت کی ج و قب ول ہ وئی۔اس اعلان ک ا جتنا فائدہ کمپنی کو ہوا وہ بیان کرنے سے باہر ہے۔دیسی کمپ نیوں ک و ٹیکس کی وجہ س ے اپن ا م ال مہنگ ااازادہ و گ ئی ۔بہت کم عرص ے میں ہندوس تان ک ا ص نعتی بیچنا پڑتا تھ ا جب کہ کمپ نی اس جھنجھٹ س ے سان کے رحم و ک رم پ ر ہ و گ ئے۔یہ وہ دور تھ ا جس ااگی ا اور دیس ی کارخ انہ دار کنٹرول کمپنی کے ہاتھ میں میں مرکز کی گرفت کمزور ہو ئی اور چھوٹی چھوٹی ریاستیں راجائوں اور نوابوں کی سربراہی میں خ ود مخت ار حیثیت اختیار کرنے لگیں۔فرخ سیر کو ہٹا کر سید برادران نے محمد شاہ جیسے نااہل اور عیاش ش خص ک و

ء میں نادرشاہ نے حملہ کر کے رہی سہی کسر پوری کردی۔۱۷۳۹تخت پر بٹھایا۔جب کہ دوسری طرف سان کے ارادے سانھوں نے شہنشائے ہند ہونے کا اعلان ک رکے اپ نے ن ام کاس کہ بھی ج اری کی ا لیکن اگر چہ

یہاں ٹھہرنے کے نہ تھے ۔ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں:ساس نے محم د ش اہ ک و ت اج عط ا کی ا اور ل وٹ ک ا بے ’’فاتح کا منصوبہ ہندوستان میں قیام کرنے کا نہ تھ ا شمار مال لے کر چل دیا۔نادر ش اہ کے حملے نے مل ک ک و ایس ا دھکہ م ارا جس س ے وہ کبھی س نبھل نہ

(۱۶‘‘) سکا۔

Page 55: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

54

سان ک و۱۷۵۶ ااک ر اازاد حکمران سراج ال دولہ نے کمپ نی کے عی اریوں س ے تن گ ء میں بنگال کے کلکتے سے نکال باہر کیالیکن بعد میںسخت فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے انگریزوں کی ج ان بخش ی کےسان کو اپنے راستے کا خار سمجھتے ہوئے ان کے خلاف منص وبہ احکامات جاری کر دئیے۔لارڈ کلا ئیو نے

ء ک و س راج ال دولہ ک و۱۷۵۷بن دی ش روع ک ر دی۔انگری زوں نے م یر جعف ر س ے س از ب از ک رکے جن وری شکست دے کرمیر جعفر کو بنگال ک ا ن واب بنادی ا ۔ص رف ن واب کی مع زولی اور ن ئے ن واب کے انتخ اب

اائے اس کا سرسری ذکر رومیش دت نے یوں کیا ہے: کے سلسلے میں جتنے پونڈ انگلستانیوں کے ہاتھ " when Mir Jafar was first made nawab after the

battle of Plassy in 1757,the british offficers and troops had received a bonus of 1238525(pound)out of wich CLIVE himself had taken 31500,Besides a Rich Jaiger or state of bangal.when Mir Qasam was made nawab in 1760,the present to the british officers came to 200269,out of wich Vansittart had taken 58333.when Mir jafar was made nawab a scond time in 1763,the presents amount to 500165 pound,and now when Najim ud din Daullas set up in 1765,further presents into the extent of 230356.Besides these sums received in presents amounting with in eight year to 2169665,further sums were claimed and obtained as restitution with in this presental

amounting to 3770833."(17) جنگ پلاسی کے بعد ہندوستانیوں کے لیے بڑاعذاب احمد شاہ ابدالی کے حملے ث ابت ہ وئے۔جس

ء میں حضرت شاہ ولی اللہ کے بلانے پر ہندوس تان۱۷۶۱ء میں ناکامی کے بعد ۱۷۴۹ء اور ۱۷۴۸نے پر چڑھائی کر دی۔ ابدالی نے پانی پت کی تیسری لڑائی میں مرہٹ وں کی قت ل وغ ارت کے بع د پنج اب میں

Page 56: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

55

اانے سے چار برس پہلے ہی سان کے ء میںلارڈ کلائیو جن گ۱۷۵۷اپنی جیت کے جھنڈے گاڑ دیے۔لیکن پلاسی کی جیت کے ذریعے ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ کر چکے تھے۔سید حسن ریاض لکھتے ہیں: ’’جنگ پلاس ی کے بع د انگری ز وں نے خ ود مخت ار ص وبوں اور ریاس توں پ ر تس لط کے ل یے س رگرمیاں ش روع

ء ت ک مرہٹ وں کی۱۸۱۷ء میں میسور پر،۱۷۹۹ء میں انھوں نے سندھ پر قبضہ کیا۔ ۱۷۴۳کیں۔سن ۸۵۶ء میں سکھوں کو شکست دے کر پنج اب ک ا الح اق کی ا۔۱۸۴۹اا زاد حکومتیں ختم کردیں۔سن

(۱۸ء میں اودھ کا۔ اس کے بعد پورے ہندوستان کے مالک تھے۔‘‘)۱اایا جب نواب شجاع الدولہ نے شاہ عالم ث انی کے۱۷۶۴اس کے بعد دوسرا اہم واقعہ ء میں پیش

ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف بکسر کی لڑائی لڑی جس میں ناکامی کے بعد شاہ ع الم ث انی ک و ص لح نامہ میںچھپن لاکھ سالانہ کے عوض تین ص وبوں بنگ ال،بہ ار،اڑیس ہ کی دی وانی لارڈ کلائی و ک و پیش ک رنی پڑی ۔ یوں کسان بھی تجارتی بھیڑیوں کے شکاربننے لگے۔اس حوالے سے ڈاکٹر گ وپی چن د نارن گ لکھ تے

ہیں: ’’لارڈ کلایو سے لارڈ ڈلہوزی تک کمپنی کے جوڑ توڑ سے ثابت ہوتا ہے کہ انگری ز کس ی نہ کس ی بہ انےساس کی انتہا سارے ہندوستان پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔جس کام کی ابتداء پلاسی کی جنگ سے ہوئی تھی

(۱۹بکسر کی لڑائی پر ہوئی۔‘‘)سان کا بہادر بیٹا ٹیپو سلطان انگری زوں کے راس تے اس کے بعد میسور کے حکمران سلطان حیدرعلی اور پھر ااخ ر میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے۔لیکنیہاںبھی انگریز نے اپنی پرانی چال چلاکر م یر ص ادق کی م دد س ے

ء میں ٹیپو سلطان کو شہید کرنے میں کامی اب ہ وئے۔ٹیپ و س لطان کے بع د روہیل وں کے۱۷۹۹کار مئی ء تک انگریز دہلی میں وارد ہ وئے۔مغ ل بادش اہت ک و ص رف۱۸۰۳چھوٹے چھوٹے گروہوں کو دباتے دباتے

ااخر ااخری۱۸۵۷لال قلعے تک محدود کیا اور بل اازادی میںہندوستانیوں کی شکس ت کے بع د ء کی جنگ سان کے بیٹ و ں ک و ہڈس ن نے گ ولی ک ا نش انہ مغل تاجدار ’’بہادر شاہ ظفر‘‘کو رنگون)برما( بھیج دی ا گی ا ۔اازادی کے بعد ہندوستان کمپنی کی اقتدار سے براہ راست برطانوی حک ومت کی عم ل داری بنایا۔یوں جنگ اازادی میں اگرچہ بچے ،بوڑھے،جوان،ہندو،مسلمان،پنڈت اور علم اء س ب ش امل تھے لیکن ااگیا۔جنگ میں ناقص جنگی حکمت عملی، معاشی ب دحالی ،قلی ل اور غ یر معی اری جنگی ہتھی اروں کی وجہ س ے ناک امی

Page 57: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

56

اازادی میں ہندوس تانی کی وں ناک ام ہ وئے اس ح والے س ے۱۸۵۷ہندوستانیوں کا مق در ٹھہ ری۔ ء کی جن گ ڈاکٹر سہیل احمد لکھتے ہیں:

اازادی انگری زوں کی بہ تر حکمت عملی،وس ائل کی ع دم دس تیابی، مجاہ دین کے۱۸۵۷’’ ء کی جن گ (۲۰باہمی اختلاف،منصوبہ بندی کی کمی اور مفادات سے ٹکرائو کے باعث ناکام ہوئی۔‘‘)

اائی تھی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپ نی تج ارت کی غ رض س ے ہندوس تان بعد میں اقتدار کے ہوس کی شکار ہو گئی ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہ ر وہ ح ربہ اس تعمال کی ا گی ا جو کار گر ثابت ہو سکتا تھا۔ابتداء میں ان لوگوں کا رویہ ہندوستانیوں کے ساتھ نہایت مو دبانہ رہا۔ یہ ل وگ بادشاہوں سے اجازت نامہ اور مراعات حاصل کرنے کے لیے تحفے تحائف پیش کرتے ۔ہندوستانیوں سے می ل ملاپ بڑھانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ۔کمپنی کے ملازمین اکثر پندرہ اور س ولہ س ال کی عم ر میںہہذایہاں کی زب ان س یکھنے کی کوش ش ک رتے تھے۔ یہ اں کے ادب و ہندوس تان میں وارد ہ وتے تھے ل ااداب،نشس ت برخاس ت س ے واقفیت حاص ل ک رنے کے ل یے یہ اں کے ع وام ک ا بے ح د ق ریب رہ نے کیااسام،اڑیسہ ،کلکتہ وغیرہ جا کر @@ا بنگال، سان ملازمین کو ملک کے مختلف صوبوں مثل کوشش کرتے کیوں کہ سان کو ہندوستانی م زاج س ے ہی طبقے کے ساتھ لین دین کرناپڑتا تھا۔بہرحال جوں جوں وقت گزرتا گیا اور اعل واقفیت حاصل ہوتی گئی۔یہاں کے لوگوں کی فطری اور سماجی کمزوریوں کے بارے میں ان کو ج اننے ک اسانہوں نے اپنی تہ ذیبی اور اامدنی اورتجارت پر قابض ہو گئے تب موقع ملا اور ساتھ ہی جب انگریز یہاں کی ثقافتی برتری و بالادستی قائم کرنے کے لیے یہاں کے باسیوں کو حقیراورغ یر مہ ذب کہن ا ش روع ک ر دی ا۔انسان س ے می ل میلاپ کم ہی عہدوں سے ہندوستانیوں کو ہٹا دیا گیا، کو دعوتوں میں مدعو کرنا ترک کر دیا۔اعلاام یز رویے ک ا س امنا کرن اپڑا۔ اس ب ارے میں سان کی حق ارت سے کم کر دیا گیا۔ہندوس تانیوں ک و یہ اں س ے

سرسید احمد خان اپنے مضمون’’جوتے کا مقدمہ‘‘ میں لکھتے ہیں۔:ساس کے س ر پ ر رکھ دی ااور چن د ااباد نے ہندوستانی خود مختار ک ا جوت ا ات روا ک ر ہلہ ’’ایک نوجوان اسسٹنٹ اااداب ہ ساس کو اسی طرح کھڑا کررکھا۔۔۔جوتا پہن کر عدالت کے کسی کم رے میں جان ا خلاف منٹ تک ہی ق رار پ ائے ت و جوت ا پہن ک ر ج انے والا اس ی س زا ک ا مس توجب ہوگ اجو ق انون کے منش ا کے مط ابق اس شخص کے واسطے مقرر ہے۔۔جو شخص ذرا بھی اپنے مطلب کی تائید کے واسطے زیادہ گفتگ و ک رے ت و

Page 58: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

57

ساس ک و ڈیم،س ور کہہ ک ر س ر اجلاس دو نازک دماغ ح اکم اس کے ک ان پک ڑوائے اور اٹھ ائے ،بٹھ اوے ی ا لاتے لگاوے یا رہ چلتے شخص کو اس جرم میں پکڑ ک ر بی د لگ وا دے کہ اس نے ہم ک و س لام نہیں کی ا

(۲۱تھا۔‘‘)ساتار ے گھس جاتے تاکہ اندر بیٹھے پن ڈت ی ا انگریزی گماشتے مسجدوں اور مندوروںمیں بغیر چپل سان کی بے عزتی کی جائے۔اس قس م کے ہزارہ ا مث الوں س ے ت اریخ کی کت ابیں امام کو زک پہنچایا جائے یا بھری پڑی ہیں۔انگریزوں کے ان اقدامات کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اگر مق امی لوگ وں ک و حق یر،کم زور،کم تر،غیر مہذب اور غیر تعلیم یافتہ ہونے کا احساس نہیں دلایا گیا تو اپنی نس لی برت ری ک و کیس ے ث ابت کی اااک ر اپن ا ح ق جائے گ ا۔ جب کہ براب ری اورمس اوی س لوک کی وجہ س ے مق امی ل وگ براب ری کی س طح پ ر م انگنے کے ل یے احتج اج ک ریں گے اورانص اف م انگیں گے۔ ان اس تعماری پالیس یوں کی ب دولت دھ یرے

دھیرے ہندوستانی انگریز سامراج کی نظرمیں وحشی اور غیر مہذب بنتے چلے گئے۔)ب(

ہندوستان میں مغربی استعمار کی مختلف پالیسیاںااج بھی برص غیر کاای ک اابادی اتی دور اور مغ ل حک ومت ک ا م وازنہ ک رتے ہ وئے ہندوس تان میں ن و مخصوص طبقہ اکثر یہ سوال اٹھاتا ہے کہ مغل وں نے ہندوس تان ک و کی ا دی ا؟۔وہ ت و عورت وں کے محفل وں میں مست،سوچ و فکر سے خالی شعر و ش اعری اور قص یدہ گ وئی میں مش غول کب وتر ب از ی ا ج وا ب از قس م کےہر زندگی بہتر بنانے کے بارے سانھیں نہ تو نظام حکومت میں دلچسپی تھی اور نہ لوگوں کی معیا لوگ تھے ۔ سان کے ذہن میں کہ اں میں کوئی سوچ۔عام رائے یہ دی جاتی ہے کہ مغل روایت پسند ل وگ تھے۔ن ئی ت رقی سما سکتی تھی،معاشرتی لحاظ سے ہندوستانی معاشرہ ،جام د و منجم د ،ذات پ ات میں جک ڑا ہ وا معاش رہ تھا ۔اس کا مکمل انحصار زراعت پرتھا جس کے لیے دیہات کے غریب کاشت کار اور مزدور کاخون پسینہہہذا اس ساس کی گزر بسر ہ و تی تھی۔ل استعمال کیا جاتا ہے۔ہر گائوں بس اتنا کماتا تھا جس سے بہ مشکل اابادیاتی غلبے نے توڑڈالا۔ ہندوستانی معاشرے کو متحرک کرکے ترقی کی نئی راہوں پر جمود اور ٹھہرائوکو نو گامزن کی ا۔ انگری زوں نے نہ ص رف انہیں جدی د تعلیم اور ن ئی ٹیکن الوجی س ے روش ناس کروای ا بلکہ معاش یسپل بن ائے اابپاش ی کے ل یے یہ اں نہ ریں کھ ودی گ ئیں ۔ رس د و ترس یل کے ل یے اس تحکام کی خاطر

Page 59: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

58

گ ئے،س رنگیں کھ ودی گ ئیں،ریل وے لائن بچھ ائی گ ئی ،جدی د مش ینوں س ے انڈس ٹری ک و لیس کروای اسان کے گماشتوں سمیت ہندوس تانی اابادیاتی وظیفہ خواروں اور اابپاشی کا نظام بہتر بنایا گیا ۔ اس طرح نو گیا، ضمیر فروشوں اور کاسہ لیسوں نے برطانوی راج کو ہندوستانیوں کے لیے ت رقی اور روش ن خی الی ک ا منب ع ق رارساس فہرس ت ک ا ح والہ دین ا ض روری ہوگ ا کی وں کہ اس قس م دیا۔ یہاں پرہابسن جے ۔اے ،کے دعوئ وں کی کی بیان بازیوں کی وجہ سے بعض نام نہاد روشن خیال تاریخ دانوں نے بھی نئی نسل ک و گم راہ ک رنے میں

کوئی کسر نہیں چھوڑی :"we have established a wider and more

permanent internal peace then india had ever known from the days of Alexander the great.we have raised the standard of justice by fair and equal administration of laws,we have regulated and probably reduced the burden of taxation ,cheaking the corruption and tyranny of native princes and their publicans.For the instructions of the people we have introduced a public system of schools and colleges,as well as great Quasi-public missionary establishment teaching not only the christian religion but many industrial arts.Roads,rail-ways and network of canals have facilitated communication and transport,and extensive system of scientific irrigation has improved the productiveness of the soil.the mining of coal,gold and other minerals has been greatly developed;in bombay and elsewhere cotton mills with modern machinery have been set up,and the organization of other machine industries is helping to find employment for the papulation of large cities. Tea, coffee, indigo,jute,tobacco,and other important crops

Page 60: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

59

have been introduced in indian agriculture."(22)

ترجمہ :ہم نے ہندوستان میں وسیع تر اورمستحکم بنیادوں پرایسا امن ق ائم کی ا جس س ے ہندوس تانسکندر اعظم کے دور سے محروم رہا ۔ہم نے سچائی اور مساوات کے ساتھ ق انون کی بالادس تی ق ائم کی۔ ہم نے ٹیکس ک ا نظ ام درس ت ک رکے ع وام پ ر مق امی حکمران وں کے ظلم ، رش وت خ وری اور محص ول ک ا بوجھ کم کردیا۔لوگوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے ل یے ہم نے پرائی ویٹ ک الجوں اور س کولوں ک ا نظ ام بنادی ا۔اور اس کے ساتھ نیم س رکاری مش نری ادارے بھی ق ائم ک ئے ج و نہ ص رف عیس ائی م ذہب کی تعلیم کے ل یے مختص تھے بلکہ اس کے ساتھ بہت سے ص نعتی فن ون کی بھی تعلیم دی تے تھے۔۔س ڑکوں اور ریل وے کیاابپاش ی کے سائنس ی ط ریقے س ے زمی نی پی داوار میں جال سے مواصلات اور ٹرانسپورٹ کو بہتر بنایاگیا ہے۔ ااہس تہ س ے ت رقی ہ و رہی ہے۔بمب ئی اور اضافہ کیاگیا۔ک وئلے ،س ونے اور دوس رے مع دنیات کی ک ان ک نی میں دوسرے شہروں میں جدید مشینری س ے لیس س وتی ک پڑے کے م ل ق ائم ک یے گ ئے ۔مش ینی ص نعتوں س ےاابادی والے شہروں کے لوگوں کوروزگ ار ملے گ ا۔چ ائے ،ک افی ،نی ل ،پٹ س ن،تمب اکو اور دوس ری ب اہر زیادہ

سے لائی ہوئیں فصلوں کو ہندوستانی زراعت میں متعارف کرا دیاگیا ہے۔"اابادی اتی ہابسن کے اس بیان کو استعماری دور کی ترقی پسندانہ س وچ ق رار دی نے کی بج ائے اس نو@@ا اگ ر ص نعتی انقلاب کی روش نی میں دور ک و دنی ا کی ت اریخ کے تن اظر میں دیکھن ا اور پرکھناچ اہیے۔مثلسچھ پی ب ات نہیں کہ انگلس تان نے اابادی اتی عہ د ک ا مط العہ کی ا ج ائے ت ویہ ک وئی ڈھکی ہندوستان میں ن و ااکرہندوستانی زمین کو بطور تجارتی منڈی استعمال کیا۔وسائلکو منڈی تک پہنچ انے تجارت کی غرض سے سانھوں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جو اس عمل کو موثر بنا سکتاتھا۔ریلوے لائن،ٹنل،پل وغ یرہ اس ی کے لیے

ااتے ہیں۔اس حوالے سے حمزہ علوی لکھتے ہیں: زمرے میں اابادیاتی سرکار کے فرائض میں شامل ہو گیا کہ منڈی کے پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم ک رنے کے ل یے ’’نو ذیلی ڈھ انچہ مہی ا ک رے۔چن انچہ س ڑکوں کی تعم یر،ریل وے لائن ک ا خی ال،بن درگاہوں کی تعم یر جیس ی سہولتوں کی فراہمی کے لیے موثر اقدمات کیے گئے تاکہ اش یاء کے نق ل و حم ل اور گ ردش ک و س ہل بنای ا

(۲۳جا سکے۔‘‘)

Page 61: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

60

نئی تعلیم اور جدی د ٹیکن الوجی وقت کی ض رورت اورپ وری دنی ا کی تہ ذیبی شائس تگی اور ت اریخی تسلسل ک ا ن تیجہ ہے اس ک و کس ی مل ک کے س اتھ اور بالخص وص ہندوس تان کے ح والے س ے انگری ز کے ساتھ وابستہ کرنا مکمل نا انصافی ہے کیوں کہ تہذیبوں کے اس ارتقائی سفر میں خود ہندوستان کا بھی اپن ا

( خالص ہندوستانی ایج اد ہے۔مغ رب کے0حصہ ہے مثلا دنیا کے حساب میں انقلاب لانے والا ہندسہ زیرو) مقابلے میں مشرق اور مسلمانوں کا علمی ورثہ کتنا مستحکم ،وسیع اور قدیم ہے اس حقیقت کامغرب بھیساس وقت علم کے می دان میں منک ر نہیں ہے۔ جب پ وری دنی ا جہ الت کی ت اریکیوں میں ڈوبی ہ وئی تھی بغداد،دمشق،قاہرہ،قیروان اور نیشاپور وغیرہ کا طوطا بول رہا تھا ۔ ہندوس تان میں مس لمانوں کی تعلیمی ت اریخنی حک ومت مغلیہ ظہیرال دین ب ابر کی ’’ت زک ب ابری اور پراگر عہدمغلیہ کے تناظر میں ب ات کی ج ائے ت و ب انسان کے رسم الخط ،خط بابر‘‘ اور ہمایون کی کتابوں سے دلچس پی کس ی س ے ڈھکی چھ پی نہیںکی وں کہ بارے میں تو مشہور ہے کہ اکثر جنگی مہمات میں بھی اپنے لائ بریرین ’’لالہ بی گ‘‘ اور قیم تی کت ابوں ک وسان ک ا ق ائم بھی ساتھ لے کر جاتے تھے۔شیر شاہ س وری کے بے مث ال فلاحی ک اموں کے علاوہ پٹی الہ میں ااکسفورڈس ے کردہ مدرسہ’’نارنول‘‘جو شیر شاہ سوری یونی ورسٹی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اپنے دور میں اائین اک بری،اک بر ن امہ ،علمی مراک ز ’’اگ رہ ‘اور ’لاہ ور‘‘ ک و بن انے کے کچھ کم نہ تھ ا۔اک بر کے دور میں ہہی بھی دراص ل جدی د تعلیمی س وچ ک ا ن تیجہ تھ ا۔ ’’ت زک جہ انگیری‘‘ اور ’’اقب ال علاوہ اک بر ک ا دین ال نامہ‘‘ شاہ جہان کے دور میںمدرس ہ ’’دارالبق ا‘‘ کی ن و تعم یری اور توس یعی حکمت عملی۔مدرس ہ حض رت شاہ ولی اللہ،وغیرہ کے علاوہ اورنگ زیب ک ا اس لامی وجدی د عل وم و فن ون س ے دلچس پی اور بے ش مار دانش گاہوںکا قیامعمل میں لانا ۔ ایسی مث الیں ہیں جن س ے بخ وبی ان دازہ ہوت ا ہے کہ مغ ل کت نے علم دوس ت اور

علم پرور لوگ تھے ۔حسین احمد مدنی اپنی کتاب میں حیات حافظ رحمت خان کا حوالہ دیتے ہو ئے لکھتے ہیں:

’’اس زم انہ میں کیفیت یہ تھی کہ والی ان مل ک اور ام راء تعلیم کی پ وری سرپرس تی ک رتے تھے۔اس کے ل یے جاگیریں دی تے تھے اور جائی دادیں وق ف ک رتے تھے ۔دہلی کی مرک زی حک ومت ٹ وٹ ج انے پ ر بھی ص رف اضلاع روہیل کھنڈ میں پانچ ہزار علماء مختلف مدارس میں درس وتدریس دیتے تھے اور حافظ رحمت خان

(۲۴)مرحوم (کی ریاست سے تنخواہ پاتے تھے۔‘‘)

Page 62: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

61

جب کہ ایس۔ایم جعفر لکھتے ہیں:ااغازہوتا ہے۔واقعہ یہ اامد سے مسلمانوں کی تعلیم کی تاریخ میں ایک نئے باب کا ’’ہندوستان میں مغلوں کی ہے کہ ہندوس تان میں مس لم عہ د حک ومت کی تم ام ت اریخ میں س لاطین دہلی کے ہ اتھوں تعلیم کی کبھیہل تیمور کے زم انہ میں ہ وئی جس ک ا ہ ر ف رد تعلیم ک ا زبردس ت علم اا باقاعدہ سرپرستی نہیں ہوئی جیسی کہ

(۲۵بردار رہا ہے۔‘‘)سان کے منٹس ک ا ح والہ اابادیاتی دور میں جدید تعلیم کے حوالے سے لارڈمیک الے اور ہندوستان کے نواام ادہ تھیں،پہلی دینا بھی ضروری ہے تا کہ پتہ چلے کہ استعماری قوتیں یہاں کس قسم کی تعلیم دی نے پ ر

میں کمپنی کے چارٹر میں نئے شق کا اض افہ ہ وا اور کمپ نی ک و پابن د بنای ا۱۸۱۳بات تو یہ ہے کہ جب گیا کہ وہ ایک لاکھ س الانہ ہندوس تانیوں کی تعلیم پ ر خ رچ ک رے ح الانکہ اگلے دس س ال ت ک یہ مختصرقم خرچ نہ ہو سکی ۔البتہ کمپنی نے اپ نے مقبوض ہ علاق وں میں تعلیمی نظ ام اپ نے ہ اتھ میں ض رور لے لی ا۔

سان کے س ربراہی میں۱۸۳۴جب ء میں لارڈ میک الے حک ومت برط انیہ کی ط رف س ے م دراس پہنچے ت و تعلیمی کمیٹی کو سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ نظام تعلیم کے لیے نصاب اور زبان کونسی چاہیے؟:

"I have no knowledge of either Sanscrit or Arabic. But I have done what I could to form a correct estimate of their value. I have read translations of the most celebrated Arabic and Sanscrit works. I have conversed, both here and at home, with men distinguished by their proficiency in the Eastern tongues.I am quite ready to take the oriental learning at the valuation of the orientalists themselves. I have never found one among them who could deny that a single shelf of a good European library was worth the whole native literature of India

and Arabia."(26)

Page 63: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

62

میکالے کسی صورت میںبھی اس بات کے لیے تی ار نہیں تھے کہ ہندوس تان میں تعلیم مق امی زب انساس نے گورنمنٹ پر زور ڈالا کہ وہ ہندوستان میں صرف اور صرف انگریزی ط رز تعلیم پ ر خ رچ ک رے میں ہو۔

جس سے استعمار کی لسانی،ثقافتی پالیسی کااظہار بھی ہو جاتا ہے۔اابادیاتی حک ومت نے ب ڑا ظلم یہ کی ا کہ موج ودہ لسانی پالیسی کے تحت تعلیم کے حوالے سے نو سان کے سان کے کس ی ک ام کی نہیں تھی،البتہ تعلیمی ڈھ انچے ک و یکس ر مس ترد ک ر دی اکیوں کہ وہ تعلیم سان کے دوغلے نظ ام تعلیم نے معاش رے میں طبق اتی نظ ام ک و اور بھی پالیس یوں کے ل یے خط رہ ض رور تھی۔ مستحکم کیا ۔ اس دوغلے نظام کومقامی لوگوں نے ’’مذہبی‘‘ اور ’’عصری‘‘ علوم ک ا ن ام دے دی ا۔عص ریاازادی کے بع د بھی’’ اردو می ڈیم‘‘ اور’’ انگلش می ڈیم‘‘ ی ا تعلیم ک و ن و اس تعماری پالیس ی کے تحت اازادی کے بع دبھی برص غیر میں طبق اتی سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کی شکل میں برقراررکھ ا گی ا جس نے ہم تعلیم کے ساونچ نیچ کومزید پختہ کردیا ہے۔شبیر بخاری برصغیر میںمیکالے کے وضع کردہ نظا کشمکش اور

بارے میں لکھتے ہیں: ’’اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ انگریزی نظام تعلیم ایک نئی ہندوستانی اشرافیہ پی دا ک رنے کی

(۲۷غرض سے رائج کیا گیاجو باہر سے ہندوستانی مگر اندر سے انگریز ہو۔‘‘) ان تاریخی حقیقتوں کے علاوہ ہندوستانیوں کو جدید تعلیم سے روشناس ک رانے وال وں ک اپول تقس یمساس وقت کت نے فیص د ل وگ تعلیم کے بعد تعلیمی شرح کو جاننے کے بع د بھی بخ وبی کھ ل جات ا ہے کہ یافتہ تھے ؟۔ تعلیم کے میدان میں انگریزوں کا بڑا کارنامہ پرنٹین گ پ ریس اور ف ورٹ ولیم ک الج ک ا قی ام ض رور تھا لیکن یہ حقیقت بھی مس لم ہے کہ اس ا دارے کے قی ام ک ا مقص د کمپ نی کے ملازمین ک و ہندوس تانیسان کی ساس وقت ت ک حک ومت نہیں کی جاس کتی جب ت ک زب ان س کھانا تھ ا۔کی وں کہ کس ی ق وم پ ر زبان،تہذیب اور مذہب سے واقفیت حاصل نہ کی جائے۔ فورٹ ولیم کالج میں کیے گئے ت راجم ،تالیف ات وسپش ت اس تعماری پالیس ی کے وہ بنی ادی عناص ر ض رور موج ود تھے جس میں تہ ذیبی تخلیق ات کے پس

بالادستی،زبان کی بالادستی اور مذہبی بالادستی جیسے مقاصد سرفہرست تھے۔ فورٹ ولیم کالج کے منشیوں نے انگریزوں کے ایما پ ر ہندوس تانیوں کی اص ل ت اریخ مس خ ک رڈالی۔ انہوں نے اپ نی تحری روں میں انگری زوں کودنی ا کی مہ ذب ت رین ق وم ث ا بت ک رنے کی کوش ش کی ۔ ان کے

Page 64: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

63

ااکر اامد سے پہلے یہاں کے باشندے حیوانوں کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔ انگریز نے مطابق انگریزوں کی سان کو مہذب بنایا جب کہ انگریز سرکار کی زبان کو تمام زبانوں پر برتری حاصل ہے جب کہ گ ورا ص احبسان کی پالیسی پر تنقید کرتے ہ وئے مولان ا کا مذہب بھی برتر اور بالاتر ہے۔ ہندوستان میں انگریز حکومت اور @@ا یعنی دریا کو کو زے میں بند کرتے ہوئے اس تعماری س وچ اورنظ ریے ک و کچھ ی وں اازاد نے مختصر ابوالکلام

بیان کیا ہے: ’’ملک کہ اک خاص زرعی ملک تھ ا۔اس کے کاش تکارتباہ و برب اد ہ و رہے تھے۔مل ک کی دولت انگلس تانہمن @ھل کے مع دے میں بھ ری ج ارہی تھی اور اس ط رح ہض م ہ و ج اتی تھی کہ چن د لمح وں کے بع د }ہزید{کا نعرہ سنائی دیتا تھا۔ریل وے کی ت و س یع کے ل یے انگلس تان ک و ٹھیکے دیے ج ا رہے تھے ت ا کہ وہ ماابپاشی کے لیے روپیہ نہ تھا کہ ہندوستان کی زمین اپنی دولت اگلے۔زب ان س ے اق رار دولت جذب کر لے۔مگر کیا جاتا تھا کہ وفادار ہو،مگر اسلحہ چھونے کی اجازت نہ تھی کہ تم غ دار ہ و،مل ک کی تم ام دولت س تر ہزار سرخ رنگ سپاہیوں کو س ونا اور چان دی کھلا ک ر لٹ ائی ج ارہی تھی۔مگ ر ملت ا ت و محص ول دے ک ر،اورہم حکومت اپ نے ہ اتھ میں لی تے ہ وئے محبت کے لہجہ میں وع دہ تعلیم بھی ملتی تو گھر بار بیچ کر۔پھر زما کیا گیا کہ تمیز رنگ و زبان اور امتیاز حاکم و محکوم کا یہاں سوال نہیں اور ج و راہ اپ نے ل ئے ب از ہے،وہیاامد کی منتظر لیکن جب پائوں اٹھے اور ہاتھوں نے حرکت کی تو تمام دروازے بند تھے اور امتی از سب کی

سپتلا مخمور۔‘‘) (۲۸حاکم و محکوم کے نشے سے ہر انگلستان کی مٹی کا اانے ابتداء میں مذہبی حوالے سے انگلستان کی پالیسی مختل ف رہی۔ ش روع میں پ ادریوں ک و یہ اں کی اج ازت نہ تھی جس کی واض ح وجہ یہ تھی کہ ہندوس تانی چ اہے ہن دو ،س کھ تھے ی ا مس لمان س بھی مذہبی حوالے سے اپنے عقیدہ پر سختی سے کاربند تھے اور مذہب کی خ اطر ج ان دی نے کے ل یے بھی ہمہہہذا ابتدا میںسامراجی قوتوں نے مذہبی اختلافات سے دور رہ نے میں ع افیت ج انی لیکن وقت تیار رہتے تھے لاابادیاتی حکومت یہاں مستحکم ہو گئی تو مذہبی وثقافتی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے کمپ نی نے جب نو

ء میں عیسائی مشنریوں اور پادریوں کو ہندوستان میں عیس ائیت کی پرچ ار کی اج ازت دی۔یہ اں پ ر۱۸۱۳ مشنری سکول اور کالج کھولے گئے ،پادریوں نے مقامی زبانیں سیکھ کر من اظرے ش روع ک یے اور عیس ائیت

Page 65: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

64

ہی اور برترجب کہ باقی مذاہب کو کم تر ثابت کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ اس حوالے سے سرسید کواعلاحمد خان کا رسالہ’’ اسباب بغاوت ہند ‘‘ اور ’’مقالات سرسید‘‘بنیادی اہمیت رکھتے ہیں:

’’پادری صاحبوں کو ہندوستان میں مقرر کیا ہے۔گورنمنٹ سے پادری صاحب تنخواہ لیتے ہیں۔جو اس ملک میں نوکر ہے پادری صاحبوں کو بہت سا روپیہ واس طے خ رچ کے اور کت ابیں ب اٹنے ک و دی تے ہیں اور ہ ر ط رحہن ف وج نے اپ نے ت ابعین س ے م ذہب کی گفتگ و ش روع کے ان کے مددگار و معان ہیں۔اکثر حکام اور افس رااان ک ر پ ادری ص احب ک ا کی تھی۔بعضے صاحب اپنے ملازموں کو حکم دی تے تھے کہ ہم اری ک وٹھی پ ر سسنو اور ایسا ہی ہوتا تھا۔غرض کہ اس ب ات نے اس ی ت رقی پک ڑی تھی کہ ک وئی ش خص یہ نہیں جانت ا وعظ

( ۲۹تھا کہ گورنمنٹ کی عملداری میں ہمارا یا ہماری اولاد کا مذہب قائم رہے گا۔)ایک اورجگہ پر سرسید لکھتے ہیں:

’’پادری صاحب وعظ میں صرف انجیل مق دس ہی کے بی ان پ ر اکتف ا نہیںک رتے تھے بلکہ غ یر م ذاہب کے(۳۰‘‘) مقدس لوگوں کو اور مقدس مقاموں کو بہت برائی اور ہتک سے یاد کرتے تھے۔

عیسائیتکی پرچار،تبلیغ اورمن اظروں کے ب اوجود عیس ائی مش نری ک و ناک امی ک ا س امنا کرن اپڑا لیکن چند مجبور اور کمزور عقیدے کے پیروکاروں کو انہوں نے اپنا ہم نوا بنا لی ا۔ ان کی اس ناک امی کے پیچھے ہندوستانی علماء اور بالخصوص دیوبندکے مکتبہ فکر ک ا خصوص ی ہ اتھ تھ ا۔ دیوبن د مکتبہ فک ر کی ج انب سے ایک باقائدہ تحریک’’رد عیسائیت ‘‘ش روع کی گ ئی جس کے ک افی دورر س اث رات م رتب ہ وئے ۔ت اہم اس مذہبی پالیسی کے ذریعے استعماری حکومت کو سیاسی اور مذہبی بنی ادوں پردیس ی ع وام ک و ’’لڑائ و اور

@@ا ء ایکٹ کے تحت بی وہ ع ورت ک و۱۸۵۶حک ومت ک رو‘‘ کی بنی اد پ ر تقس یم ک رنے ک ا موق ع ملا۔ مثل دوسری نکاح کی اجازت مل گئی جس پر ہندو مذہب والوں نے واویلا مچای ا،م ذہب کی تب دیلی پ ر جائی داد کا حق برقرار رکھا گیا حالانکہ اس س ے پہلے جائی داد س ے دس تبردار ہون ا پڑت ا تھ ا۔مس لمانوں اور ہن دوں کے درمیان م ذہبی بنی ادوں پ ر اختلاف ات ک و ہ وا دی گ ئی۔ خ ود مس لمانوں میں ش یعہ،س نی،دیوبن دی،ب ریلی اورااپس میں ل ڑانے کی کوش ش کی گ ئی جب کہ اس کے س اتھ س اتھ ’’قادی انیت‘‘ کی خانق اہی ف رقے بن ا ک ر

شکل میں ’’تنسیخ جہاد‘‘ کا پرچار شروع کر دیا گیا۔

Page 66: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

65

اازادکے درجہ ب الا دلائ ل کے س اتھ سپل وں ک ا ح والہ ہے ت و اب والکلام جہاں تک ریل وے،س رنگوں ی ا ساتھ اس امرکو سمجھنے کے ل یے پہلے اس تعماری معاش ی پالیس ی کی مختل ف درجہ بن دیوں ک و س مجھنا ضروری ہے۔کیوں کہ انگریز وں نے ہندوستان کو ای ک من ڈی کے ط ور پ ر اس تعمال کرن ا تھ ا۔ اس ل یے پہلے سانھوں نے ہندوس تان کی ص نعت ک و برب اد کی ا بنگ ال کی ص نعتی انڈس ٹریاں تب اہ ک رکے ص نعت ک اری کے دروازے بند کر دیے۔اس کے علاوہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے خود پ ر عائ د ٹیکس مختل ف حیل وں بہ انوں س ے بادشاہ فرخ سیر سے معاف کرا دیاجس نے مقامی صنعت کاروں کو برباد کرکے رکھ دی ا۔ کی وں کہ وہ ل وگ

ء کے بع د۱۷۶۹ٹیکس دے کرسس تا م ال کیس ے بیچ س کتے تھے۔اس کی ای ک وجہ یہ بھی تھی کہ کمپنی کے عہدہ داروں کو برطانوی حکومت نے مطل ع کی ا کہ ہندوس تان کی مص نوعات ک و مزیدانگلس تان میں داخل نہ ہونے دیا جائے تا کہ خود انگلستان کے صنعت کو ت رقی دے ک ردائمی بنی ادوں پ ر اپ نے مل ک کو خود کفیل بنا یا جا سکے۔اس بہ انے مق امی اش یا ء پ ر بھ اری بھ رکم ٹیکس لگ ائے گ ئے اور انگلس تانیہہذا مقامی صنعت کاروں کو بے دست و پ ا ک ر اس اشیاء کو ارزاں کرکے ہندوستان بھیجنا شروع کر دیاگیا۔ل بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ کمپنی کے کارخانوں میں کام کرے۔دوسری طرف ہندوستان کے خ ام م ال کیااب اد پیداوار میں اضافے کے لیے منصوبہ بندی کی گئی تاکہ خام مال انگلستان بھیج کر وہاں کے کارخ انے سانہیں کم خرچ اور تیزتر کی جاسکے۔اسی طرح ملک کے مختلف حصوں سے خام مال لانے کے لیے خود ذرائع کی ضرورت پڑی جس کے نتیجے میں ٹنل،پل یا ریلوے لائن کا جال بچھانا پ ڑا۔اس کے س اتھ س اتھہہذا مواص لاتی نظ ام کی بہ تری کی ای ک اور بنی ادی وجہ افغانس تان جن گ، اور روس ک ا حملہ بھی تھ ا لاابپاش ی انگریزوںنے اپنے بچائو یا مقاص د کی تکمی ل کی خ اطر یہ تعم یری ک ام ک یے۔جہ اں ت ک زراعت اور سانھ وں نے اس سلس لے میں ک وئی پیش رفت نہیں کی لیکن بع د میں کے شعبے کا تعل ق ہے ت و ابت داء میں لگان اور مالیے کی وصولی کے ل یے نہ ریں کھ دوائی گ ئیں ت اکہ محص ولات کواتن ا بڑھای ا ج ائے کہ زمین داراابادیاتی سسٹم نے باقائدہ ایک پالیسی کی شکل اختی ار ساگانا شروع کردے اور جب نو سرکار کے لیے فصل اانکھ وں میں دھ ول کی تو اقتدار ک و دوام بخش نے کے ل یے یہ ب ات ن ا گزی ر ہوگ ئی تھی کہ ہندوس تانیوں کی

جھونکاجائے اور ان کو حکومت کا مطیع و فرمانبردار بنانے کے لییاس قسم کے ترقیاتی کام کیے جائیں۔ حکومت کے اس دوغلے کردار پر ڈاکٹر تارا چند نے لکھا ہے:

Page 67: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

66

ساس ے جنم دی ا تھ ا ’’برطانوی حکومت اپنے سامراجی کردار سے چھٹکارا نہ پا سکی۔س امراجی ض رورتوں نے سان مفادات کے تعلق سے تن گ نظ ری س ے ک ام لی ا ساس کی پالیسیوں کی رہنمائی کرنی تھیں۔ابتداء میں اور گیا اور فوری فوائد کی خاطر مفتح ملک کا استحصال کیا گیا۔خاص طور پر بنگ ال کی دی وانی کی منتقلی کے بعد کی دہائیوں میں جلد ہی یہ محسوس کیا گیا کہ اس قسم کی تنگ نظری خود حکمرانوں کے ل یے غیر مفید ہے۔سامراج کے دائمی مفادات اس کے متقاضی تھے کہ انتظامیہ کا ایک منظم اور کار گزار نظ ام ق ائم کی ا ج ائے۔امن ک و ق ائم وبرق رار رکھ ا ج ائے مل ک کے مس ائل ک و اس ط ر ح ت رقی دی ج ائے کہ وہ انگلستان کی معاشی ضرورتوں کو پورا کر سکے اور ایسی تعلیمی سہولتیں مہیا کی ج ائیں کہ کم س ے کم لوگوں کا ایک حصہ بدیسی حکمرانوں کے طریق وں ک و س مجھ س کے اور حک ومت کے ک اموں میں ان ک ا ہاتھ بٹا سکے۔راج کا اخلاقی جواز اور محکوموں کی رضامندی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ تھا ایک روشن

(۳۱خیال حکومت کا قیام۔‘‘) زرعی شعبے میں انگریزوں نے تھ وڑے بہت اص لاحات ض رور ک یے۔ ہندوس تانیوں ک وزرعی زمین کےہر حکومت میں اس کا کو ئی باقائدہ ط ریقہ ک ار اابادیاتی حکومت نے دیے جب کہ مغل دو مالکانہ حقوق نوساس دور میں زمین کی ک وئی موجود نہیں تھا۔لیکن اس حوالے س ے یہ ب ات بھی ذہن میں رکھ نی چ اہیے کہ خ اص ق در و قیمت نہیں تھی اص ل چ یز وہ اف رادی ق وت تھی ج و زمین میں ہ ل چلاتے ،کاش تساس ے ک اٹنے کے ل یے درک ار ہ وتی تھی۔اس پ ورے عم ل کے ل یے اابپاشی کرتے اورفصل کی تی اری پ ر کرتے ، زمیندار ذمہ دار تھا ۔جب کہ کسان پر جو لگان،مالیہ ،ٹیکس واجب الادا ہوتاتھا وہ فص ل کے حس اب س ےہہذا اگر فصل اچھی ہوتی تو کسان،زمیندار اور حکومت سب کو فائدہ ہوتا ہوتا نہ کہ زمین کے حساب سے لہت دیگر نقصان بھی برابر کا ہ و ت ا تھ ا۔اس کے ب رعکس انگری ز ی دور حک ومت میں زمین کے ح والے بصور سے یہ قانون بنایاگیا کہ چاہیے فصل اچھی ہو یا بری زمیندار کو لگ ان کی ص ورت میں ای ک مخص وص رقماابادیاتی دور حکومت نے کسان ک و زمین س ے بے دخ ل ک ر دی ا اور زمین زمین داروں ضرور ادا کرنی گی۔۔نو اازاد ہوا مگر اقتصادی طور پر پائی پ ائی ک ا کی ملکیت قرار دے دی گئی اب کسان جسمانی کرب سے تو محتاج ہو گیا۔مغل دور حکومت میں مالیہ یا ٹیکس سرکاری خزانے میں جمع ہوتا تھا ۔اس ک ا ط ریقہ ک ار یہ تھا کہ زمین کا ایک خاص حصہ منصب دار جس کو جاگیردار یا زمیندار بھی کہا جاتا تھ ا ک و س ونپ دی ا

Page 68: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

67

جاتا اس زمین کو خالصہ کی زمین سے یاد کیا جاتا تھا ۔ وہ منصب دار یا زمیندار اپنے تجویز ک ردہ خالص ہ سے مالیہ وصول کرتا جو کہ نقدی اور فصل دونوں صورتوں میں ہو ا کرتی تھی اور سرکاری خزانے میں جم ع کرا دیتا البتہ منصب دار کو تنخواہ کی شکل میں کچھ حصہ اپنے پاس رکھنے کی اجازت ضرور تھی۔ایکسان ک ا تب ادلہ ہوجات ا تھ ا ۔مغل وں کی منصب دار ایک خالصہ کے لیے تین یا چار سال تک منتخب ہوت ا پھ ر بربادی میں ایک عنصر یہ بھی تھا کہ نااہل بادشاہوں نے منص ب داروں س ے رابطہ کم ک ر دی ا دوس ری ط رفہی عہ دے داروں ک وتحفے تح ائف پیش ک رتے اور خوش امدی حیلے بہ انوں س ے متعلقہ م الیہ منص ب دار اعلہہذا یہی منصب دار دولت من د سرکاری خزانے میں جمع کرنے کی بجائے اپنی جیب میں ڈال لیتے تھے ۔ لاابادی اتی دور حک ومت میں ص رف بنگ ال س ے ہو کر خودمختاری کا اعلان کر دی تے تھے۔دوس ری ط رف ن و

سان کا سرسری تجزیہ رومیش دت نے کچھ یوںپیش کیا ہے: مالیہ کے باب میں جتنی رقم وصول کی گئی ’’ کے بع د جب ایس ٹ ان ڈیا کمپ نی نے خ ود بنگ ال کی ’’دی وانی ‘‘کے اختی ارات حاص ل ک ر۱۷۶۵

لیے)جو بظاہر دہلی حکمران ہی کے ماتحت رہتے ہوئے کمپنی نے حاصل کئے تھے( تو زمین پ ر عائ د ک یے ء کے دوران ج و کہ ہندوس تان۱۷۶۴- ۵ج انے والے م الیے کی ش رح میں نمای اں اض افہ ہ وا۔بنگ ال میں

ااخری سال تھا اس دوران وص ول ک یے ج انے والے ک ل م الیے ک ا م یزان ۸۱۷۰۰۰حکمران کے عہد کا پائونڈ سٹرلنگ تھا۔لیکن جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی انتظامیہ نے بنگال پربراہ راس ت اپن ا تس لط ق ائم کرلی ا

-۲ پائونڈ بطور م الیہ وص ول کی ا ج و کہ ۱۴۷۰۰۰۰ء میں وہاں سے ۱۷۶۵-۶تو پہلے ہی سال یعنی پائون ڈ س ٹرلنگ ت ک ج ا۲۸۱۸۰۰۰ ت ک ۱۷۷۵-۶ پائون ڈ اور ۲۳۴۱۰۰۰ء تک بڑھ ک ر ۱۷۷۱

ء میں لارڈ ک ارنوالس نے دوامی بندوبس ت کے تحت س الانہ م الیے کی ش رح ک و۱۷۸۳پہنچ ا ۔جب کہ پائون ڈ کی خط یر رقم۳۴۰۰۰۰۰مس تقل بنی ادوں پ ر متعین کردی ا ت و بنگ ال کے کاش تکاروں ک و س الانہ

(۳۲حکومتی خزانے میں جمع کرانی ہوتی تھی۔‘‘) سالانہ حساب سے کتنا ہندوستانی پیسہ انگلینڈ منتقل ہو کر وہاں کے بینکوں میں جمع ہوتا رہا اساابادی اتی افس روںکی ک ا مکم ل حس اب ت و ن اممکن ہے ت اہم مختل ف محققین کی تحقی ق ج و ن و ساس س ے اس رقم ک ا تخمینہ ڈائری وں،یاداش ت ، نگارش ات اور رپورٹ وں ک و م دنظر رکھ ک ر م رتب کی گ ئی

Page 69: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

68

کسی حد تک لگایا جاسکتا ہے۔ ان تحقیقاتی رپورٹوںمیں سے ایک رپورٹ کا حوالہ حسین احمد م دنی نےاارٹیکل سے اخذ کیا ہے :۱۸۸۲ ء میں فورٹ نائٹ لی ریویو میں مسٹر اے،جی ولسن کے شائع شدہ

’’ اس بدقس مت مل ک )ہندوس تان (س ے ہ ر س ال پ ورے تین ک روڑ پون ڈ)پینت الیس ک روڑ روپیہ‘‘ہم مختل ف ضرورتوں سے کھینچ لیتے ہیں۔وہاں کے باشندے کی اوسط کمائی پ انچ پون ڈ س الانہ ہے بعض ک ا اس س ےاامدنی ہم ارے بھی کم ہے مگر زیادہ کہیں نہ ہوگی۔اس حساب سے ساٹھ لاکھ سے زیادہ کمائی والوں کی

(۳۳خراج میں چلی جاتی ہے۔‘‘)اابادی اتی عہ دہر ح والے س ے ظلم،ج بر اور برب ریت ک ا دور تھ ا جس میںاس تعماری ق وتیں اگ رچہ نو ہندوس تانیوںکی بیخ ک نی پ ر تلی ہ وئی تھیں۔انگری زوں نے برص غیر کے ای ک بہ ترین نظ ام ک و برب اد ک ر ڈالا اوراستعماری پالیسیوں کے تحت ہندوستان کی معیشت کو دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچا دیا ۔ لیکن ان تمامااج بھی کسی کھیت میں کام ک رنے والا بوڑھ ا کس ان ج و خ ود س امراجی دور ک ا عی نی حقائق کے باوجود ااج کے پ ڑھے لکھے نوج وان بھی موج ودہ ح الات ساس عہد کو زی ادہ بہ تر ق رار دیت ا ہے ۔ جب کہ شاہد ہے ہش نظر یہی واویلا کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ کوئی ملک ہے؟یہ کوئی نظام ہے؟ملک ایسا ہوت ا ہے؟ کے پیااج کے دور میں اٹھ نے والے یہ س والات اس ب ات کی نش اندہی نہیں کونسا قانون؟انصاف اور پاکستان؟ کی ا ااج کے دور سے کہیں بہتر تھا۔لیکن ایسے س والات اٹھ انے والے ل وگ اازادی سے پہلے کا برصغیر کرتے کہ اازادی کے بعد ہم ایک بہتر خود مختار اور غیرجانبدارانہ جمہوری نظام رائج یہ بات فراموش کر جاتے ہیں کہ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئے ۔نیا ملک تو بن گیا لیکن بنتے ہی سامراج کا مرتب کی ا گی ا ج اگیردارنہ نظام یہاںکی سیاست میں مزید قوی اور مضبوط ہوت ا چلاگی ا۔ع وام ج اگیردار اور س رمایہ دارانہ نظ ام کے اس یرااج بھی انگریزی دور کا مراعات یافتہ طبقہ برصغیر کی سیاست میں کلیدی کردار ادا ک ر رہ ا ہے ہوکررہ گئے۔اابادی اتی جس س ے ث ابت ہوت ا ہے کہ دراص ل موج ودہ دور کے زی ادہ ت ر مس ائل کے پیچھے بھی اس ی نواازادی کے بعد بھی پورے سسٹم کو اپ نے ش کنجے میں مض بوطی س ے استعماری نظام کا ہاتھ ہے جس نے اابادی اتی ط اقتوں س ے مص لحانہ رویے اختی ار ک رنے کی وجہ جکڑ رکھا ہے۔ڈاکٹر مب ارک علی کے مط ابق ن و اابادی اتی اازادی حاصل کی گئی تو یہاں مسائل کے انبار لگ گئے۔حکم ران ان مس ائل کاح ل ن و سے جب ڈھ انچے میں ڈھون ڈنے لگے جس ک ا ن تیجہ یہ نکلا کہ مل ک کے سیاس ی،معاش ی اور معاش رتی اداروں ک و

Page 70: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

69

انہیں خدوخال میں ڈالا گیا جو سامراج چھوڑ گیا تھا۔باالف اظ دیگ ر ف وجی اور س ول ن وکر ش اہی کے اداروںاابادیاتی ڈھ انچے ک و س امنے رکھ تش کیل دی گ ئی جس کے نت ائج حوص لہ اف زاں نہیں تھے۔ کی تشکیل نو ہندوستان کو پاکستانی کی سلامتی کے لیے خطرہ تصورکیا گیاجس کا منفی پہلو یہ نکلا کہ دفاعی پالیسیااج تک پاکستان کے اہم فیصلے بیرو نی قوت وں کے منش اء میں بیرونی قوتوں پر انحصار بڑھ گیا، نتیجے میں

اابادیاتی نظام کے اث رات نے خطے کی ب دامنی اور انتش ار میں اہم(۳۴سے ہوتے ہیں۔) اازادی کے بعد پس نوکردار ادا کیاہے۔اس سلسلے میںڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:

اازادی کے ’’انگریز حکومت کی اہمیت،اس کی برکتیں ،اور اس کی خوبیاں اس لئے اج اگر ہ وئیں کی وں کہ بعد ہماری حکومتوں نے اپنی پالیس یوں س ے معاش رہ ک و اور پس مان دہ بنای ا ۔اب جیس ے جیس ے ہم اری پس

(۳۵ماندگی بڑھے گی انگریز حکومت کی برکتیں ہم پر اور زیادہ واضح ہوتی چلی جائیں گی۔‘‘)اابادیاتی دور کی ترقی کو بہ یک جنبش قلم رد کرنا سراسر نا انصافی ہو گی۔اس میں ک وئی ش ک نواابادی اتی عہ د نے ہندوس تانی حک ومت کی جم ود کے لہ ر ک و ض رور ت وڑا ڈالا،جدی د تعلیم اور نہیں کہ ن و جدید ٹیکنالوجی کوہندوستانی قدامت پسند معاشرے میں متعارف کرایا۔ہندوستانیوں کو جمہوریت س ے ن وازا گی ا۔ زن دگی کے تم ام ش عبوں میں اص لاحات ہ وئے۔ ح الانکہ ان اص لاحات کے پیچھے ای ک مخص وصاابادی کو بھی پہنچت ا رہ ا۔ایس ی استعماری سوچ اور مفاد ات کارفرما رہے لیکن بلواسطہ اس کا فائدہ مقامی ک ئی مث الیں دی جاس کتی ہیں جس ک ابراہ راس ت تعل ق ہندوس تان کے مف اد ات س ے نہیں تھ ا لیکن بلا@@ا فورٹ ولیم کالج سامراجی مفادات کے تحت بنایا گیا تا کہ کمپ نی کے راست فائدہ ہندوستانیوں کو ہوا مثلااگاہی حاصل کرس کے لیکن اس کے ملازمین کالج میں ہندوستانی زبانیں سیکھے اور یہاں کی تہذیب سے سانھ وں نے اپ نے مف اد مثبت اثرات اردو زبان وادب پر بھی مرتب ہوئے ۔سڑکیں ، سرنگ،پل اورریلوے کا نظ ام ااج بھی برصغیر کے باشندے اس مواصلاتی نظام کے ثمرات سے مس تفید ات کے پیش نظر بہتر بنایا لیکن اابادی اتی دور ک و س امراجی پالیس یوں کی روش نی میں ای ک ک ل کی ہ و رہے ہیں۔حاص ل کلام یہ ہے کہ ن و

حیثیت سے غیر جابندانہ انداز میں پرکھ کر سمجھنا ہوگا۔)ج(

اردو شاعری میں مغربی استعمار کے خلاف مزاحمت کی روایت:

Page 71: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

70

ہد حیات ہے جو اپنے دور کے عصری تقاضوں کی عکاس ی کرت ا ہے ش اعری اس کی روح ادب تنقیہز اول سے توانااور تروتازہ رکھتی ہے۔شاعری کے بغ یر ادب ک ا وج ود مکم ل نہیں ہ و س کتا۔ ہاسے رو ہے جو ہت گوی ائی کے شاعری خ دا کی خ اص عن ایت ہے ج و کہ خ اص بن دوں پ ر کی ج اتی ہے۔اب جس ک و ق وسان ک ا یہ بھی ف رض بنت ا ہے کہ ح ق ک ا س اتھ دے اورظلم کے ساتھ ساتھ یہ اضافی قوت عطا کی گ ئی ہ و ساٹھا ئے۔اردو ادب کے تخلیق کاروں نے اس فرض کو ایمانداری کے ساتھ خوب نبھای ا ہے۔ ح ق ااواز خلاف ااور،اندرونی خلفشار ہو یا ب یرونی م داخلت، دوس ت وباطل کے میدان میں مقامی حکمران ہو یا بیرونی حملہ و دشمن کی پرواہ کیے بغیر ان کا قلم تلوار کی طرح برابر چلتا رہا۔ ادوار،اصناف و پیرائے مختلف ہونے کیسبرائی ک و وجہ س ے ہرای ک ک ا ان دازمختلف ض رور رہ الیکن ان ک ا پ ائے اس تقامت م تزلزل ہرگ ز نہیں ہ وا۔ روکنا ،ظالم کی مخالفت اورحق کا ساتھ دینا،دنیا کے تمام مذاہب و تہذیبوں ک ا بنی ادی عنص ر ہے۔ ایس ےسچپ رہنا ایمان کا کم ترین درجہ کہلاتاہے جب کہ مخالفت یا مزاحمت مردانگی اورانسانیت کی موقعوں پر

خوبی تصور کی جاتی ہے۔مزاحمت عربی زبان کا لفظ ہے جوروک،ٹوک،رکاوٹ،تعریض اورممانعتکے معن وں میں مس تعمل ہے۔

ااغا ظفر حسین لکھتے ہیں: اس کی تعریف کرتے ہو ئے ڈاکٹر ہنی حریف سے ٹکرانے یا مدافعت ’’مزاحمت عربی زبان کے لفظ’زحمہ‘سے مشتق ہے اور جس کے لغوی مع

ہے،جس س ے م راد وہ ط رز عم ل ہے ج وresistanceکرنے کے ہیں۔انگری زی میں اس ک ا متب ادل کسی نامواقف صورت حال یا حرکت و عمل کو ناکارہ بنانے ی ا ان کے ت وڑنے کے ط ور پ ر اختی ار کی ا جات ا

(۳۶ہے۔‘‘)ای ک ناج ائز اور ناپس ندیدہ عم ل کے مخ الفت کی ک ئی ص ورتیں بن تی ہیں۔@@انف رت،انک ار،م ذمت،احتج اج ، بغ اوت اور انقلاب۔ ان س ب ک ا بنی ادی منب ع ای ک ہی ہے یع نی مثلسابھ ر ک ر ناجائز ،غیر انسانی یا غیر اخلاقی عم ل کے خلاف ردعم ل ۔ایس ے ح الات میں ابت داء میں نف رت ااتی ہے جب ایک شخص پر ایک ناپسندیدہ یا ناجائز عمل زبردس تی س ے مس لط کی ا جات ا ہے ت و وہ سامنے ساس ن اروا عم ل ک و روک بھی ساس وقت صاف انکار کر تا ہے۔اگر وہ شخص ط اقت ور ہ و ت و م ذمت ک رکے ااواز بلن د کی جاس کتی ہے۔علام تی بائیک اٹ کی ا ہت دیگراحتج اج کی ص ورت میں بھی س کتا ہے بص ور

Page 72: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

71

سپرامن یا پ ر تش دد احتج اج @@ا جاسکتا ہے یا پھرجلوس نکالے جاسکتے ہیں۔احتجاج کی کئی قسمیں ہیں مثل اوربغاوت ۔ کسی بھی احتجاجی عمل میں مکمل طور مروجہ اقدار،قوانین یا ناموافق پالیس ی ک و کس ی بھی صورت میں ماننے سے انکار کرکے مدافعانہ طور پرکار روائی کرنے ک ا لائحہ عم ل اختی ار کی ا جات اہے۔ جبساس شکل کو کہا جاتا ہے جب باغیوں کے پاس ایک متبادل راستہ،ق انون،پالیس ی ی ا کہ انقلاب بغاوت کی لائحہ عمل موجود ہو جس کے ذریعہ وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامی اب ہوس کے۔ایس ی کوشش یں اگ ر شعوری طور پرایک خاص نصب العین ی ا ای ک س وچے س مجھے منص وبے کے تحت کی ج ائیں ت و تحری ک

بھی کہلائی جاتی ہے۔@@ا م ذہبی ح والے س ے م زاحمت کی مختل ف ص ورتوں کی ط رح مختل ف قس میں بھی ہیں ۔مثل ریاکاری،انتہاپسندی یا مذہب دشمنی کے خلاف مزاحمت،سیاس ی م زاحمت،معاش ی و اقتص ادی ج بر کے خلاف مزاحمت،ن اقص سس ٹم اور حکمت عملی کے خلاف م زاحمت وغ یرہ۔اب س وال یہ پی دا ہوت ا ہے کہ ادب میں مزاحمت سے کیا مراد ہے؟مذکورہ بالا مزاحمتوں کو موضوع بنا کر قلم سے تلوار کا ک ام لین ا ادبی

مزاحمت کہلاتا ہے۔اس حوالے سے اشفاق احمد لکھتے ہیں: ’’ادب کی اصطلاح میں کسی بھی غیر انسانی رویے کو الفاظ کے ذریعے روکنے کی کوشش کو مزاحمت

(۳۷کا نام دیا جاتا ہے۔‘‘)ہی اادم سے ہی مزاحمت کا سلسلہ شروع ہوا جب اللہ تعال ہق مزاحمت کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔تخلیااغ از ہاس ک ا اادم کے بعد فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور شیطان نے انکار کی ا تب س ے نے تخلیق ساس دنی ا کے ہ و ت ا ہے۔س یکولر س وچ کے مط ابق ش یطان ک ا انکارانس انی روی وں کے عین مط ابق تھ ا لیکن مکینوں کے رویوںک ا اطلاق موج ودہ دنی ا کے انس انوں پ ر نہیں ہوس کتا۔انس انی خواہش ات کی تکمی ل م ادی دنی امیں ممکن نہیں ہے لیکن پھ ر بھی ہ ر ریاس ت ،مل ک،معاش رے میں انس ان ک و کچھ بنی ادی حق وق حاصل ہوتے ہیں ۔جب انسان س ے یہی پیدائش ی حق وق چھین ل یے ج اتے ہیں ی ا چھین نے کی کوش ش کیہت برداش ت پ رہے کہ وہ کس ح د جاتی ہے تو م زاحمت جنم لی تی ہے۔اس ک ا انحص ار ف رد کی ذات اور ق و

تک ان اقدامات کو برداشت کر سکتا ہے اور کس حد تک مزاحمتی رویہ اختیار کر سکتاہے۔

Page 73: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

72

دیگر زبانوں کی طرح اردو ادب و شاعری میں بھی مزاحمت کی روایت بہت پرانی ہے۔ام یر خس رو سے لے کر جدید دورکے ہر شاعر کے ہاں ایسے اشعار ضرور ملتے ہیں جس میں کسی نہ کسی حوالے س ےااغ از کی مزاحمت کا سراغ ملتا ہے۔جہاں تک اردو شاعری میں مغ ربی اس تعمار کے خلاف م زاحمت کے اابادی اتی دور بات ہے تو اس کے لیے کوئی باقاعدہ تاریخ مقرر کرنا ت و ن اممکن ہے کی وںکہ ہندوس تان میں ن و اامدسے ہوت ا ہے جنھ وں نے تج ارت میں جارح انہ ان داز اختی ار ک رکے ااغاز سولویںصدی میں پرتگیزیوں کی کا مقامی لوگوں کا استحصال ش روع کی ا، لیکن ش اعری میں مغ ربی اس تعمار کے خلاف م زاحمت کے واض ح

اازادی کے بع د مل تے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس س ے پہلے بھی ش عراء نے۱۸۵۷اشارے ء کی جن گ ااج کے ق اری اس موضوع پر لکھا ہو لیکن صنف غزل کے مزاج اور علامتی و استعاراتی ان داز کی وجہ س ے

سان علامتوں کے اصل نشانے تک پہنچنا مشکل ہے۔ کا ااسانی چار ب ڑے ادوار میں تقس یم کی ا ج ا س کتا ہے۔) ابت دا( ۱ استعماری طاقتوں کے عہد کو با

(۳ ء ت ک،ای ک ص دی،)۱۸۵۷ء س ے ۱۷۵۸(۲ء ت ک)جن گ پلاس ی (ڈی ڑھ ص دی)۱۷۵۷س ے ء ت ک۱۹۰۰ء س ے ۱۸۵۷ء تک،ن وے س ال،’’اس دور ک و مزی د دو ادوار یع نی ۱۹۴۷ء سے ۱۸۵۸

اازادی س ے لے۴۷(۴ء ت ک بھی تقس یم کی ا جاس کتا ہے۔‘‘) ۱۹۴۷ء س ے ۱۹۰۱اور کے بع د یع نی کرتا حال۔

ء ت ک( اس تعماری قوت وں ک ا عم ل دخ ل ش مالی ہن د اور س احلی۱۷۵۷ پہلے دورمیں)ابت دا س ے سان کی اس تعماری علاقوں تک محدود تھااور ان کے بارے میں کوئی خاص تاثر لوگوں کاابھی نہیں بناتھا۔نہ پالیسی ابھی واضح ہو ئی تھی۔عام شہری یا ش اعر اس سلس لے میں اگ ر س امراجی پالیس یوں کے اث رات ک و محسوس بھی کرلیتے تو اسے حکومت اور حکمران وں کے ن ااہلی کے کھ اتے میں ڈال دی تے تھے ۔یہی وجہااش وب،ہج و اور رزمیہ مثنوی وں میں تھی کہ بادشاہوں اور نوابوں سے ناراضگی اور گلے شکوے کا اظہ ار ش ہر کیا جاتا تھا۔ لیکن شاعری میں ابھی باقائدہ طور پر کسی شاعر نے سامراجی قوتوں کو نشانہ نہیں بنایا تھا۔

ی دک نی ) ء( ای ک ایس ے ش اعر ہیں جن کی ش اعری میں۱۷۰۷ء-۱۶۶۷اس دور میں دکن کے ولسانہ وں نے اپ نی غ زل میں پہلی م رتبہ ’’فرن گ‘‘ ک ا لف ظ استعمار کے حوالے سے کچھ اش ارے موج ود ہیں۔

استعمال کیا:

Page 74: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

73

ہر فرنگ کو دیا ہے کفاتجھ زلف نے درس کافری کا

(۳۸) ولی دکنی نے اپنی مثنوی ’’ در تعریف شہر سورت ‘‘ میں بھی انگریزوں کا ذک ر کی ا ہے۔گج راتاابادیاتی عمل دخل کی ت اریخ میں بنی ادی حی ثیت حاص ل ہے کے شہر’’سورت‘‘ اور اس کی بندر گاہ کونو ساترے ۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پر پہلے پرتگیزوں نے قبضہ کیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بحری جہاز بھی یہاں سرخ کیا۔ یہ علاقہ طوی ل عرص ے ت ک پرتگ یزوں کے قبض ے میں اادھ صدی بعد بمبئی کا جنھوں نے بعد میں سان ک و جہ یز میں ملا ۔ رہا۔جب چارلس دوم نے پرتگیزی ش ہزادی’’ کتھ رین‘‘ س ے ش ادی کی ت و یہ علاقہ اارا‘‘ ک و تحفے میں اامدنی اپنی چہیتی بیٹی ’’جہان شاجہان نے بھی ایک مخصوص عہد میں اس شہرکی

دی تھی۔ہے ’’سورت‘‘ حقیقت کی نشانی

ہل معانی کہ ہیں معمور واں اہشرافت میں وہ ہے جو باب مکہ

اور اس میں ہیں کئی ایسے ہی تجارکہ ناداں کا نہیں مطلق دہان بارااتش پرستوں کی ہو بستی ہاک اور

ااتش پرستی ہے نمرود خجل دگر ان میں فرنگی بے عدد ہیںکہ قول و فعل میں مکروہ بد ہیں

(۳۹)سان کے بیٹ وں میں خ انہ جنگی کے سلس لے۱۷۰۷ ء میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد

اانکھوں دیکھا حال جعفر زٹلی ) ء( کی شاعری میں موجود ہے۔انہیں یہ منف رد اع زاز۱۹۱۳ء-۱۶۵۸کا بھی حاصل ہے کہ مزاحمتی شاعری کی پاداش میں بادشاہ فرخ سیر نے موت کے گھاٹ ات ار دی ا تھ ا۔ای ک

Page 75: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

74

س ماجی حقیقت نگ ار کی حی ثیت س ے بادش اہوں کی ن ااہلی،ہندوس تان کے ن اگفتہ بہ ح الات وساس دور کے ہندوس تان کی ص حیح تص ویر کش ی کے واقعات،معاشی بدحالی،انتشار ،جنگ و جدل الغرض حوالے سے ’’زٹلی نامہ‘‘مزاحم تی ش اعری کی ای ک بہ ترین مث ال ہے لیکن ب راہ راس ت مغ ربی اس تعما ر کے

سان کے ہاں بھی واضح اشارے نہیں ملتے: خلاف ہن ہر جائی،پھریں در در بہ روائی ہنر مندا

اایا ہے اائی عجب یہ دور رذل قوموں کی بن ہنت اٹھ اٹھ چوکیا جاویں سپاہی حق نہیں پاویں ،اایا ہے قرض بنیوں سے لے کھاویں عجب یہ دور

(۴۰)ااب رو،ش اکر ن اجی،ج ان جان اں،ح اتم،انع ام اللہ یقین،ق ائم @@انجم ال دین اس دور کے ب اقی ش عرا مثل چاندپوری، تاباںاور اشرف علی فغاںسب کے ہاںمغل دور کی انحطاط کے ح والے س ے ت و بھ ر پ ور ان داز میں مزاحمت موجود ہے لیکن مغربی استعمار کے خلاف واضح انداز میں م زاحمت کے اش ارے نہیں مل تے۔اسساس دور میں عام مزاج غزل ک ا م روج تھ ا اور ع ام ط ور زی ادہ ت ر کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ ہہذا اگر کسی شاعر نے کچھ لکھا بھی ہے تو استعاراتی اور علام تی ان داز کی وجہ غزل لکھی جارہی تھی ل

ساس کے نشانے کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے۔ سے ء کے بع د انس ان دش من اور س ماج دش من عناص ر کے م ذموم ارادے۱۷۵۷دوس رے دور یع نی

سچکے تھے ۔اس دور میں سراج ال دولہ کی ش ہادت کے بع د رام ن رائن نے ’’غ زالہ تم ت و واق ف ہ و ااشکارا ہو ااغ از ک ر ااواز میں مغربی استعمار کے خلاف ادبی مزاحمت کا کہو مجنوں کے مرنے کی‘‘کہہ کر دردانگیز ڈالا۔ سیاسی سطح پرایسٹ انڈیا کمپنی تجارت سے حکومت کی طرف ق دم بڑھ انے لگی ا ور ب العموم اس دور میں مغ ربی اس تعمار کے ع زائم اور مقاصدواض ح ہ ونے لگے۔اس دور کے منتخب ش عرامیں م رزا رفی ع

ا ) ر )( ۱۷۸۱-۱۷۱۳محم د س ود ااب ادی )۱۸۱۰ء-۱۷۲۲م یر تقی م ی ااک بر ء-۱۷۳۵ء (،نظ یر ی )۱۸۳۰ ق)۱۸۴۴ء-۱۷۵۱ء(،غلام ہم دانی مص حف ء(،م ومن۱۸۵۴ء-۱۷۳۱ء(، خ واجہ اب راہیم ذو

ن،) ب )۱۸۵۱ء-۱۸۰۰خان موم ء( وغیرہ شامل ہیں۔۱۸۶۹ء-۱۷۹۷ء(اور مرازا غال

Page 76: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

75

سان کی رکی شاعری میں دہلی کی تباہی و بربادی کا ذکر بڑے واض ح ان داز میں موج ود ہے بلکہ میسانھ وں نے دہلی میں رونم ا ش اعری ت و مغ ل دور اور دہلی کے گلی کوچ وں کی مص وری س مجھی ج اتی ہے۔اانکھ وں س ے ہ ونے والے فس ادات،ان درونی و ب یرونی ط اقتوں کی س ینہ زوری اور قت ل و غ ارت گ ری ک و اپ نی رایک اوسط اورکمزور طبقے سے تعل ق رکھ نے والے ف رد تھے اور اس ی وجہ دیکھا اور شاعری میں بیان کیا ۔می سے وہ حالات کے گرم وسرد سے زیادہ متاثر دکھائی دیتے ہیں ۔ ساری عمر تنگ دس تی میں گ زار ی جسسان کا زندگی کا تجربہ بہت ہی تلخ رہا۔انہ وں نے ش اعری میں اگ ر چہ ب راہ راس ت اس تعمار ک و کی بدولت نشانہ نہیں بنایا لیکن ان کا کلام پڑھنے کے بعد دہلی کی ویرانی، تباہی و بربادی کے ذکر سے قاری کاذہن ر کے اس ش عر میں غ یر س ے یہ اں اور ک ون م راد لی ا @@ا م ی خود بخود اص ل مح رک پ ر مرک وز ہ و جات ا ہے۔ مثل

جاسکتا ہے: غیر نے ہم کو ذبح کیا نے طاقت ہے نے یارا ہےاس کتے نے کرکے دلیری صید حرم کو مارا ہے

(۴۱) م یرکی ش اعری میں موج ود اس تعاروں اورعلامت وںکے ذریعے فرنگی وں کے ج ال میں پھنس ے ہ وئےاائے ہ وئے ج انی دش من ہندوستانی باشندوں کو پرندوں کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔وہ تاجرکے بھیس میں سان کی ش اعری میں کے مق ابلے میں ہندوس تانیوں ک و کم زور س مجھتے ہیں ۔ ح الانکہ واض ح الف اظ میں سامراج کے خلاف مزاحمت موجود نہیں ہے لیکن ان کے دل میں ایسی تمام قوت وں کے خلاف م زاحمت

کی خواہش ضرور موجود ہے۔:

کوئی تجھ سا بھی کاش تجھ کو ملےمدعا ہم کو انتقام سے ہے

(۲۴)

شکوہ کردن میں کب تک اوس اپنی مہربانکا

Page 77: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

76

القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جانکاہر صبح میری سر پر ایک حادثہ نیا ہوااسما نکا پیوند ہو زمین کا شیوہ اس

(۴۳) ر کی طرح مغل سلطنت کی ت نزلی اور ہندوس تان کی برب ادیوں ک ا ذک ر جابج ا ا کے ہاں بھی می سودسان ک ا لہجہ بھی دردمن دانہ ہے۔خ ود روتے ہیں ر درد من د دل کے مال ک تھے اس ل یے اات ا ہے۔لیکن م ی نظرسان کی ساٹھ ا ک ر دوسروں کو بھی رلاتے ہیں ۔سودا کا لہجہ طنزیہ ہے ۔ جب کسی س ے بگ ڑ ج اتے قلم دان سان کے قص یدوں میں اائی ہیں ت اہم خوب خبر لیتے لیکن قلم دان کے نش انے پ ر اس تعمار ی ق وتیں بہت کم

ایسے اشارے ضرور موجود ہیں:ناطاقتی کا اس کے کہاں تک کروں بیاں

فاقوں کا اس کے اب میں کہاں تک کروں شمار(۴۴)

اان پہنچا تھا جس دن کہ مرہٹہ دہلی تک ہت کار اا کر ہے وق مجھ سے کہا نقیب نے

جب دیکھا میں کہ جنگ کی یاں اب بندھی ہے شکللے جوتیوں کو ہاتھ میں گھوڑا بغل میں مار

(۴۵) تھے۔یہاںکے شعرانے دہلی دبستان دلی کے نمائندہ شعرا میں سے ایک اہم شاعر خواجہ میردرد

ساس کی س تم ظ ریفی ک ا بھی ش کار رہے۔اس ل یے ہت حال کو نہ صرف دیکھا بلکہ وہ خ ود کی خراب صور د اگ ر چہ ص وفی ش اعر تھے وہ تص وف کی دنی ا سان کی شاعری اس دور کی بہترین عکس پیش کرتی ہے۔درسان کے ہاں بھی ناگفتہ بہ ااس پاس رونما ہونے والے عوامل سے وہ بھی باخبر تھے ۔ میں مگن رہے لیکن اپنے

اازردہ صورت حال کے خلاف مزاحمت اور گلے شکوے بہت زیادہ ہیں: حالات اور ااگے بھی تھا اور زمانہ تھا اہل زمانہ

Page 78: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

77

سسنا نہ تھا پر اب جو کچھ ہوا یہ تو کسو نے (۴۶)

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہےہم تو اس جینے کے ہاتھو ں مر چلے

(۴۷)

ااب ادی اس دور کاای ک اہم ن ام ہے۔ اردو میں پابن د نظم ک ا باقاع دہ نظم کے حوالے سے نظ یر اک بر سان کی نظم صرف فنی حوالے سے ہی منفرد حی ثیت کی حام ل نہیں بلکہ موض وعاتی ر سے ہوتا ہے۔ ااغاز نظیسان کی نظم وں س ے ہندوس تان کی معاش ی ،سیاس ی اور اور فک ری ح والے س ے بھی منف رد مق ام رکھ تی ہے۔ اقتصادی ابتری کا صحیح اندازہ ہوت ا ہے۔نظ یر کے عہ د میں اس تعماری ط اقتیں ہندوس تان میں مس تحکم ہ وااہس تہ ااہس تہ سچکی تھیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی تج ارت س ے حک ومت کی ج انب پیش ق دمی ک ررہی تھی اور سان کی ش اعری میں حکوم تی مع املات اور سیاس ت پ ر ق ابض ہ ونے کی ت گ و دو میں مص روف تھی۔لہ ذا ااش وب سان کے ش ہر ااگرہ کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان کی تباہی اور زبوںحالی کی عکاس ی کی گ ئی ہے۔

میں اس دور کی خراب صورت حال کی جانب کچھ یوں اشارہ کیا گیا ہے:ااگرے میں جتنے ہیں سب لوگ ہیں تباہ اب

ااتا نظر کسی کا نہیں ایک دم نباہمانگو عزیزو ایسے برے وقت سے پناہ

ااہ وہ لوگ ایک کوڑی کے محتاج اب ہیں کسب و ہنر کے یاد ہیں جن کو ہزار بند

(۴۸) ایک ایسے شاعر ہیں جو دہلی میں پی دا ہ وئے اس دور سے متعلقہ شعرا میں غلام ہمدانی مصحفیسان کی شاعری میں اودھ کے حکمرانوں کی تنزلی اور انگری زوںکے ماردھ اڑ اور لکھنوء میں زندگی بسر کی۔ ااتی ہے: کے واضح اشارے موجود ہیں۔ ان کی شاعری میں مغربی سامراج کے خلاف شدید مزاحمت نظر

Page 79: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

78

ہندوستاں کی دولت و حشمت جو کچھ کہ تھیکافر فرنگیوں نے بہ تدبیر کھینچ لی

(۴۹)ہب قفس سرخ نہ کر خدا کے واسطے چو

ہمارے خون پہ باندھے ہے کیوں کمر صیاد(۵۰)

ااشیاں بلبل کا اے صیاد لوٹے ہے عبث تو ااباد لوٹے ہے کوئی یوں بھی کسی کا خانہ

(۵۱) ش اور ناسخ کے ہاں بھی قفس ،بلب ل و ص یاد،پھ ول وگلچیں جیس ے اس تعاروں اور علامت وں کی اات ن ہیں ج و صورت میں استعمار کے خلاف مزاحمت کا رنگ موجود ہے۔اس دور کے ایک اور اہم ش اعر م ومسانھ وں نے کہ بنیادی طور پر عشق و عاشقی کے روایتی مضامین اور معاملہ بندیوں کے لیے مش ہور ہیں لیکن

رومانی اور تخیلی دنیا کے ساتھ ساتھ خارجی واقعات پر بھی نظر رکھی۔کے ان بشمول افراد چار کے خاندان کے سان دورتھا۔ کا عروج کے کمپنی عہد کا مومن

والد’’حکیم غلام نبی‘‘ انگریز حکومت سے حکمت کی مد میں پنشن لیتے تھے۔وال د کی وف ات کے بع د مومن بھی انگریزوں سے وال د کی پنش ن وص ول ک رتے رہے۔لیکن وہ ای ک خ وددار انس ان تھے اور اس تعماری طاقتوں ک و ہمیش ہ ہندوس تان اور اس لام دون وں کے ل یے دش من تص ور ک رتے تھے۔ وہ س ید احم د ش ہید کےسان کے ہ اں متع دد ااواز اٹھ ائی۔ سانہ وں نے قلمی جہ اد کے ذریعے انگری ز کے خلاف پیروک ار تھے اس ل یے

اشعار میں استعماری طاقتوں کے خلاف جہاد کرنے پر زور دیا گیا ہے:ہمن حسد سے کرتے ہیں ساماں جہاد کا موبرسا صنم کو دیکھ کے نصرانیوں میں ہم

(۵۲)

Page 80: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

79

ااپ خریدار ہوئے سرفروشوں کے اگر تو گراں ہووے گی جنس جو کمیاب نہیں

(۵۳) ااخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر ایک بہ ترین ش اعر بھی تھے اوراپ نے دور کے ح الات س ے خ وبسان کی شاعری اابادیاتی اقتدار اور پالیسوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شخص تھے۔ باخبر تھے۔ وہ نو میں اپنی بے بسی،مغل حکومت کی بے بسی اور تق دیر ک ا رون ا موج ود ہے لیکن ای ک کم زور بادش اہ ہ ونےااتی وہ زیادہ تر ب دعائوں پ ر سان کی شاعری میں انگریز استعمار کے خلاف کھلی بغاوت نظر نہیں کے ناطے

ہی اکتفا کرتے ہیں:رنج و قلق ہے درد و الم ہے حسرت ہے ناکامی ہے

اارامی ہے ہت جاں کیا کیا بے دوری میں اس راح ر کس کی حمایت ڈھونڈیں ہم اور کس سے مرہم چاہیں ظف

رکھتے نظر ہیں اپنے خدا پر وہ بھی ہمارا حامی ہے(۵۴)

ااشیانہ اپنا درست ہم چمن میں کر رہے ہیں ہر قفس ہردام و تدبی کرتا ہے صیاد فک

مجھ کو صیاد جفا پیشہ نے ڈالا دام میںہر دام ہے اس میں نہ تقصیر قفس نے قصو

(۵۵)سان ش عرا میں ہوت ا ہے سان ک ا ش مار مرزا اسد اللہ خان غالب اردو شاعر ی میں اپنا ثانی نہیں رکھ تے۔

اازادی کے بع د بھی اازادی کے بعد بھی شاعری تخلی ق کی۔کی وں کہ وہ جن گ ء۱۸۶۹جنہوں نے جنگ ت ک زن دہ رہے۔غ الب کے ہ اں مغ ربی اس تعمار کے خلاف م زاحمت ک احوالہ انتہ ائی کم زور ہے بلکہ وہ¤ا پیش کی ج اتی ہے کہ انگری زوں کے وف اداروں میں ش مار ک یے ج اتے ہیں ۔اس سلس لے میں یہ تاوی ل عموم ہہذا سان کی روزی روٹی وابس تہ ہ و گ ئی تھی ل چ وں کہ وہ پنش ن ی افتہ تھے اور انگری ز حک ومت کے س اتھ

Page 81: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

80

سانھیں ایسا کرنا پڑا۔حالانکہ القابات و خطابات تو وہ مغ ل حک ومت س ے بھی لی تے رہے۔ مجبوری کی بنا پر اازادی کی اازادی کے دوران ’’دس تنبو‘‘ لکھ ک ر جن گ ااخ ری دور میں درب اری ش اعر بھی ب نے لیکن جن گ االہ ک اروں ک و محاف ظ اور ش یروںکے ن ام سان کے مذمت کرنا ،مجاہدین کو نمک حرام کہنا،انگریز سپاہیوں یا سے یاد کرنا،اور پھر بع د میں ملکہ وکٹ وریہ کی ش ان میں قص یدہ’’ش ماریافت روزگ ار ی افت‘‘ لکھن ا ۔ س ب

@@اغ الب ء کی۱۸۵۷ م ئی ۱۱ایسے حوالے ہیںجن سیغالب کی سامراج دوس تی ک ا بین ثب وت ملت ا ہے۔مثلاازادی کے بارے میں لکھتے ہیں: جنگ

ساٹھیں۔جس ک ا اث ر چ اروں ط رف۱۸۵۷ م ئی ۱۱’’ ء اچان ک دہلی کے قلعے اور فص یل کی دی واریں ل رزہ ساس دن جو بے حد منحوس دن تھا،میرٹ کی فوج کے کچھ پھیل گیا۔میں زلزلے کی بات نہیں کر رہا ہوں۔اائے۔نہایت ظالم و مفسد اورنمک حرامی کے سبب س ے انگری زوں بد نصیب اور شوریدہ سر سپاہی شہر میں کے خون کے پیاسے۔شہر کے مختلف دروازوں کے محافظ جو ان فسادیوں کے ہم پیشہ اور بھائی بن د تھے بلکہ کچھ تعجب نہیں کہ پہلے ان محافظوں اور فسادیوں میںسازش ہو گ ئی ہ و۔ش ہر کی حف اظت کی ذمہ

(۵۶داری اور حق نمک ہر چیز کو بھول گئے۔‘‘) غالب کی فارسی شاعری اور نثر بالخصوص خط وط میں س امراج دش منی کے واض ح اش ارے مل تےہیںلیکن اس کی وجہ بھی پنشن کے معاملہ میں انگریزوں کی ہٹ دھرمی اور س رد مہ ری دکھ ائی دی تی ہے۔سانہ وں نے ح الات کی ہ و بہوتص ویر کش ی س ے دری غ بالک ل نہیں کی ا۔انگری زوں کے ظلم و ج بر کے البتہ

سلسلے میں ’’انگریزوں کی فتح اور مظالم‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں: ’’میں نے ابھی کہا کہ غضب ناک شیروں)انگریزوں( نے شہر میں داخ ل ہ وتے ہی بے سروس اماں لوگ وں ک و جلانا جائز سمجھا۔ہاں جس مقام کو فتح کرتے ہیں لوگوں پ ر ایس ے ہی س ختیاں کی ج اتی ہیں۔اس غص ے

(۵۷اور دشمنی کو دیکھ کر لوگوں کے منہ فق ہو گئے۔‘‘) ء میں ختم ہ و جات ا ہے اس دور کے ش عرا کے۱۹۴۷ء س ے ش روع ہوت ا اور ۱۸۵۷تیسرا دور جو

اازاد،) ااغازمحمد حسین ء(،نواب مرزا داغ۱۹۱۰ء-۱۸۳۰ہاں ہر قسم کی مزاحمت موجود ہے۔اس دور کا ااب ادی)۱۹۱۴ء-۱۸۳۷ء(، الط اف حس ین ح الی)۱۹۰۵ء-۱۸۳۱دہل وی ) ء-۱۸۴۶ء(،اک بر الہ ء( جیس ے ش عرا س ے ہوت ا ہے اور مولان ا ظف رعلی خ ان )۱۹۱۴ء-۱۸۵۷ء(،مولانا ش بلی نغم انی)۱۹۲۱

Page 82: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

81

ء-۱۸۷۷ء(،علامہ محم د اقب ال )۱۹۵۱ء-۱۸۷۵ء(،حس رت م و ہ انی)۱۹۵۶ء- ۱۸۷۴ااب ادی)۱۹۳۸ ء( س میت ت رقی پس ند ش عرا کی س ر ک ردگی میںاس رارالحق۱۹۸۲ء-۱۸۹۴ء(ج وش ملیخ

ء-۱۹۱۸ء(،ف ارغ بخ اری، )۱۹۸۴ء-۱۹۱۱ء(،فیض احم د فیض )۱۹۵۵ء-۱۹۱۱مج از ) ب)۲۰۰۳ء-۱۹۱۹ء(،قتی ل ش فائی)۱۹۹۷ ء( جیس ے جدی د ش عراء۱۹۹۳ء-۱۹۲۸ء( ، ح بیب ج ال

ااگے بڑھتاہے۔ تک ء کے بعد ہندوس تان میں وارد ہ وئے۔تج ارتی می دا ن میں ان ک ا جارح انہ ان دازبرقراررہا۱۶۰۰انگریز

ء میں س راج ال دولہ کی شکس ت کی۱۷۵۷لیکن ان کی س فاکی اورج ارحیت ک ا س ب س ے ب ڑا ثب وت ااغ از ہوت اہے۔جن گ پلاس ی ہرغلامی ک ا صورت میں ملتا ہے۔ اس واقع کے بعد سے ہندوس تان میں باقاع دہ دو میں ’’کلائیو ‘‘کی کامیابی کے بعد بنگال کی الم ناک تباہی شروع ہو ئی اور یوں ہندوستان میں زراعت اور صنعت کی تباہی کے ساتھ ساتھ معاش اور ذریعہ معاش دونوں برباد ہو گئے۔لارڈ کلائیو کے بعد’’ ہستنگز‘‘ہت اودھ کے زی ورات ت ک ک ا جن گ روہیلہ جیتن ا،پھ ر جپبت س نگھ ک ا ماراجان ا ،یہ اں ت ک کہ بیگم ا چھیننا ،’’کارنوالس‘‘ کا مرہٹوں کوخری د ک ر س لطان حی در علی ک و شکس ت دین ا اور پھرمیس ور کی لڑائی وں میں جنرل ’’ولزلی‘‘کا ٹیپ و س لطا ن ک و ش ہید کران ا انگری زوں کی وہ کلی دی کامیابی اں تھیں جس کے بع دااپس میں ااگیا تھا۔۔مغل حکومت کی کم زور ی،حکمران وں ک و ہندوستان کا تخت انگریزوں کے قدموں میں سان پر قبض ہ کرن ا ،غ ربت، بھ وک، قح ط یع نی سیاس ی و معاش ی لڑا کر چھوٹی ریاستوں کا قیام اور پھر خود سان کی عب ادت گ اہوں اور م ذہبی استحص ال کے س اتھ س اتھ عیس ائیت ک ا پرچ ار،ہندوس تانی ع وام س میت پیشوائوں کی بے عزتی و بے حرمتی وغ یرہ وہ عوام ل تھے جن کی وجہ س ے ہندوس تان کے ک ونے ک ونے میں

ااغاز ہوا اور ء کی جن گ ل ڑی گ ئی۔ان مزاحم تی ک ارروایوں۱۸۵۷انگریزوں کے خلاف مسلح مزاحمت کا کو تشکیل دی نے میں ہندوپن ڈت اور مس لمان علم اء نے کلی دی ک ردار اداکی ا ۔ م ذہبی طبقے کی کوشش وں کی وجہ سے فوج میں ہندوستانی نوجوان انگریزوں سے متنفر ہوئے۔مردوں کے علاوہ بچ وں،بوڑھ وں یہ اں ت ک

کہ عورتوں نے بھی اس جنگ میں بنیادی کردار ادا کیا۔اازادی کے بارے میں ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار لکھتے ہیں: جنگ

Page 83: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

82

اازادی کا معرکئہ او ل جس کے لیے شکست و ناک امی نے ’’غ در ‘‘ک ا منح وس لف ظ ’’واقعہ انقلاب)جہاد تجویز کیا(تاریخ کا کوئی معم ولی س انحہ نہیں تھ ا کہ ج و قض ائے م برم کی ط رح ن ازل ہ وا اور اپ نے پیچھے خاک و خوں کے دلگ داز من اظر چھوڑت ا ہ وا گ زر گی ا ۔بلکہ یہ واقعہ گزش تہ ڈی ڑھ س و ب رس کے حادث ات ک ا قدرتی نتیجہ تھا۔یہ اس المیے کا ’’ڈراپ سین‘‘ تھا جو ایک طویل عرصے سے ب راعظم کی س ٹیج پ ر کھیلا

(۵۸جا رہا تھا۔‘‘)ااخری مغ ل تاج دارکو رنگ ون)برم ا (بھیج دی ا گی ا۔انگری زوں نے جنگ میں جیت انگریزوں کی ہوئی،

اازادی کا نام دیا۔ایڈورڈ سعید لکھتے ہیں: اسے غدرجب کہ ہندوستانیوں نے جنگ (۵۹’’ہندوستانیوں کے لیے غدر برطانوی حکومت کے خلاف ایک قومی تحریک تھی۔‘‘)

ااگ میںج ل کرکش ت و خ ون ک ا ب ازار گ رم کی ا ۔ جنگ کے اختتام کے بعدانگریزوں نے انتقام کی بچے،جوان، بوڑھے اورعورتوں کو شہید کیا گیا۔روزانہ سینکڑوں لوگ وں ک و پھانس ی دی ج اتی تھی۔انقلابی وںااگ لگ ائی ساڑایا گیا۔مسلمانوں کو سور کی کال میں بان دھ ک ر م ارا گی ا۔ کو توپوں کے داہنے میں باند ھ کر گ ئی۔ قت ل و غ ارت اور ل وٹ م ار کی انتہ ا یہ تھی کہ عم ارتوں ک و بھی مع اف نہیں کی ا گی ا۔مس اجد اور مندروں میں گھوڑے باندھ کر اصطبل بنائے گئے۔ جنگ کے بعد بظاہر نیا حکومتی ڈھ انچہ م رتب کی ا گی ا لیکن وہی ظلم وبربریت کا بازار گرم رہا۔نئے حکومتی نظام کے بارے میں ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار لکھتے

ہیں:ااف اس ٹیٹ ااف ڈائریک ٹر‘‘ کی جگہ ’’س یکرٹری ’’کمپنی کے ڈائریکٹروں سے اختیارات لیے گئے اور ’’بورڈ فار انڈیا‘‘کاایک نیا عہدہ قائم کر دیا گیا۔کمپ نی ک ا نمائن دہ گ ورنر ج نرل کہلات ا تھ ا اب ت اج ک ا نمائن دہ

(۶۰گورنر جنرل کے علاوہ وائسرائے بھی کہلانے لگا۔‘‘) جنگ کے اختت ام پ ردو قس م کی ہندوس تانی ذہ نیت تش کیل پ ذیر ہ وئی۔ای ک قس م کی ذہ نیت کےسام ور ک و س راہنے سان کے انتظ امی لوگوں نے انگریزوں کو طاقتور سمجھ کر ح الات س ے س مجھوتہ ک ر لی ااور میں ہی غنیمت جانی۔دوسری قسم کے لوگ وں نے ک و ئی مف اہمت نہیں کی اور براب ر م زاحمت ک رتے رہے۔سان ک و ب راہ راس ت ظلم اور اس تبداد اازادی کی پوری ذمہ داری انگریزوں نے مسلمانوں پ ر عائ د کی اور جنگ ک ا نش انہ بنای ا۔ ’’اجتہ اد‘‘ اور ’’اص لاح‘‘ کی تح ریکیں ش روع ہ وئیں ۔انجمن پنج اب ک ا قی ام، تہ ذیب

Page 84: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

83

الاخلاق ک ا اج راء،اس باب بغ اوت ہن د،تحری ک علی گ ڑھ،مدرس ہ دیوبن د،ن دوۃ العلم اء وغ یرہ وہ ادارے ی ا تحریکیں تھیں جنہوں نے مسلمانوں ک و دوب ارہ عملی زن دگی اور سیاس ت میں واپس لانے میں اہم ک ردار اداسان پ ر مراع ات کے دروازے اازادی سے ہندوئوں کو بری ال ذمہ ق رار دے دی ا اور کیا۔کیوں کہ انگریز نے جنگ

کھول دئیے تھے۔جب کہ مسلمان ترقی کی دوڑ میں ہندوئوں سے کافی پیچھے رہ گئے تھے۔سان کے رفق ائے @@ا سرس ید اور اائے مثل ش عرا ء و ادب اء میں بھی دو گ روہ منظ ر ع ام پ ر

اازاد ہہ راست مزاحمت کا راستہ کار، ر وغیرہ نے برا ی وغیرہ نے مفاہمت کا راستہ اپنایا جب کہ اکب ی،شبل ،حالااواز اپنے لیے چنا۔لیکن کوئی کتنی بھی مفاہمت کرتا درندوں کی درن دگی کے خلاف کہیں نہ کہیں س ے @@ا سرسید نے خود انگریزوں کی حکمت عملی،مذہبی اور تہذیبی اج ارہ داری ک و تنقی د ک ا ضرور بلند ہوتیمثل نشانہ بنا یا۔رسالہ تہذیب الاخلاق میں شائع شدہ کئی مضامین میں انگریز کی اس پالیسی کی شدید الفاظ جن کے والد مولوی محمد باقر کو انگری زوں نے پھانس ی دے دی اازاد میں مذمت کی گئی۔محمد حسین اازاد نے مفاہمت کے راس تے کوبہ تر س مجھا اور انگری زوں ہش قدم پر چلنے کی بجائے تھی لیکن والد کے نقسان کے دئیے ہوئے زخم وں ک و بھ ول کے لیے کام کرنا ہی غنیمتجانا۔لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ

ااخری عمر میں پاگل کردیا۔ گئے تھے۔ ان کے اندر انگریز دشمنی کے عناصر نے ان کو ااسائشیں میس ررہیں۔رام پ ور کی ریاس ت ج و کہ ء۱۸۵۷نواب مرزاء داغ دہلوی کو دنیا جہاں کی

کے س انحے س ے کم و بیش بچی رہی وہ اں داغ ک ا ط وطی ب ول رہ ا تھ ا۔ش اگردوں کی محف ل جمی رہ تیااس پ اس ہ ونے تھی۔حسن و عشق کی داستانیں سنائی جاتی تھیں لیکن س اتھ س اتھ س نجیدگی س ے اپ نے

سان کی کڑی نظر تھی: والے حوادث پر بھی وہ میں کہ میسر تھا مجھے ساغر جمشید

ااج ہن جگر پیتا ہوں تو کرتا ہے کمی خووہ میں کہ مرا قصر ہر اک رشک ارم تھا

ااج بہتر ہے گدایا نہ سر راہ گزر (۶۱)

Page 85: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

84

ہیں جو کہ پانی پت کے مقام پر پی دا اس دو ر کے ایک اور اہم شاعر خواجہ الطاف حسین حالیااگ ئے،غ الب اور سرس ید کے ش اگرد تھے۔انجمن پنج اب کے ہوئے اور گردش روزگار کے سلس لے میں لاہ ور د کے شانہ بشانہکام کرتے رہے۔سرسید کے مقص دی ی ا اص لاحی تحری ک کے اازا مشاعرں کے سلسلے میں م رتے دم تکح امی رہے۔ انجمن پنج اب خ الص اس تعماری مقاص د کے تحت بنای ا گی ا ادارہ تھ ا۔ جس ک ا مقصد تعلیمینصاب کے لیے ایسی نظمیں تخلیق کرنا تھاجس کی مدد سے ہندوس تانی تہ ذیب و ت اریخ ک وہی و برت ر ش بیہ ک و لوگ وں کے کمتر ثابت کرنا اوراستعماری ج بر و س تم کی بج ائے انگری زی س امراج کی اعل سامنے پیش کرنا تھا۔اس ادارے ک ا مقص د انگری ز پالیس یوں کی تعری ف اور توص یف کرناتھ ا۔انجمن پنج اب کے پلیٹ فارم س ے ک ل دس مش اعرے ہ وئے اورہ ر مش اعرے میں زی ادہ ت ر ایس ی ہی نظمیں پیش کی گ ئیں جس میں اس تعمار ک و مثبت اور نمای اں ش کل میں پیش ک رنے کی کوش ش کی گ ئی تھی۔ لیکن بالواس طہ علامتی و استعاراتی انداز میںان مشاعروں میں پڑھی جانے والی نظموں میں ایسے اش عار کی کمی بھی نہیں

جس میں استعمار کی مخالفت و مزاحمت موجود ہے۔اس حوالے سے ڈاکٹر سہیل احمد لکھتے ہیں: ’’استعمار کی حمایت میں لکھی جانے والی نظموں کے ساتھ انہی مشاعروں میں ایس ی نظمیں بھی پ ڑھیاائے ۔ان نظم وں نے ع وام کے ج ذبات کی حقیقی ترجم انی گئیں جن میں استعمار مخالف جذبات سامنے کرکے جذبہ حریت و ق ومیت ک و بی دار کی ا۔ یہ ج ذبات انجمن پنج اب کے اس تعماری مقاص د کی راہ میںہگ راہ ثابت ہ وئے۔انجمن پنج اب کے مش اعروں کے بن د ہ ونے کے اس باب میں ای ک اہم س بب اس تعمار سن

( ۶۲مخالف جذبات کا ابھرنا اور بھڑکنا بھی ہے۔‘‘) مولان ا الط اف حس ین ح الی نے انجمن پنج اب کے ص رف چ ار مش اعروں میں ش رکت کی لیکنسامی د کی بج ائے انگری زوں ساس میں سامی د‘‘ پیش کی سانھوں نے ج و نظم ’’نش اط سامید‘‘ میں ہن ’’ مشاعرہ بعنوا

سامیدی ظاہر ہوتی ہے اور درپردہ مزاحمت بھی: سے نا پھرتے ہیں محتاج کئی تیرہ بخت

جن کے بڑوں میں تھا کبھی تاج و تحتسان کے پاس تیرے سوا خاک نہیں

ااس ساری خدائی میں ہے لے دے کے

Page 86: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

85

ہوتا ہے نو میدوں کا جب ہجوم ااتی ہے حسرت کی گھٹا جھوم جھوم

ااتا ہے کہ سم کھائیے جی میں پھاڑ کے یا کپڑے نکل جائیے

(۶۳) اس کے علاوہ علی گڑھ کے پلیٹ فارم سے سائنس و ٹیکنالوجی کے علمبر داروں کو تو بھیڑیے اورااگے لف ظ اس تعمال ک رکے ب ات ک و اادم خ ور ت ک کہہ ڈالا ہے۔بس ص رف’’ ہیں‘‘ کی جگہ ’’تھے ‘‘ک ا

ی سے چند اشعار ملاحظہ ہو: پیچھے کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔ ’’مسدس‘‘ حالہر انساں ااج غم خوا وہ قومیں جو ہیں

درندوں کی اور ان کی طینت تھی یکساںااج جاری ہیں فرماں جہاں عدل کے بہت دور پہنچا تھا واں ظلم و طغیاں

ااج جو گلہ باں ہیں ہمارے بنے اادمی خوار سارے وہ تھے بھیڑیے

(۶۴ ) ی کی نظم ’’ حب وطن‘‘ ج و انجمن پنج اب کے چ وتھے مش اعرے میں ء ک و پیش۱۸۷۴ح ال

کی گئی۔وطن پرس تی کی روایت کے سلس لے میں اولیت ک ا درجہ رکھ تی ہے ۔نیچ ر ک و بی ان ک رتے ہ وئے ایک طرف محب وطن بننے کے لیے انگریزوں کی وفاداری پر زور دیا ہے لیکن ساتھ ہی س اتھ ہندوس تان کی تاریخ بیان کرتے ہوئے استعماری طاقتوں میں تورانی،تاتار،نادرشاہ اور محمود غزنوی کا ذکر کرتے ہ وئے مغ ربی

سامراج کی سب سے کریہہ ترین صورت قارئین کے سامنے پیش کی ہے۔:ساکھڑنے لگے پائوں اقبال کے

ملک پر سب کے ہاتھ بڑھنے لگےکبھی تورانیوں نے گھر لوٹا

Page 87: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

86

کبھی درانیون نے زر لوٹاکبھی نادر نے قتل عام کیاکبھی محمود نے غلام کیا

ااخر میں لی گئی بازی سب سے ایک شائستہ قوم مغرب کا

(۶۵)سان کی سرکن بھی تھے اازاد ج و انجمن پنج اب کے اہم ی کے علاوہ محم د حس ین ح ال مثن وی’’زمس تان‘‘ میں س ردی ک و مغ ربی اس تعمار کے ل یے بط ور علامت اس تعمال کیاگی ا ہے چن د اش عار

ملاحظہ ہوں:ااتی ہد صر صر ہے نشاں تیرا اڑاتی با

ااتی ہج اقبال کو رستہ ہے بتاتی فوااتا باغ میں جب ہے ترے قہر کا جھونکا

ڈر کے ہر برگ کا پیوند زمیں ہو جاتاہن چمن تھرتھراتے ہیں کھڑے سارے جوانا

ہن چمن منہ چھپاتے ہیں گل و سنبل و ریحامارے سردی کی جگہ سینوں میں تھراتے ہیں

بچے ماں باپ کی بغلوں میں گھسے جاتے ہیںہس خیال جلوہ گر پیش نظر ہوتی ہے فانو

پھرتے ہیں چار طرف دوڑتے جاسوس خیالااگ لگا دیتا ہے دل میں ہر برگ کے یوں جس طرح سے کوئی تانبے کو تپا دیتا ہے

(۶۶)

Page 88: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

87

اابادی کسی بھی صورت مغربی استعمار کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔وہ بنی ادی ط ور اکبر الہ اادمی تھے اور قدامت پسند ذہنیت کے مالک تھے۔وہ کسی بھی تبدیلی کو مذہب پر وار تصور ک رتے مذہبی ااتے ۔اس سلسلے میں وہ سرس ید کے انتہ ائی مخ الف تھے ساتر ہہذا مخالفت کرنے کے لیے میدان میں تھے ل کیوںکہ سرسید نے مفاہمت کا راستہ اختیار کرکے انگریزوں کے س امنے دوس تی ک ا ہ اتھ بڑھای ا اور ہندوس تانیسان کے اس عمل کی کھل کر مخالفت کی۔ ر نے مسلمانوں کو بھی انگریز دوستی کی تلقین کی لیکن اکب وہ انگریزی زبان،انگریزی تعلیم ، تہذیب، ق انون،نظ ام یہ اں ت ک کہ انگری ز ق وم کے بھی مخ الف تھے۔اک برسان کے ساس دور میں درست دکھائی نہیں دیت اکیوں کہ انگری ز اقت دار میں تھے ۔ کایہ انتہا پسندانہ رویہ اگرچہ ااگے تھے اور ب ڑے ب ڑے پاس طاقت تھی۔دوسری طرف ہندو جدید تعلیم حاص ل ک رنے میں مس لمانوں س ے ااج کے نو استعماری پالیسوں کاتجزیہ کرتے ہوئے بخوبی اندازہ ہو تا ہے کہ عہدوں پر قابض ہورہے تھے۔لیکن ر کا نقطہ نظر درست تھا۔کیوں کہ سرسید کی مفاہمت اور انگریز پسندی نے مابعد اس تعماریت کے ل یے اکباابادی نے اپنی ای ک مسلس ل غ زل میں مغ ربی اس تعمار اور ان کی م ذہبی، پہلی سیڑھی کا کام کیا۔اکبر الہ

تہذیبی، لسانی، تاریخ و تمدنی پالیسوں کے نتائج کا ایک سرسری خاکہ پیش کیا ہے ملاحظہ ہو:یہ موجودہ طریقے راہئی ملک عدم ہوں گے

نئی تہذیب ہوگی اور نئے ساماں بہم ہوں گےاائے گی ترمیم ملت سے عقائد پر قیامت

نیا کعبہ بنے گا مغربی پتلے صنم ہوں گےہد یورپ کے بہت ہوں گے مغنی نغمہ تقلی

مگر بے جوڑ ہوں گے اس لیے بے تال و سم ہوں گےااشنا ہوں گی ہماری اصطلاحوں سے زباں نا ہت مغربی بازار کی بھاکا صنم ہوں گے لغا

گزشتہ عظمتوں کے تذکرے بھی رہ نہ جائیں گےکتابوں ہی میں دفن افسانہ جاہ و حشم ہوں گے

(۶۷)

Page 89: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

88

ااغا ظفرحسین لکھتے ہیں: اابادی کی مزاحمت کے بارے میںڈاکٹر اکبرالہ ء کی شکست کے بعد ہندوستانیوں کا ایک طبقہ انگریزوں کے تسلط کو دائمی جان کر مغ ربی۱۸۵۷’’

اایا۔یہ وہ طبقہ تھا جو مغرب کی سائنسی ترقی اور انگریزوں کی انتظ امی ام ور تہذیب کی اندھی تقلید پر اتر سے بھی خاصہ مرعوب تھا ۔ان کے اس طر زعمل کو اپنی طنزیہ اور ظریفانہ انفرادیت کے ذریعہ جس ش اعر

اابادی تھے۔‘‘) ہف ملامت بنایا وہ اکبر الہ (۶۸نے سب سے زیادہ ہداابادی کو ہندوستان سے زیادہ فکر مسلمانوں کے م ذہب،تہ ذیب،عقی دہ،روای ات اور م ذہبی اکبر الہ سان کے خیال میں نئی تہذیب ،سائنسی ترقی اور جدید ٹیکن الوجی اس لام اور مس لمان دون وں اقدار کی تھی۔

کے لیے مہلک تھے:

ااپ کو سو جھے جس روشنی میں لوٹ ہی کی تہذیب کی میں اس اس کو تجلی نہ کہوں گا

لاکھوں کو مٹا کر جو ہزاروں کو ابھارےاس کو تو میں دنیا میں ترقی نہ کہوں گا

(۶۹)اادمی تھے۔ت اریخی اور شبلی نغمانی علی گڑھ کے پروردہ جدید ذہن رکھ نے والے تعلیم ی افتہ م ذہبی سان کا قلم براب ر چلت ا رہ ا۔اردو کے مذہبی تصنیفات کے ساتھ ادب میں بھی نثر اور شاعری کے حوالے سے ااب ادی کی ط رح ق دامت ی نہ ت و اک بر الہ علاوہ فارس ی اور ع ربی زب ان کے بھی ق ادرالکلام ش اعر تھے۔ ش بل پرست تھے اور نہ سرسید کی ط رح روش ن خی ال ۔اس وجہ س ے بع د میںعلی گ ڑھ س ے ال گ ہ و ئے اور ن دوۃ اور سانھوں نے حالی اازادی کے خواہاں تھے۔ العلماء کی بنیاد رکھ دی۔وہ مدرسہ دیوبند کے ہم خیال تھے اور اازاد کی طرح انگریز حک ومت س ے مف اہمت ک ا راگ کبھی بھی الاپ نے کی کوش ش نہیں کیبلکہ کھ ل ک ر مخصوص انگریزی تعلیم و تہذیب اور استعمارزدگی کی مخالفت کی۔نظم ’’مذہب یا سیاس ت‘‘س ے ان دازہ ہوت ا ہے کہ وہ ق دامت پس ند ہ ر گ ز نہیں تھے اور جدی د تعلیم و ت رقی کے خواہ اں تھے لیکن انگری زوں کے

طریقہ واردات سے نالاں تھے:

Page 90: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

89

ااپ نے ہم کو سکھائے ہیں جو یورپ کے علوماس ضرورت سے نہیں قوم کوہرگز انکار

بحث یہ ہے کہ وہ اس طرز سے بھی ممکن تھاہس شریعت کا وقار کہ نہ گھٹتا کبھی نامو

ہم نے پہلے بھی تو اغیار کے سیکھے تھے علوم ہم نے پہلے بھی تو اس نشہ کا دیکھا ہے خمار

نام لیتے تھے ارسطو کے ادب سے ہر چندتھے فلاطون الہی کے بھی گو شکر گذار

(۷۰) کے استعمار مخالف رویوں کے بارے میںڈاکٹر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں: شبلی

اازادی کے جس جذبہ کا اظہار دبے دبے اور معتدل لہجے میں ہوا ہے،شبلی کے ہاں وہ ’’حالی کے ہاں پرج وش لاوا بن ک ر ظ اہر ہ وا ہے ۔ان ک ا سیاس ی ش عور واض ح تھ ا۔ وہ ج انتے تھے کہ مس لمانوں کی فلاح ی ایک طرف سرسید تحریک کے مغ رب پرس تی کے خلاف محض انگریزی تعلیم سے نہیں ہو سکتی۔۔۔شبل

(۷۱تھے اور دوسری طرف علما کی تنگ نظری کو بھی اچھا نہیں سمجھتے تھے۔‘‘) ی اس حقیقت سے خوب واقف تھے کہ انگریزی تعلیم جو کہ جدید ٹیکنالوجی اور سائنس کے شبل نام پر اش تہار ب ازی ک رکے زبردستیہندوس تانیوں پ ر مس لط کی ج ارہی ہے اس میں زی ادہ زور مغ ربی تہ ذیب وسان کے ہ یروز پ ر دی ا گی ا ہے جس ک ا مقص د ہندوس تان کی ن ئی نس ل پ ر انگریزس امراج کی ادب، تاریخ اور

قومی برتری اورتہذیبی اجارہ داری قائم کرناہے:ساستادو کوئی پوچھے کہ اے تہذیب انسانی کے

اارائیاں تاکے یہ حشر انگیزیاں کب تک تک یہ ظلم اازمانی ہے یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی

ہماری گردنوں پر ہوگا اس کا امتحاں کب تکہم فتح ایوبی کہاں تک لوگے ہم سے انتقا

Page 91: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

90

ہگ صلیبی کا سماں کب تک دکھائو گے ہمیں جن(۷۲)

کے بعد ظفرعلی خان کا نام زمانی اعتبار سے انیسویں صدی کے اس نوع کے شعراء میں شبلیسان کے ہم عصروں میں بالخصوص علامہ محمد اقبال کا ذکرنہ کرن ا موض وع س ے سان سے پہلے ااتا ہے لیکن

بدیانتی ہوگی۔ علامہ محم د اقب ال س یالکوٹ میں پی دا ہ وئے لاہ ور میں زن دگی گ زاری۔جرم نی اور انگلینڈس میت مختلف ممالک کی سیر کی۔بلا کا مطالعہ رکھتے تھے۔نہایت زیرک اور نابعہ روزگار انسان تھے۔خ ود ی ورپسان ہہذا مغربی تہ ذیب ک و نہ ایت ق ریب س ے دیکھ ا۔اس ل یے ہلی تعلیم حاصل کی ل گئے۔وہاں پر قیام کیا،اع کی شاعری میںاستعمار کے خلاف مزاحم تی رن گ واض ح اور حقیقی بنی ادوں پ ر مب نی ہے۔نہ وہ ات نے روش ن خیال دکھائی دیتے ہیں کہ اندھی تقلید کا راستہ اختی ار ک رتے اور اور نہ وہ ات نے ق دامت پس ند کہ اک بر کی ط رح ش دید رویہ اختی ار ک ر لی تے بلکہ انہوں نے نہ ایت اعت دال اور حقیقت پس ندانہ رویہ اختی ار کی ا ۔جنسان کی نشان دہی کرکے خوب س راہالیکن جن طریق وں س ے س امراجی وجوہات کی بنا پر یورپ نے ترقی کی سان کی بھ ر پ ور مخ الفت بھی کی۔جن راہ وں پری ورپی اق وام کی تقلی د ہندوستانیوں کااستحصال کر رہے تھے ساس کی ش دید مخ الفت کی۔ڈاک ٹرگوپی اہل ہند کے لیے تنزلی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہو س کتی تھی

چند نارنگ لکھتے ہیں:ااگے چ ل ک ر بعض ’’اقبال کی شاعری کی ابتدا حب وطن اور سامراج دشمنی کے ج ذبے س ے ہ وتی ہے ۔ ااخ ر وقت ت ک وجوہ سے ان کی وطن دوستی کا ہندوستانی رنگ باقی نہ رہا۔لیکن سامراج دشمنی کا ج ذبہ

(۷۳باقی رہا جس پر ضرب کلیم اور ارمغان حجاز گواہ ہیں۔‘‘) لنے نہ ص رف مغ ربی ط رز تعلیم و تہ ذیب کی م ذمت کی بلکہ س اتھ میں ہندوس تانی مکتب و اقب اساس ااساں شاگرد کو بھی تنقی د ک ا نش انہ بنای ا۔مغ ربی اس تعمار اور ساستاد،تن مدرسہ کے فرسودہ نصاب،کاہل اازادی، انس ان اور مس لمان کابنی ادی ح ق تص ور کی وضع کردہ پالیس یوں کی بھی بھرپ ور مخ الفت کی ۔وہ اازادی کے حصول کے ل یے دی نی و دنی اوی عل وم و ت واریخ س ے مث الیں کرتے تھے ۔انھوں نے اپنی شاعری میں

Page 92: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

91

پیش کیں ۔مذہب کے سلسلے میں انہوں نے انگریز کو مورد الزام ٹھہرای ا کی ونکہ وہ س امراجی اقت دار، تعلیمو ثقافت،حکمت،تہذیب وتمدن،تدبر اورنظامت کواسلام کے لیے خطرہ تصور کرتے تھے:

ساٹھا کر پھینک دو باہر گلی میںنئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

(۷۴)ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے

سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجاتیہ علم،یہ حکمت،یہ تدبر، یہ حکومتپیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساواتبیکاری و عریانی و مے خواری و افلاس

کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات؟(۷۵)

اش عار منتخب ک رنے کے بع دیہ۷۴پروفیسر انور رومان نے اپنی کتاب’’اقبال اور مغربی استعمارمیں سان کے پاس مزید دوسو ایسے اش عار موج ود ہیں جن میں مغ ربیت،ف رنگیت اور اس تعماریت دعوی کیا ہے کہ

کو نشانہ بنایا گیا ہے۔وہ اقبال کے تصور یورپ کو استعمار کے تناظر میں واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اقبال یورپ کو روحانی و بنیادی روشنی سے مح روم س مجھتے تھے۔گم ک ردہ راہ،خلائ وں میں گھومت ا ہ وا اور تلاش حق میں کبھی ایک انتہا کی جانب کبھی دوسری انتہا کی طرف دوڑت ا ہ وا بھاگت ا ہ وا ،وط نیت و ق ومیت،م ذہب و سیاس ت کی علیح دگی،س رمایہ داری، جمہ وریت، س امراجیت،پرولت اریت، استحص ال، استعمار وغیرہ س ب انتہ ائیں تھیں لیکن نہ انتہ ائوں ک و ابت دائوں کے پی ل پ ائے میس ر تھے ۔نہ ان س ے تلاش متصل کی تسکین ہوتی تھی اور نہ ان سے کوئی انسانی فلاح حاصل ہوتی تھی ۔بس ای ک خوفن اک انتش ار و خلفشار تھا جو ہروقت یورپ میں برپا تھااور استعمار کی وجہ س ے پ ورے ک رہ ارض ک و ت یر ہ وت ار ک ر رہ ا

(۷۶تھا۔اس کی یہ ارض گیری علامہ اقبال کے لیے تشویش ناک تھی۔‘‘)

Page 93: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

92

درجہ بالا مب احث کی روش نی میں اس تعمار ی پالیس یوں ک و س مجھنے اور ان کے خلاف مختل ف سطحوں پرہونے والی مزاحمت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ اس تحقیقی کاوش کے ذریعے ’’مولانا ظفر علی خان کی شاعری میں مغ ربی اس تعمار کے خلاف مزاحم تی رویے ‘‘ک و جانچن ا اور پرکھن ا ہے اس لیے ان تع ارفی مب احث ک و س مجھنا از ح د ض روری ہے۔ جہ اں ت ک ’’اس تعمار‘‘ کی تعری ف کی ب ات ہے ت و مولان ا ظف رعلی خ ان نے خ ود مغ ربی ط اقتوں اور بالخص وص ہندوس تان میں برط انوی راج ک ا ہندوس تانیوں کے س اتھ ن ارو اس لوک، نظ ام حک ومت کے ل یے وض ع ک ردہ ج ابرانہ پالیس یوں،ہندوس تانیوں کی تہذیب،مذہب،تعلیم اور زبان کے ساتھ غاصبانہ رویوں،معاشی استحصال اورسیاس ی ع دم اس تحکام کے ل یےسانھ وں اپ نی استعمار کا لفظ استعمال کیا ۔ہندوستانمیں برطانوی حکومت کے اس پورے منظر نامے کے ل یے شاعری کے ہر مجم وعے میںف رنگی اس تبداد اور دی و اس تبداد کے علاوہ متع د دب ار ’’اس تعمار‘‘ک ا لف ظ بھی

استعمال کیا ہے:اانکھیں یکایک خیرہ ہوں گی دیو استعمار کی ہماری تیغ جوہر دار عریاں ہو کے جب چمکی

(۷۷)ہر استعمار انگریزوں کا دہلی میں بنا جب قص

اائیں بن کے چونا ہڈیاں میری تو اس میں کام (۷۸)

سچنگل بھی غضب کا ہے ان استعمار کی چیلوں کا ہم خو نچکاں پر ایک بو ٹی بھی نہ چھوڑی میرے جس

(۷۹)غم استعمار کی دیوار کو کیا

جب اس دیوار کی بنیاد ہم ہیں(۸۰)

Page 94: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

93

ہی تعلیمی ی افتہ اف راد میں س ے مولانا ظفر علی خان علی گڑھ سے ف ارغ التحص یل اپ نے دور کے اعلاارنلڈجیسے مغربی فلاسفر کے شاگرد تھے۔بابائے صحافت ایک تھے۔سر سید جیسے روشن خیال اورپروفیسر کہلائے اور پوری دنیا کے حالات پر ان کی نظر رہی۔ اردو،ہندی،عربی اور فارسی زب انوں کے علاوہ انگری زی پر خاصی دسترس حاص ل تھی۔اردو کے علاوہ ک ئی انگری زی کت ابوں اور ت راجم کے خ الق تھے۔علامہ اقب ال

کی طرح خود یورپ جا کرمغربی تہذیب و تمدن کو قریب سے دیکھا ،پرکھا اور سمجھا۔سچکے تھے کہ دیار غ یر کے لوگ وں ک و ک وئی ح ق نہیں وہ بچپن سے ہی اس حقیقت کو سمجھ سان کے بچپن کے ایسے ک ئی واقع ات مش ہور ہیں جن ااکر ہم پر حکمرانی کریں۔ پہنچتا کہ وہ اتنی دور سے سان کی انگریز دشمنی عیاں ہ وتی ہیلیکن جب وہ ب ڑے ہ وئے اورعلی گ ڑھ س ے ای ف۔اے ک رکے کش میر سے چلے گئے تووہاں سے ان کا اصل امتحان ش روع ہ وا۔دیگ ر تعلیم ی افتہ نوجوان وں کی ط رح مولان اکی ط بیعت

ء ک و۱۹۲۸ اپریل ۲۲انگریز کی نوکری پر راغب نہ ہوسکی اس حوالے سے وہ خودروزنامہ ’’زمیندار‘‘ میں ازالتہ الخفا کے عنوان سے لکھتے ہیں:

’’علی گڑھ کالج سے ایف۔اے،پاس کرکے میں کشمیر چلا گیا جہاں میرے والد مرحوم سررش تہ ت ارو ڈاکاارزو تھی سانھیں کے م اتحت اس سررش تہ میں ملازم ہ و گی ا۔مرح وم کی اافیسر تھے اور کچھ عرصہ ہی کے اعل کہ مجھے پنجاب میں کسی بلن د س رکاری منص ب پ ر س رفراز دیکھیں۔کش میر کے رزی ڈنٹ ان دن وں کرنی لاانجہ انی کے س اتھ پریڈو تھے جو مرحوم کے حال پر بہت مہربانی فرماتے تھے۔کش میر کے رائے بھ اگ رام سانھ وں نے س فارش کی کہ مجھے پنج اب بھی مرحوم کے تعلقات نہایت اچھے تھے۔مرحوم کی خ واہش پ ر میں اکس ڑا۔ اسس ٹنٹ کمش نری ک ا عہ دہ عط ا کی ا ج ائے ۔کرنی ل پری ڈونے اس کی س فارش کی اور اپ نی زبردست تائید کے ساتھ پنجاب گورنمنٹ کے پاس بھیج دیااور وہاں سے میرانام اکس ٹرا ۔اسس ٹنٹ کمش نریسامیدواروں کے زمرہ میں شامل کر لیے ج انے کی اطلاع موص ول ہ وئی لیکن میں نے اپ نے دل میں عہ د کے ااس ان تھ ا کہ خ دمت موع ودہ جس کے کر لیا تھا کہ انگریزوں کی نوکری کبھی نہ کروںگا۔میرے لیے بالکل ااج اپ نے معاص ر لیے امتحان مقابلہ کی شرط نہ تھی محکمہ کا معمولی امتحان دے کر حاص ل ک ر لیت ا اور ین شیخ عبدالقادر،میاں فضل حسین یا ڈاکٹر اقبال کی طرح ترقی کرتے کرتے یا تو سر ہوگیا ہوتا یا حک ومت

Page 95: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

94

کی وزارت یا کم از کم عدالت عالیہ کی ججی کی کرس ی پ ر بیٹھ ا ہ وا ہوت ا ۔لیکن م یری ط بیعت انگری زوں(۸۱کی خدمت کے ننگ سے نفور تھی۔‘‘)

ااباد میں اسسٹنٹ ھوم س یکرٹری کے عہ دے پ ر متمکن ہوگ ئے بی۔اے کرنے کے بعد جب حیدر تواطالوی رقص پارٹی کے اختتامی کلمات میں نوکری کی پرواہ کیے بغیر مغربی تہ ذیب ک و تنقی د ک ا نش انہ بنای ا اور ب رہنہ لڑکی وں کے رقص ک و ح واس ب اختہ اور حیاس وز عم ل ق رار دی ا جس کی پ اداش میں نہااباد سے بھی نک ال دئ یے گ ئے۔مولان ا کی تحری روںمیں اگ رچہ صرفملازمت سے فارغ کردئیے گئے بلکہ حیدر

ااغ از ء میںروزن امہ ’’زمین دار‘‘کی ادارت۱۹۰۹مزاحم تی رن گ ابت داء س ے نمای اں رہ الیکن اس ک ا باقائ دہ ء میں ج ارج پنجم کی ت اج پوش ی اور جن گ ط رابلس و۱۹۱۱-۱۲س نبھالنے کے بع د ہ وا اوربالخص وص

ااشکارہ ہوگیا۔اس حوالے لکھتے ہیں: سان پر مغربی استعمار کا مکروہ چہرہ مکمل ااغاز سے بلقان کے اائے۱۹۱۲’’ ء میں جب ج ارج پنجم بہ تق ریب ت اج پوش ی دہلی تش ریف لائے ت و دو واقع ات ایس ے پیش

اانکھ وں کے س امنے کھینچ کے رکھ جنھوں نے انگری زی حکمت عملی کی عری اں تص ویر م یری ح یرت زدہ دی۔اسی زمانہ میں میری ذہنیت میں وہ عظیم انقلاب پیدا ہو گیا جس کا خمیازمجھے رہ رہ کر ض مانتوں ۔

(۸۲ضبطیوں۔جرمانوں۔قرقیوں اور قیدوں کی شکل میں کھینچنا پڑا۔‘‘)ساس دور میں تنس یخ بنگ ال اور محولہ بالا پیراگراف میں کس ی ت اریخی واقعے ک ا ذک ر ت و نہیں لیکن طرابلس و بلقان کی جنگ ہی ایس ے واقع ات تھے جس نے مولان ا ظف ر علی خ ان کی س وچ ب دلنے میں اہم ک ردار ادا کی ا۔جس کے بع د مولان ا ظف رعلی خ ان نے اخب ار ’’زمین دار‘‘ میں لاہ ور س ے ای ک سلس لہ مضامین’’سلطنت کے اندر سلطنت‘‘ شروع کیا جس میں ایسے شواہد اکٹھے ک رکے پیش ک یے ج اتے تھےہی عہ دوں پ ر ہن دئو براجم ان ہیں جب کہ انگری زی اس تعمار جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ تمام اعل کی ج انب س ے مس لمانوں ک و اپ نے حق وق س ے مح روم رکھ نے کی ش عوری کوش ش کی ج ارہی ہے۔اسہہذا سلسلے کی اشاعت کے بعد مولانا کو استعماری قوتوں کی جانب سے سخت ردعم ل کی توق ع تھی لہظ ماتق دم کے ط ور پ ر حک ومت ’’پریس ایکٹ‘‘ کے تحت جرمانے یا پابندی سے بچنے کے لیے مولانا حف

کے عہدیدار’’سر لوئی ڈین‘‘ سے ملے۔اس ملاقات کے بارے میں مولانا فرماتے ہیں:

Page 96: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

95

ااپ نے یہ مض مون لکھ ااپ کا مضمون نہایت غور سے مط العہ کی ا اور م یری یہ پختہ رائے ہے کہ ’’میں نے کر اور اس قسم کے خیالات کی اشاعت کرکے جن سے اس مضمون کی عبارت بھری پ ڑی ہے ۔حک ومتاای ا ت و کی ایک نہایت گراں قدر خدمت انجام دی ہے۔۔۔اس ی قس م ک ا ک وئی ج واب س ننے کے ل یے میں تھا۔ مگر بخدا مجھے یہ ہرگز توقع نہ تھی کہ ک وئی انگری ز م دبر اپن ا س ینہ چ یر ک ر اپ نے دل کی اس تعماریہال اندیش ی اانکھوں پر سالہاسال کی سیاسی غیر م قاشیں یوں میری وفااندوز نگاہوں کے سامنے رکھ دے گا۔سات ر گ ئی اور ہندوس تان میں انگری ز وں کی مک روہ حکمت عملی نے جو پٹی باندھ رکھی تھے وہ بی ک وقت

(۸۳کے گھنائونے پن کو میں نے اس کی اصلی ہئیت میں دیکھ لیا۔‘‘) اس اقتب اس س ے ان دازہ ہوت ا ہے کہ انگری زوں نے کس ط رح مق امی لوگ وں ک و ای ک دوس رے کی

سان پر حکومت کرنے لیے راہیں ہموار کیں: ساکسا کر مخالفت پر ہن فرنگ خانہ جنگی، زلزلے، افلاس، قانو

اادمی کی جان پر ایک سے ہے ایک بھاری (۸۴ )

دوس را واقعہ تقس یم بنگ ال ک ا ہے۔ انتظ امی بنی ادوں پ ر وائس رائے لارڈ ک رزن نے ص وبہ بنگ ال ک و ’’مشرقی بنگال‘‘اور مغربی بنگال کے دو صوبوں میں تقسیم کر دیا جس ک ابراہ راس ت فائ دہ مس لمانوں ک و

ہر۱۹۱۲پہنچ اکیونکہ’’مش رقی بنگ ال‘‘ میںمس لمانوں کی اک ثریت تھی۔لیکن ء میں ج ارج پنجم نے درب اسامیدوں پر پانی پھیر دیا: تاجپوشی میںتنسیخ بنگال کااعلان کرکے مسلمانوں کی

خوب بنگال کی تقسیم کی قسمت پلٹیااج اس کی تنسیخ کا دربار میں اعلان سے

(۸۵) ء میں مس جد۱۹۱۳تقس یم بنگ ال اور تنس یخ بنگ ال کے بع د ط رابلس اور بلق ان کی جنگیں،

ء میں رولٹ ایکٹ،تحری ک۱۹۱۹ء ک وپہلی جن گ عظیم میںانگلس تان ک ا رویہ،۱۹۱۴ک انپور کاس انحہ، میں دوب ارہ ع دم تع اون، تحری ک خلافت،ت رک۱۹۲۰س ول نافرم انی،جلی انوالہ ب اغ ک ا قض یہ،مارش ل لاء،

Page 97: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

96

ااریہ سماج کی تحریک،ش دھی اور س نگھٹن کی تح ریکیں،س ائمن کمیش ن،گ ول م یز موالات،پھر ستیہ گرہ، ء کے انتخاب ات،کیبنٹ مش ن پلان وغ یرہ وہ۱۹۳۷ء ایکٹ،۱۹۳۵کانفرس،مسجد شہید گنج ک ا واقعہ،

اہم اور بنیادی واقعات اورس انحات تھے جس نے مولان ا ظف ر علی خ ان کے ذہن و دل ک و جھنج وڑ ک ر رکھسانھ وں نے ش اعری اور ن ثر دون وں میں اس ظلم و ج بر اور مغ ربی اس تعمار کے خلاف دی ا اور بھرپوراحتجاج،بغاوت اور مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔مولانا ظفرعلی خان کی شاعری کے بنی ادی ماخ ذات

اور موضوعات کے بارے میں ڈا کٹر غلام حسین ذوالفقار لکھتے ہیں:ااپس میں س ر پٹھ ول،س ائمن ’’شدھی و سنگھٹن،تبلیغ و تنظیم،مسئلہ حجاز پر ہندوستانی مسلمان اک ابر ک ا کمیش ن،تحری ک نم ک،تحری ک کش میر،اح راراور مس جد ش ہید گنج، ک انگرس اور مس لم لی گساٹھاتے ہیں اور ظف رعلی خ ان کی ش اعری بھی مناقشات،الیکشن پروپیگنڈا اور اس قسم کے صد ہا فتنے سر

(۸۶انہیں واقعات کی ’’منظوم ڈائری‘‘بن جاتی ہے۔‘‘) مولان ا ظف رعلی خ ان کی پ وری ش اعری ک ا مرک زو مح ور انگری ز دش منی،اس تعمار کی مخ الفت اور

اازادی ت ک اس تعماری ط اقتوں نے’’پھ وٹ۱۹۴۷ء س ے لے ک ر ۱۹۰۰اسلام کا نف اذ ہے۔ ء ت ک تحری ک ڈالو اور حک ومت ک رو‘‘ کی پالیس ی اختی ار کی جس کے ن تیجے میں جت نے بھی فس ادات ہ وئے ۔ان س ب کے خلاف مولان ا کی ش اعری میں م زاحمت مل تی ہے۔ بین الاق وامی س طح پراس لامی دنی ا اور بالخص وصسانھ وں نے ’’خلافت عثمانیہ‘‘ کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا،پہلی اور دوسری جنگ عظیم جیسے واقع ات ک و بھی سانھوں نے اپنی سا ن کی شاعری میں مزاحمت کے بنیادی زاویے کون سے تھے یا اپنی شاعری کا موضوع بنایا ۔اائن دہ ش اعری میں مغ ربی اس تعمار کے خلاف م زاحمت کے سلس لے میں کن روی وں ک و راہ دی ، اس پ ر

ابواب میں تفصیلی گفتگو کی جائے گی۔

Page 98: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

97

حوالہ جات:۔۱

https://www.britannica.com/topic/imperialism۔۲

https://en.oxforddictionaries.com/definition/imperialism

Edward۔۳ said,cultur and imperialísm,New Yourk,1994,page, 5

۲۲ء،ص:۲۰۰۹ایڈورڈسعید،ثقافت اور سامراج،مترجم ،یاسر جواد،مقتدرہ قومی زبان،پاکستان،۔۴ ۔۵

Gilmatin,Mary"Colonialism/Imperialism"KeyConcepts in Political

Geography,2009,Page,16 اابادی ات ،اردو کے تن اظر میں،اکس فورڈ یونیورس ٹی پ ریس،۔۶ ڈاک ٹر ناص ر عب اس ن یر،مابع د ن و

۷ ،ص:۲۰۱۳ہر نو،لاہور،۔۷ ۲۹-۲۸،ص:۱۹۷۳ہمایون ادیب،نیا سامراج اور روسی کشور کشائی،مکتبہ افکاڈاکٹر سہیل احمد،پی۔ایچ۔ڈی مقالہ،جدید اردو نظم میں مغربی استعمار کے خلاف مزاحمت۔۸

۶،غیر مطبوعہ،ص:(۱۸۵۷ء تا ۱۹۴۷)

Page 99: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

98

اابادیات ،اردو کے تناظر میں ،ص:۔۹ ۶ڈاکٹر ناصر عباس نیر،مابعد نو سبک فورٹ ،لاہور،۔۱۰ ۱۶،ص:۲۰۱۵باری علیگ،تاریخ کا مطالعہ ،۲۲۲ء،ص:۱۹۴۲ جواہرلال نہرو،جگ بیتی،حصہ اول،برقی پریس،دہلی،۔۱۱۲۳۲ء،ص:۱۹۹۲جواہر لال نہرو،تلاش ہند،تخلیقات لاہور،۔۱۲۶۰،ص:۲۰۰۴حسین احمد مدنی،برطانوی سامراج نے ہمیں کیسے لوٹا،طیب پبلشر،لاہور،۔۱۳ڈبلیو۔ایچ۔مورلینڈ،اکبر سے اورنگزیب تک ،،مترجم،جمال صدیقی،جمہوری پبلیکشنز، ۔۱۴

۱۴،ص:۲۰۱۵لاہور،@@ا،ص:۔۱۵ ۲۲،۲۷ایضہی ہند،جلد،مترجم قاضی محمد عدیل عباس ی،ق ومی کونس ل ب رائے۔۱۶ اازا ہک ہخ،تحری ڈاکٹر تارا چند،تاری

۸۲،جلد اول،ص:۱۹۸۰دہلی،طبع اول ،فروغ اردو،نئی Romesh۔۱۷ Dutt,The Economic history of

india,Vol,1,kegan paul LTD,1902,P,32,33 .سید حسن ریاض،پاکستان ناگزیر تھا،شعبہ تصنیف وتالیف،ترجمہ،جامعہ کراچی،طبع ۔۱۸

۱۹ء،ص:۱۹۶۷اول،اازادی اور اردو ش اعری،ق ومی کونس ل ب رائے ف روغ۔۱۹ ڈاک ٹر گ وپی چن د نارن گ،ہندوس تان کی تحری ک

،۲۷۹، ص:۲۰۰۳دہلی، اردو،نئی ڈاکٹر سہیل احمد،پی۔ایچ۔ڈی مقالہ،جدید اردو نظم میں مغربی استعمار کے خلاف مزاحمت۲۰

۶۳،غیر مطبوعہ،ص:(۱۸۵۷ء تا ۱۹۴۷)۵۸۵-۸۶ء،ص:۱۹۶۳سرسیداحمد خان،مقالات سرسید،جلد سیزدہم،لاہور،۔۲۱J.A۔۲۲ Hobson,Imperialism a

study,london,1902,P:287 ۱۳ء،ص:۲۰۱۶حمزہ علوی،جاگیرداری اور سامراج،فکشن ہاوس،۔۲۳۴۶حسین احمد مدنی،برطانوی سامراج نے ہمیں کیسے لوٹا،ص:۔۲۴

Page 100: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

99

،ق ومی کونس ل۱۸۰۰ ت ا ۱۰۰۰ایس۔ایم ،جعفر،تعلیم،ہندوستان کے مسلم عہد حک ومت میں،۔۲۵۶۰،ص:۱۹۸۰اردو،نئی دہلی،برائے فروغ

Thomas۔۲۶ Babington Macaulay,Minute on Indian Education February2,1835, Reprint.Dehli: National Archives of India, 1965,

107-117.point no:10اائینہ ادب،۔۲۷ ۶۵،ص:۱۹۸۶شبیر بخاری،میکاولے اور برصغیر کی نظام تعلیم،لاہور،اازادی،ایوب پریس،لاہور،۔۲۸ اازاد،تحریک ۱۲۔۱۱ء،ص:۲۰۱۲مولانا ابوالکلام ہت ہند،اردو اکیڈمی سندھ،کراچی،۔۲۹ ۱۲۲،ص:۱۹۵۷سرسید احمد خان،اسباب بغاو@@ا،ص:۔۳۰ ۱۲۳ایضاازدی ہند،جلد دوم،ص:۔۳۱ ہخ تحریک، ۳۸۸ڈاکٹر تارا چند،تاری۴۸رومیش دت،انڈیا ٹوڈے،بحوالہ ہمزہ علوی،جاگیرداری اور سامراج،ص:۔۳۲۸۳ حسین احمد مدنی،مغربی سامراج نے ہمیںکیسے لوٹا،ص۔۳۳ ڈاک ٹر مب ارک علی،پاکس تان میں مارش ل لاء کی ت اریخ،ت اریخ پبلیکیش نز،لاہ ور،س ن اش اعت ،۔۳۴

۲۴۷-۴۵ص:، ۲۰۱۴۱۹ء،ص:۲۰۱۶ڈاکٹرمبارک علی،برطانوی راج )ایک تجزیہ( ،فکشن ہاوس،لاہور،۔۳۵ااغ اظفر حس ین،م زاحمت اور پاکس تانی اردو ش اعری،ایجوکیش نل پبلش نگ ہ اوس دہلی،۔۳۶ ڈاک ٹر

۱۷،ص:۲۰۰۷ساردو ،۔۳۷ ساردو میں مزاحم تی ش اعری ، ت اریخ اور تج زیہ ، مق الہ ب رائے ایم ۔ اے اش فاق احم د ،

۱۷ء،ص:۱۹۹۱لاہور،گورنمنٹ کالج ۱۰ولی دکنی،دیوان،بہ اہتمام منشی ممتازعلی،مطبوعہ حیدر پریس دہلی،س۔ن،ص:۔۳۸@@ا:۔۳۹ ۱۴۴-۱۴۳ایض

Page 101: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

100

ااغا ظفرحسین،مزاحمت اور پاکستانی اردو شاعری،ڈاکٹر جاوید علی،افہام و۔۴۰ جعفرزٹلی،بحوالہ،ڈاکٹر ۴۹،ص:۲۰۰۰رائٹرس گلڈ)انڈیا(لمیٹڈ،دہلی،تفہیم،

۱۲۴،ص:۱۸۷۴میر تقی میر،کلیات ،مطبع ،منشی نار نول کشول،مارچ ۔۴۱@@ا،ص:۔۴۲ ۲۴۳ایض@@ا،ص:۔۴۳ ۲۰ایض ا،کلیات، جلد دوم ، مرتبہ ڈاکٹر شمس الدین ص دیقی ، مجلس ت رقی ادب ،۔۴۴ مرزا رفیع محمد سود

۳۳۳ ء، ص: ۱۹۷۶لاہور ، @@ا ، ص:۔۴۵ ۳۴۳۔۳۳۹ایض۱۶،ص:۱۹۲۲خواجہ میر درد،دیوان ،اردو،مطبع نظامی بدایوں،۔۴۶@@ا، ص:۔۴۷ ۶۶ایض ی ومول وی اش رف علی۔۴۸ اارس اابادی،کلیات ،بصحت و حواشی ، مولانا عبدا لباری ص احب نظیر اکبر

۴۶۵ء ،ص:۱۹۵۱لکھنو ، لکھنوی ، نول کشور پریس ،دی وان،انتخ اب،حس رت موہ انی،مکتبہ م یری لائ بریری،لاہ ور،۔۴۹ ،ص:۱۹۲۵غلام ہمدانی مص حفی

۲۳۶@@ا،ص:۔۵۰ ۱۳۶ایض@@ا،ص:۔۵۱ ۲۱۷ایضن صبح ادب،اردو بازار،دہلی،ف روری ۔۵۲ ن،کلیات،مرتبہ،ڈاکٹر انور الحسن،ادارہ ء ۱۹۷۱مومن خان موم

۷۹ص:@@ا،،ص:۔۵۳ ۹۸ایض۵۱بہادر شاہ ظفر،دیوان،مشورہ بک ڈپو،رام نگر،گاندھی نگر،دہلی،س۔ن،ص:۔۵۴@@ا،ص:۔۵۵ ۱۱۸ایض ب،دستنبو،مترجم،پروفیسرخواجہ فاروقی،ترقی اردو،بیورو نئی دہلی، ۔۵۶ ، ۲۰۰۰مرزا اسدللہ خان غال

۲۱-۲۰ص:

Page 102: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

101

@@ا،ص:۔۵۷ ۳۸ ایضڈاک ٹر غلام حس ین ذوالفق ار،اردو ش اعری ک ا سیاس ی و س ماجی پس منظ ر،ج امعہ پنج اب،لاہ ور،۔۵۸

۳۲۷ص:ء، ۱۹۶۶۱۲۷ایڈورڈ سعید،ثقافت اور سامراج،ص:۔۵۹۹۱ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار،اردو شاعری کا سیاسی و سماجی پس منظر،ص:۔۶۰ااباد،انڈیا،۔۶۱ ۵۱،ص:۱۹۳۴داغ دہلوی،دیوان،رام نرائن لال،پریس الہ ڈاکٹر سہیل احمد،پی۔ایچ۔ڈی مق الہ،جدی د اردو نظم میں مغ ربی اس تعمار کے خلاف م زاحمت، ۔۶۲

۱۹۹ص: ی،جل د اول)م رتبہ ڈاک ٹر افتح ا احم د ص دیقی(،۔۶۳ ہت نظم ح ال ی،کلی ا مولان ا الط اف حس ین ح ال

۲۹۲-۹۱ء،۱۹۶۸ ی،مسدس ،بک ٹاک،لاہور،۔۶۴ ۵۶ء،ص:۲۹۱۶ مولانا الطاف حسین حال ی،ایجوکیشل بک ہاوس،علی گڑھ،۔۶۵ ی،مجموعہ نظم حال ۵۶ء،ص:۱۹۹۸مولانا الطاف حسین حالاازاد،کلیات،مرتبہ ڈاکٹر ہارون قادر،الوقار پبلی کیشنز،لاہور،۔۶۶ ۶۵،۷۵ء،ص:۲۰۱۰محمدحسین ااباد،۔۶۷ ہت ،حصہ اول،بہ اہتمام،رمضان علی ،کریمی پریس،الہ اابادی،کلیا ء، ۱۹۳۶اکبرالہ

۶۹-۶۸ص:ااغا ظفرحسین،مزاحمت اورپاکستانی اردو شاعری،ص:۔۶۸ ۵۵ڈاکٹر اابادی،کلیات،حصہ اول،ص:۔۶۹ ۱۶اکبر الہ ۶۲ء،ص:۲۰۰۷شبلی نعمانی ،کلیات ،دارالمصنفین،شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ )یوپی( انڈیا،۔۷۰اازادی اور اردو شاعری،ص:۔۷۱ ۳۳۵ڈاکٹر گوپی چند نارنگ،ہندوستان کی تحریک ۶۶-۶۵ شبلی نعمانی،کلیات،ص:۔۷۲اازادی اور اردو شاعری،ص:۔۷۳ ۳۴۱ڈاکٹر گوپی چند نارنگ،ہندوستان کی تحریک ،ص:۲۰۰۷،اکادمی پاکستان،لاہور،۳۲۳علامہ محمد اقبال،کلیات ،بانگ درا،۔۷۴ہل جبریل،لینن خدا کے حضور،ص:۔۷۵ ۴۳۵علامہ اقبال،کلیات،با

Page 103: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

102

۴۷ء،ص:۱۹۹۶پروفیسر انور رومان،اقبال اور مغربی استعمار،بزم اقبال ،لاہور،مئی ۔۷۶ء،ص ۱۹۱۱مولان ا ظف رعلی خ ان،کلی ات،بہارس تان،دو س ائے،مولان ا ظف رعلی خ ان ٹرس ٹ لاہ ور،۔۷۷

۲۸۶ ۱۱۹مولانا ظفرعلی خان،کلیات،نگارستان،ص:۔۷۸۳۸مولاناظفرعلی خان،کلیات،چمنستان،ص:۔۷۹ہن قادیانیت،ص:۔۸۰ ہت ظفر علی خان،ارمغا ۶۹کلیا،انمول موتی ،جلد دوم،مرتبہ ،ڈاکٹر صادق حسین،۲مولانا ظفرعلی خان،مضامین،ازالتہ الخفا،۔۸۱

ہت حیات(،س۔ن،ص: ۲۷)مولانا ظفرعلی خان کی خود نوشت سرگذش@@ا،ص:۔۸۲ ۲۹ایض@@ا،ازالتہ الخفا،ص:۔۸۳ ۳۵-۳۴ایض۱۳۱ظفر علی خان،کلیات،نگارستان،ص:۔۸۴۳۷،انمول موتی،جلد دوم،ص:(۵مولانا ظفرعلی خان،مضامین ، ازلۃ الخفا،)۔۸۵،ص:۱۹۶۷ڈاک ٹر غلام حس ین ذوالفق ار،ظف ر علی خ ان، ادیب و ش اعر،مکتبہ خیاب ات،لاہ ور،۔۸۶

۱۵۶

Page 104: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

103

باب سوم:

مولانا ظفر علی خان کی شاعری میں مغربی استعمارکے خلاف مزاحمت

ء تک(۱۹۱۴)ابتداء سے ء تک کے دور کا سیاسی منظر نامہ۱۹۱۴ء سے ۱۸۵۷ ا(

سحب الوطنی، سرسری جائزہ ب( اردو شاعری میں ج( ہندوس تان کے اہم ت اریخی واقع ات کے تن اظر میں مولان ا ظف رعلی خ ان کی ش اعری میں مغ ربی

کے خلاف مزاحمتی رویےاستعمار

(۱) تک کے دور کا سیاسی منظر نامہ:ء۱۹۱۴ سے ء۱۸۵۷

اازادی کو غدر ک ا ن ام دے ک ر ہندوس تان مولانا ظفرعلی خان نے جب ہوش سنبھالا تو انگریز جنگ سچکے تھے۔انگری زوں نے جن گ کی س اری ذمہ داری مس لمانوں پ ر ڈال دی ۔ میں اپنی فتح ک ا جھن ڈا گ اڑ جس کی پاداش میں مسلمانوں پر طرح طرح کے مظ الم ڈھ ائے گ ئے۔ مس لمانوں کے اکثرش وریدہ س ر رہنم اسانھوں نے سامراجی استبداد سے بچنے کے ل یے گوش ہ نش ینی اختی ار جنگ کی نذرہو گئے اورجو باقی بچے

Page 105: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

104

کرلی۔ جنگ میں ناکامی کے بع د ہندوس تانیوں میں مزی د م زاحمت اور م دافعت کی س کت ب اقی نہیں رہیاس لیے عوام کی ایک بڑی اکثریت مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی ۔

مذکورہ دور کے مسلمان رہنمائوں میں سر سید احم د خ ان ک و بنی ادی اور امتی ازی حی ثیت حاص لااخ یر میں ’’ تحری ک علی گ ڑھ‘‘ نے ع وامی بی داری میں اہم ک ردار ادا کی ا۔ سانیسویں ص دی کے نص ف ہے۔سانھ وں نے مس لمانوں کے اازادی کے بع د سرس یدجو اپ نے س ینے میں ای ک درد من د دل رکھ تے تھے۔جن گ بچائو اور بقا کے لیے سوچنا شروع کر دیا جس کے بع د وہ اس ن تیجے پ ر پہنچے کہ مس لمانوں ک و جدی د تعلیم کی طر ف راغب کرنے کے ساتھ ساتھ انگریزوں کے ساتھ مفاہمت کا راستہ اختی ار کرن ا ہوگ ا کی ونکہسانھوںنے کوشش ش روع کیں ان کاوش وں اس کے بغیربقا کا سفر ناممکن ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے

ہدل وں س ے مس لمانوں کے خلاف نف رت ک و دور کرن ا تھ ا۔ ء میں ’’اس باب۱۸۵۸کا مقص د انگری زوں کے ء میں’’تہذیب الا خلاق‘‘ ’’لائ ل محم ڈنز۱۸۷۰ ء میں’’ احکام طعام اہل کتاب‘‘،۱۸۶۶بغاوت ہند‘‘

ہی‘‘ جیس ی تحری ریں اس سلس لے کی اہم کڑی اں ہیں۔تعلیم و ت ربیت کے ااف ان ڈیا‘‘اور ’’تحقی ق لف ظ نص ار ء میں اس۱۸۷۵ء میں ’’س ائنٹفک سوس ائٹی‘‘ ک ا قی ام تھ ا ۔ ۱۸۶۳حوالے سے سرسید ک ا اہم کارن امہ ی۱۸۷۷سوسائٹی نے پہلے اسکول اور پھر ء میں ک الج ک ادرجہ حاص ل کرلی ا۔ مولان ا الط اف حس ین ح ال

سرسید کی علمی اور تعلیمی سوچ کے بارے میں لکھتے ہیں:سانھوں نے تمام خرابیوں کی اصلاح اور تمام مشکلات کا حل اس ب ات میں دیکھ ا کہ ق وم میں تعلیم کی ’’

(۱اشاعت کی جائے۔‘‘) سرسید احمد خان اگ ر چہ سیاس ی س رگرمیوں میںمس لم طلب اء کی ش رکت کے س خت خلاف تھےاازادی کے ہیرو بنے۔مولان ا ظف ر اازادی کے روح رواں بن کر ااگے چل کر یہی علیگی تھے جو تحریک لیکن علی خان نے بھی ہندوستان کے اس بڑے اور تاریخی ادارے سے وابستہ ہوکر سرسید کی راہنمائی ،ش بلی اور

ء۱۸۶۷اارنل ڈ کی ش اگردی میں بی۔اے کی ڈگ ری حاص ل کی۔علی گ ڑھ ک الج کے قی ام س ے پہلے ہی میں’’اردو ہندی تنازعہ‘‘ نے سرسید پر یہ راز بھی منکشف کردیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ ق ومیں ہیں اس

سانھوں نے ء ہی میں’’دو قومی نظریہ‘‘کے خدوخال واض ح ک رکے مس لمانوں ک و ان کی ج داگانہ۱۸۶۷لیے ق ومیت ک ا احس اس دلای ا۔اس دور میںہندوس تانیوںکی سیاس ی بی داری ک ا ای ک اور ح والہ ’’ان ڈین نیش نل

Page 106: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

105

ء کوایک ل برل انگری ز مس ٹر اے۔اوھی وم کی کوششوںس ے ہندوس تان ک ا تعلیم۱۸۸۵کانگرس‘‘ کا قیام ہے۔ یافتہ طبقہ اپ نے حق وق حاص ل ک رنے کے ل یے متح دہوگیا۔اس مقص دکے ل یے ای ک سیاس ی جم اعت ان ڈین

نیشنل کانگرس کی بنیاد رکھی گئی۔ہر اصلاح‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔۱۸۵۷ ااخیر کو ’’دو کے بعدانیسویں صدی کے نصف

اس دور میںمسلمانوں نے انگریزوں سے براہ راست تص ادم کی بج ائے اپ نی اص لاح کی ط رف ت وجہ دی اور ن ئے دورکے تقاض وں کے مط ابق خ ود ک و ڈھ النے کی بھرپ ور کوش ش کی ۔اص لاحی دور میں سیاس ی اورہل ااریہ س ماج اورقادی انیت کے ن ام قاب مذہبی نوعیت کی تحریکوں میں ’’انجمن حمایت اسلام،مدرسہ دیوبند،

ذکر ہیں جب کہ صحافت کے حوالے سے اودھ پنج‘‘ کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔۔ااغ از ہوت ا ہے۔بیس ویں ہندوستانی تاریخ میں بیسویں ص دی کے نص ف اول س ے انقلاب کے دور ک ا ص دی کے ابت دائی عش رے کے سیاس ی منظرن امے میں تقس یم بنگ ال ک و بنی ادی حی ثیت حاص ل ہے۔

ااغ از ہ وا اور دو س ال بع د یع نی۱۹۰۳ ء میں بنگ ال کی۱۹۰۵ء میں اس سلسلے میں منصوبہ بندی ک ا اابادی کے لحاظ سے تقسیم کا حتمی اعلان کردیاگیا۔عام خیال یہ کیا جاتا ہے کہ بنگال کا صوبہ رقبے اور ااسانی کے تحت اسے دو صوبوں میں تقس یم کی ا سامور میں ہہذا حکومت نے انتظامی سب سے بڑا صوبہ تھا ل لیکن بع د میں تنس یخ بنگ ال س میت ک ئی واقع ات س ے ث ابت ہوت ا ہے کہ اس تعماری حک ومت نے اپ نی

پالیسی’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کے تحت ایسا کیا۔ ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ک رزن کے اعلان’’ تقس یم بنگ ال ‘‘کی وجہ س ے مش رقی ص وبہ بنگ المسلمانوں کا اکثریتی صوبہ بن گیا جس کی وجہ سے مسلمان، انگری زوں ک و اپن اخیر خ واہ س مجھنے لگے۔

ء ک و کلکتہ یونیورس ٹی کے تقس یم اس ناد۱۹۰۵اس تص ور ک و ای ک واقعے نے اور بھی پختہ ک ر دی ا جب ساس نے تقسیم کا مقصد ااکر کے موقع پر بنگالیوں نے لارڈ کرزن کو نازیبا کلمات سے یاد کیا تو غصے میں

مسلم اکثریتی صوبہ بنانا قرار دیا۔ڈاکٹرغلام حسین ذوالفقار لکھتے ہیں:سان کا مقصد صرف یہ نہ تھا کہ بنگال کے گورنمنٹ کے انتظامی بوجھ ہلکا کیا جائے ’’تقسیم بنگال سے

(۲بلکہ ایک اسلامی صوبہ بنانا تھا جس میں مسلمانوں کا غلبہ ہو۔‘‘)تقسیم بنگال کے نتائج کے حوالے سے ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں:

Page 107: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

106

سان ’’مسلمانوں نے محس وس کی ا کہ اب وہ ای ک ایس ے علاقہ میں ہیں جہ اں ان کی غ الب اک ثریت ہے۔اور کو ایک علاقائی بنیاد مل گئی۔جہ اں وہ ای ک ق وم کے ابت دا کے خی ال کی پ رورش ک ر س کتے ہیں۔اس نے

(۳مسلمانوں کے اندر ایک قوم ہونے کے تصور کو قائم کرنے میں مدد دی۔‘‘) تقس یم بنگ ال کے فیص لے س ے مس لمانوں میں خوش ی کی لہ ر دوڑ گ ئی جب کہ ہن دئوں نے اس تقس یم کوس ازش ق رار دی تے ہ وئے ہندوس تانیوں ک و کم زور ک رنے ک ا منص وبہ تص ور کی ا اور اس کی س ختسان کے ش دید ط رز عم ل ک و مخالفت پ ر کمربس تہ ہوگ ئے۔ ہن دوئوںنے اس فیص لے کی ش دید م زاحمت کی۔ دیکھتے ہوئے مسلمانوں نے انگریزی حکومت کے ساتھ تعلق ات ک و بہ تر بن انے کی ط رف اپ نی ت وجہ مرک وز کی۔لارڈ منٹو کے پاس شملہ وفدبھیج دیاگی ا اوران کے س امنے اپ نے مطالب ات پیش ک یے گ ئے۔ اپ نی ال گ

ء کو’’ مسلم لیگ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ہندوئوں نے مس لمانو۱۹۰۶شناخت اور نمائندگی کے لیے ں کی نمائندہ الگ سیاسی جماعت بنانے کے عمل کو بھی شدید تنقید ک ا نش انہ بنای ا ۔اس جم اعت کیتشکیل کو ہندئوں نے انگریزوں کی سازش قرار دیا ۔ مسلم لیگ کے حوالے سے ڈاکٹر تاراچند نے لکھا ہے:سانھ وں نے مس لم ف رقہ کے ای ک اہم طبقہ ک و ک انگرس کی ’’منٹ و نے اس میں کامی ابی حاص ل ک ر لی کہ شرکت کے خط رے س ے ال گ ک ر دی ا۔اور اس ط رح ق ومی ی ک جہ تی کے ط اقت پک ڑنے میں رک اوٹ پی دا

(۴کی۔‘‘) ء میں منٹو م ارلے اص لاحات۱۹۰۹ مسلم لیگ کے قیام کے بعد مسلمانوں کی دوسری کامیابی

سان کی حیثیت کو بطور الگ قوم تسلیم ک ر تھے جس میں مسلمانوں کے جداگانہ انتخابات کا حق مان کر لیاگیا۔چوں کہ وائسرائے ہند لارڈ منٹو اور سیکرٹری برائے ام ور ہن د لارڈ م ارلے کی مش ترکہ کوشش و ں س ے یہ قانونی مسودہ تیار ہو کر ایوان سے منظور کرایا گیا۔ اس لیے’’ منٹو م ارلے اص لاحات‘‘ کے ن ام س ے مش ہورسان پ ر مہرب ان ہ و گ ئے ہیںجب کہ ہن دئو لی ڈران مس لم ہوا۔ان واقعات نے مسلمان کو یہ باور کرای ا کہ انگری ز

تشخص اور قومیت کو ماننے سے ہی انکاری ہیں۔ تقسیم بنگال،مسلم لیگ کا قیام اور منٹو مارلے اصلاحات کے بعد اہم واقعہ تنس یخ بنگ ال ک ا ہے۔

ء میںجارج پنجم کی تاجپوشی کے پروگرام کے موقعہ پر’’تنسیخ بنگال‘‘ کے اعلان نے ہندو ،مسلم۱۹۱۱ااغاز کر دیا۔اس اعلان سے مس لمان انگریزحک ومت س ے مکم ل دل برداش تہ ہ و اتحاد میں ایک نئے باب کا

Page 108: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

107

ء ک و ط رابلس)لیبی ا( کی جن گ ش روع ہوگ ئی ۔یہ جن گ۱۹۱۱گئے۔ یہ زخم ابھی تازہ تھ ا کہ اس ی س ال ااغ از ہوگی ا اور ہندوس تانی مس لمانوں ک وخلافت عثم انیہ کی فک ر ابھی جاری تھی کہ بلق ان کی جنگ وں ک ا

لاحق ہوئی۔ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں: ’’مس لمانوں کے ہم م ذہبوں پ ر ہندوس تان کے ب اہر ج و مص ائب ن ازل ہ و رہے تھے ان س ے س خت ص دمہ محسوس کرکے مسلمانان ہند غصہ سے پاگل ہو گئے ۔ شاعر اقبال نے طرابلس کے زبردس تی قبض ہ پ ر خ وناانسوبہا ئے اور خدا سے اپ نی مظل وم قس مت کے خلاف ش کوہ کی ا۔انھ وں نے مس لمانوں ک و پک ارا کہ کے اازاد نے اپ نے ح الیہ ج اری ک یے ہ وئے )ج ون ، اس لام ک و پھ ر زن دہ ک ریں اور متح د ہ و ج ائیں۔۔۔اب والکلام

ااتش بار(۱۹۱۲ ہفتہ وار ’’الہلال‘‘ میں برطانوی پالیسی کی زندگی میں کھال کھینچنا شروع کیا۔ان کے ء( میں اخبار۱۹۱۱مضامین نے مسلم قوم کے اندر غصہ اور غضب کی ایک لہر دوڑادی۔محمدعلی نے )

ہی عمل پیدا کرنے کے ل یے ج اری کی ا۔ ’’کامریڈ‘‘ انگریزی اور اخبار’’ہمدرد‘‘ اردو میں مسلمانوں میں بیدار ظفر علی خان نے ’’زمیندار‘‘ لاہور میں بر ط انیہ کی م ذمت ک رتے ہ وئے اور ط نز س ے بھ رے ہ وئے مض امین

(۵لکھے۔‘‘) طرابلس اور بلقان کے شہیدوں اور زخمیوں کے لیے چندہ مہم شروع کی گئی ۔مسلمانوں نے ڈاکٹر

ء کوبمب ئی س ے ت رکی بھیج ا۔وف د ابھی ت رکی س ے واپس۱۹۱۲انص اری کی قی ادت میںای ک وف د دس مبر اان گھ یرا ۔ حک ومت نے توس یع س ڑک لاہورپہنچا ہی تھا کہ ہندوستانی مس لمانوں ک و ای ک اور مص یبت نے

۱۹۱۳ اگس ت ۳کے منص وبے میںمچھلی ب ازار مس جد ک انپور کے غس ل خ انوں ک و منہ دم کردی ا۔ ہن کانپورنے مزاحمت کرکے مسجد کی شہید کی گ ئی اینٹ وں ک و ہ اتھوں میں لے ک ر دوب ارہ اپ نی کومسلمانا جگہ پ ر رکھن ا ش روع کردی ا۔اس دوران پ ولیس نے مجس ٹریٹ کے حکم پ ر ف ائر کھ ول دی ا۔بچے،ب وڑھے، جوان،عورتیں سب گولیوں سے چھلنی چھل نی ک ر دیے گ ئے۔ہندوس تانی مس لمانوں ک و اس واقعہ نے س خت رنجیدہ کردیا اور وہ انگریزوں سے مزی د متنف ر ہوگ ئے۔ش عراء ، ادب اء س میت ان ڈین اخب اروں نے بھی اس واقعہاازاد نے اخبار ’’الہلال ‘‘ میں مسجد کانپورکے شہیدو ںس ے مخ اطب ہ و کی سخت مذمت کی ۔ابوالکلام

کر لکھا :

Page 109: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

108

’’مجروحین کانپور! تم نے گولیاں کھ ائی ہیں ،ن یزوں س ے تمھ ارے س ینوں میں س وراخ کی ا گی ا ہے۔تمھ اری اانکھوں میں سنگینیں بھونکی گئی ہیں۔تمھارے ایک ایک عضو کو زخموں سے چور کیا گیا ہے۔تمھیں یاد ہوگا کہ فرات کے کنارے بھی اسلام کا ایک قافلہ اسی طرح لٹا تھا جس کے بعد بنو امیہ کی تاریخ کا ورق

(۶الٹ گیا۔‘‘) ء می ںیورپ میں پہلی جن گ عظیم چھڑگ ئی۔جن گ میں دو اتح ادی گ روہ بن گ ئے ای ک۱۹۱۴

ااسٹریا اور،ہنگری‘‘ جس میں بعد میں ترکی نے بھی ش مولیت اختی ار ک ر لی ۔دوس ری ط رف طرف ’’جرمنی، برطانیہ،روس ،فرانس اور سربیا کا اتحاد ہو گیاجب کہ بعد میں اٹلی،یونان،پرتگال،روم انیہ اور ام ریکہ بھی اس@@ا دو کروڑ انسان)ای ک ک روڑ اتحاد میں شامل ہوئے۔چار سال تک یہ تباہ کن جنگ لڑی گئی۔ جس میں تقریب عوام،ای ک ک روڑ ف وجی( لقمہ اج ل بن گ ئے،لاکھ وں ل وگ بے س ہارا و بے گھ ر ہ و گ ئے۔پہلی م رتبہ جدی داالات استعمال ہوئے،فضائی،زمینی،بحری ہر قسم کی کارروائی کی گئی ۔اس جنگ کا خمیازہ ترکی جنگی کوبھگتنا پڑا کیوں کہ ترکی نے ایک فریق کی حیثیت س ے جرم نی ک ا س اتھ دے ک ر انگری زوں س ے دش منی مول لی تھی ۔ انگریزوں سے دشمنی ترکوں کو مہنگی پ ڑی کی وں کہ انگری زوں نے ترک وں کے خلاف عرب وںہت ساکسایا اور شریف حسین کی رہنمائی میں ت رک خلافت کے ٹک ڑے ٹک ڑے ک ر ڈالے۔ خلاف کو بغاوت پر چوں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو جان سے بھی زیادہ عزیز تھی اورانگری زوں نے خلافت کے سلس لے میںسان کے دل وں ک و ٹھیس پہنچ ا ئی ۔ان واقع ات نے مس لمانوں اپنے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کرکے میں انگری زی س امراج کے خلاف ش دید بغ اوت ک و جنم دی ا۔مس لمانوں کے س اتھ ہن دو بھی انگری زوں س ے

بدظن ہو گئے۔ ’’اردو ہندی تنازعے،منٹو مارلے اصلاحات ،جداگانہ ح ق انتخ اب اور تقس یم بنگ ال اور اس کی تنس یخ کے ساتھ ساتھ بیرونی سانحات ،یعنی طرابلس اور بلقان کے حادثات نے ہندوستانی مسلمانوں کو بہت متاثر کیاسان کی سیاست کا ایک ہیچانی دور شروع ہوا اور علی گڑھ تحریک کی محتاط روش کے خلاف ۔یہاں سے

ااغاز بھی یہیں سے ہوا۔‘‘) (۷ردعمل کا اس دور میں ہندوستان میںانگریزوں کی سرپرستی میں جدید تعلیم مروج ہ و چکی تھی۔ جدی د تعلیم نے اگر ایک طرف استعماری اثر رسوخ کو زیادہ واضح اور تیز تر کردیا تو دوسری طرف نئی نسل کوشعور اور

Page 110: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

109

سحب الوط نی ابھ ارنے میں اہم ک ردار اداکی ا۔ ہندوس تان س میت بین الاق وامی بیداری کا احساس دلاکران میں سطح پر ایسے واقعات رونما ہوئے جس کا براہ راست اثر ہندوستانیوں پر ہوا۔نئی نسل ایک نئی س وچ اور ول ولہسات ر پ ڑی۔ان اازاد ک رنے کے ل یے می دان میں اازم اہو نے اوراپ نی م ٹی ک و کے ساتھ استعماری طاقتوں س ے ن برد حالات میں ادباء اور شعر ا نے بھی وقت کی ضرورت محسوس کرتے ہ وئے ادبی س طح پ ر ع وام میں انگری ز

استعمار کے خلاف شعور پیدا کرنے کی سعی کی۔

)ب(سحب الوطنی کی روایت، سرسری جائزہ: اردو شاعری میں

سحب الوط نی ک ا ج ذبہ سحب الوطنی سے مراد اپنے وطن اور زمین س ے محبت ہے۔ ااسان لفظوں میں انسانی سرشت میں شامل ہے۔اس لیے ہر انسان میں کسی نہ کس ی ح والے س ے یہ ج ذبہ ض رور موج ود ہوت اہے۔وطن زمین کا وہ ٹکڑا ہ و ت ا ہے جہ اں انس ان نے جنم لی ا ہ و۔جہ اں انس ان کے عزی ز و اق ارب ہ وتے ہیں۔ااب وہوا،موسم،،رسم ہہذا وہاں کے ماحول، جہاں کی خاک میں انسان نے لڑکپن کے ایام گزارے ہوتے ہیں۔ل

و رواج،زبان،مذہبی اور تہذیبی اقدار سے محبت انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ شاعری میں بھی اس جذبے کی بھرپور عکاسی ملتی ہے ۔اردو شاعری س ے پہلے فارس ی اور ہن دیااغاز قطب شاہی اور ع ادل ش اہی دور شاعری میں دھرتی ماں کے حوالے موجود ہیں۔ اردو شاعری کا باقاعدہ ہہذا ساس دور میں زی ادہ ت ر مثن وی ک و پ ذیرائی ملی ل حکومت کے زمانے میں ہوا ۔ صنف ش اعری کے ح والے ساس دور کے مثنوی نگاروں نے اپنے دور کے تہذیبی ،سیاسی و معاشی ماحول کی عکاسی کرتے ہ وئے اپ نی م ٹی اور س رزمین س ے محبت ک ا اظہ ار کی ا ہے۔ نظ امی کی مثن وی’’ک دم رائ و پ دم رائ و‘‘، ملا وجہی کی’’قطب مشتری‘‘حسن شوقی کی’’جن گ ن امہ‘‘اور’’ فتح ن امہ‘‘ اور نص رتی کی ’’علی ن امہ ‘‘وغ یرہ اسسحب الوط نی کے ح والے ہر دور کی مشہور شعری تخلیقات ہیں۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اردو ش اعری میںتص و

سے لکھتے ہیں: ’’سیاسی اعتبار سے یہ وہ زم انہ تھ ا جب ش مال میں مغل وں کی حک ومت تھی اور جن وبی ہندوس تان چھ وٹیاامدورفت کی دشواری کے باعث ہندوستان میں وحدانی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔فاصلوں کی دوری اور

Page 111: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

110

تص ور اس وقت ق ریب ق ریب ن اممکن تھ ا۔ایس ی ص ورت میں وطن س ے محبت اور اس کی عظمت کے جذبات مقامی یا انفرادی طور پر تو پیدا ہ و س کتے تھے اور ہ وئے بھی لیکن ان میں وہ گہ رائی ی ا ہمہ گ یری

اائی۔‘‘) @@ا نئی روشنی اور قومی بیداری کے ساتھ (۸نہیں جو بعد میں خصوص

ی جیس ے جم ال دوس ت اور محبت کے ش یدائی نے اادم کہ ا جات اہے۔ول ی کو اردو شاعری کا ب او ولہمیشہ اپنے محبوب کے حسن و جمال کے ترانے گا ئے :

مدت سے میں نے گل بدن چھوڑا چمن کی سیر کومشتاق ہوں دیدار کا مجھ کو چمن سے کیا غرض

ی کے سامنے باتیں وطن کی مت کرو ہر گز ولجو یار کے کوچہ میں ہے اس کو وطن سے کیا غرض

(۹)سانھوں نے مزاحمتی رویہ اختیار کیا اوراپ نے لیکن جب یار کا کوچہ اغیار کے ہاتھوں میں چلا گیا تو سانھوں نے محبوب سے وطن کی محبت میں مثنوی’’ شہر سورت ‘‘کی تعریف میںبھی لکھی۔اس کے علاوہ

وا بستہ یادوں کے پس پردہ وطن سے محبت کا اظہار بھی کیا۔ ر ت ک برص غیر کے سیاس ی انتش ار اور مسلس ل ب دامنی نے اردو کے ک ئی ہد م ی ی س ے لے ک ر عہ ول بہترین شعراء کو جنم دیا۔ جن کی شاعری میںاس دور کی مکمل عکاس ی موج ود ہے ۔ان ش عراء کی تع داد ر کے ت ذکرے ’’نک ات الش عرا‘‘میں ای ک س و تین) ساس دور کے تذکرو ںسے لگایا جاسکتاہے ۔ می کا اندازہ

شعرا کا ذکرکیاگیا ہے۔ ان تمام شعرا کے ہاں حب الوطنی کے کچھ نہ کچھ ح والے ض رور موج ود( ۱۰۳سان نمائن دہ ش عرا ء ک ا ہیں لیکن طوالت کے خوف اور بنیادی ماخذ کے عدم دستیابی کی وجہ س ے ص رف

ااگے بڑھایا۔ ذکر کیا جائے گا جنھوں نے اس روایت کو ر نے اپنی شاعری میں دل اور دلی کو ایک ولی اکا ہے۔می و سود کے بعد شاعری کا بڑاحوالہ میر

سان کی ش اعری میں سان کا رونا دھونا ص رف گ ردش روزگ ا ر اور غم جان اں کی وجہ س ے نہیں بلکہ قرار دیا ۔ کی ہر دوسری تیسری غزل کے اشعار سدکھ درد کا بڑا حوالہ زمین سے وابستگی اور محبت کا بھی ہے ۔ میر

Page 112: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

111

سان کے ہ اں حب الوط نی ک ا ج ذبہ کبھی ش ہر دلی کی تب اہی وبرب ادی کی ااتی ہے۔ سے وطن پرستی کی ب و ساجاگر ہوتا ہے اور کبھی مغ ل بادش اہوں کی برب ادی کے اح وال کی ص ورت میں اس کااظہ ار ہوت ا شکل میں ر کی شاعری میں مغربی استعمار کے خلاف م زاحمت بھی اس سلس لے کی ہم ک ڑی تص ور ہے۔جب کہ می

کی جاتی ہے:

دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھےاائی اائی تصویر نظر جو شکل نظر

(۱۰)ہل جواہر تھے خاک پاجن کے شہاں کے کح

اانکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں سانہیں کی (۱۱)

دل کی ویرانی کا کیا مذکوریہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

(۱۲)

ہر وطن کو چور ڈاکوکہہ ک ر اپ نی وطن پرس تی ک ا اظہ ار کی ا ہے ۔ ا نے بھی اپنی شاعری میںغدا سود سانھوں نے اسی جذبے کے تحت بادشاہوں کی نااہلی ،عوام کی نا اتفاقی،سیاسی و معاش ی اب تری کے س اتھ

ساتھ سماج دشمن عناصر کو بھی تنقید کا نشانہ بنایاہے:یکا ہے اب جہاں دیکھو واں جھمیکا ہے ساچ چور ہے ، ٹھگ ہے اور ان سے رشوت لیے یہ بیٹھا ہے

اس کے دل میں یہ چور بیٹھا ہے(۱۳)

Page 113: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

112

ی نے بھی دلی اور لکھنوکی تباہی وبرب ادی ک و زمین سے محبت اور لگائو کے سلسلے میں مصحفاپنی شاعری کا موضوع بنایا اور فرنگی سامراج کی مخالفت کی:

ی لکھنو میں دلی سے مصحفاایا طے کرکے راہ دور و دراز

ساس سے کہیں لیکن اس خاک میں بھی کچھ نہ دیکھا بجز نشیب و فراز

(۱۴)ا اگ رہ ش ہر کی تب اہی و برب ادی پرافس وس کی اابادی کے ہاں حب الوط نی ک ا یہ ج ذبہ ر اکبر الہ نظی ش کل میں عی اں ہوت ا ہے ۔ مختل ف موس موں ک ا ذک ر،ش ہر کے میلے ٹھیلے،برس ات کی بہ اریں،روٹیاادمی کی فلاس فی جیس ے مختل ف موض وعات پ ر نظمیں لکھ ک ر انہ وں نے اپ نے علاقے اور ن امہ،بنجارن امہ،

ملک سے گہری وابستگی کا اظہار کیا ہے:

جب دوست مل کے لوٹیں اسباب مشفقوں کاپھر کس زباں سے شکوہ اب کیجے دشمنوں کا

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کایاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا

(۱۵)ہر وطنیت اور حب اوطنی کے متعلق نیاز فتح پوری لکھتے ہیں: اابادی کے تصو نظیر اکبر

’’کلاسیکل اردو شاعری میں وطنیت کا عنصر ہم کو بہت کم یا بالکل نہیں ملتا۔ہو سکتا ہے کہ عہد میر ایا اس سے قبل خال خال کوئی ایسا شعر مل ج ائے جس ک و ہم کھینچ ت ان ک ر ج ذبہء وط نیت س ے و سودہی منسوب کرے۔۔۔کلاسیکل شعرا میں سب سے پہلا شاعر جس ک و احس اس کی اس گم راہی س ے مس تثناابادی تھا ۔اس کو بیش ک اپ نے وطن،اپ نے وطن کی چ یزوں،اپ نے وطن کی ر اکبر قرار دیا جاسکتا ہے ۔ نظی

Page 114: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

113

ساس نے ان تمام باتوں کا ذکر کی ا اس س ے ظ اہر روایات سے بڑی محبت تھی۔اور جس طرح لہک لہک کر (۱۶ہوتا ہے کہ وہ بڑا وطن پرست شاعر تھا۔‘‘)

ق ی،خلی ا،ش اکرناج ت،انش نا م،ج ر و،ش اہ ح ات ااب ر ں، ں،تاب ا خ،فغ ا ش ،ناس اات ن، د،م وم ان کے علاوہ در ن نے بھی اپنے دور کی بھرپورعکا سی کی اور اپنے مخصوص پیرائے میں حب الوطنی کا اظہ ار کی ا۔ اوریقی

سحب الوطنی کے کے بارے میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں: ان شعراء کے جذبہ ’’وطنیت کے جذبات کا جو ہر ان کے خلوص اور ان کی سادگی و اصلیت میںہے۔اس میں ش ک نہیں کہااج ہم ق ومی اور یہ جذبات انفرادی نوعیت کے ہیں۔ان کی تنظیم کسی ایس ے ش عور س ے نہیں ہ وئی جس ے وطنی شعور کہتے ہیں،اور نہ ان کی بنیادی اجتماعیت ہی پر ہے ۔لیکن اس کے باوجود یہ اتنے مح دود بھی نہیں کہ انھیں محض نجی یا ذاتی کہہ کر رد کیا جائے ۔ان میں ملک و قوم کا تص ور نہ س ہی لیکن ای ک

(۱۷حد تک یہ اپنے معاشرے اور اپنے سماج کا احاطہ ضرور کرتے ہیں۔‘‘)اردو شاعری میں حب الوطنی کا نیا دور انجمن پنجاب اور تحری ک علی گ ڑھ س ے ش روع ہوت ا ہے۔سان کی ق ومی سان کی نظم’’مس دس ح الی‘‘ ی ک ا بنت ا ہے۔ اس دور میں اہم ح والہ مولان ا الط اف حس ین ح ال شاعری کا بین ثبوت ہے۔ اس نظم میں مس لمانوں کے ع روج وزوال کی ت اریخ بی ان کی گ ئی ہے لیکن نظمسان کی حب الوطنی کی بہ ترین سحب وطن‘‘ یکی نظم ’’ کی پوری فضا اور اس کا ماحول ہندوستانی ہے۔حال

مثال ہے:اے وطن اے مرے بہشت زریں

ااسماں و زمیں کیا ہوا تیرے رات اور دن کا وہ سماں نہ رہا

ااسماں نہ رہا وہ زمیں اور االام تیری دوری ہے مورد

اارام تیرے چھٹنے سے چھٹ گیا کاٹے کھاتا ہے باغ بن تیرے

گل ہیں نظروں میں داغ بن تیرے

Page 115: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

114

چھٹ گیا نقش کامرانی کاتجھ سے تھا لطف زندگانی کا

(۱۸)سدکھ درد کے س اتھ انگری زوں کے ی نعم انی کی ش اعری میں ع الم اس لام اور مس لمانوں کے ش بل ہاتھوںہندوستانیوں کے کشت خون کا رونا نہایت معنی خیز ان داز میں موج ود ہے۔ش بلی کے ہ اں قوم وں میںسان کے خیال میںانہیں بنی ادوں ااہنگی ‘‘ سے وابستہ ہے۔ اازادی کا فروغ ’’حب الوطنی‘‘ اور ’’مذہبی ہم جذبہ

ہہ ہو: سان کی نظم ’’مذہب و سیاست‘‘کے چند اشعار ملاحظ پرملکی ترقی کا انحصار ہے۔ساٹھا کر دیکھو تم کسی قوم کی تاریخ

دو ہی باتیں ہیں کہ جن پر ہے ترقی کا مداریا کوئی جذبہ دینی تھا کہ جس نے دم میں

کر دیا ذرہ افسردہ کو ہم رنگ شراریا کوئی جذبہ ملک وطن تھا جس نے

کر دیئے دم میں قوائے عملی سب بیدار(۱۹)

ی کی شاعری میں حب الوطنی اورمذہب پرستی کے بارے میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ لکھ تے شبلہیں:

’’شبلی کی سیاسی نظموں کے مطالعے سے یہ بات واض ح ہ و ج اتی ہے کہ وہ اپ نے زم انے کے معرک وں اور ہنگاموں کو محدود م ذہبی اور دی نی نقطئہ نظ ر س ے نہیں بلکہ وط نی اور ق ومی زاویے س ے انہیں ای ک ب ڑے

(۲۰سانچے کا جزو بنا کر دیکھتے تھے۔‘‘)ااخیر میں اردو ہن دی تن ازعہ، سرس ید ک ا ’’دو ق ومی نظ ریہ‘‘ ہندوستان میں اٹھارویں صدی کے نصف ااغ از میں تقس یم بنگ ال چندایس ے واقع ات اورہندو مسلم فسادات ،ک انگرس ک ا قی ام اورانیس ویں ص دی کے سابھارن ا تھے جس نے حب الوط نی کے تص ور میںمش ترکہ ق ومیت کی بج ائے ج داگانہ ق ومیت کے خی ال ک و

Page 116: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

115

شروع کیا۔تاہم مغربی استعمار کے خلاف مزاحمت کے تسلسل میں اس دور کے شعرا کے ہاں حب الوطنیکی ایک نئی سوچ اور جذبے نے فروغ پایا۔پروفیسر ڈاکٹر سہیل احمد لکھتے ہیں:

’’بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں مغ ربی اس تعمار کے خلاف م زاحمت کی پہلی اور اہم ک ڑی حبااخ ری عش روں میں جنم لی نے والی محبت کی الوط نی کی روایت تھی۔جس ک ا رش تہ انیس ویں ص دی کے روایت س ے ج ڑا ہ وا ہے۔اس روایت کی تش کیل میں انجمن پنج اب اور علی گ ڑھ تحری ک کے مقاص د نے

(۲۱نمایاں کردار ادا کیا۔‘‘)سحب الوط نی کے تص ور میں وہ وح دت ،اجتم اعیت اور گزش تہ ادوار میں ش عرا کے ہ اں ق ومیت اورااخ ر اوربیس ویں ص دی کے نص ف ا ول کے ش عراء کے کلیت ہرگز نہیں تھی جو انیسویں صدی کے نصف ساجاگر ہوئی۔کیونکہ اس دور سے پہلے شعراء کوصحیح معنوں میں یہ اندازہ ہی نہیں تھ ا کہ غ ریب الوط نی ہاں یا غلامی کیا ہوتی ہے؟۔اپنی زمین سے کٹ کر لوگ کیسے رہتے ہیں؟۔جب اس تعمار ی تس لط نے یہ اں پ ر جبر و تشدد کی انتہا کردی اورمعدودے چند انگریزوں نے یہاں کی زمین اور وسائل پر قبضہ کرلیا تب یہاںاازادی کی ن ئی لہ ر نے کے باشندوں کو اس نعمت کا صحیح اندازہ ہونے لگا، دوسری ط رف پ وری دنی امیں جنم لیا جس کے زیر اثر ہندوس تانیوں میں بھی حب الوط نی کے ج ذبے ک و ف روغ ملا۔ڈاک ٹر درخش ا ںت اجور

سحب الوطنی کے بارے میں لکھتی ہیں: اس دور کے اائیں۱۹۱۵’’بیسویں ص دی کی ش روعات س ے ء ت ک کے دور میں بے ش مار ایس ی نظمیں منظ ر ع ام پ ر

جس میں ہندوس تان س ے بے پن اہ عقی دت اور محبت کے ج ذبات ک ا اظہ ار کی ا گیاتھ ا۔حب الوط نی کے احساسات سے مملو ان نظموں میں وطن دوستی کے تصورات کو عام کرکے اہل ہن د کے دل وں میں ح رکت و توان ائی کی روح پھ ونکی ان کے وطن پرس تانہ ج ذبات ک و مس تحکم ک رکے انھیں غاص ب غ یر ملکی

(۲۲حکمرانوں کی مخالفت میں سینہ سپر ہونے میں مدد دی۔‘‘) کی شاعری میں بھی وطن دوس تی اور حب الوط نی کی(۱۹۲۶-۱۸۸۲ پنڈت نرائن چکبست)

سان ک ا ش عری سان کی شاعری کی مرکزی اکائی انسان دوستی اور وطن پرس تی ہے۔ بہترین مثالیں موجود ہیں ۔ ہک وطن،وطن ک و ہم وطن ہم ک و مب ارک،رام ائن ک ا ای ک مجم وعہ’’ص بح وطن‘‘ کے ن ام س ے ہے۔’’ خ ا

Page 117: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

116

س ین،ق ومی مس دس‘‘ وغ یرہ جیس ی نظم وں س ے م زین اس مجم وعے میں حب الوط نی اور وطن دوس تی ک اجذبہ اپنے عروج پر دکھائی دیتاہے :

ہمارا وطن دل سے پیارا وطناانکھوں کا تاراوطنیہ ہندوستان ہے ہمارا وطن محبت کی

ہماراوطن دل سے پیارا وطنوہ پھل پھول اور پھلواریاںوہ اس درختوں کی تیاریاں

ہمارا وطن دل سے پیارا وطنوہ پتوں کا پھولوں کا منہ چھومناہوا ئیں درختوں کا وہ جھومنا

ہمارا وطن دل سے پیارا وطنوہ برسات کی ہلکی ہلکی پھواروہ ساون میں کالی گھٹا کا بہار

(۲۳ہمارا وطن دل سے پیارا وطن) ت کی وطن دوستی اوروطن پرستی کے بارے میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں: چکبس

’’چکبست کے نزدی ک ای ک غلام ق وم کے ل یے وطن دوس تی کی ق در س ب ق دروں س ے اہم ہے اور ان کی(۲۴شاعری کا قصر انھیں بنیادوں پر قائم ہے۔‘‘)

م) ت کے علاوہ تل وک چن د مح رو کی ش اعری ک ا بھی مرک زی موض وع(۱۹۶۶-۱۸۸۷چکبس اازادی کے سان کے نزدی ک ہن دو مس لم اتح اد و اتف اق اور م ذہبی رواداری ہی وطن دوستی اور وطن پرستی ہے۔سانھوں نے بہت سی ایسی نظمیں لکھیں جن س ے حصول اور استعماری تسلط سے نجات کاواحد راستہ تھا۔@@ا ’’بھ ارت مات ا کی وں روتی ہس پ ردہ وطن دوس تی اور وطن پ روری عی اں ہ وتی ہے۔مثل فط رت پرس تی کے پہم ہح وطن اور ش ا ہن وطن ،اپن ا وطن، ص ب ہ وطن،محب ا ہے،ہندوستاں ہمارا،ہندومسلم،غ ریب وطن،س وز وطن،غ دار

سان کی حب الوطنی کی دلیل ہیں: وطن‘‘جیسی نظمیں ’’ہندوستاں ہمارا‘‘

ساجڑ چلا ہے اے باغباں ہمارا گلشن ااشیاں ہمارا ہونے کو تنکے تنکے ہے

Page 118: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

117

ہلہی اب خاک چھانتے ہیں کس دشت میں اااب رواں ہمارا بادبہار اپنی

مت چھیڑ دل جلوں کو ایسانہ ہو کہ تجھ کوہز نہاں ہمارا اے چرخ پھونک ڈالے سو

ہندو ہیں یا مسلمان ہم اہل ہند ہیں سب م مشترک ہے سوز و زیاں ہمارا محرو

(۲۵)

م ذکورہ دور کے ش عراء نے ق ومی ی ک جہ تی،اتف اق و اتح اد پ ر زور دی ا ۔ان ش عراء کے خی الاازادی حاصل کرنی چاہیے۔لیکن ہندوستانی سیاست کے بدلے ہ وئے تن اظر میں میںہندوستانیوں کو متحد ہوکر الگ مذہبی اور قومی شناخت کی تصویر کشی بھی اس دور کی شاعری کا خاص اہے ۔ی وں دو ق ومی نظ ریے کے زیر اثر وطن پرستی اور قومی پرستی کے معنی تبدیل ض رور ہ وئے لیکن مغ ربی اس تعمار کے خلاف پ روان چڑھنے والے جذبہ حب الوطنی میں کسی قسم کی مفاہمت یا تبدیلی کو قبول نہیں کیا گیا ۔مقامی س طحساٹھائی گ ئی ااواز پرمذہبی ، قومی اور علاقائی تعصبات کے باوجود مغربی استعمار کے خلاف ہر پلیٹ فارم پر ااب ادی اگ رچہ ہمیش ہ س ے انگری ز س امراج کے خلاف تھے مگ ر وہ ہن دو مس لم اتح اد اور مش ترکہ الہ ۔ اکبرسان کے خیال میں جس طرح انگریزاسلامی تشخص اور م ذہب کے ل یے قومیت کے کبھی حامی نہیں رہے ۔ بڑا خطرہ ہیں اسی طرح ہندوئوں کے ساتھ اتحاد بھی مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ۔اس پ وری ص ورت ح ال

کا ذکر وہ اپنی نظم’’گاندھی نامہ‘‘ میں کچھ یوں کرتے ہیں :اایا ، نئی دنیا ، نیا ہنگامہ ہو! انقلاب

شاہ نامہ ہو چکا ، اب دور گاندھی نامہ ہو(۲۶)

ااب زمزم سے کہا میں نے ملا گنگا سے کیوں؟

Page 119: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

118

ااگئی؟ کیوں تری طینت میں ایسی ناتوانی ااپ دیکھیں ذرا؟ وہ لگا کہنے کہ ’’حضرت‘‘ ااگئی بند تھا شیشے میں اب مجھ میں روانی

(۲۷)بقول ڈاکٹر معین الدین عقیل:

سبعد اور مفادات کی کش مکش جس انداز سے ہل چل پیدا ک ر رہی تھی ’’ہندوئوںاور مسلمانوں میں نظریاتی (۲۸،اکبر نے اس کا مشاہدہ کیا۔‘‘)

اقبال کی ابتدائی دور کی شاعری میں وطن پرستی کا رجحان غالب ہے ۔ انہوں نے نیچ رل ش اعری کی اور مظاہر فطرت کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔اقبال نے اپ نی ش اعری میں ہندوس تان کے ص حرا، اب ر،ااب وہ وا اور م احول ک ا ذک ر بہ ترین کوہسار، جنگل، دریا، پرندے، ج انور، ن دیاں، چش مے،چمن، باغ ات،ہ درا کی ابتدائی نظم وں میں ج ذبہ حب الوط نی اور ق وم پرس تانہ ج ذبات ک ا اظہ ار پیرائے میں کیا ہے۔بانگہر اپنے عروج پ ر ہے۔نظم ’’ت رانہ ہن دی،ہندوس تانی بچ وں ک ا ق ومی گیت اور تص ویر درد‘‘ س ے اقب ال ک ا تص وااتا ہے۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال ایک ایسے وطن کے خواہ اں تھے جہ اں وطنیت واضح ہو کر سامنے اازادی کے حصول اور غلامی سے نج ات اازادی ہو۔ امن ہو،خوشحالی ہو،اتفاق و اتحادہواور سب سے بڑھ کر

کے لیے اقبال نے بھی ہندوستانیوں میں اتفاق و اتحاد پر زور دیا ہے:’’تصویر درد‘‘

نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میریخموشی گفتگو ہے،بے زبانی ہے زباں میری

ہر زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں یہ دستویہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

ساٹھائے کچھ ورق لالے نے ،کچھ نرگس نے ،کچھ گل نےچمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری

سقمریوں نے ، طوطیوں نے ، عندلیبوں نے ساڑائی

Page 120: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

119

(۲۹چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری)

’’ترانہء ہندی‘‘سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہماراہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میںسمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہماراااسماں کا پربت وہ سب سے اونچا ہمسایہ

وہ سنتری ہمارا ، وہ پاسباں ہمارا گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاںگلشن ہے جن کے دم سے رشک جناں ہمارا

ہد گنگا وہ دن ہیں یاد تجھ کو ہب رو اا اے ساترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا

ااپس میں بیر رکھنا مذہب نہیں سکھاتا ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

(۳۰)ہندوستانی بچوں کا قومی گیت

چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایانانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا

تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایاجس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا

میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے(۳۱)

Page 121: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

120

ہندوس تان میں ک ئی ص دیوںتک ہندواورمس لمان کے درمی ان بھ ائی چ ارے کی فض ا ق ائم رہی ۔ال گ الگ مذاہب سے تعلق رکھنے کے باوجود ہندو اور مس لمان ای ک دوس رے کی م ذہبی روای ات ،عقائ د واق داراام د کے بع د یہ دوس تی اور بھ ائی چ ارہ ک و ع زت و تعظیم کی نگ اہ س ے دیکھ تے تھے۔لیکن انگری ز کی

دشمنی میں تبدیل ہو گیا۔اپنی نظم ’’نیا شوالہ‘‘ میں اقبال نے ہندو مسلم اتحاد پرزور دیا ہے:’’نیا شوالہ‘‘

سبرا نہ مانے سچ کہ دوں اے برہمن !گر تو سبت ہوگئے پرانے تیرے صنم کدوں کے

اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھاجنگ وجدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نےااخر دیر و حرم کو چھوڑا اا کے میں نے تنگ واعظ کا وعظ چھوڑا ، چھوڑے ترے فسانےسخدا ہے سمورتوں میں سمجھا ہے تو پتھر کے

ہک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے خا(۳۲)

سحب الوط نی کاتص وربالکل ج داگانہ اور انف رادی ن وعیت ک ا حام ل ہے ۔ اقبال کا وطنیت،ق ومیت اور ء میں سفر ی ورپ س ے واپس ی کے بع د۱۹۰۸ء تک وہ مشترکہ قومیت اور وطنیت کے پرستار رہے۔۱۹۰۵

سانھ وں’’ ملت ’’وطنیت‘‘کے اس محدود تصور کی مخالفت کی اور اسے مذہب ک ا کفن کہ ا۔اس دور میں اسلامیہ‘‘کا تصور پیش کیا ۔خلافت کے زوال کے بعد مسلمانوں کی نظریںافغانستا ن میں غازی امان اللہ پ رسامی د بھی جل د ختم ہوگ ئی۔ نظ ریہ ساس کی عظمت کے گیت گ ائے لیکن یہ مرکوز ہو گئیں تواقب ال نے بھی ملت کو عملی طور پر بروئے ک ار لانے کے ل یے انھ وں نے ہندوس تانی مس لمانوں کی ای ک ال گ ریاس ت ک ا

ااب اد کے خطبہ۱۹۳۰خواب دیکھا اوراسی مقصد کے حصول کے لیے اقبال نے ء ک و مس لم لی گ کے الہ میں ای ک اس لامی ریاس ت کے حص ول ک ا تص ور پیش کی ا۔ڈاک ٹر گ وپی چن د نارن گ،اقب ال کے تص ور

وطنیت،قومیت اور ملت کے بارے میں لکھتے ہیں:

Page 122: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

121

’’عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ سفر یورپ کے بعد ہندوستا ن کے لیے اقبال کا ج ذبہ محبت س رد پ ڑ گی ا۔ن ہندی کی جگہ ترانہ ملی نے لے لی۔وہ مشترکہ قومیت اور ق ومی تہ ذیب کے داعی نہ رہے ی ا ای ک نق اد ترانہ@@ا ک یے ج اتے کے الفاظ میں وہ’’فرقہ پرست اور کٹر م ذہبی مفک ر‘‘ بن گ ئے۔اس قس م کے اعتراض ات عموم ہیں اور شاید کیے جاتے رہیں گے۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ سفر یورپ کے دوران ان کے وطنی نظری ات میں ج وسان کے ش عور کے ارتق ا کی وجہ س ے تھی۔اس کے بع د ان ک ا ذہ نی اف ق وطن اور ق وم کے اائی ،وہ تب دیلی سان کی نظ ر سان کے س امنے اب کس ی ای ک مل ک ک ا مس ئلہ نہ تھ ا ،بلکہ محدود دائرے تک محدود نہ رہا۔

( ۳۳انسان،کائنات اور خدا کے باہمی تعلق کے ابدی سوال پر پڑنے لگی تھی۔‘‘) وطن پرستی کے حوالے سے مذکورہ دور کے شعرا میں ایک اور اہم شاعر مولانا ظفرعلی خ ان تھے۔ سانھوں نے قومی شاعری کے ذریعے ہندوس تانی س رزمین پرمغ ربی اس تعمار کے خلاف م زاحمت کی جدوجہ دسانھوں نے ہندوستانیوں کو بیدار کرنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کی ا جس س ے اہ ل میںبنیادی کردار ادا کیا۔ ہند میں بیداری اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے ک ا ش عور بی دار ہ و س کتا تھ ا۔وطن س ے ش دید محبت کی بناء پر انھوں نے انگریز استعمار کی ہمیشہ مخالفت کی۔انہ وں نے انگری ز دوس تی کی ہمیش ہ س ے مخ الفتاازادی کی جدجہ د میں پس سان کے اپنے دوست،ہم مذہب اازادی کے گیت گائے۔یہاں تک کہ اگر کی اور سان کے سبرا بلا کہ نے س ے بھی گری ز نہیں ک رتے تھے۔ایس ے موقع وں پ ر سانھیں و پیش سے کام لیتے تو مولانا سان کے اس ش دید ردعم ل کے پیچھے بھی وطن پرس تی لہجے میں ط نزاور ک رختگی پی دا ہوج اتی تھی ۔

کارجحان کارفرما رتھا ۔ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار لکھتے ہیں:ساس کی تعریف و توصیف ’’جب تک کوئی شخص ظفرعلی خان کے خیال میں صحیح راہ پر گامزن رہا،وہ ساس سے کوئی لغزش ہوئی ی ا ظف رعلی خ ان کے نقطہء نظ ر س ے وہ ص حیح راہ کرکے دل بڑھاتے رہے،جہاں ساس بدبخت کی ط رف پھ یر دی ا۔اب دنی ا کی ک وئی ط اقت سرخ سے بھٹکا ،انھوں نے اپنے قلم کی توپ کا ساس کی س ابقہ خ دمات ک و بھی س فارش اسے طنز و ہجو کی اس شدید گ ولہ ب اری س ے نہیں بچ ا س کتی۔

(۳۴کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا‘‘) مولانا ظفرعلی خ ان نے کس ی ذاتی مف اد ی ا عن اد کی بن ا پ ر کبھی کس ی س ے س خت لہجے میں ب ات ت ک نہیں کی۔لیکن جب ب ات ق ومی ت نزلی ،معاش ی ومعاش رتی ب دحالی ، اخلاقی گ راوٹ ،ع دم

Page 123: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

122

مساوات،ناانصافی اور سیاسی ع دم اس تحکام کی ہ و تی ت و پھ ر وہ لگی لپ ٹی کہ نے کی بج ائے بلاواس طہ پ یرایہ اظہ ار میں دش نام ط رازی ت ک پہنچ ج اتے تھے۔مولان ا ظف رعلی خ ان چ وں کہ ای ک ش اعر س ے زی ادہااتا ہے۔ وہ ہندو مسلم اتح اد ک ا سان کے افکار میں بھی تنوع نظر صحافی اور سیاست دان بھی تھے اس لیے سان کے لیڈروں کو حامی دکھائی دیتے ہیں لیکن کبھی کبھارحا لات و واقعات سے مجبور ہوکر ہندو قوم اور سبدھی،کی ا پ دی اور کی ا پ دی ک ا بھی ب را بھلا کہہ دی تے ہیں۔’’جرنی ل ڈائ ر کی ی اد میں،ش دھی کی ااف ان ڈیا شوربہ،لڈو،گ وری بلا،ٹوڈی وں کی کھیپ،گنگ ا اور زم زم، ی ورپ ک ا بین الاق وامی ق انون، گ ورنمنٹ

ء)اس تعمار کی بھینس ک ا ان ڈا(، گان دھی کی لنگ وٹی‘‘ جیس ی نظم وں میں یہی۱۹۳۵ایکٹ مج ریہ کرختگی پائی جاتی ہے۔

مولانا ظفرعلی خان کی شاعری کا اگر مجموعی تناظر میں تجزیہ کیا جائے تویہ حقیقت کھ ل ک ر ء ت ک ک انگرس س ے۱۹ ۳۶واضح ہو جاتی ہے کہ وہ ہمیشہ ہندو مس لم اتح اد و اتف اق کے ح امی رہے۔

اازادی حاص ل ک رنے کے ل یے مش ترکہ جدوجہ د سان کے نزدی ک مغ ربی اس تعمار س ے وابس تہ رہے کی ونکہ سان کے ک ئی نظم وں میں مش ترکہ ہندوس تانی ق ومیت اور حب الوط نی کی فض ا کارگرث ابت ہ و س کتی تھی۔

موجود ہے:’’ہندوستان‘‘

ناقوس سے غرض ہے نہ مطلب اذاں سے ہےمجھ کو اگر ہے عشق تو وہ ہندوستاں سے ہے

تہذیب ہند کا نہیں چشمہ اگر ازلاائی کہاں سے ہے یہ موج رنگ رنگ پھر

ذرے میں گر تڑپ ہے تو اس خاک پاک سےااسماں سے ہے سسورج میں روشنی ہے تو اس

ہے اس کی دم سے گرمی ہنگامہ جہاںمغرب کی ساری رونق اسی اک دکاں سے ہے

(۳۵)

Page 124: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

123

نظم کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا ظفرعلی خان نہ مذہبی طور پر تعص ب پسندش خص تھے اور نہ وہ فرقہ واریت کے حامی ۔بلکہ وہ مشترکہ ہندوستان اور مشترکہ تہذیب کے داعی تھے جہاں تم ام م ذاہبسان کی ای ک اور نظم ’’ناٹ ال اور ہندوس تان‘‘ کے چن د اازادی حاصل ہو۔اسی ط رح کے پیروکاروں کو مکمل اشعارملاحظہ ہوں جس میں اپنی سرزمین سے محبت اور دیار غیر کے تسلط پر غم و خزن کا اظہار کی ا گی ا

ہے:(۱)سسنا ہے درد دل رکھتا ہے اے ہندوستاں تو بھی

جگر کے خوں کو دے سکتا ہے پلکوں کا نشاں تو بھیسسنی ہے ہم نے ٹن ٹن پال کے گرجا کے گھنٹے کی

بجا مندر میں سنکھ اور دے مساجد میں اذاں تو بھی(۲ )

یہ کیسا دیس ہے جس دیس کے ہم رہنے والے ہیںہر بلا ہیں اور خطا یہ ہے کہ کالے ہیں گرفتا

غنیمت تھا قفس میں بال و پر کا پھڑ پھڑا لینامگر صیاد نے افسوس وہ بھی نوچ ڈالے ہیںنچائیں گے اسے اک روز بوئر ناچ تگنی کا

ااستیں میں سانپ پالے ہیں یہ انگلستان نے اپنی (۳۶)

ہن وطن سے خطاب‘‘ ’’نوجواجکڑے رہوگے کب تک مغرب کے بندھنوں میں

کب تک رہے گی تم پر غیروں کی حکمرانیوہ سلطنت ہوئی کیا ہندوستاں میں جس کی

ااخری نشانی اورنگ زیب اعظم تھا

Page 125: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

124

مل جائو ہندوئوں سے اور دونوں مل کے کر لواپنے وطن میں کر لو ایک ایسی راجدھانی

اانکھ سے جو دیکھے شیخ و برہمن کو ایک کرتا ہو عدل جس کا دونوں کی پاسبانی

(۳۷)

اام د ظفر علی خان ہندو مسلم اختلاف کی وجہ فرنگی س امراج قراردی تے تھے۔س امراجی قوت وں کی سے پہلے ہندوستان میں قومی اور مذہبی سطح پر بھائی چارے کی فضا موجود تھی۔ر ہن س ہن کے ط ریقے ،مذاہب اور رسم وراج الگ ہونے کے باوجود لوگوں میں اتحاد اوراتفاق کا ج ذبہ موج ود تھ ا لیکن س امراجیااپس میں ل ڑانے کی منص وبہ بن د ی کی گ ئی اور ہندوس تان کے سازش وں کے ذریعے ہندوس تانی قومیت وں ک و باشندے خود ایک دوسرے کے خون کے پیاس ے ہ و گ ئے۔ ظف ر علی خ ان کی یہ دی رینہ خ واہش تھی کہ یہ

بکھرے ہوئے لوگ دوبارہ اکٹھے ہو جائیں اور سامراجی قوتوں کی تسلط اور اجارہ داری کو ختم کردیں:مسلماں اور ہندو پیشتر تھے متفق دونوں

اادھمکی یہ ناچاقی کہاں سے بیچ میں کمبخت اسی نے امن کا شیرازہ برہم کر دیا اکثر

ہس عیش و طرب یک لخت برہم کی اسی نے مجل(۳۸)

اازاد ہو ااپہنچا کہ یا مر جائو یا وقت ہر انقلاب تخت یا تختہ ہے حکم تاجدا

(۳۹)

ااجائے سمجھ اا پہنچا کہ اپنوں کو یہ وقت اختلاف اس ملک میں جتنا ہے بیگانوں سے ہے

Page 126: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

125

(۴۰) مولانا ظفر علی خان کی شاعری پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک محب وطن ہندوستانی مسلمان تھے ۔ انہیں اپ نے مس لم تش خص کے س اتھ س اتھ ہندوس تانی ہ ونے پ ر بھی فخ ر تھ ا لیکن جب جبسان کی مسلمانیت کے راستے میں حائل ہوئی انہوں نے اس لامی مف اد ک و ہی مق دم جان ا۔اس ی ہندوستانیت لیے اس لام اور مس لمانوں کے مف اد کے پیش نظ ر انہ وں نے دو ق ومی نظ ریے کی حم ایت کی۔ ح الانکہ وہہر اسلام کو وہ کبھی برداشت نہیں کرتے تھے جہاں کہیں کسی عم ل شروع ہی سے کانگریسی تھے ۔ غدا ،واقعہ یا تحریک اسلام اور مسلمانوں کو زک پہنچانے کی کوشش ہوتی تو مولانا سیخ پ ا ہ و ج اتے اورمع اف ک رنے ک ا ن ام نہیں لی تے تھے۔ای ک ط رف تقس یم بنگ ال کے سلس لے میں ہن دوئوں کے متعص بانہ رویے کی شدید مذمت کی ت و دوس ری طرفتحری ک خلافت میں گان دھی جی کے مثبت ک ردار ک و س راہتے رہے لیکن

اازاد جیسے لیڈروں کو بھی نہیں بخشا۔ جب کانگریس سے الگ ہوئے تو انہوں نے گاندھی اورابوالکلام

)ج(ء تک مولانا ظفرعلی خان کی شاعری میں مغربی استعمار کے خلاف مزاحمتی رویے:۱۹۱۴

ااغاز بیسویں ص دی س ے ہوت اہے۔بیس ویں ص دی مولاناظفرعلی خان کی مزاحمتی شاعری کا باقاعدہ ویس ے بھی دنی ا کی ت اریخ میں ب ڑی ہیج ان انگ یز ص دی ث ابت ہ وئی۔م ذکورہ ص دی کے ح الات نہ ص رف ہندوستان پر اثرانداز ہوئے بلکہ دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریوں ،روسی انقلاب،پرولتاریت ،ق وم پرس تی،ایٹمیاابادی میں بے تحاشا اضافہ جیس ے مس ائل کی وجہ س ے قوم وں اور کیمیائی ہتھیاروں کی ایجاد،گلوبل دنیااور کی طرز زندگی اور تہذیبوںمیںخاصی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ جس نے فردکی ذہنی اورروحانی حالت کو یکسراازادی کے ش عو ر نے جنم لی ا اور ی وں دنی ا کے نقش ے میں ن ئے تب دیل ک رکے رکھ دی ا۔ محک وم قوم وں میں

اائے۔ سابھر کر سامنے ممالک اانکھ وں ساس نسل سے ہے جس نے ہندوستان کے تین اہم ادوار کو اپنی مولانا ظفرعلی خان کا تعلق ااخ ری عش رے میں انھوں نے ہ وش س نبھالا۔ اس دور ک و ہندوس تان کی ت اریخ سانیسویں صدی کے سے دیکھا۔ہر اصلاح سے منسوب کیا جاتا ہے ۔وہ باقائدہ طور پر تحریک علی گڑھ ک ا حص ہ رہے۔’’افس انہ‘‘ اور میں دو

Page 127: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

126

ہی ن دی کی طغی انی پ ر اپ نی ’’دکن ریویو‘‘کے پرچے نکالے۔مختلف کتابوں کے تراجم ک یے۔دکن میں موس ہف ع ام میں دور انقلاب س ے ہر محشر‘‘ لکھی ۔بیسویں صدی ک ا نص ف اولجس ک و ع ر طویل تر نظم ’’شو منسوب کیا جات اہے کے روح روا ں رہے۔بیس ویں ص دی کے ابت دائی عش روں میںرونم ا ہ ونے والے اہم واقع اتاانے والے ح الات و واقع ات کے متعل ق انہ وں نے ش اعری کے ذریعے اپن ا ہم ہن د ت ک پیش س ے لے ک ر تقس یاازادی‘‘ کی منظ وم سان کی ش اعری ’’ہندوس تان کی جدوجہ د ردعمل عوام کے سامنے پیش کیا۔اس ل یے ت و

اازادی یع نی تقس یم کے بع د ک ا ہے کی وں کہ ۱۴داستان تصور کی جاتی ہے۔ان کی زندگی ک ا تیس را دور ء کے بع د بیم اری۱۹۴۶ ء تک زندہ رہے۔گ و کہ ۱۹۵۶ نومبر ۲۷ ء کے بعد بھی وہ ۱۹۴۷اگست

ہن عزیز پاکستان کے باعث تخلیقی اور صحافتی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی تا ہم پھربھی وطکے ترانے گاتے رہے۔ شورش کاشمیری لکھتے ہیں:

@@ا ان وق ائع و ح وادث کی ای ک ت اریخ ہے ج و ہندوس تان میں برط انوی عہ د میں پیش ’’ان کی ش اعری اص ل ء ت ک ہندوس تان میں جت نے ہنگ امے برپ ا ہ وئے،جت نی تح ریکیں۱۹۴۰ء س ے لے ک ر ۱۹۰۱ااچکے ہیں۔

سابھریں،جتنے معرکے رچائے گئے،جتنی جماعتیں بنیں،ٹوٹیں ،بکھریںاور جس ق در ل وگ مطل ع پ ر چم ک ک ر@رن پڑے،انگریزوں سے ہندوستانی لڑے اور مسلمانوں سے ہن دوئوں کی م ڈ بھ یڑ ہ وئی ان غروب ہو گئے جتنے

(۴۱کی شاعری ان سب کہانیوں کی ایک کہانی ہے۔‘‘) موض وع کی مناس بت س ے یہ اں مولان ا ظف رعلی خ ان کی ش اعری پ ر تقس یم بنگ ال،تنس یخ بنگال،جنگ طرابلس،جنگ بلقان،مسجد کانپور کا قضیہ اورپہلی جنگ عظیم ت ک کے ب ڑے ب ڑے واقع اتسانھوں نے ان واقع ات کے کے اثرات کا جائزہ پیش کیا جائے گا اوریہ دیکھنے کی کوش ش کی ج ائے گی کہ پس پشت عمل پیرا ہونے والی طاقت ’’ برطانوی استعمار‘‘ کے خلا ف کس حد ت ک مزاحم تی رویہ اختی ار

کیا ہے۔ہت۱۸۵۷ اازادی میں اگر چہ ہندوستانیوں ک و ناک امی ک ا س امنا کرن ا پ ڑا لیکن حک وم ء کی جنگ

برطانیہ کو بھی یہاںایک مضبوط اور مستحکم حکومت بنانے کے ل یے ایس ٹ ان ڈیا کمپ نی کی پالیس یوں پ راازادی کی بنی ادی وجوہ ات میں ای ک وجہ دیس ی ریاس توں پ ر قبض ہ ک رکے دھ ڑا نظرث انی ک رنی پ ڑی۔ جن گ دھڑانھیں کمپنی کے زیرسایہ رہنے پر مجبور کرن ا بھی تھ الیکن س اتھ ہی س اتھ قبض ہ مض بوط بن انے میں ان

Page 128: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

127

ریاستوں کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہی ریاس توں میں م یر ص ادق اور م یرجعفر جیس ے ل وگ بھی پیدا ہوئے جنہوںنے ہوس اقتدار کی خاطر ملکی مفاد ات کی قربانی دے کر انگریز س رکار س ے وف اداریاازادی کے بعد مزیدریاستوں کا الحاق بند کر دیا گیالیکن تعلقہ داروں ، زمینداروں،ملک کا ثبوت دیا۔ جنگ ااق ائوں کے مف ادات کی ،خوانین اورنوابوں کو مراعات دے کر اپناتابعدار بنایا گیا جنھوں نے ہمیشہ سامراجی حفاظت کی اور غریب ہندوستانی رعایا کا استحصال جاری رکھا۔مذہبی تعصبات پی دا ک رکے ف رقہ واریت ک و ہوا دی گئی۔ہندوستانی عوام کے مختلف فرقوں اورطبق وں کے ب اہمی تعلق ات ،تہ ذیبی اور معاش رتی اق دار پ ر

اس سانحہ کا جو اثر ہوا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سید محمود لکھتے ہیں:"There is no doubt that the british conquest of

india dealt a severe blow to the cultur unity of india.The conguest naturally shattered the economic structure,the social system and the polictical organisation of india...It must be remembered that in the period before the british conquest our society like other consisted of two classes.one wich led and the other which followed .then first was formed of several group;men of learning and religion(pandits and maulavis,Saints and sadhus)men of affairs and owners of landed property(Military and civil servents of the state and Zamindars) men of wealth(Bankers,marcha- nts,masters of guilds etc).The second class was composed of artisans, craftsmen, peasants,work- men...but the British conquest of india led to their ruin... The British conquest broke up this

structure."(42) ترجمہ:اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریز قاتح نے ہندوستان کے معاشرتی نظام اور سیاسی سس ٹم ک و برب اد کیا۔اس سے پہلے یہاں کا معاشرہ دو طبقوں پر مشتمل تھا۔ایک کا کام قی ادت اور دوس رے ک ا ک ام پ یروی

Page 129: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

128

@@ااہ ل علم،اہ ل م ذہب)پن ڈت، مول وی، درویش، س ادھو( ، تھ ا۔پہلا طبقہ ک ئی جم اعتوں میں منقس م تھ ا مثل تاجر، ص احب جائ داد،ریاس ت کے ف وجی اور س ول حک ام،اہ ل دولت و ث روت، چ ودھری اور سوداگرجیس ے ل وگ اس طبقے ک ا حص ہ تھے ۔دوس رے طبقے میں ص ناع، دس تکار ،کس ان اور م زدور ش امل تھے لیکن

برطانوی طاقت نے اس پورے معاشی ،معاشرتی اورسیاسی ڈھانچے کو برباد کرکے رکھ دیا۔ محولہ بالا پ یراگرف س ے پتہ چلت ا ہے کہ کس ط رح برط انوی تس لط نے یہ اں کی تہ ذیبی وح دت ک و ختم کی ا۔معاش ی ڈھ انچے ک ا س تیاناس ک ر دی ا۔یہی وہ بنی ادی عوام ل تھے جن کی وجہ س ے ہندوستانی معاشرے کا حیاتی اور نامیاتی ڈھانچہ ٹ وٹ ک ر بکھ رنے لگ ا۔اتف اق و اتح اد ختم ہ وا۔ہن دو مس لم فسادات شروع ہوئے اور ہندوستانیوں میں جماعتی وحدت کا تصور ختم ہونے لگا۔اس سلس لے میں س امراجی

اازادلکھتے ہیں: پالیسیوں کے ہندوستانی معاشرے پر اثرات کے بارے میں مولانا ابوالکلام ’’سالہاسال کی کشمکش نے ایک بات بالکل واضح کردی ہے۔اور وہ یہ ہے کہ جہاں تک ملکی حق وق وہن ہند کا جماعتی وصف بے طاقتی اور بے اعتمادی ہے ۔اور ہندوئوں فوائد کے معاملات کا تعلق ہے مسلمانا

(۴۳کا جماعتی وصف تنگ دلی اور کوتاہ دستی۔‘‘) ء کے’’ ہندی اردو تنازعہ‘‘ نے جلتی پ ر تی ل ک ا ک ام کی ا ۔جب۱۸۶۷ہندو مسلم اختلافات میں

بنارس کے ہندوئوں نے حکومت سے مطالبہ کی ا کہ س رکاری دف اتر اور ع دالتوں س ے اردو اور فاس ی زب ان ختم کرکے اس کی جگہ ہندی اوردیوناگری رسم خط کو رائج کیا جائے ۔ ہن دوئوں کی یہ متعص ب پس ند لس انیسپرزور الف اظ میں اس پالیسی مسلمانوں کوبہت ناگوار گزری اور سرسید جیسے روشن خی ال مس لمان نے بھی ااباد میں ایک تنظیم ’’سنٹر ایسوسی ایشن‘‘ قائم کی ۔سرس ید اس ن تیجے پ ر کی مذمت کی۔سرسید نے الہ سانھ وں نے اس ی س ال ’’دو ق ومی پہنچ گ ئے کہ ہن دو مس لم ک ا مزی د اکٹھے رہن ا ن اممکن ہوگی ا ہے اس ل یے نظریے ‘‘کے ابتدائی خدوخال کی وضاحت کی اور ہندوستانی مسلمانوں ک و ال گ تش خص ک ا ش عور دی نے

ء میں ا نڈین نیشنل گانگرس کی بنیاد رکھی گ ئی ت و۱۸۸۵میں ان کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ء میں۱۸۹۸سرسید نے مسلمانوں کو کانگرس میں شمولیت سے منع کر دیا۔سرسید کی وف ات کے بع د

ساس وقت علیگ ڑھ کے س یکرٹری تھے ساٹھای ا لیکن ن واب محس ن المل ک ج و ہندی اردوتنازعہ نے پھر سے سر ء میں لارڈ ک رزن نے تقس یم۱۹۰۵نے م زاحمت ک رتے ہ وئے ’’اردو ڈیفنس ایسوس ی ایش ن‘‘ق ائم ک ردی۔

Page 130: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

129

بنگ ال ک ا اعلان ک ر کے مس لمانوں کے دل جیت ل یے لیکن ہن دوئوں کی س خت ردعم ل کی وجہ س ےہرممنوعہ سمجھتے تھے انہی سان سے مزید دل برداشتہ ہوگئے۔ مسلمان جو ابھی تک سیاست کو شج مسلمان واقعات کی وجہ سے سیاست کی طرف راغب ہونے پر مجبور ہوئے۔تقسیم بنگال پر ہندوئوں کے ردعم ل کے

حوالے سے حسن ریاض لکھتے ہیں: ’’ کلکتہ کے ہندوئوں نے اس پر س خت ش ورش کی۔ک انگریس نے اپ نے ط ریقے پ ر ہندوس تان گ یر ایجیٹیش ناائے۔انھ وں نے انگری زی م ال ک ا بائیک اٹ کی ا،سودیش ی کی ت رویج کی،بم اور سات ر کیا۔بنگالی ہندو تشدد پ ر پستول سے حملے کرنے لگے۔وہ جوش میںدیوانے تھے ۔مگر یہ سب کیوں؟ اس ل یے کہ اس س ے مس لمانوں کو نفع پہنچ رہا تھا ،انصاف کی حد تک،اور ہندوئوں سے وہ چھینا جا رہا تھا جو بربنائے ناانص افی ان ک و

(۴۴حاصل ہو گیا تھا۔‘‘) تقسیم بنگال سے چوں کہ بظاہر مسلمانوں کو فائدہ ہورہ ا تھ ا لیکن اس کی مخ الفت میں ہن دوئوںہدعمل اور ایجیٹیشن سے مسلمان یہ سمجھنے پر مجب ور ہوگ ئے کہ ک انگرس اور ہن دو اپ نی تن گ کے شدید ر نظری کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں ۔ اور کانگرس کسی بھی صورت مسلمانوں کی نمائندہ جماعت نہیںاام ادہ ک ر لی ا کہ ہے ۔اس لیے علیگڑھ کے سیکرٹری نواب محسن الملک نے مسلم اکابرین ک و اس ب ات پ ر ہی حکومتی حکام سے ملاق اتوں کے ذریعے اپ نے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے ایک وفد بنایا جائیجو اعلااغ ا خ ان کی قی ادت میں ای ک وف د تش کیل دی ا گی ا۔ وف دنے یکم ہہذاس ر ااگاہ کرسکے۔ل سان کو مسائل سے

سام ور ہن دلارڈ م ارلے س ے ملاق ات۱۹۰۶اکتوبر ء کو شملہ کے مقام پر وزیر ہن د لارڈمنٹ و اورس یکرٹری ب رائے سان کے سامنے اپنے مطالبات بھی پیش کیے۔ حک ومت نے ااگاہ کرتے ہوئے کی۔وزیر ہند کو اپنے مسائل سے

ء کو ڈھاکہ میں نواب وق ار لمل ک۱۹۰۶ دسمبر ۳۰مطالبات ماننے کی یقین دہانی کرائی۔ اس کے بعد کی صدارت میں ایک جلسہ منعق د ہ وا جس میںن واب س لیم اللہ نے مس لمانوں کے ل یے ای ک ال گ سیاس یساس کی تنظیم کی تجویز پیش کی اور حکیم اجمل خان،مولانا محمد علی سمیت مولان ا ظف رعلی خ ان نے اال انڈیا مسلم لیگ ‘‘کی بنیاد رکھی گ ئی۔دس تور کے ل یے س اٹھ ارک ان کی کمی ٹی بن ائی تائید کی ۔یوں ’’

سرکن مولانا ظفرعلی خان بھی تھے۔ گئی جس کے ایک اہم

Page 131: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

130

ء ت ک نظری اتی ط ور پ ر مس لم لی گ س ے وابس تہ رہے۔ت اہم ذاتی و۱۹۱۴مولان ا ظف رعلی خ ان صحافتی مصروفیات اور نظریاتی اختلافات کی وجہ سے مسلم لی گ ک و زی ادہ وقت نہ دے س کے۔ ط رابلس اور بلقان کی جنگوں کی وجہ سے ع المی سیاس ت میں دلچس پی،تحری ک خلاف، مجلس اح راراور مجلس

ء۱۹۳۷اتحاد ملت میں شرکت کی وجہ سے مسلم لی گ س ے دور رہے اور ک انگرس کے ح امی بن گ ئے۔ میںایک مرتبہ پھر سے مس لم لی گ کے س رگرم رکن بن گ ئے۔یہ وہی موق ع تھ ا جب جن اح ص احب نے ج ون

ء میں مجلس احرار،خاکسار،جمعیت العلماء اور مجلس اتحاد ملت ک و مس لم لی گ میں ش مولیت۱۹۳۷ کی دعوت دی۔ مولانا ظفرعلی خان نے مجلس اتحاد ملت کو مسلم لیگ میں ضم کرتے ہ وئے لیگی ہ ونے

کا اعلان کیا۔ ء میں ج ارج پنجم نے۱۹۱۱منٹو م ارلے اص لاحات کی تی اری ک ا سلس لہ ج اری تھ ا کہ دس مبر

اپنی تاجپوشی کے موقع پر ’’تنسیخ بنگال‘‘ ک ا اعلان کی ا۔یہ ای ک ایس ا اعلان تھ ا جس نے مس لمانوں ک وسان کے پائوں تلے کی زمین نک ل گ ئی کی ونکہ تقس یم بنگ ال کی وجہ س ے انگری زوں حد درجہ مایوس کیا اور اور مسلمانوں میں فاصلے کسی حد تک کم ہوگئے تھے اور وہ انگریزوں کو اپنا مسیحا س مجھنے لگے تھے لیکن بہت جلد استعماری طاقت نے اپنا چہرہ بے نقاب ک ر ڈالا۔مولان اظفرعلی خ ان اس وقت ت ک ریاس ت

سچکے تھے ۔ ااب اد کہہ ء میں انہوں نے ’’زمین دار‘‘ کی ادارت س نبھالی جس کے بع د۱۹۰۹دکن ک و خ یر ااباد سے لاہور منتقل کی ا۔ص حافت س ے تعل ق کی۱۹۱۱ اکتوبر ۱۵انہوں نے ء میں ’زمیندار‘کا دفتر کرم

ہ تاجپوشی میں شمولیت کی دعوت ملی تھی۔ رسم تاجپوشی میں ش رکت بنا پر ظفر علی خان کو بھی رسمسانھوں نے اس پورے منظر کے تاثرات اپنے ایک مضمون میں یوں قلم بند کیے ہیں: کرکے

سچکے تھے اور ساتھ میں بنگال کو دو ٹک ڑوں میں ’’ لارڈ کرزن صوبہ سرحد ی کو پنجاب سے علیحدہ کر ااں کے حق وق تحف ظ تقسیم کرکے س ادہ ل وح مس لمانوں ک و یقین دلا چکے تھے کہ اس تقس یم س ے بج ز کے اور کچھ مراد نہیں ۔بنگالیوں کے تمام تر ہنگامہ خیزیاں اس وقت ت ک بے اث ر ث ابت ہ وئی تھیں اور لارڈ مارلے کا یہ فقرہ وفاداران ازلی ا عنی مسلمانان ہند کے کانوں میں ابھی تک گ ونج رہ ا تھ ا کہ فیص لہ تقس یم بنگال نوشتہ تقدید کی طرح انمٹ ہے اور قیامت ت ک ٹ ل نہیں س کتا۔س وکن کے طعن وں س ے بے نی از ہ وکرااباد میں جب سر بمفلیڈ فلر کی ’’چہیتی بیبیاں‘‘ اپنے جشن عروسی کی بہار دیکھنے کے لیے شاہ جہان

Page 132: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

131

داخل ہوئیں تو دوسرے کہاروں کے ساتھ کندھا بدلتا ہوا میں بھی ڈولی کے ہمراہ لال قلعہ کی دی واروں کےہر خسروی ہندوس تان کے مجم وعی ت زک و احتش ام کے دوش پ ر س وار ہ و ک ر توپ وں کی نیچے پہنچ گیا۔درباسان ک ا غلغلہ افگن س لامی اور ش اہی ت رانہ کی س ریلی تہ نیت کے س اتھ منعق د ہ وا۔مس لمان منتظ ر تھے کہ ہر خس روی پڑھ ا گی ا ہکس انعام کا اعلان کرت ا ہے ۔لیکن جب منش و سان کے لیے شہنشاہ اس تقریب سعید پر سشدہ تھ ا،غ یر فیص ل ش دہ ق رار ال تو اسلامی حلقوں میں ایک سناٹا چھا گیا۔تقسیم بنگال جو ایک امر فیص

(۴۵دیا گیا ۔اور حضور جارج پنجم نے بیک جنبش لب اس تقسیم کی تنسیخ کا اعلان کردیا۔‘‘)ہل کے اہم ت اریخی واقعے پ ر بہت کم ش اعری کی کی وں مولانا ظفرعلی خان نے اگر چہ تقسیم بنگاسان کے مطبوعہ کلام میں اس حوالے سے کوئی نظم موجود نہیں۔تاہم ان واقعات کا اثر لا شعوری طور پ ر کہ سان کی شاعری میں محسوس کی ا جاس کتاہے۔تنس یخ بنگ ال کے ح والے س ے ان کی ای ک نظم ج و ان کی

سوانح عمری کا حصہ ہے ، ملاحظہ ہو:ااج! قیصر ہند کے دربار کا سامان ہے

ااج! معتدل دولت و اقبال کی میزان ہے واہمہ گر چہ فسوں ساز ہے لیکن وہ بھی!ااج قیصری جشن کے انداز سے حیران ہے پھر بھی اے اشہب اندیشہ دکھا جولانی!

ااج! یہی چوگان، یہی، گو یہی، میدان ہے برہمن ساتھ لیے پھرتا ہے پوتھی اپنی!ااج اان ہے شیخ کے ہاتھ میں سیپارئہ قر

خوب بنگال کی تقسیم کی قسمت پلٹیااج اس کی تنسیخ کا دربار میں اعلان ہے

ہاس میں! ساگا سنبل تنسیخ غل مچانے سے ااج جو زمیں شور تھی کل وہ چمنستان ہے قیصر ہند نے کی داد و دہش کچھ ایسی!

Page 133: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

132

ااج جس سے ہر فرد بشر دنگ ہے حیران ہے ہہ عقل مارلی جس کو سمجھتے تھے محال ازرا

ااج ااسان ہے شاہ کے لطف سے وہ مسئلہ (۴۶)

ااغ از ہوت ا ہے۔انگری زوں کے تنسیخ بنگال س ے ہندوس تان کی سیاس ی ت اریخ میں ای ک ن ئے ب اب ک ا ہن ہندبش مول مولان ا ظف رعلی خ ان ابھی ت ک جن غل ط سرخی پالیسی کی وجہ سے مس لمانا دوغلے پن اور دو سچکے تھے۔وہ ساری غلط فہمیاں ایک ایک کرکے دور ہونا شروع ہوئیں۔انگری زوںکے اس فہمیوں میں مبتلا ہو

سان کے کئی اشعار میںبھی نمایاں ہے: منافقانہ رویے کا ذکر ساس سے بڑھ کر بے وقوف کون ہوگا اشیاء میں

سامید انصاف کی جس کو ہے تہذیب یورپ سے (۴۷)

یورپ والوں تم تو سمجھتے ہی نہیں انسان ہمیںاور جو سمجھتے بھی ہو تو شاید جانتے ہو نادان ہمیں

(۴۸)

تعاون کرکے انگریزوں سے اب تک کیا لیا تو نےنہ سمجھے ہو تو سمجھو،تم کو جو دے گا خدا دے گا

(۴۹)

ااگ ئی ۔ انگری زوں تنسیخ بنگال کے اعلان کے بعد مولانا ظفرعلی خ ان کی س وچ میںک افی تب دیلی کی قربت اور ہندوئوں سے دوری و اختلافی رویے کو یکسر تبدیل کرکے ہندوئوں کی مخ الفت ختم ک ر دیگئی۔وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ استعماری قوت کا اصلاحی عمل بھی مکروفریب سے خالی نہیں ہوت ا۔ااپس کے ایسی پالیسیوں سے وہ تقسیم در تقسیم کے سکیم سے ہم کو کمزور بن انے کی ک وش ک رتے ہیں۔

Page 134: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

133

اازادی حاص ل اختلافات پر توانائیاں صرف کرنے سے بہتر ہے کہ انہیں مشترکہ مفاد کے لیے استعمال کرکے کی جائے:

ااپس کی پھوٹ ختم ابھی تک نہیں ہوئیہی وطن کے طلبگار ہیں کہاں اازاد

(۵۰) تنسیخ بنگال کے بعد ہندو مسلم اتحادپر بات کرتے ہ وئے مولان ا ظف رعلی خ ان اپ نے ای ک مض مون

میں لکھتے ہیں: ’’اب سے چند سال پہلے بعض جوشیلے ہندوئوں نے گورنمنٹ انگریزی کے مقابلے میں جو روش اختیار ک رساس ے گ ورنمنٹ کے خلاف اور ملکی امن و ام ان کے ح ق میں مض ر س مجھتے تھے۔ رکھی تھی مس لمان ایسا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان انگریزی حک ومت ک و خ یر و ب رکت ک ا مجم وعہ س مجھتے تھے۔۔۔سان کی پولٹیک ل جدوجہ د ک ا ہندوئوں کی نس بت بھی مس لمان اب ت ک اس غل ط فہمی میں مبتلا رہے کہ نصب العین صرف یہی ہے کہ وہ ہندوستان سے انگریزی حک ومت ک و مٹ ا ک ر اپن ا س وراج ق ائم ک ر لیں۔اس کے ساتھ قتل،بم ،ڈکی تی اور ریل وے کی تب اہی کے واقع ات نے مس لمانوں ک ویقین دلای ا کہ ہن دوئوں کی یہ باتیں بدنیتی اور شرارت سے خ الی نہیں۔۔۔اب جب تقس یم بنگ ال کی تنس یخ س ے گ ورنمنٹ نے اس ب اتسان کے مطالب ات بھی کو ثابت کر دیا ہے کہ اس کے نزدیک ہندوئوں کی پولٹیکل روش خطرناک نہیں بلکہ پورے کر دیئے گئے ہیں تو اس ص ورت میں مس لمانوں ک و ہن دوئوں س ے مخاص مت ی ا مخ الفت کی ک وئی

(۵۱وجہ باقی نہیں رہی۔مدعی سست گواہ چست۔‘‘) تقسیم بنگال کے واقعے کے بعد مولانا ظفرعلی خان نے اخبار’’زمین دار‘‘میں ایس ے مض امین ش ائعااس کتا تھ ا۔علاوہ ازیں ش اعری میں بھی ایس ے ک رنے س ے گری ز کی ا جن س ے ہن دو مس لم اتح اد پ ر ح رف

سامید ہو: مضامین کو جگہ دی جن سے ہندوستانیوں میں اتحاد و اتفاق پیدا ہونے کی

یو نہی مسلم اور ہندو اس دیس میں مل جائیں گےمل گئیںپریاگ میں جس طرح جمنا اور گنگ

Page 135: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

134

اتحاد اس ملک کا مشکل نہیں ہے جس میں ہوایک تہذیب ایک بولی ایک صورت ایک رنگ

سجدا ناخنوں سے گوشت ہو سکتا نہیں ہرگز چھوٹ سکتا ہی نہیں چولی اور دامن کا سنگ

(۵۲)ااغ از ہ وا۔ ان۱۹۱۱تنس یخ بنگ ال کے اعلان کے بعد ء میں ط رابلس اور بلق ان کی جنگ وں کا

جنگوں کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں میں بھی بے چینی کی لہر دوڑ گ ئی ۔س لطنت عثم انیہ جس کیسچکی۱۲۹۹بنیاد سامیہ اور بنوعب اس کے بع د تیس ری اس لامی ط اقت بن ء میںعثمان اول نے رکھی تھی ،بن و

@@ا ص وبوں پ ر مش تمل یہ وس یع س لطنت مش رقی ی ورپ ،ایش یا اور۲۹تھی ۔تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تقریب ااسٹریاکے سرحدات اور جن وب میں س وڈان و یمن ت ک پھیلی ہ وئی تھی۔عیس ائی افریقہ ،خلیج فارس،شمالی اوریورپی دنیا کے لیے یہ ایک خطرے کی گھنٹی تھی جسے وہ کسی بھی صورت برداشت نہیں کر س کتےہت عثمانیہ میں بغاوتوں اور بیرونی حملوں کا سلسلہ اگ ر چہ انیس ویں تھے۔استعماری طاقتوں کے ہاتھوں سلطنسبرے دن بیس ویں ص دی میں سچک ا تھ ا لیکن س لطنت کے ص دی میں روس کے حمل وں س ے ش روع ہ و

ء میں اب راہیم تیم ور نے ’’جمعیت اتح اد وت رقی‘‘ کے ن ام س ے ای ک۱۸۸۹ء کے بعد شروع ہوئے۔۱۹۰۸ ء میں شخص ی حک ومت کے خلاف انقلاب برپ ا ک ر دی اجو۱۹۰۸انجمن ق ائم کی تھی جس نے

’’نوجوان ترک انقلاب‘‘ کے نام سے موسوم کی ا جات ا ہے۔’’نوج وان ت رک انقلاب‘‘ کے ن تیجے میں س لطانہم سان کے بھ ائی محم د خ امس ک و س لطان بنایاگی ا اور پارلیم انی نظ ا عبدالحمی د خ ان ک و برط رف ک رکے حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔یورپی دنی ا میںبظ اہر س لطنت عثم انیہ کی اس روش ن خی الی ک و س راہاگیالیکنہگن رہے تھے ’’نوج وان ت رک ااخ ری سانس یں سانہیں اس ب ات ک ا بھی ادراک ہ واکہ جس م رد بیم ار کی وہ ساس میں ایک ن ئی روح پھون ک دی ہے۔ی وں اٹلی،روس،یون ان اور برط انیہ نے ت رکی کے خلاف انقلاب‘‘ نے ااغاز کر دیا۔ یہ وہ دور تھ ا جس میں اس تعماری قوت وں نے مش رق وس طی ، ایش یاء اور اف ریقہ کے سازشوں کا ممالک تک اپنے اثررس وخ ک و بڑھان ا ش روع کردیاتھ ا۔ ت رکی کی ریاس ت ان کے راس تے کی س ب س ے ب ڑی رکاوٹ تھی جو تمام دنیا کے مس لمانوں کے ل یے وح دت کی س ب س ے ب ڑی علامت تھی۔ مغ رب نے اس

Page 136: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

135

وحدت کو توڑنے کی ہرممکن کوشش کی لیکن دوسری طرف اس لامی دنی ا میں بھی مس لمانوں کی داخلی اور خارجی اصلاح اور وحدت کی تحاریک نے زور پکڑنا شروع کر دیا تھا۔لیبیا کی سنوسی تحریک،تی و نس میں خیرال دین پاش ا،الجزائ ر میں ام یر عب دالقادر کی تحری ک،نج د کی و ہ ابی تحری ک، س وڈان میں مہ دیہداس لامی کی کاوش وں نے پ وری دنی ا کے س وڈانی اور افغانس تان کے س ید جم ال ال دین افغ انی،کے اتحا مسلمانوں کو متحد ہونے اور ان میں استعماری قوتوں کے خلاف لڑنے کا جذبہ پیدا کی ا۔ہندوس تان میں س ید جمال دین افغ انی کے ہم خی ال و ہم نظ ریہ لوگ وں میں مولان ا ظف رعلی خ ان،مولانامحم دعلی،مولاناش وکتاازاد اور علامہ محمد اقبال جیسے بڑے بڑے مفکرین شامل تھے۔جس ے عیس ائی دنی ا نے علی،مولاناابولکلام ’’پان اسلامزم‘‘ کی اصطلاح سے منسوب کرکے الزام تراشی کا نشانہ بنای ا اور عیس ائی ب رادری ک و اس کے

ساکسانا شروع کر دیا۔ مرکز ’’سلطنت عثمانیہ ‘‘کے خلاف ساس وقت کی مسلم دنیا کی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ڈاکٹر تارا چند نے

’’ہندوستان کے باہر مسلم ممالک کو ہلاکت خیزخطرات کا سامنا تھ ا۔ش مال اف ریقہ میں اس لام ک ا مرغ وبسچکا تھا۔مش رق میں مص ر انگلس تان کے اا ترین قلعہ مراکش تو پہلے ہی فرانس کی شہنشاہیت کے زیر اقتدار حکم ب رداری میں تھ ا۔انگلس تان اور روس نے ای ران میں اپ نے حلقہ اث ر تقس یم ک ردیے تھے۔خلیج ف ارس میں

ء میں طرابلس پ ر قبض ہ ک ر لی ا ج و۱۹۱۱برطانیہ نے پہلے ہی مخصوص حقوق قائم کر لیے تھے۔اٹلی نے ء۱۹۱۲ت رکی ک ا ای ک ص وبہ تھ ا۔اس کے بع د ت رکی کے ٹک ڑے ٹک ڑے ک رنے ک ا عم ل ش روع کی ا گی ا۔

میںبلقان ریاستوں کو روس کی حمایت کے تحت متحد کیا گیا تا کہ ترکی پر حملہ کیا ج ا س کے۔اس کے(۵۳ء میں ترکی کو ہولناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘) ۱۹۱۲نتیجے میں جو جنگ ہوئی

ساس وقت ترکی کی ک وئی خ اص۱۹۱۱ ستمبر ء کو اٹلی نے طرابلس)لیبیا(پر حملہ کردیا۔لیبیا میں فوجی طاقت موجود نہیں تھی۔ترکی کو خش کی کے راس تے س ے جنگی س ازو س امان اور ف وجی ام داد کے لیے مصر سے گزرنا پڑتا تھا ۔ جہاں برطانیہ کی عمل داری تھی ۔برط انیہ نے غ یر جانب داری ک ا بہ انہ بن ا ک رساس ترکوں کو مصر سے گزرنے کی اجازت نہیں دی۔سمندری راستے میں اٹلی کا بیڑا حائل تھ ا۔ویس ے بھی وقت ترکی کی بحری ط اقت نہ ہ ونے کے براب ر تھی۔ ان کے پ اس ص رف ای ک بح ری جہ از تھ ا اور وہ بھی

Page 137: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

136

ساس وقت ترکی کے بحری صورت حال کو واضح کرتے ہوئے کسی دوسرے مشن پر گیا ہوا تھا۔ امتیاز احمد لکھتے ہیں:

ساس زم انے میں ات نی خ راب تھی کہ اس کے پ اس ص رف ای ک جنگی جہ از ’’ت رکی کی ح الت موسومہ’’حمیدیہ‘‘ کام کا تھا ج و ای ک ام ریکی بکنم پاش ا کے زی ر کم ان تھ ا اور یہ جہ از بھی درئہ دانی ال

(۵۴سے باہر تھا اس لئے اسلحہ پہنچانے کے لئے اس کا عدم وجود بھی یکساں تھا۔‘‘) ت رکی حک ومت کی ط رف س ے ط رابلس کے ام داد کے ل یے ان ور بے)پاش ا( اور مص طفی کمال)اتاترک(روانہ ہوئے جوانگریزوں کے گرفت سے بچ بچا ک ر کس ی نہ کس ی ط رح وہ اں پہنچ گ ئے ۔تبسچکا تھ ا۔مص طفی کم ال اور ان ور سچکی تھی اٹلی طرابلس کے ساحلی علاقوں پر قابض ہو تک بہت دیر ہو بے نے سنوسیوں سے امداد طلب کی۔’’سنوس یوںکی تحری ک‘‘ محم د ابن علی سنوس ی نے انیس ویں ص دی میںطرابلس)لیبیا( ہی کے ساحلی علاقوں میں شروع کی تھی جس کا مقصد مسلمانوںکو کتاب و سنت کےساس وقت سنوس ی تحری ک کی مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب دینا تھا۔جب اٹلی نے طرابلس پر حملہ کی ا ااکر انور پاشا س ے قیادت ’’سید احمدشریف ‘‘کر رہے تھے جس نے تحریک کے مرکز’’کفرہ‘‘ سے طرابلس ملاقات کی اور اٹلی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔مولانا ظف رعلی خ ان نے اپ نی ش اعری میں ان ور بےسپرعزم جہادی جذبے کو س راہاہے۔نظم ’’ب ادل میں بجلی‘‘،’’س مند ان ور‘‘،’’ہندوس تان سمیت سنوسیوں کی

کے اسلامی جذبات‘‘ میں یہی کیفیت بیان کی گئی ہے:اامد سن کے انورکی کناوا نے کہا اامد

اانے کو ہے کانپتے ہیں جس سے ہم ،وہ شہسوار (۵۵)

ہماری دعا کا اثر دیکھ لیجیےحریفوں کو زیر و زبر دیکھ لیجیےنہ دیکھا ہو انور کو سنوسیوں میں

تو بجلی کو بادل کے گھر دیکھ لیجیے(۵۶)

Page 138: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

137

کرے گا کیا وہاں جنرل)ا(کناواااوا ااوے کا جہاں بگڑا ہو اب

گلاٹی)ب(نے ٹرپلی پر صد افسوسکیا شیطان کی شہ پاکے دھاوااابری)ج(کی ہوئی پتلون ڈھیلی

دیا گھوڑے کو جب انور نے کاوا(۵۷)

)ا(اطالوی سپہ سالار،)ب(وزیراعظم اٹلی)ج(اطالوی امیر البحر سنوسی قبیلوں کی مدد سے انور پاشا نے کچھ حد تک کامی ابی حاص ل ک رکے چن د علاق وں س ے دشمن کو مار بھگایا لیکن مجموعی طور پر کوئی خاص کامی ابی حاص ل نہ کرس کے ۔ جن گ میں ناک امی کی بنیادی وجہ سمندری راستے پر اٹلی کا قبضہ اور زمینی راستے پر برطانیہ کی سردمہری تھی۔ش دیدمالی و

ااخ ر ک ارترکی ک و @@اجن گ ختم ک رکے وہ ا ںس ے نکلن ا پ ڑا۔اگ رچہ۱۹۱۲جانی نقصان کے بع د ء میں مجبور مقامی لوگوں نے ہمت نہیں ہاری اور’’سنوسیوں ‘‘کی مدد سے مسلس ل اٹلی کے خلاف ل ڑتے رہے۔ط رابلس کے مسلمانوں پر اٹلی کے ظلم و ستم اور ترکی کے ساتھ برطانیہ کی سرد مہ ری کی خ بریں جب ہندوس تانسان میں نہایت غم و غصے کی لہر سرایت کر گئی۔سید حس ن ری اض لکھ تے کے مسلمانوں تک پہنچیں تو

ہیں: ’’طرابلس کے مسلمانوں پر جب اٹلی کے مظالم کی رودادیں ہندوستان میں شائع ہوئیں اور کامری ڈ،الہلال،اور زمیندار نے اس حادثے پر مضامین لکھے تو ہندوستان کے مسلمانوں میں سخت جوش پیدا ہو گی ا۔مجاہ دین ط رابلس کی ام داد کے ل یے چن دے ہ ونے لگے۔اٹلی کے م ال ک ا بائیک اٹ کی ا گی ا۔اس وقت ہندوس تانیااتی تھی ۔اٹلی کی جو ٹوپیاں س روں پ ر @@ا ترکی ٹوپی پہنتے تھے اور یہ زیادہ تر اٹلی سے بن کر مسلمان عموم

اائندہ ان کی خریداری بند کی گئی۔‘‘) (۵۸تھیں وہ جلا دی گئیں اور ساس دور کے مسلمانوں کی دلی کیفیات کو محفوظ کیا ہے: مولانا ظفرعلی خان نے اپنی شاعری میں

لڑائی کی خبر سن کر ہیں بیکل

Page 139: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

138

ہن ہند و چین و جاوا مسلمانا(۵۹)

ء میں ابھی طرابلس کی جن گ ج اری تھی کہ بلق انی ریاس توں کی عیس ائی اق وام نے بھی۱۹۱۲ ق وم پرس تی ک ا راگ الاپ تے ہ وئے ت رکی کے خلاف بغ اوت ک ا پ رچم بلن د کی ا۔ یون ان،بلغ اریہ اور س رویا نےاازادی حاص ل ک رنے کے ل یے نی ا اتح اد تش کیل دے دی ا۔اس ااب ادی کی حف اظت اور ترک وں س ے مس یحی @@ا طرابلس کی جنگ ختم کرکے اٹلی س ے ص لح ک رنی پ ڑی ۔جس ہت حال کو دیکھ کر ترکی کو مجبور صور کے بعد بلقان میں جنگ شروع ہوگئی۔بلقان میں بھی ترکوں کوبے انتہا نقص ان پہنچ اجس کی ای ک وجہ یہ بھی تھی کہ ترکی نے اپنی فوج میںزیادہ تر مقامی لوگوں کو بھرتی کیا تھا جو کہ عیسائی مذہب کے پیروکار

تھے ۔ جنہوں نے عین وقت پر پسپائی اختیارکر لی۔ڈاکٹرامتیاز محمد خان لکھتے ہیں:

اازادی حاصل کرنے کے جوا زمیں یہ عذر پیش کی ا کہ ت رک ب ڑے متعص ب مس لمان ’’بلقانی قوموں نے اپنی ہیں۔اسلام عیسائیت کے مقابلے میں گھٹیا ہے اور ایک گھٹیا قوم کو بڑھیا قوموں پر حکومت کرنے کا ک وئی

(۶۰حق نہیں پہنچتا۔‘‘) تاریخی تناظر میں دیکھا جائے توبرطانیہ نے ہمیشہ روس س ے خط رہ محس وس ک رتے ہ وئے ت رکی ک ا س اتھ دی ا تھ ا لیکن جن گ ط رابلس و بلق ان کے مع املہ میں س اتھ دی نے کے بج ائے مخ الف ط اقت کیااگے ب ڑھ حمایت کرنا شروع کر دی۔مولان ا کے ک ئی اش عار میں برط انیہ س ے یہی اس تدعا کی گ ئی ہے کہ

کراس ظلم و ستم میں ثالث کا کردار ادا کرے:بنایا ہے خدا نے محتسب تجھ کو زمانے کا

ساٹھ اے برطانیہ امن و اماں قائم کرانے کوہماری طرح عالم کے مسلماں جاں اور دل سے

اانکھوں پر بٹھانے کو تجھے حاضر ہیں سر پر اور (۶۱)

رہی سہی راستی کا جلوہ ہے ایک انگلینڈ میں نمایاں

Page 140: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

139

مصیبتوں کے سیاہ بادل سے اک فقط یہ کرن چھنی ہے(۶۲)

ہندوستانی مسلمانوں کی لاکھ منتوں اور عرض گذاشتوں کے باوجود جب برط انیہ اٹلی کی حم ایتاایا تو مسلمانوں نے عملی مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔عوام نے چندے جمع کرناش روع کرنے سے باز نہیں کیے۔مجاہدین کی م رہم پ ٹی اور م الی ام داد کے ل یے ڈاک ٹر انص اری کی قی ادت میں ای ک وف د بھی ت رکی

بھیجاگیا۔ڈاکٹر اشتیاق حسین لکھتے ہیں:اائے ،ان۱۹۱۲’’لیبیا پر اٹلی کا قبض ہ،م راکش پ ر فرانسیس ی انت داب ک ا قی ام یہ س ب واقع ات ء میں پیش

(۶۳تمام واقعات نے مسلمانوں پر بہت گہرا اثر ڈالا ،اور برطانیہ پر بہت نکتہ چینی ہوئی۔‘‘) ہندوس تانی ع وام کے مظ اہروں اور جلوس وں کے علاوہ ن ثر نگ اروں نے ن ثر جب کہ ش عرا نے ش اعریہت میں اپ نے ردعم ل اور م زاحمت ک ا اظہ ار کی ا۔علامہ اقب ال نے اپ نی مش ہور نظم’’ف اطمہ بن عبداللہ‘‘ ،’’شکوہ‘‘، ’’جواب شکوہ‘‘،’’محاصرہ ادرنہ‘، جیسی نظموں کے ذریعے اپنے جذبات ک ا اظہ ارااشو ب اسلام‘ ‘،’’خیر مقدم ڈاکٹر انصاری‘‘جیسی نظمیں تحری ر کیں۔ ی نے’’شہر کیا جب کہ مولانا شبلااہستہ طرابلس کے علاقوں پر اپنا قبضہ جم ا لی ا ت و ای ک معاہ دے کے تحت جن گ بن دی ک ا ااہستہ اٹلی نے اعلان کر دیا گیا۔اس حوالے سے مولانا ظفرعلی خان نے مشہور نظم ’’سر اڈورڈگرے‘‘تحری ر کی ا جس میں موسوم برطانیہ کے وزی ر خ ارجہ کوط نزیہ پ یرائے میں مخ اطب کی ا گی ا ہے۔غ الب کی زمین میںلکھی گ ئی یہ

ااپ ہے: نظم اپنی مثال سچکے خوب جی بھر کے سر اڈورڈگرے دیکھ

ہم غریبوں کے سیاہ خانے کا ویراں ہونااپنے شیرازئہ ہستی کا بکھیرا جانا

اپنی جمیعت قومی کا پریشاں ہوناہق تثلیث کا توحید کے گھر پر گرنا بر

Page 141: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

140

ظلمت کفر میں ایمان کا پنہاں ہوناسجھک جانا سجھک سطرئہ طرار کا ترک کا

ہن عرب تا بگریباں ہونا چاک داماساڑنا خاک کا درنہ و طبروق کے سر پر

خون میں مشہد و تبریز کا غلطاں ہوناساڑنا مصر کا سینہ صد چاک کا پرزے

ہند کے دیدئہ نمناک کا طوفاں ہوناہف ماتم ادھر ایران کے اندر بچھنا ص

اور مراقش میں ادھر حشر کا ساماں ہوناہی بلقان کی لکھتے ہوئے شرح ہستم ایجاد

بید کی طرح مرے خامہ کا لرزاں ہونایہ مسلمان ہیں اس جرم میں کردو انھیں قتل

ہت بلقان میں یورپ کا یہ فرماں ہونا دسسمسلم کی تمنائوں کا خانماں سوختہ

ہت غربت میں سراسیمہ و حیراں ہونا دشخانقاہوں سے مشائخ کا گھسیٹا جانا

اور مساجد میں صلیبوں کا نمایاں ہونا

Page 142: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

141

ساٹھا تھا نقاب کبھی جن پردہ نشینوں کا نہ

سان کے ناموس کا بازار میں عریاں ہوناااپ کو اب ہے منظور سیوں تبہ کرکے ہمیں

جنگ کو روکنا اور صلح کا خواں ہوناساس نے جفا سے توبہ‘‘ ’’کی مرے قتل کے بعد

ہد پشیماں کا پشیماں ہونا‘‘) ساس ذو (۶۴ہائے @@اچھ لاکھ کے مولانا ظفرعلی خان نے ترکوں کی مدد کے ل یے ’’زمین دار فن ڈ‘‘ ک ااعلان کی ا۔ تقریب سان کے قریب رقم جمع کرکے ترکی بھیجی۔ ’’زمین دار‘‘ ک ا ط رابلس نم بر ش ائع کی ا۔کم از کم بیس نظمیں مجموعوں میں ایسی ہیں جو براہ راست اس موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ان کے علاوہ کئی نظموں میں ایسے اش عار مل تے ہیں جن میں ط رابلس و بلق ان کی جنگ وں کے مختل ف واقع ات کی ط رف اش ارے ک یے گ ئے ہیں۔مولان ا نے نظم و ن ثر دون وں کے ذریعے س ے مس لمانوں ک و یہ یقین دہ انی ک رانے کی کوش ش کی کہ خلافت کے خاتمے سے اس لام ک و ش دید نقص ان پہنچے گ ا ۔ مس لمانوں ک ا ش یرازہ بکھ ر ج ائے گ ا۔نظم

ہن ہند کا سیاسی زاویہ نگاہ ء ‘‘میں مسلم دنیا کے لیے ت رک خلافت کی اہمیت ک ا ذک ر۱۹۱۲’’مسلماناکیا گیا ہے:

تجھ سے اے ٹرکی ہمارا برقرار اعزاز ہےتو ہمارے واسطے سرمایہ صد ناز ہے

ہر دستگیر ہم اگر بے دست و پا ہیں تو ہے خضہر پرواز ہے ہم اگر شکستہ پر ہیں تو پ

ااقا کا ہے تو جاروب کش سبز گنبد والے سامت مرحوم کی دمساز ہے جس کی رحمت

Page 143: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

142

نام ہے قائم گر اب تک دہر میں اسلام کاہر کون و مکاں کا یہ بھی اک اعجاز ہے سروہق لندن دل میں سودا سر میں استنبول کا عشہم مسلمانوں کی ہستی کا یہ اصلی راز ہے

(۶۵)@@ا ترک وں کے کارن امے اور مس لمانوں کی بہ ادری کے @@ا فوقت مولانا ظفرعلی خان اپنی ش اعری میں وقت واقعات بیان کرکے ہندوستانیوں کے حوصلے بڑھاتے رہے۔ مصطفی کمال اور انور پاشا نے سنوس یوں کی م دد سے جب جنگ طرابلس میں ادرنہ کے مقام پر اٹلی کی فوج کو پسپا کرکے فوجیوں س میت ت وپیں اورجنگی

سان کی خوب تعریفیں کیں: ساز وسامان قبضہ کر لیا تو مولانا نے بجلی اطالیوں کی نگہ میں تڑپ گئی

جب تیغ تیز ترک نے کھینچی نیام سےچمکا طرابلس میں ستارہ وہ صبح کا

تھے جس کے انتظار میں دیندار شام سے(۶۶)

ہندوستان کے مشہور ’’پیسہ اخبار‘‘ نے جب بلقانیوں کی فتح کی جھوٹی اور غیر مستند معلوم اتسان کی خ وب خ بر لی۔ اائیں ب ائیں ش ائیں‘‘ میں ااکر نظم’’ پر مبنی خبریں شائع کیں تو مولانا نے غصے میں مولانا ظفرعلی خان طرابلس پر اٹلی کے حملے اور بلقان کی جنگوں کو جدی د ص لیبی جنگیں تص ور ک رتے

ء( ش ام اور فلس طین کی زمین پرعیس ائیت کاجھن ڈالہرانے کے ل یے۱۲۹۱ء-۱۰۹۵تھے۔صلیبی جنگیں ) لڑی گئی تھیں۔ان جنگوں میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے اور یہی جنگیں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان

سدشمنی کی ایک مستقل روایت کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوئیں:’’نئی صلیبی جنگ‘‘

مسیحوں اور مسلموں میں جنگ جس وقت سے ٹھنی ہےااگیا وقت جانکنی ہے بدن کو دیتی ہے روح دھمکی کہ

Page 144: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

143

سمجھ رہے ہیں یہ کہ اہل یورپ کہ ہم مسلماں کو لوٹ لے لیں گےااج کمزور منحنی ہے کہ اس میں کس بل نہیں کل کا وہ ساٹھا ہے انصاف کا جنازہ ہوا ہے ایماں جہاں سے رخصت

جہاں میں چھا جائے گا اندھیرا یہی جو یورپ کی روشنی ہےبتا رہی ہے دراز دستی اطالیہ کی طرابلس پر

ہق رہزنی ہے ااج کشور کشا وہی ہے جسے ذرا مش کہ (۶۷)

’’نئی صلیبی جنگ‘‘کے علاوہ ’’نظم ترانہ جنگ‘‘ میں بھی یہی کیفیت نمایاں ہے:یہ سچ ہے کہ دنیائے صلیبی کی عداوت

@لوا سے لپٹی ہوئی ہے بن کے بلا تیرے ہر گوشئہ عالم میں کلیسا کے پرستار

اب تک ہیں بدستور ترے خوں کے پیاسے(۶۸)

مولانا ظفر علی خان کے خیال میں عیسائی اقوام اس تاک میں ہیں کہ مس لمانوں کی اس وس یع و عریض سلطنت کو ختم کردیا جائے۔اس مقصد کے لیے وہ متحد ہو چکے ہیں اور ساز باز اورخفیہ معاہ دے

ااپس میں تقسیم بھی کر نے کا ارادہ رکھتے ہیں:: کرکے ترکی کی سلطنت کو ’’بلغاریہ نے اپنے باجگزار انہ پیوند کو قسطنطنیہ سے قطع کرکے بغاوت کا علم کامی ابی کے س اتھ بلن د ک راارمینی ا ک و ہ ڑپ ک ر ج انے کے منص وبوں ااسٹریا نے بوسنیا اور ہر زیگوینیا کے زرخیز صوبے ہتھیا ل یے۔روس دیا۔ میں منہمک ہو گی ا۔انگری زوں نے ج و اس مش ن میں کس ی س ے پیچھے نہ رہ س کتے تھے ،مص ر پ ر دائمی

ساس سے طرابلس پر حملہ کرا دیا۔‘‘) (۶۹قبضہ جمانے کے لیے اٹلی سے سمجھوتہ کر لیا اور سید سلیمان ندوی نے طرابلس و بلقان کی جنگوں میں اہل ی ورپ کے م ذموم ارادوں ک و کچھ ی وں

بے نقاب کیا ہے:

Page 145: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

144

’’طرابلس کی جنگ اور اس کے بعد ترکی کے بلقانی ریاستوں پر متح دہ حمل وں نے یہ ث ابت ک ر دی ا کہ وہ )اہل یورپ(ترکیہ اور اسلام کو یورپ سے خارج کرنا چاہتے ہیںیہ حملے یورپ کی س ازش و ت رغیب س ے ہ وئے

(۷۰تھے ،اور برطانیہ ان سازشوں میں برابر کا شریک تھا۔‘‘) بیسویں صدی کے ابتدائی عش رے میں جرم نی اور ف رانس جیس ی ب ڑی ط اقتوں کی خ وف کی وجہااپس کی گٹھ جوڑمیں مصروف تھے ۔اس سلسلے میں روس،اٹلی اور برط انیہ کے سے دوسرے یورپی ممالک

ااگے چ ل ک ر۱۹۰۷درمیان ء میںایک خفیہ معاہدہطے پایاجس میں تین ملکی گ روپ تش کیل دی ا گی ا ج و خلافت عثمانیہ کے زوال کا سبب بنا ۔ کیوں کہ جن گ عظیم اول کے دوران بھی یہ ممال ک ای ک دوس رے کے اتحادی رہے۔مولانا ظفرعلی خان کی نظم ’’دنیائے توحی د پ ر دنی ائے تثلیث کی ت اخت‘‘میں اس اتح اد

کا اصل پس منظر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے:ڈالا کسی نے ڈاکا مارا کسی نے چھاپا

ہب پایا ہس جنا رٹتے ہیں زارو وکٹر درروتی ہے تجھ کو یورپ افریقہ کی یتیمی

اور تجھ کو پیٹتا ہے ایران کا رنڈاپاگاتے ہیں روس اٹلی مل کرکھرج کی لے میں

پنجم کی لے میں جو راگ ابلیس نے الاپا(۷۱)

مولان ا ظف رعلی خ ان نے ترک وں کی م دد و اع انت کے ل یے ’’زمیندارفن ڈ‘‘ ک ا ا ج راء کی ا۔وہ اپ نی شاعری میں بھی ہندوستانیوں کو اس کارخیر اور کار ثواب کی ترغیب دیتے رہے،نظم ’’دعوت ک ا ای ک رقعہ اور اس کا ج واب‘‘میں یہی کیفیت محس وس کی جاس کتی ہے ۔ اس نظم میں ط رابلس کے شکس تہ ح ال مسلمانوں پر رحم کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ظف ر علی خ ان خلافت ک و اپ نے دل و ج ان س ے بھی زی ادہ عزیز مانتے تھے ۔ اس سلسلے میںانھوں نے خود بھی ترکی کاسفر کیا۔ اگ ر چہ وہ ڈاک ٹر انص اری کے س اتھ وفد میں شامل نہیں تھے ۔ لیکن بعد میں وہاں پر ڈاکٹر انصاری کے ساتھ مل کر ترکی کے مختلف علاقوں

کے دورے کیے اوراکابرین سے ملاقاتیں کیں۔اپنے سفر ترکی کو خفیہ رکھنے کے بارے میں لکھتے ہیں:

Page 146: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

145

اگ ر م یرے )ت رکی ج انے( کے ارادے ک ا علم حک ومت ک و ہوت ا ت و میں یقین ا بمب ئی ت ک نہ پہنچسان میں سے ایک لاکھ پانچ ہزار کا ایک چی ک ہن اسلام کے لیے جو سرمایہ فراہم کیا پاتا۔’’زمیندار‘‘نے غازیا

ء ک و اپ نی روانگی ک ا اطلاع دی ئے بغ یر ع ازم انگلس تان ہ وا۔جہ از۱۹۱۲ دس مبر ۱۱اپ نے س اتھ لے ک ر (۷۲ کے پہلے ہفتہ پیرس پہنچا۔ )۱۹۱۳سالسٹ میں سوار ہو کر

ہن سفر مولانا کو بحر ہند ،بحیرہ قلزم اور بحیرہ روم سے گزرتے ہ وئے ف رانس کی بن درگاہ مارس یلز دورا کو قتل کرنا چاہا توخ دا نے ہی اایا جب فرعون نے حضرت موس سان کو وہ واقعہ بھی یاد سے گزرنا پڑا جہاں پر سروکا ہوا تھا اورس مندر ااج وہاں اطالیہ کے بحری بیڑے نے ترکوں کا راستہ سان کو سمندر میں غرق کردیا۔لیکن سسرخ ہ و رہ ا تھ ا ۔ دوران سفراس تعماری ق و توں اور ص لیب نہتے و ن اتواںطرابلس کے ش ہیدوں کے خ ون س ے ہت عثم انیہ کی ت اراجی نے مولان ا ک وعجیب کش پرس توں کی وجہ س ے مس لمانوں کی زبوںح الی اور خلافہو گ ردش تھ ا ت و سان کے ذہن میں مح مکش میں مبتلا ک یے رکھ ا۔ای ک ط رف مس لمانوں ک ا تابن اک ماض ی دوسری طرف روبہ زوال حال کے واقعات۔اس پورے منظر نامے کو اپ نی ای ک طوی ل نظم’’س مندر کی روانی

اور تخیل کی جولانی‘‘میں کچھ یوں بیان کیا ہے:ااہ وہ سسلی، بسایا تھا جسے ہم نے کبھیاندلس کی طرح مغرب میں ہماری یادگار

ساڑا تھا جس کے ساحل پر کبھی ہم توحید پرچاور اذانوں سے کبھی گونجے تھے جس کے کوہسار

اایا مجھے وہ سفینہ تیرے سینے پر نظر کھائے بیٹھا ہے جو دنیا کی تباہی پر ادھار

ہر تسمہ پا ہد خستہ کو لپٹا ہے پی سندباتیرے کندھے پر نہیں ہے مغربی بیڑا سوار

جس کی توپوں سے ہوئے ہیں مشرقی ساحل ترےمرگ ریز و مرگ بیز و مرگ زا و مرگ زار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Page 147: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

146

اانکھیں چرا بیکسوں اور ناتوانوں سے نہ یوں ساتھ دے ان کا ، زمانہ ہے جنھوں ناسازگار

سچکی ہے تیری موجوں کے تھپیڑے مدتوں کھا ساتار ستو اب پار ہی شکستہ مسلم کو کشت

ہن وقت کر تباہ ان کو جو ہیں فرعون بے ساماحجت اغرقنا کی پھر ظاہر ہو ان پر ایک بار

ہن مسلم جن کے مذہب نے کیا ان پر ہدر خوجن کی منطق توپ ہے یا دار یا خنجر کی دھارایسے صد افگن کو ہم کرتے ہیں تیرے ہی سپرد

ااڑ میں تہذیب کی ٹٹی کے جو کھیلے شکار(۷۳)

سان کا قیام تین دن رہا۔سہ روزہ قیام کا مقص د س فیر ف رانس’’ ب اب علی‘‘س ے ترک وں کے پیرس میں متعل ق مس یحی دنی ا کی حکمت عملی معل وم ک ر ن ا تھ ا۔اس کے بع د مولان ا لن دن پہنچے جہ اں پ رااوٹ لک‘‘ میںہندوستانیوں کی طرف سے اہ ل انگلس تان کے ن ام ای ک طوی ل اپی ل ش ائع ک رائی۔جس اخبار’’ااخ ر ک ار قس طنطنیہ پہنچے میں انگریزوں سے ظالم کی حمایت پ ر ش کوہ کیاگیاتھ ا۔لن دن س ے روانہ ہ و ک ر سان کی ہندوستانی ہلال احمر کے وفد اور ڈاکٹر انصاری سے ملاقات ہو ئی۔وہاں پر سب س ے پہلے جہاں پر صدر اعظم شوکت پاشا کوچندے کا ایک لاکھ پانچ ہزار کا چیک پیش کیا۔تین مہینے ت ک وہ اں قی ام کی اسان کی ش ان میں فارس ی میں لکھ اہوا اور ت رک اک ابرین س ے ملاق اتیں کیں۔ س لطان س ے ملاق ات کے وقت قصیدہ بھی پیش کیا۔واپسی پر مصر میں جہاز ’’حمیدیہ ‘‘ کے کپت ان روف پاش ا س ے بھی ملاق ات کی۔)

سان کا۱۹۱۳مولانا ظفرعلی خان جولائی (۷۴ ء کو ترکی کا دورہ مکمل کرکے بمبئی پہنچ گئے جہاں پر سان کی ش ان میں ای ک نظم لکھ ک ر ’’زمین دار‘‘ ک و بھیجی۔لوگ وں کی شاندار استقبال ہوا۔مولان ا ح الی نے سان کے استقبالی جل وس میںش رکت کی، ڈاک ٹر نظ یر کثیر تعدادنے اسلامی جوش و جذبے سے سرشار ہو کر

سان کے واپسی کے متعلق لکھتے ہیں: حسنین زیدی نے

Page 148: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

147

اائے ت و۱۹۱۳’’ج ولائی سپرج وش خ یر مق دم ہ وا ۔بمب ئی س ے دلی ااپ ک ا ااپ بمب ئی پہنچے ۔یہ اں ء میں ساس ی وقت استقبال کرنے والوں کے ہجوم کی اتنی کثرت تھی کہ ایک نوج وان اس ہج وم میں کچلا گی ا اور

(۷۵جاں بحق ہو گیا۔‘‘)ہن ہندوس تان کے دل وں میں ط رابلس و بلق ان کی جنگ وں س ے لگے زخم من دمل نہیں ہ وئے مسلمانااایا۔حکومت برطانیہ کے کارندوں نے سڑک کی توسیع کے سلس لے تھے کہ ایک اور افسوس ناک واقعہ پیش میں مسجدکانپور کا وضو خانہ مسمار کردیا ۔چونکہ مسلمان پہلے سے ہندوستان میں مسلسل انگریزوں کےہ بنگ ال کی تنس یخ ک ا واقعہ اازادی کے زخم تازہ تھے کہ تقس یم بہیمانہ رویے سے بیزار تھے اور ابھی جنگ ہگ اایا جس کے بعد مسلمان برطانوی س امراج کے سلس لے میں ش دید مایوس ی ک ا ش کار ہوگ ئے ۔ جن پیش طرابلس وبلقان سے بھی انگریزوں کی مسلمان دشمنی اور اسلام دشمنی مکم ل واض ح ہ و گ ئی ۔ ہندوس تانسان کے کے اندر اور ہندوستان کے باہر پوری اسلامی دنی ا ک و ن ئے سیاس ی چیلنج وں ک ا س امنا تھ اجس میں مذہب پر ش دید ض رب لگ ائی ج ارہی تھی۔ی وں مس جد ک انپور کے واقعے نے جل تی پہ تی ل ک ا ک ام کی ا اور

ء۱۹۰۸مسجد کی شہادت کو مس لمانوں نے اس لام کے خلاف س ازش س مجھا۔ کی وں کہ حک ومت نےہضد میں ای ک ) اارہ ا تھ اtempleمیں جب توس یع س ڑک ک ا منص وبہ بنای ا ت و اس کی (گ ردوارہ بھی

سرخ تب دیل ک روا لی ا جس کے بع د سانھ وں نے مخ الفت ک رکے س ڑک ک ا سکھوں کو جب اس کا پتہ چلا تو ااگیا۔مولان ا ظف رعلی خ ان نے اپ نی ای ک نظم میں حک ومت کی سڑک کی لپیٹ میں مسجد کا ایک حصہ

سرخی حکمت عملی کی طرف اشارہ کیا ہے: اس ایک ہق عدل اس انگریز ی حکومت کے بھی نیارے ہیں طری

سگردوارے ہیں ہوئی ہیں مسجدیں ویراں سلامت (۷۶)

مسلمانوں نے مسجد کے بچائو کے لیے صوبے کے گورنر، سر جیمس مس ٹن کے پ اس درخواس تجمع کرائی لیکن گورنرنے درخواست اس بنیاد پر مسترد کر دی کہ غس ل خ انہ مس جد ک ا حص ہ نہیں ہے۔ جب کہ مسلمانوں کے مذہبی پیشوائوں نے اسے مسجد کا حصہ قرار دیا۔اس لیے مسجد ک انپور کے انہ دام سے مسلمانوں کودلی تکلیف ہوئی ۔حالانکہ اسلامی نقطہ نظر سے یہ واقعہ اسلام س ے متص ادم بالک ل نہیں

Page 149: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

148

ساس ے ڈھ ا نے کی گنج ائش موج ودہے۔ لیکن ااج ائے ت و اس لام میں تھا کیونکہ راستے کی ح دود میںمس جد ہج بالا واقعات کی وجہ سے مسلمان اس حد تک مشتعل ہوگ ئے تھے کہ انہیں انگری ز کے ہ اتھوں مس جد در

ہل قب ول نہیں تھ ا۔ ک و مس لمانوں نے ک انپور کی۱۹۱۳ اگس ت ۳ک ا انہ دام کس ی ص ورت میں بھی قاب مرکزی عید گاہ پرایک جلسہ منعقد کیا جس میں ع ورتیں،ب وڑھے،بچے،ج وان س ب ش ریک ہ وئے۔مق ررین نےسرخ کی ا اور مس جد سابھاراجس کے بعد ہجوم نے مسجد کا جوشیلے تقاریر کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو ساٹھا کر اپنی جگہ پر دوبارہ رکھنا شروع کر دیا۔ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کے کے شہید کیے گئے اینٹوں کو

اارٹیکل اپنے نے لاوان چلادیں۔سپینسر گولیاں پر سان نے پولیس میں The kanpur" سجرم Mosque Incident 1913میں متحدہ صوبے کے قائم مقام گورنر سر جیمس مسٹن"

ء کو اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کے ٹیلی گرام کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے:۱۹۱۳ اگست ۳کے "Mass meeting of Muhammadans held at

Eedgah this morning.on cunclusion marched with black flages flying to mosque and commenced rebuilding demolished portion and throwing stones at kotwal and other police peresent.Magistrate and superintendent of police arrived about half hours fast ten with police force and were met by volleys of stone and brickbats.M- agistrate orderd police to fire...Probably between twenty and thirty

rioters killed and wounded."(77) مس جد ک انپور کے واقعے س ے اس تعماری حک ومت کی س فاکی اورتن گ نظ ری ک ا ان دازہ ہوت ا ہے جنہوں نے صرف ایک لاٹھی چ ارج اور معم ولی ڈرانے دھمک انے ک ا م روج ط ریقہ اختی ار ک رنے کے بج ائے گولیاں چلانے کا حکم دے کر اتنے بے گناہ اور نہتے لوگوں کو زخمی اور شہید کر ڈالا ۔مولان ا ظف ر علیاازم ائش میں ث ابت ق دمی کی دع ا م انگی ہے کی وں کہ اس کے خان نے اپنے ایک ش عر میں خ دا س ے اس اابادیاتی ہندوستان کی تاریخ کا حصہ ب نے جن میں جلی انوالہ ب اغ اور بعد بھی اس سے ملتے جلتے واقعات نو

مسجد شہید گنج جیسے سانحات قابل ذکر ہیں۔

Page 150: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

149

اازمائش میں خدا ثابت قدم رکھے ہمیں اس ہادھر سینے ہمارے ہیں سان کی سادھر ہیں گولیاں

(۷۸) ہندوس تانی مس لمانوں ک و اس واقعے س ے ش دید ص دمہ پہنچ ا اور اس کے ردعم ل میں مختل ف جگہوں پر مظاہرے ہوئے اور احتجاجی جلوس نکالے گئے۔مسلمانوں کے مذہبی پیشوائوں اور لیڈروں نے اپنی تقریروں میں انگریز حکومت کے اس ا قدام کو شدید تنقید کا نش انہ بنای ا۔ اخب اروں نے م ذمتی مض امین اور تقاریر شائع کیں جس کی پاداش میں مولانا ظفرعلی خان کے اخبار ’’زمیندار‘‘ سمیت ’’الہلال‘‘،’’ارودئے معلی‘‘،اور ’’کامریڈ‘‘ کی ضمانتیں ضبط ہوئیں۔شعراء نے اس موضوع پر غم و غصے کا اظہ ار ک رتے ہ وئےسان ی تھے اس ح والے س ے مزاحمتی نظمیں لکھیں۔شاعروں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ش خص ش بلہن معرکہ ک انپو ر ہیں‘‘ ج وبے ح د مقب ول ہ وئی جس نے مس لمانوں ک و مغ ربی اس تعمار کی نظم ’’ کشتگا

کے خلاف بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا:کل مجھ کو چند لاشئہ بے جان نظر پڑے

دیکھا قریب جا کے تو زخموں سے چور ہیںاائی یہ صدا پوچھا جو میں نے کون ہو تم

ہن معرکہ کان پور ہیں ہم کشنگا(۷۹)

اانے والے اس س فاک اور اذیت ن اک مولانا ظفرعلی خان نے استعماری حکومت کے زی ر س ایہ پیش واقعے کی نثر اور نظم دونوں میں شدید مذمت کی۔ اخبار’’زمیندار‘‘ میں جب مزاحم تی تقریروں اور مض امین

ء ک و زمین دار کی ض مانت ض بط ک رلی۔ خ ود۱۹۱۳ س تمبر ۱۸کا سلسلہ شروع کیا گیاتو حک ومت نے سان کی مولانا کے وارنٹ گرفت اری ج اری ہ وئے جس کے بع د وہ بھی لن دن می ںروپوش ہ و گ ئے۔ش اعری میں بہت سی نظموں اور متفرق اشعارمیں اس واقعے کے خلاف مزاحمت کا پہلو موجود ہے لیکن ایسے موقع وںسانہوں نے گفتار کا غازی بننے کی بجائے ک ردار کے ذریعے عملی ط ور پ ر م زاحمت ک و مق دم جان ا۔نظم پر

’’ہنوز دلی دور است‘‘ میں مسلمانوں سمیت ہندوستانی اقوام کی شومئی تقدیر کا شکوہ کیا گیا ہے:

Page 151: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

150

کشمیر ہے کہیں تو کہیں کان پور ہےہر نشور ہے پیدا ہر ایک گوشہ سے شو

ہے تار تار پیرہن امن و عافیتسچور ہے سچور ہم بے گنہی زخموں سے جس

(۸۰) مولانا ظفرعلی خان استعماری حکومت کے اس انسانیت سوز سلوک سے دلبرداشتہ ہو کر مایوس ہ ر

سانھوں نے مذہبی عقائد کی بنیاد پر قوم کو بی دار ک رنے کے ل یے دین محم دی صلى الله عليه وسلمگز نہیں ہوئے بلکہ ااج سانھ وں نے مس لمانوں ک ویہ ب اور ک رانے کی کوش ش کی کہ اگ ر پ ر ج ان قرب ان ک رنے کی ت رغیب دی۔ استعماری قوتوںنے ہمارے مذہبی عبادت گاہ ک و وی ران ک رکے اپ نی ط اقت اور ق وت ک ا ثب وت دی ا ہے ت و اسہن محم دی کی پ یروی ک رنی طاقت اور قوت ک ا مق ابلہ ک رنے کے ل یے ہندوس تان کے مس لمانوں ک و بھی دی

ااپ پیدا کرنا ہوگا: ہوگی اور اس دین پر خود کو قربان کرنے کا جذبہ مسلمانوں کواپنے @علم گڑا ہے اگر کان پور میں ان کا

دہلی میں سر بلند تم اپنا لوا کروسر سے کفن لپیٹ لو اور اپنی جان کو

ہح مصطفوی پر فدا کرو ہس شر نامو(۸۱)

مسجد کانپور کے واقعے پ ر مس لمانوں کی ناراض ی اور غم وغص ہ کم ک رنے کے ل یے حک ومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے فیصلے کے بعد مسجد کے منہدم حصے پر س ڑک اور اوپ ر مس جد کیسدکھ درد کا ازالہ نہ ہو س کا۔اس چھت تعمیر کی گئی۔تاہم حکومت کے اس اقدام سے بھی مسلمانوں کے

ساٹھن ا۱۹۱۴حادثے کے بعد دوسرا بڑا واقعہ جولائی ااگ ک ا بھ ڑک ء کو یورپ میں پہلی جن گ عظیم کی تھا۔ جس کے شعلوں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔بظاہر تو اس جنگ کے لیے وہ واقعہ بنی اد بنای ا

اارکی ڈوک فرڈینین ڈ کوس ربیا کے دہش ت گردوں نے۱۹۱۴ جون ۲۸گیا جس میں ااسٹریا کے ش ہزادے ء کو ااس ٹریا نے جرم نی کی پش ت پن اہی میں س ربیا پ ر حملہ ک ر دی ا،لیکن قتل کردیا تھ ا اورجس کے ج واب میں

Page 152: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

151

جنگ کی اصل وجہ بیس ویں ص دی میں ی ورپی اق وام کی ق وم پرس تانہ ج ذبات تھے۔ دنی ا کی ب ڑی ط اقتیں،ااسٹریا،برطانیہ،ترکی اور اٹلی ایک دوسرے س ے خ ود ک و برت ر ث ابت ک رنے کی ت گ و دو فرانس،جرمنی،روس، میں لگی ہوئی تھیں۔اپنی عسکری طاقت کو مضبوط کرنے کے لیے خفیہ معاہدوں کاسلسلہ جاری تھ ا جباابادکاریوں اورکالونیوں کہ دنیا میں اپنی برتری اور طاقت کو ثابت کرنے کے لیے یہ ممالک ایک دوسرے کی ااس ٹریا ک و س ربیا پ ر حملہ میں بھی دخل اندازی کر رہے تھے۔ ایک ط رف اگ ر جرم نی نے اتح ادی بن ک ر ااس ٹریا کے خلاف س ربیا کی بھرپ ور سپرانے حری ف ساکسایا تو دوسری جانب روس نے بھی اپنے کرنے کے لیے ااسٹریا کے خلاف روس نے اعلان جنگ کر دیا۔ف رانس چ ونکہ س ربیا اور روس ک ا حلی ف مل ک مدد کی اور تھا اس ل یے جرم نی نے ف رانس پ ر حملہ ک رنے کی ٹھ انی۔ ف رانس ت ک پہنچ نے کے ل یے جرم نی نے بلغ اریہااکر جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دی ا۔جاپ ان بھی جرم نی پرحملہ کر دیا جس پر برطانیہ نے غصہ میں ہن جنگ میں کود پڑا۔اسلامی دنیا میں ترک وں نیجرم نی ک ا س اتھ دی ا ت اکہ ف رانس ، روس اور کے خلاف میدا اٹلی سے مقبوضہ علاقے واپس لے جا سکیں۔ اس ط رح پہلی جن گ عظیم میں دنی ا دو گروہ وں میں تقس یمااس ٹریا،ہنگ ری،جرم نی اور ت رکی کے ممال ک ش امل تھے جب کہ دوس را گ روہ ہ و گ ئی ای ک گ روہ جس میں سربیا،روس،فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک پر مشتمل تھا بعد میں اس گروہ کی تعداد پچیس ممال ک کے

قریب تک پہنچ گئی ۔ جنگ کے ابتداء میں جرمنی کو کچھ حد تک کامیابی حاصل ہوئی لیکن یہ جنگ چار سال ت ک

ء تک جاری رہی جس میں مجموعی طور پر جرمنی اور ترکی کو شکست کا س امنا۱۹۱۸ نومبر ۱۱یعنی ہن جنگ دی نے ک ا پابن د اس ل یے بنای ا گیات اکہ دوب ارہ پڑا۔جنگ بندی کے بعد جرمنی کو صلح نامے میں تاواسجرات نہ کرس کے جب کہ دوس ری ط رف اس تعماری ط اقتوں نے اپ نی اس لام دش منی ک ا ساٹھ انے کی بن دوق

ااپس میں تقسیم کر لیا۔ سترک خلافت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ثبوت دیتے ہوئے اس جنگ نے پوری دنیا کے انسانوں کو متاثر کی ا۔ ہندوس تان ت ک اس جن گ کے ش علے پہنچے ۔

سات را۔ہندوس تان نے ت رکی کے خلاف۱۹۱۴چار اگست ء کو برطانیہ جرم نی کے خلاف می دان جن گ میں جنگ کے سلسلے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ت اہم ہندوس تان کے مس لمانوں ک وانگریزوںہت مقدس ہ کی حف اظت کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ جنگ کے دوران مس لمانوں کے مقام ا

Page 153: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

152

اامادگی ظاہر کی۔ ہندوستانیوں کی کثیر تع د کی جائے گی۔کانگرس نے ایک ریزولوشن پاس کرکے جنگ پر ہن جنگ میں بھیجنے کا حکم دیا گیا۔دوسری ط رف خلافت عثم انیہ جس اد کو فوج میں بھرتی کرکے میداہت کے خلیفہ نہ صرف مسلمانوں کے ل یے پیغم بر ب ر ح ق کے جانش ین تھے بلکہ خلیفہ کے زی ر س ایہ مقام اہسہ بیت اللہ،مکہ معظمہ،مدینہ من ورہ ک و ہندوس تان کے مس لمان اپ نی ج ان س ے بھی زی ادہ عزی ز ج انتے مقدساترن ا تھ ا دوس ری ط رف تھے۔ایک طرف مسلمانوں ک و خلافت اور مس لمانوں کے خلاف می دان جن گ میں خلیفہ کا فتوی جہاد ۔ اس پوری صور تحال نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ش دید کش مکش میں مبتلا ک رااپ دیا۔ ہندوستان میں دو گروہ بن گئے ایک گروہ کا خیال تھا کہ ترکی نے جرمنی کا س اتھ دے ک ر اپ نے کو خواہ مخواہ کی مصیبت میں جھونک دیا ہے۔وہ ترکی کی جن گ ک و م ذہبی جن گ کے بج ائے سیاس یہت مقدس ہ کی حف اظت کے اعلان پ ر بہ حی ثیت جن گ س ے تعب یر ک رتے اور حک ومت برط انیہ کے مقام اساس کی م دد ک و ج ائز س مجھتے تھے۔مگ ر اس لامی اتح اد کے رعای اانگریز س رکار کے دش من کے خلاف سانھ وں نے ترک وں س ے اپن ا رابطہ اس توار رکھ ا اور پرس تار ہندوس تانیوں کے اس عم ل کے س خت خلاف تھے ۔ساکس اتے رہے۔ افغانستان کے ساتھ مل کر ہندوستانی مسلمانوں کو استعماری حکومت کے خلاف بغاوت پر

ڈاکٹر تارا چند اس حوالے سے لکھتے ہیں: ء میں جنگ چھڑ گئی تو حالت انتہائی خوفناک ہو گئی ۔ہندوستان میں برطانیہ کی حکومت کو۱۹۱۴’’

ساکھ اڑ پھینک نے کے پلان تی ار ک یے ج انے لگے۔محم ود الحس ن دیوبن د نے ڈاک ٹر انص اری کی م دد س ےعبیداللہ سندھی کو کابل اس لیے روانہ کیا کہ اپنے مقص د کے ل یے ام یر کی حم ایت حاص ل کی ج ائے ۔ کابل میں عارضی حکومت مہندر پرتاب کو صدر بنا ک ر ق ائم کی گ ئی۔بع د میں محم ود الحس ن ،حس ین احمد مدنی اور دوسرے لوگ مل کر مکہ اس غرض سے گئے کہ ترک وں ک و ہندوس تان کی بغ اوت کی تائی داامادہ کریں۔ریشمی رومال پر خط وط ،خفیہ ط ریقے س ے ہندوس تان اور افغانس تان اش اعت کے ل یے بھیجے پر گ ئے۔لیکن قس مت ان کے خلاف تھی ۔ع رب کے فیص ل نے ت رکی کی س لطنت کے خلاف علم بغ اوت بلند کردیااور انگری زوں کے س اتھ م ل گی ا۔محم ود الحس ن اور ان کے س اتھی گرفت ار ک ر ل یے گ ئے اور مالٹ ا

(۸۲جلاوطن کر دئیے گئے۔‘‘)

Page 154: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

153

شعراء میں سے بعض نے توہندوستانی افواج کا حوصلہ بڑھ انے کے ل یے گیت لکھے جب کہ بعضہر زم انہ نظم ’’اک ج رمن نے مجھ س ے کہ ا نے بغاوت اور مزاحمت کا علم بلند کی ا۔ش بلی نے اپ نی مش ہوسان کی گرفت اری ک ا حکم ن امہ ج اری کی ا۔ڈاک ٹر گ وپی چن د ہہ غرور‘‘لکھی جس پ ر انگری ز حک ومت نے ازر

نارنگ لکھتے ہیں: ’’اس )نظم( میں چ ونکہ اتح ادیوں پ ر ط نز و تع ریض کی گ ئی تھی،حک ومت نے اس ے خطرن اک ق رار د ے کرشبلی کے نام گرفتاری کا وارنٹ جاری کی ا ۔بیش تر اس کے کہ ش بلی قی د فرن گ کے ل یے گرفت ار ہ وتے وہ

(۸۳قید زندگی سے رہا ہوگئے۔‘‘) انگری ز وں نے ای ک ط رف پ ریس ایکٹ کے تحت ہندوس تانی اخب اروں،الہلال،کامری ڈ اور زمین داروغیرہ پر پابندیاں عائد کیں جب کہ دوسری طرف ہندوس تان کے س رکردہ رہنم ائوں ک و نظ ر بن د ک ر دی ا گی ا۔

ڈاکٹر غلام حسین ذولفقار لکھتے ہیں:اازاد ک و رانچی میں،مولان ا محم د علی ک و ہن تحفظ ہند ناف ذ کردی ا گی ا۔مولان ا اب ولکلام ’’ہندوستان میں قانو

ااباد میں نظر بند کر دیا گیا۔‘‘) ااباد میںاور مولانا ظفرعلی خان کو کرم (۸۴فیض

مولانا ظفر علی خ ان جرم نی کے خلاف برط انوی اعلان جن گ کے ش دید مخ الف تھے اور انہ وں نے ہندوستانیوں کی برطانوی حمایت کی بھی مخالفت کی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ہندوستانیوں کے ل یے اس جنگ میں شرکت نقصان کے علاوہ ک وئی اور پہل و نہیں رکھ تی جب کہ اس لامی نقطئہ نظ ر س ے بھی مسلمان کے لیے مسلمان کاخون بہانا حرام ہے۔مولانا سمجھتے تھے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو عراق،ایران اور فلسطین کے علاقوں میںسامراجی س ازش کے تحت اپ نے مس لمان بھ ائیوں کے خلاف ل ڑا ی ا جارہ ا ہے ۔ جنگ کے بعدوہ وعدے بھی ایفا نہ ہو سکے جو مسلمانوں کے ساتھ ک یے گ ئے تھے۔مولان ا ظف رعلی خ ان کی نظم ’’ناٹال اورہندوستان‘ ‘ اس پس منظر میں لکھی گئی دو قسطوں پ ر مش تمل وہ طوی ل نظم ہے جس

ساٹھانے پر زور دیا ہے: سان کے خلاف تلوار میں انگریزوں کے ظلم و ستم کا ذکر کرکے مسلمانوں کو

(۱)

Page 155: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

154

ستم ناٹال میں جو تیرے بچوں پہ ٹوٹے ہیںسان کی خونیں داستاں تو بھی سسن چکا ہے بہت کچھ

مچا رکھا ہے اودھم کیپ کالونی میں گوروں نے ہت بازو کا کچھ تو امتحاں تو بھی کر اپنی قو

سجھلس دے سوز دل سے ٹیمز کی موجوں کے داماںکوااتش بجاں تو بھی کہانی اپنی دہرا کر ، کہ ہے

غلط انداز میں ناوک ہیں صید افگنوں کے بے اماں ناوکنکال اک تیر کش سے کہ رکھتا ہے کماں تو بھی

(۲)بنی ناٹال میں یہ گت ہے ہم خانہ بدوشوں کی

سچولھا ہے نہ ہنڈیا ہے نہ لڑکے ہیں نہ بالے ہیں نہ سانچا کم نصیبی وزیر ہند ہی سنتے ہیں

پہنچ سکتے زحل تک ورنہ ہم لوگوں کے نالے ہیںیہ تو بر تو تغافل اور پیہم سختیاں کب تک

اارائیاں تاکے یہ حشرانگیزیاں کب تک‘‘ ’’یہ ظلم (۸۵)

ااتے ہی دوس رے سیاس ی اور مولان ا ظف رعلی خ ان پ ریس ایکٹ کے خلاف لن دن گ ئے تھے۔ واپس سان ک و نظ ر ااباد میں نظر بند کر دیا گیا اور جنگ کے اختتام ت ک سان کو بھی کرم مذہبی رہنمائوں کی طرح بن د رکھ ا گی ا ۔ نظ ر بن د ی اور ب ار بارقی د و بن د کی ص عوبتیں برداش ت ک رنے کے ب اوجود ان کے حوص لے پست نہیں ہوئے ۔جیل خانے میں انگریزی رویے کی وجہ ان کے استعمار مخالف نظریات مزید پختہ تر ہ وتے

چلے گئے ۔اس بارے میں وہ ایک شعر میں فرماتے ہیں:اائے ہم جیل میں تو ہم پر کھلا فرنگی ازل کے دن سے جب

دروغ گو بھی ہے،حیلہ جو بھی ہے،کمینہ بھی ہے،لئیم بھی ہے

Page 156: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

155

(۸۶)سان ک ا قلم مغ ربی اس تعمار ااباد میں نظر بندی اور چودہ سال قید فرن گ میں رہ نے کے ب اوجود کرم ااچکا ہے۔دوران جنگ سان کا ایک مجموعہ کلام منظرعام پر کے خلاف برابر چلتا رہا۔ حبسیات کے نام سے ہت مقدسہ کے تقدس کی پائمالی کے حوالے سے اپنی نظم’’نالہ کی رس ائی میں‘‘ اللہ س ے ترکی کے مقاما

شکوہ کرتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں:

ساڑائی جارہی کیوں ہے خدایا تیرے گھر کی خاک اائی جارہی کیوں ہے قیامت وقت سے پہلے ہی

وہ تیغ اعدا کے سر پر جس کو بجلی بن کر گرنا تھااازمائی جا رہی کیوں ہے ہماری گردنوں پر

یہ مانا رحمتیں تیری ہیں شامل دشمنوں کو بھیمگر یہ قوم یوں سر پر چڑھائی جا رہی کیوں ہے

(۸۷)سان کے خی ال میں جن گ مولانا ظفرعلی خان نے ت رکی کی جن گ میں ش مولیت ک و س راہا کی ونکہ سترک وں کے مقبوض ہ علاقے دوب ارہ م ل س کیں گے بلکہ خلافت ک و ای ک ن ئی روح اور ط اقت سے نہ ص رف بھی مل جائے گی اور یہی خلافت عالم اسلام کے لیے ای ک ملت اور وح دت ک ا پیش خیمہ ث ابت ہ وگی۔

نظم ’’ترک‘‘ میں ان نیک خواہشات کا ذکر موجود ہے:اایا لیظہرہ‘‘ کے وعدے کے وفا ہونے کا وقت

اایا گدائے بے نوا کے بادشاہ ہونے کا وقت ہوا اللہ احد کے نغمہ کو بے تاب ہے گلشن

اایا قفس عندلیبوں کے رہا ہونے کا وقت ہے اسلام اک سمندر اور ترک اک قطرہ ہے اس میںاایا اس اک قطرے سے اک طوفاں بپا ہونے کا وقت

Page 157: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

156

توانائوں پہ کیوں کر ناتواں کو غلبہ ملتا ہےاایا اایات مبیں کے رونما ہونے کا وقت ان

(۸۸)ہق سدرفش اں اس ت‘‘’’مش ہر رحمت ااں اب مذکورہ بالا نظم وں کے علاوہ ’’کلیس ائے عیس وی‘‘،’’ہن واز ناز‘‘،’’یاد ایام‘‘اعظم الجہاد‘‘، ’’صلیب و ہلال‘‘اور’’بین الاقوامی الجھنیں‘‘جیسی نظموں میں بھی پہلی جنگ عظیم کا ابتدائی منظر نامہ اور ہندوستانیوں پر اس کے اثرات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔مولان ا ظف رعلیسانھوں نے طرابلس اور بلقان کی خان نے ہمیشہ خلافت کی حمایت کی اور اس کی بقا ء کے سلسلے میں جنگوں کے دوران خود ترکی کا دورہ کیا۔ ہندوستانی مسلمانوں نے طرابلس اور بلق ان کے سلس لے میں ت رکی کی ہر ممکن م دد کی لیکن جن گ عظیم ش روع ہ ونے کے بع د وہی ہندوس تانی مس لمان ترک وں کے خلافاازادی جنگ کرنے پر مجبور ہ وئے کی ونکہبعض ہندوس تانی سیاس ت دان وں نے ق ومی مف اد میں انگری زوں س ے سان کا ساتھ دینے میں عافیت جانی تاہم مولانا ظفرعلی خان کانگرس کے اس فیص لے حاصل کرنے کے لیے سان کے اس فیص لے کے خلاف م زاحمت ک رتے کے س خت خلاف تھے اور حک ومت کی پ رواہ ک یے بغ یر رہے۔پہلی جنگ عظیم کے نتائج اور ہندوستان پر اس کے اثرات ،یا اس بع د کے دور ک ا سیاس ی منظ ر ن امہ اور مولانا ظفرعلی خان کی شاعری میں مغ ربی اس تعمار کے خلاف م زاحمت پ ر مزی د بحث اگلے ب اب ک ا

حصہ ہے۔

Page 158: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

157

حوالہ جات:ہت جاوی د، حص ہ اول،انجمن ت رقی اردو،ہن د،دہلی،۔۱ ی،حی ا ء،ص:۱۹۳۹مولاناالط اف حس ین ح ال

۱۴۹ہت۔۲ اازادی میں پنج اب ک ا ک ردار،ادراہ تحقیق ا ڈاک ٹر غلام حس ین ذولفق ار،جدوجہ د

پاکستان،لاہور،طب۱۳۵ء،ص:۱۹۹۶ع اول،

اازادی ہند،مترجم قاضی محمد عدیل عباسی،قومی کونسل برائے ف روغ۔۳ ہک ہخ تحری ڈاکٹر تارہ چند،تاری۵۶۰جلد سوم،ص:۱۹۸۰دہلی،طبع اول ،اردو،نئی

@@ا،ص:۔۴ ۵۸۱ایض@@ا،ص:۔۵ ۵۹۵-۵۹۴ایضاازاد،الہلال کلکتہ۔۶ ء۱۹۱۳ اگست ۱۳مولاناابولکلام ڈاک ٹر غلام حس ین ذوالفق ار ،اردو ش اعری ک ا سیاس ی و س ماجی پس منظ ر،ج امعہ پنج اب،لاہ ور،۔۷

۱۱۱ء ص:۱۹۶۶اازادی اور اردو ش اعری،ق ومی کونس ل ب رائے ف روغ۔۸ ڈاک ٹر گ وپی چن د نارن گ،ہندوس تان کی تحری ک

۲۴۴،ص:۲۰۰۳دہلی، اردو،نئی ۴۷دیوان ولی،بہ اہتمام منشی ممتازعلی،مطبوعہ حیدر پریس دہلی،س۔ن،ص:۔۹

ر،کلیات،ص:۔۱۰ ۱۲۹میر تقی می@@ا،ص:۔۱۱ ۸۲ایض@@ا،ص:۔۱۲ ۲۷ایضہت ، جلد سوم،مرتبہ ڈاکٹر شمس ال دین ص دیقی ، مجلس ت رقی ادب ،۔۱۳ ا،کلیا مرزا رفیع محمد سود

ء،۱۹۷۶لاہور ، ۹۶۔۹۴ ص:

Page 159: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

158

،دی وان،انتخ اب،حس رت موہ انی،مکتبہ م یری لائ بریری،لاہ ور،۔۱۴ ،ص:۱۹۲۵غلام ہمدانی مص حفی۱۴۷ ی ومول وی اش رف علی۔۱۵ اارس اابادی،کلیات ،بصحت و حواشی ، مولانا عبدا لباری ص احب نظیر اکبر

۶۰۵ء ،ص:: ۱۹۵۱لکھنو ، لکھنوی ، نول کشور پریس نی از فتح پ وری،ح رف چن د،مش مولہ،تل وک چن د مح روم،ک اروان وطن،مکتبہ ج امع لمیٹی ڈ،ن ئی۔۱۶

۲۲ء،ص:۱۹۶۰دہلی،طبع اول اازادی اور اردو شاعری،ص:۔۱۷ ۲۵۱ڈاکٹر گوپی چند نارنگ،ہندوستان کی تحریک ی،مجموعہ نظم حالی،ایجوکیشل بک ہاوس،علی گڑھ،۔۱۸ ۵۱ء،ص:۱۹۹۸مولانا الطاف حسین حال۶۱ء،ص:۲۰۰۷شبلی نعمانی،کلیات ،دارالمصنفین،شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ )یوپی( انڈیا،۔۱۹اازادی اور اردو شاعری،ص:۲۰ ۲۵۱ڈاکٹر گوپی چند نارنگ،ہندوستان کی تحریک پروفیس ر ،ڈاک ٹر س ہیل احم د،پی۔ایچ۔ڈی مق الہ،جدی د اردو نظم میں مغ ربی اس تعمار کے خلاف۔۲۱

مزاحمت۳۱۳،غیر مطبوعہ،ص:(۱۸۵۷ء تا ۱۹۴۷)

اازادی میں اردو شاعری کا حصہ،نصرت پبلشرز،لاہور ۔۲۲ ڈاکٹر درخشاں تاجور،ہندوستان کی جدوجہد ۲۶۳-۶۲ء،ص:۱۹۹۱

۸۶ء،ص:۱۹۸۵پنڈت برج نرائن چکبست لکھنوی،صبح وطن،نامی پریس ،لکھنو،۔۲۳اازادی اور اردو شاعری،ص:۔۲۴ ۳۴۰ڈاکٹر گوپی چند نارنگ،ہندوستان کی تحریک ۵۸-۵۷ء،ص:۱۹۶۰تلوک چند محروم،کاروان وطن،مکتبہ جامع لمیٹڈ،نئی دہلی،طبع اول ۔۲۵ااباد،۔۲۶ االہ اابادی،گاندھی نامہ،کتابستان، ۱ء،ص:۱۹۴۸اکبر الہ @@ا،ص:۔۲۷ ۵ایضاازادی میں اردو ک ا حص ہ،مجلس ت رقی ادب،لاہ ور،ج ون۔۲۸ ڈاک ٹر معین ال دین عقی ل،تحری ک

۳۰۱،ص:۲۰۰۸۹۸،ص:۲۰۰۹علامہ محمد اقبال،کلیات ،اقبال اکادمی پاکستان،لاہور،طبع ہشتم ۔۲۹

Page 160: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

159

@@ا،ص:۔۳۰ ۱۱۰-۱۰۹ایض@@ا،ص:۔۳۱ ۹۸ایض@@ا،ص:۔۳۲ ۱۱۴-۱۱۳ایضاازادی اور اردو شاعری،ص:۔۳۳ ۳۴۱ڈاکٹر گوپی چند نارنگ،ہندوستان کی تحریک ۲۱۴،ص:۱۹۶۷ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار،ظفرعلی خان ادیب و شاعر،مکتبہ خیابات،لاہور،۔۳۴۲۷۱کلیات ظفرعلی خان،بہارستان،ص:۔۳۵-۲۶۸ء، ص:۱۹۱۱مولانا ظف رعلی خ ان،کلی ات ،بہارس تان،مولان ا ظف رعلی خ ان ٹرس ٹ لاہ ور،۔۳۶

۲۷۰ ۹۷مولانا ظفرعلی خان ،کلیات ،نگارستان،ص:۔۳۷۳۰۸ مولانا ظفرعلی خان ،کلیات ،بہارستان،ص:۔۳۸@@ا،ص:۔۳۹ ۲۸۰ایض۵۰۵مولانا ظفرعلی خان ،کلیات ،بہارستان،ص:۔۴۰۱۲۳ء،ص:۱۹۰۵شورش کاشمیری،ظفرعلی خان،اردو پریس ،لاہور،۔۴۱Syed۔۴۲ Mahmud, Hidu muslim

culutural,Vora&co-publisher ,LTD,bombay,1949,page:62-63

اازادی،ایوب پریس لاہور،۔۴۳ اازادی،تحریک ۸۲ء،ص:۲۰۱۲مولانا ابوالکلام سید حسن ریاض،پاکستان ناگزیر تھا،شعبئہ تصنیف و تالیف و ترجمہ،جامعہ کراچی،اشاعت ۔۴۴

۴۹،ص:۲۰۱۰ہفتم،،انمول موتی،مرتبہ ڈاتبہ ڈاکٹر صادق حسین،جلد (۵مولانا ظفرعلی خان،مضامین ، ازلۃ الخفا،)۔۴۵

۳۶-۳۵دوم،س۔ن،ص:@@اص:۔۴۶ ہ ۳۷-۳۶ایض۱۷۹مولانا ظفرعلی خان،کلیات،چمنستان،ص:۔۴۷

Page 161: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

160

۵۵مولانا ظفرعلی خان،کلیات،نگارستان،ص:۔۴۸۲۷۸مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۴۹@@ا،ص:۔۵۰ ۲۷۴ایض،انمول موتی،مرتبہ ڈاتبہ ڈاکٹر صادق حسین،جلد (۵مولانا ظفرعلی خان،مضامین ، ازلۃ الخفا،)۔۵۱

۳۹-۳۸دوم،ص:۱۷۱مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۵۲اازادی ہند،جلد سوم ،ص:۔۵۳ ۔۵۹۱-۵۹۰ڈاکٹر تارا چند،تاریخ تحریک ۲۹امتیاز محمد خان، کمال اتاترک،فیروز سنز،لاہور،س۔ن،ص:۔۵۴۵۱مولانا ظفرعلی خان،کلیات،نگارستان،ص:۔۵۵۱۷۲مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۵۶@@ا،ص:۔۵۷ ۱۷۵ایض۴۹سید حسن ریاض،پاکستان ناگزیر تھا،ص:۔۵۸۱۷۳مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۵۹۲۲امتیاز محمد خان،کمال اتاترک،ص:۔۶۰۱۶۷مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۶۱@@ا،ص:۔۶۲ ۱۶۲ایض۳۳۴ء،ص:۱۹۶۷ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی،ملت اسلامیہ،طبع کراچی یونی ورسٹی،۔۶۳۱۷۲مولاناظفرعلی خان،کلیات ،بہارستان،ص:۔۶۴@@ا،ص:۔۶۵ ۲۶۷ایض@@ا،ص:۔۶۶ ۴۷۹ایض@@ا،ص:۔۶۷ ۱۶۲ایض@@ا،ص:۔۶۸ ۱۵۸ایض

Page 162: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

161

،انمول موتی،مرتبہ ڈاتبہ ڈاکٹر صادق حسین،جلد (۵مولانا ظفرعلی خان،مضامین ، ازلۃ الخفا،)۔۶۹۳۱دوم،ص:

۵ء،ص:۱۹۵۲سید سلیمان ندوی،برید فرنگ،مکتبہ الشرق،کراچی،۔۷۰۱۷۴مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۷۱،انمول موتی،مرتبہ ڈاتبہ ڈاکٹر صادق حسین،جلد (۷مولانا ظفرعلی خان،مضامین ، ازلۃ الخفا،)۔۷۲

۴۶دوم،ص:۶۳-۶۲مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،نگارستان،ص:۔۷۳،انمول موتی،مرتبہ ڈاتبہ ڈاکٹر صادق حسین،جلد (۷مولانا ظفرعلی خان،مضامین ، ازلۃ الخفا،)۔۷۴

۵۷-۵۶-۵۵-۵۴-۵۳-۵۲- ۵۱دوم،ص:ااثار،مجلس ترقی ادب،لاہور،جون ۔۷۵ ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی،مولانا ظفرعلی خان ،احوال و

۱۰۴ء،ص:۱۹۸۴۲۰مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،چمنستان،ص:۔۷۶Spencer۔۷۷ Lavan ,Journal of the American

Academy of Religion, Vol. 42, Oxford University Press,(Jun., 1974), page:263 ,

۲۰مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،چمنستان،ص:۔۷۸ء،ص:۲۰۰۷شبلی نعم انی،کلی ات ،اردو،دارالمص نفین،ش بلی اکی ڈمی،اعظم گ ڑھ )ی وپی( ان ڈیا،۔۷۹۷۴۳۲۸مولانا ظفرعلی خان،کلیات ،بہارستان،ص:۔۸۰@@ا،ص:۔۸۱ ۳۲۸ایضاازادی،جلد سوم،ص:۔۸۲ ۵۹۵ڈاکٹر تارا چند،ہندوستان کی تحریک تاریخ اازادی میں اردو شاعری کا حصہ،ص:۔۸۳ ۳۵۱ڈاکٹر گوپی چند نارنگ،ہندوستان کی تحریک ۴۶ڈاکٹر غلام حسین ذولفقار،مولانا ظفرعلی خان، ادیب و شاعر،ص:۔۸۴

Page 163: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

162

ہت ، بہارستان،ص:۔۸۵ ۲۷۰-۲۶۹-۲۶۸مولانا ظفرعلی خان ،کلیا۱۲۹مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،حبسیات،ص:۔۸۶@@ا،ص:۔۸۷ ۲۷-۲۶ایض@@ا،ص:۔۸۸ ۳۰-۲۹ایض

باب چہارم:

مولانا ظفر علی خان کی شاعری میں مغربی استعمارکے خلاف مزاحمت

ء تک(۱۹۳۵ء سے ۱۹۱۵) ء تک کے دور کا سیاسی و سماجی منظر نامہ۱۹۳۵ء سے ۱۹۱۵ا(

Page 164: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

163

ب( ہندوستان کے اہم تاریخی واقعات کے تناظر میں مولانا ظفرعلی خا ن کی شاعری میں مغربی استعمار کے خلاف مزاحمتی رویے

)ا(ء تک کے دور کا سیاسی و سماجی منظر نامہ:۱۹۳۵ء سے ۱۹۱۵

ء تک کادور کئی حوالوں سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ بیرونی دنی ا۱۹۳۵ء سے ۱۹۱۵ میں پہلی جن گ عظیم کے ش علے بھ ڑک رہے تھے۔ہندوس تان بھی ان کے اث رات س ے محف وظ نہ رہ س کا ،ک انگرس نے ریزولوش ن پ اس ک رکے برط انیہ کی حم ایت ک ا اعلان ک ر دی ا جس کے بع د ہندوس تانی نوج وان جنگی مح اذ پ ر بھیج دیے گ ئے۔ ہندوس تانیوں نے یہ اعلان اپ نے مف ادات کے حص ول اور انگری ز حکومت سے مراعات حاصل کرنے کی غرض سے کیاتھا جس کو عملی ش کل دی نے کے ل یے ہن دو مس لم اتحاد کا ہونا نہایت ضروری تھا۔اس سے پیشتر اردو ہندی تنازعہ ،تقسیم بنگال ،تنسیخ بنگ ال ، منٹ و م ارلےہزانتخابات کا مطالبہ جیسے واقعات اور تنازعات کی وجہ س ے ہن دو اصلاحات اورمسلم لیگ کے جداگانہ طرہ حال پی دا ہ وئی۔ انگریزس رکار س ے اپ نے حق وق کے حص ول مسلم اتحاد وتعلقات میں کشیدگی کی صورت کی خاطر قائ د اعظم اور گان دھی جی نے ہن دو مس لم اتح اد پ رزور دی ا ۔ ان دون وں شخص یات کی مش ترکہ

ہق۱۹۱۶کوششوں کی بدولت ہندو ئوں اور مسلمانوں کے درمیان ء کوایک معاہدہ ہوا جو لکھنو پیکٹ)میث اہق لکھن و میںپہلی ب ار ک انگرس پ ارٹی نے مس لمانوں کے ج داگانہ لکھنئو( کے نام سے یاد کی ا جات ا ہے۔میث ا

انتخابات کا مطالبہ تسلیم کرلیا۔میثاق لکھنو کے حوالے سے سر سریندھر ناتھ نے لکھا ہے:ترجمہ:

ااغاز سے پہلے مسلمان ایک نئی شاہراہ پر گامزن ہو چکے تھے لیکن کوئی منزل مقص ود ’’جنگ عظیم کے متعین نہ تھی،البتہ انگریزوں کی وفاداری اور ان پر بھروسہ ک رنے کی روایت ک و ت رک ک رکے وہ ک انگرس کے

Page 165: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

164

ء میں مسٹر محمد علی جناح کی کوششوں س ے ک انگرس اور مس لم۱۹۱۶دوش بدوش چلنے لگے تھے۔(۱لیگ کا لکھنئو کے مقام پر سمجھوتہ ہوا۔‘‘)

ہت برطانیہ سے ہوم رول کا مطالبہ۱۹۱۵لکھنو پیکٹ سے پہلے ء میں مسز اینی بسنٹ نے حکوم ء ت ک ہندوس تانی ق وم پرس ت رہنم ائوںکی ش رکت س ے تحری ک۱۹۱۶کرتے ہوئے ایک تحریک شروع کی۔

ااگئی۔ ہندوستانی نمائندوں نے ہوم رول ک و س راہا۔مس ٹر جن اح نے بھی ہ وم رول کے ک ارکنوں میںخاصی تیزی کی خواہش پر تحریک میں شمولیت اختیار کی۔بع د میں وہ اس ی تحری ک کے س ربراہ بن ا دئ یے گ ئے ۔مس زسانہیں گرفت ار ک ر لی ا ۔اس سپر جوش اوربھرپ ور احتج اجی تحری ک کی وجہ س ے حک ومت نے اینی بسنٹ کی دوران کانگرس اور مسلم لی گ ک ا مش ترکہ جلس ہ ہ وا جس میں ای ک ق رارداد پ اس کی گ ئی اور حک ومت پ ر دبائو ڈالا گیا کہ وہ ہندوستان میںسیاس ی اور تنظیمی اص لاحات کی ج انب ق دم بڑھ ائے اور ہندوس تانیوں ک و خود مختار بنانے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل کرے۔حکومت کی طرف سے بھی ایک پالیسی ک ا اعلان کی ا

سانھ وں نے اپ نی ٹیم کے س اتھ مختل ف ص وبوں کے۱۹۱۷گیا ۔وزیر ہند مان ٹیگو نوم بر اائے۔ ک و ہندوس تان دورے ک یے۔مختل ف ع وامی نمائن دوں س ے ملاق اتیں کیں ۔اجلاس یں طلب کیںجس کے ن تیجے میں ج ون

دس مبر۲۳ء ک و ای ک رپ ورٹ ش ائع کی ج و م ان ٹیگوچیمس فورڈ رپ ورٹ کہلائی ج اتی ہے۔۱۹۱۸ااف ان ڈیا ایکٹ ۱۹۱۹ ء تج ویز۱۹۱۹ء کو مان ٹیگو رپورٹ قانون کا حصہ ب نی جس ک ا ن ام گ ورنمنٹ کیا گیا۔

’مان ٹیگو‘ رپورٹ میں اگر چہ ہندوستانیوں کے بہت کم مطالبات تسلیم کیے گ ئے تھے، اس ل یےاائینی اصلاحات کے س فر کانگرس اور مسلم لیگ نے کافی اختلافاتی اجلاسوںکے بعد اسے منظور کیالیکن ااغاز ہندوستانیوں کے لیے خوشی کی ایک نوید ضرور تھی جو بہت جلد کافور ہوئی۔کیوں کہ اس ی س ال کا

ء میں حک ومت نے دو۱۹۱۹ہندوس تانیوں ک و ای ک اور ع ذاب ’’رولٹ ایکٹ‘‘ ک ا س امنا کرن ا پ ڑا۔م ارچ قانونی مسودات،انڈین کرمینل لا )امینڈمینٹ( اور دی کرمنل لا )ایمرجنسی پاور( اسمبلی س ے پ اس ک رائے ۔

ااف انڈیا ڈیفنس ایکٹ کی توسیعی شکل تھی جسے حکومت نے۱۹۱۵-۱۴دراصل یہ ء کے گورنمنٹ پہلی جن گ عظیم میں ہندوس تانی ب اغیوں ک و دب انے کے ل یے ناف ذ کی تھی اور اس ی کے تحت اب ولکلام اازاد،مولان ا ظف رعلی خ ان، مولانامحم دعلی،مولاناش وکت علی تحری ک ریش می روم ال کے علم بردار مولان ا

Page 166: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

165

محمود الحسن اور عبیداللہ سندھی وغیرہ کو نظر بند کیاگی ا تھ ا۔رولٹ ایکٹ ’’س ڈنی رولٹ‘‘ ن امی انگری زساس وقت کی س رگرم ہ برط انیہ ک ا نہ ایت ج ابرانہ ق انون تھ ا ج و جج کے زیرنگ رانی تی ار کیاگی ا یہ حک ومت تحریک وں ک و کچل نے کے ل یے بنایاگیاتھ ا۔اس ایکٹ کے مط ابق ہندوس تانیوں کے حق وق انتہ ائی مح دوداار ک ا م ترادف ق انون ق رار دی ا جاس کتا ہے۔ف وجی ااج کل فاٹاکے ای ف۔س ی ۔ کردئیے گئے ۔رولٹ ایکٹ کو عدالتیں قائم کی گئیں انگری زوں کے فیص لے مخص وص ع دالتوں میں س نائے ج انے لگے۔بغ یر ثب وت و گ واہ کے لوگوں کوگرفتار کرکے س زا دی ج انے لگی۔مس لم لی گ اور ک انگرس دون وں پ ارٹیوں نے رولٹ ایکٹ کی مخ الفت کی۔ گان دھی جی نے’’ س تیہ گ رہ‘‘ ک ا اعلان کی ا۔’’س تیہ گ رہ‘‘جس کے لفظی مع انی س چےسپرامن احتج اج کی تحری ک تھی،پہلے م رحلے میں ای ک عہ د ن امہ عہ دکے ہیں،یہ حک ومت کے خلاف مرتب کیا گیا جس پر لوگوں سے اس مقصد کے ل یے دس تخط ل یے گ ئے کہ اگ ر حک ومت نے رولٹ ایکٹسپرامن احتج اج کرن ا اس تحری ک ک ا کے قانون کو واپس نہیں لیاتو حکومتی قوانین سے انکار کیا ج ائے گ ا۔

دوسرا مرحلہ تھا ۔ اس لفظ کی ماہیت اور ابتدا کے بارے میں گاندھی نے خود تلاش حق میں لکھا ہے: ’’ ستیہ گرہ کی تحریک پہلے شروع ہوئی اور یہ نام بعد میں رکھا گیا ۔جب یہ اص ول دری افت ہ وا ت و مجھے

passiveاس کے لیے کوئی نام نہیں ملتا تھا ۔ہم لوگ گج راتی میں بھی اس کے ل یے انگری زی لفظresistanceاس تعمال ک رتے تھے جب یورپی وں کے ای ک جلس ے میں مجھے معل وم ہ واکہ

passive resistanceکی معنی بہت محدود ہے ۔۔۔میں نے ’’انڈین اوپینین میں اعلان کیا کہ اس کے پڑھنے والوں میں جو شخص سب سے اچھا نام تجویز کرے گ ا اس ے ای ک چھوٹ ا س ا انع ام دیا جائے گا ، چنانچہ مگن لال گاندھی نے ’’ست ارادہ)ست حق،اگرہ ،ثبات(کا لفظ وضع کیا مگر میں

(۲نے سہولت کے خیال سے اسے بدل کر ’’ستیا گرہ‘‘کر دیا۔‘‘)اازادنے گان دھی جی کے ’’س تیہ گ رہ‘‘ اور ع دم تش دد کے فلس فے کے ماخ ذ کے مولانا اب ولکلام

بارے میں اپنی کتاب ’’انڈیا وینس فریڈم‘‘میں لکھتے ہیں:ساس وقت انارکس ٹوں کے۱۹۰۱’’ میں ایک انارکسٹ نے اٹلی کے بادشاہ پ ر حملہ کی ا تھ ا ۔ٹالس ٹائے نے

@@ا بے س ود ہے۔اگ ر نام ایک کھلا خط بھیجا کہ تشدد کا طریقہ اخلاقی طور پر غلط اور سیاسی طور پ ر تقریب (۳ایک شخص کو قتل کر دیا گیا تو کوئی دوسرا اس کی جگہ لے لے گا۔‘‘)

Page 167: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

166

جب حکومت پ ر گان دھی کے اس عہ د ن امے ک ا ک وئی اث ر نہیں ہ وا اورب اوجود اس عہ دنامے کے اپریل کو’’ ستیہ گرہ‘‘کا دن منایا گی ا اور حک ومت۶رولٹ ایکٹ منظور کر لیاگیا تو گاندھی کے حکم پر

سپرامن احتجاج،ہڑتال اور جلوس وں ک ا سلس لہ ش روع کی ا۔حک ومت نے سیاس ی لی ڈروں ک و پکڑن ا کے خلاف ء ک و ای ک جلس ہ، جلی انوالہ ب اغ )امرتس ر(میں۱۹۱۹ اپری ل ۱۳ش روع ک ر دی ا۔ اس ی ایکٹ کے خلاف

سان پر گولی اں چلا ک ر نہ تے ع وام ک و ش ہید ک ر ڈالا۔ سپر امن جلسہ تھا تاہم جنرل ڈائر نے منعقد ہوا۔یہ ایک جلیانوالہ باغ کا واقعہ برطانیہ حکومت کے دامن پر ایک ایسا سیاہ دھبہ ہے جو ای ک ص دی گ زر ج انے کےساس وقت ت ک کی برب ریت کی یہ س ب س ے ب دترین بعد بھی دھ ونے کے قاب ل نہ ہوس کا۔انس انی ت اریخ میں

مثال بیان کی جاتی ہے۔ @@ا پہلی جنگ عظیم میں اانے کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں ۔مثل جلسے میں اتنے لوگوں کے ہندوستان نے جنگی سازوسامان سمیت نوجوانوں کوبرطانیہ کا ساتھ دینے کے لیے می دان جن گ میں بھیج ا،سانہیں رولٹ ایکٹ کے کا تحفہ دیا ۔جس نے ہندوستانیوں کوانتہائی مایوس کیا اوروہ بدلے میں حکومت نے حکومت برطانیہ کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے۔ احتجاج کی دیگر وجوہ ات میں ای ک وجہ یہ بی ان کی جاتی ہیں کہ ترکوں کے ساتھ مس لمانوں ک ا خلافت ک ا رش تہ تھ ا انگری زوں نے خلافت ک و ٹک ڑے ٹک ڑےہل برداشت تھی ی وں اس احتج ا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ مسلمانوں کے لیے یہ صورت حال ناقاب ج نے مزید زور پکڑا۔دوسری طرف افغانستان میں اس دوران لڑائی ہوئی ۔غازی امان اللہ خان نے انگریزوں سے اازادی حاصل کرلی۔ امیر حبیب اللہ خان کی جگہ امان اللہ خان تخت نشین ہوئے۔یہ واقعہ بھی ہندوس تانیوں

ء ک و س کھوں کے ای ک م ذہبی۱۹۱۹ اپری ل ۱۱اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے تحریک کا ب اعث بن ا۔ تہوار’’ بیساکھی‘‘کے شرکا بھی جلیانوالہ باغ کے جلس ے میں ش ریک ہ وئے۔عب دلقوی دس نوی نے جلی انوالہ

باغ کے واقعے پر لکھا ہے:سچکا تھا ہندوستانیوں کو اپ نی قرب انیوں اور وف اداریوں کے ص لے میں ’’رولٹ ب ل‘‘ ’’جنگ عظیم کا خاتمہ ہو س یاہ ق انون کی ص ورت میں ملا تھ ا ،جس کے خلاف پ ورے مل ک میں نف رت کی لہ ر پھی ل گ ئی تھی

ء ک و اس ب ل کے خلاف س ارے ہندوس تان میں مظ اہرہ کی ا گی ا ۔۔۔اگ ر چہ۱۹۱۹ اپری ل ۶چن انچہ سپر امن ہ وئے لیکن ج نرل ڈائ ر کے حکم س ے پنج اب کے مختل ف مقام ات میں گولی اں احتج اجی جلس ے

Page 168: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

167

اپری ل۱۳چلیں ۔ان میں جلیان والا ب اغ ک ا واقعہ س ب س ے زی ادہ اہمیت رکھت ا ہے ۔بی ان کی ا جات ا ہے کہ ء یکم بیس اکھی کے دن امرتس ر کے ل وگ اپ نے رہنم ائوں کی گرفت اری کے خلاف احتج اج ک رنے۱۹۱۹

جلیان والا باغ میں جمع ہوئے تھے جہاں ظ الم ج نرل ڈائ ر کے حکم س ے وہ گولی وں ک ا نش انہ بن ائے گ ئےجس کے نتیجے میں پانچ سو بے گناہ انسان شہید ہوئے۔زخمیوں کی تعداد کا اندازہ لگان ا مش کل تھ ا۔‘‘)

۴) اپریل کے اس خ ون ری ز واقعہ کے بع د ل وگ غم و غص ے کی وجہ س ے نہ ایت مش تعل ہ وئے۱۳

ء کومارش ل اللہ ناف ذ کردی ا ۔ہندوس تانیوں۱۹۱۹ اپری ل ۱۵جس کوکچلنے اور دبانے کے لیے حک ومت نے کو انسانیت سوز حربوں سے دب انے کی کوش ش کی گ ئیں لیکن اس کے ب اوجود احتج اج کاسلس لہ ج اری رہا۔ستیہ گرہ کے بعد سودیش ی م ال ک ا بائیک اٹ کی ا گی ا اور س ول نافرم انی کی تحری ک کی تیاری اں ش روع ہوئیں جس کی ابتداء نمک سازی کی تحریک اور ممن وعہ کت ابوں ’’ہن دو س وراج اور دوی ا)رس کن کی کت اب

units this lastکا ترجمہ(سے کی گئی۔ ء کو پہلی جنگ عظیم کی فائر بندی کے بعد جرمن قیصر ولیم اقتدار چھوڑ۱۹۱۸ نومبر ۱۱

ہن جن گ کر ہالینڈ کو فرار ہوگئے جسے فرانس کی شکست تس لیم کی گ ئی۔ اتح ادیوں کی ط رف س ے ت اوا ء میں۱۹۲۰ء کو معاہدہ’’ وارسائی‘‘ جرمنی پر لاگو کی ا گی ا،جب کہ ۱۹۱۹لینے کی غرض سے جون

ترکی کو ’’معاہدہ سیورے‘‘میں جکڑلیاگیا۔جنگ کے اختتام پر برطانیہ نے ہندوستانیوں کے ساتھ ج و وع دےہت مقدس ہ ک و نقص ان نہیں پہنچای ا ج ائے کیے تھے کہ دوران جنگ اور جنگ کے بعدمسلمانوں کے مقام اسمکر گ ئی ۔ انگری زوں گا ۔خلافت برقرار رکھی جائے گی۔ انگریزی حکومت اپنے ان وعدوں سے پوری طرح ساکس ایا جس کی وجہ س ے ت رکی ک و نے ش ریف مکہ ک و لالچ دے کرترک وں کے خلاف بغ اوت ک رنے پ ر شکست کا سامنا پڑا اورعربوںنے اپ نی خودمخت اری ک ا اعلان کردی ا۔ہندوس تانی مس لمان نہ عرب وں کے خلافسان کی مذہبی وابستگی تھی ۔ترکی میں خلافت تھی جب کہ ع رب تھے اور نہ ترکوں کے، دونوں کے ساتھ میں بیت اللہ ،مکہ اور م دینہ وہ مقام ات مقدس ہ جن کے س اتھ مس لمانوں کے جس م س ے ب ڑھ ک ر روح انی تعلق کا ح والہ بنت ا تھ ا۔ ہندوس تانی مس لمانوں ک و یہ خ وف کھ ائے ج ا رہ ا تھ ا کہ ع رب ترک وں کے خلافاازاد نہیں ہو س کتے بلکہ مغ ربی ط اقتوں کے رحم و ک رم پ ر ہ و ج ائیں گے۔ی وں مس لمانوں کے بغاوت کرکے

Page 169: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

168

مقامات مقدسہ پر انگریزوں کا قبضہ ہو جائے گا۔خلافت کی حف اظت کے ح والے س ے بمب ئی میں خلافت ء کو دہلی میں ہوا ۔ خوش ی کی ب ات یہ تھی۱۹۱۹نومبر ۲۳کمیٹی قائم کی گئی جس کا پہلا اجلاس

کہ اس اجلاس میں کانگرس اور مسلم لیگ دون وں نے ش رکت کی۔گان دھی جی نے اس م وقعہ پ ر’’تحری کترک موالات ‘‘ کا اعلان کیا:

اائی ۔۔۔اس ک ا اجلاس نوم بر ’’میرے پاس ہندو مسلمانوں کی مشترکہ کانفرنس میں شریک ہونے کی دع وت ہت ح ال پ ر غ ور کرن ا ج و خلافت کے مع املے میں حک ومت کی میں قرار پایا تھ ا۔اس ک ا مقص د اس ص ورساس ے ظ اہر ک رنے کے ل یے اای ا تھ ا بدعہدی سے پی داہوگئی تھی۔۔۔ک انفرنس میں م یرے ذہن میں ج و خی ال ااخر میں نے اسے انگری زی مجھے کوئی مناسب ہندی یا اردو لفظ نہیں ملتا تھا ۔اس سے میںذرا گھبرایا مگر

( ۵لفظ ’’نان کو اپریشن‘‘کے ذریعے ادا کیا۔‘‘) خلافت کمی ٹی نے محم دعلی ج وہر کی قی ادت میں ای ک وف د تی ار کی ا جس ے برط انیہ ک و اپ نےاایا۔اس دوران ترکی پر معاہ دہ س یورے وعدے یاد دلانے کے لیے بھیجا گیا مگر یہ وفد مایوس اور ناکام واپس نافذ کیا گیا جس کی وجہ س ے ت رکی کے خلافت ک و بہت نقص ان پہنچ ا۔ اس معاہ دے کے تحت ت رکی

اازاد کراکے خ ود مخت ار بنادی ا گی ا ۔ ۱۰ریاستوں اور علاقوں کو یا تویورپی ممالک کے حوالے کر دیا گیایا @@ا گان دھی جی۱۹۲۰اگست اام یز ش رائط کے خلاف کمی ٹی نے احتجاج ء کے معاہدہ س یورے کے ذلت

کی رہنمائی میں’’تحریک ترک موالات اورعدم تعاون‘‘)عوام کا حکومت س ے ب دظن ہ و کرتع اون چھ وڑ ک ر، سرکاری عہدوںاور اداروں سے بائیکاٹ( کا اعلان کیا ۔پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دلوںااغ از میں بھی مس لمانوں میں انگریز اس تعمار کے خلاف نف رت اپ نی انتہ ا ک و پہنچ چکی تھی۔جن گ کے کے دو گروہ بن گئے تھے ۔ایک گروہ برطانیہ کی حمایت کے حق میںتھاجب کہ دوسر ا مخالف ت اہم جبساکس ایاتو ان خ بروں کے انگری زوں نے س ازش ک رکے عرب وں ک و ش ریف مکہ کی س رکردگی میںبغ اوت پ ر ہندوستان پہنچتے ہی ہندوستانی مسلمان انگریزوں سے متنفر ہو گئے۔جنگ کے اختتام پ ر اگ ر چہ کچھ ح د تک حکومت نے ہندوستانی مسلمانوں کوٹرخانے کی کوشش ضرور کی لیکن معاہدہ سیورے نے س ب کچھاازادی کا اعلان کردیا۔ امان اللہ خان تخت نشین ہ وئے۔ہندوس تانی واضح کر دیا۔دوسری طرف افغانستان نے

ء میں لاکھ وں لوگ وں۱۹۲۰علماء نے جہاد کا اعلان کرکے ہندوستان کو دارالحرب قراردے دیا ۔ اگس ت

Page 170: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

169

نے اپنی جائیدادیں اور گھر بار چھوڑ کر جوق درجوق افغانستان کی طرف ہجرت کا فیص لہ کرلی ا۔افغانس تاناامدی د کہ ا لیکن بع د کے امیر غازی امان اللہ نے ابتداء میں ہجرت کے فتوے ک و س راہااورمہاجرین کوخ وش سان کے لیے انتظام سے گھبرا گ ئے ۔اس ی وجہ س ے انہ وں نے میںشاید لوگوں کی کثیر تعداد کودیکھتے ہوئے اپنی سرحدوں کو ہندوستانی مہاجرین کے لیے بند کرنے کا حکم دے دیا ۔ہندوستانی مہاجرین جو کہ زی ادہاائے لیکن واپس ی پ ر تر سرحد اور س ندھ کے علاقے س ے تعل ق رکھ تے تھے ذلی ل و خ وار ہ و ک ر واپس ل وٹ سان کی جائی داد۔ڈاک ٹر ت ارا چن د نے سان کا گھر محف وظ تھ ا اور نہ سانہوں نے دیکھا کہ ہندوستان میں بھی نہ

لکھا ہے:ہی(دی اجس میں یہ اعلان کی ا گی ا کہ ہندوس تان جن گ کی ااغاز میں علماء نے ایک ڈگری)فتو ’’تحریک کے جگہ)دارلحرب(ہے۔جس کا مطلب یہ تھا کہ ہر مسلمان پر ف رض ہے کہ ی ا ت و جہ اد ک ا اعلان ک رے ی اترک

@@ا مس لمانوں نے دوس ری تج ویز پ ر۱۸۰۰۰وطن کرکے ہجرت کرجائے۔ہندوستان کے مغربی حصہ س ے تقریب (۶عمل کیا۔اور افغانستان کے مسلم ملک کی طرف چل پڑے۔‘‘)

ہک موالات کے ذریعے انگریز حکومت کے انتظامی عہ دوں ہندوستانیوں نے تحریک عدم تعاون اور تر سے بائیکاٹ کیا۔خطابات واپس کیے گئے،طلباء نے سرکاری سکول،کالج اور یونی ورسٹیوں میں جانا چھ وڑ دیا۔غیر ملکی مال کے استعمال سے بائیکاٹ کے بعد گھروں پر چرخے لگا ئے گئے۔عوام اور خ واص س ب نے کھدر پہننا شروع کیا۔دوسری طرف حکومت نے سفارشات ماننے کی بجائے تحری ک کچل نے ک ا عن دیہاار داس جیسے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں سمیت ہ زاروں کی تع داد اازاد اور سی دیا ۔محمدعلی،شوکت،نہرو، میںعام لوگوں کو گرفتارکرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔موپلوں کی بغاوت بھی اسی سلسلے کی ایک اہم ک ڑی تھی ملیبار کے مسلم کاشت ک اروں)م وپلی( نے زمین داروں کے خلاف بغ اوت ک رکے ریل وے سٹیش ن جلای اسان کے تش د د ک ا نش انہ زی ادہ ت ر ہن دو ب نے ۔اس ل یے بعض لوگ وں نے یہ اف واہیں پھیلان ا ش روع دیا۔چوں کہ کردیں کہ ہندوئوں کو بہ زور مسلمان کی ا گی ا ہے اور مس لمان رہنم اء اس ے ای ک ج ائز عم ل ق رار دی تے ہیں۔ جس کی مزاحمت میں ہن دوئوں نے س وامی ش ردھا نن د کی قی ادت میں ’’ش دھی‘‘ اور م الوجی کی قی ادت

ء ک و یہ انتہاپس ند تحریکیںم الوجی کی قی ادت میں۱۹۲۳میں’’سنگٹھن‘‘ جیسی تحریکیں ش روع کیں ۔ ’’ہندو مہاسبھا‘‘پارٹی کے ن ام س ے یکج ا ہ و گ ئیں۔ملت ان ، ملیب ار،کوہ اٹ وغ یرہ کی شورش وں اور جلوس وں

Page 171: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

170

ء ک و پ ولیس کی ای ک چ وکی بھی جلا دی ۔ چ وں کہ۱۹۲۲ ف روری ۵س میت بعض تخ ریب ک اروں نےسپرتش دد بن گ ئی ت و گان دھی جی نے ’’س ول گاندھی جی عدم تشدد کے قائل تھے اس لیے جب تحری ک سروک دینے کا اعلان کردیا۔مسلمانوں کے علاوہ ہندو لیڈر بھی گاندھی جی کے اس نافرمانی‘‘ کی تحریک ہق لکھنوء میں ب ڑی مش کل س ے عمل سے خوش نہیں تھے۔ہندو مسلم اتحاد جو تنسیخ بنگال کے بعد میثا

سچکا ایک بار پھر تقسیم کے قریب پہنچ گیا۔ مستحکم ہو ہندوستان میں خلافت کے بچائو کے لیے مس لمانوں کی ش روع ک ردہ تحری ک پ ورے زور ش ور س ے جاری تھی جب کہ وہاںترکی میں خود مصطفی کمال اتاترک خلافت کے خاتمے کے لیے منصوبے تیار کررسانھوںنے خلیفہ کا منص ب و مس ند ختم ک رنے ک ا منص وبہ بنای ا۔ ہے تھے۔خلافت کے خاتمے کے لیے پہلے سان کے حم ایتی بہت زی ادہ تھے اس چوں کہ سلطان پوری مسلم دنی ا کے خلیفہ تص ور ک یے ج اتے تھے اور ااہس تہ خلیفہ کے ل یے ااہس تہ سانھیں زبردس تی مع زول نہیں کرن ا چ اہتے تھے ۔ ات اترک نے لیے مص طفی کم ال

ء کوس لطان مجب ور ہ و ک ر مالٹ ا۱۹۲۲ نوم بر ۱۱حالات ناساز گار بنانا شروع کردئیے۔جس کی وجہ سے فرار ہوگئے۔مصطفی کمال کے اس فعل سے بھی اسلامی دنیا کوک افی رنج پہنچ ا ۔مولان ا ظف رعلی خ ان نے

ء کو اخبار ’’زمیندار ‘‘میں’’شریف بے شرف کے ناپاک منصوبے‘‘ کے عن وان س ے اپ نے۱۹۲۳ اپریل ۳۰مضمون میں مصطفی کمال کے بارے میں لکھا ہے:

’’غازی مصطفی کمال پاشا اور ان کی مجلس عالیہ ملیہ نے ت و س لطان وحیدال دین ک و مع زول ک رکے ت رکی(۷کو ایک ضعیف و کمزور سلطان اور دنیائے اسلام کو باعث ننگ خلیفہ سے نجات دلا دی۔‘‘)

مصطفی کمال نے اس کے بعد سلطان کے روش ن خی ال بھ ائی عبدالمجی دکو خلیفہ منتخب ک روا لیا۔ پارلیمان کے ممبران کو یہ باور کرایا گیا کہ خلافت ترکوں کا ذاتی معاملہ ہے اور عالم اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔سلطان ک ا اث ر رس وخ اور اختی ارات نہ ایت مح دود ک ر دیے گ ئے ۔ عبدالمجی د کے مس ند

نشینی کی رسومات کے حوالے سے امتیاز محمد نے لکھا ہے: ’’عبدالمجید کے مسند خلافت پر بٹھانے کے بعد ترکی حکومت کی طرف سے ع الم اس لام کے ل یے ج و اعلان شائع ہوا اس میں خلیفہ کو سیاسی امور میں حصہ لینے س ے بالک ل من ع کی ا گی ا ۔مس ند نش ینی کے

Page 172: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

171

رسومات دانستہ طور پر مختصر کیے گئے۔عبا اور عمامہ کی جگہ ترکی ٹوپی پہنائی گ ئی۔تبرک ات نب وی کی(۸پیش کش کی گئی لیکن حضرت عمر کی شمشیر اس کی کمر سے نہ باندھی گئی ۔‘‘)

سانھ وں نے ت رکی میں جب مصطفی کمال کو ترکی میں جمہوریت کے اس تحکام ک ا یقین ہوگی ا ت و ء کو ترکی ایک سیکولر جمہوری ریاست کے روپ میںابھرا۔۱۹۲۴خلافت کے خاتمہ کااعلان کردیا یوں

اس اعلان کے ساتھ ہی ہندوستان میں تحریک خلافت خود بخود ختم ہو گئی لیکن خلافت کمیٹی بدس تور قائم رہی اور ترک خلافت کی بجائے احیائے خلافت کے لیے منصوبہ بندی ہونے لگی کیوں کہ انگریزوں ک ا

سان کو بطور خلیفہ ہرگز قابل قبول نہیں تھا۔ ایجنٹ اور ترکوں کا غدار’ شریف مکہ‘ سپرزور تحری ک ض رور تھی جس میں ہن دوئوں اور ہندوس تان کی ت اریخ میں تحری ک خلافت ای ک مسلمانوں نے بھر پور انداز میں شرکت کی۔ہندوئوں نے بظاہر صرف مسلمانوں کی دوستی کی خاطر تحریکسان کی وابس تگی بھی سیاس ی مف ادات کے حص ول کاشاخس انہ تھی۔تحری ک میں حص ہ لی ا لیکن درپ ردہ ہم ہجرت تھ ا۔ جس میں مس لمان علم اء نے جہ اد اور خلافت کے دوران خالص جذباتی فیصلہ دراصل حک ہجرت کے فتوے تو لگائے لیکن اس سلسلے میں باقاعدہ منصبوبہ بندی نہیں کی گئی۔ ی وں ای ک مس لمانساکتا گئے۔ بغیر منص وبہ بن دی کے ملک’’ افغانستان ‘‘کے امیر بھی ہجرت کرنے والے لوگوں سے بہت جلد ایسے اقدام کو ناکام ہونا ہی تھا۔ اسی طرح اگر دیکھا جائے ت و خ ود ت رک ق وم بھی مزی د خلافت کے ح ق میں نہیں تھی ۔ ان ساری حقیقتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے مذکورہ تحری ک میں ہ وشسان کو ناکامی کا سامنا کرن اپڑا۔ڈاک ٹر ت ارا چن د اس ح والے سے زیادہ جوش پراعتقاد رکھا جس کی وجہ سے

سے لکھتے ہیں: ’’ہندوستان کے مسلمان اس سے بھی ناواقف تھے کہ ترکی میں سیکولرزم اور مغربیت کے خیالات کس حدسچکے ہیں۔ح تی کہ اس ی زم انہ میں جب ہندوس تان میں خلافت کے رہنم ا ب دترین نت ائج کی ت ک پھی ل دھمکیاں دے رہے تھے ۔ جہاد کے فت وے دے رہے تھے اور برط انوی ف وج کی ن وکری ح رام ق رار دے رہےساٹھ ارہے تھے۔ ترکی کے قوم پرست رہنما مصطفی کمال کی قیادت میں ایس ی ک اروائیوں کے ل یے اق دامات

ااخری انجام خلافت کا عزل ہوا۔‘‘) (۹تھے جس کا

Page 173: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

172

ء کے بعد ہندوستانیوں کو ای ک۱۸۵۷ بظاہر تو تحریک خلافت ناکام ہوئی لیکن اس تحریک نے بار پھر منظم کرکے بیداری کااحساس دلایا۔ہ وم رول ک ا مط البہ،رولٹ ایکٹ کی مخ الفت ،جلی ان والہ ب اغ کا قتل عام اور مارشل لاکے خلاف مزاحمت ت ک ہن دو اورمس لمان متح د ہ و ک ر اتف اق و اتح اد کے س اتھااواز بلن د ک رتے رہے۔ تحری ک خلافت میں بھی ہن دوئوں نے مس لمانوں ک ا برطانوی استعمار کے خلاف اپنی ااواز میں تب دیل کردی ا۔تحری ک ااواز ک و تیس ک روڑ ہندوس تانیوں کی لامح دود سان کی مح دود س اتھ دے ک ر

خلافت میں ہندو مسلم اتحاد کے بارے گاندھی جی ’’تلاش حق ‘‘میں لکھتے ہیں: ’’خلافت ک ا مس ئلہ جیس ا کہ میں س مجھتا ہ وں ح ق پ ر مب نی ہے اور اگ ر حک ومت نے اس مع املے میں ص ریحی بے انص افی کی ہے ت و ہن دوئوں ک ا ف رض ہے کہ وہ اس کی تلافی کے مط البے میں مس لمانوں ک ا

(۱۰ساتھ دیں ۔‘‘) تحریک خلافت مسلمانوں کی خالص مذہبی تحریک تھی جو خلافت کے ساتھ عقیدت کی بنیاد

سان پ ر یہ پر شروع ہوئی تھی۔ ہندوئوں کا مذہبی حوالے س ے اس تحری ک س ے ک وئی تعل ق نہیں بنت ا۔اس ل یے اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب تک متحدہ تحریک کے ساتھ ہندوئوں کے سیاسی مفادات وابستہ رہے وہ ساتھسان کے مف ادات خط رے میں پ ڑنے لگے ہیں جب کہ سان ک و ان دازہ ہوگی ا کہ س اتھ چل تے رہے لیکن جب سابھ ر رہے ہیں اور ک انگرس کے سیاس ی قائ دین کی بج ائے مسلمان ہندوستان میں دوسری بڑی طاقت بن کر مسلمانوں کے مذہبی رہنمائوں کی اہمیت بڑھ رہی ہے تو شرپسند اور انتہا پسند گروہ وں نے تف رقہ ڈال نے کی غ رض س ے غن ڈہ گ ردی اور فس ادات کی حوص لہ اف زائی کرن ا ش روع ک ردی۔ڈاک ٹر نظ یر حس نین زی دی نے

تحریک خلافت کی ناکامی کے اسباب بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’تحری ک خلافت اور ک انگرس کے اتح اد ک و ناک ام بن انے کے ل یے ج و کوشش یں کی گ ئیں ، ان میں ہندوستان کے مسلمانوں کی توجہ جو عالم اسلام کی پریشانیوں کی طرف تھی ،وجہ مغائرت بنا دی ا گی ا اور ہن دوئوں ک و خ ود مس لمان س رکاری افس روں/س رکاری سیاس ت دان وں کے ذریعہ یہ ب اور کرادی ا گی ا کہ اب مسلمانوں کا رخ عالم اسلام کی حکومتوں کے س اتھ محبت کے س بب ہن دوئوں ک و غلام بن انے کی ط رف@@ا ہندو ذہنیت نے حفظ ماتقدم کی خاطر فرقہ ورانہ جذبات کو اس ق در بھڑکادی ا کہ ہندوس تان کے ہوگا۔نتیجت

ساٹھی۔‘‘) ااگ بھڑک (۱۱گوشہ گوشہ کی

Page 174: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

173

گاندھی جی کے عدم تعاون اور ترک موالات کی تحریک روک دینے کے اعلان کے بع د ک انگرسہک پ ارٹی کے بعض اراکین نے ن اراض ہ وکر ال گ گ روپ بنالی ا اس ط رح ک انگرس دو گروہ وں’’م والاتی اور ت ر

ء ک و جب س لطان ابن۱۹۲۶ ت ک ق ائم رہی۔ ۱۹۲۷م والاتی‘‘ میں منقس م ہ و گ ئی۔ خلافت کمی ٹی سعود نے شریف مکہ کو برطرف کردیا اور نجدیوں نے مدینہ شہر کی قبروں اورمقبروں کو مس مار کرن ا ش روع کردیا تو ادھر خلافت کمیٹی میں بھی سنی اور وھابی جیس ے مس لکی اختلاف ات نے جنم لین ا ش روع کردی ا

جس کی وجہ خلافت کمیٹی کا خاتمہ ہوگیا۔ سید حسن ریاض نے لکھا ہے:

’’خلافت کمی ٹی کے ش ل ،مض محل ی ا پراگن دہ ہ ونے س ے مس لمانوں میں یہ ٹولی اں پی دا ہ وئیں:نیشنلس ٹ مسلمان،کانگریسی مسلمان،انجمن احرار،خدائی خدمت گار۔جمیعت علمائے ہند خلافت کمیٹی کے قیاماائی تھی ۔۔۔اب اس کا بھی ای ک ج داگانہ پلیٹ ف ارم بن گی ا۔یہ ٹولی وں اور سے کچھ عرصہ بعد وجود میں

(۱۲پارٹیوں کا ہجوم مسلمانوں کے لیے ایک مصیبت ہو گیا۔‘‘)ساس وقت اتنی فع ال نہیں تھی اور اس کے س رکردہ لی ڈر ملکی سیاس ت مسلم لیگ جو ویسے بھی کی بج ائے تحری ک خلافت میں مص روف تھے مزی ددو گروہ وں میں تقس یم ہ و گ ئے۔ ص احب حی ثیت اور صاحب ثروت لوگ وں نے محم د ش فیع کی س ربراہی میں’’ لاہ ور لی گ‘‘ بن ائی۔خلافت کمی ٹی نے ’ مجلس احرار‘‘ کی شکل اختیار کرلی ۔سید حسن ری اض نے مجلس اح رار کے قی ام کازم انہ س لطان ابن س عود کےساس وقت ہ وا جب ااغ از سچکا ہے لیکن اس ک ا باقاع دہ اعلان خلافت کا زمانہ بتایا ہے جس کا پہلے ذکر ہو

ساس ی جلس ے میں اح رار کی بنی اد بھی رکھی۱۹۲۹کانگرس نے دسمبر اازادی ک ا اعلان کی ا۔ ء کو مکمل سان کی۱۹۲۹گئی۔مولانا ظفرعلی خان اپنی شاعری میں ء سے پہلے یہ نام استعمال کررہے تھے کیوں کہ

ہس مض مون س ے ان دازہ ہوت ا ہے کہ ن ام نوج وان ترک ان ہ تخلی ق موج ود ہے ۔ت اہم نف نظم وں کے س اتھ ت اریخساس کے بع د اح رار)نوج وان ت رک تحری ک( س ے نس بت رکھت ا ہے۔ مولان ا ظف رعلی خ ان تحری ک خلافت اور اسلام کی بالادستی کی خاطرمذہبی جوش، حرارت و توانائی کے بل بوتے پر قربانی دی نے وال وں کے ل یے یہ

لفظ استعمال کیاکرتے تھے۔ چوہدری افضل حق کے مطاق:

Page 175: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

174

ہی طبقے نے ہی طبقے نے مس لم نیشنلس ٹ پ ارٹی کی بنی ا د رکھی اور ادن ااخ ر ک ار مجلس خلافت کے اعل ’’ ( ۱۳احرار بنا ڈالی،مولانا ظفرعلی خان اس دوسری پارٹی میں شریک ہو گئے۔)

ء کو مسجد شہید گنج کے واقعہ پر مجلس احرار بھی دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی جس میں۱۹۳۵ ایک گروہ نے مولاناظفرعلی خان کی سربراہی میںتحفظ مساجد کی خاطر’’مجلس اتحاد ملت‘‘بنائی جس ے

ء کو قائداعظم کی درخواست پر مسلم لیگ میں ضم کر دیا گیا۔۱۹۳۶بعد میں سیاسی طورپر رولٹ ایکٹ کے ساتھ ساتھ مارشل لاکا نفاذ اورپھر تحریک خلافت کی ناکامی کےاائی نی اص لاحات وض ع بعدہندوستانیوں کے لیے نیا دھچکا سائمن کمیشن تھ ا۔ حک ومت نے ہندوس تان میں

ء۱۹۲۷کرنے کے لیے ایک انگریز’’سر جان س ائمن ‘‘کی نگ رانی میں ای ک کمیش ن مق رر ک رکے ف روری اائینی اص لاحات وض ع ک رنے کو ہندوستان بھیج دیا ۔تعجب کی بات یہ تھی کہ کمیشن ہندوستان کے لیے کے لیے بنایا گیا تھا لیکن یہاں سے ایک بھی نمائندہ اس میں شامل نہیں کیاگیا ۔ سارے ممبران باہر س ے اائے تھے۔ اس لیے ہندوستان کے سیاسی حلقوں نے اس کی بھر پ ور بائیک اٹ ک ا اعلان کردی ا ۔مس لم لی گ کی طرف سے ’’محمد شفیع گروہ‘‘ نے اگر چہ محض اس بات پر بائیکاٹ کرنا ص حیح نہیں س مجھا کہ ہندوس تان س ے ک وئی نمائن دہ نہیں لی ا گی ا لیکن جب س ائمن کمیش ن نے اپ نی رپ ورٹ پیش کی ت و لیگی رہنمائوں نے بھی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کے بعد وزیر ہند لارڈ برکن ہیڈ کےاال پ ارٹی ک انفرس ک انفرنس بلائی ۔ جس کے تیس رے اجلاس اامیز خطوط اور تق اریر پ ر ہندوس تانیوں نے طنز

ساس کمیٹی نے اگست ء میں نہرو رپورٹ پیش کی۔۱۹۲۸میں نہرو کمیٹی تشکیل دی گئی اورپھر نہ رو رپ ورٹ میں مس لمانوں کے بعض مطالب ات رد ک یے گ ئے تھے اس ل یے حس رت موہ انی اور مولاناشوکت علی جونہرو کمیٹی میں نمائن دے تھے نے رپ ورٹ ک و س خت تنقی د ک ا نش انہ بنای ا۔مس لمانوںسانھ وں نے نہ رو ساس وقت ج دانہ ط رز انتخاب ات ک ا ح امی نہ تھ ا اس ل یے میں ایک گروہ ایس ا بھی تھ ا ج و اازاد اور مولان ا ظف رعلی خ ان بھی نہ رو رپ ورٹ کی تائی د میں پیش پیش رپورٹ کی تائی د کی۔مولان ا اب والکلام سان کے پاس نہ رو رپ ورٹ سچکے تھے اس لیے تھے۔ مسلم لیگ اور مسلمانان ہند کئی گروہوں میں تقسیم ہو سپر ک رنے کے ل یے جن اح سے اختلاف کے لیے ک وئی مس تحکم ط اقت بھی موج ود نہیں تھی۔اس خلا ک و

ساس وقت مسلم لیگ کے صدر تھے (نے جنوری اال پارٹی ک انفرنس بلائی۱۹۲۹)جو ء کو مسلم لیگ کی

Page 176: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

175

ء ک و نہ رو رپ ورٹ کے۱۹۲۹جس میںموالاتی گروہ کے سربراہ سرمحمد شفیع نے بھی شرکت کی۔ مارچ اائی۱۹۲۹مقابلے میں چودہ نکات پیش کیے گئے۔برطانیہ میں ہر اقت دار ء کے انتخابات میں لیبر پ ارٹی برس

جو ہندوستان کے سیاسی امور س ے ہم دردی رکھ تی تھی۔ہندوس تان میں س ائمن کمیش ن کی ناک امی ،نہ رو رپورٹ اور چودہ نکات میں موجودہندو مسلم اختلافات کو باہمی مف اہمت میں تب دیل ک رنے کے ل یے ک وئی

ک و لن دن میں گ ول۱۹۳۰لائحہ عمل تیار کرنا لازمی تھا اس لیے حکومت برطانیہ کی جانب س ے نوم بر ء تک جاری رہا۔۱۹۳۳میز کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہواجو

ء کووائس رائے ہن د لارڈ ارون نے ہندوس تانی رہنم ائوں ک و یہ ب اور ک رانے کی۱۹۲۹ اکت وبر ۳۱اابادیاتی درجہ دینے کی ح امی ہے جس کے ل یے لن دن میں کوشش کی کہ برطانوی حکومت ہندوستان کو نو گول میز ک انفرنس بلائی ج ائے گی ۔اس اعلان س ے مس لم لی گ کے اراکین نے خ و ش یاں من ائیں جب کہاازادی ک ا مط البہ ش روع ک ر دی ااور ک انفرنس کے اابادیاتی درجے کو مسترد کرتے ہوئے مکم ل کانگرس نے نو اابادیاتی حکومت ک ا اائرلینڈ کی طرز پر نو ااسٹریلیا ،کینیڈا اور بائیکاٹ کااعلان کردیا اگر چہ نہرو رپورٹ میں

مطالبہ کیا گیا تھا۔ چوں کہ نہرو رپ ورٹ کے س اتھ ک انگرس نے یہ ش رط بھی لگ ائی تھی کہ ا گ ر حک ومت نے ای کاائین نافذ نہیںکیا تو رپورٹ خود بہ خود ختم ہو جائے گی۔سال گزر جانے کے سال کے اندر اندر اسے بطور

اازادی کا مطالبہ کرکے مارچ ء سے س تیہ گ رہ اور س ول نافرم انی کی تحری ک۱۹۳۰بعد کانگرس نے کامل شروع کی۔نمک سازی کی تحریک میں مئی تک کانگرس کے زیادہ ت ر رہنم ا جس میں گان دھی خ ود بھی شامل تھے گرفتار ہو گئے۔پہلی کانفرنس میں گاندھی جی نے شرکت نہیں کی جب کہ ہندو مہا سبھا کے

اراکین شریک ہوئے۔ااب اد بھی ہندوس تانی سیاس ت میں کچھ کم۱۹۳۰ کے سیاسی منظر ن امے میںاقب ال ک ا خطبہ الہ

اال ان ڈیا مس لم لی گ۱۹۳۰اہمیت نہیں رکھتا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک واض ح نص ب العین ء ک و ساس وقت م ل گی ا جب اقب ال نے رن گ و نس ل اور ااباد میں علامہ اقبال کے خطبہ ص دارت میں کانفرنس الہ سالجھنوں سے بالا تر مسلمانوں کو ایک ال گ ق وم کی حی ثیت س ے واض ح ج داگانہ وطن زبان و مذہب کے

کا تصور دیا:

Page 177: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

176

ااب اد ہ و،وہ ای ک ہی نس ل ’’مغربی ممالک کی طرح ہندوستان کی یہ ح الت نہیں کہ اس میں ای ک ہی ق وم س ے تعل ق رکھ تی ہ و،اور اس کی زب ان بھی ای ک ہ و۔ ہندوس تان مختل ف اق وام ک ا وطن ہے جن کی نسل،زبان،مذہب سب ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ان کے اعم ال و افع ال میں وہ احس اس پی دا ہی نہیں ہ و س کتا ج و ای ک ہی نس ل کے مختل ف اف راد میں موج ود رہت ا ہے۔پس یہ ام ر کس ی ط رح نامناس ب نہیں کہ مختلف ملتوں کا خیال کیے بغیر ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ہندوستان قائم کی ا ج ائے۔۔۔م یری خ واہش

(۱۴ہے کہ پنجاب،صوبہ سرحد،سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے ۔‘‘) ہندوس تانی سیاس ت میں ک انگرس کی اہمیت مس لم تھی اس ل یے دوس ری گ ول م یز ک انفرنس میں ک انگرس کی ش مولیت کے ل یے لارڈ ارون)وائس رائے ہن د( کوبرط انوی حک ومت کی ج انب س ے احکام اتسان سے سمجھوتا کر لیا جب کہ جاری کیے گئے جس کے بعد لارڈارون نے گاندھی کو رہا کرنے کے بعد اازاد کر دیا۔دوسری گول م یز ک انفرنس ج و س ات سازگار ماحول بنانے کے لیے ارون نے باقی قیدیوں کو بھی

ساس میں گاندھی نے شرکتکی لیکن اقلیتوں کے حقوق سے متعل ق معاہ دے۱۹۳۱ستمبر ء کو بلائی گئی پ ر دس تخط ک رنے س ے انہوں نے انک ار ک ر دی ا اور ی وں دوس ری ک انفرنس بھی ناک ام رہی۔تیس ری گ ول م یز

ء کو ش روع ہ وئی لیکن اس س ے پہلے گان دھی نے س ول نافرم انی کی تحری ک۱۹۳۲ نومبر ۱۷کانفرنس شروع کر دی تھی۔عدم تعاون ،نمک بنانے کی تحریک اور محصولات نہ دی نے کی وجہ س ے ک انگرس کے کارندوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ۔لارڈ ارون کی جگہ لارڈ ولنگڈن ہندوستان کا وائسرائے مقر رہ وئے جس نے ک انگرس ک و ک انفرنس میں ش مولیت کی دع وت نہیں دی۔مس لم لی گ میں قائ داعظم ک و بھی دع وت

ء کو ناکام ختم ہوئی ۔۱۹۳۳ دسمبر ۲۴نہیں دی گئی اور یوںتیسری کانفرنس بھی گ ول م یز کانفرنس وں کے بع د ہندوس تان میں اس تعماری سازش وں نے ای ک اور فتنہ برپ ا کردی ا۔ای کرر خدا کی شان میںگستاخی کی۔دوسری ط رف کش میر طرف مغل پورا انجینئرنگ کالج کے پرنسپل نے پیغمب

اان اور مس اجد کی بے حرم تی کی گ ئی۔لاہ ور میں ج ون۲۲میں بے گن اہ مس لمانوں پ ر گولی اں چلا ک ر ق ر ء کو سکھوں نے حکومت کی سازش پر گردوارہ بنانے کے لیے مسجد شہید گنج کوشہید کروا دیا۱۹۳۵

جس نے مسجد کانپورکی یاد تازہ کردی اور مسلمانوں نے اس کی شدید مخالفت کی ۔مولانا ظفرعلی خ انسان کے دل و دم اغ پ ر یہی واقعہ چھای ا رہ ا۔مولان ا نے اس سانحے سے اس ق در مت اثرہوئے کہ م رتے دم ت ک

Page 178: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

177

تحریک تحفظ مس اجد ش روع کی اوراتح اد ملت کی بنی اد رکھی۔اخب ار میں مض امین اور نظمیں ش ائع کیںااباد میں نظر بند ہونا پڑا۔ جس کی وجہ سے ’’زمیندار ‘‘ کی ضمانت ضبط ہوئی اور مولانا کو کرم

ء میں گول میز کانفرنسوں کے نتیجے میں ایک وائٹ پیپر شائع کرکے برط انیہ۱۹۳۵ حکومت نے ء۱۹۳۵ء ایکٹ کے ن ام س ے ی اد کی ا جات ا ہے۔۱۹۳۵پ ارلیمنٹ س ے منظ ور کروای ا ج و ہندوس تان میں

ء کے م انٹیگو چمس فورڈ اص لاحات کے۱۹۱۹ء کے منٹ و م ارلے اص لاحات اور ۱۹۰۹ایکٹ دراص ل اائینی ارتقاء میں نہرو رپورٹ،چ ودہ نک ات اور گ ول م یز کانفرنس وں ک ا ن تیجہ تھ ا۔ک انگر س اور مس لم لی گااغ از کی خ اطر دونوں کے لیے اگر چہ یہ ایکٹ مکمل طور پر قابل قبول نہیں تھا لیکن جمہوری عم ل کے

ء کے انتخاب ات منعق د ک روائے گ ئے ۔ایکٹ کی۱۹۳۷دونوں نے اس ے قب ول کرلی ا۔ اس ق انون کے تحت اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فاروق ملک نے تخلیق پاکستان میں لکھا ہے:

ااف انڈیا ایکٹ منظور کر لیا۔۱۹۳۵’’جولائی ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے طویل بحث کے بعد گورنمنٹ دن تک غ ور کی ا۔یہ ایکٹ برص غیر کے۴۳ دن اور دارالعلوم نے ۱۳اس ایکٹ کے مسودہ پر دارالامراء نے

اازادی حاص ل۱۹۴۷ء سے ۱۹۳۵لیے دستور تھا جس کے تحت ء ت ک نظ ام حک ومت چلای ا جات ا رہ ا۔ہی کہ ک رنے کے بع د بھی پاکس تان میں اس ایکٹ ک و مناس ب و ض روری ت رامیم کے بع د ناف ذ کیاگی ا۔ح ت

(۱۵ء کے جمہوری دستور نے اس کی جگہ لے لی۔‘‘)۱۹۵۶ ء ت ک کے عہ د ک ا سیاس ی منظرن امہ جس کے چی دہ چی دہ نک ات۱۹۳۵ء سے ۱۹۱۵یہ تھا

سے پتہ چلا ہے کہ کس طرح سے ہزاروں ہندوستانی ان ح الات ک ا لقمہ اج ل ب نے ۔اس تعماری ط اقتیں اپ نے مذموم مقاصد کے لیے مختلف پالیسیاں وضع کرکے ناف ذ ک رتی رہیں اور ناس مجھ ہندوس تانی ای ک دوس رے کے خون کے پیاسے بن کر قتل و غارت میں مصروف رہے۔مولانا ظفر علی خان خود اس کارزار حی ات کےسان کے مرد میدان ہوتے ہوئے ہر لمحہ اس تعماری ط اقتوں س ے برس رپیکار رہے۔اگ ر چہ س امراجی حک ومت نے

سان کے سان کو جیل میں ڈالا گیا اور کبھی اخبار قلم و زبان کو بند کرنے کی ہر ممکن کوشش کی کبھی سان ک ا قلم ج بر و اس تبداد کے اس م احول میں بھی براب ر ’’زمین دار‘‘کی ض مانتیں ض بط ک رلی گ ئیں لیکن

چلتا رہا۔

Page 179: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

178

)ب( مغربیہندوستان کے اہم تاریخی واقعات کے تناظر میں مولانا ظفرعلی خان کی شاعری میں

استعمار کے خلاف مزاحمت: ء تک کے اہم واقع ات میں پہلی جن گ عظیم،میث اق۱۹۳۵ء سے ۱۹۱۵ ہندوستانی تاریخ میں

لکھن وء،ہ وم رول،رولٹ ایکٹ،جلی انوالہ ب اغ،مارش ل لا،تحری ک ع دم تع اون، ت رک م والات، تحری ک خلافت،تحری ک ہج رت،ش دھی اور س نگٹھن کی تح ریکیں،س ائمن کمیش ن،نہ رو رپ ورٹ،گ ول م یز

ء ایکٹ وغیرہ شامل ہیں۔یہ تمام وہ اہم واقعات ہیں جن ک و مولان ا۱۹۳۵کانفرنسیں،مسجد شہید گنج اور ظفرعلی خ ان نے اپ نی ش اعری ک ا موض وع بنای ا اوراس تعماری حک ومت کی مختل ف پالیس یوں کی نش اندہی

ساس کی مزاحمت کی۔ڈا کٹرغلام حسین ذوالفقار نے لکھا ہے: کرتے ہوئے اازادی کے مختلف مرحلوں کی پوری تفصیل اگ رکہیں م ل س کتی ہے ’’پہلی جنگ عظیم کے بعدجدوجہد ت و وہ ظف رعلی خ ان کی ش اعری ہے۔چکبس ت نے اپ نی ش اعری میں ہ وم رول تحری ک کے ج ذبات و احساس ات کی بھرپ ور عکاس ی کی تھی۔ظف رعلی خ ان نے جن گ عظیم کے بع د کے س انحات و حادث ات ،رولٹ ایکٹ،جلی انوالہ ب اغ،مارش ل لا،ت رک م والات اور تحری ک خلافت کے ہنگ امی ہیج ان و

(۱۶اضطراب کو اپنے افکار و اشعار میں سموکر اسے زندئہ جاوید بنا دیا ہے۔‘‘) ء ک و برط انیہ نے۱۹۱۴ء کو پہلی جنگ عظیم ش روع ہ وئی۔ چ ار اگس ت ۱۹۱۴ جون ۲۸

جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا۔برطانیہ کے وزیر اعظم لائیڈ جارج نے ہندوس تانیوں کے س اتھ عہ د و پیم اں ک یے جس کی وجہ س ے ہندوس تان کے مس لمانوںکو اس مغ الطے میں ڈالا گی ا کہ یہ ای ک سیاس یہت مقدس ہ ک و اس س ے ک وئی خط رہ لاح ق نہیں۔قاض ی جن گ ہے اور م ذہب اس لام،خلافت اور مقام ا

ء کے ایک س رکاری اعلان ک ا۱۹۱۴۔ نومبر ۲محمدعدیل عباسی نے اپنی کتاب ’’تحریک خلافت‘‘میں حوالہ دے کر لکھا ہے:

’’ہندوستان کے مسلمانوں کو یقین کر لینا چاہیے کہ ہم یا ہمارے اتحادی اس جنگ میں ک وئی ایس ی ب ات نہ کریں گے جس سے ان کے م ذہبی ج ذبات ک و ٹھیس لگے۔اس لام کے مق دس مقام ات بے حرم تی س ے محفوظ رہیں گے اور ان کی عزت وحرمت رکھنے کی ہر ممکن احتیاط ب رتی ج ائے گی۔اس لام کے مق دس

Page 180: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

179

دارالخلافہ کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔ہم صرف ت رکی وزراء س ے ل ڑ رہے ہیں ج و جرم نی کے زی ر اث ر ک ام ک ر رہے ہیںنہ کہ خلیفتہ المس لمین س ے۔ب رٹش گ ورنمنٹ نہ ص رف اپ نی ط رف س ے بلکہ

(۱۷اتحادیوں کی طرف سے ان مواعید کی ذمہ داری لیتی ہے۔‘‘) حکومت کی اس قسم کے اعلانات سے خلیفۃ المسلمین کا اعلان جہاد سرد پڑ گیا۔ک انگرس نے مدراس کے اجلاس میںقرارداد پاس کرکے برطانیہ کے ساتھ دینے کا اعلان کردیا۔ہنگامی بھرتی کی گ ئی اورساس کے حریف ترکی کے خلاف میدان جنگ بھیج نے کے ل یے روانہ کی ا ہندوستانی نوجوانوں کو جرمنی اور گی ا۔ق وم پرس ت اور اعت دال پس ند ہندوس تانیوں نے جن گ میں برط انیہ ک ا س اتھ دی نے کی حم ایت کی۔اانے کے ل یے تی ار نہ تھ ا۔اس مسلمانوںمیں ایک گ روہ ایس ا بھی تھ ا ج و کس ی ح ال میں خلافت پ ر ح رف گروہ میںڈاکٹر انصاری، مولانا محمود الحسن،حسین احمد مدنی اور عبیداللہ سندھی کے نام اہم ہیں۔جنگ چھڑنے کے بعد مولانا محمود الحسن نے عبید اللہ سندھی کو افغانستان بھیج دیا اور خ ودمکہ روانہ ہ وئے ت ا کہ ایران،افغانستان،عرب اور ترکی کی مدد سے مسلمانوں ک و اس تعماری ط اقتوں س ے بچای ا جاس کے۔ت اریخاازادی ہن د میں اس ہک ریشمی رومال سے یاد کی جاتی ہے۔تارا چند نے ت اریخ تحری ک میں یہ تحریک ،تحریاازادی ہن د اور سچک ا ہے۔مولان ا اب ولکلام قاس می اپ نے مض مون’’ تحریک کا حوالہ دیا ہے جس کاپہلے ذکر ہو

تحریک ریشمی رومال‘‘ میں لکھتے ہیں: ء میں عالمی جنگ چھڑ جانے کے بعد شیخ الہند مولانا محمود الحس ن نے محس وس ک ر لی ا تھ ا۱۹۱۴

@@ا افغانس تان، ای ران اور خلافت عثم انیہ ک و متح د ہق وس طی کے ممال ک خصوص کہ ہندوستانی ع وام اور مش راازاد نہیں کرای ا جاس کتا ہے۔اس وقت خلافت عثم انیہ مش رق ک یے بغ یر برط انوی حک ومت س ے ایش یاء ک و وس طی کے وق ار کی محاف ظ س مجھی ج اتی تھی اور ت رکی ہی برط انیہ ،اٹلی ،ف رانس ،یون ان اور روس کےااپ نے حضرت مولانا عبیداللہ س ندھی ک و افغانس تان ج انے ک ا حکم دی ا اور مقابلہ میں ڈٹا ہوا تھا۔اس لیے

(۱۸خود حجاز و خلافت عثمانیہ کا سفر کیا۔‘‘) حکومت کو بہت جلد اس تحری ک کے ب ارے میں معل وم ہوگی ا اور خ ط وکت ابت کے ل یے ریش میسان کے س اتھیوں ک و مکہ ک پڑے پ ر لکھے گ ئے خط وط بھی پکڑل یے گ ئے ۔مولان ا محم ود الحس ن اور

ء ہی میں تحری ک ختم۱۹۱۶س ے ،جب کہ عبی داللہ س ندھی ک و افغانس تان میں گرفت ارکر لی ا گی ااور ی وں

Page 181: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

180

کرادی گئی۔حکومت نے تحریک کے علم برداروں کوجیلوں میں ڈال دیا۔مولانا ظفرعلی خان کا اگ ر چہ اس تحریک سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا لیکن م ذہبی اور سیاس ی دون وں حوال وں س ے وہ بھی جن گ میںسان کے ل یے چن دہ برطانیہ کی حم ایت کے خلاف تھے۔ ترک وں کے س اتھ اظہ ار ی ک جہ تی ی ک جہ تی ، جم ع ک رنے اور زمین دار اخب ار میںمض امین ش ائع ک رکے ظ الموں کی م ذمت ک رنے کی پ اداش میں وہ بھیاائی نی وایٹ‘‘میں ان اسلامس ٹوں ااگئے۔سر مائیکل اوڈ وائیر نے اپنی کت اب ’’ان ڈیا از حکومت کے زیر عتاب

کو پان اسلامسٹ کے نام سے یاد کرتے ہوئے لکھا ہے:"The Mohmmadans of the punjab generally

made it clear that the war a seculer one, that their religious freedom was in no way threatened.The british government had hastened to give the assurannces about the safety of Holy places.but the pan isamist section continued the intrigues with Turkey, Arabai,germany and Afganistan,Endeavourin to stir up rebellion among the indian Mohammadans and muting among muslim troop by fanatical appeals and finally after these schems had been brought to neught by the central pawers,joined hands with hands revolutionaries in the so calld hindu

Mohammadan Entente."(19) اازادی ک و سان کے م ذہبی ترجمہ:پنجاب کے مسلمانوں نے اس ے ای ک غ یر م ذہبی جن گ ق رار دی ا جس س ے ہت مقدس ہ کی حف اظت کی یقین دہ انی ک رائی تھی۔ کوئی خطرہ نہیں۔کیوں کہ برطانوی حکومت نے مقاما لیکن اسلامی انتہا پسندوں نے ترکی،عربیہ، جرمنی اور افغانستان کے ساتھ م ل ک ر ہندوس تان کے مس لمانوںااخر ہندو مسلم اتح اد میں باغیانہ احساسات ابھارنے کے لیے سازشیں جاری رکھیں۔لیکن یہ تمام سازشیں بال

کی بدولت ناکامی سے دوچار ہوئیں۔

Page 182: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

181

ااغ از س ے پہلے ط رابلس اور بلق ان کی جنگ وں پ رواویلا مچ انے کی وجہ س ے جن گ عظیم کے ء ‘‘کے تحت ہندوس تانیوںکی زب ان بن د ک رنے کے ل یے۱۹۱۰ء س ے ’’پ ریس ایکٹ ۱۹۱۲

اخبار’’زمیندار،الہلال اورکامریڈپر پابندیوں اور ضمانتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھ ا۔مولان ا ظف رعلی خ ان جن گ اگس ت۲ط رابلس و بلق ان کی جنگ وں کے سلس لے میں چن دہ لے ک ر قس طنطنیہ گ ئے تھے ۔ وہ

اائے ۔۱۹۱۳ ء ک و ’’زمین دار‘‘ پ ریس س میت ض بط کی ا گی اجس کی وجہ۱۹۱۳ س تمبر ۱۸ء کو واپس سے مسلم پرنٹنگ پریس کے نام سے نیا پریس قائم کر نا پ ڑا۔ترک وں س ے می ل ملاپ کی وجہ س ے ج نرل اوڈسان کی ت اک میں تھے ۔ ج نرل کی کوش ش تھی کہ مولان ا ک و بھی جی ل میں ڈال دی ا ج ائے اس ل یے وائ ر

ء ک و لن دن ک ا راس تہ لی ا۔ وہ اں ’’پ ریس ایکٹ ‘‘ کے خلاف۱۹۱۳ س تمبر ۲۷سانھ وں نے بچ بچ ا کے برط انوی پ ارلمینٹ ت ک ہندوس تانیوں کی فری اد پہنچ ائی۔ ڈاک ٹر اش رف عط ا کے مط ابق مولان ا پ ریس کی

بیان مستند زیادہ اس حوالے سے لیکن اائے لندن واپس استنبول سے لیے موتی‘‘ مخالفت کے ’’انمول سان کا ذاتی بیان ہے ۔ میںموجود ہے جو

سچکے تھے۔ مجھے کس ی نہ کس ی ’’سرمائیکل اوڈوائر میری تاک میں تھے اور میری گرفتاری کا فیص لہ ک ر ء۱۹۱۳ س تمبر ۲۷ط رح اس فیص لے کی اطلاع ہ وئی۔رات چپ چپ اتے بمب ئی ک ا ٹکٹ لے ک ر بت اریخ

(۲۰رہرائے لندن ہو گیا۔)اازادی اظہ ار پ ر پابن دی کے خلاف پریس ایکٹ کے نام سے باقاعدہ ایک کتاب شائع کرکے حکومت کی

ساٹھائی: ااواز "I am a victim of indain press Act.if ever the

name of law was given to the moss arbitrary collection of tyrannous measures conceived by the malevolent ingenuity of man it is the indian press law.it has taken away from us the right free speech and the right of frank and honest

criticism."(21)ترجمہ:

Page 183: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

182

میں ہندوستان کے پریس ایکٹ کا گزیدہ ہوں۔اگر کبھی بھی ایک کینہ پ رور ش خص کے ظالم انہ اور ج ابرانہ اقدامات کے مجموعے کو قانون کا نام دیا گیا ہے تو یہ ہندوستان کا یہی ’’پریس ایکٹ ‘‘ ہوگا۔جس نے ہم

اازادی اظہار اور بے باکانہ تنقید کا حق چھین لیا۔ سے اائے تو پہلی جنگ عظیم۱۹۱۴مولانا ظفرعلی خان اکتوبر ء کو ایک سال بعدلندن سے واپس

شروع ہو چکی تھی۔حکومت نے حفظ ماتقدم کے طور پر قانون تحفظ ہند کے تحت ہندوستان کے معروف سیاسی اور مذہبی رہنمائوں کو پکڑنا شروع کر دیا تھا۔ تاکہ حکومت کے لیے یہ لوگ مزید مسائل پیدا ک رنےاازاد ک و الائچی میں،علی ب رادران ک و چھن دواڑہ میں،حس رت موہ انی کا موجب نہ بن سکیں۔مولانا ابولکلام

ااب اد میں نظ ر بن د ک ر دی ا گی ا۔۱۹ا۴ اکت وبر ۷للت پ ور میں جب کہ مولان ا ظف رعلی خ ان ک و ء ک و ک رم ااخ یر میں بن د ک ر دی ا دی ا گی ا۔۱۹۱۵دوسری ط رف ’’زمین دار‘‘ ک و بھی ء میں زمین دار کی۱۹۱۶ء کے

ساسے بھی بند کردیا گیا۔ بجائے ’’لمعات‘‘جاری کرنا پڑا لیکن ااب اد میں انگری ز گ ورنر مائیک ل اوڈ وائ ر کے زی ر عت اب مولانا ظفر علی خان تو پہلے س ے ہی حی در سان کے فرن گ ااب اد س ے نک الے ج انے میں مائیک ل اوڈوائ ر بھی پیش پیش تھے ج و سان کے حی در تھے ۔ااوازوں اور م ذہبی جن ونیت س ے خ وف زدہ تھے۔ مولان ا نے ط رابلس اور بلق ان کی دشمنی،استعمار مخ الفت جنگوں میں ترکوں کے لیے چندے جم ع ک رکے خ ود قس طنطنیہ پہنچ ائے۔واپس ی کے بع د ترک وں س ے می لساٹھانا سب ایسے واقعات تھے جن پ ر حک ومت کی ااواز میلاپ رکھنا ،لندن جا کر پریس ایکٹ کے خلاف سان کی نظر بندی اور ’’زمین دار‘‘کی ض بطیوں اور ض مانتوں ک ا س بب ب نیں۔ کڑی نظر تھی اور یہی وجوہات

سان کے بارے میں لکھا ہے: مائیکل اوڈوائر نے خود "The neutral attitude of Great britian in the

Turco-Italian and Balkan wars of 1911-13 had caused some resentment ,and a speech of the Prime minister(Mr.Ashquith) in november 1912,was interpreted as showing British hostility to Turkey and islam.the views of this section were expressed very fierly news paper (Zamin - dar)edited by notorious

Page 184: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

183

firebrand,Zafra Ali khan.He had in1912 started subscriptions for the Trurkish Red Crescent,and himself gone to constantinople to present the Grant wazir some of money collected.On his returen the tone of his paper become more and more anti british,and after many warning I was compelled in 1913 to

frofeit the security under the press act."(22) ترجمہ:

کے بلقان کی جنگ وں میں برط انوی حک ومت کی غ یر جانب دارانہ پالیس ی نے مس لمانوں میں۱۹۱۱۔۱۳ ء میں برط انوی وزی ر اعظم مس ٹر اس کویتھ کی تقری ر ک و۱۹۱۲بے چینی پیدا کردی۔خاص طور س ے نوم بر

اردو اخبار زمیندار نے اس انداز سے پیش کیا کہ انگری ز ت رکی اور اس لام کے مخ الف ہیں۔زمین دار کے ای ڈیٹرہ خ ود مولانا ظفرعلی خان نے ترکی ہلال احمر کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی بھ ر پ ور مہم چلائی۔اور ب ذات جاکر یہ چندہ ترکی وزیر اعظم کے حوالہ کیا۔واپسی پر انگریز حک ومت کے ح والے س ے اخب ار کی معان دانہ

ء ک و اخب ار کی ض مانت ض بط ک ردی۱۹۱۳رویے میں اور بھی شدت پیدا ہوگ ئی۔جس کے ن تیجے میں گئی۔

’’زمیندار‘‘ کی مائیکل اودوائر نے نہایت تفصیل کے ساتھ مولانا ظفرعلی خان کے ترک روابط اور اس تعمار دش منی ک ا ذک ر اپ نی کت اب میں کی ا ہے۔مولان انے زم انہ نظربن دی میں’’ زمین دار اور لمع ات‘‘ پ ر پابندی کے بعد حکومت سے نئے پرچے کی اشاعت کی درخواست کی جو کہ اس شرط پر منظور ک ر دی

ء میں ’’ستارہ صبح ‘‘۱۹۱۷گئی کہ اس میںہر قسم کی سیاسی تحریروں سے گریز کیا جائے گا۔چنانچہ سانھ وں نے م ذہب ،ت اریخ و فلس فہ اور اقتص ادیات کے ااغاز کیا گیا۔سیاست کو شجرممنوعہ ق رار دے ک ر کا موضوع پر لکھنا شروع کردیا۔ جعلی پ یروں اورنقلی ص وفیوں ،ش ریعت و ط ریقت کے جھ وٹے دعوی داروں کےساٹھے۔مولان ا پ ر خلاف ایس ی نظمیں اور مض امین لکھے کہ خانق اہوں میں بیٹھے م ذہب کے ٹھیکی دار بلبلا ساس وقت زور ش ور پ ر تھ ا ساس ے بھی بن د کرن ا پ ڑا۔فتنہ قادی انیت ہہذا بہت جل د کفر کے فتوے لگ ائے گ ئے ل اورمرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار استعماری ایجنٹ بن کر تنسیخ جہاد کے ساتھ انگریزوں کی وف اداری

Page 185: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

184

کا درس بہت جوش وخروش سے دے رہے تھے۔دوسری طرف جعلی مولوی و پیر و مری د بھی ق وم کوسس تی اور ک اہلی کی ط رف راغب ک ر رہے تھے ۔ مولان اکوان اس تعمار پسندوںس ے پنگ ا لین ا مہنگ ا پ ڑ گی ا۔نظم

’’تکمیل ایمان‘‘میں اس کا ذکر کچھ یوں کیاہے:زکوۃ اچھی حج اچھا روزہ اچھا اور نماز اچھی

مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتاعتاب انگریز کا ان سب مری باتوں کی قیمت ہے

قیامت تک مرا نرخ اس سے ارزاں ہو نہیں سکتاسکفر کے یہ پیر سب مل کر لگا لیں مجھ پہ فتوے

سان کے الٹی میٹم سے ہراساں ہو نہیں سکتا میں (۲۳)

ااب اد کی نظربن دی ،’’زمین دار‘‘ کی بن دش اور’’ س تارہ ص بح‘‘ کی مولان ا ظف رعلی خ ان نے ک رم اشاعت و پابن دی ک ا واقعہ کچھ ان الف اظ میں بی ان کی ا ہے:س رمائیکل اوڈ وائ ر علیہ م اعلیہ کی عنای ات بےااباد کی چار دیواری تک محدود ہوکر رہ گ ئی ۔ت و زمین دارپر رق ابت اازادی کرم غایات کے صدقے جب میری ااب اد میں ساس ے ہمیش ہ کے ل یے س ندور کھلا دی ا گی ا۔ک رم مطبوعات کا پہرا بٹھا دیا گیا اور کچھ عرصہ بعد ایک مرتبہ مجھے ایک دیوانے کتے نے ک اٹ کھای ا۔ درخواس ت دے ک ر علاج کے ل یے کس ولی چلا گی ا۔شفایاب ہونے پر شملہ بلایا گیا ۔سرمائیکل اوڈ وائر سے ’’س تارہ ص بح‘‘ ش ائع ک رنے کی اج ازت م ل گ ئی۔ااکر ’’ستارہ صبح‘‘نکالا لیکن خواجہ حسن نظ امی کی ط ریقت اور م رزا بش یرالدین محم ود شملہ سے واپس کی شریعت نے کہ یہ دونوں دولت بہیہ برطانیہ کی خانہ زاد ہیں میرے بے راہ رو قلم کے س اتھ س ازش ک رلی جو م ذہب کے س اتھ سیاس ت کی پنکح پر لگ انے س ے کبھی نہ چوکت ا تھ ا۔اس س ازش ک ا ن تیجہ یہ ہ وا کہ

مولانا ظفرعلی خان نے ف رنگی اس تعمار کے زی ر(۲۴’’ستارہ صبح‘‘عتاب فرنگ کے افق میں غروب ہوگیا۔)عتاب ان ناجائز قرقیوں،ضبطیوں،ضمانتوں اور نظربندیوں کا پورا خاکہ اپنی نظم’’ضبطی‘‘میںپیش کیا ہے:

دل ضبط، زباں ضبط، فغاں ضبط، قلم ضبطدنیا میں ہوئے ہوں گے یہ ساماں کہیں کم ضبط

Page 186: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

185

برطانیہ کا شیوہ رہا گر یہی کچھ روزسسن لوں گے عزیزوں کہ ہوئے دیر و حرم ضبط

(۲۵)اازادی کی تحری ک ت یز ہ و گ ئی۔جن گ عظیم میں پہلی جن گ عظیم کے دوران ہندوس تان میں بھی ہندوستانیوں کی حم ایت کے مط البے س ے محک وم ق وم ک و بھی اپ نی اہمیت ک ا ان دازہ ہ و گی ا۔ جن گ میںااغاز کیا گیا ۔اس سلس لے کی حکومت کا ساتھ دے کر حکومت سے بھی اپنے حق کے لیے مطالبات کا

ء کو ای ک خ اتون مس زاینی بس نٹ۱۹۱۵پہلی کڑی ’’ہوم رول‘‘کا مطالبہ تصور کی جاتی ہے۔یکم ستمبر ااغاز کیا جسے باقی قوم پرس توں نے س اتھ دے ک ر پ ورے ہندوس تان ت ک پہنچ ا دی ا۔ نے ہوم رول تحریک کا حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ضروری تھا کہ ہندو مسلم ایک ہو جائیں ت اکہ مش ترکہ اور متفقہ طور پر کوئی لائحہ عمل اختیار کیا جا سکے ۔ہ وم رول کی تحری ک نے بھی وقت کی اس اہم ض رورت ک وااغ از ہ وا۔گان دھی جی ابھی ااشکارہ کر دیا۔اس مقصد کے لیے مسلم لیگ اور کانگرس کی اہم اجلاس وں کا عدم تشدد کے فلسفے کے پیروکار نہیں بنے تھے اور برطانیہ کی حمایت میں ہندوستانیوں ک و می دان جن گسان کی گرفت اری کی ض روت نہیں پ ڑی۔مس لم لی گ کی اام ادہ ہ وئے تھے اس ل یے حک ومت ک و بھیجنے پ ر طرف س ے محم د علی جن اح کی خ واہش تھی کہ دون وں ق ومیں ای ک ہ و ک ر حک ومت س ے اپ نے مطالب ات

ہہذادسمبر ء میں لکھنوء کے مقام پر کانگرس اور مسلم لی گ کے درمی ان۱۹۱۶منوانے کی کوشش کریں ل ایک معاہدہ طے پایا جسے ’’میثاق لکھ نئو‘‘کے ن ام س ے ی اد کی ا جات ا ہے۔ میث اق لکھن وء دو حوال وں س ے مسلمانوں کے لیے سود مند ثابت ہ وا ۔اس معاہ دہ کی وجہ س ے ہن دو مس لم اتح اد ممکن ہ و گی ا ج وانگریزاامد ثابت ہوا۔دوسرا اہم حوالہ یہ تھ ا کہ اس میث اق حکومت کے لیے مہلک اور تحریک خلافت کے لیے کار کے تحت کانگرس نے تحریری طور پر مسلمانوں کے جداگانہ انتخاب کا حق مان لیا۔معاہدہ ک ا مض ر پہل و یہ تھا کہ اس میں مسلمانوں کے اکثریت والے ص وبوں میں کونس لوں کی تع داد کم ک ر دی گ ئی تھی جب کہ اقلیتی صوبوں میں زی ادہ ک ر دی گ ئی تھی یہی وہ بنی ادی خامی اں تھیں جس کی وجہ س ے معاہ دے پ ر

اتفاق زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ قاضی محمد عدیل نے لکھا ہے:

Page 187: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

186

’’اس میثاق سے نہ مسلمان مطمئن تھے نہ ہندو ۔دونوں کو اعتراض یہ تھا کہ اکثریتی صوبوں ک و اقلیت میںتبدیل کر دیا گیا ہے اور ہندو اقلیتوں صوبوں میں مسلمانوں کی مخصوص نشستوں کو ناپس ند ک رتے ہیں۔‘‘)

۲۶)ااب اد میں مولانا ظفرعلی خان جو ہمیشہ ہندو مسلم اتح اد واتف اق کے متم نی تھے۔وہ اس وقت ک رم سانھیں کس ی قس م کے سیاس ی و غ یر سیاس ی اجلاس میں ش رکت کی اج ازت نہ تھی۔لیکن نظ ر بن دتھے ۔

سدس ہر۱۹۱۶سانھوں نے ہق لکھنئو‘‘کی خ واہش پ ر ’’ہندوس تان، سدس ہرا اور مح رم،ہن دوئوں کی۱ء میں ’’میثا ، تہذیب ‘‘ جیسی نظمیں لکھ کرہندو مسلم اتحاد کو وقت کی اہم ضرورت ثابت کرنے کی کوشش کی:

نہ امتیاز رہے ذات پات کا کچھ بھیسشودر کی لڑکی برہمنی ہو جائے ہر ایک

(۲۷)ناقوس سے غرض ہے نہ مطلب اذاں سے ہے

مجھ کو اگر ہے عشق تو وہ ہندوستاں سے ہے(۲۸)

ہق ملی‘‘ کے نام سے مجموعہ’’ حبسیات‘‘ میں موجود ہے سان کی ایک نظم ’’میثا معاہدہ لکھنو پر سان ک رداروں ک و س راہا ہے اور منظ وم خ راج تحس ین پیش کی ہے جن کی کوشش وں کی سانھوں نے جس میں وجہ ہندو مسلم اتحاد ممکن ہو سکا تھالیکن س اتھ میں معاہ دے کے ش رائط پ ر ط نز بھی کی ا ہے جن کے

ذریعے مسلمانوں سے نیابت کا حق چھین لیا گیا ہے۔سہنر سے ٹوٹے ہوئے دل جوڑے تھے کس دشواری سے کس

لکھنئو جا کر سن لو کوئی عبدالباری سےہن یرودا ہو جائے کاش وہ قائد ملت سج

ہندو و مسلم ایک ہوئے تھے جس کی علم برداری سےااپ ہو حاکم ہم محکوم ااپ کی قلت میں ہو کثرت

Page 188: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

187

فائدہ ہم کو خاک ملا اس وضع کی خود مختاری سےووٹ بڑھانے کے لیے دینا کفر کا لقمہ ایماں کو

ااڑ دھرم کی برہمنوں نے لی بھی تو کس ہشیاری سے(۲۹ )

جیس ا کہ اوپ ر بی ان کی ا گی ا کہ جہ اں ت ک معاہ دے میں ہن دو مس لم اتح اد کی ب ات تھی مولان اسان کے ظفرعلی خان کو اس پرکسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن جن شرائط پ ر معاہ دہ طے پای ا وہ

سان کے خیال میں مذکورہ معاہدہ نامکم ل اور مس لمانوں کے ل یے مض ر تھ ا۔مولان ا ۸مخالف تھے۔کیوں کہ ء کو ’’زمیندار‘‘ میں ہندوستان ک ا میث اق وط نی کے عن وان س ے میث اق لکھ نئو کے ب ارے میں۱۹۲۳جون

لکھتے ہیں: ء میں لکھ نئو کے مق ام پ ر ک انگرس اور لی گ کے جلس وں ک ا اجتم اع ہ وا اور جن لوگ وں کے۱۹۱۶’’

ہن رہنم ائی تھی انھ وں نے ای ک میث اق پ ر دس تخط ک رکے ہن دو مس لم ہاتھوں میں ک انگرس اور لی گ کی عن اہد مسلم و ہندو کا پہلا دن وہی سمجھا جات ا ہے ہت قومی میں اتحا اتحاد کا اعلان کر دیا۔ہندوستان کی حیا جس دن اس میث اق کی تکمی ل ہ وئی۔لیکن ہم نے ب ار ہ ا اس میث اق کے معت بر ہ ونے کی مخ الفت کی ہے کیوں کہ اول تو اس پر ملک کے ان معززین کے دستخط نہیں ہیں جن پر احرار کو اعتماد ہو۔کیوں کہ تم ام احرار وطن پرست نظر بندی و زباں بندی کی قیود میں جکڑے ہوئے تھے۔بھلا جس میثاق پر مس لمانوں کیاازاد،مولانا ظفرعلی خ ان جیس ی ہس تیوں کے طرف سے مولانا محمد علی،مولانا شوکت علی،مولانا ابولکلام دستخط نہ ہو وہ میث اق مس لمانوں کے ل یے کی ا حی ثیت رکھت ا ہے۔دوس ری وجہ یہ ہے کہ اس میں مس لمانوںہل اساس پ ر اس میث اق ک ا قیص ر تعم یر کی ا گی ا ہے وہ ساصو کی نیابت کا کافی خیال نہیں رکھا گیا اور جن

( ۳۰اصول ہی غلط اور ناقابل عمل ہیں۔‘‘) ء ک ا س ال پ وری دنی ا کی ت اریخ میں نہ ایت اہمیت ک ا حام ل ہے۔ک ارل م ارکس س ے لے۱۹۱۷

ک رلینن ت ک کے اش تراکیت پس ندوں کے خ واب اس ی س ال پ ورے ہ وئے ۔روس میں بالش ویک انقلاب برپ ا ہ واجس کی وجہ س ے روس ک و پہلی جن گ عظیم س ے دس تبردار ہون ا پ ڑا۔دوس ری ط رف دنی ا کی اہم ت رین

ء تک یورپ کی سیاست سے بالکل الگ تھا اس ی س ال جرم نی کے خلاف۱۹۱۷طاقت’’ امریکہ‘‘ جو

Page 189: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

188

میدان جنگ میں کود پڑا۔ بعدمیں اس ملک نے افریقہ،خلیجی اور ایش یائی ممال ک ت ک اپ نے پ ائوں پھیلا ن اااج امریکہ ایک نواستعماری قوت کی صورت میں دنیا پر راج کر رہا ہے۔ شروع کردیا اور

روسی انقلاب کے چرچے پوری دنیا میں ہو رہے تھے کہ کس طرح ایک نچلے ، غ ریب اور کس انسالٹ دی ا جب کہ اتح ادیوں کی کوشش وں،جنگ وں اور تحریک وں کے ب اوجود رد طبقے نے زار روس ک ا تختہ انقلاب کامیاب نہ ہوسکا۔ہندوستانیوں میں بھی انقلاب روس کے اثرات سے یہ شعور بیدار ہوا کہ استعمار ی ہااپ پ ر مض بوط اعتم اد سپرعزم جدوجہد اور اپ نے حکومت کی حمایت سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں بلکہ

اازادی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اور اتحاد کی بنیاد پر ہی برطانوی حکومت جس نے پہلی جنگ عظیم کے دوران ہندوستانیوں کے ساتھ خلافت کے سلسلے

میں جھوٹے وعدے کیے کیونکہ انگریز جانتے تھے ہندی مسلمان خلافت ترکیہ اسلام ک ا محاف ط اور خلیفتہسان کے منص وبوں کے ہ عظم انیہ ختم ہوگ ئی جس ے المسلمین کو پیغمبر کا نائب سمجھتے ہیں۔اگر خلافت تحت ختم ہی ہونا تھ ا ت و ہندوس تان میں برط انوی حک ومت ک و مش کلات ک ا س امنا کرناپڑس کتا ہے دوس ریہق لکھنئو بھی استعماری حکومت کے ل یے خط رے کی گھن ٹی ث ابت ہ و طرف ہوم رول کی تحریک اور میثا

اائینی اصلاحات کے نام پر ٹرخانے کا سلسلہ شروع کیا۔ ئی۔اس لیے حکومت نے ہندوستانی عوام کو اائے ۔ ہندوس تان کے اہم سیاس ی رہنمائوںمیںگان دھی۱۹۱۷نومبر ء ک و م انٹیگو)وزی ر ہن د(ہندوس تان

جی،قائداعظم، محمد ش فیع،م دن م وہن مول ویہ،تل ک اور مس ز بس نٹ وغ یرہ س ے ملاق اتیں کی۔م انٹیگو اور ء کو ق انون ک ا۱۹۱۹ دسمبر ۲۳ء کو رپورٹ شائع کی جو ۱۹۱۸گورنرجنرل چمسفورڈنے مل کر جون

اائی نی سبری لیکن یہ حص ہ ب نی ۔م انٹیگو چمس فورڈ اص لاحات پرتنقی د ض رور ہ وئی۔ رپ ورٹ اچھی تھی ی ا اائنداق دام ض رور تھ ا مگ ر یہ س کے ک ا سان کے حقوق دلوانے کا خوش اصلاحات کے ذریعے ہندوستانیوں کو سرخ تھا اور بعد کے حقائق و واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ استعماری حکومت اپنے غلام وں ک و صرف ایک حقوق دلانے یا خود مختاری کے ح ق میں بالک ل نہیں تھی۔مولان ا ظف رعلی خ ان اس ے برط انوی اقت دار کیہت ت رکیہ س ے قط ع تعل ق کے اق دامات بق ا،اش تراکی ذہ نیت و انقلاب س ے بچ ائو اور مس لمانوں کے خلاف

سان کی ایک نظم ’’صلائے عام‘‘میں یہی پس منظر واضح کی گئی ہے: گردانتے ہیں۔

Page 190: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

189

کام جلسوں سے چلے گا نہ ریزولیوشن سےااہن سے ااہن کی فقط ہم نشیں کاٹ ہے

جلوئہ یار کے مشتاق ہیں عشاق مگرجھانکتے ہیں اپنے زنبور بھری روزن سے

ااپ کو اپنی حکومت کی بقا ہے مطلوبہم ہیں وابستہ خلافت کے مگر دامن سے

ااپ سلامت صد و سال رہیں ہند میں ااپ کی سطوت کو نہ کچھ لینن سے خوف ہو

مانٹیگو کو یہ پیغام مرا پہنچا دوبہ ادب عرض یہ ہے حضرت میکلیکن سے

(۳۱) ء تک۱۹۱۹ ء میں مانٹیگو وزیر ہند کی حیثیت سے ہندوستان وارد ہوئے اور دسمبر ۱۹۱۷نومبر

ء میں س ڈنی۱۹۱۷سان کی تیارکردہ رپورٹ قانون کا حصہ بن گئی۔دوس ری ط رف ٹھی ک اس ی س ال یع نی رولٹ نامی انگریز کی سربراہی میں ایک کمیٹی اسی مقصد کے لیے قائم ہوئی کہ موج ودہ ح الات کی وجہسان ک ا اانے والی ہیں سچکی ہیں ی ا اا سے ہندوستان میں جو سازش یں ہ ورہی ہیں اور ج و تح ریکیں منظ ر ع ام پ ر کس طرح سے سدباب کیا جائے۔اس مقصد کے حصول کے لیے رولٹ نے اپنی کمیٹی کی مش اورت س ے ایک قانونی مسودہ تیار کرکے اسمبلی میں منظ وری کے ل یے پیش کی ا۔رولٹ ایکٹ ج و ’’س یاہ ق انون‘‘ کے ن ام س ے ت اریخ میں ی اد کی ا جات ا ہے ۔ ان ج ابرانہ ق وانین ک و م اننے س ے انک ار کے بع د گان دھی جی نے

ااغاز کیا۔سید حسن ریاض نے لکھا ہے: حکومت کو سول نافرنی کی دھمکی دی اور ’’ستیہ گرہ‘‘کا ’’مسٹر گاندھی نے رولٹ کمی ٹی کی رپ ورٹ پڑھ نے کے بع د اپ نے اس ارادے ک ا اعلان ک ر دی ا کہ مج وزہسانھوں نے ایک عہ د ن امہ م رتب کی ا جس ک ا یہ مفہ وم تھ ا کہ س تیہ قوانین کے خلاف ستیہ گرہ کریں گے ۔ گرہ عہد کرتا ہے کہ اگر یہ قوانین منظور ہوگئے تو جب تک یہ واپس نہ لی ج ائیں وہ ان کی اور تم ام ق وانین

(۳۲کی پابندی سے انکار کریںگے۔‘‘)

Page 191: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

190

گاندھی جی نے ’’ستیہ گرہ‘‘ کے عہد نامے پ ر ک انگرس اور مس لم لی گ کے ارک ان س میت بہتسان کی پرواہ کیے بغیر مارچ سے لوگوں کے دستخط لیے۔تاہم یہ دھمکی رائیگا ںاور بے اثر رہی۔حکومت نے

ء میں ’’رولٹ ایکٹ‘‘ اسمبلی سے منظور کروا کر لاگو کر دیا۔ایک طرف اص لاحات کے وع دے۱۹۱۹ اور دوسری طرف حکومت کی یہ سردمہری ہندوستانیوں کو بہت ناگوار گزری۔جنگ میں حکومت ک ا س اتھ دے کر جان و مال کے ن ذرانے پیش ک رنے ک ا ص لہ ’’ک الے ق انون‘‘ کی ش کل میں ملا جس کی رو س ے فوجی عدالتیں قائم کی گئیںاور ان عدالتوں کو یہ اجازت ملی کہ بغیر گواہ،ثبوت اور دلیل کے اگ ر کس ی پ ر

سان کو سزا دی جاسکتی ہے۔فاروق ملک نے رولٹ ایکٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: شک ہو تو کے دوران حکومت برطانیہ کو برصغیر میں امن اور تعاونی فضا کی( ۱۹۱۴-۱۹۱۸’’جنگ عظیم اول )

ضروت تھی کیوں کہ اس ے جن گ کی بھ ٹی میں این دھن کے ط ور پ ر جھونک نے کے ل یے یہ اں کے س پاہی درکار تھے نیز جنگی مصروفیات کے پیش نظر وہ برصغیر میں ہنگامی حالات س ے چھٹک ارا چ اہتی تھی اس لیے دوران جنگ وزیر اعظم برطانیہ لائیڈ جارج اوروائسرائے ہند چمسفورڈ نے برص غیر کے باش ندوں س ے ب ڑےسام ور میںہندوس تانیوں کی ش رکت کی اازادی ک ا ذک ر بھی کی ا ۔روزم رہ کے وعدے کیے۔ح ق خ ودارادیت اور بات بھی کی۔۔۔جنگ کے بعد حکومت کا رویہ بدل گیا اور پہلے کی ط رح برص غیر کے ع وام س ے م روت

( ۳۳اور دوستی کے اظہا ر کرنے سے کترانے لگی۔‘‘)

ہم ب الا ک و اختی ار @@ا حک ا رولٹ ایکٹ میںبہت سے غیر اخلاقی اور غیر قانونی شقیں موج ود تھیں مثل دیا گی ا تھ ا کہ وہ جس وقت چ اہیں بلا ج واز کس ی بھی ش خص س ے ض مانت طلب کرس کتے ہیں۔کس ی شخص کوبغیر وارنٹ گرفتاریا نظر بند کرکے جیل میں ڈال سکتے ہیں۔اخبارات اور کتابوں کو سنس ر کی ا ج اہن مل ک مقیم س کتاہے۔ہ ر ش خص س ے مل ک میں موج ودگی کی رپ ورٹ طلب کی جاس کتی ہے۔ب یرواامد پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔مولانا ظفرعلی خ ان نے نظم’’پ اپ کی ن ائو‘‘ میں رولٹ ہندوستانیوں کی

ایکٹ کی کیا خوب عکاسی کی ہے :تجھے کیا سنائوں میں ہم نشیں مرے غم کا قصہ طویل ہے

اابرو ہوا جب سے غیر دخیل ہے مرے گھر کی لوٹ گئی

Page 192: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

191

ہیں نئی روش کی عدالتیں ہیں نرالے ڈھنگ کے فیصلےنہ نظیر ہے نہ دلیل ہے نہ وکیل ہے نہ اپیل ہے

ہیں کسی کے پائوں میں بیڑئیاں تو کسی کے گھر میں قرقیاںہب فرنگ کا جسے دیکھئے وہ قتیل ہے ہہ عتا نگ

(۳۴) گاند ھی جی نے ’’ستیہ گرہ‘‘ عہد نامے میں کانگرس اورہندو مہاس بھا کے لی ڈروں س ے دس تخط ل یے۔مس لمانوں نے بھی ’’س تیہ گ رہ‘‘تحری ک میں رولٹ ایکٹ کے خلاف ب ڑھ چ ڑھ ک ر حص ہ لی ا ۔حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر انصاری سمیت بے شمار لوگوں نے عہد نامے پر دستخط ک یے۔گان دھی جی نے ع دم تعاون اور سول ن افرنی کی تحری ک ش روع کی،ب یرونی م ال ک ا مق اطعہ کی ا گی ا۔جن کت ابوں کی اش اعت اور

سان کی خرید و فروخت شروع کی گ ئی۔ م ارچ ک و پ ورے ہندوس تان میں۳۰خرید و فروخت پر پابندی تھی بھوک ہڑتال کرکے ستیہ گرہ منانے کا حکم دیا گیا ۔کہا گیا کہ لوگ تمام کاروبار بند ک رکے ش ام کے وقت

۶خالی پیٹ،ننگے سر اور ننگے پیر جلسے میں جمع ہوں لیکن پھر کسی وجہ س ے یہ ت اریخ تب دیل ک رکے ااری ا اپری ل رکھ دی گ ئی ۔دہلی ت اریخ کی تب دیلی کی خ بر نہیں پہنچی اور وہ اں پ ر حکیم اجم ل خ ان اورااری ا س ماج کے لیڈرس وامی ش ردانند کی قی ادت میں جل وس نکلا۔ہن دو مس لم اتح اد ک ا ت و یہ ع الم تھ ا کہ س ماج کے اس لام دش من لی ڈر س وامی ش ردھانند س ے ج امع مس جددہلی میں تقری ر ک روائی گ ئی۔اب ولکلام اازاد،علی ب رداران اور مولان ا ظف رعلی خ ان جیس ے اح راری ت و جی ل میں تھے لیکن مس لمانوں کے ج و لی ڈر

سانھوں نے ان جلوسوں میں بھر پ ور حص ہ لی ا۔بعض لوگ وں نے ۲۰ م ارچ کی جگہ ۳۰جیلوں سے باہر تھے م ارچ۳۰مارچ کوغلط فہمی سے جلوس کا دن قرار دی ا ج و کہ غل ط ہے کی وں کہ گان دھی جی نے خ ود

کے ستیہ گرہ کے جلوس کے حوالے سے تلاش حق میں لکھا ہے:سچکی تھی وہ اں س وامی ش ردھا نن د جی اور حکیم اجم ل خ ان ص احب۳۰’’دہلی میں مارچ کو ہڑتال ہ و

مرحوم کا طوطی بولتا تھا ۔انہیں ہڑتال کے التوا کا تار دیر میں پہنچا اس ل یے اس کی تعمی ل نہ ک ر س کے۔ دہلی میں جیسی ہڑتال اس دن ہوئی اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ہندو مس لمان ای ک دل ہوگ ئے۔س وامیشردھا نند سے جامع مسجد میں تقریر کرائی گئی۔بھلا حکام ان باتوں کو کیسے برداشت کر س کتے تھے؟

Page 193: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

192

پولیس نے ہڑتال کے جلوس کو سٹیشن کی راہ میں روکا اور ان پر گولی چلائی ۔بہت سے لوگ زخمی ہوئے(۳۵۔ بہت سے مارے گئے۔دہلی میں جبر و تشدد کا دور دورہ ہو گیا۔‘‘)

اپریل کو بمبئی میں ہندو مسلمان ہ زاروں کی تع داد میں اکھ ٹے ہ وئے۔جہ اں۶ مارچ کے بعد ۳۰ پر مہاتماگاندھی سے پھر بمبئی کی ایک مسجد میں تقریر کروائی گ ئی جس ک ا اظہ ار گان دھی نے تلاش حق میں کیا ہے۔سودیشی تحری ک،س ول نافرم انی ، نم ک کے محص ول کے بائیک اٹ کے ل یے لوگ وں س ے حلف لیے گئے۔رض اکاروں ک و ممن وعہ کت ابیں س ڑکوں پ ر رکھ کرف روخت ک رنے ک ا حکم ملا۔اس کے بع د

اام د کے منتظ ر تھے لیکن۷گاندھی نے سان کی سرخ کی ا جہ اں ل وگ کث یر تع داد میں اپریل کو پنجاب ک ا سانھ وں نے اگلی ص بح ای ک اور سان ک و حراس ت میںلی ا اور واپس بمب ئی پہنچ ا دی ا۔ادھ ر پہنچ ک ر پ ولیس نے جلوس میںشرکت کی جسے پولیس نے نیزے اور گولیاں چلا کر منتشر کر دیا۔پنجاب وال وں ک و خ بر پہنچیااتے ہ وئے گرفت ار ک ر لی ا گی ا ہے۔حک ومت نے پنج اب کے س رکردہ لی ڈر ڈاک ٹر کہ گاندھی جی ک و پنج اب کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو گرفتار کرلیا جس کی وجہ سے عوام میں بے چینی پیدا ہوئی۔ غم و غص ے کی

ساٹھی۔ ااور ہ وا۱۳لہر جاگ ۔ اپریل کو امرتسر میں جل وس نکلا ج و پہلے ڈپ ٹی کمش نر کے بنگلے پ ر حملہ اور وہ اں پ ر اینٹ وں کی ب ارش ک ردی۔جس کی وجہ س ے ک ئی ل وگ زخمی ہ وئے پ انچ گ ورے م ارے گ ئےساس وقت پنج اب کے گ ورنر س ر مائیک ل اوڈوائ ر تھے ج و نہ ایت سرخ کی ا۔ پھرجل وس نے جلی انوالہ ب اغ ک ااادمی تھے وہ ہندوستانی عوام کوزمین پر رینگ نے والے ک یڑے مک وڑے ہی س مجھتے تھے ۔وہ کس ی متعصب ساس نے ع وام ک و بھی ص ورت میںہندوس تانیوں کی ان اش تعال انگ یزیوں ک و برداش ت نہیں کرپ ائے۔اس ل یے کچلنے اور دبانے کے لیے جنرل ڈائر کو بھر پ ور اختی ار دے کرجلس ہ گ اہ بھیج ا ۔ڈائ ر جس نے پہلے س ےاادمیوں سے زیادہ کامجمع جم ع حکم نامہ جاری کر دیا تھاکہ جلوس نکالنے پر پابندی ہوگی اور جہاں چار ساس ے خلاف ق انون عم ل س مجھتے ہ وئے اس لحہ کے ہ وا اس کے خلاف ق انونی ک اروائی کی ج ائے گی اورساس کے حکم نامے کو لوگوں نے نظ ر ان داز ک رتے ساس نے دیکھا کہ استعمال سے منتشرکیا جائے گا۔جب ااپے سے باہر ہوگیا اور ہجوم پر گ ولی چلانے ک ا حکم ص ادر کردی ا۔ ن تیجے ہوئے جلوس نکالاہے تو جنرل ڈائر میں جلیانوالہ کا خون ریز واقع تاریخ کا حصہ بن گیا۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اس خونیں واقعہ کے ب ارے

میں لکھا ہے:

Page 194: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

193

اان ’’انگریزوں نے نہایت درندگی سے مجمع پر گ ولی چلا دی اور ع وام کے ج ذبات ک و کچل نے کے ل یے اان میں سینکڑوں کو مشین گنوں کی گولیوں سے بھون ڈالا۔اس حادثے میں اادمی زخمی ہوئے۱۲۰۰کی

سے زائد مارے گئے۔اس واقعے نے ملک بھر میں انگریزوں کے خلاف شدید نف رت کی ب رقی رو۴۰۰اور (۳۶دوڑا دی۔‘‘)

جلیانوالہ کے قتل عام کے واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تہذیب اور انسانیت کی دعویدار انگری ز ق ومااپ کو دنیا کی مہذب ترین قوم تصور کرتی تھی اور ہندوستان میں اپنے استعماری قبض ے کے ح ق جو اپنے میںیہ جواز پیش کرتی تھی کہ یہاں کے باسی وحشی اور درن دے ہیں ہم انہیں تہ ذیب و انس اینت س کھانے اائے ہیںلیکن طاقت اور دولت کے نشے سے سرشار ان ف رنگی درن دوں نے اس واقعے میں جس بے رحمی اور وحشیانہ پن کا ثبوت دیا اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔سینکڑوں نہتے لوگ وں ک و بے دردی س ے م ارنے کی اج ازت دنی ا ک ا ک وئی بھی ق انون نہیں دے س کتا۔مولان ا ظف ر علی خ ان نے اس واقعے پ ر ک ئی نظمیں لکھیں،تقری ریںکیں اور اخب ارات میں مض امین ش ائع ک یے۔ نظم ’’ج نرل ڈائ ر کی ی ادمیں‘‘ ج نرل ڈائ ر اور

مائیکل اوڈوائر کو ہلاکو خان سے زیادہ جابر و ظالم قراردیا ہے:ولایت میں کھلا جب نامئہ اعمال ڈائر کا

ہم گرامی اوڈوائر کا ہز نامہ تھا نا طراہلاکو کو عبث تاریخ میں بدنام کرتے ہیں

بچارے نے نہتوں پر دیا کب حکم فائر کا(۳۷)

مولانا ظفرعلی خان نے جلیانوالہ باغ میں شہید ہونے والے لوگوں کو منظوم خراج تحسین پیش کرتےسان ک ا خ ون رائیگ اں ہوئے لکھا ہے کہ جن لوگوں نے اپنی جانیں ق وم کی ع زت پ ر قرب ان کیں وہ ام ر ہوگ ئے۔

اازادی کے لیے بنیاد ثابت ہوگا۔نظم ’’فانوس خیال سے چند اشعار: نہیں جائے گا بلکہ جتنی بوندیں تھیں شہیدان وطن کے خون کی

اارائش کا ساماں ہو گئی اازادی کی ہر قصسان کی ہے سان کا ہے دنیا سان کی ہے دین زندگی

Page 195: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

194

جن کی جانیں قوم کی عزت پہ قرباں ہو گئیں(۳۸)

اپری ل۱۵جلی انوالہ ب اغ کے واقعہ کے بع د حک ومت نے شورش وں اور ہنگ اموں ک و دب انے کے ل یے ااڑ میں حکومت نے انس انیت،تہ ذیب اور ق انون کے س ارے۱۹۱۹ ء کو مارشل لا نافذکردیا۔مارشل لا کی

حدود وقیود توڑ ڈالے۔ہندوستانیوں کے ساتھ انگریز سپاہیوں نے وہ سلوک روا رکھا جو عام طور پر جانوروں سے بجے تک کرفیو نافذ ک ر دی ا جات ا۔خلاف ورزی کی س زا۵ بجے سے صبح ۸بھی روارکھنا جائز نہیں۔شام

گولی تھی۔معزز شہریوں کی گاڑیاں اور سواریاں بیگار میں لی گئیں۔طلباء کو سولہ میل پیدل جانا پڑتا ۔زراس ا شک گزرنے پر لوگوں کو تازیانے لگتے ۔حکم ہوا کہ جب کوئی انگریز سامنے سے گزرے تو ہرہندوستانی جوساس ے بن د ک رکے م و دب ساٹھ کر،اگر چھتری سر پر ہو تو ساترکر، اگر بیٹھا ہو تو اپنی گاڑی میں براجمان ہو وہ ہوکر سلام کرے۔سزا کی ص ورت میں پیٹ کے ب ل رینگ نے کی س زا دی ج اتی اور مل زم پ ر تش دد کیاجات ا۔ لوگوں میں دہشت پھیلانے کے لیے ہوائی جہازوں سے بم پھینکے گئے۔مشین گ نیں چلائی گ ئیں۔جہ اں پ رااس پاس کے رہنے والوں پ ر بلا ج واز گولی وں کی ب ارش کی ج اتی تھی۔) ااتا تھا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش

مولان ا ظف رعلی خ ان نے مارش ل لا کی لا ق انونیت ک و موض وع بن ا ک ر ک ئی نظمیں لکھیں جن میں(۳۹ ’’مارش ل کے ای ام کی ی اد میں‘‘ نہ ایت اہمیت کی حام ل ہے۔ اس نظم میں مارش ل لا کے نف اذ کے بع د

ساجاگر کیا گیا ہے: انگریزوں کا ہندوستانیوں کے ساتھ روا رکھنے والے سلوک کے مختلف پہلوئوں کو میں نے امرتسر میں اک دن اپنے خواجہ سے کہا

ااپ بھی پیٹ کے بل رینگ لیجے بندہ پرور ااماس کی نافر بہی پر جائے چڑھ ایک تہ

ااپ بھی کھائیے ہر صبح و شام ہنٹر ناک سے کچھ دم زمین پر کھینچتے رہیے لکیر

ااپ بھی پھیرئیے کونچی سفیدی کی بدن پر سجرم میں ما بعد مغرب جائیے مسجد کو اس ااپ بھی پیٹھ پر کھیچوائیے چابک سے مسطر

Page 196: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

195

بنئے دولھا اور نکلئے لے کر گلیوں میں براتااپ بھی ہن محشر دیکھئے اس کے پھر ساما

چلئے سولہ میل دن میں ہانپتے اور کانپتےااپ بھی پائوں میں کچھ روز ڈالے رہیے چکر بسئے جا کر جیل میں کھائیے ارہر کی دال

ااپ بھی مہماں رہیے ذرا سرکار کے گھر پھر یہ کہیے مارشل لاء حشر تک قائم رہے

ااپ بھی ہر جرنیل ڈائر ورنہ ہوں منک(۴۰)

نظم میں مارش ل لاء کے ح والے س ے انگری ز برب ریت کے س ارے ح والے موج ود ہیںکہ کس ط رح معاشرے کے باعزت لوگوں کو بے عزت کرکے پیٹ کے بل رینگنے پر مجبور کیا جاتارہا۔صبح و شام چابک و تازیانے لگائے جاتے شہریوں پر ناک سے زمین پر لکیریں کھنچوائی جاتیں۔ یہ س ب ہندوس تانیوں ک و حق یر اورذلیل ث ابت ک رنے کے ل یے کی ا جاتارہ ا۔س ولہ می ل ت ک پی دل ج انے پ ر لوگ وں ک و مجب ور کی ا گی ا اور اس

۔بجے کے بع د عش اء کی نم از۸سلسلے میں ضعیف اور بیمارکو بھی نہیں بخشا گیا۔۔مسلمانوں کا شام سجرم پر جیل جا ک ر ارہ ر کھان ا پڑت ا سجرم بن گیا۔۔معمولی کے لیے گھر سے نکلنا کرفیو کی وجہ سے قانونی

تھا۔ااگ میں ج ل ک ر انگریزوں کے ان بہیمانہ رویوں سے ہندوستانی مایوس ض رور ہ وئے لیکن انتق ام کی سا ٹھ اتے رہے۔جلس ے جلوس وں کاسلس لہ بھی ج اری رہ ا اور ع دم تع اون و س ول ااواز اپنے ح ق کے ل یے براب ر

ء ک و ک انگرس۱۹۱۹ اپریل۲۰نافرمانی کی تحریکیں بھی۔مارشل لا ء نافذ کرنے کے ٹھیک پانچ دن بعد ء ک و پہلی جن گ عظیم کے سلس لے۱۹۱۸کمی ٹی ک ا جلس ہ ہ وا۔دوس ری ط رف ب یرونی دنی ا میں نوم بر

میںعارضی صلح پر جنگ بن دی ک ا اعلان کی ا گی ا اور جرم نی ک و بھ اری ت اوان جن گ کے ذریعے س ے ش ل ء کو جرمنی س ے معاہ دہ’’وارس ائی‘‘ کی ا گی ا۔۱۹۱۹کرنے کے منصوبے شروع ہوئے ۔ نتیجے میں جون

ترکی کے لیے لائحہ عمل تیار ہو رہا تھا۔مسلمان جو ہندوستان میں استعماری قوتوں کے کرتوت وں س ے خ وب

Page 197: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

196

سانھیں یقین تھا کہ ترکی کا انج ام بھی اچھ ا نہیں ہوگ ا۔ہندوس تان میں پہلے س ے حک ومت باخبر ہوگئے تھے کی سردمہری،رولٹ ایکٹ اور جلیانوالہ ب اغ کے قت ل ع ام س ے برط انوی حک ومت کے ارادے واض ح ہوگ ئے تھے اور سب کو یقین ہو چلا تھا کہ جارج پنجم اپنے وعدے پورے کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔مس لمانوںہت مقدس ہ کی حف اظت کے ل یے ص لاح ہہذا خلافت کے بچ ائو اور مقام ا ک و خلافت ک ا روگ ل گ گی ا۔لاازاد،مولان ا ظف رعلی خ ان ،محم ود الحس ن اور عبی داللہ س ندھی مشورے ش روع ہ وئے۔ علی ب رادران،اب ولکلام ااب ادی،س یٹھ چھوٹ انی اور اب راھیم جیس ے مس لمان رہنم ا جی ل میں تھے لیکن مولان ا فض ل الح ق خ یر محضرجیسے رہنمائوں نے مل کرمسلمانوں کی شدید خواہش پر ایک کمی ٹی بن ائی ج و خلافت کمی ٹی کے

نام سے مشہور ہوئی۔ہاخ ذ موج ود نہ ہ ونے کی خلافت کمیٹی کے قی ام کی ص حیح ت اریخ میں اختلاف ہے اور بنی ادی م وجہ سے محض اندازوں کے ذریعے تاریخ کے تعین کی کوشش کی جاتی ہے۔زیادہ تر محققین اس ب ات پ ر

ہم کعبہ‘‘جس کی بنیاددس مبر ء میںمولان ا عب دالباری کے مک ان بمق ام۱۹۱۲متف ق ہیں کہ ’’ انجمن خ دا فرنگی محل رکھی گئی تھی۔خلافت کمیٹی کی بنیاد ث ابت ہ وئی یااس ی انجمن ک ا ن ام بع د میں تب دیل ہ و@@ا وہی تھے ج و انجمن خ دام کعبہ کے تھے۔ ک رخلافت کمی ٹی رکھ ا گی ا کی وں کہ اس کے مم بران تقریب

خلافت کمیٹی کے قیام اور تاریخ کے بارے ڈاکٹر تارا چند نے لکھا ہے: لکھنئو میں ایک کانفرنس کی گئی ص دارت اب راھیم ہ ارون محض ر نے کی ج و لجیس لٹیو۱۹۱۹’’ستمبر

کونس ل کے ای ک مم بر تھے ۔اور مس لمانوں کے مع زز طیفہ کی ای ک زبردس ت تع دا د نے ش رکت کی۔اساال ان ڈیا خلافت کمی ٹی بن ائی گ ئی اور بمب ئی کے س یٹھ چھوٹ انی اس کے ص در اور ک انفرنس میں ای ک

(۴۱شوکت علی )نظربندی سے رہائی کے بعد(اس کے سکریٹری قرار دئیے گئے۔‘‘)ااف اق نظم’’مرک زی خلافت کمی ٹی‘‘ خلافت کمی ٹی بمب ئی کے مولانا ظفرعلی خ ان نے اپ نی ش ہر قیام پر لکھی ہے۔نظم میں ہندوستانیوں میں خلافت اسلام کی تڑپ ،خلافت س ے لگائوک ا نقش ہ کھینچ ک ر

مرکزی خلافت کمیٹی کے صدرسیٹھ چھوٹانی اور معتمد سیٹھ حاجی صدیق کھتری کا حوالہ دیا گیاہے:نقشہ کھینچا جب سے میں نے شوکت اسلام کا

گرد میرے سامنے بہزاد اور معانی ہوئے

Page 198: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

197

ہے خلافت اسے ارادت مایہ نازش جنھیںاانی ہوئے ہص قر صاحب ایمان بروئے ن

ہن رسول ہل ہندوستاں پر کچھ غلاما ساحسسلطانی ہوئے ہس عتبئہ ایوان خاک مو

بن گئے مخدوم ملت خدمت اسلام سےاس میں سیٹھ احمد ہوئے یا سیٹھ چھوٹانی ہوئے

(۴۲)اای ا۔اس ک ا ص در مق ام۱۹۱۹تارا چند کے مطابق خلافت کمیٹی کا قیام ستمبر ء ک و عم ل میں

ء میں خلافت کمیٹی کا پہلا اجلاس بلایا گی ا۔اجلاس کی ص دارت۱۹۱۹ نومبر ۲۳بمبئی ٹھہرایا گیا ۔ فضل الحق نے کی۔جیسا کہ اوپر ’’تلاش حق‘‘سے حوالہ پیش کیاگیا ہے کہ گاندھی جی ک و اجلاس میںسانہوں نے قبول کر لی ۔گان دھی کے علاوہ اس اجلاس میں م وتی لال شرکت کی دعوت دی گئی تھی جو نہ رو اور پن ڈت م دن م وھن م الویہ نے بھی ش رکت کی۔ک انفرنس میں ک انگرس کی ش مولیت ک ا ش کریہ ادا کیاگیا اور قرارداد پاس کی گئی کہ اگر ترکی کے ساتھ اتحادیوںکے صلح میں فیصلہ مس لمانوں کے توقع ات کے خلاف ہوا تو بھر پور احتجاج اور بائیکاٹ کیا جائے گا۔گاندھی جی نے بائیکاٹ کو ناپس ند کی ا جس پر حسرت موہانی نے سخت تنقید کی تاہم بعد میں بائیکاٹ کرنے کی قرارداد منظور کر لی گئی۔ کانفرنس

ہق رائے سے گاندھی جی کو تحریک کا صدر منتخب کیا گیا۔ میںاتفاسان دن وں امرتس ر میں جلی انوالہ ب اغ کے واقعے۱۹۱۹دس مبر ء میں مولانانظربن دی س ے رہ ا ہ وئے ۔

ااب اد ج انے کے حوالے سے کانگرس کا ایک جلسہ موتی لال نہروکی صدارت میں منعقد ہوا تھا مولان ا ک رم ء۱۹۲۰کی بجائے سیدھے جلسے میں شمولیت کے لیے امرتسر پہنچے۔اگر چہ کچھ دن وں بع د جن وری

ک و ع ام مع افی کے اعلان کی وجہ س ے تم ام سیاس ی قی دیوں ک و رہ ا ک ر دی ا گی ا لیکن حریف وں نےسجھک اکر رہ ائی سانھ وں نے انگری ز کی دہل یز پرس ر مولاناظفرعلی خان کے بارے میں پروپیگنڈا مش ہور کی ا کہ سانھوںنے ساری عمر اپنی جان گروی رکھی ، اازادی کے لیے حاصل کی اور تحریری معاہدہ کیا۔جس قوم کی سان کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔جن شیطانی ط اقتوں س ے مف اہمت سانہیں میں سے چند کالی بھیڑوں نے

Page 199: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

198

ااس تانے پ ر حاض ری بھی وہ اپ نے ل یے کف ر س مجھتے سان کے نزدیک شرک سے کم گناہ نہ تھی اورجن کے سجھکا س کتے تھے۔ح الانکہ سان لوگوں کی طرف سے محض نظربندی پر وہ رہائی کی خاطر کیسے سر تھے

ااگئی تھی: سان کے رویے میں اور بھی سختی و کڑواہٹ جیل میں تو انگریز کے بارے میں اائے ہم جیل میں تو ہم پر کھلا کہ یورپ ازل کے دن سے جب

دروغ گو بھی ہے ، حیلہ جو بھی ،کمینہ بھی ہے، لئیم بھی ہے(۴۳)

سان مولانا ظفرعلی خان جب امرتسر کے جلسے میں پہنچ گئے تو لوگوں نے غل ط فہمی کی بن ا پ ر سان کی انگریز دوستی کا نہیں بلکہ انگریزدش منی ک ا ن تیجہ تھ اجس کا والہانہ استقبال نہیں کیا ۔ یہ دراصل اائے اور لوگوں کے سامنے درد انگ یز اور سان کے خلاف سازشیں ہوتی رہیں۔مولانا جب سٹیج پر کی وجہ سے

اانکھیں کھل گئیں۔ تقریر کے بعد الزام کے لیے کوئی جواز ہی نہیں رہا: سان کی سپر اثر تقریر کی تو ’’میرا ضمیر صاف ہے اور میرادامن بے داغ۔میرا عمل ،میری سرگرمیاں عوام پر خو بخود یہ ثابت کر دیں گیسان کی طرف سے مجھ پر جو الزام لگایا جا رہا ہے،وہ بے بنیادہے،جھوٹا ہے،کذب و افترا پر مشتمل ہے۔ کہ ہ انگریز جس کے نزدیک میں ہمیشہ سے خار کی طرح کٹھکت ا رہ ا ،جس نے ہمیش ہ مجھے خ رمن اس تعمارسحب وطن کے مقدس راستہ سے ہٹانے میں ساس کا ظلم و تشدد جب مجھے بر طانیہ کے لئے برق سمجھا ،ساس نے مجھے عوام کی نظروں سے گرانے کے لیے یہ ذلیل طریقہ اختی ار کی ا اور ع وام میں پ وری ناکام رہا تو طاقت کے ساتھ یہ مشہور کرنے کی کوشش کی کہ میں نے برطانوی استبداد کے سامنے گ ردن جھک ا دیہی سے معافی مان گ لی ہے۔ سگھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔میں نے برطانوی اقتدار اعل ہے۔میں نے انگریز کے سامنے اس الزام کے سلسلے میں میں کوئی صفائی پیش نہیں کرنا چاہت ا۔لیکن ص رف اتن ا کہن ا چاہت ا ہ وں کہ ج وگردن خدا کے حضور جھکنے کی عادی ہے،وہ برطانوی اقتدار کی دہل یز پ ر کبھی س رنگوں نہیں ہوس کتی۔ااستانہ جلال پر کبھی نہیں جھ ک سچکی ہے وہ جبین انگریز کے ہن نیاز پر تو حید کی مہر ثبت ہو جس جبیاازادی کے ل ئے وق ف ہے۔م یرا مقص د حی ات ہے کہ یہ گ وری چم ڑے والے س کتی۔م یری زن دگی وطن کی

Page 200: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

199

اائے ہیں وہیں مہذب ڈاکوں میری زندگی میں سرزمین ہندوستان س ے بوری ا بس تر ل پیٹ ک ر جس س رزمین س ے ( ۴۴چلے جائے۔‘‘)

رہائی کے بعد مولانا ظفرعلی خان کی سیاسی ،ادبی اور صحافتی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہ واسان کے۱۹۲۰ اپریل ۲۰۔ ء کو مولانا نے دوبارہ’’ زمیندار‘‘کی اش اعت ش روع کی۔ اب اس تعمار کے ل یے

لہجے میں زیادہ تلخی پیدا ہو گ ئی تھی اور وہ خلافت کمی ٹی میں ش مولیت اختی ار ک رکے خلافت کمی ٹی پنجاب کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔مولانا عبدالقادر قص وری ص در تھے۔ خلافت کمی ٹی نے جلس ے جل وسہوش اختی ار کی جس کی نکالے ۔ عدم تعاون،ترک موالات اور سول نافرمانی کی تح ریکیں چلا ک ر باغی انہ ر

ء میں مولان ا ک و پ انچ س ال کے ل یے دوب ارہ جی ل بھیج۱۹۲۰پاداش میں حکومت نے بہت جل د اگس ت دی ا۔ص حافتی می دان میں ’’زمین دار‘‘ کے ذریعے ای ک ن ئے ج وش اور ول ولے کے س اتھ انگری ز س ے تحری ری دشمنی شروع کی،شدھی اور سنگٹھن کے علمبردار بھی نشانہ قلم رہے۔ادبی حوالے س ے متف رق اش عار کے

نظمیں تحریک خلافت اور اس سے وابستہ واقعات پر تخلی ق کیں۔ یہ ص رف ش ائع ش دہ نظم وں۷۲علاوہ کاتخمینہ ہے حالانکہ جو نظمیں ہنگامی طور پرفی البدیہہ لکھ کر پیش کیں اور جو ح الات کی ن ذر ہ وئیں

وہ الگ ہیں۔سان کے س ینے میں اس تعمار طرابلس و بلقان کی جنگوں میں مسلمانوں کی خوںریز ی کی وجہ سے ساس کے شعلے اب اپنے گھر میں جلیانوالہ باغ اور رولٹ ایکٹ کی برب ریت کی ااگ بھڑکی کے خلاف جو ساس کے بھی ختم شکل میں بھڑک رہے تھے۔اس پر مس تزاد خلافت جس پرمولان ا ج ان دی نے ک و تی ار تھے

کرنے کے مشورے شروع ہوگئے تھے:

ہم ترے احکام پر جب تک عمل کرتے رہےہم کو ڈھونڈنے سے نہ ملتا تھا کہیں اپنا مثیل

پرچم اسلام اک عالم پہ لہراتا رہامشوروں میں رہے اقوام عالم کے دخیل

ہت بیضا کی راہ چھوڑ دی ہے جب سے لیکن مل

Page 201: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

200

سدنیا کی قوموں میں ذلیل ہم مسلماں ہوگئے اانکھیں دکھاتے ہیں ہمارے ریزہ چیں ااج ہم کو

ہچیل بن گئے شہباز کل تک جن کو ہم سمجھے تھے (۴۵)

سان۱۹۱۹دسمبر ء میں کانگرس،مس لم لی گ اورخلافت کمی ٹی ک ا متح دہ اجلاس ہ وا جس میں لیڈروں نے بھی شرکت کی جو مختل ف سلس لوں میں عرص ے س ے قی د و بن د کی ص عوبتیں برداش ت ک رتےاازاد وغیرہ جی ل س ے رہ ا ہ وچکے اارہے تھے۔مولانا محمدعلی جوہر،مولانا شوکت علی اور مولاناابولکلام چلے تھے اور اجلاس میں ش ریک تھے۔اجلاس میں ق رارد پیش کی گ ئی کہ ای ک وف د بنای ا ج ائے ج و انگلس تانہہذامولانا سان ک و اپ نے ک یے ہ وئے وع دے ی اد دلائے۔ل ج اکر برط انیہ کے حک ام ب الا س ے ملاق ات ک رے اور

ء ک و۱۹۲۰ جن ور ی ۱۹محمدعلی کی قیادت میں ایک وف د تی ار کیاگی ا ۔اس ی ط رح ای ک دوس را وف د اازاد،مف تی کف ایت وائس رائے ہن د س ے ملا جس میں گان دھی،س یٹھ چھوٹ انی،مولان ا ثن ا ء اللہ ،اب والکلام اللہ،حسرت موہانی،عبدالباری فرنگی محل،حکیم اجمل خان،ڈاکٹر سیف الدین کچلو،ڈاکٹر انصاری،مولان اااغا محمد قزلباش جیس ے رہنم ا ش امل تھے۔پن ڈت م وتی لال نہ رو محمد علی،مولانا سید سلیمان ندوی اور سانھ وں نے ت ار دے ک ر اتف اق رائے ک ا اظہ ار کی ا۔ت اہم وائس رائے ک ا اور مسٹر جناح شامل نہ ہو س کے لیکن

سکن تھا اور وفد ناکام لوٹا۔) ء ک و بلای ا۱۹۲۰خلافت کمیٹی کا تیس را اجلا س ف روری (۴۶جواب مایوس سرخصت کیا گیا۔ ۲۷گیا اور مولانا محمد علی کی قیادت میں بنائے گئے وفد کو انگلستان جانے کے لیے

ء میںلارڈ جارج سے ملاق ات۱۹۱۹فروری کو وفد جارج پنجم سے ملنے انگلستان پہنچ گیا۔وفد نے مارچ ساس وقت وزیر ہند م انٹیگو تھے لیکن بیم اری کی وجہ س ے سے پہلے وزیر ہند سے ملنے کی درخواست کی۔سامی دافزا ب اتیں سان سے ملاقات کی ت اہم ک وئی سان کے فرائض فشر کو حوالے کیے گئے تھے اس لیے وفد نے نہیں ہوئیں۔وزیر ہند سے ملاقات کے بعد فتح و نصرت کے نشے میں مست وزیر اعظم لارڈ جارج سے ملنا نصیب ہوا۔تاہم وزیر اعظم نے وفدکے مطالبات پ ر انتہ ائی م ایوس کن جواب ات دئ یے۔ س ید حس ن ری اض نے

لارڈ جارج کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ لارڈ جارج نے وفد کے سامنے کہا:

Page 202: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

201

ساصولوں پر معاملہ نہیں کیا جاس کتا ج و مس یحی ملک وں کے س اتھ ب رتے ’’ترکوں کے ساتھ ان سے مختلف گئے ہیں۔ترکیہ کو ترکی سرزمین پر دنیوی اختیار برتنے کی اج ازت ہ وگی مگ ر وہ علاقے اس کے قبض ے میں

(۴۷نہیں چھوڑے جائیں گے جو ترکی کے نہیں ہیں۔‘‘) ء ک و ی وم غم منای ا گی ا۔اس۱۹۲۰ م ارچ ۱۹لارڈ جارج کے مطالبات ماننے سے انکار کرنے پ ر

کے بعد وفد نے محمدعلی کی رہنمائی میں وہاں مزید لوگوں س ے بھی ملاق اتیں کیں،مختل ف جلس وں میں تقریریں کرکے اپنا موقف واضح کیا۔ اس کے بعد پیرس اور پھر جزیرۃ العرب جاکر لوگوں کو خلیفہ کے اقتدار

ء ک و۱۹۲۰ اگس ت ۱۰ک و تس لیم ک رانے کی کوش ش کی۔وف د ابھی ہندوس تان پہنچ ا بھی نہ تھ ا کہ ’’معاہدہ سیورے‘‘ کا اعلان کیا گیا جو ہندوستانیوں کو کسی حال میں قابل قبول نہیں تھا۔معاہ دہ س یورے پر سلطنت ترکیہ سے دس تخط ل یے گ ئے لیکن ت رک جمہ وریہ تحری ک نے اس کے م اننے س ے انک ار ک رکےاازادی کا اعلان ک ر دی ا جس میں کامی ابی مسترد کر دیا۔ مصطفی کمال پاشا نے ترک حکومت کی جنگ

حاصل کرنے کے نتیجے میں’’ سیورے ‘‘کو ’’لوزان‘‘سے تبدیل کردیا گیا۔ معاہدہ سیورے کے مطابق سلطان اتحادیوں کے ساتھ قسطنطنیہ میں حکومت کرے گا۔اتحادیوں

اابنائو ں پر قبضہ کرے یا ایشیائی ترکیہ کے کسی حصے پر ق ابض ہ و ج ائے۔ارمینی ا ال ہوگاکہ کو یہ حق حاص کی ایک نئی ریاست قائم ہوگی جس میں مشرقی اناطولیہ،ارض روم،دان،بتلس،ٹرابزون،ارزنج ان ش امل ہ وںگے جب کہ یہ ریاست متحدہ ریاست امریکہ کی مدد سے قائم کی جائے گی۔ترکیہ عرب کے متعل ق اپ نے تم ام وعدوں سے دستبردار ہوگا ۔شام کی حکم برداری فرانس ک و،ع راق اور اردن کی برط انیہ ک و ، ع دلیہ اٹلی ک و

( ۴۸جب کہ سمرنا اور مغربی اناطولیہ یونان کو دیا جائے گا۔) تیشئہ یورپ سے جڑا انصاف کی کٹ ہو ہی گئی

ہع رشتہ مہر و وفا ہو ہی گئی انقطاسامید اائی تیری صدیوں کی خوش ہو اے یورپ بر

سجدا ہو ہی گئی ااخر مکہ قسطنطنیہ سے (۴۹)

Page 203: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

202

ہت ترکیہ تقسیم ک رکے ٹک ڑے ’’معاہدہ سیور ے‘‘ کے مذکورہ بالا نکات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلاف ٹکڑے کردی گئی۔خلافت کے ساتھ جزیرۃ الع رب س ے بھی ہ اتھ دھ ونے پ ڑے۔اس ص لح ن امے کی خ برنے پوری دنیا کے مسلمانوں میں ب العموم اور ہندوس تان میں بالخص وص ہلچ ل مچ ا دی۔مولان ا ظف رعلی خ ان نے مذکورہ معاہدے پر ایک طویل نظم لکھی جس میں خلافت کے خاتمہ اور مسلمانوں کا اس کے بچائو میں

ناکامی کا رونا رویا ہے:عہد نامہ سیورے

قدیم وضع پہ اندازئہ جہاں نہ رہاسان کا کہیں مکاں نہ رہا مکیں رہے مگر

زمین پائوں تلے سے نکلتی جاتی ہےااسماں نہ رہا سروں پہ سایہ فگن تھا جو ہوا اک ایسی یکایک چلی زمانے میں

ہجس کے ہم تھے عنادل وہ گلستاں نہ رہا کہ ااتی نہیں خیاباں پر وہ رونقیں نظر

فضا وہ پہلی سی اگلا سا وہ سماں نہ رہاااج دنیا میں ہی کہ یہ کہہ رہے ہیں نصارہت اسلام کا نشاں نہ رہا کہیں بھی سطو

بچا حرم بھی نہ صید افگنوں کے ہاتھوں سے ااشیاں نہ رہا سلامت ایک بھی طائر کا

ہت عثمانیہ پہ خوش نہ کیوں ہو رقیب ہل دول زواکہ اک حجاب جو حائل تھا درمیاں نہ رہا

(۵۰)ااموز شرائط لاگو ہ ونے کے بع د س تمبر ء۱۹۲۰وفد کی ناکام واپسی اور معاہدہ سیورے کے ذلت

میں کلکتہ کے مق ام پ ر ک انگرس اور خلافت کمی ٹی ک ا ای ک مش ترکہ اجلاس بلایاگی ا۔ جس میں ت رک

Page 204: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

203

موالات،ع دم تع اون اور س ول نافرم انی کی تحریک وں پ ر زور دیاگی ا۔سودیش ی م ال کے بائیک اٹ میں س ختی ااگئی۔محصول دینے سے انکار کیا گیا۔سرکاری خطابات واپس ک ر دیے گ ئے۔س رکاری س کولوں،ک الجوں اورسروک دیا گی ا۔س رکاری اداروں کی ملازمت ح رام ق رار دے دی گ ئی۔ مل ک گ یر یونی ورسٹیوں سے طلباء کو

ااغاز ہوا۔جمعیت العلمائے ہند جس کا قیام اایا جو۱۹۱۹ہڑتال کا ء ہی میں جنگ عظیم کے بعد عمل میں دیوبند کے مکتبہ فکر کے ہم خیال لوگوں کی ایک سیاس ی تنظیم بن گ ئی ،نے بھی مولان ا محم ود الحس ن

علماء کا دستخط شدہ فتوی تیار کی ا جس میں ت رک م والات کی حم ایت( ۹۰۰کی صدارت میں نوسو) کی گئی تھی۔ہندو مسلم ، خواص و عوام کے علاوہ برصغیر کے علماء اور دیوبند کے مکتبہ فکر کے لوگوںسان دن وں حض رو )اٹ ک(کے مق ام پ ر نے تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔مولان ا ظف رعلی خ ان نے

اانے والے تھے ۔ عدم تع اون ،س ول۱۹۲۰ اگست ۱۴ ااف ویلز ہندوستان کو ایک زور دار تقریر کی۔پرنس سان ک ا نافرمانی اور ترک موالات کی تحریک وں کی وجہ س ے ہندوس تان ک ا م احول س ازگار نہیں تھ ا۔اس ل یے دورہ عارضی طور پرملتوی کردیاگیا ۔ مولانا نے اپنی تقریر میںپرنس کے خیر مق دم س ے بائیک اٹ،رولٹ ایکٹ اور مارشل لا کی مخالفت کے ساتھ تحریک خلافت میں لوگوں کی شمولیت پر زور دیا۔تقریر ک ا اص ل متن تو دستیاب نہیں تاہم اشرف عطا نے اپنی ’’کتاب مولانا ظفرعلی خان‘‘میں اس کا لب لباب کچھ یوں بیان

کیا ہے:ااگ لگائی ۔مسلمانوں کو دس گی ارہ روپے کی خ اطر۱’’ ۔ہم وہ مسلمان ہیں جنھوں نے مکہ ء معظمہ میں

ہت مقدسہ کو عیسائیوں کی خاطر فتح کیا۔ اارہے ہیں۔اگر حکومت برط انیہ۲قتل کیا اور مقاما ااف ویلز ۔پرنس چاہتی ہے کہ ہم ان کا خیر مقد م کریں تو اس کا فرض ہے کہ تحریک خلافت میں مداخلت نہ ک رے۔مکہ معظمہ ،مدینہ منورہ ،بیت المقدس اور بغداد وغیرہ کو خالی کرے اور ترکیہ کی حفاظت و اع انت ک ا اعلان کرے۔مارشل لا ء کا دوبارہ نفاذ نہ کیا جائے۔رولٹ ایکٹ منسوخ کر دیا جائے۔مس لمانوں س ے ج و وع دے

۔بغداد پر قبضہ کر لی ا گی ا اور کن واری۳کیے گئے ہیں ان کا ایفا کیا جائے،ورنہ حکومت تباہ ہو جائے گی۔ ۔ہم ’’معاہ دہ ت رکی ‘‘ک و۴لڑکی وں کی عص مت دری کی گ ئی حقیقت یہ ہے کہ مظ الم جگ ر س وز تھے۔

سپرزہ سمجھتے ہیں اور اسے پامال کر دیں گے۔ ۔اب کیا کرنا چاہیے مسلمانوں پر ہجرت ف رض اور۵کاغذ کا ۔۸۔ف وج میں ہرگ ز بھ رتی نہ دی ج ائے۔۷۔بچوں کو سرکاری مدارس میں داخ ل نہ کی ا ج ائے۔۶لازم ہے ۔

Page 205: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

204

ذیلدار اور نمبردار اپنے عہدے چھوڑ دیں۔چھ ماہ صبر کرو۔اگر یہ ہمارے منش ا کے مط ابق فیص لہ ک ریں ت واازادی۹فبہا ورنہ یہ ذیلدار کافر ہیں۔ان کو برادری س ے خ ارج کردی ا ج ائے۔ ۔ہندوس تان دارالح رب ہے۔م ذہبی

(۵۱سلب کر لی گئی۔‘‘) ء کو تحریک خلافت کے سلس لے میں۱۹۲۰ ستمبر ۲۵مولانا ظفرعلی خان اس تقریر کے بعد

سان کو ’’ق انون تحف ظ ہن د ‘‘ کے تحت گرفت ار کلکتہ سے مری جا رہے تھے کہ لاہور کے ریلوے سٹیشن پر سان پر مقدمہ چلایا گی ا۔ ۔اکت وبر ک و تعزی رات ہن د کے دفع ات۲۷کر لیا گیا۔حضرو تقریر کے سلسلے میں

کے تحت پ انچ س ال قی د بامش قت س زا اور ای ک ہ زار روپے جرم انہ اور۱۵۳ الف اور دفع نم بر ۱۲۴نمبر (۵۲دوسال قید بامشقت سزا سنائی گئی البتہ دونوں سزائیں ایک ساتھ شروع ہونے کا حکم دیا گیا۔)

اافت تحری ک ہج رت کی تحری ک خلافت میں ت رک م والات کے سلس لے میں مس لمانوں پ ر ای ک ء کا سال مسلمانوں کے لیے عجیب کشمکش اور تذبذب کا سال تھا جن گ۱۹۱۹شکل میں نازل ہوئی۔

ختم ہوگئی تھی اوراتح ادیوں کی ط رف س ے ابھی خلافت ت رکیہ کے ب ارے میں ک وئی واض ح پیغ ام س امنےسپر خط ر اور اای ا تھ ا ت اہم مس لمانوں ک و یہ یقین ض رور تھ ا کہ ج و بھی فیص لہ ہوگ ا خلافت کے ل یے نہیں مسلمانوں کے منشا کے خلاف ہوگا۔اس لیے خلافت کے تحفظ کے لیے خلافت کمیٹی تشکیل دی گ ئیاای ا ج و نی ک ۔ا یک وف د ک و بھی برط انیہ بھیج ا گی ا۔اس ی س ال ہندوس تان کے پ ڑوس میں ای ک واقعہ پیش شگون کے طور پر مسلمانوں کے لیے باعث مسرت تھا۔افغانستان کا بادشاہ ’’امیر حبیب اللہ‘‘ جو انگریزوں

االہ کار، ایک کٹھ پتلی حکمران تھا کو کسی نے فروری سان کے قتل ہ ونے کے بع د۱۹۲۰کا کو مار دیا۔اائی تھی، نے پہلے س ے افغانستان کی استقلال پارٹی جو جمال الدین افغانی کی کاوشوں سے وجو د میں فوج کو اعتماد میں لیا تھا اورانگریزوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دی ا گی ا۔جن گ ش روع ہ وئی انگری زوں نے شورش کو دبانے کی کوشش ضرور کی لیکن یو رپی دنی ا میںجنگی مح اذوں پ ر مص روف ہ ونے کی وجہ

سان میں نہیںتھی۔ اس ل یے ء ک و افغانس تان کی۱۹۱۹ اگس ت ۸سے ایک ن ئے مح اذپر ل ڑنے کی س کت اانے س ے مس لما اازادی کا اعلان کردیا گیا ۔ امیر امان اللہ خ ان تخت نش ین ہ وئے۔ام ان اللہ کے اقت دار میں سامیدیں افغانستان سے وابستہ ہو گئیں عام لوگوں سمیت ش عراء نے بھی ام یر ام ان اللہ کی ش ان میں نوں کی نظمیں لکھیں ۔اقب ال اور ظف رعلی خ ان ان میں سرفہرس ت رہے۔انگری زوں س ے جن گ جیت نے کی وجہ س ے

Page 206: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

205

ء میں تحری ک خلافت س ے ک انگرس کی علیح دگی،۱۹۲۲سانھیں غ ازی کہہ ک ر پک ارا ج انے لگ ا۔ ء میں ت رکی خلافت کے۱۹۲۴ء میں ش ریف مکہ ک ا حج از میں اپ نی خلافت کے اعلان اور ۱۹۲۳

سان کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں خاتمے سے افغانستان اور امیر امان اللہ کی اہمیت اور بھی بڑھنے لگی اور سان کے خی ال میں یہی ای ک شخص یت تھی سامیدیں وابستہ ہونے میں دن بہ دن اضافہ ہوت ا رہ ا۔کی وں کہ کی جو کہ مسلمانوں کے کھوئے ہوئے وقار ک و بح ال ک ر س کتی تھی۔مولان ا ظف رعلی خ ان غ ازی ام ان اللہ ک و خلیفۃ المسلمین سے کم نہیں سمجھتے تھے۔تقریروں اور نثری تحریروں کے علاوہ شائع ش دہ کت ابوں میںکم

ہر۲۹و بیش @ا المسلم،غزل مرقص،پیام وقت،سح سیھ سان کی عقیدت کا بین ثبوت ہیں ۔’’نذر عقیدت،ا نظمیں ہی حض رت ام یر ام ان ہلال،غ ازی ام ان اللہ،غ ازی ام ان اللہ س ے خط اب،حج ازی ت رانہ افغ انی لے میں،اعلسافق پر ہلال عید دیکھ کر،تاجدار افغانستان،الپ ارسلان وقت ، غازی ام ان اللہ اللہ،قندھار چلو،قندھار چلو،ساچھلنے کی تمنا،بچہ سقہ کی گرفتاری،کابل کے گ دھے، کے مشکوئے معلی،الوداع،ڈوبے ہوئے بیڑے کے ترانہ تہنیت، فتح کابل،عی دی،نوی د غیب،الپ ارس لان وقت،اس لام ک ا مہ ر درخش اں غ ازی ام ان اللہ،جلالااستانہ پ ر،نس یم حج از کی ش میم،شہس وار نج د،قن دھار اورطوف ان مغ رب ہ کعبہ کے ااباد،امان اللہ غازی رب وغ یرہ ک ا موض و ع غ ازی ام ان اللہ ہے۔اس کے علاوہ بھی ک ئی نظمیں ایس ی ہیں جس میں ام ان اللہ کی

طرف اشارے کنایے موجود ہیں:کشور ہندوستاں کے سر پہ رکھ عزت کا تاج

اازادی ملے مصر و عراق و شام کو تا کہ اشیاء کو نغمئہ توحید سے معمور کر

تاکہ ہم پہنچائیں یورپ تک ترے پیغام کو(۵۳)

ہر سلاطین زماں تو ہے امان اللہ خان فخایار کا پاسباں تو ہے ہل ہاشم ہس رسو کہ نامو

ااپ محمل کی گرانی کا حدی خواں چارہ گر ہے

Page 207: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

206

ہر کارواں تو ہے نہیں کچھ کارواں کو غم کہ مینہیں برطانیہ کو خوف کچھ بھی امن کا جب تک

ہر ہندوستاں تو ہے ہر کشو رفیق تاجدا(۵۴)

ٹل ہی جائیں گی یہ گو نا گوں بلائیں ایک دنااہی جائے گا وہ دن جس کا ہمیں ہے انتظار

ااتا ہے کہ پھر ہوگا امان اللہ خان وقت کامیاب و کام بخش و کامران و کامگار

ااغوش میں وہ طاقتیں پل رہی ہیں غیب کے جن کی عالمگیریوں کا نکتہ داں ہے قندھار

(۵۵)ساس وقت مسلمانوں کے ڈوبتے ہوئے بیڑے درجہ بالا اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا کی نظر میں ہی نے ام یر ام ان اللہ ک و بخش ی ج و پہلے ہندوس تان ک و اس تعماری قوت وں کے کو بچانے کی طاقت اللہ تعالاازاد کرانے میں اپنا کردار ادا کریں گے اور پھر پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے امن کا فرش تہ بن پنجے سے

کر خلافت کا سہرا اپنے سر باندھیں گے۔اازاد اسلامی ریاست بن گئی جو ہندوستان کے پڑوس میں ق ریب ت رین۱۹۱۹ ء میں افغانستان ایک

ء میںعہد نامہ سیورے کے نفاذ کے بعد جب ترک موالات ،ع دم تع اون اور س ول۱۹۲۰اازاد ریاست تھی۔ نافرمانی کی تحریک شروع ہو گئی تو ساتھ میں تارا چند کے مطابق علماء نے ڈگری جاری کرکے ہندوس تانسچک ا ہے۔ہج رت کی کو دارالحرب قراردے دیا اور افغانستان ہجرت کرنے کا حکم دیا جس کا پہلے ذکر ہو ااپ بی تی میں لکھ ا تجویز سب سے پہلے کس نے پیش کی اس ح والے س ے خ ان عب دالغفار خ ان نے اپ نی

ہے:اال ان ڈیا ک انفرنس ہ وئی ،میں بھی اس ک انفرنس میں ش امل ہ وا۔اس۱۹۲۰’’ ء میں خلافت کمی ٹی کی

ساس وقت ساس نے ہج رت کی تج ویز پیش کی۔یہ ب ات ت و کانفرنس میں عزیز ن امی ای ک جوش یلا نوج وان تھ ا

Page 208: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

207

ااتی تھی لیکن کھیل سے یہ مذاق اورپھرمصیبت کی شکل اختیار ک ر گ ئی۔اس مص ائب ہمیںایک کھیل نظر (۵۶انگیز مذاق نے پٹھانوں کو سب سے زیادہ مالی و جانی نقصان پہنچایا۔‘‘)

جیسا کہ تارا چند اس حوالے سے بتا جا چکے ہیں کہ علم اء نے ہندوس تان ک و دارالح رب ق رار دی ا اورفغانستان ہجرت کرنے کی ڈگری جاری کردی، لیکن کسی عالم کا نام نہیں لکھا گیا۔ظفر حس ن ایب کااپ بیتی میں ہجرت کا فتوی دینے کے لیے مولانا عبدالباری کو ذمہ دارقرار دیا ہے جوا نجمن خدام نے اپنی سرکن اور بعد ازاں خلافت کمیٹی کے صدر بھی تھے۔تاہم قاضی محم د ع دیل عباس ی اپ نی کعبہ کا سرگرم اازاد ک و فت وے ک ا ذمہ دار گردان تے کتاب’’تحریک خلافت‘‘ میں اس کی رد ک رتے ہیں اور مولان ا اب والکلام ہیں۔ وہ ج واز میں غلام رس ول مہ ر کے ای ک مض مون ک ا ح والہ دی تے ہیں۔اس ل یے فت وے کے ح والے غلامسانھ وں نے مولان ا اب والکلام کے فت وی ک ا اص ل رسول مہ ر کی تحقی ق زی ادہ مس تند دکھ ائی دی تی ہے کی وں

اازاد‘‘میں نقل کرتے ہوئے لکھا ہے : ہت مضمون’’تبرکاسامت اورمقتفسیات اور مصالح پر نظر ڈالنے کے بعد پوری ہت حاضرہ مصالح مہمہ ’’تمام دلائل شریہ اور حالاہن ہن د کے ل یے بج ز ہج رت کے ک وئی چ ارہ بصیرت کے ساتھ اس اعتقاد پ ر متمئن ہ و گی ا ہ وں کہ مس لمانا شرعی نہیں ہے۔ان تمام مسلمانوں کے لیے جو اس وقت ہندوستان میں سب سے بڑا اسلامی عمل انجام دینا

(۵۷چاہیں ضروری ہے کہ وہ ہندوستان سے ہجرت کرجائیں۔‘‘) ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا اور ہندوستانی مسلمانوں نے دھڑا دھڑ ا افغانستان منتقل ہونا شروع کردی اسپر زور اپیل وں ک و س ادہ ل وح اازاد س میت بے ش مار علم اء کی ۔ مولانا عبدلباری اور امام ہن د مولان ا اب ولکلام پشتونوں اور کچھ حد تک سندھ کے مسلمانوں نے مذہب و عقیدے کا تقاضا سمجھااور گھر بار چھوڑ کر افغانستان کی راہ لی۔مولانا ظفرعلی خان نے بھی ہجرت کی حمایت کی اور حضرو کے تقری ر میں ہج رتسان کی فارسی زب ان میں لکھی ہ وئی نظم بھی اس ی ح والے س ے ہے ۔ چن د اش عار پر زور دیا۔اس کے علاوہ

ملاحظہ ہوں:زخمئہ چنگ رودکی

ساقیا برخیز مے در جام کنااید ہمی ہل گل در بوستاں فص

Page 209: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

208

@پر تول رہا ہے۔ اانے کو ساٹھ اور ہمارا جام شراب سے بھر دے کیوں کہ چمن میں بہار ترجمہ:ساقی

مسلم از خواب گران بیدار شدااید ھمی انقلاب اندر جہان

مسلمان گہری نیند کے اثر سے بیدار ہو چکا ہے اس لیے سارے عالم میںانقلاب کروٹیں لے رہا ہے۔ااید از نہاد کفر از غوغا بر ااید ہمی ااکر زمان مہدئی

سپکار کے ساتھ ڈھ جانے والی ہیں۔مہدی موعود کے ق دموں کی چھ اپ ت یز ہ و رہی کفر کی بنیادیں چیخ و ہے۔

باش تا از نالہ ء ہندوستاںااید ہمی محشر ستانے عیاں

ااجائے۔ انتظار کرو کہ ہندوستان کی فریاد یں اسی قیامت کھڑی کر دیںجو سب کو نظر نعرئہ اللہ اکبر مے زنم

ااید ہمی ناتواں را ، تواں اللہ اکبر کا ورد کر رہا ہوں یہ کمزوروں کے رگوں میں توانائی بھر دے گی۔

ہر مقدمش اانکہ ہجرت کرد بہااید ہمی خواجئہ کون مکاں

ہس نفیس خودتش ریف لاتے ساس کے اس تقبال کے ل یے دون وں جہ انوں کے س ردار بہ نف جس نے ہج رت کی ہیں۔

ناخدا باشد امان اللہ خانااید ہمی کشتئی ما بر کراں

جب تک امان اللہ خان ناخدا ہے تو ہماری کشتی ساحل تک ضرور پہنچے گی۔جانب کابل قطار اندر قطار

Page 210: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

209

ااید ہمی ہن ہندیاں کاروااارہے ہیں۔ کابل کی طرف ہندوستان سے قطار در قطار قافلے چلے

ااہنگ بخارا کردہ است مسلم ااید ہمی بوئے جوئے مولیاں

(۵۸)سان کی مشام جاں معطر کر رہی ہے۔ ااور لہریں اامو کی نشہ مسلمانوں نے بخارا کا قصد باندھا ہے درائے

@@ا مس لمان خان دان افغانس تان کی ط رف روانہ ہ وئے۔۱۸۰۰ہندوستان کے مغ ربی حص ے س ے تقریب ااباد ک رنے ک ا خی ال تش ویش امیر)امان اللہ(کے لیے اتنے چھوٹے ملک میںہندوستان کے ایک کثیر تعد اد کو اامدی د کہ ا لیکن بع د سانھوں نے ش روع میں ان مہ اجرین ک و خ وش انگیز تھا ۔ ہم مذہب ہونے کی وجہ سے میں حالات کی سنگینی کے پیش نظر امیر نے ان لوگوں کو افغانستان میں جگہ دینے سے مع ذرت ک رلی۔)

ش روع میں ان لوگ وں ک و خیم وں میں جگہ دی گ ئی اور ان س ب کے ل یے قاب ل اطمین ان انتظ ام نہ ہ و(۵۸ سکا۔پردہ پوش عورتیں س خت مش کلات میں مبتلاء ہ وئیں۔بعض ب د اخلاق ک ابلیوں نے ان لوگ وں ک ا م ذاق ساڑایا۔اشیاء خورد و نوش خریدنے کے لیے ان لوگوں نے اپنا مال فروخت کرنا شروع کردی ا جس ے ک ابلیوں اونے پونے خرید لیا۔ عام لوگوں کی ط رف س ے کاب ل میں ان مہ اجرین کی س خت مخ الفت کی گ ئی جس کی

بعض جگہوں پر ت و کچھ شرپس ند ک ابلیوں نے ب د(۶۰وجہ سے مہاجرین مزید مشکلات کے شکار ہوئے۔) اخلاقیوں کی انتہا کردی۔ لازمی طور پر ایس ا ہی ہون ا تھ ا کی وں کہ اطلاع دیے بغ یر ای ک غ ریب مل ک کے لیے اتنے سارے مہاجرین کو جگہ دینا ممکن نہ تھا۔مختص ر یہ کہ افغ ان حک ومت نے ش روع میں مہ اجریناامدید کہا اور اپنے وسائل کے مطابق ان لوگوں کی رہائش کے لیے مقدور بھ ر کوش ش بھی ض رور کو خوش کی لیکن اتنی کثیر تعداد کے لیے مناسب انتظ ام کرن ا مش کل ہی نہیں ن اممکن تھ ا جس س ے بعض مف ادساٹھای ا۔اس ح والے خ ان عب د الغف ار خ ان ک ا ح والہ دین ا زی ادہ اہمیت پرس توں اور شرپس ندوں نے ناج ائز فائ دہ

کاحامل ہے کیوں کہ وہ خود ان ہجرت کردہ لوگوں میں شامل تھے:اانکھوں سے دیکھا۔امان اللہ ان لوگوں کو زمی نیں ’’میں نے خود ہجرت کی اور اور یہ سارا تماشامیں نے اپنی دیتا تھا۔نوکریاں بھی دیتا تھا اور تجارت میں حصہ بھی دیتا تھا۔لیکن انگریزوں کی طرف سے مہ اجرین میں

Page 211: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

210

بھیجے گئے جاس وس یہ پروپیگن ڈا ک ر رہے تھے ۔۔۔کاب ل میں بھی ہج رت ک ا مخ الف گ روہ موج ود تھ ا وہسچھپ کر ہجرت کو ناکام بن انے کی کوش ش ک ر رہے تھے۔اگ ر چہ ام ان اللہ نے مہ اجرین ک و گ رنے سچھپ

(۶۱سے بچانے کی بہت کوشش کی مگر وہ لڑھک گئے اور ہجرت ناکام ہوئی۔‘‘)

جہاں تک تحریک ترک موالات میں تحری ک ہج رت ش روع ک رنے ک ا ح والہ ہے ت و دون وں تحریک وںساسی وقت کامیاب بنایا جاس کتا ہے ااتی۔ترک مولات کو کے درمیان کسی قسمکی کوئی مناسبت نظر نہیں کہ ریاست میںلوگ موجود ہوں اور حکومتی انتظ ام اورانص رام میں ہ ر ممکن مش کلات پی دا ک ریں ۔ ع وام کی جانب سے انتظامی امور کے بائیکاٹ کی ص ورت میںحک ومت پرمعاش ی ب وجھ بڑھای ا ج ائے۔ لیکن اس کے برعکس ہجرت کا سیدھا سادہ مطلب یہاںپر یہی لی ا جاس کتا ہے کہ لوگ وں نے انگری ز حک ومت کے س امنے ہتھیار ڈال دیئے اور ہار مان لی۔ ایسے حالات میں ہجرت کرنا اور ریاست سے نکلنا ، احتجاج اور بائیک اٹ کی جگہ ف رار ک ا راس تہ اختی ار کرناتھ ا۔یہ ا ں پ ر یہ ب ات بھی قاب ل ذک ر ہے کہ انگری زوں نے ہج رت کیسان کے ساتھ ضرور بھیج دئیے تاکہ کوئی نیا مخالفت نہیںکی ،کسی کو روکا تک نہیں لیکن اپنے جاسوس ہنگامہ کھڑا نہ کیا جائے سکے ۔ انگریز حکومت کو افغانستان کے وسائل کا پہلے سے اندازہ تھا وہ ج انتے تھے کہ ایسے حالات میں ہجرت کی ناکامی یقینی ہے اس لئے انہوں نے اس کی مخالفت نہیں کی ،تاکہ لوگ ہجرت کے ہاتھوں خوار ہوں اور یوں سامراجی حکومت کے خلاف مزاحمت ک رنے وال وں ک ا زور کم پ ڑ

جائے۔ علماء نے ش ائد ہج رت کی ڈگ ری اس ل یے ج اری کی کی وںکہ وہ س مجھتے تھے کہ ہج رت ک ردہااور ہ وں گے اور ہندوس تان ک و ل وگ افغانس تان ج ا ک ر ام یر ام ان اللہ کی حم ایت س ے ہندوس تان پ ر حملہ استعماری حکومت سے نجات دلاکر خلافت کے ل یے ط اقت حاص ل ک ر ج ائیں گے۔ت اہم تحری ک ہج رت ایک ناکام اور کمزور حکمت عملی ثابت ہ وئی جس کے ل یے ک وئی منص وبہ بن دی نہیں کی گ ئی تھی اوراائے۔ تحری ک ہج رت کے ب ارے میں قاض ی محم د ااخ ر ک ار ہج رت ک ردہ مہ اجرین بے یاروم ددگار واپس

عبدالغفار نے حیات اجمل میں لکھا ہے:

Page 212: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

211

’’دراصل یہ تحریک زیادہ تر جذباتی تھی اور سیاسی حیثیت سے ہر طرح ناقص تھی۔ت رک وطن کی تحری ک وطن پرستی کے صحیح مفہ وم کی نفی تھی۔چن د ہی روز بع د اس غل ط تحری ک کی غلطی ک ا لوگ وں ک و احساس پیدا ہ وا لیکن مہ اجرین ک و س خت مص ائب ک ا س امنا پ ڑا۔۔۔ہج رت کی تحری ک نے ہندوس تان کے

(۶۲ہزاروں خاندانوں کو برباد کردیا۔‘‘) تحریک ہجرت کے ابتدائی دنوں میں تحری ک خلافت مان د پ ڑ گ ئی کی وں کہ مختل ف ش ہروں میں ہجرت کمیٹیاں بنائی گئیں تاکہ ہجرت کے سلسلے میں لوگوں کی رہنمائی کی جائے۔زیادہ تر کارکن مہاجر بن گئے لیکن بہت جلد دوبارہ تحریک نے زور پکڑ ن ا ش روع کردی ا ۔ت رک م والات، ع دم بائیک اٹ اور س ول نافرم انی کی تحریک وں میں ش دت پی دا ک رنے کے ل یے مل ک کے مختل ف ش ہروں میں جلس وں ک ا انعق اد

سان کو اپنے مقبوضہ علاقوں سے مار بھگایا۔س مرنا ،۱۹۲۱کیاگیا ۔ ء میں ترکی نے یونانیوں پر حملہ کرکے ان اطولیہ اور تھ ریس کے علاقے واپس ل یے گ ئے ۔ مص طفی کم ال نے دوب ارہ ت رک ریاس ت ک و انق رہ س ے قسطنطنیہ تک پھیلا دیا۔یہ خبریں مسلمانوں کے ل یے ب اعث مس رت تھیں کی ونکہ ان واقع ات کے بعدمعاہ دہہح سیورے کو لوزان میں تبدیل ہونا پڑا۔مولان ا ظف رعلی خ ان نے بھی ’’ل وزان‘‘ پ ر نظمیں لکھیں۔’’جش ن ص ل

لوزان‘‘سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:ہن صلح کے گھر گھر جلے چراغ جس وقت جش

سمجھا یہ میں کہ ہے یہ چراغاں میرے لیےااج بھی ممکن کسی طرح یہ نہیں ہے کہ

ہم غریباں مرے لیے ہح وطن ہو شا صببرسوں میرے چمن میں خزاں کا عمل رہا

ہر گلستاں مرے لیے پھر کیوں نہ ہو بہا(۶۳)

ء ک و مولان ا محم دعلی ج وہرکی ص دارت میں خلافت۱۹۲۱’’ل وزان ‘‘کی خوش ی میں س تمبر کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد ہوا ۔مولانا نے غازی مصطفی کمال کے فتوحات پر مسلمانوں ک و مب ارک ب اد پیش کی ۔اس کے بعد ترک موالات پر زور دیتے ہوئے برطانوی ف وج کی ن وکری ک و ح رام ق رار دی ا۔اس تقری ر

Page 213: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

212

سان کے خلاف مق دمہ چلای ا کی پاداش میں مولانا محم دعلی اور دوس رے اراکین ک و گرفت ار ک ر لی ا گی ا ور گیا۔

اان ا تھ ا ۔ جس کے ش اندار۱۹۲۱ نومبر ۱۷برطانیہ کی طرف ااف ویلز ک و ہندوس تان ء کو پرینس ہا س دورے کے ل یے س ازگار نہ تھے اس استقبال کے لیے وائس رائے بیت اب تھے لیکن ہندوس تان کے ح الات لیے وائسرائے نے سیاسی قائدین سے مسلس ل ملاق اتیں ش روع ک ردیں ج و کہ ناک ام ث ابت ہ وئیں ۔ جس کےاازاد اار۔داس،موتی لال نہ رو، ج واہرلال نہ رو،اب والکلام بعد زیادہ تر رہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا۔جناب سی۔اائے۔اہم سیاس ی رہنم ا ابھی جی ل میں تھے کہ ہن دو مس لم اتح اد اور لالچپت رائے ان گرفت اریوں کی زد میں سان کے اای ا حک ومت نے میں کشیدگی پیدا ہونے لگی ۔ملیبار میں مسلمان موپلوں کی بغ اوت ک ا واقعہ پیش

سے زیادہ لوگوں کو پھانسیاں دی گ ئیں ۔ اس واقعے س ے ہن دو مس لم اتح اد پ ر۶۰ساتھ ناروا سلوک کیا ۔ سبرا اث ر پ ڑا کی وں کہ ہن دواس غل ط فہمی کے ش کار ہ وئے کہ وہ اں کے مس لمانوں نے ہن دوئوں ک و زور بھی سان بر جبر کیا ہے جس کے جواب میں ش دھی اور س نگٹھن زبردستی مسلمان کرنے کی کوشش کی ہے اور

ء ک و ریاس ت ی وپی کے ض لع چوراچ وری میں ای ک پ ولیس۱۹۲۲ ف روری ۵کی تح ریکیں ش روع ہ وئیں۔ ااگ لگا دی گئی۔ یہ خبر سن کر گاندھی جی نے برت رکھا اور اہم سیاسی رہنما جو ابھی جی ل چوکی کو سان سے مشورہ کیے بغیر سول نافرمانی اور ترک م والات کی تحری ک کے خ اتمے ک ا اعلان کردی ا۔ میں تھے اس اعلان س ے ک انگرس اور خلافت کمی ٹی دون وں میں تہلکہ مچ گی ا اور ی وں مش ترکہ تحری ک خلافت ک ا

خاتمہ ہوگیا۔ جس کے بعد ہندوئوں اورمسلمانوں کے راستے الگ ہو گئے۔ کانگرس کی علیحدگی کے باوجود خلافت کمیٹی اپنی جگہ پ ر موج ود رہی اور باقاع دہ اجلاس وں

ء میں جب مص طفی کم ال پاش ا نے ت رک خلافت کے خ اتمے اور۱۹۲۴ک ا سلس لہ بھی ج اری رہ ا۔ سامی دو ں پ ر پ انی پھرگی ا اور اس سیکولرجمہوری ریاست کے قیام کا اعلان کردیا تو ہندوستانی مسلمانوں کی ہت ت رکیہ ک و بچ انے کی طرح خلافت کی تحریک خود بخود ختم ہوگئی ۔جس کے بعد مسلمانوں کو خلافاایا۔خلافت ترکیہ کے ٹک ڑے ٹک ڑے ہ ونے کے بع دعلی ابن حس ین) ش ریف بجائے احیائے خلافت کا خیال مکہ( نے اپ نی خلافت ک ا اعلان کردی ا تھ ا جس ک و تس لیم ک رنے س ے مس لمانوں نے انک ار ک ر دی ا۔مولان ا

ساڑاتے ہو ئے لکھا ہے: ساس کا مذاق ظفرعلی خان نے

Page 214: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

213

ااگئی ہاتھ اک گرہ ہلدی کی چوہے کو کہیں سے تو رکھ اس کو اپنے بل میں بن بیٹھا وہ پنساریہن مغرب سے ااقایا علی بھی لے کے اک طیارہ

سمجھتا ہے کہ میں ہوں اور عرب کی حکم برداریساس کے گولوں سے شہید اب تک ہوئی ہے ایک بکری ساس کی بمباری اب اس سے بڑھ کے ہوگی کار گر کیا

دیے رہ رہ کے اس کے باپ نے اسلام کو چرکےاائی ہے یہ دیرینہ غداری اب اس کے حصے میں

(۶۴)ہ مکہ کی خلافت کے اعلان کے کچھ عرصہ بعد عرب ہی کے ایک گوش ے نج د میں ابن شریف س عود ک و جب پتہ چلا کہ انگری زوں نے ش ریف مکہ کی حم ایت ت رک ک ردی ہے اورت رکی نے خلافت کے خاتمہ ک ا اعلان کردی ا ہے جب کہ ع الم اس لام اور ہندوس تانی مس لمان ش ریف مکہ کی خلافت ک و تس لیمسانھ وں م وقعہ غ نیمت س مجھتے ہ وئے مکہ پ ر حملہ ک رکے قبض ہ کرلی ا اور جن وری کرنے سے کترارہے ہیں ت و

سانھیں بھی ابت داء میں ہندوس تانی مس لمانوں نے تس لیم نہیں کی ا۔۱۹۲۶ ء کواپنی خلافت کا اعلان کردیا۔ چوں کہ نجدیوں نے مدینہ شہر کے مقبروں کے مینار گرانا شروع کر دئیے جس پر ہندوستان میں کافی واویلا

میں خلافت کمی ٹی کی ای ک۱۹۲۶مچایاگی ااورکئی گروہ وں میں مس لمان تقس یم ہوگ ئے۔ت اہم اپری ل اانے کی دع وت ک و قب ول کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ابن سعود کے بار بار تار کے ذریعے سعودی عرب کرکے مولانا محمدعلی،مولانا شوکت علی،سیدسلیمان ندوی،مسٹر شعیب قریشی اورمولان اظفرعلی خ ان کی نمائندگی میں ایک وفد حجاز)سعودیہ عرب( بھیج دیا گیا۔سلطان ابن سعود کی فتح ی ابی س ے علی ب ردارنسانھ وں نے انگری زوں کے ایجنٹ اور خلافت ت رکیہ کے غدارش ریف مکہ ک و شکس ت خوش تو تھے کی وں کہ سان کی فوجی وں ک ا بزرگ ان دین کے م زاروں دے کر حجاز کی مقدس سرزمین سے ب اہر نک ال دی ا تھ ا لیکن کے ساتھ روا رکھے گئے س لوک ک ووہ اچھی نظ ر س ے نہیں دیکھ تے تھے ۔اس ی وجہ س ے علی ب رادران اور مولانا ظف رعلی خ ان کے درمی ان اس ب ات پ ر اختلاف ات پی دا ہ وئے ۔مولان ا ظف رعلی خ ان نے ابت داء ہی س ے

Page 215: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

214

سان کے ہ ر عم ل ک و س راہا جس کی تائی د میں وہ سان کو خلیفہ مان کر سلطان ابن سعود کی حمایت کی اور مسلسل ’’زمیندار‘‘میں مض امین ش ائع ک رتے رہے۔س لطان ابن س عود کی ش ان میں مولان ا ظف رعلی خ ان نےساسے منص ب کئی نظمیں بھی لکھیں جس میںاہل نجد) ابن سعود (کی بہادری کے واقعات بیان کرتے ہوئے

خلافت کا حقدار ٹھہرایا ہے:شتر بانوں کو بخشی جا رہی ہے پھر جہاںبانی

عرب کی ریت کے ذرے بنے گردوں کے سیارےاائی حصے نجد والوں کے حجاز اور اس کی تطہیر

کہا سچ کہنے والے نے کہ ہرمزے و ہرکارےساس کی دولت پر ہن سعود اور خدا کی رحمتیں ابجسے ڈھب یاد ہیں اقبال کی تسخیر کے سارے

(۶۵) سلطان ابن سعود کے مدینہ پر حملہ کرنے کے بعد نج دی فوجی وں نے ق بروں کے گنب دو قبہ ج اتہگرانا شروع کر دیا۔ ہندوستان میں علماء ئے دیوبند اور اہ ل ح دیث نے س لطان کے قبہ ش کنی کے عم ل کو کی تائید کی جب کہ بریلوی اور اہل سنت و جماعت والوں نے سخت مخ الفت کی۔جس کے ن تیجے میں اقبال ،سید عطاء اللہ شاہ بخاری،اور مولانا ظفرعلی خان سمیت کئی لوگوں پر کفر کے فتوے لگ ائے گ ئے۔

بعض لوگوں پر قاتلانہ حملے کیے گئے اور دو تین سال تک یہ معاملہ چلتا رہا:کوئی ٹرکی لے گیا کوئی ایران لے گیا

کوئی دامن لے گیا کوئی گریبان لے گیارہ گیا تھا نام باقی اک فقط اسلام کا

وہ بھی ہم سے چھین کر حامد رضا خان لے گیا(۶۶)

Page 216: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

215

پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دے ک ر سیاس ی ح والے س ے ای ک س نگین غلطی کی ۔ت رکی کے ل یے می دان جن گ ک ا ب راہ راس ت حص ہ بن نے س ے بہ تر یہ تھ اکہ وہ اپ نی س رحدات کی حفاظت کا بندوبست ک رتی، لیکن غل ط حکمت عملی کے ب اوجودپوری دنی اکے مس لمانوں نے خلیفہ وقت کے فیصلے کا مکمل ساتھ دیا۔جب کہ دوسری جانب برطانوی حک ومت سیاس ی چ ال ب ازی اختی ار ک رکےاائی نی اص لاحات کے ن ام پ ر جنگ ک و غ یر اس لامی ث ابت ک رنے میں کامی اب رہی ۔ہندوس تانیوں کوب العموم ہت مقدس ہ کی حف اظت کے وع دوں س ے دھ وکے میں ٹرخای ا گی ا جب کہ مس لمانوں ک و بالخص وص مقام ااام ادہ ہ و گ ئے۔ جن گ کے دوران رکھاگیا۔ یہاں تک کہ ہندوستانی جنگ میں برطانیہ کا ساتھ دی نے پ ر بھی اای اتو جب جرمنی کی شکست یقینی ہوگئی اور ترکی کا حریف ہونے کی حیثیت سے سزا بھگتنے کا م رحلہ سمکر گئی۔ہندوستانیوں کو اپنی وفاداریوں کے صلے میں رولٹ ایکٹ،جلی انوالہ ب اغ حکومت اپنے وعدوں سے کا قتل عام اور مارشل لاکا نفاذ ملا۔مولانا ظف رعلی خ ان نے ہندوس تانیوں کی وف اداریوں اور اس تعماری ط اقت

کی جفاکاریوں کا ذکر اپنی نظم’’ڈیڑھ سو سال کی وفاداریوں کا صلہ‘‘میں کچھ یوں کیا ہے:

ہو کسی طرح مجھ سے خوش انگریزمیری کوشش یہ انتہائی تھی

میں نے اپنے غرور کی گردن اس کی دہلیز پر جھکائی تھی

میں جو حاکم تھا خود بنا محکومیہ بھی اک شان کبریائی تھی

ساس کے قدموں میں ڈال دی لا کرباپ دادا کی جو کمائی تھیاابرو اس کی تا کہ بڑھ جائے اپنی توقیر خود گھٹائی تھی

ساس کی خاطر نہ کی جو اپنوں سے

Page 217: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

216

کونسی ایسی وہ برائی تھیساس کی ٹھوکر ہے ااج میں ہوں اور

کہ اسی تک میری رسائی تھیااج روتا ہوں میں کہ کیوں میں نے

ااپ ڈھائی تھی اپنی بنیاد میں نے اپنے کیے کا پھل پایا

ساس سے میں نے کیوں بھلائی کی(۶۷)

مولان ا ظف رعلی خ ان ہندوس تانیوں کے زبوںح الی کی اص ل وجہ انگری ز وں کی وف اداری ک و گردان تےسان کے خیال میںاگر ابتدا سے ہی ان کے س اتھ دش منوں والا رویہ اختی ار کی ا جات ا ت و نہ مس لمان اقت دار ہیں۔اذلیل و خوار ہوتے۔ڈاکٹر غلام حسین ااج استعماری طاقتوں کے ہاتھوں اتنے سے محرو م ہوتے اور نہ ہندوسانی ذوالفقار کے خیال میں ہندوستان کی سیاسی محکومی ، معاش ی استحص ال اور معاش رتی ت نزل میں اس تعمار کے ہتھکنڈوں کے علاوہ خود ہندوس تانیوں کی ناع اقبت اندیش ی ک و بھی خاص ا عم ل دخ ل تھ ا۔انھ وں نے اپنے خون سے استعمار کے پودے کو سینچا ۔اپنی ملکی بادشاہت کے مقابلے میں اس ے کامی اب و ک امرانااب اد کی ا۔جن گ عظیم چھ ڑی ت و اس ی دی رنہ روایت بنایا۔خود برباد ہوئے مگر گورا صاحب کی حک ومت ک و کے مطابق دس لاکھ فرزندان ہند کو انگریزی شہنش اہیت کے دف اع کے ل یے ح رب و پیک ار کی بھ ٹی میںہق سلاسل ، جلیانوالہ باغ اورمارشل جھونک دیا گیا،لیکن ان سب وفاداریوں کا صلہ کیا ملا؟رولٹ ایکٹ،طو

(۶۸لاء۔) تحریک خلافت پربے شمار اعتراضات ک یے ج اتے ہیں ۔ جیس ے ای ک غ یر ملکی مس ئلے کے ل یے اتنی توانائی صرف کیوں کی گئی ۔ مسلم لی گ ک و کی وں منجم د کی ا گی ا ۔ اس ی ط رح گان دھی جی ک وسانھوں نے مسلمانوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے تحریک کا لیڈر بنا کر غلطی کی گئی کیوں کہ کی کوشش کی۔ اس طرح حکومت پر ہندوئوں ک ا اث ر ق ائم ہ وا۔لیکن اس تحری ک کے بہت س ارے فائ دے@@ا تحریک سے ہندو مسلم اتحا دقائم ہوا جس کی وجہ س ے انگری ز حک ومت ک و محک وم ق وم بھی تھے ۔ مثل

Page 218: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

217

کی طاقت کا اندازہ ہوا ۔انگریزوں کو یہ احساس دلایا گی اکہ جھ وٹے وع دے ک رکے ٹرخ انے س ے ک ام نہیں چلے گا کیوں کہ قوم میں اپنا حق ماننے کا مادہ موجود ہے ۔اسی تحریک نے ہندوستانیوں ک و اس قاب ل بنای ا

اازادی حاصل کی جاسکے۔ کہ انگریز حکومت سے مسلمان کے ل یے خلافت کی تحری ک چلانام ذہبی مس ئلہ تھ ا کی وں مکہ معظمہ،م دینہ من ورہ،بیت اللہ،بیت المقدس وغیرہ وہ مقامات ہیں جن پر غیرمسلم جارحیت کو برداشت کرن ا کس ی بھی مس لمان کے ل یے ممکن نہ تھ ا ۔اس لامی دنی اکے مق دس ت رین مقام ات حج از میں موج ود تھے اور ت رکی کے خلیفہ انہت مقدسہ کی حفاظت کے ذمہ دار تھے اسی لیے خلافت کے بچائو کے لیے اپنی مقدور بھر کوش ش مقاما کو مسلمانوں نے ایک مذہبی فریضہ سمجھا۔ اسی تحریک کی وجہ سے ہندوس تان میں مس لمانوں کی ای ک بڑی طاقت تقس یم ک ر لی گ ئی۔خلافت کی ناک امیوں میں ای ک بنی ادی وجہ یہ بھی بی ان کی ج اتی ہے کہسانھیں خطرہ درپیش تھا کہ کہیں مسلمان انگریز کونکال ہندوئوں نے اسی وجہ سے علیحدگی اختیار کی کہ باہرکرکے دوبارہ ہندوستان پر قابض نہ ہو جائیں۔سید حسن ریاض نے تحریک کی تائید میں ح دیث ک ا ح والہ

دے کر لکھا ہے :’’اسلام کسی خاص قوم و ملک ک ا م ذہب نہیں بلکہ ع المگیر م ذہب ہے۔اس کے تص ورات ع المگیر ہیں۔ اس نے ایک عام حکم لگا دیا ہے :۔کل مومن اخوت۔ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں۔اس میں عرب،ت رک، ہندوستانی، پاکستانی، انڈونیشین ،یورپین کی کوئی قید متعین نہیں۔جو مسلمان ہے وہ اس ع المگیر ملت و

سرکن ہے۔۔اسلام کے ان اہم تقاضوں کا احساس تھا جس سے تحریک پیدا ہوئی۔‘‘) (۶۹برادری کا ایک ہت ت رکیہ ک و اس لامی ط اقت ک ا منب ع،اس لامی تش خص کی علامت اور مولان ا ظف رعلی خ ان خلاف مسلمانوں کی پہچان سمجھتے تھے، جس کا قائم رہنا مسلمانوں کی بقا اور بچائو کے لیے ضروری تھ ا۔وہ سیاس ی ح والے س ے اس نظ ریے کے مکم ل خلاف تھے کہ خلافت ب یرونی مس ئلہ ہے اورت رکی کے خلاف اتحادیوں کی یلغارایک سیاسی جن گ ہے نہ کہ م ذہبی اور ہن د کے مس لمانوں ک واس پ رائی جن گ میں نہیں سالجھنا چاہیے ۔مولان اہر سیاس ی و م ذہبی ف ورم پ ر ب ار ب ار اس حقیقت ک ا اق رار و اظہ ار کی اکرتے تھے کہ وہ پہلے مسلمان ہیں بعد میں ہندوستانی ۔وہ مکہ کو پہلا، م دینہ ک و دوس را جب کہ ہندوس تان ک و تیس را گھ رہت کے بچ ائو کے ل یے ہندوس تان میں چلائی ج انے سان کے خی ال میں خلاف تص ور کی ا ک رتے تھے۔اس ل یے

Page 219: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

218

والی تحریک’’تحری ک خلافت‘‘ پ رائے کے ل یے نہیں اپ نے گھ ر کے بچ ائو کے ل یے ض روری تھی۔خلافتسانھوں نے ایک تقریر میں کہا ہے: کی اہمیت واضح کرتے ہوئے

ااسمانی پیغام سنا ک ر رب الیوم اکملت لکم دینکم کا اا ’’دینی اور دنیوی سلطنت کی جو مسند جناب رسالتمسامی وں کے بع د عباس یوں کے حص ے سامیہ ک و ملی،اور خالی فرما گئے تھے وہ خلفائے راشدین کے بع د ب نی اائی ،دولت عباسیہ کے انتزاع کے بع د ’’ت وتی المل ک من تش اء‘‘ کے فح وائے ی زدانی کے لح اظ س ے میں

اال عثمان کو اس پر جلال مسند پر بیٹھنے کا ش رف عط ا کی ا گی ااوراب ت ک یہ ع زت۱۵۱۵ ء میں ترکان (۷۰سانھی کا ہے۔‘‘)

رربرحق ک ا وارث اور ج ان نش ین س مجھتے تھے ج و خ دا کے مولان ا ظف رعلی خ ان خلیفہ ک و پیغم بسان کے خیال میں مسلمانوں کا فرض تھ اکہ وہ ج ان و وضع کردہ قوانین کے نفاذ کے لیے مسند نشین تھے۔ مال کی قربانی دے کر خلافت کی عزت اور صدسالہ روایت کو لادینی اور مسیحی قوتوں کی چیرہ دستیوں

ررپر جان دینے کا مترادف عمل تھا: سان کے نزدیک تو خلافت پر جان دینا پیغمب سے بچائیں۔

رہ پر قربان ہو جا رسول اللخود اپنے درد کا درمان ہو جا

ہت افرنگ بن کر حریف دولہت عثمان ہو جا ہف دول حلی

(۷۱)

رہ کے ناموس پر قربان ہو جائو رسول اللن ہو جائو ر و سلما ل و بوذ مسلمانو! بلا

(۷۲)

فراہم کرو جنگ کا سازو ساماںہی پہ ہیبت کا سکہ بٹھائو نصار

Page 220: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

219

بتائید حق اپنی ملت کے بل پرحریفوں کی کثرت کے چکے چھڑائو

مٹا دو عجم و عرب کی رقابتہط اخوت بچھائو جہاں میں بسا

رد کے جھنڈے کے سایہ کے نیچے محمفلک کے ستائے ہوئو سر چھپائو

(۷۳) یورپ کی اسلام دشمنی اورخلافت کے خاتمے کی پالیسی مولانا ظفرعلی خ ان ک وہر گزقاب ل قب ول نہ تھی۔خلافت کی مخ الفت وہ اس لام کی مخ الفت تص ور ک رتے تھے جب کہ خلافت کے خلاف ی ورپیسان کے خی ال میں ی ورپ اپ نے ارادوں میں کبھی بھی جارحیت کو حق و باطل کی جنگ تص ور ک رتے تھے۔ کامیاب نہیں ہو سکتا ہے کیوں کہ خلافت اور خلیفہ سے پ وری دنی ا کے مس لمانوں کی م ذہبی عقی دت اورسان کی ط اقت لگائو ہے۔مس لمان محک وم و مغل وب ہی س ہی لیکن اس لام ک ا ج ذبہ اور توحی د ک ا نع رہ ہی سان کے نزدی ک وہ بنی ادی ک ردار تھے جن ہے ۔ غازی مصطفی کمال پاشا اور افغانستان میں غازی ام ان اللہ کی س ربراہی میں ای ک دن ض رور کف ر ک و شکس ت ہ وگی اور خلافت ت رکیہ س میت پ ورے ایش یاء میں بھی اسلام کا علم سر بلن د ہوگ ا۔اس ل یے وہ ب ار ب ار اہ ل فرن گ ک و متنبہ ک رتے رہے کہ ع رب و عجم س ے ل ڑائی

ہان کو کامیابی ملنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے: باندھ کر انگریزوں نے بڑی غلطی کی جس میں نئی اک قبا کو سلاتے ہوئے

خلافت کی بنیاد اکھیڑو گے تمتو اچھی طرح سے سمجھ لو یہ بات

خود اپنے ہی بخیئے ادھیڑو گے تم(۷۴)

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندا زنپھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

Page 221: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

220

ہر کائنات میں گر چہ ناتواں ہوں مگر باساٹھایا نہ جائے گا میرے سوا کسی سے

مجھ سے بجز خدا کے کسی کے حضور میںہر نیاز جھکایا نہ جائے گا اپنا س

اب بھی عرب میں اور عجم میں ہے گھر ترااس گھر میں اور کوئی بسایا نہ جائے گاااج سے سسنا دو کہ تثلیث کو یہ جاکے تگنی کا ناچ ہم کو نچایا نہ جائے گا

اقصائے ہند میں علم حق ہوا بلندیہ پرچم اب کسی سے گرایا نہ جائے گا

(۷۵) ڈاکٹر سہیل احمد نے تحریک خلافت کے حوالے سے مولانا ظفرعلی خ ان کی ش اعری ک ا تج زیہ

کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’مولانا ظفرعلی خان کی نظم میں خلافت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی پالیسی کے خلاف شدید احتجاج ملتا ہے۔انھیں خلافت کی اس تحریک کے ذریعے ای ک روش نی پھیل تی ہ وئی دکھ ائی دی تی ہے ۔ج و ترک وں کی جدوجہد سے پھوٹتی ہے اور اس روشنی میں انھیں پوری دنیا میں مس لمانوں کے غ الب ہ ونے اور مغ ربیسان کی قوت وں کے س رنگوں ہ ونے ک ا خ واب دکھ ائی دیت ا ہے۔تحری ک خلافت کے ح والے س ے کہی گ ئی شاعری میں مسلمانوں اور مغ ربی س امراج تص ادم کے م رحلے میں داخ ل ہ وتے ہیں۔یہ تص ادم اس لام اور کف ر کے م ابین ہے اور ظف رعلی خ ان کے خی ال میں اس میں فتح مس لمانوں کی ہ وگی۔۔ان کے خی ال میں اگ رسان کے خی ال ساٹھانا پڑے گ ا۔ مسئلہ خلافت کو انگریزوں نے چھیڑنے کی کوشش کی تو انھیں شدید نقصان

(۷۶میں خلافت مسلمانوں کی شناخت ہے جسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔‘‘) اپن وں کی غ داری اور مس لمانوں کی ب اہمی ناچ اقی اور عقی دے کی کم زوری کی وجہ س ے مولان اسان کی پیش گوئی اں ص حیح ث ابت نہ ہ و س کیں۔ ظف رعلی خ ان کے س ارے خ واب چکن اچورہوگئے اور ی وں

Page 222: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

221

سامراجی قوتیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئیں۔ انگری زوں کے اش اروں پرم رد بیم ار ک و ٹھک انے لگ انے کےاائے ۔ ش ریف حس ین نے خ ود مخت اری ک ا اعلان کردی ا جس ے معاہ دہ س یورے میں سات ر لیے عرب بغاوت پ ر قانونی حیثیت حاصل ہوگئی ۔یہ خبریں مولانا ظفرعلی خان کے لیے نہایت رقت انگ یز تھیں۔ح رم پ اک جس م نے تین س و س تر بت وں ک و ت وڑ ک ر کف ر و ش رک س ے پ اک کی ا ک و ت اریخ میں ای ک ب ار حض رت اب راہی

ساس مقام تک رسائی حاصل کرلی: ہ مکہ کی نمائندگی میں تھا،طاغوتی قوتوں نے ایک بار پھرشریفکعبہ خدا کے گھر سے صنم خانہ بن گیا

اس بتکدہ میں مجھ سے تو جایا نہ جائے گا(۷۷)

ااگئے صنم بتکدہ بن گیا حرم کعبہ میں سرخ ہو کدھر نماز کا قبلہ ہی وہ نہیں رہا

(۷۸)@@ا اس تعمار ی پالیس یوں کی وجہ س ے ہندوس تان کے ان درونی خلفش اراور ب یرونی دنی ا میں خصوص ا ہ ونے کے ل یے ض روری تھ ا کہ اتف اق و خلافت ترکیہ کے مسلمانوں کی ن اگفتہ بہ ح الت زار س ے عہ دہ ب را اتحاد قائم کی ا ج ائے ۔ہندوس تان میں موج ود غ یر مس لموں ک و اگ رچہ خلافت س ے ک وئی س روکار نہیں تھ ا لیکن برطانوی استبداد کے ش کار ہن دو مس لم دون وںتھے اور پھ ر انگری زوں کے وع دے ص رف مس لمانوں کےاائینی اص لاحات اور حک ومت ہت مقدس ہ کی حف اظت کے نہیں تھے بلکہ مش ترکہ ہندوس تان میں ساتھ مقام ا خ ود اختی اری ک ا وع دہ ہن دو اورمس لمان دون وںکے س اتھ تھ ا۔اس ل یے مولان ا ظف رعلی خ ان نے ہن دو مس لمسانھوں نے گاندھی جی کی عدم تش دد پ ر مب نی تحری ک’’ مشترکہ جدوجہد پر زور دیا اور یہی وجہ تھی کہ

ترک موالات‘‘ کوسراہا:ااج جنگ کا اعلان کر دیا گاندھی جی نے

باطل سے حق کو دست و گریبان کردیاسر رکھ دیا رضائے خدا کی حریم پر

Page 223: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

222

خنجر کو پھر حوالہ شیطان کر دیاہندوستاں میں ایک نئی روح پھونک کر

اازادی حیات کا سامان کر دیادے کر وطن کو ترک موالات کا سبق

ااسان کر دیا ملت کی مشکلات کو شیخ اور برہمن میں بڑھایا وہ اتحاد

گویا انھیں دو قالب و یک جان کر دیاتن من کیا نثار خلافت کے نام پر

سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیا(۷۹)

ن ہج رت میں بھ ر پ ور ہی مولانا ظفرعلی خان نے تحری ک ت رک م والات میں ہندوس تانی علم اء کے فت و ساتھ دیا۔ جس کی رو س ے ہندوس تان ک و دارالح رب جب کہ افغانس تان ک و دارلام ان ٹھہرایاگی ا۔ جس کیساس وقت ایش یاء کے مس لمانوں کی نظ ریں افغانس تان میں غ ازی ام ان اللہ پ ر ٹکی بنی ادی وجہ یہی تھی کہ سان سان کا خیال تھا کہ ش اید وہ مس لمانوں کی ڈوب تی ن ائو ک و بچ ا س کتے ہیں۔غ ازی ام ان اللہ ہوئی تھیں اور کی نظ ر میں ای ک فرش تہ ص فت انس ان تھے ج و انگری ز اس تعمار کے خلاف ہمیش ہ ڈٹے رہے۔اس ل یے وہ

سان کے نام کا ورد کرتے رہے: نادرشاہ کی تخت نشینی تک اائے عجب کیا رب کی اس قدرت پہ گر مسلم کو حال

اائے اائے تو ساتھ اس کے کمال خلافت پر زوال خدا جانے ہو کیا اس وقت حالت دیں کے اعدا کی

اائے امان اللہ خاں کو بیٹھے بیٹھے گر جلال مسلمانوں کی پھر منظور تھی اس کو سرفرازی

خدا نے کر دیا پیدا امان اللہ خان غازی(۸۰)

Page 224: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

223

ہن زماں تو ہے ہر سلاطی امان اللہ خان فخری کا پاسباں تو ہے ہل ہاشم ہس رسو کہ نامو

(۸۱) مولانا ظفرعلی خان جوخود ہمیشہ استعماری تشدد کا شکار رہے انہ وں نے اپ نی زن دگی کے چ ودہسان مظ الم ک ا بھی ص حیح ان دازہ تھ ا ج و م ذکورہ مختل ف واقع ات میں سانھیں سال قید فرنگ میں گزاردیے ۔سان کی حبس یاتی ملوث سامراج دشمن عناصر کے س اتھ جیل وںمیں انگری ز س امراج نے روا رکھے۔ن ثر میں ت و زندگی کے احساسات و تجربات کو شورش کاشمیری نے’’قید فرنگ‘‘میں محفوظ کر لی ا ہے لیکن ش اعری

میں مولانا نے اس کے لیے ایک لگ مجموعے’’حبسیات‘‘کا انتخاب کیا:اائین اور اسیران فرنگ سرزمین بے

ہن فرنگ پیستے ہیں جیل چکی اسیراہن فرنگ ہش دوراں ہے زندا ااسیائے گرد

پائوں میں بیڑی گلے میں تختی اور ہاتھوں میں داغہن فرنگ ہت مرحوم پر کیا کیا ہیں احسا سام

سابلے مسور صبح کو پالک کے ڈنٹھل شام کو ہن فرنگ ہم رہے اس شان سے برسوں ہی مہمالے کے بنوں سے پشاور تک جدھر ڈالی نظر

ہن فرنگ سب کے سب تھے خستہ شمشیر و پیکا(۸۲)

ساس وقت تحری ک خلافت کے سلس لے میں مولان ا کی ہردلعزی ز شخص یت غ ازی ام ان اللہ خ ان سانھوں نے اپنی اہلیہ کے ہم راہ ام ریکہ ک ا دورہ کی ا۱۹۲۶انگریزی سامراج کے تیر کا نشانہ بنے جب ء میں

سان ک ا بھرپ ور اس تقبال کی ا گی ا لیکن ب اوجوداس کے ام ریکہ اور ام ان اللہ کے درمی ان دوس تی کے جہ اں امکانات پیدانہ ہوسکے۔امریکہ سے وہ ماس کو چلے گ ئے اور اش تراکی حک ومت کے س اتھ ب اہمی تع اون کےسان ک ا یہ معاہدے پر دستخط کر لیے۔دائیں بازو کی حامل قوتوں )سرمایہ دارانہ نظام کے علم بردار( کے ل یے

Page 225: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

224

ہہذا انہوں نے اپنے روایتی طریقے ک و ب روئے ک ار لاتے ہ وئے ام ان اللہ ک و افغانس تان عمل ناقابل برداشت تھا لسان کی بیوی کی بغیر نقاب کی تصاویر کثیر تعداد میں چھپوا ک ر واپسی سے قبل ہی ملحد مشہور کر دیا ۔ سان پ ر کف ر کے فت وے بھی لگ ادئیے ۔انگری زوں لوگوں میں تقسیم کی گئیں ۔بعض دو رکعت کے اماموں نے سرخ ااب اد ک ا کے ایک ہرکارے امیر حبیب اللہ خ ان نے پش اور س ے اپ نے س اتھ چن د قب ائیلوں ک و لی ا اورجلال کیا ،کافی خون ریزی کے بعد امان اللہ خان ک و جلاوط نی پ ر مجب ور ک رکے وہ خ ود تخت پ ر ق ابض ہوگی ا۔ مولان انے ح بیب اللہ خ ان ک و بچہ س قہ کہہ ک ر اس اس تعماری چ ال کی بھرپ ور م زاحمت کی اور اس تعمار مخالف بادشاہ امان اللہ خان کی بے دخلی پر رنج و غم کا اظہار کی ا۔نظم ’’نغمہ ن ورس‘‘ اور ’’کاب ل کے

گدھے‘‘ میں یہی کیفیت نمایاں ہے:خدا کی شان اک سقے کا بچہ

مقابل ہے محمد زائیوں کااسے اسلامیوں سے کیا سروکارجو ٹکڑوں پر پلے عیسائیوں کےسملا حریف اس عہد میں پیر و

ہوئے اللہ کی یکتائیوں کے(۸۳)

ہوا کرتے ہیں پیدا رات دن سقوں کے گھر بچےمگر ہر روز امان اللہ خان پیدا نہیں ہوتے

ااج کل کابل میں ہے ایسی فراوانی گدھوں کی گماں ہونے لگا انساں یہاں پیدا نہیں ہوتے

(۸۴)ساس وقت ہہذا جرنیل نادرخان ج و ااگئے ل امیر حبیب اللہ خان بھی بہت جلد انگریزوں کے زیر عتاب سان کو افغانستان بھیجا گیا ۔نادر خان افغانس تان ج اتے ہ وئے جب لاہ ور کے ریل وے سٹیش ن پیرس میں تھے سان کا اس تقبال کی ا جہ اں پہنچے تو وہاں پر مولانا ظفرعلی خان کی سربراہی میں لوگوں کی کثیر تعد اد نے

Page 226: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

225

سان سے یہ وعدہ لیاگیا کہ جنگ جیت نے کے بع د وہ ام ان اللہ خ ان ک و م دعو ک رکے تخت پ ر بیٹھ ا دیںگے۔ مولانا نے نادرخان کی حمایت میںہندوس تان کے مس لمانوں میں یہ ش عور پی دا ک رنے کی کوش ش کی کہ وہ

سانہیں واقعات کی یاد گار ہے: سان کی مدد کریں۔نظم’قندھار چلوقندھار چلو‘‘ قندھار جا کر چلتی ہے جدھر تلوار چلو

چلتے ہیں جدھر سب یار چلوبے مایا ہو یا زردار چلو

دریائے اٹک کے پار چلوقندھار چلو قندھار چلو

تقدید عرب کہتی ہے جہاںتدبیر عجم رہتی ہے جہاں

بل کھاتی ہوئی بہتی ہے جہاںدنیا کے لہو کی دھار چلو

قندھار چلو قندھار چلو(۸۵)

نادر شاہ نے ’’بچہ س قہ ‘‘ ک و شکس ت دی نے کے بع د اپ نی تخت نش ینی ک ا اعلان کی ا جس پ رسان سے بھی نالاں ہوگئے۔ مولانا ظفرعلی خان کی نظمیں پڑھ کر امیر امان اللہ خ ان کی مولانا ظفرعلی خان بے دخلی سے لے کر جرنیل نادر خان کی تخت نشینی تک کے اس عشرے کی تاریخ کا اندازہ ہوتا ہے ۔اازاد جس سے ظاہر ہوتا ہے مشرق میں استعماری طاقتوں کے پنجے کت نی مض بوطی س ے پیوس ت تھے ۔ای ک ساس ے سان کے اشاروں پ ر چل نے س ے انک ار ک رنے کی ج رات کرت اتو مسلم ریاست میں بھی اگر کوئی بادشاہ ااج ت ک اقتدارسے ہاتھ دھونے پڑتے اور جلاوطنی یا قید کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتا۔یہ سلسلہ اگ ر چہ اپنے روایتی انداز میں جاری ہے لیکن بدقسمتی سے اہل مشرق میں اصلیت تک پہنچنے کے بجائے تقلید و

ااگاہی کے باوجود سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ پیروی کی بیماری عام ہے اور ہر چیز سے

Page 227: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

226

ساس وقت ممکن ہ وا جب نج د کے ہ خلافت کے روگ ک ا ازالہ اسلامی دنیا میں مولانا کی تجدی د ابن سعود نے شریف مکہ کو راستے سے ہٹاکر اپنی خلافت کا اعلان کر دی ا۔ہندوس تان میں اگ ر چہ خلافتسان کی خلافت منظور نہیں تھی لیکن مولانا نے انھیں منصب خلافت کا حقدار ٹھہرایا۔ سلطان کمیٹی کو ابن سعود کے اعلان خلافت سے اگر چہ خلافت ترکیہ جیسے وسیع اسلامی مملکت کی بحالی ت و ممکن نہیں ہوئی لیکن کم از کم جزیرۃ عرب کے اماکن مقدسہ محفوظ ہوگئے۔اگر چہ بعض ت اریخی واقع ات س ے اس اقتدار کی تبدیلی میں بھی استعماری سازش کا س راغ ملت اہے ۔مولان ا ظف ر علی خ ان نے ابن س عود کینلہ نافس ردہ،عہ د مسند نشینی پر ’’نسیم حجازی کی شمیم،شہسوار نجد، امیر المومنین،منصب خلافت،شعہم ح رمین الش ریفین اورتطہ یر ی ثرب‘‘جیس ی نظمیں سلف کی رونقیں،مستقبل حجاز،ہرم ردے و ہرک ارے،خ اداانے س ے م دینہ من ورہ اور مکہ معظمہ میں مس لمانوں ک ا سان کے لکھ ک ر یہ ظ اہر ک رنے کی کوش ش کی کہ سامیہ و بنو اعباس سے ہوتے ہوئے کھویا ہوا وقاربحال ہوگیا ہے اورخلافت کی روایت جو خلفائے راشدین اور بنو

خلافت ترکیہ )جسے اہل فرنگ نے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا( تک قائم تھی ایک بار پھر قائم ہوگئی ہے:منصب خلافت

اگر اسلامیوں کا سیزدہ سالہ نظامہی و یہود ہم نصار اب بھی قائم ہے علی رغ

ناگزیر اب اگر ہے کوئی مرکز ایسارد کی شریعت کی حدود جس میں جاری ہوں محم

کہہ سکیں رابطہ ملت بیضا جس کوہی کی نمود جس میں ہو جلوہ گہہ سطوت کبر

تو یہ فرمائیے بطحا کے سوا اور کہاں پائی جاتی ہیں یہ اسلام کی دیرینہ قیود

ہن حرم بھی ہے وہی ہش صح جب کہ جاروب کہن سعود کیوں خلیفہ نہ پھر اسلام کا اب

(۸۶)

Page 228: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

227

نہ بچا فریب فرنگ سے کوئی تاجور کوئی باجور مگر اک حرم وہ پاسباں جو ہے سر بسجدہ نماز میں

(۸۷) ء میں تحریک خلافت کے سلسلے میںملک گیر ہڑت الیں اور ایجیٹیش ن ج اری تھیں ،ت رک۱۹۲۲

م والات، س ول نافرم انی اور ع دم تع اون س میت سودیش ی م ال کے بائیک اٹ کی وجہ س ے حک ومت ک افی پریش انی س ے دوچ ارتھی۔ج بر و تش دد کے س ارے ح ربے ب روئے ک ار لائے گ ئے ،جی ل خ انے بھ ر دئ یے گئے،جلسے جلوسوں ک و منتش ر ک رنے کے ل یے لاٹھی چ ارج کی بج ائے گولی اں برس تی رہیں۔س ینکڑوں بےساتار دیا گیا لیکن ہندوس تانیوں ک ا ج ذبہ ح ریت مان د پ ڑنے ک ا ن ام نہیں لیت ا گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ تھا۔ہندو مسلم اتحاد کا مذکورہ دورانیہ برط انوی اس تعمار ک و بھ اری پڑرہ ا تھ ا جس میں دراڑ پی دا ک رنے کی کوششیں تیز کر دی گئیں۔ہندوئوں میں افواہیں پھیلائی گ ئیں کہ تحری ک خلافت کے ب ل ب وتے پ ر ہندوس تان میں مس لمان ق وم ای ک مض بوط ط اقت بن نے والی ہے ۔مس لم رہنم ائو ں کے افغانس تان اور دوس رے اس لامی ممالک سے رابطے جاری ہیں ۔پوری اسلامی دنیا مسلمانوں کو اس حالت زار س ے نک النے کے ل یے منص وبہ بندی کررہی ہے اوربہت جل د انگری زوں ک و ہندوس تان س ے نک ال ک ر یہ اں پ ر مس لمانوں کی بالادس تی ق ائم

ہوجائے گی اور ہندو انگریز کی بجائے مسلمانوں کے غلام بن جائیںگے۔ چوں کہ ک انگرس کے زی ادہ ت ر رہنم ا جی ل میں تھے ص رف گان دھی جی ب اہر تھے اور ویس ے بھی پورے ملک میں تحریک کی بھاگ دوڑ خلافت کمیٹی اور مسلم علماء کے ہاتھ میں تھی۔ ہندو انتہا پس ندسان کے لیے یہ اف واہیں ہہذا ہک خلافت میںشمولیت کے خلاف تھے ل پہلے سے کانگرس کی جانب سے تحری کارگر ثابت ہوئیں۔ ان خبروں نے فرقہ ورانہ جذبات کو ہوا دے کر ملک کے کونے کونے میں دنگا فساد برپ ا

کر دیا۔ڈاکٹر تارا چند نے لکھا ہے: ’’ہن دو مہاس بھا نے ای ک ب ڑی جم اعت تی ار کی جس میں بعض کانگرس ی بھی ش امل ہ و گ ئے اور اس جماعت نے شدھی اور سنگھٹن کی تحریک شروع کی۔ف رقہ وارانہ ذہ نیت کے ہن دو اور مس لمانوں دون وں نے

Page 229: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

228

ایک دوسرے کا مق ابلہ کی ا اور مل ک کے ط ول و ع رض میں نف رت اور خ وف ک ا زہ ر پھیلانے میں کامی ابااتش زنی اور لوٹ مار کے واقعات ہوئے۔‘‘) (۸۸ہوگئے۔نتیجہ یہ ہوا کہ متعدد بار خوں ریزتصادم،

ملتان کا ہنگامہ،موپلوں کی بغاوت،چورا چوری کا واقعے کے علاوہ مختل ف ہنگ اموں کی وجہ س ےسروک دینے کا اعلان کر دیا۔اس اعلان کی وجہ سے مسلم لیگ گاندھی جی نے سول نافرمانی کی تحریک ااری ا س ماج سمیت کانگرس میں بھی اختلافات پیدا ہوگئے اور ہندو مہاسبھا کے ب انی پن ڈت م الوی جی اور سچکی تھیں کہ وہ اں کے لیڈر سوامی شردھانند نے موپلوں کی بغ اوت) جس کے ب ارے میں یہ اف واہیں پھی ل کے مسلمانوں نے جبر وتشددسے ہندوئوں کو مسلمان ہونے پر مجبور کیا(کو بنیاد بن ا کرش دھی اور س نگھٹن

کی تحریکیں شروع کیں۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے لکھتے ہیں:

ااریاس ماجی ’’اتحاد کے خوش کن عہد کے بعد فرقہ وارانہ فسادات کا اندوہ ناک سلس لہ ش روع ہوگی ا۔بعض لیڈروں کو خاص مقصد کے تحت رہا کر دیا گیا ۔ ہندوئوں کا مصلحت پسند گروہ پنڈت مدن موھن مالویہاازار طریقے س ے اس لام اور ب انی اس لام ص لعم پ ر رکی ک ااریا سماجی لیڈروں نے نہایت دل کی رہنمائی میں

(۸۹حملے شروع کیے ۔‘‘)ساس وقت ااپ مولانا ظفرعلی خان نے ہندو مسلم اتحاد کے خاتمے پر نہایت افسوس کا اظہ ار کی ا۔سان کوجی ل میںملیب ار، چوراچ وری کے واقعے ،ملت ان کے قض یہ اور م اپلوں منٹگمری جی ل میں قی د تھے جب کی بغ اوت کے واقع ات ب ارے میں معل وم ہ وا ت و وہ نہ ایت افس ردہ ہ وئے کی ونکہ ان فس ادات کی وجہ س ے گاندھی جی نے تحریک ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ ان فس ادات کی وجہ س ے ہن دو مس لم اتح اد ک و

اذDivide and Ruleزچ پہنچا اور برطانوی حکومت ای ک ب ار پھ ر اپ نی پالیس ی " "کے نف میں کامیاب ہو گئی۔ظاہری بات ہے برطانوی حکومت کسی حال میں بھی اس بات کے لیے تیار نہیں تھی

ساٹھائیں۔ ااواز کہ ہندوستانی متحد ہوکر اپنے حقوق کے لیے ااہ ااہ گاندھی کے اس بسائے ہوئے گھر کو

دست فلک نے لوٹ کے ویران کر دیاقسمت نے ڈال کر اسے قید فرنگ میں

Page 230: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

229

ہندوستاں کے جسم کو بے جان کر دیافتنہ کہیں کیا جو ملیبار کا بپاپیدا کہیں قضیہ ملتان کر دیا

کس سمت سے ہوا یہ چلی جس نے یک بیکہن ہند کو نادان کر دیا دانشورا

ااپس کی پھوٹ نے واحسرتا کہ ہند کی خالی حریف کے لیے میدان کر دیا

(۹۰) مولانا ظفرعلی خان مسلم ہندو اتحاد کا شیرازہ بکھرنے اور مذکورہ فسادات کا ذمہ دار پنڈت م الویہسان کے خی ال میں گان دھی جی امن اور اتح ا د کے متم نی تھے لیکن م الوی جی نے ک و س مجھتے تھے۔ انگریز سامراج سے ساز باز کرکے تحریک ختم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی تا کہ لی ڈر بن ک ر حک ومت

سے وزارت حاصل کرسکیں:ہر عجز جھکا کر دہلیز حکومت پر س

ہن وزارت ااساں ہے قلم دا لینا بہت مسلم کی خطا ہے نہ یہودی کی ہے تقصیر

یہ سب ہے فقط ایک برہمن کی شرارت(۹۱)

ٹپکتا ہے زبان سے شہد ،رستا زہر ہے دل سےسمجھتے خوب ہیں ہم مالوی جی کی ادائوں کو

(۹۲)ااریہ سماج کی بنیاد دیانند سرسوتی نے ء میں رکھی تھی جس کا مقصد کس ی ح د ت ک۱۸۷۵

@@ا ہن دو دھ رم میں بت پرس تی اور ذات پ ات کے ح والے س ے کچھ ہن دو م ذہب میں اص لاحات لان ا تھ ا،مثل

Page 231: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

230

اصلاحات کیے گئے۔ہندی تہذیب کی حفاظت ،کے س اتھ ہن دی زب ان کے نف اذ پ ر بھی زور ڈالا گی ا۔اسسان اخب اروں کی ااریہ س ماج وال وں کے س اتھ لیے یہ لوگ اردو زبان کے مخالف تھے۔مولانا ظفرعلی خ ان نے ساردو بھی اردو دشمنی کو بے نقاب کیا جو شدھی اور س نگٹھن جیس ی تحریک وں میں پیش پیش تھے۔نظم’’

معلی‘‘ملاحظہ ہو:ساردو ہن ہن جا سنگھٹینے کہ وہ ہیں دشم

ساردو میٹنا چاہتے ہیں نام و نشاں ہح ادب فارسی سے انہیں نفرت ہے جو ہے رو

ساردو ہن عربی سے انہیں ضد ہے جو ہے جالاجپت رائے گھلے جاتے ہیں اس غم میں کہ ہائے

ساردو ہن لازمی ہو گئی پٹنہ میں زبا’’تیج‘‘کے والد ماجد کو یہ حسرت ہی رہی

ساردو ناگری کو نہ میسر ہوئی شان سالٹ کر چمکی ٹاٹ ہندی کا بنارس میں

ساردو ہن ناگری کو نہ میسر ہوئی شاسگن گاتے ہیں ہندی کے ’’ملاپ‘‘ اور ’’پرتاپ‘‘ گرچہ

ساردو ہن جس سے چاندی ہوئی ان کی وہ ہے کامالوی جی نے بہت زور لگایا لیکن

ساردو ہن ہل روا نہ تھما سی(۹۳)

ااریا سماج کے بانی مبانی دیانن د سرس وتی کی لکھی ہ وئی کت اب ’’س تیارتھ ہندو مسلم فسادات میںساس کی وف ات کے بع د ااری ا س ماج کی ذیلی ش اخ ’’گئ ور۱۹۲۳پرک اش ‘‘نے ء میں تہلکہ مچ ا دی ا۔

کھشا‘‘نے بال گنگا دھر تلک کی قیادت میں مختلف سوسائٹیاں بنائیں حالانکہ یہ تحریک عرصہ دراز س ےسان گائے کی ذبح کرنے کے خلاف زبردس ت مہم چلا رہی تھی لیکن من افرت اور مخ الفت کے م احول نے

Page 232: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

231

کی سرگرمیوں میں ت یزی پی دا ک ردی۔دوس ری ط رف ہن دو مہ ا س بھا جس کی بنی اد پن ڈت م دھن م الوی نےساٹھایا ۔فرقہ وارانہ اور انتہا پسند ذہنیت کے ہندو جو کانگرس سے تحری ک رکھی تھی نے وقت سے پورا فائدہ خلافت کی حمایت پر نالا ںتھے سب کے سب ہندو مہا س بھا میں ش امل ہوگ ئے،س اتھ میں ’’گئورکھش ا‘‘ااری ا س ماجی لی ڈر بھی می دان میں ک ودپڑے اور اس ط رح مس لمانوں کے خلاف ش دھی و سوس ائٹیاں اور

سنگٹھن جیسی تحریکوں کا بازار گرم ہوگیا۔فاروق ملک ہندو مہا سبھا کے بارے میں لکھتے ہیں: ء میں ق ائم کی اور اس ک ا۱۹۲۱’’ہندوئوں نے ایک نئی سیاس ی جم اعت ’’ہن دو مہاس بھا‘‘کے ن ام س ے

مرکز بنارس تھا۔ہندو مہا سبھا کٹر ہندو پرست تھی جس کا بانی مدن موہن مالویہ تھا۔س ادرکر ک و اس تنظیم کا صدر بنایا گیا۔ڈاکٹر مونجے رام نندو چیٹرجی ،بھائی پرمانن د اور این س ی کیلگ ر ہن دو مہ ا س بھا کے اہم

(۹۴لیڈر تھے۔‘‘) شدھی کا مطلب تھا مسلمانوں کو ہندو بنانا ۔اس تحریک کا اہم لیڈر س وامی ش ردھانند وہ ش خصساس ساٹھا ک ر ش اہی ج امع مس جد لے گ ئے تھے اور تھا جسے تحریک خلافت میں مسلمانوں نے کندھوں پر ساس نے انگری زوں کے خلاف سے تقریر کروائی تھی ۔عدم تعاون تحریک میں جی ل بھی گ ئے تھے لیکن اب ساس کی دش منی ک ا نش انہ انگری ز کی بج ائے لڑنے کی بجائے انگریز کے لیے لڑنے کا راستہ اختیار کیا۔ اب مسلمان اور اسلام تھا۔سنگٹھن شدھی ہی کا اگلا پڑائو تھا یعنی پہلے مسلمان ک و ہن دو بن انے کی کوش شسانہیں ختم کردیا جائے۔کیوں ہندوستان ہندوئوں کی سرزمین ہے اور اس پ ر رہ نے ک ا ح ق کی جائے، نہیں تو صرف ہندوئوں کو ہے ۔شدھی کالفظی مطلب پاک کرنا ہے جب کہ س نگٹھن س ے م راد متح د ہون ا ہے اس ل یے ہندوس تان ک و مس لمانوں س ے پ اک ک رنے کے ل یے ہن دوئوں نے متح د ہ وکر یہ تح ریکیں چلائیں۔مولان ا

ظفرعلی خان نے ان تحریکوں کے لیے بھڑ اور ناگ کے نام استعمال کیے ہیں:

پڑا ہے سنگھٹن اور شدھی سے ہمیں پالاسادھر وہ ناگ ڈستاہے ہادھر اس بھڑ نے کاٹا ہے

(۹۵)

Page 233: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

232

ان تحریکوں کی وجہ سے ہندوستان کا امن برباد ہوا۔فسادات ک ا ب ازار گ رم ہ وا۔ش دھی اور س نگھٹن کے علمبردار مس لمانوں کوغن ڈے اور ب د مع اش کہہ ک ر پک ارتے تھے۔خودچ وری،ڈاکہ اور اغ وا کی وارداتیںسانہیں ب دنام کی ا جاس کے۔م ذہب کرتے اور مسلمانوں کواس میںبے گناہ ملوث کرنے کی کوش ش ک رتے ت اکہ کی تبدیلی کے لیے مسلمانوںکو پہلے پیسے کالالچ دیا جاتا اور اگراس سے بھی بات نہیں بنتی توزبردستی ساسے مذہب تبدیل کرنے پرمجبور کیا جاتا۔اس لامی روای ات ک و غل ط ان داز س ے پیش ک رنے کی کوش ش کیسچکے تھے س ے گئی۔شورش کاشمیری نے شانتی کمار گپت اجو مولان ا کے س اتھ س نٹرل جی ل کے قی دی رہ ایک انٹرویونقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مولانا ظفرعلی خان نے ایک دن جیل میں اذان دے کر ہمیں اذان کا مطلب سمجھایا تو ہم حیران رہ گئے کہ اس میں تو ایسی کوئی خطرناک ب ات نہیں ہے۔ہم ارے ک انوں میں@@ا یہ بات ڈالی گئی تھی کہ اذان ک ا مطلب ہے اللہ ک ا ن ام لے ک ر ک افروں پ ر ٹ وٹ پ ڑو،اس ی میںتمھ اری ابتد

قدرت اللہ ش ہاب نے ن اولٹ ’’یاخ دا‘‘میں ہن دو کے اذان کے(۹۶نجات اور اسی میں تمھاری فلاح ہے۔)ااواز کو حاملہ عورتوں کے لیے حمل کے ضیا ع ک ا حوالے سے وہم کا حوالہ دے کربتایا ہے کہ وہ اذان کی سبب سمجھتے تھے۔مسلمانوں کو شدھ ک رنے کے ل یے ای ک عم ل دہرای ا جات ا تھ ا جس کے مط ابق انہیںاام یزہ تی ار ک رکے کھلای ا جات ا تھ ا ۔اس ے پنج رتن کہ تے تھے۔) گوبر،دہی،پیشاب،مکھن اور دودھ کا ای ک

۹۷) مولانا ظفرعلی خان نے اپنی ایک کرداری نظم ’’ شدھی اور س نگھٹن کے چ ار رتن ‘‘میںمکالم اتی انداز میں ان تحاریک کے چار بنیادی ارکین،مالوی جی،چن در پ ال جی،بھ ائی پرمانن د،س وامی ش ردھانندکے

اقتدار کی ہوس اور ناپاک ارادوں کو عیاں کرتے ہوئے کچھ یوں لکھا ہے:سپوجیہ مالوی جی( ۱ )

تو گو کل میں گاڑوں گا جھنڈا دھرم کاسنگھاسن پہ بھارت کے بیٹھا اگر میںمہابن سے کٹوا کے ڈنڈادھرم کاگھمائے گا اسلام کے سر پہ مونجی

سشدھی کی مرغی دیے جائے گی روز انڈا دھرم کابنارس کے ڈربے میں ااشرم کا اچھوتوں کے منتر سے گنڈا دھرم کاحفاظت کرے گا ورن

ااگ روشن کروں گا جلا کر میں ہنڈا دھرم کاہمالہ سے لنکا تک اک

Page 234: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

233

یہی ہوگا اس وقت اجنڈا دھرم کامسلمان جہاں ہوں کچل ڈالے جائیںمری راج دھانی میں تم دیکھ لوگے

نہ ہوگا کبھی جوش ٹھنڈا دھرم کامانیہ پین چندر پال جی(۲)

کیا مجھ کو تسلیم بھارت کا راجاکسی وقت اگر ساری جاتی نے مل کرااگے سسن لے گی دنیا کہ مسجد کے بجے گا دھڑ لے دن رات باجاتو

دیوتا سروپ بھائی پر مانند(۳)مرے راج کی منتری گائے ہوگیمرے تاج کا سنتری بیل ہوگا

سان کے مرے رائے ہوگیچلیں گی جب اک ساتھ کوٹھوں سے اینٹیں تو ہمراہ اذاں کی صدا کی جگہ مسجدوںمیں

کہیں ہائے ہوگی کہیں وائے ہوگیبھارت بھوشن سری سوامی شردھانند(۴)

سشدھیبنا چکر ورتی مہاراج اگر میں تو پہلے کروں گا یگانوں کو مرا فرض ہوگا پٹھانوں کی شدھیاچھوت اور مسلمان ہوگے فارغسشدھیبڑھاپا مرا اک دن دیکھ لے گا عجم کے سجیلے جوانوں کی ااخری یاد ہوگی حرم کے نئے پاسبانوں کی شدھیمرے عہد کی

نہ پھر بھی مرا میں تو یورپ میں جاکر(۹۸کروں گا مسیحی گھرانوں کی شدھی)

شدھی اور سنگھٹن تحریکوں سے مسلمان اور اسلام دونوں خطرے میں پڑ گ ئے نومس لم اور کم زور عقی دے کے لوگ وں ک ولالچ دے ک ر بہکای ا گی ا اس ل یے مس لمانوں نے مولان ا الی اس کی س رکردگی میں انجمن تبلیغ اسلام قائم کی جس کا مقصد صرف غیر مسلموں تک اسلام ک ا پیغ ام پہنچان ا نہیں تھ ا بلکہسان کے س اتھیوں نے مس لمانوں کے س اتھ بھی عقی دہ توحی د ک ا ورد کرناتھ ا۔ڈاک ٹر س یف ال دین اور ’’تنظیم‘‘کے نام سے ایک انجمن ق ائم کی جس کی س رگرمیاں مختل ف ش ہروں میں میں ش رو ع ہ وا ۔اس

Page 235: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

234

سابھرنے والی اس لامی ط رح تبلی غ و تنظیم مس لمانوں کی ط رف س ے ش دھی اور س نگٹھن کے رد عم ل میں تنظیمیں تھیں۔ان کے علاوہ دارالعلوم دیوبند نے بھی تبلیغ کے سلسلے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

تحریک خلافت نے جس طرح مسلمانوں کو منظم اور فعال بنایا ۔ہندوستان کے مس لمان ای ک ن ئے جوش و جذبے کے ساتھ پورے عالم اسلام کے لیے مغربی استعمار سے برس ر پیک ار ہوگ ئے ۔ہن دو مہ ا س بھاااریہ سماج کے لیڈروں نے بھی شدھی اور سنگٹھن کی تحریکوں کے ذریعے ہندو ئوں کو مس لمانوں کے اور سان میں جرات اور حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔مولانا ظفرعلی خان ہن دو مہ ا س بھا اور ساکسا کر خلاف ااریہ سماجی لیڈروںجو شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں میں پیش پیش تھے، کو استعماری فتنے ک ا ایجنٹ قرار دیتے تھے جو پہلے سے تحری ک خلافت کی ناک امی کے ل یے منص وبہ بن دیاں ک ر رہے تھے ۔وہ کس ی

حال میں بھی خلافت ترکیہ کی بحالی یا بچائو کے حق میں نہیں تھے:سشدھی کا ہیں ایک وہ جو ابٹنا لگا کے

ہس کفر کا جوبن نکھار دیتے ہیں عروساڑے پرچم حریم کعبہ میں تثلیث کا

ہی کو تار دیتے ہیں یہ لکھنئو سے نصار(۹۹)

سان کے نزدیک ہے پنجاب فلسطین گویاااگھسے جس میں مسلمان ہیں مانند یہود

جن کو توحید سے ہے سیزدہ صد سالہ عنادجس کے حق میں خطرناک مسلماں کا وجود

سان کی ہے تو ہم سمجھیں گے وطنیت یہی کہ وہ ہیں عبد اور انگریز ہے ان کا معبود

(۱۰۰)

Page 236: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

235

اائی۔ ہن دو۱۹۲۷ء س ے ۱۹۲۴ش دھی اور س نگٹھن تحری ک میں ت یزی ء ت ک کے زم انہ میں اخباروں نے اس کے پرچار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ’’ملاپ،پرتاپ،ویر بھارت اور بندے ماترم‘‘ وہ اخباراتساگھل تے رہ تے تھے۔ان اخب ارات کے رد کے خلاف زہ ر تھے جو مسلمان،اسلام اور بانی اسلام حضرت محم ہہذا علاوہ ’’تیج‘‘دہلی سے نکلنے والا وہ اخبار تھا جس ک و پن ڈت م الوی جی کی سرپرس تی حاص ل تھی ل@@ا ایس ے مض امین ش ائع ہ وتے تھے جن کی وجہ مس لمانون کے عقی دے ک و ٹھیس @@ا فوقت ساس اخب ار س ے وقت سان کا خب ار ’’زمین دار‘‘ہن دو می ڈیا پہنچتی تھی۔مسلمانوں کی طرف سے بالخصوص مولانا ظفرعلی خان اور کے خلاف کمربستہ رہا۔جب تک مولانا جیل میں تھے تو ’’زمین دار‘‘ کے ا ی ڈیٹر ز ان مض امین ومنظوم ات کا جواب دلائل کے ساتھ نثر اور مولانا کی شاعری دونوں سے دیتے رہے۔اس سلس لے میں بھی زمین دار کے ایڈیٹر سید لال شاہ کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔’اختر علی خان اور راجا غلام ق ادر خ ان ک و تین

تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔حافظ سید احمد اور رام سرن کو دو دو سال کے لیے اندر کیا گیا۔ ء کو مولانا ظفرعلی خان منٹگمری جیل سے رہا ہ وئے ت و مل ک ک ا نقش ہ ہی ب دل۱۹۲۴ نومبر ۵

ہک خلافت کے بجائے شدھی اور سنگٹھن کے نعرے بلند ہ و رہے تھے۔ہن دو مس لم اتح ادجو سچکا تھا۔تحریبڑی مشکل سے ممکن ہوپایاتھا اب یہی دو قومیں ایک دوسرے کے خ ون کے پیاس ے دکھ ائی دی تے تھے۔

ء کو جمعہ کے دن لاہور کی بادشاہی مسجد تشریف لائے جہاں پ ر نم ازجمعہ کے بع د۱۹۲۴ نومبر ۱۰سانھ وں نے مل ک کے مختل ف ش ہروں کے دورے ش روع ک یے سان س ے تقری ر ک روائی گ ئی۔اس کے بع د اورمسلمانوں کو شدھی و س نگٹھن کے ش ر س ے بچ نے کی ت رغیب دی تے رہے۔’’زمین دار‘‘ میں مض امین اور نظموں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہ وا۔’’رگ ڑا،ش دھی،س نگھٹن،پ وجیہ پ ات م الویہ‘‘ جیس ی نظم وں کے علاوہ ’’فکاہات اور درتمان‘‘ جیس ے مق الات اس سلس لے کی اہم کڑی اں ہیں جس کی وجہ س ے ’’زمین دار‘‘ کیساس س ے ضمانتیں بھی ضبط ہوتی رہیں لیکن مولان ا کے قلم نے کف ر و شرس ے ج و ل ڑائی بان دھ رکھی تھی سان اخب ارات ہٹنے والے نہ تھے۔مولانا ظف رعلی خ ان نے نظم ’’لالہ کی مہ ک‘‘اور ’’حریفوںس ے دو ب اتیں‘‘میں کا ذکر کیا ہے جو شدھی اور سنگھٹن کے حوالے س ے دھ ڑا دھ ڑ مض امین ش ائع ک رتے رہے۔نظم’’لالہ کیساس نظم کے ج واب میں لکھی گ ئی ہے جس ک ا ای ک ش عرمولانا نے نظم مہک ’’پرت اپ‘‘میں ش ائع ش دہ

Page 237: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

236

سے پہلے مثال کے طور پر تحریر کیا ہے ۔شعر ہے:پنجاب کی ہوا ہی سراس ر گ ئی ب دل۔۔۔ کچل و ن ئے ن ئےہیں ظفر خان نئے نئے:

بھارت میں کل گئے ہیں دبستان نئےجس سے نکل گئے ہیں زباں دان نئے نئے

شدھی و سنگھٹن ہیں مضامین کی سرخیاںاارائش کلام ہیں عنواں نئے نئے

دہلی میں ’’تیج‘‘ ہے تو ہے لاہور میں ’’ملاپ‘‘پیدا ہوئے ہیں دشمن ایمان نئے

ز کا قلم ’’پرتاپ‘‘ کا دماغ ہے اور ناپھر کیوں تراشے جائیں نہ بہتان نئے

ہندوستاں کے باغ کے مالی ہے مولوی نی چمن کے ہیں ساماں نئے نئے ویران

ہیں لاجپت کہیں تو کہیں لالہ ہر دیلہیں قصر اتحاد کے درباں نئے نئے

’’ہندو‘‘ ہے اس طرف تو ادھر ’’بندے ماترم‘‘ااندھیاں نئی نئی طوفاں نئے نئے ہیں

(۱۰۱)

’’حریفوں سے دو باتیں‘‘’’پرتاپ‘‘ اور ’’ملاپ‘‘کو ہم کیا جواب دیں

ہم ہیں حریف بذلہ وہ دشنام کے حریفساس کے رسول کے دشمن ہیں وہ خدا کے اور

اور ہم ہیں ہر دوار کے اصنام کے حریف

Page 238: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

237

کوٹھوں پہ چڑھ کے پھینک لیں اینٹیں تو کیا ہواجب ہے مزا کہ رن میں ہوں صمصام کے حریف

وہ اور کوئی ہوں گے جنہیں ’’بندے ماترم‘‘بتلا رہا ہے لالہ منی رام کے حریف

(۱۰۲)

’’ش دھی اور س نگٹھن ‘‘کے ح والے س ے م ذکورہ ب الا اخب ارات میں دیانن د سرس وتی کی کت اب ’’س تیارتھ پرک اش‘‘ س ے ش ائع ہ ونے والے اق وال مس لمانوں کے ل یے س ب س ے زی ادہ تکل ف دہ ث ابتسان کے مرنے کے بعد منظ ر ااریہ سماج کے بانی دیانند سرسوتی کی وہ کتاب ہے جو ہوئے۔’’ستیارتھ پرکاش‘‘اائی اور شدھی اور سنگٹھن میں نہایت کارگر ثابت ہوئی۔کتاب میں نہایت واہی ات قس م کے مب احث عام پر ا کے ب ارے میں نازیب ا کلم ات اس تعمال ک یے گ ئے رد تک کے تمام انبی سے حضرت محم اادم ہیں ۔حضرت ساس پ ر اپ نی مرض ی کے بے ااس مانی کت ابوں س ے ح والے لے ک ر ہیں۔چودہ ابواب پر مش تمل اس کت اب میں

@@ا ’’انجی ل ش ریف‘‘کے ب اب اایت نم بر ا ت ا ۱۸باکانہ اور بے ہودہ قس م کے تبص رے ک یے گ ئے ہیں۔مثل ۸ انجیل کا مذکورہ حوالہ س تیارتھ پرک اش ک ا ہے(پ ر تبص رہ ک رتے ہ وئے خ دا کے ب ارے میں اورعیس ائیوں کے)

گوشت خوری کے بارے درجہ ذیل قسم کے واہیات تحریر کیے: ’’جن کا خدا بچھڑے کا گوشت کھائے توخود اس کے پرستش ک رنے والے گ ائے ،بچھ ڑے وغ یرہ ج انوروں کو کیوں کر چھوڑ س کتے ہیں۔جس ک و کچھ رحم نہ ہ واور گوش ت کھ انے کے ل یے بے ت اب رہیں وہ بج ذ

(۱۰۳قصاب کے کبھی خدا ہو سکتا ہے؟۔‘‘)اایت نم بر ۱۷’ختنہ‘‘کے ب ارے میں ’’انجی ل ش ریف‘‘کے ب اب پ ر تبص رہ ک رتے ہ وئے۱۴ ت ا ۹،

ہندوئوں کو اس عمل میںبرحق ثابت کرنے کے لیے کچھ یوں لکھا ہے: ’’اگر ختنہ کرنا خدا کو منظور ہوتا ت و ابت داء ع الم میں اس چم ڑے ک و پی دا ہی نہ کرت ا۔ یہ بغ رض حف اظتاانکھ کی پلک ہے۔چوں کہ وہ جائے پوشیدہ نہایت نازک ہے اس لیے اگر اس پہ چمڑا نہ بنایا گیا ہے جیسے

Page 239: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

238

ہو تو چیونٹی کے کاٹنے اور قدرے چوٹ لگنے سے بہت تکلیف ہو اور پیشاب ک رنے کے بع د بیش اب کے(۱۰۴بوند کپڑوں پر نہ لگے۔‘‘)

صلى الله عليه وسلممقرب فرشتوں س میت حض رت محم د کی ش ان میں ج و گس تاخانہ کلم ات بی ان ک یےاان پ ر ااخ یر میں ق ر گئے ہیں وہ قلم برداشتہ ہیں ۔ قران کریم کے سورتوں پر اپنی مرضی کی بحث ک رتے ہ وئے

تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اب اس ق ران کے مض مون ک و لکھ کرع اقلوں کے پیش نظ ر کرت ا ہ وں کہ یہ کت اب کیس ی ہے؟مجھ س ے پوچھو ت و یہ کت اب نہ خ دا ،نہ ع الم کی بن ائی ہ وئی ہے اور نہ علم کی ہ و س کتی ہے۔۔۔س ب لاعلمی کی

(۱۰۵باتیں اور توہمات ہیں۔‘‘)

ہندو ئوں اور مسلمانوں کی مش ترکہ ب ودو ب اش س ے پی دا ہ ونے والے یہی بنی ادی مس ائل تھے جس ےہلہی‘‘میں ح ل ک رنے کی کوش ش کی تھی لیکن دیانن د س ر س وتی ت و گ ائے بچھ ڑے کے اک بر نے ’’دین ااائے:گ ائے کے کوش ت سان کے خدا کے خلاف بھی خرافات بکنے س ے ب از نہیں گوشت خوروں کے ساتھ

کھانے کے حوالے سے ’’پیسہ‘‘اخبار لاہور نے پرتاپ سنگھ کے ایک مضمون کا حوالہ دے کر لکھا ہے: ’’ہم اری زن دگی ک ا ص رف ای ک مقص د ہے اور وہ یہ کہ مس لمانوں کے م ذہب ک و مٹ ا دیں۔ہن دوئوں !گئ وماتاکے گلے میں چھری پھیرنے والوں کی طرف سے تمہارے دلوں میں کوئی رحم کا جذبہ نہ ہون ا چ اہیے ۔ بھیشم کے س پوتو!ارجن کے دلاورو!اگ ر تم ای ک گ ائے کی خ اطر ک راچی س ے لے ک ر مکہ ت ک کے تم ام مسلمانوں کو قتل کردو تو بھی تھوڑا ہے ۔ہندو دھرم میں جانوروں کا گوش ت کھان ا من ع ہے لیکن مس لمانوں

(۱۰۶کا خون حلال ہے ۔کسی ہندو کو اس کے پینے میں پس وپیش نہ کرنا چاہیے۔‘‘) س وامی دیانن د سرس وتی کی کت اب’’س تیارتھ پرک اش‘‘ک و بنی اد بن ا ک ر ’’ش دھی و س نگھٹن‘‘کے علمبرداروں راجپال،سری جگت گرو شنکر اچاریہ ،دیوی سرن، کالی چ رن،س وامی بھاس کر ت یرتھ ،پرت اپ اور@@اس وامی میں بی ان بازی اں ش روع کیں۔مثل اان اور ش ان محم د صلى الله عليه وسلمس وامی ش ردھا نن د وغ یرہ نے اس لام،ق ر

بھاسکرتیرتھ نے اخبار’’پرتاپ‘‘میں ایک مضمون شائع کرتے ہوئے لکھا:

Page 240: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

239

’’میں ملکانہ راجپوتوں کی شدھی کے ح ق میں ہ وں ۔جت نے ہن دو مس لمان ہ و گ ئے ہیں وہ س ب ہن دو بن ائیں ج ائے۔س چا ہن دو مس لم اتح اد اس ی میں ہے۔م یرا یقین واث ق ہے کہ س ات ک روڑ مس لمانوں میں چن د لاکھاائے تھے ب اقی جملہ مس لمان ہن دوئوں س ے مسلمان ہی ایسے ہیں جن کے بزرگ افغانستان یا بلوچستان سے

(۱۰۷بنائے ہوئے ہیں۔‘‘) ان بیان بازیوں کی وجہ سے ہندو مسلم سیاسی اختلافات نے مذہب اور عقیدے کے اختلافات کاااریہ پبلشرنے مہاشہ راجپ ال کی ای ک روپ دھار لیا ۔ تحریری جنگ کے علاوہ عملی جنگ بھی شروع ہوئی۔ر کی شان میں نازیبا کلمات اس تعما ل ‘‘شائع کی جس میں حضرت محمد صلى الله عليه وسلمکتاب ’’رنگیلا رسولسان ک و ب ری ک ر دی ا اس پ ر سان کے خلاف مق دمہ درج کی ا لیکن جج نے ک یے گ ئے تھے ۔مس لمانوں نے ااریہ سماج نے کتابوں کی اشاعت ت یز ک ردی۔ن اموس رس ول پ ر ج ان مسلمانوں نے احتجاجی جلوس نکالے ۔ دینے والوں کی کمی نہیں تھی۔مولوی عبدالرشید نے راجپال پر حملہ کیا لیکن زخمی حالت میں انہیں بچارل بنے تو عبدالرش ید سان کا خاتمہ کردیا۔سوامی شردھانند گستاخ رسو لیاگیا اس کے بعد غازی علم الدین نے رل بنے تو غازی عبدالقیوم نے ختم کر ڈالا۔حک ومت نے پھ ر ان کے ل یے سان کو قتل کیا۔نتھورام شاتم رسو نے رل کو حکومت کی طرف ہن رسو پھانسی کی سزا تجویز کی اور ان کو پھانسیاں دی گئیں۔ اس طرح ان محبا سے پھانسی دینے کا ایک نیا سلس لہ ش روع ہ وا۔پھانس ی کے بع د حک ومت لاش ورث ا کے ح والے نہیںک رتیرل پرجان دینے والے تھی جس کی وجہ سے عوام سراپا احتجاج بن جاتے۔ مولانا ظفرعلی خان نے ناموس رسو‘‘ لکھ کر عشق رسول کی اہمیت اور عاشق صلى الله عليه وسلمغازیوں کے نام نظمیں لکھیں۔ایک نظم ’’ناموس نبیسانہوں نے لکھا کہ عش ق رس ول کاتقاض ا یہی ہے کہ دار رل کے مقام کو واضح کرتے ہوئے وضاحت سے رسو

رل کا خاتمہ کردیا جائے: و رسن کی پرواہ کیے بغیر گستاخ رسوساتار کر عزت کا تاج کفر کے سر سے

را پر نثار کر ہس خواجہ دوسر ناموکب تک فضائے غیب کی صر صر کا انتظار

اس کفر کے دیے کو بجھا پھونک مار کرہت بازو پر اعتماد جب تک نہیں ہے قو

Page 241: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

240

سبھولے سے بھی نہ مالوی پر اعتبار کر کشتی کو تاکتا ہے بھنور ہر دوار کا

خود بن کے ناخدا اسے گنگا کے پار کررل خوف جہاں سے ہے بے نیاز ہق رسو عش

خاطر میں لا رسن کو نہ پروائے دار کراجڑے ہوئے چمن سے خزاں کو نکال دے

ہل بہار کر ہن خیر مقدم فص ساماباطل سے تجھ کو لاگ ہو اور حق سے ہو لگائو

ری اختیار کر ہد عرب ہع محم وضاسلام کفر سے نہ دبا ہے نہ دبے گا

سپکار کر کہہ دو یہ سنگھٹن کی سبھا میں (۱۰۸)

مولانا ظفرعلی خان نے شدھی اور سنگٹھن کی سخت مخالفت کی۔زمیندار میں مختلف مض امینسانھ وں نے ان تحاری ک کی م زاحمت میں ک ئی نظمیں بھی لکھیں جس میں زی ادہ شائع کیے۔نثر کے علاوہ @@ا ’’نامس لمانوں اور مس لمانوں ک ا ف رق،تق دیر کی گھڑی ال کی ٹن ت ر م الوی جی ک و نش انہ بنای ا گی ا ۔ مثل ٹن،اردوئے معلی،نمس تے علیکم،اس لام اور اس کے حری ف،س نگھٹیے،ش دھی اور س نگٹھن کے چ ارسان کی سشدھی کی ب رات،م الوجی اور رتن،ہیموں بقال کی فوج،مالوی جی کی یاد میں، مالوی جی کا بھٹہ،سبل کا حشر،لاہور میںمہاراجا نصراللہ ن و مس لم سمدھی،لٹھ اور طپنچہ،لالہ کی مہک،ہاتھی کے دانت،جان ہد مسعود،ھدی راتیز تربر خواں چو محمل راگراں بینی،اسلام کا بیباک بیڑا،کی ا پ دی اور کی ا پ دی ک ا کا ورواانکھ اور س نگھٹن ک ا ہ اتھ،ش دھی ک ا ق اتلانہ ش وربا،اس لام کی بجلی اور ش دھی ک ا خ رمن،ش دھی کی ری،س ودائے ہس ن ب ساو لی الابص ار،ن امو دھمکی اں،سلس بیل کی چن د بون دیں،حریف وں س ے دو ب اتیں،ف اعتبرو ی ا خ ام،م وتمر ش ملہ کی گفت و ش نید ک ا انج ام اوراس لام ک ا ک وکبہ خس روی وہ نظمیں ہیں ج و ش دھی اور

Page 242: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

241

سنگھٹن کی م زاحمت میں لکھی گ ئیں۔ م ذکورہ نظم وں کے علاوہ بھی ک ئی نظمیں ایس ی ہیں جس میںان تحاریک کے حوالے موجود ہیں۔

مولانا ظفرعلی خان کے خیال میں شدھی اور س نگھٹن کے ناس ورکی وجہ س ے ہن دو مس لم اتح ا دختم ہ وا جس ک ا فائ دہ اس تعماری حک ومت ک و پہنچ ا۔اس کی وجہ س ے تحری ک خلافت ناک ام ہ وئی۔ ہندوستانیوں نے برطانوی حکومت سے اپ نے مطالب ات من وانے کے ل یے اور اپ نے حق وق م انگنے کے ل یے ج وسان کو ان قوم پرستانہ تحریکوں کے ذریعے کمزور بن انے کی کوش ش کی گ ئی۔حک ومت تحاریک شروع کیں ج و ت رک م والات اور ع دم تع اون کی تحریک وں ک و دب انے میں ناک ام دکھ ائی دے رہی تھی لیکن ش دھی

ااسان کردیا۔ اورسنگٹھن جیسی تحریکوں نے حکومت کا کام اگر تحریک خلافت کامیاب ہوتی تو اس ک ا فائ دہ مس لمانوں کے س اتھ براب ر ہن دوئوں ک و بھی ہوت ا کیوں کہ تحریک کا بنیادی مقصد تھا انگریز حکومت کو ناکام ثابت کرکے اس کا خ اتمہ کرن ا تھ ا اور اگ رہہذا حک ومت باالفرض انگریز بوریا بستر باندھ کرچلے بھی جاتے تو ہندوس تان میں اک ثریت ہن دوئوں کی تھی ل بھی ہندوئوں کی مرضی کے مطابق بنتی۔لیکن مولان ا ظف ر علی خ ان ج و کہ گان دھی جی ک و مکم ل ب ریسان کے خیال میں پنڈت مالوی جی اور سوامی شردانند جیسے ضمیر فروشوں کی وجہ الذمہ سمجھتے تھے ۔ سے تحریک خلافت ناکام ہوئی ۔مولان ا ظف رعلی خ ان نے اپ نی ای ک ط نزیہ نظم’’م الوی جی کی ی اد میں‘‘

میں پنڈت مالویہ کو اس بغض و عناد و فساد کی جڑ قرار دیا ہے:ااگئے یاد مالوی دیکھ کے حال ملک کا

ہن فساد مالوی روح ،عناد مالوی جاجن کو لقب دیا گیا پوجیہ پاد مالوی

تفرقہ کی زمین میں بغض کا بیج ڈال کرفتنہ کے کھیت کے لیے بن گئے کھاد مالوی

جن کو لقب دیا گیا پوجیہ پاد مالویلاد کے اپنی پیٹھ پر حربہ سنگ و خشت کو

ہم خستہ سے چلے کرنے جہاد مالوی مسل

Page 243: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

242

جن کو لقب دیا گیا پوجیہ پاد مالویکی ہے کھڑی مہا سبھا تا کہ ہو کانگرس تباہ

مانگ رہے ہیں قوم سے کام کی داد مالویجن کو لقب دیا گیا پوجیہ پاد مالوی

سجدا دوست سے دوست الگ ،بھائی سے بھائی ہے ملک میں پھوٹ ڈال کر کیوں نہ ہوں شاد مالوی

(۱۰۹جن کو لقب دیا گیا پوجیہ پاد مالوی)

ء تک کے فرقہ ورانہ فسادات نے دونوں قوموں کے درمی ان بہت ب ڑی۱۹۲۷ء سے لے کر ۱۹۲۲ خلیج پیدا ک ردی۔ ہن دوئوں اور مس لمانوںکے درمی ان تحری ک خلافت کے سلس لے میں اتح اد کی ج و منظماازادی تک دوبارہ قائم نہ ہوسکی۔چوں کہ تحریک خلافت کی ناکامی کی منص وبہ اائی تھی وہ شکل سامنے

ء تک اجتم اعی ط ور پرہندوس تانیوں میںاس تعماری۱۹۲۷بندی میں استعماری حکومت کا ہاتھ تھا اس لیے ساٹھانے کی طاقت نہ رہی۔ ااواز ء کے بعد سیاسی سطح پر کچھ واقع ات ایس ے۱۹۲۷پالیسیوں کے خلاف

ضرور رونما ہوئے جن کی وجہ س ے اختلاف ات کے ب اوجود مش ترکہ مف اد کے ل یے ہن دو مس لم قوتیںس امراجیء تک نشیب و فراز کے ساتھ چلتا رہا۔۱۹۳۵حکومت کے خلاف متحد ہوئیں ۔یہ سلسلہ

ہندوس تان میں ابھی ش دھی و س نگٹھن جیس ے ف رقہ وارانہ فس ادی تح ریکیں اپ نی انتہ ا پ ر تھیں کہاائی نی اص لاحات کے سلس لے میں ای ک کمیش ن ہندوس تان بھیج نے ک ا اعلان کی ا۔چ وں کہ حک ومت نے ¤ا تم ام پ ارٹیوں نے اس کی مخ الفت کمیشن میں ہندوس تان س ے ک وئی مم بر نہیں لی ا گی ا تھ ا اس ل یے تقریب

ہاس کی بھر پور مزاحمت کی اور کمیشن۱۹۲۷کی۔نومبر کو کمیشن ہندوستان پہنچا تو ہندوستانیوں نے کے خلاف جلسے جلوس نکالے گئے۔سائمن کمیشن کے بائیکاٹ سے فائدہ یہ ہوا کہ ہندو مسلم ایک بار

پھر انگریز سامراج کے خلاف متحد ہوگئے۔اشرف عطاء نے لکھا ہے:

Page 244: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

243

اا زادی کے اامد س ے ہندوس تان کی ف رقہ وارانہ فض ا میں ای ک ب ار پھ ر اتح اد واتف اق اور ’’سائمن کمیشن کی اازادی ہل ااس مان ہن د س ے ف رقہ پرس تی کی زہ ریلی گھٹ ائیں چھٹ گئیں اور حص و نعرے بلند کر دئیے گئے اور

اائے۔‘‘) (۱۱۰وطن کی خاطر ہندو مسلم دوش بدوش کھڑے جدوجہد کرتے نظر ساس وقت تک تحری ک خلافت میں اختلاف ات کی وجہ س ے دو حص وں میں تقس یم ہ و مسلم لیگ سچکی تھی اور لاہور کی ٹولی نے سر محمد ش فیع کی زی ر نگ رانی ’’مس لم ک انفرنس‘‘ کے ن ام س ے ای کساس وقت مس لم لی گ میں نہیں تھے لیکن س ر محم د ش فیع لگ گروہ بنا لیاتھا۔مولانا ظفرعلی خان اگر چہ ساس نے مس لمانوں سان کے خیال میں مسلم لیگ ک و تقس یم ک رکے کے اس عمل کے سخت مخالف تھے ۔اال انڈیا مسلم لیگ سے سر محمد شفیع کی بغاوت‘‘ سے چن د اش عار پیش کی طاقت کو تقسیم کیانظم’’

کیے جاتے ہیں:سر محمد شفیع لاہوری

اپنی ٹولی الگ بنانے لگےلیگ کے اقتدار کی بنیاد

ااپ ڈھانے لگے اپنے ہاتھوں سے ہن قوت کو ااپ اپنے ستو

ہز ثقل سے ہٹانے لگے مرکڈال کر افتراق ملت میں

زور اسلام کا گھٹانے لگے(۱۱۱)

مسلم کانفرنس کی طرف سے سرمحمد شفیع نے سائمن کمیشن بائیکاٹ کے بجائے حمایت ک ا اعلان کر دیا۔جواز یہ پیش کیا گیا کہ محض اس بات پر کمیشن کا بائیکاٹ ص حیح نہیں ہے کہ اس میںسرکن شامل نہیں کیاگیا۔اگر چہ بعد میںکمیشن کے سفارش ات س ننے کے بع د وہ گ روہ ہندوستان سے کوئی بھی اس کمیشن کا مخالف ہو گیالیکن مولان ا ظف رعلی خ ان نے لاہ ور کی مس لم لی گ کے اس ط رز عم ل

Page 245: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

244

اازادی سان کی خوب خبر لی۔نظم ’’لاہور مس لم لی گ، االہ کار سمجھتے ہوئے ساسے حکومت کا کی وجہ سے اور غلامی کا تصوراور وطن پرست اور سائمن کمیشن‘‘سے چند مثالیں ملاحظہ ہو:

جتنے اس خطے کے ٹوڈی ہیں مبارک ہو انہیںکہ غلامی کی طلب گار ہے لاہور کی لیگ

ساس کی لونڈی سائمن اس کا خداوند یہ ہض سرکار ہے لاہور کی لیگ غازہ عار

اائے تو قبل از مغرب مفتی لندن کا اگر روزہ کھلوانے کو تیار ہے لاہور کی لیگ

صلہ کیا کم ہے یہی قوم کے غداروں کوکہ حکومت کی وفادار ہے لاہور کی لیگ

(۱۱۲)

ہم عمل اب تک نہیں جن کو ملی توفیق اقداسان رجعت پسندوں کا ااج کل لاہور ہے مرکز

ساونچا لگ رہا ہے ڈھیر راوی پر ہمالہ سے بھی وفاداری کے دفتر ہیں خوشامد کے پلندوں کااازادی کی کیا جانیں کلیسا کے یہ پٹھو قدر

مقام اس جذبہ کا ہے دل، حرم کے دردمندوں کا(۱۱۳)

مولانا ظفرعلی خان نے ’’لاہور لیگ‘‘ کو ٹوڈیوںکا گروہ کہہ ک ر پک ارا۔مولان ا ٹ وڈی کی اص طلاحسان کے خی ال االہ کار ہوتے تھے۔ سان لوگوں کے لیے استعمال کیاکرتے تھے جو مفاد پرست ہو اور استعمار کے میں سر محمد شفیع نے سائمن کمیشن کا خیر مقدم کرکے پوری ق وم س ے غ داری کی ہے اورایس ا دراص ل

Page 246: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

245

انگریز حکومت کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے کیاگیا۔مولانا ظفرعلی خان نے ک ئی نظم وں میں سائمن کمیشن کی مخالفت کی اورعوام سے سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کی اپیل کی۔’’س ائمن کمیش ن

کے خیرمقدم‘‘میں سڑکوں پر نکل کر ہڑتال کرنے کی درخواست کی ہے:

اائیں سائمن اس طرح استقبال ہو جائے جب کہ پہنچیں جس جگہ نازل وہاں ہڑتال ہو جائےخلافت، کانگرس اور لیگ کا ایکا یہ کہتا ہے

ہن پیر کی ہر چال ہو جائے ااسما سالٹی کہ (۱۱۴)

نظم ’’س ائمن کمیش ن کی نوازش ات ک ا تج ربہ‘‘میں کمیش ن کی سفارش ات پ ر تنقی د ک رتے ہ وئے مولانا نے اسے وطن کی عزت کے لیے خطرہ تصور کیا ہے۔کیوں کہ ایک تو اس میں ہندوس تانی رک نیت ک واابادی کے لحاظ سے نشستوں کی تخص یص ک و نظر انداز کیا گیا تھا اوردوسرا یہ کہ پنجاب اور بنگال میں

ایکٹ کے تحت۱۹۱۹بھی مدنظر نہیں رکھا گیا جو مسلمانوں کو قاب ل قب ول نہیں تھ ا۔دو عملی نظ ام) ص وبوں میں بعض اختی ارات اداروں اور بعض گ ورنروںکے پ اس ہ وتے تھے(ک ا خ اتمہ،وف اقی ط رز حکومت،جداگانہ طرز انتخاب، صوبوں کی داخلی خودمختاری ،سندھ کو بمبئی سے علیح دہ ک رکے ال گسان کی صوبہ بنانا وغیرہ کے سفارش ات قاب ل قب ول ض رور تھے لیکن ہن دو اکثری تی ص وبوں میں مس لمانوں ک و اابادی س ے زی ادہ نشس تیں دین ا ہن دوئوں ک و قاب ل قب ول نہیں تھ ااس ل یے مولان ا کے خی ال میں کمیش ن کے سفارشات کو ماننا غلامی کو طول دینے کے مترادف عمل تھا کیوں کہ یہ ’’پھوٹ ڈالو اور حک ومت ک رو‘‘ااپس میں ل ڑانے کی ای ک ن ئی ت دبیر کی پالیسی کے تحت ہندو اور مسلم کو اقلیت اور اک ثریت کے ن ام پ ر سان س ے تع اون کے ص لے میں تھی۔مولانا نے عوام کو خبردار کیا کہ ڈیڑھ سو سال انگریزوں کی وف اداری اور

ہندوستانیوں کو کیا ملا؟کہ اب ایک بار پھرانگریز ہندوستانیوں سے تعاون کا متمنی ہے۔کمیشن سے تعاون کرنے والے یہ تو فرمائیں

سان کو کیا دے گا ااخر اس خوشامد کا صلہ کہ

Page 247: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

246

نئی عزت ملے گی کون سی ان کاسہ لیسوں کووہ کس سرخاب کے پر ان کی ٹوپی میں لگا دے گا

وفا کی ناک رگڑے گی اگر یہ اس کی چوکھٹ پرتو کیا وہ بیڑیاں ان کی غلامی کی بڑھا دے گا

یہ سچ ہے لے مریں گے کچھ نہ کچھ ان سے موالاتیکسی کو سر کرا دے گا کسی کو جج بنا دے گا

مگر یہ وہ چچوڑی ہڈیاں ہیں خوان مغرب کیجنہیں وہ پھینک کر مشرق کے کتوں کو لڑا دے گا

تعاون کرکے انگریزوں سے اب تک کیا لیا تو نےنہ سمجھے ہو تو سمجھو، تم کو جو دے گا خدا دے گا

(۱۱۵) نظم ’’مغربی بگولہ‘‘میں کمیشن کو استعماری حکومت کے ظلم و جبر کی ایک ن ئی چ ال ث ابت

کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ اصلاحات کے نام پر ملک کے بربادی کا سندیسہ ہے:

ااندھی اائی ہے مغرب کی ساڑانے بگولہ بن کے مشرق کے چمن کو

کمیشن تازہ کرنا چاہتا ہےہم کہن کو پھر استبداد کی رس

خدارا اب تو چھوڑو خانہ جنگیہس وطن کو بچانا ہے جو نامو

(۱۱۶) ء ک و۱۹۲۸ف روری ۳عوام کے شدید احتجاج ،جلوسوں اور ہڑتالوں کے ب اوجود س ائمن کمیش ن

ء کو گرمیاں انگلستان میں گزارنے کے لیے کمیشن و اپس چلا گیا۔۱۹۲۸مارچ ۳۱ہندوستان پہنچ گیا۔

Page 248: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

247

اایایہاں مختل ف دورے ک یے اور ۱۱ ۱۰(۱۱۷ء ک و واپس چلا گی ا۔)۱۹۲۹ اپری ل ۱۳۔ اکتوبرکو واپس اانا تھ ا ۔ع وام نے ہ ر جگہ پ ر احتج اجی نع روں اور ک الے جھن ڈوں۱۹۲۸مارچ ء کے دن کمیشن کو لاہور

سپرزور مخ الفت میں زبردس ت تقری ریں کیں۔ کے مظ اہرے ت یز ک ر دیے۔مولان ا ظف رعلی خ ان نے ان کی سان ایام کی یادگار ہے ۔چند اشعراشعار ملاحظہ ہو: نظم’’سرجان سائمن کا دوسرا مقاطعہ‘‘

ااگیا سائمن صاحب کے استقبال کا وقت جاگ اے لاہور اپنے فرض کو پہچان

اانکھیں بچھائی جا چکیں ان کے رستے میں کئی ہن جگر چھڑکائو کا سامان کر تو بھی اے خو

سان کو لینے دیں گے ایک دم چین خود لیں گے نہ گھر سے اے پنجابیوں نکلو یہ جی میں ٹھان کر

ساتریں تو کالی جھنڈیاں ہوں سامنے ریل سے جن کے اندر تم کھڑے ہو سینہ اپنا تان کر

ہر قدم پر ہو کمیشن کا مکمل بائیکاٹہض ملک میں ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کر طول و عر

(۱۱۸)سان کے س اتھیوں جن میں علامہ اقب ال،س ر چوں کہ مسلم لیگ کا ناراض گ روہ س رمحمد ش فیع اور عبدالقادر،میاں شاہ نوازاورسردار حبیب اللہ جیسے ذی اثر لوگ کمیشن کے استقبال کی تی اریوں میںمص روفسان کی ط رف بھی تھے ۔جس میں ک انگرس ک ا م والاتی گ روہ بھی ش امل تھ ا۔ مولان ا نے اپ نی نظم وں میں اشارے کیے ہیں۔مولانا نے زور دار تقریریں کیں اور سیاہ جھنڈوں کا جلوس تیار کراکے لاہ ور ریل وے سٹیش ناایا جس کی وجہ س ے ع وام کمیش ن سرخ کیا۔اس روز کے بائیکاٹ میں ایک ناخوش گوار واقعہ بھی پیش کا ساس دن کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: اور حکومت کے خلاف مزید مشتعل ہوئی۔اشرف عطانے

’’ جب سائمن کمیشن لاہور پہنچا تو لاہور میں لاجپت رائے اور مولانا ظف رعلی خ ان کی قی ادت میں س یاہ جھنڈوں سے زبردست جلوس نکالا گیا۔یہ جلوس موچی دروازہ سے ش روع ہ و ک ر ش ہر کے مختل ف حص وں

Page 249: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

248

کا چکر کاٹتا ہ وا ریل وے سٹیش ن پ ر پہنچ ا۔لیکن ریل وے سٹیش ن کی محص ول چ ونگی کے ق ریب خ ار دار جنگلے لگا کر جلوس کو روک دی ا گی ا۔مس ٹر س کاٹ س ینئر س پرنٹنڈنٹ پ ولیس لاہ ور کی قی ادت میںبھ اری جمعیت خاردار جنگلے کے قریب کھڑی تھی،جیسے ہی سائمن کمیشن لاہور ریل وے سٹیش ن پ ر پہنچ ا ت وساٹھی۔۔۔۔مس ٹر س کاٹ نے ج و ب ڑا فرع ون م زاج انگری ز تھ ا لاٹھی چ ارج ش روع نعروں سے ساری فضا گ ونج کردیا۔اس وقت مولانا ظف رعلی خ ان نم از پ ڑھ رہے تھے ۔س کاٹ نے لاجپت رائے پ ر لاٹھی برس ائی ۔ض رب

(۱۱۹ااپ کے دل پرلگی اور یہی ضرب لاجپت رائے کی موت کا باعث ہوئی۔‘‘) لاجپت رائے کی موت کی وجہ سے ک افی ب دمزگی پی دا ہ وئی۔مولان ا ظف رعلی خ ان س میت ڈاک ٹر ستیہ پال،ڈاکٹر گوپی چند بھارگواور سردار دول سنگھ وغیرہ نے اپنی تقریروں میں یہ بات واضح ط ور پ ر کہی کہ لاجپت رائے کی موت کا انتق ام لی ا ج ائے۔جس کے بع د نوج وان بھگت س نگھ کی راہنم ائی میں ای ک ال گ تش دد پس ندتنظیم ب نی۔ جس نے مرک زی اس مبلی میں بم پھینکے۔گ ورنر ج نرل لارڈ ارون کے ٹ رین ک و ساڑانے کی کوشش کی ۔مولانا ظفرعلی خان اور لالہ کیدارناتھ پر رائے بہادر لچھے صاحب نے رپ ورٹ ک رکےااریہ س ماجی تھے اور ایک مہی نے کے ل یے جی ل بھیج دی ا ۔مولان ا ظف رعلی خ ان نے لاجپت رائے) ج و ک ٹر سچکے تھے( کی م وت پراس تعماری حک ومت اخب ار ’’بن دے م اترم‘‘کے ای ڈیٹر تھے لیکن اب کانگرس ی بن سان س ے ہم دردی سے سخت برہمی اور ناراضگی کا اظہ ار کی ا لاجپت رائے کی ش ان میں نظمیں لکھ ک ر

کا اظہار کیا:اازادی پر ہم ہیں سو جان سے قربان جس

لاجپت رائے بھی تھا اس کے طلب گاروں میںرکھی احرار نے اس ملک میں جس کی بنیاد ہر فلک بوس کے معماروں میں تھا وہ اس قصاس کی تقریر کو بخشی گئی تھی جو تاثیر

ہے کہاں وہ اثر انگریز کے ہتھیاروں میںلوگ کہتے ہیں اسے کشتہ تہذیب فرنگجو پلی ہے ستم و جور کے گہواروں میں

Page 250: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

249

ہن شہیداں اک دن رنگ لائے نہ کہیں خویہی چرچا ہے ہر اک شہر کے بازاروں میں

(۱۲۰) ہندوس تان میں ک انگرس کی ط رف س ے س ائمن کمیش ن ک ا مکم ل بائیک اٹ کی ا گی ا کی وں کہاائین سازی ضروری ہے اور حک ومت برط انیہ چ اہتی ہے کانگرس کے خیال کے مطابق اگر ہندوستان کے لیے اائی نی اص لاحات کی ج ائے ت و وہ ص رف ک انگرس کی نمائن دگی میں ممکن ہے، بج ائے اس کے کہ کہ برطانیہ سے کمیشن بھیجا ج ائے۔دوس ری اہم ب ات یہ تھی کہ جس وقت کمیش ن کے اراکین ک ا اعلان کی اسانہوں نے حکام بالا کو اس اندیشے سے خبردار بھی کی ا ساس وقت پٹیل انگلستان کے دورے پر تھے اور گیا کہ اس قسم کا کمیشن کسی صورت میں بھی ہندوستانیوں کو قابل قب ول نہ ہوگ الیکن پھ ر بھی ہندوس تانیوںاائین سازی کے حق سے مح روم رکھ ا گی ا۔ مس لم لی گ کے س رمحمد ش فیع گ روہ نے اس کو خوداپنے لیے سان کا خیال تھا کہ کمیشن کے سفارشات مسلمانوں کے ح ق میں ہ وں گے ت اہم لیے حمایت کی کیوں کہ

وہ خیال بھی غلط ثابت ہوا۔ سائمن کمیشن کے دوسرے دورے سے پہلے کانگرس نے ورکنگ کمیٹی کو کمیش ن کے مق ابلےاال پ ارٹی ک انفرنس بلائی گ ئی جس کے تیس رے میں دستور بنانے ک ا ک ام س ونپ دی ا۔اس مقص د کے ل یے

ء ک و ج واہرالال نہ رو کی قی ادت میں ای ک کمی ٹی بن ائی گ ئی۔کمی ٹی نے۱۹۲۸ م ئی ۱۹اجلاس میں ء تک ایک رپورٹ تیار کرکے پیش کی ج و ت اریخ میں’’نہ رو رپ ورٹ ‘‘کے ن ام س ے مش ہور۱۹۲۸اگست

ہق لکھن و میں ہے۔نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کے دیگر مطالبات س میت ج داگانہ ط ریقہ انتخ اب جس ے میث ا تسلیم کر لیا گیا تھا اور سائمن کمیشن رپورٹ کا بھی حصہ تھا منسوخ کر دیا گیااس لیے مس لم لی گ نے اس رپ ورٹ کی س خت مخ الفت کی۔قائ داعظم نے اس کے مق ابلے میں چ ودہ نک ات پیش ک یے۔مولان اساس وقت ت ک ج داگانہ اازاد کے ساتھ مولانا ظف رعلی خ ان نے بھی اس کی تائی د کی کی وں کہ وہ ابوالکلام انتخابات اور تقسیم در تقسیم کے عمل کے حق میں نہیں تھے بلکہ ہندو مسلم اتح اد و اتف اق کے متم نیسان کے خی ال میں اگ ر تھے تا کہ مش ترکہ کوششوںس ے اس تعماری حک ومت س ے نج ات حاص ل کی ج ائے۔ ہندو نے مسلم سے ووٹ لیا یا مسلم نے ہندو سے ووٹ لیا ت و یہ ای ک سیاس ی مع املہ ہے اس س ے نہ اس لام

Page 251: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

250

ہب جداگانہ‘‘ اسی موضوع پر لکھی گئی کو خطرہ ہے اور نہ مسلمانیت کو۔بہارستان میں شامل نظم ’’انتخاہے:

مذہب کی شرط کیا ہے مسلماں کے لیےہد الزام جس کے نہ ماننے سے وہ ہے مورایمان غیب پر ہو مگر پختگی کے ساتھ

اان میں جواب تھا اس سوال کا یہی قراعلان کر رہے ہیں مگر مفتیان ہند

سجداگانہ انتخاب اس باب میں ہے شرط ساٹھ گئی تو بس اسلام مٹ گیا یہ شرط

ہندوستان میں خانہ ملت ہوا خرابہندو سے لے لیا اگر اسلامیوں نے ووٹ

تھامے ہوئے چلیں گے وہ الحاد کی رکاب(۱۲۱)

مولانا ظفرعلی خان نے نہرو رپورٹ کی حمایت میں نظمیں لکھیں،مضامین شائع کیے،تق اریر کیںسان کو اور اخبار ’’زمیندار‘‘ کو بہت سارے الزام ات ک ا س امنا بھی کرن ا پ ڑا۔ نظم ’’ہ اں جس کی وجہ سے

سان الزامات کے رد میں لکھی گئیں ہیں: ظفرعلی خان ہندوزئی نہروانی‘‘اور’’پردہ اور نہرو رپورٹ‘‘لقب’’حاجی‘‘بھی ہے ’’ہندوزئی‘‘بھی’’نہروانی‘‘بھی

ااخر چاہیے تھی اک نشانی بھی مرے ایمان کو (۱۲۲)

ساٹھ کر بے حجابی کی زمیندار اور کرے تائید یہ وہ الزام ہے جس پر ہماری عقل حیراں ہے

رر سے ہم نے کی ہے سرتابی ہد پیغمب کب اس ارشاکہ پردہ میں حیا ہے اور حیا سے قائم ایماں ہے

Page 252: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

251

(۱۲۳) سائمن کمیشن کی کامیابی کے لیے وزیر ہند لارڈ ب رکن ہی ڈ مسلس ل گورنرج نرل)وائس رائے(ہن د لارڈ ارون سے رابطے میں رہے۔ابتداء میں تو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ مسلمان ج و کہ ہن دوئوں س ے تحریک خلافت کے سلسلے میں متنفر ہیں اور باوجود شملہ کانفرنسوں کے ان کے درمیان ص لح کی ک وئیگنجائش موجود نہیں۔ تو ایس ے میں مس لم لی ڈران ض رور کمیش ن کی حم ایت ک رکے ہماراس اتھ دیں گے۔ لیکن کمیشن کے ہندوستان پہنچنے کے بعد مسلم لی گ کے چن د لوگ وں اور موالاتی وں کے علاوہ بائیک اٹسان کی ہی بائیکاٹ کا سامناکرنا پڑا۔جب نہ رو رپ ورٹ پیش کی گ ئی ت و مس لمانوں کی مخ الفت س ے پھ ر

سامید پیدا ہوئی۔تارا چند نے نہرو رپورٹ پر ارون کے ردعمل کے حوالے سے لکھا ہے:@@ا تم ام مس لمان اس منص وبے کے سامی د تھی کہ بائیک اٹ ناک ام ہ و ج ائے گ ا کی وں کہ تقریب ’’ارون ک و اب خلاف تھے ۔جسے نہرو کمیٹی نے دس تور میں مس لمانوں کی نمائن دگی کے ل یے پیش کی ا تھ ا۔جن اح نےاارہی تھی۔اس ل یے اس خلیج کو پاٹنا چاہا مگ ر ناک ام رہے تھے اور اب کس ی قس م کی مف اہمت نظ ر نہیں ساس کے خیال میں سب سے بہتر طریقہ یہ تھا کہ اپنی پالیسی پر قائم رہا جائے یہ اں ت ک کہ کمیش ن اپ نی

(۱۲۴رپورٹ پیش کردے۔‘‘)اابادیاتی حکومت کا مطالبہ کیا گیا تھااور حکومت کو اازادی کی بجائے نو نہرو رپورٹ میں مکمل

دسمبر تک نہرو رپورٹ کو دستور کے ط ور پ ر ناف ذ نہیں کی ا گی ا ت و یہ۳۱دھمکی دی گئی تھی کہ اگر رپورٹ خود بخود ختم ہو جائے گی اور سول نافرمانی کی تحریک شروع کی جائے گی۔سائمن کمیشن کی

ء میںپہلی گول میز ک انفرنس میں۱۹۳۰ناکامی کے بعد گول میز کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوا تاہم نومبر ء ک و رات ب ارہ۱۹۲۹ دس مبر ۳۱کانگرس نے ش رکت نہیں کی اور نہ رو رپ ورٹ منظ ور نہ ہ ونے کی وجہ

اازادی کا اعلان کر دیا گیا۔مارچ ء کو نمک سازی کی تحریک ش روع کی گ ئی ۔۱۹۳۰بجے سے مکمل قانون کی خلاف ورزی پر دوسرے کانگرس ی لی ڈروں کے س اتھ مولان ا ظف رعلی خ ان ک و بھی تین س ال قی د کی سزا س نائی گ ئی لیکن دوس ری گ ول م یز ک انفرنس میں ک انگرس کی ش مولیت کی خ اطر لارڈ ارون نے گاندھی جی سے ایک معاہدہ کیا جس میں سیاس ی قی دیوں ک و رہ ا کی ا گی ا۔ جس ے ت اریخ میں ’’گان دھی

ء۱۹۳۰ارون پیکٹ‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔مولانا بھی ڈیڑھ س ال بع د رہ ا ک یے گ ئے۔ہندوس تان میں

Page 253: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

252

سپر اازادی کی ااغ از ،ح ریت اور کام ل سپرجوش مزاحمت کا نئے سرے سے کے بعدمغربی استعمار کے خلاف عزم جدوجہد کا اندازہ نظم’’تخت یا تختہ ‘‘سے لگایا جا سکتا ہے:

پہلومیں ہو دل ،دل میں ہو یقین،سر پر کفن،کف میں ہو سناںاازادی کا جب جمع یہ اجزا ہوتے ہیںبنتا ہے قوام

اازاد ہوئی ہق خدا انگورہ سے لے کر کابل تک مخلواازادی کا دہلی کی خطا کیا ہے کہ یہاں چھلکا نہیں جام

ہخ وطن کی جانب سے پیغام کوئی انگریز کو دے تاریاازادی کا ہب بام ااتا ہوا تم بھی دیکھو گے سورج ل

اازاد منش انسانوں کے سدنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں اازادی کا اازادی کی یا تخت مقام یا تختہ جگہ

(۱۲۵)سان کی سیاس ی زن دگی مولانا ظف رعلی خ ان جب گ ا ن دھی جی ارون پیکٹ میں رہ ا ک یے گ ئے ت و

اای ا۔ ء ک وکراچی میں ک انگرس کی ای ک اجلاس میں ش ریک ہ وئے لیکن نم از کے۱۹۳۱میںای ک نی ا م وڑ وقت صدر جلسہ سے اجلاس روکنے کی درخواست کی گئی جو نامنظور ہوئی۔سردار پٹیل،گان دھی جی اوراازاد اجلاس میں موج ود تھے جنھ وں نے اجلاس ج اری رکھ نے ک ا حکم دی ا۔اس واقعے نے مولان ا اب ولکلام ااب اد کہہ ک ر ساس وقت اجلاس ک و خ یر جیسے پانچ وقت کے صاحب ترتیب نمازی کو نہایت رنجی دہ کی ا۔سروک ا ت ک نہیں۔اس کے بع د مولان ا ااگ ئے۔تعجب کی ب ات یہ تھی کہ مولان ا ک و کس ی نے واپس لاہ ور کانگرس کے کسی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے ۔کانگرس کی ملح دانہ اور ہن دو مہ ا س بھائی ذہ نیت کیااب اد کہہ گ ئے۔ برط انوی غلامی س ے ہندوس تان ساسی وقت خ یر وجہ سے مذہبی عقیدت میں وہ کانگرس کو

ء ت ک کس ی نہ کس ی ح والے س ے ک انگرس س ے وابس تہ رہے لیکن۱۹۳۶ک و نج ات دلانے کی خ اطر سانھ وں نے ک انگرس،گان دھی جی اور دوس رے رہنم ائوں پ ر تنقی د کرن ا ش روع ک ردی ۔نظم۱۹۳۴ ء میں

۱۹۳۱ کی یادگ ار ہے۔۱۹۳۴ م ارچ ۲۱’’شیطانی حکومت کے ساتھ گاندھی جی کا مو دبانہ تعاون‘‘

Page 254: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

253

ہس اح رارکے پلیٹ ف ارم س ے سان کی زیادہ تر سرگرمیاں مجلس احرارکے ل یے مختص ہ و گئیں اور مجل ء سے ہی اازما ہوتے رہے: مغربی استعمار کے خلاف نبرد

’’دوسائے‘‘ہر دہلی پر علم احرار کا لہرائے گا مینا

صف استبداد کے حلقوں میں بچھ جائے گی ماتم کیاانکھیں یکایک خیرہ ہوگی دیو استعمار کی ہماری تیغ جوہردار عریاں ہوکے جب چمکیہماری سر پہ دو سائے ہیں، ایک اللہ کا سایہ

رس کا جو رحمت ہے دو عالم کی ہت اقد اور ایک اس ذا(۱۲۶)

ء سے ایک بار پھر اسلامی عقائد کو ٹھیس پہنچانے کا سلسلہ ش روع ہ و گی ا۔س تمبر۱۹۳۱سال ر کی۱۹۳۱ نی اس لام حض رت محم د ء کو مغل پورہ انجینئرنگ کالج کے پرنسپل)وٹیک ر( نے اس لام اور ب ان

سوٹ لک‘‘نے اس واقعہ کو نمایاں کرکے پرنس پل اا شان میں گستاخی کی۔ہندوستان کے مشہور اخبار ’’مسلم کے خلاف اداریے لکھے جس کی وجہ سے اخبار کے ایڈیٹر مولوی نورالحق کو گرفتار کر لیا گیا۔کالج کےسانھوں نے ہڑتال شروع کرکے کالج کو ت الے لگ ا طلبہ حکومت کی کاروائی سے سخت مشتعل ہوئے اس لیے دیے۔انگری ز حک ومت میں انگری ز کے نمائن دے کے خلاف لکھن ا واقعی دل گ ردے ک ا ک ام تھ ا اس ل یےااوٹ ل ک ک ا پیغ ام‘‘لکھ کراخب ار کے ای ڈیٹر کی مولان ا ظف رعلی خ ان نے بھی اخب ار کے ن ام نظم ’’مس لم

جرات کو خوب سراہا:عالموں اور صوفیوں کا سیزدہ سالہ فرض

ااوٹ لک ااج کل انجام مسلم دے رہا ہے (۱۲۷)

طلباء کے ہڑتال میں احرار کے رض اکاروں نے بھی کث یر تع داد میں ش رکت کی ۔جل وس ک و منتش ر کرنے کے لیے پولیس نے طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایا بہت سے طلباء ک و گرفت ار ک ر لی ا گی ا۔مجلس اح رار

Page 255: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

254

کے صدرمولانا عطاء اللہ شاہ بخاری س میت مولان ا غلام مرش د،مولان ا احم د علی وغ یرہ ک و گرفت ار ک ر لی ا۔ساس قضیے کا چشم دید گواہ ہیں لکھتے ہیں: اشرف عطا جو

’’رات کے ایک بجے جلوس موچی دروازہ سے نقاروں اور نعروں کے درمیان مغ ل پ ورہ انجینئرن گ ک الج کی طرف روانہ ہوا۔حکومت کے حکم سے پولیس نے مولانا دائودغزنوی ،لال دین قیصر،مولانا غلام مرشد،مولان ا احم دعلی، راقم الح روف اور ک الج کے بعض طلب اء ک و گرفت ار ک ر لی ا۔ان گرفت اریوں کے ب اوجود ک الج پ ر

(۱۲۸پکٹنگ جاری رہی۔‘‘)

مولانا ظفرعلی خان بھی مغل پورہ پہنچ گئے۔گورنر سے ملاقات کے بعد طلباء کے مطالب ات م اننے کی یقین دہ انی ک رائی گ ئی۔پرنس پل کے خلاف ای ک کمی ٹی تش کیل دی گ ئی جس کے بع د مولان اکے کہنے پر طلباء نے ہڑتال کو ختم کر دی۔مولانا ظفرعلی خان نے اپنی ایک نظم ’’مغ ل پ ورہ‘‘میں طلب اء کے ہڑتال پر حکومت کے مطالبات ماننے کے عمل کو اسلام کی ط اقت کے س امنے ف رنگی ط اقت ک ا جھکن ا

قرار دیا:سان کو مسلمانوں کی قربانی کا ثمر مل گیا

ااگے سجھک گئی پنجاب میں اسلام کے حکومت سچوں و چرا چٹکی بجاتے میں ہوئیں تسلیم بے ااگے شرائط ہم نے جتنی پیش کیں حکام کے

کیا وہ کام جب ہم نے خدا خوشنود ہو جس سےااگے ہوئی دنیا کی گردن خم ہمارے نام کے

ااخر سپر انگریز نے ہندوستان میں ڈال دی ااگے ااخری پیغام کے بصد زاری خدا کے

(۱۲۹)اایا۔کشمیر جو ء تک مغل ریاست ک ا حص ہ۱۷۵۷مغل پورہ قضیے کے بعد کشمیر کا واقعہ پیش

تھا، جنگ پلاسی کے زمانے میں احمد شاہ ابدالی نے یہاں پر قبضہ کیا اور افغانس تان ک ا حص ہ بنای ا۔مرک ز

Page 256: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

255

سے دورہ ونے کی وجہ س ے انتظ امی اق دامات میں کم زوری پی دا ہ وئی۔ مہاراج ا رنجیت س نگھ نے وقت ک اساٹھ ا تے ہ وئے ء میں انگریزوں نے۱۸۴۶ء میں کش میر پ ر حملہ کی ا او اپ نی حک ومت بن ائی۔۱۸۱۹فائ دہ

سکھوں کو شکست دے کر دوبارہ اسے ہندوستان میں شامل کر دیاتاہم سودا بازی کرکے جموں کش میر ک اسانھ وں۱۹۳۱علاقہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے حوالے کر دیا گی ا۔ میں مہ اراجہ ہ ری س نگھ حکم ران تھے۔

نے مسلمانوں پر بربریت کی انتہا کردی۔مسلمانوں کے تقریر و ں پر پابندی لگائی گئی۔لائوڈ س پیکر پ ر اذان ء ک و مس لمانوں ک ا۱۹۳۱دینا منع کر دیاگیا۔جمعہ اور عیدین کے خطبوں پ ر پابن دی لگ ادی گ ئی۔ج ون

ایک جلسہ منعق د ہ وا جس میںحک ومت کی مس لمان اور اس لام دش منی کی م ذمت پ ر تقری ریں کی گ ئیں۔ ء ک و۱۹۳۱ ج ولائی ۱۳حکومت نے ایک مقرر جس کا ن ام عبدالق دیر بتای ا جات ا ہے ک و گرفت ار ک ر لی ا۔

سان کے مقدمے کی سماعت تھی جس کے لیے ہزاروں کی تع داد میں مس لمان جم ع سرینگر سنٹرل جیل میںسان پر گولیاں چلائیں اورکئی جانیں ضائع ہو ئیں۔اشرف عطاء نے لکھا ہے: ہو گئے ۔پولیس نے

سادھر سری نگر میں نہتے مسلمانوں کشمیریوں پر ج و ڈوگ رہ ش اہی ’’ادھر مغلپورہ کالج پرپکٹنگ ہورہی تھی ،ہی میں گولی چلا دی گ ئی۔کش میر کے ہہ معل اازادی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے ،خانقا کے خلاف اپنی س بزہ زاروں ک و ڈوگ روں نے کش میری مس لمانوں کے خ ون س ے لالہ زاربن ا دی ا،مس اجد پ ر قف ل لگ ا دئ یے۔

(۱۳۰سینکڑوں بلکہ ہزاروں مسلمانوں کو جیل میں بند کردیا‘‘) کشمیر کے مسئلے پر ہندوستان میں علامہ محمد اقبال کی قیادت میں کشمیر کمی ٹی بن ائی گ ئی لیکن کمیٹی میں اختلافات پیدا ہو گئے جس کی وجہ سے مجلس احرارکے لیڈر کمیٹی سے ال گ ہ و گ ئےسانھ وں نے کش میریوںکی حم ایت میں ال گ تحری ک ش روع کی۔س یالکوٹ میں مولان ا مظہ رعلی اظہ ر اور سوچیت گڑھ کی طرف روانہ ہوئے اور سوچیت گڑھ میں داخلہ پ ر گرفت ار ک ر ل یے گ ئے۔جہلم کے مح اذ پ رہی بخش کی قی ادت میں چین وٹ ک ا ای ک جل وس م یر پ ور کی ط رف روانہ ہ وا ۔لیکن اس پہلے روز شیخ الہہی بخش دستہ پر ڈوگروں نے سنگینوں سے حملہ کردیا۔۔پنڈت و شوامتر کی سنگین کی ضرب سے ش یخ الہ

اازادی کشمیر کے سلس لے میں چ الیس ہ زار مس لمان گرفت ار ہ وئے اور تیس کے(۱۳۱شہید ہوئے۔) تحریک (۱۳۲قریب شہید ہوئے۔)

Page 257: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

256

مولان ا ظف رعلی خ ان تحری ک کش میر میں پیش پیش تھے۔مغ ل پ ورہ س ے س یدھا لاہ ور پہنچ گ ئے۔سچکے تھے۔مولان ا نے مجلس اح رار پنجاب اور یوپی کے علاوہ مختلف شہروں سے ہزاروںمسلمان لاہور پہنچ ہی بخش کی طرف سے مجاہدین کشمیر کے حوصلے بڑھانے کے لیے زوردار تقری ریں کیں۔’’زمین دار‘‘ک ا الہ شہید نمبر شائع کیا جس کے تما م پرچے حکومت نے ضبط ک ر ل یے اور زمین دار س ے ض مانتیں طلب کی گ ئیں۔پنج اب کے اح راری اراکین نے اس تحری ک میں ب ڑھ چ ڑھ ک ر حص ہ لی ا اور ج ان و م ال کی قربانی اں

سان کا ذکر کچھ یوں کیا ہے: دیں۔مولانا ظفرعلی خان نے اپنی ایک نظم ’’احرار‘‘میں اگر سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوئے

تو اس عہد میں پنجاب کے احرار ہوئےہل باطل سے اگر بر سر پیکار ہوئے خیتو وہ اسلام کے جانباز رضا کار ہوئے

پردہ موت سے نکلے گی حیات جاویدکہ مسلمان شہادت کے طلب گار ہوئےہڈیاں جن کی ہیں چونا تو لہو ہے گارا

اازادی کشمیر کے معمار ہوئے قصر (۱۳۳)

ء ک و ’’مس جد ش ہید۱۹۳۵ہندوستان میںاستعماری حکومت کی اسلام دشمنی کا ای ک اور واقعہ گنج‘‘کی شہادت ہے۔نولکھا)لونڈا ( بازار، لاہور کی ’’مسجد شہید گنج ‘‘رنجیت س نگھ کے زم انے س ے سکھوں کے قبضے میں تھی جو گردوارے کے پ اس ہی واق ع تھی۔س کھوں نے نوتعم یری منص وبے میں ب ازارہگرا نے کے ساتھ ساتھ مسجد گرانے کا پروگرام بھی بنای ا۔ مس لمانوں نے مس جد ک و کی پرانی عمارتوں کو

ج ون ک و۲۲بچانے کے ل یے ع دالت ک ا راس تہ اختی ار کی ا۔ع دالت نے فیص لہ س کھوں کے ح ق میں دی ا۔سروک دی ا گی ا۔ ۸مس جد گ رانے ک ا ک ام ش روع ہ وا لیکن مس لمانوں کے ش دید احتج اج کی وجہ س ے ک ام

جولائی کو رات کے وقت س رکاری سرپرس تی میں مس جد کی عم ارت گ رائی گ ئی۔اس کے بع د مس لمانوںکے ردعمل کے بارے میںڈاکٹرنظیر حسنین زیدی نے لکھا ہے:

Page 258: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

257

’’اگلے دن مسلمانوں میں اس واقع سے ہیجان کی شدت پی دا ہ و گ ئی۔اور ل وگ ج وق در ج وق جم ع ہ وکر کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے چاروں اطراف سے مسجد شہید گنج کی طرف روانہ ہو گئے۔ش ہر میں مکم لسرخ پلٹا،کہ فوج طلب کر لی گئی۔مگ ر بعض جی الوں نے گ ولی چلانے ہڑتال ہوگئی اور حالات نے یہاں تک ااگے بڑھ نے س ے روک نے کے ل یے سے انکار کر دی ا۔ٹ امی گ وروں ک و طلب کی ا گی ا جنھ وں نے مجم ع ک و ااگے ب ڑھے۔وہ سادھر سے گولی اں چلیں ،ادھ ر س ے ق دم بندوقیں تان لیں۔نوجوان مسلمانوں نے سینے تان لیے،

(۱۳۴گولیاں چلا رہے تھے یہ کھا رہے تھے اور جام شہادت نوش کرتے رہے۔‘‘)حک ومت کے ای ک غل ط فیص لے کی وجہ س ے ک ئی ل وگ زخمی ہ وئے،ک ئی ج انیں ض ائع ہ وئیں۔ مسجد کان پور نے جلیانوالہ باغ کی یاد تازہ کردی۔پورے ش ہر پ ر مس لمانوں ک ا قبض ہ ہ و گی ا تین دن ت ک ہڑتال جاری ہی۔تحریک مسجد شہید گنج کے رہنمائوں کو گرفتار کر لی ا گی ا۔مولان ا ظف رعلی خ ان ک و بھیااباد میں نظر بند کر دیئے گ ئے۔تیس رے اابائی علاقے کرم نامعلوم مقام پر لے جایا گیا جب کہ بعد میں اپنے روز حکومت نے مقامی لی ڈروں ک و خ بردار کی ا کہ اگرہج وم ک و نہ ہٹایاگی ا ت و جہ ازوں س ے گ ولہ ب اری کی ج ائے گی جس کے بع د ہڑت ا ل ختم کی گ ئی۔مولان ا ظف رعلی خ ان نے’’ مس جد ش ہید گنج‘‘کی س وگسپکار،مسجد شہید گنج کی شہادت، شہید گنج کا مقام،مسجد شہید گنج پ ر پر’’مسجد شہید گنج کی

جان دینے والے ‘‘جیسی نظمیں لکھیں:

سپکار مسجد شہید گنج کی سپکارتی ہے تمھیں شہید گنج کی مسجد

سابھارتی ہے تمھیں ساٹھ کر دبے ہوئوں وہ خود جو بال سے بھی ہے باریک،دشنہ سے بھی ہے تیز

سپل سے گزارتی ہے تمھیں ساس صراط کے وہ ساس کو بچائو ااباد ہو تو جو چاہتے ہو کہ سپکارتی ہے تمھیں شہید گنج کی مسجد

(۱۳۵)

Page 259: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

258

مسجد شہید گنج کی شہادتجس دن شہید گنج کی مسجد ہوئی شہید

اسلامیوں کے سر پہ قیامت گزر گئیاپنوں کا ایک گروہ پرایوں سے جا ملا

بازی جو ہم نے جیت ہی لی تھی وہ ہر گئیاانکھوں سے دیکھ لی ہان رسوائی اپنے دین کی

حسرت بھری نگاہ ہماری جدھر گئیمومن سے پوچھتا ہے یہ کافر براہ طنز

تیری ہزار سالہ حمیت کدھر گئی(۱۳۶)

مس جد ش ہید کے قض یے میں مجلس اح رار کی ش ہرت اور اہمیت بھی ختم ہ و گ ئی کی وں کہ مجلس احرار والوں نے سیاسی مصلحت کے تحت اس تحریک میں حصہ نہیں لی ا۔مولان ا ظف رعلی خ ان نےسان کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ مسلمانوں کا لہو بہای ا گی ا ، مس جد ک و مس مار کی ا گی الیکن اسی وجہ سے ہف گرفتاری کی وجہ سے غیر جانب داری کا مظ اہرہ ک ر تے رہے ت ا کہ الیکش ن میں حص ہ لی نے احراری خوسبت خ انہ اح رار،مس جد ف روش،احراری ات،اح رار اور سے نہ رہ جائیں۔’’اس لام کی رس وائی اح رار کے ہ اتھوں،

مسجد شہید گنج‘‘وغیرہ مجلس احرار پر لکھی ہوئی مولانا کی طنزیہ نظمیں ہیں:اسلام کی رسوائی احرار کے ہاتھوں

ہندوئوں سے ہے نہ سکھوں سے نہ سرکار سے ہےگلہ رسوائی اسلام کا احرار سے ہےاایا ری پر ہس نب حرف پنجاب میں نامو

ہان اشرار سے ہے قائم اس ظلم کی بنیاد ااج اسلام اگر ہند میں ہے خوار و ذلیل

تو یہ سب ذلت اسی طبقہ غدار سے ہے

Page 260: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

259

(۱۳۷)

مسجد فروشسان کی شریعت کا ااج تک نہیںقائل ہوا میں

خدا جن کا بروزی ہے نبی جن کا برازی ہے خدا شرمائے مسجد بیچنے والوں کی ٹولی کو

لگائی جس نے کونسل کے لیے سر دھڑ کی بازی ہے بھرم کھولا ’’مچھندر مولوی‘‘ کا خاکساروں نےکہ اس مسجد شکن کا کام ہی شاہد نوازی ہے

(۱۳۸)سانہیں ای ام میں مولان ا نے۱۹۳۵ جون ۲۲ ء کوجو پہلی مرتبہ مسجدگرانے کاکام شروع ہوا تھا

احرار سے الگ ہوکر ایک تحریک ’’تحریک تحفظ مساجد‘‘ ش روع کی ۔جس ک ا بع د میں’’ مجلس اتح اد ملت‘‘نام رکھا گیا۔شہید گنج تحریک میںاسی تحریک کے رہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔مولانا ظف رعلی خ ان اس تحری ک کے ص در اور مل ک لال خ ان س یکرٹری منتخب ک یے گ ئے تھے۔مجلس اح رارمیں اراکینہد ملت ‘‘ سان کے مق ابلے میں’’مجلس اتح ا سسرخ پ وش کہاجاتاتھ ا ۔ سانھیں س رخ لب اس پہن تے تھے اس ل یے

والوں نے نیلے لباس کو منتخب کیا جس کی وجہ سے وہ نیلی پوش کہلائے ۔کشور سلطانہ نے لکھا ہے: ء ک و انجمن تحری ک تحف ظ مس اجد کے اجلاس۱۹۳۵ ج ولائی ۲۷،۲۸’’مولان ا ظف رعلی خ ان نے

میں’’مجلس اتحاد ملت ‘‘ کی بنیاد رکھی۔جس کا مقصد مس جد ش ہید گنج کی بح الی اور پنج اب کے(۱۳۹مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنا تھا۔‘‘)

مولان ا نے خ ود نگارس تان کے مجم وعے میں ش امل ای ک نظم’’مجلس اتح اد ملت کے اغ راض و مقاصد ‘‘اور’’مجلس اتحاد ملت‘‘مشمولہ چمنستان میںاس انجمن کے قیام کے اغراض و مقاصد بیان ک یے

ہیں:

Page 261: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

260

یہی مقصد ہے اے مسلمانوںمجلس اتحاد ملت کاہت مرحوم سام ہو سرفراز

ختم ہو دور اس کی ذلت کااپنی فطرت کا تذکرہ کیجئے

نہ کہ اغیار کی جبلت کامسجدیں ہی نکھار سکتی ہیں

رنگ حرمت کا اور حلت کااائیں گے ااپ کثرت پہ غالب فکر کیجئے نہ اپنی قلت کا

ساٹھ بیٹھے قوم جو سو رہی ہے گر نکل جائے حرف علت کا

(۱۴۰)مس جد ش ہید گنج ک ا واقعہ انگری ز س امراج کے ظلم و س تم اور قت ل غ ارت کی ب دترین مث ال ہے۔ مس جد ک و س کھوں کے گ ردوارے کی خ اطر ش ہید ک ردی گ ئی۔مس لمانوں کی لاش یں پ ڑی رہیں،لیکنسان احرارنے سیاسی مصلحت کی خاطر محاذ سے پسپائی اختیارکرلی۔ مولانا نے نظم’’اح رار ک ا جن ازہ‘‘میں

کی خوب خبر لی ہے:اللہ کے قانون کی پہچان سے بیزار

اسلام اور ایمان اور احسان سے بیزاررر کے نگہبان سے بیزار ہس پیمب نامو

کافر سے موالات مسلمان سے بیزارہی کہ ہیں اسلام کے احرار اس پر ہے یہ دعو

احرار کہاں کے یہ ہیں اسلام کے غدار

Page 262: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

261

پنجاب کے احرار۔۔۔اسلام کے غدار(۱۴۱)

تحریک خلافت میں گاندھی جی کا ساتھ دینے کے بع دمولانا ظف رعلی خ ان ہمیش ہ ک انگرس کیااریہ سماج کی شرارت س مجھ ک ر حمایت کرتے رہے۔ مولانا نے شدھی اور سنگٹھن کو ہندی مہاسبھا اور کانگرس سے مفاہمت جاری رکھی۔نہرو رپورٹ کی حمایت کی۔ مسلم ہندو اتحاد و اتفاق کے ح امی رہےااپ کو ہندوستان کی جدگانہ انتخاب کو تقسیم کا الارم سمجھ کرمخالفت کی۔لیکن جب کانگرس اپنے سان کی واح د ط اقت س مجھ ک ر مس لمانوں کی ج داگانہ تش خص کے بھی خلاف ہ و گ ئی ت و مولان ا نے

مخالفت شروع کی۔ تحریک کشمیرمیں ہ زاروں مس لمان قی د ہ وئے،بہت س ے ش ہید ہ وئے لیکن ک انگرس نے نہ حم ایت کی اور نہ حک ومت س ے ک وئی مط البہ کی ا۔گان دھی جی نے ارون س ے س مجھوتہ ک رکے دوس ری گ ول م یز کانفرنس میں شرکت کی جس کی وجہ سے مولانا جیل سے رہا ہ وئے لیکن مولان ا نے ک انگرس ک احکومت

ء میں مسجد شہید گنج کے واقعے میں مسلمانوں کی۱۹۳۴کے ساتھ تعاون کا رویہ تنقید کا نشانہ بنایا۔ مسجد کو مسمار کی گئی۔بے گناہوں کا خ ون بہای ا گی ا لیکن ک انگرس نے مس ئلہ میں ع دم دلچس پی ک ا

اظہار کیا۔ ء تک استعماری حکومت کے ساتھ گاندھی جی اور ک انگرس کے تع اون۱۹۳۴ ء سے ۱۹۳۱

ااب اد کی پالیسی پر مولان ا نے نظم’’ش یطانی حک ومت کے س اتھ گان دھی جی ک ا مودب انہ رویہ‘‘ اور’’احم د کے مزدوروں کو گاندھی کا حکیمانہ مشورہ‘‘ میں کانگرس اور گاندھی جی پ ر کچھ ی وں اعتراض ات ک یے

ہیں:اازادی کا قصہ ہن پرستارا

نہیں تو نے سنا اب تک تو اب سنادب کا بھائو سستا ہو رہا ہے

سگن حکومت کے گنے جانے لگے کٹی اک عمر جس کے کوسنے میں

Page 263: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

262

اسی ’’شیطان‘‘ کے ساتھ اب ہے تعاونسمجھتے تھے جسے گاندھی مہا پاپ

سپن ااج کہتے ہیں مہا اسی کو یہ فرماتا ہے گاندھی جی کا چرخہ

سبن ااج سے وفاداری کا کھدر کہا جاتا انھیں دشمن وطن کا

سون دکھاتے گر مسلماں یہ تلمگر جو کچھ کریں گاندھی روا ہے

ہل خدا ہے ااپ کا فع کہ ہر فعل (۱۴۲)

مجھے دیکھو کہ انگریزوں سے کٹ کر میں نے کیا پایاتعاون ہی مناسب تھا حکومت کے اداروں سے

موالاتی بنایا مجھ کو میری تلخ کامی نےہان پروردگاروں سے بمجبوری ملوں گا اپنے

(۱۴۳)اائی نی اص لاحات کی ص ورت میں ۱۹۳۵جولائی ء۱۹۳۵ء میںہندوستان کوسیاسی حوالے س ے

ء ایکٹ ک و ک انگرس اور مس لم لی گ س میت ہن دو می ا س بھا نے۱۹۳۵ایکٹ کے تخفے سے نوازا گی ا۔ اازادی اور جمہوریت کے مطالبات فراموش کرنے کی کوش ش کی گ ئی تنقید کا نشانہ بنایا کیوں کہ اس میں اائی نی تھی۔اختی ارات کی تقس یم میں گ ورنروں اور گورنرج نرلوں کی اج ارہ داری ق ائم رکھی گ ئی تھی لیکن اال انڈیامس لم لی گ کے س الانہ اجلاس اائندتسلس ل س مجھ ک ر تس لیم کرلیاگی ا۔ اصلاحات کو ایک خ وش

ء میں اجلاس کے صدر سید وزیر حسن نے دستور کا ذک ر ک رتے ہ وئے کہ ا کہ۱۹۳۶ اپریل ۱۲ اور ۱۱ برطانوی پارلیمنٹ واقعتا ہم پر ایک ایسا دستور مس لط ک ر رہی ہے جس ے ک وئی پس ند نہیں کرت ااور نہ م اننے

Page 264: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

263

کو تیار ہے۔کئی برس وں کے کمیش نوں،رپورٹ وں،کانفرنس وں اور کمی ٹیوں کے بع د ای ک عجیب الخلقت چ یز تی ار کی گ ئی اور اس ے ہندوس تان کی دس توری ق انون کے بھیس میں پیش کی ا جارہ ا ہے ج و کہ ای ک غ یر

ک انگرس(۱۴۴جمہ وری عم ل ہے۔اس س ے مل ک میں رجعت پس ندانہ عناص ر ک و تق ویت پہنچے گی۔) مجلس عاملہ میں کہا گیاکہ یہ دستور جو مل ک پ ر بدیس ی لوگ وں کے قبض ے اور استحص ال ک و ہمیش ہ اور ااسانی سے برقراررکھنے کے لیے بہت بیش قیمت نقاب کی ص ورت میںتی ار کی ا گی ا ہے۔موج ودہ دس تور س ے

(۱۴۵کہیں زیادہ شر انگیز اور خطر ناک ہے۔) ء تک منعق د۱۹۳۵ اپریل ۲۲ اپریل سے ۲۰ہندو مہا سبھا نے اپنے کانپور کے اجلاس میں جو

ااف انڈیا بل پیش کیا گی ا ہے وہ قطعی ط ور پ ر ہندوس تان ہوا یہ خیال ظاہر کیا کہ پارلیمنٹ میں جو گورنمٹ کے ہر طبقہ کو ناقابل قبول ہے کیوں کہ مجوزہ دستور تو موجودہ دستور سے بھی زی ادہ خ راب ہی نہیں زی ادہ

(۱۴۶رجعت پسند اور قومیت و جمہوریت کی ترقی میں حائل ہے۔) مولانا ظفرعلی خان نے اس ایکٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے استعماری حکومت کی ای کسان کے خی ال میں حک ومت برط انیہ نے نئی چال تص ور کی ا۔جس میں ع وام ک و دھ وکہ دے ک ر ٹرخای ا گی ا۔

ء ایکٹ،سائمن کمیشن اورگول م یز کانفرنس وں کے طوی ل م ذاکرات س ے اپ نے مف اد کی ب اتوں ک و۱۹۱۹ منتخب کرکے ہمارے لیے کاغذی گھوڑا بنا ک ر بھیج ا جس کے ظ اہری خ د وخ ال س ے دل بہلای ا ت و ج ااائین کے چن د سکتا ہے لیکن کسی فائدے کی ہرگز امید نہیں رکھی جاسکتی۔مولانا ظفرعلی خان ک و اس دفعات پر اعتراض نہیں تھابلکہ وہ تو سرے سے ہی اس قانون ک و تس لیم ک رنے ل یے تی ار نہیں تھے۔ دراص ل وہ اس قس م کے اص لاحات کے ح ق میں تھے ہی نہیں بلکہ وہ ت و دراص ل انگری ز کی غلامی س ے مکم لسان کے خی ال میں ان حرب وں کی م دد س ے اس تعماری حک ومت اپ نے اقت دار ک و طور پر نجات چاہتے تھے۔ طول دینے کی غرض سے حیلے بہانے ڈھونڈ رہی ہے اورجھوٹی تسلیوں سے ہند کے سیاس ی پ ارٹیوں س میت معصوم ع وام ک و ورغلا رہی ہے۔ذی ل کی نظم وں میں اس تعماری حک ومت کی م ذکورہ ایکٹ ک ا کچھ ی وں

ساڑایا ہے: مذاق ااف انڈیا ایکٹ مجریہ استعمار کی بھینس کا انڈا()۱۹۳۵گورنمنٹ

صدر اعظم کی سخاوت میں نہیں ہم کو کلام

Page 265: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

264

سان سے پوچھتے ہیں ہم کہ ہم کو کیا دیا لیکن کاغذی گھوڑا دیا ہم کو سواری کے لیے

اک کھلونا بھیج کر بچوں کا دل بہلا دیااپنے پینے کے لیے شیمپئن بھر لی جام میں

ااشام کو ٹھرا دیا ہن درد ہند کے رندامیوہ خوری کے لیے چننے لگے جب گول میز

رکھ لیا خود مغز چھلکوں پر ہمیں ٹرخا دیابھینس استعمار کی گابھن ہوئی مدت کے بعد

اور بڑی دقت سے اصلاحات کا انڈا دیا(۱۴۷)

ساس کا جواب نعرہ خروسی اور سگھسی مشرق کے ڈربے میں سمرغی فرنگستان کی

ساس نے نئی تہذیب کا انڈا ااتے ہی دیا اور کھٹک کر جب یہ انڈا چوزہ نکلا ایک چتکبرااائین کا ڈنڈا ساس کی چونچ میں تھا مغربی تو

یہ ڈنڈا لے کے چوزہ چڑھ گیا دہلی کی ممٹی پرجہاں روشن تھا پہلے ہی سے استعمار کا ہنڈا

سکوں سککڑوں ساس کی یہ وطن کے ذرے ذرے نے سنی سکچل دو کانگرس کا سر، جھکا دو ہند کا جھنڈا

کہا برجستہ میں نے یہ خروسی نعرہ سنتے ہیوطن کا جوش اس دھمکی سے ہو سکتا نہیں ٹھنڈا

(۱۴۸)

Page 266: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

265

اانے والے مختل ف واقع ات کامولان ا۱۹۳۵ ء سے ۱۹۱۴ ء تک کے سیاسی منظرن امے میں پیش ااتی ہے کہ مولانا ظفرعلی خان کی شاعری کی روشنی میں تحقیقی جائزے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے کے قلم نے استعماری حک ومت س ے روز اول س ے ج و ل ڑائی بان دھ رکھی تھی وہ اس دور میں بھی تسلس لسانھوں نے اگر ایک طرف اپنی شاعری میں غلامی کے عہد کی صحیح تصویر کش ی کے ساتھ جاری رہی۔ کی تو دوسری ج انب اس تعماری ج بر و اس تبداد کے خلاف بھرپ ور م زاحمت ک ا سلس لہ بھی ج اری رکھ ا۔اازادی ک ا ش عور بی دار غلامی کے دور کے بدترین واقعات و حادثات کو شاعری کا موضوع بن ا ک ر ح ریت و سپک ارتی ااپ کو دنیاکی مہذب ترین قومیں کہہ کر کرنے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔یورپی اقوام جو اپنے سان کی تہ ذیب کے سان کے غیرمہذب اور انسانیت سوز واقعات کو اق وام ع الم کے س امنے پیش ک رکے تھیں

گھناونے چہرے کو بے نقاب کیا:کسی کو دار پہ کھینچا کسی کو ذبح کیا

یہ اور کیا ہے ہمارا جو قتل عام نہیںہت ذبح وہ بسمل سے کہتے جاتے ہیں بوق

ہم حکومت ہے قتل عام نہیں یہ انتظا(۱۴۹)

اازادی ک ا نع رہ بلن د کی ا اور اس لام کے جھن ڈے تلے ع الم اس لام ک و ظلم و جبر کی فضائوں میں کلیسائی وحدت اورحکمرانی سے نجات دلانے کے ل یے جہ ادکی ت رغیب دی۔جن گ ط رابلس و بلق ان میں وہ اں کے مس لمانوں کے ل یے چن دے جم ع ک رتے رہے۔خ ود ت رکی گ ئے۔ تحری ک خلافت میں اس لام کیسان کے قلم کے ااہ پک ار س ربلندی کی خ اطر پیش پیش رہے۔م رتے دم ت ک پ وری دنی ا کے مس لمانوں کی

ذریعے قارئین تک پہنچی رہی۔اسلاف کی سنت کو کریں تازہ مسلمانہن شہادت کے سمندر میں نہائیں اور خواسلام اور ایمان کی پہلی ہے یہی شرطاائیں میداں میں کفن سر سے لپٹے ہوئے

Page 267: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

266

(۱۵۰)

اازادی ک ا س پاہی بن کراس تعماری پالیس ی ہندوستان میں ہمیشہ ہن دو مس لم اتح اد پ ر زور دی تے رہے۔ کی مخالفت میں جیل جاتے رہے،نظ ر بن د ہ وتے رہے،جرم انے اور ض مانتیں دی تے رہے لیکن س ر جھک ا ک ر

سان کا نظریہ واضح تھا: اازادی اور غلامی کے بارے میں جینے والوں میں سے نہ بن سکے کیوں کہ اازاد منش انسانوں کے سدنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں

اازادی کا اازادی کی یا تخت مقام یا تختہ جگہ (۱۵۱)

مولان ا ظف رعلی خ ان نے اس تعماری حک ومت کی م زاحمت ک رتے ہ وئے اس تعماری پالیس ی ک و بے نق اب ک رنے کی کوش ش کی ۔جس ک ا اص ل نش انہ اس لام اور مس لمان تھے۔مغ رب کس ی بھی ص ورت میںاسلام و مسلمان کی بالادستی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔اس خدشے کو مٹ انے کے ل یے منص وبہ بن دیاای ا۔ ایش یاء ک و غلام کئی صدیوں سے جاری تھی۔یورپ کا مرد بیمار’’ ت رکی‘‘ اس ی پالیس ی کے ض د میں ااپس میں برس رپیکار کی ا گی ا بنایا گیا۔ہندوستان میں مغربی تہذیب کے بیج بونے کے لیے یہاں کے اقوام ک و ہے۔ اسلام اور بانی اس لام کی ش ان میں دش نام ط رازی سلس لہ بھی ج اری رہ ا۔ہن دو مس لم،س کھ ج و ک ئیااپس میں ش یر ش کر تھے ای ک دوس رے کے خ ون کے پیاس ے ہ و گ ئے لیکن ان گ ئے گ زرے ص دیوں س ے سان کی دی رینہ اازادی کے ل یے وق ف ک ررکھی تھی۔ ح الات میں بھی مولان ا نے اپ نی زن دگی مس لمانوں کی خواہش یہی تھی کہ انگریز جنہیں وہ گوری چمڑے والے مہذب ڈاک وںکہہ ک ر پک ارتے تھے ،ہندوس تان س ے

نکل جائیں۔

Page 268: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

267

حوالہ جات:Surender ۔۱ Nath Benerjea,Humphrey

Milford,A Nation in making ,Oxford University Press,London,1925P.236

ااپ بیتی،فکشن ہاوس،لاہور،۔۲ ۴۱۱ء،ص:۲۰۱۴مہاتما گاندھی،تلاش حق،نی ہند)انڈیا ونس فریڈم کا ترجمہ(مرتبہ،ہمایون کبیر،مکتبئہ جمال،لاہور، ۔۳ اازاد اازاد، مولانا ابوالکلام

۲۱،ص:۲۰۱۶اازاد،سعید بک سنٹر،لاہور،س۔ن،ص:۔۴ ۴۸-۴۷عبدالقوی دسنوی،ابوالکلام ۶۰۹-۶۰۸مہاتما گاندھی،تلاش حق،ص:۔۵اازادی ہند،مترجم قاضی محمد عدیل عباسی،قومی کونسل برائے ف روغ۔۶ ہک ہخ تحری ڈاکٹر تارہ چند،تاری

۶۰۵ء،جلد سوم،ص:۱۹۸۰دہلی،طبع اول ،اردو،نئی مولانا ظفرعلی خان،زمیندار،مولانا ظفرعلی خان ٹرسٹ،تدوین و ترتیب، احمد سعید،جنوری -اپریل ۔۷

۵۰۰،ص:۱۹۲۳۱۶۸امتیاز محمد خان، کمال اتاترک،فیروز سنز،لاہور،س۔ن،،ص:۔۸اازادی ہند،جلد سوم،ص:۔۹ ۶۱۶ڈاکٹر تارا چند،تاریخ تحریک

۶۰۷مہاتما گاندھی،تلاش حق،ص:۔۱۰ااثار،مجلس ترقی ادب،لاہور،جون ۔۱۱ ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی،مولانا ظفرعلی خان،احوال و

۱۳۲ء،ص:۱۹۸۴سید حسن ریاض،پاکستان ناگزیر تھا،شعبئہ تصنیف و تالیف و ترجمہ،جامعہ کراچی،اشاعت ۔۱۲

۱۵۴،ص:۲۰۱۰ہفتم، ااثار،ص:۔۱۳ ۱۵۶چوہدی افضل حق،بحوالہ ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی،ظفرعلی خان احوالہ و علامہ محمد اقبال،خطبات اقبال،مرتبہ،رضیہ ف رحت ب انو،ح الی پبلش نگ ہ ائوس کت اب گھ ر دہلی،۔۱۴۳۶-۳۵،ص:۱۹۴۶اپریل ۵

Page 269: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

268

۳۹۹فاروق ملک،تخلیق پاکستان،خرم بکس ،لاہور،س۔ن،ص:۔۱۵ڈاک ٹر غلام حس ین ذولفق ار،اردو ش اعری ک ا سیاس ی و س ماجی پس منظ ر،ج امعہ پنج اب،لاہ ور،۔۱۶

۴۵۰،ص:۱۹۶۶ ء،ن ئی۱۹۷۸قاض ی محم د ع دیل عباس ی، تحری ک خلافت،ق ومی کونس ل ب رائے ف روغ اردو ،۔۱۷

۶۸۔۶۷دہلی،ص:اازادی ہن د اور تحری ک ریش می روم ال،ماہن امہ دارالعل وم،ش مارہ،۔۱۸ ،۲مولان ا اب ولکلام قاس می،شمس ی،

۲۰۱۴فروری ، ۹۸جلد، Michael۔ ۱۹ O'Dwyer,India as i knew it,Mittal

publicatins,Mittal Publication,,india,1988,P.173

۷۰،انمول موتی،جلد دوم،ص:(۱۰مولانا ظفرعلی خان،مضامین ، ازلۃ الخفا،)۲۰Zafar ۔۲۱ ali khan,indian press Act,Maulana

Zafar Ali KhanTrust,Lahor,pag:7

Michael O'Dwyer,India as i knew it,P.172۔۲۲۱۵۲ء،ص:۱۹۱۱مولانا ظفرعلی خان،کلیات ،بہارستان،مولانا ظفرعلی خان ٹرسٹ لاہور،۔۲۳ مولانا ظفرعلی خان،مضامین،انمول م وتی،،س تارہ ص بح،م رتبہ،ڈاک ٹر ص ادق حس ین،مولان ا ظف رعلی۔۲۴۸۳،۸۴ٹرسٹ لاہور،ص:خان ۲۶۲مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۲۵۷۷قاضی محمد عدیل،تحریک خلافت،ص:۔۲۶۳۰۴ مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،بہارستان،ص:۔۲۷@@ا،ص:۔۲۸ ۲۷۰ایض۱۱۷-۱۶مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،حبسیات،ص:۔۲۹

Page 270: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

269

مولانا ظفرعلی خان،روزنامہ زمیندار،ترتیب و تدوین،احمد سعید،مولانا ظفرعلی خ ان ٹرس ٹ، لاہ ور، ۔۳۰۱۶۰،ص:۱۹۲۳جنوری۔اپریل

۱۷۸-۷۷مولانا ظفرعلی خان ،کلیات ،بہارستان،ص:۔۳۱سید حسن ریاض،پاکستان ناگزیر تھا،شعبئہ تصنیف و تالیف و ترجمہ،جامعہ کراچی،اشاعت ۔۳۲

۷۸،ص:۲۰۱۰ہفتم، ۲۸۵فاروق ملک،تخلیق پاکستان،ص:۔۳۳۲۷۶مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۳۴۵۸۶مہاتما گاندھی،تلاش حق،ص:۔۳۵اازادی اور اردو ش اعری،ق ومی کونس ل ب رائے ف روغ۔۳۶ ڈاک ٹر گ وبی چن د نارن گ،ہندوس تان کی تحری ک

۳۵۴،ص:۲۰۰۳دہلی، اردو،نئی ۱۹۲مولانا ظفر علی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۳۷@@ا،ص:۔۳۸ ۳۱۵ایض۵۶قاضی محمد عدیل عباسی، تحریک خلافت،ص:۔۳۹۴۹۱مولاناظفر علی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۴۰اازادی ہند،مترجم قاضی محمد عدیل عباسی،قومی کونسل ب رائے ف روغ۔۴۱ ڈاکٹر تارا چند،تاریخ تحریک

۶۰۰،جلد سوم،ص:۱۹۸۰دہلی،طبع اول ،اردو،نئی ۱۷۶مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۴۲۱۲۹مولانا ظفر علی خان،کلیات،حبسیات،ص:۔۴۳۴۸ء،ص:۲۰۱۱مولانا ظفرعلی خان ،بحوالہ ،اشرف عطا،مولانا ظفرعلی خان ٹرسٹ لاہور،جون ۔۴۴۲۷مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،بہارستان،ص:۔۴۵۸۸سید حسن ریاض،پاکستان ناگزیر تھا،ص:۔۴۶@@ا،ص:۔۴۷ ۹۱ایض

Page 271: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

270

دی ٹرکش ایمپائر،ترقی و زوال،حصہ دوم،لارڈایورسلے،بحوالہ،سید حسن ریاض،پاکستان ناگزیر ۔۴۸۴۱۹ہے،ص:

۱۸۳مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۴۹ہت ،حبسیات،ص۔۵۰ ۳۳-۳۲: مولانا ظفرعلی خان ،کلیا۵۶مولانا ظفرعلی خان،بحوالہ ،اشرف عطا،ص:۔۵۱۶۶-۶۵اشرف عطا،مولانا ظفرعلی خان،۔۵۲۲۲۶مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۵۳@@ا،ص:۔۵۴ ۲۴۲ایض@@ا،ص:۔۵۵ ۲۲۶ایضااپ بیتی ،مرتبہ،جے پرکاش نارائن،جمال پریس دہلی،۔۵۶ ۴۲،ص:۱۹۶۹ خان عبدالغفار خان،اازاد،کتاب منزل لاہور،۔۵۷ ہت ۲۰۳ء،ص:۱۸۵۹مولانا غلام رسول مہر،تبرکا۱۹۹ -۱۹۸مولانا ظفرعلی خان،کلیات،نگارستان،ص:۔۵۸اازادی ہند ،جلد سو م، ص :۔۵۹ ۶۰ ۵ڈاکٹر تاراچند،تاریخ تحریک ااپ بیتی،بحوالہ ،قاضی محمد عدیل عباسی، تحریک خلافت،ص:۔۶۰ ۱۳۵ظفرحسن ایبک،ااپ بیتی ،ص:۔۶۱ ۴۵ خان عبدالغفار خان،۲۳۳ء،ص:۱۹۵۰قاضی محمد عبدالغفار،حیات اجمل،انجمن ترقی اردو،دہلی،۔۶۲ ۶۲مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،حبسیات،ص:۔۶۳۵۱۶مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۶۴@@ا،ص:۔۶۵ ۲۵۱ایض۱۳۹مولانا ظفرعلی خان،بحوالہ اشرف عطا،ظفرعلی خان،ص:۔۶۶۴۹۵مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۶۷۴۵۰ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار،اردو شاعری کا سیاسی و سماجی پس منظر،ص:۔۶۸۱۴۲سید حسن ریاض،پاکستان ناگزیر تھا،ص:۔۶۹

Page 272: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

271

ااثار،ص:۔۷۰ ۱۲۰مولانا ظفرعلی خان،بحوالہ،ڈاکٹرنظیر حسنین زیدی ،ظفرعلی خان ،احوال و ۹۴مولاناظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۷۱@@ا،ص:۔۷۲ ۱۲ایض@@ا،ص:۔۷۳ ۱۰۲ایض@@ا،ص:۔۷۴ ۹۶ایض@ا،ص:۔۷۵ ۹۸یضڈاکٹر سہیل احمد،پی۔ایچ۔ڈی مقالہ،جدید اردو نظم میں مغربی استعمار کے خلاف مزاحمت۔۷۶

۳۸۱،غیر مطبوعہ،ص:(۱۸۵۷ء تا ۱۹۴۷)۹۸مولاناظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۷۷@@ا،ص:۔۷۸ ۴۴۸ایض۳۸مولانا ظفرعلی خان،کلیات،حبسیات،ص:۔۷۹۲۱۴مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۸۰@@اص:۔۸۱ ہ ۲۴۲ایض ۱۰۷-۱۰۶مولانا ظفرعلی خان،کلیات،حبسیات،ص:۔۸۲۲۲۴مولاناظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۸۳@@ا،ص:۔۸۴ ۲۲۵ایض@@ا،ص:۔۸۵ ۱۲۳ایض@@ا،ص:۔۸۶ ۲۴۷ایض@@ا،ص:۔۸۷ ۲۴۹ایضاازادی ہند،جلد سوم،ص:۔۸۸ ۳۷۰ڈاکٹر تارا چند،تاریخ تحریک ۵۱،ص:۱۹۶۷ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار،ظفرعلی خان ادیب و شاعر،مکتبہ خیابات،لاہور،۔۸۹۳۹-۳۸مولاناظفرعلی خان،کلیات،حبسیات،ص:۔۹۰@@ا،ص:۔۹۱ ۴۲-۴۱ایض

Page 273: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

272

۳۱۲مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۹۲@@ا،ص:۔۹۳ ۴۵۷ایض۳۰۴،ص:۱۹۹۴فارق ملک،تخلیق پاکستان،خرم بکس لاہور،۔۹۴۳۵۴مولاناظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۹۵۵۹ء،ص:۲۰۱۱شورش کاشمیری،قید فرنگ،مولانا ظفرعلی خان ٹرسٹ لاہور،جون ۔۹۶۳۰۶فاروق ملک،تخلیق پاکستان،ص:۔۹۷۳۳۴مولاناظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۹۸@@ا،ص:۔۹۹ ۱۰۷ایض

@@ا،ص:۔۱۰۰ ۳۲۶ایض@@ا،ص:۔۱۰۱ ۳۴۲ایض@@ا،ص:۔۱۰۲ ۳۵۸ایض،ص:۱۹۴۶س وامی دیانن د سرس وتی،س تیارتھ پرک اش،م ترجم،چموت پی ایم۔اے،ن امی پ ریس لاہ ور،۔۱۰۳۴۵۰،ص:۱۹۴۶س وامی دیانن د سرس وتی،س تیارتھ پرک اش،م ترجم،چموت پی ایم۔اے،ن امی پ ریس لاہ ور،۔۱۰۴۴۴۹@@ا،ص:۔۱۰۵ ۵۵۰ایض۸۸پرتاپ سنگھ،پیسہ اخبار،بحوالہ،مولانا ظرعلی خان،کلیات،ص:۔۱۰۶،ترتیب و ۱۹۲۳سوامی بھاسکرتیرتھ ،بحوالہ،مولانا ظفرعلی خان،زمیندار،لاہور،جنوری -اپریل،۔۱۰۷

۳۶۹تدوین، احمد سعید،ص:۳۶۱مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،بہارستان،ص:۔۱۰۸@@ا،ص:۔۱۰۹ ۳۳۶ایض۸۸اشرف عطا،مولانا ظفرعلی خان،ص:۔۱۱۰۳۷۸مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۱۱۱

Page 274: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

273

@@ا،ص:۔۱۱۲ ۳۸۴ایض@@ا،ص:۔۱۱۳ ۵۳۶ایض@@ا،ص:۔۱۱۴ ۲۸۴ایض@@ا،ص:۔۱۱۵ ۲۷۸ایض@@ا،ص:۔۱۱۶ ۳۲۰ایضاازدی ہند،جلد چہارم،ص:۔۱۱۷ ۱۳۸ڈاکٹرتاراچند،تاریخ ۲۸۸مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۱۱۸۸۸اشرف عطا،ظفرعلی خان،ص:۔۱۱۹۹۶مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،بہارستان،ص:۔۱۲۰@@ا،ص:۔۱۲۱ ۲۸۲ایض@@ا،ص:۔۱۲۲ ۳۸۱ایض@@ا،ص:۔۱۲۳ ۵۱۱ایضاازادی ہند،جلد چہارم،ص:۔۱۲۴ ۱۱۷ڈاکٹر تارا چند،تاریخ تحریک ۱۳۷مولانا ظفرعلی خان،کلیات،حبسیات،ص:۔۱۲۵۲۸۶مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،بہارستان،ص:۔۱۲۶۵۱۰مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،بہارستان،ص:۔۱۲۷۹۶اشرف عطا،ظفرعلی خان،ص:۔۱۲۸۲۹۵مولانا ظفرعلی خان، کلیات،بہارستان،ص:۔۱۲۹۹۶اشرف عطا،مولانا ظفرعلی خان،ص:۔۱۳۰@@ا، ص:۔۱۳۱ ۹۸-۹۷ایض@@ا، ص:۔۱۳۲ ۹۸ اایض۵۵۹مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،بہارستان،ص:۔۱۳۳ااثار،ص:۔۱۳۴ ۱۸۲ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی،مولانا ظفرعلی خان،احوال و

Page 275: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

274

۱۴-۱۳: مولانا ظفرعلی خان،کلیات،چمنستان،ص۔۱۳۵@@ا،ص:۔۱۳۶ ۱۶ایض۲۰۷-۲۰۶مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،نگارستان،ص:۔۱۳۷۶۴مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،چمنستان،ص:۔۱۳۸Kishwar۔۱۳۹ Sultana,Mulana Zafar Ali khan,

Majlis-e-Ittihad -e-Millat,JRSP Vol.53,No.1,January-June,

2016,P.117۱۸۷-۱۸۶مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،نگارستان،ص:۔۱۴۰@@ا،ص:۔۱۴۱ ۱۸۲ایض@@ا،ص:۔۱۴۲ ۱۴۴- ۱۴۳ایض۶۲مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،چمنستان،ص:۔۱۴۳۲۹۴،جلد اول،بحوالہ تارا چند،جلد چہارم،ص:۱۹۳۶ہندو ستانی سالانہ رجسٹر۔۱۴۴@@ا،ص:۔۱۴۵ ۳۸۹ایض@@ا،ص:۔۱۴۶ ۳۸۷ایض۱۷۵مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،نگارستان،ص:۔۱۴۷۱۷۶: مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،نگارستان،ص۔۱۴۸۷۷مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،حبسیات،ص:۔۱۴۹۴۱۲مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،بہارستان،۔۱۵۰ ۱۷۳مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،حبسیات،ص:۔۱۵۱

Page 276: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

275

Page 277: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

276

باب پنجم:

مولانا ظفر علی خان کی شاعری میں مغربی استعمارکے خلاف مزاحمتی رویے

ء تک(۱۹۴۷سے ۱۹۳۶)ء تک کے دور کا سیاسی منظر نامہ۱۹۴۷ء سے ۱۹۳۶ا(

ب( ہندوس تان کے اہم ت اریخی واقع ات کے تن اظر میں مولان ا ظف رعلی خ ان کی ش اعری میں مغ ربیکے خلاف مزاحمت استعمار

ء کے بعد پاکستان کے حوالے سے مولانا ظفر علی خان کی شاعری کا جائزہ۱۹۴۷ج( د(استعماری فتنہ ’’قادیانیت‘‘ کے خلاف مولانا ظفرعلی خان کی شاعری میں مزاحمتی رویے

(۱)ء تک کے دور کا سیاسی منظر نامہ:۱۹۴۷ء سے ۱۹۳۶

اازادی کی تاریخ میں تک کا دورنہ ایت اہمیت ک ا حام ل ہے۔ء۱۹۴۷ سے ء۱۹۳۶تحریک ااخ ری دور ہے۔ دوس ری ع المی جن گ اس عش رے میں برپ ا یہ دورہندوستان کی ڈیڑھ سو س الہ جدوجہ د ک ا سانہیں اپنے مقبوض ہ علاق وں میں مزی د ن و ہوئی جس کے نتیجے میںدنیا کی ب ڑی ط اقتوں ک و کم زور ہون ا پ ڑااور اابادیاتی حکومتیںبرقراررکھنا ناممکن رہا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد کئی ممالک سے اس تعماری ط اقتوں ک وااپس کی قت ل و بوریا بستر باندھ کر جانا پڑا۔کانگرس اور مسلم لیگ کی طویل جدوجہد اور ہندو مس لم کے غارت اور خوں ریزیوں کے بعد دنیا کے نقشے میں دو ملکوں’’ہندوستان اور پاکستان‘‘کا اض افہ بھی اس دور

کی یادگار ہے۔

Page 278: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

277

بیس ویں ص دی کے نص ف اول میں ہن دو مس لم تعلق ات مسلس ل نش یب و ف راز کے ش کار رہے۔ ء میں تنس یخ بنگ ال کے اعلان۱۹۱۱ء میں تقسیم بنگال کے فیصلے پر اختلافات ب ڑھ گ ئے ت و ۱۹۰۵

کے بع د مف اہمت کی کوش ش ش روع ہ وئی۔پہلی جن گ عظیم کے کے دوران مش ترکہ مف اد ات کے تحتہق لکھنئو نے دونوں قوموں کو یکجا کیا ۔ ۱۹۱۶ ء تک تحریک خلافت کے پلیٹ ف ارم۱۹۲۲ء میں میثا

ء کے بع د ش دھی اور س نگھٹن کی۱۹۲۲س ے مش ترکہ مقص د کے حص ول کے جدوجہ د ک رتے رہیں۔ تحریکوں نے بیچ میں ایک بہت بڑی خلیج پیدا کر دی تاہم سائمن کمیش ن کے بائیک اٹ پ ر ای ک ب ار پھ ر مفاہمت کا راستہ ہموار ہوا۔نہرو رپورٹ میں کانگرس کا رویہ انتہاپسندانہ رہا جس سے پھر مخالفت کی فضا پیدا ہ وئی۔گ ول م یز کانفرنس وں میں مف اہمت کی کوش ش کی گ ئی ج و کس ی ح د ت ک کامی اب ہ وئی ۔یہ

ء کے انتخاب ات کے بع د دون وں۱۹۳۷ء کے انتخاب ات ت ک چلتارہ ا۔۱۹۳۷ء ایکٹ اور ۱۹۳۵سلس لہ قومیں پھر کبھی یکجا نہ ہو سکیں جس کی وجہ سے برصغیر پاک و ہند دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔

سچکی ہے، دو حص وں پ ر مش تمل۱۹۳۵ ء ایکٹ جس پ ر پچھلے ب اب میں تفص یلی گفتگ و ہ و تھ ا ۔ای ک ص وبائی حک ومت کے متعل ق اور دوس را وف اقی حک ومت کے ح والے س ے۔ایکٹ کادوس را حص ہ انتخابات میں ریاستوں کی کثیر تعداد کی فیڈریشن میں ش رکت کے س اتھ مش روط رکھ ا گی ا تھ ا۔یع نی اگ ر ریاستوں نے زیادہ تعداد میں پارٹیوں کے ساتھ الحاق کیا تو وفاقی حص ے ک ا نف اذ ہوگ ا بص ورت دیگ ر دس تور کاصرف صوبائی حصہ نافذالعمل ہوگا۔چوں کہ الیکشن میں ریاستوں کے الح اق والی ش رط پ وری نہیں ہ وئی

اس لیے ایکٹ کا وفاق والا حصہ موء خر کر دیا گیا۔@@ا تمام سیاسی پارٹیوں نے ایکٹ کو تنقید کا نشانہ بنایااور اسے غیر جمہ وری ق رار ہندوستان کے تقریب

ء کے انتخاب ات ک ا اعلان کی ا گی ا ت و معم ولی پس وپیش کے بع د س ب نے۱۹۳۷دے دی ا۔لیکن جب اائند تسلس ل کے اائینی اصلاحات میں خوش الیکش میں حصہ لینے کا اظہار کیا۔جواز یہ پیش کی گئی کہ اازاد نے ایکٹ کے بارے میں اپنے تاثرات قلمن د ک رتے ہ وئے لکھ ا طور پر اسے منظور کیا گیا۔مولانا ابولاکلا

ہے:ااف انڈیا ایکٹ میں مکمل صوبائی خود مختاری کا لحاظ رکھا گیا تھ ا لیکن۱۹۳۵’’ ء کے گورنمنٹ

اس مرہم میں ایک مکھی بھی چھپی ہوئی تھی ۔گورنروں کو یہ خصوصی اختیارات س ونپے گ ئے تھے کہ وہ

Page 279: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

278

اائین ک و معط ل ایمرجنسی کا نفاذ کر سکتے ہیں،اور ایک بار ایسا ک رتے ہی انھیں یہ ح ق م ل جات ا تھ ا کہ (۱کردیںاورتمام اختیارات پر قابض ہو جائیں۔‘‘)

اازما لینا چاہیے۔بعض ڈاکٹر تارا چند کے مطابق بعض پارٹیاں چاہتی تھیں کہ جو کچھ ملا ہے اسے اامد کرکے دستور کو تباہ کر دین ا چ اہتے ہیں ت اکہ اس دوسری پارٹیاں یہ سمجھتی تھیں کہ ہم اس پر عمل در کی بجائے کوئی ایسا دستور لایا جا سکے جو ملک کے لیے واقعی مفید ہ و اور مل ک میں موج ودہ خرابی وں

کانگرس نے بھ ر پ ور تی اریوں کے س اتھ انتخاب ات میں حص ہ لی ا جب کہ(۲اور کوتاہیوں کو دور کر سکے۔)ساس پوزیش ن میں نہیں تھی کہ ای ک مس تحکم پ ارٹی کی ش کل میں اس کے مق ابلے میں مس لم لی گ

ء میں خلافت کمی ٹی ختم ہ ونے کے بع د۱۹۲۷مس لمانوں کی نمائن دگی ک رتی۔اس کی ب ڑی وجہ ااپس میں اختلافات تھی۔ہر مکتبہ فکر کے لوگوںنے مسلم لیگ سے الگ ہوکر اپنی الگ تنظیم مسلمانوں کے ااور سچکی تھی،سر محم د ش فیع نے پنج اب لی گ بن ائی تھی۔کچھ ق د بنائی۔مسلم لیگ دو دھڑوں میں بٹ مس لمان کانگریس ی بن گ ئے تھے ۔پنج اب کی فض ل حس ین متح دہ پ ارٹی)یونینس ٹ پ ارٹی(انجمن احرار،مجلس اتحاد ملت،خدائی خدمت گاراور جمعیت علمائے ہند ہی دراصل مس لم لی گ کے ک ٹے ہ وئے

ہاتھ تصور کیے جاسکتے ہیں۔ فاروق ملک نے بھی مختلف صوبوں میںمسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے سیاسی گروپوں کا ذکر کیا ہے۔سرحد میں خان ب رادران،س ندھ میں اللہ بخش گ روپ،پنج اب میں ی و نیس ٹ پ ارٹی،اح رار اور خاکس ار،بنگ ال میں

ااسام میںسعداللہ گروپ منظم تھے۔) (۳کرشک پرجا پارٹی اور ء میں قائداعظم نے جب نہ رو رپ ورٹ س ے اختلاف کی بنی اد پ ر مس لمانوں کے مطالب ات۱۹۲۸

شامل کرنے کی خاطر چودہ نکات پیش کیے توردعم ل میں ک انگرس نے ہن دو مہاس بھائی لی ڈروں ک ا س اتھ دیا جس قائداعظم نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔اس کے بعد قائداعظم گ ول م یز کانفرس وں میں ک انگرس کی سرد مہری اور چند قدامت پرس ت س وچ کے حام ل نمائن دوں کی وجہ س ے ہندوس تان کی سیاس ت ک وسان کی غ یر موج ودگی کی وجہ س ے مس لم لی گ میں ج و خلا پی دا ااباد کہہ کر انگلستان چلے گ ئے۔ خیر

سپر کرنے میں باقی لیگی رہنما ناک ام دکھ ائی دی ئے۔ ساسے ء میں مس لم لی گ کی درخواس ت پ ر۱۹۳۴ہوئی اانے س ے مس لم لی گ ک و ن ئی سان کے دوب ارہ ااکر بلا مقابلہ لجسلیٹواس مبلی مم بر منتخب ہ وئے۔ جناح دوبارہ

Page 280: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

279

توانا ئی مل گئی۔الیکشن کے حوالے س ے جن اح نے س ب س ے ب ڑا ک ام یہ کی ا کہ ای ک پارلیم انی ب ورڈ بنای ا@@ا تم ام تنظیم وں س ے نمائن دے ل یے گ ئے۔خ ود مل ک کے مختل ف ش ہروں اور جس میں مسلمانوں کے تقریب ص وبوں کے دورے ک یے اور م ذکورہ تنظیم وں ک و مس لم لی گ میں ض م ک رنے کی درخواس ت کی۔ مولان ا ظفرعلی خان نے مجلس اتحاد ملت کوقائد اعظم کے اس مشن میں مسلم لیگ میں ض م ک ر دی ا تھ ا۔ت اہم ان کوششوں کے باوجود شمال مغربی سرحدی صوبہ میں خان عبدالغفار خان کی’’خدائی خدمت گار‘‘کے کانگرس میں انضمام اور مسلمانوں کی دوسری تنظیمیںمجلس احراراور جمعیت العلمائے ہند وغ یرہ کے ال گ انتخاب ات کی وجہ س ے مس لم لی گ زی ادہ ترمس لمانوں کے ووٹ س ے بھی مح روم رہی۔جس کی وجہ س ے انتخابات میں مسلم لیگ کوخ اطر خ واہ کامی ابی حاص ل نہ ہوس کی۔ک انگرس نے ہن دو اکثری تی ص وبوں میںال کی۔ب اقی چ ار ص وبوں ووٹ حاص ل ک رکے گی ارہ میں س ے س ات ص وبوں میں اک ثریت حاص ااسام میں غ یر کانگرس ی،یع نی مس لم لی گ،یونینس ت اور دوس رے چھ وٹے چھ وٹے بنگال،پنجاب ،سندھ اور

گروپ کامیاب ہوگئے۔ ء میں انتخابات شروع ہوئے۔انتخابات کے دوران مسلم لیگ کے ساتھ کانگرس ک ا۱۹۳۷جنوری

رویہ دوستانہ رہا لیکن انتخابات کے بعد وزارتوں کی تشکیل کے معاملے میں کانگرس کے رویے میں تب دیلی ااگئی۔قائداعظم جو ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد کے لیے جدو جہد کرتے رہے ۔کانگرس سے متنف ر ہ و گ ئے اورساس کی پالیسیوں پر تنقید شروع کی۔ انتخابات میںکانگرس کامس لم لی گ اور مس لمانوں کے س اتھ کھل کر غیر امتیازی سلوک کا اندازہ خود کانگرس میں شامل مسلمانوں کے ساتھ کی گئی زی ادتیوں س ے بھی لگای ا

اازاد نے ’’انڈیا ونس فریڈم‘‘ میں کیا ہے: جاسکتا ہے جن کا ذکر خود ابولکلام بمبئی میں مسٹر نریمان مقامی کانگرس کے مسلم لی ڈر تھے۔جب ص وبائی حک ومت کی تش کیل ک ا س وال ساٹھا تو عام توقع یہ کی جاتی تھی کہ اپنے مرتبے اور ریکارٹ کی بن ا پ ر مس ٹر نریم ان س ے قی ادت س نبھالنے کو کہا جائے گا۔اس کا بہر نوع یہ مطلب ہوتا کہ کانگریس اسمبلی پارٹی کے اراکین میں اگ رچہ ہن دو ئ وںہی بنای ا ج ائے گ ا۔س ردار پٹی ل اور ان کے س اتھی اس ص ورت کی اکثریت ہے لیکن ایک پارس ی ک و وزی ر اعل حال کو قبول نہ کر سکے ۔۔چنانچہ مسٹر بی،جی کھ یر س امنے لائے گ ئے۔۔۔ایس اہی ای ک قص ہ بہ ار میںال ان ڈیا کے ج نر ل اا ہ وا۔جس وقت انتخاب ات ہ وئے ڈاک ٹر س ید محم ود ص وبے کے ب ڑے لی ڈر تھے ۔وہ

Page 281: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

280

سیکریٹری بھی تھے ۔۔کانگرس کو جب مکمل اکثریت حاصل ہ وئی ت و یہ طے س مجھ لی ا گی ا کہ ص وبائی خود مختاری کے تحت ڈاکٹر سید محمود کو لیڈر چن لیا جائے گا اس کے برخلاف ہوا یہ کہ سری کرشنہی کے ل یے تی ار کی ا ج انے لگ ا۔راجن در پرس ادنے بہ ار میں سنہا اور انوگرہ ناراین کو بلا لیا گیا اور وزارت اعل

(۴وہی کام کیا جو سردار پٹیل نے بمبئی میں کیا۔‘‘)ہی کے انتخاب کے لیے م وزوں رہنم ا کے س اتھ ان واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعلاگرپارٹی میں ایسا سلوک روا رکھا گیا تو ایک عام مسلمان ورکر کی کانگرس میںکیا حیثیت ہو سکتی تھی۔اایاتو کانگرس نے ابتداء میں یہ جوازپیش ک رتے ہ وئے انتخابات کے بعد اختیارات) وزارتوں( کا مرحلہ

ء ایکٹ کے تحت اختی ارات گ ورنروں کے پ اس ہ وں گے جب کہ۱۹۳۵اختیارات لینے س ے انک ار کی ا کہ صوبائی وزرا محض کٹھ پتلیاں بن جائیں گے۔تاہم وائسرائے نے یقین دہ انی ک رائی کہ گ ورنر وزارت وں کے ک ام

ء کو وزارت وں ک ا سلس لہ ش روع ہواتوک انگرس نے مس لم۱۹۳۷جولائی ۸میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔ لیگ کے ساتھ مخلوط وازارتیں تشکیل دینے سے انکار کیا اور ایک پارٹی کی وزارتیں بنانے کا منصوبہ بنای ا۔ چ وں کہ ک انگرس ک و اک ثریت حاص ل تھی اور دوس ری ط رف مس لم اکثری تی ص وبوں میں مس لم لی گ کیاائیں۔ک انگرس ص رف خ ود ک و نمائندگی کمزورہ ونے کی وجہ س ے ک انگرس کے روی وں میں ک افی تب دیلیاں ساس خ ط س ے لگای ا جاس کتا ہے ج و اازاد کے اقتدار کے حقدار تص ور ک رنے لگی۔اس ک ا ان دا زہ اب والکلام یوپی کے مسلم لیگی صدر چوہدری خلیق الزمان کو کانگرس کے تعاون حاصل کرنے میں لکھا ۔خ ط میںااس ان لفظ وں میں مس لم لی گ کے ختم سچکے ہیں،جن کاماننا درج شرائط کا ذکرتارا چند اپنی کتاب میںک ر

ہونے کے مترادف تھا: ۔یوپی کی مجلس قانون ساز میں مسلم لیگ کا گ روپ بحی ثیت ای ک علیح دہ گ روپ ک ام نہیں ک رے۱’’

گ ا۔ی وپی میں مس لم لی گ پ ارلیمنٹری ب ورڈ ختم کی ا ج ائے گ ا۔اور اس کے بع د ب ورڈ کے ض منی انتخاب اتسامیدوار نہ کھڑا کیا جائے۔‘‘) ( ۵میںکوئی

اائی اور مسلم لیگ ح زب اختلاف میں بیٹھ گ ئی۔۱۹۳۷ ء انتخابات کے بعدکانگرس اقتدار میں نہ رو نے م دراس میں تقری ر ک رتے ہ وئے کہ ا کہ ہندوس تان میں دو پارٹی اں ہیں)ک انگرس اور انگری ز( یہ اعلان دراصل مسلم لیگ کے وجود سے انکارتھاجو مسلم لیگ اور مسلمان دونوں کے لیے ایک چیلنج ثابت ہ وئی

Page 282: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

281

ء کے انتخابات کے بعد ک انگرس کے مس لم لی گ کے وج ود س ے انک ار اور مس لمانوں کی ال گ۱۹۳۷۔ سیاسی جماعت کی مخالفت ہی مسلم لیگ کے لیے ک ارگر ث ابت ہ وئی۔ڈاک ٹر فرم ان فتح پ وری کے الف اظ میں کانگرس اگر چہ سیکولر ہونے کا دعوی کرتی تھی لیکن اس نے پہلا کام یہ کیا کہ’’ بینکم چندرا چٹ وساس اانند مٹھ‘‘کے ایک گانے ’’بندے م اترم‘‘ک و اپن ا ق ومی ت رانہ بن ا دی ا۔بن دے م اترم پادھیائے‘‘ کے ناول ’’ ناول کی ایک دعا ہے جس میں ’’کالی دیوی‘‘کے سامنے ہاتھ جوڑ کرمسلمانوں ک و مفت وح ومغل وب ک رنے

اانے س ے انتہ ا پس ند ہن دوئوں نے فس ادات ک ا سلس لہ(۶کی دعا مانگی گ ئی ہے۔) ک انگرس کے اقت دارمیں شروع کیا۔نماز کے وقت مسجدوں کے سامنے بین باجے بجانا شروع کردیے گئے۔کانگرس کی وزارتیں ق ائمااگئی۔یوپی ،بہار اور ہندو اکثریت کے دوسرے ص وبوں سان کی حکومت ہوتے ہی ہندوئوں نے یہ سمجھ لیا کہ سانھ وں نے میں اذان ،نم از،مح رم کے جلوس وں پ ر، روک ٹ وک اور حملے اپ نے غل بے کے مظ اہرے کے ل یے

مسلم لیگ نے ان مظالم کے خلاف ایک کمیٹی بنائی جس نے باقاعدہ ایک رپورٹ(۷ضروری قرار دیے۔ )اانے کے اازاد نے ک انگرس کے وزارت وں میں تیار کی اور حکومت سے انصاف کا مطالبہ کیا۔اگر چہ ابولکلام بعد فرقہ وارانہ فسادات اور اقلیتوں کے ساتھ روا رکھنے والے ن اروا س لوک کی خ بروں ک و بے بنی اد ق رار دی ااور

اسے قائداعظم اور مسلم لیگ کی طرف سے لگائے گئے الزامات قرار دیئے: ’’اپنے ذاتی علم اور ذمے داری کے پورے احس اس کے س اتھ میں کہہ س کتا ہ وں کہ مس لمانوں اور دوس ری اقلیت وں کے س اتھ ناانص افی کے ج و الزام ات مس ٹر جن اح اور مس لم لی گ کی ط رف س ے لگ ائے ج اتے@@ا بے بنیاد تھے۔اگر ان الزامات میں سچائی کی ذرا بھی رمق ہوتی، ت و میں اس ام ر پ ر پ وری ت وجہ تھے،مطلقہی ت ک دی نے کے ل یے تی ار صرف کرتا کہ نا انصافی کا تدارک ہو ج ائے ،ایس ے کس ی س وال پ ر میں اس تعف

(۸تھا۔‘‘)اانے کے بعد متک برانہ رویہ اور ہن دو انتہ ا پس ندوں کے رام راج کے نع رے اور کانگرس کے اقتدار میں فس ادات وہ بنی ادی محرک ات تھے جس نے مس لمانوںکوایک ال گ ق وم کی حی ثیت س ے ال گ ریاس ت کی تشکیل دی نے پ ر مجب ور کی ا۔مس لمانوں نے سیاس ی ط ور پرک انگرس اور ہندومہاس بھا کے ردعم ل میں مس لم

لیگ کوبطور مسلم نمائندہ جماعت کا انتخاب کیا۔

Page 283: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

282

ء ت ک اس تص ور کوم انتی رہی کہ مل ک ای ک ہے ق وم ای ک ہے اور حک ومت ای ک۱۹۳۷مسلم لی گ ج و ہے ۔اب اصرار کرنے لگی کہ مسلم فرقے کو بحیثیت ایک ضمنی قومیت کے تسلیم کی ا جان ا چ اہیے،جس کا اپنا کلچر ہے،اپنی زبان ہے،اپنا مذہب ہے،اپنی روایات اور اپنے نجی ق وانین ہیں۔جس کے ب اعث اس کے

(۹سیاسی مفادات جداگانہ ہیں۔)اانے کے بع د ہن دو مس لم کے جم اعتی۱۸ ۳۷ ء کے انتخاب ات اور ک انگرس کے اقت دار میں

وحدت کو کافی نقصان پہنچا ۔ مسٹر جن اح جنھ وں نے ہمیش ہ ہن دو مس لم اتح اد کی ب ات کی۔ک انگرسسان ک و اختلاف رہ ا تھ ا ت و ص رف ف رقہ وارانہ سے الگ ضرورتھے لیکن مخالف ہرگزنہیں ۔ک انگرس س ے اگ ر اازادی ساٹھائی۔ جدو جہ د ااواز سانھوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کے لیے مسئلے پر، کیوں کہ میں وہ مشترکہ جدوجہد کے حامی تھے، لیکن مذکورہ انتخابات کے بعد ک انگرس کی س ردمہری اور ہن دو

ااخر کارجناح کویہ کہنے پر مجبور کیا: انتہا پسندوںکے مسلسل انتہاپسندی مسلم لیگ نے ''Belong to two different religious

philosophies,social customs,literature.They neither intermarry nor interdine,and indeed they belong to two different civilizations which are based on conflicting ideas and conceptions...To yoke together two such nations under a single state,one as a numerical minority,and the other as a majority,must lead to growing discontent and final destruction of any fabric that may be so built uf for the

government of such state.(10)تھے کہ دوسری جنگ عظیم۱۹۳۷ ہوئے نہیں ابھی دو سال وزارتوں کے انتخابات میں ء کے

ء ک و جرم نی کے گلے میں ج و۱۹۱۹ش روع ہ وئی۔پہلی جن گ عظیم کے اختت ام پ ر اتح ادیوں نے ج ون پھندامعاہ دہ’’ وارس ائی‘‘ کی ش کل میں ڈالا تھ ا ۔ دراص ل دوس ری ع المی جن گ ک ا ب اعث بن ا۔معاہ دہہن جن گ لی نے کی ش کل میں جرم نی کی ’’وارسائی‘‘میں جرمنی کے بہت س ے علاق وں پ ر قبض ہ کرن ا،ت اوا معیشت کو تباہ کرنا،وسائل پر قبضہ کرنا،بری اور بحری افواج کو محدود کرنے کی پابندیاں عائد کرن ا وغ یرہ

Page 284: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

283

ء۱۹۳۱وہ سارے بدترین شرائط تھے جس نے جرمنی قوم کے اندر شدید ردعم ل پی دا ک ر دی ا۔جرم نی میں ء کے انتخاب ات کے بع د چانس لر۱۹۳۳کو ہٹلر جیسابڑا رہنما جرمن ورکر پ ارٹی)ن ازی( ک ا چ یرمین بن ا اور

ااکراپ نے مفت وحہ علاق وں ک و واپس لین ا ش روع ک ر دی ا۔ ء۱۹۳۸کے عہدے پر پہنچ گیا۔ہٹلر نے اقتدار میں ااسڑیا کو اپ نی ریاس ت میں ض م کردی ا۔چیکوس لواکیہ ک ا ش مالی حص ہ )س وڈٹین لین ڈ(جہ اں میں جرمنی نے ااباد تھے نے جرمن ریاست میں شمولیت کا نعرہ لگایا۔اس امر پ ر چیک و س لواکیہ اور جرم نی کی جرمن لوگ جن گ تس لیم ش دہ تھی لیکن برط انوی وزی ر اعظم )مس ٹر چیم برلین(کے فیص لے س ے جن گ ٹ ل گ ئی اورااگی ا۔کچھ عرص ہ بع د یکم س تمبر ک و اادھا حص ہ جن گ کے بغ یر جرم نی کے قبض ے میں چیکوسلواکیہ کا

ستمبرکو برطانیہ اور فرانس نے جرم نی کے خلاف اعلان جن گ کردی ا۔بع د۳جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا ۔میں اطالیہ،جاپان،امریکہ اور روس کی شمولیت سے جنگ نے ایک عالمی جنگ کی شکل اختیار کی۔

ء ک و جن گ ک ا۱۹۳۹س تمبر ۳ہندوستان کی طرف س ے وائس رائے ہن د نے بغ یر کس ی ت ردد کے اازاد ہی دے دیا۔اب والکلام اعلان کردیا۔وائسرائے کے اس اعلان کو بنیاد بنا کر کانگرس نے وزارتوں سے استعف

نے سامراجی حکومت کی اس قسم کے اعلامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے:ہت مش ترکہ کے۱۹۳۹ س تمبر ۳’’جب برطانیہ نے ء ک و جرم نی کے خلاف جن گ ک ا اعلان کی ا ت و دول

تم ام اراکین س ے بھی یہی ک رنے کی اپی ل کی ۔ڈومیی نین پ ارلیمینٹس نے اپ نے اجلاس بلائے اور جن گ ک ا اعلان کردیا۔ہندو ستان کے معاملے میں وائسرائے ہند نے مرکزی مجلس قانون ساز سے مشورے کی رس م ادا کیے بغیر ،اپنے طور ہی جرمنی س ے جن گ ک ا اعلان ک ر دی ا۔وائس رائے کے اس اق دام س ے اگ ر مزی د ثب وت درکار تھے،تو نئے سرے سے یہ بات ثابت کردی کہ بر طانوی حکومت ہندوستان کو اپ نی مرض ی کے ای ک

(۱۱غلام کے طور پر دیکھتی ہے۔‘‘) پہلی جن گ عظیم کی ط رح دوس ری جن گ عظیم بھی مغ ربی اس تعمارکی استحص الی پالیس ی کے تحت واقع ہوئی۔طاقت کا حصول،توسیع پسندانہ خواہشات،معاشی و اقتصادی برتری،ثق افتی اج ارہ داری اورااپس میں برس رپیکار ہ و ئے۔جس کے ن تیجے میں ہ یرو نئی منڈیوں تک رس ائی کی لالچ س ے ی ورپی ممال ک شیما اور ناگا ساکی کے ہولناکیوں سمیت پانچ کروڑ کے لگ بھگ انسان لقمہ اج ل بن گ ئے۔حک ومت نےہندوس تان کی حم ایت حاص ل ک رنے کی غ رض س ے ک انگرس اور مس لم لی گ س ے ملاق اتیں ش روع کیں۔

Page 285: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

284

وائس رائے )لارڈ لن لتھ گ و(نے گان دھی جی س ے ملاق ات کی ج و ع دم تش دد اور اہنس ا ک ا وردک رتے رہے۔ساس سے مش ورے کے بغ یر میں سانھوں نے بھی ورکنگ کمیٹی کا حوالہ دیا کہ قائداعظم سے ملاقات کی تو کوئی وعدہ نہیں کر سکتا۔کانگرس کے اندر بھی کافی اختلافات پیدا ہوئے کیوں کہ گاندھی بالک ل جن گاازاد اور نہرو مشروط ط ور پ ر جن گ میں ش امل ہ ونے کے بیان ات کے حق میں نہیں تھے جب کہ ابوالکلام

دیتے تھے۔@@اایک رہا ف رق ص رف اتن ا تھ ا کہ جنگ کے حوالے سے کانگرس اورمسلم لیگ دونوں کا موقف تقریباازادی کے س اتھ اازادی ش رط رکھ دی اور مس لم لی گ نے کانگرس نے جنگ میں شمولیت کے ل یے مکم ل اازادی ک ا مط البہ بھی مش روط رکھ ا۔ہندوس تانی پارٹی اں اگ ر چہ ن ازی اور فاشس ٹ ط اقتوں کے کانگرس س ے ستلی ہ وئی تھی ساسے غلام رکھنے پ ر مقابلے میں جمہوریت کی حمایت میں تھیں، لیکن جو جمہوریت خود

اازادی کے بغیر وہ کیسے حمایت کر سکتی تھی۔سچکی تھی ۔جب۱۹۳۹ سرخ اختی ار ک ر ء ت ک ہندوس تان میں ہن دو مس لم اختلاف ات سیاس ی

ہی دیا تو مسلم لی گ نے مس ٹر جن اح کے کہ نے پ ر ء ک و۱۹۳۹ دس مبر ۶کانگرس نے وزارتوں سے استعف ء۱۹۴۰ م ارچ ۲۳یوم نجات منائی۔ ہندو مسلم اختلافات کے نتیجے میں مسلم لیگ کا س الانہ اجلاس

کو لاہور میںمنعقد ہوا جس میں تقسیم ہند کی قرارداد پاس کی گ ئی۔ مس لمانوں کی خ واہش پ ر ای ک ال گ مملکت بنانے کا منصوبہ بنایا گیا جوابتداء میں قرارداد لاہور اور بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے مش ہور

سچکے تھے ، اقب ال نے االہ ب اد کے خطبہ میں۱۹۳۰ہوا۔دو قومی نظریہ جوابتدا میں سرسید پیش ک ر ء کے ساس ی بنی اد ساسے مزید صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے الگ ریاست کا تصور بھی پیش کیا۔قرارداد لاہ ور میںہی مول وی فض ل الح ق پر ایک الگ مملکت بنانے کا قرارداد منظو ر کی گئی۔یہ قرار داد بنگ ال کے وزی ر اعل نے حاض رین کے س امنے پیش کی۔حاض رین میں بیگم محم دعلی ج وہر س میت ، قاض ی محم دہی،چوہدری خلیق الزمان اور مولانا ظف رعلی خ ان پہلے تائی د ک رنے وال وں میں س ے تھے۔چ وں کہ ق راردار عیس انگریزی زبان میں تھی اس ل یے مولان ا ظف رعلی خ ان نے س نتے ہی اس ک ا اردو ت رجمہ کی ا اور حاض رین کے

سامنے پیش کیا۔فاروق ملک نے قرارداد کا متن پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:

Page 286: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

285

’’ہندوستان کے لیے کسی دستوری خاکہ کو قابل عمل اور مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں سمجھا جائےساصولوں پ ر ت رتیب نہ دی ا ج ائے گ ا یع نی جغرافی ائی اعتب ار س ے متص لہ علاقے گا جب تک اسے مندجہ ذیل الگ خطے بنا دئیے جائیں اور جو علاقائی ترامیم ضروری سمجھی جائیں ،کر لی جائیں،تاکہ ہندوستان کےاابادی اکثریت حاص ل ہے ،وہ شمال مغرب اور شمال مشرق میں جن علاقوں کے اندر مسلمانوں کو از روئے

اازاد ریاستیں بن جائیں جن کے اجزائے ترکیبی خود مختار اور مقتدر ہوں۔‘‘) (۱۲یکجا ہو کر ایسی اازادی ک ا مط البہ کی ا اورانف رادی س تیہ گ رہ ہی ہ ونے کے بع دمکمل ک انگرس نے وزارت وں س ے مس تعف

ء میں جرم نی ک ا روس پ ر حملہ۱۹۴۱شروع کیا جس کی وجہ سے اہم رہنم ا جی ل میں چلے گ ئے۔ج ون ء میں جاپان کا امریکہ پر حملے نے جنگ کی صورت ح ال تب دیل ک ر دی ۔ ہندوس تانی۱۹۴۱اور دسمبر

جو جمہوریت کے حمایتی دکھائی دیتے تھے روس کی شمولیت سے واضح حمایتی بن گئے۔دوسری طرف جاپ ان نے ملای ا،س نگاپور اور برم ا پ ر حملہ ک رکے ہندوس تان کے دروازے پ ر دس تک دین ا ش روع ک ر دی ا۔اب ہندوستانی انگلستان کی بجائے جاپ ان کی حم ایت کے ح ق میں ہ و گ ئے،اس حم ایت ک و س بھاش چن در بوش کی خبروں نے اور بھی جلا بخشی جو ہندوستان سے نکل کر جرم نی پہنچ چکے تھے اور جاپ ان کے تعاون سے ہندوستان سے انگریزوں کے نک النے کے منص وبے تی ار ک ر رہے تھے۔م ذکورہ بالاص ورت ح ال کی وجہ سے ہندوستانیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے امریکہ نے انگلستان پ ر زور ڈالا۔کانگرس ی رہنم ائوں کو رہا کر دیا گیا۔ برطانیہ کے وزیر اعظم مس ٹر چرچ ل نے ہندوس تانیوں کی حم ایت حاص ل ک رنے کے ل یے

ء ک و سراس ٹیفرڈکرپس ک و مف اہمت کے ل یے ہندوس تان بھیج ا۔ک رپس نے ہندوس تان کے تم ام۱۹۴۲م ارچ اام ادہ ک رنے کی کوش ش سیاسی پارٹیوں سے ملاقاتیں کیں اوران کو سیاسی اور فوجی حوالے س ے جن گ پ ر

کی۔ ء کو کرپس ہندوستان پہنچے اور ہندوستان کے سیاسی مس ئلے ک و ح ل ک رنے۱۹۴۲ مارچ ۲۵

اابادیات کا کا سکیم پیش کیا۔سکیم کے ابتدا میں کہا گیا کہ ایک نیا انڈین یونین قائم کی جائے جسے نواابادی ات کے دس تور کے متعل ق تھ ا۔ جس درجہ حاصل ہو۔اس سکیم کے دو حصے تھے ۔پہلا حصہ اس نو کے مطابق ساری صوبہ جاتی مجلس قانون ساز کے ل یے الیکش ن کرای ا ج ائے گ اجو ریاس توں کے نمائن دوں سے مل کر انتخابی کالج بنائے گا جس کا کام دستور مرتب کر نا ہوگا۔اگ ر کس ی ص وبے ک ا مجلس ق انون

Page 287: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

286

ساسے انڈین یونین سے الگ ہونے کا حق ہوگا اور پھر وہ ساز اپنے ووٹ سے اس دستور کو نامنظور کر دے تو ساس ک و منظ ور ک رکے ناف ذ کی ا ج ائے گ ا۔ اپنا دستور خود بنائے گا۔جو دستور بنایا جائے گ ا حک ومت س ے سکیم کے دوسرے حصے کا تعلق جنگ کے بارے میں عارضی یا ف وری ط ور پ ر انتظام ات کے ب ارے میںس س وقت ت ک ہندوس تان کے دف اع کی ذمہ داری تھا۔ جس کے مطابق جب ت ک نی ا دس تور نہیں ب نے گ ا ا

کانگرس اور مسلم لیگ دونوں نے کرپس کے تجاویز مسترد ک یے۔ک انگرس(۱۳برطانیہ کے ہاتھ میں ہوگی۔)سٹکرا دیئے کہ یہ تو محض وع دے ہیں ج و جن گ کے بع د پ ورے ک یے نے کرپس کے تجاویز کو یہ کہہ کر جائیں گے۔کرپس تجاویز میں مسلم لیگ کے جداگانہ مملکت کے تصور کو درخور اعتن ا رکھ ا گی ا تھ ا اور

ایک یونین قائم کرنے کی بات کی گئی تھی جو مسلم لیگ کو قابل قبول نہیں تھی۔ ء کو کانگرس کا وردھا میں کانفرس ش روع ہ وئی جس میں ہندوس تان پ ر جاپ ان۱۹۴۲ جولائی ۵

سانھ وں نے جاپ انی حملے کی م دافعت اازاد کے مط ابق کے حملے کے خطرات پر بحث کی گ ئی اب ولکلام کے لیے رضاکاروں کی کمیٹیاں بنائی تھیں تاہم ظاہری بات ہے ج و مل ک ام ریکہ پ ر حملہ ک ر س کتا ہے اورسان کا کیا بگاڑ س کتے تھے۔ ساس کے حملے سے خوف زدہ ہے۔ ہندوستانی رضاکار انگلستان جیسی طاقت گان دھی جی کے مط ابق چ وں کہ جاپ انیوں کی دش منی ہندوس تانیوں س ے نہیں انگری زوں س ے تھی اور وہ ہندوستان پر انگریزوں کی مخالفت میں حملہ کرنا چاہتے ہیں اس لیے اگر انگریز ہندوستان سے چلے گئے ت و

اگست کو کانگرس ورکنگ کمیٹی نے گاندھی جی کے اس۷پھر یہاں پر جنگ کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔اازادی ک ا مط البہ ش روع کی ااور اگس ت۸نظ ریے ک و عملی ش کل دی نے کے ل یے حک ومت س ے مکم ل

کو’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک شروع کردی گئی۔سول نافرمانی شروع کی گئی مختلف مقامات پر ہنگ امہاارائیاں ہوئیں جس کی وجہ سے کانگرس کے اہم لیڈرگرفتار کر لیے گئے۔

مسلم لیگ ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘تحری ک س ے ال گ رہی۔ مس ٹر جن اح کے مط ابق یہ ای ک س ازشااک ر اختی ارات تھی تا کہ حکومت برطانیہ جو پہلے سے جنگ کی وجہ سے بحران کی شکار ہے دب ائو میں

ء ک ا ای ک ان ٹرویو ج و۱۹۴۲ ج ولائی ۳۱کانگرس کے حوالے کر دے۔سید حسن ریاض قاع داعظم کے سانھوں نے ایک غیر ملکی اخبار کو دیا تھا نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

Page 288: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

287

@@ا ہندوستان چھوڑ کر نہ جائے تو ع وامی پیم انے پ ر س ول نامت ابعت ’’کانگرس کا یہ فیصلہ کہ اگر برطانوی فور ش روع ک رے گی،مس ٹر گان دھی جی اور ہن دو ک انگرس کے اس پروگ رام میں انتہ ا درجے کی ب ات ہے کہ استحصال بالجبر کے طور پر اور دبا کر برط انیہ ک و اس پ ر مجب ور کی ا ج ائے کہ وہ ایس ا ط رز حک ومت دین ا@@ا منظور کرے اور اس حکومت کو اختیارات منتقل ک رے جس س ے برط انوی س نگینوں کی حف اظت میں ف ور

(۱۴ہندو راج قائم ہو جائے اور مسلمانوں کو،دوسری اقلیتوں کو کانگرس راج کا محتاج کر دیا جائے۔) ء کو لارڈ ویول جو جنگ عظیم دوم میں کمانڈر ان چیف کا عہدہ سنبھال رہاتھا ۔۱۹۴۳اکتوبر

ہندوستان کے حالات اور جغ رافیہ س ے خ وف واق ف تھ ا۔ وائس رائے کی حی ثیت ہندوس تان وارد ہ وا۔لارڈ وی ولساس سے ہندوستانی رہنم ائوں س ے اازاد کرنے کے خواہش مند تھے ۔ ہندوستان کو ایک وحدت کی شکل میں سان کی ص حت کی خ رابی کی وجہ س ے رہ ا ک ر دیاگی ا۔ جنھ وں نے ملاقاتیں شروع کیں۔گان دھی جی ک و

جناح سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تاہم یہ مذاکرات ناکام ہوئے۔ اپری ل ک و ہٹل ر نے۳۰ اپریل کو مسولینی کو اطالیہ کی ع وام نے مین چ وک میں پھانس ی دی۔۲۸

سچکی تھی اور جاپ ان س ے ابھی جن گ۱۹۴۴خود کشی ک رلی ۔م ئی ء ت ک جرم نی شکس ت تس لیم ک ر سچکا تھ ا۔لارڈ وی ول سچکے تھے اور برطانیہ کو اپنی کامیابی کا یقین پختہ ہو جاری تھی لیکن نتائج واضح ہو

اال پارٹی کانفرنس بلائی گئی ج و ۱۹۴۵ جون ۲۵کے کہنے پر ج ولائی ت ک مسلس ل۱۴ء کو شملہ میںمنعقد ہوتی رہی۔ اجلاس میں کانگرس اور مسلم لیگ کے علاوہ سکھ اور دوسری اقلی تیں بھی ش امل تھیں۔ لارڈ ویول نے اپنا پلان پیش ک رتے ہ وئے کہ ا کہ حک ومت ہندوس تان میں ای ک ن ئے دس توری س مجھوتے کی تلاش میں ہے جس کا نفاذ برصغیر کی بڑی قومیت وں س ے پ وچھے بغ یر ن اممکن ہے۔حک ومت چ اہتی ہے کہ موجودہ انتظامی کونسل توڑ کر ایک اور کونسل بنایا جائے جس میں وزراء کا تق رر مرک زی مجلس ق انون س از اسمبلی کے ممبروں سے کیا جائے۔تمام فرقوں کو کونسل میںنمائندگی دی جائے گی ۔انتظامی کونسل میں کل تیرہ وزاراہوں گے ۔جس میں اونچی ذات کے ہندو کو پانچ،مسلمانوں ک و پ انچ،اچھ وت ک و ای ک،س کھ کو ایک،اور دیگر طبقوں سے بھی ایک نمائندہ ش امل ہوگ ا۔گ ورنر ج نرل اور کمان ڈر ان چی ف برط انوی ہ وں

(۱۵گے ۔تمام انتظامی شعبوں کو ہندوستانی ارکان کے حوالے کیا جائے گا۔)

Page 289: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

288

شملہ کانفرنس بھی مسلم لیگ اور کانگرس کے اختلاف ات کی بن ا پ ر ناک ام ہ وئی۔ک انگرس مس لم وزارتوں میں کم ازکم ایک وزیر کانگرسی مسلمان کو منتخب کرنا چ اہتی تھی جب کہ قائ داعظم ک ا موق ف یہ تھا کہ مسلمانوں کی نمائندگی کا حق ص رف مس لم لی گ ک و ہے۔اس کے علاوہ مس لم لی گ چ وں کہسچکی تھی اس ل یے وہ ایس ے کس ی س مجھوتے کے ل یے تی ار ایک الگ ریاست کے حصول ک و منظ ور ک ر ااف پاکستان‘‘میں شملہ کانفرنس کی ناکامی کے وجوہ ات بی ان نہیں تھی۔ریچرڈ سائمن نے ’’دی میکنگ

کرتے ہوئے لکھا ہے:"The immediate cause of the failure of this

proposal was jinnah's insistence that only the League should have the right to nominate the Muslim members of the council.This claim was not acceptable either to the congress, wich wished to have the right to nominate a congress Muslim,or to the viceroy, who wished the punjab unionist party to be represented on

his council by a Muslim."(16) اگس ت ک و ناگاس اکی پ ر۹ء کو امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر جب کہ۱۹۴۵اگست ۶

@@ابع د انگلس تان۱۴ایٹم بم گرائے ۔ اگست تک جاپان نے ہتھیار ڈال ک ر جن گ ختم ک ردی۔ جن گ کے فورمیں انتخابات ہوئے ۔مسٹر چرچل کی پ ارٹی جن گ جیت نے کے ب اوجود لوگ وں کے دل جیت نے میںناک ام رہی۔اازادی کے ح ق اائی اور مسٹر چرچل جو کسی ص ورت میں ہندوس تان کی الیکشن میں لیبر پارٹی برسر اقتدار میںنہیں تھے سے ہندوستان کو نجات مل گئی۔لیبر پ ارٹی ابت دا س ے ہندوس تانیوں ک و حق وق دلانے کے ح قااتے ہی ہندوس تان میں مرک زی میں تھی لیکن ملکی حالات کی وجہ سے ناکام رہی۔لیبر پارٹی نے اقتدار میں اور ص وبائی اس مبلی کے انتخاب ات ک روانے ک ا حکم دی ا اور انتخاب ات کے بع د جل د از جل د دس تور س از

اسمبلی بنانے کے احکامات صادر فرما دیئے۔ ء میں ای ک ق رارد ادکے ذریعے پہلے س ے حک ومت ک و انتخاب ات۱۹۳۵مسلم لیگ ج و ج ولائی

سچکی تھی، الیکشن میں سرگرم عمل ہوگئی۔دسمبر ء کو مرکزی اسمبلی۱۹۴۵کروانے کی درخواست دے

Page 290: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

289

نشس تیں متعین تھیں اور س اری نش تیں مس لم لی گ نے جیت۳۰کے انتخابات ہوئے ۔مسلم لیگ کے لیے ۳۳۴ نشس توں میں ۴۹۵ء میں ص وبائی ا س مبلیوں کے انتخاب ات ہ وئے ت و مس لم لی گ نے۱۹۴۶لیں۔

نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔مسلم لیگ کانگرس سمیت، جمعیت العلمائے ہند،نیشنلس ٹ مس لمان اور یونینس ٹ پ ارٹی کی مخ الفت کے ب اوجود تم ام ص وبوں میں مس لم ووٹ لی نے میں کامی اب ہ وئی۔ ص رف سرحد)خیبر پختون خوا(ایسا صوبہ تھ ا جہ اں خ ان ب رادران ک انگرس کے س اتھ تھے اور وہ اں پ ر ڈاک ٹر خ انسچکی صاحب نے مسلم لیگ کو شکست دے کر کامیابی حاص ل ک رلی۔جمعیت العلم ائے ہن د تقس یم ہ و تھی شیخ الجامعہ دیوبند حسین احمد مدنی کانگرس کی حم ایت ک ر رہے تھے لیکن اش رف اعلی تھ انویاور مولانا شبیر احم د عثم انی اور دوس رے دیوبن دی علم اء کی کث یر تع داد مس لم لی گ کے ح ق میں تھی۔ اگرچہ احرار ی سربراہ مولانا عط االلہ ش اہ بخ اری مس لم لی گ کے س خت خلاف تھے لیکن مولان ا ظف رعلی

ء کے۱۹۴۶-۴۵خان اور مولانا جیسے احراری شوکت علی مسلم لی گ ہی کے حم ایتی بن گ ئے تھے۔ انتخاب ات میںمس لم لی گ نے مس لمانوں س ے ووٹ لے ک ر مس لم نمائن دہ جم اعت ہون ا ث ابت ک ر دی۔انااپ ک و تم ام انتخابات سے کانگرس کے وہ سارے مغ الطے ختم ہ و گ ئے جس کی بنی اد پ ر ک انگرس اپ نے ہندوستانیوں کی نمائندہ پارٹی تسلیم کرتی رہی۔مسلم لیگ کی یہی کامیابی دراصل پاکستان بن نے ک ا پیش

خیمہ ثابت ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم میںاگر چہ فتح اتحادیوں ک و ہ وا لیکن ہٹل ر کے پے درپے حمل وں کی وجہ س ےاابادی ا ت پ ر قبض ہ رکھن ا مش کل رہ ا۔ ساس ے مزی د ن و سچکا تھا۔اس لیے برطانیہ شدید مالی بحران کا شکار ہو جنگ کے اختتام پر ہندوستان میں بھی ایسے مسائل نے جنم دیا جس کی وجہ سے حکومت برط انیہ اقت دار

کی منتقلی پر مجبور ہو گئی۔ جاپان کی شکست کے بعد ایک بڑا مسئلہ سبھاش چند ربوس کی فوج ک ا بن گی ا۔جس ک ا پہلےااپ ہندوستان سے جرم نی گ ئے اور وہ اں س ے جاپ ان ج ا ک ر انگری زوں کے خلاف ای ک ذکر ہو چکا ہے کہ اارمی(رکھا اور برما پر قابض ہوگئے لیکن بعد میں جاپ ان اائی۔این۔اے )انڈین نیشنل فوج تیار کی جس کا نام ہان کے خلاف مق دمے چلائے گ ئے اور اائی۔ کی پسپائی میں ہزاروں کی تعداد میںیہ فوج انگری زکی قی د میں سزائیں تجویز ہونے لگیں۔ چوں کہ اس میں ہندو،سکھ،مسلمان س ب ش امل تھے اور ان لوگ وں نے ہندوس تان

Page 291: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

290

اائے تھے اس ل یے اازادی کی خاطرس ر پ ر کفن بان دھ ک ر انگری ز کے خلاف می دان جن گ میں نک ل کی ہندوس تانی ع وام کی ہم دردیاں ان کے س اتھ تھیں اور ان کی حم ایت میں مظ اہرہ ش روع ہ وئے۔ک انگرس اور

ء کے ش روع میں۱۹۴۶مسلم لی گ دون وں نے ان کے مق دمات چلائے۔ دوس ری ط رف ہندوس تان میں بھی انگریزوں کے خلاف شدید ہڑتالیں شروع ہوئیں سب سے قابل تشویش مرحلہ فوجیوں کا تھا جنھوں نے انگری ز اور ہندوستانی فوجیوں کے درمیان غیر مساویانہ سلوک پر ہڑتال شروع کی۔پولیس سمیت بحری،ب ری اورفض ائیسان کے ل یے مزی د ناقاب ل سچکی تھیں۔ یہ ص ورت ح ال اا افواج انگری زوں کے غ یر مس اویانہ س لوک س ے تن گ

سچکا تھا۔ف روری اء ک و بمب ئی میں م زدور وںکی ہڑت ال نک الی گ ئی جس کے کچل نے کے۹۴۶برداشت بن سات ار دی ا۔اس ص ورت ح ال ک و لیے برطانوی افواج نے گولہ باری شروع کی اور سینکڑوں کو موت کے گھاٹ مد نظر رکھ کر برطانوی حکومت نے اقت دار کی منتقلی میں س نجیدگی اختی ار کی۔جس کی ای ک اہم وجہساس ے اپ نے م ذموم ہندوس تانی ف وج تھی کی وں اب وہ اس پوزیش ن میں نہیں تھی کہ س امراجی حک ومت مزید

مقاصد کے لیے استعمال کرے۔ااف۱۹۴۶ف روری ۱۹ ء ک و برط انوی پ ارلیمنٹ نے تین ارک ان، لارڈ پیتھ ک لارنس )س یکرٹری

سٹیٹ برائے ہندوستان(،سراسٹیفرڈ کرپس اور اے وی الیگزنڈر پر مشتمل ایک کی بینٹ ک و ہندوس تان بھیج نےاازادی کا کوئی حل نک ال دیں۔ ت اریخ میں کا اعلان کیا۔تاکہ یہاں کے نمائندوں سے مل کر ہندوستان کی

ء ک و کی بینٹ مش ن پلان۱۹۴۶ مارچ ۲۴یہ وفد کیبینٹ )کابینہ(مشن پلان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ااف ان ڈیا بن ائی۱۹۴۶ مئی ۱۶لاہور پہنچا ۔ ء کو کیبینٹ نے ایک منصوبہ پیش کیا کہ ایک مرکزی یونین

سام ور کے جائے گی جس میں برطانوی ہند اور ریاستیں شامل ہوگی۔ تین چیزیں دفاع، مواصلات اور خ ارجی اختیارات مرکز کے پاس ہ وں گے ب اقی اختی ارات ص وبوں ک و س ونپ دیے ج ائیں گے اس ط ر ح ص وبوں ک و مکمل خود مختاری مل جائے گی۔ فاروق ملک کابینہ مشن پلان کے تین بڑے نقاط،دستور ساز اسمبلی کا

کانگرس کو کیبنٹ مش ن پلان ک ا(۱۷قیام،عبوری حکومت کا قیام اور صوبوں کی گروپ بندی بتاتے ہیں) مذکورہ بالا تجویز منظور تھی۔ مس لم لی گ ابت دا میں ال گ ریاس ت م اننے ک ا مط البہ ک رنے لگی لیکن جبسان کے خدشات دور کیے گئے تومسٹر جن اح نے ورکن گ کمی ٹی س ے ک افی غ ور و بحث کے منصوبے میں

جون کواس منصوبے کو اس لیے منظور کیا کہ ایک الگ ریاست نہ سہی کم از کم ایک خود مختار۶بعد

Page 292: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

291

ریاست دلانے کا وعدہ کی ا گی ا۔لیکن چن د دن وں کے بع د ص در ک انگرس نہ رو نے ای ک جلس ے میں ای کسوال کے جواب میں کہا :

اازاد ہوگی اور تمام حالات ج و ’’کانگرس دستور ساز اسمبلی میں یوں داخل ہوگی کہ سمجھوتوں سے یکسر رونما ہو س کتے ہیں ،ان ک ا س امنا اپ نی مرض ی کے مط ابق ک رے گی۔۔۔اس کے نزدی ک ج و مناس ب ت رین

(۱۸صورت ہوا سی کے مطابق کیبنٹ مشن پلان کو تبدیل کرے یا اس میں ترمیم کردے۔‘‘) مسلم لیگ جوکیبنٹ مشن پلان کی منظوری سے ویسے بھی خوش نہیں تھی صدر کانگرس کا یہ بیان بے حد ناگوار گزرا۔کیوں کہ اس طریقے سے تو پلان کانگرس کے ہاتھوں ای ک کھلون ا بن ج ائے گ ا اورہہذا مس لم لی گ نے وہ جب چاہے جیسے چاہے اپنی مرضی کے مطابق اس میں ترمیم یا تردید ک ر ے گی۔ل

سبلا کرکیبنٹ مشن پلان کو منسوخ کیا اور پاکستان کا مطالبہ کی ا اور ۲۷ اگس ت۱۶ جولائی کوکانفرنس ک و ڈائ ریکٹ ایکش ن ک ا اعلان کی ا ۔ف اروق مل ک نے اس پلان کے نک ات میں انگری زوں کے خطاب ات و اعزازات کو واپس کرنا،کابینہ مشن پلان س ے تع اون ک ا فیص لہ واپس لین ا اور اپ نے حق وق کے ل یے انگری ز اور

ااغاز کرنا بتایا ہے۔) (۱۹کانگرس کے خلاف نئے سرے سے جدوجہد کا سچکے تھے اس لیے وائس رائے نے عب وری حک ومت بن انے ک ا اعلان جولائی میں انتخابات مکمل ہو

جولائی کو وائس رائے نے مس ڑ جن اح اور نہ رو کے ن ام ای ک مض مون کے دوال گ ال گ خط وط۲۲کر دیا۔ بھیج دئیے تا کہ باہمی مشاورت س ے عب وری حک ومت تش کیل دی ج ائے۔خ ط کی تفص یل میں یہ اں ت ک

ارکان پر مشتمل ہوگی ،کانگرس کے چھ ارکان میں سے ایک پست اق وام۱۴لکھا تھا کہ عبوری حکومت (۲۰کا نمائندہ ہوگا،مسلم سے پانچ ارکان،اقلیتوں میں سے تین ارکان وائسرائے منتخب کریں گے۔)

سچکی تھی اس ل یے عب وری حک ومت میں مس لم لی گ چ وں کہ کیبنٹ مش ن پلان ک و مس ترد ک ر حصہ لینے سے انکار کر گئی۔دوسری طرف کانگرس عہدے لے کر مرکز پر ق ابض ہ و گ ئی اور مس لم لی گ کو حکومت سے باہر رکھنے میں کامیاب ہوگئی۔ انہیں ایام میں فسادات کانیا سلسلہ شروع ہ وا۔ ہن دوئوں اور س کھوں نے مس لمانوں پ ر مظ الم ڈالن ا ش روع ک یے۔قت ل وغ ارت ک ا ب ازار گ رم ہ وا۔مس لم لی گ کے س امنے

ء کے انتخابات میں کانگرس وزارتوں اور اقت دار کی ی ک ط رفہ پالیس ی اور غ یر مس اویانہ س لوک کی۱۹۳۷ساس کو وزیر ہند کی طرف سے بار ب ار مثال موجود تھی دوسری طرف وائسرائے نے بھی رائے بدل لی کیوںکہ

Page 293: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

292

دونوں پ ارٹیوں کے درمی ان مش اورت اور مس لم لی گ ک و حک ومت میں ش مولیت کے پیغام ات وص ول ہ و رہے ء ک و مس لم لی گ نے عب وری۱۹۴۶ اکت وبر ۲۵تھے۔لارڈ ویوی ل، جن اح کے مسلس ل ملاق اتوں کے بع د

حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیااور یوں مسلم لیگ عبوری حکومت میں شامل ہوگئی۔ برطانوی حک ومت ہندوس تانی اقت دار کی منتقلی کے ل یے بے چین تھی جب کہ ہندوس تانی سیاس ی پارٹیوں کی عدم تعاون اور فرقہ وارانہ مسائل مسلسل تاخیری اسباب بن رہے تھے۔ وزیر اعظم ایٹلی نے دس مبر

ء میں ہندوستان سے وائسرائے لارڈویول، نہرو،جناح، لیاقت علی خان اور سردار بدیوسنگھ کی ایک۱۹۴۶ کانفرنس لندن بلائی تاکہ باہمی مش اورت س ے ک وئی منص وبہ طے کی ا ج ائے لیکن یہ ک انفرنس بھی حس ب

۳ فروری کو برطانوی وزیر اعظم کا اعلان تھ ا جس نے۲۰روایت ناکام ہو گئی۔ہندوستانی تاریخ میں اہم موڑ ء تک ہندوستان کے اقتدار کی منتقلی کا حکم نامہ جاری کیا۔ اس مقصد کے لیے وائسرائے۱۹۴۸جون

لارڈ ویول کی جگہ لارڈ مائونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسرائے مقرر کیاگیا۔ڈاکٹر تارا چند نے لکھا ہے: اا ء کو مائونٹ بیٹن نے ہندوستان کے وائسرائے کی حیثیت سے چارج لیا۔وہ خ اص ط ور۱۹۴۷ مارچ ۲۴’’

سے اس کے لیے مقرر کیے گئے تھے کہ ہندوس تان س ے برط انوی حک ومت کے خ اتمے کاانتظ ام ک ریں۔‘‘)۲۱)

سچک ا تھ ا۔ کابینہ مشن پلان کی ناکامی کے بعد اب ہندوستان کے مسئلے کا واحد حل تقس یم رہ ااکر تقسیم کے منصوبے پ ر ک ام ش روع کی ا ۔ہندوس تانی لی ڈروں س ے ملاق اتیں لارڈ مائونٹ بیٹن نے ہندوستان شروع کیں اوربہت جلد کانگرس کے صدر نہ رو س میت س ردار پٹی ل اور کس ی ح د ت ک گان دھی جی ک و

اازاد نے ’’انڈیا ونس پریڈم‘‘ میں اقرار کیا ہے کہ مائونٹ بیٹن سے ملاقاتوں بھی قائل کیا۔مولانا ابوالکلام کے بعد مسلم لیگ سے زیادہ کانگرس تقسیم کی حامی بن گئی تھی۔دوسری طرف ہندوس تان میں ص ورتسچکے تھے۔ حال روز بہ روز بگڑتی جارہی تھی۔ فسادات، مظاہرے اور جلوس وں کے ن ئے سلس لے ش روع ہ و ااپس عبور ی حکومت کی ناقص ک اکرکردگی بھی ای ک وجہ بی ان کی ج اتی ہے کی وںکہ دون وں پ ارٹیوں کے میںعدم تعان کی وجہ سے حکومت کے درمیان ایک سرد جنگ شروع تھی۔ان ح الات کی روش نی میں لارڈ مائونٹ بیٹن معاملات کو طول دینے کی بجائے جلد بازی کا مظاہرہ کیا کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ن ئے

Page 294: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

293

ہہذا اگس ت میں تب دیل ک ر دی ا گی اجو کہ بہت۱۵ج ون ک ا منص وبہ ۳نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑت ا تھ ا۔لسارے مسائل کا موجب بنا ۔

بحث و مباحثے ،کانفرنسوں،اجلاس وں،منص وبوں اور مش وروں کے بع د یہ طے کی ا گی ا کی ا کہ جن ص وبوں میں مس لمانوں کی اک ثریت ہے وہ پاکس تان ک ا حص ہ بن ج ائے گ ا اور جن میں ہن دوئوں کی ہے وہہندوستان کا۔تاہم اس کے لیے رہائیشیوں کی رائے لینا لازمی تھا۔بنگ ال اور پنج اب تقس یم ک ر دی ئے گ ئے ۔ااس ام بنگال کے مشرقی اضلاع اور پنجاب کے مغربی اض لاع نے پاکس تان کے ح ق میں ووٹ دی ئے۔ص وبہ کے ضلع سلہٹ میں مسلمانوں کی اکثریت تھی انھوں نے پاکس تان کے ح ق میں رائے دی۔بلوچس تان کےاارا ء دیں۔ص وبہ ش اہی ج رگے،ک وئٹہ کی ع وام اور س ندھ کے لجس لیٹو اس مبلی نے پاکس تان کے ح ق میں سرحد)خیبر پختونخوا(میں ڈاکٹر خان کی حکومت تھی جو کٹر کانگرسی تھے بیچ میں رہنے کی وجہ س ے سانھوں نے پختونستان ک ا مط البہ کی ا ج و ن امنظور ہ وا یہ اں پ ر بھی پختون وں نے پاکس تان کے ح ق میں ووٹ دیئے۔سرحدات کی تقسیم کے لیے ریڈکلف کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دی گئی ۔جس میں دو نمائندے مسلم لیگ اور دو کانگرس کے تھے۔تاہم اس معاملے میںپاکستان کے ساتھ نہ ایت ناانص افی ب رتیااج تک اس کی یادگار سمجھی جاتی ہے۔ہندوستانی س رحدات کے اس ن اقص اور گئی ۔ کشمیر کا مسئلہ غیر منصفانہ تقسیم کے بارے میں سید حسن ریاض نے ’’پاکستان ٹائم ‘‘کی ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر

لکھا ہے:ااخری فیصلہ تو اس حد سے بھی ب ڑھ گی ا اور اس ’’پنجاب میں عارضی تقسیم بھی غیر منصفانہ تھی لیکن نے ہمارے بعض نہایت زرخیز قطعات زمین بھی کاٹ کر ڈال دیئے۔س ب س ے زی ادہ ش دید ض رب گ ورداس

۵۵،۵۶ فیص د اور ۵۱،۵۲پور پر پڑی ہے۔جس کی دو تحصیلیں گورداس پور اور بٹالہ جن میں مسلمان فیص د کی اک ثریت میں تھے،پٹھ ان ک وٹ کی تحص یل کے س اتھ ہی ہندوس تان میں ش امل ک ردی گ ئیں اور پاکستان سے بٹالہ جیسا بہ ترین مس لم ص نعتی ش ہر چھین لی ا گی ا۔ری ڈ کل ف ص احب یہ اں ت و دیہ ات وار سرحدی خط کھینچنے کی تکلیف گوارا کر لی ،لیکن ضلع ارت س ر کی تحص یل اجن الہ ک و بالک ل بھ ول گئے،جس میں ساٹھ فیصد ی مسلم اکثریت تھی اور اس کا علاقہ بھی لاہور س ے ملح ق تھ ا۔زی رہ اور ف یروز

Page 295: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

294

پور کی تحصیلیں بھی جن میں صاف مسلم اکثریت تھی’’سلسلہ رسل و رسائل‘‘میں خل ل کے بہ انے س ے(۲۲الگ کر دی گئیں۔‘‘)

اازادی کی خوش ی جس کے حص ول کے ل یے لاکھ وں ہندوس تانیوں کی ج انیں انگریزس امراج س ے قربان ہوئیں، ناقص تقسیم ،فسادات اور ہجرت کی خوں ریزیوں کی ن ذر ہ و گ ئیں۔دو ملک وں کے لوگ وں کیااس ان ک ام نہیں تھ ا جس ک و لارڈ م ائونٹ بیٹن @@ا ک وئی تقسیم جو ہزاروں سال سے اکٹھے رہ رہے تھے۔ یقین نے اتنی عجلت میں تمام کیا۔ دو بھائی جب ایک دوسرے س ے ج دا ہ وکر ال گ گھ ر بس اتے ہیں ت و کت نے ہنگامے کیے جاتے ہیں تو دو ملکوں کی تقسیم میںیہ کیسے ممکن تھا کہ ہنگامے اور فس ادات نہ ہ و۔کت نی ساری چیزیں تھیں جن کو تقسیم کرنا تھا۔ہندوستانیوں کے لیے تو تقسیم کوئی بڑا واقعہ اس ل یے ث ابت نہ ہ وااغ از کرن ا سان کا تو سارا انتظام اپنی جگہ پر موجود رہا ۔پاکستانیوں ک و ن ئے س رے س ے زن دگی ک ا سکا کہ ساوپر س ے ہن دو مس لم فس ادات اور مس لم س کھ قت ل وغ ارت نے انس انوں کی پڑا۔لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ،

عزتوں تک لوٹ لیا۔ااگ ئے۔قائ داعظم۱۹۴۷ اگست ۱۴-۱۵ ء کو دو ملک پاکستان اور ہندوستان معرض وجود میں

پاکس تان ک ا جب کہ لارڈ م ائونت بیٹن ہندوس تان ک ا گ ورنر ج نرل بن گی ا۔تقس یم پ ر بہت س ارے مب احث ہوئے،بے شمار کتابیں اورمضامین لکھے گئے،تاحال اس پر تبصرے اور تجزیے جاری ہیں۔بعض گروہیں تائی د کرتے ہیں بعض تردید کرتے ہیں دونوں اپنی جگہ پر ٹھی ک س ہی لیکن ت اریخی حق ائق س ے یہی نمای اں ہوت ا ہے کہ تقسیم ناگزیر تھا اور اس کے بغیر دونوں قوموں کے پاس کوئی چارہ نہیں تھ ا۔اس بنی ادی غل ط فہمی میں کانگرس اور مسلم لیگ بھی ای ک طوی ل عرص ے ت ک مبتلا رہے۔کی وں کہ دون وں کے س رکردہ نمائن دےسان ک ا خی ال یہ تھ ا انگلستان سے فارغ التحصیل تھے جو ایک خاص قسم کی س یکولر س وچ رکھ تے تھے۔ کہ انگری زوں س ے نج ات حاص ل ک رکے ای ک مش ترکہ حک ومت ق ائم کی ج ائے گی جس میں ص وبوں ک و اختیارات دیئے جائیں گے۔جب کہ مذہب لوگوں ک ا ذاتی مع املہ ہوگ ا۔مس لم لی گ ک و ت و پھ ر بھی وقت پ رااخیر میں پتہ چلا کہ مسلمان تو کیاہندو ذہ نیت بھی س یکولر بن نے کے ل یے تی ار جب کہ کانگرس کو بہت سچکے تھے ،بعض کامس ئلہ ص رف ہندوس تان سان میں ک ئی گ روہ بن نہیں ۔جہاں تک علماء کا تعلق تھا ت و اازادی نہیں بلکہ اسلامی ملت کا قیام تھا۔ایک گروہ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اسلامی اقدار کے لیے ایک کی

Page 296: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

295

اازاد ک ا نظ ریہ تھ ا کہ متح دہ ہندوس تان میں تجربہ گاہ بنان ا ض روری ہے جب کہ دیوبن دیوں س میت اب والکلام اائیڈئیل بننے کی کوشش کرنی چاہیے الگ وطن بنانے کے فوائ د کم نقص انات زی ادہ ہ وں اعمال کی بنیاد پر

گے۔اازادی کے بعد انگری ز اس تعمار کی پالیس ی)پھ وٹ ڈال و اور حک ومت ک رو(نے۱۸۵۷ ء کی جنگ

سان کے درمیان ای ک نہ ختم دونوں قوموں کو ایک دوسرے سے دور کرتے کرتے اس مقام پر پہنچا دیا کہ اب ہ ونے والی دش منی اور نف رت نے جنم لی ا ۔ تقس یم س ے پہلے اور تقس یم کے بع د ہ ونے والی خ وں@@ا ن ئی ن ئی @@ا فوقت سان پالیس یوں ک ا ن تیجہ تھ ا ج و اس تعماری ق وتیں وقت ریزی اں،فس ادات اور قت ل ع ام دراص ل صورتوںمیں ناف ذ ک رتی رہیں۔انگری ز س ے پہلے ہندوس تان می ںیہ دون وں ق ومیں ہ زار س الوں س ے اکٹھے بس رہیں تھیں۔ان کے مذہب و تہذیب،زبان و ادب،شادی بیاہ اور ام وات کے رس ومات ال گ س ہی لیکن ب اہمی می ل ملاپ سے ایک دوسرے کی تہذیب و تمدن کی قدر کرتے تھے تاہم ایک بنے بنائے منصوبے کے تحت انسان کے ل یے کو ایک دوسرے کے اتنے مخ الف بن ا دیے گ ئے کہ اب مزی د ای ک دوس رے ک و برداش ت کرن ا

ناممکن رہا۔)ب(

ہندوستان کے اہم ت اریخی واقع ات کے تن اظر میں مولان ا ظف رعلی خ ان کی ش اعری میں مغ ربی اس تعمار کےخلاف مزاحمت :

سان کے مولان ا ظف ر علی خ ان مس لمانوں کے زوال کے اس باب اس لام س ے دوری تص ور ک رتے تھے۔ساس ااج مسلمان کمزور ہے اور ہر طرف سے مارا جا رہ ا ہے ت و اس کی بنی ادی وجہ یہ ہے کہ خیال میں اگر ااستانے پر جھکنا شروع کیا ہے۔اسلام اوریورپی ص لیب پرس توں کے درمی ان نے اپنی اصل کو چھوڑکرغیر کے ہف نظ ر اس تص ادم ک ا ب ڑا سلس لہ خلافت تصادم بہت پہلے سے شروع ہے۔چھ وٹے م وٹے واقع ات س ے ص ر اسلامیہ کے زوال کے ساتھ صلیبی جنگوں کی شکل میں شرو ع ہوا۔صلیبی جنگوں کے پیچھے کلیس ا اوراہل کلیسا کے بہت س ارے مقاص د کارفرم ا تھے لیکن اس کے اص ل اس باب م ذہبی بی ان ک یے ج اتے ہیں۔

ء میں ط رابلس اور۱۹۱۱-۱۲دوسرا بڑا سلسلہ خلافت ترکیہ کے خاتمہ کی منصوبہ بندیوں سے ش روع ہ وا۔

Page 297: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

296

بلقان کی جنگیں اس سلسلے کی اہم کڑیاں تصور کی جاتی ہیں۔مولانا شبلی اورمولان ا ظف رعلی خ ان دون وںنے اپنی نظموں میں ان جنگوں کو صلیبی جنگوں سے موسوم کیا ہے۔شبلی نے لکھاہے:

ہم فتح ایوبی کہاں تک لو گے ہم سے انتقاہگ صلیبی کا سماں کب تک دکھائو گے ہمیں جن

ہت عثماں، زوال و شرع ملت ہل دول زواہر فرزند و عیال و خانماں کب تک عزیزو! فک

(۲۳) مولان ا ظف رعلی خ ان نے نظم ’’ن ئی ص لیبی جن گ‘‘اور ’’ت رانہ جن گ‘‘میں ط رابلس اور بلق ان کیسان کے خی ال میں یہ جنگیں دراص ل اس لام اور کلیس ا جنگوںکو صلیبی جنگوں کا دوسرا سلسلہ قرار دیا ہے۔سچکے ہیں ت و ااج چ وں کہ مس لمان کم زور ہ و کے درمیان تصادم ہے اور یہ سلسلہ بہت پہلے سے شروع تھا

اائے: ساتر اہل کلیسا اپنا پرانا بدلہ چکانے پر مسیحیوں اور مسلموں میں جنگ جس وقت سے ٹھنی ہےااگیا وقت جانکنی ہے بدن کو دیتی ہے روح دھمکی کہ

سمجھ رہے ہیں کہ اہل یورپ کہ ہم مسلماں کو لوٹ لیں گےااج کمزور منحنی ہے کہ اس میں کس بل نہیں ہے کل کا وہ

بتا رہی ہے دراز دستی اطالیہ کی طرابلس پر ہق رہزنی ہے ااج کشور کشا وہی ہے جسے ذرا مش کہ

(۲۴)یہ سچ ہے کہ دنیائے صلیبی کی عداوت

@لوا سے لپٹی ہوئی ہے بن کے بلا تیرے ہر گوشئہ عالم میں کلیسا کے پرستار

اب تک ہیں بدستور ترے خوں کے پیاسے(۲۵)

Page 298: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

297

ء س ے۱۹۱۱صلیبی جنگوں کا زیادہ تر دارومدار مذہب پر تھ ا لیکن مش رق و مغ رب کے درمی ان شروع ہونے والاتصادم جس کے نتیجے میں دو عالمی جنگیں بھی برپا ہوئیں ،کے پیچھے م ذہب کے س اتھ استعمار کی پوری پالیسی یعنی سرحدات کی توس یع،زب ان کی بالادس تی،تہ ذیبی و ثق افتی اج ارہ داری ،اور سب سے بڑھ کر اقتصادی مفادات ک ار فرم ا رہی۔ی ورپی ط اقتیں ای ک دوس رے ک و نیچے دکھ انے اورس رمایہااپس میںبھی برسر پیکار رہیں لیکن اس لام اور مس لمان کے خلاف بڑھانے اور مقبوضات میں اضافے کے لیے سان سب کی پالیسی ایک رہی یعنی ان کو ایک طاقت تسلیم کرنے کی بجائے ان ک ا س رمایہ و ج اگیر ہ ڑپ کرنے میں ایک صفحہ پر تھے۔ دوسری طرف مس لمان ان ط اقتوں کے خلاف خ الص عقی دے کی بنی اد پ رہی انسانی اقدار کے تحفظ اور بقا کے لیے س ربکف رہے۔ ی وں مذہبی جذبے سے اسلام کی سربلندی اور اعلااتے جنگ سامراجی نظام حی ات کے اس تحکام کے ل یے لازمی بن گ ئی اور لاکھ وں انس ان اس کی زد میں

رہے۔طاہرہ صدیقہ نے لکھا ہے:ہم حی ات کی تق دیر ہے۔س امراج اپ نے معاش ی مف ادات کے بھن ور س ے نکل نے اور ن ئی ’’جنگ سامراجی نظ ا منڈیوں پر قبضہ جمانے کی خاطر انسان کو دھان اور تیل کی مانند جنگ میں جھونک دیتا ہے ۔اپنی دولتساصول ہے۔ اس کے لیے سرمایہ دار ملک دوسرے سرمایہ دار ملک کے کو بڑھاتے رہنا سرمایہ داری کا بنیادی

(۲۶مقبوضات ہتھیانے کے لیے جنگ کے درپے ہوتا ہے۔‘‘) پہلی جنگ عظیم اتحادی اور محوری طاقتوں کے درمیان لڑی گئی ۔مس لمانوں نے اپ نے بچ ائو کی

ء میں انقلاب روس کی ش کل میں س رمایہ۱۹۱۷خ اطر مح وری ط اقتوں ک ا س اتھ دی ا۔جن گ کے دوران اائی جو اشتراکیت پسند کہلاتی ہے۔اسی طرح دنیا تین دھ اروں داروں کے خلاف ایک اور طاقت وجود میں اسلا مسٹ)اسلام پسند(،اشتراکیت پسند اور سرمایہ داریت میں تقسیم ہوگئی۔ اش تراکیت پس ندوں نے اس لام کے علمبرداروں کی طرح دولت کی غیر منصفانہ تقس یم کی مخ الفت کی۔س رمایہ داریت ک و انس انیت کےساٹھ ائی۔ انقلاب روس ج و ای ک نچلے اور م زدور طبقے کی س ب ااواز لیے خطرہ سمجھ ک ر اس کے خلاف سے بڑی کامیابی تھی پوری دنیا کے غ ریب ، م زدور اور کم زور طبقے کے ل یے ش عور ی ط ور پ ر بی داری ک ا سبب بنا۔یوں اسلام پسندوںکے ساتھ اش تراکیت پس ند بھی س امراجیت کے خلاف ہ و گ ئے۔ت اہم دون وں کے نظریات میں واضح فرق تھا ۔اسلام پسند م ذہب ، اخلاقی ات اور روح انی اق دارکو انس ان کی فلاح کے ل یے

Page 299: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

298

ضروری سمجھتے تھے اس کے برعکس استعماری طاقتیں سرمایہ کو سب کچھ تصور کرتی تھیں۔اشتراکیتاازم ا ہ و گ ئے۔ م ذہب کے پسندوں نے اپنے نظریے سے مذہب کو منہا کیا اور سرمایہ داریت کے خلاف سپر علاوہ نظریاتی حوالے سے چوں کہ اشتراکیت پسند انص اف،مس اوات،انس انیت کے س اتھ غ ریب کے حق وق کی بات کرنے لگے اس لیے اسلامی دنیا میں افغانستان اور ترکی وغ یرہ نے روس س ے تعلق ات کے معاہ دے کیے ۔ہندوستانیوں کی تقدیرچوں کہ انگریز کے ہاتھ میں تھی اس ل یے وہ باقاع دہ ک وئی معاہ دہ ت و نہیں ک ر

سکتے تھے ،لیکن وہ بھی اشتراکیت پسندوں کے حامی تھے۔ ء ت ک ہندوس تان س میت دنی ا کی س طح پ ر اس لام اور۱۹۳۵ء س ے ۱۸۵۷گزش تہ اب واب میں

سان کی روش نی میںمولان ا ظف رعلی خ ان کی ش اعری میں اائے، یورپ کے درمیان تصادم کے ج و واقع ات پیش سچکی ہے ۔ ء ت ک ج و۱۹۴۷ ء س ے ۱۹۳۵مغربی استعمار کے خلاف مزاحمت پ ر تفص یلی گفتگ و ہ و

سان پ ر بحث اس ب اب ک ا حص ہ ہے۔چ وں کہ ء میں ادبی س طح پ ر۱۹۳۶ب ڑے ب ڑے واقع ات رونم ا ہ وئیں ہندوستان میں ترقی پسند تحریک شروع ہوئی جس کے نظریات سے متاثر ہو ک ر ک وئی بھی ادیب مت اثر ہ وئے بغ یر نہیں رہ ا اس ل یے اس پ ر بحث کرن ا ض روری ہے۔ادبی س طح پ ر ت و اس دور میں حلقہ ارب اب ذوق کیساس کے نظ ریے میں مغ ربی اس تعمار کے خلاف واض ح ش کل میں تحری ک بھی ش روع ہ وئی لیکن چ وں کہ اات ا۔ت رقی پس ندوں نے کھ ل ساس پر بحث کرنا موضوع کے زمرے میں نہیں مزاحمت شامل نہیں تھا اس لیے کر سامراجیت اور سرمایہ داریت کی مخالفت کی ۔بقول لینن،سامراج سرمایہ داری کی ای ک خ اص ت اریخی منزل ہے جس کی خصوصیت تہری ہے۔یعنی سامراج ہے:اجارہ دارانہ سرمایہ داری،طفیل خ ور ی ا س ڑتی ہ وئی

(۲۷سرمایہ داری اور مرتی ہوئی سرمایہ داری) انقلاب روس نے دنیا کے کمزور طبقے کو زندگی گزارنے کا ایک نیا جوش اور ولولہ عطا کیا۔پ وریساس وقت ساٹھان ا ش روع ک ر دی ا۔ ااواز دنی ا کے غ ریب،م زدور اور غلام طبقے نے س رمایہ دارانہ نظ ام کے خلاف ااکس فرڈ اور کیم برج کے طلب اء س جاد انگلس تان میںمقیم، غلام ہندوس تان س ے تعل ق رکھ نے والے، ظہیر،محمودالظفر اور ایم ۔ڈی۔ت اثیروغیرہ بھی اس اثرس ے محف وظ نہ رہے ۔س جاد ظہ یر کے مط ابق ان طلب ا

(۲۸ء کو ترقی پسند تحریک کے نام سے ایک حلقہ قائم کیا۔)۱۹۳۵نے لندن میں

Page 300: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

299

لندن میں مقیم اس حلقے سے تعلق رکھنے والوں نے ہندوستانی ادیبوں سے خ ط و کت ابت ک ا سلس لہ ش روع@@ا مل ک کے۱۹۳۶ اپریل ۵کیا ۔ ء کو ہندوستان میںادیبوں کا کل ہن د ک انفرنس منعق د ہ وئی۔جس میں تقریب

بڑے تخلیق کاروںنے شمولیت کی اور یوں ہندوستان میں باقاعدہ ترقی پسند تحریک کی بنیاد رکھی گئی۔ساٹھ ائی ۔س رمایہ دارانہ ج بر کی ااواز ت رقی پس ندوں نے غ ریب اور کم زور طبقے کے حق وق کے ل یے سان کے اہم موض وعات بن گ ئے جس کی مزاحمت ش روع کی،انس ان کے بنی ادی مس ائل روٹی،ک پڑا ،مک ان ساس دور کے تخلیق کاراس تحریک کے سحر سے نہیں بچ سکے۔جہاں ت ک مولان ا ظف رعلی خ ان وجہ سے سرکن بن گ ئے ،نہ اس کی ط رف ت وجہ سانھ وں نے نہ ت واس تحری ک میں ش رکت کی،نہ اس ک ا کا تعلق ہے ،سان ک ا ش مار سان کی نظرمیں اس کی کوئی اہمیت تھی ۔اس کی بنیادی وجہ ش ایدیہی تھی کہ دلائی اور نہ کل کے شعور سنبھالنے والوں کے مقابلے میں برسوں سے بالیدہ شعور کے حاملین میں س ے تھ ا۔ت رقی پس ند

ء میں شروع ہوئی جبکہ ترقی پسندی کی باتیں مولانا نے شعور سنبھالنے کے بعد ہی ش روع۱۹۳۶تحریک کی تھیں ۔ترقی پسندوںکے منشور میں زندگی اور سماج کے متعل ق ج و بنی ادی مس ائل ش امل تھے وہ پہلےسان کی شاعری کے بنیادی موضوعات تھے لیکن وہ س رمایہ داریت اور اس تعمار و س امراج ک ا ت وڑ اس لام سے

کے تنظیم نو میں دیکھتے تھے مارکسیت میں نہیں:مسلمان کی شان

ستو نے اے مسلم کچھ اپنی قدر پہچانی بھی ہے ہن یزادانی بھی ہے ستو ہے انساں تجھ میں لیکن شا

فرش پر ہیں پائوں تیرے عرش پر ہے سر ترانصف تو خاکی ہے لیکن نصف نورانی بھی ہےساری دنیا کے فضائل تجھ کو ترکے میں ملے

تیری حکمت یثربی اور یونانی بھی ہےمشرق و مغرب کے گنجینوں سے تو ہے بہرہ وراانی بھی ہے تیری الماری میں ملٹن بھی ہے قا مرتبہ جس کی بدولت تجھ کو یہ حاصل ہوا

Page 301: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

300

ااج کے دن تک ہوا ثانی بھی ہے کوئی اس کا (۲۹)

مولانا ظفرعلی خان مسلمان کو دنیا جہاں کے فضائل کا وارث ٹھہراتے ہیں کیوں کہ اس کے پاس جو نظام موجود ہے وہ بے مثال اور ہر لحاظ سے مکم ل ہے ۔دوس ری ب ات یہ ہے کہ یہ نظ ام کس ی افلاط ونرر س ے ااق ائے نام دا کی مثالی ریاست کی مانند بھی نہیں جس کی تاریخ میں ک وئی مث ال موج ود نہیں بلکہ ااج تک دنیا کے لیے ایک نظ یر کی حی ثیت رکھ تی ہیں۔اس ل یے لے کر خلفائے راشدین کی نظام حکومت مولانا ظفرعلی خان نے مسلمان بچوں کوارسطو، افلاطون،روسو،ملٹن،کارل مارکس، مسولینی، ہٹلر وغیرہ کے

کارناموں کی بجائے ’’اسلام کی لوری‘‘ کا انتخاب کیا:ہم بقا لایا ہوں میں تیرے واسطے پیغا

ہی ایماں میں لگا لایا ہوں ساسے کشت اور ہد خضرا جا کر میں تیرے سر کے لیے گنب

را لایا ہوں ہہ دوسر کلہء سایہ شاتیری تاریخ کے اوراق کی زینت کے لیے

ہن شہدا لایا ہوں ہی خو سسرخ بدر سے @@ا ترے لشکر کی کمک کے لیے میں احتیاط

سبلا لایا ہوں ہش اعظم سے فرشتوں کو عر(۳۰)

ہز بقا موت میں مضمر ہے جن کے لیے راساڑائیں ہی کامل کا اازاد پرچم وہی

(۳۱)

Page 302: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

301

ترقی پسندوں کے ہاں بے شک نئے دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ای ک ن ئی س وچ موج ود تھی ج ووقت کی اہم ض رورت س مجھی ج اتی تھی۔اس منف رد س وچ ،ش عور و احس اس کی وجہ س ے اسسان سے بہ تر تحریک کو اتنی پذیرائی ملی۔تاہم مولانا ظفرعلی خان کی شاعری میں نئے دور کے حوالے سے

سان کی ای ک نظم ج وفروری ء ک و ہندوس تان میں ت رقی۱۹۲۹ش عور و احس اس موج ود ہے ۔مث ال کے ل یے ااغاز سے سات سال پہلے لکھی گئی ہے، ملاحظہ ہو: پسند تحریک کے

ہن عہد سے خطاب‘‘ ’’سخنورااارا و سخن سنج اے نکتہ وران سخن

ہن معانی ہن چمنستا اے نغمہ گرامانا کہ دل افروز ہے افسانہ ء عذرا

ہی کی کہانی ااویز ہے سلم مانا کہ دل مانا کہ اگر چھیڑ حسینوں سے چلی جائےکٹ جائے گا اس مشغلہ میں عہد جوانی

ی ااپ اپنے زمانہ کے نظیر مانا کہ ہیں ی ثانی ااپ میں ہے عرف مانا کہ ہر ایک ااگے ہث خط و رخسار کے مانا کہ حدی

بیکار ہے مشائیوں کی فلسفہ دانیااپ نے سوچا لیکن کبھی اس بات کو بھی

ااپ کی تقویم ہے صدیوں کی پرانی یہ معشوق نئے بزم نئی رنگ نیا ہے

پیدا نئے خامے ہوئے ہیں اور نئے مانیااج لذت وہ کہاں لعل لب یار میں ہے

جو دے رہی ہے پیٹ کے بھوکوں کی کہانیگلشن میں نوا سنج ہو کیا مرغ خوش الحان

Page 303: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

302

صیاد کا جب مشغلہ ہے ریشہ دوانی

بدلا ہے زمانہ تو بدلیے روش اپنیساس کی نشانی جو قوم ہے بیدار یہ ہے

(۳۲) فکری اعتبار سے اگر اس نظم ک ا ج ائزہ لی ا ج ائے ت و ہن د کے تخلی ق ک اروںکے ن ام ای ک بہت ب ڑاااپ کو ڈالنا اور نئی تبدیلیوں کو اپن انے پ ر زور دی ا پیغام ہے ۔نظم میں نئے دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے گی ا ہے ج و ع رف ع ام میں ت رقی پس ندی کہلاتی ہے ۔یہ بت انے کی کوش ش کی گ ئی ہے کہ روم ان کےسچک ا ہے، ت و تم بھی خیالی دنیا سے نکل کر نئے دور اورنئے زمانے کے س اتھ چلن ا س یکھو،اگ ر زم انہ ب دل سپرکیف فضائیں اور دل فریب ادائیں زیادہ مسحور کن ہوتی ہیں ۔ ااپ کو بدل ڈالو۔بے شک محبت کی اپنے چاہے تو محبوب کے حسن کی رنگینی اور زلفوں کی اسیری میں پوری جوانی گزرس کتی ہے لیکن’’اور بھی سدکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘کے مص داق مولان ا ظف رعلی خ ان نے بھی روم انی اور تخیلی دنی ا کےااپ مقابلے کسی غریب کی مدد یا بھوکے کوکھانا کھلانے ک و ت رجیح دی ہے۔س امراج کی غلامی نے اگ ر اازادی کے ل یے ن ئے س رے س ے جدوجہ د ک ا پیغ ام بھی نظم کے اش عار ساٹھ کر کا گلہ دبا کے رکھا ہے تو سے جھلکتا ہے ۔مختصر یہ کہ نظم میں ترقی پسند تحریک کا پورا منشورشامل ہیں۔مولان ا ظف رعلی خ ان نےساٹھا کر سرمایادارانہ نظام کی مخالفت کی ہے جس ے ت رقی پس ندوں کے ااواز ہمیشہ سامراجی جبرکے خلاف

منشور میں بنیادی حیثیت حاصل ہے:وہی سرمایہ داری جو ہمارے حق میں لعنت تھی

ساس کا ااج ہم سب کو غلام بنایا جا رہا ہے (۳۳)

خاک میں مل جائے گا سرمایہ داری کا غرورہر انقلاب ہش لیل و نہا گر یہی ہے گرد

اازاد ہو اا پہنچا کہ مر جائو یا وقت

Page 304: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

303

ہر انقلاب تخت یا تختہ ہے حکم تاجدا(۳۴)

سرمایہ داری کا علم ہو ایشیا میں سرنگوںبرباد استعمار ہو نابود استبداد ہو

( ۳۵)دنیا گذشتنی ہے تو دولت گذاشتنی

اس ڈھلتی پھرتی چھائوں پر اس درجہ ناز کیوں(۳۶)

مولانا ظفرعلی خان نے سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اسلامی ح والے س ے س رمایہ کی اہمیت کو بھی واضح کرنے کی کوشش ہے۔کیوں کہ موت کے بعد یہ ساری چ یزیں بے مع نی رہ ج اتیسانھوں نے سامراجی حکومتوں کی محک ومی اور غلامی ک و ای ک لعنت س مجھ ک ر مس لمانوں ک و بی دار ہیں۔ ہونے کا درس دیا ہے۔یہ حقیقت بھی واضح ک رنے کی کوش ش کی ہے کہ اس سس ٹم ک و تب دیل ک رنے کےاائیں گے بلکہ خ ود اپ نی تق دیر کے ااس مان س ے فرش تے نہیں اازادی دل وانے کے ل یے ل یے ی ا محکوم وں ک و

بدلنے کی سعی کرنی ہوگی:ساس قوم کی حالت نہیں بدلی ااج تک خدا نے

ااپ اپنی حالت کے بدلنے کا نہ ہو جس کو خیال (۳۷)

توڑ ڈالو ایک جھٹکے میں غلامی کی قیوداازادی میں ہو ہش ااغو شیر مردو! تم پلے

(۳۸)غیر کے محکوم ہونے سے کہیں اچھی ہے موت

تف ایسی زندگی پر جو غلامی میں کٹے(۳۹)

Page 305: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

304

اازاد ہوں زندگی کا لطف اسی میں ہے کہ ہم ہب زندگی غیر کا محکوم ہونا ہے عذا

(۴۰)

اازادی ک ا مولانا کے پاس اسلامی تعلیمات سے ماخوذ ایک مکمل نظ ام موج ود ہے وہ غلامی س ے اازادی انس ان ک ا بنی ادی درس دیتے ہیں یہاں تک کہ جان کا ن ذانہ پیش ک رنے کی ت رغیب دلاتے ہیں کی وں حق ہے اور مذہب اسلام اس کے حصول پر زور دیتا ہے۔بے شک مذہب اور وطن کے نام پ ر ل ڑنے وال وں ک وااک ر مکم ل ت دبیر کے بع د ہضد میں ش ہید ک ا رتبہ نص یب ہوت ا ہے ۔لیکن یہ اں پ ر بھی مولان ا ج ذبات کی

اانے پر زور دیتے ہیں: میدان عمل میں نام کا رند نہ بن مفت میں بدنام نہ ہو

ااشام نہ ہو ظرف ہی جب نہیں عالی تو مے اا مرغ دانا سنبھل اور دانہ کے لالچ میں نہ

ہگ زمیں دام نہ ہو اس کے نیچے کہیں ہم رن(۴۱)

ء کا زمانہ عالمی سطح پر مسلمانوںکے انحطاط،انتش ار اور زبوںح الی ک ا زم انہ تص ور کی ا۱۹۳۶ جاتا ہے۔ہندوستان میں ہندو مسلم اختلافات اور خود مسلمانوں میں گ روہ بن دیوں کی وجہ س ے فس ادات ک ا ب ازارگرم تھ ا۔دوس ری ط رف اس تعماری ط اقتیں مس لمانوں کے ختم ہ ونے اور خ ون بہ انے کے ل یے نت ن ئے منصوبوں میں مصروف تھیں۔مسلمان کو ہر طرف سے ظلم کی بھٹیوں میں گھسیٹا جارہ ا تھ ا۔خلافت ت رکیہ

سچکے تھے۔پہلی جن گ عظیم کے دوران ء ک و۱۹۱۷کے زوال س ے مس لمانوں کے ب رے دن ش روع ہ و ء س ے۱۹۲۱برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ جمایا اور وہاں پر یہودی ریاست بنانے کے منص وبے ش روع ک یے۔

فلسطین کو یہودیوں کی نقل مکانی شروع ہوئی اور دھیرے دھیرے ی ورپ کے مختل ف گوش وں س ے یہ ودیاانے لگے۔ ساس وقت ت ک فلس طینیوں۱۹۲۸فلسطین کی طرف ء میں جب برطانیہ نے فلسطین کو چھوڑا تو

ء کے انتخابات میں نازی پ ارٹی برس ر اقت دار۱۹۳۳کی کثیر تعداد یہاں وارد ہوچکی تھی۔جب جرمنی میں

Page 306: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

305

@@ا یہ ودی نس ل فلس طین نق ل۱۹۳۶اائی تو ہٹلر نے یہودیوں کو مارنا شروع کی ا اور ء ت ک جرم نی س ے تقریب مکانی ک ر گ ئی۔یہ ود اور ع رب مس لمانوں کے درمی ان تص ادم پہلی جن گ عظیم کے بع د ش روع ہ وا۔مولان ا

@@ا ’’زمیندار‘‘میں کئی مق الے ش ائع ک یے ہیں۔ @@ا فوقت س تمبر۵ظفرعلی خان نے ان مظالم کی مزاحمت میں وقتسانھوں نے ’’زمیندار‘‘میں ایک مضمون ’’صیہونیت اور اسلام‘‘کے عنوان س ے ش ائع کی ا جس۱۹۲۹ ء کو

میں یہودیوں کے فلسطین پر قبضہ جمانا اور انگریز استعمار کی عیارانہ پالیسی کی وضاحت کی گئی ہے: ’’انگریزوں نے اپنی مشرقی حکمت عملی کے عیارانہ مصالح کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیص لہ ک ر لی ا ہے کہاابادی قائم کی جائے جس کی پشت پر برطانیہ کی پوری عسکری ط اقت ہ و ۔ فلسطین میں ایک یہودی نو طول عرض عالم سے یہودیوں کو جو خدائے قدس کے غضب میں گرفت ار ہ و ک ر در در کی خ اک چھ انتےہی میں اپنے استعماری منص وبوں کی پھرتے ہیں ،جمع کرکے یہاں بسایا جائے ،ان کے سرمایہ کو مشرق ادن تکمیل کا ذریعہ بنایا جائے۔۔۔۔سرمایہ دار یہودی جوق در جوق فلسطین میں داخل ہون ا ش روع ہ وئے ۔جن گ ی ورپ س ے پہلے ان کی تع داد فلس طین میں ص رف چھ ہ زار تھی۔برط انیہ کی ص ہیونی حکمت عملی کےاابادی کے ساتھ ان کے حوص لوں ک ا یہ ع الم ہے کہ اب ااج وہ ایک لاکھ ستر ہزار ہیں اور بڑھتی صدقہ میں

اانکھیں دکھانے لگے ہیں۔‘‘) (۴۲وہ عربوں کو بھی ء ک و یہودی وں کی تع داد ای ک لاکھ س تر ہ زار۱۹۲۹مولانا ظفرعلی خان کے مطابق فلس طین میں

تھی ۔ ہٹلر کے بعد جرمنی سے نکالے گئے یہودیوں سے اس تعد اد میں کئی گن ا اض افہ ہ وا ۔پھرای ک وقتاام د پ ر اایا کہ ان یہودیوں نے پھر فلسطین سے مسلمانوں کو نکلنے پر مجبور کیا۔یہ اں مس لمانوں کی ایسا

ء میں اس کے خلاف۱۹۳۶پابندیاں لگائی گئی اور یوں کرایہ دار مکان پ ر ق ابض ہ وکر مال ک بن نے لگے۔ مسلمانوں نے شدید احتجاج اور مظاہرے کیے لیکن یہ لوگ س امراجی ط اقتوں کی حم ایت س ے ق ابض رہےجب کہ بدلے میں کئی ہزار مسلمانوں کو شہید ہونا پڑا ۔ اس ط رح ان مظ الم ک ا سلس لہ تاح ال ج اری ہے۔ مولان ا ظف رعلی خ ان نے فلس طین کے ش ہیدوں کے ن ام اور انگری زوں کی اس لام دش منی کی م زاحمت میںسانھ وں نے یہ واض ح ک رنے کی کوش ش کی کہ انگری ز نے اپ نی اس لام دش منی کی وجہ ک ئی نظمیں لکھیں۔ سے افغانستان،ہندوستان، ایران،عراق،شام و فلسطین اورع رب و ت رکی وغ یرہ میں مس لمانوں کی قت ل و غ ارت

ساٹھ کر متحد ہونا چاہیے: کا بازار گرم کیا ہوا ہے اس لیے مسلمانوں کوبھی ان مظالم کے خلاف

Page 307: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

306

ہم فلسطین تقسیہگ صلیبی کے نمودار ساماں ہیں نئی جن

ہب فلسطین ساٹھنے کو ہیں اعرا خنجر بکف سشہدا نے ہن ہی خو سسرخ زینت جسے دی

ہب فلسطین اسلام کے قصہ میں وہ ہے باہی ہمل کے یہودی اور نصار کھیتے ہیں جسے

ہب فلسطین ساس نائو کی گردا ہے تاک میں (۴۳)

ہن فلسطین غازیاکفن باندھے ہوئے صحرا سے نکلے

فلسطیں کے شہادت پیشہ غازیاازادی کی خاطر لگا رکھی ہے

سانھوں نے ہر طرف سر دھڑ کی بازیہن مغرب سے یہ کہہ دو رسن سازا

سگزری حد سے رسی کی درازی کہ کہاں تک قدس کی تخریب کا شوق

سپرانی خاکبازی کہاں تک یہ حمایت تابکے صیہونیوں کیکہاں تک یہ یہودیت نوازی

(۴۴)

Page 308: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

307

ہج خون موہن شہدا رائیگاں جا نہیں سکتا کبھی خو

رنگ لائے گا فلسطیں کے مسلمانوں کا خونااتا ہے ہمیں دامن برطانیہ پر نظر

کہیں افغان کا خون اور کہیں ایران کا خونوقت سے پہلے کہیں حشر نہ برپا ہو جائے

ااساں بہانا عربستان کا خون نہیں کہہ دے جا کر کوئی مغرب کے جہاں بانوں کو

ااج بھی گرم ہے بطحا کے شتربان کا خون(۴۵)

سخن ہائے گفتنیدیرینہ ہے فرنگ کی اسلام دشمنی

ہے پہلے دن کی اس سے ہمارا کٹا چھنیدنیا کے سب یہود ہیں انگریز کے حلیفدونوں کے ساتھ جنگ مسلماں کی ٹھنیتہذیب نو کی جلوہ گری سے خدا بچائے

پھیلی ہوئی ہے جس کی فلسطیں میں روشنیااکے راہ نمائی کریں گے کیا مشرق میں

خود اپنے گھر میں مشغلہ جن کا ہے رہزنیاانکھیں دکھا رہا ہے مسلمان کو فرانس

جس کی نظر میں اہل مراکش ہیں کشتنیساس کی بھی پشت پر غافل مگر ہے اس سے کہ

Page 309: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

308

ساس کا جرمنی سدشمن جاں بیٹھا ہوا ہے ایراں کا تاجور ہے رضا شاہ پہلوی

ستہمتنی ہر اللہ نے دیا جسے زوساس کے مساعدات کے لیے رونما ہوا

کابل کے تاجدار کا نیروئے بہمنیہن نجد میں ان پر ہے مستزاد نیستاہش ضیغم افگنی ہن سعود کی رو اب

ہب صلیب میں پیوست ہونے والی ہے قل@انی اسلامیوں کے نیزہ کی جوشن گزار

(۴۶)

رموز و اسرارشہیدان عرب کے خوں کی بوندیںفلسطیں کی فضا میں رنگ لائیں

صلیبی معرکوں کی بدلیاں پھرہی پہ چھائیں ہق ادن ہد مشر سوا

پھر اٹھے ہیں وہی نمازی جنھوں نے مسیحیت کی بنیادیں ہلائیں

کوئی دن میں نصاری دیکھ لیں گےسان کی جھکائیں کہ ہم نے گردنیں

(۴۷)سان کے سدش من ٹھہ راتے ہیں۔ ہی ک و اس لام اور مس لمانوںکے پ رانے مولانا ظف رعلی خ ان یہ ود و نص ارہی کو م الی ام داد دی تے ہیں جس پ ر وہ مس لمانوں ک ا خ ون ک رتے ہیںجب کہ مطابق سرمایہ دار یہودی نصار

Page 310: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

309

بدلے میں عیس ائیوں نے مس لمانوں س ے فلس طین چھین ک ر یہودی وں ک ا مس کن بنای ا ۔اس میں ک وئی ش کہی کے س ر تھ ا ، برط ا نیہ کے س ر تھ ا لیکن اس ساس وقت پوری دنیا کے مس لمانوں ک ا خ ون نص ار نہیں کہ بربریت میں یہود بھی برابر کے شریک تھے جنھوں نے عرب و عجم ہ ر جگہ مس لمانوں ک ا خ ون بہ انے کی قسم کھا ئی ہیں،لیکن اس ن اگفتہ بہ ص ورت ح ال میں بھی مولانام ایوس نہیں ہ وئے اور روش ن مس تقبل کی سامید دلاتے ہوئے کہتے رہے کہ دنی ا بھ ر کے مظلوم وں اور فلس طین کے ش ہیدوں ک ا خ ون ای ک نہ ای ک دن رنگ ضرور لائے گااور مسلمانوں کو ان جابروں سے نجات مل جائے گی۔اگ ر چہ ب اقی دنی ا کے مس لمانوںااج ت ک برط انوی کے لیے کسی حد تک مولان ا کی یہ پیش گ وئی ص حیح ث ابت ہ و ئی مگ ر فلس طین میں

استعمار کی مسلط کردہ اسرائیلی حکومت مسلمانوں سے دست و گریبان ہے۔ ء کے تحت ہندوستان میں انتخابات ہ وئے۔مولان ا ظف رعلی۱۹۳۵ ء میں گورنمنٹ ایکٹ ۱۹۳۷

سچکے تھے ۔الیکش ن س ے ساس وقت مجلس اتحاد ملت کے صدر تھے اور مجلس اح رار س ے ال گ ہ و خان سانھیں مس لم لی گ میں ش امل ہ ونے کی۱۹۳۶پہلے مس لم لی گ کے پارلیم انی ب ورڈ نے ج ون ء میں

ء میں مس لم۱۹۳۷درخواست کی لیکن مولاناانکار کر گ ئے۔ڈاک ٹر نظ یر حس نین زی دی کے مط ابق جب ء لکھنئو میں ہوا(،راجا۱۹۳۷ اکتوبر ۱۸ تا ۱۵لیگ کا اجلاس لکھنئو میں ہوا)واضح رہے کہ یہ اجلاس

ااب اد مرح وم اس اجلاس کے میزب ان تھے۔مولان ا ظف رعلی خ ان نے بھی ش رکت کی اور ص احب محم ود ہت اتحاد و اتفاق پر لبیک کہ تے ہ وئے اپ نی اتح اد ملت ن امی تنظیم ک و مس لم لی گ میں قائداعظم کی دعو

(۴۸ضم کر دیا۔اور اپنی تمام صلاحیتوں کو مسلم لیگ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔‘‘)اال ان ڈیا مس لم کش ور س لطانہ نے اپ نی تحقیقی مق الہ’’ظف رعلی خ ان،مجلس اتح اد ملت اور

لیگ‘‘میں بڑی تفصیل کے ساتھ مولاناکی مسلم لیگ میں شرکت پر روشنی ڈالی ہے: "When Jinnah,as President of the All India

Muslim League,announced the formation of his Central Parliamentary Board.An April 1936 he urged upon the smaller Muslim parties especially in the Punjab to join the Muslim League.For this purpose,leader of Majlis,Jamiat-ut Ulama-i-Hind, Majlis-i-Ahrar,

Page 311: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

310

Khaksars and others were invited to come to the Muslim League Parliamentary Board meeting held on 8-11 June 1936 at Lahore...Jinnah requested them to merge their parties in AIML, but all refused to do so. Maulana Zafar Ali Khan,however, ready to cooperate...but seeing the mood of the other smaller Muslim parties and keeping in view the approaching elections,and for fear of division amongst the voters,he hesitated in merging his party in the Muslim League.He contested the Central Legislative Assembly elections and got elected after the elections in 1937 .when Jinnah again approached him, he decided to merge his Majlis-i-Ittehad-i-Millat in the AIML in

October 1937."(49)

ء کے انتخاب ات جیت نے۱۹۳۷کشور سلطانہ کی تحقیق جس کے مطابق مولانا ظفرعلی خان نے کے بعد مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی ،مجلس اتحاد ملت کو مسلم لیگ میں ضم کردی ا،س ے بہت

@@ا اگ ر مولان ا نے ء میں مس لم لی گ کی پارلیم انی ب ورڈ کی ش مولیتی۱۹۳۶س والات جنم لی تے ہیں،مثلسانھ وں نے ض رور درخواست کو انتخابات میں مس لم لی گ کی کم زور پوزیش ن کی وجہ س ے رد کردی اتو پھ ر انتخابات میں حص ہ لی ا ہوگ ا۔اگ ر مس لم لی گ کی درخواس ت ٹھک را دی ت و پھرکونس ی پ ارٹی کی س یٹ پ رانتخابات میں حصہ لیا۔مولانا ظفرعلی خان کی بہت ساری نظمیں ایسی ہیں جن کے ساتھ تاریخ درج ہے۔

ء کے انتخاب ات۱۹۳۷اگر مجموعہ’’ چمنستان ‘‘کی نظم وں ک ا مط العہ کی ا ج ائے ت و ان دازہ ہوت ا ہے کہ میں مولان ا ظف رعلی خ ان نے مس لم لی گ کی بھرپ ور حم ایت کی۔دوس ری ط رف ڈاک ٹر نظیرحس نین زی دی

لکھتے ہیں:ء کو سنٹرل لجسلیٹو اسمبلی ہند میں بحیثیت ممبر ش امل ہ وئے‘‘)۱۹۳۷اگست۲۳’’مولانا ظفرعلی خان

۵۰)

Page 312: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

311

ظفرعلی خان ٹرسٹ کے سیکر ٹری اور مولانا کے قریبی رشتہ دار راجہ اسد علی خان نے لکھا ہے: ء کو مولانا ظفرعلی خان مرکزی اس مبلی کے ای ک ض منی انتخ اب میں خ ان بہ ادر۱۹۳۷ اگست ۲۳’’

ء ،ب راعظیم پ اک و۱۹۳۷ جن وری ۱۷سر عبدالرحیم کے مق ابلے میں اس مبلی کے مم بر منتخب ہ وئے۔ ۔ ء کے انڈین ایکٹ کے تحت انتخابات کے لیے مولانا ظف رعلی خ ان نے لی اقت علی خ ان۱۹۳۵ہند میں

(۵۱اور شوکت علی کے ساتھ مل کر یوپی ،بہار اور بنگال کے علاقائی دورے کیے۔‘‘) ء میں۱۹۳۷اب سوال یہ پید اہوت ا ہے کہ مولان ا ظف رعلی خ ان نے مجلس اتح اد ملت ک و اکت وبر

مسلم لیگ میں ضم کردیااور وہ اسمبلی ممبر اگست میں بنے جب کہ انتخابات جنوری میں شروع ہ وئے ت وسانھوں نے مس لم لی گ کے ل یے انتخ ابی مہم کی وں اورکیس ے مس لم لی گ کے س اتھ اتح اد ک رنے س ے پہلے

میںمیں۱۹۲۱چلائی؟یہاںپر ایک وضاحت ضروری ہے جس میں ان سارے سوالات کا حل موج ود ہے کہ ء کے تحت ہندوستان میں مرکزی لجسلیٹو اسمبلی کا قیام ہوا جس کے دو حص ے۱۹۱۹گورنمنٹ ایکٹ

ااف سٹیٹ کہا جاتا تھا جس کے مم بر بغ یر انتخاب ات کے منتخب ک یے ج اتے تھے ۔ایوان بالا کو کونسل ء میں دوب ارہ اس کے انتخاب ات۱۹۳۵تھے جب ایوان زیریں کو سنٹر لجسلیٹو اسمبلی کہا جات ا تھ ا۔جب

ساس۱۹۳۷ہوئے تو مسٹر جناح کو بغیر مقابلہ منتخب کیا گیا۔جہاں تک ء کے انتخاب ات کی ب ات ہے ت و ء ایکٹ کا دوسرا حصہ جو۱۹۳۵میں تو سرے سے مرکزی اسمبلی کے انتخابات ہوئے ہی نہیں کیوں کہ

ساس وقت یع نی اگس ت ہہذامولانا ظف رعلی خ ان سچک ا تھ ا۔ل مرکزی حکومت کے حوالے سے تھ ا، ن امنظور ہ و ء میںمرکزی لجسلیٹو اسمبلی کے ضمنی انتخابات میںپنجاب سے مسلم حی ثیت پ ر منتخب ہ وئے ۔۱۹۳۷ ء سے لیجسلیٹو اسمبلی کے پرانے ممبر کی سر یامین خان نے بھی اپنی کتاب ’’ نامہ اعم ال‘‘میں۱۹۲۱

اس کی تائید کی ہے:ااج ڈاکٹر خان صاحب کی جگہ مسٹر عبدالقیوم پش اور۱۹۳۷ اگست ۲۳’’ ء سے اسمبلی شروع ہوئی۔۔۔

سے،سر غلام حسین ہدایت اللہ کی جگہ غلام قادرمحم د ش ابانی،گوبن د بلبھ پنت کی جگہ مس ٹر پان ڈےااگئے۔ (۵۲‘‘) اور پنجاب سے مولانا ظفرعلی خان اور بہت سارے ممبر

Page 313: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

312

مولان اظفر علی خ ان نے مجلس اتح اد ملت کے ض م ہ ونے ک ا اعلان مس لم لی گ کے لکھ نئوسانھ وں نے پہلے س ے ش روع کی تھی۔۱۹۳۷اجلاس اکتوبر ء میں کیا ہوگا لیکن مسلم لی گ کی حم ایت

راجہ اسد علی خان نے لکھا ہے کہ خان بہادر عب دالرحیم کے س اتھ مق ابلے میں مولان ا منتخب ہ وئے تھے۔ لیکن تحقی ق اس دع وے ک و رد ک رتی ہے کی وں کہ خ ان بہ ادر عب دالرحیم ک ا تعل ق بنگ ال س ے تھ ا اور وہ

سچکے تھے ج و ۱۹۳۵کلکتہ سے ء ت ک رہے۔مولان ا نے م ذکورہ۱۹۴۵ء میں لجیسلیٹو ممبر منتخب ہ و انتخابات میںجنوری سے مسلم لیگ کی حمایت کی ہے لیکن ضمنی انتخابات میں بھرپور انداز سے میداناائے تھے۔کیوں کہ فاروق ملک کے مطابق انتخابات کے بعد کچھ نشستیں خالی ہوگ ئیں جس پ ر میں نکل ساس نے مزید وضاحت کرتے ہوئے چند علاق وں س ہارنپور،م راد حکومت نے ضمنی انتخابات کا اعلان کر لیا۔ ااباد اور بلند شہر کے نام بھی لیے ہیں جہا ں پر مس لم لی گ کے خلاف جمعیت العلم اء نے ک انگرس کی

(۵۳بھرپور حمایت کی۔) درجہ بالا بیانات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے خود مولان ا کے مجم وعے’’چمنس تان‘‘میں ش امل

ساس کی ت اریخ تحریرجن وری ء۱۹۳۷وہ نظمیں ہیں ج و مس لم لی گ کی حم ایت میں لکھی گ ئی ہیں اور ء ک و نظم ’’ٹین ف روش اور دین ف روش ‘‘میں مولان ا۱۹۳۷ جن وری ۲۶ء ت ک ہے۔۱۹۳۷س ے دس مبر

)اح راری(کے مق ابلے میں کامری ڈ محم د حس ین ٹین س از کی حم ایت کی ہے۔ ف روری۶مظہ رعلی اظہ رسگجرات کے قصابوں کو مسلم لی گ کی حم ایت پ ر۱۹۳۷ سگجرات کی انتخابی جنگ‘‘میں ء کو نظم ’’

@@ا اارائش کرنے والے ٹھہرائے ہیں۔جولائی میں انتخابات کے حوالے سے ک ئی نظمیں لکھی ہیں مثل اسلام کی جولائی کو نظم ’’جھانسی کی مسلم لیگ کی شان دار فتح‘‘پر خوش ہو کر وہاں کے عوام کا شکریہ۲۳

کو متحدہ صوبوں سے تعلق رکھ نے والے مس لمان اب راھیم کی ک انگرس میں۱۹۳۷ اگست ۹ادا کیا ہے۔سانھیں گاندھی جی کے سبت پرستی‘‘ لکھ کر شمولیت اور انتخابات میں حصہ لینے پر نظم ’’مسلمانوں کی

سبت پرس ت ٹھہرای ا ہے۔ اکت وبر ک و ’’ک انگرس اور مس لم لی گ کی انتخ ابی۱۸ہ اتھ بیعت ک رنے پ ر جنگ‘‘میںکانگرس کوہندئوں کا اور مسلم لیگ کو مسلمانوں کا نمائن دہ جم اعت ق رار دی تے ہ وئے ک انگرساور مسلم کے انتخابی معرکے کو کفر اور اسلام کے درمیان جنگ قرار دیا۔نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہو:

سادھر اور ادھر عبدالسمیع حافظ ابراھیم

Page 314: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

313

سادھر ہے یثربی تعلیم ادھر ہردواری درس سبت قطار اندر قطار اازر کے سارے ساس طرف

ہن رب کعبہ کی تنظیم ادھر اور پرستاراساس طرف باطل کے شیدائوں کی اکڑی گردنیں

سکشتگانہ خنجر تسلیم ادھر اور ہجوم ساس طرف گاندھی کے فرماں پر سر تکریم خم

رہ کے ارشاد کی تعظیم ادھر اور رسول اللساس طرف نہرو پرستوں کے لیے بھارت کا راج

ہج ہفت اقلیم ادھر اور خدا والوں کے سر پر تااائین کا ساس طرف یہ احترام انگریز کے

ہن نافر جام کی ترمیم ادھر اائی اور ہے اس (۵۴)

ااویزش ‘‘وغیرہ ۱۹۳۷ دسمبر ۲ ء کے انتخابات میںمسلم۱۹۳۷ء کو ’’حلقہ امروہہ کی انتخابی لی گ کی حم ایت میں لکھی گ ئی نظمیں ہیں۔ نظم ’’ام ر تس ر کی انتخ ابی جن گ‘‘میں مس لم لی گ کے

ٹکٹ سے اسلام کا ٹکٹ بنا کر پیش کیا:سادھر ادھر اسلام کا ٹکٹ(۱ہے لیگ) کا

وہ نام کا ٹکٹ ہے یہ ہے کام کا ٹکٹاحرار ہو کہ کانگرسی ہوں سب ایک ہیں

دونوں کے دونوں لے کے چلے رام کا ٹکٹالہام کا ٹکٹ ہمیں کعبہ سے مل گیاوہ لائے سومنات سے الہام کا ٹکٹ

ساڑائیں گے جو مزاق اسلام کے ٹکٹ کا دوزخ کو لے کے جائیں گے بے دام کا ٹکٹ

Page 315: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

314

(۵۵) ۔لیگ سے مراد پنجاب مسلم پارلیمنٹری بورڈ ہے جس نے مسلم لیگ سے بغاوت کرکے مسلم لیگ کے۱ )

نمائندے کو ٹکٹ نہیں دیا( مولانا ظفرعلی خان کی تخلیق کردہ مذکورہ نظمیں جو مس لم لی گ کی حم ایت میں لکھی گ ئیں ہیں انتہائی س طحی اور ہنگ امی قس م کی نظمیں ہیں ج و ف نی لح اظ س ے بھرپ ور س ہی فک ری لح اظ س ےااخ یر میں لکھ ا ہے بالک ل بے مع نی ہیں۔نظم ’’امرتس ر کی انتخ ابی جن گ‘‘ کے ب ارے میں خ ود نظم کے کہ’’ مقصد انتخاب کے ل یے پروپیگن ڈا کے ط ور پ ر اس لام ک ا ٹکٹ دی ا‘‘س یدھی س ادی ب ات ہے کہ اگ رسان کی نظ ر میں ک انگرس پروپیگنڈا کے لیے شاعری کی جائے تو وہ کس قسم کی شاعری ہوگی۔بے ش ک سانھوںنے مسلم لی گ کی حم ایت ش روع مسلمانوں کی نمائندہ جماعت نہیں تھی،حقائق کو مدنظر رکھ کر ساس کو اسلام سان کا سیاسی معاملہ تھا کی تھی لیکن اگر ایک مسلمان کانگرس کی حمایت کرتا تھا تو یہ سان کے فن ک و نقص ان پہنچای ا۔مس لم لی گ کی کے دائ رے س ے خ ارج کرنان ا انص افی ہے جس نے یقین ا سان کو دو رکع ات کے تن گ نظ ر مولوی وں کے ص ف میںش امل ک ر حمایت میں مولانا کا اس قسم کے رویے

دیتے ہیں جن کے خلاف ہمیشہ خود جہاد کرتے رہے:اائے ہیں پیر و صوفی و ملا کفر کے فتوے ہاتھ میں لے کر

ہن مبین کی عظمت و شوکت ہونے لگی ہے غائب دی(۵۶)

ء ک و ’’بلن د ش ہر ‘‘ کے عن وان س ے ای ک مض مون لکھ ا ہے ج و چمنس تان۱۹۳۷دس مبر ۲۲سانھیں مولان ا ش وکت علی کے ہم راہ مجموعے میں شامل ہے۔جس میںاشعار بھی شامل ہیں۔مولان اکے مط ابق مسلم لیگ کے انتخابی مہم میں بلند شہرکے نواحی گائوں کمال پ ور،اک بر پ وراور کلاوتی کے جلس وں میںاابادجان ا پ ڑا۔مولان ا ش وکت علی،عن ایت اللہ ف رنگی تقری ریں ک رنی پ ڑیں۔وہ اں س ے پھ ر دھ ان پ ور،اورن گ محلی،مولان ا جم ال می اں ف رنگی محلی اور چوہ دری خلی ق الزم ان کے س اتھ ن واب ص احب چھت اری کی

(۵۷کوٹھی میں رات گزارنی پڑی۔)

Page 316: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

315

ء کے ع ام ص وبائی انتخاب ات اور۱۹۳۷ان مثالوں س ے ث ابت ہوت ا ہے کہ مولان ا ظف رعلی خ ان نے سان کے خ الی نشس توں پ ر ض منی انتخاب ات میں مس لم لی گ کی مکم ل ط ور پ ر حم ایت کی ۔یہ اں س ے سجدا ہو ج اتے ہیں۔مولان ا نے ک انگرس کی مخ الفت اور مس لم لی گ کی راستے کانگرس سے مکمل طور پر حمایت کے حوالے سے دو نظمیں ’’جواہر لال نہرو کا فلسفہ‘‘ اور محمد علی جناح ک ا فلس فہ‘‘ لکھ ک ر یہ واض ح ک رنے کی کوش ش کی ہے کہ مس لمانوں کی فلاح اس میں ہے کہ وہ مس لم لی گ میں ش مولیتساٹھ ا س کتی ااواز سان کے حق وق کے ل یے حاصل کرلے ۔کیوں کہ مسلم لیگ ہی قائد اعظم کی رہنمائی میں ستلی ہ وئی ہے۔اس میں ہے کانگرس مسلمانوں کو حقوق دینے کی بجائے ہن دوئوں کی غلامی میں رکھ نے پ ر ک وئی ش ک نہیں ہے کہ مولان ا ظف رعلی خ ان بہت عرص ے ت ک ک انگرس کے حم ایتی تھے کی وں کہ

ساٹھ اتی رہی۔۱۹۲۲ء کے بع د ۱۹۱۱ ااواز ء کے بع د۱۹۲۲ء ت ک ک انگرس مش ترکہ مف ادات کے ل یے ااری ا سان کے خیال میںہندو مس لم فس ادات، ہن دو مہاس بھا اور سانھیں کانگرس سے شکایتیں ضرور تھیں لیکن ااگ ئے سماجی لیڈروں مالوی جی کی وجہ سے برپا ہوئے لیکن جب دھیرے دھیرے نہرو کے بیانات س امنے جس میں مسلمانوں کی الگ تشخص ماننے سے انک ار ہ ونے لگ ا۔خ ود گان دھی جی نے ای ک اجلاس میںسبرا مانا۔جب ہندو انتہا پسندوں کے اس قسم مولانا ظفرعلی خان کے مالوی جی کے خلاف بات کہنے کو

ااگئے کہ سانھیں کے رویے سامنے ’ ہندوستان میںمسلمانوں کی مثال جرمنی میں مقیم یہودیوں جیسی ہے‘ تو سانھوں نے کانگرس اور ک انگرس ااپس میں ایک ہیں ۔اس لیے مکمل یقین ہونے لگا کہ دراصل یہ سب پارٹیاں

والوں سے بھی مکمل طور پر منہ موڑ لیا:ااگئی ہندو سبھا کانگریس پر جب سے غالب

مالوی جی کو وہ اپنا دیوتا کہنے لگے(۵۸)

اازاد ہو سکتا قیامت تک نہیں ہندوستاں اگر یوں ہی رہی ہندو مہا سبھا کی فتنہ انگیزی

(۵۹)

Page 317: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

316

کانگرس کی اس نتہا پسندانہ اور ہندومہاسبھائی ذہنیت کی وجہ سے مولان ا ظف رعلی خ ان اس کی سخت مخالف ہوگئے۔گاندھی کوجن ک ووہ ہمیش ہ ع زت س ے گان دھی جی کہہ ک ر پک ار دی تے تھے یع نی ش اعری میں بھی ’’جی‘‘ک ا خ اص خی ال رکھ تے تھے۔ای ک وقت تھ ا کہ ہندوس تان میں ن ئی روح پھونک نےسان والا،فرنگیوں سے پیسے پیسے کا حساب لینے والا،باطل کے خلاف اعلان جنگ ک رنے والا،لنگ وٹی والا سان کی نظ ر میں وقت ک ا س امری،اس لام ک ا کے ل یے مہاتم ا بھی تھ ا م نیم بھی تھ ا،لیکن اب وہ

ااندھی بنا ہوا تھا: دشمن،انگریزوں کا بہی خواہ،مشرک اور مکر کی بھارت میں بلائیں دو ہی تو ہیں اک ساورکر اک گاندھی ہے

ااندھی ہے ساٹھتی ہاک مکر کی ہاک جھوٹ کا چلتا جھکڑ ہے

(۶۰)ہی وقت کہ گاندھی ہے تیرا نام اے سامرہی کا تجھے بندہ بے دام کہتے ہیں نصار

ہندو کو مسلماں سے لڑانا ہے تیرا کامہترا انجام ااتا ہے جو ہوگا ہم کو نظر

(۶۱اے دشمن اسلام)

چار مشرک ہیں پٹیل و گاندھی و نہرو وبوسااپ کی یلغار چاروں کے خلاف کاش ہوتی

(۶۲)

سان کی تحاری ک،سودیش ی جب مولان ا ظف رعلی خ ان گان دھی جی کے خلاف ہوگ ئے ت و پھ ر سان کے خیال میں یہ ساری تح ریکیں بائیکاٹ،ستیہ گرہ،سول نافرمانی وغیرہ پر بھی تنقید شروع کی کیوں کہ ایک خاص گروہ کے مفاد کے لیے اور ایک خ اص مقص د کے ل یے چلائی ج اتی تھی ۔ان ک ا ہندوس تانیوں

Page 318: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

317

کے مشترکہ مفادات سے کوئی تعلق نہیں تھااس ل یے مس لمانوں ک و س امراجی حک ومت س ے اپ نے مف اداتحاصل کرنے کے لیے متحد ہو کر الگ تحریک چلانی ہوگی:

ااویز ر کے اشعار دل مانا کہ ہیں ٹیگواقبال کے نغموں میں مزا اور ہی کچھ ہےساولی الامر ہی کو ااپ نصار دیتے ہیں قرار

ہہ دوسرا اور ہی کچھ ہے فرمودہ شاہم خدا ہی ہے جو زائل ہو دلوں سے یہ وہتنظیم کے پردہ میں چھپا اور ہی کچھ ہےااریہ پرشوں کو خدارا کوئی سمجھائے ہان

سان کے منوجی کی کتھا اور ہی کچھ ہے خود ہض ہند نہ ہوگا ہج مر چرخے سے علا

یہ درد وہ ہے جس کی دوا اور ہی کچھ ہے(۶۳)

سان کے خلاف ب ات مولانا ابولکلام جن کی باتوں کا ہر فورم پرمولانا ظفرعلی خان تائید کرتے تھے۔ ء کے انتخاب ات میں ک انگرس کی حم ایت۱۹۳۷کرنا مولانا کے قلم کو للکارنا کے مترادف تھ ا، لیکن

سان کے بھی کرنے ،مسلمانوں کے ساتھ کانگرس کے انتہا پسندانہ رویے کے باوجود کانگرس نہ چھ وڑنے پ ر خلاف ہو گئے:

کٹ کے اپنوں سے ملے ہو تم اغیار سےپھر یہ کہتے ہو کہ ہم ظالم ہیں تم مظلوم ہو

کیا تماشا ہے کہ نہرو ہو ہمارا ترجماںہاسلام کا مقسوم ہو اور غلامی کفر کی

ااگے سر جھکائیں کیا تماشا ہے کہ ہم گاندھی کے

Page 319: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

318

کیا قیامت ہے کہ جو حاکم ہے وہ محکوم ہو(۶۴)

مولانا ظفرعلی خان نے اکثر نظموں میں سرحد)موجودہ خیبر پخت ون خ وا(کے ع وام کے ل یے نہ ایتسان ک و اازادی میں یہاں کے باسیوں کی ج و قربانی اں تھیں اامیز کلمات استعمال کیے ہیں۔جدو جہد ستائش بڑھا چڑھا کر پیش کرنا وہ اپنا ف رض س مجھتے تھے ۔اس کی بنی ادی وجہ یہ تھی کہ یہ اں کے باش ندے ہ ر دور میں استعماری طاقتوں کی بھرپور مزاحمت کرتے رہے۔خاکسار تحریک ک ا ذک ر اس تعمار دش من ط اقتوں

کے حوالے سے کرتے تھے:بڑھا ہے صبر کہ دے جبر کی سپہ کو شکست

سسرخ پوشوں کا مقابلہ ہے حکومت سے (۶۵)

سسرخ پوش وں۱۹۳۷ ء کی انتخابات اور اس کے بعد خان عبدالغفار خان کی کانگرس حمایت پ ر ااباد کے مقام پر ایک تقریر میں باچا خان کی کانگرس۱۹۳۸ ستمبر ۱۳کے خلاف ہو گئے۔ ء میں ایبٹ

حمایت پر تعجب کا اظہار کیا کہ اس کے پیرو مکہ کی بجائے واردھا کیوں ہے؟۔پنڈت جواہر لال نہ رو ت و(۶۶مسلمانوں کو اچھوتوں کے سطح پر برابر رکھتا ہے۔مسلمان اسے برداشت نہیں کر سکتے۔)

مولانا ظفرعلی خان خلافت کمیٹی کے بع د تحری ک اح رار کے س رگرم رکن بن گ ئے لیکن مس جدسان کے س خت خلا ف ہ و شہید گنج کے قضیہ پر احراریوں کی خاموشی اختیار ک رنے کی وجہ س ے مولان ا سان کے مط ابق جب کعبہ کی سانھیں دش من اس لام ق رار دی ا ہے، کی وں کہ گ ئے بلکہ ک ئی نظم وں میں بیٹیا)مساجد(شہید ہو رہی تھیں تو احراریوں نے انتخابات میں عہدے لینے کی خ اطر خاموش ی اختی ار کی۔

ء کے انتخاب ات۱۹۳۷اسی وجہ سے مولانا ک وبرہم ہ و ک ر ال گ تنظیم ’’مجلس اتح اد ملت‘‘بن انی پ ڑی۔ میں احرار نے مسلم لیگ کی مخالفت میں کانگرس کی حمایت کی ۔احرار کے صدر مولانا حسین احم دسان ک ا نظ ریہ’’ مدنی مسلم لیگ کے مذہب کی بنیاد پر الگ ریاست کی مطالبے کے سخت مخالف تھے ۔ قومیں اوط ان س ے بن تی ہیں‘‘ک و اقب ال نے بھی تنقی د ک ا نش انہ بنای ا تھ ا۔مولان ا ظف رعلی خ ان نے بھی نظم

’’حسین احمد مدنی ‘‘میں ان کے طرز فکر کو ناپسند کیا ہے:

Page 320: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

319

وطن جس کی رو سے ہے بنیاد ملتساس شرح کی کر رہا پیروی ہوں میں

ساچالا ہے جس سے اہنسا کا فوارہ ہن نوی ہوں میں اس زندگانی کی شا

سکھاتا ہے جو ناچنا اور گاناساس مدرسہ)واردھا( کا بڑا مولوی ہوں میں

سسہروردی کوئی قادری ہے کوئی مرا فخر یہ ہے کہ میں گاندھوی ہوں

سمجھ لوں میں جینا کو کیوں کر مسلماںکوئی میں بھی اشرف علی تھانوی ہوں

(۶۷) مولانا ظفرعلی خان نے کانگرس اور کانگرس س ے وابس تہ اف رادکی ش دید مخ الفت میں اعت دال ک ااائے ج و سات ر دامن گنوا بیٹھے۔بلکہ بعض اوقات تو اخلاقیات کے حدوں کو پھلانگتے ہوئے دش نام ط رازی پ ر سان کہ ایک عظیم رہنما،سیاست دان اور سب سے بڑھ کر ادیب کو تو بالکل زیب نہیں دیت ا۔اس ی وجہ س ے کی بعض نظمیں بالکل عامیانہ اور ب ازاری قس م کی بن گ ئیں ہیں۔لیکن یہ حقیقت بھی تس لیم ش دہ ہے کہسان ک ا بنی ادی مس ئلہ اس لام کی ان اختلافات کی وجہ ذاتی مفادات یا کرسی تک رس ائی ہ ر گ ز نہیں تھی۔سان کی ازلی دشمنی تھی۔ استعماری چالوں میں ان کو اسلام اور مس لمان کے سربلندی تھا۔کفر کے ساتھ اارہا تھا۔ تن من دھن کی پرواہ کیے بغیراستعمار کی مزاحمت کرتے رہے۔مولان ا نے جب یہی لیے خطرہ نظر خطرہ کانگرس کی کامیابی کی صورت میں ہندوستان کے باسیوں کے لیے محسوس کیا تو کسی کو خ اطر

میں لائے بغیر مخالفت شروع کی۔حکومت کیا کروگے لے کے انگریزوں سے نادانوں

ااگے باجا گائے کو پوجو بجائو مسجدوں کے

Page 321: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

320

(۶۸)

ساٹھ جاتی تو خیر اک بات تھی گاندھی جی کی نظر یثرب کی طرف اازادی یہ کیا ہے کہ سمجھے بیٹھے ہو وردھا کو مقام

(۶۹)

ء کے انتخاب ات میں مولان ا ظف رعلی خ ان کی مس لم لی گ کی۱۹۳۷ڈاکٹر نظ یر حس نین زی دی حمایت کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مولانا ظفرعلی خان نے اس دور میں پوری طرح مسلم لیگ کے لیے کوشش یں کیں،اور اس کوش ش کی تہسان کا عظیم مقصد یعنی مسلمانوں کی برتری ک ا خی ال کارفرم ا رہ ا ت ا کہ وہ )عظیم مقص د(توحی د کے میں

(۷۰پرچم کو بلند رکھے۔‘‘)سان کے مزاج میں فساد مولانا کے خیال میںہندوستان میں انتشار اور فسادات کے ذمہ دار ہندو تھے۔سچکے تھے۔ ہن دو انتہ ا پس ند خ ود فت نے و رچی بسی تھی،وہ اچھائی کا بدلہ برائی سے دینے کے عادی ہو @@ا کہیں کہیں فساد برپا کرتے تھے اورالزام مسلمانوں پر لگا دیتے تھے جس کی وجہ سے مسلمان بھی انتقام

ساٹھانے پر مجبور ہو جاتے تھے: پر غیر اخلاقی اقدام جزا ہندو کے احساں کی ہے احساں اور وہ یہ ہےکرے نیکی مسلماں اور اسے گنگا میں ڈال دے

ساس کا تھوپ دیں ہم پر تشدد خود کرے الزام اائے تعجب کیا گر اس منطق پہ ہم کو اشتعال

(۷۱) ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تووائسرائے ہند کی اپنی مرضی سے اعلان جنگ پ ر۱۹۳۹

ہی دیا۔ کانگرس ورکنگ کمی ٹی کی اجلاس یں واردھ ا میں س تمبر۱۵س ے ۵کانگرس نے وزارتوں سے استعف ء ت ک ج اری رہیں۔جاپ ان کے ام ریکہ پ ر حملہ کے خط رات س ے خ وف زدہ ہ وکر ہندوس تانیوں ک و۱۹۳۹

Page 322: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

321

اائے تاہم یہ مشن ناکام ہوا۔ک انگرس۱۹۴۲اعتماد میں لینے کے لیے مارچ ء میںبرطانیہ سے سراسٹفرڈ کرپس اور مسلم لیگ دونوں نے جنگ میں حم ایت ک رنے کے ل یے عب وری حک ومت ک ا مط البہ کی ا ج و نہیں مان ا

ء کو کانگرس واردھا کانفرنسوں ک ا سلس لہ ش روع ہ وا۱۹۴۲ جولائی ۵گیا۔جاپانی حملے کی خطرات پر جس کے فیصلے کے بع د ’’ہندوس تان چھ وڑ دو ‘‘تحری ک ش روع کی گ ئی اور س واراج ک ا نع رہ لگ ا یاگی ا۔ مس لمانوں ک و کس ی بھی ص ورت میں ک انگرس کے مطالب ات منظ ور نہیں تھے کی وں کہ اس قس م کے مطالبات کی منظوری سے کانگرس اکثریت کی بنی اد پ ر مرک ز پ ر ق ابض ہوج اتی اور اپ نی راج ک ا اعلان ک ر

ساڑاتے ہوئے اسے رام راج اور ٹام راج کہہ کر پکارا ہے: جاتی اس لیے مولانانے سواراج کا مذاق یہ تو ممکن ہے کہ ہو پنجاب میں اسلام راج

یہ نہیں ممکن کہ پھر قائم یہاں ہو رام راجیوں ہی گر ہوتی رہی ناممکن اور ممکن کی جنگ

ساٹھ نہیں سکتا قیامت تک بھی یارو ٹام راج(۷۲)

مولانا ظفرعلی خان نے کانگرس کے واردھا کانفرنس میں ک یے گ ئے فیص لوں ک و نہ ایت تنقی د ک اہی دینا دراصل ک انگرس کی ای ک سان کے خیال میں حکومت کی مخالفت اور وزارتوں سے استعف نشانہ بنایا ۔اازادی کی راہ میں اور مس لمانوں کے حق وق کے حص ول میں رک اوٹ ڈالن ا چ اہتی ہے۔ڈاک ٹر س ازش ہے ج و سانھ وں نے ہن دئوں اور انگری زوں کے گٹھ ج وڑ ک و محس وس کی اجو سہیل احمد کے مطابق م ذکورہ دور میں اازادی کی ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ کی حیثیت رکھتا تھا۔ہندوس تانی اق وام ک و تحریک کو نقصان پہنچانے اور مس لمانوں ک و اپ نے حق وق س ے مح روم ک رنے کی خ اطر تقس یم کی ا گی ا۔)

جنوری۷مولانا ظفرعلی خان نے انگریز اور کانگرس کے درمیان حفیہ سازشوں،معاہدوں اور گٹھ جوڑ کو(۷۳ ء میں لکھی ہوئی نظم ’’واردھا اور لندن کا شریفانہ میثاق‘‘میںکچھ یوں واضح کی ہے:۱۹۳۹

ااخر انگریز کو خوش کر ہی لیا گاندھی نےکہ یہ بنیا بچہ اس فن کے دقائق میں ہے طاق

نائب السلطنت ہند سے مل کر یہ کہا

Page 323: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

322

ہن وفاق اائی مجھ کو منظور ہے سرکار کا صیغئہ راز میں رکھی گئی یہ گفت و شنید

نام رکھا گیا اس کا شرفا کا میثاقہاں میں ہاں کچھ علما نے بھی ملا دی بڑھ کر کانگرس لائی تھی جن کے لیے حلوے کا طباق

ہق غلامانہ ہے جس پر گواہ یہ وہ میثاکبھی نہرو کا تجاہل کبھی گاندھی کا نفاقہم انگلیس جب کہ یہ دونوں کے دونوں ہیں غلا

ساڑاتے ہیں مذاق اازادی کامل کا کیوں پھر متفق ہو نہ سکا اس سے مسلماں کا ضمیر

کہ مسلماں کو تصور بھی غلامی کا ہے شاقکہہ دے جا کر کوئی مغرب کی ملوکیت سےغیر ممکن ہے کہ باطل سے ہو حق کا الحاق

نئی تہذیب سے ہوتی جو وفا کی امیدتو نہ دیتا اسے توحید کا فرزند طلاق

(۷۴)ااٹھ۱۹۳۹واردھ ا میں ک انگرس ورکن گ کمی ٹی کے اعلان کے مط ابق نوم بر ء میں ک انگرس نے

صوبوں کی وزارتوں سے استعفی دے دیا۔مسلم لیگ نے ک انگرس کے اس عم ل پ ر خوش ی ک ا اظہ ار ک رتے ء ک و ق رار داد۱۹۴۰ م ارچ ۲۳ دسمبر کو یوم نجات منائی۔اس کے بعد مسلم لی گ ک ا اہم ق دم ۶ہوئے

لاہور تھا جس کے بعد ایک الگ ریاس ت کے حص ول کے ل یے کوشش یں ش روع کی گ ئی۔مولان ا ظف ر علیاازادی کے پکے اور مصمم ارادے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے: ہل خان کی نظم ’’تین سو گندیں‘‘حصو

(۱)ہر امانت کا ہوں میں حامل ازل کے روز سے با

Page 324: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

323

خدا کا فضل بے پایاں ہے میرے حال کو شاملہی کامل اازاد مسلماں ہوں مرا مقصود ہے

ہن گرامی کی رن کی جا ہر کونی قسم ہے سروہاک جھٹکے میں ت وڑوں گ ا میں زنج یریں غلامی کہ

کی(۲)

@علم ہوگا @قیم کا ہن ساونچا دی ثریا سے بھی ہغ دو دم ہوگا ہملت عرضہ تی ہر اعدائے س

ااگے نہ خم ہوگا سہوں مرا سر غیر کے موحد قسم ہے اشہب توحید کی محشر خرامی کی

ہاک جھٹکے میں ت وڑوں گ ا میں زنج یریں غلامی کہ کی

(۳)نرہ ہندوستاں میرا نہیں ہے اک فقط معمو

بنایا ہے وطن اللہ نے سارا جہاں میراہے اونچا ساری قوموں کے نشانوں سے نشاں میرا

ہر دوامی کی ہی کی یلغا ہت کبر قسم ہے سطوہاک جھٹکے میں ت وڑوں گ ا میں زنج یریں غلامی کہ

(۷۵کی) دوسری جنگ عظیم میں ایک طرف فاشسٹ/فسطائی)اطالیہ(اورجرم نی)ن ازی (ط اقتیں تھیں دوس ریاازما تھیں۔ چوں کہ ہندوستانی خود جمہ وریت کے حص ول کے ل یے جدوجہ د ک ر طرف جمہوری طاقتیںنبرد ساس دور رہے تھے اس لیے جنگ میں زی ادہ ت ر ہندوس تانیوں کی ہم دردیاں جمہ وری ط اقتوں کے س اتھ تھیں ۔ساٹھ ا رہی تھی ۔کمی ونزم کی ااواز سچکی تھی ج و غ ریب اور کم زور کے ل یے میں روس ای ک ایس ی ط اقت بن

Page 325: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

324

تحریک پوری دنیا کے کمزور طبقوں میں پسند کی ج ارہی تھی جب کہ ج اگیردار اس کے س خت مخ الفاابادی ات تھے۔جنگ میں ہندوستانی جمہوری طاقتوں) جو اپ نے ل یے ت و جمہ ور کے قائ ل تھے لیکن اپ نی ن و اام رانہ اور اس تعماری پالیس ی لاگ و ک ررہے تھے (کے مق ابلے روس کی مخ الفت میں ہندوس تان وغ یرہ پ ر ساس وقت ت ک ہندوس تان ہچکچ اہٹ محس وس ک رتے تھے بلکہ روس ہی کے ط رف راغب تھے۔کی وں کہ میںکمیونسٹ سوچ کو کافی عمل دخ ل حاص ل تھی اور ادب میں ت رقی پس ند اس نظ ریے کے پرچ ارکر رہے تھے۔ڈاکٹر ای وب م رزاء کے مط ابق ت رقی پس ند س ویت ی ونین کے اش تراکی نظری ات س ے مت اثر تھے ۔ہٹل ر اور اسٹالن کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد ہندوستان کے ترقی پس ند انگری ز وں کی مخ الفت میں س رگرم

ء میں ہٹل ر نے معاہ دے۱۹۴۱عمل تھے اور انگری زوں کی غلامی کے خلاف جدوجہ د ک رہے تھے لیکن ااگے بڑھ گ ئیں۔اس کو بالائے طاق رکھ کر سویت یونین پر حملہ کردیا۔ہٹلر کی افواج روس میں دور دور تک

(۷۶حملے نے دنیا بھر کے بائیں بازووالوں کی سوچ کا دھارا بدل دیا۔) مسلم لیگ نے تو بغیر کسی تردد کے جمہوری طاقتوں کی حمایت کا اعلان کیا۔وی۔پی مینن نےااف پ اوران ان ڈیا‘‘میں مس لم لی گ ک و دوس ری جن گ عظیم میں برط انیہ کی ’’اپ نی کت اب ’’دی ٹرانس فر

سان کے مطابق ء کو مسلم لیگ نے ایک قرارداد پاس کی ،کہ اگ ر۱۹۳۹ اگست ۲۷حمایتی قرار دیا ہے ۔ بالفرض جنگ میں برطانیہ کو مسلم لیگ کی حمایت کی ضرورت پ ڑی ت و بغ یر کس ی ت اخیر کے م دد کیہی تھے۔ جائے گی۔غیر کانگرسی صوبے ،بنگال اور پنجاب میں سکندر حیات خان اور فضل الح ق وزی ر اعلہی ع وامی ط ور پ ر اعلان ک ر حال ہی میں مسلم لی گ میں ش امل ہ و چکے تھے۔حقیقت میں دون وں وزی ر اعلسان کے ص وبوں کے وس ائل اور ذرائ ع ک و بغ یر کس ی ہچکچ اہٹ کے برط انوی حک ومت کی سچکے تھے کہ

(۷۷حمایت میں استعمال کی جائے گی۔) جہ اں ت ک ک انگرس ک ا تعل ق تھاان درونی اختلاف ات کے ب اوجود جمہ وری حکومت وں کی حم ایتی تھی۔البتہ گاندھی جنگ میں شمولیت کے بالکل مخالف تھے لیکن بعد میںسبھاش چن در ب وس کے جاپ انسان کی ہم دردیاںجاپان اارمی کا قیام اورجاپان کی م دد س ے برم ا پ ر ق ابض ہ ونے س ے جانے اور وہاں پر انڈین کے ساتھ وابستہ ہو گئیں۔مولانا ظفرعلی خان نے کانگرس کے اس اندرونی خلفشار ک و نظم’’وف ادار بیٹ ا اور

سر پھرا بیٹا‘‘میں موضوع بنایا ہے:

Page 326: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

325

بیٹے کا مسلک ہے جدا باوا کا مشرب ہے الگہاس کے لیے چرچل کا ڈر ساس کے لیے، گاندھی کا خوف

ساس کے لیے ہد فرنگ ہی کامل کا گھر قی اازاداحمق کی جنت ہے مگر اس کی نگاہوں میں یہ گھر

گرما کے پوچھا باپ نے یہ تو بتا اے ناخلفستو راحت کا ساماں چھوڑ کر کیوں جابسا زنداں میں

ہلتھ گائو پر ترجیح کیوں دیتا ہے تو ہلن گاندھی کو سادھر جنت ادھر پتھر وہاں روٹی یہاں دوزخ

(۷۸) جنگ میں جاپان کی مسلسل کامیابیوں،ملای ا،س نگاپور اور برم ا کے قبض وں پرہندوس تانی ع وام ع امااس انی کے س اتھ انگری ز س ے نج ات م ل س کتی ہے۔ ط ور پ ر یہ س مجھنے لگے کہ جاپ ان کی م دد س ے اازاد ایس ی ک انگرس کے چن د اہم نمائن دوں ک ا بھی یہی خی ال تھ ا۔ لیکن ک انگرس کے ص در اب والکلام ااق ا کے تب دیلی ک ا راس تہ تھ ا۔ باتوںکی سخت مخالفت کرتے تھے کیوں کہ دراصل یہ نجات ک ا نہیں بلکہ

اازاد نے لکھا ہے: تاہم کانگرس کمیٹی کے مشترکہ اعلان جمہوری طاقتوں کی حمایت میں تھا۔ابوالکلام ’’کانگریس امپریلزم اور فاش زم دون وں کے خلاف ہے اور اس ام ر میں یقین رکھ تی ہے کہ ع المی امن میں اور

( ۷۹ارتقا کے لیے دونوں کا خاتمہ ضروری ہے۔‘‘)سانھ وں نے جنگ کے حوالے سے مولانا ظفرعلی خان کا نظ ریہ اور س وچ بالک ل ال گ اور منف رد تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں براہ راس ت کس ی ک ا س اتھ نہیں دی ا۔وہ دراص ل اس لام کے داعی اور م ذہبی س وچساصولوں سے ممکن تھا۔اس ل یے سان کی نظر میںبہترین حکومتی نظام اسلام کے وضع کردہ کے حامل تھے۔

سان کی نظر میں اسلام کے مقابلے میں مسولینی اور ہٹلر کی طاقتوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی:اانہیں سکتے مسولینی ہو یا ہٹلر ہو غالب

رں کے جاں نثاروں کا ہر کون و مکا حضور سرو(۸۰)

Page 327: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

326

پر پر مختلف کردار ان کی تحسین کے سزاوار ٹھہرے ۔جہاں یہی وجہ ہے کہ مختلف موقعوں اسلام کے حریفوں کو زچ پہنچا وہ خوش ہ وئے اور مخ الف ق وت ک و داد دی تے رہے لیکن اس ک ا یہ مطلبسانھ وں نے داد دی نے والے گ روہ کی حم ایت ک ا اعلان کی ا۔اط الیہ اور روس کے ت و ح د درجہ ہرگ ز نہیں کہ ہت مخالف تھے اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پہلی جنگ عظیم میں ان دو ط اقتوں کی وجہ س ے خلافہاس ح دتک مخ الف تھے کہ جن ت رکیہ ک و ک افی نقص ان پہنچ ا تھ ا۔ فاشس ٹ اور ن ازی قوت وں کے وہ اس تعماری ط اقتوں کی وہ عم ر بھ ر مخ الف رہے اور انھیں اس لام اور مس لمان کے س اتھ انس انیت کے بھی

اکت وبر۱۴دش من تص ور ک رتے رہے،فاش زم اور ن ازی ازم کے مق ابلے میں انہیں ک و بہ تر س مجھتے تھے۔ااپ نے ایک نظم ’’یورپ کے دو قزاق‘‘میں کہا تھا:۱۹۳۹ ء کو

ساس کے ہیں جو ہے دشمن اسلام ہم حریف ساس کے ہیں رفیق ہن عالم جس کی غایت ہے ہم ام

(۸۱)انگریز نے اطالیوں کو بھگا دیا

یہ نعرہ ہے دہان ابولہول سے بلندروما کے منہ کو لال کیا جس نے مصر میں

ساسی دھول سے بلند لندن کا مرتبہ ہے (۸۲)

ماسکو سے ہو رہا ہے رشتہ برلن کا قریبطوق ہٹلر کا ہے اور گردن ہے مولوٹاف کاسدنیا ہے گواہ سترک کی سختی پہ ساستخوان

سروس سے کہہ دو کہ مانگے خیر اپنی ناپ کا(۸۳)

Page 328: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

327

مذکورہ دورنہ ایت کش مکش اور انتش ار ک ا دور تھ ا۔دنی ا بھ ر کے ادیب،سیاس ت دان اور ہ ر مکتبہاازاد نہیں تھے ای ک ط رف فک ر کے ل وگ ذہ نی ک رب س ے گ زر رہے تھے ۔ہندوس تانی بھی ان س وچ س ے

جمہوریت کے ہاتھوں میں استعمار کی تلوار سر پر لٹک رہی تھی جو بقول مولانا:ساس سے بڑھ کر بے وقوف کون ہوگا ایشیا میں سامید انصاف کا) (۸۴جس کو ہے تہذیب یورپ سے

دوس ری ط رف ہٹل ر اور مس ولینی جیس ے فاشس ٹ اور ن ازی ط اقتوں کے چ رچے تھے ج و کہ دنی ا جہ اں کی انس انیت اور امن کے ل یے س ب س ے ب ڑا خط رہ تھ ا ۔ہندوس تانی سیاس تدانوں میں مولان ا ظف رعلی خ انسانھ وں نے جن گ کے واحدسیاس تدان تھے ج و اس دور میں خ اص قس م کی سیاس ی بص یرت رکھ تے تھے۔سان کے خی ال میں اس حوالے سے ج و بھی پیش گوئی اں کی تھیںس چ ث ابت ہ وئیں۔پہلی ب ات ت و یہ تھی کہ اابادی ات پ ر اس تعماری ط اقتوں کی جنگ کی وجہ سے دنیا کی بڑی طاقتیںکمزور ہو جائے گی ۔ اس ط رح نوسان کے دن پھ ر ج ائیں گے۔نظم گ رفت کم پ ڑ ج ائے گی ۔مس لمان ہ ر جگہ پ ر زب وں ح الی کے ش کار ہیں

’’جنگ یورپ اور مشرق وسطی‘‘میں یہی کیفیت نمایاں ہے:

چھڑی جس روز سے مغرب میں ہے جنگ حق و باطلااتا ہے نظر مشرق کا مستقبل درخشاں مجھ کو

سمٹھی میں سسن کے کہ انگریزوں کی جاں ہے میری عرب مسلمانوں کے یہ دشمن ہیں میرے دائوں سے غافل

اابدوزوں سے نکل کر بچ نہیں سکتے یہ میری ہگھر گئی اور دور ہے ساحل سان کی بھنور میں نائو

سان کی فوجوں کو ہت فاش بحرو بر میں دے کر شکسہی کامل اازاد ہت میں بخشوں گا عرب کو دول

فلسطیں و عراق و شام کے دن پھرنے والے ہیںہمری امداد حاضر ہے عرب ہوتا ہے کیوں بدل

Page 329: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

328

سسن لیں یمن ہو یا عراق و مصر ہوں اچھی طرح سان کا ہر مشکل ااساں ہونے والی ہے بہت جلد کہ

پڑا ہے غلغلہ ہٹلر کی اس منطق کا برلن میںہی لا حاصل جسے لندن سمجھتا ہوگا محض اک سع

بدل جائے سیاست کی فضا چٹکی بجاتے میںہن چرچل یہی باتیں کہیں گر ریڈیو پر ونسٹ

(۸۵)

مندرجہ بالا نظم میں اگر ہٹلر کے ہ اتھوں انگری زوں کی تب اہی اور مس لمانوں کے بیش تر ممال ک کی ء کوجس وقت جرم نی میں ہٹل ر ای ک۱۹۴۰ نومبر ۱۶مشکلات ختم کا ذکر کیاگیاہے۔ تو دوسری طرف

سونامی کی طرح پوری دنیا کی طرف بڑھ رہا تھا۔جرمنی نے پولینڈ،ڈنمارک،ن اروے،بلجیم،ہالین ڈ،لکس مبرگااور ہو کر برطانیہ کو ایک جزیرے تک محدود کیا تھا۔روس کے ساتھ بھی جنگ شروع ہ و اور پیرس پر حملہ @بل پ ر نظم ’’چیم برلین ک ا چکی تھی،یہ دیکھ کر حیرانی ہ وتی ہے کہ مولان ا نے اپ نی سیاس ی بص یرت کے

ساس وقت کہ ا تھ ا کہ فتح انگری زوں کی ہ وگی اورناک امی ہٹل ر کے ن ام ہ وگی۔ م ئی۲۸جنگی ت رانہ‘‘میں ء ک و یہ پیش۱۹۴۰ ج ون ۲۱ء کو اطالیہ کی عوام نے مس ولینی ک و پھانس ی دلائی لیکن مولان ا ۱۹۴۴

گوئی کی تھی:دلاتے ہیں یہ اطمینان چیمرلین پولوں کو

چھڑا سکتے ہیں ہم اب بھی عقابوں سے ممولوں کومقدر ہوچکی ہے فتح انگریزی عساکر کی

پڑا پھوڑا کرے ہٹلر جلے دل کے پھپھولوں کوسروس کو بھی ہم سمجھ لیں گے نبٹ کر نازیوں سے ساس پر بھی پھٹنا ہے ہمارے بم کے گولوں کو کبھی

سان کا بباطن ہیچ ہیں کھل جائے گا پول ایک دن

Page 330: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

329

ااہنگ ڈھولوں کو بجائے جرمنی اپنے بلند مسولینی کا سر اٹلی میں مونڈا جائے گا جس دن

ساس پر انگلستان کے اولوں کو برستا دیکھ لوگے (۸۶)

دوسری جنگ میں استعماری طاقتوں اور فسطائی و فاشسٹ اور نازی جارحیت کے نتائج کے بارےساس وقت کا ہر مسلمان جو ای ک اس لامی ملت میں مولانا کاادراک زیادہ تر سچ ثابت ہوا۔البتہ مولانا سمیت سا س دور کے مس لمان میں اتن ا دم خم موج ود نہیں رہ ا تھ ا کا خواب دیکھ رہا تھا وہ خواب ہی رہا کی وںکہ اازاد کروات ا ،ملت کے قی ام ک ا تص ور ت و بع د ااپ کو استعماروں کے چنگ ل س ے کہ وہ ملکی سطح پراپنے کی باتیں تھیں۔دوسری جنگ عظیم کے بعد یقینا فسطائی،فاشسٹ اور نازی ط اقتوں کے خ اتمے کے س اتھاابادی ات ق ائم رکھ پ اتے اور ی وں ہندوس تان استعماری طاقتوں میں بھی وہ سکت باقی نہ رہی کہ مزید اپ نی ن و اازادی ملی۔اس جنگ سے ای ک اور خط رے نے امریک ا کی ش کل میں سمیت افریقہ اور دوسرے ممالک کو ااج ہر کمزور ملک کے سر پ ر لٹکی ہ وئی تل وار کی مانن د س وار ہے۔ام ریکہ نے جن گ کے ضرور جنم لیا جو لیے اسلحے کی فیکٹریاں بن ائی اور نقص ان کی بج ائے اس لحے کی تج ارت اور ف روخت س ے اپ نی اک انومیااج تک اپنے اس لحے کی ف روخت اور تج ارت ااگئی اور اتنی مضبوط بنائی کہ سپرپاور کی شکل میں سامنے سان کے کاروبار کا حصہ ہے۔انگلس تان نے ہندوس تان ک و ڈی ڑھ سوس ال غلام بن ا کے عوض انسانیت کا خون اازادی کے بعد نو استعماری شکل میںوہی پالیسیاں ج وں ک ا کر استعماری پالیسیوں کو اتنا مستحکم بنایا کہ

سان کے ہاتھوں میں ہے۔ ااج تک یہاں کا مقدر توں قائم رہیں اور یوں ء کے ع ام انتخاب ات ک رائے گ ئے ت و مس لم لی گ۱۹۴۶۔۴۵جنگ کے اختتام پر ہندوس تان میں

اپنی نشستوں پر واضح اکثریت س ے جیت گ ئی۔مولان ا ظف رعلی خ ان ج و پہلے س ے لجیس لیٹو اس مبلی کے ممبر تھے مس لم لی گ کی ط رف س ے لاہ ور کے حلقے س ے ای ک ب ار پھرمرک زی اس مبلی کے مم بر منتخب ہوئے۔انتخابات کے بعد کیبنٹ مشن پلان اور لارڈمائونٹ بیٹن پلان کی شکل میں ہندوستانی کافی ہنگ اموںسرکن کی س ے گ زرے لیکن مولان ا ظف رعلی خ ان اس عرص ے میں ش اعری کی بج ائے اس مبلی کے ای ک حیثیت سے مغربی استعمار کے خلاف لڑتے رہے۔ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی نے مولانا ظفرعلی خان ،احوال و

Page 331: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

330

سان کے بط ور لیجیس لیٹو مم برکے خ دمات اور اس تعماری پالیس یوں ااثار اوریامین خ ان نے ’’ن امہ اعم ال ‘‘میں کے خلاف تقریروں پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔

)ج(ء کے بعد پاکستان کے حوالے سے مولانا ظفر علی خان کی شاعری کا جائزہ۱۹۴۷

سان کو تپ دق کی بیم اری لگی دو مہی نے بس تر علالت پ ر رہ ک ر تھ ورا۱۹۴۶ ء کے وسط میں س ال جدوجہ د ک رتے رہے وہ دن۷۰سا اف اقہ ہ وا کہ ف الج ک ا حملہ ہ وا ۔ جس دن کے دیکھ نے کے ل یے

سانھ وں نے ل رزتے ہ اتھوں س ے ساس وقت وہ ایک خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے ، تقسیم ہند پ ر نصیب ہوئی تواادھ نظم ضرور لکھی لیکن ہاتھوں میں وہ طاقت باقی نہیں رہی جو کسی زم انے میں مسلس ل تخلیقی ایک عم ل میں س رگرم رہ ا ک رتے تھے۔ن اقص اور غ یر منص فانہ تقس یم ،فس ادات،انگلس تان کی بھ ارت

سانھوں نے نظم ’’ابلیس کا ترانہ ‘‘میں یوں بیان کیا ہے: پرستی ،کانگرس فرنگی گٹھ جوڑ کو ڈالا کسی نے ڈاکہ مارا کسی نے چھاپا

ااپا رٹتے ہیں اس سبق کو جرنیل کیری روتی ہے تجھ کو بھارت کشمیر کی یتیمی

اور تجھ کو پیٹتا ہے پنجاب کا رنڈاپااائے انصاف اور ایماں کو ہم نظر نہ

مشرق کو ہم نے چھاپا مغرب کو ہم نے ماپا(۸۷)

اازادی پ ر تبص رہ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے ’’اردو شاعری کا سیاسی و سماجی پس منظر‘‘میں اائے۔لیکن اازاد ہوا اور پاکستان و بھارت دو خود مخت ار ممال ک وج ود میں کرتے ہوئے اظہار کیا ہے کہ ملک اازادی کی ج ام ش یریں میں زہ ر کی ایس ی تلخی گھ ول دی جس نے دون وں س امراج نے ج اتے ج اتے بھی ہمس ایہ ملک وں کے درمی ان خ ون کی گہ ری لک یر کھینچی۔’’پھ وٹ ڈال و اور حک ومت ک رو‘‘کی فرس ودہ

ء میں نکلنا۱۹۴۷ء میں انگریزوں کے تسلط اور ۱۸۵۷حکمت عملی اس بٹوارے میں بھی کارفرما رہی۔ہ زمانہ کی بات تھی لیکن ان کا طرز عمل دونوں موقع وں پ ر یکس اں رہ ا۔ف رق ص رف اتن ا تھ ا کہ پہلے گردش

Page 332: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

331

سان کے اپ نے ہ اتھ یہ اں کے باش ندوں کے خ ون س ے رنگین تھے اور ملکی باش ندوں س ے ای ک انقلاب میں (۸۸دوسرے کے خون کی ہولی کھیلی۔سامراج کا انتقام یہاں بھی کامیاب رہا۔)

سانھ وں نے ناش کری ک اا پاکس تان بن نے کے بع دمولانا ظف رعلی خ ان م ایوس بالک ل نہیں ہ وئے اور نہ ہی کی وہ عظیم نعمت تصور کی جس کے حصول ظہار کیا بلکہ ایک ٹوٹے پھوٹے پاکستان کو بھی اللہ تعال کے ل یے ڈی ڑھ س و س ال س ے مغ ربی اس تعمار کے خلاف جن گ ل ڑی گ ئی۔نظم ’’پاکس تانی س پاہی ک اسدعائوں کے ایجاب و قبولیت کا ثمر قرار دیا گیا ہے۔ ترانہ‘‘میں پاکستان کو شہدا کی خون اور خداوند سے جب کہ نظم ’’زندہ رہیں گے ت ابہ اب د،ہم اور ہم ارا پاکس تان‘‘میں ا س کی س ا لمیت اور ہمیش ہ ق ائم دائم

سدعا کی ہے: رہنے کے لیے پاکستانی سپاہی کا ترانہ

ااپہنچی وہ ساعت جسے مانگا تھا خدا سےااغوش دعا سے ااج ہم ہوتا ہے اثر

تھی ایک زمانے سے تمنا یہ ہمارینسبت ہو میسر ہمیں قومی شہدا سے

دنیا میں فقط نام رہے زندہ ہماراجاتی ہو اگر جان چلی جائے بلا سے

تقدیر سے کہہ دو رہے احسنت کو حاضرااج قضا سے ہم جاتے ہیں لڑنے کے لیے

سپورا ہمیں کرنا ہے فریضہ فقط اپنامقصود فنا سے ہے نہ مطلب ہے بقا سے

عاشق کو ہوا کرتا ہے معشوق سے جو عشقہن وفا سے وہ عشق سپاہی کو ہے میدا

(۸۹) زندہ رہیں گے تابہ ابد،ہم اور ہمارا پاکستان

Page 333: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

332

برہمنوں سے جا کے یہ کہہ دو لے کے رہیں گے ہم کشمیرٹل نہ سکے گا عزم ہمارا ہے یہ مسلماں کی پہچان

ری ہے جس کی اساس دی ہے خدا نے تم کو وہ دولت شرع نبزندہ رہیں گے تابہ ابد ہم اور ہمارا پاکستان

پاکستانیوں سے ٹکرانا موت کے منہ میں جانا ہےدیکھ کے جن کو ہو جاتے ہیں بھارتیوں کے خطا اوسان

(۹۰)سانھوں نے اپنی زندگی دائو پر لگائی ،اپنی خواہشات کو قربان کیں۔ جس مٹی کے حصول کے لیے بچپن، ج وانی،بڑھاپ ا،ص حت ،بیم اری ہ ر ح ال میں س امراجی حک ومت کی م زاحمت کی اور غلامی س ےسان پ ر کف ر کے فت وے بھی لگ ا دیے گ ئے اور نج ات حاص ل ک رنے کے ل یے ل ڑتے رہے۔تحری ک کے دوران اازادی ملی سان کا دوسرا گھر بنا ہ وا تھ ا لیکن جب استعماری قوتوں کے ایجنٹ کے الزامات بھی ۔جیل خانہ سان ک و وہ مق ام نہیں تو ایک طرف بدن نے ساتھ چلنا چھوڑ دیا تودوسری طرف پاکستانی حک ومت نے بھی اازدی کے بع د سان کے دکھتے دل کا درماں ہو جاتا۔یہ ص رف مولان ا ظف رعلی خ ان ک ا المیہ نہیںبلکہ دیا جو ااج پاکس تان میں اازادی کے بیش تر اراکین کے س اتھ ایس ا ہی ہ وا۔ش ورش ک ا ش میری کے مط ابق جدوجہ د کوئی ظفرعلی خان کوپہچ انتے ت و کی ا ج انتے بھی نہیں ۔ خ رابی یہ ہے کہ ہم ارے مل ک میں خ اص قس ماازاد ہوا تو جو لوگ اس کے ص حیح کے سیاسی حالات سے خاص قسم کے لوگ مسلط ہو گئے ہیں۔ملک ااج ہندوس تان اور پاکس تان دون وں جگہ پ ر مس لمانوں کی ذہ نی ت اریخ وارث تھے انہیں نظر ان داز کردی ا گی ا ۔ غ ائب ہے ۔ہندوس تان کے س نگھٹنی ذہن نے ح ریت و اس تقلال کی ت اریخ میں مس لمانوں کی ذہ نی خط وطساڑا دی ئے۔پاکس تان کے فرزن دان اختی ار چ وں کہ خ ود اس نقش ے میں نہیں تھے اس ل یے وہ اس کے پرخچے سان کے نزدی ک محم د علی ج وہر،حس رت موہ انی،اور مولان ا ذہنی تاریخ س ے ک وئی دلچس پی نہیں رکھ تے ۔ ظفرعلی خان بیکار لوگ تھے۔اس سے بڑا حادثہ اور کیا ہوگا کہ جن لوگوں نے برط انوی اس تعمار کے خلافسانھیں برصغیر سے باہر نکال دیا ۔وہ ہن وز ای ک دش نام ہیں جب کہ برط انوی اس تعمار مسلسل جدوجہد کی۔

ہرث ہیں۔) (۹۱کے اطاعت گزار ہی پاکستانی تاریخ کے وا

Page 334: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

333

سان کی ادبی سرگرمیاں قیام پاکستان کے ساتھ ہی مولانا ظفرعلی خان کی سیاسی زندگی کے ساتھ ء کے وسط میں بیمار ہونے کی وجہ سے ان کی بہت کم تخلیقات منص ہ ش ہود۱۹۴۶بھی ماند پڑ گئی۔

ااگیا تھا ۔ سان کے بیٹے اختر علی خان کی نگرانی میں ااگئی ہیں۔’’زمیندار‘‘بھی ء ک و جب م رزا۱۹۵۲پر محمود نے کوئٹہ کے ای ک اجلاس میں اعلان کی ا کہ اس ی س ال کے ان در ہی بلوچس تان ک و قادی انی ص وبہ

ء میں زور پک ڑا ۔۱۹۵۳بنائے گے تواحمدیوں کے خلاف تحریک تحفظ ختم نب وت ش روع ہ وئی جس نے اائے ۔ حک ومت نے مارش ل لاء لگ ا ک ر ح الات معم ول پ ر لانے کی کوش ش لاکھوں ل وگ س ڑکوں پ ر نک ل

کی۔’’زمیندار‘‘ بھی ان حالات کی نذر ہو گیا۔ ء ک و مولان ا ظف رعلی خ ان پنج اب یونیورس ٹی لاہ ور میں اردو۱۹۴۹ جن وری ۸اخ تر علی خ ان

سانھ وں ای ک مختص ر تقری ر کی اور ک انفرنس میں پیش ک رنے کے ل یے س ہارا دے ک ر لائے تھے جس میں سان کی ڈھل تی ہ وئی ساسے سن کرسارا مجمع اشکبار ہو گیا تھا۔دراص ل یہ تقری ر شورش کاشمیری کے مطابق

عمر پر نوحہ خوانی کے ساتھ نئے ملک ’’پاکستان‘‘کے ارباب اختیار پر بہت بڑی چوٹ تھی:ہت راہ پیمائی نہیں۔ک ام سچکا ہے۔اس کے بعد تمنا راہ پیمائی تو ہے مگر قو ’’ہمارا قافلہ منزل مقصود پر پہنچ سچکے ہیں۔دل میں ج ذبات ت و ہیں لیکن ان کے ل یے عم ل و کرنے کو جی چاہتا ہے مگر ہ اتھ ج واب دے ہق رفتاری کا تماشا دیکھنے کے قابل رہ حقیقت کا جامہ نہیں ملتا۔اب راستہ میں بیٹھ کر چلنے والوں کی بر گئے ہیں۔تماشا بھی ان لوگوں کا دیکھتے ہیں جو ہمیں عہد ماضی کی یادگار سمجھ کر تماشا س مجھتےااپ ک و تماش ائی۔اس میں ش ک نہیں کہ ب وڑھے عص ر حاض ر کے معم ار ہیں لیکن جس ط رح ہیں اور اپ نے عمارت مکمل ہو جانے کے بعد معمار کونکال دی ا جات ا ہے اس ی ط رح اگ ر عص ر حاض ر پک ارنے لگیں کہ تمھاری کوئی ضروت نہیں تو ہم ک وئی ج واب نہیں دے س کتے۔دنی ا چڑھ تے س ورج کی پرس تش ک رتی ہےاافتاب کو کون پوچھتا ہے اور ہم ڈوبتے ہوئے ستاروں کی مانند دنیا پر نظ ر ڈال رہے ہیں پ ر س ورج ڈوبتے ہوئے کے مقابلے میں ہمیں کب جگہ ملے گی۔بایں ہمہ کبھی ہم بھی رزم گ اہ ہس تی میں مص روف تھے ۔ہم نے بھی اس خاموش دنی ا میں ہنگ امے کی روح پھ ونکی تھی۔عہ د حاض ر کے نقش و نگ ار میں کچھ ہم ارےقلم کا بھی حصہ ہے ،اسی گلستان کے چند پھولوں نے ہمارے خ ون س ے بھی س رخی حاص ل کی ہ وگی۔اارائی میں ہمارا جنون بھی کارفرما رہا ہے۔اس لیے اگر ہم کچھ کہیں،تو عزی ز ان ملت اس صحرا کی ہنگامہ

Page 335: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

334

سالجھا ہوا نغمہ خیال نہ کریں اور پھ ر یہ کہہ ک ر ک انوں پرانے زمانے کی راگنی نہ سمجھیں ،ٹوٹے ہوئے ساز کا میں انگلیاں نہ ٹھونس لیں کہ:

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو(۹۲جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں۔‘‘)

اسلام زندباد کے نعرے لگانے والا جب اس دنی ا س ے رخص ت ہ وئے تونہ ایت ہی بے ی ارو م ددگارسان کی سان کے جنازے کو کندھا لگانا بھی گوارا نہ کیا۔اشرف عطا کے مط ابق تھے۔ملت کے پرستاروں نے اانکھ نمن اک نہیں ہ وئی،نہ ک وئی جلس ہ ہ وا نہ ک وئی ہڑت ال اور نہ موت پر ک وئی ہنگ امہ نہیں ہ وا۔کس ی کی ساسے لحد میں اادمی تھے اور جب ساٹھایا گیا تو گنتی کے چند سان کا جنازہ سرکاری جھنڈا سرنگو ںہوا،جب

ساس کے عزی زوں کے س وا ک وئی دوس را نہ تھ ا۔) جس ظف رعلی خ ان کے جل وس ک و پنج ابی(۹۳ساتارا گیا تو سان ک ا جن ازہ ای ک بی ٹے،دو پوت وں تین بھ ائیوں اور ااج ااگے کھینچا تھ ا روسا کے بچوں نے اپنے بازوئوں سے

ساٹھا۔) (۹۴چار ملازمین کے کاندھوں پر ء ت ک زن دہ رہے ۔یقین ا یہ دور۱۹۵۶ نوم بر ۲۷مولان ا ظف رعلی خ ان اگ ر چہ تقس یم کے بعد

ہی مضمحل ہو گئے تھے ،بیم اری کی پاکستانی سیاست میں نہایت اہمیت کا حامل ہے لیکن مولانا کے قوسچکی تھی۔اس لیے تقسیم کے بعدپاکستان کی اہم ترین سیاس ی سان کی تخلیقی قوت جواب دے وجہ سے سان پ ر ق رض ہے ۔ یقین کے اور سماجی دور پر وہ کسی قسم کی تنقید نہ کر سکے۔یہ نومول ود پاکس تان ک ا ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر مولانا اس دور میں صحت سے ہوتے تو نئے ملک میں نو استعماری پالیس یوں کے خلاف اپنے جذبات و احساسات اور افکار ک و قلم کے ح والے ک ر دی تے اور وہ قلمی جہ اد ج و ش عورسچکے تھے اس ک و ختمیت س ے ہم کن ار ک رنے میں کامی اب کی دہل یز پ ر ق دم رکھ نے کے بع د ش روع ک ر ہر مطلق کو ان کے ذہن اور قلم سے مزی د ک ام لین ا مقص ود نہ تھ ا۔اس ل یے فرش تہ نی قسمت کہ قاد رہتے۔شوم

اجل کو ان کی روح قبض کرنے کے لیے بھیجا۔

)د(

Page 336: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

335

استعماری فتنہ ’’قادیانیت‘‘ کے خلاف مولانا ظفرعلی خان کی شاعری میں مزاحمتی رویےوہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرارد اس کے بدن سے نکال دو روح محم

اازادی کے بع د انگری ز مکم ل ط ور پ ر ہندوس تان پ ر ق ابض ہ و گ ئے ۔انتق امی۱۸۵۷ ء کی جن گ کاروائی کی شکل میں مسلمانوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایاگی ا۔ہن دوئوںبھی جن گ میں براب ر کے ش ریک@@احک ومت کے س اتھ س از ب از ک ر لی ۔ انگری ز اقت دارکی وجہ سانھوں نے ناکامی کو بھانپتے ہوئے فور تھے لیکن سان کے م ذہب ک و سان کی تشخص کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا ۔اقت دار میں وہ تھے ہی نہیں،نہ سے کوئی خطرہ تھا نہ تہذیب و تمدن کا کوئی خوف، بلکہ عیس ائیت کے مق ابلے میں ت و اس لام ہن دومت کےاازادی اور غلامی ک ا نی ا تص ور اور اس تعماری حک ومت کی انس انیت لیے زیادہ خطرناک ثابت ہ و س کتا تھ ا۔ااک ر پھرہندومس لم دون وں برط انوی اس تعمار کے خلاف سوز پالیسیاں تو بعد میں ظ اہر ہ وئیں، جن س ے تن گ

اائے۔ ساتر میدان عمل میں سان س ے اقت دار ہندوئوں کے مقابلے میں مسلمانوں کا مسئلہ بالکل مختلف نوعیت کا تھا۔انگری ز نے سان کی عبادت سان کی تہذیب و تمدن خطرے میں پڑ گئی۔ سان کے مذہب کو خطرہ لاحق ہو گیا، چھین لی۔ہہذا وہ کسی بھی صورت میں سان کو بند کرکے مار دیا گیا ۔ل نسور کی کھال میں گاہوں کی توہین کی گئی، انگریز کی غلامی کے لیے تی ار نہ تھے ۔مجب وری کے ع الم میں ط وق غلامی پہن نے ک و تی ار توہوگ ئے لیکن غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے مناسب موقع کی تلاش بھی براب ر ج اری رکھی۔دوس ری ط رف اس تعماری حکومت اپنی استحکام کے لیے منصوبہ بندی ک رنے لگی۔کی وں کہ انگری ز س مجھتے تھے کہ ج بر و تش ددسان مس لمانوں اس مسئلے کا دائمی حل نہیں ہے اور نہ اس طریقے سے محکوم وں ک و رام کی ا جاس کتا ہے۔ میں وہ طاقت تو باقی نہیں رہی جس کے ذریعے وہ دوبارہ انگری ز حک ومت کے خلاف بغ اوت ک ر ج اتے ی اسان کے پاس ایک ایساہتھیار ضرور موجود تھ ا استعمار کی غلامی سے جان چھڑاتے لیکن مذہبی حوالے سے جس کے س ہارے پ ر وہ ای ک ب ار پھ ر اکٹھے بھی ہ و س کتے تھے اور انگری ز حک ومت ک ا خ اتمہ بھی ک ر سکتے تھے۔کیوں کہ جب ایک شخص کو اپنی جان کی پرواہ نہ ہ و بلکہ زن دگی پ ر م وت ک و ت رجیح دیت اساس کا مقابلہ مشکل نہیں ناممکن بن جاتا ہے۔ظاہری ب ات ہے کہ اس لام میں جہ اد ای ک ایس ی ہو، تو پھر

Page 337: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

336

عبادت ہے جس میں جان بچانے سے جان قربان کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔جنگ جیت کرغازی کااعزازملت ااان کریم میں ارشاد ہے: ہے،جبکہ جان دینے کا اعزاز شہادت ہے اور شہیدوں کے بارے میں تو قر

ترجمہ:ہی کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو،وہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے۔‘‘) (۹۵’’اور اللہ تعال

ترجمہ: ’’جو لوگ ایمان لائے،ہج رت کی،اللہ کی راہ میں اپ نے م ال اور اپ نی ج ان س ے جہ اد کی ا وہ اللہ کے ہ اں

(۹۶بہت بڑے مرتبہ والے ہیں۔اور یہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔‘‘)اازادی میں ناکامی کے بعد تو ایک عرصے تک مذہبی رہنمائوں نے گوشہ نشینی اختی ار کی۔ جنگ سانھوں نے کون وں کھ دروں میں پن اہ لے ک ر چ وری چھ پے م ذہب کی زیادہ تر علماء شہید ہوگئے جو بچ گ ئے درس وتدریس کا کام شروع کیا۔دیوبند جیسے دینی مراکز قائم کیے گئے جہاں اللہ کی وحدانیت کی پرچاراابادی اتی سانہیں زی ادہ دی ر خ اموش نہیں رہ نے دی ا۔دھ یرے دھ یرے ن و کرتے رہے۔ت اہم م ذہب اور عقی دے نے نظام،عیسائیت اور مغربی تہذیب کی مخالفت میںمذہبی پیشوائوں نے مذہبی قوت فراہم ک رنے کی ت گ و دو شروع کی جو استعماری حکومت کی دی ر پااقت دار کے ل یے نی ک ش گون نہیں تص ور کی ا جات ا تھ ا۔مق ابلےساس زم انے میںانگریزوں نے مذہبی بالادستی اور تہذیبی اج ارہ داری ق ائم ک رنے کی منص وبہ بن دی ش روع کی۔ میں انگریزوں کے خوف کی ایک بنیادی وجہ س وڈان ک ا واقعہ تھ ا ۔س وڈان میں دریائے نی ل کے کن ارے س ے

ء میں بغاوت کا علم بلند کیا ۔ خدا کی۱۸۸۲ایک مرد مجاہد)مصری سوڈانی ( نے مصریوں کے خلاف سان کے س اتھ ہوگ ئے جنھوں نے وحدانیت کا پرچار کرتے ہوئے جہاد فی سبیل ا للہ کا نعرہ لگایا۔ ہ زاروں ل وگ

تین سال کے اندر سوڈان میں انگریزی فوجوں کو شکست دی اور خرطوم پر قابض ہوگئے۔ء سے عیسائی مشنریوں اور پ ادریوں نے عیس ائیت کی پرچ ار ش روع کی تھی۔۱۸۱۳ہندوستان میں

ااغ از کی ا گیاتھ ا لیکن ء کے بع د اس پالیس ی ک و ن ئے۱۸۵۷یہاں پر مشنری سکول اور کالج کھولنے ک ا سرے سے مرتب کیا گیا ۔پادریوں نے عیسائیت کی پرچار ت یز ک ردی۔ یہ اں کے لوگ وں س ے من اظرے ش روع کیے اورمقامی لوگوں کو عیسائی بنانے کی کوشش شروع کی گئی۔ تاہم یہ مشن دیوبند اور دوس رے م دارس

سے تعلق رکھنے والے علماء کی کوششوں سے ناکام ہوا۔

Page 338: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

337

برطانوی حکومت نے ہندوستان پر دیر پا حک ومت ق ائم ک رنے کی منص وبہ بن دی میںمختل ف پیش وںااغ از کی ا۔ ت اکہ یہ اں کی ع وام کے دل وں پ ر راج سے تعلق رکھنے والے اف راد کے وف ود یہ اں بھیج دی نے ک ا

ء کی ای ک رپ ورٹ ک ا۱۸۶۹کرنے کے لیے ک وئی معق ول ط ریقہ تلاش کی ج ائے۔محم د م تین خال د نے ح والہ دی ا ہے جس کے مط ابق ب رٹش پ ارلیمنٹ کے ارک ان،اخب ارات کے ای ڈیٹرز اور چ رچ کے نمائن دوں پ ر

مشتمل ایک وفد نے ہندوستان کا سفر کیا اور اپنی رپورٹ پیش کی:ترجمہ:

’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے پیروں اور روحانی رہنمائوں کی اندھی تقلید ک رتی ہے۔اگ ر اس موق ع پر ہمیں کوئی ایسا شخص مل جائے ،جو ظلی نبوت )حواری نبی(کا اعلان کرکے ،اپنے پیروکاروں کو اکٹھا کرے لیکن اس مقصد کے لیے اس کو عوام کی مخالفت کا سامنا کرناپڑے گا ،اس ش خص ک و حک ومت

(۹۷کی سرپرستی میںپروان چڑھا کر برطانوی حکومت کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔‘‘) حکومت برط انیہ ک و ہندوس تان س ے اقتص ادی مف ادات وابس تہ تھے جس کے حص ول کے ل یے اور استعماری پالیسی کے تحت مذہبی ،لسانی اور نسلی برتری کے ساتھ ثقافتی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے یہ اں پ ر طوی ل عرص ے کے ل یے حک ومت درک ار تھی لیکن مس لمان کی م ذہبی جن ونیت،پیغم بر برح ق کےسان کے راس تے کی رک اوٹیں بن س کتی تھی جس س ے نمٹ نے احکامات ،دعوت حق اور جہاد فی سبیل اللہ سان کے ل یے خ دمات س ر االہ ک اربن ک ر سان ک ا سانھیں ای ک ایس ے ش خص کی ض روت تھی ج و کہ کے لیے انجام دیں۔ چنانچہ شورش کاشمیری کے مطابق ڈپٹی کمشنرسیالکوٹ نے باقاعدہ چ ار اش خاص ک و ان ٹرویو

(۹۸کے لیے طلب کیا جن میں مرزا غلام احمد قادیانی عہدہ نبوت کے لیے نامزد کیے گئے۔) اس کام کے لیے مرزاغلام احمد کا انتخاب کیوں کیا گیا اس پربحث ک رنے س ے پہلے ض روری ہےسان کا تھوڑا ساتعارف کیا جائے ۔مرزاء غلام احمد صوبہ مشرقی پنجاب)موجودہ بھارت(کے ضلع گورداس کہ ااغ از سانھوں نے فتنہ قادی انیت ک ا سان کا تعل ق قادی ان س ے تھ ا اور پور کے قصبہ قادیان میں پیدا ہوئے ۔چوں کہ ساس جگہ سے کیا اس علاقائی نسبت کی وجہ سے اس ف رقے ک ا ن ام قادی انیت پ ڑ گی ا۔م رزا غلام احم دخود

اپنے بارے میں لکھتے ہیں:

Page 339: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

338

ہی اور دادا ’’میری سوانح عمری کچھ اس طرح ہے کہ میرا نام غلام احمد ،وال د ص احب ک ا ن ام غلام مرتض کا نام عطاء محمد اور میرے پردادا کا نام گل محمد تھا۔۔۔ ہماری قوم مغل برلاس ہے اور میرے بزرگوں کےاائے پ رانے کاغ ذات س ے ج و اب ت ک محف وظ ہیں س ے معل وم ہوت ا ہے کہ وہ اس مل ک میں س مرقند س ے

ااخری وقت میں ہوئی ۔‘‘)۱۸۴۰ء یا ۱۸۳۹تھے۔۔۔میری پیدائش (۹۹ء میں سکھوں کے ق ول و فع ل میں مت واتر تب دیلیوں کے س اتھ م رزا غلام احم د کی ت اریخ پی دائش اور نس ل میں بھیسان کی ابتدائی تحریروں میں درج کردہ معلومات ہیں۔مرزاء صاحب کے والد مسلسل تبدیلیاںہوتی رہیں تاہم یہ سانھوں ہی خود پڑھے لکھے تھے اس لیے اور دادا دونوں انگریز سرکار سے وابستہ تھے ۔مرزا کے والد غلام مرتضسان کو پڑھ انے کے ل یے اس اتذہ مق رر ک یے۔م رزا غلام احم د نے ابتدائی کتابیں خود اپنے بیٹے کو پڑھائی پھر ال ک رلی۔ پ انچ زب انوں ااگ اہی حاص نے قلی ل عرص ے میں اپنے زم انے کے م روجہ عل وم س ے عربی،فارسی،اردو،انگری زی اور پنج ابی س ے واقفیت حاص ل ک رلی۔کچھ عرص ہ س یالکوٹ کی کچہ ری میںہی دے ک ر قادی ان واپس چلے گ ئے ۔ارش د س راج ال دین کے مط ابق منشی مقرر ہوئے لیکن بہت جلد اس تعف

ء ت ک ڈپ ٹی کمش نر کے اہلم د رہے۔)۱۸۶۸ء س ے ۱۸۶۴م رزا غلام احم د س یالکوٹ کچہ ری میں ۱۰۰)

سان کو ای ک خ اص مقص د کے ل یے انگری ز حک ومت نے ملازم رکھ ا۔جن گ سیالکوٹ کچہری میں اازادی کے دوران ہندوستانی علماء نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا تھ اجس کی وجہ س ے یہ اں جمعہ کیاای ا ت و درمی انی راہ اختی ار کی گ ئی اور نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔جن گ کے بع د جب یہ مس ئلہ زی ر بحث جمعہ و ظہر دونوں نمازیں پڑھنی شروع ہوئیں۔تاہم بعض مفتیان اور علماء ہندوس تان ک و دارالام ان م اننے ک و تیار نہ تھے جو انگریز کے خلاف فتوے جاری کرتے ہوئے ہندوستان کو دارالحراب ق رار دی تے تھے ۔چ وں کہہہذا ع دالت میں ان کے خلاف ت ادیبی ک ارروائی ک رنے کے ل یے یہ فتوے زیادہ تر عربی زبان میں ہ وتے تھے ل ای ک ایس ے ش خص کی ض رورت تھی ج و ع ربی س مجھتے ہ و اور ان فت ووں ک ا انگری زی زب ان میں ت رجمہ کرسکے لہذا اس کام کے لیے مرزا صاحب کا انتخاب کیا۔ن ور محم د قریش ی کے مط ابق ت و م رزا ص احبسان لوگوں کی مخبری کرتے جو جمہ کی نماز نہیں پڑھتے تھے اور ہندوستان ک و دارالح رب ق رار دے باقاعدہ

(۱۰۱کر انگریزوں کو اپنے دشمن ٹھہراتے تھے۔)

Page 340: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

339

عورتوں کے حوالے سے مرزاغلام احم د ب ڑے رنگین م زاج ث ابت ہ وئے،پہلی ش ادی م اموں کی بی ٹی حرمت بی بی س ے کی،چ الیس س ال کی عم ر میں دوس ری ش ادی نص رت جہ اں س ے کی جس کی عم رااخری عمر میں اپنے ایک رشتہ دار کی بیٹی محمدی بیگم پ ر ف ریفتہ ہوگ ئے جس سولہ سال بتائی جاتی ہے۔

کو نکاح میں لانے کے لیے پہلے مالی و سیاسی حربے استعمال کرنے لگے۔پھرااس مان پ ر ہ و چک ا ہے۔ سان کا نک اح مذہب کا سہارا لے کرپیش گوئیاں شروع کیں کہ محمدی بیگم سے کسی اور سے نکاح کرنے کے بعد لڑکی کا باپ مر جائے گا،شوہر م ر ج ائے گ ا لیکن محم دی بیگم کےسان کے اس قسم کی دھمکیاں خاطر میں لائے بغیر لڑکی کی شادی کہیں اور کردی ۔جس پر مرزا والد نے

صاحب سخت ناراض ہوئے۔عشق میں ناکامی کے روگ میں مولانا نے عشقیہ شاعری بھی کی:عشق کا روگ ہے کیا پوچھتے ہو اس کی دوا

ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہےکچھ مزا پایا میرے دل! ابھی کچھ پائو گےتم بھی کہتے تھے کہ الفت میں مزا ہوتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہائے کیوں ہجر کے عالم میں پڑےمفت بیٹھے بٹھائے غم میں پڑے

اس کے جانے سے صبر دل سے گیاہوش بھی ورطئہ عدم میں پڑے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سالفت نہیں منظور تھی گر تم کو تو یہ مجھ کو بھی جتلایا تو ہوتا

مری دلسوزیوں سے بے خبر ہومرا کچھ بھید بھی پایا تو ہوتا

دل اپنا اس کو دوں یا ہوش یا جان

Page 341: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

340

کوئی اک حکم فرمایا تو ہوتا(۱۰۲)

مرزا غلام احمد کی عشقیہ شاعری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اگر وہ قادی انیت ک و چھ وڑ ک ر ش اعریااج اردو زب ان کے ب ڑے ش اعروں میں ش مار ہ وتے۔محم دی بیگم س ے عش ق نے م رزا پر قناعت کر جاتے ت و ااپ ک و مس یح موع ود ہی اور اپ نے غلام احمد قادیانی کو بہت بدنام کیا ۔کیوں کہ ایک طرف نبوت کا دع وااچکی تھی ساس حص ے میں عش ق لڑان ا کہ عناص ر میں بے اعت دالی کہن ا جب کہ دوس ری ط رف عم ر کے نہایت تمسخر خیز حرکتیں تھیں۔ لڑکی کی کسی اور سے شادی کو موض وع بن اکر مولان اظفرعلی خ ان نے

ساڑایا ہے: سان کا مذاق بھی ایک شعر میں

خدا نے عقد خود باندھا تھا جس کا اپنے باوا سےااسمانی کو اڑا کر لے گئے غیر اس عروس

(۱۰۳) س یالکوٹ میں کچہ ری کی ملازمت چھ وڑ ک ر م رزا غلام احم د ’’قادی ان‘‘چلے گ ئے اور تحری ر وااغاز ’’براہین احم دیہ ‘‘س ے ہوت ا ہے ج و پ انچ سان کی علمی زندگی کا باقاعدہ تخلیق کی طرف متوجہ ہوئے۔

جلدوں پر مشتمل ہے۔اس حوالے سے ارشد سراج نے لکھا ہے: ااغ از ء میں ہ وا جب انھ وں نے اپ نی پہلی تص نیف ’’ب راہین۱۸۸۰’’م رزا ص احب کی علمی زن دگی ک ا

ء س ے ش روع ہ وتی ہے۔م رزا ص احب۱۸۷۹احمدیہ ‘‘ کی جلد اول شائع کی۔براہین احمدیہ کی تص نیف ااریہ سماج اور برہم و س ماج کی تردی د اور اس لام کی نے اعلان کیا کہ وہ بیک وقت عیسائیت،سناتن دھرم ،

دلائل پیش کریں گے۔اس کتاب کی اشاعت کے لیے م رزا ص احب نے مس لمانوں س ے۳۰۰صداقت میں مالی مدد کی اپیل کی ۔انھوں نے کہا کہ یہ کتاب بڑی ج امع ہ وگی اور پچ اس حص وں پ ر مش تمل ہ وگی ۔

سال۲۵لیکن چوتھے ہی حصے پر کتاب کا سلسلہ رک گیا ،پانچواں حصہ کتاب شروع کرنے کے پورے

Page 342: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

341

ء میں ش ائع ہ وا۔اس دوران بہت س ے ل وگ ج و پ وری کت اب کی قیمت داخ ل ک را چکے تھے۱۹۰۵بع د سچکے تھے۔ (۱۰۴‘‘) فوت ہو

سان کے وال د۱۸۵۷انگریز سرکار کے ساتھ مرزا کے خاندانی روابط تھے ۔ اازادی میں ء کی جن گ ہی ہی نے مغل ہوتے ہوئے مغلوں سے غداری کی اور انگریز کا ساتھ دیا۔م یرے وال د م رزا غلام مرتض غلام مرتض دربار گ ورنری میں کرس ی نش ین بھی تھے اور س رکار انگری ز کے ایس ے خ یر خ واہ اور دل کے بہ ادر تھے کہ

ء میں پچاس جوان جنگجو بہم پہنچاکر اپ نی حی ثیت س ے زی ادہ گ ورنمنٹ ع الیہ کی م دد۱۸۵۷مفسدہ (۱۰۵کی تھی۔)

ء میں م رزا کی عمرس ولہ س ترہ ب رس تھی ۔وال د ت و تھے ہی انگری ز کے بہی خ واہ جب کہ۱۸۵۷ہر حاض ر ک ا ہی کے مماث ل اور عص ااپ ک و حض رت عیس بی ٹے نے انتہ ا ک ردی۔ انگری زوں کی س ازش پراپ نے مجدد کہنا شروع کیا۔اپنی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور انگریز حکومت کی وفاداری پر دی ا۔ جہ اد کی ممانعت اور انگریز سرکار کی وفاداری کے حوالے سے خود لکھا ہے کہ میں سترہ برس سے اس خ دمت میں مشغول ہوں بیسویں کتابیں عربی اورفارسی و اردو کی تالیف کر چکا ہوں کہ اس گ ورنمنٹ کے محس نہ س ے

ج و(۱۰۶ہرگز جہاد درست نہیں بلکہ سچے دل سے اس کی اط ا عت ک ر ن ا ہ ر مس لمان ک ا ف رض ہے۔)سان کے اپ نے محس ن’ حک ومت برط انیہ سان کی ب ات نہیں مانت ا تھ ا، یع نی بق ول بندہ ایسا نہیں کرت ا تھ ااور سان کے نزدی ک ح رامی،زانیہ کی اولاد اورول د الح رام تھ ا ۔ایس ے لوگ وں ک و مخ اطب ‘سے غداری کرتا ت و وہ سان کے محب وب کرنے کے لیے وہ نئی نئی گالیاں ایجاد کرتے تھے۔ مولانا ظف رعلی خ ان نے ای ک ش عر میں

گالیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھا ہے:جو بات بات میں تم کو حرام زادہ کہے

ہر ایسے سفلہء بد اصل و بد زباں سے بچو(۱۰۷)

اسلامیوں کے کان میں ناسور پڑ گئےسن سن کے قادیانیوں کی بد زبانیاں

ان مرزائیوں کی خرافات تا بکے

Page 343: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

342

اسلام کی سنا ہمیں رنگیں کہانیاں(۱۰۸)

کتابوں اور اشتہارات کا ح والہ دی ا ہے جن میں م رزا غلام احم د قادی انی۲۴محمد خالد متین نے نے تنسیخ جہاد کا حکم دے کر گورنمنٹ کی وفاداری کو فرض قرار دی ا ہے ۔م رزا غلام احم د قادی انی نے کے دنی ا س ے چلے ج انے کے بع د چھ س و س ال ت ک یہ ود و ابتدا میںیہ نظ ریہ پیش کی اکہ حض رت عیس یسان کو خد ا کا بیٹا کہنا ش روع کی ا جب کہ یہودی وں ہی خاموش رہے۔ لیکن اس کے بعد عیسائیوں نے نصار ی کی روح نے دنی ا میں واپس ج انے کی نے دش نام طرازی اں ش روع کیں۔جس کی وجہ س ے حض رت عیس ر کی شکل میں نمودار ہوئے۔ ی حضرت محمد ہلہی میںقبول ہوگئی اور حضرت عیس درخواست کی جو بارگاہ اہی پھ ر سان کے چلے جانے کے بعد یہود اور نصار ااگئے لیکن ہی راہ راست پر اانے کے بعد یہودونصار رپ کے اا ہی کی روح نے پھ ر دنی ا میں ج انے کی بے راہ روی کے ش کار ہ و گ ئے جس کی وجہ س ے حض رت عیس سان ک ا ظہ ور ہ وا۔ابت دا درخواست کی جو قبول ہوئی اور مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں ایک ب ار پھ ر ااگے ری کا سایہ کہنا شروع کیا ۔پھر دھ یرے دھ یرے ااپ کو مسیح موعود اور ظلی و بروزی یعنی نب میں اپنے

بڑھتے رہے۔محمد متین خالد نے اپنی کتاب ’’قادیانی راسپوٹینوں کے عبرتناک انجام ‘‘میں لکھا ہے: ’’انگریز کا یہ خود کاشتہ پودا ،یہودیوںکا لے پالک ،ہندوئوں کی داشتہ، طاغوتی قوت وں ک ا ایجنٹ اور اس لاماایا۔پھر مناظر اسلام کا االہ کار )مرزا قادیانی(پہلے پہل ایک عالم دین کے روپ میں سامنے دشمن لابیوں کا اای ا ،پھ ر پن ترا ب دلا اور ظلی روپ دھارا۔بعد ازاں مصلح ،مجدد اور مسیح موعود کی مسند پر حملہ کرتا نظر ہی ک ر ااخ ر ک ار نب وت ک ا دع و و بروزی نبی کی اصطلاحوں سے سادہ لوح مسلمانوں کو دھ وکہ دیت ا رہ ا اور

(۱۰۹دیا۔‘‘)سان کا نظ ریہ نہ ایت عجیب و غ ریب قس م ک ا رہ ا ۔وہ اس ب ات کے ہی کے بارے میں حضرت عیساانے اور ام ام مہ دی س ے م ل ک ر غیرمس لموں ری کے واپس مکمل خلاف تھے کہ احادیث میں حضرت عیس ک ا مارن ا اور خ نزیر ک ا قت ل کرن ا س ب اس تعارے ہیں۔ اس ک ا یہ مطلب ہ ر گ ز نہیں وہ زن دہ ہیں اور واپسرہی یہ ود اس کریوطی کی ش رارت س ے گرفت ار ہ وکر اائیںگے۔عیسائیوں کااعتقاد سراسر باطل ہے کہ حضرت عیسسان ااس مان چلے گ ئے۔بلکہ مس یح زمین کی پیٹ میں س ے نک ل ک ر اپ نی مصلوب ہوئے اور پھر زن دہ ہ و ک ر

Page 344: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

343

ااک ر اس مل ک قوموں کی طرف نکل گیا جو کشمیر اور تبت وغ یرہ میں س کونت رکھ تی تھی۔پھ ر ہندوس تان کے متفرق مقامات پر سکونت اختیار کی۔چوں کہ ضروری تھا کہ وہ اپنے سفر کو جاری رکھتے اس ل یے وہ

مولان ا ظف رعلی خ ان کی نظم ’’قادی انی خراف ات‘‘میں م رزا( ۱۱۰کشمیر چلے گئے اوروہی فوت ہوگ ئے۔) ہی کے بارے میں بنائے گئے من گھڑت قصوں کا ذکر موجود ہے: غلام احمد کی حضرت عیس

ااسماں پر یوسف نجار کا بیٹا کہاںکیا دھرا اس نیلے نیلے گنبد بے در میں ہے

اابسا تھا بھاگ کر کنعاں سے وہ کشمیر میںااخری اس کا ٹھکانا بھی اسی کشور میں ہے

ہہی مریم کی اس توہین کا سودائے خام عیسایک مدت سے سمایا قادیاں کے سر میں ہے

(۱۱۱)

قادیانیت دراصل کوئی مذہب نہیں بلکہ یہ ایک سیاسی تنظیم ہے جو استعماری حکومت کے لیے کام کر رتی ہی ۔اس کا بنیادی مقصد چوں کہ مسلمانوں کے دلوں سے انگریز نفرت دور کرن ا اور جہ اد ک ا

ء کی شکل میں حکومت کو کل کسی نئے ہنگامے کا سامنا نہ کرناپڑے:۱۸۵۷جذبہ مٹانا تھا تا کہ اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستوں خیالدین کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال

ہر خدا کا نزول ہے ااسماں سے نو اب ہی فضول ہے اب جنگ اور جہاد کا فتو

(۱۱۲) اس مقصد کے لیے اس فرقے نے بے دریغ اشتہاربازی کی،کتابیں لکھی، چ وں کہ پیس ہ کی ک وئی قلت نہیں تھی حکومت کے لیے کام کرنے والوں کو کس ی قس م کی م الی مش کلات ک ا مس ئلہ نہیں ہوت ا

Page 345: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

344

تھ ا۔اس فت نے کی پہلی اینٹ رکھ نے والے نب وت کے دعوی دار نے جہ اد کی تنس یخ اور یہ ود و نص اری کیہی کرتے ہیں : اطاعت گزاری پر تمام تعلیمات پر ترجیح دی۔اس حوالے سے خود دعو

’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید و حمایت میں گزرا اور میں نے ممانعت جہ اد اور انگریز اط اعت کے ب ارے میں اس ق در کت ابیں لکھی ہیں اور اش تہارات ش ائع کی ہیں کہ اگ ر وہ رس ائل اور کتابیں اکٹھی کی ج ائیں ت و پچ اس الماری اں ان س ے بھ ر س کتی ہیں۔میں نے ایس ی کت ابوں ک و تم ام ممال ک عرب،مصر،شام،کاب ل اور روم ت ک پہنچ ا دی ا ہے۔م یری ہمیش ہ یہ کوش ش رہی ہے کہ مس لمان اس س لطنت کے سچے خیر خواہ ہو جائیں مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دی نے

(۱۱۳مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ،ان کے دلوں سے معدوم کر دئیے جائیں۔‘‘) ء میں مرزا غلام احمد سے نجات ملنے کے بعد حکیم نور ال دین قادی انیوں ک ا پہلا خلیفہ۱۹۰۸

بن گئے۔حکیم نورالدین کفرانہ عقائد اور استعماری وفاداری میں مرزا غلام احم د قادی انی س ے بھی زی ادہ ت یزسان کا تعلق سرگودھا سے تھا دی نی عل وم کے س اتھ طب پ ر بھی دس ترس حاص ل تھی ۔کچھ عرص ے نکلے۔

ء میں مہاراجہ کش میر کے ش اہی ط بیب مق رر ہ وئے۔حکیم نورال دین۱۸۷۶سکول میںمعلم رہے لیکن پھر سان ک و کش میر کے بھی انگریز حکومت کے ساتھ خاص قسم کے مراسم تھے۔تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ

ء۱۸۸۱کے مہاراجا ’’رنبیر سنگھ‘‘کے دربار میں انگری زوں نے اپ نی مخ بری کے ل یے تعین ات کی ا تھ اجو تک وہاں کام کرتے رہے اس کے بعد اپنے ساتھی مرازا غلام احمد قادیانی کے پاس’’ قادیان‘‘ چلے گئے۔

مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح حکیم نورالدین بھی بڑے رنگین مزاج قس م کے انس ان تھے ۔تین شادیاں کی تھیں ۔ بعض روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد کی دوسری بی وی نص رت جہ اں کے

سان۱۹۰۸ساتھ ناجائز تعلقات بھی رکھتے تھے۔ ء میں مرزاکی وفات کے بع د قادی انی گ دی نش ین بن ک ر ء ت ک انگری زوں کے ل یے اس لام اور مس لمان کے خلاف ل ڑتے رہے۔۱۹۱۴کے پہلا خلیفہ بن گ ئے اور

اائین کے مط ابق محم د علی حکیم نورالدین کی وفات کے بعد قادیانی فرقہ دو حصوں میں بٹ گیا۔قادیانی سان کے خلاف لاہوری کو دوس را خلیفہ بنن ا تھ ا لیکن م رزا ک ا بیٹ ا م رزا بش یرالدین محم ود اپ نے حواری وں ک و کرنے میں کامیاب ہوا اورباپ کی گدی پر بیٹھ کر دوسرا خلیفہ بن گیا۔محمدعلی لاہ وری نے ن اراض ہ و ک ر ’’انجمن اشاعت اسلام ‘‘ کے نام سے الگ گروہ بنای ا۔دون وں فرق وں میں نظری اتی اختلاف پی دا ہ وا ۔لاہ وری

Page 346: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

345

فرقے نے مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی ماننے سے انک ار کی ا اور ب اقی مس لمانوں س ے تعل ق ق ائم ک رنے کیااپ کو بالکل الگ ک رکے ااپ کو غیر احمدیوں سے اپنے کوشش شروع کی۔جب کہ اصل قادیانی فرقہ اپنے سان سان کے ل یے دع ائے مغف رت ج ائز س مجھتے تھے۔ سان کا جنازہ پڑھ تے تھے نہ سان کو کافر ٹھہراتے تھے۔نہ اازاد نے اپنے ایک خط میںاس سوال کے جواب کے ساتھ قطع تعلق کرکے شادیاں نہیں کرتے تھے۔ابوالکلام

میں کہ دونوں گروہوں کے درمیان حق پر کون ہے؟ لکھا ہے:’’میرے نزدیک دونوں حق و صواب پر نہیںہیں۔البتہ قادیانی گروہ اپ نے غ ار میں بہت دور ت ک چلا گی ا ہے۔سان ک ا یہ اعتق اد کہ اب ایم ان و نج ات کے ل یے @@ا ہی کہ اسلام کے بنیادی عقائد متزلزل ہ و گ ئے ہیں۔مثل حت اسلام کے معلوم و مسلم عقائد کافی نہیں مرزا صاحب قادیانی پر ایمان لانا ضروری ہے۔لیکن لاہ وری گ روہ کو اس غلو سے انکار ہے اور اور نہ مرزا صاحب کی نبوت کا اقرار کرتا ہے نہ ایم ان کی ش رائط س ے کس ی نئی شرط کا اضافہ کرتا ہے۔اس ے ج و کچھ ٹھ وکر لگی ہے ۔اس بے مح ل اعتق اد میں لگی ہے ج و اس نے

(۱۱۴مرزا صاحب کے لیے پیدا کر لیا ہے۔‘‘)اازاد نے اپنے خ ط میں لاہ وری گ روہ ک و قادی انی گ روہ کے نس بت بہ تر ق رار دی ا ہے لیکن ابوالکلام دونوں اپنی کفریہ نظریات میں ہم پلہ تھے۔ارشد سراج الدین کے مطابق ان کا جھگڑا اور اختلاف ات م رزا کے عقائد اور تعلیمات پر نہیں ہوا بلکہ اختیارات پر ہوا ورنہ پہلے خلیفہ حکیم نورالدین تک دون وں گ روہ م رزا ک و ن بی بھی م انتے رہے اور مس یح موع ود،مہ دی اور مج دد بھی۔محم د علی لاہ ور ی عرص ہ دراز ت ک مش ہورااف ریلج نز‘‘میں قادی انیت ک ا پرچ ار ک رتے رہے لیکن جب اختی ار نہیں دی ئے گ ئے ت و قادیانی رسالے’’ریویو

(۱۱۵خلاف ہوگئے۔)اام د قادیانی فرقہ طویل عرصے تک کمزور عقیدے والے مسلمانوں کو گمراہ کرتا رہا۔س ب س ے ک ار حربہ مرزا غلام احمد کے جھوٹے کشف،الہامات اور بارش کی ط رح ن ازل ہ ونے والی وحی ث ابت ہ وئی جس کا حوالہ دے کر مرزاعجیب و غریب قس م کی پیش گوئی اں ک رتے تھے اور کم زور عقی دے وال وں ک و ڈراتے

ء میں ط اعون بیم اری کے ح والے س ے پیش گ وئی کی اور اش تہارات ش ائع ک یے۱۸۹۸دھمک اتے تھے۔ بدقسمتی سے کچھ عرصے بعد طاعون کی وبا پھیل گئی مرزا نے غیر احمدیوں س ے اپی ل کی،کہ ج و ل وگہہذا بہت س ے ض عیف الاعتق اد لوگ وں نے بیعت قادیانیت قب ول ک ریںگے وہ ط اعون س ے محف وظ ہ وں گے۔ ل

Page 347: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

346

ساسے عقیدہ کا کچا شمار کرنے کرنے کے خطوط بھیج دئیے ۔پھر اگر کسی قادیانی کو مرض لاحق ہوتا تو لگے۔ ایک مرتبہ ایک خ وف ن اک زل زلے کی پیش گ وئی کی اور لوگ وں ک و جل دی جل دی بیعت ک رنے ک ا

ہر روس ک ا۱۹۱۷حکم دیا تاہم وہ پیش گوئی بھی ص حیح ث ابت نہیں ہ وئی اور جب ء کے انقلاب میں زاہاسے مرزا کی زلزلے والی پیش گوئی سے منسوب کی ا۔مولان ا ظف رعلی خ ان سالٹ کیا گیا تو قادیانیوں نے تختہ

ساڑاتے ہوئے لکھا ہے:۱۹۱۷ اکتوبر ۱۶نے ء کو نظم ’’خدائے قادیاں اور زارروس‘‘میں اس کا مذاق قادیاں کے ایک الہامی قصیدے میں کبھی

ہم زار بندھ گیا تھا قافیہ کی بندشوں میں نازار کی لفظی رعایت نے سجھایا تھا یہ قولہل زار زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی با حا

اس گھڑی کا تھا یہ مطلب خود بقول میرزااور اس مطلب کی ہے تفسیر ان کا اشتہار

اائے گا اک زلزلہ کانپے گی جس سے کائناتجس کے ہچکولوں سے گھر گھر میں پڑے گا خلفشار

اانے کی یہ بھی شرط تھی لیکن اس بھونچال کے ہم انتظار سرمہ کش اس کی ہو خود ملہم کی چش

اس کے جیتے جی تو یہ بجلی نہ گردوں سے گریاادمی کا خرمن صبر و قرار پھونکتی جو ہگ فرنگ @@ا چھڑ گئی جن بعد مردن اتفاق

ہش لیل و نہار رنگ لائی مدتوں میں گردزار سے چھنوا دیا قسمت نے اس کا تخت و تاج

کیوں کہ قسمت کا نہیں دنیا میں کچھ بھی اعتبارڈھلتی پھرتی چھائوں ہے دولت کسی کی ہے یہ کب

صبح کو وہ ہیں گدا جو شام تک تھے تاجدار

Page 348: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

347

لیکن ان باتوں سے مطلب قادیاں والوں کو کیاہن دانش تار تار جن کی منطق نے کیا داما

موسیو محمود کہتے ہیں کہ زار روس پرااکے مار ان کے ابا کے قصیدے کی پڑی ہے

کوئی ان حضرت سے پوچھے ہے گر ایسا ہی تو کیوںااپ ولیم کو نہیں دیتے ہیں گدی سے اتار

ااپ نے پہلے ہی دے دی تھی خبر زار کی تو بلجیم کا قادیاں نے کیوں نہ بانٹا اشتہار

(۱۱۶)ساس کے ل یے ای ک اور مرزا غلام احمد قادیانی کی اکثر پیش گوئی اں غل ط ث ابت ہ وتی رہیں اور پھ ر تاویل پیش کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔عیس ائیت کی پرچ ار میں جب من اظروں ک ا ب ازار گ رم تھ ا م رزاااتھم(سے مناظرہ کرن ا پ ڑا جس کی خ وب تش ہیر کی گ ئی۔م رزا احمد قادیانی کو بھی ایک عیسائی پادری )ساس کو ملک کے کونے کونے ت ک پہنچ انے کے ل یے اش تہارات کی بھرم ار ش روع جو بھی بات کرتے تھے

سان کے اشتہار بازی کو نوٹ کیا ہے: کر دیتے تھے ۔مولانا ظفرعلی خان نے بھی سان کا رل کی توہین مشغلہ کبھی رسو

کبھی خدا کے خلاف اشتہار دیتے ہیں(۱۱۷)

ااتھم کے س اتھ من اظرے میں دن وں کی طوی ل بحث و مب احثے کے بع د۱۵عیسائی پادری عبداللہ ااتھم کی ہلاکت کی پیش گوئی کردی۔مرزا ص احب نے اس مرزا کو شکست ہوئی ۔ جس کے بعد عبد اللہ ااتھم ‘‘ بھی لکھ دی۔نور محم د قریش ی کے مط ابق جب م رزا پ ادری موضوع پر باقائدہ ایک کتاب ’’انجام ااتھم ای ک م اہ پن درہ دن کے ک و من اظرے میں شکس ت نہ دے س کے ت و پیش گ وئی ک ر دی کہ عب داللہ ساس کے عیسائی مری دوں اائی اور ساسے موت نہیں حساب سے پندرہ ماہ میں مر جائے گا جب پندرہ ماہ میں

ساٹھا کر پ ورے گ ائوں میں گھمای ا۔) ساس کو کندھے پر ااتھم(۱۱۸نے خوشی سے چ وں کہ عیس ائی پ ادری

Page 349: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

348

ض عیف العم ر تھے اس ل یے م رزا نے س وچا کہ ب ڈھا معینہ م دت میں م ر ج ائے گ ا لیکن ایس ا نہ ہ وا۔سان ک و دلائ ل کے اخبار’’الحدیث‘‘ کے ایڈیٹر مولوی ثنائواللہ مسلسل مرزا کے خلاف پ رچے نک التے تھے اورہی میں دعا مانگی ج و من و ااکر مرزا غلام احمد نے بارگاہ الہ سان سے تنگ ساتھ جھوٹا ثابت کرجاتے تھے ۔

عن قبول ہوئی: ’’میں ان کے ہاتھوں بہت ستایا گیا ہوں اور صبر کرتا رہا مگر اب میں دیکھتا ہ وں کہ ان کی ب د زب انی ح د سے گزر گئی۔وہ مجھے ان چوروں اور ڈاکوئوں سے بھی بد تر جانتے ہیں جن کا وجود دنیا کے لیے س خت نقصان رس اں ہوت ا ہے۔۔۔دور دور ملک وں ت ک یہ پھیلا دی ا ہے کہ یہ ش خص در حقیقت مفس د اور ٹھ گ اوراادمی ہے ۔۔۔ثن ائواللہ انہیں تہمت وں کے ذریعے س ے دکان دار اور ک ذاب اور مف تری اور نہ ایت درجہ ک ا ب د ااقا اور میرے میرے سلسلے کو نابود کرنا چاہتا ہے ۔اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تو نے میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے ۔اس لیے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر ت یری جناب میں ملتجی ہوںکہ مجھ میں اور ثنا ئواللہ میں سچا فیصلہ فرم ا اور وہ ج و ت یری نگ اہ میں حقیقت میںاافت ساٹھ ا لے ی ا کس ی اور نہ ایت س خت مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنی ا س ے

( ۱۱۹میں جو موت کے برابر ہو،مبتلا کر۔‘‘)سانہیں ہیضے کی بیم اری لگی ج و مرزا کی یہ دعا قبول ہوئی اور حقیقت میںجو مفسد و کذاب تھا

ء کو ہلاک ہوا جب کہ مولوی ثنائواللہ ایک طویل عرصے تک زندہ رہے۔مرزا غلام احمد قادیانی کی۱۹۰۸ تمام تر تعلیم ات،اق وال اور کتابیںتض ادات پ ر مب نی،دلائ ل س ے ع اری اور حقیقت س ے م ائورا ہیں۔م ذہب اور سیاست دونوں حوالوں سے وہ ایک غدار انسان تھے جو استعماری حکومت کا مہرہ ث ابت ہ وئے۔اس ل یے ہ ر صاحب عقل مسلمان نے اس فتنے کی مخالفت کی اور ص احب قلم لوگ وں نے اس کی بھرپ ور م ذمت کی۔مولانا ظف رعلی خ ان نے ان لوگ وں کے خلاف ان کے دوس رے خلیفہ م رزا بش یر ال دین محم ود کے دور

ااب اد میں۱۹۱۷میں سان ک و ک رم ساس وقت لکھنا شروع کیا جب پہلی جنگ عظیم کے سلس لے میں ء میں نظ ر بن د کی ا گی ا تھ ا۔مولان ا نے ای ک نظم ’’م یرا انک ار انبی اء ک ا انک ار‘‘میں ب اپ بی ٹے کے اعتق اد میں

یکسانیت پر بحث کی ہے:

Page 350: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

349

طے کیے ہیں میں نے استدراج کے سب مرحلےچھوڑ کر جسم اب میں جان ارتقا ہو جائوں گا

صبح کاذب نے خلافت دی نبوت سے بدلدوپہر ڈھلتے ہی میں پورا خدا بن جائوں گا

میرے باوا جان تھے تمہید عرض مدعامدعا بن کر میں ان کا بھی چچا ہو جائوں گا

میں نے پیدا حال میں کی شان استقبال کیموسویت کی میں شرح انتہا ہو جائوں گا

(۱۲۰) مذکورہ دور میںانگریز س رکار کی ط رف س ے اخب ار ’’زمین دار‘‘پ ر پابن دی لگ ائی گ ئی تھی اس ل یے مولانا نے سرکار سے ن ئے پ رچے کی اج راء کی درخواس ت کی ج و کہ اس ش رط کے س اتھ منظ ور ہ وئی کہ پرچے میں ہر قسم کی سیاسی مضامین سے اجتناب کیا جائے گا۔مولانا ظفرعلی خان نے اس نئے پرچے کا ااغ از’’س تارہ ص بح‘‘ کے ن ام س ے کی ا اور سیاس ت کی بج ائے م ذہب کی ط رف مت وجہ ہ وئے۔جعلی پ یروں،مری دوں اور ش ریعت و ط ریقت کے س اتھ قادی انیت کی م زاحمت ش روع کی جس کی س زا میں بہت جلد’’ ستارہ‘‘ صبح کو بند کرنا پڑا۔اس کے بعد مولانا ظفرعلی خان نثر و ش اعری میں مسلس ل یع نی م رتےسان کی زی ادہ ت ر ش اعری اور ن ثری تخلیق ات دم تک قادیانیت کے خلاف لڑتے رہے۔اگر چہ اس ح والے س ے ااب اد کی نظ ر بن دی ،معاش ی بح ران اورمل ک میں موج ود ع دم اس تحکام کی ن ذر زمیندار کی ض بطی ،ک رم ہن سانھ وں نے قادی انیت کی م زاحمت میں باقاع دہ ال گ مجم وعہ’’ارمغ ا ہوگ ئی۔پھ ر بھی ش اعری میں سان کے تم ام مجموع وں میںقادی انیت کی مخ الفت قادیانیت‘‘کے نام سے ش ائع کی ا جب کہ اس کے علاوہ ت کے مطابق ارمغان قادیانیت میں جو نظمیں ش امل ہیں ،وہ مولان ا کے پ ورے موجود ہے۔چراغ حسن حسر

(۱۲۱کلام کا عشر عشیر بھی نہیں۔)ااڑ محمد متین خال د کے مط ابق مولان ا ظف رعلی خ ان پہلے ش خص تھے جن کے خلاف امن کی

ء کو قادیانیت کی مخالفت پر مقدمہ چلایا گیا۔مقدمہ میں مولانا نے جج ک و یقین۱۹۳۳ مارچ ۴لے کر

Page 351: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

350

دہانی کرادی کہ مسلمانوں کے ہاتھوں مرزائیوں کو کسی قسم کا گزن د نہ پہنچے گ ا،لیکن جہ اں ت ک م رزاساس ک و ای ک ب ار نہیں ہ زار ب ال دج ال کہیں گے۔اس نے غلام احم د قادی انی ک ا تعل ق ہے ،ہم صلى الله عليه وسلمحض ور کی ختم نب وت ک ا ناپ اک پیون د ج وڑ ک ر ن اموس رس الت پ ر کھلم کھلا حملہ کی ا ۔اپ نے عقیدے سے میں ایک منٹ کے کروڑویں حصے کے لیے بھی دست کش ہ ونے ک و تی ار نہیں اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ مرزا غلام احمد قادی ا ی دج ال تھ ا،دج ال تھ ا،دج ال تھ ا۔میں اس سلس لے

ہن محمدی کا پابند ہوں۔‘‘) (۱۲۲صلى الله عليه وسلممیں قانون انگریزی کا نہیں قانو محمد امین کے درجہ کردہ درجہ بالا اقتباس س ے ان دازہ ہوت ا ہے کہ مولان ا ظف رعلی خ ان کس ق درسان قادیانیت کے مخالف تھے۔کٹہرے میں کھڑے ہو کر جج کے سامنے قید یا جرمانے کی پرواہ ک یے بغ یر اائے۔ مولان ا ظف ر علی خ ان نے قادی انیت کے ظلی و ب روزی ن بی کے حیل وں پر لعنت بھیجنے سے ب از نہیں سانھیں اسلام کی صف سے نکال ک ر ہن دوئوں میں ش امل کی ا ہے کی وں کہ دون وں بہانوں پر تنقید کرتے ہوئے

نظریہ تناسخ پر یقین رکھتے ہیں:ہی رد کی مساوات کا دعو ہے جن کو محم

سان کو سنا دوں ہہ جہنم کی وعید مثواہن عربی میں اکملت لکم پڑھ زبا

ظلی و بروزی کی نبوت کو مٹا دوںکچھ فرق بروز اور تناسخ میں نہیں ہے

انکار ہو جن کو انھیں اقرار کرا دوں(۱۲۳)

’’نظم قادیانی نبوت‘‘میں بھی ان کی جھوٹی نبوت ،ظلی و بروزی کے مک رو ف ریب،اس لامی ملتہی کے مقابلے میں جعلی قادیانی خلافت،مسلمانوں کی مخالفت اور غیرمسلموں سے رغبت کے ساتھ نص ار

کی پرستش کی حد تک وفاداریوں کا ذکر کیا گیا ہے:بروزی ہے نبوت قادیاں کی

Page 352: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

351

برازی ہے خلافت قادیاں کیعداوت حق سے، باطل سے محبت

ہے اتنی ہی حقیقت قادیاں کیہیں احمق جس قدر ہندوستاں میںااباد ان سے جنت قادیاں کی ہے

ہی کی پرستش کے سب اسرار نصارسکھاتی ہے شریعت قادیاں کی

اازادی ہو نابود مسلمانوں کی الم نشرح ہے نیت قادیاں کی

(۱۲۴)

ت اریخی تن اظر میں دیکھ ا ج ائے ت و ث ابت ہوت ا ہے کہ قادی انیت ای ک سیاس ی تحری ک تھی ج و استعماری مقاصد کے لیے ش روع کی گ ئی اور اس ے م ذہبی رن گ دے ک ر پیش کی ا گی ا۔جس دور میں اس

ااغ از ہ وا وہ دور سیاس ی ح والے س ے برط انوی حک ومت کے ل یے نہ ایت اہم تھ ا۔ ء کی۱۸۵۷تحریک ک ا سچکی تھی اور انتقام کی شکل میں ایک نئے ہنگامے کا قوی امکان موجود تھا۔ہن دو ئ وں کے جنگ واقع ہو مقابلے میں مسلمانوں کی طرف سے خطرہ زیادہ لاحق تھا کیوں کہ مسلم قومیت غیر مس لم حکم رانی کے لیے مذہبی طور پ ر تی ار نہیں تھی۔دوس ری ط رف ہندوس تان ک و جن گ کے بع د بھی دارالح رب ق رار دے ک رجمعہ کی نماز نہ پڑھنا، انگریزی تعلیم اور نوکریوں سے انکار اس امر کی پیش بندیاں تصور کی جاتی تھیں۔سالجھانے کی انگریز حکومت نے اس نازک صورت حال کو سمجھتے ہوئے مسلمانوں کو مذہبی مباحث میں سازش شروع کی تا کہ سیاسی طور پر یہ لوگ کسی منصوبہ بندی کے اہل نہ رہے۔لہذا اس مقص د کے ل یےسان کے خان دانی پس مرزا غلام احمد قادیانی کو استعمال کیا گی ا جنھ وں نے’’ قادی انیت‘‘ کی بنی اد رکھی۔ منظر کے مط العہ س ے ث ابت ہوت ا ہے کہ یہ خان دان ص دیوں س ے انگری ز وف اداری کے ل یے مش ہور تھ ا۔دورانسان کے بی ٹے ک ا انگری زوں کے ل یے مس لمانوں کی جن گ م رزا کے وال د کے انگری زوں کی م دد اور پھ ر

Page 353: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

352

ساسے اس منصب کا اہل بنا دیا۔قادیانیوں کا پہلا خلیفہ’’حکیم نورالدین‘‘ کا انتخاب مرزا غلام جاسوسی نے ساٹھ ا ک ر مہ اراجہ کش میر ک ا ساس تادی س ے ساسے ای ک س کول کی احمد قادیانی سے پہلے کیا گیا تھا جب

شاہی معالج مقرر کیا۔اایا تو قادیانی خلیفہ اول حکیم نورال دین۱۹۱۳ ء میںتوسیع سڑک میں مسجد کانپور کا واقع پیش

نے مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کی بجائے کھلم کھلا برطانوی حکومت کی حمایت کا اعلان کی ا۔پہلیسان کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیر الدین محم ود اش تہارات ش ائع ک رکے اپ نے وال د کے جنگ عظیم کے دوران تعلیمات لوگوں تک پہنچاتے رہے ت اکہ ل وگ جہ اد س ے دور رہے۔جب ت رکی خلافت ٹک ڑے ٹک ڑے ہ و رہی تھی۔عراق و ایران پر قبضہ ہو رہا تھا مکہ ،م دینہ مس لمانوں کے ہ اتھوں س ے ج اتے رہے ت و یہ ل وگ مٹھائی اں

بانٹ رہے تھے۔کیوں کہ مقام قادیاں کو وہ مکہ و مدینہ سے بہتر تصور کرتے تھے:سام ق رار دی ا ہے۔اس ل یے اب وہی ہی نے قادی ان ک و تم ام دنی ا کی بس تیوں کی ’’اس زمانے میں خدا و ن دتعال

(۱۲۵بستی پورے طور پر روحانی زندگی پائے گی جو اس کی چھاتیوں سے دودھ پیئے گی۔‘‘) مولانا ظفرعلی خان نے پہلی جن گ عظیم کے دوران ان کی جاسوس ی اور انگری ز حم ایت ک ا ذک ر

سانھیں اسلام اور مسلمانوں کے صریح دشمن قرار دیئے : کرتے ہوئے تکمیل عمر بھر میرے القاب کی نہ ہو

اائی ڈی نہ ہو ان پر اگر اضافہ سی بغداد کے سقوط کا قصہ ہے ناتمام

جب تک کہ اس میں درج میری ڈائری نہ ہومیری بلا سے مکہ لئے کربلا لئے

چندے سے ہے غرض مجھے اس میں کمی نہ ہوپیش نظر اگر ہے خلافت کی کانٹ چھانٹ

پر قادیاں ہی کس لیے کنٹربری نہ ہو(۱۲۶)

Page 354: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

353

سانھ وں نے یہ تحری ک ش روع خلافت اسلامیہ کے یہ لوگ قائل نہیں تھے اس کے خاتمہ کے لیے تو ہج اوربیت اللہ کی زی ارت کی فرض یت سچن لی ا تھ ا۔رہی ح سانھ وں نے پہلے س ے اپ نے ل یے کی تھی۔خلیفہ تو سانھوں نے بیت اللہ کی بجائے قادیان کی زیارت ف رض ک ر لی۔چ وں کہ حج ص احب اس تطاعت کی بات تو ہہذا م رزا نے غریب وں ک و ورغلاتے لوگوں پر فرض ہوتا ہے اور غریب غرباء اس فرض عب ادت س ے م برا ہ وتے ہیں ل ہوئے قادیان میں ظلی حج کا اعلان کیا جب کہ اصل حاجیوں کو معم ولی اور نقلی حج ک رنے والے کہ نے لگے۔جنت البقیع کی بجائے قادیان میں بہشتی مقبرہ تعم یر کی ا جس میں م ردے دفن ک رنے اور جنت کیہی کی ا ہے کہ ٹکٹ دینے کا خطیر رقم وصول کی جاتی تھی۔مولان ا ظف رعلی خ ان نے اس ح والے س ے دع وساٹھ ا ک ر دیکھ سان ک ا مجم وعہ’’ارمغ ان قادی انیت‘‘ اگر کسی کو قادیانیت کے اصل چہرے کو دیکھنا ہو تو

لیں: ہہر جہان، قادیاں تم کو گر منظور ہو ہے پی

ہن قادیاں اے مسلمانو! خریدو ارمغا(۱۲۷)

ااج کل جو مجاور ہیں بہشتی مقبرے کے ہن قادیاں بیچتے پھرتے ہیں گھر گھر استخوا

(۱۲۸)اازادی کی جدوجہ د میں س رگرم عم ل تھے،تحری ک ہندوس تان میں ک انگرس اور مس لم لی گ دون وں خلافت میں س ول نافرم انی کی تحری ک،ع دم تع اون اور ت رک م والات میں ہندوس تان کے تم ام ت ر سیاس ی وساس دور مذہبی جماعتیں استعماری حکومت کے خلاف اکٹھی ہو گ ئی ۔قادی انیت واح د جم اعت تھی ج و اائی۔م رزا بش یر ال دین محم ود کے مط ابق گان دھی سات ر میں انگری ز کی حم ایت ک رنے کے ل یے می دان میں مومنٹ کی مخالفت پچاس ہزار روپیہ خرچ کرکے ٹریکسٹ اوراشتہار شائع کیے گئے ۔ سینکڑوں تقریریں کی

ہی حکام نے پسند کیا۔) ( ۱۲۹گئیںجسے اعل

Page 355: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

354

اانکھیںجب افغانس تان کی ط رف ہوگ ئیں اور تحری ک خلافت کے بع د مس لمانوں کی سامیدیں افغانستان سے وابستہ ہوگئیں تو قادیانی جماعت متحرک ہوگئی اور افغانس تان میں انگری ز خلافت کی سان کے کئی لوگ پکڑے بھی گئے ۔غازی ام ان اللہ جن ک و مس لم کے لیے جاسوسی کرنے لگے جس میں سالٹنے پر انگریز سے زی ادہ قادی انی خ وش سان کی حکمرانی کا تختہ سامہ میںقدر کی نگا ہ سے دیکھا جاتا تھا سان ہوئے۔غازی امان اللہ چوں کہ مولانا ظفرعلی خان کے اسلامی ہیروز میں س ے تھے اس ل یے ان ک ا یہ فع ل

کے لیے سخت تکلیف کا باعث بنا:چراغ تلے اندھیرا شمع کابل کی بجھ گئی جس رات

قادیاں میں چراغ گھی کے جلےموسیو مرزا بشیر الدین

سجدہ کرنے کلیسا کو چلے@انا ااپ کی مغربیت ہے

ااپ پلے دودھ پی پی کے جس کا (۱۳۰)

کشمیر کے ح والے س ے ت و انگری ز ن واز قادی انی ف رقے کی خ دمات رنبیرس نگھ کے دور س ے حکیم ء کے بع د جب کش میر میں مس لمانوں پ ر ظلم و۱۹۳۰نوردالدین کے شاہی طبیب ہونے س ے مس لم تھے۔

ساس میں بھی اس جم اعت نے اپ نے حص ے کی ذمہ داری اں نبھ ائی۔نظم تش دد کی انتہ ا ش روع کی گ ئی ااواز لاٹھی‘‘’’کش میر کمی ٹی‘‘وغ یرہ میں اس ک ا ذک ر ’’قادیاں اور کشمیر‘‘،’’ش یر کش میر‘‘’’خ دا کی بے

موجود ہے:نکالا جائے گر کشمیر سے ہر قادیانی کوااپ ہی مسدود ہو جائے ہب فتنہ اپنے تو با

(۱۳۱)اائی ترے دل کی مراد قادیاں خوش ہو کر بر

Page 356: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

355

ہج انگریز اا ہی گئی کشمیر میں فو ااخر ستو اس کی دلہن اگر انگریز ہے دولہا تو ہے

مل گیا تجھ کو ہری سنگھ کی دولت کا جہیز(۱۳۲)

کشمیر کے حوالے سے قادیانی جماعت نے ابتدا سے لے کرتقسیم ہندوستان تک اپنا ک ردار ادا کی ا یہاں تک کہ تقسیم کے حوالے س ے ری ڈکلف کے باون ڈری لائن کمیش ن میں جب مس لم لی گ کی ط رف

ء س ے لجس لیٹو اس مبلی کے مم بر کی حی ثیت۱۹۲۱سے چودھری ظفراللہ خ ان )قادی انی( رکن ب نے ج و) ۵۱،۵۲س ے اس مخص وص جم اعت کی حم ایت ک رتے رہے( کی ب دیانتی س ے گ ورداس پ ور جہ اں پ ر

اابادی تھی قصبہ ’’قادیان ‘‘کی وجہ سے ہندوستان کے حوالے کردیا ۔قادیانی ت و پھ ر وہ اں س ے فیصد مسلم ااگئے اور یہاں اپنا مرکزبنایا لیکن اپنی استعمار دوستی کی بنا پر کشمیر کو ہندوستان بھاگ کرپاکستان)ربوہ( ااج تک ایک نہ ختم ہونے والے عذاب میں مبتلاء کیا۔ تقسیم کے سے گورداس پور کے ذریعے متصل کرکے

ء تک یہ لوگ مسلمان شہری کی حیثیت سے اس تعمار اش رافیہ کی ش کل میںاس لامی جمہ وریہ۱۹۷۴بعد ء ک و جن اب مولان ا مف تی محم وداور دوس رے علم اء کی۱۹۷۴ س تمبر ۷پاکس تان پ ر مس لط رہے۔ت اہم

دن کی طوی ل بحث و مب احثے کے بع د۱۳کوشش وں س ے جن ا ب ذوالفق ار علی بھٹ و کی رہنم ائی میں ء میں ج نرل ض یاء الح ق نے ص داراتی۱۹۸۴پارلیمنٹ نے اس ف رقے ک و غ یر مس لم ق راردے دی ا۔جب کہ

ااپ کومس لمان لکھ س کتے ہیں اور نہ اس لام ک و بط ور اارڈنینس جاری کیا جس کے بع د یہ قادی انی نہ اپ نے مذہب پیش کر سکتے ہیں۔

ہندوستان کے عدم استحکام ،انتشار اور قتل وغارت میں بھی یہ فرقہ اس تعماری حک ومت کے س اتھ برابر کا شریک تھا۔ وہ براہ راست یہ تو نہیں کہتے کہ غیر احمدی واجب القتل ہیں لیکن اپنی تحری روں میں اپنے مخالفین کے نام لے کر بار بار زور دے کر کہتے تھے کہ فلاںش خص قت ل ہ و ج ائے،ہلاک ہوج ائے ی اساس ک ا خ اتمہ ساس ک ا ک وئی م ربی ی ا مری د فلاں کو قتل کرنا باعث ثواب ہے جس کا مطلب یہ ہوت ا تھ ا کہ

ء ک و ای ک قادی انی نے گ ورداس پ ور کے مس لمان ’’محم د۱۹۳۰ اپریل ۲۳کرے۔اس سلسلے میں جب سان کے خلیفہ دوم مرزا بشیر الدین محم ودنے قات ل ک و غ ازی ک ا خط اب علی‘‘ کو خنجر سے شہید کیا تو

Page 357: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

356

دیا تاہم عدالت نے غازی صاحب کو پھانسی پ ر لٹکای ا۔مولان ا ظف رعلی خ ان نے نظم ’’خنج ر قادی اں‘‘ اسموضوع پر لکھی ہے:

شہیدوں کا خون رنگ لایا کرے گانشاں ظالموں کا مٹایا کرے گا

کہاں تک مسلماں کے قاتل کو شیطاںخدا کے غضب سے بچایا کرے گا

(۱۳۳)ااپ ک و یہ االہ ک ار س مجھتے تھے ۔ مولانا ظفرعلی خان ابت دا س ے قادی انیوں ک و انگری ز اس تعمار ک ا سانھوں نے عام علماء کی نقطہ نگ اہ س ے ہٹ ک ر م ذہبی ح والے کے س اتھ سیاس ی اعزاز بھی حاصل ہے کہ ااڑ میں یہ ل وگ سچکے تھے کہ م ذہب کی حوالے سے بھی پرکھ نے کی کوش ش کی۔وہ اس ن تیجے پ ر پہنچ رر کی محبت اور جہ اد کے ج ذبے ک و مٹان ا چ اہتے ہیں مسلمانوں کے دلوں س ے خ دا کی وح دانیت،پیغم ب جس کے نتیجے میں مسلمان فقط ایک برقی روب وٹ بن ج ائیں گے۔پھ ر ص لیبی ط اقتیں جس ط رح چ اہیے جیسے چاہے ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے جایں گے۔ مس لمانوں کے غل بے ک ا ج و نفس یاتی خوف یورپی دنیا پر مسلط ہے وہ ختم ہو جائے گا۔اسلامی تمدن سے ہ اتھ دھ و کرمس لمانوں ک و ب دلے میں مغ ربی تہ ذیب و تم دن کی بے ب اکی اور بے حی ائی م ل ج ائے گی۔’’تہ ذیب ن و کے ابلقی جل وے،ش رح

تقصیراور وفاداران مادر زاد‘‘میں اسی روگ کا رونا موجود ہے:ضبطیوں پر ضبطیاں ہیں قرقیوں پر قرقیاں

رونقیں تہذیب نو کی ہیں یہ مغرب زادیاں(۱۳۴)

شرح تقصیراائین کی ہو رہی ہیں برکتیں نازل نئے

ری کی دین کی مل رہی ہے خاک میں عزت نب

Page 358: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

357

باپ لندن،شملہ بیٹا، قادیاں روح القدساے مسلمانوں ! یہی تفسیر ہے والتین کیااج کل پنجاب میں ااگے قادیاں زادوں کے ہی مریم کی چلتی ہے نہ الیاسین کی عیس

ہم جہاد بن گئے کافر مسلماں، مٹ گئی رسعاقبت محمود ہے بیشک بشیرالدین کی

(۱۳۵)

ہن مادر زاد وفاداراہل وقت کی اولاد ہم ہیں رسو

ہن مادر زاد ہم ہیں وفاداراسچکی مکے کی تہذیب پرانی ہو

ساستاد ہم ہیں نئی تہذیب کے نبوت ہے ہماری گھر کی لونڈی

ااخری داماد ہم ہیں خدا کے غم استعمار کی دیوار کو کیا

جب اس دیوار کی بنیاد ہم ہیں(۱۳۶)

قادی انیوں کی بے حی ائی،فحش نگ اری،ب دزبانی کے س اتھ س اتھ جنس ی بے راہ روی س ے ’’رد جلدوں پر مش تمل’’روح انی خ زائن ‘‘کے ن ام۲۳قایانیت‘‘میں لکھی گئی بے شمار کتابیں بھری پڑی ہیں۔

سے قادیانی تعلیمات پراگر طویل ت ر کت ابیں لکھی گ ئی ہیں ت و ’’ردقادی انیت‘‘ میں ای ک ای ک جل د کی رد میں لاتع داد کت ابیں تخلی ق کی گ ئی ہیں۔ قادی انیت کے ب انی مب انی م رزا غلام احم د قادی انی اپ نی رنگین

Page 359: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

358

م زاجی کی وجہ س ے جنس ی ط اقت بڑھ انے کے ل یے مختل ف نس خہ ج ات اس تعمال ک رتے رہے۔ حکیمسان کے کئی خطوط موجود ہیں۔محم د خال د امین نے ’’قادی انی راس پوٹینیوں نورالدین کے نام اس حوالے سے سان کے بع د خلیفہ اول حکیم نورال دین اور خلیفہ دوم م رزا کے عبرتناک انجام‘‘میں وہ خطوط شائع کیے ہیں۔ااگے نک ل گ ئے۔کی وں کہ محم د سان س ے بشیر الدین محمود اپنے کفریہ عقائد اور جنس ی بے راہ روی وں میں متین خال د جنھ وں نے ’’ثب وت حاض ر ہیں‘‘کے ن ام س ے ہ زار ص فحوں پ ر مش تمل چ ار جل دوں میں ان کے کرتوت دلائل و ثبوت کے ساتھ بیان کیے ہیں کے مطابق تو حکیم نورالدین نے تو اپ نے ن بی کی بی وی س ے بھی ناجائز تعلقات روا رکھے تھے۔مولانا ظفر علی خان نے بھی قادیانیوں کی مغربی تہذیب میں رنگی ہوئی ان بے حیائی کے کارناموں کا ذکرنظم ’’اطالوی حسینہ مس روفو،ہوٹل سیسل کی رونق عریاں،اطالوی حسینہااب اد بی اس‘‘میں کی ا ہے۔ اط الوی حس ینہ مس روف و سیس ل ہوٹ ل لاہ ور کی منتظمہ تھی ج ومرزا اور حس ن بشیرالدین محمود کے ہوٹل میں ایک روزہ قیام کے بعد غائب ہوگئی۔کچھ دنوں بعد مس روفو ’’قادی ان‘‘کی

رونق بن کر دکھائی گئی:ہق شہر کا ہے ’’زمیندار‘‘سے سوال عشاہوٹل سسل کی رونق عریاں کہاں گئی

(۱۳۷) ضلع گورداس پور میںدریائے بیاس کے کنارے پر ایک جھیل واقع تھی جس میں بہت زی ادہ پرن دےااتے تھے ۔قادیانیوں کی روشن خیالی کے بعد وہاںپر موٹرک اروں میں ہوتے تھے اور شکاری وہاں شکار کھیلنے س وار خوبص ورت ع ورتیں بھی بن دوق ہ اتھ میں لے ک ر ش کار کھیل تی دیکھ ا ئی گ ئیں جس پ ر مولان ا نے

ااباد بیاس ‘‘لکھی۔ نظم’’حسن ساٹھ گئی ہم حجاب اائی ہیں جب سے موٹریں رس

سان کی ڈولیاں اب نہ وہ پردہ والیاں اور نہ اانکھ کی شرم ہے کہاں شرع کی قید کدھر،

بول رہی ہیں بلبلیں،کن چمنوں کی بولیاںرنگ ہے بو نہیں مگر گل کدہ فرنگ میں

Page 360: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

359

جس سے ہماری مالنیں لائیں ہیں بھر کے جھولیاں(۱۳۸)

مولانا ظفرعلی خان کی مسلسل قادیانیت مخ الفت و م زاحمت کی وجہ س ے قادی انی اہ ل قلم بھی ء میں جب مولانا ظفرعلی خان نظر بن دی س ے رہ ا ک یے گ ئے ت و جعلی۱۹۱۸سیخ پا ہوتے تھے ۔دسمبر

سان ک و ب دنام ک رنے کی کوش ش کی ۔جنھ وں نے اش تہار ب ازی پیرپرستوں کے ساتھ قادیانی اہ ل قلم نے بھی ااپ ک و بہت ن از تھ ا وہ بھی انگری زوں ک ا ہم ن وا بن گی ا جس کے کرکے یہ مشہور کیا کہ مسلمانو!جن پ ر سان کو رہا کیا گیا۔اس سلسلے میں قادیانیوں کے ترجمان اخبار’’الفض ل‘‘نے مولان ا ظف رعلی خ ان بدلے میں

ء ک و کس ی قادی انی ش اعر کی نظم ش ائع کی جس ے مولان ا نے ارمغ ان۱۹۲۱ نوم بر ۷کی مخ الفت میںقادیانیت میں درج کی ہے:

سبری طرح قادیاں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ظفرعلی خانساٹھا رہے ہیں سمجھ پہ کیوں پڑ گئے ہیں پتھر یہ کیسے فتنے

سبرا کہہ کے کیا ملے گا سوائے ذلت جناب محمود کو یہی نہ جو کچھ رہی تھی عزت اسے بھی دل سے گنوارہے ہیں

وہ اپنی مسجد الگ چنیں گے ہزار دنیا بنے مخالفاارہے ہیں انھیں یہ ضد ہے کہ کیوں مسلمان ایک مرکز پہ

ااندھیوں سے اک دن مٹا کے رکھ دیں گے قصر مسلم نفاق کی کسی کو ملحد بنا رہے ہیں، کسی کو کافر بنا رہے ہیں

مولانا ظفرعلی خان نے جواب میں درجہ ذیل اشعار سپرد قلم کرکے شائع کیے:یہ فتنہ پرداز قادیانی نئے نئے گل کھلا رہے ہیں

اارہے ہیں ادھر رقیبوں سے مل رہے ہیں ادھر ہمارے گھر منافقوں کی یہ ہے نشانی،زبان پہ دیں ہو تو کفر دل میں

اسی نشانی سے قادیانی تعارف اپنا کرا رہے ہیںرل کی شریعت کے نام پر دیں ہمیں نہ دھوکا ہل مقبو رسو

Page 361: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

360

یلو بنا رہے ہیں سا ااڑ لے کر وہ سب کو اسی شریعت کی پڑا ہے چندے کا جب سے پھندا گلے میں ان قادیانیوں کے

اانکھیں دکھا رہے ہیں ہمارے ہی گھر سے بھیک لے کر ہمیں کو رر نے جس کی دی تھی وہ فتنہ اٹھا ہے قادیاں سے خبر پیغمب

خلیفہ محمود قادیانی سے قیامت بنا رہے ہیں(۱۳۹)

درجہ بالا طویل مباحث ،ثبوت و دلائل اور مختلف واقعات کے بیان کی روش نی میں یہ ب ات ث ابتاازادی کے خلاف تھ ا اور برط انوی حک ومت ک ا خواہ اں تھ ا۔م ذہبی ہوتی ہے کہ سیاس ی ح والے س ے یہ ف رقہ

اایت نم بر اایتیں موجود ہیں۔سورہ ات وبہ کی میں ارش اد۷۳حوالے سے جب قران میں جہاد کے بارے واضح ہے:

ترجمہ:ر کافروں اور منافقوں سے جہاد جاری رکھو اور ان پر سخت ہو جائو۔ان کی اص لی جگہ دوزخ ہے ’’اے نبی

(۱۴۰جو نہایت بدترین جگہ ہے۔‘‘)اایت نمبر میں ارشاد ہے:۳۹سورۃ انفال،

ترجمہ:(۱۴۱’’اور تم ان سے اس حد تک لڑو کہ ان میں فساد عقیدہ نہ رہے۔اور دین اللہ کا ہی ہو جائے۔‘‘)

اب ایس ا بھی نہیں کہ قادی انی ف رقہ ص رف انگری ز حک ومت کے خلاف جہ اد ناج ائز س مجھتے تھے ۔ بلکہ جہاد کو خون خرابہ،تشدد اور غنڈاہ گردی قرار دے کر اسے حرام ق راردے دی ا۔اب س ے زمی نیاائے گ ا جہاد بند ہوگیا اور لڑائیوں کا خاتمہ ہو گیا جیسا کہ احادیث میں پہلے لکھا گیا تھا کہ جب مس یح ااج س ے دین کے ل یے لڑن ا ح رام کی ا گی ا۔اب اس کے بع د ج و تو دین کے لیے لڑنا حرام کیا جائے گا۔ سو ساٹھات ا ہے اور غ ازی ن ام رکھ ک ر ک افروں ک و قت ل کرت ا ہے ،وہ خ دا اوراس کے رس ول ک ا دین کے لیے تلوا ر

(۱۴۲نافرمان ہے۔)

Page 362: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

361

اائے گ ا اس پ ر ہم سان کے بع د ک وئی پیغم بر نہیں ااخ ری ن بی تھے ۔ ہی کے ر اللہ تع ال حضرت محمد س ب مس لمانوں ک ا عقی دہ اور ایم ان ہے۔ظ اہری ب ات ہے کہ اس میں کس ی قس م کی ش ک و ش بہ کی@@ا سورۃ گنجائش بھی نہیں کیوں کہ ختم نبوت کے حوالے سے قران کریم میں واضح ارشادات موجود ہیں۔مثل

اایت نمبر ہہ ہو:۴۰احزاب کی ملاحظترجمہ:

ا ک ا ختم رپ اللہ کے رس ول ہیں اور تم ام انبی اا ر تمھارے م ردوں میں کس ی ک ا ب اپ لیکن ’’نہیں ہیں محمدہی ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘) (۱۴۳کرنے والا ہیں۔اور اللہ تعال

اایت نمبر ہی ہے:۳سورۃ المائدہ کی میں ارشا د باری تعالترجمہ:

ااج میں تمہارے لیے دین کی تکمیل کردی اور اپنی نعمت ک ا تم پ ر اتم ام کردی ا اور اس لام ک و تمہ ارے ’’ (۱۴۴لیے دین کے طور پر پسند کیا۔‘‘)

اایت وں کی موج ودگی میں کس ی ظلی و ب روزی ن بی ک ا س وچنا قران پاک میں اس قس م کی واض ح بھی کفر ہے جب کہ قران کے مقابلے میں مرزا غلام احمد قادیانی کا کہنا ہے:

(۱۴۵صلى الله عليه وسلم’’نبی سے دین کی مکمل اشاعت نہ ہو سکی ،میں نے پوری کردی۔‘‘)ہا تم ام ‘‘میں ختم نب وت کے ح والے ہ ح ق ک ا سحجت ہحکمت‘‘ اور’’ @حکم و مولانا ظف رعلی خ ان نے نظم’’

اایات اور احادیث کی تفسیر شاعری میں کچھ اس انداز سے پیش کی ہے: سے قرانی ہحکمت @حکم و

سکم ست ل رد کو ملا پیغام اکمل جب محمہع نبوت ہو گئی سگل ہمیشہ کے لیے شم

ہحکمت کو دیا @حکم کا انعام ااسماں نے حق کی حجت ختم ہو کر حق کی رحمت ہو گئی

ہن تو حید بوئے گل ری ہیں گلش مصطفسامت ہوگئی سان کی خود وہ ہیں خیر البشر خیر

Page 363: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

362

ہر کامل کی شبیہ ہہ نو کی کیا ضرورت بد مااایت ہوگئی جب کلام اللہ کی ایک ایک

(۱۴۶)

ہاتمام سحجت، حق کا اادم کی نسل پر ہوئی حجت خدا کی ختم

ااج دین کی تکمیل ہو گئی دنیا میں ااخری دلیل ااپ تھی جو اپنا جواب

رل ہو گئی افلاک پر حوالہء جبریرہد عربی نے لگائی مہر ااکر محم

اللہ کے قبالہ کی تسجیل ہو گئیسسنانے کو رہ گیا تورات کا فسانہ

ااتے ہی انجیل ہو گئی ساس کے منسوخ (۱۴۷)

ہت اسلام ،ق ران اور اح ادیث کی موج ودگی کے ب اوجود قادی انیت اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مبادیا جو من گھڑت قصوں ، خود سے بنائے گئے بے بنیاد واقعات اور دلیل و ثبوت سے عاری تعلیمات پر مشتملاائی اور اتنے سارے لوگ قادیانی کیوں بنے۔ قادی انی ن بی’’م رزا خرافات کا مجموعہ تھا کیوں کر منظر عام پر سان س ے مت اثر ہ وئے بغ یر نہیں غلام احمد قادیانی‘‘کی شخصیت بھی ات نی ج اذب نظ ر نہیں تھی کہ ل وگ سان ک اپہلا خلیفہ حکیم ن ور ال دین اور محم دعلی لاہ ور ی اپ نے دور کے گ نے چ نے رہے۔کہ ا جات ا ہے کہ سان جیس ے ل وگ م رزا کے پیروک ار کی وں ب نے؟یہ وہ بنی ادی س والات ہیں ج و مذہب شناسوں میںس ے تھے پھ ر

ء۱۸۵۷قادیانیت پر کیے گئے درجہ بالا مباحث سے جنم لیتے ہیں۔ان جیسے سوالات کے ح ل کے ل یے کے بعدہندوستان میں مغ ربی اس تعمار کی وض ع ک ردہ م ذہبی اور سیاس ی پالیس ی ک ا ج ائزہ لین ا ہوگ ا۔جن گسرخ کی ا ت و مق امی باش ندوں کے اازادی کے بعد عیسائیت کے پرچار میں جب عیسائی مشنریوں نے یہاں ک ا

Page 364: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

363

ساتھ مناظروں میں وہ عقلی دلائل سے عیس ائیت ک و اس لام س ے برت ر ث ابت ک رنے کی کوش ش ک رتے تھے۔ مقابلے میں مذہب اسلام کے کمزور مطالعہ کی بنیاد پر اس قسم کے سوالات کے جوابات دینا مش کل ہوت اسجز ہے۔اس سلس لے میں سرس ید احم د خ ان اور ہے ویسے بھی اسلام میں ایمان باالغیب عقیدے کا بنیادی سان کے مکتبہ فکر اور ہم خیال ساتھیوں نے تعقل پسندی کی بنیاد پر مذہب میں بھی عقل کو استعمال کرنا شروع کیا اور عیسائیت کے مقابلے میں اسلام س ے عقلی دلائ ل پیش ک رنے کی کوش ش ش روع کی۔ن تیجےہب ق بر،فرش تے،مع راج ک ا @@ا ع ذا میں سرس ید جیس ے ع الم و فاض ل ش خص بھی مغ الطے میں پ ڑھ گ ئے مثل واقعہ،وحی،جنات وغ یرہ کے ل یے عقلی دلائ ل پیش ک رنے کے سلس لے میں سرس ید تش کیک کے ش کار ہ و گ ئے۔ان کے علاوہ بھی اس لام میں ایس ے بنی ادی عناص ر موج ود ہیں جن پ ر بحث مب احثہ س ے اس لام ک ا ہی اور فتنہ دجال کے ح والے @@ا امام مہدی کا ظہور،نزول عیس سرسری مطالعہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔مثلاای ات نہ ہ ونے کی وجہ س ے م ذکورہ دور کے اان میں اش ارے کن ایے ت و موج ود ہیں لیکن واض ح س ے ق ر کمزورعقیدہ کے لوگوں کا امتحان شروع ہوا۔حکیم نورالدین اور محمدعلی لاہوری جیسے جدید روش ن خی الاازادی کے خاتمے پرمسلمان اپنی شکست اوراپنی سلطنت کے خاتمے سے بھی اس رو میں بہہ گئے۔جنگ شدید غم وغصے میں مبتلا ہوگئے تھے۔جس کی وجہ سے زیادہ تر علماء انگریز کے لیے دجال یا فتنہ دجالساٹھا کر مرزا غلام احمد قادیانی نے مس یح موع ود ہ ونے کے الفاظ استعمال کر نے لگے تھے جس سے فائدہ کا دعوی کیااور انگریزوں کو دجال کہنا شروع کیا۔ جس کے لیے سامراجی حکومت نے پہلے س ے م احول

سازگار بنایا تھا۔چراغ حسن حسرت نے لکھا ہے: ’’مسلمان عیسائیوں کے غلبے کو دجال کے خروج کی نش انی س مجھتے تھے بلکہ بعض لوگ وں ک ا خی الساٹھا کر انگریزوں کو دج ال کہن ا تھا کہ دجال سے انگریز مراد ہیں۔مرزا صاحب نے اس عام خیال سے فائدہ ااپ کو ظلی و بروزی ن بی کہ نے لگے۔فن ا سانھوں نے مسیحیت کا دعوی کیا اور اپنے شروع کر دیا۔ساتھ ہی فی الرسول کے صوفیانہ عقیدے کا جو ڑ ظل و بروز س ے ملا دی ا۔اور جب وہ اچھی خاص ی جم اعت ف راہم

اازادانہ استعمال کرنے لگے۔‘‘) سچکے تھے تو ظل نبی کے بجائے اپنے لیے ’’نبی‘‘کی اصطلاح (۱۴۸کر ابتداء میں انگریز کو دجال کہ نے پ ربہت س ارے انگری ز مخ الف ل وگ بھی م رزا س ے مرع وب ہ ونے لگے۔م ذکورہ وجوہ ات کے علاوہ ای ک بہت ب ڑی وجہ کف ریہ فتوئ وں کی بھ ر م اربھی تھی۔’’پھ وٹ ڈال و اور

Page 365: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

364

حکومت کرو‘‘ پالیسی کے تحت ہندو اور مسلم کو ایک دوسر ے سے متنفر کرکے مزید گروہ بن انے ش روعسسنی، صوفی،بریلی ، اہل ح دیث اور دیوبن دی کی۔ہندوئوں میں کئی گروہ پیدا ہوئے تو مسلمانوں میں شعیہ، ساچالنا شروع کیا چوں کہ برطانوی حک ومت ک ا مقص د ہی یہی تھ ا کہ وغیرہ فرقوں نے ایک دوسرے پر کیچڑ ہہذا اس کے ل یے اس تعماری سالجھ ک ر کس ی سیاس ی منص وبہ بن دی کے اہ ل نہ ب نے ل ااپس میں یہ لوگ وں سچکی تھی۔پھر کیا تھا ہر دوسرے تیسرے روز کسی نامی گرامی مسلمان کو حکومت تمام ممکنہ تدابیر کر کافر ڈکلیئر کیا جاتا تھا۔سرسیداحمد خان سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور پھر مولانا حسین احمد مدنی، مولان ااازاد،مول وی ثن ائو اللہ،مولان ا محم د علی ج وہر، مولان ا عبیداللہ سندھی،سید عطاء اللہ ش اہ بخ اری،اب والکلام شوکت علی ،علامہ محمد اقبال اورمولانا ظفرعلی خان س میت بے ش مار ل وگ اس ت یر کے ش کار ب نے بلکہ اب تک بنے جار رہے ہیں۔مولان ا ظف رعلی خ ان نے نظم ’’تکمی ل ایم ان‘‘میں اس کی عکاس ی ک رتے ہ وئے

وجوہات بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے:ہۃ اچھی حج اچھا روزہ اچھا اور نماز اچھی زکو

مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتاعتاب انگریز کا ان سب مری باتوں کی قیمت ہے

قیامت تک مرا نرخ اس سے ارزاں ہو نہیں سکتاسکفر کے یہ پیر سب مل کر لگا لیں مجھ پہ فتوے

سان کے الٹی میٹم سے ہراساں ہو نہیں سکتا میں (۱۴۹)

ہیجانی دور کے اس ماحول میںمسلمان ویسے بھی اندرونی ک رب اور ش دید انتش ار کے ش کار تھےسالجھن بڑھا دی جس سے اسلام کو ک افی نقص ان پہنچ ا۔اس ک ابراہ ساوپر سے تکفیر کی اس روایت نے مزیر ساس کی تحریک ’’قادیانیت‘‘کو ہوئی۔جدی د تعلیم ی افتہ ف رقہ ج و کہ راست فائدہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اابادیاتی نصاب پڑھنے اور اپنی مغرب پرستی کی وجہ سے اپنے مذہب کی اصل روح س ے ن اواقف تھابہ ک نو گی ا۔اپ نی روش ن خی الی کی بنی اد پ ر وہ م ذہب ک و ویس ے بھی قص ہ پ ارینہ تص ور ک رنے لگے تھے۔ م ذہبیہہذا جب ایس ے م احول میں م رزا سچک ا تھ ا ل سان کی برداش ت ک ا پیم انہ ل بریز ہ و پیشوائوںکی تنگ نظری س ے

Page 366: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

365

ہاس ے م ذہبی تعص ب ک ا غلام احمد قادیانی پر کفریہ فتوے لگانے کی بھر مار شروع ہ وئی ت و زی ادہ ت ر ل وگ نے لکھا ہے: نتیجہ تصورکرنے لگے۔چراغ حسن حسرت

’’ ایک فرقے کے لوگ دوسرے فرقے کے لوگوں کو ک افر کہ نے لگے ۔اس ل یے جدی د تعلیم ی افتہ لوگ وں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی مخالفت اور کفر کے فتووں کو علماء کی اسی عادت تکفیر کا ن تیجہ س مجھا

(۱۵۰اور اس کی پرواہ نہیں کی۔‘‘)ساس جدی د تعلیم ی افتہ ف رقے س ے تعل ق رکھ تے تھے ج و فک ری اور قادی انیت کے ب انی مب انی خ ود سانہیں کی جذبات کی عکاس ی ک رنے لگے۔جب کہ علم اء اپ نی روای تی ان داز نظریاتی حوالے سے ابتدا میں میں اسے فرقہ باطنیہ ،ب ابی وغ یرہ فتن وں کی ط رح قادی انیت ک و بھی محض م ذہبی نقطہ نگ اہ س ے دیکھ نےااگ کی دھمکی اں دی تے رہے۔مسلس ل بے لگے ۔ اس کے پیروک اروں ک واللہ کے ع ذاب اور جہنم کی روزگاری اور استعماری چیرہ دستیوں کے ہاتھوں ہندوستانیوں کی غربت اور وبائی امراض نے بھی قادیانیت کے لیے راستہ صاف کیا ۔نحیف و نزار لوگوں کو مرزاپیش گوئیوںکے ج ال میں پھنس ا ک ر م الی اع انت کی پیش کش کرکے اپنے دھرم میں شامل کر لیتے تھے۔اس تحریک کے سیاسی پہل و ک و مکم ل نظ ر ان دازکر دیاگی ا اور جب اندازہ ہوا کہ یہ تو دراصل استعماری حکومت کی ایک چال ہے اور اس کا انحصار انگریز حک ومتسچکی تھی اور ملکی چن دوں کے س اتھ ب یرونی اع انت س ے قادی انی مع اش اور پر ہے۔تب ت ک بہت دی ر ہ و

سچکے تھے ۔ عقیدہ دونوں حوالوں سے کمزورلوگوں کو گمراہ کر اائے تھے یہاں پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ استعمارکی تعریف کے مطابق یہ ل وگ نہ ب اہر س ے ااپس میں کی ا اور نہ ان لوگوں نے یہاں کے رہائشیوں کا م الی استحص ال کی ا پھ ر قادی انیت اور اس تعمار کی ساترت ا۔ ستک بندی ہے۔اس حوالے سے یہ کہ ا جاس کتا ہے کہ اس تعمار کی ع ام تعری ف پ ر ت ویہ ف رقہ پ ورا نہیں لیکن استعماری پالیسی کی تناظر میں اس کے دی نی و سیاس ی ت گ و دو کے تج زیے س ے ث ابت ہوت اہے کہاائی۔جس نے ہ ر ط رح س ے قادیانیت اس تعماری ط اقتوں کی پش ت پن اہی میں م ذہبی بھیس ب دل ک ر س امنے ہہذا س تعماری پالیس ی ک ا حص ہ ہ ونے کی وجہ یہ فتنہ’’ قادی انیت اس تعماری حک ومت کی مع اونت کی۔ ل ‘‘استعمار کے زمرے میں شامل ہوتا ہے اس لیے مولانا ظفرعلی خان کی شاعری میں قادی انت کی م زاحمت

جو کہ دراصل استعمار کی مزاحمت ہے کا جائزہ لیا گیا ۔

Page 367: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

366

حوالہ جات:نی ہند،)انڈیا ونس فری ڈم ک ا اردو ت رجمہ(م رتبہ،ہم ایون کب یر،مکتبہ جم ال،اردو ۔۱ اازا اازاد، مولاناابوالکلام

۲۵،ص:۲۰۱۶بازار،لاہور،اازادی ہند،جلدچہارم،مترجم قاضی محمد عدیل عباسی،قومی کونسل۔۲ ہک ہخ تحری ڈاکٹر تارہ چند،تاری

۳۹۴ء،ص:۲۰۰۱فروغ اردو،نئی دہلی،طبع اول ،برائے ۴۱۴فاروق ملک،تخلیق پاکستان،خرم بکس اردو بازار،لاہور،س۔ن، ص:۔۳نی ہند،)انڈیا ونس فریڈم کا اردو ترجمہ(،ص:۔۴ اازا اازاد، ۲۹۔۲۸ مولاناابوالکلام اازادی ہند،جلد چہارم،ص:۔۵ ۴۲۰ڈاکٹر تارا چند،تاریخ تحریک سبک فائونڈیشن،طبع اول،۔۶ ۳۷۷ء،ص:۱۹۷۷ڈاکٹر فرمان فتح پوری،ہندی اردو تنازعہ،نیشنل سید حسن ریاض پاکستان ناگزیر تھا،شعبئہ تصنیف و تالیف و ترجمہ،جامعہ کراچی،اشاعت ۔۷

۱۹۰،ص:۲۰۱۰ہفتم، اازاد،انڈیا ونس فریڈم،ص:۔۸ ۳۷ مولاناابوالکلام اازادی ہند،جلد چہارم،ص:۔۹ ۴۲۵ڈاکٹر تارا چند،تاریخ

jinnah speech and writing,Vol.i.P.153۔۱۰اازاد،انڈیا ونس فریڈم ،ص:۔۱۱ ۴۱مولانا ابوالکلام ۴۷۳فاروق ملک،تخلیق پاکستان،خرم بکس ،لاہور،س۔ن،ص:۔۱۲اازادی ہند،جلد چہارم، ص:۔۱۳ ۶۰۹ڈاکٹر تاراچند،تاریخ

Page 368: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

367

۳۱۵سید حسن ریاض،پاکستان ناگزیر تھا،ص:۔۱۴۵۲۹فاروق ملک،تخلیق پاکستان،ص:۔۱۵Richard ۔۱۶ symonds,The Making of

pakistan,Islamic book service,Lahore,1967,P.67

،۵۷۰فاروق ملک،تخلیق پاکستان،ص:۔۱۷اازاد،انڈیا ونس فریڈم ،ص:۔۱۸ ۲۰۴-۳ مولاناابوالکلام ۵۷۰فاروق ملک،تخلیق پاکستان،ص:۔۱۹۲۳۲سید حسن ریاض،پاکستان ناگزیر تھا،ص:۲۰اازادی ہند،جلد چہارم،ص:۔۲۱ ۸۵۰ڈاکٹر تارا چند،تاریخ تحریک ۵۲۸-۲۷سید حسن ریاض،پاکستان ناگزیر تھا،ص:۔۲۲-۶۵ء،ص:۲۰۰۷شبلی نعمانی،کلیات ،دارالمص نفین،ش بلی اکی ڈمی،اعظم گ ڑھ )ی وپی( ان ڈیا،۔۲۳۶۶۱۶۲ء،ص:۱۹۱۱مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،بہارستان،مولانا ظفرعلی خان ٹرسٹ لاہور،۔۲۴@@ا،ص:۔۲۵ ۱۵۸ایضء،ص:۲۰۱۱طاہرہ صدیقہ ،دوسری جنگ عظیم کے اردو ادب پر اثرات ،الوقار پبلی کیشنز،لاہور،۔۲۶۸۸ ۱۱۱لینن،سامراج اور سامراجی،دارالاشاعت ترقی ،ماسکو،ص:۔۲۷۱۹ء،ص:۱۹۷۶سجاد ظہیر،روشنائی،شرکت پرنٹنگ پریس،لاہور،جنوری ۔۲۸۴۶-۴۵مولانا ظفرعلی خان ،کلیات ،بہارستان،ص:۔۲۹@@ا،،ص:۔۳۰ ۶۱ایض@@ا،،ص:۔۳۱ ۱۱۸ایض@@ا،ص:۔۳۲ ۴۶۲ایض@@ا،ص:۔۳۳ ۴۵۸ایض

Page 369: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

368

@@ا،ص:۔۳۴ ۲۸۹ایض@@ا،ص:۔۳۵ ۲۸۱ایض@@ا،ص:۔۳۶ ۸۰ایض@@ا،ص:۔۳۷ ۱۸۲ایض@@ا،ص:۔۳۸ ۱۲۲ایض@@ا،ص:۔۳۹ ۲۸۱ایض ۱۲۶مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،نگارستان،ص:۔۴۰۱۲۵مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،بہارستان،ص:۔۴۱مولانا ظفرعلی خان، مضامین،انمول موتی،مرتبہ ،ڈاکٹر صادق حسین،مولانا ظفرعلی خا ن ٹرسٹ ۔۴۲

۱۲۳۔۲۱ء،ص:۲۰۱۴لاہور،طبع سوم،۸۷مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،چمنستان،ص:۔۴۳@@ا،ص:۔۴۴ ۷۴-۷۳ایض@@ا،ص:۔۴۵ ۲۱ایض@@ا،ص:۔۴۶ ۴۸-۴۷ایض@@ا،ص:۔۴۷ ۳۳-۳۲ایضااثار،مجلس ترقی ادب،لاہور،جون ۔۴۸ ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی،مولانا ظفرعلی خان ،احوال و

۲۰۸ء،ص:۱۹۸۴Kishwarsultana,Maulana۔۴۹ Zafar Ali

Khan,Majlis-e- Ittihad-e-Millat and All India,Vol. 53, No.1, Jan.-Jun. 2016),journal of the reasech

socity of pakistan,p.116 ۵۰ڈاکٹر۔ ااثار،ص: ۲۰۸نظیر حسنین زیدی،مولانا ظفرعلی خان, احوال و

-۲۱ء،ص: ۲۰۱۳راجہ اسد علی خان،بابائے صحافت،مولانا ظفرعلی خان ٹرسٹ ،لاہ ور،نوم بر ۔۵۱۲۲

Page 370: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

369

اائینہ ادب لاہور،۔۵۲ ۴۸۱-۸۰ص:۱۹۷۰یامین خان،نامہ اعمال،جلد اول، ۴۳۲فاروق ملک،تخلیق پاکستان،ص:۔۵۳۱۰۱-۱۰۰مولانا ظفرعلی خان ،کلیات ،چمنستان،ص:۔۵۴@@ا،ص:۔۵۵ ۱۱۹ایض۲۳۰: مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،بہارستان،ص۔۵۶ ۱۱۱-۱۰-۰۹مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،چمنستان،ص:۔۵۷۳۱۷مولانا ظفرعلی خا ن،کلیات،بہارستان،ص:۔۵۸۸۱مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،چمنستان،۔۵۹@@ا،ص:۔۶۰ ۱۲۴ایض@@ا،ص:۔۶۱ ۱۶۰ایض@@ا،ص:۔۶۲ ۱۵۷ایض۱۰۵مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،بہارستان،ص:۔۶۳۱۰۰مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،چمنستان،ص:۔۶۴۱۵۹مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،نگارستان،ص:۔۶۵ہر ظف رعلی خ ان،ت رتیب و ت دوین ،احم د س عید،مولان ا ظف رعلی خ ان۔۶۶ مولان ا ظف رعلی خ ان،گفت ا

ٹرسٹ،لاہور، ۵۶۰ء،جلد اول،ص:۲۰۱۵مئی

۱۵۳مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،چمنستان،ص:۔۶۷۴۷۱مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،بہارستان،ص:۔۶۸۶۲مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،چمنستان،ص:۔۶۹ااثار،ص:۔۷۰ ۲۱۲ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی،ظفرعلی خان ،احوال و ۱۰۰کلیات،بہارستان،ص:۔۷۱۴۷۳مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،بہارستان،ص:۔۷۲

Page 371: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

370

ڈاکٹر سہیل احمد،پی۔ایچ۔ڈی مقالہ،جدید اردو نظم میں مغربی استعمار کے خلاف مزاحمت۔۷۳۶۲۷،غیر مطبوعہ،ص:(۱۸۵۷ء تا ۱۹۴۷)

۱۴۳-۴۲مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،چمنستان،ص:۔۷۴@@ا،ص:۔۷۵ ۱۷۷-۷۶ایض ۵۸-۵۷،ص:۲۰۰۵ڈاکٹر ایوب مرزا،فیض نامہ،کلاسک لاہور،باردوم،۔۷۶V.P.MENON,The ۔۷۷ transfer of power in

Indai,Princeston Universty press,America,1957,p:58,59

۱۸۲مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،چمنستان،ص:۔۷۸اازاد،انڈیا ونس فریڈم ،ص:۔۷۹ ۴۰مولانا ابوالکلام ۱۷۰مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،چمنستان،ص:۔۸۰@@ا،ص:۔۸۱ ۱۷۱ایض@@ا،ص:۔۸۲ ۱۸۵ایض@@ا،ص:۔۸۳ ۱۷۹ایض۱۷۹مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،چمنستان،ص:۔۸۴@@ا،ص:۔۸۵ ۱۸۳-۸۲ایض۱۷۶ایضا،ص:۔۸۶۵۹۴مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،بہارستان،ص:۔۸۷ڈاک ٹر غلام حس ین ذوالفق ار،اردو ش اعری ک ا سیاس ی و س ماجی پس منظ ر،ج امعہ پنج اب،لاہ ور،۔۸۸

۴۹۴-۴۹۳،ص:۱۹۶۶۵۹۳مولاناکلیات،بہارستان،ص:۔۸۹اص:۔۹۰ @@ا، ۵۹۲ایض ۵۹ء،ص:۱۹۰۵شورش کاشمیری،ظفرعلی خان،اردو پریس ،لاہور،۔۹۱

Page 372: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

371

۲۳مولانا ظفرعلی خان،بحوالہ ،راجہ اسد علی خان،بابائے صحافت،مولانا ظفرعلی خان،ص:۔۹۲۲۰۹۔۰۸: اشرف عطا،مولانا ظفرعلی خان،ص۔۹۳۲۳۸ء،ص:۲۰۱۱شورش کاشمیری،ظفرعلی خان،مولانا ظفرعلی خان ٹرسٹ لاہور،جون ۔۹۴اایت نمبر:۔۹۵ ۱۵۴القران،سورۃ بقرہ،اایت نمبر:۔۹۶ ۲۰القران،سورۃ التوبہ،اافس لائبریری لندن،رپورٹ،بحوالہ،محمد متین خالد،ثبوت حاضر ہیں،جلد چہارم،علم و عرفان۔۹۷ انڈیا

۵۸،ص:۲۰۱۱پبلشرز،لاہور، ۵۹شورش کاشمیری،تحریک ختم نبوت،بحوالہ محمد متیںخالد،ثبوت حاضرہیں،ص:۔۹۸۳،۷مرزاغلام احمد قادیانی،اپنی تحریروں کی رو سے ،جلد اول،نظارت اشاعت ربوہ،س۔ن،ص:۔۹۹

۳، ص:۲۰۰۹ارشد سراج،قادیانیت ،احمدیت،مختصر تعارف،قندیل لاہور،جولائی ۔۱۰۰سغلام احم د قادی انی کے کارن امے،ن دیم ی ونس پرن ٹر،۔۱۰۱ ء،ص:۲۰۰۱ن ور محم د ای ڈووکیٹ،م رزا

۴۵،۴۶۲۱۴-۱۳مرزا غلام احمد قادیانی،سیرت المہدی،تالیف،مرزا بشیرالدین،جلد اول،س۔ن،ص:۔۱۰۲ ۴۳مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،ارمغان قادیانیت،ص:۔۱۰۳۴ارشد سراج،قادیانیت ،احمدیت،مختصر تعارف، ص:۔۱۰۴۳مرزا غلام احمد قادیانی،تحفہ قیصریہ،بحوالہ ارشد سراج، قادیانیت، احمدیت ایک تعارف،ص:۔۱۰۵ م رزا غلام احم د قادی انی، مجم وعہ اش تہارات،بح والہ،،محم د م تین خال د،ثب وت حاض ر ہیں،جل د۔۱۰۶

۷۱،ص:۲۰۱۱پبلشرز،لاہور،چہارم،علم و عرفان ۴۰مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،ارمغان قادیانیت،ص:۔۱۰۷۱۷۸مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،نگارستان،ص:۔۱۰۸۱۰،ص:۲۰۰۶ محمد متین خالد،قادیانی راسپوٹینوں کے عبرتناک انجام،مکتبہ ختم نبوت،لاہور،۔۱۰۹ ،۲۰۱۶مرزا غلام احمد قادیانی،مسیح ہندوستان میں،نظارت نشر و اشاعت،قادیان،گورداس پ ور، ۔۱۱۰

۱۸-۱۷ص:

Page 373: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

372

۴۵مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،ارمغان قادیانیت،ص:۔۱۱۱ہی،جل د س وم،۔۱۱۲ ء۱۸۹۸مرزا غلام احمد قادیانی،اشتہارات،اشتہار،دینی جہاد کی ممانعت ک ا فت و

۹۷،۲۹۸ص:ء ، ۱۹۰۸تا -۵۵،ص:۲۰۰۸،اش اعت رب وہ ،پاکس تان،۱۵م رزا غلام احم د قادی انی،روح انی خ زائن،جل د ۔۱۱۳۱۵۶اازادی ،ایوب پریس لاہور،۔۱۱۴ اازاد،تحریک ۱۶۱،ص:۲۰۱۲مولاناابوالکلام ۸،۹ارشد سراج الدین،قادیانیت ،احمدیت،مختصر تعارف، ص:۔۱۱۵۳۰-۲۹مولانا ظفرعلی خان،کلیات،ارمغان قادیانیت،ص:۔۱۱۶۱۰۷مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،بہارستان،ص:۔۱۱۷سغلام احمد قادیانی کے کارنامے، ص:۔۱۱۸ ۴۵،۴۶نور محمد ایڈوکیٹ،مرزا سغلام احم د قادی انی کے کارن امے،ص:۔۱۱۹ مرزا غلام احمد قادیانی ،بح والہ ،ن ور محم د ای ڈوکیٹ،م رزا ۳۵

۲۶-۲۵مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،ارمغان قادیانیت،ص:۔۱۲۰ہت ظفرعلی خان،مجموعہ ارمغان قادیانیت،ص:۔۱۲۱ ۱۹چراغ حسن حسرت،مشمولہ دیباچہ،کلیا۱۴۶ء،ص:۲۰۱۷محمد امین خالد،تحفظ ختم نبوت،مرکز سراجیہ،لاہور،۔۱۲۲ ۲۴مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،ارمغان قادیانیت،ص:۔۱۲۳@@ا،ص:۔۱۲۴ ۶۲-۶۱ایضمرزا بش یر ال دین محم ود،حقیقتہ الروی ا،بح والہ محم د م تین خال د،ثب وت ح اظر ہیں ،جل د اول،ص:۔۱۲۵۳۲۵۳۶مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،ارمغان قادیانیت،ص:۔۱۲۶@@ا،ص:۔۱۲۷ ۱۲ایض@@ا،ص:۔۱۲۸ ۲۱ایضمرزا بشیر الدین محمد،بحوالہ،محمد الیاس برنی،قادیانی قول و فعل،ادارہ ترجمان السنہ،لاہور، ۔۱۲۹

۷۴،ص:۱۹۲۹فروری،

Page 374: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

373

۱۴مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،ارمغان قادیانیت،ص:۔۱۳۰۲۹۷مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،بہارستان،ص:۔۱۳۱۵۷مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،ارمغان قادیانیت،ص:۔۱۳۲@@ا،ص:۔۱۳۳ ۴۲ایض@@ا،ص:۔۱۳۴ ۴۸ایض@@ا،ص:۔۱۳۵ ۴۹ایض@@ا،ص:۔۱۳۶ ۶۹ایض@@ا،ص:۔۱۳۷ ۵۵ایض@@ا،ص:۔۱۳۸ ۵۶،۵۷ایض@@ا،ص:۔۱۳۹ ۴۷-۴۶ایضاایت نمبر:۔۱۴۰ ۷۳القران،سوۃ التوبہ،اایت نمبر:۔۱۴۱ ۳۹القران،سورۃ انفال۔۴۰۱ء ص:۱۸۹۷ ء تا۱۸۹۴مرزا غلام احمد قادیانی ،مجموعہ اشتہارات،جلد دوم،۔۱۴۲اایت نمبر:۔۱۴۳ ۴۰القران،سورۃاحزاب،اایت،نمبر۔۱۴۴ ۳القران،سورۃ المائدہ،،حاش یہ تحفہ گ ولڑویہ،نظ ارت اش اعت رب وہ،۱۷غلام احم د قادی انی،روح انی خ زائن،جل د ۔۱۴۵

۱۶۵ء،ص:۲۰۰۸۷۷مولانا ظفرعلی خان ،کلیات،چمنستان،ص:۔۱۴۶@@ا،ص:۔۱۴۷ ۱۴ایضہت ظفرعلی خان،مجموعہ ارمغان قادیانیت،ص:۔۱۴۸ ۱۳چراغ حسن حسرت،مشمولہ دیباچہ،کلیا۱۵۲مولانا ظفرعلی خان،کلیات،بہارستان،ص:۔۱۴۹ہت ظفرعلی خان،مجموعہ ارمغان قادیانیت،ص:۔۱۵۰ ۱۵ چراغ حسن حسرت،مشمولہ دیباچہ،کلیا

Page 375: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

374

باب ششم:

ف_ بحث حاص

مقالے کے پچھلے پ انچ اب واب میںمولان ا ظف رعلی خ ان کی شخص یت اورش اعری ک امغربی اس تعمارسان کی شخص یت اور ش اعری پ ر دلائ ل کے س اتھ کی مزاحمت کے حوالے س ے تحقیقی ج ائزہ لی ا گی اہے۔

Page 376: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

375

سان مب احث ک ا مح اکمہ ی ا نچ وڑ’’مجم وعی ساص ولوں کے مط ابق اب تفص یلی بحث ہ و چکی ہے ۔تحقیقی جائزے‘‘کے عنوان سے پیش کیا جائے گا۔

’’مولانا ظفرعلی خان کی شاعری میں مغ ربی اس تعمار کے خلاف مزاحم تی رویے‘‘کے عن وان س ے پی۔ایچ۔ڈی سطح کے اس مقالے کے پہلے باب میں مولانا ظفرعلی خان کی شخصیت پر تفصیلی گفتگ و ہوئی ہے۔مولانا کے خاندانی پس منظر س ے ث ابت ہوت ا ہے کہ وہ ای ک علمی اور م ذہبی خ انوادے س ے تعل ق رکھتے تھے۔خاندان کی قرب انیوں پ ر ت اریخ ش اہد ہے ۔جس کی ای ک مث ال ان کے پ ردادا محم د حس ین ک ا مذہب کے لیے جان ک ا ن ذرانہ پیش کرن ا ہے۔دادا مول وی ک رم الہی معلمی ک ا پیش ہ اختی ار ک رکے عم ر بھ ر درس وتدیس سے وابستہ رہے۔والد صاحب مولوی سراج الدین جو کہ اپنے دور کے بہت بڑے عالم دین تھےہر زم انہ اخب ار ’’زمین دار‘‘ کے بھی ای ڈیٹر رہے۔جب کہ کبھی م ذہب کی نش ر و اش اعت کے س اتھ مش ہو کبھی شعر شاعری بھی کیا کرتے تھے۔علم و ادب سے وابستہ گھرانے میں پرورش پا کر مولانا ظفرعلی خ انسان سان میں مولانا شبلی نعمانی کا نام سرفہرست ہے۔سید جم ال ال دین افغ انی نے جن اساتذہ سے فیض پایا سان کو انگریز کی منافقانہ پالیسیوں ،اسلام دشمنی اور ریاس تی در ان دازیوں کے روحانی پیشوا تھے جنھوں نے کی بھیانک چہرے پر غور کرنے پر مجبور کیا۔ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ ایک تنگ نظر ،فرسودہ روای ات کے حامل مدرسے کا پڑھے ہوئے قدمت پس ند مول وی تھے بلکہ اپ نے دور کے جدی د تعلیم س ے بہ رور،علی گ ڑھ

اارنلڈ کے شاگرد رتھے۔ کے فارغ التحصیل تھے ۔سرسید اور سان کی شخص یت خاندانی روایت ،والدین اور استاتذہ کی پ رورش کی وجہ س ے م ذہب س ے لگ ائو سان کے کا جزو لاینفک بن گیا۔ہب کے حوالے سے زندگی کے کسی موڑ پر سمجھوتہ نہ کر سکے۔ مذہب اانے ک ا ش بہ ہوت ا ت و پھ ر نہ وہ شخص یت ک و لیے ہر چیز پ ر مق دم تھ ا۔جب م ذہب کی بالادس تی پ ر ح رف سان کے اک ثر دیکھتے تھے،نہ کسی فرد، ادارے،جماعت یا ریاس ت کی پ رواہ ک رتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ سان س ے ن الاںرہتے تھے۔اپ نے اپ نے عہ د کے ن ابغہ روزگ ار دوس ت ،ادیب،سیاس ی و ص حافتی حلی ف اازاد،حس رت موہ انی، ش ورش کاش میری، عن ایت اللہ محققین ،ناق دین اور اہ ل قلم جن میں مولان اابوالکلام نسیم سوہدروی،اشرف عطا، ڈاکٹر غلام حسین ذولفقار،ڈاکٹر نظیر حس نین زی دی،ڈاک ٹر گ وبی چن د نارن گ اور ڈاک ٹرمعین ال دین عقی ل کے ن ام اہمیت کے حام ل ہیں۔ان س ب نے مولان ا ظف رعلی خ ان کی

Page 377: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

376

شخصیت ،قومی و مذہبی خدمات اور فن پ ر روش نی ڈالی ہے ۔ان تم ام م وقر اہ ل قلم کی مولان ا کے متعل قاازادی کی منظ وم داس تان ہے لیکن وہ ای ک غ یر سان کی ش اعری ہندوس تان کی تحری ک یہی رائے ہیں کہ

سان کی زیادہ ترنظمیںہنگامی ہیں۔ مستقل مزاج شخصیت کے مالک تھے اور سان ک و وقت کی یقینا مولانا ظفر علی خان کے مزاج میں تلو ن اور تیزی ک ا م ادہ زی ادہ تھ ا ۔ش اید

ہق رفتاری کا اندازہ بر تھا کہ قلیل وقت میں زیادہ کام کرنے کے لگن میں وہ ہر لمحہ مصروف عمل رہ تے ۔جب ت ک رو بص حتااش نائی ک ا ثب وت ف راہم ک رتے رہے۔یہ ال زام کہ وہ زی ادہ دی ر ہشکست جیسے لفظوں س ے ن ا رہے تو تھکن اور اازاد کے مطابق وہ مکان سرعت کے ساتھ بناتے تو تھے لیکن تیار ایک جگہ پر نہیں ٹکتے یامولانا ابوالکلام ااتے تھے۔بے شک مولانا کسی نظریے کا ساتھ دے کر بنیاد میں اپنا خون ش امل ساتر ہونے کے بعد ڈھانے پر سان کی س وچ کے مخ الف ک ردار اس نظ ریے میں ش گاف ڈال نے کی کوش ش ک رتے ت و کر لی تے لیکن جب سان کرداروں سے دشمنی کی ح د ت ک بگ ڑ ااکر اس کی بنیاد خود جڑ سے اکھاڑنے لگتے اور پھر طیش میں جاتے تھے۔مولانا کی شخصیت اور برصغیر کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے حضرات جانتے ہیں کہ مولاناااب اد کی ملازمت اور مس لم کے م زاج میں ش دت کے یہ ح والے بچپن س ے لے ک ر حی در لیگ،ک انگرس،تحری ک خلافت اورمجلس اح رار جیس ی ہمہ گ یر تنظیم وں،تحریک وں اور سیاس ی پ ارٹیوں کیااباد میں ملازمت کے دوران ہوم س یکرٹری ک ا ہج و ت ک لکھن ا ، اپ نے عہ دے کی نسبت موجود تھے۔حیدر مناسبت سے مہمان ات الوی کمپ نی کے ب رہنہ ڈانس پ ارٹی کے اختت ام پ ر ش کریے کے الف اظ پیش ک رنے کیسان کے مزاج میں ش امل ان مزاحم تی حوال وں کے اظہ ار ساسے غیر اخلاقی اور حیا سوز قرار دینے سے بجائے ااباد سے بھی نکلنا پڑا۔مسلم لیگ کی بنیاد رکھ نے ااغاز ہوا ۔جس کی وجہ سے ملازمت کے ساتھ حیدر کا ااہن گ نہ رہی ت و علیح دگی اختی ار کی۔ط رابلس اور سان کے نظ ریے س ے ہم وال وں میں س ے تھے لیکن جب سرکن بن گ ئے بلقان کی جنگوں میں عالمی سیاست کی ط رف راغب ہ وئے ت و تحری ک خلافت کے س رگرم سان کی س وچ اور نظ ریے ک و تق ویت مل تی تھی ۔ اس تعماری حک ومت کے خلاف ساس تحریک سے کیوں کہ ہندو مسلم اتحاد اور تحریک خلافت میں مسلمانوں کا ساتھ دینے کی خاطر کانگرس کا خیر خواہ بن گئے لیکن جہا ں بھی کانگرس کا کوئی فیصلہ مسلمانوں کی فلاح کے خلاف یا اسلامی اق دار س ے متص ادف

Page 378: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

377

رہا برس پڑ تے۔ خلافت کمی ٹی کے خ اتمے پ ر مجلس اح رار میں چلے گ ئے لیکن مس جد ش ہید گنج کے قضیے پر احراریوں کی سردمہری کی وجہ سے احراریوں کی مخ الفت میں مجلس اتح اد ملت کی بنی اد رکھسان کے نظ ریے س ے متص ادم ث ابت ہ وئی ،مس لم لی گ میں ش امل دی۔جب ک انگرس کی پالیس یاں مسلس ل ہوگ ئے ،پھرک انگرس س ے وابس تہ ارک ان میں کس ی ک و مع اف نہیں کی ا۔اس سلس لے میں پھ ر وہ اپ نے پ رائےااگے بڑھ تے تھے۔ان ت اریخی دلائ ل س ے ث ابت ہوت ا ہے کہ مولان ا کی اختلاف کی واح د وجہ دیکھے بغ یر سان کے مذہب ہوا کرت ا تھ ا ۔درجہ ب الا ش وہد کی روش نی میں ہم اس ن تیجے پ ر پہنچ س کتے ہیں کہ تب دیلی ااتی تھی ج وذاتی مف ادات ک و دیکھ ک ر مف اہمت ک ا راس تہ اختی ار ک ر مزاج میں نہیں لوگوں کے رویوں میں

لیتے تھے جب کہ مولانا ہمیشہ اس منافقت سے دور رہے۔ سال ایک پیشے سے وابستہ رہ سکتا ہے۔ایک فرمان بردار بیٹا،ایک مشفق۴۵جو شخص مسلسل

ساس تاد،ای ک اچھ ا بھ ائی اوربہ ترین ش وہرثابت ہ و س کتا ہے، بہ ترین دوس ت کی وں نہیں بن ب اپ،ای ک ش فیق سان پران حوالوں سے کیا جاتا ہے کہ وہ خ ود توکس ی ای ک تحری ک ت ک سکتا۔غیر مستقل مزاجی کا اعتراض محدود نہ رہ سکے اور دوسروں کووہ ٹوڈیوں ،کاس ہ لیس وں کے خطاب ات دی تے رہے۔ای ک مس لمان کی نکتہساس دور کا ہر مسلمان گزر رہ ا تھ ا ۔ ساس دور کا تجزیہ کیا جائے تو اس قسم کی کیفیت سے نگاہ سے اگر اانے لگ تی تھی مس لمان سامی د وابس تہ نظ ر جس شجر سے بھی اسلام اور مسلمان کی بق ا اور بالادس تی کی سان لوگ وں ساس کی شاخوں سے چمٹ جاتے تھے یہی حال مولانا کابھی تھا ۔ مولانا ظفرعلی خان کا ش مار میں سے تو نہیں تھا کہ صرف دل ہی دل میں نیک خواہشات رکھ تے ہ وں،ی ا محض گفت ار کے غ ازی ب نےااتے تھے ۔مختلف ادوار میں مختل ف جم اعتوں اور ہوئے تھے بلکہ وہ تو میدان عمل کا سپاہی بن کر سامنے سان ک ا نظ ریہ ای ک رہ ا ۔ جس پ ر م رتے دم ت ک ق ائم رہے۔اس پ ر تحاریک کا حص ہ ض روررہے لیکن ہ ر جگہ ااس پاس رہنے والے لوگ رنگ بدلتے رہتے تھے۔ مولان ا اس دوغلے پن سان کے کسی کو بھی اختلاف نہیں۔سان ک و سان رنگوں کی عکاس ی ک رتے تھے۔ ان حوال وں نے کے عادی نہ تھے اور ایک شاعر کی حیثیت سے

سان کی شاعری پر ہنگامی شاعری کا مہر ثبت کیا۔ متلون مزاج مشہور کیا اور یہ تحقیقی ک ام اس ام ر پ ر دال ہے کہ مولان ا ظف رعلی خ ان کی ش اعری دائمی ق دروں پ ر مب نی ہے ،سوائے گنتی کی چند نظموں کے جو صحاقتی چپقلش ی ا سیاس ی اختلاف ات کی بنی اد پ ر لکھی گ ئی

Page 379: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

378

ااتی ہیں ج و ء کے بع د ک انگرس،گان دھی مخ الفت ی ا۱۹۳۱ہیں۔اس زم رے میں بالخص و ص وہ نظمیں سان کی س اری ش اعری پ ر انتخاب ات کے سلس لے میں مس لم لی گ کی حم ایت میں لکھی گ ئی ہیں۔ت اہم

ہنگامی ہونے کا مہر ثبت کرنا سراسر ناانصافی ہے۔سانھوں نے شاعری میں بھی لگی لپٹی لگانے کی بجائے براہ راست ب ات ک و عام زندگی کے مطابق ترجیح دی ہے۔مولانا شعری محاسن اور فنی لوازمات س ے خ وب واقفیت رکھ تے تھے ۔زب ان و بی ان پ ر کام ل عبور تھا۔ان کے ہاں پرانے الفاظ کا نئے مفاہیم میں خوب صورت استعمال پر مستزاد نئے تراکیب ک ا اخ تراعااتی ہے کہ مولانا ادبی دنیا کے ایک بہ ترین ش ناور تھے ،لیکن اپ نے دور اور ذخیرہ الفاظ سے یہ بات سامنے ااپ ک و ح تی الواس ع سانھوں نے علامتی و استعاراتی زب ان س ے اپ نے ااہونے کے لیے کے تقاضوں سے عہدہ بر بچانے کی کوشش کی اور فکر کے ابلاغ پر توجہہ مر کوز رکھی۔اس مقص د کے حص ول کی خ اطر انھ وں نے شاعری میں سادہ اور صحافتی زبان کا سہارہ لیا۔اپنے افکار کو عوام الناس ت ک پہچ انے کے ل یے انھ وں نے فنی لوازمات نہیں برتے۔فن پر مکمل عبور و گرفت رکھنے کے باوجود صحافتی پیرایہ اظہ ار کے انتخ ابسان کی ش اعری ک و ہنگ امی تخلی ق ک ا س رٹیفیکٹ عط ا کی ا۔ مولان ا کی نے مولانا کو یہ نقصان پہنچایا کہ شاعری پر یہ اعتراض کرنے والوں نے ان کی فکری جہات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور ف نی حوال وں کیسان کے کلام ک ا بلاا س تعیاب مط العہ بنیاد پر نتائج پیش کیے۔مغربی استعمار کی مزاحمت کے ح والے س ے کرنے سے راقم اس ن تیجے پ ر پہنچ ا کہ ان کے ہ اں فک ری رفعت اور دائمی اق دار کے بیش تر ح والے موج ود ہیں۔اردو شاعری کی تہذیبی ،سماجی اور سیاسی ق دریں ج و بیس ویں ص دی میں ای ک نی ا رن گ اختی ار ک رسان کی ش اعری م زین ہے۔بیس ویں ص دی ک ئی حوال وں س ے اہمیت کی حام ل جاتی ہے۔ان تمام رنگوں س ے صدی ہے۔اس صدی میں نئے تحاریک ،ن ئے افک اراور انس ان دوس تی کے فلس فے ک و ف روغ ملا۔اس ص دی سے وابستہ بڑے اذہان جس فکر کو ف روغ دی تے ہیں اس میں مولان ا ظف رعلی خ ان ک و نظ ر ان دازکرنا ت اریخیسان کے عظیم افکار سے انکار صداقت کا چہرہ مسخ ک رنے ک ا م ترادف ہوگ ا۔یہ ص دی ذہ نی اور حقائق اور ہد طب ع کی خ اطر مختل ف نظری ات سافت ا فکری انقلاب کی صدی کہلاتی ہے۔اس میں ہر بڑا تخلیق کار اپنی سے وابس تہ رہ ا۔مولان ا ک ا مس ئلہ فلس فہ اور نفس یات نہیں تھ ا بلکہ برص غیر کے باس یوں اور ع الم اس لام ک وسان کا خ واب تھ ا ۔س امراجی ج بر کے ہ اتھوں ان کے دکھ درد اور مظل ومیت ک و سپرامن دیکھنا خوشحال اور

Page 380: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

379

سان کے ش ب و روز س ے مولانا نے اپنی شاعری ک ا موض وع بنای ا۔اس فک ری جہت س ے وابس تگی ک ا ان دازہ سانھ وں نے اپ نی ذاتی زن دگی،ازدواجی زن دگی،گھریل و ذمہ لگای ا ج ا س کتا ہے ۔ اس مقص د کی خ اطر داریوں ،پدرانہ ذمہ داریوں پر ملی اور مذہبی ذمہ داری وں ک و ت رجیح دی۔ چ ودہ س ال قی د و بن د کی ص عوبتیںاامادہ رہے۔عالم اسلام اور بر صغیر کے مس لمانوں برداشت کرتے ہوئے مغربی استعمارکے ساتھ ہر وقت لڑنے پر ساس دور میں ہندوستانیوں سمیت پورے عالم اسلام کا سب کے مسائل ان کی شاعری کا مرکز و محور رتھے۔ سے بڑا مسئلہ مغربی استعمار کے جبر و تشدد سے نجات حاص ل کرن ا تھ ا جس کے ل یے مولان ا نے ص رف اپنے قلم کا استعمال نہیں کیا بلکہ عملی طور بھی اس جبر و تشدد کی مخالفت کا حص ہ رہے۔بدقس متیسانہیں مس ائل ک ا س امنا ہے ۔چ وں ااج بھی کم و بیش ساس وقت ج و مس ائل درپیش تھے سے عالم اسلام کو سان کی شاعری کی مرکزی اکائی مغربی استعمار کی مخالفت اور کہ مولانا نے انہیں مسائل کو موضوع بنایا۔ہہذا انہیں موض وعات نے ان کی ش اعری ک و ہنگ امی نہیں دائمی اق دار اسلام و مس لمان کی س ربلندی ہے ل

کے دائرے میں لائی ہے۔ مولانا ظفر علی خ ان ص رف ای ک ش اعر ہی نہیں بلکہ ای ک بہ ترین ص حافی اور ماہرسیاس یات بھی تھے۔ دنی ا میں رونم ا ہ ونے والے والے واقع ات پ ر ان کی گہ ری نظ ر تھی۔ دوس ری جن گ عظیم کے دورانہی سیاس ی بص یرت ان انہوں نے جو پیشن گوئیاں کی وہ حرف بح رف درس ت ث ابت ہ وئیں۔ ان کی یہی اعل کی شاعری میں بھی جگہ جگہ دکھ ائی دی تی ہے۔ وہ ای ک ش اعر اور ص حافی ہ ونے کے س اتھ س اتھ ای ک مورخ اوربین الاقوامی امور کے سیاسی ماہر بھی تھے۔ جنہوں نے تب دیل ہ وتی ہ وئی اس دنی ا ک و نزدی ک س ے

دیکھا اور اس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ مولانا کی مزاحمتی شاعری صرف ہندوستانی مسلمان تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے اس دور میں ہونے والی اس تعماری پالیس یوں کے بین الاق وامی اث رات ک ا ج ائزہ لی نے کی بھی کوش ش کی ہے۔ ت رکی میں خلافت ک ا خ اتمہ ، ط رابلس اور بلق ان کی جنگیں ، اس رائیل کاقی ام ، مش رق وس طی کی تقس یم یہ س ب ایسے بین الاقوامی موضوعات ہیں جن پرمولانا نے اپنی شاعری میں کھل کربات کی ہے اور اس سلسلے میں استعماری پالیسیوں کو کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جس سے ثابت ہوتاہے کہ مولانا ظف ر علی خ ان نے

Page 381: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

380

ااواز اٹھ انے میں بھی اہم ک ردار ادا کی ا ہے اور انہ وں نے ص رف بین الاق وامی س طح پ ر ان قوت وں کے خلاف ہندوستان تک خود کومحدود نہیں رکھا۔

اازاد ممال ک ک و غلام بنان ا، ظلم و اس تعماراپنی تص رف س ے ب اہر کی زمین وں پ ر قبض ہ کرن ا،ااغ از س ترویں اابادی اتی نظ ام کے قی ام ک ا ن ام ہے۔ہندوس تان پ ر مغ ربی تس لط ک ا جبر،تسلط،استحصال اور نو اام د س ے ش روع ہوات اہم ایس ٹ ان ڈیا کمپ نی کی صدی س ے پرتگ الی، ولن دیزی،فرانسیس ی اور انگری زوں کی

اائے ہوئے انگریز تجار ء ت ک مل ک ک ا ب ڑا۱۸۰۰ء تک باقی ممالک پر ب ازی لے گ ئے۔۱۷۵۵صورت میں ااچک ا تھ ا۔ سان کے زی ر تس لط سچکے تھے اور جن گ۱۸۵۷حصہ @@اپورے ہندوس تان میں پھی ل ء ت ک وہ تقریب

اازادی میں ناکامی کے بعد انگریز مالک اور ہندوستانی غلام بن گئے۔ہندوستان میںاستعمار کی مخالفت و مزاحمت چار مختلف صورتوں میں کی گئی۔

۔عسکری مزاحمت۱۔مذہبی مزاحمت۲۔ادبی مزاحمت۳۔صحافتی مزاحمت۴۔سیاسی مزاحمت۵

جہاں تک عسکری مزاحمت کی ت اریخ کی ب ات ہے ت و انگری زوں کے خلاف عس کری م زاحمتااغازمغل حکمران اورنگ زیب کے دور میں ہ وا۔جنھ وں نے کمپ نی کی ف وج ک و شکس ت دی تھی لیکن کا بع د میں مع ذرت و خوش امد س ے کمپ نی نے دوب ارہ تج ارتی مراع ات حاص ل ک یے۔عس کری م زاحمت ک ا

ء میں’’ جن گ پلاس ی‘‘مغ ربی اس تعمار کی۱۷۵۷دوسراسلس لہ بنگ ال میں س راج ال دولہ نے ش روع کی ا۔ مزاحمت میں لڑی گئی۔جنگ پلاسی کے بعد عسکری مزاحمت کا تیسراسلسلہ بکس راور میس ور کی لڑائی وں

ء میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے ساتھ یہ سلس لہ ختم ہ وا۔اس کے بع د انگری ز۱۷۹۹سے شروع ہوا تاہم ساج اگر ہ وئی اورعس کری م زاحمت استعمارکے خلاف مزاحمت سیاسی، اقتصادی،انتظامی اورمذہبی بنی ادوں پر

اائی ۔۱۸۵۷کی ص ورت میں اازادی کے بع د عس کری م زاحمت ک ا۱۸۵۷ء ک و س امنے ء کی جن گ سلسلہ ختم ہو اکیوں کہ اس کے بعدہندوستانیوں کے پاس عسکری طاقت باقی نہیں رہی۔

Page 382: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

381

ااگی ا ۔انگری زوں کی غلامی۱۸۵۷ ء کے بعد ہندوستان براہ راست برطانوی استعمار کے زی ر تس لط ااغاز ہو ا اور شعرا نے نے اصل معنوں میں وطن کی اہمیت کا احساس دلایا ۔ ادبی سطح پر ملی شاعری کا اازادی سے پہلے بھی اردو شاعری میں وطن سے محبت کا سحب الوطنی کے راگ الاپنے شروع کیے۔ جنگ ساج اگر کی ا۔عس کری تصور موجود تھا مگر سامراجی جبر ،استبداد و استحصال نے اس ک و ن ئے س رے س ے جنگ کی بجائے قلمی جنگ شروع ہوئی۔علماء نے مذہب کا سہارا لے کر انگریز کی مخالفت شروع کی۔ نثر نگاروں نے نثر میں جب کہ صحافیوں نے اخبارات کی صورت میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کی ا۔سیاس یااگئی۔یوں اس تعمار کے ااریہ سماج اور ہندومہاسبھا وغیرہ جماعتیں وجود میں سطح پر کانگرس ،مسلم لیگ ،

خلاف مزاحمت کے لیے ایک نیا محاذ کھل گیا۔@@ا کچھ حد۱۸۵۷ اازادی میں ناکامی کے بعدمزاحمت کی تاب نہ رکھتے ہوئے مجبور ء کی جنگ

ااغاز س ے ہندوس تان میں مزاحم تی تحریک وں ک ا تک مفاہمت کی کوشش کی گئی ۔تاہم بیسویں صدی کے ای ک نی ا سلس لہ ش روع ہ وا۔تقس یم بنگ ال ،تنس یخ بنگ ال ،سودیش ی تحری ک،ط رابلس و بلق ان کی جنگیںہدعم ل،رولٹ ایکٹ،جلی انوالہ اورپہلی جن گ عظیم س میت مس جد ک انپورکے واقعے پ ر ہندوس تانیوں ک ا رہک موالات،ستیہ گرہ،مجلس احرار، مس جد ش ہید گنج باغ،مارشل لاء،تحریک خلافت،تحریک عدم تعان،تر اور تحریک کشمیرمغربی استعمار کے خلاف کی گ ئی مزاحم تی روی وں کی عک اس تح ریکیں تھیں۔دوس ری جن گ عظیم میں ہندوس تان کی ش مولیت کے ح والے س ے وائس رائے ک ا اعلان اور ہندوس تانیوں کیاازاد ف وج کی مخ الفت اس سلس لے کی اہم مخالفت،کرپس مش ن کی مخ الفت ،س بھاش چن در ب وس کی سان کی اابادی ات پ ر کڑیاں ہیں۔جنگ کے نتیجے میں یورپی طاقتوں کوکافی نقصان ہوا جس کی وجہ س ے ن و ہت حال سے دوچار تھی۔جس نے جن گ کے گرفت کمزور ہوئی۔جنگ عظیم کے بعد برطانیہ بھی اسی صوراازاد کرنے کی حکمت عملی ترتیب دی دوسری طرف ہندوس تانیوں کی بغ اوتوں اور اابادیات کو دوران اپنی نو

اازاد کرنے کی حکمت عملی کو تیز ت ر ک ردی ۔ ی وں اازادی کی تحریکوں نے برطانیہ کے ء۱۹۴۷تحریک کو ہندوستانیوں کی کاوشیں رنگ لائی جو ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

ء کے بعد اس تعمارکے خلاف عس کری م زاحمت کے علاوہ ب اقی چ ار بنی ادی رنگ وں کے۱۸۵۷اازادی کی پوری تحری ک میں انف رادی حی ثیت حوالے سے دیکھا جائے تو مولانا ظفر علی خان کو جدوجہد

Page 383: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

382

حاص ل ہے۔ادبی س طح پ ر وہ نظم و ن ثر دون وں میں مخ الفت و م زاحمت ک رتے رہے۔ص حافتی س طح پ ر ’’زمیندار ‘‘واحد اخبار تھا جو م الی مف ادات ی ا ص حافتی مجبوری وں س ے ب الا ت ر ہ و ک ر ہ ر مح اذ پ ر مغ ربیااکر’’ زمیندار‘‘ کومسلسل بندشوں،قرقی وں اور استعمار کا مخالف رہا۔یہی وجہ تھی کہ انگریز کے زیر اعتاب جرمانوں کا سامنا کرنا پڑا۔سیاسی حوالے سے پہلے کانگرس پھر مسلم لی گ ک ا س رگرم رکن ہ ونے کے س اتھ خلافت کمیٹی،مجلس احراراور مجلس اتحاد ملت کے م رد می دان رہے۔م ذہبی ح والے س ے مم بر و مح راباان و حدیث کی روشنی میں دلائل سے انگریز استعمار کی مخالف تقرریں کے علاوہ جلسے جلوسوں میں قر کرتے تھے۔’’زمیندار‘‘اور ’’ستارہ صبح‘‘میں جعلی پیروں،نقلی صوفیوں اور نبوت کے جھوٹے دعوی داروں کےاان خلاف لکھے گئے مضامین کی وجہ سے جرمانوں کی ادائیگی کے علاوہ بند ہونا بھی پڑا۔شاعری میں ق راای تیں ،ح دیث کے ح والے پیش ک رنے کے علاوہ پ وری کت اب’’ارمغ ان قادی انیت‘‘م ذہبی ح والے س ے کی اس تعماری فت نے کی م زاحمت میں لکھ ک ر ش ائع کی۔یع نی وہ ای ک وقت میں اس تعمار م زاحمت کی ہ ر

ممکنہ حربے کو استعمال کرتے رہے ۔ ء تک نوے س ال ک ا۱۹۴۷ء سے ۱۸۵۷ہندوستان پر برطانوی حکومت کا براہ راست تسلط کا

ایک طویل دورانیہ بنتا ہے۔اس دورمیں بیرونی دنیا میں بھی کئی تبدیلیاں رونم ا ہ وئیں،پہلی جن گ عظیم س ےسچک ا ہے۔ لے کرخلافت ترکیہ کا خاتمہ اور دوسری جنگ عظیم میں یورپی دنیا کا اص ل چہ رہ بے نق اب ہ و ہندوستان میں مغل حکومت کے بعد برطانوی حکومت ش روع ہ وئی ت و دون وں ک ا م وازنہ ش روع ہ وا۔بدقس متی

سامور۱۷۰۷سے اایا جوباقی انتظامی ء میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعدکوئی ایسا مغل بادشاہ نہیں ساٹھ ا تے ہ وئے کے ساتھ ملک کے دف اع پ ر ت وجہہ دی تے دوس ری ط رف ایس ٹ ان ڈیا کمپ نی وقت ک ا فائ دہ اادھی ص دی گ زرنے کے تجارت کی بجائے اقتدار کے حصول کے لیے حکمت عملی تیار ک ر نے لگی اور بعد کمپنی اس قابل ہوئی کہ بنگال میںسراج الدولہ ک و شکس ت دے س کی اور پھ ر پ وری ای ک ص دی کےااخری برائے نام بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو معزول کرکے باقاعدہ ط ور پ ر برط انوی حک ومت اپ نے بعد مغل کے

اقتدار کا اعلان کر گئی۔ ڈیڑھ صدی سے استعماری طاقتیں ہندوستانیوں کا خون چوس رہی تھیں۔بادشاہوں کودھیرے دھ یرےاادھ بادش اہ کی حکم رانی لال قلعے تک محدود کیا گیا تھا۔اب ایسی حکومت جواورنگزیب کے بعد ای ک

Page 384: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

383

کے علاوہ سرے سے حکومت ہی نہیں رہی تھی ک ا م وازنہ کن بنی ادوں پ ر کی ا جاس کتا ہے۔بدقس متی س ے استعماری پالیسیوں کی وجہ سے حقیقت کچھ اور شکل اختیار کر گئی ،ایک خاص قس م ک ا م احول بنای ااازادی کے بعد بھی وسائل اور کوئی مربوط نظام نہ ہونے کی وجہ سے استعماری حکومت کی پالیس یاں گیا ۔

ااج تک برطانوی حکومت کوبہتر تصور کیاجاتا ہے۔ اپنائی گئی جن کے نتیجے میںسان ک ا اس میں ک وئی ش ک نہیں کہ کمپ نی نے اس تعمارکے اقت دار کے ل یے ج و اص لاحات ک یے سانھیں اتن ا بڑھ ا چڑھ ا ک ر پیش کی ا گی ا جن کے ب دلے میں ک یے فائدہ ہندوستانی باشندوں کو بھی ہ وا لیکن سگنا زیادہ استحصال کو پس پشت ڈالا گیا۔مسلسل بدامنی جو خ ود اس تعماری حک ومت کی پی دا گئے ہزار سان کی ض رورت تھی کردہ تھی کو کم کرکے امن بحال کیا۔کالج ،مدرسے کھولے گ ئے جن ک ا قی ام خ ود سامور کے لیے انھیںہندوستانی تعلم یافتہ افراد درکار تھے ۔خام مال کی ترس یل اور ہندوس تانی کیوں کہ انتظامی ااوروں سے بچائوکے لیے ریلوے لائن،ٹنل،پل وغیرہ بنائے گ ئے۔اپ نے کارخ انوں کے سرحدات کو بیرونی حملہ اابپاش ی ک ا نظ ام بہ تر کی ا گی ا۔اس تعماری لیے ،پٹ سن ،کپاس و غیرہ کی ضرورت کو پورا ک رنے کے ل یے پالیسیوں کی تشہیر کے لیے پریس قائم کی ا گی ا لیکن ہندوس تانیوںکی زب ان پ ر لگ ام لگ انے کے ل یے ’’پ ریسااراک ا اظہ ار ک رتے رہے۔اس ایکٹ‘‘ جاری کیا گیا۔تاہم’’ پریس ایکٹ ‘‘کے نفاذ کے باجود ہندوستانی اپ نی کے علاوہ یہ کہن ا کہ انگری زوں نے ہندوس تان ک و ت رقی کے راس تے پ ر گ امزن کی ا۔ن ئی تعلیم اور جدی د ٹیکنالوجی س ے روش ناس کروای ا بالک ل غل ط ہے۔ یہ ت و دراص ل وقت کی ض رورت اورپ وری دنی ا کی تہ ذیبی شائس تگی اور ت اریخی تسلس ل ک ا ن تیجہ ہے اس ک و کس ی مل ک کے س اتھ اور بالخص وص ہندوس تان کے حوالے سے انگریز کے ساتھ وابستہ کرنا مکمل نا انصافی ہے ۔مغ ربی ط اقتوں کی دران دازیوں س ے پہلے مغ ل دور حکومت میں ہندوستان ان حوالوں سے دنیا سے براب ری کے مق ام پ ر تھ ا۔ تہ ذیبوں کے اس ارتق ائی س فر میں خود ہندوستان ک ا بھی اپن ا حص ہ ہے ۔مغ رب کے مق ابلے میں مش رق اور مس لمانوں ک ا علمی ورثہ کتن ا

مستحکم ،وسیع اور قدیم ہے اس حقیقت سے مغرب بھی منکر نہیں ہے۔ استعماری حکومت کا ہندوستان میں اپنا اقتدار قائم کرنے میں سب سے کامیاب حربہ ’’پھوٹ ڈال و اور حک ومت ک رو‘‘ تھ ا۔جن لوگ وں ک و تقس یم در تقس یم کے عم ل کے نقص انات اور اس کے پیچھےسانھوںنے ہر وہ ممکن کوشش کی جس کے کارفرماعناصر کا پتہ تھا وہ اس پالیسی کے سخت مخالف تھے ۔

Page 385: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

384

سان ذریعے اس عذاب کا تدارک ممکن ہو۔اس لیے مولانا ظفرعلی خان نے ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا۔سچکی تھی جس کے ذریعے وہ جیت س کتے تھے کے خیال میں ہندوس تانیوں کے پ اس یہی ای ک ط اقت رہ اور غلامی سے نجات پا سکتے تھے۔ہندوستان میں فسادات اور ہندو مسلم تنازعات اور اس کے ن تیجے میں تقس یم کے س ارے مراح ل ک ا ذمہ دار مغ ربی س امراج تھ ا۔ مولان ا ظف رعلی خ ان کے مط ابق اس تعماریپالیسی’’پھوٹ ڈالو ‘‘کو ہم نے خود اختیار کی اور اپنے پائوں کو تیشے سے مار کر خود کومع ذور ک ر دی ا۔ انگریزوں نے اس کام کے ل یے ہن دو انتہ ا پس ند وں اور مس لمانوں کے چن د ٹک وں پ ر بیچ نے والے مٹھی بھ ر ض میر ف روش اور اس لام ف روش ملائ وں ک و خری د لی ا جنھ وں نے مل ک ک ا امن برب اد ک رکے انگری زوں کواپ نےااستین کے سانپوں کے علاوہ ہندوئوں کے ب ڑے مقاصد میں کامیاب کر ڈالا،میر جعفر اور میر صادق جیسے

سان کے لیے راستے ہموار کرتے ر ہے ۔ بڑے لیڈر اورمسلمانوں کے مذہبی پیشوابھی ع: ’’مالوی‘‘ بھی علتی اور ’’مولوی‘‘ بھی علتی

پلاسی سے لے کر اازما۱۹۴۷جنگ نبرد ہندوستانی استعماری طاقتوں سے دو سو سال ء تک ساس وقت ملی جب رہے۔انفرادی ، اجتماعی،وسیع،محدود ہر سطح پر م زاحمت ج اری رکھی لیکن کامی ابی اازادی سان کے مفادات کے منافی رہا۔جدوجہ د اابادیات پر مزید قبضہ خود برطانوی حکومت کمزور ہوئی اور نوااپس کے اختلافات ،ہندو مسلم،مسلم سکھ فس ادات اور میں ہندوستانی تحریکوں کی ناکامی کی بڑی وجہ @@ا استعماری مقاصد کے لیے استعمال ہوئیں۔کبھی ہندو انگریز دوس تی،کبھی @@ا فوقت فرقہ واریت رہی۔یہ قومیں وقت مسلم انگریز دوستی،کبھی مسلم ہن دو اتح ادتو کبھی من افرت،مس لمانوں میں ک ئی گ روہ اور فرق وں ک ا نم ود استعماری چالوں کا نتیجہ تھا۔چوں کہ انگریز تسلط سے زیادہ نقصان مسلمان ک و ہ وا،اس ل یے ردعم ل بھیاازادی سان کا زیادہ تھا۔مسلمان کا مسئلہ ہندوئوں کی ط رح ص رف انگری ز حک ومت ک ا خ اتمہ ی ا انگری ز س ے نہیں تھا بلکہ پورے عالم اسلام کے دکھ درد کا مداوہ ،ایک اس لامی مملکت ک ا قی ام ،اس لامی اق دار ک اسان کے منشور میں شامل تھا۔اس لیے انگریز جبر و تشدد کا نشانہ زیادہ نفاذاور استعماری جبر تشدد کاانتقام اازادی کے ذمہ دار مسلمان ٹھہرائے گئے،ہن دو ب ری تر مسلمان رہے۔تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو جنگ ااگے نک ل گ ئے جب الذمہ قرار دیے گئے۔انگریز سرکار کوتسلیم کرتے ہوئے ہندوتعلیم و ترقی کے می دان میں کہ مسلمان قطع تعلق پر جمے رہے۔سرسید کی کوششوں سے مفاہمت کی فضا ض رور ہم وار ہ وئی جس ک ا

Page 386: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

385

اظہار تقسیم بنگال،لارڈ منٹو اص لاحات اور مس لم لی گ کے قی ام کی ش کل میں ہ وا۔اس دور میں مس لمانسان کی یہ غل ط فہمی تنس یخ بنگ ال کے اعلان کے س اتھ ہی انگریز کو اپنا خیر خو ا مان چکے تھے لیکن

ء ت ک پہلی جن گ عظیم میں۱۹۴۷ء میں طرابلس و بلقان کی جنگ وں س ے لے کر۱۹۱۱ختم ہو گئی۔ انگریز کے حریف ترکی کا ساتھ دینا ،مسجد کانپور کا واقعہ،جلیانوالہ باغ،خلافت ت رکیہ کے ٹک ڑے ٹک ڑے کرنا، مسجد شہید گنج،قضیہ مغل پورہ،تحریک کشمیر اورمس ئلہ فلس طین جیس ے ملکی اور غ یرملکی واقع ا ت میں انگری زوں کی اس لام دش منی اور مس لمان دش منی کے ب اعث انگری ز مس لم مف اہمت ک ا س وال ہیاازادی کے بعدہن دوئوں ک و کچھ نہیں کہ ا گی ا۔تقس یم بنگ ال س ے پی دانہیں ہوتاتھ ا۔دوس ری ط رف جن گ مس لمانوں ک و خوش ی ہ وئی ت و تنس یخ ک ا اعلان ہ وا۔تحری ک خلافت میں ہن دوئوں نے س اتھ ت و دی ا لیکن علیحدگی پر پوری تحریک کو ناکام بنا دیا جس کے نتیجے میں مس لمانوں کے تش خص ک و ک افی نقص انساس ساس کافائدہ انگریز کو ہ وا۔ک انگرس انگری ز تعلق ات ک ا تج زیہ کی ا ج ائے ت و پہنچا۔ کانگرس نے جو کیا کی م زاحمت اور مف اہمت ہن دو مف ادات س ے وابس تہ رہی۔اس ل یے ہن دو مس لم فس ادات اور اختلاف ات میںاازادی ااتی ہے۔جن گ سان کی نمائندہ جماعت ک انگرس پ ر مسلم لیگ کے مقابلے میںزیادہ ذمہ داری ہندو اور مشترکہ مف ادات کے تحت ل ڑی گ ئی ت و ہن دوئوں نے اپ نی ج ان بچ انے کی خ اطر مس لمانوں ک و م ورد ال زامساج اگر کی اجس کی وجہ س ے ہن دو مس لم اختلاف ات میں اض افہ ہ وا۔ سانہیں نے ٹھہرایا۔اردو ہندی تنازعے کو

ء میں تقسیم بنگال کا فیصلہ ہوا جس کاانتظامی ح والے س ے مس لمانوں کوفائ دہ تھ ا ت و ہن دئوں نے۱۹۰۵ ء میں لکھ نئو پیکٹ۱۹۱۶فسادات کا سلسلہ شروع کرکے حکومت کو تنسیخ کے اعلان پ ر مجب ور کی ا۔

ء میں تحریک خلافت کی کامیابی کو ناکامی میں بدل کر سول نافرم انی کی تحری ک۱۹۲۲منظور ہوا تو ء میں سائمن کمیشن۱۹۲۷ختم کرنے کا اعلان کیا۔شدھی اور سنگھٹن کے ہنگامے اس پر مستزاد تھے۔

ساس۱۹۳۵کے بائیکاٹ سے لے ء ایکٹ کے نفاذ تک مسلم لیگ ساتھ چلن ا چ اہتی تھی لیکن ک انگرس ء کے انتخابات میں مسلم لیگ خوش گوار ماحول میں مخل وط وزارت وں۱۹۳۷کے وجود سے انکاری تھی۔

کی متمنی تھی جب کہ کانگرس انکار کر گئی۔کانگرس کے اندر مسٹر نرم ان اور ڈاک ٹر سیدمحمودجیس ےسان ک ا اازاد’’ان ڈیا ونس فری ڈم‘‘میں مس لمانوں کے س اتھ ج و س لوک کی ا گی ا خ ود ک انگرس ص در اب والکلام سچکے ہیں۔کرپس مشن کی ناکامی پ ر جب خ ود ک انگرس کے وزی ر راجاگوپ ال نے اق رار کی ا کہ اگ ر ذکرکر

Page 387: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

386

اازادی کے راستے سے رک اوٹ ختم ہ و ج ائے گی ۔ن تیجے کانگرس مسلم لیگ کے مطالبات تسلیم کرلے تو ہی دی نے پ ر مجب ور کی ا گی ا۔ ء کے انتخاب ات میں مس لم لی گ کی۱۹۴۶-۴۵میں راجا گوپ ال ک و اس تعف

ااگئی لیکن کابینہ مش ن پلان میں پھ ر پ رانے رویے س ے ب از شاندار کامیابی پر کانگرس برابری کی سطح پرتو اائی۔اس ل یے یہ کہناغل ط نہ ہوگ ا کہ مس لم لی گ نے نہیں ک انگرس نے ہندوس تان ک و تقس یم کی ا ورنہ نہیں

سچکی تھی،وہ ت و ک انگرس ص در۱۹۴۶مسلم لیگ ت و ء میں ک ابینہ مش ن پلان کے تج اویزات منظ ور ک ر سان پر ثابت کردیا کہ کانگرس کسی بھی صورت میں ساتھ چلنے پر تیار نہیں۔ نہرو کے منتازعہ بیان نے

اازادی کے س ارے اہم واقع ات س ے ت اریخ برطانوی استعمار کے خلاف بیسویں ص دی میں تحری ک سان ت اریخی واقع ات ک و دہ رانہ نہیں تھ ا بلکہ کی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔اس تحقیقی کام ک ا مقص د ص رف ایک ادیب کی نکتہ نگاہ سے ان واقعات کا جائزہ اور تاریخی کتابوں میں پیش کیے گئے واقعات کے س اتھ اس کا موازنہ کرنا تھا تا کہ اصل حقیقت تک رسائی حاصل کی جائے۔عام تاریخ اور ادبی تاریخ میں ف رق یہ ہے کہ تاریخ دان اجتماعی تاثر کو دیکھ تاریخ رقم کرتا ہے جب کہ ادیب فرد کے انف رادی اور داخلی روی وں اور ردعم ل کی عکاس ی کرت ا ہے۔اس ل یے ادب کے ح والے س ے م ذکورہ ت اریخی واقع ات کی روش نی میں مولانا ظفرعلی خان کی شاعری کا مغربی اس تعمار کے خلاف کی گ ئی مزاحم تی روی وں ک ا تحقیقی ج ائزہاانے ساس دور میں پیش ادبی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ تصور کیا جائے گا۔مولانا کی ش اعری ص رف ساس کے سان واقع ات کے ف رد کے داخ ل و خ ارج پ ر اث رات اور والے واقعات کی منظوم داس تان نہیں ہے بلکہ

ردعمل میںپیدا ہونے والی مزاحمتی رویوں کی لفظی تصویر کاری ہے۔

Page 388: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

387

کتابیات:ااخذ:۱ ۔اولین م

ہر محشر،لاہور پریس ، ء۱۹۰۵ظفرعلی خان ،مولانا،شوء۱۹۲۶ظفرعلی خان ،مولانا،حبسیات ،مکتبہ کاروان،لاہور،ء۱۹۳۷ظفرعلی خان ،مولانا،بہارستان،مکتبہ کاروان،لاہور،ء۱۹۴۲ظفرعلی خان ،مولانا،نگارستان،مکتبہ کاروان،لاہور،

ء۱۹۴۴،چمنستان،مکتبہ کاروان،لاہور،ظفرعلی خان ،مولاناہن قادیانیت،مکتبہ کاروان،س۔ن ظفرعلی خان ،مولانا،ارمغا

ااخذ:۲ ۔ثانوی مساردو شاعری کا سیاسی اور تاریخی پس منظر،نشریات لاہور، ء۲۰۰۷ابوالخیر کشفی،ڈاکٹر،

نی ہند،)انڈیا ونس فریڈم کا اردو ترجمہ(مرتبہ،ہمایون کبیر،مکتبہ جمال،اردو بازار،لاہ ور، اازا اازاد،مولانا، ابوالکلام ۲۰۱۶

اازاد،مولانا اازادی،ایوب پریس،لاہور،ابوالکلام ء۲۰۱۲تحریک

Page 389: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

388

ساردو ، لکھنو، طبع دوم، ہغ ء۱۹۵۶احتشام حسین، سید،روایت اور بغاوت،ادارہ فرویول ، ء۱۹۸۹اختر حسین رائے پوری، ڈاکٹر،ادب اور ا نقلاب، نفیس اکیڈمی، کراچی، طبع ا

ساردو ادب میں احتجاج اور مزاحمت کے رویے اردو اکادمی ،دہلی، ہی کریم ، ڈاکٹر، ء ۲۰۰۴ارتضء۲۰۰۹ارشد سراج،قادیانیت ،احمدیت،مختصر تعارف،قندیل لاہور،جولائی

ء۲۰۱۳اسد علی خان،راجہ ،بابائے صحافت،مولانا ظفرعلی خان ٹرسٹ ،لاہور،نومبر یول، ن ملت کی تحریکیں،فیروز سنز، لاہور، بار ا ء۱۹۹۲اسد گیلانی، ڈاکٹر، برصغیر میں بیداری

ب،دستنبو،مترجم،پروفیسرخواجہ فاروقی،ترقی اردو،بیورو نئی دہلی، ۲۰۰۰ اسدللہ خاں، غالء۱۹۶۷ اشتیاق حسین قریشی،ڈاکٹر،ملت اسلامیہ،طبع کراچی یونی ورسٹی،

ء۱۹۶۲اشرف عطاء،ظفرعلی خان،طبع ،لاہورپریس،اپری ل ،۵اقب ال،علامہ،خطب ات اقب ال،م رتبہ،رض یہ ف رحت ب انو،ح الی پبلش نگ ہ ائوس کت اب گھ ر دہلی،

ء،۱۹۴۶۲۰۰۷ اقبال،علامہ،کلیات ،اکادمی پاکستان،لاہور،ااباد، اابادی،گاندھی نامہ،کتابستان،الہ ء۱۹۴۸اکبر الہ

ااباد، اابادی،کلیات ،حصہ اول،بہ اہتمام،رمضان علی،کریمی پریس،الہ ء۱۹۳۶اکبرالہ ہت جاوید، حصہ اول،انجمن ترقی اردو،ہند،دہلی، ی،مولانا،حیا ء۱۹۳۹الطاف حسین ،حال

ی،جل د اول،م رتبہ ڈاک ٹر افتح ا احم د ص دیقی،طب ع اول ، ہت نظم ح ال ی،مولان ا،کلی ا الط اف حس ین ،ح الء۱۹۶۸

ی،ایجوکیشنل بک ہاوس،علی گڑھ، ی،مولانا،مجموعہ نظم حال ء۱۹۹۸الطاف حسین ،حال ی،مولانا،مسدس ،بک ٹاک،لاہور، ء۱۹۱۶ الطاف حسین ،حال امتیاز محمد خان، کمال اتاترک،فیروز سنز،لاہور،س۔ن

ء۱۹۹۶انور رومان،پروفیسر،اقبال اور مغربی استعمار،بزم اقبال ،لاہور،مئی ااباد ء۲۰۰۷ایڈورڈ سعید،اسلام اور مغربی ذرائع ابلاغ ،مترجم:ظہیر جاوید ،مقتدرہ قومی زبان ،اسلام

ااباد، ء۲۰۰۹ایڈورڈ سعید،ثقافت اور سامراج مترجم:یاسرجواد،مقتدرہ قومی زبان ،اسلام

Page 390: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

389

ااباد، ء۲۰۱۲ایڈورڈ سعید،شرق شناسی،مترجم:محمد عباس،مقتدرہ قومی زبان، اسلام ،قومی کونسل برائے فروغ۱۸۰۰ تا ۱۰۰۰ایس۔ایم ،جعفر،تعلیم،ہندوستان کے مسلم عہد حکومت میں،

۱۹۸۰,اردو،نئی دہلی،،۲۰۰۵ایوب مرزا،ڈاکٹر،فیض نامہ،کلاسک لاہور،باردوم،

۲۰۰۷ااغاظفر حسین،ڈاکٹر،مزاحمت اور پاکستانی اردو شاعری،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی،ء۱۹۶۹باری علیگ، کمپنی کی حکومت،نیا ادارہ لاہور، طبع چہارم،

سبک فورٹ ،لاہور، ۲۰۱۵باری علیگ،تاریخ کا مطالعہ ،ء۱۹۸۵ برج نرائن چکبست، پنڈت ، لکھنوی،صبح وطن،نامی پریس ،لکھنو،

ء۲۰۰۸بشیرالدین محمود،قادیانی،مرزا،سیرت المہدی،جلد اول،ناظر اشاعت،فروری بہادر شاہ ظفر،دیوان،مشورہ بک ڈپو،رام نگر،گاندھی نگر،دہلی،س۔ن

ساردو بی ورو، ن ئی دہلی، نی نی ہن د، جل د چہ ارم)م ترجم: ع دیل عباس ی(ت رق اازاد ہخ تحریک تارا چند، ڈاکٹر، تاریء۲۰۰۲طبع دوم ،جون

ساردو بیورو، ن ئی دہلی، طب ع نی نی ہند، جلد دوم )مترجم: عدیل عباسی(ترق اازاد ہخ تحریک تارا چند، ڈاکٹر، تاریء۲۰۰۱دوم ،دسمبر

ساردو بی ورو، ن ئی دہلی،طب ع نی نی ہند، جلد سوم)مترجم: عدیل عباس ی(ت رق اازاد ہخ تحریک تارا چند، ڈاکٹر، تاریء۲۰۰۱دوم،

ساردو بیورو،ن ئی دہلی، یول )مترجم: قاضی عدیل عباسی( ترقی نی ہند، جلد ا اازاد ہک ہخ تحری تارا چند، ڈاکٹر،تاریء۱۹۹۸طبع دوم،

ء۱۹۶۰تلوک چند محروم،کاروان وطن،مکتبہ جامع لمیٹڈ،نئی دہلی،طبع اول یول )ترجمہ: غلام رس ول مہ ر(مجلس ت رقی ادب، لاہ ور، طب ع دوم، یصہ ا اارنلڈ جے،مطالعہ تاریخ، ح ٹائن بی،

ء۲۰۰۷ جاوید اقبال، ڈاکٹر،اسلام اور پاکستانی تشخص )ترجمہ: سید قاسم محمود( اقبال اکادمی، پاکستان ، طب ع

یول، ء۲۰۱۲ا

Page 391: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

390

ء۱۹۹۵جعفر بلوچ،علامہ اقبال اور مولانا ظفرعلی خان ،اقبال اکادمی،پاکستان،یول، ہش ہند، تخلیقات، لاہور،اشاعت ا ء۱۹۹۲جواہر لال، نہرو،تلاء۱۹۴۲جواہر لال، نہرو،جگ بیتی، حصہ اول،برقی پریس، دہلی،

اابادی اتی نظ ام، ماض ی اور ح ال)م ترجم: ڈاک ٹر ظف ر ع ارف( ، ک راچی جی ورجی رودنیک و، اس تعماری اور نواسٹڈی سرکل ،س۔ن

ااباد،نومبر سبک پاونڈیشن،اسلام ت،مردم دیدہ،مرتب،محمد عارف،نیشنل ء۲۰۱۵چراغ حسن، حسرء۱۹۸۸حسرت کاسگنجوی،بیسویں صدی کا اردو ادب،اردو اکیڈمی، کراچی،

ء۱۹۶۷ حسن ریاض،سید،پاکستان ناگزیر تھا،شعبہ تصنیف وتالیف،ترجمہ،جامعہ کراچی،طبع اول،سوٹا، طیب پبلشرز ، لاہور، ۲۰۰۴حسین احمد مدنی، مولانا، سید ،برطانوی سامراج نے ہمیں کیسے ل

ء۲۰۱۶حمزہ علوی،جاگیرداری اور سامراج،فکشن ہاوس،ااباد،انڈیا، ۱۹۳۴داغ دہلوی،دیوان،رام نرائن لال،پریس الہ

یصہ، نص رت پبلش رز، لاہ ور، اازادی میں اردو ش اعری ک ا ح درخش اں ت اجور، ڈاک ٹر، ہندوس تان کی جدوجہ د ء۱۹۹۱

۲۰۱۵ڈبلیو۔ایچ۔مورلینڈ،اکبر سے اورنگزیب تک ،،مترجم،جمال صدیقی،جمہوری پبلیکشنز، لاہور،ء۱۹۱۵رام گوپال،انڈین مسلم)انگریزی(،ایشیا پبلشنگ،بمبئی،

یول ، ء۱۹۹۳رشید امجد، ڈاکٹر،شاعری کی سیاسی و فکری روایت،دستاویز مطبوعات، لاہور بار اساردو ، بیورو، نئی رفیق زکریا، ڈاکٹر،ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کاعروج)مترجم: ڈاکٹر ثاقب انور( ترقی

ء۱۹۸۵دہلی ،ء۱۹۷۶سجاد ظہیر،روشنائی،شرکت پرنٹنگ پریس،لاہور،جنوری

ہت ہند،اردو اکیڈمی سندھ،کراچی، ء۱۹۵۷سرسید احمد خان،اسباب بغاوء۱۹۶۳سرسیداحمد خان،مقالات سرسید،جلد سیزدہم،لاہور،

۱۹۴۶سوامی دیانند سرسوتی،ستیارتھ پرکاش،مترجم،چموتپی ایم۔اے،نامی پریس لاہور،ء۱۹۵۲سید سلیمان ندوی،برید فرنگ،مکتبہ الشرق،کراچی،

Page 392: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

391

ساردو نظم وں میں، ایجوکیش نل پبلش نگ ہ ائوس، دہلی اازادی اور جمہ وریت ک ا تص ور شائستہ نوش ین، ڈاک ٹر ،یول ، ء۲۰۰۸اشاعت ا

ء۲۰۰۷شبلی نعمانی ،کلیات ،دارالمصنفین،شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ )یوپی( انڈیا،اائینہ ادب، ء۱۹۸۶شبیر بخاری،میکاولے اور برصغیر کی نظام تعلیم،لاہور،

ء۱۹۰۵شورش کاشمیری،ظفرعلی خان،اردوپریس،لاہور،ء۱۹۰۵شورش کاشمیری،قید فرنگ،اردو پریس ،لاہور،

شوکت فہمی،ہندوستان پر مغلیہ حکومت، دین دنیا پبلشنگ کمپنی، دہلی، س۔نء۲۰۱۱طاہرہ صدیقہ ،دوسری جنگ عظیم کے اردو ادب پر اثرات، الوقار پبلی کیشنز، لاہور ،

یول ، ء۲۰۰۷ظفر حسین ،ڈاکٹر ،مزاحمت اور پاکستانی اردو شاعری،ایجوکیشنل ہائوس، دہلی اشاعت ا ظف رعلی خ ان ،مولان ا،زمین دار،ت دوین و ت رتیب، احم د س عید،مولان ا ظف رعلی خ ان ٹرس ٹ،جن وری -اپری ل ،

ء۲۰۱۲،ستمبر ۱۹۲۳ ظفرعلی خان ،مولانا،مضامین،انمول موتی،مرتبہ،ڈاکٹر صادق حسین،مولان ا ظف رعلی خ ان ٹرس ٹ لاہ ور،طب ع

ء۲۰۱۴دوم، ظفرعلی خان،مولانا،انمول موتی،مضامین ،)مولانا ظفر علی خان کی خ ود نوش ت سرگذش ت حی ات(م رتبہ،

ڈاکٹر صادق حسین، جلددوم، س۔ن ظف رعلی خ ان،مولان ا،زمین دار،ت دوین و ت رتیب، احم د س عید،مولان ا ظف رعلی خ ان ٹرس ٹ،س تمبر -دس مبر ،

ء۲۰۱۳،نومبر ۱۹۲۳ ظف رعلی خ ان،مولان ا،زمین دار،ت دوین و ت رتیب، احم د س عید،مولان ا ظف رعلی خ ان ٹرس ٹ،م ئی -اگس ت ،

ء۲۰۱۳،مارچ ۱۹۲۳ء۱۹۱۱ظفرعلی خان،مولانا،کلیات،مولانا ظفرعلی خان ٹرسٹ لاہور،

ہر ظف رعلی خ ان،جل د اول،ت رتیب و ت دوین ،احم د س عید،مولان ا ظف رعلی ظف رعلی خ ان،مولان ا،گفت اء۲۰۱۵خان ،ٹرسٹ،لاہور،مئی

یول، ء۱۹۶۳عبدالسلام خورشید، ڈاکٹر ،صحافت پاکستان و ہند میں، مجلس ترقی ادب، لاہور طبع ا

Page 393: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

392

ااپ بیتی ،مرتبہ،جے پرکاش نارائن،جمال پریس دہلی، ۱۹۶۹عبدالغفار خان،اازاد،سعید بک سنٹر،لاہور،س۔ن عبدالقوی ،دسنوی،ڈاکٹر،ابوالکلام

یول، ء۱۹۸۷عتیق احمد ،اردو ادب میں احتجاج، مکتبہ عالیہ، لاہوربار اغلام احمد ،قادی انی،م رزا،مس یح ہندوس تان میں،نظ ارت نش ر و اش اعت،قادی ان،گ ورداس پ ور،س ن اش اعت،

ء۲۰۱۶،ربوہ ناشر،س۔ن۷۹۸۱ء تا ۱۸۹۴ غلام احمد ۔قادیانی،مرزا، مجموعہ اشتہارات،جلددوم،نظارت پبلشر،

غلام احمد، قادیانی،مرزا،اپنی تحریروں کی رو سے ،جلد اول، اشاعت ربوہ،س۔نء۲۰۰۸،اشاعت ربوہ ،پاکستان،۱۵ غلام احمد، قادیانی،مرزا،روحانی خزائن،جلد

ہت پاکس تان، لاہ ور، طب ع اازادی میں پنجاب ک ا ک ردار، ادارہ تحقیق ا غلام حسین ذوالفقار ،ڈاکٹر، جدوجہد یول، ء۱۹۹۶ا

ساردو ش اعری ک ا سیاس ی وس ماجی پس منظ ر ،س نگ می ل پبلی کیش نز، لاہ ور، غلام حسین ذوالفقار ،ڈاک ٹر،ء۱۹۸۸

ہن ادب،لاہور، ء۱۹۶۷غلام حسین ذوالفقار ،ڈاکٹر،ظفرعلی خان ،ادیب و شاعر،مکتبہء خیابااازاد،کتاب منزل لاہور، ہت ء۱۸۵۹غلام رسول مہر،مولانا ،تبرکا

،دیوان،انتخاب،حسرت موہانی،مکتبہ میری لائبریری،لاہور، ۱۹۲۵غلام ہمدانی مصحفیء۲۰۰۸،حاشیہ تحفہ گولڑویہ،نظارت اشاعت ربوہ،۱۷ غلام ،احمد قادیانی،مرزا،روحانی خزائن،جلد

فاروق ملک،تخلیق پاکستان،خرم بکس اردو بازار،لاہور،س۔نسبک فائونڈیشن،طبع اول، ء۱۹۷۷ فرمان فتح پوری،ڈاکٹر،ہندی اردو تنازعہ،نیشنل

ااب ادی، مولان ا، ب اغی ہندوس تان )م ترجم: عبدالش اہد خ ان ش یروانی(، مکتبہ ق ادر، لاہ ور طب ع فضل حق خیر ء۱۹۷۴ثانی،

ہن پاکس تان و ہن د، چھ ٹی جل د،،پنج اب یونیورس ٹی، لاہ ور ، ہ مس لمانا فیاض محمود )مرتب(، تاریخ ادبی اتء۱۹۷۱

ہش حق )مترجم: ڈاکٹر سید عابد حسین(،گوہر پبلی کیشنز ، لاہور ، س۔ن گاندھی، مہاتما ،تلا

Page 394: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

393

اازادی اور اردو ش اعری،ق ومی کونس ل ب رائے ف روغ گ وپی چن د نارن گ،ڈاک ٹر ،ہندوس تان کی تحری ک ء۲۰۰۳اردو،نئی, دہلی،

ء۱۹۷۱لینن،سامراج اور سامراجی، دارالاشاعت ترقی ،ماسکو، ء۲۰۱۶مبارک علی ،ڈاکٹر، برطانوی راج: ایک تجزیہ،فکشن ہائوس لاہور،

ہد مغلیہ کا ہندوستان،فکشن ہائوس، لاہور، ااخری عہ ء۲۰۰۵مبارک علی، ڈاکٹر ،۲۰۱۴ مبارک علی،ڈاکٹر،پاکستان میں مارشل لاء کی تاریخ،تاریخ پبلیکیشنز،لاہور،سن اشاعت ،

یول ساردو اکادمی لکھنو ب ار ا ساتر پردیش مجاور حسین، سید، اردو شاعری میں قومی یک جہتی کے عناصر، ء۱۹۸۵،

ء۲۰۱۷محمد امین خالد،تحفظ ختم نبوت،مرکز سراجیہ،لاہور،ء۲۰۱۰ محمد امین خالد،ثبوت حاضر ہیں،جلد اول ،علم و عرفان،پبلشرز،لاہور،ء۲۰۱۱محمد امین خالد،ثبوت حاضر ہیں،جلد سوم ،علم و عرفان،پبلشرز،لاہور،ء۲۰۱۰ محمد امین خالد،ثبوت حاضر ہیں،جلددوم ،علم و عرفان،پبلشرز،لاہور،

ء۲۰۱۱ محمد امین خالد،ثبوت حاضر ہیں،چہارم ،علم و عرفان،پبلشرز،لاہور،ء۱۹۵۰محمد عبدالغفار،قاضی،حیات اجمل،انجمن ترقی اردو،دہلی،

ء،نئی دہلی۱۹۷۸ محمد عدیل عباسی،قاضی، تحریک خلافت،قومی کونسل برائے فروغ اردو ،۲۰۰۶محمد متین خالد،قادیانی راسپوٹینوں کے عبرتناک انجام،مکتبہ ختم نبوت،لاہور،

اازاد،کلیات،مرتبہ ڈاکٹر ہارون قادر،الوقار پبلی کیشنز،لاہور، ء۲۰۱۰ محمدحسین ا،کلیات، جلد دوم ، مرتبہ ڈاکٹر شمس الدین صدیقی ، مجلس ت رقی ادب ، لاہ ور ، مرزا رفیع محمد ،سود

ء۱۹۷۶یول، ہی علی بریلوی ،سید ،انگریزوں کی لسانی پالیسی،ایجوکیشنل کانفرنس ،کراچی طبع ا ء۱۹۷۰مصطف

مظفر عباس، ڈاکٹر،اردو میں قومی شاعری )نیا ایڈیشن( ،گوہر پبلی کیشنز ،لاہور،س۔نساردو، نئی دہلی، ء۱۹۹۳مظہر حسین، علی گڑھ تحریک :سماجی اور سیاسی مطالعہ، انجمن ترقی

Page 395: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

394

ساردو ک ا حص ہ، انجمن ت رقی اردو پاکس تان، اش اعت اول، اازادی میں ہک معین ال دین ،عقی ل، ڈاک ٹر،تحری ء۱۹۷۶

ن صبح ادب،اردو بازار،دہلی،فروری ن،کلیات،مرتبہ،ڈاکٹر انور الحسن،ادارہ ء۱۹۷۱مومن خان موم۱۸۷۴ میر تقی میر،کلیات ،مطبع ،منشی نار نول کشول،مارچ

۱۹۲۲میر درد،خواجہ،دیوان ،اردو،مطبع نظامی بدایوں،ہ خلافت )مترجم: ڈاکٹر نثار احمد اسرار( سنگ میل ،لاہور ، ء۱۹۹۱میم کمال، اوکے، ڈاکٹر،تحریک

اابادیات ،اردو کے تناظر میں،اکسفورڈ یونیورسٹی پریس، ء۲۰۱۳ناصر عباس نیر،ڈاکٹر،مابعد نو اابادی اتی عہ د کے اردو ادب کے ہس ن و اابادی اتی اور پ ناصر عباس،نیر،ڈاکٹر،اردو ادب کی تشکیل جدی د)ن و

ء۲۰۱۶مطالعات(اکسفورڈ ، پریس،اابادیاتی عہد کے اردو نصاب کا مابع د ن و ناصر عباس،نیر،ڈاکٹر،ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری)نو

ء۲ ۰۱۴اابادیاتی مطالعہ (سنگ میل،لاہور، ی ومولوی اشرف علی لکھنوی ، اارس اابادی،کلیات ،بصحت و حواشی ، مولانا عبدا لباری صاحب نظیر اکبر

ء ۱۹۵۱نول کشور پریس لکھنو ، ساردو پاکستان، کراچی اشاعت ہت شاعر،انجمن ترقی نظیر حسنین زیدی، ڈاکٹر، مولانا ظفر علی خان: بحیثی

یول ، ء۱۹۷۹اسغلام احمد قادیانی کے کارنامے،ندیم یونس پرنٹر، ء۲۰۰۱نور محمد ایڈووکیٹ،مرزا

ساردو شاعری کا مزاج،جدید ناشرین، لاہور، ااغا، ڈاکٹر، ء۱۹۶۵وزیر ولی،دکنی،دیوان،بہ اہتمام منشی ممتازعلی،مطبوعہ حیدر پریس دہلی،س۔ن

یول، ہر نو، لاہور، طبع ا ء۱۹۷۳ہمایوں ادیب، نیا سامراج، روسی کشور کشائی، مکتبہ افکااائینہ ادب لاہور، ء۱۹۷۰یامین خان،نامہ اعمال،جلد اول،

cer Lavan ,Journal of the American Academy of Religion,Vol. 42, Oxford University Press,(Jun.,

1974)

Page 396: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

395

Gilmatin,Mary."Colonialism/Imperialism".KeyConcepts in,Political

Geography,2009J.A. Hobson, Imperialism: A Study United

Kingdom Cosimo, 1902Michael O'Dwyer,India as i knew it,Mittal

publicatins,india,1988Richard symonds,The Making of

pakistan,Islamic book,service,Lahore,1967Romesh Dutt,The Economic history of

india,Vol,1,kegan paul LTD,1902Said, Edward , Culture and Imperialism. New

York: Knopf, 1994.Said, Edward , Orientalism. New York:

Pantheon Books, 1994.Surender Nath Benerjea,Humphrey Milford,A Nation in making,Oxford University

Press,London,1925 V.P.MENON,The transfer of power in

Indai,Princeston Universty press,America,1957 Zafar ali khan,indian press Act,Maulana Zafar

Ali Khan,Trust,LahorSp

۔رسائل و جرائد:۳ء۱۹۱۶الہلال،جولائی

۲۰۱۴فروری ، ماہنامہ۹۸، جلد، ۲ دارالعلوم،شمارہ،ء۱۹۳۵زمیندار،گولڈن جوبلی نمبر،لاہور،جنوری،

ااپ بیتی نمبر،ظفرعلی خان،لاہور،جون ء۱۹۶۴نقوش ، سہ ماہی ،ن معارف۴ ۔تواریخ ؍ دائرہ

Page 397: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

396

ہ پنجاب لاہور اردو دائرہ معارف اسلامیہ ) جلد پنجم ( دانش گاہء۱۹۷۱

الفیصل لاہور ، انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا ، سید قاسم محمود ء۲۰۰۸

ہت عالم ) جلد ہفتم (پروفیسر وہاب اشرفی ااباد تاریخ ادبیا پورب اکیڈمی ، اسلام ء۲۰۰۶

ہن پاک و ہند، فارسی ادب)جلد چہارم ( پنجاب یونیورسٹی ، لاہور ہت مسلمانا ہخ ادبیا تاریء۱۹۷۱

ہغ اردو زبان ، نئی دہلی(Iجامع انسائیکلو پیڈیا ) والیوم قومی کونسل برائے فروس۔ن

۔ویب سائٹس:۵britannica.com/topic/imperialism

en.oxforddictionaries.com/definition/imperialism

http://www.new.dli.ernet.in/rekhta.com

u4u.comur.wikipedia.org

urdu councalurdulibarary.org

urduweb.org۔مقالہ جات۶

ء تا۱۹۴۷سہیل احمد،ڈاکٹر،پی۔ایچ۔ڈی مقالہ،جدید اردو نظم میں مغربی استعمار کے خلاف مزاحمت)،غیرمطبوعہ(۱۸۵۷

ساردو شاعری میں مزاحمتی عناصر ، تایخ اور تجزیہ ، تحقیقی مقالہ برائے ، ایم ۔ اے ،شعبہ اشفاق احمد ، ء۱۹۹۱ساردو گورنمنٹ کالج، لاہور ،

Page 398: حرفِ اوّلprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12983/1/... · Web view2018/07/18  · پرلے درجہ کے منافق ہیں ہم اہل ہند بھی سبحہ درکف،توبہ

397

Kishwar Sultana,Mulana Zafar Ali khan, Majlis-e-Ittihad-e-Millat,JRSP Vol.53, No.1, January-

June, 2016