insanay kamil shared by [email protected]

10

Click here to load reader

Upload: mywritings

Post on 06-Jul-2015

103 views

Category:

Education


1 download

DESCRIPTION

Information shared by M.Ali Lahore for the benefits of society. Get positive feedback after reading and serve the human being just through knowledge/money.You will get reward here and hereafter.Its depends upon you how you will use information for sake of ALLAH.You will be responsible for doing wrongs otherwise ALLAH have created human being for NAIKEE(Good Works). Contact for More Information : [email protected]

TRANSCRIPT

Page 1: Insanay kamil shared by meritehreer786@gmail.com

[email protected]

1

انسان کامل انسان کامل ا

آمد اندر جہان جان ہرکس جاِن جہاں محمد آمد وبس

اس وقت بیٹھے بٹھائے یہ خیال آتا ہے کہ اس خدائے الیزال ذات بے مثال کی بے انتہاء

اس میں سے اس نے انسانی مخلوق کو اپنی خالفت کا جامہ پہنا کر آراستہ „ مخلوقات ہے

مگر چونکہ اس خالفت کا تمغہ حاصل کرنے والے بھی مقدار میں کچھ کم نہ „ وپیراستہ کیا ہے

س غیر محدود ذات ستودہ صفات نے ان میں سے بعض افراد کو اپنی اس وجہ سے ا„ تھے

درگاہ لم یزلی کارکن بناکر اپنی مرضیات پاس شدہ کی اطاعت کے لئے انبیاء بناکر دنیا میں پیدا

ان کو اس „ کیا اور ان کو ہمرازی عطا کرکے اپنے اسرار مضمرہ کا منشاء انکشاف قرار دیا

جس کو معجزہ سے تعبیر کیا جاتا „ المات بھی عطا فرمائیںعہدہ داری کی صداقت کے لئے ع

اس کے بعد ضروری ہے کہ اس „ تاکہ عام افراد انسان نبی کو غیر نبی سے ممتاز کر لیں„ ہے

شاہوں کے شاہ نے اپنی ازلی کچہری کا کسی کو افسر اور اپنی درگاہ „ محبوبوں کے محبوب

جس پر فعل تخلیق „ ل کہالئے جانے کا مستحق ہوابدی کا صدر نشین جو وزیر اعظم یا معلول او

ورنہ صدارت کی کرسی خالی „ ضرور پیدا کیا ہوگا„ کا اثر تام بالذات اور سب سے پہلے ہواہو

ہی رہ جاتی ہے اور افسری کا چولہ بے نیل مرام رہ جاتا ہے۔ میرے معزز ناظرین! سوال یہ

تعیین کا معیار کیا ہے؟ اس کے جواب افراِد انسان سے کون ہے؟ اس کی„ ہوتاہے کہ وہ فرد

دونوں جوال میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ „ میں تحیر اور پریشانی کی کچھ ضرورت نہیں ہے

اور بے تکے مضمون میں عرض کرتا ہوں ۔ گر قبول افتد رہے عز وشرف۔ بات یہ ہے کہ جو

ے زیادہ کامل اور فرِد انسان اپنے خالق بے چون وچگوں کے اتباع اور جانشینی میں سب س

Page 2: Insanay kamil shared by meritehreer786@gmail.com

[email protected]

کے جس „جسمانی کالبود کا جس „اخالقی اور روحانی عادات کی جس یعنی․․․اکمل پایا جائے 2

نسبت بہ ساتھ کے الکمال صفات لجمیع مستجمع” الوجود واجب اس منامی اور یقظانی حاالت

الکائنات روح کو جس ․․․یادہ ملتے جلتے ہوں وہی آپ کا مطلوب ہےز کے نوع جمیع اپنی

معنون „ہیں مختلفہ عنوانات غرض „کیجئے تعبیر سے اول معلول یا کہئے کامل انسان یا کہئے

نے انسان تاریخ علم جبکہ خصوصا „ہے آسان بہت لینا پرکھ „ہے کسوٹی اور معیار یہ „ہے واحد

کل صاف میدان بنا رکھا ہو۔ انہیں اراکین درگاہ حضرات بال سے وخاشاک خس کو جنگل اس

یہم السالم کے حاالت کی ورق گردانی کیجئے۔ میں اس وسیع مضمون کو مختصر انبیاء عل

کیونکہ انبیائی سلسلہ میں پہلے „ دنیا کا بچپن بالکل اندھیرے میں ہے„ پیرایہ میں تحریر کرتا ہوں

نبی حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصالة والتسلیم ہیں جوکہ واقعی اس پروردگار عالم کے مقرب

جس „ کیونکہ ان کی پہلی وہ ذات ہے„ بارگاہ خداوندی کے ایک اعلٰی مظہر ہیں بندے اور اس

لیکن ان کی خالفت اور عظمت اس سے زیادہ بلند „ کو خالفت کا جبہ پہناکر دنیا میں بھیجا گیا

کیونکہ ان کی سوانح میں گندم خوری کا واقعہ اگرچہ فی نفسہ „ ہوکر صدارت تک نہیں پہنچی

لیکن تاہم عصیان صوری ہونے کی وجہ سے „ ر مرتبت کو دھبہ نہیں لگاتاان کی اس منزلت او

یہ ہی واقعہ ایک مست بارگاہ الست کو اس کہنے پر „ انسان کامل ہونے سے روک بنجاتا ہے

مجبور کرتا ہے:

من ملک بودم وفردوس بریں جایم بود آدم آورد دریں ملک خراب آبادم

منظور نہ تھا کہ حضرت آدم علیہ السالم تمام مخلوقات اصل یہ ہے کہ اس احکم الحاکمین کو یہ

کا نچوڑ بن کر روح الکائنات کہالئے جاویں۔ دنیا کے ہوش سنبھالنے کے بعد حضرت نوح علیہ

السالم خدا کے پیغمبر اس عالم میں تشریف التے ہیں اور زمانہ کو خرابیوں سے پاک کرنے کا

لیکن صدہا برسوں کے بعد ان کی „ ام لیتے ہیںقصد کرتے ہیں اور اس میں بڑی تندہی سے ک

اس گراں مایہ کوشش کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چند گنے چنے لوگ جادہٴ کجی سے راہ راست

اختیار کرتے ہیں ان کے بعد نبوت کے سرتاج حضرت موسٰی علی نبینا وعلیہ الصالة والتسلیم

Page 3: Insanay kamil shared by meritehreer786@gmail.com

[email protected]

کے اوامر ونواہی کی بہت اچھی منبر رسالت پر جلوہ افروز ہوتے ہیں اور اس معبود حقیقی 3

طرح اشاعت کرتے ہیں اور ان لوگوں کو جو قعر ضاللت میں گرے ہوئے تھے سیدھا راستہ

آہ! اس زمانہ میں کہ جب سرکشی اور طغیانی اپنے „ بتال کر منزل مقصود تک پہنچا دیتے ہیں

حق کی تلقین آپ کیسی تکالیف کے متحمل ہوکر „ وسیع دریا میں بڑے زوروں سے موجزن تھی

آپ بالواسطہ قادرو قیوم سے متکلم ہوتے ہیں „ آپ کی منزلت کا کچھ ٹھکانا ہے„ فرماتے ہیں

مگر چونکہ اس حقیقی معبود نے تمام عالم کے لئے رحمت تو ایک اور ہی ذات کو پسند فرما

ہ راہ اس وجہ سے حضرت موسٰی کلیم ہللا علیہ التحیة والتسلیم ایک خاص قوم گم گشت„ رکھا تھا

„ ادھر آپ کا جالل وغضب حد کو پہنچا ہوا ہے„ بنی اسرائیل کے لئے چراِغ ہدایت مقرر ہوئے

قبطی کا واقعہ اس پر شاہد ِعدل ہے۔ نیز رقِت قلب جو صفت رحمت کو بھڑکا دینے والی شے

جس کا اندازہ فرعون کے وقِت نازک پر استغاثہ کرنے اور „ ہے آپ میں حد کمال سے کمتر ہے

ا اس پر ترس نہ کھانے سے ہوسکتا ہے۔ دنیا کے سن رسیدہ ہوجانے کے بعد ایک بڑے آپ ک

اولوا العزم نبی حضرت عیسٰی علی نبینا وعلیہ الصالة والتسلیم مبعوث ہوتے ہیں اور اس مالک

خالق کون ومکان کی مرضیات اور غیر مرضیات کا اشتہار دیتے ہیں اور اس کی „ دوجہان

„ تے ہیں۔ غرض اپنے نصب العین کو بہت خوبی کے ساتھ پورا کردیتے ہیںتوحید کا سبق پڑھا

لیکن اس مرتبہ ٴصدارت کے „ خدا کے مقرب بندے کو کرنا چاہئے„ جیساکہ ایک سچے نبی

اسی وجہ سے یہ بھی ایک محدود مخلوق „ کرسی نشین یہ حضرت بھی نہیں قرار دئے جاتے

کے پیرواں ان کے دامن ِعصمت کو خدائی کی کے لئے باعث ہدایت بنائے جاتے ہیں اور ان

کیونکہ ایک حادث فنا ہو جانی والی چیز کو خدا ماننا اس کو „ تہمت سے گرد آلودہ کرتے ہیں

معیوب کردینا ہے۔ اس میں وہ خود اگرچہ معذور ہیں لیکن استدالل اسی امر پر ہے کہ اس قادر

دار حضرت عیسٰی علیہ التحیة والتسلیم قیوم کو یہ منظور ہی نہیں ہے کہ جمیع کائنات کے سر

اکثر ہے شعار کا ان پرستی بت کہ ہے حال یہ کا مذہب اور اخالق کے عرب ․․․بنائے جاویں

مندر خاص خاص اور بت خاص خاص کے قبیلہ ہر „ہیں جاتی چڑھائی قربانیاں کی ان پر بتوں

Page 4: Insanay kamil shared by meritehreer786@gmail.com

[email protected]

„ خونریزی کی نوبت آتی ہےیا شوالے ہوتے ہیں اور مختلف مندروں کے پجاریوں میں اکثر 4

فرماتے ہیں کہ ہمارے اسالف زمانہ جہالت اپنا جدا رنگ دکھاتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ

راستہ میں اگر کوئی خوبصورت پتھر ملجاتا ہے تو اس کو خدا „ جاہلیت میں جنگل جارہے ہیں

دوسرے روز اس سے زیادہ خوبصورت کوئی اور پتھر „ بناکر اس کی عبادت کرتے ہیں

„ دیتے ہیں ملجاتاہے تو کل کے پتھر سے جس کو معبود بنایا تھا آج استنجاء کرکے پھینک

غرض ان کو نہ مذہب عیسوی نے کچھ فائدہ پہنچایا نہ مذہب موسوی مرتبہ ٴ انسانیت میں اوج

اس پر بھی کچھ اکا „ عیسائیوں نے عرب کو پانچ سو برس تعلیم وتلقین کی„ ورفعت بخش بن سکا

یں مذہب عیسائی سے مذہب موسوی بمراتب زیادہ عرب م„ دکا عیسائی کہیں کہیں نظر آتے تھے

قوت رکھتا تھا۔ حالت یہ تھی کہ سب قبائل میں باہم اس قدر حسد اور نفاق تھااور اختالف قوم

اور تخالف مذہب کی وجہ سے ایک دوسرے کا ایسا عدو جان تھا کہ اسی باہمی خصومت وعناد

کے باعث اہل عشر اور اہل بال اور یونانیوں اور رومیوں اور فارسیوں نے مختلف صوبجات

جب زمانہ کی تیرگی نے بہت „ مشرقی اور اضالع جنوبی ومغربی پر قبضہ کرلیا تھاشمالی و

„ عروج پکڑ لیا اور دنیا ظلمت سے ُپر ہوگئی اور خدائے الیزال نے عالم کو روشن کرنا چاہا

جس کی بشارت حضرت آدم علیہ السالم سے لے کر حضرت عیسٰی علیہ السالم تک سب انبیاء

جس کی شہادت انجیل متی کے تیسرے باب میں اس قول „ آئے تھے علیہم السالم دیتے چلے

سے ہوتی ہے:

مجھ سے زور آور ہے کہ میں اس کی جوتیاں اٹھانے کے بھی قابل „ کہ وہ میرے بعد آتا ہے”

وہ تمہیں روح قدس اور آگ سے غوطہ دے گا اور وہ اپنی کھیتیاں کو خوب صاف کرے „ نہیں

جمع کرے گا پھر بھوسے کو اس آگ میں جالئے گا جو کبھی گا اور اپنے گیہوں کھیتی میں

۔“نہیں بجھتی

وہ آفتاب جہاں تاب جس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السالم کے الڈلے بیٹے حضرت اسماعیل

جہاں سبزی کا نشان نہیں تھا اور خدا سے اس کے „ علیہ السالم نے اس خشک جنگل کو بسایا

Page 5: Insanay kamil shared by meritehreer786@gmail.com

[email protected]

چل ہل میں عالم پدر مادر بے مددگار یار بے میں مدت قلیل نے جس ․․․․ظہور کی دعا کی 5

پر عالم صفحہ نظیر کی جس „دی پلٹ کایا ایسی کی زمانہ وتاریک تیرہ اس نے جس „مچادی

یہ ہی „ اء دنیا سے نہ جب تک نظر آئی تھی اور نہ اس کے بعدتا قیامت وقوع میں آوے گیابتد

سرکشی اور آوارہ قوم کو راستی کا سبق وہ ذات ہے جس نے اپنے روحانی انجذا بات سے اس

جس نے اس خشک صحرا کو ایسا سرسبز اور شاداب کردیا کہ آج وہ ملک تہذیب اور „ پڑھادیا

جس کی مقناطیسی قوت نے ایسی کشش کی کہ „ شائستگی کا منبع اور مصدر خیال کیا جاتا ہے

„ اپنا عار خیال کرتی تھی وہ جنگجو قوم کہ جو خانہ جنگی اپنا شعار اور عاجزی اور انکساری

اپنے آبائی اجدادی طریقہ کو چھوڑ کر اس امر کی مدعی ہے کہ جہاں ہمارے سردار سرور

جس کے اخالق „ تاجدار مدینہ کا جہاں پسینہ گرے ہم وہاں اپنا خون گرانے کو تیار ہیں„ کائنات

ا لفظ بھی کبھی لیکن بددعا ک„ کی یہ حالت ہے کہ طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کررہے ہیں

تمام „ آپ کی جو بات ہے وہللا! وہ دوسرے اہل مذاہب کے لئے قابل رشک ہے„ زبان پر نہیں آتا

محبوبوں کا محبوب اور تمام کائنات کی جان وہی ذات ہے:

وہی ہے مخدوم خادموں کا وہی تو معشوق عاشقاں ہے یہ رتبہ ملکوت میں کہاں کہ سدرة المنتہی مکاں ہے

جس کے ذریعہ سے آپ روح „ رنامے جو اصول فطرت سے بالکل ملے جلے تھےآپ کے وہ کا

کسی نے انسان کامل کہہ کر „ کسی نے آپ کو معلول اول کا لقب دیا„ الکائنات کہالئے گئے

پکارا

“بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر”

„ ہے میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ منصِب صدارت کے کرسی نشین کی شناخت کا معیار کیا

اب میں اس برترذات کی سوانح سناتا ہوں جس کی خلقت عالم کی مخلوقیت کی راز مضمر ہے۔

جہاں „ پہلے مذکور ہوچکا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں کوئی حکومت اور قانون نہ ہو

جہاں کے باشندے وحشت اور غارتگری میں درندوں کے „ خونریزی اور قتل معمولی بات ہو

Page 6: Insanay kamil shared by meritehreer786@gmail.com

[email protected]

ایک ایسے دعوٰی کا پیش کرنا جو تمام ملک „ الیعقلی میں انعام سے بدتر ہوںمشابہ جہالت اور 6

کچھ آسان نہ تھا۔ „ کے نزدیک عجیب اور جملہ قبائل میں مخالفت کی فوری آگ لگادینے واال ہو

پھر اس دعوٰی کا ایسی حالت میں سرسبز ہونا کہ کروڑوں اشخاص کی انتہائی مخالفت اس کے

بالکل تائید „ مال سے سالہا سال متفق رہی ہو„ زرسے„ جان سے„ ے ملیامیٹ کرنے پر دل س

صفات ومحامد کی „ مفصل واقعات کے ضمن میں نبی ا کے اخالق ومحاسن„ ربانی کا ثبوت ہے

چمک ایسی نمایاں ہے جیسے ریت میں کندن اور ان واقعات سے ہی یہ پتہ لگتا ہے کہ مظلومی

توں میں یکساں سادگی وغربت کے ساتھ زندگی پورا وبیچارگی اور قوت وسطوت کی متضاد حال

کرنے واال وہی شخص ہوسکتا ہے جس کے دل پر ناموس اٰلہی نے قبضہ کرلیا اور اسے عالئق

دنیوی سے پاک کردیا ہو۔ نبی ا کی زندگی کے مبارک واقعات ہرملک اور ہر طبقہ کے فرد اور

سرخی کے تحت میں مختصر طور پر میں اس„ جماعتوں کے لئے بہترین نمونہ اور مثال ہیں

ذکر کروں گا۔خلق „ کا مصداق ہیں“ علمنی ربی فاحسن تأدیبی”آنحضرت اکے اخالق کا جو

اطوار وشمائل کے اظہار کے „ ایسا لفظ ہے کہ اب بہترین بزرگوں کے عادات واخالق„ محمدی

„ رو اور ملنسارلئے مشتبہ بہ بن گیا ہے۔ ایک یورپین مؤرخ لکھتا ہے کہ: آنحضرت ا خندہ

„ بیہودہ پن سے نفور„ لغویات سے دور„ ذکر خدا میں مشغول رہنے والے„ خاموش رہنے والے

بہترین عقل والے تھے۔ انصاف کے معاملہ میں قریب وبعید آنحضرت ا کے „ بہترین رائے

„ غرباء میں رہ کر خوش ہوتے„ نزدیک برابر ہوتا تھا۔ مساکین سے محبت فرمایا کرتے تھے

فقیر کو اس کی تنگدستی کی وجہ سے اس کو حقیر نہ سمجھا کرتے اور کسی بادشاہ کو کسی

جاہلوں کی „ اپنے پاس بیٹھنے والوں کی تالیف قلوب کرتے„ بادشاہی کی وجہ سے بڑا نہ جانتے

فرمایا نشست ․․․ کے وفرش مسند بالکسی․․․سفید زمین پر „ حرکات پر صبر فرمایا کرتے

دشمن „ تھے کرتے لگالیا پیوند خود میں کپڑے اپنے „لیتے گانٹھ خود کو جوتے اپنے „کرتے

ہت زیادہ مہربان ب پر خادموں اور والوں کنبہ „تھے مالکرتے سے پیشانی کشادہ سے کافر اور

․․․ہونھ․․․اس عرصہ میں ان کو کبھی „ نے دس سال تک خدمت کی حضرت انس „ تھے

Page 7: Insanay kamil shared by meritehreer786@gmail.com

[email protected]

نہیں لعنت پر کسی „تھی آتی نہیں یاگالی بات گندی کوئی کبھی پر مبارک زبان „فرمایا نہ تک 7

کی۔

سکوت اور کالم

آنحضرت ا نہایت „ بالضرورت کبھی گفتگو نہ فرماتے„ نبی کریم ا اکثر خاموش رہا کرتے تھے

گفتگو ایسی دل آویز ہوتی تھی کہ سننے والے کے دل وروح „ شیریں کالم اور کمال فصیح تھے

„ سبب سے کفار سحر اور جادو کے ساتھ موصوف کرتے تھےاسی „ پر قبضہ کر لیتی تھی

سلسلہٴ سخن ایسا مرتب ہوتا تھا کہ جس میں مضامین میں کچھ خلل نہ ہوتا تھا۔

رونا„ہنسنا

نماز تہجد میں بسا „ تبسم ہی آپ کا ہنسنا تھا „ نبی کریم ا کبھی کھل کھال کر ہنسانہ کرتے تھے

اوقات آپ روپڑتے تھے۔

مرض ومریض

ار کو طبیب حاذق سے عالج کرانے کا ارشاد فرماتے اور پرہیز کرنے کا حکم فرماتے۔بیم

عیادِت بیماراں

عیادت کے „ میں سے جو کوئی بیمار ہوجاتا اس کی عیادت فرمایا کرتے تھے صحابہ کرام

ایک یہودی کا لڑکا آپ کی خدمت کیا „ بیمار کو تسلی دیتے „ وقت مریض کے پاس بیٹھ جاتے

اس کی عیادت کو بھی تشریف لے گئے۔„ کرتا تھا

عالج :

کرنے کا ارشاد فرماتے۔ حالِت مرض میں دوا کا استعمال فرمایا کرتے اور لوگوں کو عالج

Page 8: Insanay kamil shared by meritehreer786@gmail.com

[email protected]

ارباب فضل کی قدر ومنزلت 8

جوغزوہٴ خندق میں سخت زخمی ہوگئے تھے۔ بنو قریظہ نے اپنا حکم حضرت سعد بن معاذ

سے جو جب وہ مسجد تک پہنچے تو آپ نے اپنے صحابہ کرام„اور منصف کرکے بالیا تھا

قبیلہ اوس کے تھے فرمایا:

“قوموا الی سیدکم”

کی پیشوائی کو جاؤ۔اپنے سردار

خادم کے لئے دعا:

اس عرصہ میں „ نے دس سال تک مدینہ میں آنحضرت ا کی خدمت کی حضرت انس بن مالک

ان سے کبھی یہ نہ کہا کہ: یہ کام کیوں کیا ۔ ایک روز ان کے حق میں دعا فرمائی:

“اللہم اکثر مالہ وولدہ وبارک لہ ما اعطیتہ”

اس „ اور اوالد بھی زیادہ دے اور جو کچھ اسے عطا کیا جاوےاٰلہی! اسے مال بھی بہت دے

میں برکت بھی دے۔

ادب اور تواضع

„ جو کوئی ملجاتا اسے سالم پہلے خود کرتے„ مجلس میں کبھی پاؤں پھیال کر نہ بیٹھتے

مصافحہ کے لئے پہلے خود ہاتھ پھیال دیتے۔

شفقت ورافت

شخص بھی آنحضرت ا سے اچھے خلق میں فرماتی ہیں کہ کوئی حضرت عائشہ صدیقہ -:۱

“ لبیک”اگر کوئی صحابی بالتا یا کوئی گھر کا آدمی بالتا آپ اس کے جواب میں „ برابر نہ تھا

Page 9: Insanay kamil shared by meritehreer786@gmail.com

[email protected]

تاکہ امت پر اس „ عبادت نافلہ چھپ کر ادا فرمایا کرتے -:۲ ۔ کرتے فرمایا ہی ․․․حاضر․․․ 9

ورتیں سامنے آتیں تو آسان جب کسی معاملہ میں دو ص-:۳قدر عبادت کرنا شاق نہ گذرے۔

ہللا پاک سے معاہدہ کیا کہ جس کسی شخص کو میں دشنام اور -:۴صورت کو اختیار فرماتے۔

رحمت وبخشش اور قرب کا „ لعنت کروں وہ دشنام اور لعنت اس کے حق میں گناہوں کا کفارہ

چاہتاہوں کہ دنیا میں „ فرمایا کہ: ایک دوسرے کی باتیں مجھے نہ سنایا کرو -:۵ذریعہ بنادے۔

ایک عورت نے مکہ میں فاطمہ نامی-:۶سے جاؤں تو سب کی طرف سے صاف سینہ جاؤں۔

سفارش „ سے پوچھا جو رسول ہللا اکو بہت پیارے تھے لوگوں نے حضرت اسامہ„ چوری کی

سنو! اگر فاطمہ بنت محمد „ نبی کریم ا نے فرمایا: کیا تم حدود اٰلہی میں سفارش کرتے ہو„ کرائی

کہتے ہیں کہ وہ ایک روز آنحضرت ایک صحابی-:۷بھی ایسا کرتیں تو میں حد جاری کرتا۔

آپ نے ہٹ ہٹ فرمایا اور چھڑی سے ان کے „ ےا کے سامنے دری کا رنگین کپڑا پہن کر گئ

میں نے کہا: یا رسول ہللا! میں تو قصاص لوں گا آنحضرت نے جھٹ „ شکم میں چو نکا بھی دیا

مکہ میں سخت قحط پڑا یہاں تک کہ لوگوں نے -:۱اپنا شکم برہنہ کرکے میرے سامنے کردیا۔

نبی کریم „ رب ان دنوں دشمن غالی تھاابو سفیان بن ح„ مردار اور ہڈیاں بھی کھانی شروع کردیں

سلوک یا قرابت داری کی تعلیم „ عرض کیا کہ: آپ تو لوگوں کو صلہ رحمی„ ا کی خدمت میں آیا

نبی کریم ا نے دعا „ خدا سے دعا کیجئے„ دیکھئے! آپ کی قوم ہالک ہور ہی ہے„ دیا کرتے ہیں

نجد سے مکہ کو جانے واال نے حضرت سمامہ بن آثال -:۲فرمائی اور خوب بارش ہوئی۔

آنحضرت انے ایسا کرنے سے „ اس لئے کہ اہل مکہ آنحضرت اکے دشمن ہیں„ غلہ بند کردیا

۔حدیبیہ کے میدان میں آنحضرت ا مسلمانوں کے ساتھ نماز صبح پڑھ رہے تھے :۳منع فرمادیا۔

یہ سب گرفتار „ ںتاکہ مسلمانوں کو نماز ہی میں قتل کردی„ اسی آدمی کوہ تنعیم سے اترے„ ستر

ہوگئے اور نبی کریم ا نے بالکسی معاوضہ اور سزا کے آزاد کر دیا۔

جود وکرم

Page 10: Insanay kamil shared by meritehreer786@gmail.com

[email protected]

اگر کچھ بھی دینے کو نہ „ زبان مبارک پر حرف انکار نہ التے„ سائل کو کبھی رد نہ فرماتے 10

فرمایا: „ گویا کوئی شخص معافی چاہتاہے۔ ایک شخص نے آکر سوال کیا„ ہوتا تو عذر کرتے

میں اس کو اتار دوں „ تم کسی شخص سے ادھار لے لو„ اس اس وقت تو کچھ نہیں ہےمیرے پ

گا۔

عفو ورحم

کا قول ہے کہ نبی کریم انے اپنی ذات مبارک کی بابت کسی سے حضرت عائشہ طیبہ-:۱

حضورا „ سر پھوڑا„ جنگ احد میں کافروں نے نبی کریم اکے دانت توڑے -:۲انتقام نہیں لیا۔

نے عرض کیا کہ ان پر بددعا فرمایئے!نبی کریم صحابہ کرام„ گر گئے تھےایک غار میں

انے فرمایا: میں لعنت کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہوں اور یہ فرمایا کہ اے خدا! میری قوم

تلوار „ ایک درخت کے نیچے نبی کریم ا سو گئے-:۳وہ مجھے جانتے نہیں ہیں۔ „ کو ہدایت فرما

بوال: „تلوار نکال کر نبی کریم اکو گستاخانہ جگایا„ غورث بن الحراث آیا „شاخ سے آویزاں کردی

فرمایا: „ آنحضرت انے تلوار اٹھالی„ اب تم کو کون بچاوے گا؟ فرمایا: ہللا! وہ چکر کھاکر گر پڑا

ایک گستاخ نے -:۴فرمایا: جاؤ میں بدال نہیں لیا کرتا۔ „ اب تجھے کون بچاسکتا ہے؟ حیران ہوگیا

وہ ہودج سے گر پڑیں اور حمل ساقط ہوگیا „ کے نیزہ مارا اکی بیٹی حضرت زینبآنحضرت

معاف فرمادیا۔ ارشاد „ اور باآلخر یہی صدمہ ان کی موت کا باعث ہوا اس نے عفو کی التجاء کی

فرمایا کرتے تھے کہ زمانہ جاہلیت سے لے کر جن باتوں پر قبائل میں باہمی جنگ وجدل چال

و معدوم کرتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے خاندان کے خون کا دعوٰی اور میں سب ک„ آتا ہے

اپنے چچا کی رقوم قرضہ کو معاف کرتا ہوں۔

ھ(۱۳۳۴)مأخوذ:الرشاد

3, شمارہ 17ء, جلد ۲۰۰۲ھ اپریل ۱۴۲۱ربیع االول , ماہنامہ بینات ۲۰۰۲ اشاعت