مقصود حسنی کے چودہ منسانے

43
صود حسنی کے چودہ منسانےم م پیش کار علی مرتضائی پروفیسر نیامترلی کتب خانہ ابوزر ب نومبر٢٠١٦ فسانے منی ا

Upload: maqsood-hasni

Post on 24-Jan-2017

30 views

Category:

Entertainment & Humor


1 download

TRANSCRIPT

Page 1: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

ممصود حسنی کے چودہ منسانے

پیش کار

پروفیسر نیامت علی مرتضائی

ابوزر برلی کتب خانہ

٢٠١٦نومبر

منی افسانے

Page 2: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

فہرست

میں کریک ہوں -١

ان ہونی نہیں ہوتی‘ ان ہونی -٢

جذبے کی سزا -٣

ہللا بھلی کرے -٤

آخری کوشش -٥

تیسری دفع کا ذکر ہے -٦

انگلی -٧

آخری تبدیلی کوئی نہیں -٨

کھڑ پینچ دی جئے ہو -٩

سراپے کی دنیا -١٠

میں ہی لاتل ہوں -١١

خیالی پالؤ -١٢

تعلیم اور روٹی -١٣

بوسیدہ الش -١٤

Page 3: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

میں کریک ہوں

ببو ہمارے محلے کا اکلوتا دکان دار ہے۔ برا نہیں تو اچھا بھی

نہیں۔ بےایمان نہیں تو اسے ایمان دار بھی نہیں کہا جا سکتا۔

بس راہ چلتے ہیلو ‘ میری اس سے کوئی گہری سالم دعا نہیں

ہائے ہو جاتی ہے۔

دکان کیوں بدلی ہے۔ کہنے : اس نے دکان بدلی تو میں نے پوچھا

ایک تو تنگ تھی سودا پورا نہیں آتا تھا دوسرا ٹپکنے لگی : لگا

تھی۔

میں نے کہا چلو تم نے ٹھیک کیا۔ یہ کہہ کر کام پر روانہ ہو گیا۔

رستہ وہ ہی تھا واپسی پر سالم دعا کے بعد میں نے دکان بدلنے

کی وجہ دریافت کی۔ اس نے بال تردد و ترمیم وہ ہی وجہ بتائی۔

چھٹی ہونے کے سبب میں نے سارا دن گھر ‘ اگلے دن جمعہ تھا

پر ہی گزرا۔

ہفتے کو کام پر جاتے ہوئے اس کے پاس رکا۔ دعا سالم اور حال

احوال پوچھنے کے بعد دکان بدلنے کی وجہ پوچھی۔ اس نے

میری طرف بڑے غور سے دیکھا اور وہ ہی وجہ بتائی۔ وہ

مجھے بھلکڑ سمجھ رہا تھا۔

Page 4: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

اس کے ساتھ زیادہ تعلمات ہی نہ تھے اور بات کیا کرتا۔ یہ ہی

ایک بات تھی جو اس سے آتا جاتا کرتا۔ واپسی پر حسب معمول

رکا۔ سالم بالیا حال احوال پوچھا اور دکان بدلنے کی وجہ

پوچھی۔ وہ اونچی اونچی بولنے لگا اور مجھ سے لڑ پڑا۔

لگتا تھا کہ ہاتھا پائی پر اتر آئے گا۔ میں بھی ذہنی طور پر

بھاگنے کے لیے تیار تھا۔ مجھے معلوم تھا دوڑ میں وہ میرا

ممابلہ نہیں کر سکے گا۔ وہ تو خیر ہوئی لوگ جمع ہو گئے اور

لڑنے کی وجہ پوچھی۔ وہ چوں کہ زور زور سے بول رہا تھا

اس لیے میں نے بڑے تحمل سے وجہ بتا دی۔ ساتھ میں یہ بھی

کہا میرا ببو سے کوئی خاص تعلك واسطہ نہیں اس لیے سالم

دعا کی برلراری کے لیے پوچھ لیتا ہوں۔ یہ غصہ کر گیا ہے۔

اس میں غصہ کرنے والی ایسی کون سی بات ہے۔

سب ہنسنے لگے اور مجھے کہا باؤ جی آپ جائیں۔ اسی طرح

کچھ ببو کو ٹھنڈا کرنے لگے۔ ایک بندے نے ببو کی طرف دیکھ

کر سر پر انگلی رکھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ میں کریک ہوں۔

میں جعلی سنجیدگی سے ہولے لدمدں سے اپنے گھر کی جانب

بڑھ گیا۔

ان ہونی نہیں ہوتی‘ ان ہونی

Page 5: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

تھیال مردود ہیرا پھیری اور دو نمبری میں بےمثل اور بےمثال

رہا جب کہ تھیال شکی زندگی کے ہر معاملے کو شک و شبہ کی

نظروں سے دیکھنے میں ضرب المثل چال آتا تھا۔ اس کا کہنا کہ

‘ کچھ بھی خالص نہیں رہا۔ جعلی بھی اصلی کے موافك دکھتا ہے

کو سو فی ناسہی کسی ناکسی فی صد تو درست ماننا ہی پڑے

گا۔

تھیال مردود بات اس انداز سے کرتا کہ اس کا کہا اصلی سے

بھی دو چار لدم آگے نکل جاتا۔ جسے ہاتھ لگے ہوئے ہوتے وہ

اس کا کیا ‘ بھی دھوکہ کھا جاتا۔ بات کہے تک ہی محدود نہ تھی

بہت بعد ‘ بھی عین اصلی کی چغلی کھا رہا ہوتا۔ اسی ولت نہیں

میں کھلتا کہ وہ تو سراسر فراڈ تھا لیکن اس ولت جھانسے میں

آنے والے کا کھیسہ خالی ہو چکا ہوتا۔ لٹے کی باریابی کے لیے

وہ مزید بل کہ برابر اور بار بار لٹتا چال جاتا۔

بل ‘ ہم سب تھیلے شکی کے کہے کو بکواس کا نام دیتے رہے

کہ اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ اس کا کہنا تھا کہ پیرو نے اس کے

باپ اور بہن کو تعویز ڈال ڈال کر مارا۔ میری ماں نے پیرو سے

نکاح تو کر لیا لیکن اپنے خاوند اور بیٹی کا لتل اسے مرتے دم

Page 6: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

تک معاف نہ کیا۔ اس کا یہ کہا میں نے بمشکل ہنسی پر لابو پا

کر سنا۔ وہاں تو اس کی ہاں میں مالئی لیکن گھر آ کر خوب ہنسا

اور انجوائے کیا۔ ایسی بات پیٹ میں کب رہتی ہے۔ دوستوں کو

یمین مانیں بالکل انوکھا ‘ بھی لطف اندوز کیا۔ دشمنی کا یہ انداز

اور الگ سے لگا۔ نکاح بھی خاوند اور بیٹی کے لاتل سے کیا

اور معاف بھی نہ کیا۔ عجیب اور سمجھ سے باال لوجک تھی۔

دوسرا اگر تعویزوں سے لوگ مرنے لگتے تو آج دنیا میں ایک

بھی زندہ نہ پھرتا۔

یہ بات عجیب بھی ہے اور فوق الفطرت بھی۔ یہ تو ایسی ہی بات

ہے کہ کوئی آپ سے کہے کہ کل میں نے مگرمچھ کو جاگتے

میں اڑتے دیکھا۔ ایسی بات کہنے واال پاگل ہی ہو سکتا ہے یا وہ

بےولوف بنا رہا ہو۔ ‘ آپ سے شغال لگا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے

بکری صدیوں سے ہاتھی چٹ کرتے آئی ہے لیکن مگرمچھ

اڑتے نہیں دیکھا گیا۔ عالمتا مگرمچھ ہی اڑتے آئے ہیں۔ مزے

کی بات دیکھیے اس کی عملی صورت دیکھنے میں آ گئی۔ اس

ان ہونی نہیں رہی۔ گویا ‘ ان ہونی‘ کا مطلب یہ ٹھہرے گا

غلط نہیں رہا۔ کہنے والے نے مگرمچھ کو ‘ مگرمچھ کا اڑنا

ضرور اڑتے دیکھا ہو گا۔ یعنی مگرمچھ کی اڑان امکان میں

داخل ہے۔

Page 7: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

‘ سدی پڑھا لکھا احمك اور یبل ہے۔ لکھائی پڑھائی کی بات کرو

فٹافٹ وہ کچھ بتال دے گا جو کسی کے خواب وخیال میں نہیں ہو

گا۔ زبانی کالمی سماجیات میں بھی بڑا کمال کا ہے۔ عملی طور

پر منفی صفر سے بھی گیا گزرا ہے۔ ہللا نے اسے دو بیٹے عطا

فرمائے۔ بڑا لڑکا کچھ سال اور چھوٹا لڑکا کچھ دن کا تھا کہ

جس ‘ بیوی انتمال کر گئی۔ بآمر مجبوری اسے شادی کرنا پڑی

بانجھ بھی تھی۔ ‘ عورت سے شادی کی زبان طراز تو تھی ہی

تھیال مردود جو اس کا بہنوئی تھا نے سدی یبل کی بہن کو

ہاتھوں میں کیا اور اس کا سب کچھ چٹ کر جانے کے طمع میں

سدی کی شادی انتہائی گھٹیا اور چول عورت سے کروا دی۔

لوٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی ہوس کی آگ بھی بجھانے لگا۔

تھوڑی ہی مدت کے بعد اس عورت کی تھیلے مردود سے ان بن

ہو گئی اور وہ سدی یبل کو لے کر وہاں سے نکل آئی۔

ہللا نے سدی یبل کو ایک بیٹے سے نوازا۔ سدی یبل کی خوشی

کی انتہا نہ رہی ہاں البتہ اس عورت نے سدی کا سانس لینا بھی

حرام کر دیا۔ پہلے ہی چھوٹا مر گیا تھا اب وہ اس بیٹے کی

خاطر اس جہنم زادی کے ساتھ نبھا کر رہا تھا۔ وہ تھیلے شکی

کی ماں کے گزارے کا مذاق اڑایا کرتا تھا لیکن اب اس کی

سمجھ میں آیا تھیلے شکی کا کہا غلط نہیں تھا۔ بعض حاالت کے

تحت ناخوش گواری اور ناپسند کو بھی سینے سے لگانا پڑتا

Page 8: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

ہے۔ گویا مگرمچھ کا ہوا میں پرواز کرنا غلط نہیں۔

جذبے کی سزا

اس میں بگڑنے والی ایسی کوئی بات ہی نہ تھی۔ بنے میاں کا

بیٹا اپنے چھوٹے بھائی کو مار رہا تھا۔ میں نے اسے دو تین

بار منع کیا لیکن وہ مارنے سے باز نہ آیا تو میں نے اس کی

کھتی میں ایک رکھ دی۔ وہ روتا ہوا گھر چال گیا۔ بنے میاں بڑے

غصہ سے باہر آئے۔ کچھ پوچھے بغیر ناصرف مجھ پر برس

پڑے بل کہ زناٹے کی دو تین دھر بھی دیں۔ میں ان کے اس

رویے پر سخت حیران ہوا۔ یوں لگا جیسے انہوں نے مجھ سے

کوئی پرانا بدال چکایا ہو۔ میں بھی جوابا ان کی ٹھیک ٹھاک

خاطر تواضح کر سکتا تھا لیکن کیجو کا منہ مار گیا۔ میں نے

بامشکل درگزر سے کام لیا۔

وہ سمجھا کہ ڈر گیا ‘ اس نے ہاتھ چال لیے اور میں چپ رہا

ہوں اسی لیے زبان بھی دیر تک چالتا رہا۔ اردگرد کے لوگوں

نے ٹھنڈا کیا کہ جسے بک رہے ہو وہ تو چپ ہے۔ میں بچوں

کے معاملہ میں کبھی نہیں پڑا۔ شاید یہاں بھی نہ پڑتا

جذبہءپدری نے مجھے بدحواس کر دیا اور میرا ہاتھ اٹھ گیا۔

Page 9: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

کیجو کا چھوٹا لڑکا میرے اچھے ولتوں کی یاد تھا۔ خیر اب بھی

جب پہاگاں گھر پر نہ ہوتی تو کیجو مزے کرا جاتی۔ اس کا سنور

جاتا اور میرا بھی ذائمہ تبدل ہو جاتا۔ بنے میاں کو محض شک

تھا مگر شک یمین میں نہ بدال تھا۔

اس روز اگر میں بھی جوابا کچھ کرتا تو لمبا چوڑا کھڑاک ہو

جاتا۔ کیجو دنیاداری میں کمال کی مہارت رکھتی تھی۔ اگرچہ سب

جعلی کرتی لیکن اس کا یہ فرضی بھی اول درجے کا اصلی ہوتا۔

پہاگاں گھر پر تھی اور وہ کیجو کی بھی نانی تھی۔ بول بوالرے

کا ایسا میدان لگتا کہ شیطان بھی توبہ توبہ کر جاتا۔ ماضی اور

حال کے وہ وہ لصے دہرائے جاتے جو کسی کے خواب و خیال

میں نہیں رہے۔ بکوبکی سے میری بڑی جان جاتی ہے۔

جذبے کی سزا بڑی ازیت خیز ہوتی ہے۔ مجھے بہت معمولی

میری چپ نے متولع رن کا رستہ بند کر دیا تھا۔ ‘ سزا ملی تھی

سچی بات تو یہ ہے کہ میری چپ نے کیجو سے تعلك خراب

ہونے کا دروازہ بھی بند کر دیا تھا۔

Page 10: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

ہللا بھلی کرے

لہمے لگا رہا تھا۔ پتا نہیں ‘ وہ اچھا خاصا بیٹھا باتیں کر رہا تھا

او خو کہتا ہوا اٹھ بیٹھا اور بڑی تیزی سے ‘ اچانک کیا ہو گیا

اوے کیا ‘ گھر کی طرف بڑھ گیا۔ پیچھے سے ککو نے آواز دی

ہوا جو بال بتالئے بھاگ اٹھے ہو۔ ایمرجنسی۔۔۔آ کر بتاتا ہوں۔

وہ تو چال گیا لیکن ایک موضوع چھیڑ گیا۔

اکی کا خیال تھا کہ اس کی بیوی کا آج کیس ہونا تھا۔ ہللا خیر

کرے اور ہللا جو بھی دے نیک اور زندگی واال دے۔

دوکڑ نے لہمہ لگایا او نئیں یار وہ کوئی دائی ہے جو کیس اس

نے کرنا ہے۔

ادھر ہی گیا ہو گا۔ بگڑ نے اپنی ‘ آج اس کی کمیٹی نکلنی تھی

چھوڑی۔

ہاں ہاں یہ ہی بات ہے۔ نکے نے گرہ لگائی

چھوڑو یار اس کا کیا ہے کہو کچھ کرتا کچھ ہے۔ گھر سے کچھ

ادھر بیٹھ کر گپیں ہانکنے لگا۔ اب دو گھنٹے بعد ‘ لینے آیا ہو گا

تب ہی تو دوڑکی لگا کر گیا ہے۔ بیگم شری سے ‘ یاد آیا ہو گا

چھتر کھا رہا ہوگا۔

Page 11: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

اس کی اس بات پر سب ہنس پڑے

کالیے کی بات میں دم تھا لیکن مہاجے نے اپنی ہی کہہ دی۔

کسی مار پر گیا ہے ورنہ اس طرح سے نہ بھگ نکلتا۔ تم کیا

جانو بڑا سیانا ہے۔‘ جانو

اسے ملنے گیا ہوگا۔ شبے نے ایک اور ہی شگوفہ چھوڑا۔

اسے کیسے نیکو نے حیرت سے پوچھا

تمہیں نہیں پتا

نہیں تو

بیبو‘ ادھر کان کرو

بیبو کون

واہ گاؤں میں خاک رہتے ہو جگو کی بیٹی

میں یہ کیا سن رہا ہوں‘ ہائیں

جی ہاں

بڑا چھپا رستم نکال

پس دیوار کی کے سیکڑوں معنی نکالے جاتے ہیں، لیافوں

اندازوں کا انبار لگ جاتا ہے۔ سب لریب لریب کی کہتے چلے

جاتے ہیں۔ کھوج یا اسرار کھلنے کے ولت کا کوئی انتظار نہیں

کرتا۔

Page 12: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

منچلے اپنی اپنی تشریح و وضاحت میں مصروف تھے کہ جانو آ

ہی گیا اور سر سٹ کر بیٹھ گیا۔ سب اس کے منہ کی طرف

دیکھنے لگے۔

یار کچھ بکو گے یا یوں ہی منہ لمکائے بیٹھے رہو گے۔ بگی

نے پوچھا

کام نہیں ہوا۔ جانو نے تمریبا روتے ہوئے کہا

بڑا دکھ ہوا جانو یار لیکن کون سا کام۔ بگی نے افسوسیہ انداز

اختیار کرتے ہو۔

یار تم لوگ جانتے ہو معدے کا مریض ہوں۔ آج تین دن ہوئے

پوٹی نہیں آئی۔ لگا تھا پوٹی آئی ہے۔ لیٹرین میں بیٹھ بیٹھ کر

تھک گیا۔ صرف ہوا سری ہے۔ ہار کر اٹھ آیا ہوں۔

کھودا پہاڑ ‘ سب اس کا جواب سن کر ہنسنے لگے۔ واہ جی واہ

نکال چوہا جگو نے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

او جگو یار تم جاہل ہو نا۔ جانو نے جوابا کہا

ہاں جی میں جاہل ہوں تم تو دلی سے ایم آ پاس کرکے آ گئے ہو

نا۔

پاگل لبض تمام بیماروں کی ماں ہے۔ میرے اندر جو لیامت بپا

ہے وہ میں ہی جانتا ہوں۔ جانو نے روتے ہوئے کہا

ماحول ناخوشگوار ہو گیا۔ چند لمحوں کے لیے سب کو چپ سی

Page 13: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

لگ گئی۔ جگو ہی نے سوگواری سی توڑتے ہوئے کیا۔ یار کیوں

ہللا بھلی کرے۔‘ پریشان ہوتے ہو

آخری کوشش

درندے کے لدموں کی آہٹ اور بھی لریب ہو گئی تھی۔ اس نے

سوچا اگر اس کے دوڑنے کی رفتار یہی رہی تو جلد ہی درندے

کے پنجوں میں ہو گا۔ اس نے دوڑنے کی رفتار اور تیز کر دی۔

پھر اس نے سوچا کیا وہ اور اس جیسے کمزور طالتور کے

آگے دوڑنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ جب اور جہاں کمزور کی

رفتار کم پڑ جاتی ہے طالتور دبوچ لیتا ہے۔ اس کے بعد زندگی

کا ہر لمحہ طالتور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ چند لمحوں کے

ذہنی سکون کے بعد طالتور چیر پھاڑ کر اپنی مرضی کے حصے

کھا پی کر جان بناتا ہے۔ لمحہ بھر کے لیے بھی وہ یہ سوچنے

کی ذحمت گوارا نہیں کرتا کہ کمزور کے دودھ پیتے بچوں کا کیا

ہو گا۔ اس کے جانے کے بعد اس سے کم طالتور بمیہ پر بڑی

بے دردی سے ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہ بوٹی بوٹی نوچ لیتے ہیں۔

یہاں تک کہ ہڈیوں پر بھی رحم کھایا نہیں جاتا۔ کھایا بھی کیوں

جائے ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں۔ بٹنوں کے لیے ان کی

Page 14: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

ضرورت رہتی ہے۔

اس کے بھاگنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔ سوچ

خوف اور بچ نکلنے کی خواہش نے اس کے جسم میں ہونے

والی ٹوٹ پھوٹ کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ وہ ہر حالت میں

دشمن کی گرفت سے باہر نکل جانا جاہتا تھا لیکن دشمن بھی

اسے بخش دینے کے موڈ میں نہ تھا کیونکہ اس کی رفتار میں

بھی ہر اضافہ ہو گیا تھا۔

موت کا گھیرا تنگ ہو گیا تھا۔ اس کے سامنے کھال میدان دائیں

دریا بائیں گہری کھائی اور پیچھے خونخوار درندہ تھا۔ رستے

کے انتخاب کے حوالہ سے یہ بڑی سخت گھڑی تھی۔ پھر وہ

بائیں مڑ گیا۔ اس نے جسم کی ساری طالت جمع کرکے کھائی

تک پہنچنے کی کوشش کی۔ درندہ فمط ایک لدم کے فاصلے پر

رہ گیا تھا۔ اس سے پہلے درندے کا پنجہ اس کی گردن پر پڑتا

اس نے کھائی میں چھالنگ لگا دی۔ درندے کے اپنے لدم اس

کی گرفت میں نہ رہے۔ کوشش کے باوجود رک نہ سکا اور وہ

بھی گہری کھائی کی نذر ہو گیا۔

کمزور کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں اور دم اکھڑ رہا تھا۔

Page 15: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

اس نے سراٹھا کر دیکھا کچھ ہی دور درندہ پڑا کراہ رہا تھا۔ اس

کی ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔ بھوک درد کے زنداں میں ممید ہو گئی

تھی۔ کمزور کے چہرے پر آخری مسکراہٹ صبح کازب کے

ستارے کی طرح ابھری۔ اس کی آخری کوشش رنگ ال چکی

تھی۔ اسے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہ تھا۔ اس نے خود یہ

رستہ منتخب کیا تھا۔ اب یہ درندہ کبھی کسی کمزور کا وحشیانہ

تعالب نہ کر سکے گا اور اس کی ٹانگوں سے ہمیشہ اف اف اف

کے بزدل نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔

تیسری دفع کا ذکر ہے

پہلی دفعہ کا ذکر اس لیے اتنا اہم نہیں کہ یہ دو ٹوک تھا اور اس

کے ساتھ کوئی والعہ، معاملہ یا مسلہ وابستہ نہیں۔ میں بیمار

پڑا۔ طبعیت ضرورت سے زیادہ بوجھل تھی۔ طبعیت خراب ہو تو

ہائے وائے کی آوازیں ناچاہتے ہوئے بھی بےساختہ بل کہ از

خود منہ سے نکل جاتی ہیں۔ اگر توجہ اور خدمت کی تمنا ہو تو

آدمی اس ذیل میں منہ کا سپیکر لدرے بلند کر دیتا ہے۔ یمین

مانیے میں سچ مچ میں بیمار تھا اس لیے خصوصی توجہ کا

طالب بھی تھی۔ خیال تھا کہ میرے پورے گھر والی پریشان ہو

Page 16: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

کر توجہ دے گی۔ میرا یہ خیال خاک کا شکار ہو گیا جب اس نے

کہا نیچے چلے جاؤ کٰہیں میرے متھے لگتے ہو۔ میں کپڑے

جھاڑتا ہوا نیچے آ گیا۔ ایک بیمار تھا اوپر اس بے رخی کا

صدمہ بھی ہوا۔ چوں کہ پہلی دفعہ کا ذکر دو لمحوں کا تھا اس

لیے اسے دفع کو ماریے۔

دوسری دفعہ چوں کہ بے ہوشی کی حالت ناسہی نیم بےہوشی

کی کیفیت ضرور تھی۔ ہسپتال سے چوتڑوں اور بازوں پر کئی

ایک ٹیکے لگوا کر گھر الیا گیا۔ چوتڑوں کے ٹیکے اس لیے

محسوس نہ ہوئے کہ پیاری سی نرس نے دلی ہم دردی سے

ہاں البتہ بازو ضرور دکھے کہ وارڈ بوائے نے ‘ لگائے تھے

پوری بےدردی سے لگائے تھے۔

چھوٹی گھروالی کا ہسپتال جا کر پوچھنا تو بہت دور کی بات

ہے اسے گھر میں آ جانے کے بعد آدھی زبان سے پوچھنے تک

کی توفیك نہ ہوئی۔ میں نیم مردہ سی حالت میں لیٹا ہوا تھا۔

پھر کیا تھا کہ بالتکان دو گھنٹے ‘ اچانک اسے کوئی خیال آیا

انتالیس منٹ بولتی رہی۔ لب لباب یہ تھا کہ میں نے بیمار ہونے

کا محض ڈونگ رچایا ہے۔ بیمار اس کا ابا ہوا تھا اور عالج

معالجے کے باوجود لبر میں جا بسیرا کیا۔ اگر میں بیمار ہوا ہوتا

تو الش گھر پر آتی۔ اس کی بات میں چوں کہ دم تھا اس لیے

Page 17: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

دوسری دفع کو بیچ میں النے کی ایسی کوئی خاص وجہ نظر

نہیں آتی۔

ہاں البتہ تیسری دفع اوج کمال کو چھوتی نظر آتی ہے اس لیے

اس کا ذکر خصوص میں داخل کرنا اصؤلی سی بات نظر آتی ہے۔

ہوا یہ کہ میں بیمار پڑا تو میری ہائے اوے ہائے اوے کے

نعروں سے بےزار ہو گئی۔ ٰمیں بھی تو بالولفہ اور بالتکان یہ

آوازے کسے جا رہا تھا۔ ان آوازوں سے اس کا سر بوجھل ہو

البتہ سر پر کپڑا باندھ کر باہر صحن میں ‘ گیا۔ کچھ بولی تو نہ

بیٹھ گئی اور میری آخری سانس کا انتظار کرنے لگی۔ آخری

کم بخت نہ آئی۔ میں نے اس کی آوازاری ‘ سانس بڑی ڈھیٹ تھی

محسوس کر لی اور پوری طالت سمیٹ کر بیٹھک میں آ کر

‘ صوفے پر لیٹ گیا۔ پتا نہیں رات کتنی دیر تک صوفے پر لیٹا رہا

جب لدرے بہتری ہوئی تو جا کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ میرے پاؤں

کی آہٹ سے جاگ گئی لیکن سونے کا ناٹک جاری رکھا۔ میں

نے بھی ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا اور چپکا رہا۔

‘ ہللا کے احسان سے رات گزر گئی۔ ٹھیک سے ٹھیک نہ ہوا

ہاں البتہ پہلے سے لدرے بہتر ضرور تھا۔ میں نے اس کی

جانب یوں ہی بالوجہ دیکھ لیا۔ چہرے پر بیمار ہونے کی کیفیت

طاری کر لی۔ میں نے فورا سے پہلے نگاہ نیچی کر لی۔ آدھ

Page 18: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

گھنٹے بعد چارپائی لگ گئی۔ پوچھا کیا ہوا۔ سخت بیمار ہوں۔ میں

پوچھنا چاہتا تھا ابے والی بیمار ہو یا میرے والی بیماری ہے۔

جانتا تھا آج اور آتا کل بےمزگی میں گزرے گا۔ اس کا ‘ چپ رہا

کہنا تھا کہ میری شوگر چھے سو ستر پر پہنچ گئی ہے۔ بی پی

بھی ہائی ہو گیا ہے۔ صبح سے مسلسل اور متواتر الٹیاں کر رہی

ہوں۔ سر پھٹ رہا ہے۔ ایک دو بیماریاں اور بھی گنوائیں۔ میں

نے کہا ہللا آسانی پیدا کرے گا۔ کہنے لگی سب ہللا پر چھوڑے

خود سے کچھ نہ کرنا۔ چاہا کہ کہوں سر دبا دیتا ہوں پھر ‘ رکھنا

فورا خیال آیا بچو شام تک اسی کام میں رہو گے۔ مجبور لدموں

چلتا ہوا بازار گیا نان چنے اور ساتھ میں حفظ ما ماتمدم سالئس

اور انڈے بھی لے آیا۔ بےچاری نے اوکھے سوکھے ہو کر

دونوں نان چنے اور ایک انڈا ڈکار لیا۔ اصوال بہتری آ جانی

لدرے آ بھی گئی۔ ہللا کا شکر ادا کیا زبان کی کوترا ‘ چاہیے تھی

کتری سے بچ گیا ہوں۔ شام تک حاالت درست رہے۔ شام کو

فائرنگ شروع ہو گئی۔ وجہ یہ تھی کہ نان چنے اور انڈے

حاالں کہ ‘ سالئس تو لے آئے لیکن منہ میں بڑ بڑ کر رہے تھے

ایسا نہیں تھا۔ تاہم دیر تک چل سو چل ہی رہی اور میں بھول گیا

کہ بیمار ہوں۔

انگلی

Page 19: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

دودھ اوبال رہا ‘ مہاجا بڑے سکون اور آرام سے دکان پر بیٹھا

ساتھ میں ُپڑوسی دکان دار سے باتیں کیے جا رہا تھا اور ‘ تھا

دودھ میں کڑچھا بھی مارے جا رہا تھا۔ اس کا پالتو بال اس کی

پرسکون بیٹھا ہوا تھا۔ ولت بال کسی پریشانی ‘ نشت کے نیچے

کے گزر رہا تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ اگلے لمحے کیسے ہوں

گے۔

شیطان انسانی سکون کا دشمن ہے۔ انسان کی ‘ سب جانتے ہیں

اسے ہمیشہ سے کھٹکتی آئی ہے۔ اس نے ایک ‘ پرسکون زندگی

سامنے ‘ جس پر ایک یا دو بوند ہی دودھ چڑھا ہو گا‘ انگلی

جھٹ سے ‘ دیوار پر لگا دی۔ دودھ پر مکھیاں عاشك ہوتی ہیں

وہاں ‘ مکھیاں دیوار پر لگے دودھ پر آ گئیں۔ جہاں مکھیاں ہوں

کئی ‘ چھپکلی کا آنا غیرفطری نہیں۔ جھٹ سے ایک چھوڑ

چھپکلیاں آ گئیں۔ بال چھپکلیوں کو برداشت نہیں کرتا وہ

ایک نواب ‘ اتفاق دیکھیے اسی لمحے‘ چھپکلیوں پر جھپٹا

صاحب اپنے ٹومی سمیت ادھر سے گزرے۔ ٹومی بلے کو

کیسے برداشت کرتا۔ وہ بلے پر بڑی تیزی سے جھپٹا۔ بال دودھ

میں گر گیا۔

Page 20: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

ردعمل ہونا فطری سی بات تھی۔ مہاجے نے پوری طالت سے

ٹومی کے سر پر کڑچھا مارا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ نواب

صاحب ٹومی کی بےحرمتی اور اس پر ہونے واال یہ تشدد

کیسے دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے چھے کی چھے مہاجے کے

سینے میں اتار دیں۔

مہاجا اتنی بڑی فیملی کا واحد کفیل تھا چل بسا۔ پوری فیملی

الغر و اپاہج ہو گئی۔ وہ کیا کر سکتے تھے بس لسمت کو ہی

کوس سکتے تھے۔ نواب صاحب کا کیا بگڑنا تھا۔ یہ لوگوں کا

کب سنوارتے ہیں لوگ ان کا گلپ کرنے اور ظلم سہنے کے لیے

جنم لیتے ہیں۔ ان کا گلپ ہی التداری طور رہا ہے اور شائد رہے

گا۔

ان پر یا ان کے کیے پر انگلی اٹھانے والے زہر پیتے رہیں گے

سولی چڑھتے رہیں گے۔ التدار کا یہ ہی اصولی فیصلہ رہا ہے۔

حال کیا مستمبل لریب میں بھی ان سے مکتی ملتی نظر نہیں آتی۔

لصوروار کون تھا صاف ظاہر ہے مہاجا۔۔ نواب کبھی غلطی پر

نہیں یا شیطان کوسنوں کی زد میں رہے گا۔ کوئی خود کو

یہ ہی سچ اور یہ ‘ سدھارنے لی جسارت نہیں کرے گا۔ جی ہاں

ہی حمیمت ہے۔

Page 21: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

آخری تبدیلی کوئی نہیں

:نوٹ

ہم چھوٹے چھوٹے چھوٹے ہوا کرتے تھے مخدومی و مرشدی

بابا جی سید غالم حضور حسنی اس طرح کی کہانیاں سنایا کرتے

تھے۔ وہ کہانیاں آج بھی لوح دل پر نمش ہیں۔ دن کبھی ایک

سے نہیں رہتے۔ ہر لمحہ تبدیلی سے گزرتا ہے اور کل من عیھا

فان کی طرف بڑھ جاتا ہے۔

بھلے ولتوں کی بات ہے۔ دو دوست ہوا کرتے تھے۔ ایک

سوداگر جب کہ دوسرا کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ ایک دن سوداگر

دوست نے کہا فارغ رہنے سے ولت نہیں گزرتا۔ ضرورتیں تو

منہ پھاڑے رہتی ہیں۔ آؤ تمہیں اوبےنگر کی فوج میں بھرتی کرا

دیتا ہوں۔ اس کی ریاست اوبے نگر میں ولفیت تھی لہذا جلد ہی

اس کا دوست فوج میں بھرتی ہو گیا۔ دونوں کو خوشی ہوئی۔

بات بھی خوشی والی تھی کہ روٹی کا سلسلہ چل نکال۔

Page 22: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

دو چار سال کے بعد اس کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے سوچا

کیوں نہ دوست ہی سے مل لوں۔ چھاؤنی گیا۔ اس نے پوچھا

سپاہی تیغا رام کدھر ہوتا ہے۔ پتا چال اچھی کارگزاری کی وجہ

سے وہ حوالدار ہو گیا ہے۔ اسے خوشی ہوئی کہ اس کا دوست

ترلی کر گیا ہے۔ دونوں کی ماللات ہوئی۔ سوداگر دوست نے

:اپنی خوشی کا اظہار کیا تو جوابا تیغا رام نے کہا

یار دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔

چپ رہا۔‘ اسے دوست کے جواب پر حیرانی ہوئی۔ کچھ نہ کہا

مزاج اور روٹین کی ڈگر پر چلتا رہا۔ شخص ‘ ولت اپنی مرضی

اوروں سے بےنیاز اپنے اپنے طور سے روٹی ٹکر تالشنے میں

مصروف تھا۔ سوداگر بھی سوداگری میں مصروف تھا۔ اس کا

روٹین میں اوبےنگر جانا ہوا۔ اس نے اپنے دوست حوالدار تیغا

رام کا چھاؤنی میں جا کر پوچھا۔ وہاں سے پتا چال تیغا رام

صوبےدار ہوگیا ہے۔ اس خبر نے اسے خوشی سے نہال کر دیا۔

ماللات پر اس نے مبارک باد دی۔ تیغا رام نے بڑی سنجیدگی

سے کہا۔

یار دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔

تیغا رام موج اور ٹھاٹھ کی گزار رہا تھا۔ حیرانی تو ہونا ہی تھی

لیکن وہ چپ رہا۔ جواب میں کیا کہتا۔ سالوں میں تبدیلی تو آئی

Page 23: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

تھی۔ تیغا رام غلط نہیں کہہ رہا تھا۔

کچھ سالوں کے بعد سوداگر کا اوبے نگر سے گزر ہوا۔ وہ اپنے

دوست تیغا رام سے ملنے چال گیا۔ وہاں سے معلوم پڑا کہ وہ

بادشاہ کا منظور نظر ہو گیا ہے اور وزیر ممرر کر دیا گیا ہے۔

اس نے سوچا وزیر ہو گیا تو کیا ہوا میرا تو دوست ہے۔ بامشکل

ماللات ہوئی۔ سوداگر نے اپنی خوشی کا اظہار کیا تو جوابا تیغا

لہذا ‘ رام نے وہ ہی پرانا ڈائیالگ دوہرا۔ اس کا کہنا غلط نہ تھا

اس نے ہاں میں ہاں مالئی اور تھوڑا ولت گزار کر رخصت ہو

گیا۔

جب لسمت کا ستارہ زحل سے نکل کر مشتری میں آ جائے

انسان کچھ سے کچھ ہو جاتا۔ اوبےنگر کے بادشاہ کی موت کے

بعد بادشاہی تیغا رام کے ہاتھ میں آئی۔ اصل بات یہ تھی کہ تیغا

رام کی عادات میں تبدیلی نہ آئی۔ وہ اپنے سوداگر دوست سے

اسی طرح پیش آیا۔ پہلے کی طرح کھل ڈھل کر گپ شپ لگائی۔

اس کا کہنا وہ ہی رہا کہ

دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔

سوداگر حیران تھا کہ تیغا رام ترلی کی آخری سیڑھی کراس کر

گیا اب بھی اسی بات پر ہے۔ اس سے آگے تو زندگی میں کچھ

Page 24: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

بھی نہیں۔ وہ اسے ڈائیالگ سمجھ کر چپ رہا۔

اگلی بار جب سوداگر اوبے نگر آیا تو اسے معلوم پڑا کہ بادشاہ

تیغا رام انتمال کر گیا ہے۔ شہر کے باہر کھلے میدان میں

چاردیواری کے اندر اس کی یادگار بنائی گئی تھی۔ مختلف طرح

کے پودے لگائے گئے تھے۔ اسے خوب صورت بنانے میں

کوئی کسر نہ چھوڑی گئی تھی۔ لوح یادگار پر تحریر کیا گیا تھا

عادل بادشاہ مہاراج تیغا رام

دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے

سوداگر حیران تھا اب آخری تبدیلی بھال کیا آئے گی۔ موت کے

بعد بھال کیا تبدیلی آ سکتی ہے۔

سوداگر کا اوبے نگر میں وہ آخری پھیرا تھا۔ وہ تیغا رام کی

آخری یاگار کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ماضی کا ہر لمحہ شعور کے

دریچوں سے جھانک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔

اس نے سوچا تیغا رام درست کہتا تھا کہ دن وہ نہیں رہے دن یہ

بھی نہیں رہیں گے۔ وہ سوچ رہا تھا اب بھال اور کیا تبدیلی آئے

گی۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا وہاں دریا بہہ رہا تھا۔ اس کے منہ

‘سے بےاختیار نکل گیا

Page 25: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔

کھڑ پینچ دی جئے ہو۔

! ہیلو مسٹر

یو ار سویٹ اینڈ لولی ہوم غور منٹ کمپلینٹ اس دیٹ یو

پھڑکائیٹڈ ہر برسرعام السٹ ڈے۔

وائی۔

نو حجور شی از جھوٹ مارنگ۔ آئی اونلی ون ویری سلو مکا

ماریڈ

یو بےغیرت مین۔ وائی یو مکا ماریڈ ہر ان دی ‘ او مائی گاڈ

بازار۔ یو نو پیپل ور ویکھنگ اینڈ الفنگ ایٹ یو

آئی ایم ناٹ بےغیرت حجور شی از بےغیرت بی کاز شی مارڈ

می سو مےنی لیترز ویری ٹھوک ٹھوک کر پیوپل ور الفنگ ایٹ

ہر ری ایکشن

اٹ از یو ار کیس وچ مے بی ڈسکسڈ لیٹر اون۔ فسٹ ٹل اس

وائی یو مکا مارڈ

Page 26: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

حجور اٹ از آ شیم فل سٹوری اینڈ کن ناٹ ناریٹ ان دی پنچایت

ڈونٹ وری یو گلٹی کمی کمین

حجور آئی ناٹ کمی کمین۔ مائی کاسٹ از انصاری

او یس یو مین جوالیا، آئی نو یو ار جوالیا۔ جوالیا کاسٹ از ان

فیکٹ کمی کمین۔ وائل یو ار ہوم غور منٹ از لریشی گویا شی از

ناٹ کمی کمین

یس حجور شی از مراسی۔

ان فیکٹ دس ورڈ از مراثی۔‘ ڈونٹ بارک

از آئی ایم رائٹ او یو سویٹ اینٍڈ جنٹل لیڈی

حجور یو ار ابسلوٹلی رائٹ

او مین ناؤ سم تھنگ ہریلی پہونکو

حجور شی ہیز ناٹ ذرا بھورا شرم

وٹ ہپنڈ ٹل اس

حجور شی واز ممانائزنگ ان دی بازار

او مائی گارڈ واٹس آمیزنگ سیچویشن ول بی گوئنگ دیئر

او جنٹل اینڈ سویٹ لیڈی شو اس یو ار فن

شی سٹارٹیڈ ہر فن ود آؤٹ اینی ہیزیٹیشن۔ ایوری ون انجوائڈ اٹ

Page 27: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

اے الٹ

او مسٹر جوالہے طالق ہر ایٹ دی سپاٹ اینڈ یو دفع دفان فروم

ہیئر۔ شی ہیز اے ونڈرفل کوالٹی۔ ان فیوچر شی ول سٹے ہیئر۔

وین مسٹر جوالیا ڈو نٹھنگ ون مین گٹ اپ اینڈ رکھڈ پنج ست

لتر ایٹ ہیز بوٹم۔ ہی گیو طالق دایٹ سویٹ ممانئیزر اینڈ دوڑ

لگائیڈ۔

اٹ واز اے نائس فیصلہ۔ پیوپل واز ریزنگ سلوگن

کھڑ پینچ دی جئے ہو۔

ناؤ آ ڈئیز شی از سرونگ ایٹ کھڑ پینچز ڈیرہ اینڈ ارننگ اچھی

خاصی اماؤنٹ ود نائس فیم۔ شی ہیزناٹ کمپلینٹ فروم اینی سائڈ۔

پیوپل ار سیٹسفائیڈ اینڈ ہیپی فروم دیئر چودھری ساب۔

سراپے کی دنیا

بہت ساری ‘ اس کے حسن کی تعریف کرنے بیٹھوں تو شاید

بات نہ بن پائے گی۔ اسے ‘ تشبیہات کے استعمال کے باوجود

کسی طرح غلط نہ ‘ زمین پر ہللا کا تخلیك کردہ ماسٹر پیس کہنا

ہو گا۔ لباس کے اندر بھی شاید یہ ہی صورت رہی ہو گی۔ ہم

جب لباس کے اندر جھانکتے ‘ لباس کے باہر پر مر مٹتے ہیں

Page 28: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

ہیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔ اسی طرح جب گوشت پوست اور

تو سر پر گھڑوں ‘ ہڈیوں کے پیچھے جھانکنے کا مولع ملتا ہے

اس ولت ‘ پانی پڑ جاتا ہے۔ جب تک یہ جاننے کا مولع ملتا ہے

تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ گویا

نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن

پھسی کو ‘ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ولت گزرنے کے بعد

پھڑکن کیسا

ہی بالی رہ جاتا ہے۔

اس کے پاس میرا کسی کام کے سلسلے میں جانا ہوا تھا۔ اسے

مجھے اصل مدعا ہی یاد نہ رہا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ میں ‘ دیکھ کر

سالم بالیا۔ ‘ اپنے آپے میں آ گیا۔ میں لریب چال گیا‘ کچھ دیر بعد

سالم کا تمریبا سا جواب دیا۔ میں نے ‘ اس نے بال اوپر دیکھے

اسے ہی غنیمت سمجھا اور بڑے مالئم اور پریم بھرے لہجے

میڈم میں ایک سماجی معاملے پر ریسرچ کر رہا ‘ میں عرض کیا

اس ذیل میں چند ایک سواالت کے جواب درکار ہیں۔ اس ‘ ہوں

میں بہت : نے سر اٹھایا اور بڑی بے رخی سے جواب دیا

مصروف ہوں جو پوچھنا ہے جلدی سے پوچھ لو۔

آپ کا نام‘ جی میڈم

Page 29: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

تانیہ

آپ ممامی ہیں یا باہر سے تشریف الئی ہیں

کوئی ڈھنگ کا اور متعلك سوال پوچھو

پڑھائی سے وابستہ ہیں‘ بہتر میڈم

ایم فل فارمیسی کر رہی ہوں

اس کے چہرے کی اکتاہٹ دیکھ کر میں نے آخری سوال کیا

ایم فل فارمیسی کرنے کے بعد کیا جذبہ اور ارادہ رکھتی ہیں۔

ٹیبل پر بیٹھی ون لیگ روزانہ کا ‘ اس کے بعد کیا کرنا ہے

کماؤں گی۔

انسان کی بےلوث خدمت کروں گی۔ ‘ میرا خیال تھا کہ کہے گی

خوب صورت لباس اور خوب صورت سراپے میں چھپا پیٹو

میرے سوچ کی دھجیاں بکھر رہا تھا۔ میرے سوچ کا ‘ شیطان

شیش محل کرچی کرچی ہو کر گندگی کی دلدل میں دھنس چکا

یہ کیسا انسان سا پتال ہے جو من میں اپنی ‘ تھا۔ میں نے سوچا

کچھ نہیں رکھتا۔ آگہی کا حصول محض پیٹ کے ‘ ذات سے ہٹ کر

لیے ہو گیا ہے۔

اتنا کما کر آخر کیا کر لے گی۔ کوٹھی بنگلہ ‘ پھر میں نے سوچا

Page 30: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

اور بینک بیلنس بنا لے گی۔ اس سے کیا فرق پڑے گا۔ لبر میں

پیار کرنے والوں ‘ تو کچھ نہیں جا سکے گا۔ مر جانے کے بعد

کو بھی جلدیاں ہوں گی۔ الش کے لیے کون بےکار میں ولت

ضائع کرتا پھرے۔ اس کوٹھی بنگلے اور بینک بیلنس کی تمسیم

سگے بہن بھائیوں کے کئی یدھ ہوں گے۔ کورٹ کچری ‘ پر

چار ‘ چڑھیں گے۔ کسی کو کبھی اس کی لبر پر بھولے سے بھی

پھول چڑھانے کی توفیك نہ ہو گی۔ مرنے والے نے ڈگری لے

لیکن آگہی اس کا ممدر نہ بن سکی۔ ‘ پیسے بھی کما لیے‘ لی

حسین گوشت پوست کے پیچھے اتنی پوشیدہ غالظت۔ توبہ بھی

میں تو ‘ توبہ کرنے لگی۔ جھوٹ نہیں بولوں گا‘ میری روح میں

اسے جیون ساتھی بنانے ‘ اس کے سراپے کی دنیا کا اسیر ہو کر

میں تو مارا ‘ کی سوچ بیٹھا تھا۔ اگر ہللا کی عنایت شامل نہ ہوتی

گیا تھا۔

میں ہی لاتل ہوں

تیز لدموں سے کھیتر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ آج کھیتر ‘ کاما کبو

پر کام کافی تھا۔ دوسرا چودھری کے موڈ کا بھی کچھ پتا نہیں

کسی وجہ کا ہونا ضروری نہ ‘ چلتا تھا۔ اس کے بگڑنے کے لیے

چھتر کھاتا رہتا ‘ تھا۔ چودھرین سے اپنے لچھنوں کی وجہ سے

Page 31: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

تھا۔ گھر کا غصہ باہر آ کر کاموں پر نکالتا۔ کام کاج کوئی کرتا

گھر سے یوں سج سنور کر نکلتا جیسے جنج چڑھنے ‘ نہیں تھا

آئے گئے کے ساتھ گپیں ہانکتا ‘ جا رہا ہو۔ سارا دن ڈیرہ پر بیٹھا

یا پنڈ کی سوہنی کڑیوں کے ناز و ادا کے لصے سنتا۔ کوئی

ہتھے چڑھ جاتی تو معافی کا دروازہ بند کر دیتا۔ ناکامی کی

ہر ‘ تو سارا غصہ کاموں پر نکالتا۔ سب چپ رہتے‘ صورت رہتی

کسی کو جان اور چمڑی بڑی عزیز ہوتی ہے۔

کھیتر پر آتے جاتے اس طرح کی سوچیں اسے گھیرے رکھتیں،

زیادتی چودھری کرتا ڈال گریب کاموں پر دی جاتی۔ ‘ غلطی یا ظلم

کوئی ناکوئی ‘ یہ زندگی بھی کیسی ہے گھر جاؤ‘ وہ سوچ رہا تھا

مسلہ راہ روکے کھڑا ہوتا۔ باہر آؤ تو کامے پر وہ کچھ بیت جاتا

جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوتا۔

وہاں عجب کھیل رچا ہوا تھا۔ چودھری کے ‘ جب وہ کھیتر پہنچا

خون میں لت ‘ ہاتھ میں خون آلودہ چھرا تھا اور سامنے کاما ابی

پت پڑا تھا۔ وہ یہ منظر دیکھ کر گھبرا گیا۔ چودھری سخت

غصے میں تھا۔ اس نے چھرا کامے کبو کی طرف بڑھاتے ہوئے

کبو نے پکڑ لیا اور خود کامے ابی کے ‘ ذرا اسے پکڑنا: کہا

پاس پہنچ گیا اور افسردہ و پریشان ہو کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔

دریں اثنا پولیس پہنچ گئی اور کبو کو پکڑ لیا۔

Page 32: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

چودھری غصے سے اٹھا اور پان سات کبو کو رکھ دیں۔ مجھے

پتا نہ تھا کہ تم اتنے ظالم اور کمینے ہو۔ پولیس والوں نے کہا

تھانے جا کر ہم اس کی طبیعت صاف کر ‘ چودھری تم چھوڑو

کسی ‘ دیں گے۔ وہاں مولع پر اور بھی دو تین کامے موجود تھے

کے منہ سے سچ نہ پھوٹا۔ اس اچانک نازلی آفت نے اس کے

ہوش ہی گم کر دیے۔

‘ تھانے جا کر اس کی خوب لترول کی گئی۔ وہ کہے جا رہا تھا

میں نے کچھ نہیں کیا۔ اس کی کب کوئی سن رہا تھا۔

تمہیں ہم نے کچھ نہ کرنے سے روکا تھا۔: ایک شپائی بوال

کچھ کر لیتے نا: ایک اور نے نعرہ لگاؤ

اب یہاں سے جا کر کچھ کر لینا: ایک نے کہا

یہاں سے جائے تو ہی کچھ کرئے گا: پہلے واال بوال

تو پھر یہ لتل کس نے کیا : ایک جو ذرا پرے کھڑا تھا کہنے لگا

ہے۔ خون سے بھرا چھرا تو تمہارے ہاتھ میں تھا۔

میں تو ایسا لیمتی چھرا خرید ہی ‘ حجور لتل کرنا تو دور کی بات

نہیں سکتا۔ چھرا تو چودھری نے مجھے پکڑایا تھا۔

Page 33: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

الزام تراشی کرتے ہو۔ اس کے بعد التوں مکوں اور تھپڑوں کی

برسات ہو گئی۔

کورٹ کچہری بھی اس کی سن نہیں رہی تھی۔ ‘ تھانہ تو تھانہ

کہ کورٹ کچہری بھی چودھری ہی کی تھی۔ ہر کوئی ‘ لگتا تھا

اسے دشنام کر رہا تھا۔ اس کی تو کوئی سن ہی نہیں رہا تھا۔

اس کے ہی گریب ‘ ماجرے کو آنکھوں سے دیکھنے والے

کبو ہی کو مجرم ٹھہرا ‘ ساتھی تھے۔ وہ بھی دیکھ اور جان کر

ایک بھی نہ تھا۔ ہر کوئی اسے ‘ رہے تھے۔ اس کے حك میں

جب اتنے لوگ کہہ رہے ‘ لاتل کہے جا رہا تھا۔ اس نے سوچا

ہیں کہ میں لاتل ہوں تو یمینا میں ہی لاتل ہوں۔ پھر اس نے کہنا

ہاں ہاں میں ہی لاتل ہوں۔۔۔۔ابی کو میں نے ہی لتل : شوع کر دیا

کیا تھا۔

خیالی پالؤ

ہللا بخشے پہا خادم بڑے ہنس مکھ اور جی دار لسم کے بندے

انہیں کبھی ‘ تھے۔ خوش حالی سے تہی دست ہوتے ہوئے بھی

Page 34: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

کسی نے رنج و مالل کی حالت میں نہ دیکھا۔ منہ میں خوش بول

رکھتے تھے۔ کبھی کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ اندر سے کتنے

اتنی ہی سڑیل اور بدمزاج تھی۔ ‘ دکھی ہیں۔ ان کی بیگم فیجاں

کردار کی بھی صاف ستھری نہ تھی۔ مزے کی بات یہ کہ گھر

سے کبھی کسی نے دونوں کی اونچی آواز تک نہ سنی تھی۔ یہ

تو محض خوش فہمی ہو گی کہ ان کے درمیان تلخی نہ ہوتی ہو

گی۔

ایک مرتبہ اپنے بیٹے سے الڈ پیار کر رہے تھے۔ منہ سے بھی

میں اپنے بیٹے کو ‘ بہت کچھ کہے جا رہے تھے۔ کہہ رہے تھے

ہاتھی پر بٹھا ‘ پھر سونے کے سہرے سجا کر‘ ڈاکٹر بناؤں گا

بہو بیانے جاؤں گا۔ اس کی ‘ پیچھے گاڑیوں کی لطار ہو گی‘ کر

شادی پر بٹیروں کے گوشت کی دیگیں چڑھیں گی۔

ساتھ میں بیسیوں بکرے زبح کر ڈالے۔ میٹھے میں بھی بہت

ساری چیزیں دستر خوان پر سجا دیں۔

میں کچھ دیر تو ان کی آسمان بوس باتیں سنتا رہا۔ پھر مجھ

پہا جی یہ آپ کیا کہہ ‘ میں نے پوچھ ہی لیا‘ سے چپ نہ رہا گیا

رہے ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے ہو سکے گا۔ میری طرف انہوں

جب خیالی پالؤ پکایا جا رہا ہو تو ‘ نے ہنس کر دیکھا اور کہا

Page 35: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

راشن رسد کی کیوں کمی رکھی جائے۔ یہ کہہ کر ان کی آنکھیں

ہاں منہ سے کچھ نہ بولے۔‘ لبریز ہو گیئں

کہہ تو ٹھیک رہے ہیں۔ ہمارے لیڈر صاحبان ‘ میں نے سوچا

ووٹ کی حصولی کے لیے بڑے خیالی پالؤ پکاتے ہیں۔ راشن

رسد کی اس میں کمی نہیں چھوڑتے۔ ایسے ایسے نمشے

کہ شداد کی ارم بھی کوسوں کے فاصلے پر چلی ‘ کھنچتے ہیں

خیالوں اور خوابوں کو ‘ جاتی ہے۔ امن و سکون کی وہ فضا

درد اور ‘ دکھ‘ سکھ چین سے نوازتی ہے۔ عملی طور پر بھوک

ان ‘ مصیبت ان کے کھیسے لگی ہے۔ ہاں البتہ یہ رشک ارم دنیا

لیڈروں کی دنیا میں ضرور بسی چلی آتی ہے۔ گماشتے انہیں

سب اچھا کا سندیسہ سناتے آئے ہیں۔

سو کے مرتبے پر فائز کر ‘ اگر عورت چاہے تو صفر کو بھی

سکتی ہے۔ اگر الٹے پاؤں چلنے لگے تو سو کو صفر بھی نہیں

اس ‘ رہنے دیتی۔ دوسرا گریب صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے

سے آگے اس کی اولات و بسات ہی نٰہیں ہوتی۔ فیجاں کو تو اہل

شوہر اور بچوں ‘ موج مستی سے ہی فرصت نہ تھی‘ اخگر سے

پر کیا توجہ دیتی۔ وہ ملکی لیڈر صاحبان کے لدموں پر تھی۔

Page 36: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

اس نے پہا خادم سے طالق لے لی ہے اور ‘ ایک روز پتا چال

کسی کے ساتھ چلی گئی ہے۔ پہا خادم اکیال ہی زندگی کی گاڑی

ایک سیٹھ صاحب ‘ چالتا رہا۔ ایک روز شراب کے نشہ میں دھت

ہللا کو پیارا ہو گیا۔ بچے در بہ در ہو ‘ کی گاڑی کے نیچے آ کر

منڈی میں پلے داری ‘ گئے۔ جس بچے کو وہ ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا

کرنے لگا۔ بعد میں الری اڈے ہاکری کرنے لگا۔ اس کی ایک

مزدور کی بیٹی سے شادی ہو گئی۔ ہللا نے اسے چاند سا بیٹا

عطا کیا۔ بےشک باپ کی طرح بڑا محنتی ہے اور آج کل باپ کے

عابی کی ‘ سے خیالی پالؤ پکاتا ہے۔ اس کی بیوی سگھڑ ہے

وفادار بھی ہے۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ اس کے خیالی پالؤ

منزل پا ہی لیں۔‘ کسی حد تک سہی

تعلیم اور روٹی

منسانہ

وہ کم پڑھا لکھا کامیاب ہنرمند تھا۔ گزارے سے بڑھ کر کما لیتا

تھا لیکن اپنی ایک الگ سے فکر رکھتا تھا۔ ہنرمندوں کی

‘ بدحالی اسے خون کے آنسو روالتی۔ کیا کر سکتا تھا۔ وہ کیا

معامالت روٹی ٹکر میں بڑے بڑے کھنی خان مجبور و بےبس

Page 37: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

التداری طبمے کی ‘ ہو گیے تھے۔ دفتر شاہی ہو کہ انتظامیہ

گماشتہ چلی آتی تھی۔ اسی طرح التداری طبمہ اس کے بغیر زیرو

میٹر تھا۔

آخر ہنرمند طبمے کی کس طرح مدد ‘ وہ دیر تک سوچتا رہا

کرے۔ پھر اسے ایک خیال سوجھا۔ خوشی سے اس کا چہرا

دمک اٹھا اور اس نے تعلیم ایسے مشکل گزار رستے پر چلنے

کاپی اور للم کی خریدداری کے لیے اس ‘ کا فیصلہ کر لیا۔ کتاب

کے پاس پیسے تھے۔ تعلیمی معامالت میں مشکل پیش آ جانے

کی صورت میں ماسٹر نور دین سے رابطہ ممکن تھا۔

وہ سب سے پہلے کتابوں کی دکان پر گیا۔ پانچ ‘ صبح اٹھتے ہی

ایک بڑا رجسٹر اور للم خرید کیا۔ اس ‘ چٹھی کی کتابیں‘ پاس تھا

روز اول ‘ نے یہ غور ہی نہ کیا کہ پڑھے لکھے باشعور طبمے

شعور سے عاری بااختیار طبمے کی چھتر چھاؤں میں ‘ سے

مکہ بردار اپنے محل اور ‘ زندگی کرتے آئے ہیں۔ ہنرمندوں کو

خودسر گھروالیوں کے ممبرے بنانے کے لیے استعمال کرتے

تعلیم تو ‘ آئے ہیں۔ دوسرا تعلیم اور روٹی کا کوئی رشتہ ہی نہیں

آگہی فراہم کرتی ہے۔ یہ دماغ سے سوچنے کا درس دیتی ہے۔

پیٹ سے سوچنے کے لیے جہالت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دماغ

کی سوچ شخص تعمیر کرتی ہے جب کہ پیٹ کی سوچ میں کو

Page 38: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

ہوا دیتی ہے اور کم زور سروں کی کھوپڑوں سے محل تعمیر

کرتی ہے۔

وہ دیر تک کتابوں کے اوراق الٹ پلٹ کرتا رہا۔ رجسٹر پر کچھ

لکھنے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ اس کی ذہنی کیفیت جنونیوں

اس لیے اسے ‘ کی سی تھی۔ چوں کہ سورج روشنی دے رہا تھا

‘ احساس تک نہ ہوا کہ بجی کتنی بار گئی ہے۔ رات ہو گئی تھی

پھر اچانک ایک جھٹکے سے بجلی چلی گئی۔ اس کے منہ سے

بےاختیار او تیرے کی نکل گیا۔ دوسرے ہی لمحے اسے خیال

کہ وہ میٹرک پاس کرکے واپڈا میں بھرتی ہو کر ہنرمندوں ‘ آیا

کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ حکومت تو خود ہنرمندوں کی مدد کر رہی

تھی۔

انرجی ‘ فیکس ٹائم کے عالوہ بھی چار چھے اچانکیہ جھٹکے

اور بھی بہت ساری چھوٹی بڑی چیزوں کو لے ‘ سیور ہی نہیں

چھوٹے سے ‘ دے جاتے تھے۔ بڑی بڑی کمپنیوں سے لے کر

چھوٹے ہنر مند کی دال روٹی کا سامان تو ہو رہا تھا۔ یہ ہی تو

وہ کرنا چاہتا تھا جو پہلے سے ہی ہو رہا تھا۔ اسے اپنی گھٹیا

کہ صاحب اختیار طبمے تو پہلے ‘ سوچ پر بڑی شرمندگی ہوئی

ہی ہنرمندوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس نے کاپیاں

کتابیں الماری میں رکھ دیں اور سر کے نیچے بازو رکھ کر

Page 39: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

سکون کی نیند سو گیا۔

بوسیدہ الش

زندگی کی آخری گھڑیاں گن ‘ شباب مرزا ایمرجنسی وارڈ میں پڑا

اس کی زندگی بچانے کی کوشش کر ‘ رہا تھا۔ ڈاکٹر اور نرسیں

اپنے انجام کو پہنچ ‘ رہے تھے۔ اس پر کھل گیا تھا کہ اب کہانی

‘ اسے زندگی کی شاہراہ پر ال کر‘ چکی ہے۔ دوا دارو دوبارہ سے

میسر ‘ کھڑا نہیں کرسکتے۔ بچ بھی گیا تو وہ پہلے سی توانائی

اس کا ‘ نہ آ سکے گی۔ وہ زندگی بھر کسی کا سہارا نہیں بنا

محض دکھاوے ‘ کوئی کیوں سہارا بنے گا۔ ہر کسی کا لول و فعل

کچھ حاصل کرنے کے لیے ہو گا۔‘ اور اسے خوش کرکے

اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گھوم ‘ زندگی کا ہر بیتا لمحہ

گیا۔ ابھی وہ اتنا بڑا نہیں ہوا تھا کہ اسے لذت کا احساس ہو گیا۔

ہوا یوں کہ ان کے گھر اس کی خالہ اور اس کی بیٹی ملنے یا

کسی کام سے آئیں۔ خالہ نے اسے گلے لگایا اور اس کی بالئیں

جو عمر میں کوئی اس سے زیادہ بڑی نہ ‘ لیں۔ اس کی خالہ زاد

Page 40: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

بھی اسے گلے ملی۔ خالہ کے گلے ملنے میں کوئی مزا نہ ‘ تھی

اس کے بدن میں عجب سی ‘ تھا لیکن خالہ زاد کے ملنے سے

لذت دوڑ گئی۔ وہ اسے بار بار ملنا چاہتا تھا۔ اس کے رونگٹے

میں ان جانی سی ہلچل مچ گئی۔ کئی بار کھڑا بھی ہوا۔ شاید اس

لڑکی کی استفادہ میں بھی یہ ہی کیفیت رہی ہو گی۔

اس کی اماں اور خالہ باتوں میں جھٹ گئیں۔ سسرالی خاندانوں

کی خامیاں موضوع گفتگو تھیں۔ وہ تو اپنے مجازی خداؤں کو

اپنی ‘ بھی لتاڑے چلی جا رہی تھیں۔ وہ اور اس کی خالہ زاد

رومان کی دنیا آباد کیے ‘ ماؤں کے باہمی مذاکرات سے بےنیاز

جب تک اس کی ‘ ہوئے تھے۔ یہ سلسلہ اس ولت تک چلتا رہا

خالہ نے اپنی بیٹی کو آواز نہ دے دی۔

اسے متحرک کر دیا۔ تعلیمی معامالت ‘ لذت کے اس احساس نے

اس نے ہر جائز ناجائز حربہ اختیار کیا۔ یہ ‘ طے کرنے کے لیے

ہی طور اس نے اچھے روزگار کے لیے اپنایا۔ اچھی رہائش اور

زندگی سے ‘ اس کے لوازمات کے لیے جائز کو مستمل طور پر

جو اسے ‘ خارج ہی کر دیا۔ دنیا کی کون سی ایسی آسائش ہو گی

نوکر چاکر گویا ‘ بینک بیلس‘ بنگلہ‘ کار‘ میسر نہ آئی۔ کوٹھی

بڑے ‘ سب کچھ اس کے کھیسے لگ چکا تھا۔ ایسے حاالت میں

حسیناؤں کا ‘ گھر کی بیٹی بھی رونك افروز ہو گئی۔ وہ ہی کیا

Page 41: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

بڑے حسن اور ناز و ‘ ایک ہجوم اس کے گرد رہتا۔ اس کا لرب

ادا والیوں کو ہی نصیب ہوتا۔

رونگٹا ذرا کم زور بڑتا تو دواؤں کا انبار لگ جاتا۔ اٹھنے

سونے جاگنے غرض ہر نوع ‘ کھانے پینے‘ آنے جانے‘ بیٹھنے

معدہ اپ سٹ رہنے ‘ کی لذت اس کے لدم لیتی رہی۔ آخر کب تک

اس ذیل میں گھر ‘ لگا۔ رونگٹا بھی ڈھیٹ سا ہو گیا۔ باہر تو باہر

جن کا وہ کبھی ‘ پر بھی ذلت اٹھانا پڑتی اور وہ وہ باتیں سنتا

بچے بھی اس ‘ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ماں کی دیکھا دیکھی

کی پرواہ چھوڑ گیے۔ اب وہ بااختیار افسر نہیں تھا جو اردگرد

چمچے کڑچھے ہوتے۔ باہر نکلتا تو ناانصافی برداشت کرنے

والوں کی غصیلی نظریں کھانے کو دوڑتیں گھر آتا تو نادیہ پاگل

کاٹنے کو آتی۔ لذت نے آزار کا بھیس اختیار کر لیا ‘ کتیا کی طرح

تھا۔

اس نے ذلت و عذاب ‘ پانچ سے زیادہ عرصہ‘ ایک دو دن نہیں

میں گزارا۔ رونگٹے کی بےوفائی اس حالت تک لے آئی تھی۔

ہسپتال بھی اسے شرم کوشرمی الیا گیا تھا دوسرا سارا دن اس

عذاب کو کون جھیلتا۔ یہاں سابمہ سرکاری افسر ہونے کی وجہ

خدمت میسر آ رہی تھی۔ وہ آنکھیں بند ‘ کسی حد تک سہی‘ سے

کیے یہ ہی سوچے جا رہا تھا کہ لذت کے لمحے آخر کیوں ختم

Page 42: مقصود حسنی کے چودہ منسانے

ہو جاتے ہیں۔ آخر سب کچھ برلرار کیوں نہیں رہتا۔ پھر اس نے

سوچا کہ اگر زندگی کی لذت کو استحمام نہیں تو زندگی کی اذیت

یہ بھی ختم ہو جائے گی۔ سوچوں ‘ کو بھی بما نہیں ہو سکتی

آخری ہچکی لی ‘ کے گرداب میں پھنسی اذیت آمیز زندگی نے

اور پھر وہاں ایک بوسیدہ الش کے سوا کچھ بالی نہ رہا۔

ممصود حسنی کے چودہ منسانے

پیش کار

پروفیسر نیامت علی مرتضائی

ابوزر برلی کتب خانہ

٢٠١٦نومبر

Page 43: مقصود حسنی کے چودہ منسانے