یقین مانیے

32
مانیے یمین

Upload: sha-jijan

Post on 07-Jul-2016

30 views

Category:

Documents


12 download

DESCRIPTION

یقین مانیے مقصود حسنیابوزر برقی کتب خانہ جون 2016

TRANSCRIPT

Page 1: یقین مانیے

یمین مانیے

Page 2: یقین مانیے

ممصود حسنی

ابوزر برلی کتب خانہ

2016جون

مندرجات

یہ ہی ٹھیک رہے گا

اس سے بڑھ کر

کوئی بتائے میں کیا کروں

سوچتے جاؤ‘ دیکھتے جاؤ

یمین مانیے

Page 3: یقین مانیے

یہ ہی ٹھیک رہے گا

افسانہ

اسے اپنے بےمثل اور یکتائے عالم ہونے کا شک گزرا۔ نر

اس کی رگ وپے سے تکبر ‘ شیر ببر ہونے کے شک سے

بلند ہونے لگے۔ اس امر کے اعالن ‘ کے آتش فشانی شعلے

تکبر کی کامل شکتی کے ساتھ دھاڑا۔ اس منہ ‘ کے لیے

صور ‘ ہاں البتہ اس کے منہ سے‘ سے دھاڑ تو نہ سکا

Page 4: یقین مانیے

اسرافیل سے مماثل غرغراہٹ ضرور نکل گئی کہ مخلوق

اس کی ‘ ارضی ڈر اور خوف سے لرز لرز گئی۔ اس سے

انا کو تسکین ملی اور انا نے اس کی میں کو مزید شکتی

جسم و جان تکبر کی مستی کے کھڈ ‘ دان کی۔ پھر کیا تھا

کہ کہاں دولتی چالنا ہے۔ ‘ میں جا گرے۔ ہاں یہ ہوش رہا

اس نے دور کے ایک عاللے میں پوری شان سے دولتی

چالئی کہ وہ عاللہ مٹ گیا۔ چھوٹے بڑے کم زور اور طالت

ور نر مادہ دم توڑ گیے۔ کچھار گھونسلے گھروندے زمین

بوس ہو گیے۔ سرشاری میسر نہ آ سکی۔ سرشاری کے

ایک اور دولتی جڑ دی۔ ‘ بال غرارئے‘ لیے دوبارہ سے

ایک اور عاللہ خاک و خون میں نہا گیا۔

حددوں کی چیزیں نہیں ہیں۔ توکل سیری ‘ بھوک اور سیری

مزید کی گرفت ‘ جب کہ بھوک‘ کی من بھاتی کھا جا ہے

میں رہتی ہے۔ اس نے لوٹ مار اور لتل وغارت کا بازار

ناصرف ناخن کٹوا دیے ‘ گرم کر دیا۔ اس نے ہر تکڑے کے

عزت وشرف سے سرفراز کیا۔ اس کا ‘ بل کہ اپاہج کرکے

ہڈی اس کے سامنے پھینک دیتا تا کہ وہ مصروف ‘ کھا کر

گن گاتا رہے۔ ہاں البتہ گاہے ‘ رہے اور اس کی دیا کے

Page 5: یقین مانیے

ٹونکتا اور غراتا رہتا تا کہ سرکشی جنم ہی ‘ بگاہے بھونکتا

میں کا دورہ نہ پڑے۔ ہڈی اور حفظ ‘ نہ لے اور کسی کو

عاللے کے سبھی لگڑبگڑ اس کے سآتھ ‘ ماتمدم کے لیے

ہو لیے تھے۔ انہیں پیٹ اور جی بھر ہڈیاں میسر آ رہی

تھیں۔

کسی کی خوارک بند کر دیتا۔ کسی کی خوراک کی ترسیل

بند کر دیتا۔ کسی پر جھپٹ پڑتا۔ خبرگیری کے ‘ کے رستے

اطراف کی خبریں پہنچاتے ‘ اسے لمحہ لمحہ کی‘ توتے

رہتے تھے۔ توتے کبھی کسی کے سگے نہیں رہے۔

وفاداری ان کی فطرت میں داخل نہیں۔ وفاداری ان کی

فطرت میں ہوتی تو توتے کیوں کہالتے۔ توتے ہمہ ولت

چوری آمد کے ساتھ ‘ چوری کے متمنی رہتے ہیں۔ وفاداری

مشروط ہوتی ہے۔ آمد لوٹ مار سے وابستہ ہے۔

لتل و غارت سے گدھ بھی البھ اٹھاتے ہیں۔ جنگلی حیات

‘ حك سچ کی کوئی معنویت نہیں ہوتی۔ گدھوں کی آواز‘ میں

کوئل کی آواز سے بڑھ کر سریلی محسوس ہوتی ہے۔ آتا

ان آوازوں کے حوالہ سے پہچانتا ہے۔ ‘ گزرے کل کو‘ کل

Page 6: یقین مانیے

سات پردوں کے پیچھے جا چکی ہوتی ہے۔ ‘ کوئل کی آواز

اپنے وجود سے عاری ‘ ڈھول کے سامنے ہر ساز کی آواز

ہو جاتی ہے۔

چار پرانے بیٹھے ہوئے تھے۔ عصری حاالت و معامالت پر

گفت گو کر رہے تھے۔ کم زوروں کی حالت زار کا رونا رو

رہے تھے۔ سب مایوس اور بےبس ہو چکے تھے۔

‘ یار اپنے لیڈر سے کیا امید باندھیں: ان میں سے ایک بوال

وہ تو اپاہج گیڈر ہے۔ شیر کا ٹائیٹل تو اعزازی ہے۔ بولیں

گے تو جوتے کھائیں گے۔

جنگل میں جنگل کا ‘ جو چل رہا ہے چلنے دیں: دوسرا بوال

لانون چلتا ہے۔

کچھ تبدلی آئے گی۔: تیسرا بوال

کچھ تو تبدیلی آئے گی۔‘ ہاں یار: چوتھے نے کہا

سب ایک جگہ جمع ہو کر دعا تو کر سکتے ہیں۔: پہال

اگر اسی پتا چل گیا تو دولتی سے کیسے بچیں گے

دوسرا ہاں یہ تو ہے

Page 7: یقین مانیے

پہال تو پھر کیا کریں۔

گھروں میں بیٹھ کر دعا کر سکتے ہیں۔: چوتھے

یہ ٹھیک رہے گا۔: پہال

مخبری ہو گئی تو: تیسرا

ہاں بعید از لیاس نہیں: پہال

کچھ تو کرنا پڑے گا۔: دوسرا

چلنے دیں۔‘ جو چل رہا ہے‘ کرنا کیا ہے: دوسرا

ہاں یہ ہی درست رہے گا۔: چوتھا

ہاں ہاں یہ ہی ٹھیک رہے : پھر سب یک زبان ہو کر بولے

گا، یہ ہی ٹھیک رہے گا اور وہ چاروں اپنے اپنے گھروں

کو چل دیے۔

اس سے بڑھ کر

Page 8: یقین مانیے

اس کی ہر طور کی مسکراہٹ میں دم تھا۔ ویسے زیادہ تر

نمایاں ‘ اس کے لب و رخسار پر‘ سات لسم کی پھلجڑیاں

ہوتی تھیں۔

سب ہی ‘ اس کی اس مسکراہٹ سے: غصیلی مسکراہٹ

یہ مسکراہٹ جڑ ‘ گھبراتے تھے۔ سامنے کھڑے شخص کی

یہ مسکراہٹ بڑی کارگر ‘ پٹ کر رکھ دیتی۔ مطلب بری میں

اس غضب ناکی ‘ ثابت ہوتی۔ خوف ڈر ایک طرف رکھیے

بال کی چاشنی تھی۔ شاہوں کی بیگمات دریا میں بیڑا ‘ میں

سرشاری سی محسوس کرتی تھیں۔ ‘ غرق ہوتے دیکھ کر

بوکی ‘ اسی طرح کسی کی اس مسکراہٹ کے حوالہ سے

گرتے دیکھ کر بڑا ہی لطف آتا۔

یہ مسکراہٹ روزن پشت سے پسینے : طنزیہ مسکراہٹ

جاری کر دیتی۔ مخاطب آنکھ مالنے کے لابل نہ رہتا۔

لیکن اس کی ‘ یہ ظاہر تو نہ ہوتی: پوشیدہ مسکراہٹ

اس ‘ آنکھوں میں ابھرتی ضرور تھی۔ اس کے بعد سمجھو

بندے کا ستیاناس مارا گیا۔

لیکن ‘ شاباش دینے میں بڑی بخیل تھی: شاباشی مسکراہٹ

اس کی شاباشی مسکراہٹ میں لیامت پوشیدہ ہوتی۔

Page 9: یقین مانیے

اس مسکراہٹ کا تعلك دینے سے : رومان پرور مسکراہٹ

لیکن شکوک کے داروازے ضرور کھل جاتے۔‘ باال ہوتا

اس مسکراہٹ میں سامنے والے : خوشی کی مسکراہٹ

دیکھنے واال مسرور ہو جاتا۔‘ دانت نمایاں ہو جاتے

دیکھنے والے کو تذبذب میں ڈال دیتی۔ : مطلبی مسکراہٹ

‘ کہ گوہر ممصود نہیں مل پائے گا‘ تجربہ کار ہی سمجھ پاتا

بل کہ دینا اس کے ممدر میں لکھا جا چکا ہے۔ یہ ہو ہی

سالمت گھر لوٹ جائے۔‘ نہیں سکتا کہ بال جھڑے

ان گنت لصے ‘ اس کی ان مول مسکراہٹوں کے ساتھ

وابستہ تھے۔ کاش آج پنڈت رتن ناتھ سرشار زندہ ہوتے تو

ایک اور فسانہءآزاد تخلیك ضرور پا جاتا۔ ایسی بڑی

مجھ سے لوگوں کے بس کا روگ نہیں۔ شاید اس ‘ تخلیك

لسم کی کمیاں ہمیشہ سے محسوس کی جاتی رہی ہیں۔

ایسی چیزیں ہی پرانی یادوں کو تازا کرتی رہتی ہیں۔

الہور کی ایک یونی ورسٹی سے ایم فل کر رہی ‘ یہ خاتون

تھیں۔ انہیں نگران کھاؤ پیؤ اور جیب ہولی کراؤ ملے۔ آتا

Page 10: یقین مانیے

جاتا تو خیر کچھ بھی نہیں تھا۔ خاتون کا معاملہ بھی بالکل

جب کہ شاگرد سو فی صد ‘ یہ ہی تھا۔ استاد تیس فی صد

نمل پر یمین رکھتی تھی۔ خاتون انہیں شیشے میں نہ اتار

لطف اندوز ‘ ہاں البتہ وہ اس کی مسکانوں سے‘ سکی تھی

ضرور ہوتے اور معمولی نوعیت کا ٹھرک بھی جھاڑ لیتے۔

اطراف میں ‘ شاید وہ اسی لابل تھے۔ چلو جو بھی سہی

باذولی موجود تھی۔

‘ سنا ہے لمبے آدمی کی عمل گٹوں میں اور عورت کی عمل

لیکن اس کے ‘ کھتی میں ہوتی ہے۔ وہ لد کی لمبی تھی

گٹوں میں عمل نہ تھی۔ کتھی میں رومال کی سی کسی چیز

لہذا وہاں عمل کے ہونے کا سوال ہی ‘ کی گرہ رکھتی تھی

ہر بیس پچیس منٹ ‘ پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے بڑا غور کیا

کے بعد گیس چھوڑتی کہ سانس لینا بھی دوبھر ہو جاتا۔

سانس تو ایک طرف دماغ میں کجھلی سی ہونے لگتی ہے۔

جو ایسی گٹھیا عمل کو نکال باہر کرتی ہے۔ ‘ اچھا کرتی ہے

ایسی عمل سے تو صبر بھال۔

لطعی نارمل تھے۔ بدزیبا نہ تھے۔ کتنا مغزماری ‘ پشتی پہاڑ

Page 11: یقین مانیے

تھوڑی ہی دیر میں بات بھول جاتی۔ تب جا کر ‘ کر لو

کہ موصوفہ کی عمل روزن پشت میں ‘ مجھے اندازا ہوا

‘ ہے۔ جب عمل کا بوجھ محسوس کرتی یا محسوس ہوتا

ایک جھٹکے سے نکال باہر کرتی۔‘ فورا سے پہلے

عمل کے ‘ خیر وہ تو ایک کم زور عورت ہے۔ مسکرا کر

دشمنوں کی عمل پر پردے ڈال سکتی ہے۔ مجھے آج

کہ میں بھی عمل سے پرے پرے ہوں۔ سودا ‘ احساس ہوا

انتہائی ماڑے کپڑے پہن کر جاتا ہوں تا ‘ لینے جاتا ہوں تو

کہ دوکان دار کو میری حالت زار پر ترس آ جائے اور وہ

ذرا ہٹ ‘ لیمت میں رعائت سے کام لے۔ آج کوئی چیز لینے

کر چال گیا۔ میں نے سودا لیا اور دوکان دار سے رعایت

کرنے کی گزارش کی۔

ہم بندہ کوبندہ ‘ میاں جی فکر نہ کریں: اس نے جوابا کہا

لیمت طلب کرتے ہیں۔ آپ کے کہنے سے پہلے ‘ دیکھ کر

فکر نہ کریں۔ اس کے اس جملے سے ‘ رعایت کر دی ہے

کاروباری رویے بھی دو طرح کے ہیں اور ‘ یہ معلوم ہوا

کپڑے اس میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

Page 12: یقین مانیے

کو

‘ مڑے ہوئے کے لیے سابمہ استعمال کرتے ہیں۔ کوبندہ

کہ ‘ یعنی ٹیڑھا بندہ۔ میں نے گھر آ کر غور کیا‘ مڑا ہوا بندہ

تو اس میں کوئی شک نہ پایا۔ بالکل ‘ میں ٹیڑھا شخص ہوں

بہروپ ‘ چند سکوں کی بچت کے لیے‘ مرا ہوا نہیں ہوں

اختیار کرتا ہوں۔ یہ ٹیڑھاپن نہیں تو پھر اور کیا ہے۔

تب ہی ‘ یہاں سب کچھ ٹیڑھا ہے‘ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں

تو ذلت و خواری ہمارا ممدر بن گئی ہے۔ ہم ذلت برداشت

لیکن پیٹ سے سوچنا بند نہیں کر سکتے۔ ‘ کر سکتے ہیں

صاحبان کتاب و للم ‘ ممتدرہ طبمے تو ایسا کرتے آئے بیں

‘ اسی راہ کے راہی چلے آ رہے ہیں۔ سچ اور حك‘ بھی

‘ ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ مذہبی طبمے اختالفی طبموں کو

نبی ‘ کافر لرار دینے پر کمر بستہ ہیں۔ مورکھ بادشاہوں کو

شاہی ‘ لریب لرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ہی حالت

شعرا کی رہی ہے۔ بادشاہوں اور ایسے شاعروں کے بارے

غلط العمیدہ سمجھے جاتے ہیں۔ ‘ منفی رائے دینے والے

گویا سچ کہنا ہی جرم چال آتا ہے۔ اس سے بڑھ کر بھال اور

اندھیر کیا ہو سکتا ہے۔

Page 13: یقین مانیے

...............

کوئی بتائے میں کیا کروں

‘ جب کبھی مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں مسلمان ہوں

میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ دمحم ان پر ان حد درود و

میرے ‘ سالم میرے نبی اور راہ بر ہیں اور علی شیر خدا

سلمان فارسی اور بالل جیسے ‘ امام ہیں۔ ابوزر غفاری

عثمان غنی ‘ عمر فاروق‘ میرے اسالف ہیں۔ ابوبکر صدیك

اور امیر معاویہ مسلمانوں کے چار خلیفہ ہیں۔ عمر بن

‘ عبدالعزیز جیسے عظیم حکم ران تھے۔ حسین ابن علی نے

اس کی ‘ جو اسالم اور بنی نوع انسان کے لیے لربانی دی

‘ مثال نہیں ملتی۔ اصحابہ کرام نے دنیا کے چپے چپے پر

سفری صعوبتیں اٹھا اسالم کا پیغام پنچایا۔ کچھ کا یزید امام

یہاں ان کا ذکر بد ممصود و مطلوب ‘ اور جنتی خلیفہ ہے

نہیں۔

Page 14: یقین مانیے

تو ‘ اپنے کردار پر نظر جاتی ہے‘ دوسرے ہی لمحے

‘ شرمندگی کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ میں مسلمان ہوں۔۔۔۔۔۔ میں

اس سے بڑھ کر مذاق بھال اور کون سا ہو سکتا ہے۔

امانت ‘ مالوٹ کرتا ہوں‘ کھلے بندوں رشوت لیتا ہوں

خوری میرا اصول ہے۔ جھوٹ تو میرے روزمرہ میں داخل

‘ التدار حاصل کرکے‘ ہے۔ ناجائز اور ناجائز طریمے سے

انی مچاتا ہوں۔ اس پر مجھے کبھی شرمندگی نہیں ہوئی۔

میرے معمول ‘ بکریاں اڑانا پھنسانا اور ان سے موج مستی

میں داخل ہے۔ مائی باپ کو ایڑ پر رکھتا ہوں۔ ان کے

عمرہ یا ‘ بڑھاپے کی خوب مٹی پلید کرتا ہوں۔ جانتا ہوں

حج کرکے سب کچھ بخشوا لوں گا۔

تو کافر۔ مروجہ اسالم میں ‘ لاتلوں لٹیروں کی نفی کرتا ہوں

اکبر بادشاہ کو بھی مسلمان سمجھا جاتا ہے حاالں کہ اس

یعنی دین الہی تھا۔ اورنگ زیب میرا نبی لریب ‘ کا اپنا مذہب

تو کافر۔ کمال ‘ بادشاہ ہے۔ البال کے متعلك کچھ کہتا ہوں

خطبہ الہ آباد میں کہاں پاکستان کا ذکر ہے۔ ٹی ‘ اے یار

اصغر سودائی کے اس نعرے ‘ ایس ایلٹ میرا پھوپھڑ ہے

کو بھول چکا ہوں

Page 15: یقین مانیے

پاکستان کا مطلب کیا ال الہ اال ہللا

میں صرف خودی کو جانتا ہوں

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تمدیر سے پہلے

خدا خود بندے سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

سلیز ‘ خدا گویا اکبر بادشاہ ہے۔ وہ خدا جو تخلیك کار ہے

‘ کوڈ طے کر رہا ہے اسے کچھ پتا نہیں‘ کے یوٹرس میں

کہ میرے بندے کا کتنا بنتا ہے اور اسے کب دینا ہے۔ البال

اس نے کب ‘ نے تو بین االلوامی ریاست کا نظریہ دیا تھا

اور کہاں حدوں کی ریاست کا نظریہ دیا ہے۔ اس سے

تو کافر۔‘ متعلك سچ کہتا ہوں

‘ میں نہیں جانتا کہ میں کس لسم کا مسلمان ہوں۔ فمرا کو

نیکی اور ‘ توبہ توبہ ہللا نہیں مانتا۔ یہ اچھے لوگ تھے

بھالئی کا درس دیتے رہے۔ توکل ان کا شعار تھا۔ بھالئی

تو ‘ ان کے ہاں چال جاتا ہوں‘ کی یاد تازہ کرنے کے لیے

مشرک کے الماب سے ملموب ہوتا ہوں۔ کیا اچھائی کو ماننا

اور اس کی عزت کرنا غلط ہے۔

Page 16: یقین مانیے

حسینی رستے کو اپناتا ہوں تو کافر۔ بزرگوں کو کارساز

اور حاجت روا نہیں مانتا تو زندیك۔ درود پڑھتا ہوں تو

نہیں پڑھتا تو کافر۔ مسلمانی میرے لیے ایک پچیدہ ‘ کافر

کیا کروں اور کدھر جاؤں۔ ‘ معمہ بن گئی ہے۔ سوچتا ہوں

کہ یہ ہی سچا رستہ ہے۔ اسالم ‘ اسالم چھوڑ نہیں سکتا

ایک سادہ اور دوٹوک دین ہے۔

میں اسے چھوڑ نہیں ‘ میں اسالم سے محبت کرتا ہوں

کیا کروں کہ میں مسلمان ‘ سکتا۔ خدا کے لیے کوئی بتائے

سلمان فارسی یا ‘ ویسا ہی جیسے ابوزر غفاری‘ ہو جاؤں

ہمیشہ بتانے والے کا احسان ‘ بالل تھے۔ اس کرم کے لیے

مند رہوں گا۔

..............

سوچتے جاؤ‘ دیکھتے جاؤ

Page 17: یقین مانیے

اس کے اطوار کو ‘ زندگی ایسی سادہ اور آسان چیز نہیں

اس کا چہرا ہی بدل ‘ سمجھنا بڑا ہی دلیك کام ہے۔ ہر لمحہ

پتا چال چل ‘ آدمی مال تھا‘ کر رکھ دیتا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے

یہ اچانک ‘ بسا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ چنگا بھال تو تھا

اسے کیا ہو گیا۔

مختلف ‘ ایک ہی ولت میں‘ اسی طرح اس کے انداز رویے

تو دوسرا ہنس رہا ہے۔ ہنسے ‘ ہوتے ہیں۔ ایک رو رہا ہے

والے کو رونے والے پر اور رونے والے کو ہنسے والے

تو ‘ اعتراض کی اجازت نہیں۔ اگر اعتراض کریں گے‘ پر

لمحوں کا بھی ہو ‘ فساد کا دروازہ کھل جائے گا۔ یہ فساد

اس کے اثرات نسلوں تک بھی جا سکتے ہیں۔‘ سکتا ہے

کیسے ہو: اس نے پوچھا

ہللا کے فضل سے ٹھیک ہو

اس نے سر ہالیا اور منہ میں کچھ بڑبڑاتا ہوا چال گیا۔

Page 18: یقین مانیے

وہ اس بڑبڑاہٹ کا مفہوم نہ سمجھ سکا۔ اس کا مفہوم یہ

ٹھیک ہو یا نہیں۔ تھوڑی ہی دیر ‘ کہ اب دیکھتا ہوں‘ تھا

پلس آ گئی اور اسے پکڑ کر لے گئی۔ ‘ میں

پھر وہ تھانے پہنچا اور پوچھا کیسے ہو۔

مصیبت میں ہوں۔: اس نے جوابا کہا

اب آئے نا اصل ٹھکانے پر

جی کیا کہا

کچھ نہیں

خرچا ‘ ضمانت کروا لیتے ہیں۔ تم جانتے ہو‘ فکر نہ کرو

پانی تو لگتا ہی ہے۔

خرچا پانی کدھر سے آئے گا۔‘ میں گریب آدمی ہوں

غلط کام کیوں کرتے ہو۔‘ اپنی اولات میں رہتے

میں نے کیا کیا ہے۔‘ مجھے نہیں پتا

سارے مجرم اس طرح ہی کہتے ہیں۔

بہن کو ‘ تم غریب لوگ بھی بڑے عجیب ہوتے ہو۔ کہا تھا

ہمارے ہاں کام کے لیے بھیج دیا کرو۔ تمہاری غیرت نے

گوارا نہ کیا۔ اب بھگتو۔

Page 19: یقین مانیے

آیا بڑا غیرت مند

یہ ہی زندگی ہے۔ متضاد رویے متوازی چل رہے ہیں۔ یہ

زندگی شروع ہی سے ‘ بات آج ہی سے تعلك نہیں کرتی

خود اسی مرض میں مبتال ہیں۔ ‘ ایسی ہے۔ پوچھنے والے

کرتے رہیں ‘ ان حاالت میں بھی لوگ زندگی کر رہے ہیں

گے۔

اس نے پی سی ایس میں کامیابی حاصل کی۔ ہنسنے کی

اس کے آنسو نکل گئے۔‘ بجائے

چپ لگ گئی اور ‘ دھاڑیں مار کر رونے کی بجائے‘ بیٹا مرا

بٹر بٹر دیکھنے لگا۔‘ سب کی طرف

ذہنی توازن ہی کھو بیٹھا۔‘ باپ مرا

جیسے تخلیك کار ‘ بیوی کو طالق دے دی‘ بیٹی پیدا ہوئی

اس کی بیوی تھی۔

خاوند مرا بڑا ہی صدمہ ہوا۔ پچاس عورتوں میں اس لسم

Page 20: یقین مانیے

کے بیانات جاری کرنے لگی۔

ہائے میں مر گئی۔ زندگی بھر دکھ دیتے رہے۔ ایک لمحہ

بھی سکھ نہ دے سکے۔ زندگی بھر غیروں کی محتاج رہی۔

تم پر رہتی تو گھر ویران رہتا۔ اب مر کر دکھ دے گئے ہو

کہ غیروں کی ہی محتاج رہوں۔

تم نے میری ایک نہ ‘ نشہ پانی سے ہمیشہ منع کرتی رہی

اگر مان جاتے تو یہ دن تو نہ دیکھنا پڑتا۔ ‘ سنی

پیسے بچاتے تو کفن دفن کا ‘ جوئے نے تمہیں برباد کیا

سامان ہی لے آتی۔ آج میرے پاس پھوٹی کوڑی تک نہیں۔

جو تایا نے کچھ نہ دیکھا اور ‘ میرے نصیب ہی سڑ گئے

رشتہ دے دیا۔

ہائے میں مر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ لوکو میں لٹی گئی۔

امریکہ کے خالف باتیں کر رہا ہے۔ اگر ‘ یہاں جسے دیکھو

الزام امریکہ پر رکھتا ‘ کوئی پیشاب سے بھی تلک پڑتا ہے

‘ کسی ناکسی سطع پر‘ ہے۔ اسے اس میں امریکہ کی

سازش محسوس ہوتی ہے۔ دوسری طرف اگر امریکہ کا

میں اس لیے نہیں کہ ‘ ویزا عام ہو جائے تو میرے سوا

Page 21: یقین مانیے

امریکہ کا ویزا حاصل کرنے ‘ بیمار اور بوڑھا ہو چکا ہوں

مرنے مارنے پر اتر آئے گا۔ شاید اس لیے کہ ‘ کے لیے

صاحب اخگر اکتا ‘ دیکھ دیکھ کر‘ کالیاں یا تمریبا کالیاں

وہاں لکیر کی فمیری نہیں کرنا ‘ سے گئے ہیں۔ سنا ہے

بل کہ لکیر مضبوط صاحبان اخگر کی فمیری کرتی ‘ پڑتی

نہ کوئی روک نہ کوئی ٹوک۔‘ ہیں۔ ڈالر کماؤ چٹیاں اڑاؤ

معاشرت سے الگ تر نہیں رہا۔ ‘ مذہبی مین کا رویہ بھی

مجھے کسی : ایک مذہبی مین سے کسی بی بی نے کہا

سے پیار ہو گیا ہے۔

وہ کون جہنمی ہے۔ : جوابا مذہبی مین نے کہا

آپ سے۔ : بی بی نے جواب دیا

چل جھوٹی۔: مذہبی مین فورا بول اٹھا

اسی لماش کا ایک اور لطیفہ معروف ہے۔ مذہبی مین

بیٹھے ہوئے تھے۔ طے ہوا عورت کو دیکھنا بھی نہیں اور

اس کی بات بھی نہیں ہو گی۔ کچھ ہی دیر بعد ایک مذہبی

مین بوال لڑکی۔۔۔۔۔

Page 22: یقین مانیے

کہاں ہے۔‘ سب ایک آواز میں پکار اٹھے کہاں ہے

مذہبی مین کے متعلك ایک اور کہاوت مشہور ہے۔

اگر میں وزیر اعظم سے پیار : کسی بی بی نے پوچھا

کرنے لگوں تو

سیدھی دوزخ میں جاؤ گی۔

وزیر اعلی سے پیار کروں تو

تو بھی دوزخ ٹھکانہ ہو گا۔

اگر آپ سے

جنت جانے کا پروگرام ہے۔‘ بڑی سیانی ہو

نیچے سے کھاتا ہے۔ ‘ چھوٹے والی روزانہ طعنہ دیتی تھی

سے روٹی کھانا ہی ٢٠١٠دس اکتوبر ‘ میں نے تنگ آ کر

کتنی بڑی غلطی کی تھی۔ آدم ‘ چھوڑ دی۔ اب سوچتا ہوں

جنت بدر ہوئے۔ اگر میں ‘ گندم کا دانہ کھایا‘ علیہ اسالم نے

میں بھی جہنم بدر ہو جاتا۔ روٹی ‘ روٹی نہ چھوڑتا تو شاید

بھی تو گندم سے ہی تیار ہوتی ہے۔ اگر گندم کا دانہ لکیر کا

Page 23: یقین مانیے

وہ ‘ تو یہ الگ بات ہے۔ اب ہللا ہی جانتا ہے‘ استعارہ ہے

دانہ گندم کا تھا یا اس سے مراد لکیر تھی۔

زندگی کا سب سے بڑا سچ رہا ہے۔ ابراہیم ‘ طالت ہی

کوئی نہیں جانتا۔ اس کا اور اس کی ماں ‘ کیسا تھا‘ لودھی

کوئی نہیں جانتا۔ بابر تاریخ میں ‘ کے ساتھ بابر نے کیا کیا

اپنے بچوں کے نام بابر رکھتے ‘ ہیرو ہے۔ لوگ فخر سے

ہیں۔

بابر عیش کوش کہ دنیا دوبارہ نیست۔ بابر : بابر کا لول ہے

بابر ‘ کوئی نہیں جانتا‘ نے خون سے گلی بازار رنگ دئے

اس لیے ہمارا ہیرو ہے۔‘ فاتح ٹھہرا

وہ معاف کرتا رہا۔ ‘ ہمایوں کے بھائی سازشیں کرتے رہے

ان کی ‘ تخت و تاج کے لیے بھائی تو بھائی‘ پوتے نے

‘ االدیں بھی ذبح کر دیں۔ اپنی الڈلی بیگم کا ممبرہ تاج محل

بنایا تاریخ میں زندہ ہے اور بڑا نام رکھتا ہے۔

بھائی تو ‘ تاریخ کے نبی لریب بادشاہ اورنگ زیب نے

Page 24: یقین مانیے

‘ باپ کو بھی نہ بخشا۔ بہن جس نے مخبری کرکے‘ بھائی

کوئی ‘ کیوں‘ کو بھی لید کیے رکھا‘ اس کی جان بچائی تھی

نہیں جانتا۔ تاریخ ہی نہ لکھنے دی۔ خانی خاں نے بھی

چوری چھپے لکھی۔

ہندوستان مسلم ریاست نہ تھی۔ مسلمان محض چند فی صد

سرمد جیسے بندہءخدا کو شہید ‘ تھے۔ اسالم کا ماما بن کر

جو آج تک کھل نہیں ‘ کر دیا۔ اصل معاملہ کوئی اور تھا

بہن کو کیوں نظر بند کیے رکھا۔ ‘ سکا۔ سوال پیدا ہوتا ہے

جو خود ہی فیصلہ کیا اور سرمد ‘ وہ لاضی اور جالد نہ تھا

تاریخ ‘ لتل کر دیا۔ ممتدرہ لوت تھا‘ کو اپنے ہاتھوں سے

میں زندہ ہے۔

زندہ ہیں اور اپنے الکھوں ‘ حسین ابن علی مفتوح تھے

دیوانے رکھتے ہیں۔

یزید ابن معاویہ کو جنتی اور حسین ابن علی کو باغی

اس کے رسول اور ‘ کہنے والے بھی موجود ہیں۔ حجت ہللا

االمر کی اطاعت کو پیش کرتے ہیں۔ گویا دسترخوان پر

Page 25: یقین مانیے

اس کے ساتھ حلوہ اور اس سے آگے ‘ ایک طرف کھیر

گوبر رکھ دو۔ کون کھائے گا۔ کوئی دسترخوان پر بیٹھنا

شداد اور ‘ نمررد‘ بھی پسند نہیں کرے گا۔ اس حساب سے

فرعون درست تھے۔

لیکن بڑا نام رکھتا ‘ حیرت انگیز بات یہ کہ ٹیپو مفتوح ہے

ہے۔ کیوں

بہت بڑا ‘ اپنے تاج و تخت کے لیے لڑا تھا۔ کیوں زندہ ہے

سوالیہ ہے۔

دیکھتے جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کے روبرو چیز ‘ سوچتے جاؤ

سمجھ میں نہ آ سکے گی کیوں کہ زندگی بڑی پچیدہ اور

جسے سمجھنا آسان کام نہیں۔‘ الجھی ہوئی گھتی ہے

یمین مانیے

Page 26: یقین مانیے

دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے اٹھ کر ‘ کچھ ہی دن ہوئے

دروازہ کھوال۔ دو بڑے ٹوہری آدمی دروازے پر کھڑے

تھے۔

ممصود ‘ بڑے میاں: انہوں نے تمریبا با بارعب آواز میں کہا

حسنی صاحب گھر پر ہیں۔

حضور تشریف رکھیے اور : میں نے جھک کر عرض کیا

خود اندر چال گیا۔

‘ بڑی بی: اندر بیٹھی ایک بوڑھی خاتون سے پوچھا

ممصود حسنی صاحب گھر پر ہیں۔

پھر یہ گل افشانی ‘ بڑی بی نے گھور کر میری طرف دیکھا

تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا۔: فرمائی

اصل میں وہ لفظ بڑی بی پر سیخ پا ہوئی تھی۔ میرا دماغ

‘ نہیں چال؛ میرے ساتھ اتنا فرینک ہونے کی ضرورت نہیں

پہلے اس کا ‘ جو پوچھا ہے‘ میں ایسا ویسا آدمی نہیں ہوں

‘ جواب دو۔ بیٹھک میں بارعب شخصیات تشریف فرما ہیں

جو حسنی صاحب سے ملنے کی خواہش مند ہیں۔

Page 27: یقین مانیے

اب کہ اسے یمین ہو گیا کہ میں یادداشت کھو بیٹھا ہوں۔

زور زور سے اور زار و لطار رونے لگی۔ اس کی آواز

: کافی بلند تھی۔ میں نے جعلی حیرت دکھاتے ہوئے کہا

میں نے تو آپ کو کچھ نہیں کہا۔ آپ ‘ بڑی بی کیا ہو گیا ہے

خواہ مخواہ رونے لگی ہیں۔ اس کی آواز اور بلند ہو گئی۔

پہلے میرے ‘ رو بعد میں لینا: میں نے دوبارہ سے کہا

سوال کا جواب دے دیں۔

خود اپنا ہی پوچھ رہے ہو۔‘ تم کون ہو

اچھا تو میں ہی ممصود حسنی ہوں۔ پھر میں نے اپنی بساط

اور اولات کے مطابك لہمہ لگایا اور واپس بیھٹک میں آ

گیا۔

تو انہوں نے میری ‘ جب میں دوبارہ سے بیٹھک میں آ گیا

‘ جانب سوالیہ نطروں سے دیکھا۔ میں فخریہ سا مسکرایا

کیوں کہ مجھے کامل یمین ہو گیا تھا کہ میں ہی ممصود

یہ ‘ لیکن اپنی اصل میں‘ حسنی ہوں۔ بظاہر معمولی بات ہے

ہزاروں سال سے اپنی کھوج ‘ معمولی بات نہیں۔ شخص

Page 28: یقین مانیے

میں ہے۔ اس کی شخصیت تو شاہوں کی تجوری میں ممید

کہ ‘ چلی آتی ہے۔ بال شبہ یہ خوش نصیبی کی بات تھی

ہزاروں سال نہیں لگے۔‘ مجھے خود کو جاننے میں

جناب میں ہی ممصود حسنی ہوں۔ ‘ پھر میں نے ان سے کہا

ہر دو حضرات نے میری طرف دیکھا۔

میں ہی اصلی ممصود حسنی ہوں۔ وہ بھی ‘ سچ کہہ رہا ہوں

تمریبا دم توڑ ‘ سچے تھے کہ آج اصل اور نمل کی پہچان

یہ آپ پہلے ہی بتا سکتے تھے۔ : گئی ہے۔ انہوں نے پوچھا

بیگم نے ‘ میں تصدیك کرنے گیا تھا۔ بلکھڑ سا بندہ ہوں

تصدیك کر دی ہے کہ تم ہی مطلوبہ شخص ہو۔ انہیں میرے

انداز اور طور طریمے پر حیرت ہوئی۔ ہونی بھی چاہیے

تھی۔ بیشک یہ خبطیوں کی یا کی سی حرکت تھی۔

وہ بھی حاضر سروس۔ میں ‘ سر سید احمد خان افسر تھے

جو لباس بدل کر ‘ حاضر یا غیرحاضر سروس افسر نہیں تھا

آتا۔ اسی پرانے لباس میں واپس آ گیا تھا۔

Page 29: یقین مانیے

‘ سر سید احمد خاں کا بہت پہلے سے ذکر سنتا آ رہا تھا

حیرن تھا کہ وہ بیک ولت سید بھی ہیں اور خان بھی۔ جب

ہوش سے مراد عمل نہ لی جائے۔ عمل آئی ‘ بڑا ہوا ہوش آیا

ہوتی تو اس جہنمیوں کی آئی جی سے شادی کیوں کرتا۔

نومبر میں اسے گرمی لگتی ہے۔ بجلی چلی جائے تو میرا

اگال پچھال سب پن کر رکھ دیتی ہے۔

نام کے ساتھ ‘ انہوں نے خان بہادری کے اظہار کے لیے

سید ذات کو لیک لگائی۔ یہ ہی ‘ لفظ خاں کا الحمہ سجا کر

انہیں اور بھی چٹا بہادر کی طرف اسناد ‘ ایک خطاب نہیں

بل ‘ ہم سچ بول ہی نہیں سکتے‘ ملیں۔ کتنی عجیب بات ہے

پولے ‘ کہ کوئی بھی بول نہیں سکتا۔ جو سچ بولے گا

ہمیشہ سے پولے کھاتے آ ‘ کھائے گا۔ سچ بولنے والے

رہے ہیں۔

یہ لفظ محض ٹی سی کی غرض ‘ بہادر کب تھا‘ چٹا ساب

اضافی استعمال میں کیا جاتا رہا ہے۔ بہادری کی بات ‘ سے

چٹا ‘ یہاں سے چھتر کھا کر گیا‘ تو سکندر ایسا یودھا‘ ہے

ساب کیا تھا۔ وہ تو برا ہو دھرتی کے غداروں کا یا ٰبیڑا

Page 30: یقین مانیے

چٹا ساب کی عیاری کا۔ دھرتی کے غداروں کا ‘ غرق ہو

شروع ہی سے یہ ہی چاال رہا ہے۔ یہاں کے ممامی

ورنہ برصغر کے ‘ ناالئك اور عیاش رہے ہیں‘ سربراہان

لوگ بال کے ذہین اور محنتی ہیں۔ ناالئك اور عیاش لیادت

کے باعث نمصان کم زور عوام کو ہوتا رہا ہے۔ تگڑا ہی

محض ‘ جمہوریت یا اور کوئی نطام‘ تحت پر بیٹھتا آیا ہے

دیکھاوا ہی رہے ہیں۔

دوسرا میں بھی تو پرانا اور بوسیدہ ہو چکا ہوں۔ اب کوئی

ورنہ گلہ شکوہ کیسا اور ‘ پہچان لے تو اس کی مہربانی

افسر اور چلتے پرزوں ‘ کیوں۔ یہ شو شا اور ٹہوہر ٹپا امیر

ہی بھلے ‘ کے لیے ضروری ہے۔ گریب گربا اپنی اصل میں

لگتے ہیں۔ اپنی عزت کی برلراری کے لیے دانستہ یہ بات

: کہ ان میں سے ایک کے منہ سے نکل گیا تھا‘ نہیں کی

ایسے ہوتے ہیں ممصود حسنی۔ ایسی باتیں اس لیے چھوڑ

آخر بھرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔‘ دیتے ہیں

یہاں سوچ ‘ میں بےچارا کیا ہوں‘ میں اپنی بات نہیں کرتا

سے بھی بڑے لوگ ہو گزرے ہیں لیکن صاحب جاہ کی

Page 31: یقین مانیے

ڈر کے مارے کسک بھی ‘ پہچان میں نہیں آ سکے۔ ماڑے

‘ کسی کو تگڑا نہیں سمجھتا‘ نہیں سکے۔ تگڑا اپنے سوا

کم ‘ اوپر سے پھٹا پرانا اور گریب ہو۔ رشوت نہیں لے گا

لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم نہیں ‘ زور کا حك نہیں دبائے گا

تو تگڑا کیسے ہو گا۔ تگڑا نہیں ہو گا تو عزت ‘ کرے گا

کیسے پائے گا۔ یہ نمطہ بڑی دیر بعد میری سمجھ میں آیا

ہے۔

اب مجھے اپنے ماڑے ہونے کا رائی بھر دکھ ‘ یمین مانیے

ایسے تگڑے ہونے ‘ نہیں۔ میں سوا الکھ لعنت بھیجتا ہوں

یہ رنگ روپ بھال۔ میں ‘ دو نمبر کی جی حضوری سے‘ پر

اپنے لیے سید کے ساتھ خان کا سرکاری الحمہ لگانے

بےالحمی زندگی کو ہزار گنا اچھا اور بہتر خیال کرتا ‘ سے

ہوں۔

Page 32: یقین مانیے