prr.hec.gov.pkprr.hec.gov.pk/jspui/bitstream/123456789/12709/1/mohsi…  · web viewپاکستان...

1950
عہ ل ی مطا ت ا ی ز ج ت ی: س ی و ن ت غ ل ں اردو می% ان ت س ک ا* ی[ ردوُ ی، ا/ د0 چ ت ی ا* ت ے3 ئ را ب الہ ق م] گار: الہ ن ق م کار:ِ % ران گ ی دی عای ی عل% ں س ح م د ت س ادF اش ودی م ح م دF ارش ر/ کٹ ا/ د% چ ل کاO ر3 ب وا ن ف ی ی ا* ت ہ اردو،او ب غF ش ہ اردو ب غF ش0 چ ت ا۸ ؍۴ اد یX م ا لا ش ،ا ی ت و ن% ں* پل او ا ت قمہ ا لا ع اد یX م ا لا ش ی،ا/ سٹ ور ر: مٹ ن رولAB833102 ہ اردو ب غF ش

Upload: others

Post on 16-Nov-2020

17 views

Category:

Documents


0 download

TRANSCRIPT

پاکستان میں اردو لغت نویسی: تجزیاتی مطالعہ

]مقالہ برائے پی ایچ ڈی، اُردو[

مقالہ نگار:نگرانِ کار:

سیدمحسن علی عابدیڈاکٹر ارشدمحمودناشاد

شعبہ اردو،اوپی ایف بوائز کالجشعبہ اردو

ایچ ۸؍۴،اسلام آبادعلامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی،اسلام آباد

رول نمبر:AB833102

شعبہ اردو

علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی،اسلام آباد

۲۰۱۶ء

فہرست ابواب

باب اوّل:زبان کاسفر۱۔۲۸

۔تمہید

۔اردو ہے جس کانام

۔اردو رسم الخط کا قضیہ

باب دوم:اردولغت نویسی (تاریخ وارتقا)۲۹۔۸۹

۔لغت کیاہے؟

۔لغت نویسی کے مقاصد ومحرکات

۔اردو کی قدیم اور ابتدائی لغات

۔اردو ،فارسی و عربی لغات

۔اردو لغت نویسی کی باقاعدہ روایت

۔غرائب اللغات اور نوادر الالفاظ کا تتبع

۔اردو لغت نویسی میں مستشرقین کی خدمات

باب سوم:پاکستان میں لغت نویسی کے دو اہم ادوار۹۰۔۱۵۰

۔اردو لغت نویسی کانیادور

۔اردو لغت نویسی کاجدید دور

۔اردو لغت نویسی کے اصول وضوابط

۔اردولغت نویسی کے مسائل اور تقاضے

۔لغت کی اقسام اور لغت نگار کے اوصاف

باب چہارم:اردو لغت نویسی میں پاکستانی اداروں کی خدمات۱۵۱۔۴۴۵

۔انجمن ترقی اردو پاکستان

۔اردو لغت بورڈ کراچی

۔اردو سائنس بورڈ لاہور

۔مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد

۔پاکستان میں لغت نویسی کی انفرادی کاوشیں

باب پنجم:اردو لغت نویسی کی تحقیق وتنقید۴۴۶۔۴۹۴

۔قدیم وجدیدلغات کے دیباچے

۔اردو لغت نویسی کی تحقیقی وتنقیدی کتب

۔اردو لغت نویسی پر تحقیقی وتنقیدی مضامین اور مقالات

۔مجموعی جائزہ۴۹۵۔۵۰۵

۔سفارشات۵۰۶۔۵۰۸

۔کتابیات۵۰۹۔۵۱۶

تقدیم

کسی زبان کی لغت اس زبان کے بولنے والوں کے مزاج وافکار کی آئینہ دار ہوتی ہے کیونکہ یہ ملک و قوم کے بہترین دماغوں کی برسوں کی مسلسل کوشش کانتیجہ ہوتی ہے ۔اس لیے کسی بھی زبان کی ثروت مندی اور ترقی کے معیار کااندازہ اس کے ذخیرہ الفاظ کی وسعت، ہمہ گیری اور تنوع سے لگایاجاتاہے۔ اردو لغت نویسی کاعمل بھی اتناہی قدیم ومسلسل ہے جتنی کہ خود اردو زبان و ادب کی تاریخ بلکہ اردو زبان کے ابتدائی شواہد توہمیں برصغیر کی قدیم فارسی وعربی لغات میںبھی ملتے ہیں۔ علم لغت (Lexicology)اور لغت نویسی (Lexicography)دراصل وہ مسائل ومباحث اور اصول وضوابط ہیں جو زبان کے تدریجی ارتقا و انحطاط کے عوامل کو سمجھنے میںمدد دیتے ہیں۔ اردو میں لغت نویسی کی روایت نہ صرف قدیم ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روایت مستند ومستحکم بھی ہوتی چلی گئی۔ ماہرین لغت نویسی اور محققین نے اگرچہ لغت نویسی کے مسائل، اصول وضوابط اور اس کی تاریخ پر کافی کام کیاہے لیکن اب تک یہ کام کسی مربوط اور جامع صورت میں سامنے نہیں آسکا۔تاہم مختلف مقالوں اور مضامین میں لغت نویسی کے تاریخی، تنقیدی اور تحقیقی پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن یہ کام بھی زیادہ تر قیام پاکستان سے پہلے کی لغت نویسی کے جائزے تک محدوود ہے۔

’’پاکستان میں اردو لغت نویسی: تجزیاتی مطالعہ‘‘ ایک وسیع ووقیع موضوع ہے ۔گزشتہ تقریباً ستر(۷۰) سالوں میں انفرادی اور اجتماعی کاوشوں کے ضمن میں جہاں بڑی ضخیم ومستندلغات منظر عام پر آئیں ،وہیں لغت نویسی کے واضح رجحانات اور اصول وضوابط بھی تشکیل پاتے چلے گئے۔ پاکستان میں اردو لغت نویسی کی ترقی میںمختلف ادبی اداروں کا بہت اہم رول ہے ۔ان میں خاص طور پر انجمن ترقی اردو کراچی، اردولغت بورڈ کراچی، اردو سائنس بورڈ لاہوراور ادارہ فروغ اردو (مقتدرہ قومی زبان) اسلام آباد قابل ذکر ہیں۔ان میںہر ادارے کی کارکردگی لغت نویسی کے حوالے سے بہت وسیع اور قابل ستائش ہے کہ قائم بالذّات حیثیت میں ہرادارے پر علیٰحدہ تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی لکھاجاسکتاہے۔ زیر نظر مقالے میں ہم نے پاکستان میںاردو لغت نویسی کے تجزیاتی مطالعے میں جہاں تاریخی اعتبار سے انفرادی واداراتی سطح پر تالیف ہونے والی لغات کاجائزہ لیاہے وہیںاس کے مسائل، تقاضے، تنقیدی رجحانات اوراصول وضوابط جیسے اہم رجحانات کابھی احاطہ کیاہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں لغت نویسی کے تسلسل کوظاہر کرنے کے لیے ابتدائی دوابواب میں اردو زبان اور ابتدا سے قیام پاکستان تک کی لغت نویسی کی روایت وارتقا کوبھی بیان کیاگیاہے۔

اظہار ممنونیت کے سلسلے میں سب سے پہلانام محترم استاد اور ا س مقالے کے نگران ڈاکٹر ارشدمحمودناشاد صاحب کاہے کہ انھوں نے قدم قدم پر بڑی شفقت ومہربانی سے میری رہنمائی فرمائی اور اس مقالے کے ’’خشک پن‘‘ سے مجھے کبھی خوف زدہ اور مایوس نہیں ہونے دیا۔میں ان کا بے حد شکر گزار ہوں کہ انھوںنے رہنمائی کے ساتھ ساتھ عملی طور پر اس مقالے کے مواد کی فراہمی میںبھی مجھ سے بڑاتعاون کیاجس کے لیے میںہمیشہ ان کاممنون احسان رہوں گا۔ میں یہاں ڈاکٹر رئوف پاریکھ صاحب کابھی شکریہ ادا کرناچاہتاہوں کہ جنھوں نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود مجھے وقت دیا۔میں نے انھیں جب جب فون کیا اور ڈاکٹر عبدالعزیزساحر صاحب اور ڈاکٹر ارشدمحمودناشاد کے توسط سے جب جب کسی کتاب کی ضرورت پیش آئی توانھوںنے بڑی شفقت اورمہربانی سے بھرپور تعاون فرمایا۔ آخر میں چیئرمین شعبہ اردو ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں کہ ان کی مسلسل رہنمائی اور بھرپور تعلیمی وانتظامی تعاون کی بدولت ہی یہ مقالہ تکمیل کو پہنچا اور انشاء اللہ آئندہ بھی ان کی محبت وشفقت کایہ سلسلہ جاری رہے گا۔

یہاں شعبہ اردو کے جناب محبوب عالم صاحب کاشکریہ اداکرنابھی ضروری ہے کہ انھوں نے اپنی شبانہ روز محنت سے اس مقالے کوپایہ تکمیل تک پہنچایا۔

سیدمحسن علی عابدی

مقالہ نگار

باب اوّل:

زبان کاسفر

تمہید:

آج زندگی آوازوں کے پھیلائو اور اس کے اظہار و ترسیل کی جدیدترین حالت میں موجودہے۔ لائوڈاسپیکر،ہیڈفون وغیرہ نے آوازوں کی لفظوں کی صورت میں شناخت کو انتہائی آسان بنادیاہے۔ جب کہ تراجم کی جدید ترین سہولیات کی وجہ سے ایک ہی محفل میںموجود مختلف زبانوں کے افراد کی باتوں کو فوری ترجمہ کی سہولت کی بدولت سمجھنا انتہائی آسان ہوچکاہے۔ موجودہ زمانے میں انسانی زندگی کو آ وازوں اور زبان کے بغیر گزارنے کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا ہے۔ آج انسان نے اپنی زبان اور دیگر علوم کی ترقی سے ایک دنیاکو اپناماتحت بنارکھاہے۔ اس کے ہاتھ کی ایک جنبش سے بڑے بڑے کارنامے رونماہوتے ہیں مگر یہی انسان اپنے ابتدائی دور میں زبان کے حوالے سے چرندپرند سے بھی گیا گزراتھا۔ اس کے پاس زبان سے اداکرنے کے لیے کوئی لفظ نہ تھا جب کہ دیگر مخلوقات اپنی اپنی جبلی کیفیات میں اپنی ا پنی مخصوص آوازیں رکھتی تھیں مگر شاید انسان کو اس دور میں زبان کی ضرورت بھی نہ تھی، زبان سے بھی کہیں زیادہ اس کے لیے بھوک اور خوف تھا اور اس پراسرار دنیاکاراز اس کے لیے ایک معمّا تھا۔ سورج چاند ستارے اور دیگر مناظرِ فطرت کاخود کار نظام اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا جب کہ موسموں کی سختیاں ،جنگلی جانوروں کاخوف اور بھوک سے نجات کاسامان اس کے لیے مرکز زیست بناہواتھا۔وہ اس پراسرار دنیا سے خوفزدہ رہتا تھا اسی لیے اس نے مناظر فطرت سے اصنام تراشے اورہر فوق البشر شے کو خدا سمجھ کر اس کے آگے جھکنے لگا۔

آج اس امر کا تعین کرناممکن نہیں کہ انسا ن نے سب سے پہلے کون سی آواز سنی ہوگی، اپنی آواز یا بیرونی دنیا سے پرندوں اور جانوروں کی آوازیں، اگر اپنے جیسے کسی انسان کی آواز سُنی ہوگی تو اسے یہ آواز اپنی آواز سے مشابہ محسوس ہوئی ہوگی اگر اس نے فطرت پر کان دھرے ہوں گے تو اسے آوازوں کاایک نقار خانہ سنائی دیاہوگا۔ نوعیت کے اعتبار سے یہ آوازیں دوطرح کی ہوسکتی ہوں گی۔ ایک پرندوں اور حیوانوں کے حلق سے نکلی ہوئی وہ مخصوص فطری آوازیں جو ان جانوروںکی شناخت تھیں دوسری فطرت کی نظرنہ آنے والی وہ پُراسرار آوازیں جن سے فضائیں معمور تھیں۔ اس سے ان آوازوں کا تنوع اور شدت و لطافت کااندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ہوا کاایک لطیف جھونکا، آندھیوں اور طوفانوں میں تبدیل ہونے تک تبدیلی کے کتنے مراحل طے کرتاہے۔ بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک جیسی خوف ناک آوازیں اس کے علاوہ ہیں۔ اس سے ہم یہ بات باور کرسکتے ہیں کہ اس عہد کاانسان ایک لحاظ سے صوتی افراط کے تجسس کا شکار تھا۔ان آوازوں کاادراک اور فطرت کی دیگر نادیدہ قوتوں پر قابو پانے کی جستجو سے انسان کی بنیادی نفسیات میں ابتدائی اساطیرتشکیل ہوئیں جس سے اُس عہد میں انسانی نفسیات میں پریشانی اورخوف بھی شامل ہوگیا۔

اسی منظر نامے میں انسان نے سب سے پہلے ’’میں ‘‘اور’’تو‘‘ کاسفر طے کیا۔ آوازوں کی افراط، خوف ناک جانوروں اور ہولناک کوہ وبیاباں میں اسے اپناوجود ایک منفرد حیثیت کاحامل نظر آیا۔انسانی شعور میں ’’تصور میں‘‘ کے ابھرنے سے پہلے انسان اگرچہ غول کی صورت میںزندگی بسر کرتاتھا لیکن وہ اس ادراک سے پیشتر حیوانی زندگی گزار رہاتھا۔ اپنے انفرادی وجود کے احساس کے ساتھ ہی اسے وجودغیر کاشعور پیداہوا ساتھ ہی تقابل،تضاد اور شناخت کے لیے غیر کااحساس ہواتو اس نے اسے’’تُو‘‘قرار دیا اور یوں ’’مَن‘‘ و’’تُو‘‘ کی صورت میں انسانوں کودوگروہوں میں تقسیم کر دیا۔ یہ دونوں گروہ انسان تھے اور ایک قبیلہ ،نسل اور رنگ سے تعلق رکھتے تھے۔اس طرح وہ دریا کے دو دھاروں کی طرح ایک ہی وطن کی صورت میں زندگی بسر کرنے لگے۔ خودانحصاری کی حدود سے باہر نکل کر جب اس نے زندگی کی وسعتوں سے ہم کناری اختیار کی تو ایک دوسرے سے ابلاغ واظہار کی ضرورت محسوس ہوئی۔ یوں اس ابلاغ کی دومعروف صورتوں یعنی اشاروں کی زبان اور صوتی ملاپ پر انحصار کیا۔ جہاں صوتی ملاپ ناپید ہوجاتاوہاں اس نے آنکھوں اور اشاروں کی زبان سے اظہار کی صورت پیدا کی۔ آج ان سوالات کاٹھوس جواب دیناقطعی ناممکن ہے کہ انسانی زبان کاظہور کس خطہ ارض میں ہوا،اس کی ابتدائی صورت اور حروف کیاتھے اور وہ کن کن لسانی خصوصیات کی حامل تھی۔لیکن اغلب ہے کہ اس نے سب سے پہلے ’’میں‘‘کہاہوگا اور پھر’’تُو‘‘ کاادراک کیا۔ یوں اس نے خود پسندی سے خودشناسی اور انسانی شناخت کا طویل اور کٹھن سفر طے کیا پھر اس نے محبت ،خلوص اور دوستی جیسے ذاتی جذبات سے لے کر احترام آدمیت جیسے روحانی تصورات کاسفر طے کیا۔ اس طرح یہ کہاجاسکتاہے ۔زبان کے تمام تر سماجی کردار کی بنیاد یہی تصورِ’’ من و تو‘‘ قراردی جاسکتی ہے۔

مجموعی طور پر زبان کو ایک ایسے طویل القامت اور سایہ دار شجر سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جس کی جڑیں زمین کی تہہ میں دور تک پھیلی ہوئی ہیں اگرچہ اس کی جڑیں تو نظرنہیں آتیں لیکن وہ زمین سے قوت نمو حاصل کر کے اپنے آپ کو سرسبز وشاداب اور مستحکم رکھتاہے۔ درخت سے وابستہ تمام اجزایعنی جڑ،تنا،شاخیں ،پتے وغیرہ سب زبان کے آغاز و نشوونما کے لیے بہترین استعاروں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔جہاں تک زبان کی شروعات کے مسئلے کاتعلق ہے تو اس نے ہر عہد کے انسانی ذہن کومتاثر کیاہے ۔انسانی شعور کے اولین اظہار کے ساتھ انسان نے زبان کے بارے میں غور وخوض شروع کر دیاتھا متعدد اساطیری قصوں سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یا تو انسان نے خود سے زبان پر عبور حاصل کیایاپھر اس کی نشوونما میں معجزاتی طور پر کوئی روحانی یاغیر مرئی قوت بھی اس کاساتھ دیتی رہی ہے۔ اس بار ے میں ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:

’’یونانی فلاسفر ڈیموکرائٹس(Democritus)نے سب سے پہلے زبان کاانسانی جذبات واحساسات سے ناطہ جوڑتے ہوئے الفاظ کو انسانی ہیجانی آواز قرار دیا۔اس کے بعد ایپی کیورس(Epicurus)اور لوکریٹس(Luceretus)نے بھی اسی نظریے کاپرچار کیا۔ یہ تصور خاصا مقبول رہا حتیٰ کہ اٹھارویں صدی کے آواخر تک ویچو(Vico)اور روسوبھی اسی کے قائل نظر آئے۔‘‘(۱)

زبان کیاہے ؟ الفاظ کامجموعہ ،الفاظ کیا ہیں،انسانی حلق سے نکلنے والی مخصوص آوازیں جب املا کے مختلف سانچوں میں ڈھل جاتی ہیں تو الفاظ جنم لیتے ہیں جو بذات خود مختلف حروف کامجموعہ ہوتے ہیں۔ مختلف الفاظ کے تلفظ ان کی صوتی انفرادیت کاتعین کرتے ہیں۔ تلفظ اور املا کا بنیادی مقصد مختلف اصوات سے تشکیل پانے والے متنوع الفاظ کو اپنے اپنے خراج کے مطابق علیٰحدہ کرکے ان کی انفرادیت اور شناخت کوبرقرار رکھناتاکہ زبان مختلف اور بے معانی الفاظ کاجنگل نہ بن جائے۔

عربی میں ’’لفظ‘‘ کالغوی مطلب منہ سے نکالنا یا باہر پھینکنے کے ہیں اس کے علاوہ لفظ لف کرنا، تہہ کرنا، ملفوف کرنا، چیزوں کاجمع کرنا اور مجموعہ وغیرہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتاہے۔ الفاظ کی بنیادی اکائی حروف ہیں جن سے ہر لفظ تشکیل پاتاہے۔ قدیم علما وحکما کے نزدیک حرف ایک خاص کیفیت کانام ہے جو ہوا کے تموج سے پیدا ہوتی ہے ۔ہوا پانی کی لہروں کی طرح قوتوں کی صورت میں چلتی ہے اور اس تموج سے ایک ارتعاش پیدا ہوتا ہے ۔جسے آواز کہتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ابوالفضل’’آئین اکبری‘‘(۲) میں جن خیالات کااظہار کرتاہے وہ خاصے مفیدہیں اس کے خیال میں بعض حکما تموج کوسبب قریب مان کر تموجِ ہوا ہی کوصوت کے نا م سے یاد کرتے ہیں اور بعض اس کو سبب بعید جانتے ہیں۔ تموج سے قرع اور قلع پیداہوتے ہیں اور ان دونوں کیفیتوںکے شدید اتصال کانام آواز ہے۔ ایک عضو کی حیثیت سے زبان کامطالعہ آج بھی بہت دلچسپ اورمفید ہے کیوں کہ موجِ ہوا،انسانی نطق پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے اس کااندازہ حرف سے ہوتاہے اس ضمن میں زبان دو طرح کاکردار ادا کرتی ہے ایک طرف تووہ حرف کی تشکیل کرتی ہے اوردوسری طرف آواز کی صورت لفظ کوسامع کے کانوں تک پہنچانابھی زبان کاکام ہے ۔گویا زبان کاسارا عمل آواز کاجادو ہی ہے اور یہی جادو جب سُر کی شکل اختیار کرتاہے تو الفاظ سُر کے ملاپ سے ترفع سے ہمکنا رہوجاتے ہیں۔

مولوی سیداحمد دہلوی فرہنگِ آصفیہ مقدمے کے میں تحریر کرتے ہیں کہ حرف اس کیفیت کانام ہے جو ایک اور کیفیت سے وابستہ ہے اوروہ کیفیت ہوا کی ذات سے قائم و آغِشتہ جب ایک سخت چیز کو دوسری سخت چیز سے الگ کرتے یا ٹکراتے ہیں تو اس میں متموج ہواکے باعث آواز پیدا ہوتی ہے بعض محققوں نے آواز کی تعریف سبب قرب سے بیان کرکے لکھاہے کہ ہوائے تموج کانام آواز ہے اور بعض نے سبب بعید سے مرادلے کر قلع اور قرع ہی کوآواز قرار دیاہے۔ یعنی اوّل قلع اور قرع سے صدمہ واقع ہوتاہے اور پھر درمیانی ہوامیں تموج بہم پہنچ کر اس سے آواز صادر ہوتی ہے پس قلع اور قرع آواز کے واسطے سببِ بعید اور تموجِ ہوا باعثِ قریب ہے کیوں کہ قلع اور قرع میں تموج کا ذریعہ اور اس میں کسی کاواسطہ نہیں، آواز کی کیفیت معلوم کرکے یہ بھی جاننا چاہیے کہ مطلق آواز کو اور اورکیفیتیں بھی عائد ہوتی ہیں جوایک آواز کو دوسری آواز سے ممتاز و ممیز کر دیتی ہیں جیسے زیروبم اور غنہ یاگرانی گلو سے بہم پہنچنا۔ اس کے علاوہ ایک اور خاص کیفیت بھی مخارج کے وسیلہ اور اجزائے ہواکی تقطیع سے آواز کو پیش آتی ہے جیسے دوزیر یادوبم یادوغنہ یادو آوازوں کا گلوئے گراں سے حاصل ہونااس کیفیت خاص کانام حرف ہے، توضیح مقام و اتمام حجت کے واسطے اس خلاصے کااور بھی خلاصہ کر دیاجاتاہے کہ اوّل کو بہ باعث تموج ایک کیفیت جس کوآواز کہتے ہیں عارض ہوتی ہے اور آواز سے ایک کیفیت متعلق ہے مثلاً دوزیریا دوبم وغیرہ اس کیفیت کو حرف کہتے ہیں پس حرف جوایک خاص کیفیت ہے وہ صورت سے پیوستہ ووابستہ ہے اور صورت قائم بہ ہواہے پس یہی حرف کی تعریف ہے۔(۳)

بنیادی طور پر الفاظ دو حیثیتوں کے حامل ہوتے ہیں ایک افراد،حیوانات اورموجودات کے اسماہیں اور دوسرے جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ۔مثلاً سورج، چاند،ستارے وغیرہ کے الفاظ جن اشیا کی نمائندگی کرتے ہیں ان کی قطعیت سے انکار ممکن نہیں ہے یہاں تک کہ اگر یہ اشیا نظر نہ بھی آئیں اور اگر ان میں سے کوئی شے ختم بھی ہوجائے توبھی اس سے متعلقہ لفظ اسی شے کے لیے استعمال ہوگا۔ دوسرے گروہ کے وہ الفاظ ہیں جو جذبات واحساسات اور ہیجائی کیفیات کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں مثلاً درد اور تکلیف کی شدت کابیان یاغم و خوشی کے اظہار پر استعمال ہونے والے الفاظ جذبوں کوقطعی طور پر بیان نہیں کر سکتے۔ایسی ہی کیفیات کے لیے سب سے زیادہ مترادفات استعمال کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کیفیات کے ابلاغ کامکمل حق ادا نہیں ہوسکتا۔

اوّل ہم یہ سوچتے ہیں کہ انسان یا حیوان نے سب سے پہلے بولنا کس سے سیکھا تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کی سانس اس کاسب سے پہلا استاد ہے اور یہی سانس ابتدا میںانسان سے بے معنی حرف نکلوانے کا باعث ہوا۔ سانس بذات خود اپنے مخارج یعنی ناک ،گلے یامنہ سے آنے جانے سے ایک آواز پیداکرتی ہے۔ پس انسان کے بولنے کا پہلا سبب اس کی سانس ہے۔ وہ ہوا جو پھیپھڑوں کے ذریعے اندر جاتی اور باہر آتی ہے ۔ہمارے کانوں کے ذریعے ہمیں سنائی دیتی ہے۔ دراصل سانس کے ذریعے آواز پیدا ہونے کی وجہ صرف سانس نہیں بل کہ تصادمِ ہواہے۔ یہی نہیں دنیامیں جتنی بھی آوازیں پیداہوئیں،وہ فضا میں موجود ہوائوں کے ٹکرائو یا تصادم کے ذریعے پیداہوتی ہیں۔ اگر کوئی ساز ہے تو ہوا کے تارپر ملتاہے۔ کوئی سیال مادہ یاپانی کی لہریں ہوا کے اسی تصادم سے بڑھتی ،گھٹتی اور آواز پیدا کرتی ہیں۔ کسی بھی گڑگڑاہٹ یاگرج کی آواز اسی ہوا کے وسیلے سے ہم تک پہنچتی ہے۔ دور جدید میں اس بات کی تصدیق ٹیلی فون یاریڈیو کی آواز کاہم تک پہنچنا ہے۔ اب اگر یہی ہواسانس ،پھیپھڑے یازبان کے وسیلے نکلتی ہے تو ایسی آواز ہے جو منہ کے کھلنے اور بندہونے یا زبان کی تحریک سے الفاظ اور کلمے کی صورت میں واضح ہوتی ہے۔ اس کی دوقسمیں ہیں اگرکوئی انسان اپنے ذہن میں کوئی معنی رکھ کر یہ آواز نکالے تو بامعنی لفظ یاکلمہ ہوتاہے اور اگرانسان ذہن میں کوئی خیال یامعنی رکھے بغیر نکالے تو وہ بے معنی آوازیں ہوتی ہیں۔لیکن سب بے معنی آوازیں بھی بے کار اور فضول نہیں ہوا کرتی ہیں۔ مثلاً مناظر فطرت میںموجود اشیا کی آوازیں اپنا خاص مفہوم رکھتی ہیں۔ جیسے بادلوں کی گرج،ہوا کی سائیں سائیں آبشار اور دریائوں کے پانی کی آواز بارش کی رم جھم یا جانوروں کوبلانے اور سدھارنے کی آوازیں اور انسان کی خوشی، غم اور تکلیف کی حالت میں نکلنے والی آوازیں وغیرہ۔ اگر ذرا زیادہ توجہ سے غور کیاجائے تو انسان کی تمام آوازوں اور الفاظ کامنبع وماخذ تین آوازیں ’’ اَ، اِ، اُ‘‘ ہیں نیز لفظوں کی تمام کیفیات انھی کے بڑھانے گھٹانے سے پیداہوتی ہیں۔ چناں چہ جب لوگوں نے اوّل اوّل رہن سہن اختیار کیا اور مل جل کر ایک جگہ رہنے لگے تو اپنے مخاطبوں اور حاضر لوگوں سے خطاب کرنے کے لیے ’’اَ‘‘ اور’’اِ‘‘ کااوردور وبعید کے لیے ’’اُ‘‘ کی آواز سے کام لینے لگے یااعضائے جسمانی یعنی سر،انگشت،پائوں، آنکھ اور دہن وغیرہ کے اشاروں کواستعمال کیا۔ خوشی،درد یا غم کے لیے یہی اشارہ’’ اَ‘‘ کام دیتارہا۔ اس کے بعد اسما اور اسما کے بعد افعال وضع ہوئے اسی لیے حرف’’اَ‘‘ تمام زبانوں میں پہلاحرف یا اعراب کی صورت میںپایا جاتاہے۔ اس کی وجہ بھی شاید یہ ہے کہ حروف’’ اِ‘‘ ا ور’’اُ‘‘ کے مقابلے حرف’’اَ‘‘ سانس کے ذریعے زیادہ آسانی سے اداہوتا ہے اور اس کے راستے میں کوئی رُکاوٹ یابند نہیں ہوتاہے۔ابتدا میںانسان ایک طویل مدت تک ان ہی تین حروف سے کام لیتے رہے یاکسی مخصوص کیفیت میں کوئی آواز منہ سے نکل گئی اور اسے اس کیفیت کے لیے حافظے میں محفوظ کر لیاگیا تو بعد میں اسے ہی اس کے لیے استعمال کیاجاتارہا۔ بعدمیں جب ابلاغ کی ضرورتیں بڑھتی گئیں اور آبادیاں وسیع ہونے لگیں تو انسانوں نے اپنے اپنے علاقوں کے موافق کچھ آوازیں حروف کی صورت میں مختص کرلیں اور بعدمیں کاروبار ِزندگی کوچلانے کے لیے اِنھی حروف اورالفاظ پر بھروسہ کرنے لگے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنگ، مصیبت، خوشی، غم اور اطمینان وسکون وغیرہ کے سلسلے میں جن علاقوں میں جیسے حالات ہوتے وہاں ویسے ہی حروف والفاظ زیادہ تشکیل پانے لگے۔اسی طرح جوعلاقے سب سے پہلے آبادہوئے وہاں زبان کے حروف سب سے زیادہ تشکیل پائے۔

ایک طویل مدت تک انسانی زندگی میں صرف اِنھی اعراب و حرکات نے کام دیا اور سالہا سال تک لوگوں نے مفردحروف ہی سے کام نکالا۔ اس کے بعدزندگی کی رفتار جوںجوں تیز ہوتی گئی تویہی حروف وحرکات چھوٹے چھوٹے کلمے اور ان کے ساتھ کچھ کچھ بے ربط جملے بننے لگے اور بامعنی اصوت کااخراج بھی ہونے لگا۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اور بہت سی نعمتوں کے ساتھ ساتھ عقل سلیم سے بھی نوازا ہے تاکہ وہ غوروفکر کے ذریعے مختلف اشیا میں تمیز بھی کرسکے۔ان عقلی قوتوں میں سب سے پہلے قوت ادراک ہے اس کے بعد قوت حافظہ جس کے ذریعے ہر بات دماغ میں محفوظ اور یاد رہتی ہے۔ تیسرے نمبر پر قوت متخیلہ یعنی تخیل اور خیال کی قوت جودماغ میںکسی بھی چیز کی صورت گری کرتی ہے۔ چوتھے نمبر پر قوت تمیز ہے پس بامعنی صوت یا لفظ انھی چار مرحلوں کو طے کرکے بناہے۔ یعنی ہمیں کسی بات کا خیال آتاہے وہ خیال حواسِ خارج سے قوتِ ادراک کے پاس جاتاہے۔ جہاں سے اسے قوت حافظہ کو سونپا جاتاہے۔ حافظہ قوتِ تخیل سے اس کی صورت گری کرکے عقل کے سپرد کر دیتاہے۔ عقل اسے آواز کے وسیلے سے ہمارے ذہن کے مطابق ایک بامعنی لفظ کی شکل دے دیتاہے۔ پہلے پہل تو یہ الفاظ صرف لین دین کی ضروریات کو پوراکرتے ہیںلیکن بعد میں یہی الفاظ خوشی غم اور دیگر جذبات واحساسات کے اظہار کے لیے بھی استعمال ہوتے ہوئے ترقی کی منازل طے کرنے لگتے ہیں۔ روز مرہ محاورے تشکیل پانے لگتے ہیں۔ اسما وضمائر نظر آنے لگتے ہیں۔افعال کااستعمال ہونے لگتاہے۔ اس کے بعد گنتی اور شمار کانمبر آتا ہے۔ ابتدا میں ان اسما کے مجموعوں کو انگلیوں پر گننے کاعمل شروع ہوتاہے اس کے بعد انگلیوں کی پوروں سے گنتی ہوتی رہی لیکن اس سے بھی بات نہ بنی اورگنتی آگے بڑھی تو ہزار ،لاکھ ،دس لاکھ اور ارب کھرب تک بات پہنچی تو پدم، سنکھ، سمندر، پلویم،ساگر وغیرہ کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔آبادی بڑھتی گئی ،لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرنے لگے نئی نئی باتیں نئی نئی چیزیں نئی نئی شکلیں سامنے آنے لگیں ۔آبادی کی ترقی سے زبان کی ترقی اور پرداخت ہونے لگی۔جوں جوں وقت گزرتا گیاالفاظ وقت کی رو سے منجھتے اور سنورتے گئے اور زبان سلیس و رواں ہوتی چلی گئی۔ ایک ایک لفظ کئی کئی معنوں کی پوشاک پہنتاچلاگیا یہاں تک کہ صرف ایک لفظ کی مختلف ادائیگی سے معنی کے کئی پہلووضع ہوتے گئے۔

مندرجہ بالا مباحث کااگر خلاصہ پیش کیاجائے تو یہ کہاجاسکتاہے کہ جس طرح انسان کی عمر کے چندمراحل ہوتے ہیں اسی طرح زبان بھی مختلف مدارج طے کرتے ہوئے پختگی کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔ اوّل طفلی کے زمانے میں صرف آوازوں ، اعراب ،حرکات ،اسما اور ضمائر وغیرہ سے کام لیاجاتاہے۔ اس زمانے میں الفاظ اپنی سید ھی سادی ہیئت ،کیفیت اورمعانی کو برقرار رکھتے ہیں۔ اس کے بعد جوانی آتی ہے اس میںالفاظ اپنے ابتدائی اور سیدھے سادے معنوں سے گریز کرناشروع کر تے ہیں۔ اصطلاحی اورمجازی معنی سامنے آتے ہیں۔ نئی تراش خراش محاورے اور روزمرہ ایجاد ہوتے ہیں۔ بعدازاں ادھیڑ پن کازمانہ آتاہے ۔اس میں علم صرف،علم نحو ،علم بیاں ،علم کلام وغیرہ تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فراہم ہوجاتے ہیں۔ زبان کے جملہ اصول وقواعد بھی اسی زمانے میں سامنے آتے ہیں۔ عہد پیری میں زبان مشقت وریاضت کی بجائے آرام کو ترجیح دیتی ہے ۔تشبیہات ،استعارات اور تلمیحات پر گزارا ہونے لگتا ہے ۔بچپن کی سیدھی سادی اور بھولی بھالی زبان تاریخ کے دھندلکوں میں نہاںہوتی چلی جاتی ہے۔ایسے وقت میں اگر زبان کے سرپرست اور اسے استعمال کرنے والے معدوم ہوجائیں تو زبان ختم ہوتے ہوئے صرف نام کی ہی باقی رہ جاتی ہے۔ برصغیر کی ایسی ہی مردہ زبانوں میں سنسکرت کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کے بولنے کارواج ختم ہواتو اس زبان سے علوم وفنون کے خزانے بھی ختم ہوگئے اور آج سنسکرت جیسی مبسوط اورمکمل زبان کا بھی صرف نام ہی باقی رہ گیاہے۔

لسانیات کے مباحث میںایک اہم ترین بحث یہ ہے کہ دنیا کی قدیم ترین زبان کون سی ہے ۔ جہاںتک لسانیات، آثار قدیمہ اور علم الانسان کے ماہرین کی تحقیقات کاتعلق ہے تو دنیاکی قدیم ترین زبانوں میں دو نام نمایاں ہیں۔ ان میں پہلی ’’سامی‘‘یا’’ آرامی‘‘ کہلاتی ہے۔ جب کہ دوسری کانام ’’سمیری‘‘ یا’’کاوی‘‘ ہے ۔اوّل الذکر حضرت نوح کے عہد کی زبان تھی مگر بابل میں مینار تعمیر کرنے کی پاداش میں ان کی زبانوں میں تفرقہ پیداہوااور یہ لوگ مختلف قبائل میں بٹ گئے اور ان کی زبانیں بھی جداجدا ہوگئیں یہاں تک ان کے الفاظ و تلفظ میں اتنافرق ہوگیاکہ اصل سے ان کاکوئی تعلق نہ رہا۔ حضرت نوح ؑکے بیٹے کانام ’’سام‘‘ تھااسی رعایت سے ان کی زبان سامی کہلائی۔ سام کے بیٹے آرام، عیلام اور آشور تھے ان سب کے ناموں پر زبانیں بنیں۔ آرام کی نسل حجاز سے لے کر یمن تک کے علاقوں میں آباد تھی ان کی زبان آرامی کہلائی یہ چارہزار سال قبل مسیح کی بات ہے۔ آشور کی اولاد جس کاقدیم نام’’سوریا‘‘تھا۔ شام میں آباد تھی ان کی زبان سریانی تھی جب کہ عابرؔ کے نام پرعبرانی زبان بنی۔ قدیم بابل میں سمری اور عکاوی زبانیں بولی جاتی تھیں۔ یہ زبانیں تقریباً دوہزار سال قبل مسیح تک کسی نہ کسی صورت میں بولی جاتی رہیں۔ اب یہ زبانیں ختم ہوچکی ہیں البتہ توریت کی وجہ سے سریانی زبان محفوظ رہ گئی یاپھر اس دور میں اسرائیل نے اپنی مردہ زبان عبرانی کو زندہ کرکے دفتری اور تعلیم وتدریس کی زبان بنالیاہے۔

دنیاکے مختلف خطوں میںنسل انسانی حضرت نوح ؑکی اولاد سے پھیلی اور اسے انھی کے ناموں سے منسوب کیاجاتاہے۔ حضرت نوح کے بیٹے سام، حام اور یافث تھے ۔سام کی نسل سے آرین اور بیشتر یورپین اقوام کاتعلق ہے۔حام کی نسل افریقہ کے سیاہ فام لوگوں پر مشتمل ہے۔ یعنی حبشی اور قدیم ہندوستان کے دراوڑی لوگ ۔جب کہ یافث سے منگول اور زردفام نسلوں کاتعلق ہے۔ یوں دیکھا جائے تو سام،حام اور یافث نسلوں سے ہی زبانوں کے بڑے گروہوں نے بھی جنم لیا۔ قدیم ترین اور مردہ زبانوں کاسراغ لگانے میں یہ مشکل ہے کہ جن تہذیبوں سے یہ زبانیں وابستہ ہیں ان کا نام ونشان تک مٹ چکاہے اگرچہ وہ تہذیبیں اپنے زمانے کے اعتبار سے بہت ترقی یافتہ اور مہذب ہواکرتی تھیں۔ اس ضمن میں قدیم عراق کی تہذیب کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں خط میخی میں لکھی ہوئی جلجامش کی داستان قدیم ترین داستان ہے جس سے اس تہذیب وتمدن کے ساتھ اس زبان کے ذخیرہ الفاظ کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر غلام علی الانہ نے اپنی تالیف’’زبان و ثقافت‘‘(۴) میں مختلف ماہرین کی آرا کی روشنی میں انسانی زبان کے آغاز کے بارے میں نتائج اخذ کیے ہیں کہ ماہرین بشریات نے اپنی زبان کی ابتدا کادور کم از کم اوائل پتھر کے زمانے کو قرار دیاہے اس کاثبوت اس دور کے کرومیگنو(Cro Magno)غار سے برآمد ہونے والے نقوش ہیں جس سے ثابت ہوتاہے کہ اس دور کاانسان کوئی نہ کوئی زبان ضرور رکھتاتھا۔ اس دور کا انسان چالیس ہزار سال پرانے دور کاہے۔ علم الانسان کے ماہرین کاخیال ہے ۔سرزمین چین کاانسان ایک مخصوص زبان جانتاتھا۔ اس انسان کی موجودگی اور آبادی ایک لاکھ سال قبل بتائی جاتی ہے ۔ماہرین نے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ چین کے اس انسان سے پہلے افریقہ کے انسان کرہ ارض پر آباد تھے ان کے وجود کازمانہ دس لاکھ سال قبل بتایاجاتاہے ۔ یہ انسان افریقہ سے جنوب ایشیا کی طرف پھیل گیا۔یہ انسان آگ کااستعمال کرتاتھا،جانوروں کاشکار کرتا تھا اور گفتگو کر سکتاتھا۔افریقہ والے انسان سے پہلے جاوا والے انسان کے ثبوت ملے ہیں اس انسان کی آبادی چالیس لاکھ سال قبل بتائی جاتی ہے ۔ جاوا والے انسان سے قبل حجری زمانہ کے ایک کروڑ بیس لاکھ سال قبل مغربی ہندوستان کے انسان کے وجود کے ثبوت ملے ہیں اور یہ انسان بھی کوئی زبان بول سکتا تھا۔

جہاں تک قدیم ترین زبان کاتعلق ہے تو بعض محققین نے بلحاظ قدامت چینی زبان کو قدیم ترین زبان قرار دیاہے۔چینی زبان کے ماخذکے سلسلے میں چینی زبان کی اساطیری روایات کے مطابق یہ قدر مشترک ہے کہ زبان کو وحی یاالہام کانتیجہ قرار دیاجاسکتاہے اس عہد میں ہر اچھی چیز آسمانی تحفہ ہوتی تھی اور مختلف فنون کے سرپرست دیوتا اور دیویاں ہوتی تھیں۔ قدیم دور میں خواندگی عام نہ تھی لہٰذا خواندہ افراد کی تعداد بہت قلیل تھی جوعام طور پر مذہب اور مذہبی کتابوں کی تفہیم اور تشریح پر عبور رکھتے تھے۔اسی لیے زبان کی اساطیری، مذہبی اور روحانی تشریحات کی جاتی رہی ہیں۔ چنانچہ قدیم چینی، مصری، بابلی، سمیری اور یونانی تہذیبوں کے علاوہ پارسیوں اور ہندوئوں کے ساتھ مسلمانوں میں بھی زبان کے آغاز کی مذہبی توجیہات کی جاتی رہی ہیں۔

عین الحق فرید کوٹی نے اپنی کتاب’’ اردو زبان کی قدیم تاریخ‘‘(۵) میں زبان کی قدامت کاتعلق مذہبی اساطیر اور روایات سے جوڑاہے ۔ ان کے خیال میں جب ہم دنیا کی قدیم ترین کتاب رگ وید میں ایک نغمہِ حمد کامطالعہ کرتے ہیں تو اسے موجودہ لسانیات سے قریب تر پاکر حیران رہ جاتے ہیں۔ یہاں یہ سوال بڑااہم ہے کہ اوّل اوّل حضرت آدم نے حوا کے ساتھ سب سے پہلے کس زبان اور کن الفاظ میں کلام کیا؟ مزید یہ کہ اس ضمن میں ان کالہجہ اور اسلوب اظہار کیاہوگا۔’’عہد نامہ عتیق‘‘ کے باب دوم میں اس سلسلے میں رقم ہے کہ خدا نے آدم پر بھاری نیند بھیجی اور اس نے آدم کی پسلی سے ایک پسلی نکالی پھر اس کے بدلے گوشت بھر دیا۔ اس نکالی گئی پسلی سے ایک عورت تشکیل دی ،اسی سبب سے وہ ناری کہلائی کیوں کہ وہ نر سے نکالی گئی۔ حوا کے ترغیب دینے پر آدم نے شجرممنوعہ کامزا چکھا اور راندہ ٔدرگاہ ہوئے شاید اسی لیے لغات میں آدم کا لغوی مطلب گندم گوں اور رہنماکے ہیں جب کہ سریانی زبان میں اس کالفظی مطلب مایوس شخص ہے۔ شاید یہ مایوسی فردوس گم گشتہ کی مایوسی ہے۔ دوسری طرف حوا کے لغوی مطالب میں سب زندوں کی ماں یا سانولے اور سبزی مائل سیاہ ہونٹ والی کے ظاہر ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی زبانوں میں اس لفظ کامطلب حیا ت یامٹی کے بھی رقم ہوئے ہیں۔اس نسبت سے اگر غور کیاجائے تو قدیم چینی اساطیر میںکمہار کے چاک پر انسان سازی کاتصور بھی ملتاہے۔ سبط حسن(۶) کی تحقیقات کے مطابق’’ نن ہورسگ‘‘ کی سمیری داستان سے آدم کے حوا کی پسلی سے پیداہونے کاسراغ ملتاہے۔

ان مباحث کے علاوہ قرآن مجید نے اس ضمن میں جو کچھ بیان کیاہے اسے زبان کے آغاز کی توجیح سمجھاجاسکتاہے ۔خدا نے آدم کو اشیاکے نام سکھائے اور آدم کو خلیفہ بنایاجب کہ فرشتے ان اشیا کے علوم سے نابلد رہے اسی بناپر وہ آدم کے سامنے سجدہ ریز ہوئے اس اعتبار سے حضرت آدم ابوالبشر ہونے کے ساتھ ساتھ ابواللسان بھی قرار پاتے ہیں۔ علمائے ارضیات و لسانیات کے خیال میں حضرت آدم جنت میں پہلے عربی زبان بولتے تھے لیکن گناہ کی پاداش میں حضرت جبرائیل نے جب ان کے سر سے تاج اور کمر سے پیٹی کھول لی تو عربی زبان بھی ان سے سلب کر لی گئی اور اس کی جگہ سریانی بولی ان کی زبان پرچڑھادی اور پھر جب توبہ قبول ہوگئی تو پھر عربی زبان انھیں عطا ہو گئی۔ اسی سبب سے عربی کو ’’ام السنہ‘‘ کہاجاتاہے بعد میں مشرق ومغرب کے دانشوروں نے اپنے اپنے علاقوں کی زبانوں کو زبان اوّل کہااور جنت و آدم سے اس کا سلسلہ جوڑنے کی کوشش کی ہے ۔ اس روایت کی حقیقت وصداقت اس طرح بھی بیان کی جاسکتی ہے کہ اوّل اوّل تمام روئے زمین پر ایک ہی زبان و بولی ہوتی تھی حضرت نوح کی اولاد کے آتے آتے زبانوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا چناں چہ حضرت نوح کے بیٹے سام کی اولاد میں انیس زبانوں اور حام کی اولاد میںاٹھارہ زبانوں کارواج ہوگیا جب کہ نمرود کے دور تک تہتر(۷۳) زبانیں ہوگئیں اور تما م زبانیں ایک دوسرے سے مختلف بھی تھیں ۔اسی اعتبارسے اس سرزمین کو’’بابل‘‘ کانام دیاگیا۔پسران نوح میں زبانوں کااختلاف اس امر کی نشان دہی کرتاہے کہ زمانہ قدیم میں بابل کی تہذیب ایک تمدنی مرکز تھی۔ طرح طرح کے تاجر اور سپاہیوں کی وجہ سے یہاں مختلف زبانوں کے بولنے کا رواج پڑ گیا۔ سید احمد دہلوی فرہنگ آصفیہ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:

’’اوّل تمام جہاں کے آدمیوں کی زبان ایک تھی جس وقت انھوں نے مشرق کاسفر کاارادہ کیاتو اتفاقاً شغار کی زمین میں دریائے فرات کے پاس ایک صحرائے کفِ د ست نظرآیا۔ یہ لوگ وہاں ٹھہرے اور آپس میں مصلحت کی کہ آئو اینٹیں بناکر آگ میں پکائیں اور ان سے اپنے واسطے ایک ایساشہر وبرج بنائیں کہ جس کاسر آسمان سے ٹکر کھائے اور دنیامیں ہماری نشانی وناموری باقی رہ جائے ۔خدا تعالیٰ نے اس شہر اور برج کے ملاحظہ کونزول فرمایا اور دیکھاکہ یہ تمام ہم زبان آدمی متفق ہوکر اس کام کو انجام تک پہنچاناچاہتے ہیں اور اس ارادے سے کبھی باز نہ آئیں گے ،اس کام کو روکنے کے واسطے ان کی زبان میں خلل ڈالناچاہیے تاکہ ایک دوسرے کی بات نہ سمجھیں، اس مصلحت سے خداتعالیٰ نے ان کی زبان میں اختلاف ڈال کر انھیں تمام عالم میں منتشر کردیا اور اس شہر کی تعمیر سے باز رکھا، اسی واسطے اس جگہ کانام ’’بابل ہوگیا…شہر بابل کے بنانے سے پیشتر یعنی طوفان کے بعد جو لوگ زمین پر رہتے تھے ایک ہی زبان میں بات چیت کیاکرتے تھے۔ زمانہ قدیم میں ساری دنیا پانی میں غرق ہوچکی تھی(یہ طوفان پیدائش زمین سے سولہ سو چھبیس برس بعد وقوع میںآیا) خدا کے فضل وکرم سے آٹھ شخص صدمہ طوفان سے محفوظ رہے یعنی نوح ؑ، اُن کی بیوی اور اس کے تین بیٹے سام،حام، یافث اپنی بیویوں سمیت زندہ رہے دنیا کی تین بڑی نسلیں نوح کے انھیں تین بیٹوں سے پیداہوئیں۔ سام سے قوم سامی یا آرامی یعنی عبرانی ،عرب اور شام کے باشندے پیداہوئے۔ چونکہ سام کاایک بیٹاارم تھا اس لیے اس نسل کوآرامی کہتے ہیں۔ حام کی نسل قوم حبش جوافریقہ میںآباد ہے۔ عبرانی ،عرب اور شام کے سوا جتنی قومیں یورپ اور ایشیا کے اندر آباد ہیں یافث کی اولاد میں شمار کی جاتی ہیں۔پہلے پہل قوم نوح ،میسوپوطانیہ یعنی فرات اوردجلہ کے دوآبہ میںآبادہوئی، جب یہ اولاد بے شمارہوئی تو اس نے از راہ تکبر میدان شغار میں ایک عظیم الشان عمارت بنانے کاارادہ کیاجو آسمان تک پہنچے پس خداتعالیٰ نے ان کے غرور کوڈھانے کو ان کی زبان میں اختلاف ڈال دیااس اختلاف کے سبب وہ متفرق ہوکر جہاں تہاں جابسی اور جداگانہ سلطنتیں مقرر ہوگئیں‘‘۔(۷)

ماہرین لسانیات کے خیال میں زبانوں کی جو صورتیں ملتی ہیں ان میں پہلاگروہ ان زبانوں کاہے جو ایک لفظی ہوتی ہیں اور جن کے بنیادی الفاظ شکلی تبدیلیوں سے اپنے مفہوم میں تبدیلی یااضافہ نہیں کرتے اس قسم کی زبانیں سرزمین چین اور ہندوستان کے مشرقی علاقوں کی آبادیوں میں رائج ہیں۔ ان زبانوں میں الفاظ عام طور پر آواز ہوتے ہیں اور ان میں سابقوں لاحقوں کااستعمال نہیں کیاجاتا۔دوسرے گروہ کی زبانوں میں دنیا کے باقی علاقوں کی زبانیں شامل ہیں۔ ان میں الفاظ اپنی شکل اور مفہوم بدلتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی سابقوں اور لاحقوں کے ذریعے بھی ان کے معنوں میں طرح طرح کے پہلوپیدا کیے جاسکتے ہیں۔ ایک ہی مصدر لفظ سے بہت سے مشتق الفاظ تشکیل دیئے جاسکتے ہیں۔ ماہرین لسانیات نے بحیثیت مجموعی زبانوں کے آٹھ خاندان بنائے ہیں۔ ان زبانوں میں بڑی قوت اور توانائی ہے لیکن اپنی قوت اور دائرہ اختیار کے باوجود ان زبانوں کاتعلق اپنی اصل اور ماخذ سے برقرار رہتاہے۔ ان زبانوں میں (۱)سامی(۲)ہند چینی(۳) دراوڑی (۴) مونڑا(۵) بانتو(۶) امریکی ریڈانڈین قبائل کی زبان (۷) ملایا(۸) ہند یورپی ۔

جیساکہ اس سے پہلے بھی ذکر کیاجاچکاہے کہ ماہرین لسانیات اس بات کے قائل ہیں کہ ابتدا میں انسانوں کی کوئی ایک زبان ہوگی کیوں کہ پہلے پہل انسان نے کسی ایک علاقے میں مل جل کر رہناشروع کیا بعض ماہرین کے نزدیک یہ آریا تھے جنھوں نے پہلی مرتبہ ایک سماج کی صورت میں رہناشروع کیا اور انھی کو موجودہ یورپ کی مختلف اقوام کاجدسمجھاجاتاہے۔ محمد مجیبؔ’’تاریخِ تمدنِ ہند‘‘ میں آریاقوم کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ آریا نسل کی کوئی ایسی علامات نہیں جس سے وہ پہچانی جاسکے آریا کے لغوی معنی ہیں۔ نیک، شریف برادری والے، یہ دراصل کسی نئی نسل کانام نہیں بہتر تو یہ ہوتا کہ ہم اس لفظ کوبالکل چھوڑ دیتے اور ان لوگوں کے لیے جو اپنے آپ کو ہندوستان میں آکر آریا کہنے لگے تھے ، کوئی اور نام تجویز کر لیتے غلط فہمی سے بچنے کے لیے ہم بس یہ یاد رکھیں کہ آریا سب گورے اور قدآور نہیں تھے سب کی ناک اونچی بال سنہرے اور آنکھیں نیلی نہیں تھیں ۔انھیں آریا صرف اس بناپر کہتے تھے کہ وہ اپنے آپ کوآریا کہتے تھے۔‘‘(۸)آریاقوم کی جو بھی حیثیت ہو لیکن یہ بات تو طے ہے کہ وہ دریائے ڈنیوب کی وادی سے جب ہزاروں سال پہلے نکلے توگروہ درگروہ انھوں نے مختلف ممالک کارخ کیا کچھ ہندوستان آئے اور کچھ یورپ چلے گئے۔مختلف ممالک میں آباد ہونے کے بعد وہاں کے مخصوص حالات اور موسمی تغیرات کی وجہ سے خود ان میں اور ان کی زبان میں بھی بہت تبدیلیاں واقع ہوئیں ۔اسی لیے جدید لسانی محققین اب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ زبانوں کے ہندیورپی خاندان ہونے کی وجہ سے نہ صرف یہ سب سے بڑا خاندانِ زبان ہے بلکہ جرمنی،لاطینی، یونانی، سنسکرت ،انگریزی، فارسی اور فرانسیسی زبانوں کی اصل ایک ہے اور یہ کہ زمانی ومکانی اختلاف کے باوجود آج بھی ان میں لسانی مشترکات اور مماثلتیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔

لسانی اشتراک کایہ تصور دراصل اس نظریے سے پھوٹاہے کہ دنیامیں ابتدا میں صرف ایک ہی اساطیر تھی لیکن علم الانسان کے ماہرین کے نظریات سے کسی صورت اس نظریے کی توثیق نہیں ہوتی بلکہ اب تو قطعی طور پر یہ ثابت کیاجاچکاہے کہ ہندوستان میں آریوں کی آمد سے قبل دراوڑی قوم اور اس سے بھی بیشتر منڈا قبائل کے لوگ یہاں آباد تھے جو اپنے زمانے کے اعتبار سے بڑے متمدن اور بستیوں میں آباد اپنی زبان بولاکرتے تھے۔ فاتح آریوں نے ا نھیں دھکیل کر خود قبضہ کر لیا اور خود اعلی ذات کے بن کر انھیں کم تر ذات کاشودر ملیچھ بنادیا۔ ان خیالات کے حامل ماہرین کایہ بھی نظریہ ہے کہ خود اردو زبان نے بھی دراوڑی زبان سے جنم لیا ہے اور لسانی اشتراک کانظریہ ایسی صورت حال میں جزوی طور پر درست تصور کیاجاسکتاہے۔

اردو ہے جس کانام:

کسی بھی زبان کانا م اس کی بنیادی شناخت کا ذریعہ ہوتاہے ۔ مختلف تمدنی اور تاریخی حالات کے تناظر میں مختلف ادوار میں اردو زبان کے نام تبدیل ہوتے رہے مثلاً ابتدامیں اردو کو ہندی یاہندوی زبان کانام دیاگیا لیکن جب اس کی بجائے اسے اردوئے معلی کانام دیا گیا تو اس کے پس منظر میں اسلامی اثرات کارفرماتھے اور پھر انگریزی اثرات کی وجہ سے بعد میں اسے ہندوستانی کہاجانے لگا دنیاکے بیشتر ممالک میں زبان کے مختلف ناموں کاجھگڑا نہیں ہے کیوں کہ ان کی لسانی تاریخ وارتقا کے ٹھوس اور سیدھے سادے ثبوت مل جاتے ہیں۔اردو زبان کے سلسلے میں ایسانہیں ہے یہاں ایک بڑالسانی تنوع دکھائی دیتاہے ۔ ڈاکٹر سلیم اختر اس سلسلے میں آریائی زبانیںاز’’سدھیشورورماؔ‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’یہاں ۲۲۵ زبانیں اور ۷۵۰ مقامی بولیاں ملتی ہیں ان متعدد زبانوں میں چھبیس کروڑ انسان آریائی زبانیں بولتے ہیں، سات کروڑ دراوڑی، ڈیڑھ کروڑ تبت چینی اور نصف کروڑ منڈا ۔دوسری ہند آریائی زبانوں کو ہندوستان کے تقریباً ۲۳ لاکھ باشندے بولتے ہیں لیکن آریائی مثلاً بنگالی، مراٹھی، ہندی بولنے والوں کی تعداد پچیس کروڑ سے زیادہ ہے۔‘‘(۹)

اس اعتبار سے برصغیر کی کسی بھی زبان کامطالعہ زیادہ دشوار ہے کہ یہاں کی کوئی بھی زبان تاریخی، تمدنی، تہذیبی اور سماجی اعتبا رسے مختلف لسانی محرکات کے زیر اثر ہوتی ہے ۔ اس لحاظ سے اردو زبان کے نام کا مطالعہ بھی خاصا پیچیدہ ہے۔

اردو زبان کاقدیم ترین نام ہندی یا ہندوی ہے ۔ہندوی وہ زبان ہے جو شورسینی پراکرت کے خاندان سے ہے گیارہویں اور بارہویں صدی کے مسلم مورخوں نے بھی ہند کی زبان ہندی یاہندوی کاذکر کیاہے لیکن یہ ہندی یاہندوی مغربی اپ بھرنش کی ایک شاخ تھی اس کی وجہ یہ ہے کہ سولہویں صدی سے پہلے ہندوی کا کوئی وسیع اور مصدقہ مواد بھی دکھائی نہیں دیتا۔برصغیر میں پہلامسلمان جس نے ہندوی میںکچھ لکھا وہ مسعود ابن سعدتھا اور ابوالفضل نے سب سے پہلے آئینِ اکبری کی جلداوّل میں ’’زبان دہلی ‘‘کاذکر کیاہے ۔حافظ محمودشیرانی نے اس زبان دہلی کو ہندی یاہندوی ہی تصور کیاہے۔ اس کے علاوہ خود ابوالفضل نے زبان کے لیے ہندی کالفظ کئی بار لکھاہے۔ اس لیے گمان غالب ہے کہ وہ جس زبان کو زبان ہندی یازبان روزگار کہہ رہاہے وہ یہی ہندمسلم تہذیب کی ترجمان اردو زبان ہے۔ ہند مسلم تہذیب کی ترجمان زبان اردو کے فروغ میں مغل سلطنت وماحول نے بڑے اثرات مرتب کیے ۔بابر اور ہمایوں کو ہندوستان میں اپنی بنیاد مضبوط کرنے میں سکون سے رہنانصیب نہ ہوالیکن اکبر کے دور میں مغل سلطنت کومضبوطی کے ساتھ ساتھ خاصی وسعت نصیب ہوئی۔اس اعتبار سے اکبر کاعہد تہذیبی ،تمدنی اور لسانی اعتبار سے بے حد اہمیت رکھتاہے۔اس دور میں ہند اسلامی مشترک تہذیبی اقدار کی بنا استوار ہوئی یہاں تک کہ ہندو شاعر حمد،نعت اور مرثیے کے اشعار کہنے لگے۔ اس تہذیبی ملاپ میں صوفیائے کرام نے اپنی انسان دوستی اور رواداری کے درس سے بھی زبان اردو کو بڑی وسعت و تقویت بخشی۔ جہانگیر اور پھر شاہ جہاں کے دور میں بیشتر فنون لطیفہ کی ترقی سے بھی زبان کی ترقی کی راہیں ہموار ہوئیں۔اس دور میں اردو شاعری خصوصاً اردو غزل کی ترقی کے لیے فارسی، ترکی اور عربی تہذیب کے اثرات کی وجہ سے ایک وسیع تخلیقی راستہ مل گیا۔ جگن ناتھ آزادؔ نے اپنی نظم’’ اردو‘‘ میں بڑی خوب صورتی سے اس امر کا احاطہ بھی کیاہے۔ جہانگیر کے عہد تک اردو کے نقوش نمایاںہورہے تھے ۔اس کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ ’’تزک جہانگیری‘‘ کے بہت سے الفاظ آج بھی اردو زبان میں رائج ہیں۔ اس کے علاوہ اس زبان کے بہت سے الفاظ مغلیہ دور کے مورخین نے اپنی فارسی تحریروں میں بھی استعمال کیے ہیں۔ زبان کی تشکیل کے سلسلے میں یہ امر بھی ذہن نشین رکھناچاہیے کہ برصغیر میں طویل فاصلوں کی بدولت مختلف علاقے تہذیبی اور تمدنی اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت دور ہیں مثلاً پنجاب، کشمیر،بنگال، دکن، سندھ، مدراس وغیرہ اپنی اپنی انفرادی حیثیت میں تمدنی اور تہذیبی اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل جداہیں لیکن اس کے باوجود صرف اردو ہی ایک ایسی زبان ہے جو ان کے درمیان رابطے کاذریعہ بن سکتی ہے۔

ہندی اور ہندوی کے بعد برصغیر میںاردو کے لیے ’’ہندوستانی‘‘ کانام بھی استعمال ہونے لگا۔ برصغیر میں سب سے پہلے اس زبان کے لیے’’ ہندوستانی‘‘ کانام انگریز مستشرقین نے استعمال کیا ۔لسانی ماہرین کے نزدیک کول بروکؔ وہ پہلا شخص ہے جس نے سب سے پہلے اس نام کو استعمال کیا اس کے بعد گل کرسٹ نے سیاسی و لسانی مقاصد کے لیے اسے استعمال کیا۔اگرچہ انگریزوں کی اس پُرنفاق پالیسی سے مسلم ہندواتحاد میں دراڑیں پڑنے لگیں مگر بہت سے راہنمائوں نے اس نفاق کو اتحاد میںبھی بدلنے کی کوششیں کیں۔ الغرض جن لسانی ماہرین نے اردو کے لیے لفظ’’ہندوستان‘‘ استعمال کیا ان میںملاوجہیؔ، عبدالمجید لاہوریؔ، نواب صدر جنگ ؔبہادر،گل کرسٹؔ، گارسین دتاسیؔ، گریرسن ؔوغیرہ کے نام قابل ذکرہیں۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اردو کے لیے اس لفظ کو استعمال کرنے والوں میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو مقامی نہیں تھے۔ اردو زبا ن کے لیے بہت سے تذکر ہ نویسوں اور لسانی ماہرین نے ریختہ کالفظ بھی استعمال کیاہے لیکن اس سلسلے میں یہ بھی حقیقت ہے کہ عام طور پر یہ لفظ اردو شاعری اور خاص طور پر اردو غزل کے لیے ہی استعمال ہواہے خودمرزاغالب نے اپنے اشعار میں اپنی غزل کے لیے کئی بار یہ لفظ استعمال کیاہے۔ جدیددور میںحافظ محمودشیرانی اور ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی تحقیقات میں ریختہ کے لیے متذکرہ بالا مفہوم میں متعدد مثالیں پیش کی ہیں۔(مقالاتِ حافظ شیرانی، جلد دوم… تاریخ ادب اردو،جلد اوّل،ڈاکٹر جمیل جالبی)

ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے یہاں کی تاریخ میں نئے تغیرات نظر آتے ہیں جہاں تک زبان کی تشکیل کاتعلق ہے تو صرف زبان کے بدلتے ہوئے ناموں ہندی، ہندوی،ریختہ ،ہندوستانی اور اردو معلی سے ہی یہاں کے سیاسی سماجی اور تہذیبی تغیرات کے تنوع کا اندازہ لگایاجاسکتاہے ۔ترکی زبان میں اردو لشکرکو کہتے ہیں ۔چنگیز خان اور مغل بادشاہوں کے زمانے میں لشکر گاہ کواردو کہاجاتاتھا۔ بعض مورخین کی رائے میں لفظ اردو اصلاً ترکی زبان کالفظ نہیں ہے بل کہ سندھ میں اشیا کے ذخیروں یاانسانوں کے اجماع کو اردو کہاجاتا تھا اور یہ لفظ یہاں عربوں کی آمد سے تین ہزار برس قبل سے رائج تھا یا یہ کہ بعض کے نزدیک آریائی علاقوں میں یہ لفظ ارد یا ارتھ ایک دیوی کے نام سے موسوم تھا۔ جدید وقدیم فارسی میں بھی یہ لفظ کسی نہ کسی صورت میں مل جائے گا یعنی ارد بل یااردشیر وغیرہ اور معنی کے اعتبار سے ڈھیر یا مجمع کے لیے بولاجاتاتھا۔ آریائوں کے یہاں بھی یہ لفظ کسی حد تک انھی معنوں میں استعمال ہوتا تھا اور آج بھی یہ لفظ نہ صرف زندہ ہے بل کہ آریائوں کی تہذیب کی ابتدا اور اس کی خاصیت کاغماض ہے۔ خود ترکوں کے ہاں یہ لفظ مرکز، حکومت یاچھائونی کے معنوں میں ملتاہے۔ ترکوں کے ساتھ ہی یہ لفظ ہندوستان آیااور لشکر کے ہی معنوں میں استعمال ہوااسی لیے ’’تزک بابری‘‘ میں یہ لفظ اسی مفہوم میں متعدد جگہ استعمال ہواہے ۔بابرؔ کے عہد کے بعداکبر کے دور میں بھی یہ لفظ لشکر کے طور پر استعمال ہوا اور چوں کہ اکبر کالشکر بابر کی فوج سے کئی گناوسیع تھا اس لیے یہاں یہ لفظ صرف اردو نہیں بل کہ اردوئے معلی کہلانے لگا۔ اس کے علاوہ اکبر کے لشکر کو اردوئے ظفر ترین یااردو ظفرقرین سے بھی موسوم کیاجاتاتھا۔ لیکن ابھی بھی زبان کے لیے ہندی کالفظ استعمال ہوتا تھا۔بہرحال لسانی محققین کی کثیر تعداد اس بات پر متفق ہے کہ عہد شاہ جہاں میں دیگر الفاظ متروک ہوگئے ۔شاہ جہاں آباد میں زبان کے لیے اردو معلی کالفظ مستقل حیثیت اختیار کر گیا۔بابرؔ کی شخصیت میں جلال وجمال کاامتزاج ملتاہے۔ وہ بہادر وشجاع بھی تھا اور شاعر بھی اسی لیے مغل سلطنت کے ابتدائی نقوش میں جلال و جمال کاملاپ نظر آتاہے ۔اکبر تک یہ امتزاج بدرجہ اتم موجود رہالیکن جہانگیر کے عہد میں اور اس کے بعد خصوصاً شاہجہان کے دور میں یہ جمال کی صورت میں نمایاں نظر آنے لگا۔تہذیبی و تخلیقی سطح پر ایک طرف تاج محل فن تعمیر میں اور دوسری طرف زبان ’’اردوئے معلی ‘‘کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ اس عہد میںاگرچہ دربار کی زبان تو فارسی ہی تھی لیکن اس پُرجمال تخلیقی فضا میں جب علما وفضلا اردو بولتے ہوں گے تو غیر شعوری طور پر اس میں عربی ،فارسی اور ترکی زبان کی آمیزش بھی کر جاتے ہوں گے اسی کے باعث اردو کے ذخیرہ الفاظ میں بھی خصوصی اضافہ ہواہوگا۔ ڈاکٹرجمیل جالبی نے ارد ومیں دیگر زبانوں کی اس آمیزش کو پانی میں آہستہ آہستہ لال دوائی کے گھلنے کاعمل قرار دیا ہے۔اسی لیے جب ولی دکنی نے دہلی آکر اس آمیزہ زبان میں شاعری کی تو اسے اردو زبان وادب میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہوگئی۔بس اس شاعری میں اورکوئی خرابی نہ تھی ماسوائے ایک کے، کہ وہ دکنی میں تھی،شاہ جہاں آباد کی مفرس اور معرب اردوئے معلی نہ تھی۔ اردو معلی خوب صورت اور شاعرانہ ترکیب تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ زبان خو ب پھلی پھولی لیکن یہ لفظ زبان زدعام نہ ہوسکا۔ اس لیے بعد کے زمانے میں اردوئے معلی کی جگہ صرف اردو نام استعمال ہونے لگا۔ڈاکٹر سید عبداللہ کے خیال میں غالباً آرزوؔ، وہ پہلے مصنف ہیں جن کی تصانیف میں لفظ اردو پہلی بار تحریر ہوا۔’’ نوادر الالفاظ‘‘ کے مقدمے میں وہ رقم کرتے ہیں :

’’ غالباً آرزوؔ ہی پہلے مصنف ہیں جن کی تصانیف میں اردو کالفظ زبان کے معنی میں استعمال ہواہے… نوادر الفاظ میں لفظ اردو کئی موقعوں پر آیاہے… اردوکالفظ خان آرزو کی تصنیف’ مثمر‘ میں بھی بعض موقعوں پر استعمال ہواہے۔‘‘(۱۰)

اردو کے مختلف ناموں کے علاوہ یہاں ایک بات اور بھی اہم ہے کہ اردو کے بارے میں عام طور پر یہ تاثر لیا جاتاہے کہ اردو ایک لشکری زبان ہے خاص طور پر ابتدائی دور کے مصنفین نے اردو کو ایک ایسی زبان قرار دیا ہے جو بہت سی زبانوں سے مل کر بنی ہے۔ جدید دور کے ماہر لسانیات خاص طور پر ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے اس نظریے کو بالکل غلط تصور کیاہے ۔اخبار اردو کے جولائی ۲۰۱۱ء کے شمارے میں ایک مضمون میں وہ اس طرح تحریر کرتے ہیں کہ’’ ان قابل احترام بزرگوں کی بات جب تواترسے دہرائی گئی تو ظاہر ہے کہ اسے معروف و مقبول ہوناہی تھا۔ہمارے یہ سب قابل احترام بزرگ یہ باتیں اس زمانے میں کرتے رہے تھے جب لسانیات کاعلم یا تو وجود ہی نہیں رکھتا تھا یا مغرب میںبھی گھٹنوں کے بل چل رہاتھا۔ بعد میں لسانیات کے علم نے اتنی ترقی کر لی کہ اس میں کئی شاخیں ہوگئیں جن کی مزید ذیلی شاخیں بھی ہیں مثلاً تاریخی لسانیات ،تقابلی لسانیات، تجزیاتی لسانیات ،صوتیات ،فونیمات، صرفیات اورنحوی مطالعات وغیرہ گویا یہ بزرگ لسانیات سے واقف نہیں تھے جب کہ بہ قول مرزاخلیل احمد بیگ اردو کے آغاز اورارتقا کامسئلہ خالصتاً لسانیات کامسئلہ ہے وہ لوگ جو لسانیات سے کماحقہ واقفیت نہیں رکھتے، نیز ہندآریائی زبانوں کے تاریخی ارتقا اور ان کے صرفی ونحوی اصولوں پر نظر نہیں رکھتے، وہ اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ اردو کوئی ملواں یا کھچڑی زبان ہے اور یہ مختلف زبانوں کے ملنے سے وجود میں آئی ہے ۔ یہ بات تو سبھی مانتے ہیں کہ اردو کی جدید صورت گری میں فارسی،عربی اور مسلمانوں کی دوسری زبانوں کا بڑاہاتھ ہے ۔اردو میں عربی اور فارسی کے الفاظ کثیر تعداد میں ہیں اس کے علاوہ ترکی پشتو اور بعض دیگر زبانوں کے الفا ظ بھی اس کے ذخیرہ الفاظ میں شامل ہیں لیکن اردو کے آغاز کاسلسلہ مسلمانوں کی آمد سے جوڑنا تاریخی اور لسانی طور پر درست نہیں۔ اردو اس سے پہلے بھی وجود رکھتی تھی گو اس کی شکل کچھ اور تھی۔ یہ کہنا کہ گیارہویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کی آمد سے اردو کی صورت گری پر فرق پڑاایک بات ہے لیکن یہ کہنا کہ اردو مسلمانوں کی زبانوں سے مل کر بنی ہے ۔لشکری زبان ہے بالکل الگ بات اور سراسر غلط ہے‘‘۔(۱۱)

اردو کے آغاز و ارتقا کی داستان بہت طویل ہے ۔اس میں برصغیر کے مختلف خطوں کی تہذیبی و لسانی کروٹیں،ہزاروں سال پرانی ہیں۔ اس سلسلے میں لسانی ماہرین کے تین اہم گروہ اس کے ابتدائی ماخذات پنجاب، سند ھ اور دکن سے ملاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے اپنے نظریات کی توثیق کے لیے بڑے محققانہ دلائل واسناد پیش کیے ہیں ۔ماہرین ارضیات ولسانیات کاکہناہے کہ سب سے پہلاانسان موجودہ پنجاب کے علاقے وادی سواں میں آکر آباد ہوااور پتھرکے دور کے انسان کے آثار و اوزار اسی سرزمین سے دریافت ہوئے ہیں۔ ماہرین نے اسے ’’سواں کلچر‘‘ کانام بھی دیاہے۔ آج اس بات کااندازہ لگانا بے حد مشکل ہے کہ یہ پہلاآدمی جو یہاں آکر آبادہوا اس کا تعلق انسانوں کے کس دور کی کس نسل سے تھا لیکن اس بات پر تمام ماہرین متفق ہیں کہ وہ کوئی نہ کوئی زبان ضرور بولتا تھا جس کااندازہ ان کے ملنے والے اوزاروں سے بخوبی ہوتاہے یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ آج ہم اس بات کااندازہ لگانے سے قاصر ہیں کہ موجودہ اردو زبان سے اس کا کیا تعلق ہے البتہ زبان کے اس سمندر میں اس زبان کی کتنی مقدار ہے تو اس بات کا پوری طرح اندازہ لگانا اگر ناممکن نہیں تومشکل ضرور ہے ۔آج کے دور میں ماہرین لسانیات نے اردو زبان کے بہت سے ایسے الفاظ کی نشان دہی کی ہے جو آج سے ہزاروں سال پہلے منڈا قبائل کی زبان سے تعلق رکھتے ہیں یہ قوم آریائوں اور دراوڑوں سے بھی پہلے ہمارے اس خطے میں موجود تھی ۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ مستند تحقیقی کام ماہر زبان عین الحق فرید کوٹیؔ نے اپنی کتاب ’’اردو زبان کی قدیم تاریخ‘‘ میں کیاہے۔

اردو زبان کے آغاز اور ابتدائی پرورش کے سلسلے میں ماہرین لسانیات میں اسے کسی مخصوص خطے سے جوڑنے کارجحان نظر آتاہے ان میں حافظ محمودشیرانی ؔاس کا تعلق پنجاب سے ،نصیر الدین ہاشمی دکن سے، سیدسلیمان ندوی سندھ سے جوڑتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ماہرین لسانیات کاایک گروہ وہ ہے جو اردو زبان کاتعلق کسی خاص خطے کے بجائے کسی نہ کسی قدیم زبان یاتہذیب سے جوڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ان میں محمد حسین آزاد اس کا سلسلہ برج بھاشا سے ،ڈاکٹر شوکت سبزواری قدیم ویدک بولی سے ڈاکٹر مسعود حسین خان ہریانوی سے ،ڈاکٹر سہیل بخاری مرہٹی سے اور عین الحق فریدکوٹی قدیم دراوڑی بولیوں سے قائم کرتے ہیں۔

پنجاب،سندھ اور دکن میں اردو کی ابتدا اور ترقی کی تفصیلی بحث ہمارے مقالے کاموضوع نہیں بن سکتی۔ ان تینوں نظریات کے تقابلی مطالعہ سے اندازہ ہوجاتاہے کہ حافظ محمودشیرانی نے پنجاب میں اردو کے مولدہونے کے بارے میں مستند تحقیقی دلائل پیش کیے ہیں لیکن پنجاب میں اس نظریے کے بانی وہ خودنہیں ہیں بل کہ ان سے پہلے ’’شیر علی سرخوش‘‘ نے اپنے تذکرے ’’اعجازِ سخن‘‘ کے دیباچے میں اس بات کوثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اردو کامولد پنجا ب ہے۔

اس سلسلے میں ایک طویل لسانی بحث ودلائل کے بعد پروفیسر ڈاکٹر محمدافضال مالیر کوٹلوی ’’اخبار اردو‘‘ میں اپنے ایک مضمون میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’یہ اور اسی طرح کی بہت سی لسانی دلیلیں سرخوش نے پیش کی ہیں جن سے نہ صرف اردو اور پنجابی کی یکسانیت کاپتاچلتاہے بل کہ یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ دونوں زبانیں ایک ہی مخرج سے نکلی ہیں۔ اس طرح یہ واضح طور پر سامنے آتاہے کہ شیر علی خان سرخوش نے (شیرانی سے بھی پہلے) یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ اردو پنجاب میں آلِ غزنہ کے عہد میں پیداہوئی اور یہ کہ اردو اور پنجابی دونوں سگی بہنیں ہیں جن کی ایک ہی ماں ہے اور وہ ہے وہ مخلوط زبان جو ترکی،فارسی،عربی کے ساتھ پنجاب کی پراکرت یعنی مقامی زبان کے اختلاط سے پیداہوئی تھی۔(۱۲)

دکن اورشمالی ہند میں تہذیبی ملاپ کا عمل اس وقت تیز تر ہوجاتاہے جب مختلف فاتحین دکن پر حملہ آور ہوکر اس پر قبضہ کر لیتے ہیں ان میں علاو الدین خلجی، محمدتغلق وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ نصیر الدین ہاشمی کے خیال میں یہ فاتحین اپنے ساتھ جو زبان لائے اس نے مقامی بولیوں سے ملاپ کی صورت میں ایک نیا انداز اختیا رکیا۔ جسے خود قدیم دکنی شعرا ہندی یا دکنی کانام دیتے تھے۔ دکنی بادشاہوں کے دور میںاردو زبان نے تخلیقی اعتبار سے بے پناہ ترقی کی ۔ نصیر الدین ہاشمی نے بڑی محنت اورتحقیقی کاوشوں سے دکنی تخلیقات کی جستجوکی ہے۔ عام طور پر خیال کیاجاتاہے کہ نصیر الدین ہاشمی نے سب سے پہلے دکن کو اردو کامولد قرار دیاہے لیکن ایسانہیں ہے ان سے بیشتر نصیر حسین خیال نے اپنی تصنیف ’داستان اردو‘‘ میں اس طرف توجہ دلائی ہے۔

سرزمین سندھ کی اپنی مخصوص تہذیبی اور لسانی اہمیت ہے، موہنجوڈارو کی صورت میں سمیریوں اور دراوڑیوں کی تہذیب کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ دراوڑوں نے جب آریائوں سے شکست کھائی تو ان کے بعض گروہ سندھ میں آباد ہوئے وہاں تمدن کی بنیادرکھی ۔مکرانی اور براہوی زبانیں انھیں کی باقیات ہیں۔ خلفا ئے راشدین کے عہد میں عربوں کو وادیِ سندھ سے خاص دلچسپی رہی لیکن محمد بن قاسم کی آمد نے یہاں کی تہذیبی اور معاشرتی زندگی میں بڑی تبدیلیاں پیداکیں۔ مسلمان چوں کہ جہاں جاتے ہیں اسلامی تہذیب کے اثرات ضرور قائم کرتے ہیں بل کہ وہاں اپنی تہذیب وتمدن کے بہترین عناصر کے امتزاج اورعربی زبان کی آمیزش سے مشترک تہذیب وتمدن اور زبان کی بنیادبھی مضبوط کر دیتے ہیں۔ انھی شواہد کی بنا پر سیدسلیمان ندوی نے نقوش سلیمانی میں سندھ کی وادی کو اپنی متحدہ زبان کاپہلا مرکز قرار دیاہے۔

ڈاکٹر مسعودحسین خا ن نے’’ مقدمہ تاریخ زبان اردو‘‘ میںاردو زبان کے پنجاب ،سندھ ،دکن اور برج بھاشا سے تعلقات کو مسترد کرتے ہوئے مختلف زبانوں کے تقابلی مطالعہ کے بعد اردو کاتعلق ہریانی زبان کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے دلائل پیش کیے ہیں۔

ڈاکٹر شوکت سبزواری نے اردو زبان کی تاریخ میں اردوکاتعلق قدیم ویدک بولی سے قرار دیاہے۔ ان کے خیال میں اگر اردو زبان کی صرفی ونحوی خصوصیات پر نظر ڈالی جائے تو اس کاتعلق برج بھاشا ،شورسینی اپ بھرنش اور پراکرت سے نہیں ہے بل کہ اردو ہندوستانی یاکھڑی قدیم ویدک بولیوں میں سے ایک بولی ہے جو ترقی کرتے کرتے آج اس مقام تک پہنچ گئی ہے کہ پالی زبان کی ترقی یافتہ ادبی اور معیاری زبان قرار دی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر سہیل بخاری نے مولانا محمدحسین آزاد،حافظ محمودشیرانی، سیدسلیمان ندوی اور ڈاکٹر شوکت سبزواری کے تصورات مسترد کرتے ہوئے اردو کو مہاراشٹری جتھے کی بولی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے ’’اردو کی کہانی، اردو کاروپ‘‘ اور بعض دیگر مقالات میں اپنے نظریے پر اس طرح روشنی ڈالی ہے کہ اردو زبان نہ شورسینی سے نکلی ہے نہ پالی سے بل کہ اس کاآغاز مہاراشٹری پراکرت ہے ۔ مہاراشٹری پراکرت ملک مہاراشٹر میں بولی جاتی تھی اور اسی ملک مہاراشٹر کے مشرقی علاقے میں پیداہوئی اور مرہٹی کی سگی بہن ہے۔ آخر میں عین الحق فریدکوٹی کانظریہ، جس کے بموجب اردوکاماخذ دراوڑی اورمنڈا زبانیں ہیں۔ ان کے خیال میں ارض پاکستان کے سب سے پہلے آباد کار وہ سیاہ فام لوگ تھے جو برفانی عہد میںافریقہ اور ملیشیا سے یہاں پہنچے۔ یہ لوگ کول سری یامنڈا زبانیں بولتے تھے۔ ماہرین لسانیات کااتفاق ہے کہ بلوچستان کے ایک حصے میں بولی جانے والی براہوی زبان دراصل دراوڑی زبان ہی کی باقیات میں سے ہے ۔ عین الحق فرید کوٹی نے غیر ملکی ماہرین سے لسانی شواہد حاصل کرکے پنجابی، منڈاری،دراوڑی اور اردو کے مشترک الفاظ کی ایک طویل فہرست بھی اپنی کتاب ’’ اردو زبان کی قدیم تاریخ‘‘ میں مرتب کی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے جدید لسانیات کے اصولوں کے حوالے سے تحقیق کرکے اردو زبان کو قدیم دراوڑی زبان سے اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔

مندرجہ بالا بحث کے نتیجے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس میں کلی حقیقت شاید کہیں نہیں ملی لیکن جزوی صداقت تمام ماہرین کے پاس موجودہے۔ بادی النظر میں تمام دلائل درست معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقت کیا ہے شاید آنے والے دور میں کوئی محقق ان تمام نظریات کااور ان لسانی شواہد کا بغور مطالعہ کرکے اس کثرت میں وحدت کا تاثر قائم کرے جو ان تمام نظریات کاحامل، ہونے کے باوجود اپنی منفرد اور ممتاز حیثیت رکھتاہو۔

کسی بھی زبان کے الفاظ اس کے بولنے والے افراد سے ہمیشہ زیادہ عمر پاتے ہیں ۔انسان کی عمومی اوسط عمر ستر یااسی سال سے زیادہ نہیں جب کہ الفاظ سیکڑوں اور ہزاروں سال زندہ رہتے ہیں بشرطیکہ ان کاتعلق اپنے بولنے والوں سے قائم رہے اور وہ ان کے استعمال میں مسلسل آتے رہیں ۔انسانی ذہن کی یہ ایک خاص خوبی ہے کہ وہ مجرد کوہمیشہ پیکر کی صورت میں دیکھنے کا خواہش مند رہتاہے ۔مثال کے طور پر وہ حقیقت کو بھی لباس مجاز میں دیکھنے کی تمناوتڑپ رکھتا ہے۔کچھ ایسی صورت انسانی ابلاغ کی بھی ہے کہ وہ اپنے خیالات کو آوازوں کی صورت میں ادا کرنے کے لیے حروف اورالفاظ کی پیکر تراشی کی فکر میں رہتاہے۔ فن تحریر یا رسم الخط کی ایجاد کامحرک یہی انسانی جذبہ رہا۔ اس اعتبار سے یہ بات ایک اہم سوال ہے کہ الفاظ کس طرح تشکیل پاتے ہیں یا زبان کارسم الخط کس طرح وجود میں آتاہے اور مختلف حروف کی صورت کیسے متعین ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ مختلف زبانوں میں حروف کی تعداد اور رسم الخط کااندازہ ایک جیسا کیوں نہیں ہے۔ بعض زبانیں دائیں سے بائیں اور بعض بائیں سے دائیں یابعض اوپر سے نیچے کیوں لکھی جاتی ہیں۔ رسم الخط کامعاملہ اب اتناآسان نہیں رہا کیوں کہ اس میں لسانیات کے ساتھ اساطیر،قدیم تاریخ ،تہذیب وتمدن اور علم الانسان کی تحقیق ومطالعہ بھی شامل ہوکر بے پناہ وسعت اختیار کر چکاہے۔ قدیم تاریخ میں زبان کی طرح رسم الخط کو بھی دیوتائوں کی عطاتصور کیاجاتاتھا بل کہ ہر وہ شے جس کی حقیقت عام آدمی کے شعور سے بالاتر ہوتی تھی اسے وہ مافوق الفطرت عناصر سے جوڑ دیتے تھے۔ رسم الخط کے سلسلے میں بھی قدیم تاریخ میںایسا ہی امر واقعہ رونماہوا۔ بیشتر قدیم تہذیبوں میں رسم الخط کی شروعات اساطیر سے ہی ہوئی۔ قدیم دور میں تعلیم عام نہ تھی۔ لکھناپڑھنا صرف پجاریوں،نجومیوں، شعرا یا حکمرانوں تک محدود تھا یہ افراد عام طور پر عوام الناس کو پراسرار اور مافوق الفطرت دکھائی دیتے جیسا کہ اس دور میں ان لوگوں کی تقاریر اور تحریروں سے بھی ظاہر ہوتاہے ۔ لہٰذا عام لوگ ان تحریرو تقریرکو دیوتائوں سے منسوب کرتے تھے۔ مثلاً قدیم مصری یونانی اور دیگر قدیم تہذیبوں میں اسے تحریر اور علم ودانش کادیوتا تصور کیا جاتاتھا۔ چناں چہ لوگ تحریر کافن جانتے اور حصول علم کے لیے بڑی سے بڑ ی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیاکرتے تھے۔ ہندوستان میں رسم الخط کو برہما کی دھرم پتنی سرسوتی کی دین سمجھا جاتاہے جو علم ودانش اور زبان و موسیقی کی سرپرست دیوی سمجھی جاتی ہے۔اسی رعائت سے سنسکرت کوبھی دیوتا کی تحریر تصور کیاجاتاہے۔ سنسکرت کے بارے میںایک قدیم قصہ بہت مشہور ہے کہ ہندوئوں کارسم الخط مٹ گیاتھا لوگ اسے بھول گئے یہاں تک کہ وہ ان پڑھ ہوگئے اور علم سے دور ہوتے گئے آخر میں اسرؔ کے بیٹے بیاسؔ نے الہام کے ذریعے پچاس حرفوں کو ازسرنو ایجاد کیااور حروف کانام ’’اکثر‘ ‘رکھا۔اس رسم الخط کو’’دیوناگری‘‘ رسم الخط کہاجانے لگا سکھوں کے رسم الخط کو گورمکھی کہاجاتاہے۔چینی تہذیب میں بھی رسم الخط کو مذہبی اساطیر کے ساتھ جوڑنے کارجحان موجودہے۔ اسلام میں رسم الخط کو اساطیر تو نہیں لیکن یہاں بھی اسے مقدس سمجھنے کا تصور موجودہے۔ یہاں عبرانی رسم الخط کو ح