مقصود حسنی کے نو افسانے

60

Upload: maqsood-hasni

Post on 24-Jan-2017

51 views

Category:

Engineering


5 download

TRANSCRIPT

Page 1: مقصود حسنی کے نو افسانے
Page 2: مقصود حسنی کے نو افسانے

ممصود حسنی کے نو افسانے

پیش کار

شہال کنور عباس

٢٠١٦ابوزر برلی کتب خانہ

فہرست

وہ اندھی تھی -١

کچھ بعید نہیں -٢

ڈی سی سر مائیکل جان -٣

پرایا دھن -٤

کتا اس لیے بھونکا -٥

یہ ہی ٹھیک رہے گا -٦

کردہ کا انتمام -٧

حمیمت پس پردہ تھی -٨

الحول وال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ -٩

Page 3: مقصود حسنی کے نو افسانے

وہ اندھی تھی

چھالوہ زیادہ تھا۔ دوسرا ' وہ لنکویل لبیلے کا سانپ کم

جہنمی بال لگتا تھا۔ کسی ' حجم اور لمبائی چوڑائی میں بھی

ایک جگہ ٹھکانہ رکھتا تو گرفت کا کوئی ناکوئی رستہ

مصیبت تو یہ تھی کہ اس کا کوئی مستمل ' ضرور نکل آتا

آخر کہیں ناکہیں آرام ' ٹھکانہ نہ تھا۔ لوگ سوچ میں تھے

پتا نہیں اچانک کیوں نازل ہو گئی ' تو کرتا ہو گا۔ یہ بال

تھی۔ عاللے کے سربراہ مہاراج چرچی ناتھ کی آمد اچانک

اس کے پیچھے ایک عوامی خون خوار تاریخی ' نہ تھی

جس کے سامنے عاللے کے ' پس منظر تھا۔ اس سپرپاور

لطعی مجبور وبےبس تھے۔ گھروں میں ' پھنے خاں بھی

Page 4: مقصود حسنی کے نو افسانے

ان پر ہراس کے موسم کی کپکپی طاری تھی۔' بیٹھے

عذاب بن گیا تھا۔ نر ' وہ گھریلو مویشیوں کے لیے بھی

جب کہ مادہ مویشیوں کا دودھ ' مویشی جان سے جاتے

نچوڑ لیتا۔ جسے ڈستا پاؤں پر ٹکی ہو جاتا۔ جگہ جگہ

سانس لینا ' الشیں بکھری پڑی تھیں۔ بو اور تعفن سے

بےچارگی ' محال ہو گیا تھا۔ عاللے کے ہر چھوٹے بڑے کو

مایوسی کے دروازے تک لے آیا ' اور بےبسی کا یہ عالم

تھا۔

غوروفکر کیا جا رہا تھا لیکن ' ذاتی اور اجتماعی طور پر

کوئی حتمی حل ہاتھ نہیں لگ رہا تھا۔ زبانی جمع خرچ بہت

مگرمیدان میں کوئی اترنے کے لیے تیار نہ ہو رہا تھا۔ ' ہوا

جان ہر کسی کو پیاری تھی۔ ایک دوسرے سے ' کون اترتا

وابستہ کی جا سکتی تھی یا پھر کسی غیبی مدد کا ' تولع

انتظار کیا جا سکتا تھا۔

کچھ نہ ہو سکا۔ بھوک پیاس اور تعفنی ' کئی دن گزر گئے

Page 5: مقصود حسنی کے نو افسانے

موتیں ہو رہی تھیں۔ انسانوں اور مویشیوں کی ' گھٹن سے

باہر کی ' الشیں ٹھکانے نہیں لگ رہی تھیں جس کے باعث

گھروں میں بھی بدبو پھیل گئی تھی۔ ہر ' بدبو تو تھی ہی

کسی کا منہ لٹکا ہوا تھا۔ کمزوری کے سبب جیتے جاگتے

چلتی پھرتی الشیں لگ رہے تھے۔' انسان

' ایک دن دوسری والیت سے آنے واال گامو سوچیار

چونکا دینے والی خوش خبری الیا۔ اس نے بتایا ادھر

ایک ' ایک لنکویل لبیلے کا اژدھا' شہاب دین کے کھیت میں

بےبسی کے عالم ' مریل اور کرم خوردہ کتے کے منہ میں

گامو ' پیچ و تاب کھا رہا ہے۔ یہ سننا تھا کہ لوگ' میں

شہاب دین کے کھیت کی ' سوچیار سے لپٹ گئے۔ پھر لوگ

جانب دوڑ پڑے۔ یہ دینو نائی کا بیمار کتا تھا۔ سانپ کے

اس کے دانت گڑے ہوئے تھے۔ سانپ آدھا ادھر ' درمیان

چھٹکارے کی کوشش میں ' آدھا ادھر بےبسی کے عالم میں

ہیروشیما پر پر ' تھا۔ وہ بار بار اسے ڈس رہا تھا۔ ہر ڈنگ

کسی طرح کم نہ تھا۔ الٹا سیدھا ہو کر ڈرون ' گرے بم سے

کچھ بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔' گرا رہا تھا۔ مگر کہاں

Page 6: مقصود حسنی کے نو افسانے

طالت سے ہر کوئی دور ہی رہا ہے ' اصول یہ ہی رہا ہے

عافیت خیال کرتا رہا ہے۔ اس رویے کے ' اور اسی میں

طالت کو شہ ملی ہے اور عاللے میں دندناتی پھرتی ' سبب

جان سے جاتا ' کم زور یا طالتور' ہے۔ ہر سامنے آنے واال

تاہم ایک کی بلی اوروں کی نجات کا سبب بنتی ہے۔ ' ہے

ادھر سے گزرا ہو گا۔ اس گستاخی کی سزا ' دینو کا کتا

اس پر فرار کے چاروں رستے بند کر دیے گیے ہوں ' میں

جھپٹ پڑا ہو گا۔ ' گے اور اس پر ترس کھانے کی بجائے

موتی کا پہلے داؤ لگ گیا ہو گا۔ ڈنگ لگنے سے اس کی

موت والع ہو گئی ہو گی اور اکڑاؤ آ گیا ہو گا۔ اب اس کی

کون اور کیوں مدد کرتا۔ تکبر تماشا بن چکا تھا۔ طالت

عبرت نہیں لیتی کیوں کہ وہ اندھی ہوتی ہے۔

Page 7: مقصود حسنی کے نو افسانے

کچھ بعید نہیں

بہت سے سائل یا ‘ میں ایک دفتر میں مالزم ہوں۔ سارا دن

جنہیں ‘ ان کے سفید پوش اور چرب زبان دلے دالل

‘ مک مکا کرتے‘ شورےفا کی زبان میں ایجنٹ کہا جاتا ہے

چائے پانی پالتے لگاتے اور دو طرفہ مسکراہٹ میں اپنی

ایک دوسرے کی جان پہچان میں ہیں۔ ‘ راہ لیتے۔ ہم لوگ

کافی کچھ کہہ ‘ آنکھوں کی زبان میں‘ ناگہانی حاالت میں

ان سے ناوالف نہیں ہیں۔ ‘ سن لیتے ہیں۔ ممامی افسر بھی

کسی باال افسر کے آنے کی ‘ آنکھوں کی زبان کا استعمال

صورت میں ہوتا ہے۔ بس ایک جعلی سی پردہ داری ہے۔

انھی ‘ یہاں سے کہیں بڑھ کر‘ حاالں کہ آنے والے کے ہاں

ہم میں سے ‘ مچی ہوتی ہے۔ ماہنانہ لفافے کی ترسیل کی

کوئی ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔ بس ایک بھرم سا چال آتا ہے۔

لفافہ ‘ کہیں کھال اور کہیں فی صد بھی طے ہے۔ عموم میں

باال ‘ گردوپیش‘ ہی متحرک رہتا ہے۔ گویا ہم دفتر والے

رویے ‘ دفاتر اور دفاتر سے منسلک دلے داللوں کے مزاج

اور اطوار سے خوب آگاہ ہیں۔

Page 8: مقصود حسنی کے نو افسانے

ایک چھوٹے لد کے شخص سے ماللات ‘ دفتر آتے جاتے

کیوں کہ ‘ ہوتی رہتی تھی۔ وہ کسی دفتر کا مالزم نہیں تھا

میں ممامی دفتر کے ہر مالزم سے والف ہوں۔ وہ یمینا

بڑے ادب ‘ ہاتھ اٹھا کر‘ کسی دفتر کا مستند دال تھا۔ جب ملتا

سے سالم کرتا۔ میں بھی خوش خلمی سے سالم کا جواب

دیتا۔ یہ دال حضرات بڑے عجیب والع ہوئے ہیں۔ چغلی اور

میر ‘ مخبری میں بھی کمال کے ماہر ہوتے ہیں۔ بہت سے

جعفر کے بھی پیو ہیں۔ کھٹی بھی چغلی مخبری کی کھاتے

ہیں۔

یہ اس لماش کا دال نہ تھا۔ باادب سالم بھی حفظ ما تمدم

کوئی کام پڑ سکتا ‘ کہ کبھی اور کسی ولت بھی‘ کرتا تھا

کام نکلوانے میں معاون ثابت ‘ تھا۔ اس لسم کے باادب سالم

ہوتے ہیں۔ وہ مجھے نہیں جانتا تھا۔ میں کام کی وصولی

میں بڑا سخت اور کورا والع ہوا ہوں۔ میرے اس اصول

اپنے پرائے خوب خوب آگاہ ہیں۔ سالم دعا کے حوالہ ‘ سے

رو رعایت کو دو نمبری سمجھتا ہوں۔ اگر رو رعایت ‘ سے

سے کام لیتا تو اتنی بڑی جائیداد کبھی بن نہ پاتی۔

Page 9: مقصود حسنی کے نو افسانے

بڑے رومنٹک اور مالپڑے سے موڈ میں تھا۔ ‘ ایک دن مال

میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔

کوئی کام تو نہیں۔ ‘ بھئی خیر تو ہے‘ میں نے ہنس کر کہا

لیکھے میں بااصول ہوں۔‘ سالم دعا اپنی جگہ

سرکار میں جانتا ہوں۔: ہنس پڑا اور کہنے لگا

کیا کام ہے۔‘ تو کہو

سرکار بڑی نفیس اور شان دار بکری ہاتھ آئی ہے۔ طبیت

راضی ہو جائے گی۔ صرف اور صرف ایک ہزار میں۔

میں حیران ہو گیا۔ کیسا بندہ ہے۔ بکری میں نے کیا کرنی

لے لیتا ‘ ایک ہزار میں مل رہی ہے‘ ہے۔ پھر خیال گزرا

ہوں۔ چار دن چھوٹا گوشت کھائیں گے۔ صاحب اور پھر

مخصوص احباب کی دعوت بھی کر لوں گا۔

ایسی ویسی تو نہیں۔: میں نے ہنس کر پوچھا

ایسی ویسی سے میری مراد چوری کی تھی۔ ہوتی بھی تو

مجھے تو ایک ہزار میں مل رہی تھی۔‘ کیا فرق پڑتا

:بےغیرت سی ہنسی میں کہنے لگا

Page 10: مقصود حسنی کے نو افسانے

نمبر ون ہے۔‘ نہیں سرکار

جو پانچ ولتے اور مونچھ ‘ پھر اس نے کئی نام گنوائے

چٹ تھے۔

اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ سرکار مزا نہ آئے تو

پھر کہنا۔

تو بکری کا مفہوم سمجھ میں آیا۔ ‘ جب اس نے یہ بات کہی

کہ میں داللوں کی ہر اصطالح سے آگاہ ‘ مجھے افسوس ہوا

میرے لیے لطعی الگ سے تھی۔ دوسرا ‘ ہوں۔ یہ اصطالح

گشتوڑ اور بکری کی مماثلت میرے لیے لطعی نئی تھی۔

رشوت ٹھوک کر لیتا ہوں لیکن زانی نہیں ‘ میں مانتا ہوں

بھال ‘ ورنہ رشوت خور زانی اور گھونٹ نہ لگاتا ہو‘ ہوں

کیسے ہو سکتا ہے۔

تمہاری کوئی : مجھے اس پر بڑا تاؤ آیا۔ میں نے پوچھا

جوان بہن بھی ہے۔

جی ہاں: کہنے لگا

میں اس کے ساتھ موج مستی کروں گا۔ ‘ تو اسے لے آؤ

‘ ہزار کا دو ہزار دوں گا۔ چلتی پھرتی ہو تو بھی لے آؤ

چلے گا۔

Page 11: مقصود حسنی کے نو افسانے

اس نے بڑے لہر سے میری جانب دیکھا اور بڑبڑاتا ہوا

دوسری جانب نکل گیا۔

ایسے ‘ میں نے بیوی کا جان بوجھ کر نہیں کہا تھا

شاید لے ہی آتا۔‘ بےغیرتوں سے کچھ بعید نہیں

ڈی سی سر مائیکل جان

غربت کی آخری سطع پر تھا۔ ‘ المبے لد کا مہنگا ماچھی

کپڑے ہیں تو جوتے نہیں۔ سارا ‘ جوتے ہیں تو کپڑے نہیں

رات کو آگ کے ‘ دن جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر التا

رنگ توے سے زیادہ سیاہ ہو گیا ‘ سامنے بیٹھتا۔ جب ہی

Page 12: مقصود حسنی کے نو افسانے

تھا۔ نہاتا بھی شاید ضرورت بری کے بعد تھا۔ اس سے

کیا درک لگی کہ یو کے ‘ گوڈے گوڈے بو آتی تھی۔ پتا نہیں

جا پہہنچا۔ اس کی بیوی صوباں سگھڑ عورت تھی۔ اس نے

وہاں ‘ جہاں میکے کی بھوک نکالی‘ مہنگے کی کمائی سے

جھونپڑی نما ‘ گھر کی حالت بھی سنوار دی۔ تین سال میں

عالی شان کوٹھی کی شکل اختیار کر لی۔ خود ‘ مکان نے

شان دار کپڑے پہننے لگے۔ شرفا کی خواتین ‘ اور بچے

میم زیادہ ‘ صوباں کم‘ سے علیک سلیک ہو گئی۔ صوباں

لگتی تھی۔ چوتھے سال دروازے پر تختی آویزاں ہوگئی۔

ڈی سی سر مائیکل جان یو کے

کوٹ امر ناتھ‘ گلی نبر چار

رام پور خاص

بل ‘ چاروں اور باتیں ہونے لگیں۔ یار مہنگا تو سکا ان پڑھ

یو کے میں ڈی سی کیسے ہو گیا۔ آخر اس نے ‘ کہ ان پاڑ

جس کی پاداش میں ‘ ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہو گا

اتنا بڑا عہدہ ہاتھ لگ گیا۔ صوباں کی کوئی ایرا غیرا سہیلی

جو کچھ دریافت کرتی۔ ان کے ہاں فمط بیگمات ‘ نہ رہی تھی

Page 13: مقصود حسنی کے نو افسانے

کا آنا جانا تھا۔ ہمارے ہاں کسی کی خوش حالی اور ترلی

بےچینی سی ضرور سر ‘ گھروں اور گلیوں میں‘ دیکھ کر

خوش ‘ اٹھاتی ہے۔ کسی کی خوش حالی اور ترلی دیکھ کر

ہماری عادت اور فطرت کا خاصہ نہیں۔ کیا ہو سکتا ‘ ہونا

اسے زمین پر کون ال سکتا ہے۔ حمی ‘ جسے هللا دے‘ ہے

تھوڑی ‘ سچی بات یہ بھی ہے کہ اپنی ذات کے گریبوں کی

بہت مدد بھی کرتی تھی۔

مہنگا دو ماہ کے لیے واپس رام پور آیا۔ ‘ چار سال بعد

مہنگا کم ڈی سی سر مائیکل جان زیادہ لگتا تھا۔ اس ‘ مہنگا

‘ کھانا پینا‘ ملنا جلنا‘ اٹھنا بیٹھنا‘ لباس‘ کا رنگ ڈھنگ

غرض سب کچھ بدل گیا تھا۔ انگریزی فرفر بولتا تھا۔ پھنے

اس کے سامنے بھیگی چوہی بن ‘ خاں میڑک پاس بھی

آخر اس کے ہاتھ ایسی کون سی ‘ جاتے۔ سب حیران تھے

‘ مالی‘ جو فمط چار سالوں میں‘ گیدڑ سنگی لگی ہے

شخصی اور اطواری تبدیلیوں کا سبب بنی۔ کچھ تو اس کے

پیچھے رہا ہو گا۔

مخبر اپنے کام میں بڑی جان فشانی سے مصروف تھے۔

Page 14: مقصود حسنی کے نو افسانے

خیر کی خبر آ ہی گئی۔ ‘ کب تک معاملہ مخمصے میں رہتا

میموں کے کتے نہالتا تھا۔ ڈی سی مراد ‘ وہ وہاں دریا پر

وہ بھی مرا ہوا۔ سب ‘ ڈوگ کلینر تھا۔ کھودا پہاڑ نکال چوہا

انڈر پریشر اور احساس کہتری ‘ کھل جانے کے بعد بھی

یہ دھن ‘ اسے سالم کرتے تھے۔ اسے کیا‘ کے مارے لوگ

کو سالم تھا۔

مغرب میں ڈوگ صاحب بہادر وفاداری کے حوالہ سے

بل کہ کئی ایک ذاتی اور خفیہ ‘ معتبر اور باعزت نہیں

‘ نام و ممام رکھتے ہیں۔ یہ تو اچھا ہے‘ خدمات کے تحت

مطلب بری کے بعد کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ گوریاں

ڈوگ صاحب بہادر کی بڑی ہی عزت کرتی ہیں۔ اس کی ہر

ضرورت کا خیال رکھتی ہیں۔ اسے نہالنے دھالنے والے

سن باتھ ‘ معمول عوضانہ پپش کرتی ہیں۔ دریا کنارے‘ کو

ڈی سی کے حوالے اپنے ڈوگی کر دیتی ‘ کرنے آئی گوریاں

ہیں۔ ڈی سی تہرا البھ اٹھاتا ہے۔

موٹی اور پیپا ‘ مختصر چڈی اور بریزئر میں ملبوس پتلی

آنکھیں ‘ گوریاں مالحظہ کرتا ہے۔ الکھ حاجی شریف سہی

تو بند نہیں کر سکتا۔

Page 15: مقصود حسنی کے نو افسانے

سیکسی اور رومان پرور مسکراہٹیں وصولتا ہے۔ ‘ بھیگی

پاؤنڈ گرہ لگتے ہیں۔

گرمیوں میں مری ‘ ہمارے ہاں کے لوگ بھی عجیب ہیں

جاتے ہیں۔ پگلے ساتھ گھر والی بھی لے جاتے ہیں۔ اچھا

خاصا خرچہ کرتے ہیں۔ گرمیوں میں چار پیسے زیادہ خرچ

مغرب کے کسی دریا کا رخ کریں۔ پیسے کمائیں اور ‘ کرکے

دوہری ٹھنڈک حاصل کریں۔

وفاداری کے حوالہ ‘ ہمارے ہاں کتا گریب کا ہو یا امیر کا

سے بلند ممام و مرتبہ رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ وفاداری محض

ایک دل کو بہالنے کا ذریعہ ہے۔ میر جعفر نے ٹیپو کو اپنی

وفاداری کا یمین دال رکھا تھا لیکن اندرخانے بک چکا تھا۔

ٹیپو سے بھی دو دن پہلے ‘ اپنی وفاداری کے انعام میں

ٹھکانے لگ گیا۔

اپنے ساتھ ہڈی واال گوشت لے کر جاتے ہیں۔ ‘ سیانے چور

چور سامان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کتا مالک کا ‘ کتا گوشت پر

Page 16: مقصود حسنی کے نو افسانے

نہیں ہڈی کا وفادار ہوتا ہے۔

وہاں ‘ جہاں سے ہڈی ملتی ہے‘ رشوت خور کو دیکھ لیں

جو اس سے ‘ میرٹ بنا دے گا۔ ایمان کوئی مادی شے نہیں

ایمان نظر ‘ وفاداری نبھائے۔ نوٹ اور ڈبہ نظر آتے ہیں

مالک تو ‘ مالک نہیں‘ نہیں آتا۔ کتے کو گوشت نظر آتا ہے

لیکن ‘ سویا ہوتا ہے۔ مالک رات کو پیٹ بھر کھالتا ہے

اسی لیے ہڈی اس کی ترجیح ‘ کتے کی آنکھ نہیں بھرتی

میں رہتی ہے۔

هللا نے تین پیارے پیارے بچوں ‘ میرے کرائےدار سرور کو

سے نوازا۔ اس کی بیوی بیمار پڑ گئی۔ کئی ماہ بیماری

لیکن لڑائی ہار گئی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ‘ سے لڑی

بچوں کا خیال رکھنا۔ اب تم ہی ان کی ماں اور تم ہی ان کے

پورے ادب ‘ ایک کنوری مل گئی۔ مال‘ باپ ہو۔ اسے جلد ہی

و آداب کے ساتھ اس کا ذکر کرتا رہا۔ گن گنوانے میں زمین

آسمان ایک کر دیا۔ بچے سکول سے اٹھا لیے گیے ہیں

اور ان کے مندے حال ہیں۔ مرحومہ بیماری میں بھی بچوں

کا خیال رکھتی تھی۔ کتا کتنا ہی نسلی اور اعلی پائے کا

Page 17: مقصود حسنی کے نو افسانے

اس کی وفاداری ہڈی سے مشروط رہتی ہے۔‘ کیوں نہ ہو

سترہ سال گوریوں کے ڈوگ ‘ ڈی سی سر مائیکل جان نے

صاحب بہادران کی نہالئی دھالئی کی۔ اب وہ بوڑھا اور چڑ

‘ چڑا ہو گیا تھا۔ اسے ایک ایسے ڈوگ صاحب بہادر سے

اسے ‘ پاال پڑا جو نچال نہیں بیٹھتا تھا۔ اس نے تاؤ میں آ کر

‘ اچھی خاصی مرمت ہوئی‘ پان سات جڑ دیں۔ پھر کیا تھا

گھر کی راہ دکھائی ‘ جیل بھی گیا۔ جیل کی یاترا کے بعد

گئی۔ اب وہ بےکار اور نکمی شے سے زیادہ نہ تھا۔ گھر

اسے ‘ اس کے نازوں پلے بچے‘ میں صوباں تو ایک طرف

توئے کرتے رہتے۔

گھر کا نسلی کتا ٹومی ‘ غضب خدا کا گھر پر نکما نہیں

بےولار ہو چکا ‘ بالناغہ دو ٹائم نہالتا ہے۔ اس کے باوجود

ٹومی غراتا ‘ ہے۔ جس دن نہالنے میں تھوڑا دیر ہو جائے

دم گھر والوں یا ان ‘ بھونکتا ہے۔ خدمت یہ کرتا ہے‘ نہیں

کے ملنے والوں کے سامنے ہالتا ہے۔ ٹومی خوب جانتا

تھرڈ کالس نوکر ‘ خدمت کرنے واال اس کا مالک نہیں‘ ہے

ہے۔

Page 18: مقصود حسنی کے نو افسانے

دروازے سے تختی اتر چکی ہے۔ اس کی انگریزی

بےاولات ہو چکی ہے۔ باہر نکلتا ہے تو کل تک سالم

مہنگو ‘ مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ اب مہنگا نہیں‘ کرنے والے

کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔

پرایا دھن

احممانہ گفت گو یا حرکت چل جاتی ہے ‘ ہنسی مذاق میں

احممانہ گفت ‘ لیکن سنجیدہ اور دکھ سکھ کے معامالت میں

سرے سے گنجائش نہیں ہوتی۔ بخشو کے ‘ گو یا حرکت کی

Page 19: مقصود حسنی کے نو افسانے

اس کی سگی سالی کی بیٹی سے نکاح ہونے جا ‘ بیٹے کا

مختلف نوعیت کے شگن ‘ رہا تھا۔ شوکے کی ماں اور بہنیں

کر رہی تھیں۔ وہ سب خوش تھیں۔ بذات خود شوکا بڑا ہی

خوشی خوشی جملہ معامالت انجام ‘ خوش تھا۔ بخشو بھی

گلے میں ماال ‘ دے رہا تھا۔ جوں ہی شوکا سہرہ باندھے

بخشو نے نیا ہی ‘ سجی پھبی گھوڑی پر بیٹھنے لگا‘ ڈالے

تماشا کھڑا کر دیا۔ اس نے شوکے کو گلے لگا لیا اور

زارولطار رونے لگا۔ یہ بالکل الگ سے بات تھی اور

سمجھ سے باالتر تھی۔ لوگ بیٹوں کی شادی پر خوشیاں

یہ احمك رو رہا تھا۔‘ مناتے

پہاگاں حسب سابك اور حسب عادت آپے سے باہر ہو گئی۔

اس دن کچھ زیادہ ہی ہو گئی۔ اس نے بخشو کی بہہ بہہ

یہ کوئی نئی اور الگ سے بات نہ ‘ کرا دی۔ بخشو کے لیے

سب ‘ جھوٹا تھا‘ تھی۔ برداشت کر گیا۔ برداشت کیوں نہ کرتا

فٹکیں دے رہے تھے۔ خوشیاں غم و غصہ میں بدل گئیں۔

چاچا فضلو ساتھ تھا۔ اس نے بیچ میں پڑ ‘ وہ تو خیر ہوئی

ورنہ جنگ عظیم چہارم کا ‘ بچ بچاؤ کا رستہ نکال لیا‘ کر

آغاز تو ہو ہی گیا تھا۔

Page 20: مقصود حسنی کے نو افسانے

جعلی ہنسی ‘ تمام رسمیں ہوئیں۔ شوکے اور گھر والوں نے

اور خوشی میں سب نبھایا۔ ہاں البتہ براتیوں کی ہنسی اور

لہمہے لطعی جعلی نہ تھے۔ بخشو نے حرکت ہی ایسی کی

آج تک دیکھنے سننے میں نہ آئی تھی۔ دوسری ‘ تھی

‘ طرف لوگ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ بخشو نے ایسا کیا

سیانا بیانا اور چار بندوں ‘ تو کیوں کیا۔ بخشو پاگل نہیں

میں بیٹھنے واال تھا۔ معامالت میں لوگ اس سے مشاورت

کرتے تھے۔ اس دن پتا نہیں اسے کیا ہو گیا تھا۔

تمام ہوا۔ دلہن گھر لے آئے۔ ‘ سب خاموشی اور حیرت میں

شوکے کی ماں اور بہنوں نے نئے جی کے گھر آنے کی

بخشو پال جھاڑتا رہا۔ ‘ خوشیاں منائیں۔ رات دیر گیے تک

چھبتی اور زہرناک نگاہوں ‘ جیب ڈھیلی رکھنے کے باوجود

کسی نے اس کی ‘ کا شکار رہا۔ روٹی پانی تو دور کی بات

بری ‘ طرف دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔ اس نے بھی خود کو

طرح نظرانداز کیا۔ سگریٹ پہ سگریٹ پیتا رہا اور دیر تک

چارپائی پر کروٹیں لیتا رہا۔

Page 21: مقصود حسنی کے نو افسانے

دھوم کا ولیمہ ہوا۔ اچھے خاصے لوگ بالئے گیے تھے۔

خوب وصولیاں ہوئیں۔ کھتونی کے کئی کورے پنے کالے

لیکن ہر لسم ‘ ہوئے۔ تمام خرچے بخشو کی گرہ سے ہوئے

پہگاں کے پلے بندھیں۔ اس روز بھی اسے ‘ کی وصولیاں

گرہ دار موئے ‘ کسی نے پوچھا تک نہیں۔ اس کی حیثیت

کتے سے زیادہ نہ رہی تھی۔

لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو ‘ شادی گزر گئی

بخشو کے ساتھ بری ہوئی ہو گی۔ یہ ‘ گیے۔ صاف ظاہر ہے

باطور مذاق چلتا رہا اور ‘ والعہ دوستوں یاروں میں کئی دن

پھر گزرے دنوں کی یاد سے زیادہ نہ رہا۔ ہر کوئی فکر

کون معاملے کی کھوج میں پڑتا۔‘ معاش میں گرفتار ہے

ایک دن بخشو دوستوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ اچھو نے شرارتا

اور مذالا پوچھ ہی لیا۔

خوش ‘ یار بخشو تمہیں کیا سوجھی کہ بیٹے کی شادی پر

اس گلے لگا کر باں باں کرنے لگے۔ ‘ ہونے کی بجائے

کتنے احمك ہو تم بھی۔

Page 22: مقصود حسنی کے نو افسانے

آج تک سنتے آئے : بخشو جذباتی سا ہو گیا اور کہنے لگا

بیٹیاں ‘ بیٹیاں پرایا دھن ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ غلط ہے‘ ہیں

ابا کے ماں باپ ‘ بیٹے پرایا دھن ہیں۔ میری اماں نے‘ نہیں

سب چھڑا دیے۔ یہ ہی تائی اماں اور ممانی نے ‘ بہن بھائی

الگ ہو گیے ہو۔ ‘ تم سب بھائی‘ کیا۔ خیر ان کو چھوڑو

تمہارے بڈھا بڈھی بےچارگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

زبانی کالمی نہیں پوچھتے ‘ کچھ دینا لینا تو دور کی بات

ہو۔ شوکا بھی دوسرے ہفتے ہی ہمیں چھوڑ گیا۔ کہاں گیا

ماں کا پیار اور ماں کی ممتا۔ وہاں شوکے کی ساس کا آرڈر

چوری ‘ چلتا ہے۔ ہر جگہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ میں بھی

چھپے اماں ابا سے ملنے جاتا تھا۔ تم سب اپنے گریبانوں

کتنے کو اپنے مائی باپ کے فرماں ‘ میں جھانک کر دیکھو

کتنی اور کس سطع کی لربت ‘ بردار ہو۔ بہن بھائیوں سے

بیٹے پرایا دھن ہیں۔ ‘ بیٹیاں نہیں‘ رکھتے ہو۔ میں کہتا ہوں

کیوں نہ روتا۔‘ میرا بیٹا دور ہو رہا تھا

سب کو چپ سی لگ گئی۔ ‘ بخشو کی کھری کھری سن کر

ایک کرکے سب اٹھ گیے۔ بخشو اکیال ہی رہ گیا۔ یہ معلوم

Page 23: مقصود حسنی کے نو افسانے

کہ سچ کی کڑواہٹ برداشت نہ کر سکے یا ‘ نہ ہو سکا

ندامت کا گھیراؤ کچھ زیادہ ہی گہرا ہو گیا تھا۔

کتا اس لیے بھونکا

جہاں ذی روح ‘ ملکیت میں کوئی کم یا زیادہ لیمت کی چیز

وہاں اس میں تکبر ‘ کو اس کے ہونے کا احساس دالتی ہے

کہ فرعون ‘ کا عنصر بھی سر اٹھا لیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے

الہامی کتب ‘ کو یہ میں لے ہی ڈوبی۔ وہ تاریخ تو الگ رہی

میں بھی مردود اور لابل دشنام لرار پایا۔ یہ سب جانتے

انسان کی ملک میں کچھ بھی نہیں۔ اصل مالک هللا کی ‘ ہیں

Page 24: مقصود حسنی کے نو افسانے

سوہنی اور سچی ذات ہے۔ سب کچھ اسی کی طرف پھرتا

ہے۔

چھن سکتی ہے‘ ملکیت کی چیز

کسی خرابی کا شکار ہو سکتی ہے۔

کسی ولت بھی حادثے کی نذر ہو سکتی ہے

بالوجہ ریورس کے عمل میں داخل ہو سکتی ہے۔

موت تہی دست کر دیتی ہے۔

تو کچھ ہونے ‘ جب یہ طے ہے کہ انسان کا ذاتی کچھ نہیں

تشکر باری سے منہ موڑ کر تکبر کی ‘ کی صورت میں

جائز نہیں بنتا۔ اچھی کرنی اچھی کہنی ‘ وادی میں لدم رکھنا

ہی امرتا کا جام نوش کرتی ہے۔

کہاں ہے ممتدر یا مال ابو عمر حمادی کسی کو معلوم تک

منصور کو ہر کوئی جانتا ہے۔سمراط ‘ نہیں کہ یہ کون ہیں

اس کا ‘ کو کس بدبخت بادشاہ نے موت کے گھاٹ اتارا

کوئی نام تک نہیں جانتا۔ سمراط کو کون نہیں جانتا۔ کل میں

Page 25: مقصود حسنی کے نو افسانے

پھول اور ‘ انٹرنیٹ پر سرمد شہید کا مزار دیکھ رہا تھا

ممبرہ تو ‘ عمیدت مند موجود تھے۔ اورنگ زیب بادشاہ تھا

وہاں ویرانیوں کا پہرہ تھا۔ مجھے تکبر اورعجز کا ‘ بن گیا

فرق محسوس ہو گیا۔

کہیں بڑھ کر ‘ ہاں البتہ معاف کر دینا‘ انتمام لینا ناجائز نہیں

‘ بہرطور رویہ موجود رہا ہے۔ انو‘ بات ہے۔ جیسے کو تیسا

بڑا ہی مذالیہ ہے۔ روتے کو ہنسا دینا اس کے بائیں ہاتھ کا

گلی ‘ کھیل ہے۔ یہ ہی کوئی پان سات دن پہلے کی بات ہے

‘ میں سے گزر رہا تھا کہ شرفو درزی کا کتا بال چھیڑے

اس پر بھونکنے لگا۔ وہ نیچے بیٹھ گیا اور جوابا

بھونکنے لگا۔ کتا چپ ہو گیا اور اسے بٹر بٹر دیکھنے

عجب لسم کا ہم جنس دیکھنے کو مال ‘ لگا۔ شاید پہلی بار

یار تم ادھر لینے کیا گیے تھے۔: تھا۔ میں نے پوچھا

بہن کے گھر آٹا لینے گیا تھا۔‘ اوہ جی جانا کیا تھا

مل گیا۔

مل گیا۔ میں کون سا پہلی بار گیا۔ مل ہی جانا تھا۔‘ جی ہاں

مچلنے لگا۔‘ میرے اندر عرفی کا یہ مصرع

Page 26: مقصود حسنی کے نو افسانے

آواز سگاں کم نہ کند رزق گدا را

باور کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاگل ‘ کتا غالبا بل کہ یمینا

‘ کسی غیر کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی بجائے

ہماری ‘ رب سے کیوں نہیں مانگتے۔ خیر انو تو ایک طرف

کاسہ تھامے نظر آتی ہے۔ ‘ دفتر شاہی ہو کہ محالتی دنیا

جو درس میں پڑھنے والے بچوں ‘ مولویوں سے کیا گلہ

گھر گھر مانگنے بھیج دیتے ہیں۔ دست سوال دراز ‘ کو

سو اٹھا رہے ہیں۔‘ کرنے والے ذلت اٹھاتے ہیں

تو بابے فجے کآ ‘ توڑے بھر سامان لے جاتا‘ زکراں کا باپ

ناہنجار کتا ضرور بھونکتا۔ چوروں اور بھرے کھیسے

والوں پر کتے ضرور بھونکتے ہیں اوریہ فطری امر ہے۔

میمیں کرتے آ رہے ہیں۔ داماد یا ‘ ہمارے ہاں کے لوگ

ان کا آئینی حك ‘ داماد کے ملک کے وسائل سے البھ اٹھانا

جو مصلحت کی صلیب پر ‘ ہے۔ یہ سب صفرر ہی تو ہیں

بہت ‘ مصلوب ہو رہے ہیں۔ ایک کی ککرے آمیز بینائی

Page 27: مقصود حسنی کے نو افسانے

سو بیٹھ رہی ہے۔‘ سوؤں کے گوڈوں گٹوں میں بیٹھتی ہے

بہ ظاہر حیرت سے خالی ‘ کسی کم زور پر کتے کا بھونکنا

کتے کم زورں پر بھونکے ‘ نہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں

اور ان کی جانب لپکے ہیں۔ کم زوروں کے پاس بہت زیادہ

ان کا کھیسہ خالی نہیں رہا۔ سومنات کا مندر یوں ‘ ناسہی

‘ اس میں منوں سونا تھا۔ زہے افسوس‘ ہی نہیں توڑا گیا

فردوسی سے چوری خور لوگوں نے ایک لٹیرے کو نبی

لریب کر دیا۔ اصل حمائك پس پشت چلے گیے۔

مائی چراغ بی بی بیس سال سے رنڈیپا کاٹ رہی تھی۔ اس

بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ بےچاری ‘ کے کردار پر انگی رکھنا

تھکے لدموں گلی میں سے گزر رہی تھی۔ گلی کا عام

آوارہ بدبخت کتا پڑ گیا۔ گرنے کو تھی کہ پیچھے شیدے

‘ بولنا کیا‘ تیلی نے سمبھاال دے دیا۔ دعا دینے کی بجائے

نوکیلی اور دھار دھار آواز میں بھونکنے لگی۔ بڑھاپے

ارے توبہ۔ اس کی پوترتا کو سالم و ‘ میں بھی یہ زناٹا

لگی ہونے کا ‘ پرنام۔ بڑھاپے کی جو بھی صورت رہی ہو

‘ احساس پوری شدت سے موجود تھا۔ کتا اس لیے بھونکا

Page 28: مقصود حسنی کے نو افسانے

کہ اس کے ہاتھ میں کلو بھر گوشت کا شاپر تھا۔

یہ ہی ٹھیک رہے گا

اسے اپنے بےمثل اور یکتائے عالم ہونے کا شک گزرا۔ نر

اس کی رگ وپے سے تکبر ‘ شیر ببر ہونے کے شک سے

بلند ہونے لگے۔ اس امر کے اعالن ‘ کے آتش فشانی شعلے

تکبر کی کامل شکتی کے ساتھ دھاڑا۔ اس منہ ‘ کے لیے

صور ‘ ہاں البتہ اس کے منہ سے‘ سے دھاڑ تو نہ سکا

اسرافیل سے مماثل غرغراہٹ ضرور نکل گئی کہ مخلوق

اس کی ‘ ارضی ڈر اور خوف سے لرز لرز گئی۔ اس سے

Page 29: مقصود حسنی کے نو افسانے

انا کو تسکین ملی اور انا نے اس کی میں کو مزید شکتی

جسم و جان تکبر کی مستی کے کھڈ ‘ دان کی۔ پھر کیا تھا

کہ کہاں دولتی چالنا ہے۔ ‘ میں جا گرے۔ ہاں یہ ہوش رہا

اس نے دور کے ایک عاللے میں پوری شان سے دولتی

چالئی کہ وہ عاللہ مٹ گیا۔ چھوٹے بڑے کم زور اور طالت

ور نر مادہ دم توڑ گیے۔ کچھار گھونسلے گھروندے زمین

بوس ہو گیے۔ سرشاری میسر نہ آ سکی۔ سرشاری کے

ایک اور دولتی جڑ دی۔ ‘ بال غرارئے‘ لیے دوبارہ سے

ایک اور عاللہ خاک و خون میں نہا گیا۔

حددوں کی چیزیں نہیں ہیں۔ توکل سیری ‘ بھوک اور سیری

مزید کی گرفت ‘ جب کہ بھوک‘ کی من بھاتی کھا جا ہے

میں رہتی ہے۔ اس نے لوٹ مار اور لتل وغارت کا بازار

ناصرف ناخن کٹوا دیے ‘ گرم کر دیا۔ اس نے ہر تکڑے کے

عزت وشرف سے سرفراز کیا۔ اس کا ‘ بل کہ اپاہج کرکے

ہڈی اس کے سامنے پھینک دیتا تا کہ وہ مصروف ‘ کھا کر

گن گاتا رہے۔ ہاں البتہ گاہے ‘ رہے اور اس کی دیا کے

ٹونکتا اور غراتا رہتا تا کہ سرکشی جنم ہی ‘ بگاہے بھونکتا

میں کا دورہ نہ پڑے۔ ہڈی اور حفظ ‘ نہ لے اور کسی کو

Page 30: مقصود حسنی کے نو افسانے

عاللے کے سبھی لگڑبگڑ اس کے سآتھ ‘ ماتمدم کے لیے

ہو لیے تھے۔ انہیں پیٹ اور جی بھر ہڈیاں میسر آ رہی

تھیں۔

کسی کی خوارک بند کر دیتا۔ کسی کی خوراک کی ترسیل

بند کر دیتا۔ کسی پر جھپٹ پڑتا۔ خبرگیری کے ‘ کے رستے

اطراف کی خبریں پہنچاتے ‘ اسے لمحہ لمحہ کی‘ توتے

رہتے تھے۔ توتے کبھی کسی کے سگے نہیں رہے۔

وفاداری ان کی فطرت میں داخل نہیں۔ وفاداری ان کی

فطرت میں ہوتی تو توتے کیوں کہالتے۔ توتے ہمہ ولت

چوری آمد کے ساتھ ‘ چوری کے متمنی رہتے ہیں۔ وفاداری

مشروط ہوتی ہے۔ آمد لوٹ مار سے وابستہ ہے۔

لتل و غارت سے گدھ بھی البھ اٹھاتے ہیں۔ جنگلی حیات

‘ حك سچ کی کوئی معنویت نہیں ہوتی۔ گدھوں کی آواز‘ میں

کوئل کی آواز سے بڑھ کر سریلی محسوس ہوتی ہے۔ آتا

ان آوازوں کے حوالہ سے پہچانتا ہے۔ ‘ گزرے کل کو‘ کل

سات پردوں کے پیچھے جا چکی ہوتی ہے۔ ‘ کوئل کی آواز

اپنے وجود سے عاری ‘ ڈھول کے سامنے ہر ساز کی آواز

Page 31: مقصود حسنی کے نو افسانے

ہو جاتی ہے۔

چار پرانے بیٹھے ہوئے تھے۔ عصری حاالت و معامالت پر

گفت گو کر رہے تھے۔ کم زوروں کی حالت زار کا رونا رو

رہے تھے۔ سب مایوس اور بےبس ہو چکے تھے۔

‘ یار اپنے لیڈر سے کیا امید باندھیں: ان میں سے ایک بوال

وہ تو اپاہج گیڈر ہے۔ شیر کا ٹائیٹل تو اعزازی ہے۔ بولیں

گے تو جوتے کھائیں گے۔

جنگل میں جنگل کا ‘ جو چل رہا ہے چلنے دیں: دوسرا بوال

لانون چلتا ہے۔

کچھ تبدلی آئے گی۔: تیسرا بوال

کچھ تو تبدیلی آئے گی۔‘ ہاں یار: چوتھے نے کہا

سب ایک جگہ جمع ہو کر دعا تو کر سکتے ہیں۔: پہال

اگر اسی پتا چل گیا تو دولتی سے کیسے بچیں گے

دوسرا ہاں یہ تو ہے

پہال تو پھر کیا کریں۔

گھروں میں بیٹھ کر دعا کر سکتے ہیں۔: چوتھے

Page 32: مقصود حسنی کے نو افسانے

یہ ٹھیک رہے گا۔: پہال

مخبری ہو گئی تو: تیسرا

ہاں بعید از لیاس نہیں: پہال

کچھ تو کرنا پڑے گا۔: دوسرا

چلنے دیں۔‘ جو چل رہا ہے‘ کرنا کیا ہے: دوسرا

ہاں یہ ہی درست رہے گا۔: چوتھا

ہاں ہاں یہ ہی ٹھیک رہے : پھر سب یک زبان ہو کر بولے

گا، یہ ہی ٹھیک رہے گا اور وہ چاروں اپنے اپنے گھروں

کو چل دیے۔

کردہ کا انتمام

Page 33: مقصود حسنی کے نو افسانے

اس کے ‘ ممو کپتی سسرالی نہیں‘ اس کا اصل نام ممتاز تھا

‘ میکے کا دیا ہوا نام تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اطراف میں

اسی نام سے معروف تھی۔ یہ نام اصلی سا ہو گیا تھا۔ اصل

نام محض کاغذوں کی زینت ہو کر رہ گیا تھا۔ یہ تو معلوم

لیکن ایسا چال کہ سب اس کے ‘ نہیں کہ یہ نام کس نے دیا

اسے ‘ اصل نام کو ہی بھول گیے۔ جس کے پیچھے پڑ جاتی

جان چھڑانی مشکل ہو جاتی۔ یہ ہی وجہ تھی کہ اس کی

بل کہ جان چھڑنے میں ہی عافیت ‘ کوئی ہاں کی نہ کرتا

چودھری باغ علی کا ‘ سمجھتا۔ ساس نندیں تو ایک طرف

وہ بھی ممو سے ‘ عاللے میں وجکرہ اور بڑا ٹوہر ٹپا تھا

کنی کتراتا تھا۔ نادانی کے پیار کی سزا بھگت رہا تھا۔ جو

اسے ممو کے پیار اور کردار پر پورا پورا ‘ بھی سہی

: بھروسہ تھا۔ اس کا کہنا تھا

وہ زبان کی تلخ ‘ میں اسے جانتا ہوں‘ممو میری بیوی ہے

لیکن دل کی بری نہیں۔‘ اور کوتھری ضرور ہے

Page 34: مقصود حسنی کے نو افسانے

منہ پر سچ کہنے سے کتراتا ‘ زمانہ بھی کتنا منافك ہے

ہے۔ بہنیں ممو کی اصلیت سے آگاہ تھیں لیکن وہ بھی چپ

وہ جانتی تھیں کہ ان کا ‘ کے روزے میں رہتیں۔ کیا کرتیں

بیوی کی ہی مانے گا اور وہ منہ کی سالم دعا سے ‘ بھائی

بھی جائیں گی۔ اپنوں کی یہ حالت تھی تو کسی غیر کو کیا

وہ ‘ پڑی کہ آ بیل مجھے مار کی راہ لیتا۔ اس کی بیوی ہے

جانے اور اس کا کام جانے۔

بنیادی طور پر شریف آدمی تھا۔ گھر ‘ چودھری باغ علی

جب پرے پنچایت ٰمیں آتا تو پورے بن ‘ میں سادہ لباس پہنتا

ٹھن کے ساتھ آتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بات اور لول کا

ہر حال میں ‘ بڑا پکا اور سچا تھا۔ جو کہتا یا وعدہ کرتا

یہاں تک کہ ممو بھی ‘ پورا کرتا۔ ایک طرف پوری دنیا

چودھری اپنی بات سے رائی بھر بھی ادھر ادھر نہ ‘ ہوتی

دل سے اسے اپنا چودھری ‘ ہوتا، یہ ہی وجہ تھی کہ لوگ

اس کا ‘ تسلیم کرتے تھے۔ زندگی کے ہر معاملے میں

اس ‘ اعتبار کرتے اور اس کا ساتھ دیتے۔ دکھ سکھ میں

کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ بہنیں اسے رن مرید سمجھتی تھیں

حاالں کہ اصولوں پر سمجھوتا کرتا ہی نا تھا۔ جو کرتا راہ

Page 35: مقصود حسنی کے نو افسانے

خدا کرتا۔

بھلوں کے ساتھ آزمائش ہمیشہ کھڑی رہتی ہے۔ ممو ہر

معاملے میں فٹ فاٹ تھی۔ گوشت کی دو دو پلیٹں ڈکار

‘ مجال ہے‘ فٹا فٹ بولتی بل کہ چالتی‘ جاتی۔ تیز تیز چلتی

جو کبھی دم آیا ہو۔ دیکھنے میں چنگی بھلی تھی۔ عجیب

اسے سخت گرمی ‘ دسمبر کی سردیوں میں بھی‘ بات ہے

پیر فمیر نہ ‘ ڈاکٹر‘ لگتی تھی۔ چودھری نے کوئی حکیم

لیکن کہیں سے فیض نہ مال۔ اب تو وہ مایوس سا ‘ چھوڑا

ہو گیا تھا۔

ایک یک کمرہ مسجد تھی۔ ‘ پرائمری سکول کے ساتھ ہی

ایک شخص پڑا رہتا تھا۔ لوگ ‘ مسجد کے پچھواڑے میں

اس کی جانب کوئی دھیان نہیں دیتے تھے۔ پتا نہیں صبح و

اسے روٹی کون دے جاتا تھا۔ ایک کتا اس کے پاس ‘ شام

آتا رہتا تھا۔ کچھ دیر بیٹھتا اور چال جاتا۔ بعد میں معلوم ہوا

اس کے لیے روٹی التا ہے۔ کتے کے منہ کی ‘ کہ وہ کتا

روٹی کھاتا۔ لوگوں کی نفرت کے لیے یہ انکشاف کافی تھا۔

لیکن چودھری ‘ لوگ شاید اسے گاؤں سے نکال ہی دیتے

Page 36: مقصود حسنی کے نو افسانے

نے ایسا کرنے سے سختی سے منع کر دیا تھا۔ لوگوں نے

اسے کبھی بولتے یا کسی سے بات کرتے نہیں دیکھا تھا۔

جب کبھی موڈ میں ہوتا تو کہتا

واہ مالکا توں توں ای ایں یعنی واہ مالک تم تم ہی ہو

اس کے پاس ‘ ایک دن چاروں طرف سے مایوس چودھری

اس سے ‘ چال گیا۔ چودھری حیران ہوا کہ لوگ کہتے ہیں

اس سے ایسی خوش ‘ بدبو آتی ہے۔ اسے بدبو کی بجائے

بو آئی کہ اس کے تن بدن میں عجیب طرح کی تازگی اور

سرشاری گردش کرنے لگی۔ وہ سب کچھ بھول گیا۔ دیر

تک ٰیوں ہی اس کے پاس بیٹھا رہا۔ دونوں طرف گہری

خاموشی کا عالم طاری رہا۔ پھر اس نے اشارے سے اٹھ

جانے کو کہا اور وہ اٹھ کر چال گیا۔ وہ اپنا تجربہ اوروں

لیکن اس نے سوچا ایک ‘ سے بھی شیئر کرنا چاہتا تھا

جسے کھولنے کا اسے کوئی حك نہیں۔‘ فمیر کا بھید ہے

پھر وہ وہاں آنے جانے لگا اور خوش بو سے حظ لینے

وہ سب کچھ ‘ لگا۔ کئی دن یہ سلسلہ چلتا رہا۔ وہاں جا کر

Page 37: مقصود حسنی کے نو افسانے

تھوڑی دیر ‘ بھول جاتا۔ اسے ان جانا سا آنند ملتا۔ ایک دن

‘ بد نیتی‘ رزق حرام: کہ وہ بندہءخدا بوال‘ ہی بیٹھا ہو گا

ناشکری اور تکبر سے بھرے جسم ‘ مالک سے غداری

میں زمین پر ہی جہنم رکھ دی جاتی ہے۔ یہ مسلہ ممو کا

اس کے بعد اس نے چودھری کو “ سب کا ہے۔‘ ہی نہیں

وہٰاں سے اٹھا دیا اور ایک لمحہ بھی مزید بیٹھنے کی

اجازت نہ دی۔

اس درویش کا کہا غلط نہ ‘ وہ سارے رستے غور کرتا رہا

تھا۔ چودھری کی بڑے بڑے چودھریوں سے ماللات رہتی

اے سی والے کمرے ‘ تھی۔ دو منٹ کے لیے یہ چودھری

سے باہر آ جاتے تو ان کی جان لبوں پر آ جاتی۔ وہ سارے

ناشکرے اور متکبر ‘ بد نیت‘ پرلے درجے کے حرام خور

تھے۔

اصل گھتی تو ممو کی تھی۔ چودھری حرام رزق کھانا تو

اس پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ اسی ‘ دور کی بات

حیرت سے خالی نہ تھیں۔ ‘ طرح بالی چاروں باتیں بھی

اسے یمین تھا کہ وہ درویش غلط بھی نہیں کہہ سکتا۔ کہیں

Page 38: مقصود حسنی کے نو افسانے

ناکہیًں گڑبڑ ضرور ہے۔ پھر اس نے حمیمت کھوجنے کا

ارادہ کر لیا۔ اسے دکھ ہو رہا تھا کہ وہ ممو پر اندھا اعتماد

کرتا رہا۔ وہ اس کے اعتماد کو بڑی بیدردی سے پائمال

دکھ کا ہمالہ اس پر آن گرا تھا۔‘ کرتی رہی۔ غصہ کیا آنا تھا

پانچوں امور کی تہ تک ‘ اس نے پوری دیانت کے ساتھ

جانے کی کوشش کی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس سے غصہ

کے عالم میں کچھ غلط سلط ہو جائے۔

ممو متکبر تو شروع ہی سے تھی۔ اسے اپنے خوب

کچھ زیادہ ہی تھا۔ خیر اب تو وہ ‘ صورت ہونے کا احساس

گویا ‘ چودھرین تھی

ایک کریال اوپر سے نیم چڑھا۔

جسے ‘ اسے مزید دکھی ہونا پڑا‘ کھوج کی تکمیل کے بعد

وہ گندگی کے ‘ وہ سیتا و مریم کی طرح پوتر سجھ رہا تھا

کہ وہ اپنے ‘ ڈھیر سے زیادہ نہ تھی۔ اب اسے سجھ آیا

اپنے کرتوتوں پر پردے ڈالنا چاہتی تھی۔ ‘ کپتےپن سے

Page 39: مقصود حسنی کے نو افسانے

منہ پر ‘ اردگرد کے لوگ اس کے اس کپتےپن سے ڈر کر

‘ چپ کے تالے ڈالے رکھیں۔ وہ اپنے اس ہنر کی بدولت

عموم و خصوص میں بی حجن بنی ‘ سب کچھ کرکے بھی

ہوئی تھی۔

چودھری اسے چور نہیں کہہ سکتا ‘ چور کو پکڑ کر بھی

تھا۔ بچے اس کے پاؤں کی زنجیر بنے ہوئے تھے۔ عین

ان میں سے کوئی بچہ بھی اس کا نہ ہو۔ اس ‘ ممکن ہے

اب وہ انہیں چھوڑ ‘ نے انہیں بڑے الڈ پیار سے پاال تھا

بھی نہیں سکتا تھا۔ اسے ان سے بڑا پیار تھا۔ اس نے بڑا

لیکن سارے رستے ‘ سوچا کہ کوئی حل ڈھونڈ نکالے

جیسے بند ہو گئے تھے۔

جب سوچ سوچ کر تھک گیا اور کوئی حل تالش نہ سکا تو

کوئی ناکوئی ‘ اس درویش کی جانب چل دیا۔ اسے یمین تھا

وہاں کچھ ‘ رستہ نکل ہی آئے گا۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا

بھی نہ تھا۔ کافی دیر وہاں بیٹھا رہا لیکن درویش لوٹ کر

نہ آیا۔ کتا بھی دور تک دکھائی نہ دے رہا تھا۔ جانے والے

لوٹ کر کب آتے ہیں۔ اگر انہیں لوٹ آنا ہو تو جائیں ہی

Page 40: مقصود حسنی کے نو افسانے

کیوں۔

اسے لدرت کی جانب سے ‘ اب ممو کے بدن میں دہکتا جہنم

کردہ کا انتمام محسوس ہوا۔ وہ بڑ بڑایا ممو کو تامرگ اس

جہنم میں جلتے رہنا ہو گا۔ لدرت اسے پیار اور اعتماد سے

سے غداری کی سزا دے رہی ہے۔ پھر اس کے منہ سے

بےاختیار نکل گیا

واہ مالکا توں توں ای ایں

اس نے پگڑی کھسہ اتارا اور پرے روڑی پر پھینک دیا

اس درویش کی جگہ پر بیٹھ ‘ اور خود آنکھیں بند کرکے

لیکن اس کے دل ‘ گیا۔ لوگ اسے فرار کا نام دے رہے تھے

کہ دنیا رہنے کی جگہ نہیں۔ اس کا ‘ میں یہ بات گھر کر گئی

ایک نہیں ہو سکتا۔‘ اور دنیا کا رستہ

Page 41: مقصود حسنی کے نو افسانے

حمیمت پس پردہ تھی

زندگی کا آخری موسم دیکھ ‘ صابر علی اور اس کی بیوی

رہے تھے۔ تمام بچے اپنے اپنے گھروں میں آباد ہو گئے

کا گھر آباد کرنا ‘ جو سب سے چھوٹا تھا‘ بس حمید‘ تھے

بالی رہ گیا تھا۔ ان کی نظروں میں اچھے اچھے رشتے

لیکن وہ شادی کے نام سے بدک جاتا تھا۔ ایک ‘ بھی تھے

میاں بیوی نے پروگرام بنایا کہ یہ اس طرح سے ‘ دن

شاید ہم بھی ‘ زبردستی شادی کر دیتے ہیں‘ ماننے واال نہیں

رشتہ ڈنڈھ ‘ اس کی اوالد کا منہ دیکھ لیں۔ پھر انہوں نے

نکاال اور بات بھی پکی کر دی۔ حمید نے الکھ عذر پیش

لیکن انہوں نے اس کی ایک نہ سنی۔ اشاروں کنائیوں ‘ کیے

شادی نہ کرنے کی وجوہ بھی پیش کیں۔ شاید انہوں ‘ میں

اس کی ایک بھی نہ سننے کی لسم کھا لی تھی۔‘ نے

شادی کے دن طے ہو گئے۔ شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔

Page 42: مقصود حسنی کے نو افسانے

گھر میں خوشیوں نے ڈیرے ڈال لیے۔

گھر میں ‘ جوں جوں شادی کے دن نزدیک آتے گئے

رات کو ڈھولک لے کر ‘ خوشیاں رلص کرنے لگیں۔ بہنیں

اور خوب چھیڑ چھاڑ چلتی۔ ‘ بیٹھ جاتیں۔ ہنسی مذاق ہوتا

جہاں گھریلو اور ‘ لباس زیر گفتگو آتے۔ بڑی بوڑھیوں میں

وہاں چغلیوں بخیلیوں کا بھی ‘ مالی مسائل کا رونا رویا جاتا

الپرواہی اور ان ‘ جمعہ بازار لگ جاتا۔ مردوں کی بےرخی

ان کے اپنوں پر شاہ خرچی کا دکھڑا بھی زیر بحث آتا۔ ‘ کی

ان کی جنسی کم زوری وغیرہ کا بھی رونا رویا ‘ یہ ہی نہیں

جاتا۔ ہر کوئی اپنے حاالت میں مست تھا۔

کہ پریشان اور چپ ‘ کسی نے حمید کی جانب توجہ نہ دی

کہ یہ کیسے مائی باپ اور ‘ چپ کیوں ہے۔ اسے غصہ آتا

جو اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتے۔ ‘ بہن بھائی ہیں

کہ وہ اپنے کسی کزن ہی ‘ یہ اس کی غلطی بھی تھی‘ خیر

کہ اس نے غلط کاری میں سب کچھ کھو ‘ سے بات کر لیتا

دیا ہے اور اب وہ شادی کے لابل ہی نہیں رہا۔ اپنے طور

حکیموں ڈاکٹروں کے نسخے آزماتا رہا۔ بہتری کی ‘ پر

Page 43: مقصود حسنی کے نو افسانے

خرابی کا دروازہ ہی کھال۔ کسی کو حمید کی رائی ‘ بجائے

ذہنی اور جسمانی طور ‘ کہ وہ دن بہ دن‘ بھر فکر نہ تھی

پر نیچے آ رہا تھا۔

تین دن بالی رہ گیے تھے کہ حمید ‘ بارات جانے میں

چارپائی لگ گیا۔ فورا ایمرجنسی میں لے جایا گیا۔ وہاں

الامت گزین ‘ اس کے گھر والوں سے مماثل لوگ‘ بھی

لیکن ہسپتال والے اپنے ‘ تھے۔ وہ تکلیف سے مر رہا تھا

ہمیشہ ذلت کا شکار ‘ حال میں مست تھے۔ بےبابائی لوگ

محض ‘ رہے ہیں۔ بابائی انڈر کیر تھے اور حمید ابھی تک

اس کی بھی ‘ ایمرجنسی کا مریض تھا۔ جھڑنے کے بعد

سنی گئی۔ سترہ گھنٹے وہ ایمرجنسی میں رہا۔ بوتلیں

شوتلیں اور ٹیکے شیکے لگے تو بہتری کی صورت نکلی۔

بالی ولت ہی کتنا رہ گیا تھا۔ انتظام ہو چکے تھے۔ پیغامات

بھیجے جا چکے تھے۔ حمید بستر سے اٹھ بیٹھا تھا۔

ہسپتال سے چھٹی لے لی گئی۔

جب کہ ‘ بےسوادی میں ہی بارات گئی۔ باہر باپ اور بھائی

دلہا کے پاس اور کنمریب رہیں۔ سسرال میں ‘ اندر بہنیں

Page 44: مقصود حسنی کے نو افسانے

کہ دلہا ہسپتال کی یاترا ‘ بھی چوں کہ اطالع ہو چکی تھی

لہذا کوئی ہلہ غلہ نہ کیا گیا۔ بس ہلکی پھلکی ‘ سے لوٹا ہے

ہنسی مذاق کا سماں رہا۔ دلہا کی خاموشی اور چہرے کی

زردی کو بیماری کے اثرات پر محمول کیا گیا۔ جب کہ اصل

حمیمت کچھ اور ہی تھی۔ وہ آتے ولت کے جنسی معامالت

کے خوف سے نیال پیال ہو رہا تھا۔

سب حیران ‘ پھر اس کا چہرا کھل اٹھا۔ اس اچانک تبدیلی پر

تھے۔ سب نے اسے شادی کی خوشی سمجھا۔ اصل بات

کوئی اور تھی۔ حمید کو پہا خادم کا لول یاد آ گیا تھا۔

کہ خیالی پالؤ میں رسد کی کمی ‘ مرحوم کا کہنا تھا

آتے ‘ خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ اس لول کے زیر اثر اس نے

لمحوں کا منصوبہ تیار کر لیا تھا۔ حمید کے چہرے پر

خوشیوں کا ناک نمشہ ہی بدل گیا۔ ‘ رلصاں شادابی کے بعد

ہر طرح کی رسمیں پوری کی ‘ دلہن کے گھر النے تک

رات کے نو بج چکے تھے۔ دو گھنٹے ‘ گئیں۔ گھر آنے تک

سالمیاں وغیرہ ہوتی ‘ لڑکیوں اور عورتوں نے لے لیے

رہیں۔ ادھر لڑکے حمید کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں مصروف

اس ہنسی مذاق میں شامل ‘ رہے۔ وہ بھی خوش دلی سے

Page 45: مقصود حسنی کے نو افسانے

رہا۔

دلہن کے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کا ‘ گیارہ بجے حمید

امتحان شروع ہو چکا تھا۔ وہ کمال کی اداکاری کا مظاہرہ

‘ دلیپ کمار بھی دیکھ لیتا‘ کر رہا تھا۔ اس کی اداکاری کو

اداکار ‘ تو عش عش کر اٹھتا۔ اس کا کمرے میں داخل ہونا

‘ امریش پوری سے مماثل تھا۔ دلہن کا گھونگھٹ اٹھانا

واہ واہ کر ‘ وحید مراد کا سا تھا۔ جعلی بےاختیاری سے

اٹھا۔ وہیں سجدہ میں گر گیا۔ پھر دلہن کے پاس ہی بیٹھ گیا

کہ تم ایسی حسین ‘ هللا کا الکھ الکھ شکر ہے: اور کہنے لگا

تم الکھوں میں ‘ بیوی مجھے ملی۔ حوریں بھی کیا ہوں گی

‘ ایک ہو۔ میں تمہارے ممابلے میں کچھ بھی نہیں ہوں

دیکھو کبھی بھی میرا ساتھ نہ چھوڑنا۔

دلہن اس بات پر فخریہ مسکرائی۔ میک اپ نے اسے تھوڑا

ورنہ حسن نام کی چیز اس میں سرے ‘ بنا سنوار دیا تھا

سے موجود ہی نہ تھی۔

اس کے پاس ہی بیٹھ گیا اور ‘ پھر وہ تھوڑا فرینک ہو کر

آج پہلے دن ہی زندگی کا ‘ سب کچھ ہوتا رہے گا: کہنے لگا

اس منصوبے ‘ اس کے بعد‘ منصوبہ بنا لیتے ہیں اور پھر

Page 46: مقصود حسنی کے نو افسانے

‘ زندگی کو سکھی بنا لیں گے۔ تم ہی بتاؤ‘ پر عمل کرکے

کیسی زندگی گزارنا چاہتی ہو۔

‘ جانو میں چاہتی ہوں: دلہن تھوڑا شرمائی اور کہنے لگی

جہاں صرف اور صرف ہم دونوں ‘ ہمارا اپنا ایک گھر ہو

ہوں۔ مجھے غیروں کی مداخلت لطعی پسند نہیں۔

دیر تک باتیں ہوئیں۔ عالی شان کوٹھی خریدی گئی۔ اس

کوٹھی میں ضرورت کی ہر چیز سجائی گئی۔ سواری کے

لیے نئی اور اچھے والی کار خریدی گئی۔ باتوں کے دوران

اس نے ایسی کوئی حرکت نہ کی کہ کوئی گالواں گلے پڑتا

اور اصلیت کھل جاتی۔ باتوں باتوں مٰیں صبح کی آزان

ہونے لگی۔

تمہارے ساتھ گزرے لمحے کتنی جلدی گزر ‘ اف میرے خدا

گیے ہیں کہ پتا بھی نہیں چال۔ کتنا اچھا ساتھ ہے۔ ہماری

زندگی خوب گزرے گی۔ پریشانی کا دور تک نام و نشان

نہیں ہو گا۔ تم سے اچھا ساتھی مل ہی نہیں سکتا۔ اچھا اب

میں مسجد جا رہا ہوں۔ نماز پڑھوں گا۔ تم سا ‘ تم سو رہو

Page 47: مقصود حسنی کے نو افسانے

ساتھی ملنے پر شکرانے کے نوافل ادا کروں گا۔ مجھے تم

اب کسی اور چیز کی تمنا ہی نہیں رہی۔ دلہن ‘ مل گئی ہو

کوئی ‘ اس کی مسکراہٹ میں بال کی گرمی تھی‘ مسکرائی

اور ہوتا تو وہیں ڈھیر ہو جاتا۔ ہر ایمرجنسی اور جلدی

مگر گزرے کل کی ‘ ساکت و جامد ہو جاتی۔ وہ بھی ٹھٹھکا

اسے دروازے سے باہر دھکیل دیا۔ مجبوری ‘ غلطیوں نے

کیا کر سکتا تھا۔ دلہن دکھائے گئے سبز باغوں کی ‘ تھی

آغوش میں چلی گئی اور سکون کی نیند نے اسے آ لیا۔

سب خیر خیریت سے گزر گیا۔ رات گئی بات ‘ صبح ہوئی

گئی۔ دلہن خوش تھی کہ اسے اتنا اچھا شوہر مل گیا ہے۔

پھر میکے والے آئے اور اسے ساتھ لے کر چلے گیے۔

دلہن نے ماں کے گھر جا کر حمید کی تعریفوں کے پل

باندھ دیے۔ دلہن کے گھر میں خوشیاں منائی جا رہی تھیں

‘ کہ پہلی رات میں ہی دلہا کو گھٹنوں تلے رکھ لیا گیا ہے

ورنہ اس میں کچھ تو ولت لگتا ہی ہے۔ اس نے عالی شان

فریج کی خریداری کے عالوہ الکھوں روپیے ‘ کار‘ کوٹھی

کی شاپنگ کی۔ شادیانے تو بجنے ہی تھے۔

Page 48: مقصود حسنی کے نو افسانے

ادھر حمید نے مسلہ کھڑا کر دیا کہ میں اس عورت کے

جو پہلے روز ہی ماں باپ ‘ ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا

آتے ولتوں ‘ اور بہن بھائیوں سے مجھے دور کر رہی ہے

میں پتا نہیں کیا کیا گل کھالئے گی۔ اگر نہیں یمین آتا تو یہ

:ریکارڈنگ سن لیں

جہاں صرف ‘ ہمارا اپنا ایک گھر ہو‘ جانو میں چاہتی ہوں

اور صرف ہم دونوں ہوں۔ مجھے غیروں کی مداخلت لطعی

پسند نہیں۔

سب سیخ پا ہو گیے۔ طرح طرح کے ‘ ریکارڈنگ سن کر

بیانات جاری ہوئے۔ صابر اور اس کی بیوی کو بڑا دکھ ہوا۔

بوتھی سے کتنی شریف اور بھولی ‘ حمید کی ماں بولی

بھالی لگ رہی تھی۔

تم نے ہی میرے ‘ بڑی سیانی بنی پھرتی ہو‘ صابر بوال

بیٹے کی زندگی برباد کی ہے۔

‘ دونوں میں کافی بحث چلی۔ کنیز کا یہ بیان برادری کیا

آس پاس میں خوب مشہور ہوا۔ کئی ماہ دونوں خاندانوں

میں ٹھنی رہی اور آخرکار طالق ہو گئی۔ چًؤں کہ حمیمت

Page 49: مقصود حسنی کے نو افسانے

کوئی ‘ اس لیے حمید کی کامیاب اداکاری کی‘ پس پردہ تھی

داد نہ دے سکا۔

Page 50: مقصود حسنی کے نو افسانے

الحول وال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری تخلیك میں هللا کی ‘ میں خود سے پیدا نہیں ہوا

مرضی اور رضا شامل تھی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ میں کون

‘ اس نے مجھے شناخت دی۔ نوری و ناری مخلوق کو‘ ہوں

جو میرا ‘ میں نے نہیں کہا کہ مجھے سجدہ کرو۔ یہ بھی هللا

‘ نے حکم دیا۔ سب هللا کی مرضی سے چلتا ہے‘ خالك ہے

عزازیل خوب جانتا تھا۔ میں کی گرفت میں آ گیا۔ میں کی

اپنے آپے ‘ گرفت بڑی بری ہوتی ہے۔ اس کی پکڑ میں آیا

سب کچھ کھو ‘ میں نہیں رہ پاتا۔ حکم کی تعمیل نہ کرکے

بیٹھا۔ اسے اپنی شناخت تک یاد نہ رہی۔ شناخت یاد میں آ

تو توبہ کے دروازے پر ضرور آتا۔‘ جاتی

سرے ‘ عجب الٹی کھوپڑی کا مالک ہے۔ میرا اور اس کا

لیکن تنگ مجھے کرتا ہے۔ آج ‘ سے کوئی مسلہ ہی نہیں

صبح میں مسجد سے نماز پڑھ کر نکل رہا تھا کہ ایک لاتل

میرے سامنے آ گیا۔ میری طرف بڑی ‘ حسینہ کے روپ میں

Page 51: مقصود حسنی کے نو افسانے

رومان خیز مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا۔ سچی بات تو یہ

کہ نماز پڑھ کر مسجد سے نکل ‘ کہ میں لطعا بھول گیا‘ ہے

رہا ہوں۔ اس نے رفتار کم کر دی اور میں اس کے پیچھے

کام پر بھی جانا ‘ پیچھے چل دیا۔ مجھے یہ بھی یاد نہ رہا

ہے۔ اس مسکراہٹ میں ممناطیسی لوت تھی۔

میرے اندر بیٹھے شخص ‘ میں تو خود کو بھول ہی گیا تھا

یہ کیا کررہے ہو۔ ہڈی دیکھی اور پیچھے ‘ کتے: نے کہا

‘ پیچھے چل دیے ہو۔ لعنت ہے تمہارے دوہرے رویے پر

‘ مسجد میں نماز پڑھتے ہو اور ایک مسکان پر مر مٹے ہو

تم کیسے بندے ہو۔

مجھے شرم سے پانی پانی کر دیا اور میں ‘ اس آواز نے

اس نے ‘ الحول وال پڑی۔ پھر کیا تھا‘ نے دل ہی دل میں

میری طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور دوسری

تو میں مارا ‘ گلی میں داخل ہو گیا۔ اگر هللا احسان نہ کرتا

گیا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میری نماز تو فسك ہو گئی

وہیں سجدہ ریز ہو گیا۔ میں نے ‘ میں جہاں کھڑا تھا‘ ہے

لوگوں اور زمین پر پڑی گندگی کی پرواہ نہ کی۔ یہ اس

Page 52: مقصود حسنی کے نو افسانے

جو میرے اندر گھس آئی تھی۔‘ گندگی سے بڑھ کر نہ تھی

‘ دفتر میں میرا اور اس کا ٹاکرا ہوتا رہتا ہے۔ سائل بن کر

نیلے پیلے اور سرخ نوٹوں کے ساتھ آتا رہتا ہے۔ ظالم

جو ‘ مجھے بکاؤ مال سمجھتا ہے۔ میں طوائف نہیں ہوں

اس کے بہکاوے میں آ جاؤں گا۔ اس کی کمینگی کی حد تو

یہ ہی کوئی چھے سات دن پہلے کی بات ہے۔ میں ‘ دیکھیں

کہ گھر پر آ گیا۔ میں نے ‘ ابھی دفتر سے لوٹا ہی تھا

بیٹھک میں بٹھایا۔ ٹھنڈا پانی پیش کیا۔ اس نے نوٹ

میرا موڈ بنے۔ مجھے ‘ وکھائے کہ ناحك کرنے کے لیے

بڑا تاؤ آیا اور میرا چہرا غصے سے سرخ ہو گیا۔ گمان تھا

شازیہ کو چھپ چھپ کر باتیں ‘ کہ اندر خبر نہیں ہوئی

‘ سننے کا ٹھرک ہے۔ اسے حمیمت کا علم ہو گیا تھا۔ خیر

اس نے کھا جانے والی ‘ میں نے جی میں ال حول وال پڑی

نظروں سے مجھے دیکھا اور اٹھ کر چال گیا۔ وہ تو چال

ہنستی مسکراتی شازیہ دہکتا انگارہ بن گئی۔ میرے ‘ گیا

وہ بھی سچی تھی کہ میں نے ‘ مت پوچھیے‘ ساتھ جو ہوا

آتے نوٹوں کو دھتکارا تھا۔

Page 53: مقصود حسنی کے نو افسانے

خواہ مخواہ میرے ساتھ پنگا لیتا رہتا ہے۔ ‘ بڑا ڈھیٹ ہے

جانے دے۔ میں کوئی ‘ میں ناک کی سیدھ پر جا رہا ہوں

مجھ سے اسے کیا مل سکتا۔ کسی ‘ بہت بڑا آدمی نہیں ہوں

کسی بڑے ‘ بڑے آدمی کے پاس جائے۔ اسے معلوم ہے

‘ آدمی کے پاس گیا تو وہ ناسیں سیک دے گا۔ میں ہوں کیا

یہ جانتے ہوئے بھی میرے آس پاس میں ‘ کچھ بھی نہیں

الامت کئے ہوئے ہے۔

روز کا معمول تھا۔ ‘ دفتر کی نوکری میں ایسے حادثے

جھگڑے سے میری بڑی جان جاتی ہے۔ شیطان سے ہر

میں نے دفتر کی نوکری ہی ‘‘ روز کی لڑائی سے تنگ آ کر

چھوڑ دی۔ مجھے فرار ہی میں عافیت نظر آئی۔ گھر میں

بھی کم آمدنی پر ہر روز جھگڑا ہوتا تھا۔ پوری تنخواہ

ہتھیلی پر رکھ دیتا تھا۔ روز کا خرچہ شازیہ سے لے کر

بڑی لہ پہا ‘ جاتا تھا۔ جب بھی بس کا کرایہ وغیرہ مانگتا

میں سب برداشت کر جاتا۔ تنخواہ میں سے کچھ ‘ کرتی

رکھتا تو مجرم ٹھہرتا۔ تنخواہ کے عالوہ کدھر سے التا۔

جب کہ وہ اوروں کی مثالیں دیتی۔

Page 54: مقصود حسنی کے نو افسانے

میں نے الء کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی تھی۔ سوچا

وکالت کرتا ہوں۔ اس طرح بےگناہ لوگوں کی مدد بھی کر

سکوں گا اور دال روٹی بھی چلتی رہے گی۔ میدان عمل

میں لدم رکھا تو معاملہ ہی برعکس نکال۔ کچری میں جا کر

اور دو نمبر لوگوں کی ‘ لاتلوں‘ کمائی چوروں‘ معلوم ہوا

مدد کرنے سے ممکن تھی۔ ان کو بےگناہ اور بےگناہوں

لمے نوٹ کمائے جا سکتے تھے۔ ‘ کو گناہ گار ثابت کرکے

دفتر کے طور طریموں کے بھی پیو ‘ یہاں کے طور طریمے

میرا دل وہاں سے بھی کھٹا ہو ‘ نکلے۔ چند ہی دنوں میں

انصاف گاہ میں تو اس نے مستمل ڈیرے ڈال ‘ گیا۔ لگتا تھا

رکھے ہیں۔ لدم لدم پر میری اس سے ماللات ہوتی۔ مجھے

سرعام میرا مذاق اڑاتا۔‘ دیکھ کر لہمہے لگاتا

میری ماللات حاجی عمر سے ہوئی۔ ‘ عاللے کی مسجد میں

پنج ولتے تھے اور شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھتے تھے۔

بڑے اصول پرست سمجھے جاتے تھے۔ ان کا الکھوں کا

میں بھی ‘ کاروبار تھا۔ حساب کتاب کے معاملے میں

یہاں ٹھیک رہے گا۔ میں ان کے کھاتے ‘ معروف تھا۔ سوچا

میں منشی کی سیٹ پر تعینات ہو گیا۔

Page 55: مقصود حسنی کے نو افسانے

شیطان ‘ یہاں بھی‘ چند دن گزرنے کے بعد معلوم ہوا

مہاراج کا سکہ چلتا ہے۔ بڑی حیرت ہوئی کہ حاجی صاحب

کا ظاہر کتنا صاف ستھرا ہے اور باطن غالظتوں سے لبریز

ہے۔ وہاں بھی دہائی کا گھپال تھا۔ کارکنوں کے ساتھ جو ہو

لیکن حساب کتاب کے دو کھاتے ‘ وہ تو ہو رہا تھا‘ رہا تھا

دوسرا اصلی ‘ ایک سرکار کو دیکھانے کے لیے‘ تھے

کھاتہ جو دفتر میں نہیں رکھا جاتا تھا۔ سرکاری کھاتے میں

گھاٹے کے سوا کچھ نہ تھا۔

بجلی اہل کار کی خدمات حاصل کی گئی ‘ بجلی کے لیے بھی

‘ تھیں۔ یہاں حرام اور حرام کے سوا کچھ نہ تھا۔ دفتر میں

تنخواہ تو کم از کم حالل تھی۔ یہاں سے ملنے والی تنخواہ

سرے سے شفاف نہ تھی۔ یہ معاملہ تو پہلے سے بھی

کہیں بڑھ کر تھا۔رکھتے تھے۔ بڑے اصول پرست سمجھے

جاتے تھے۔ ان کا الکھوں کا کاروبار تھا۔ حساب کتاب کے

یہاں ٹھیک رہے گا۔ ‘ معاملے میں بھی معروف تھا۔ سوچا

میں ان کے کھاتے میں منشی کی سیٹ پر تعینات ہو گیا۔

Page 56: مقصود حسنی کے نو افسانے

وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہاں بھی دہائی کا گھپال ہے۔

وہ تو ہو رہا تھا لیکن حساب ‘ کارکنوں کے ساتھ ہو رہا تھا

ایک سرکار کو دیکھانے کے ‘ کتاب کے دو کھاتے تھے

دوسرا اصلی کھاتہ جو دفتر میں نہیں رکھا جاتا تھا۔ ‘ لیے

سرکاری کھاتے میں گھاٹے کے سوا کچھ نہ تھا۔ بجلی کے

ایک بجلی اہل کار کی خدمات حاصل کی گئی ‘ لیے بھی

‘ تھیں۔ یہاں حرام اور حرام کے سوا کچھ نہ تھا۔ دفتر میں

تنخواہ تو کم از کم حالل تھی۔ یہاں سے ملنے والی تنخواہ

سرے سے شفاف نہ تھی۔ یہ معاملہ تو پہلے سے بھی

کہیں بڑھ کر تھا۔

کاروبار کرنے کی ٹھان لی۔ ‘ میں نے وہ مالزمت چھوڑ کر

‘ لوگوں کو دودھ کی بڑی پریشانی تھی۔ سوچا‘ عاللے میں

دودھ کا کاروبار برا نہیں۔ میں خود جا کر دودھ التا۔ میرے

سامنے گواال دودھ دھوتا۔ اس کے باوجود دودھ پتال ہوتا۔

کیوں کہ وہ میرے ‘ یہ تسلی تھی کہ وہ پانی نہیں ڈالتا

ہنگال کے طور ‘ سامنے دودھ دھوتا تھا۔ ہاں البتہ آخر میں

یہ دودھ نما پانی ڈال دیتا۔ دو دن تو ‘ پر تین پاؤ کے لریب

تیسرے دن مجھ سے رہا نہ گیا۔ منع کرنے پر ‘ میں چپ رہا

Page 57: مقصود حسنی کے نو افسانے

نہیں وارہ ‘ یہاں سے تو دودھ ایسا ہی ملے گا: کہنے لگا

کھاتا تو کوئی اور بندوبست کر لو۔ اس نے بڑی بدتمیزی

بندوبست ‘ چلو ٹھیک ہے: سے جواب دیا۔۔ میں نے بھی کہا

کر لوں گا۔ بعد میں پتا چال وہ برتن میں پہلے ہی پانی ڈال

وہاں بھی یہ ‘ لیتا تھا۔ دو چار اور لوگوں سے واسطہ رہا

ظالم نے ہر شعبے ‘ ہی کچھ تھا۔ کوئی شعبہ تو چھوڑ دیتا

میں ٹانگ پھنسائی ہوئی تھی۔

کیوں نہ صحافت اختیار کر لوں۔ وہاں لدم رکھا ‘ خیال گزرا

اتنا ہی آلودہ ‘ تو بہت ہی مایوسی ہوئی۔ جتنا اچھا پیشہ ہے

بلیک میلنگ زیادہ نکلی۔ پراپرٹی ‘ صحافت کم‘ ہے۔ صحافت

کیوں کہ وہ بھی کثافتوں ‘ ڈیلنگ کا کام بھی راس نہ آیا

سے لبریز نکال۔ اس میں جھوٹی لسمیں اور چکنی چوپڑی

پہلی سیڑھی تھی۔‘ باتیں

اپنے ‘ شازیہ میری ان حرکتوں سے اکتا کر بچے لے کر

بھائی کے ہاں چلی گئی۔ یہ حیران کن بات تھی۔ ایک دن

‘ جس دن میں یا گھر کے لوگ‘ بھی ایسا نہیں گزرا تھا

بھوکے سوئے ہوں گے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ هللا کی

Page 58: مقصود حسنی کے نو افسانے

مخلوق بھوکی سوئے۔ وہ اس کی بھوک کو خوب خوب

کسی لسم کے تساہل ‘ جانتا ہے اور رزق فراہم کرنے میں

کا شکار نہیں ہوتا۔

رزق حالل کی تالش میرا فطری حك تھا۔ ہر موڑ اور ہر

‘ گھاٹ پر شیطان سے ماللات رہی۔ اس کا اپنا رستہ تھا

وہ مجھے ‘ میرا اپنا رستہ تھا۔ میں حالل کھانا چاہتا تھا

‘ حرام کھانے کی دعوت دے رہا تھا۔ وہ بڑا ضدی نکال

هللا کی مدد طلب کر ‘ کہ میں ہر مشکل میں‘ اسے کیا معلوم

اس ‘ لیتا ہوں۔ میری ایک بار پڑھی الحول واللوة اال باهلل

شیطان ‘ کے میدان سے لدم اکھیڑ دیتی تھی۔ جو بھی سہی

میرا هللا مدد ‘ جتنا مرضی زور لگا لے‘ جو مرضی کر لے

میدان عمل میں کنڈ نہیں لگنے دیتا۔‘ طلب کرنے والوں کی

Page 59: مقصود حسنی کے نو افسانے
Page 60: مقصود حسنی کے نو افسانے