اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

401
ورات حا م ردوُ ا اور ت ی م ہ ی ا ک سُ ں ا می ان ی ب و ان ب# ر وی ل ہ د ں س ح ر می# ض د ی س ان ے ہ کؔ ودا س ک دن ے کہ ای ہ ا ی ک ان ی ب عہ ہ واق ?ے ی ئ و ہ ے ئ ر ک ر ک# کا دؔ # ور س ر می ے# ئ اد# رF ا ں سی حH مد ح م ا# ولاب م ں می ات ی ح تF ا ے ۔ ہH ع ل مط س کا ح ھا ت اU رچU چ ل کا# ر# غ ی کؔ ں ی# ر چ# خ ی_ س ون# ن د ?ے ۔ان ئ لا# ف ی ر_ ش تؔ # ور س ر می ے ہ ے گا ہ راِ ر س ا ا ب ح ب م ی تm ف ر گ ی م ے ہ ے گا ہ گا# ن س ن دا ا ہ# نِ # ف لط# م ار ہ دُ ا ھا ۔z ڑU پ ع ل مط ا# یU ب ے ا# ئ وم ح ر م# ور سؔ ر می ے ہ ے گا ہ اU بَ ی ا ک رے دل م ے ہ ے ک# ب ں ی ہ# ن ے ہ ے گا ہF اِ ت ص# خ دا رُ # چِ ر ہ ن لکُ م اے ا ۔# ی س جF ا ا ھا ب ت ا# ی س ظ# ف ل ہ ی ت ح ا ں ب ھی ت ی ت ر ک ا بF ن ا ا ی# ب وz ی د ک ور_ شU ت ا ن ما رے ہ ہ ں می ںU پU ح ب ت ح ر صا می ے کہ ل و ن ر ک ں س ا# ر ر م ے ۔ ہ و ر ہU تU ح ر ک س# ن ہ ا رےU ح ب# ور س ر می ون# ن د و ان ح ی گ# ب و ہ ی ت ا# ی س ں ی# ر یU چ دی# ی ہ ئ ا ح ب ے ک ون ل# ر# غ ی س ا ر# ں ف ھی ت ی لت و ن ے ہ ا بَ ے اور ا کس# ب و کہ ح ان ی# من وz ی د ک ا ور_ سU ت ں ۔ ھی ت عا مِ ول ب ق م م اور ہ# ف ل ا ب ی ر ق

Upload: sharifasorathia2136

Post on 07-Aug-2015

698 views

Category:

Documents


22 download

TRANSCRIPT

Page 1: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ورات محا ااردواور

اہمیت کی ااس میں وبیان زباندہلوی حسن ضمیر سید

زز تشریف لا ئے ۔ان دنوں شیخ زاکے ہاں میرسو ززکا ذکر کرتے ہو ئے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک دن سود آازاد نے میر سو آاب حیات میں مولانا محمد حسین زں کی غزل کا چرچا تھا جس کا مطلع ہے ۔ حزی

رر راہے گا ہے می گر فتیم بجا تا سرف نہا ں داشت نگا ہے گا ہے ااد ہم از لط

زر سوز مر حوم نے اپنا مطلع پڑ ھا ۔ میااپا ہے گا ہے نہیں نکے ہے مرے دل کی

آاہے گا ہے رت اخدا رخص رر املک بہ اے آاج سنا ۔ میر سوز بچا رے ہنس کر آایا کرتی تھیں یا جب یہ لفظ سنا تھا یا مرزا سن کر بو لے کہ میر صا حب بچپن میں ہما رے ہا ں پشور کی ڈو نیا ں

چپ ہو رہے ۔رل عا م اایا ہے بو لتی تھیں فا رسی غزلوں کے بجا ئے ہندی چیز یں سنا تی ہونگی جو ان دنوں قریب الفہم اور مقبو پشا ور کی ڈومنیاں جو کہ نکسے اور

تھیں ۔ خلا صہ اس گفتگو کا یہ ہے کہ اردو جو کھڑی بو لی کا ایک مخصوص روپ ہے عوام کی بولی چال کی زبان بنی اور ا س نے پہلی بار ان کے جذبہ اظہا ر کو زبان دی ادبی زبان اور بول چا ل کے فرق کو مٹا یا چنانچہ اٹھا رویں صدی پر دہلوی شعر اء کاکلام با لعموم اسی لسانی اصول کا پا بنداور

آائینہ دار ہے ۔زق نے اپنے اپنے نقطہ ہا ئے نظر کے مطا بق اصلا ح زبان کا کام کیا تو آا گے چل کر جب مرزا مظہر جا نجاناں ‘ حا تم سودا نا سخ شا ہ نصیراور ذو

دہلی میںگاہ گا ہ متروک الفا ظ ومحا ورات کے سا تھ ساتھ جو قدیم لب ولہجے کی گونج سنا ئی دیتی رہی اس کا سہرا مردوں سے زیادہ عورتوںکے سراجلنابا ہر والوںسے کم ہوتا ہے نیز مختلف النوع اقوام اور بھانت ہے عورتیں زبان کے معا ملے میں قدا مت پسند ہو تی ہیں مردوں کے مقا بلے میں ان کا ملنا ربالفا ظ کے سلسلے میں بھانت کی زبان بولنے والوں سے بعد کی وجہ سے ان کی زبان بگڑ نے سے محفوظ رہتی ہے عورتوں کی نما یاں خصوصیت انتخارت زبان کے علا وہ انتہا ئی نما یا ں خصوصیت مردوں اور عورتوں یہ ہے کہ وہ کریہہ الفا ظ کی جگہ لطیف الفا ظ استعمال کر تی ہیں ان جزوی اختلافا

کی زبان کے اختلاف کی یہ ہے کہ عورتیں جنسیات سے متعلق باتیں واضح الفا ظ میں کہنے کے بجا ئے اشارے اور کنا ئے میں بیان کر تی ہیںاا میلے سر سے ہو نا، گو د میںپھول جھڑنا، بیگمات کی زبان میں ہر قسم کاجنسی افعال کے لئے پر دہ پو ش اصطلا حا ت ومحا ورات مو جود ہیں مثل

اان کا چلن عا م کیا ۔ دو جیاںہونا بات کر نا جیسے متعدد محا ورے عورتوں نے مختلف کیفیات کو ظا ہر کر نے کے لئے بنائے اور

جو ہو نی تھی وہ بات ہو ئی کہا روں

Page 2: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

چلو لے چلو میری ڈولی کہا ر وںآارام کریں آاؤ چلو ادواکہتاہے امر

آارام ہو نوج اارام یہ سمجھے ہے وہ جس کو

حرف پیش) مقدمہ)

محاورہ عربی زبان کا لفظ معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ اس میں ’’محور‘‘ شامل ہے جس کے معنی ہیں مرکزی نقطہ فکروعمل جس کے گرد دائرے بنائے جاتے ہیں یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محاورہ زبان کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے یعنی وہ دائرہ جو مختصر ہونے کے باوجود اپنے گردپھیلی ہوئی بہت ساریامشاہدوں اورطرح طرح کے تجربوں کو پیش کرتے ہیں اورانہیں کہیںعام معاشرتی حقیقتوں کویہ کہیے کہ اپنے اندرسمیٹ لیتا ہے ۔ہمارے محاورات ہمارے انداز فلسفیانہ اورکہیں شاعرانہ انداز سے سامنے لایا جاتاہے۔ اس میں گاہ گاہ پیشہ وارانہ انداز بھی شامل رہتا ہے۔ اورطبقہ وارانہ بھی اس میں ہمارے قدیمآامیزہ راس میں تخیل اورتجربہ کا اورتجزیہ کا ررہ بھی یہ عمومی زبان اورعام لب ولہجہ سے قریب ہوتا ہے اورایک حدتک الفاظ بھی محفوظ ہیں اورقدیم روز م

بھی پایا جاتاہے ۔ااس ااس سوچ یا آامد ہوتا ہے اوروہیں سے اان پر عمل در آاگے بڑھنے میں سماج کے ذہنی ارتقاء کو دخل ہوتاہے ذہن پہلے کچھ باتیں سوچتا ہے ’’زبان ‘‘ کے

راس اان میں سے کچھ فقرہ اورجملے محاورات کے سانچے میں ڈھلتے ہیں۔ اورایک طرح سے محاورہ کی عمل کے لئے الفاظ تراشے جاتے ہیں۔ اورپھرراس طرح ادرست رکھی گئی۔ اور رک پلک ااس کی نو رت استعمال پرزور دیاگیا۔ حیثیت پرہم نے کوئی کام نہیں کیا۔ اب تک یہ توہوتا رہا کہ محاورہ کی صح

راس کا استعمال یہ ہے ۔ یہ کام تدریسی نقطہ نظر کی سطح پر ہوا۔ یا کی کتابیں بھی بعد کے زمانے میں تحریر ہوئیں کہ محاورے کے معنی یہ ہیں اوررل رصے کومحفوظ کرنے کی غرض سے اسے انجام دیاگیا۔ چرنجی لال کی لغت مخزالمحاورات اسی کا ایک اہم نمونہ ہے اورقاب پھرزبان کے ایک بڑے ح

تعریف کام ہے۔ جس کو اب ایک طویل عرصہ گزرنے پرایک یادگار عملی کام قرار دیا جاسکتا ہے۔ا اس نے ہماری زبان وبیان تہذیبی رویوں اورمعاشرتی تقاضوں سے کس طرح کے رشتہ راس ضمن میں محاورے پراس پہلو سے غوروفکر نہیں کیا گیا کہ مگر

ئینہ دار بنایا۔ جب کہ محاورات کے سلسلہ میں راقمہ کی محدود نظر کے مطابق یہی سب سے اہم پہلو تھا اس آا اان کو زبان وادب اورمعاشرت کا پیدا کئے لئے کہ زبان اورادب کا ایک ’’اٹوٹ‘‘ اور’’گہرارشتہ‘‘ تہذیب سے ہوتاہے۔ اورتہذیبی رشتہ وہ ہوتا ہے جوہمارے معاشرتی رویوں کوسمجھنے اورسمجھانے

آاتا ہے۔ اان کے لئے روشنی اوررہنمائی کے طورپر کام میں مدددیتا ہے بلکہ رر خاص مخزالمحاورات کوسامنے رکھا ہے تاکہ محاورات کی ایک بڑی راس کام کو اسی نقطہ نظر سے کیا ہے اوراس سلسلہ میں بطو راقمہ الحروف نے

اان کی بنیادی معنویت کوسمجھ لیاجائے۔ اان کے معنی اور تعداد تک رسائی ہوجائے ۔ اجداگانہ زاویہ نگاہ ہے۔ کیونکہ اس پہلو ) رذنتائج کے لئے ایک (سے محاورے پرہنوز کوئیAngleتہذیبی مطالعہ ایک الگ سلسلہ فکر ونظر ہے اور اخ

رب علم کے لئے یہ سوچنا مشکل ہے کہ مجھے اس میں کیا کامیابی ہوئی اورکس حدتک ااردو زبان وادب کی ایک طال کام نہیں ہوا۔ اس لیے مجھ ایسے رب دیدودریافت اورزبان ومحاورات کے ماہرین ہی کچھ زیادہ بہتر طورپر کرسکتے آاگے بڑھی ہیں ۔ اس کا فیصلہ تواصحا اس موضوع پرادبی مطالعہ کی حدود

رفکر اور زیادہ روشن اورواضح ہوں گے۔ آاگے بڑھے گا اوراس کے خطوط آایندہ یہ کام ہیں۔ اوریہ توقع ہے کہ اتا عصری تہذیب واوردواری دائرہ اان کو کلی آانے والی کچھ خاص اور اہم باتیں ہوں حقیقت یہ ہے کہ الفاظ وصویتات ہوں یا پھر لغت وقواعد کے دائرہ میں اان پر توجہ اان کا استعمال پھر بحیثیت مجموعی آازاد نہیں کرسکتے ۔ ایک زمانہ میں کچھ الفاظ رائج ہوتے ہیں اوردوسرے زمانہ میں ہائے فکر وعمل سے

ااس کے قرب وجوار کی زبان راس کی وجہ بھی بہت کچھ سماجی اورمعاشرتی ہوتی ہے اس کے لئے ہم دہلی اور نیز بولی کو سامنےوہی کم ہوجاتی ہے۔

Page 3: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

راس سے تاثر آایا ہے۔ اور ایک زبان نے دوسری زبان کو متاثربھی کیا ہے اور رکھ سکتے ہیں کہ شہری زبان کے ساتھ قصبہ ودیہات کی زبان میں بھی فرق بھی قبول کیا ہے۔

رل زبان محاورہ کے زبان میں اردو محاورہ کی حیثیت بنیادی کلمہ کی بھی ہے اورزبان کوسجانے اورسنوارنے والے عنصر کی بھی اس لئے کہ عام طور پراہ جس کے لیے پروفیسر مسعود حسن خاں نے ڈولBasic structureمعنی یہ لیتے ہیں کہ ان کی زبان کا جواصل ڈول اورکینڈا ہے یعنی

آاتارہتا ہے۔ اورجسے نسلوں کے دوربہ دور استعمال نے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ اسی کو صحیح رل زبان کی لبوں پر اورکینڈاکا لفظ استعمال کیاہے۔ جواہز کے اس بیان کی رل دہلی اپنی زبان کے لئے محاورہ ’’بحث خالص محاورہ استعمال کرتے تھے۔ اوراس محاورہ بحث کو ہم میر ادرست سمجھا جائے ۔اہ اور

رل دہلی ہے یا جامع مسجد کی سیڑھیاں یعنی جوزبان صحیح اورفصیح دہلی روشنی میں زیادہ بہترسمجھ سکتے ہیں کہ میرے کلام کے لئے یا محاورۂ اہاسنا جاسکتا ہے ۔ وہی میرے کلام کی کسوٹی ہے۔ آاس پاس اس کو ااس کے والے بولتے ہیں جامع مسجد کی سیڑھیوں پر یا

آایا اورپوچھا کہ یہ محاورہ کس طرح استعمال ہوتا ہے زق کی زندگی میں ایک واقع پڑھتے ہیں کہ کوئی شخص لکھنؤ یا کسی دوسرے شہر سے ہم ذوزق ان کوجامع مسجد کی سیڑھیوں پر لے گئے انہوںنے بتلایا مگر پوچھنے والے کو ان کے جواب سے اطمینان نہ ہوا انہوںنے کہا کہ اس کی سند کیا ہے ذو انہوںنے جب لوگوں کو وہ محاورہ بولتے دیکھا تواس بات کو مان گئے اور اس طرح معلوم ہوگیا کہ جامع مسجد کی سیڑھیاں کس معنی میںمحاورہ کے لئےاان محلوں کی نشاندہی اان کی مشہو رتالیف ہے، زر انشاء اللہ خاں نے اپنی تصنیف دریائے لطافت میں جو زبان وقواعد کے مسئلہ پر رد اعتبار تھیں ۔ می سنرردہلی فصیل بند تھا اورشہر سے باہر کی بستیاں اپنے بولنے والو ںکے ااس زمانہ میں زیادہ صحیح اورفصیح خیال کی جاتی تھی شہ کی ہے جہاں کی زبان

اان کی زبان محاورہContributionاعتبار سے اگرچہ زبان اورمحاورہ میںاس وقت اصلاح واضافہ کے عمل میں ایک گوناںگو کرتی تھیں لیکن راس کا اظہار دہلی والوں نے اکثر کیا ہے۔ ررہ پر اعتبار نہیںکیا جاتا تھا۔ اورروزم

راس کا ذکرکیا ہے کہ جولوگ اپنی سات پشیتوں سے دہلی میں نہیں رہتے وہ دہلی کے محاورے میں سند نہیںقرار زن نے باغ وبہار کے دیباچہ میں میرامراس سے دہلی والوں کی اپنی زبان کے آانول نال‘‘ دہلی میں گڑی ہوگی اچوک ہوجائے گا اوروہی صحیح بولے گا جس کی’’ اان سے پاسکتے کہیں نہ کہیں

بھی ہے اور زبان وبیان کی اپنی ادائے محاورہ کے دومعنی ہیں ایکProverbمعاملہ میں ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے۔ محاورے سے مراد انگریزی میںبھی۔Settingاوردوسرا محاورہ زبان وبیان کاسلیقہ طریقہ اورلفظوں کیProverbمحاورہ بامعنی

ز نے فسانہ عجائب میں میرا اس کے مقابلہ میں لکھنؤ والے اپنی زبان پر اوراپنے شہر کے روزمرہ اورمحاورے کو سند سمجھتے تھے رجب علی بیگ سرورآاتا ہے بے وقوف جاہل اورنہ رمڑاور کندہ ناتراش ییکا جواب دیا اوریہ کہا کہ لکھنؤ کی شہریت یہ ہے کہ باہر سے کوئی کیسا ہی گھا زن کے چیلینج یا دعو ام

زن کے مقابلہ میں دوسرا معیار پیش کیا جاتا ہے بہرحال گفتگو محاورے رل زبان کی طرح ہوجاتا ہے یہ گویا میرا م مہذب ہو اورہفتوں مہینوںمیںڈھل ڈھلا کر اہاورشہر کے روزمرہ ہی کے بارے میں رہی۔

رد اپر قوت رجحان کے طورپر رہا کہ شہری زبان کو اورشرفاء کے محاورات کو ترجیح دی جائے اوراسی کو سن ہماری زبان میں ایک رجحان تویہ رہاہے اورایک رل دہلی قرار پایا۔ راس کی کسوٹی محاورۂ اہ اعتبار خیال کیا جائے اور

اپرقوت ہوتا چلا گیا کہ زبان کوپھیلا یا جائے اوردوسری زبانوں اورعلوم وفنون کے ذریعہ اس میں اضافہ کیا جاتا اس سلسلہ میں ایک اور رجحان رہا جورفتہ رفتہ آاجاتی ہے تووہ لوگ اپنی تہذیب کو زیادہ بہتر اور شائستہ سمجھتے ہیں ۔ اوراپنے ہے کہ زبان سکڑکر اورٹھٹھرکرنہ رہ جائے شہری سطح پر امتیاز پسندی

آاباد کا لب ولہجہ کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں اورامتیازات کو قائم رکھتے ہیں۔لکھنؤ اوردہلی نے یہی کیا اس کے مقابلہ میں لاہور کلکتہ اور حید رآاگے بڑھتے انہوںنے ااس پر زور نہیں دیتے تھے اور نتیجہ یہ ہے کہ وہ کرداردوسرارہا شاید اس لئے کہ وہ اپنی مرکزیت کو زیادہ اہم خیال نہیں کرتے تھے ۔ اور

محاورہ کی ایک جہت ادبی اضافہ سنئے اورنئی تبدیلیوں کو قبول کیا۔ زمانہ بھی بدل گیا تھا نئے حالات نئے خیالات اورنئے سوالات پیدا ہوگئے تھے ۔۔اان کی مراد صرف سے Proverb ہے اورایک معاشرتی یعنی زبان کے استعمال کی صحیح صورت جب دہلی والے اپنے محاورہ کی بات کرتے ہیں تو

ررہ سے ہوتی ہے جس میں بولی ٹھولی کا اپنا جینس ) ااس روز م اچھپارہتا ہے اسی لئے دہلی والے ایک وقت اپنے محاورہ پرGeniusنہیں ہوتی بلکہ )

Page 4: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

رش نظر رکھا جائے یہ مسئلہ اب بھی اہم بلکہ یہ کہئے کہ اصورت تونہیں رہی مگر محاورے کی ادبی اورتہذیبی اہمیت کوپی بہت زور دیتے تھے۔ اب وہ غیرمعمولی طورپر اہم ہے اس لئے کہ محاورہ زبان کی ساخت اورپر داخت پر بھی روشنی ڈالتا ہے اورزبان کے استعمال کی پہلو داریوں کو بھی سامنے لاتا

ران رلسانی ادبی تاریخی اورمعاشرتی پہلوداریاں ہیں جن کو ااس کی اپنی ہے دہلی والے جامع مسجد کی سیڑھیوں کو اپنے محاورہ کی کسوٹی قرار دیتے تھے رد اعتبار عطا کی رز بیان نے اپنے ساتھ خصوصی طورپر رکھا ہے اوراس طرح کئی صدیوں کے چلن نے اسے سن خاص علاقوں میں بولے جانیوالی زبان اوراندا

ہے زبان اور بیان کی روایتی صورتوں کو الفاظ کلمات اورجملوں کو ایک خاص شکل دیتا ہے اس میں روایت بھی شامل ہوتی ہے اوربولنے والوں کا اپناآانیوالے الفاظ تین پانچ کرنا یا نودوگیارہ ہونا تین تیرہ بارہ باٹ یہ ایک ترجیح رویہ بھی کہ وہ کس بات کو کس طرح کہتے اور سمجھتے ہیں محاورہ میں

کا اندازہ رکھتی ہے۔Settingطرح سے محاورے بھی ہیں اورجملے کی وہ لفظی اورترکیبی ساخت بھی جو اپنا ایک خاص ران دوجہتوں کے ماسوا محاورہ کے مطالعہ کی ایک اوربڑی جہت ہے جس پر ہنوز کوئی توجہ نہیں دی گئی یہ جہت محاورہ کے تہذیبی مطالعہ کی ہے

ااس وقت تک پورے طورپر نہیں سمجھا جاسکتا جب تک ااس کے ذہنی زمانی انفرادی اوراجتماعی رشتوں کوسمجھنے سے تعلق رکھتی ہے اس تعلق کو اور اان تمام نفسیاتی سماجیاتی اورشخصی رشتوں کو ذہن میں نہ رکھا جائے جومحاورہ کو جنم دیتے ہیں۔ اورلفظوں کا رشتہ معنی اور معنی کا رشتہ معنویت

ااس کی تہذیبی ااس کے ذریعہ ہم زبان یعنی ہمارے سماجیاتی پس منظر اورتاریخی ونیز تہذیبی ماحول سے جوڑتے ہیں یہ مطالعہ بے حد اہمیت رکھتا ہے اورساخت اورسماجیاتی پرداخت کا صحیح اندازہ کرسکتے ہیں۔

راس کے لئے ہم ایک سے زیادہ راس کی معنویت پرنظر نہیں گئی ۔ راس پہلو کو نظرانداز کیا اور رلسانیاتی ماہروں نے عام طورپر ہمارے ادیبوں، نقادوں اوررش نظررکھ سکتے ہیں۔ محاوراتی صورتوں کوپی

راقمہ الحروف نے اسی نسبت سے محاورے کے مطالعہ کو اپنا موضوع بنایا اورمختلف محاورے کے سلسلہ میں جوباتیں ذہن کی سطح پر تہذیباامور رفکر وفہم سے جو اان کے اان کو اپنے معروضات میںپیش کردیا ۔ اسی کے ذیل میں مختلف محاورات اور آائیں۔ اابھر کر سامنے ومعاشرت کے لحاظ سے

اان کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے جس سے متعلق کچھ باتیں یہاں پیش کی جاتی ہیں۔ وابستہ ہیںآانکھو ںکے آائینہ کے ساتھ یہی معنی دیتا ہے اور رکشش کے طورپر پانی کالفظ استعمال ہوتا ہے پانی تلوار اور آاب ہی کوکہتے ہیں روشنی شفافیت اور اا پانی مثلرس منظر میں تہذیبی ساتھ بھی ہم کچھ اپنی مثالوں کو سامنے رکھ سکتے ہیں جن سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ محاورے کی سادہ سی صورت کے پآانکھوں کی کشش بھی ہوتی راس سے مراد آانکھوں کاپانی ڈھل گیا تو ااس کی ااجب ہم یہ کہتے ہیں کہ معنی اورمعنویت کے کیا کیا سلسلے ملتے ہیں مثلآانکھوں کا پانی ڈھل آانکھوں سے وابستہ ہوتی ہے ۔ اورجب وہ نہیں رہتی تبھی تویہ کہتے ہیں کہ ہے حیاء وشرم اورغیرت کی وہ خوبی وخوبصورتی بھی جو

آاتے ہیں۔ ’’رنگ ‘‘کالفظ خوبصورتی کشش انداز وادا سب کو گیا۔ ہم استعارہ کی طرح محاورہ میںبھی لفظ سے معنی اورمعنی سے درمعنی کی طرف رز فکر رل زبان خاص انداز بھی شاعری میں طر امراد ہوتی ہے۔ اورخوبصورتی بھی اور اہ دھنک کی طرح اپنے حلقو ںمیں لے لیتا ہے اس سے رنگینی بھی

ااس میں کوئی خاص خوبصورتی وکشش نہ ہو۔ اسی لئے بے رنگی رز ادا کو ’’رنگ‘‘ سے تعبیرکیا جاتا ہے اوربے رنگ ہونے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اوراندااان میں آاب ورنگ ہیں۔ یعنی اان کے اشعار توبالکل بے اشعار کی اس سادگی کو کہا جاتا ہے۔ جن میں سپاٹ پن ہوتا ہے اوریہ کبھی کہا جاسکتا ہے کہ

رس جمال راس اعتبار سے اس محاورہ کوہم اپنی ذہنی زندگی اپنے احسا احسن کوئی جاذبیت اورکشش تھی ہی نہیں فکر وخیال کے اعتبار سے کوئی اورسماجی رویہ کانمائندہ کہہ سکتے ہیں۔

ااس کا ایک گہرا تعلق محاورہ سے بھی ہے کہ بغیر شہر رل شہر اپنی شہریت ،اپنی گفتگو اوراپنے لب ولہجہ سے وابستہ کرتے ہیں زباندانی کا جومعیار اہآاتے ہوئے ااس حوالہ یا اس حوالہ سے برابر رل شہرکی زبان پر ااس کے باشندوں سے تعلقات کے محاورے پر قدر ت ممکن نہیں یہ بات ہم اہ میں قیام اور رصہ ہوتی ہے اس اعتبار سے بھی آاتا ہے وہ ہمارے معاشرتی رویہ کی نفسیات یا )سائیکی( کاایک بڑا ح دیکھتے ہیں جن باتوں کا ذکرہمارے یہاں زیادہ

اان آاتا ہے اور اان کا ذکر محاوروں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ہمارے نفسیاتی ماحول میں داخل ہیںاورجن باتوں سے ہم بہت متاثر ہیں محاورات میں آاتا رہتا ہے۔ کے لئے باربار کوئی محاورہ ہمارے لبوں یا زبان قلم پر

Page 5: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اان کی طرف ہمارا ذہن محاورے ہماری ذاتی اورمعاشرتی زندگی سے گہرارشتہ رکھتے ہیں محاوروں میں ہماری نفسیات بھی شریک رہتی ہیں مگربیشتر اورآانکھ بھوںسے ہمارے محاورات آائینہ داری ہے اسی طرح ہمارے اعضاء پر ناک، کان اور رانفرادی نفسی کیفیتوں کی منتقل نہیں ہوتا کہ یہ ہماری اجتماعی یا آانکھوں کا لڑنا یہ محاورے مختلف المعنی ہیں اورکہیں ایک آانکھوں میں کھٹکنا آانکھوں میں سمانا ، اور آانکھیں دیکھنا، آانا، آانکھ اا کاگہرا رشتہ ہے ۔ مثل

دوسرے سے تضاد کا رشتہ بھی رکھتے ہیں۔آانکھیں ٹیڑھی کرنا، آانکھ پھوڑٹڈا، آانکھوں کی ٹھنڈک، آانکھ اٹھانا، آانکھ اٹھاکر نہ دیکھنا، آانکھ سے متعلق کچھ اورمحاورے یہاں پیش کئے جاتے ہیں ۔ رز بیان ہے۔جس کاتعلق ہماری شاعری سے بھی ہے آانکھوں کا نمک کی ڈلیاں ہونا۔ استعاراتی اندا آانکھوں میں رات کاٹنا، آانکھ بدل کر بات کرنا، رخ بدلنا

آادمی اپنا کام رصہ کے موڈمیں بات کرنا ہے جو آانکھ بدل کر بات کرنا۔ناگواری ناخوشی اورغ اورسماجی شعور سے بھی یہ بے حداہم اوردلچسپ بات ہے آانکھوں کا نمک ااسے اان میں برابر شدید تکلیف ہوتی رہی تو آانکھیں اگرتکلیف کی وجہ سے تمام رات کڑواتی رہیں ۔ اور نکالنے کے لئے بھی کرتا ہے ۔

آانکھیںپتھرانا اس کے مقابلہ میں ایک کی ڈلیاںہونا کہتے ہیں یعنی یہ صورت تکلیف کی انتہائی شدت کو ظاہر کرتی ہے نمک کی ڈلیا ںہونا کہتے ہیں۔ آانکھوں میں رات کاٹنا بھی انتظار کی شدت اورشام سے صبح تک اسی حالت میں رہنے آانکھیں پتھر ہوگئیں ۔ دوسری صورت ہے یعنی اتنا انتظار کیا کہ

آانکھ نہ آانکھ لگنا سوجانا اورکسی سے محبت ہوجانا جیسے میری کی طرف اشارہ ہے جوگویا رات کے وقت انتظار کرنے والے کی حالت کو ظاہر کرتاہے۔ آانکھ لگی ہے۔ اس سے ہم اندازہ آاگیا ہے۔ اورکسی سے اس کی راس کا دل کسی پر ااس کا چرچہ کیا کہ لگنے کی وجہ سے میرے یاردوستوں نے

اا محاورہ میں سمیٹا ہے اورجب کرسکتے ہیںکہ نہ جانے ہماری کتنی باتوں اورذہنی حالتوں کوصبح وشام کی وارداتوں اورزندگی کے واقعات کوہم نے مختصر رصہ بن گیا۔ محاورہ شعر میں بندھ گیاتووہ ہمارے شعوراورذہنی تجربوں کا ایک ح

آائے ہیں۔صرفProverb راقمہ نے جن محاورات پر کام کیاہے اورجن کا تہذیبی مطالعہ پیش کیا گیا ہے وہ کے معنیSettingکے معنی میں ) محاورے( سے لفظوں کی ایک ترکیبی یونٹ واحدہ ہوتا ہے جوایک خاص انداز سے ترکیب پاتا ہے اپنے معنی کا تعین کرتا ہےProverb میں نہیں

ااس کو ایک مستقل صورت مل جاتی ہے۔ اصورت شکل پر قائم رہتا ہے محاورہ کی زبان بدلتی نہیں ہے جس کا تعین ایک مرتبہ ہوگیا اوراپنی ہےئت اورراس کے مقابلہ میں محاورات کے لفظ ومعنی میں تہذیب وتاریخ کے راقمہ نے محاورات کے لفظ ومعنی کے اعتبار سے کوئی تبدیلی نہیں کی۔

ااس کے وسیلے سے بہت سے نئے معنی ااردو کی اپنی معاشرت کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اان کو جومحرکات اورموثرات ملتے ہیں ااردو میں اب تک نہیں ہوا۔ جس سے محاورات کی تہذیبی اورتاریخی اہمیت کا راس طرح کا کوئی کام کا محاورات میں موجودہونے کا انکشاف کیا ہے

حال معلوم ہوسکے۔رذنتائج کاکوئی ران سے اخ اان کے معنی بھی لفظوں ہی کے طورپر دےئے گئے ہیں مختلف لغات میں جو محاورات دوسرے الفاظ کے ساتھ شریک ہیں

عمل وابستہ نہیںکیا گیا ۔ شہر دہلی لال قلعہ نیز دہلی اورلکھنؤ کے محاورے میں جوفرق کیا گیاہے وہ اپنی جگہ ایک اہم کام ضرور ہے مگرتہذیبیااس میں ضرور زیر اورمعاشرتی نقطہ نظر سے ہنوز کوئی کام راقمہ کی محدود معلومات کے مطابق ابھی تک نہیںہوا۔ دوشہر وں کی زبان کاالگ الگ انداز

ااس پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی آایا ہے ۔ لیکن ہمارے سماج ہماری معاشرت اورہمارے تہذیبی رویوں سے محاورہ کا جو خاص اورمعنی خیزرشتہ رہا ہے بحث اان میں سے بعض پر دوسری رن قلم نے کوئی روشنی نہیں ڈالی کہ ہمارے یہاں جو محاورات موجود ہیں اورہماری زبان کا حصہ ہیں راس پر بھی صاحبا

اان کی لفظیات کو کس طرح دوسری زبانوں نے متاثر کیا ہے یہ اہم مسئلہ بھی زبانوں۔ اان پر کیا اثرہے اور کے کیا اثرات ہیںعربی فارسی ہندی اوردیہاتی کا اپروقار ااسی دائرہ میں رہ کر انہوںنے سوچا اوراپنے طورپر الغت پر رہی ہے اور اان کی توجہ زیادہ تر آایا محاورات پر علمی اورادبی کام کرنیوالوں کے سامنے نہیں

کام کیاہے۔اان کے معنی بتلائے گئے ہماری درسیات میں یہ شامل رہا ہے کہ ایسے لغت بھی تیار ہوئے جس میں محاورات کولفظی وحدتوں کے طورپر جمع کیا گیا اور

اان کے معنی لکھ دےئے جائیں لیکن اان کے معنی سمجھانے کے لئے ضرورروشنی ڈالی جائے اورمعنوی سطح پر لغوی نقطہ نظر سے محاورات پر راس طرف ہنوز کسی کی اان کا ہماری تہذیبی ماحول سے کیا رشتہ ہے محاورے وہ شہروں میں رائج ہوں یا قصبہ میں ادبی زبان میں یا عام بول چال میں

Page 6: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ااس نقطہ نظر سے نہیں ہوا جو راقمہ اجدا گانہ ہے وہ کام ااس کی نوعیت بہرحال رل قلم نے جوکام کیا ہے توجہ مبذول نہیں ہوئی۔ محاورات پر دوسرے اہامرتب کی جائے پہلے ایسا ہوتا رہا ہے الغت المحاورات ااردومیں محاوروں کو جمع کیا جائے اور راس کی بھی بہت ضرورت ہے کہ آاج تو کے سامنے رہا ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال چرنجی لال کی معروف تصنیف مخزن المحاورات معروف کتاب سے بہت پہلے شائع ہوچکی ہے مولانا سید احمد دہلوی کی

آاصف الغات اور نورالغات مصنفہ مولانا نورالحسن علوی کا کوروی بھی اپنے دامن میں بہت سے محاورات کوسمیٹے ہوئے ہیں۔ معروف لغت اان کی اان کی )لغوی( سطح پرمعنی نگاری نہیں ہے بلکہ آاوری یا راس سے مختلف ہے اور وہ محاورات کی صرف جمع راقمہ کے اس کام کونوعیت

تہذیبی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش ہے کہ ہمارے محاورے اپنے لفظ ومعنی میں کس حدتک تہذیبی تصورات یا تصویروں کوجمع کئے ہوئے ہیں کہاجدا گانہ کام ہے بلکہ محاورات کا ’’ایک تہذیبی مطالعہ‘‘ ہے کہ وہ ہماری زندگی ہمارے ذہن ہماری معاشرتی فکراور تہذیبی تقاضوں کی طرح یہ ایک

عکاسی کرتے ہیں۔اان کے پیش کش کا یہ منصوبہ اپنے سامنے رکھا ہے اوراس پر اپنی محدود نظر کے مطابق راسی نقطہ نظر سے محاورے کے مطالعہ اور اسطورنے راقمہ

اا اہم راس ضمن میں نسبت رف تہجی کے تحت رکھا گیا ہے۔ اور اان پر تنقیدی اورتہذیبی گفتگو کی ہے محاورات کوحرو محاورات کو جمع کرنے کے علاوہ رہاس محاورہ سے ہمارے ذہن زندگی اورزمانہ کا کیا رشتہ ہے۔ راس کا اظہا رکیا گیا ہے ک محاورات ہی کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اور

آاداب ورسوم نے ہم اپنے معاشرتی رویوں کو اس لئے بھی سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہماری تہذیبی تاریخ جن جن مرحلوں سے گذری ہے اورجن معاشرتی آاتی ہے۔ اان کی ایک متحرک تصویر سامنے ہمارے طبقاتی معاشرے علاقائی سطح پربننے بگڑنے والے سماج کو متاثر کیا ہے۔

راس کانام مخزن ااردو کا وہ لغت خاص طور پررہا ہے جومحاور ات پر مشتمل ہے۔ اورجسے چرنجی لال نے ترتیب دیا ہے راقمہ الحروف کے سامنے ااس کےء۱۸۸۶!مئی ۲۵المحاورات ہے چرنجی لال نے راس کے کاتب کانام سیدعبداللطیف اور ابلاتی داس دہلوی کے مطبع سے شائع کیا ۔ میں منشبی

رن شہر لکھا ہواہے۔ ساتھ ساکن سبزمندی بیروآائے ہیں جن کا سلسلۂ تحریر ونگارش سات سوا کسٹھ راس761راس کے بعدغلط نامہ کے صفحات صفحہ پر ختم ہوتا ہے اس کے بعدتمام شدتحریر ہے

رکن شہر میرٹھ لکھا ہوا ہے۔ کے ذیل میں قطعہ تاریخ بابو ٹھاکر گلاب سنگھ صاحب متخلص بہ مشتاق سب درسیر ہنر جمن غربی ڈویزن دہلی ساقطعہ

امشتاق راس کتاب میں لکھتے ہیں امحاوروں کے حال ااردو خوب

میں نے بھی اس کا بے سرا عدارھا سال نسخہ بے نظیر لک

۔ ۱۸۸۶ نسخہ بے نظیر مادہ تاریخ ہے پہلے مصرعہ میں بے سراعدا لکھ کر تخرجہ کے اعداد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ عددخارج ہونا اتنے عددمادہ تاریخ سے

آائیں گے۔ رل تاریخ کے اعداد نکالے جائیں گے تب جاکے ساراس کا ایک ہی نسخہ اب دہلی جیسے شہر میں موجودہے۔ اورڈاکٹر تنویر احمد علوی کے ذاتی کتب خانہ کی زینت ہے۔ یہ کتاب اب نایاب ہوچکی ہے

ادود معلومات کے مطابق کسی موصوف ہی نے مجھے مشورہ بھی دیا کہ میں محاورات کے تہذیبی مطالعہ پر کام کروںیہ کام اب تک راقمہ کی محدوسرے شخص یاادارے نے نہیں کیا۔

رہ فکر وعمل ررخیال سے میری را میرے بعض ساتھیوںاوراحباب نے مجھے اس نئی تنقیدی اورتہذیبی مطالعہ کے کام میں مشورہ دیا۔اوراپنی رائے اوراظہا

Page 7: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

کوروشن کیا۔ میں اپنی اس ناچیز کو شش کے سلسلہ میں اپنے اساتذہ ڈاکٹر تنویر احمد علوی )دہلی یونیورسٹی( ڈاکٹر شریف احمد )دہلی یونیورسٹی ( اورسید ضمیرحسن دہلوی )ذاکر حسین کالج( نیز اپنے علمی احباب اورساتھیوں کا شکریہ ادا کرنا اپنا ادبی فریضہ خیال کرتی ہوں۔ علاوہ بریں میں دہلی

اکنان اوراکادمی،کی ایکزیکٹیوکمیٹی کے وائس چےئرمین جناب م ۔ افضل رادارے کے دوسرے معززکار ااردو اکادمی کی اشاعتی کمیٹی کے اراکین نیزراس کام کی انجام دہی میں خاص طورپر تعاون کیا اوراس کی صاحب اورمرغوب حیدرعابدی سکریٹری دہلی اردو اکادمی( کی ممنون ہوں کہ انہوںنے میرے

اشاعت میں خصوصی دلچسپی لی۔

ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی ،دہلی

محاورات'( ردیف) الف'

 

س�بالا۔۱) سابالا س�بلا ، سابلا )آاجاتی ہے کہ ہمارے ہاں الفاظ کے اگر ہم اس محاورہ کی لفظی ترکیب پر غور کریں تو اس سے ایک بات پہلی نظر میں سمجھ میں ساتھ ایسے الفاظ بھی لائے جاتے ہیں جن کا اپنا اس خاص اس موقع پر کوئی خاص مفہوم نہیں ہوتا لیکن صوتی اعتبار سے وہ اسارلا"، "اٹکل پچو"، اب اا اجز ہوتے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں اور بھی بہت سی مل سکتی ہیں، جیسے "ال لفظی ترکیب کا ایک ضروری

اچور" وغیرہ۔ اابے تبے"، "ٹال مٹول"، "کانچ ک "آارٹ گھی، تیل، آاتا۔ ہمارے ہاں کھانا بنانے کا اسبلا" ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب کسی عورت کو اچھا سالن بنانا نہیں اابلا "

)ہو variety بگھار، گرم مصالحہ، گوشت وغیرہ ڈال کر اس کو خوش ذائقہ اور لذیذبنایا جاتا ہے۔ سالن میں جتنی ورائٹی (اچنے ہوں، شوربہ، مصالحہ، اس میں ڈالی ہوئی دوسری اشیاء اگر خاص تناسب اھنے اان سب میں ان کو دخل ہے کہ وہ ب سکتی ہے،

آایا اسبلا" ہے، یعنی بے ذائقہ ہے اور اسی لیے بے نمک سالن کا محاورہ بھی اابلا کے ساتھ نہیںہیں تو پھر وہ سالن دوسروں کے لیے " ہے، یعنی بے ذائقہ چیز۔اس سے ہم اس گھریلو ماحول کا پتہ چلا سکتے ہیں جس میں ایک عورت کی کھانا پکانے کی صلاحیت

اسبالا"پکتا ہے۔ اابالا کا گھر کے حالات کا ایک عکس موجود ہوتا ہے کہ اس کے ہاں تو ۔" آابخورے بھرنا۔۲) )

ااسے مٹی کے دوسرے آاب خورہ" ایک طرح کی مٹی کے" فنجان نما" برتن کو کہتے ہیں جو کمہار کے چاک پر بنتا ہے اور پھر " ادودھ یا شربت پی کر آادمی کا پانی پینے کا پیالہ اور ایسا برتن ہوتا ہے جسے پانی، برتنوں کی طرح پکایا جاتا ہے۔ یہ گویا غریب

پھینک بھی دیتے ہیں۔ عام طور سے ہندؤوںمیں اس کا استعمال اس لیے بھی رہا ہے کہ وہ کسی دوسرے کے استعمال کردہ برتنآابخورے ااسے پھینک دیا اور پھر یہی صورت شربت کے ساتھ ہوتی ہے مگر ادودھ پیا اور پھر آابخورے میں میں کھاتے پیتے نہیں ہیں۔

Page 8: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

رچوں کے لیے، رشتہ داروں رنتیں مانتی ہیں اپنے ب رصہ ہے۔ عورتیں م آاداب کا ح بھرنا عورتوں کے نذرونیاز کے سلسلہ کاایک اہم رسمی کے لیے، میاں کی کمائی کے لیے اور ایسی ہی دوسری کچھ باتوں کے لیے، اور کہتی ہیں کہ اے خدا، اگر میری یہ دعا قبول ہوآابخورے بھر کر،انہیں دعا ادودھ یا شربت سے رنت پوری ہوئی تو میں تیری اور تیرے نیک بندوں کی نیاز کروں گی۔ گئی اور میری م

ربچوں ، فقیروں، درویشوں یا مسافروں کو پلاؤں گی۔ نیاز کی چیزیں عام طور پر غریبوں ہی کے لیے ہوتی ہیں مگر درود کے ساتھ تین اس میں اپنے بھی شریک ہو سکتے ہیں۔

آابرو ریزی کرنا۔۳) )آاب کے معنی چمک دمک کے بھی ہیں،پانی کے بھی۔لیکن محاورہ آاب و تاب کو کہتے ہیں، اس لیے کہ آابرو" چہرے کی ۔ "

آابرو کے معنی ہیں عزت، سماجی احترام اور اگر کوئی شخص اپنے کسی عمل سے دوسرے کو معاشرتی سطح پر بے کی سطح پر رملاتا ہے۔فارسی میںDishonhurعزت یا راسے مٹی میں آابرو ریزی "کرتا ہے، کرتا ہے تو وہ گویا اس کی "

رتے گرانے ااسے برگ ریز یعنی پ رم خزاں میں جو پت جھڑ کا موسم ہوتا ہے، "ریختن،ریزیدن"کے معنی ہیں"گرانا، گرنا"۔اسی لیے موسوالا موسم کہتے ہیں۔

آابرو کے ساتھ کئی رز نظر ہے۔ آابرو ریزی " کے لفظی مفہوم اور معاشرتی معنی تک پہنچ سکتے ہیں جو ایک تہذیبی اندا راس سے ہم"آاتا آابرو ریزی ہی کے معنی میں آابرو بگاڑنا " اا" آاب و تاب اور عزت شامل ہے۔ مثل آاتے ہیں اور سب کے مفہوم میں چہرہ کی محاورے

آابرو دار ہی کے معنی آادمی کو کہتے ہیں۔ "رو دار" بھی آابرودار" عزت دار آابرو رکھنا " عزت رکھنے ہی کا مفہوم بناتا ہے۔" ہے۔ "آابرو کے معاشرتی تعلق کو سمجھ سکتے ہیں ، اس لیے کہ بے عزتی بہت بڑی سماجی سزا ہے۔۔ آاتا ہے۔ اس سے ہم میں

اا رانی ہونا۔(۴) اابل اابلا پری، بہت خوب صورت ہونا۔ اصل میں رانی اور راجہ کا لفظ مرد اور عورت کے شخصی امتیاز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پھولوں میںاان کا ممتاز ہونا ظاہر ہے۔"ابلا" لڑکی کو بھی ایک پھول دن کا راجہ ہوتا ہے اور ایک رات کی رانی ۔ اس سے بھی پھولوں میں

اابلا پری" کہا جاتا ہے۔ راسے " کہتے ہیں اور جسے بہت خوب صورت لڑکی ظاہر کرنا ہوتا ہے یا پھر سمجھا جاتا ہے، آایا تو رور را رانی" کہا جاتاتھا۔ جب فارسی کے ذریعہ "پری" کا تص رور نہیں تھا۔ اسی لیے "ابل قدیم ہندوستان میں پریوں کا تص

رور ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا آائیڈیل تص احسن کا ایک را رانی"، را پری" ہو یا "ابل را پری" کہا جانے لگا۔ بہر حال، "ابل "ابل ہے کہ لفظی طور پر ہم نے فارسی سے جو الفاظ لیے ہیں، ان کا ہماری تہذیب سے بھی ایک رشتہ ہے۔حسین عورت کو ہم

"پری چہرہ" بھی کہتے ہیں، چاہے دیووں، جن، بھوتوں اور پریوں کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں۔ حضرت امیر خسرو کا مشہور فارسی شعر ہے

ارخسارے رر سرو قدے، لالہ پری پیکر ، نگاابود، شب جائے کہ من بودم رت دل آاف سراپہ

Page 9: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

رت دل ہے اور میں نے رات آاف ارخسار ہے اور سر تا پا اسرو قد ہے ، لالہ یعنی وہ جو پری پیکر ہے، حسین اور خوب صورت ہے، را پری" کی وہ را رانی" یا "ابل آارائیوں کے ساتھ دیکھا ہے۔اس شعر کو اگر دیکھا جائے تو اس میں "ابل اسے اس کی تمام جلوہ ررحسن کو پیش کرتی ہیں اور ہندوستان کی ایک حسین عورت کی خوب صورتیاں اس میں رو آاتی ہیں جو ایرانی تص خوبیاں نظر

اری" تک محاورہ کا یہ شعر ہماری تہذیبی تاریخ کی روشن پرچھائیوںکی ایک متحرک را پ اابل اابلا رانی" سے " جھلکتی ہیں۔"صورت ہے۔

ب5 حیات ہونا۔۵) آا )ااردو آادمی زندہ رہتا ہے۔ رب حیات کا تصور قوموں میں بہت قدیم ہے۔ یعنی ایک ایسے چشمہ کا پانی جس کو پینے سے پھر آا

رب حیات کے نگراں ہیں۔ اسی لیے وہ ہمیشہ زندہ آا رہ رت خضر کا تصور بھی موجود ہے۔ یہ چشم واور فارسی ادب میں حضررت خضر کا لباس ۔ ۔"سبز" ہے اور وہ دریاؤں کے کنارے ملتے ہیں اور بھولے بھٹکوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ہم رہیںگے۔حضر جانتے ہیںکہ قدیم زمانہ میں جب باقاعدہ سڑکیں نہیں تھیں، دریاؤں کے کنارے کنارے سفر کیا جاتا تھا۔ اور اس طرح گویا

دریا ہماری رہنمائی کرتے تھے۔یہیں سے خضر کی رہنمائی کا تصور بھی پیدا ہوا ہے۔امشابہت دی جاتی ہے۔ اسی لیے ہم علم کا سمندر یعنی بحرالعلم کہتے ہیںجسے ہندی میں "ودیا ساگر"کہا علم کو پانی سے ران باتوں کو جاتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ علم پانی ہے ، پانی زندگی ہے اور پانی نہ ہو توپھر زندگی کا کوئی تصور نہیں۔ زل رت خضر کا علم بھی بہت بڑا ہے جس کے لیے اقبا اصورت میں ایک علامت کے طور پر مانا گیا ہے۔ حضر رب حیات کی آا

 نے کہا ہے:یی بھی ہے جس کے سامنے حیرت فروش رم موس عل

یی سے متعلق روایت کی طرف اشارہ موجود ہے۔ لیکن خضر کا نام نہیں ہے۔اردو رت موس رتخضر اور حضر آان میں بھی حضر قررش نظر رب حیات کہا جاتا تھا۔ ان سب باتوںکے پی آا ااس کو بھی ادب میں اور مغلوں کی تاریخ میں بادشاہ جو پانی پیتے تھے امراد ہوتی ہے کہ یہ بے حد مفید ہے، زندگی بڑھاتا ہے اور رب حیات ہونا کہا جاتا ہے تو اس سے آا رر محاورہ جب اردو میں بطو

صحت میں اضافہ کرتا ہے۔ یہاں ہم کہ سکتے ہیں کہ محاوروں نے ہماری تہذیبی روایت کو محفوظ کیا ہے اور عوام تکپہنچایا ہے۔۔

سکندا ہونا۔۶) آابنوس کا )اتون کی لکڑی کا رنگ گلابی ہوتا ہے۔ صندل )چندن( اا یہ ایک عجیب محاور ہ ہے۔ لکڑیوں کے مختلف رنگ ہوتے ہیں ، مثلاپر کشش رنگ خیال نہیں کیا جاتا۔ اس لیے آابنوس کا سیاہ۔سیاہ ہمارے ہاںخوبصورت اور کی لکڑی کا رنگ زرد ہوتا ہے اور

امراد لیا جاتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ بالوں کا رنگ بھی رجن بھوت دیووں اور بھوتوں کو یہ رنگ دیا جاتا ہے اور سیاہ کہہ کر بھی رتل کا بھی رنگ کالا ہوتا ہے۔ اور یہ سب حسن و کشش کی علامت اپتلیوں کا اور آانکھوں کی اھوں کا بھی اور سیاہ ہوتا ہے۔ ب

Page 10: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ہیں۔ کم از کم ہند ایرانی تہذیب میں ایسا ہی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر سیاہ رنگ سے نفرت کے اظہار کی وجہرباس( رباسیوں کی سلطنت )خلفائے بنو ع ردس رنگ ہوتا ہے اور ع کیا ہے۔ جب کہ شیعہ عقیدہ رکھنے والوں کے ہاں سیاہ رنگ مق

اان کی اپنی سلطنت کا رنگ تھا۔ میں سیاہ رنگ اان کی روڑوں سے نفرت کرتے تھے۔ آاریائی تہذیب کی دین ہے کہ وہ درا اان حقائق کی روشنی میں سیاہ رنگ سے نفرت دراصل

تہذیب اور علمی کارگزاریوںکو بالکل نظر انداز کرتے رہے۔ بہت سے لوگوں کو بھنگی، چمار اور دوسرے پیشوں سے وابستہاکندا کالا کلوٹا کلموہا ہمارے ہاں آابنوس کا ااس کا اثر یہ ہے کہ کردیا۔ یہاں تک کہ ان کے رنگ سے نفرت شروع کردی۔اور ااس میں ہندوستانی تہذیب ، روڑوںکے علاقوں میں پیدا ہوتی ہے، کہیں ۔ آابنوس وہ لکڑی ہے جو صرف درا ابرے الفاظ ہوگئے۔

اان فکری تعصبات کی جھلک بھی ہے جو ہماری تہذیب و ثقافت کا رشتہ رہے ہیں۔ ہندوستانی فکر اور اابجد خواں ہونا۔۷) )

ااردو والے "الف‘‘ ، ’’ب‘‘ ، رجی کی ترکیب کہتے ہیں یا رف تہ حروف کو لکھنے کی دو ترکیبیں ہیں۔ ایک وہ جس کو ہم حرواابجد‘‘ سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ابجد، رف ’’ ’’ت‘‘ کے سلسلے سے وابستہ کرتے ہیں۔ دوسرا وہ سلسلہ یا ترتیب ہے جن کو حروران حروف کے اعداد مقرر کیے جاتے ہیں۔ اعفص، قرشت، شنخز،۔ یہی وہ حروف کی ترتیب ہے جس میں رطی، کلمن،س اح ھوز،

ابجدی ترتیب مندرجہ ذیل ہے۔(۷( ز)۶( و )۵( ہ)۴( د)۳( ج )۲( ب)۱)۱

( ت۳۰۰( ش)۲۰۰( ر)۱۰۰( ق)۹۰( ص)۸۰ف)۷۰( ع) ۶۰( س )۵۰( ن )۴۰( م )۳۰( ل)۲۰( ک )۱۰( ی )۹( ط )۸ح )( ۷۰۰( ذ)۶۰۰( خ)۵۰۰( ث)۴۰۰)

(۱۰۰۰( غ)۹۰۰( ظ)۸۰۰ض)اان کو جمع کرتے ااس تاریخ سے متعلق حروف کے اعداد لے لیتے ہیں۔ اور ااس نام یا نام یا تاریخ نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ

ہیں۔ حاصل جمع جو بھی عدد ہوتا ہے اس سے تاریخ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مسلمانوں میں دو ہی سنین جاری رہے ہیں، ایک ہجری ، دوسرا عیسوی۔ عیسوی سن بھی کم نکالا جاتا ہے۔ ہندو سمبت استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ہاں تاریخ

نکالنے کا کوئی دستور نہیں ہے۔ اس لیے ان کے ہاں ث، خ، ذ، ض، ظ اور غ استعمال ہی نہیں ہوتے۔ جب یہ حروف ہی انکی زبان میں شامل نہیں تو ان کے اعداد وہ کیسے مقرر کریں۔

اابجدی ترتیب کہتے ہیں۔ اس کے برعکس ا ، ب، ت، ث، سے جو ااسے اان حروف سے جو ترتیب قائم ہوتی ہے، غرض کہ راس سے مراد رف ’’ہجا‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں محاورہ میں ’’ابجد خواں‘‘ کہا گیا ہے۔ رب حرو ااسے ترتی ترتیب قائم ہوتی ہے،

صرف ا ، ب، ت ، ث لی گئی ہے

Page 11: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آاگے نہیں بڑھتا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے اابجد‘‘ نہیں۔یعنی میرا معاملہ تو صرف حروف شناسی کی ’’حد ‘‘سے رف ’’ ۔حروآادمی بھی خود کو ’’ابجد خواں‘‘ رہ کسر نفسی ایک پڑھا لکھا اان لوگوں کے نزدیک علم کا معیار کافی اونچا تھا اور از را کہ

کہتا تھا اور دوسروں کی کم علمی کا اظہار بھی اسی انداز سے کیا جاتا تھا۔ساٹھ جانا۔۸) آا5 و دانہ )

آاب، پانی۔ دانہ، کوئی بھی ایسی شے جو خوراک کے طور پر لی جائے۔اور پرندے تو عام طور پر دانہ ہی لیتے ہیں۔ چونکہ یہآادمی کا رزق اوپر سے اترتا ہے اور اوپر والے کے ہاتھ میں ہے کہ وہ جس کو جہاںسے چاہے رزق دے۔ اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ تقدیر کے تحت ہوتا ہے اور تقدیر کا حال کسی کو معلوم نہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کیا خبر ہے کس کاآاب و دانہ اٹھ جائے گا تو قیام بھی آاب و دانہ ہے، اسی وقت تک قیام بھی ہے۔جب آاب و دانہ کب اٹھ جائے اور جب تک

ختم ہو جائے گا۔آاب و خور‘ اور آاب و دانہ ‘ ، ’ یہ محاورہ ہمارے تہذیبی تصورات اور زندہ رہنے کے فطری تقاضوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ’

اخوراک فارسی الفاظ اخور اور اخورش، آاتے ہیں۔ یہ ایک ہی محاورہ کی مختلف صورتیں ہیں۔ آاب و خورش‘ بھی اسی ذیل میں ’ ہیں اور اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

آا5 و رنگ۔۹) )آاب دار اسی لیے چمک دار کو کہتے ہیں۔ آاب و رنگ کے معنی دوسرے ہیں، یعنی رونق، خوب صورتی، رنگینی اور رعنائی۔

آاب ہونے کے معنی اپنی خوب صورتی سے محروم ہونا ہوتا رصفت تھی اور بے آاب داری کے معنی روشن اور چمک دار ہونے کی آاب ہو گئی، یعنی بے عزت ہوگئی، اس کا کنوار پن ختم ہوا۔ آاتے ہیں۔ لڑکی بے ہے اور اس کے معنی عزت کھونے کے بھی آاب‘‘ بمعنی عزت، آاب‘‘ کہتے ہیں۔ اس معنی میں ’’ رر خوش آاب‘‘ محاورہ ہے اور چمک دار موتی کو ’’د ’’موتی کی سی آایا ہے۔ رنگ خوب آاب و رنگ اسی معنوں میں آاتا ہے۔ جو استعاراتی معنی ہیں۔ یہاں بھی آان بان وغیرہ کے معنی میں توقیر،

آاب‘‘ تازگی، طراوت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ صورتی پیدا کرتا ہے اور ’’ااپ بیتی۔۱۰) آاپ بیتی۔ )

ااس کی اپنی نسلوں کی تاریخ انسان کی تاریخ عجیب ہے۔ یہ اس کی اپنی تاریخ بھی ہے، اس کے ماحول کی تاریخ بھی ہے، راس کا تعلق ہوتا ہے۔ اب کوئی انسان ،اپنے حالات کے تحت، یہ بھی اور خود اس ملک یا اس نسل کی تاریخ بھی جس سے ممکن ہے اپنی تاریخ بھول جائے اور کسی انسان کو اپنے ماحول، اپنی قوم اور اپنے شہر یا اپنے علاقہ کی تاریخ یاد رہے۔ اپنی

ااسے وہ آاپ بیتی کہتے ہیں اور دوسروں کی تاریخ کو جگ بیتی۔ جب انسان اپنے حالات لکھتا ہے یا بیان کرتا ہے تو تاریخ کو آادمی اپنے حالات بیان کرتا ہے اور اگر آاپ بیتی کہتا ہے۔ ہم اسے خود نوشت سوانح عمری بھی کہتے ہیں۔گفتگو میں جب

آاپ بیتی ااس کی رام کہانی کہلاتی ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں جگ بیتی نہیں اس میں اس کا اپنا غم شامل ہوتا ہے تو وہ

Page 12: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ااردو یا ہندی میں ترجمہ آاپ بیتی کہا ہے اور جب کسی کی خود نوشت سوانح کو کہہ رہا ہوں۔ہم نے خود نوشت سوانح کو آاپ بیتی وغیرہ۔ کہانیاں، زو کی آاپ بیتی، خسر زب کی آاپ بیتی، غال زر کی آاپ بیتی کہتے ہیں، جیسے می کرتے ہیں تو اسے

آاپ بیتیاں ہوتی ہیں جن میں جگ بیتیوں کا زیادہ عنصر ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم ان میں تاریخ، تہذیب رہ، داستانیں بھی افسانہ، قص و ثقافت کو تلاش کرتے ہیں کہ وہ بھی شعوری، نیم شعوری یا لا شعوری طور پر ہمارے ماحول کی گزاری ہوئی زندگی یا

آاپ بیتی‘‘ اور جگ بیتی کا ہمارے تہذیبی ماحول سے گہرا رشتہ گزارے جانے والے ذہنی ماحول کا حصہ ہوتا ہے۔ اس طرح ’’ہے۔

بJ زعفران �مجھنا۔۔۱۱) ( اپنے تئیں شاریے رانdevelopآادمی میں اس کی اپنی نفسیات یا ماحول کی نفسیات کے تحت طرح طرح کے ذہنی رو ہوجاتے ہیں۔

رصہ ہوتے ہیں اور اگر ان میں نمودونمائش آاتا ہے لیکن ایک وقت میں یہ انسان کے فکروکردار کا بہت نمایاں ح میں بدلاؤ بھی کا پہلو زیادہ ہوتا ہے تو وہ دوسروں کے لیے تکلیف یا مذاق کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایسے کسی شخص کو وہ عورت ہو یا مرد

رخ زعفران سمجھتے ہیں یعنی بہت بڑی چیز خیال کرتے ہیں۔ زعفران آاپ کو شا بڑا ہو یا چھوٹا، یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تو اپنے رخ زعفران ہونا گویا بڑی قدروقیمت رکھنے والا شخص ہے۔ جڑی بوٹیوں میں بہت قیمت کی چیز ہے۔ اسی لیے شا

اان میں یہ محاورے ہمارے معاشرتی رویوںپر جو روشنی ڈالتے ہیںاور سماج کے مزاج و معیار کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ادور کھینچنا بھی کم و بیش اسی امتیاز پسندی اور مغروریت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آاپ کو محاورہ بھی شامل ہے۔ اپنے

اPو �یدھا کرنا۔۱۲) سا ( اپنا ریہ کو سامنے لایا گیا رلو کے حوالہ سے بات کی گئی اور معاشرے کے ایک تکلیف دہ رو اا عجیب و غریب محاورہ ہے جس میں آادمی وہ کوئی بھی ہو، اپنا بیگانہ، امیر غریب، دوسرے سے اپنا مطلب نکالنا یا اس پر طنز کیا گیا ہے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب آاری کے لیے دوسرے سے چاپلوسی اور خوشامد کی باتیں کرتا ہے اور مقصد اپنا مطلب نکالنے سے ہوتا چاہتا ہے اور مطلب بر

رلو بنانا‘‘ یعنی بیوقوف بنانا۔ ہے۔ اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے ایک اور محاورہ بھی ہے یعنی دوسرے کو’’ اااپرادھ ہرنا )ہڑنا)۱۳) (

ابوجھ کو اسوجھ آاتا ہے یعنی ’’ہڑنا‘‘ دیہات میں عام بولا جاتا ہے، جیسے پیسے ہڑنا، عقل ہڑنا۔ یہ ہڑنا ہڑپ کرنے کے معنی میں آادمی خداکا قصور بھی کرتا ہے، سماج ااپرادھ ہندی میں گناہ، قصور اور خطا کو کہتے ہیں۔ سلب کرلینا، عقل کو چھین لینا۔

اجرم کا مرتکب بھی ہوتا ہے۔ بے حد نقصان پہنچانے والے معاشرتی کے نقطۂ نظر سے بھی اس سے خطائیں سرزد ہوتی ہیں۔ وہ ااپرادھ یا گناہ کہتے ہیں۔انسان کو اس طرح کے گناہوں کا احساس رہا ہے۔ راصطلاح میں پاپ، یا دینی جرم کو مذہب کی

اسی لیے اس نے معافی مانگنے کا اخلاقی رویہ بھی اختیار کیا اور گناہ بخشوانے کا تصور بھی اس کی زندگی میں داخل رہا۔

Page 13: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یہاں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن انسان نے گناہ بخشوانے یا بخشے جانے کا خیال ذہن میں رکھتے ہوئے طرح طرح کیآاگئی کہ فلاں وقت کی نماز باتیں سوچیں۔ مذہبی عبادات میں اس کے وسیلے تلاش کیے۔مسلمانوں میں تو یہ بات یہاں تک پڑھنے یا حج کرنے سے ساری زندگی کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ہندؤوںنے بھی تیرتھ یاترا اور اشنان میں ان وسائل کو ڈھونڈا

آاخر کار اس پر مطمئن ہوگئے۔ اور س�وارتھی۔۱۴) آاپ )

ااسے مطلب نکالنا بھی آادمی ہر طرح حل کرنا چاہے۔ ’’سوار‘‘ ہندی میں خود غرضی کو کہتے ہیں، یعنی اپنا مطلب جسے آادمی دوسروں کے لیے نہیں کہتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی عام کمزوری ہے اور پچھلی صدیوں کے حالات کا نتیجہ ہے کہ آاتی ہے ابراہی سوچتا ہے۔اس کو جانتا بھی ہے۔ اسی لیے جب دوسرے کی طرف سے غلط سوچ سامنے سوچتا یا سوچتا ہے تو ااس پر اعتراض بھی کرتا ہے۔ لیکن اس غلط روش یا خودغرضانہ رویے سے بچنا نہیں چاہتا۔ اس بات کو لوگ سمجھتے ہیں تو

ردعمل بھی ہے اور یہ محاورے بھی جن میں انہیں رویوں کی طرف اشارہ کیا گیا اور سمجھتے رہے ہیں۔ اس کا ثبوت ہمارا رہے۔

راس کا مشاہدہ بھی روز روز کرتے ہیں مگر حالات کے دباؤ اور قدیمانہ روایت کے تحت اس کے ہم اپنی معاشرتی زندگی میں اکھلم کھلا کچھ نہیں کہتے۔اور کہتے ہیں تو صرف اس وقت جب ہمیں تکلیف پہنچتی ہے۔ ورنہ عام رویہ یہ ہے کہ خلاف صبر کرو، برداشت کرو جب کہ سامنے کی بات بالکل یہ ہے۔ کہ ان روشوں کو کیوں نہ ترک کیا جائے، صرف برداشت ہی

کیوں کرایا جائے۔ مگر انسان نے کچھ روایتیں تو اختیار کرلیں لیکن اپنے اوپر خود تنقیدکرنا جسے خود احتسابی کہتے ہیں، وہ منظور نہیں کیا اور بد قسمتی یہ ہے کہ مذہب کے روایتی تصور نے بھی انسان کو اس میں مدد دینی شروع کی کہ وہ من مانی

کرتا رہے۔ جب کہ مذہب کا اصل مقصد یہ نہ تھا۔۔سروپ۔۱۵) آاپ )

اروپ کے معنی ہندو فلاسفی اور ادب میں بہت سے ہیں۔ یہ محاورہ بھی ایک طرح سے ہندو آاپ ہی سب کچھ ہونا۔ اپنے راشارہ کرتا ہے۔اس کے معنی ہیں جو کسی سے پیدا نہ ہوا ہو۔ ظاہر ہے یہ صفت صرف خدا کی ہے جو کسی فلسفہ کی طرف

راس کے دوسرے معنی جو محاورہ ہی سے پیدا ہوئے ہیں، وہ خود سے پیدا نہ ہوا کہ کسی نے اس کو بنایا، اور سنوارا نہیں۔آادمی کو بڑا بننے کی عادت ہو، اس کے بدولت ہیں جو مغلوں میں بادشاہ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔مزاح کے طور پر ،جس

لیے طنز کے طور پر بھی یہ فقرہ استعمال ہوتا ہے۔آاپے �ے باہر ہونا۔۱۶) آاپ �ے باہر ہونا یا )

آاپ کا لفظ محاورہ کے طور پر اپنی مختلف صورتوں میں بار بار استعمال ہوتا ہے۔ا س سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی وجود کوآاپے سے باہر ہونا‘‘ ایسے شخص کے لیے کہا جاتا ہے جو ایک معاشرتی وجود مان کر کیا کچھ کہا گیا اور سوچا گیا ہے۔ ’’

Page 14: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ااسے ملازمت کیا مل گئی کہ وہ تو اا یہ کہتے ہیں کہ سماجی طور پر اپنی شخصیت کو ضرورت سے زیادہ سامنے لاتا ہے، مثلرصہ پر قابو نہیں رکھ رصہ سے ہے کہ وہ اپنے غ آاپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ یہاں مراد غ آاپے سے باہر ہوگیا۔ یا ذرا سی بات میں وہ

سکتا۔رہ پر قابو پائے تاکہ تعلقات میں ایک گونہ ہمواری باقی رہے۔ لیکن یہ کوئی ایسا اصول نہیں ہے آادمی کی خوبی یہ ہے کہ وہ غصرش نظر رکھا جائے۔ کبھی کبھی دوسرے لوگ انسان کی شرافت اور کمزوری جس کو ہر موقع اور تعلقات کے ہر مرحلہ میں پی

اان پر کوئی اثر نہیں ہوتا رر ناخوشی نہ کیا جائے، سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور جب تک سختی سے منع نہ کیا جائے یا اظہااور وہ ناجائز فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔

( اپنی اور نہارو۔ اپنی طرف خیال کرو۔۱۷) نہایت اہم محاورہ ہے۔ اس لیے بھی نہارنا بہ معنی دیکھنا، ہماری زبان میں ایک قدیم فعل ہے اور ہندوی ہے۔ ہمارے زیادہ تراان سے ہماری زبان کی بنیادی ساخت کا پتہ چلتا ہے۔ محاورہ اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ معاشرے کا مصدر ہندوی ہیں اور

ذہنی رویہ کیا رہا ہے۔آادمی کو متوجہ ’’اور‘‘ کے معنی ہیں طرف۔ اسی لیے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے کہ اپنی طرف خیال کرو۔ اس کے معنی ہیں کہ آادمی ابرائی کا خیال کرو۔ معاشرے میں جو رواروی کا رویہ موجود رہتا ہے کہ ااس کو نہ دیکھو، اپنی بڑائی یا کیا جا رہا ہے کہ آاتی، دوسروںکی کمزوری کی طرف خواہ ابرائی اس کو نظر نہیں خود کو نہیں دیکھتا، دوسروں پر اعتراض کرتا ہے۔ اپنی کوئی

مخواہ اشارہ کرتا ہے۔ یا پھر دوسروںکا رویہ بہت غلط، نہ روا اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی ہم سلجھ کر اور سمجھآابرو سنبھالنی ہوتی ہے۔ انہی سماجی امور کی طرف اس محاورہ میں توجہ دلائی گئی کربات کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی عزت و

ہے۔( اپنی ایڑی دیکھو۔۱۸)

ااس کی طرف نظر کم جاتی ہے۔ اس معنی میں ایڑی ایسی چیزوں کی طرف اشارہ رصہ ہوتا ہے۔ ایڑی پاؤں کا پچھلا اور نچلا حااس کے اپنے عیب بھی ہوسکتے ہیں جن کی طرف سے وہ بے پروا آادمی نہیں دیکھتا اور جن پر نظر نہیں ڈالتا۔ یہ ہے جن کو ہوتا ہے۔ اسی لیے عورتیں اپنی مخالف عورت سے کہتی ہیں کہ مجھے کیا کہہ رہی ہے، اپنی ایڑی دیکھ۔ اس سے ہم یہ نتیجہاان پر دوسرے توجہ دلاتے ہیں اور ارونما ہوتی ہیں، اخذ کر سکتے ہیں کہ معاشرے میں جو خرابیاں اخلاقی سطح پر پیدا ہوتی یا

آادمی خود متوجہ نہیں ہوتا۔ طنز و تعریض کے موقع پر دلاتے ہیں، مگر ( اپنی رادھا کو یاد کرو۔۱۹)

ااس سماجی طور پر یہ محاورہ ہندو کلچر سے رشتہ رکھتا ہے۔ ہندو فلسفہ کے مطابق ’’رادھا ‘‘ سری کرشن کی محبوبہ تھی۔

Page 15: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آاشنا اور ان کی خوبیوں کی معترف تھی۔ محبت کے رشتے کے فلسفیانہ طور پر یہ معنی ہیں کہ وہ’’ سری کرشن‘‘ کی مزاج میں مزاج شناسی اور خوبیوں کا اعتراف بڑی بات ہے۔۔

سروپ۔۱۵) آاپ )

اروپ کے معنی ہندو فلاسفی اور ادب میں بہت سے ہیں۔ یہ محاورہ بھی ایک طرح سے ہندو آاپ ہی سب کچھ ہونا۔ اپنے

راشارہ کرتا ہے۔اس کے معنی ہیں جو کسی سے پیدا نہ ہوا ہو۔ ظاہر ہے یہ صفت صرف خدا کی ہے جو کسی فلسفہ کی طرف

راس کے دوسرے معنی جو محاورہ ہی سے پیدا ہوئے ہیں، وہ خود سے پیدا نہ ہوا کہ کسی نے اس کو بنایا، اور سنوارا نہیں۔

آادمی کو بڑا بننے کی عادت ہو، اس کے بدولت ہیں جو مغلوں میں بادشاہ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔مزاح کے طور پر ،جس

لیے طنز کے طور پر بھی یہ فقرہ استعمال ہوتا ہے۔

آاپے �ے باہر ہونا۔۱۶) آاپ �ے باہر ہونا یا )

آاپ کا لفظ محاورہ کے طور پر اپنی مختلف صورتوں میں بار بار استعمال ہوتا ہے۔ا س سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی وجود کو

آاپے سے باہر ہونا‘‘ ایسے شخص کے لیے کہا جاتا ہے جو ایک معاشرتی وجود مان کر کیا کچھ کہا گیا اور سوچا گیا ہے۔ ’’

ااسے ملازمت کیا مل گئی کہ وہ تو اا یہ کہتے ہیں کہ سماجی طور پر اپنی شخصیت کو ضرورت سے زیادہ سامنے لاتا ہے، مثل

رصہ پر قابو نہیں رکھ رصہ سے ہے کہ وہ اپنے غ آاپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ یہاں مراد غ آاپے سے باہر ہوگیا۔ یا ذرا سی بات میں وہ

سکتا۔

رہ پر قابو پائے تاکہ تعلقات میں ایک گونہ ہمواری باقی رہے۔ لیکن یہ کوئی ایسا اصول نہیں ہے آادمی کی خوبی یہ ہے کہ وہ غص

رش نظر رکھا جائے۔ کبھی کبھی دوسرے لوگ انسان کی شرافت اور کمزوری جس کو ہر موقع اور تعلقات کے ہر مرحلہ میں پی

اان پر کوئی اثر نہیں ہوتا رر ناخوشی نہ کیا جائے، سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور جب تک سختی سے منع نہ کیا جائے یا اظہا

اور وہ ناجائز فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔

( اپنی اور نہارو۔ اپنی طرف خیال کرو۔۱۷)

نہایت اہم محاورہ ہے۔ اس لیے بھی نہارنا بہ معنی دیکھنا، ہماری زبان میں ایک قدیم فعل ہے اور ہندوی ہے۔ ہمارے زیادہ تر

اان سے ہماری زبان کی بنیادی ساخت کا پتہ چلتا ہے۔ محاورہ اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ معاشرے کا مصدر ہندوی ہیں اور

ذہنی رویہ کیا رہا ہے۔

Page 16: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آادمی کو متوجہ ’’اور‘‘ کے معنی ہیں طرف۔ اسی لیے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے کہ اپنی طرف خیال کرو۔ اس کے معنی ہیں کہ

آادمی ابرائی کا خیال کرو۔ معاشرے میں جو رواروی کا رویہ موجود رہتا ہے کہ ااس کو نہ دیکھو، اپنی بڑائی یا کیا جا رہا ہے کہ

آاتی، دوسروںکی کمزوری کی طرف خواہ ابرائی اس کو نظر نہیں خود کو نہیں دیکھتا، دوسروں پر اعتراض کرتا ہے۔ اپنی کوئی

مخواہ اشارہ کرتا ہے۔ یا پھر دوسروںکا رویہ بہت غلط، نہ روا اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی ہم سلجھ کر اور سمجھ

آابرو سنبھالنی ہوتی ہے۔ انہی سماجی امور کی طرف اس محاورہ میں توجہ دلائی گئی کربات کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی عزت و

ہے۔

( اپنی ایڑی دیکھو۔۱۸)

ااس کی طرف نظر کم جاتی ہے۔ اس معنی میں ایڑی ایسی چیزوں کی طرف اشارہ رصہ ہوتا ہے۔ ایڑی پاؤں کا پچھلا اور نچلا ح

ااس کے اپنے عیب بھی ہوسکتے ہیں جن کی طرف سے وہ بے پروا آادمی نہیں دیکھتا اور جن پر نظر نہیں ڈالتا۔ یہ ہے جن کو

ہوتا ہے۔ اسی لیے عورتیں اپنی مخالف عورت سے کہتی ہیں کہ مجھے کیا کہہ رہی ہے، اپنی ایڑی دیکھ۔ اس سے ہم یہ نتیجہ

اان پر دوسرے توجہ دلاتے ہیں اور ارونما ہوتی ہیں، اخذ کر سکتے ہیں کہ معاشرے میں جو خرابیاں اخلاقی سطح پر پیدا ہوتی یا

آادمی خود متوجہ نہیں ہوتا۔ طنز و تعریض کے موقع پر دلاتے ہیں، مگر

( اپنی رادھا کو یاد کرو۔۱۹)

ااس سماجی طور پر یہ محاورہ ہندو کلچر سے رشتہ رکھتا ہے۔ ہندو فلسفہ کے مطابق ’’رادھا ‘‘ سری کرشن کی محبوبہ تھی۔

آاشنا اور ان کی خوبیوں کی معترف تھی۔ محبت کے رشتے کے فلسفیانہ طور پر یہ معنی ہیں کہ وہ’’ سری کرشن‘‘ کی مزاج

میں مزاج شناسی اور خوبیوں کا اعتراف بڑی بات ہے۔۔

سروپ۔۱۵) آاپ )

اروپ کے معنی ہندو فلاسفی اور ادب میں بہت سے ہیں۔ یہ محاورہ بھی ایک طرح سے ہندو آاپ ہی سب کچھ ہونا۔ اپنے

راشارہ کرتا ہے۔اس کے معنی ہیں جو کسی سے پیدا نہ ہوا ہو۔ ظاہر ہے یہ صفت صرف خدا کی ہے جو کسی فلسفہ کی طرف

راس کے دوسرے معنی جو محاورہ ہی سے پیدا ہوئے ہیں، وہ خود سے پیدا نہ ہوا کہ کسی نے اس کو بنایا، اور سنوارا نہیں۔

آادمی کو بڑا بننے کی عادت ہو، اس کے بدولت ہیں جو مغلوں میں بادشاہ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔مزاح کے طور پر ،جس

لیے طنز کے طور پر بھی یہ فقرہ استعمال ہوتا ہے۔

Page 17: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آاپے �ے باہر ہونا۔۱۶) آاپ �ے باہر ہونا یا )

آاپ کا لفظ محاورہ کے طور پر اپنی مختلف صورتوں میں بار بار استعمال ہوتا ہے۔ا س سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی وجود کو

آاپے سے باہر ہونا‘‘ ایسے شخص کے لیے کہا جاتا ہے جو ایک معاشرتی وجود مان کر کیا کچھ کہا گیا اور سوچا گیا ہے۔ ’’

ااسے ملازمت کیا مل گئی کہ وہ تو اا یہ کہتے ہیں کہ سماجی طور پر اپنی شخصیت کو ضرورت سے زیادہ سامنے لاتا ہے، مثل

رصہ پر قابو نہیں رکھ رصہ سے ہے کہ وہ اپنے غ آاپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ یہاں مراد غ آاپے سے باہر ہوگیا۔ یا ذرا سی بات میں وہ

سکتا۔

رہ پر قابو پائے تاکہ تعلقات میں ایک گونہ ہمواری باقی رہے۔ لیکن یہ کوئی ایسا اصول نہیں ہے آادمی کی خوبی یہ ہے کہ وہ غص

رش نظر رکھا جائے۔ کبھی کبھی دوسرے لوگ انسان کی شرافت اور کمزوری جس کو ہر موقع اور تعلقات کے ہر مرحلہ میں پی

اان پر کوئی اثر نہیں ہوتا رر ناخوشی نہ کیا جائے، سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور جب تک سختی سے منع نہ کیا جائے یا اظہا

اور وہ ناجائز فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔

( اپنی اور نہارو۔ اپنی طرف خیال کرو۔۱۷)

نہایت اہم محاورہ ہے۔ اس لیے بھی نہارنا بہ معنی دیکھنا، ہماری زبان میں ایک قدیم فعل ہے اور ہندوی ہے۔ ہمارے زیادہ تر

اان سے ہماری زبان کی بنیادی ساخت کا پتہ چلتا ہے۔ محاورہ اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ معاشرے کا مصدر ہندوی ہیں اور

ذہنی رویہ کیا رہا ہے۔

آادمی کو متوجہ ’’اور‘‘ کے معنی ہیں طرف۔ اسی لیے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے کہ اپنی طرف خیال کرو۔ اس کے معنی ہیں کہ

آادمی ابرائی کا خیال کرو۔ معاشرے میں جو رواروی کا رویہ موجود رہتا ہے کہ ااس کو نہ دیکھو، اپنی بڑائی یا کیا جا رہا ہے کہ

آاتی، دوسروںکی کمزوری کی طرف خواہ ابرائی اس کو نظر نہیں خود کو نہیں دیکھتا، دوسروں پر اعتراض کرتا ہے۔ اپنی کوئی

مخواہ اشارہ کرتا ہے۔ یا پھر دوسروںکا رویہ بہت غلط، نہ روا اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی ہم سلجھ کر اور سمجھ

آابرو سنبھالنی ہوتی ہے۔ انہی سماجی امور کی طرف اس محاورہ میں توجہ دلائی گئی کربات کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی عزت و

ہے۔

( اپنی ایڑی دیکھو۔۱۸)

ااس کی طرف نظر کم جاتی ہے۔ اس معنی میں ایڑی ایسی چیزوں کی طرف اشارہ رصہ ہوتا ہے۔ ایڑی پاؤں کا پچھلا اور نچلا ح

ااس کے اپنے عیب بھی ہوسکتے ہیں جن کی طرف سے وہ بے پروا آادمی نہیں دیکھتا اور جن پر نظر نہیں ڈالتا۔ یہ ہے جن کو

Page 18: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ہوتا ہے۔ اسی لیے عورتیں اپنی مخالف عورت سے کہتی ہیں کہ مجھے کیا کہہ رہی ہے، اپنی ایڑی دیکھ۔ اس سے ہم یہ نتیجہ

اان پر دوسرے توجہ دلاتے ہیں اور ارونما ہوتی ہیں، اخذ کر سکتے ہیں کہ معاشرے میں جو خرابیاں اخلاقی سطح پر پیدا ہوتی یا

آادمی خود متوجہ نہیں ہوتا۔ طنز و تعریض کے موقع پر دلاتے ہیں، مگر

( اپنی رادھا کو یاد کرو۔۱۹)

ااس سماجی طور پر یہ محاورہ ہندو کلچر سے رشتہ رکھتا ہے۔ ہندو فلسفہ کے مطابق ’’رادھا ‘‘ سری کرشن کی محبوبہ تھی۔

آاشنا اور ان کی خوبیوں کی معترف تھی۔ محبت کے رشتے کے فلسفیانہ طور پر یہ معنی ہیں کہ وہ’’ سری کرشن‘‘ کی مزاج

میں مزاج شناسی اور خوبیوں کا اعتراف بڑی بات ہے۔۔

عام طور سے ہم محبت کے رشتے کو جنس اور جذبہ کا رشتہ سمجھتے ہیںیا پھرخون کے رشتے کا تقاضہ، جب کہ محبت کا

رصخاطر اور دلی تعلق موجود رشتہ خوبیوں کے اعتراف اور اعتماد کی دین ہوتا ہے۔’’ کرشن اور رادھا‘‘ کے رشتے میں یہی خلو

تھا۔ جو سماجی رشتوں میں کہیں کم اور کہیں زیادہ نا پید ہوتا ہے۔

راس محاورے میں اس پہلو کو طنز کے طور پر سامنے لایا گیا ہے کہ اگر تم مجھے پسند نہیں کرتے تو چھوڑو، بے تعلق ہوجاؤ

اور اپنی لگی سگی’’رادھا‘‘ کو یاد کرو۔ رادھا کا حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ عورتوں کا محاورہ ہے۔ چونکہ سماج میں عورت

راس لیے اس کے ہاں یعنی محفوظ رکھنے کا عمل زیادہ ہوتا ہے preservationایک گھرے ہوئے ماحول میں رہتی ہے،

اور قدیمانہ ماحول، محاورے، زبان اور رسم و رواج زیادہ تر عورتوں ہی کے وسیلے سے باقی رہتے ہیں۔ تمام محاورے عورتوں کے

اان میں سے بعض محاورے خاص طور پر مردوں سے ذہنی رشتہ ہی نہیں ہیں، یہ مختلف طبقوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور

ااٹھانا‘‘۔ ظاہر ہے کہ عورتوں کو صلیب نہیں دی جاتی تھی، مردوں ہی کو دی جاتی تھی۔ آاپ اا ’’اپنی صلیب رکھتے ہیں، مثل

آاپ کھودنا‘‘ بھی مردوں کا محاورہ ہے، اس لیے کہ عورتیں قبرستان ’’پھانسی چڑھنا ‘‘بھی مردوں ہی کا محاورہ ہے۔ ’’اپنی قبر

نہیں جاتیں اور نہ ہی قبر کھودتی ہیں۔’’اپنے قول کا پکا ہونا ‘‘ بھی مردوں سے ہی متعلق محاورہ ہے۔

( اپنی کھال میں مست ہونا۔۲۰)

معاشرے میں ہم ایک دوسرے کے ضرورت مند ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں میں خودپسندی یا خود داری زیادہ ہوتی ہے۔ وہ

رت حال پیدا اان کے پاس کچھ نہیں ہے تو ایک عجیب سی صور کسی دوسرے کے احسان مند بننا نہیں چاہتے۔ اب اگر

آادمی غریب بھی ہو، خود دار بھی ہو، یا پھر اپنے ہوجاتی ہے۔اسی کو کہتے ہیں’’اپنی کھال میں مست ہوجانا‘‘۔یعنی ایک

Page 19: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اا یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں کسی کی کوئی پروا نہیں۔ اپنی معاملات سے بے پروا اور بے خبر بھی رہنا چاہتا ہو، ایسے موقع پر طنز

پروا بھی نہیں۔ وہ توبس اپنی کھال میں مست ہیں۔اگر دیکھا جائے تو یہ معاشرے کا ایک نفسیاتی مطالعہ ہے۔ اس سے اریب

آاپا تج دینا‘‘ محاورے ہیں جن کے معنی ہیں خود فراموشی اختیار کرنا۔ آاپا تجنا‘‘، ’’ آاپا بسرانا‘‘، ’’ قریب ’’

آاپ �نوارنا۔۲۱) سZڑیا ( اپنی

’’گڑیاں‘‘ ہندوستانی تہذیب کی ایک علامت ہے۔ اب تو پلاسٹک کی گڑیاں بننے لگی ہیں۔ ایک زمانے میں یہ کپڑے اور روئی

سے تیار ہوتی تھیں اور گھر کی بڑی بوڑھیاں بچیوں کے لیے کھیل کی غرض سے بناتی تھیں۔ گھر میں جو گھریلو سامان ہوتا

ہے، اسی کی نقل گڑیوں کے برتنوں میںتیار کی جاتی تھی۔ چھوٹا سا پلنگ، تکیہ، لحاف اور پتیلی، چمچہ، کٹوری وغیرہ،

وغیرہ۔

راس کے علاوہ پیر مکوڑا الگ بنتا تھا۔ یہ کسی بزرگ کی گڑیوں کی شادی رچائی جاتی تھی۔ مایوں کی رسم الگ ہوتی تھی۔

ااس کے چاروں طرف احاطہ اور جھنڈیاں نیز چھوٹی چھوٹی شمعیں جو اسی مقصد کے لیے تیار چھوٹی سی قبر ہوتی تھی اور

اعرس کا سماں باندھا جاتا تھا۔ ہوتی تھیں۔ اور اس طرح گویا ایک

آاجاتے تھے اور باتیں معلوم ہوجاتی تھیں۔ اپنی گڑیاں سنوارنا، اپنی گڑیوں کے ذریعہ بچیوں کو گھر گرہستی کے بہت سے کام

راس اان کو سلیقہ سکھلانا۔ پڑھانے لکھانے کاپہلے رواج نہیں تھا۔ گھر گرہستی کو بہتر بنانا، اپنی بچیوں کی دیکھ بھال کرنا

سے ہم گھریلو معاشرت اور وہاں کی تہذیبی فضا کا کچھ اندازہ کر سکتے ہیں۔

( اپنی Zوں کا یار۔۲۲)

اان کو ہم جانتے ہیں، پہچانتے ہیں، محسوس کرتے ہیں اور محاورے زیادہ تر انہیں پر بنے معاشرے میںجو بھی عیب ہوتے ہیں

ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ جو بات محاورے میں کہہ دی گئی، وہ بات واضح ہو گئی لیکن محاورے کی وجہ سے وہ پھر

راس محاورے میں گوں کے معنی ہیں خود ااس کی معاشرتی حیثیت پر ہماری نظر نہیں جاتی۔ رصہ بن گئی اور رواج عام کا ح

آادمی‘‘ نہیں ہے۔ غرض، مطلبی۔ ہم اسے اس طرح بھی کہتے ہیں کہ وہ ہماری ’’گوں کا

عنی ہماری مطلب اس سے نہیں نکل سکتا۔ ’’گوں گیرا‘‘ بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ اپنے مطلب کی تلاش میں رہتا

آاپ سوارتھی‘‘ کے معنی بھی یہی ہیںجس پر ہے۔’’اپنی گوں کا یار‘‘ بہت واضح صورت ہے کہ وہ خود غرض اور مطلبی ہے۔ ’’

پہلے گفتگو ہو چکی ہے۔

Page 20: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اٹی کہتا ہے۔ ۲۳) ( اپنی چھا کو کون کھ

رصہ ہوتا ہے جس سے گھی یا مکھن ادودھ کا وہ ح ریے پر ایک طنز ہے۔’’چھا‘‘ بلوئے ہوئے یہ محاورہ بھی ہمارے معاشرے کے رو

نکل جاتا ہے۔ یہ صحت کے لیے اور خاص طور پر پیٹ کو درست رکھنے کے لیے بہت اچھی غذا ہے، مگر کھٹی ’’چھا‘‘

مزے دار نہیں ہوتی۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ محاورہ شہر سے وابستہ نہیںہے۔ گاؤں یا قصبے سے متعلق ہے جہاں ’’چھا‘‘ پینے کارواج عام تھا۔

کچھ لوگ ’’چھا‘‘بیچتے بھی تھے اور کہتے تھے کہ ہماری ’’چھا‘‘ میٹھی ہے۔ جھوٹ بولتے تھے۔ اسی سے یہ محاورہ وجود

ابرا کہنا نہیں چاہتے اور اپنی کوئی برائی تسلیم آایا اور اب اس کے معنی ہمارے معاشرتی رویوں سے جڑ گئے کہ ہم اپنوں کو میں

نہیں کرتے۔ ایسے موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی چھا کو کون کھٹی بتاتا ہے۔ اس اعتبارسے یہ معاشرے کا ایک عیب ہے

کہ وہ سچ بولنے کے بجائے جھوٹ بول کر اپنا کام چلانا چاہتا ہے۔اس میں شہر اور دیہات سب شریک ہیں۔

( اپنی بات کا پچ کرنا۔۲۴)

ااس کے حق میں طرح طرح کی دلیلیں دینا۔ وہ دلیلیں اس بات کو اور بگاڑ دیتی ہیں اور وہ صورت ہوتی اپنی بات پر جمنا اور

رر گنا ہ بد تر از گناہ‘‘۔ اسی لیے بات میں سلیقہ ہونا چاہیے۔ جہاں یہ دیکھو کہ دلیل نہیں چلے گی، وہاں اپنی بات پر ہے’’عذ

’’اڑنے‘‘ کے بجائے معذرت کر لو اور غلطی کو مان لو۔ یہ زیادہ بہتر ہے۔

( اپنے نصیبوں کو رونا۔۲۵)

مشرقی اقوام قسمت کو بہت مانتے ہیں۔ اب ہم جاپان اور چین کو الگ کر دیں تو بہتر ہے۔ مگر محاورہ اپنی جگہ پر ہے اور

رمے پن کا اظہار کرتے ہیں۔ وقت پر تدبیر نہیں کرتے، کوشش نہیں اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں زیادہ تر لوگ نک

کرتے، ناکام رہتے ہیں اور قسمت کی شکایت کرتے ہیں۔ ایسے ہی موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی قسمت کو بیٹھے رو

آادمی ایسا سوچے تو غلط نہیں ہے۔ رہے ہیں۔ تقدیر پر اعتماد کوئی بڑی بات نہیں مگر اپنی سی بہترین کوشش کرنے کے بعد

ابرائی شریک نہیں ہوتی۔ دوسروں کی بدمعاشی، بد دیانتی شریک ہوتی ہے۔ ہم چونکہ کچھ نہیں کر پاتے، وہاں بھی تقدیر کی

اجھوٹ سچ اور غلط سلط طریقہ سے دھوکا دیتے رہتے ہیں۔ معاشرہ اپنی جگہ پر رہتا ہے اور دوسرے ہمیں اپنی فریب کاریوں،

اس لیے ہم اپنی تقدیر کو برا کہنے بیٹھ جاتے ہیں اور جو زیادہ مذہبی ہوتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی ۔ وہ یہ نہیں

آاپ کو مصیبت میں ڈالے۔ اتفاقی طور پر کچھ سوچتے کہ وہ ایک کے ساتھ انصاف اور دوسرے کے ساتھ نا انصافی کرے اور

اان کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ باتیں ضرور ہو جاتی ہیں اور وہ بہت بڑے نقصان اور فائدے کا سبب بنتی ہیں۔ مگر سبب بہرحال

Page 21: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اس پر بھی نظر رکھنی چاہیئے۔

سمنہ ڈال کر دیکھنا۔۲۶) ( اپنے Zریبان میں

اان کے بارے میں ہم سوچتے ہیں، ہم جن معاشرتی کمزوریوں، برائیوں اور عیبوں کا شکار ہیں، اور نہ جانے کب سے رہے ہیں،

اان پر تنقید کرتے ہیں، طعن و تعریض کرتے ہیں؛ وہ خود ہم میں ہوتے ہیں۔ لیکن نہ ہم کبھی اپنی طرف دیکھتے سمجھتے ہیں،

اان ہیں، نہ ان کا اعتراف کرتے ہیں۔یہاں تک کہ ہم اپنے خاندان ،اپنے عزیز اور اپنے گروہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے کہ عیب

ریے میں اختلاف کا جذبہ میں بھی ہیں۔ صرف دوسروں پر اعتراض کرتے ہیں۔یہیں سے تلخیاں پیدا ہوتی ہیں، دوسروں کے رو

اابھرتا ہے۔ اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اپنے گریبان میں تومنہ ڈال کر دیکھو کہ تم خود کیا ہو، تمہارا اپنا کردار کیا ہے۔ تمہاری اپنی

انسانی خوبیاںکیا ہیں اور کتنے عیب ہیں جو تمہارے اندر بھرے ہوئے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو یہ صرف کوئی سیدھا سادہ

رےوں پر ایک تبصرہ ہے۔ آاپسی رو محاورہ نہیں ہے بلکہ ہمارے سماجی ماحول اور

اپنی اپنی پڑنا۔

آاپسی معاملات کے تلخ تجر بے اس کی انسانی فطرت کو زیادہ آادمی خود غرض تو ہوتا ہی ہے، اس کی معاشرتی زندگی اور

لود کر دیتے ہیں۔ گاہ گاہ ہمارا ماحول اس طرح بدلتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنے لیے جواز تلاش کرلیتے آا گرد

اان کے مسائل سے دل آانا ، ران کے کام ہیں اور بے طرح خود غرضیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ انصاف کرنا یا

آادمی صرف اپنی خواہشوںکو پورا کرتا ہے؛ اپنی ضرورتوں کی طرف دیکھتا ہے؛ اس چسپی لینا، اپنی مجبوری کے تحت ہو۔

آاپا دھاپی شروع ہوجاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اب کسی کو کسی کی پروا نہیں، سب کو اپنی اپنی وقت سماج میں ایک

پڑی ہے۔

بکیا دھرا �ب بیکار ہونا۔۲۸) ( اپنا

آائندہ کے لیے کوئی پلان بنانے کی پوزیشن ااٹھانے اور ابوجھ کے ساتھ اگر فیصلہ کرنے، قدم اسوجھ آادمی اپنے ہوش و حواس اور

اان کے قریب میں ہوتا ہے تو ایسا کرتا ہے، چاہے سب نہ کرتے ہوں یا سب نہ کر سکتے ہوں۔ کچھ لوگ جو کرتے ہیں، اگر

آاتا جس کے لیے کوششیں کی جاتی ترین افراد اس میں معاون نہیں ہوتے تو اکثر وہ بیکار ہوجاتا ہے اور وہ نتیجہ سامنے نہیں

ہیں، چاہے اس کی کوشش میں کچھ لوگ شریک ہوں اور چاہے کسی کی اپنی ہی کوشش کا وہ نتیجہ ہو۔ ایسے ہی موقع پر

آاٹا ماٹی ہونا‘‘ بھی کہتے ہیں۔ رکیا دھرا سب بیکار ہو گیا۔ اسی مفہوم میں ’’ کہا جاتا ہے کہ اس کا یا ہمارا یا میرا اپنا

Page 22: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

( اٹھکھیلیاں کرنا۔۲۹)

ااس کے کچھ دوسرے مفہوم بھی ہیں۔ آاٹھ کا لفظ ہمارے ہاں صرف ایک عدد نہیں ہے بلکہ نشان شمار ہونے کے ساتھ ساتھ

رت حمل پورا آاٹھواساں، اٹھواسی، جو اشرفی کو بھی کہتے ہیں اور کسی ایسے بچہ کو بھی اٹھواساں کہا جاتا ہے جو مد اا، مثل

آاٹھوںگانٹھ کمینت‘‘ ایسا گھوڑا ہے جو ہر طرح چاق و چوبند ہو، تندرست و آاٹھویں مہینے میں پیدا ہو جائے۔’’ ہونے سے پہلے

آاٹھ پہر دن اور رات کے چار چار پہر ہوتے ہیں لیکن اٹھکھیلیاں ایک دل چسپ محاورہ ہے جس میں ہنسی توانا ہو۔ اسی طرح

آاٹھ کھیل‘‘ جو باتوں سے مذاق کے ایسے تمام پہلو جمع ہوجاتے ہیں جن میں کوئی تکلیف دینے والی بات نہ ہو۔ یعنی ’’

راس متعلق ہوں۔ اس کو ہم جنسی اور جذباتی طور پر نہیں لیتے ورنہ اس کا تعلق جنس و محبت کی بعض روشوں سے بھی ہے۔

اابرن بارہ طرح کے کپڑے ہیں جو پہنے جاتے سے ملتا جلتا ایک محاورہ ’’بارہ سولہ سنگھار‘‘ یعنی بارہ لباس اور سولہ سنگھار۔

آارائش کے وہ طریقے ہیں جو امیر گھر والوں میں رائج رہے ہیں۔ ہیں اور سنگھار

ساجلی طبیعت۔۳۰) ساجلی �مجھ۔ ساجلی یا )

اا، ااس میں کچھ محاورے ایسے ہیں جو خاص دہلی سے تعلق رکھتے ہیں اور دہلی کی عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثل

ااس کے متعلق یہ لکھا گیا ہے کہ صبح کے وقت یا رات کو عورتیں دھوبن ااجلی‘‘ کی بات وہ دھوبن کے لیے کہتے ہیں۔ ’’

ااجلی‘‘ کہہ کر یاد کرتی ہیں۔ یہ دہلی کے خاص الفاظ یا عورتوں کے استعارہ میں ابرا سمجھتی ہیں۔ اسی لیے دھوبن کو ’’ کہنا

شامل ہے اور اس اعتبار سے دہلی کی تہذیبی زندگی کا ایک خاص محاورہ ہے۔

ااس ابوجھ اور عقل و دانش کو کہتے ہیں۔ اسوجھ ااجلی طبیعت‘‘ دہلی کی عورتوں میں خاص طرح کی ااجلی سمجھ‘‘ اور ’’ ’’

ااجالے کا تعلق صرف صبح و شام یا دن رات کی قدرتی کیفیات سے نہیں ہے بلکہ انسانی کے معنی یہ ہیں کہ اندھیرے یا

ذہن، فطرت، سوجھ بوجھ اور نا سمجھی سے بھی ہے۔ اور یہیں سے انسان کا فطرت اور تہذیب سے ذہنی رشتہ سمجھ میں

ااجلی گزران‘‘ بھی ہے جس کے معنی ہوتے ہیں خوش حال اور خوش باش زندگی۔ آاتا ہے۔ ایسا ہی ایک محاورہ ’’

آابرو سے زندگی گزارنا۔ اس کے مقابلے میں آاتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں عزت و ااجلا منھ ہونا‘‘ بھی اسی کے ذیل میں ’’

’’منھ کالا کرنا‘‘ بے عزتی کے کام کرنا ہوتا ہے۔

بنکا۔۳۱) ( اچھا

آاتا ہے رنکو‘‘ ہے جو فارسی میںنیک کے معنی میں رنکا‘‘ در اصل ’’ مغربی یو۔پی۔ میں اچھی زندگی کے لیے بولا جاتا ہے۔ ’’

Page 23: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

امراد وہی اچھائی یا بھلائی ہوتی ہے۔ اور

امرادی معنی ہوتے ہیں جو اصل معنی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ اان کے کچھ آاتے۔ محاورے میں الفاظ لغوی معنی میں نہیں

استعارہ اور تشبیہہ کے عمل میں بھی یہی ہوتا ہے کہ وہاں ایک ایسے معنی مراد ہوتے ہیں جو تصویر سے تصور کی طرف لے

ااس کی جاتے ہیں اور ان کا تعلق انسان کے ذہن و فکر ، فن اور طریقۂ رسائی سے ہوتا ہے جو تہذیب کی دین بھی ہیں اور

علامتیں بھی۔

ساٹھانا۔۳۲) ساچاپت )

یہ بھی دہلی کا خاص محاورہ ہے لیکن ہمارے تہذیبی اور معاشرتی نظام کے ایک خاص عملی حصہ کو ظاہرکرتا ہے۔ کسان،

ااس کی ادور، ملازمت پیشہ نوکر چاکر سبھی بنیے کی دکان سے سودا سلف لیتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہاتھ کے ہاتھ مز

آانے کی صورت میں ادا کی جاتی ہے، کبھی چھ ماہی کی صورت میں جو زیادہ تر قیمت بھی ادا کریں۔ یہ قیمت کبھی فصل

نے پر ہی ہوتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے کہ جب تنخواہ ملتی ہے یا مزدور کو اس کی محنت کا معاوضہ دیا جاتا آا فصل

اادھار لینے سے ہی ہے ااس کا ااچاپت اٹھائی گئی ہے۔ تعلق ہے تو پھر وہ اس رقم میں سے بنیے کو جاکر دیتا ہے جس سے

آاگے بڑھ کر دیوانی اور ساہوکاری میں بدلی ہے۔ رسسٹم کے ساتھ یہی بات لیکن ایک خاص

آادھا بٹیر۔۳۳) آادھا تیتر )

ااس کی غیر موزونیت پہلی نظر میں جب کردار میں یا کسی شے کی ظاہری شکل و صورت میں توازن و تناسب نہیں ہوتا اور

آادھا بٹیر کہتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں شوقین طبع لوگ تیتر پالتے تھے۔ بٹیروں کے پالنے آادھا تیتر ااسے بھانپ لی جاتی ہے تو

راس کا رواج دہلی میں بھی تھا۔ یہ رئیسوں کا شوق تھا کا بھی رواج تھا اور لکھنؤ میں بٹیروں کی لڑائی بھی کرائی جاتی تھی۔

اور رفتہ رفتہ درمیانی طبقے میں بھی سرائیت کر گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بٹیر پالنا اور تیتر پالنا معاشرے میں کچھ خاص

ررخاص اشارہ کرتا ررخاص شامل ہے جس کی طرف یہ محاورہ بطو آاہنگی بطو اان میں موزونیت اور ہم رجحانات کا ترجمان بن گیا۔

ہے۔

ابن یا جنگل۔۳۴) آادمیوں کا )

آادمی کے لیے ایک اہم تہذیبی حوالہ ہے۔دیہات والے اپنی بہت سی ضرورتیں جنگل سے پوری کرتے ہیں۔ لکڑیاں لانا ہو، جنگل

رپر ااسارہ ہو، جس کے سہارے چھ رپر ہو، پھل کھانا ہو، مکان کی کوئی ضرورت ہو، کڑیاں ہوں، ’’برگے‘‘ ہوں، شہتیر ہوں یا چھ

کھڑا کیا جاتا ہے یا پھونس جس سے چھپر بنایا جاتا ہے۔ سب کا تعلق جنگل سے ہے۔ جنگل سے انسانی تہذیب کا گہرا

Page 24: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آادمی نے جنگل اچھوٹ گیا۔ آادمی کا اور جنگل کا ساتھ آاباد ہو گئے۔ گاؤں اور ضلعے بس گئے تو رشتہ ہے۔ رفتہ رفتہ شہر

آابادی کو جنگلی کہنا شروع کر دیا۔ بن میں رہنے والے انسان ان رورات کے تحت غیر مہذب کاٹ بھی دیے اور اپنے شہری تص

آائی تو گاؤں والوں کو گنوار کہنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ شہر میں اگر آادمی نہیں، بن مانس تھے۔ زیادہ شہریت کے نزدیک

آابادی نہ ہوئی یا بہت ااس کے مقابلے میں جہاں آادمیوں کا جنگل کہہ کر پکارا اور آابادی ہوگئی ، بہت بڑھ گئی تو اسے گھنی

ااسے جنگل بیابان کہنا شروع کر دیا۔ کم ہوئی

آادمی کی زندگی سے کیا رشتہ ہے۔ صحرا بھی ایک طرح اان محاوروں پر اگر نظر ڈالی جاتی ہے تواندازہ ہوتا ہے کہ جنگل کا

اھوڑ جنگل ہی ہوتا ہے۔۔ کا ب

زس کا مصرعہ ہے: میر انی

آادمی ہے کہ جنگل کا جانور صحرا کا

ررعشق کے طور پر طرح طرح سے تشبیہ اور استعاروں میں شامل آاتا رہاہے اور صحرا کو تصو جنگل کا استعارہ شاعری میں بھی

زق کا مصرعہ ہے: کیاگیا ہے۔ فرا

آاج تمہیں نے روکا ہوتا صحرا صحرا دل بھٹکے گا

آادمیت پکڑنا۔۳۵) )

آادمی سے قصور اور خطا وابستہ ہے، وہاں آادم زاد بار بار کہا بھی گیا ہے۔ جہاں ااسے ااردو ادب میں آادم زاد ہے اور انسان

آادمیت، شرافت اور انسانیت کے تقاضے بھی اسی سے متعلق ہیں۔انہیں تقاضوں کے پورا نہ ہونے پر انسان کو جنگلی اور جانور

آادمی ہونے کی صفات نہیں دیکھی جاتیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ کہا جاتاہے۔ جب کسی انسان میں شرافت، نیکی اور بھلے

آادمی آادم زاد ہونے کو سراہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ااس کے آادمیت سیکھ۔ اسی لیے صورت شکل میں بھی آادمی بن ،

کا بچہ ہے، یعنی قبول صورت ہے۔

سادھر۔۳۶) آادھی رات بادھر، آادھی رات )

رق توجہ اور ڈرانے والی ہوتی ہے۔ رات سے اپر کشش، لای اپر اسرار، رات اوقات کی تقسیم میں دن کے مقابلے میں کچھ زیادہ

چونکہ اندھیرا متعلق ہوتا ہے، اس لیے بھی اس کا ذکر خوابوں کے ساتھ خوفناکیوںکے طور پر بھی کیا جاتا ہے، جیسے ڈراؤنی

اھپ۔ اندھیروں کا سفر زندگی کا تکلیف دہ اور ڈراؤنا سفر ہوتا ہے۔ اس اندھیرے کا سفر جب رات، اندھیری رات، اندھیرا گ

اسجھائی نہیں دیتا۔ رات تاروں بھری بھی ہوتی ہے ، چاند رات بھی ہوتی ہے اور چاندنی رات بھی۔ اسی کے ہاتھ کو ہاتھ بھی

Page 25: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ساتھ ’’چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے‘‘، یہ بھی کہا جاتا ہے۔ غرض کہ رات سے ہمارے بہت سے تصورات

وابستہ ہیں۔

آاجاتا ہے۔ پچھلا پہر بھی رات ہی سے اادھر‘‘ نصف شب کو کہتے ہیں جب سونے کا وقت آادھی رات رادھر، آادھی رات ’’

رحساب سے راتیں دو حصوں منسوب ہے۔ انسان دو برابر کے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کو بڑی بات خیال کرتا ہے۔ چاند کے

میں تقسیم ہو جاتی ہیں تو وہ چودھویں رات کہلاتی ہے اور اس کے چاند کو چودھویں کا چاند کہتے ہیں۔ہمارے ہاں داستانوں

یی‘‘ کانام ہی ’’الف لیلا و لیلا‘‘ ہے یعنی ایک ہزار ایک راتیں۔اردو اور کہانیوں کا تصور بھی راتوں سے وابستہ ہے۔ ’’الف لیل

یی بھی رات ہی سے وابستہ ہے۔ کی مشہور معشوقہ لیل

ساودھ کرنا۔۳۷) آادھوں )

رور واضح طور پر آادھے کا تص آادھا ایک کا نصف ہے اور تہذیبی طور پر اپنے خاص معنی رکھتا ہے۔ مذکورہ محاورے میں بھی

آادھ‘‘ شامل ہے اور اان سب میں’’ ابنا ، اادھ موا، ادھ کچرا، ادھ اادھ مرا، اادھ بانکا، اادھ رانا، اادھ پکا، رنا، ادھ اا ردھی، اا موجود ہے۔

ایک خاص ذہنی پیمانے کو پیش کرتا ہے۔

ہمارے معاشرے کی سوچ ہمارے ذہنوں پر اثر ڈالتی ہے اور ہمارا ذہن زبان پر اپنے گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو الفاظ

آادھی رہے نہ ساری آادھی کو چھوڑ ساری کو دھاوے، کے محاوراتی معنی، استعاراتی معنی ہوتے ہیں ۔ ایک کہاوت ہے’’

آاتی ہے۔ یہ بھی راس کے حصے میں آادھی ملتی ہے، نہ ساری؛ محرومی ہی آادمی جب زیادہ لالچ کرتا ہے تو نہ پاوے‘‘۔ یعنی

سماج کے رویہ پر تبصرہ ہے کہ صبر وضبط سے کام لو، زیادہ لالچ اور خود غرضی اختیار نہ کرو۔

یی۔۳۸) ال ساردوئے مع )

یی درجہ کی ادبی زبان ہوتی امراد اعل یی کہتے ہیں تو ہماری رل ااردوئے مع ااردو کا لفظ ہم زبان کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جب

رش نظر ہوتی ہے۔ مگر واقعہ یہ ہے لال رر خاص پی ہے یا پھر درباری زبان اور دہلی کی خاص زبان جس میں شرفاء کی زبان بطو

قلعہ کے سامنے اور چاندنی چوک کے قریب جو میدان ہے، یہاں قلعہ کی حفاظت کرنے والی خاص فوج رہتی تھی جس کا

ااردو مندر اپرانے زمانے میں یی کہتے تھے۔ اسی نسبت سے جینیوں کے لال مندر کو بھی رل ااردوئے مع ااسے افسر راجپوت ہوتا تھا۔

رف عام میں لشکری زبان یا پھر عام زبان کہا جانے لگا ہے۔جب ااردو کو عر راس کا مفہوم بدل گیا ہے اور کہا جاتا تھا۔ اب

آاتے ہیں کہ وہ یی کہتے ہیں اور یہ بولتے ہوئے نظر رل ااردوئے مع ااسے یی زبان کہنامقصود ہوتا ہے تو کسی زبان کو بہت اچھا اور اعل

Page 26: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ااردو بولتے ہیں۔ تو مغل

ااردPی میں چلنا۔۳۹) ااردPی کرنا۔ ا میں رہنا۔ ااردPی )

اان کے دفتری طور طریقوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد رائج ہوا ہے۔ آانے کے بعد ہہ انگریزوں کے ’’اردلی‘‘ کا لفظ بتلا رہا ہے کہ ی

آارڈرلی‘‘ ) راس طرح یہ لفظ انگریزوںOrderlyوہ اپنے پیش خدمت کو ’’ آارڈر کو لانے لے جانے والا۔ ( کہتے تھے، یعنی

راس کا استعمال عام ہونے لگا۔ لفظوں کے ساتھ کے دفتری نظام سے متعلق ہو گیا اور انگریزی سے بنائے جانے والے الفاظ میں

ااس کے پیچھے موجود ہوتی ہے۔ زبان اور الفاظ معاشرے میں لفظ محاورے کیا کردار ادا کرتے محاورہ بنتا ہے تو ایک تاریخ

راس کا اندازہ محاورات پر سنجیدگی سے غور و فکر کے ساتھ ہوتا ہے۔لفظوں کا پھیر بدل اور معنوی سطح پر تبدیلی زمانہ، ہیں،

زندگی اور ذہن کے تغیرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ’’اردلی‘‘ کا لفظ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسا ہی ایک لفظ

آافیسر‘‘ ) ااردو میں افسر کے معنی ہیں ’’ (اورOfficer’’افسر‘‘ بھی ہے جس کے معنی فارسی میں ’’تاج‘‘ کے ہیں لیکن

آافیسر ہی سے لفظ افسر بنا بھی ہے۔

ارنڈ کی جڑ۔۴۰) ( ا

ااس کا تنا بہت ’’ارنڈ‘‘ ایک خاص طرح کا درخت ہوتا ہے جس میں شاخیں نہیں ہوتیں اور جس درخت میں شاخیں ہوتی ہیں

مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اس درخت کا تنا بھی مضبوط نہیں ہوتا اور جڑ اور بھی کمزور ہوتی ہے۔’’جڑ‘‘ کا

لفظ ہمارے ہاں بہت با معنی لفظ ہے۔ اس کے معنی بنیاد کے ہیں۔ بنیاد جتنی مضبوط ہوگی، اتنی ہی عمارت مضبوط ہوگی۔

آاتے ہیں۔ جیسے، بے بنیاد بات ہے، اس کی بنیاد ہی آاتے ہیں۔ اور محاورے کے طور پر ہمارے ہاں بنیاد کے ساتھ بہت لفظ

اان دونوں لفظوں کا ایک دوسرے کے ساتھ آاتا ہے اور ’’جڑ بنیاد‘‘ کہتے ہیں۔ غلط تھی۔’’ بنیاد‘‘ کے ساتھ’’ جڑ‘‘ کا لفظ بھی

آاتی ہے۔ ہم جڑ بنیاد ہی کہہ سکتے ررہ کے دائرے میں آانا- جڑ کا پہلے اور بنیاد کا بعد میں - ایسی لفظی ترکیب ہے جو روزم

ہیں، بنیاد جڑ نہیں۔ جیسے، تین پانچ ہی کہتے ہیں، پانچ تین نہیں کہتے اور اس سے تیا پانچہ کردیا۔ جڑ کے ساتھ جڑ

جمنا، جڑ جمانا، جڑ اکھڑنا، جڑوں کا کھوکھلا ہونا، جڑوں سے وابستہ رہنا- -غرض بہت سے محاورے ہیں جن کا تعلق درخت

اارنڈ کی جڑ‘‘ کمزور ہوتی ہے؛ بالکل کھوکھلی۔ اسی لیے ارنڈ یا شجر سے اتنا نہیں ہے جتنا ہماری سماجی زندگی سے ہے۔’’

اارنڈ باغاتی‘‘ کی جڑ کے معنی ہیں ناپائدارہونا۔ اپنی جڑ کی ناپائداری اس کے لیے کم قدری کا باعث ہوتی ہے۔ اسی لیے ’’

زا کے زمانے تک بولا جاتا تھا اور مطلب ہوتا تھا ’’بے تکی چیز‘‘۔ اس کو ’’ باغاتی‘‘ بھی زر اور سود دہلی میں محاورہ ہے جو می

کہا جاتا رہا ہے۔

Page 27: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اارواح بھٹکنا۔۴۱) )

اروح مراد لیتے ہیں۔روح بھٹکنے کے اروح کی جمع بولتے ہیں اور اس سے صرف اارواح کہتے ہیں، یعنی اروح کو دہلی والے

اادھر اس کو یا اپنی کسی پسندیدہ رادھر معنی یہ بھی ہیں کہ انسان چلا جاتا ہے اور اس کی روح دنیا میں باقی رہ جاتی ہے اور

چیز کو ڈھونڈتی رہتی ہے۔قدیم زمانے سے یہ تصور موجود ہے۔

آاتی ہے۔ قدیم زمانے کی قبروں میں اس طرح کے نشانات رکھے جاتے تھے ردی وجود کی طرف واپس اروح اپنے بدن یا ما کہ

جن سے یہ پتہ چل سکے کہ یہ فلاں شخص کی قبر ہے۔ اب تو یہ بات دنیاوی طور پر شناخت کے لیے ہوتی ہے اور کتبے

اروح کی شناخت کے لیے ہوتا تھا کہ وہ پہچان جائے۔ اب یہ گویا محاورہ بن گیا ہے کہ لگائے جاتے ہیں۔ قدیم زمانے میں یہ

زر نے اپنی مثنوی ’’دریائے اروح بھٹکتی پھرے گی۔ خاص طور پر محبت کرنے والے کی روح کے لیے ایسا سوچا جاتا ہے۔ می

راس کا مطلب یہ ہوتا ہے عشق‘‘ اور ’’شعلۂ عشق‘‘ میںاسی کا ذکرکیا ہے۔ بعد کے شعراء کے ہاں بھی اس کا بیان ملتا ہے اور

اروح تیرے یا اپنے محبوب کی رق خاطر قائم رہے گا اور میری کہ زندگی ہی میں نہیں، مرنے کے بعد بھی میرا شوق، میرا تعل

فراق میں بھٹکتی رہے گی۔

اارے ترے کرنا )ابے تبے کرنا(۔۴۲) )

الفی سے بات کرنا۔تہذیب و شائستگی آانا ۔ یا بہت بے تک اارے ترے کرنا یا ابے تبے کرنا کے معنی ہیں بد تہذیبی سے پیش

آاداب میں گفتگو کا طریقہ سلیقہ بہت کام کرتا ہے اور ہمیشہ اس کا ایک اہم رول ہوتا ہے کہ کس سے گفتگو کی جائے کے

ااتار چڑھاؤ کیا ہو، موقع اور محل کے لحاظ سے الفاظ و فقرے کس اسلوب اور کس تو کس طرح کی جائے۔ لب و لہجے کا

انداز میں پیش کیے جائیں۔ بات صرف لفظوں کے معنی کی نہیں ہوتی، کہنے کے انداز کی بھی ہوتی ہے، جس سے معلوم

ہوتا ہے کہ کہنے والا کون ہے اور سننے والا اس کے مقابلہ میں کیا درجہ رکھتا ہے؛ برابر کا ہے، چھوٹا ہے، بڑا ہے۔ اس وقت

موقع ومحل کے اعتبار سے اس کے ساتھ سوال و جواب کا یا تبصرے اور تجزیے کا کیا انداز اختیار کیا جائے۔ یہ سب باتیں

بڑی اہمیت رکھتی ہیں اور گفتگو کے وقت اپنا خاص کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ سمجھا جائے کہ بات کرنے

آاداب اور شائستگی سے واقف ہے۔ بے تکلفی اپنی جگہ پر، لیکن لفظوں کے استعمال میں احتیاط والا نہ زبان جانتا ہے، نہ

بہت ضروری ہے۔ ہم دوسروں سے برداشت کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ توقع اسی وقت صحیح ہو سکتی ہے جب کہ گفتگو کرنے

والا لب و لہجے اور الفاظ کے استعمال میں احتیاط برتے۔ ہمارے محاورات میں ایسے بہت سے محاورے ہیں جو گفتگو کے

Page 28: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ااول فول بکنا کہتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گڑ نہ دے، گڑ جیسی بات کہہ آاداب پر روشنی ڈالتے ہیں۔ بیہودہ گفتگو کو

رن شیریں کی بات کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ تیرے منھ میں گھی دے، یعنی میٹھا انداز اختیار کر لے۔ اسی لیے زبا

رکر۔ ش

ساڑنا۔۴۳) ساڑا دینا ، ساڑا Pینا ، یا )

اچگنے کے لیے یہاں ااچھل کر دوسری شاخ پر بیٹھ جانا، دانا آانا جانا ، ایک شاخ سے اادھر رادھر سے ااڑنا پرندوں کا عمل ہے۔

رل محال کرشمہ اور کرامت کے طور پر پیروں کے ساتھ آانا، پروں ہی کی مدد سے ہی تو ہوتا ہے۔یہ عم سے وہاں اوروہاں سے یہاں

آاتے رادھر پھیلتے رہتے ہیں، اادھر سے اادھر اور رادھر سے ااڑتے ہیں اور خوشبو کی طرح بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ وہ ہوا میں

ااڑتی ہیں اور ٹیلی ویژن میں ہم دنیا بھر کے شہروں ، بیابانوں، آاج کل توتقریریں ، تحریریں اور تصویریں بھی ہوا پر جاتے ہیں۔

ااڑان بھرنا بھی ایک آاتا ہے۔ ااڑنے کے معنی میں یہ سب جانوروں، انسانوں، سمندروں اور ہواؤں کی تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔

ااڑتے،مرید ریر نہیں ااڑانا بھی شامل ہے، کہ پ ااڑانا اور مریدوں کا پیروں کو ااڑانے کے معنی میںخلیل خاں کا فاختہ محاورہ ہے اور

ررمحاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ااڑانے کو بھی ہمارے ہاں بطو  ااڑاتے ہیں۔ خبر

ااڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی

اگل ااڑانا‘،’ رصہ ہے۔ ’بے پر کی ااڑادینا‘ بھی ہمارے محاورات کا ح بات اڑا دینا بھی یا’ باتوں باتوں میں اڑا دینا‘،’ چٹکیوں میں

ااڑانے کے عمل سے ہماری زبان اور ہمارے ذہن کی وابستگیوں کا پتہ چلتا ااڑنے اور ااڑانا‘۔ اس سے ااڑانا‘،’ طوطا مینا ررے چھ

ااڑالینا بھی جیسے ، ’اس نے یہ بات اڑالی‘،’اس نے ساری ااڑادینا ہے۔ اور کسی چیز کا ادھول کی طرح ااڑادینا‘، خاک ہے۔’

ااڑا لینا‘ بہت سے محاورات کی بنیاد ہے۔ جن محاوروں کو ہم کسی ایک ااڑادینا‘ یا’ ااڑنا‘ یا ’ کتاب ہی اڑالی‘۔ اس معنی میں’

اان میں تصور ، ایک تصویر، ایک خیال یا ایک عمل سے نسبت دے کر محتلف صورتوں یا سمتوں میں پھیلا سکتے ہیں،

اھو ہونا‘ )غائب ہوجانا، بھاگ ااڑن چ ااڑتی چڑیا کے پر گننا ‘بھی اور’ ااڑتی چڑیا کو پہچاننا‘، یا’ ااڑادینا‘ بھی ہے۔’ ااڑنا‘ اور’ ’

رلا‘ یعنی اھ ااڑان ج ااڑن کھٹولا‘ ہوئی جہاز کو بھی کہتے ہیں۔ دہلی میں ’ آاتا ہے۔ ۔’ ااڑن کھٹولا ہونا‘ بھی اسی ذیل میں جانا( یا ’

ااڑان جھلے کی‘۔ اڑتے ہوئے کبوتروں کی ٹولی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو کبوتر بازوں کا محاورہ ہے۔’ قسم ہے

’اڑن سانپ‘ یعنی ایسا سانپ جو اڑ سکتا ہو۔ ’اڑتی بیماری ‘ بھی ایک محاورہ ہے، ایسی بیماری کو کہتے ہیں جو ایک سے

دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ کھجلی بھی انہیں میں ہے، دق بھی اور کھانسی بخار کی بعض صورتیں اس میں شامل ہیں۔

معاشرتی طور پر ایسی برائی جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے اور سب ہی کم و بیش اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اس کو

Page 29: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اڑتی بیماری کہتے ہیں۔

ااڑنا ،رکاوٹ بننا۔ ۴۴) )

زل کا شعر ہے ۔  اپنی جگہ پر اس طرح ٹھہر جانا کہ پھر ٹس سے مس نہ ہو۔ اقبا

ااڑنا اکہن پہ رز رن نو سے ڈرنا، طر آائی

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

’’طرز کہن پہ اڑنا‘‘ وہی پرانی روایت پر قائم رہنا ہے، بلکہ اس پر اصرار کرنا ہے۔ معاشرے میں یہ روش ایک خاص کردار کی

طرف اشارہ کرتی ہے کہ معقول سطح پر ایک بات کا جائزہ نہ لیا جائے اور یہ تجزیہ نہ کیا جائے کہ اس میں کیا اچھا اور کیا

برا ہے۔ کسی تبدیلی یا ترمیم کی ضرورت اس میں ہے بھی یا نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہی فکر و نظر اور احساس و ادراک

کی نا رسائیوں کا باعث بننے والی ایک معاشرتی کمزوری ہے۔جس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

ابڑنگ۔۴۵) ااڑنگ )

اصل میں جو چیزیں، جو خیالات سماج کو بے تکے پن کی طرف لاتی ہیں، وہی اڑنگ بڑنگ کہلاتی ہیں، یعنی بے تکی،

اان کا استعمال اب زبان میں کم ہو گیا ہے۔ لیکن عمومی سطح پر اب بھی ہم بے ڈھنگی، بے ہنگم۔ یہ عوامی الفاظ ہیں۔

آاگے انہیں محاورات میںاستعمال ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔’اڑنگا لگانا‘ ایسا ہی ایک محاورہ ہے جس سے دوسرے کے کام میں

ابرے نتیجے پیدا کرنے والا سماجی رویہ ہوتا ہے۔ اسی لیے ابرا اور آاتا ہے، جو ایک طرح کا بڑھنے میں رکاوٹ بننے کا رویہ سامنے

کہتے ہیں کہ اس نے خواہ مخواہ’ اڑنگا لگادیا‘ رکاوٹ پیدا کردی، الجھنیں کھڑی کردیں۔ اس سے ہم اپنے سماجیاتی مطالعہ

ااس کے بے ہنگم پن پر رش نظر رکھ سکتے ہیں جو کام، جو شے یا جو تعمیر بے ڈھنگی ہوتی ہے، کے بعض پہلؤوں کو پی

ااڑنگ بڑنگ کہہ کر کیا جاتا ہے۔ تبصرہ بھی

ساڑی طاق پر بیٹھی۔۴۶) ساڑی )

راس میں شامل ہے، لیکن محاورے کے سماجی استعمال اور معاشرتی رویوں اادھر بیٹھنا رادھر سے ااڑنا اور ویسے تو ایک چڑیا کا

ریے اس میں آاتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے کون کون سے عملی اور ذہنی رو کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ سمجھ میں

ااڑنے کے عمل پر ااڑنے کی کوشش کرتا رہا ۔اسی لیے ااڑنا انسان کو ہمیشہ ہی اچھا لگا اور خودوہ طرح طرح سے شامل ہیں۔

اجڑا ہواہے۔ رناؤں سے طرح طرح سے بہت سے محاورے موجود ہیں۔ محاوروں کا رشتہ ہمارے جذبات سے، خواہشات سے اور تم

آاجاتے ہیں، خیال بھی اور تمنائیں بھی۔کوئی محاورہ کسی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک طرف اس راس میں ہمارے خواب بھی

Page 30: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ااڑی آاتی ہیں، دوسری طرف کامیابیاں اور تیسری طرف تمنائیں اور ضرورتیں، مجبوریاں۔ ایک محاورہ ہے’ ااس کی ناکامیاں میں

آاجائے تو کتنی بڑی آانا‘، یعنی جب کوئی صورت نہ ہو اور ہر طرف رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہوں، اس وقت کوئی کام رھیڑی میں کام ب

آادمی کتنا آاتا ہو تو بات ہوتی ہے۔اسی لیے ایک کہاوت ہے، ’بیوی بھلی پاس کی، یار دوست بھلا ٹوٹے کا‘۔جب کوئی کام نہ

آادمی خود آانا ہماری سماجیات کا اہم پہلو ہے کہ جب ااڑے وقت میں کام آانا یا ااڑی بھیڑ میں کام مجبور ہوتا ہے۔ اسی لیے

آائے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے آاجائے وہی اپنا ہوتا ہے۔ اس سے کچھ نہ کر سکے تو کوئی دوسرا کام کہ جو مصیبت میں کام

آادمی کی مجبوریوں کو بھی سمجھا جا تا ہے۔ اسی سلسلے کا ایک محاورہ ’اڑے کام سنوارنا ‘ بھی ہے۔

آاڑے ہاتھوں Pینا۔۴۷) )

اان سے ہمارے ذہن و زندگی کی ترجمانی اروپ پیش کرتے ہیں اور عجیب بات ہے کہ محاورات ہماری تہذیب کے مختلف

آاڑے ہاتھوں لینا‘ فضیحتا کرنے کو کہتے ہیں، جس کے معنی یہ ہیں کہ سیدھے ہاتھ کے معنی ہوتے ہیں محبت کا ہوتی ہے۔ ’

ابرے آاڑے ہاتھوں لینا‘ گفتگو کا عمل بھی ہے اور تعلقات کے اچھے اظہار کہ پیار سیدھے ہاتھوں ہی کیا جاتا ہے۔ اسی لیے ’

ہونے کی ایک نشانی بھی ہے۔ ترچھی نظروں سے دیکھنا بھی اسی عمل کا ایک حصہ ہے۔ انسانی عمل کی ادائیگی میں

( بھی اشارے ا ور کنایے بھی، خیال ، عمل،reactionالفاظ بھی حصہ لیتے ہیں۔ اعضاء کا ایکشن اور ری ایکشن)

خوشی اور ناخوشی بھی۔ محاورے انہیں سب حقیقتوں کو اپنے اندر سمیٹتے ہیں۔اب یہ الگ بات ہے کہ محاورہ بھی تشبیہ ہوتا

رور بھی اور تصویر بھی۔ ہے، استعارہ بھی، تص

راس کے معنی بھی رکاوٹ بننے ہی کے ہیں۔ لیکن کسی مصیبت سے بچانے کے آانا‘ بھی اسی سلسلے کا محاورہ ہے۔ آاڑے ’

آاتا ہے اور ایک طرح کا سماجی عمل ہے جس میں دوسروں کا تعاون اور ان آانا کام آاڑے آانے کی غرض سے آافت میں کام لیے

آا گیا، ورنہ کون جانے کتنا نقصان پہنچتا اور کتنی پریشانیاں برداشت آاڑے کی بر وقت مدد شامل رہتی ہے کہ یہ تو وہ تھا کہ

رکا کے ہیں۔ جب راستہ نہ ملے اور نہ بیٹھنے آاتا ہے۔ مگر اس کے معنی بھیڑ بھڑ کرنی ہوتیں۔’اڑم ڈھم ہونا‘ بھی اسی ضمن میں

رزاظہار بھی ہوتا ہے اور بعض اڈھم کہتے ہیں۔ محاورہ عوامی طر ااڑم کی جگہ ہو، نہ جانے کے کوئی راہ ، ایسے وقت میں

رت اظہار ہے۔ محاوروں میں صوتی اعتبار سے ایک کرختگی بھی ہوتی ہے جو عوامی اظہار میں شامل رہنے والی ایک صور

آایا آاوازوں کا استعمال کم کرتے ہیں۔ ممکن ہے ہماری زبان میں یہ رجحان پوربی بھاشاؤں سے خواص سخت الفاظ اور کرخت

ااردو کے ابتدائی مراحل میںان بھاشاؤں کا اثر ہماری زبان پر زیادہ تھا اور بعد میںفارسی اثرات کی بدولت یہ رجحان شہری ہو۔

آاوازیں تھیں، ہماری زبان میں باقی اا ثقیل آاوازوں کو جو نسبت آاتا ہے۔مگر عوامی محاورے نے ان آاگے بڑھتا نظر سطح پر کچھ اور

Page 31: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

رکھا ہے۔

آازاد کا �ونٹا )فقیر(۔۴۸) )

فقیر پابند نہیں ہوتے؛ نہ گھر بار کے، نہ عزیز داری ، نہ رشتہ داری کے۔ کاروبار وہ کرتے ہی نہیں۔ جب جو مل گیا وہ کھا لیا،

نہ ملا تو صبر کیا۔ ایسی زندگی سماجی اعتبار سے مشکل ہی سے نبھتی ہے۔ لیکن اس طرح کے لوگوں کا ایک طبقہ رہا

آازاد طبع لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ زل کا یہ مشہورشعر انہیں ضرور ہے۔ اقبا

رش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی دروی

رلی ، نہ صفاہاں، نہ سمرقند رد گھر میرا نہ

رلی آازادی سے اس کا استعمال کرتا ہے۔ بھنگ گھونٹتا ہے، کڑا بجاتا ہے، ب فقیر کا سونٹا ہی اس کا سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ بڑی

رتے کو بھگاتا ہے، اپنے دشمن کا سر پھوڑتا ہے۔ اس معنی میںہمارے معاشرے میں ایسے شخص کی زبان کوجو اپنے لب و ک

آازاد کا سونٹا‘ یا ’ فقیر کا سونٹا‘ کہتے ہیں۔ لہجے پر قابو نہیں رکھتا، ’

بازار بند کا رشتہ۔ کمر بندی رشتہ۔۴۹) بازار بند ی کا رشتہ یا )

رازار اسے عام زبان میں کمر بندی رشتہ بھی کہتے ہیں۔ یہ شادی، بیاہ کا رشتہ ہوتا ہے جس میں جنسی رشتے کو دخل ہوتا ہے۔

رازار سے نسبت دی جاتی ہے اور اان کو پائجامہ کو کہتے ہیں۔ اسی لیے ایسے رشتے جو جنس و جذبے سے تعلق رکھتے ہیں،

رازار رھیلا‘ یا ’ رازار کا ڈ رچا‘، ’ رازار کا ک سماجی طور پر انسان کی جذباتی کمزوریوں کا ذکر بھی اسی نسبت سے کیا جاتا ہے۔ ’

کی ڈھیلی‘، اسی نسبت سے مرد اور عورت کے لیے کہتے ہیں۔اب یہ محاورے عام نہیں ہیں۔۔ان کا استعمال بہت کم ہو تا

ریوں اان سے پتہ چلتا ہے کہ محاوروں نے تشبیہ و استعارے یا اشارے و کنایے میں ہمارے سماجی رو آاج بھی چلا گیا ہے۔ لیکن

ردعمل کو محفوظ کردیا ہے۔ ’ازار میں پہن لیا‘ یا ’ازار میں ڈال کر پہن لینا‘ اسی سلسلے کے یا معاشرتی سطح پرعمل اور ر

کچھ محاورے ہیں اور سماجی طورپر اپنے خالص معنی رکھتے ہیں۔ جب کسی بات کی یا کسی شخص کی دوسروں کی

رازار میں ڈال لینے کے معنی نگاہ میں قدروقیمت نہ رہے، اس وقت یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تو پائجامے میں پہن لینا چاہتے ہیں۔

راس طرح سے سماج میں جو ایک ذہنی درجہ بندی رہتی ہے ، یہ اسی کی طرف ایک اشارہ ہے۔ بھی یہی ہیں۔

اکا۔۵۰) ( از غیبی Zولا یا از غیبی دھ

روت تصور کیا۔اس اپر ق مشرقی اقوام غیب کی زیادہ قائل رہیں اور ظاہر کے مقابلے میں باطن کو انہوں نے ہمیشہ زیادہ بامعنی اور

اان میں افکار، خیالات اور رہم پرستی اروحانی تحریکیں نیز مذہبی فلسفہ ان میں زیادہ رائج رہا۔ وہاں تو سے جہان صوفیانہ اور

Page 32: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آافت نازل ہو اور کس مصیبت کا عقائد کے اعتبار سے زیادہ رائج رہی کہ کیا خبر کس وقت کیا ہوجائے، کہاں سے کونسی

آافت آادمی اچانک کسی رت حال کو کہتے ہیں جب سامنا کس وقت کرنا پڑے۔’از غیبی گولا‘ یا ’از غیبی دھکا‘ اسی صور

میں مبتلا ہوجائے، کسی مشکل میں پھنس جائے۔ زبان کے اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو یہ محاورہ عجیب و غریب ہے

راسے بے تکلف استعمال کرتے تھے۔ ااردو والے آایا ہے، جو سر تا سر فارسی لفظ ہے۔ لیکن کہ اس میں ’از‘ کا لفظ شروع میں

آاباد‘بے تکلف طور پر لکھا جاتا تھا۔ ’از حد‘ کہہ کر حد سے زیادہ کی طرف خطوں میں ’از دہلی‘، ’از لاہور‘ یا’ از حیدر

اشارہ کیا جاتا تھا۔ ’از حد بد تمیز ہے ‘ یا ’از حد خوف ناک ہے‘ اب بھی کچھ لوگ بولتے ہیں۔ محاورے کی اس صورت نے

رکا‘ یا ’گولا‘ جیسا لفظ ’از غیبی‘ کے ساتھ رصہ بنا دیا ہے اور حیرت ہے کہ ’دھ ’از‘ کے استعمال کو عام زبان کا ایک ح

ملادیا۔ ہماری زبان کی مزاج شناسی کے لیے یہ محاورہ ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

آاس۔۵۱) )

اامید نہ ہو تو پھر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اامید کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس پر دنیا قائم ہے، یعنی رمید کو کہتے ہیں اور اا آاس

ااردو کا ایک شعر ہے۔ ااتار چڑھاؤ رہتا ہے۔ اگر چہ امید کے ساتھ بھی قیامت کا

رمیدیں باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں اا

کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے

اا، موقع بموقع ایک نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اا فوقت امیدیں ہمارے خواب ہیں، خیال ہیں، توقعات ہیں جو زندگی میں وقت

ااردو کا ایک شعر ہے ۔ اامید سے ہونا کہتے ہیں۔ عورت کے ہاں حمل کی حالت کو

رمید پہ لوگ اا کہتے ہیں ، جیتے ہیں

رمید نہیں اا ہم کو جینے کی بھی

رمید رکھنے کے اا آاس رکھنا‘ تو خیر آاشا کی عوامی شکل ہے اور بعض محاورات کا ضروری جزو ہے۔ ’ آاس ‘‘ہے، جو اامید ’’

آاس رکھتی ہے۔ یہ آاس رکھتے ہیں۔ اور اولاد ہم سے آاگے کی بات ہے۔ ہم اولاد سے بھی آاس اولاد‘ اس سے بارے میں ہے۔ ’

آاس تو آاس پوری کرنا بھی کہتے ہیں،پوری ہونا بھی۔اولاد کی سلسلہ باہمی طور پر ذہنی رشتوں کو قائم رکھتا ہے۔دعاؤں میں

آاس آاس ہوتی ہے اور جس کے اولاد نہ ہو اس کی تو گویا جڑ بنیاد ہی اکھڑ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے تو بہت بڑی

اولاد کچھ بھی نہیں ہے۔ بے اولادا ہوناایک طرح کی نحوست ہے اورعورت تو اولاد نہ ہونے کی صورت میں بہت ہی نامرادانہ

آاسرا‘ بھی اسی ذیل آاس بندھنا‘ بھی۔ ’ آاس ٹوٹنا‘ یا ’ آاس رکھنا‘ بھی اسی میں شامل ہے اور ’ آاس لگانا‘ اور’ زندگی گزارتی ہے۔ ’

Page 33: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آاتا ہے۔ زق کا شعر ہے ۔ میں آاسرا رکھنا‘ بھی۔ فرا آاسراباندھنا‘ بھی اور ’’ آاسرالگانا‘، ’’ آاسرا جوہنا‘، ’ آاسرا ڈھونڈنا‘، ’ ’

افرقت کا رم آاسرا وہ بھی شا

خواب تو دیکھیے محبت کا

آا�امی بنانا۔۵۲) )

آاسامی خالی آاسامی‘ جگہ کو بھی کہتے ہیں۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک پٹواری ، ایک ٹیچر یا ایک کلرک کی ’

آادمی جھوٹ سچ بول آاسامی بنانا‘ ایک محاورہ بھی ہے اور انسان کے فریب، مکر اور دغا کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہے۔ ’

آاسامی بنا رکھی ا اس نے وہاں آاسامی بنانا کہتے ہیں کہ اپر فریب باتیں کر کے کسی سے ناجائز فائدہ اٹھالیتا ہے۔ اسی کا کر،

آاتا۔ آاسامی بمعنی جگہ اب بہت کم استعمال ہوتا ہے اور درخواستوں میں بھی نہیں آاسامی بنا لے گا۔ ہے، یا وہ تگڑم باز ہے،

اس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ بعض الفاظ سماج میں ایک خاص طبقے یا حلقے میں اپنی جگہ بناتے ہیں اور جڑیں

پھیلاتے ہیں اور وقت کے ساتھ وہ سمٹ بھی جاتے ہیں اور ان کا استعمال کم یا ختم ہوجاتا ہے۔

آا�تین کا �انپ ہونا۔۵۳) )

رر محاورہ اور علامت استعمال کیا جاتا یہ بھی سماج میں موجود افراد کی برائیوں کی طرف ایک اشارہ ہے۔ سانپ خود بھی بطو

آاستین کا سانپ وہ آادمی نہیں بلکہ سانپ ہے۔ اس معنی میں سانپ گویا بدترین دشمن ہوتا ہے اور ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ

آاتا ہو لیکن در پردہ ہمارا دشمن ہو۔ سماج میں اس طرح کے ہوتا ہے جو بظاہر ہمارے ساتھ ہو، ہمارا ہم درد ہو اور مخلص نظر

کردار بہر حال موجود ہوتے ہیں۔

سھپائے رکھنا۔۵۴) سبت چ آا�تینوں میں )

اچھپائے رکھنا چاہتا ہے۔ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے اور یہ محاورہ ایسے موقعوں پر بولا جاتا ہے جب انسان عقیدہ و خیال کو

ابت پرست تھے، جب نماز پڑھنے مسجد میں ظاہر کچھ اور کہا جاتا ہے۔ یہ روایت ہے کہ عرب کے کچھ لوگ جو دراصل

زل آاستینوں میں بت چھپائے رکھتے اوراس طرح ایک منافقانہ کردار ادا کرتے۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اقبا آاتے تو اپنی

نے یہ شعر کہا ہے ۔

آاستینوں میں ابت ہیں جماعت کی اگر چہ

یرلہ یلہ الاال رم اذاں، لا ا مجھے ہے حک

ساس کان اڑادینا۔۵۵) باس کان �ننا، )

Page 34: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ااس کے پس منظر میں موجود ہے کہ وہ کسی کی اچھی سچی بات اور فریاد بھی سننا نہیں ریہ معاشرے کا لا پروائی والا رو

رصے، کہانیاں گھڑی بھی جاتی ہیں، سنی بھی جاتی ہیں اور سنائی بھی جاتی ہیں۔ لیکن معاملے کی چاہتا۔ ویسے داستانیں، ق

ریہ دیکھنے کو ملتا ہے۔اور روزمرہ کے تجربے کا حصہ ہے کہ باتیں نہ کوئی سننا چاہتا ہے، نہ سمجھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے یہ رو

اسنی ان سنی کردیتا ہے۔ اسی کی طرف اس محاورے میں اشارہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس کان سے آادمی دوسرے کی بات کو

سنتے ہیں اور اس کان سے اڑادیتے ہیں۔

آاکاس پھل۔۵۶) ساڑنا ۔ آا�مان پر )

یہ ایسا محاورہ ہے جو ہماری زبان اور ہماری روایتی فکر کی سماجی بنیادوں کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی بہت اونچی اونچی

آاسمان ہماری ایک اہم تہذیبی رملانا بھی کہتے ہیں۔ اقلابے آاسمان کے باتیں کرنا، بڑھ چڑھ کر باتیں بنانا، جس کو زمین

آاسمانی صحیفہ قرار دیتے ہیں۔ آاسمانی کتابیںکہتے ہیں، آاسمانی مذہبوں سے تعبیرکرتے ہیں۔ علامت ہے۔ ہم اپنے مذاہب کو بھی

آاکاش وانی‘ کہا جاتا ہے۔ سنسکرت میں اسے’

ردلوں میں فرق ڈالتا ہے اور آاسمان کا ایک اور کردار بھی ہے کہ وہ فریب کارہے، دغا باز ہے، فتنے بر پا کرتا ہے، مسلم اقوام میں

آاسما ن کی شکایتیں ملتی ہیں عاشقوں کا دشمن ہے، رقیبوں کا دوست ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اسی لیے فارسی اور اردو شعراء کے ہاں

اور اس طرح کی تمنائیں بھی کی جاتی ہیں ۔

آاسماں سے کہو روصال بہت کم ہے، رب ش

اجدائی کا رب کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا ش

آاگے بڑھ جاتا ہے۔ ایسے آاسمان سے بھی رکاریاں کرتا ہے تو وہ گویا آادمی اگر زیادہ م اسی لیے ایک نیا زاویۂ فکر پیدا ہوا۔ وہ یہ کہ

آاسمان کے تارے توڑنا، آاسمان سے متعلق ہیں، جیسے ریوں کا پتہ چلتا ہے جو آائے ہیں جن سے ان ذہنی رو بہت سے محاورے

آاسمان جھانکنا یا آاسمان کو ہلادینا، آاسمان پر چڑھنا، آاسمان پر دماغ ہونا، آاسمان میں پیوند لگانا، آاسمان سے باتیں کرنا،

راس کے کچھ دوسرے پہلو راس سب میں زیادہ چالاکی دکھانے، جھوٹ بولنے اور فریب دینے کا مفہوم شامل رہتا ہے۔ تاکنا۔

اان میںاشارہ مقصود اان کی طرف آافتیں ٹوٹتی ہیں، بھی ہیں جو انسانی مشکلات سے تعلق رکھتے ہیں اور انسانی زندگی پر جو

ااترنا۔ فارسی کا ایک شعر ہے ۔ آاسمان سے بلاؤں کا آاسمان ٹوٹ پڑنا، آاسمان پھٹ پڑنا، ہوتا ہے، جیسے

آاید آاسمان ہر بلائے کز‘

Page 35: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اکند زی تلاش خانۂ انور

آادمی کہہ سکتا ہے۔ جس کے گھر پر زیادہ زیکا گھر تلاش کر لیتی ہے۔ یہ ہر وہ آاسمان سے نازل ہوتی ہے، وہ انور یعنی جو بلا

آاتی ہیں۔ آافتیں

رگرا، کھجور میں اٹکا، یعنی ایک جگہ سے کوئی مسئلہ حل بھی آاسمان سے آاسمان سے متعلق اور بھی محاورات ہیں، جیسے

ہوا تو دوسری جگہ جاکر اٹک گیا۔ ایسا ہمارے انتظامی معاملات ، گھریلو مسائل اور دفتری سطح کی باتوں میں اکثر ہوتا رہتا

رت حال کو سمجھنے اور محاورے کے ذریعے معاشرتی امور پر تبصرہ ہے۔ اس اعتبار سے یہ محاورہ ہمارے معاشرے کی صور

آاسمانی تھپیڑا‘ بھی اسی کو آاسمانی گولا‘، ’ آایا ہے۔ ’ کرنے کے لیے ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اوپر از غیبی گولے کا ذکر

آانا‘ بھی ہے۔ آاسمان تلے اان میں’ آاسمان کے متعلق اور بھی کچھ محاورے ہماری زبان کا حصہ ہیں۔ کہتے ہیں۔

آا�ن۔۵۷) )

آاسن لگانا‘ کہتے بیٹھنے کے انداز کو کہتے ہیں۔ جوگی دھیان، گیان کے وقت ایک خاص انداز سے بیٹھتے ہیں۔ اس کو’

آاسن لگانے ہی کے معنی میں آاسن مارکر بیٹھنا‘ آاسن مارنا‘ یا ’ آاسن ڈگنا‘ کہتے ہیں۔ ’ ہیں۔ اگر وہ اپنی جگہ پر نہ رہے تو اسے ’

آاجانا‘ بھی آاسن تلے آاسن لگانا کہا جاتا ہے۔’ آانے کو بھی آاتا ہے۔ جنسیات میں ایک خاص طریقے سے ایک دوسرے کے قریب

اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ااش کرنا )عش عش کرنا(۔۵۸) ااش )

آاتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ کسی ایسی زبان سے ماخوذ ہے جس یہ محاورہ ’ع‘ سے عش عش کرنے کی صورت بھی

میں ’ع‘ کا استعمال ہوتا ہو۔ اسی لیے لغت میں اس کے ساتھ چھوٹی ’ہ‘، ’ف‘ اور ’ع‘ کی علامتیں لکھی ہوئی ہیں، یعنی

رلسانی رشتوں کا پتہ چلا سکتے ہیں۔محاورہ زبان یہ ہندی، فارسی اور عربی تینوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس سے ہم اپنی زبان کے

راس اعتبار سے زبان کے سماجی رشتوں اور لسانی رابطوں کی تفہیم میں محاورہ یہ کہیے کہ کی قدامت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

غیر معمولی طور پر معاون ہوتا ہے۔

باشتعاPک پیدا کرنا۔۵۹) باشتعال دینا یا )

رظ اشتعال عربی ہے اور اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ محاورہ ہم نے عربی سے اخذ کیا رصہ دلانے کو کہا جاتا ہے۔ لیکن لف غ

کرتے ہیں اور ان کوTeaseہے۔ ہمارے سماجی عمل میں بھی یہ استعارہ شریک ہے۔ جان جان کر بھی ہم دوسروں کو

غصہ دلاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ محاورہ صرف لغت کی شے ہی نہیں ہے۔ اس کا رشتہ سماجی لسانیات سے ہے اور زبان کو

Page 36: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آاتا ہے۔۔ ایک خاص سطح پر پیش کرنے اور سامنے لانے میں محاورہ جگہ جگہ اور معنی بہ معنی ایک خاص کردار ادا کرتا نظر

رز نظر کو ہم زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ ریے اور معاملاتی اندا اس سے کسی بھی معاشرے کے داخلی عمل، فکری رو

رز عبادت ہے کہ وہ اشنان کرتے ہیں تو گویا سورج کو جل چڑھاتے ہیں۔ اا ’اشنان دھیان‘ ہندو معاشرے کا ایک خاص اندا مثل

آافتاب پرستی کا پانی سے گہرا رشتہ ہے۔ اسی لیے اشنان کے وقت بھی راس آافتاب پرستی قوموں کا بہت قدیم مذہب ہے اور

سورج کا جل چڑھایا جاتا ہے۔

آافت توڑنا۔۶۰) )

آاتے رہتے ہیں آادمی کی زندگی میں اس طرح کے تکلیف دہ موقعے آافت کے معنی مصیبت، سانحہ اور شدید پریشانی کے ہیں۔

کہ وہ اچانک کسی پریشانی میں مبتلا ہوجاتا ہے یا کسی دکھ کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ دکھ زیادہ تر جیسا کہ ہم

جانتے ہیں کہ وقت کی دین ہوتے ہیںمگر اس میں انسان ہمارے عزیز رشتے دار، پڑوسی، ساتھ کام کرنے والے شریک رہتے ہیں۔

آافت ڈھاتے ہیں‘، انہیں کی وجہ سے یہ ہوتا بھی ہے۔ اب وہ اپنے ہوں یا غیر، وہی مصیبت کا باعث ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ’

آافت توڑتے ہیں‘۔کچھ لوگ اس کی وجہ سے یا کسی اچانک حادثے کے باعث ااٹھاتے ہیں‘، کچھ لوگ ’ آافت کچھ لوگ ’

آافت کا مارا‘ کہتے ہیں۔ آافت زدہ‘ یا ’ آافت رسیدہ‘ ہوتے ہیں، جنھیں ’ ’

آافت رسیدہ خیال کرتاہے۔ اس میں غم جانا بھی شامل رہتا ہے غم جان آافت زدہ یا آاپ کو سب سے زیادہ ہمارے ہاں شاعر اپنے

آاپتی‘‘ ہے جوسنسکرت لفظ ہے۔ آافت خودایسا لفظ ہے جوتہذیبی رشتوں پر روشنی ڈالتاہے۔ اصل میں یہ لفظ ’’ اوربھی۔ جہان

ااردو نے بھی اسے فارسی آاگئی اورتشدید غائب ہوگیا آایاہے اورفارسی میں ’’پ‘‘ کے بجائے ’’ف‘‘ وہاں سے ہندوی بھاشاؤں میں

آاپسی لین انداز کے ساتھ قبول کیا جس کے ذریعے ہم زبانوں کے باہمی رشتوں کوبھی سمجھ سکتے ہیں۔ ذہنوں اورزمانوں کے

 دین کو بھی۔

آافت کا پرکاPہ )Pپکتا ہوا شعلہ(۔۶۱) )

آاتا ہے ۔ ایک آافت کا ٹکڑا بھی اسی ذیل میں آافت کا’’ پرکالہ‘‘ کہتے ہیں۔ آادمی کو غیرمعمولی طورسے ذہین اورشرارت پسند

آافت کی چھٹی ہے۔ چھٹی خط کو کہتے ہیں ۔ اب سے کچھ زمانہ پہلے تک ڈاکیہ کو چھٹی رساں کہتے تھے۔ اورمحاورہ

یعنی خط پہنچانے والا۔ چھٹی رساں کا لفظ بھی ایک ایسی ترکیب پر مشتمل تھا جس میں ایک لفظ ہندی اوردوسرا فارسی

آانے آافت کی چھٹی بھی اسی طرح کا ترکیبی لفظ ہے جس سے ہماری زبان کی ساخت اورپرداخت کا علم ہوتا ہے۔ خط تھا۔

آایاہے؟ کس نے پر ہمارے قصبوں اورخاص طورپر دیہات کے لوگوں میں ایک طرح کی کھلبلی سی مچ جاتی تھی۔ کہاں سے

Page 37: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

لکھاہے؟ کیا لکھا ہے؟ اورپھر یہ کہ اسے کون پڑھ کرسنائے ؟ چٹھی میں کوئی بہت خوشی یا غم کی بات ہوتی تھی تواسے

ران محاورات میں جومعاشرتی مطالعے کی کنجیاں کہہ آافت کی چٹھی سمجھا جاتا ہے۔ اب یہ رویہ اگرمحفوظ ہیں توہمارے

جاسکتے ہیں۔

اافراتفری۔۶۲) )

اافراط اورتفریط ، یعنی بہت زیادہ اوربہت کم۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں توازن بگڑتا ہے اورچاہے وہ معاملات یہ عربی لفظ ہے،

اان سے وابستہ بھلائی اورعظمت قائم احسن اور اان کا ہوں، مسائل ہوں، مشغولتیں ہوں یا مصروفیات ہوں، تناسب اورتوازن کے بغیر

ااردوالوں نے اسی کوایک نئے محاورے میںبدل دیا۔ اس کے تلفظ اوراملا کوبھی نئی نہیں رہتی اورایک بے تکاپن پیدا ہوجاتا ہے۔

صورت دی اوراس کے معنی میں نئی جہت پیداکی۔ اب افراتفری کے معنی ہیں گڑبڑ بھگدڑچھینا جھپٹی اوربے ہنگم پن۔ یہی

ااس کی قوت کوکمزوری اورخوبی کوخرابی میں بدلتی ہے۔ اس معنی میں اس مفہوم بات سماج میں خرابی کا باعث ہوتی ہے اور

آاتا ہے ۔ کا رشتہ انفرادی عمل سے بھی قائم ہوتاہے اورجتماعی اعمال سے بھی جوہماری معاشرتی کارکردگی کی دائرے میں

اافلاطون ہونا، افلاطون بننا۔۔۶۳) )

اافلاطون قدیم یونان کاایک بہت بڑا فلسفی ، طبیب اوردانشورتھا۔ ارسطو اسی کا شاگرد تھا۔ افلاطونی نظریات یونانی فلسفے پر 

اان کو نئی قوت اوروسعت بخشی ہے۔ اب یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہماری بہت اثرانداز ہوئے ہیں اورارسطونے اپنی تنقیدوں سے

اافلاطون کی عظمت کا تصور بدل گیا ہے اورایسے لوگوں کے لیے یہ محاورہ استعمال ہونے لگا ہے زبان کے محاورے میں

اافلاطون جوخواہ مخواہ اپنے اوپر مغرور ہوں اوراپنی معاشرتی زندگی میں اس کا موقع بہ موقع اظہارکرتے رہتے ہوں۔ اسی لئے

ااس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے کس طرح دوسرے ملکوں کے کرداروں کاسالہ اورافلاطون کاناتی بھی محاورے میں شامل ہوئے۔

اان کی شخصیت کواپنی طرف سے نئے معنی پہنائے ۔ کو اپنے یہاں جگہ دی اور

ساڑانا۔۶۴) ( افواہ پھیلانا، افواہ

راس رشتے سے دلچسپی نہیں ہوتی کہ وہ بات سچی ہے آادمی کو کسی بات میں افواہ جھوٹی سچی باتوں کو کہتے ہیں۔ عام

زب نے یا جھوٹی غلط ہے یا صحیح مناسب ہے یا غیرمناسب وہ توباتوں کو پھیلاتا اوران سے اپنی دلچسپیوں کا اظہارکرتاہے۔ غال

تودہلی کے لوگوں کی ایسی باتوں کا ذکرکرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ دہلی کے خبر تراشوں کا جیساکہ دستور ہے انہوںنے اپنی

ااڑادی ۔ اسی خبراڑانے کو افواہ اڑانا کہتے ہیں۔ اس سے ہمارے معاشرے کے مزاج اورخواہ مخواہ کی باتوں سے طرف سے خبر

Page 38: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

دلچسپی کا پتہ چلتا ہے ۔ مصرعہ ہے ۔اسی انداز کی ایک بات ہے۔

اڑتی سی اک خبرہے زبانی طیورکی

آاکھ کی بڑھیا۔۶۵) )

ااس آاک بھی کہتے ہیں۔ یہ پودا گرمی کی شدید اداؤںمیں پروان چڑھتا ہے اور آاکھی ‘‘ایک خاص طرح کا پودا ہوتا ہے جسے ’’

اپھول بہت تروتازہ ہوتے ہیں۔ اس کے بیج کچھ اس طرح ہوتے ہیں کہ وہ ایک ہرے خول میں بندرہتے ہیں۔ جب وہ کے پتے اور

اکھلتا ہے توچھوٹے چھوٹے بیج بالوں جیسے بہت سارے ریشوں کے درمیان ہوتا ہے جوہوامیں اڑتے پھرتے ہیں۔ انہیں بچے خول

ابڑھیا جواڑتی آاک کی بڑھیا کہتے ہیں یعنی سفید بالوں والی پکڑتے ہیں اورپھراپنی پھونک سے اڑدیتے ہیں۔ ان بالوں کو اوربیج کو

پھرتی ہے۔ ایسی ہی ایک مشین بھی ہے جس میں شکر سے سفید سفید بالوں جیسا ایک گھچا پیدا ہوتا ہے۔ اسے سمیٹ لیتے

آاگیا اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہیں۔ وہ بھی بڑھیا کے بال کہلاتے ہیں۔ یہ محاورہ جومشینی دورتک

بوڑھی عورت اپنے سفید بالوں کے ساتھ بچوںاور بڑوں کو کسی نہ کسی خاص معنی میں متاثر کرتی ہے۔ کہانیوں میں بھی اکثر

آاتاہے مگرشفقت ومحبت کے ساتھ نہیں ایک طرح مکاری کے ساتھ۔ بوڑھی عورتوں کا ذکر

ساکھاڑپچھاڑ۔۶۶) )

ااس کو اکھاڑدیا گیا وہ اکھڑگیا اس کی جڑاکھڑگئی جڑبنیاداکھاڑکر پھینک آاتا، جیسے اکھاڑنا بھی بیشتر اچھے معنی میں نہیں

اان میں فردیا جماعت کا ایسا عمل شامل ہے جوذاتی طور پر یاجماعتی دی گئی۔ یہ سب ایک طرح کے سماجی عمل ہیں اور

آاتاہے یا طورپر نقصان دینے والاہو۔ یہی صورت پچھاڑکی ہے۔ پچھڑجانا،پچھاڑکھانا، پچھاڑدینا شکست دینے کے معنی میں

پھراس میں بے چینی اورناکامی کا مفہوم شامل رہتاہے۔

یہاں اکھاڑپچھاڑانہیں مطالب کا جامعہ ہے اوراس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ بہت اکھاڑ پچھاڑکی یا اکھاڑپچھاڑکھائی۔

اکھاڑپچھاڑمچانا بھی اسی دائرہ میں شامل ہے۔ پہلے زمانہ میں جب جھڑپیں ہوتی تھیں ، لوٹ مار ہوتی تھی۔ اسی کو

اکھاڑپچھاڑبھی کہتے تھے۔ اکھاڑپچھاڑمچانا اسی طرح کا عمل ہے۔ فتنہ فساد برپا کرنے والوں کو بھی اکھاڑپچھاڑمچانے والا

کہتے تھے۔ خاندانی جھگڑے جب بڑھ جاتے تھے تووہ بھی ایک طرح کی اکھاڑپچھاڑتھی جس کے ذمہ دار خاندان ہی کے

لوگ ہوتے تھے۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ محاورہ بھی ایسے محاورات میں سے ہے جوسماج کی فطرت انسانی ذہنی روش اورسماجی،

معاشرتی اورخاندانی تنظیم کو بگاڑدینے کا عمل اس میں شامل ہے۔۔

Page 39: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ساکھڑی باتیں کرنا۔۶۷) ساکھڑی )

جما،جما کرباتیں کرنا ایک طرح کا سماجی عمل بھی ہے اورشخصی عادت بھی۔ اس کے مقابلے میں اکھڑی اکھڑی باتیں

آاتاہے، یعنی باتوں کوبے دلی سے کرنا۔ کٹے پھٹے جملے اوربے ربط فقرے استعمال کرنا یہ ذہنی رویہ سماجی نفسیات کا کرنا

آادمی جب بیزار ہوتا ہے ، بات نہیں کرنا چاہتا توخواہ مخواہ کی بے تکی باتیں کرتا ہے، بے ربط اوربے موقع سوال رصہ ہوتا ہے۔ ح

آاتا ہے۔ ہم کسی بات وجواب کرتاہے۔ وہی تواکھڑی اکھڑی باتیں ہیں۔ ہمارے یہا ںاس طرح کا عمل طرح طرح سے سامنے

 پرتوجہ دینا نہیں چاہتے سننا نہیںچاہتے بات کو ڈھنگ سے کہنا نہیںپسند کرتے ٹلادینا چاہتے ہیں تویہ رویہ اختیارکرتے ہیں۔

آاZاتا ZاPینا۔۶۸) )

یہ ہمارے معاشرتی رویوں کا ایک نمایندہ محاورہ ہے۔ ہمارے یہا ںدرمیانی طبقہ اوراس میں بھی نچلا درمیانی طبقہ ذمہ داریوں

اا اگرضرورت اان کے لئے کچھ کریں۔ مثل آاگے بڑھیں اورجوقریب ترلوگ ہیں سے گھبراتا ہے اورچاہتا یہ یہ کہ دوسرے ہمت کرکے

ا ان سے اچھا سلوک کریں خاطر تواضع مناسب سطح پر لین دین اورضرورت وقت امداد وتعاون سے بھی پڑے توشرافت کے ساتھ

 گریز نہ کریں۔

حکومت کی طرف سے کوئی ایسا انتظام نہیں ہے یاسوسائٹی نے کوئی ایسا ادارہ قائم نہیں کیا جس میں دوسروں کی بھلائی یا

رت ضرورت ان کی مددکا کوئی آاتے ہیں اوروہیprovisionوق ہو اس میں زیادہ تررشتہ دار عزیز دوست اورہمدردی ہی کام

آاگاتاگا لیتے ہیں اوریہی سماجی عمل کی خوبصورتی ہے۔

آاZا پیچھا دیکھنا۔۶۹) )

آادمی غیرذمہ دار ہوتے ہیں کوئی فیصلہ کرکے یا اس پر عمل کرتے وقت انجام نفع نقصان اوراچھائی برائی پر نظر رکھنا بہت سے

آاپ کو اس کا عادی کو ذہن میں نہیں رکھتے جو چاہے کہہ دیتے ہیں جوچاہے کردیتے ہیں وہ یہ کبھی غورنہیں کرتے اپنے

آاگا پیچھا سوچ لیں احتیاط برتیں اورکسی بھی فعل کے معاملہ میں اپنی ذمہ داری کے احساس کو نہیں بناتے کہ بات کا

 فراموش نہ کریں۔

آاZاروکنا۔۷۰) )

آاگاروکنا بھی ایک طرح کا وہ عمل ہے جوہماری سماجی نفسیات سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں کسی بھی معاملہ میں جو

آاگا ہونا روکنا کہا جاتا ہے دشمن کے حملہ کے وقت اس کے آاتی ہیں ان کو روکنایا روکنے میں معاون ہونا ادا پیش مشکلات ابت

آاگاروکنا کہلاتا ہے ۔ پہلے حملے کو روکنا

Page 40: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آاکر برات کا آایا ہے کے لوگ آاتی ہے وہ یہ کہ رعایا پر آاگا روکنے کی ایک اور صورت سامنے شادی میں دلہن کو لے جاتے وقت

آاگا روکنا کہا جاتا ہے اورجیسا کہ اس سے پیشتر اشارہ کیا راستہ روکتے ہیں اس کو باڑرکائی کہا جاتا ہے لیکن ہے وہ بھی

 جاچکاہے۔ بہت سے محاورہ ہماری سماجی فکر ومعاشرتی عمل اور سماجی رویوں کو ظاہرکرتے ہیں۔

آاگ بگوPہ ہونا ۔۷۱) )

ایسے ملکوں کا محاورہ ہے یا ان کی زبان یا طرز بیان میں داخل ہوسکتا ہے جہاں شدت سے گرمی پڑتی ہے سخت گرم لونہیں

آادمی ذرا سی بات پر بھڑک رکھتا ہے آاگ بگولہ کہلاتا ہے جہاں آاگ کا درجہ رکھتے ہوں وہیں توبگولے چلتی ہوں وہیںتوبگولے

رصہ کا اظہار کرتا ہے ایک اپنے معاشرے میں جہاں تحمل اور اوراپنے شدید غم وغصہ پر بھڑک اٹھتا ہے اوراپنے شدید غم وغ

رصہ کے عالم میں ہوں یاغم والم کے آاتی ہیں خواہ وہ غ ابردبازی کم ہوتی ہے وہیں اس طرح کی جذباتی روشیں زیادہ سامنے

رت احساس کا غلبہ مشرقی قوموں میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ جذبات سے متعلق ہوں یہاں شد

آاگ آاگ کوئی نہیں کھاتا لیکن مداری شعلہ اگلتے اور ااگلے گا یہا ں آاگ کھائے گا انگار ے آاگ سے متعلق ایک ہم محاورہ

آاتے ہیں۔ رصہ ہے مگراسی کے ساتھ نگلتے نظر یہ ایک طرح کا نظر بندی کا عمل بھی ہے۔ اوریہاں کی جادوگری کا ایک ح

آادمی جس طرح کے اعمال اختیار کرتا ہے وہی اس کے سنسکار میں جاتے ہیں اس کا ایک اور سماجی مفہوم ہے وہ یہ کہ

آاتی ہے ایسی ااتر کرہی آاخر ہونٹوں تک کوئی بات دل سے گذرکریا دماغ سے جواس کے دل میںہوتا ہے وہی زبان میں ہوتا ہے

آائے گا۔  صورت میں جس طرح کے کردارکا کوئی انسان ہوگا وہی اس کی رفتار وگفتار میں بھی سامنے

آاگ بجھانا ، یا Pگانی بجھائی کرنا۔۷۲) آاگ Pگانا، )

یہ سماجی عمل ہے لوگ جھوٹ بولتے ہیں فتنہ پردازیاں کرتے ہیں یہ سیاسی مقصد سے بھی ہوتا ہے سماجی مقاصداس میں

شریک رہتے ہیں۔ لوگوں کی اپنی کمینہ فطرت بھی ایسی صورت میں چاہیے افراد میں تعلقات بگاڑے جاتیں یا خاندانوں میں

 بہرحال وہ ایک سماجی سطح پر یہ کردار ہے۔

آاگ آاگ اگلنا آاگ پھونکنا آاگ پانی کا بیرہونا آاگ بھڑکانہ یا آاگ سے متعلق محاورات سے ہوتا ہے جیسے بعض جس کا اظہار

آاگ ہوئی تودھواں ہوگا وغیرہ۔ آاگ دینا لگاکر تماشہ دیکھنا

آاگ دھونا اس سے بھی زیادہ آاگ روشن کرنے کی کوشش کوکہتے ہیں۔ آاگ جوڑنا بعض محاورے عجیب وغریب ہیں جیسے

آاگ عجیب وغریب محاورہ ہے ۔چلم پر رکھنے کے لئے جب انگار وں کو جھاڑا جاتا ہے اور راکھ الگ کی جاتی ہے تواسے

 دھونا کہتے ہیں۔

Page 41: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آاZو کرنا۔۷۳) آاZو آاZے چلنا ، یا ہونا ، آاZے )

آاگے چلتا تھا شاہی سواری کے ساتھ خیمہ بردار آاگے آاگے چلنا ہمارے یہاں ایک تہذیبی قدرہے ہراول دستہ ہمیشہ آاگے

آاگے ا بزرگوں کے آاگے رہتے تھے ان کو پہلے سے خیمے چھولدار یاں اور ڈیر ے لگا نے ہوتے تھے احتراما اوردوسرے خادم ہمیشہ

آاگے چلتے تھے۔ اورمقصدیہ ہوتا تھا کہ کسی بھی رکاوٹ دشواری اورخطرہ سے ان کو بچایا جائے۔

آاگاڑ بھی لکھا گیا ہے۔ یہ تلفظ آاگاڑو آاگا ڑو آاگاڑی کے ساتھ آاگاڑی آاگوبھی دیا گیا ہے اور آاگوہ جہاں محاورے کے ساتھ

آاگا‘ تلفظ ہویا ی کا دونوں کو وکے تلفظ میں بدل دیتے تھے اورگاڑھاکو راجستھانی اثرات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ لوگ ’’

گاڑہوکہتے ہیں اور’’مارا‘‘ کوماروکہتے ہیں۔ محاورے ہماری زبان کی قدیم شکل کو محفوظ رکھتے ہیں اس میں تلفظ املا بھی

شریک ہے۔

آاZے خداکانام۷۴) )

اخداکانام ہے ساقی آاگے آاگئے یہاں تک

آائیڈیل ہے ہم جوعقیدتوں خیالوں‘ اورخوابوں میں بھی شریک رہتا ہے۔ یہاں یہ ظاہرکیاگیا ہے کہ ہم خداہمارے یہاں ایک فکری

راس کے بعدمیں خدا کانام ہے اورکچھ نہیں۔ آاگئے ہیں جس انتہا تک

ااس کے بعدخدا کانام اچکا ہے اور آا آاخر کہہ سکتے ہیں وہ مقام معلوم ہوا کہ فکروخیال اورسعی وعمل کی وہ حدجسے ہم نقطۂ

آائی کہ صورت جوبھی دد کے کلمہ کے بات پھروہیں ہے۔ ایک محاورہ ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں سوائے خداکے نام اورمحم

آاخرہے نہ اس سے پہلے رول ہے وہی ہو انتہا کوپہنچ کرہم خدا کے نام کو سامنے رکھتے ہیں اس لئے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ وہی ا

کچھ تھا اورنہ اس کے بعدکچھ ہے۔

آائی ہے۔۷۵) آاZے �ے ہوتی )

ہمارامعاشرہ بنیادی طورپر روایت پرست ہے اورانسان نے اپنی راہ ارتقاء کے مختلف مرحلوں میں سوچاہے سمجھاہے نئے فیصلے

آائی ہے اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ہم جو آاگے سے ہوتی کئے ہیں مگرمعاشرہ بنیادی طورسے روایت پسند رہا ہے یہ کہنا کہ

آاتی ہوئی ایک روایت ہے۔ کچھ سوچ رہے ہیں کررہے ہیں وہ پہلے سے چلی

آائی ہے کہ اچھوں کو براکہتے ہیں  ہوتی

آاخراچھوں آانکھ بند کرکے روایت کی لکیر پر ہوتا رہا ہے یعنی اپنی سوچ کا عمل یہاں بھی موجود نہیںہے صدیوں کا سفر

Page 42: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آادمی نے روایت کا سہار لیا خود سوچا نہیں اوریہی انسانی معاشرے کوکیوں براکہا جاتا رہا ہے یہ کتنا بڑا سوالیہ نشان ہے مگر ہر

ااس پر کبھی نہیں سوچا۔ اور ااس نے ایک بار کسی بات کو مان کر پھر کی بہت بڑی کمزوری نارسائی اورناکامی ہے کہ

Tradition Boundروایت پرستی پرہمیشہ فخرکیا۔

ساٹھاکے کھانا۔۷۶) آاZے کا ساٹھاکرکھانے والا ،یا آاZے کا )

ااٹھاکھاکرنا یہی محاورہ دوسرے الفاظ میں بھی ملتا ہے ’’اوپر کا پڑا کھانا‘‘ اورہمارے معاشرے کی شدید کمزوریوں کی آاگے کا

ااس سے پیٹ کی راشارہ کرتا ہے یعنی بغیر محنت کے یابغیر حق کے کھانا جو مل گیا جسے مل گیا جہاں سے مل گیا طرف

راس راس مجموعی عادت کو آاگ بجھالی یا اپنی کوئی بھی معاشرتی ضرورت پوری کرنا ہے معاشرے کی یاسوسائٹی کی

محاورے میں پیش کیا گیا ہے جس میں ایک گہرا طنز موجودہے۔

آاZے ڈاPنا۔۷۷) )

ادستور ہے کہ کسی بیوہ عورت کے گذارے کے راس کے معنی سامنے رکھنا بھی ہے اوربیوہ کی مدد کرنا بھی ہے۔ ہندوؤں میں

رب مقدور کچھ روپیہ دیتے ہیں۔ ااٹھاونی یا تیرہویں کے دن حس ااس کے عزیز رشتہ دار خیال سے

اان کے راس امر کی ہے کہ ادنیاوی معاملات سے بھی رشتہ رکھتی ہیں ضرورت راس کے یہ معنی ہیں کہ ہماری رسمیں زندگی اور

معنی اورمقصد پر نظر رکھی جائے۔

آاZے کوکان ہونا۔۷۸) )

آائندہ کے لئے ذہن کے ہوشیاری ہونے سے مراد ہے کہ اب جوکچھ امراد نہیں ہے بلکہ آاگے یا پیچھے ہونے سے یہاں کانوں کے

آائندہ کے ہم نے سنا ہے دیکھا ہے اس سے ہم نتیجہ اخذ کریں ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم لوگ

لئے احتیاط اوراخذ نتائج کے عمل سے اکثرمحروم رہتے ہیں۔

آاZے ہاتھ پیچھے پات۔۷۹) )

ااس کے لئے ہوتا ہے آادمی جس کے پاس تن ڈھانکنے کے لئے بھی کچھ نہ ہویہ محاورہ پات پیڑکے پتہ کوکہتے ہیں ایسا غریب

ہندوستان میں سادھوسنت اور خاص طورپر پر جین مت کو ماننے والے منی ننگے رہتے ہیں۔ جوغربت کے باعث نہیں ہوتا یونان

رصہ جسم کو انجیرکے پتے سے ڈھکتے تھے۔ وہ ایک فنکارانہ رویہ تھا غربت میں بعض دیوتاؤں یا قدیم انسانوں کے پرائیوٹ ح

رافلاس کو بھی اس پس منظر میں خصوصیت سے شامل کیا اغربت و وہاں بھی شریک نہیں تھی مگرہمارے معاشرے میں

گیاہے۔

Page 43: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ااس کے گھڑے پر پیالہ بھی نہیں ہے یاننگی کیا اان میں ایک محاورہ یہ بھی ہے کہ اغربت پرہمارے یہاں بہت محاورے ہیں

نہائے کیا نچوڑے بھوکا ننگا فقیرجیسے محاورے ہمارے معاشرے کی غربت کوظاہرکرتی ہے۔

ساPٹا توا ہونا، بے حدکالا ہونا۔۸۰) )

ااس کی تعریف بھی کی جاتی تھی۔ لیکن زیادہ کالے رنگ کوناپسند بھی کیا جاتا رہا ہندوستان میں سانولا رنگ توہوتا ہی تھا

االٹا توا ہے۔ اس سے ہم یہ بھی اندازہ آادمی کیا ہے االٹا توا ہونا بہ حیثیت محاورے کے ہمارے ہاں رائج ہوا کہ وہ ہے اسی لئے

اا اچھے رنگ والے ہوتے تھے۔ ا ان لوگوں نے بطورمحاورہ رائج کیا جو جونسبت االٹے لفظ اورمفہوم کے ساتھ کرسکتے ہیں کہ یہ

االٹی گنگا اا آاتے ہیں مثل ااس کے ذریعہ سامنے بہت محاورے بنے ہیں اور ہمارے معاشرے کی ذہنی سطح کے مختلف رنگ

آانا ،الٹے آانا فوری طورپر واپس لوٹ االٹے پاؤں پھر االٹی سیفی پڑھنا یعنی بددعا دینا ۔ بہنانا، بات کوالٹ پلٹ کر دیکھنا، یا دینا۔

آاتا ررعلاقہ استعمال ہوتا تھا ملک اس معنی میں نہیں ملک کا ہونا، بے حد بیوقوف ہونا ملک کا لفظ ہماری عام زبان میں بہ طو

آاتا ہے۔ تھا جس معنی میں اب

قوم کا لفظ بھی اپنے معنی اورمفہوم کے اعتبار سے بہت سی تبدیلیوں سے گذرا ہے ایک وقت میں وہ قبیلے خاندان اورگروہ کے

آاج ہم ہندوستانی قوم ااس کے معنی ایک خاص سیاسی اورقانونی اسٹیٹ میں رہنے والے کے ہیں ۔ جسے آاتا تھا اب معنی میں

نیشن کے معنی مراد لیتے ہیں۔Nationکہتے ہیں اور

آانا۔۸۱) ساPٹے �انس آانا یا ساPٹی �انسیں )

ااسے’’ گھنگروبجنا‘‘ کہتے ہیں کہ وہ خودایک محاورہ ااکھڑجاتی ہے دہلی میں راس سے مراد ہے جان کنی کاعالم جب سانس

ہے۔

( اPش کرنا۔۸۲)

ااس میں سب شریک نہیںہوتے تھے اان کا پسندیدہ کھانا ہوتا تھا وہ خاصہ کہلاتا تھا۔ بادشاہوں یا امیروں کے لئے الگ سے جو

اا مغل ررتحفہ کسی کوکچھ دیاجاتا تھا تووہ’’ الش‘‘کہلاتا تھایہ ترکی لفظ ہے اورغالب ااس میں سے جب بطو امیر یا بادشاہ

آایا ہے۔ بادشاہوں کے ساتھ

( اPف۸۳)

راس اعتبار سے خاص معنی رکھتا ہے۔ ابتداء کو ظاہر کرتاہے خدا کے نام یعنی ’’اللہ کا رف تہجی میں پہلا حرف ہے اور حرو

اگداگری کرنے کوکہتے ہیں۔’’ رف کھینچنا پہلا حرف ہے’’ الف اللہ‘‘ کامحاورہ ہے اوراس کے معنی سب سے الگ اورجدا ۔ال

Page 44: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آاتاہے اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ ننگا الف تھا ۔ الف‘‘ کے ساتھ عریاں ہونے کا تصور بھی

اخدا کی ذات بھی ہے اورایسے فقیر کوبھی کہتے ہیں جو دوسروں اپرش‘‘ ہندوفلسفہ میں خدا کوبھی کہتے ہیں ’’الکھ پرش‘‘ ’’

ردس ہے۔ اسی لئے ایک مقدس ندی کانام’’ الکھ نندا آازاد اورالگ تھلگ رہتا ہوہندوکلچرمیں’’ الکھ‘‘ کالفظ بہت اہم اورمق سے

آارپی اتارنا‘‘ بھجن پیش کرنا وغیرہ وغیرہ۔ ہے‘‘’’ الکھ داس‘‘ نام رکھا جاتا ہے ’’الکھ وجگانا‘‘ یعنی جوش عقیدت پیدا کرنا۔’’

راس کے علاوہ کچھ مانگنے کو بھی درویشوں کی جگہ پر’’ الکھ جگانا‘‘ کہتے ہیں۔

( اPگ پڑنا، اPگ تھلک ہوجانا یا اPگ تھلگ کردیاجانا۔۸۴)

بہت سادہ سا محاورہ ہے جواب بھی استعمال ہوتا ہے کہ میں الگ پڑگیا ۔یہ بھی ممکن ہے اورہوتا رہا ہے کہ کوئی گروپ

آادمی اپنی جان بچانے کے لئے یہ کہے کہ آادمی کے چلنے نہ دے اوریہ بھی ہمارا ایک سماجی رویہ ہے کہ یاگروہ کسی ایک

میں اکیلا پڑگیا تاکہ وہ الزام سے بچ جائے۔

( اPلہ اPلہ کرنا۔۸۵)

رز فکر کے تحت بھی ہوتا اخدا سے نسبت دیتے ہیں ایسا صوفیانہ طر مسلمانوں میں ایک معاشرتی رویہ یہ ہے کہ وہ اپنی ہربات کو

آاداب کے تحت بھی اوراس میں معاشرے کی یہ ذہنی روش بھی شامل رہتی ہے کہ اس طرح وہ اپنی انفرادی یا ہے تہذیبی رسوم و

آاتے ہیں کہ اللہ کی اایہ کہتے نظر آانا چاہتے ہیں مثل اچھپانے کے لئے معاملہ کو مذہب کی چھترچھایا میں لے ابرائی اجتماعی

ااس کی غلطی ا اس کی ناکامی میں راس بات کو بھول جاتا ہے کہ مرضی کا چاہا ہوتا ہے بندے کا چاہا نہیں ہوتا یہ کہنے والا

کو بھی دخل ہوسکتا ہے اور دوسروں کی مکاریوں کوبھی ہم ہر بات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے اسی طرح کی باتوں

ارخ بات بات میں مذہب کی طرف راس بات کا کا سہارا لیتے ہیںچونکہ مذہب ہماری نفسیات میں داخل ہوگیا ہے اسی وجہ سے

اا اللہ پھرجاتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تہذیبی اظہار میں یہ رویہ کہیں کہیں بہت خوبصورتی پیدا کرتا ہے۔ مثل

آارہا ہے۔ اخدا یاد آاخری وقت ہے اور نگہبان، اللہ حافظ، اللہ اللہ کرنا یا ہونا اس کی اللہ اللہ ہورہی ہے یعنی

ررراہ ہے رم واپس اب س د

عزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے

آاگئی۔ یاتم کوکسی بات سے کیا واسطہ تم تواللہ اللہ کرو۔ ررتعجب کے لئے بھی اللہ اللہ کہا جاتاہے جیسے اللہ اللہ یہ نوبت اظہا

آامین کا بچہ ہونا۔۸۶) آامین �ے بچہ پاPنا، یا اPلہ ( اPلہ

جوبچے بہت لاڈلے ہوتے ہیںاورجن کے ساتھ خاندان یاماں باپ کی بہت تمنا ئیں وابستہ ہوتی ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے۔

Page 45: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اخدا ماری۔۸۷) ( اللہ ماری یا اللہ مارا یا

ااس موقع پر بولتے ہیں جہاں عورتیں نگوڑا اورمواوغیرہ بولتی ہیں یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کچھ یہ محاورہ

راس کو استعمال نہیںکرتے۔ محاورے ہمارے یہاں صرف عورتوں سے متعلق ہیں مرد

سخدا ر�یدہ، بہت نیک۔۸۸) ( اPلہ والا،

راسے عورت کے ساتھ وابستہ کیاجائے یا مرد کے لئے اللہ نورنام بھی ہوتا یہ محاورہ دہلی میں فقیر کے لئے استعمال ہوتا ہے چاہے

ہے لیکن جب اللہ کانورکہتے ہیں تواس سے مرادنورانی صورت ہوتی ہے ڈاڑھی کو بھی اللہ کانور کہاجاتا ہے ۔

آانا۔۸۹) ( اPلہ کے Zھر�ے پھرنا، شدید بیماری �ے واپس

راسی لئے یہ محاورہ بھی بولا جاتا ہے کہ وہ اللہ کوپیارا ہوگیا۔ اقربت کا ذریعہ ہے جس کایہ مطلب بھی ہے کہ موت خدا سے

یہی مہرہونا۔۹۰) Pا )

راس کے معنی یہ ہیں کہ وہ یلہی مہر ہے تو ردقہ ہوتی ہے اسی لئے جب یہ کہا جائے وہ ا امہری دستاویز مص جس طرح سے کوئی

ااس سے انکار نہیں ہوسکتا۔ ردقہ ہے۔ تصدیق شدہ ہے اور رقم وہ بات وہ وعدہ نامہ ہر طرح مص

( اPلہ کا جی )جیو۔جان( ہونا۔۹۱)

ااسی کے مطابق اس کی ااس کا ذہن اور ابوجھ سے بالکل محروم ہوتا ہے بس ایک معصوم جانور جیسا اسوجھ آادمی بالکل جو

زندگی ہوتی ہے۔ اس کو اللہ کی جی کہتے ہیں یہاں اللہ کا جیو کہنا ایک خاص تہذیبی معنی بھی رکھتا ہے وہ یہ کہ اللہ

ااس کی اپنائی ہوئی زندگی کی قدر یں ہوتی ہیں ااس کا ماحول اور آادمی کو توہرانسان کومعصوم اوربھولا بھالا پیدا کرتا ہے یہ تو

راس لئے کہ جانداروں یا جانور وں میں تجربہ توان کے ذہن کوبدلتا ہے ورنہ بیشتر وہ معصوم آاماد ہ کرتی ہیں جواسے مکاری پر

ہوتے ہیں اوراپنی فطرت پر قائم ہوتے ہیں ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے معاشرے میں ہربات کو کسی نہ کسی پہلو

سے خدائی ہی سے نسبت دی جاتی ہے۔

سادھر ’’اPی اPلذین ولا اPی اPلذین‘‘۹۲) بادھر کا نہ بذی نہ ااPل سا ااPلذی نہ با )

ااردوپن پیدا کردینا ہمارے زبان دانوں کا بڑا ااس میں دین کا نہ دنیا کا عربی زبان کے فقرہ کو اپنے محاورے میں ڈھال لینا اور

ااسے اپنے طورپر راس سے پتہ چلتا ہے کہ اگرہم نے دوسری زبانوں اورادبیات کے نمونوں سے کچھ حاصل کیا ہے تو کارنامہ ہے اور

آایا ہے اوراپنے ذہن کے سانچوں میں ڈھالا ہے۔ اترکی یا تاتاری زبانوں سے ااردو میںتوبہت کچھ عربی فارسی یا پھر یہ اعتراض کہ

راس کو دیا نتد اریEnrichغلط ہے ہم نے ان کے ذریعہ اپنی زبان کوزیادہ کیا ہے مختلف اعتبارات سے ترقی دی ہے

Page 46: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

رت عملی سے نہیں جوعلمی اورایک ارتقاء پذیر زبان کے تاریخی سفر سے وابستہ کرنا چاہیے محض کسی سیاسی حکم

دیانتداری کے خلاف ہے۔

سخداکانام۔۹۳) سخو5 آاپ �ے )

آادمی خود مرکزیت کا راس نفسیات کاپتہ چلتا ہے کہ ہر یعنی اپنے سے اچھا توصرف خدا کانام ہوتا ہے۔ اس سے سماج کی

شکار ہوتا ہے کہ صرف میں سب کچھ ہوں اورمجھ سے بہترکوئی نہیں بس خدا کانام ہے اگراس اعتبار سے محاوروں پر غورکیا

جائے توسماج کہ ذہن وزندگی سے کتنے پردے اٹھتے ہیں جن کے اندر ہم جھانک نہیں پاتے۔

آایا دیکھنا۔۹۴) )

راس اعتبار سے بڑی معنی خیزبات ہے کہ انسان دوسروں کے ایک ایک عیب کو ڈھونڈتا ہے اوراپنی معنی اپنے اوپر نظرکرنا۔ یہ

ابرائیںا کیاہیں یہی محاورہ اس شکل ااس کی اپنی ذات کی اچھائیاں طرف نظرنہیں کرتا کہ وہ کیا کررہا ہے کیوں کررہا ہے اورخود

آاتا یہاں بھی مراد خودغرضی ہے آاتا ہے اوراس سے باہر کچھ نظرنہیں آانا یعنی اسے اپنا وجود ہی نظر آایا نظر آایا ہی میں بھی ہے

رامکانی طورپر صحیح پیمانوں سے دیکھنا اورپرکھنا شامل ہے ۔ صرف آاپ کو خودشناسی نہیں۔ خودشناسی میں تو اپنے

آادمی جب دوسرے کی نظر سے خودکودیکھتا ہے آاپ اپنی پرستش کرنے کے جذبہ سے خود کچھ دیکھنا نہیں خودغرضی یا

ابرے ہیں اورتوسب اچھے ہیں۔ آایا ہے براہے‘‘ یعنی ہم ہی تواس نتیجہ پر بھی پہنچتا ہے اوریہ بھی محاورہ ہے’’

( اپنا خون بہانا۔۹۵)

راس کی بڑی اہمیتBlood Relation Shipراس سے مراد ہے اپنے سے قریب تر رشتہ داری ) (ہونا۔ پہلے زمانہ میں

تھی اوراپنائیت کے ساتھ بہت سارے رشتہ جڑے ہوئے ہیں اورمحاورے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں خون کارشتہ صرف محبت کا

رشتہ نہیںہوتا مگر محاورہ میں اسے ہمیشہ کے لئے جوڑدیا اوراس کے خلاف ہماری زندگی میں جو ہزار درہزار واقعات اورثبوت

آائی ہے کہ خون کارشتہ اپنائیت کا رشتہ موجود ہیں۔اورتلخ تجربات اس کی شہادت دے رہے ہیںلیکن ابھی تک وہ بات زبان پر

اسی کے ساتھ یہ محاورات ذہن میں رکھے جاسکتے ہیں کہ’’ اپنا مارے گا توچھاؤں میں ڈالے گا‘‘ معلوم ہوا کہ اپنوں سے

نیکیوں کی توقع رکھی جاتی ہے اسی کے ساتھ یہ محاورہ بھی ہے کہ’’ شکایت اپنوں ہی سے ہوتی ہے‘‘ یہ اپنے طورپر کوئی

غلط بات نہیں ہے لیکن اسی کے ساتھ جب ہم یہ محاورہ دیکھتے ہیں کہ اپنوں کا کیاشکریہ سوال یہ ہے کہ اگراپنوں کاشکریہ

اان سے شکایت کیوں کی جاتی ہے یہ سماج کے غلط رویوں کی طرف اشارہ ہے یہ الگ بات ہے کہ ہم نے ادا نہیں کیا جاتا تو

اان سے اخذنتائج کی غرض سے کبھی اعتناء نہیںکیا۔ توجہ نہیں دی۔اوران سے محاوروں کواپنے معاشرتی مطالعہ کے لئے اور

Page 47: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

نتیجہ اخذ نہیںکئے۔

آاپادھاپی پڑنا۔۹۶) )

آاپ آاپا سنبھالنا بھی ایک محاورہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے یعنی وہ صورت پیدا ہوجانا کہ چھینا جھپٹی ایک عام رویہ بن جائے

کو ٹھیک ٹھاک رکھو۔اس کے بغیردوسرے تمہیں یاکسی کو تحسین کی نظرسے نہیں دیکھیںگے۔

آاپے �ے باہرہونا۔۹۷) )

راس کے معنی ہیں اپنی حدود اورموقع کی نزاکت کونہ سمجھنا اورغصہ وغم پر قابو نہ پانا اوربے یہ بے حداہم محاورہ ہے ۔

ابرے سلوک بھی ہیں نقصان پہنچانا توڑپھوڑکرنا مارپیٹ کرنا ابرا بھلا کہنا بھی شامل ہے اور دوسرے راس میں محابااظہار کردینا

عذابوں میں شامل کرنا سب ہی شامل ہے۔

آاپ سے متعلق بہت سے ااردو میں اس اعتبار سے یہ نہایت اہم محاورہ ہے اوراخذ نتائج کی طرف ذہن کو مائل کرتا ہے۔

 دلچسپ شعر بھی ہیں جیسے

آاپ سب کچھ ہیں آاپ، آاپ ہیں

 اور ہیں اور، اورکچھ بھی نہیں

( اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ۔۹۸)

راس میں ڈفلی چھوٹے سے ڈف کوکہتے ہیں اس کو بجایا جاتا ہے اوردوسرے سازوں کے ساتھ اس کی لے ملائی جاتی ہے۔

کبھی کسی راگ کو بھی دخل ہوسکتا ہے بہرحال کسی بھی موسیقی سے نسبت رکھنے والی پیش کش کے لئے یہ ضروری

آاوازملائیں جب سماج میں افراتفری پھیل جاتی ہے اور کوئی کسی آاواز میں ااس میںشامل ہوں وہ ایک دوسرے سے ہے کہ جولوگ

ااس آاگے کسی کو اہمیت نہیں دیتا توسماج بکھرجاتا ہے اور کا ساتھ دینا نہیں چاہتا اپنی اپنی اپنی کہتا ہے اوراپنی سوچ کے

کی مجموعی کوشش جواچھے نتیجے پیدا کرسکتی ہے ان سے محروم رہ جاتا ہے اسی وقت یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں اپنی اپنی

آاگے ڈفلی اوراپنا اپنا راگ ہے۔ کسی کو کسی دوسرے کی کوئی پرواہ نہیں ہرشخص اپنی مرضی کا مالک ہے اوراپنی رائے کے

کسی کی بات کوکوئی اہمیت نہیں دیتا۔ یہ سماج کا کتنا بڑا مسئلہ ہے جس سے ہم گزرتے رہے ہیں اورگذررہے ہیں۔

ساPٹی پٹی پڑھانا۔۹۹) )

ایک قدیم محاورہ ہے جس کا اندازہ پٹی پڑھانے سے ہوتا ہے پٹی پیمانہ جیسی ایک لکڑی ہوتی ہے جس پرپہلے زمانہ میں

Page 48: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آارکائیوز میں رکھی راس طرح کی پٹیاں جنوبی ہندوستان کے مندروں میں محفوظ تھیں اوراب میوزیم اور تحریرلکھی جاتی تھی

ااس کے ا اس نے یہ پٹی پڑھادی آاتی ہونگیں اسی سے یہ محاورہ بناکہ ہوئی ہیں پہلے یہ کتابوں اوررسالوں کی طرح پڑھانے کے کام

راسی کو آادمی کو غلط سلط بھی سمجھایا بجھایا جاسکتا ہے ۔ ااس کا اپنا مطلب سمجھایا اب ایک ناواقف ذریعہ سکھایا اور

الٹی پٹی پڑھانا کہتے ہیں جو غلط ارادے رکھنے والے لوگ کیا کرتے ہیں۔

’’الٹی سیدھی باتیں کرنا‘‘ ایک الگ محاورہ ہے جس میں یہ پہلو چھپاہے کہ وہ بات بیشک کرتے ہیں مگرسیدھی سچی نہیں

ران باتوں کا کوئی تعلق ہوتا ہے یہ گویا اا ن کی عقل وتجربہ سے آاتی ہے وہ کرتے ہیں نہ اان کی سمجھ میں الٹی سلٹی جوبات

باتیں کرنیوالوں کے رویہ پر تبصرہ ہے ۔

ساPٹی Zنگا بہانہ۔۱۰۰) ساPٹی Zنگاپہاڑکو ،یا )

آاگے بڑھتی ہے اسے آاتی ہے اورمیدانوں میں رہتی ہوئی ااترکر االٹی بات کے لئے کہا جاتا ہے۔’’ گنگا ‘‘پہاڑہی سے بے تکی غلط اور

پیچھے نہیں ہٹایا جاسکتا ہے ایسے موقعوں پرجب کچھ لوگ انہونی بات کرتے ہیں تویہ محاورہ بولا جاتا ہے کہ یہ توگنگاکے

االٹ کر پھرپہاڑ کی طرف کردینا چاہتے ہیں جوممکن نہیں یہ بھی سماج کا رویہ ہے کہ وہ جھوٹ کوسچ اورسچ بہاؤ کو

اجھوٹ ثابت کرنا چاہتا ہے اوراس میں جوبے تکاپن ہے کہے یا کرنے والوں کو اس کا خیال بھی نہیں رہتا یہ ہماری روزمرہ کو

کی زندگی ذہنی حالت اور زمانہ کی روش پر ایک گہرہ طنز ہے۔

( اPلہ اکبر ،اPلہ اکبر کرنا یا اPلہ اPلہ اPلہ اPلہ کرویعنی اPلہ کانام Pو۔۱۰۱)

اان پر مذہب کا روایتی اثر زیادہ ہے۔ یہ بات بات میں مذہب کوسامنے مسلمان سوسائٹی ہو یا ہندوسوسائٹی یا پھرسکھ سوسائٹی

راس کا ان کے عقیدے سے بھی رشتہ ہے اورتہذیبی روایت سے بھی رکھتے ہیں اورجوبات کرتے ہیں وہ مذہب کے نام پرکرتے ہیں

وہ لوگ جومذہب کو زیادہ مانتے بھی نہیں وہ بھی یہ الفاظ یہ کلمات اپنے اظہار ی سلیقے کے مطابق زیادہ مانتے ہیں مذہب

کا روایتی اثر یہاں تک ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ خدا کے حکم کے بغیرپتہ بھی نہیں ہلتا یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے

مگرایسی صورت میں بداعمالیاں کیسے ہورہی ہیں اوراس کی ذمہ داری کس پر ہے ۔

ااس کا اظہار اس کی گفتگو، جملوں کی ساخت راس سے بہرحال یہ اندازہ ہوتا ہے کہ معا شرہ پر مذہب کا جوروایتی اثرہے۔

اورخاص طرح کے مذہبی کلمات سے بھی ہوتا ہے۔۔

Page 49: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آامین کابچہ یا اPلہ توکلی ،اPلہ کانور، اPلہ کی جان۔ اPلہ

اللہ مارا ، اللہ ہی اللہ ہے۔ اللہ کے گھرسے پھر اہے، خدا کے گھرسے پھرا ہے، اللہ کے لوگ، الہی مہر،الہی رات یہ تمام

راس طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اس میںمذہب کا وہ روایتی اثرہے جوہماریTraditionalکلمات جو محاورے ہیں

زندگی وذہن پر مل سکتا ہے اورجس کا اظہار بات بات میں ہوتا رہتا ہے۔

آامین کا بچہ ہوجانا ظاہر کرتا ہے کہ بعض بچے بڑے لاڈپیاراوردعا درود کے سایہ میں پلتے ہیں خاص طورپر راس کے علاوہ اللہ

ایسے خاندانوں کے لڑکے جہاں بچے بہت کم ہوتے تھے۔ یہ صورت بڑی حدتک اب بھی ہے۔

ا اس کے پاس وسیلہ بھی کوئی نہیں بس جو کچھ ہے وہ اللہ آادمی کو بھروسہ کوئی نہیں ہے کہ اللہ توکلی کے معنی یہ ہیں کہ

پربھروسہ ہے کہ غیب سے جوکچھ ہوجائے توہوجائے گا۔ اللہ کسی کے دل میں ڈال دے گا توکام بن جائے گا یہ بھی ہمارے

رت مجبوری اورمعذوری کے ساتھ ایک فیصلے پر پہنچنا ہے۔ معاشرے کی حال

اامیدلگائے بیٹھے ہو۔ اللہ کا نور داڑھی کوبھی کہتے ہیں اورایسے بچے اللہ اللہ کرو یعنی یہ بات ہونے والی نہیں خواہ مخواہ کی

ااس کی قدرت کا اظہار ہے ویسے اللہ کا نور ہونا بڑی خوبیوں کی طرف کو بھی جوکم صورت ہوتا ہے کہ وہ تواللہ کا نورہے

اامید اشارہ بھی ہے کہ وہ تواللہ کے نورمیں سے ایک نور ہے۔ اللہ ہی اللہ ہے جب کسی مریض کے اچھا ہونے کی کوئی

ا اس کی اللہ اللہ ہورہی ہے۔ آاتی ہے کہ نہیںہوتی ہے تبھی یہ بات زبان پر

اللہ مارا یا خدا مارا ہمارے محاورات میں سے ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ جوکچھ تم کررہے ہو،وہ خداکی مار ہے مگرعام

راس کواللہ سنوارے کے روپ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اگرکوئی مریض بہت بری طورپریہ کلمہ محبت میں کہا جاتا ہے۔

ااس کو اللہ کے گھرسے پھرنا کہتے ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ مرجانا اللہ کے گھرجانا ہے اللہ حالت سے واپس ہوتا ہے تو

کوپیارا ہونا ہے۔

ا اس کے قریبی معنی رکھنے والا محاورہ اللہ کے لوگ ہیں یعنی وہ اللہ والے یا اللہ کے لوگ دہلی میں فقیروں کوکہتے ہیں۔

تودرویش خدامست ہیں مل گیا توبھی ٹھیک ہے نہ ملا تب بھی ٹھیک ہے اس معنی میں یہ تمام محاورے ہمارے معاشرے

یہی رات آائینہ دارہیں۔ الہی مہریا الہی رات بھی اسی طرزفکر کے نمائندہ محاورے ہیں۔ ال اوراس کے ایک خاص طرز فکر کے

یلہی مہر یہی رات کا استعمال اردو میں بہت کم ہے ا رب معراج اگرچہ ال کسی مقدس اورمتبرک رات کو کہتے ہیں جیسے ش

ااس پر خدا کی مہرلگ تصدیق کرنے کے لئے مہر لگائی جاتی ہے جس کے بعد وہ تحریر یا رقم مصدقہ ہوجاتی ہے اور جب

جائے گی تواسے کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔

Page 50: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آانچل میں بات باندھنا ۔۱۰۳) )

آاپس کے پیار کو مضبوطی راس معنی میں اہم محاورہ ہے کہ وہ آانچل پہ بہت محاورے ہیں ان میں گرہ باندھنے کا محاورہ

ااسی کی طرف اشارہ ااس کے مکھڑے کے بول ااردو کا گیت ہے آاتا ہے بات کو نبھادینے کے معنی میں بخشنے کے معنی میں

کرتے ہیں ۔

آانچل سے کیوں باندھ لیا ایک پردیسی کا پیار

آانسوؤں کا تارباندھنا۔۱۰۴) آانسوؤں �ے منہ دھونا ، آانسوںڈاPنا، آانسوںپینا، آانسوں پونچھنا، آانسوں نکل پڑنا، )

آانسوؤں سے منہ دھونا بھی اس سے ہم آانسوؤں ہی سے متعلق ہے۔ اور آانکھوں کاترہونا، آانکھوں کاڈبڈبانا، آانا، آانسوں آانکھوں میں

آانسوں آانسوں بہانے کا تصور یا تاثرہمارے ذہنوں پر کس حدتک رہا ہے اور ہمارے معاشرے نے یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ رونے اور

بہانے کے ذکر میں کن کن وادروں اورنفسیاتی حالتوں کا تذکرہ کیا ہے۔۔

آانکھ آانکھ اونچی نہ کرنا ، آانا، آانکھ س اٹھانا، آانکھ آانکھ اٹھاکر دیکھنا، آانکھ اٹھاکر نہ دیکھنا ، آانکھ اٹکنا،

آانکھیں آانکھ پڑنا،نظرادھرZئی، آانکھ بھوں ٹیڑھی کرنا، آانکھ بھرکر دیکھنا، آانکھ بند ہونا، آانکھ بدPنا، بچانا،

آانکھیں ٹیڑھی آانکھیں ٹھنڈی کرنا، آانکھوں کا �رمہ۔ آانکھوں کی ٹھنڈک ، آانکھیں پھیرPینا، پھاڑپھاڑکر دیکھنا ،

آانکھوں آانکھیں مٹکاناوغیرہ آانکھ Pڑنا( آانکھیں Pڑانا،) یا آانکھ ملانا، آانکھ �ے آانکھیں چھپانا، سچرانا، آانکھیں کرنا،

آانکھیں پتھرانا۔ میں رات کاٹنا،

ران محاورات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کے مختلف رویوں کو جوسماجی اخلاقیات سے گہرا واسطہ رکھتے ہیں ہماری سوچ

آانکھیں پھیرلینا مطلب نکل جانے کے بعد بے اا ااس پر ہمارا تبصرہ کرنا کیاکیا انداز اختیار کرتا ہے مثل سے کیا تعلق رہا ہے۔ اور

آانکھ بھر کر دیکھنا بھی ایک عام رویہ کی طرف اشارہ ہے کہ کسی کی یہ آانکھ بدلنا رویہ میں تبدیلی کرنا۔ مروتی اختیار کرنا۔

آانکھیں چارہونا ایک دوسرے کے مجال نہیں ہے کہ تمہاری طرف اس طرح دیکھے کہ اس میں احترام کا پہلو باقی نہ رہے

آانکھیں ہونا غیرضروری خواہشات نہ مناسب تمناؤں اور توقعات کو دل سے لگانے اوراپنی دیکھنے کو کہتے ہیں مگر چار

آانکھیں ہوگئیں۔ سماجی زندگی میں داخل کرنے والی عورتوں کے لئے اکثرکہا جاتا ہے کہ اس کی چار

آانکھ نہ ملاسکنا فرق وامتیاز یا نفسیاتی طورپر آانکھ ملانا برابری کے رشتہ کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھنا ہے اور آانکھ سے

اات کی ہمت نہیں ہوتی بشرطیکہ وہ غیرت شخص ہو۔ ا اس کے بعد سامنے جر شرمندہ ہونا کہ

Page 51: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

رادھر آانکھ ملاکر گفتگو نہ کرسکے اوربات کو آادمی کسی سے آانکھیں چرانا بھی سماجی عمل ہے اوروہی کہ نفسیاتی طورپر

اادھرٹالنا چاہیے۔ رادھر اادھرٹالنا چاہے اوربات کو

آانکھیں لڑانا عجیب وغریب انداز سے ہماری نفسیات پر روشنی ڈالتا ہے ، لڑنا یا لڑانا کوئی اچھی ذہنی کیفیت نہیں آانکھ لڑنا یا

اان ہے۔ لیکن قوم کشتی سے لیکر ہاتھیوں کی لڑائی مرغیوں کی پالی اورتتربٹیرکی باہمی جنگ دیکھ کر جولوگ لطف لیتے ہوں

آانکھیں لڑانا بھی محبت کا اشارہ ہوجائے گا۔ کے ہاں

آانیوالی ہے اس طرح کی آافت آانکھ پھڑک رہی ہے توکوئی آانکھ پھڑکنا سماج کی توہم پرستانہ فکر فرمائی کی ایک نشانی ہے کہ

باتیں ہمارے معاشرے میں بہت رائج رہی ہیں ۔ مثلا بلی نے راستہ کاٹ دیا ، تواب سفر منحوس ہوگیا۔ سفرمیں خطرات توتھے

ااس دورکی تواہم آائینہ کے منہ پرپانی ڈالا جاتا تھا۔ اس سے ہی اسی لئے سفر پر جانیوالے کے بازو پر امام ضیامن باندھا جاتا تھا

 پرستی کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہوتا ہے۔

آانکھ پھوڑٹڈاہونا دہلی کا خاص محاورہ ہے دوسری جگہوں پر استعمال نہیں ہوتا اوراچانک جوشخص تکلیف پہنچنے یا پہنچانے

کا باعث بن جاتا ہے اس کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔

آانکھ کا تنکا دیکھنا بھی ہمارے سماجی رویہ کا ایک پہلو ہے جو افسوس ناک آانا اوردوسرے کی آانکھ کا شہتیرنظرنہ اپنی

 حدتک سماجی ذہنیت کی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

آانکھیں ٹھنڈی کرنا بھی بہت دلچسپ اورمعنی خیز محاورہ ہے جب کسی بات کو دیکھ کرہمارا جی خوش ہوتا ہے اورہماری

آانکھیں آانکھیں ٹھنڈا ہونا کہتے ہیں۔ اس کے اریب قریب کا محاورہ کلیجہ ٹھنڈا ہونا ہے۔میری تسکین کا باعث بنتا ہے اسی کو

ٹھنڈی اوردل خوش کہا جاتا ہے اوراس کے مقابلہ میں جوباتیں تکلیف کا باعث ہوتی ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ

آانکھوں میں کانٹے کی طرح کٹھکتی ہیں۔

آانکھوںمیں سلائی پھیرنا آانکھوں کی سوئیاں نکالنا‘‘ بھی کسی محنت طلب اور دقت والے کام کا انجام پاجانا ہے اسی طرح ’’

راس کا دستور تھا کہ وہ اپنے قریبی رشتہ دار وں کو جنہیں یاسلائی پھرنا اندھا کئے جانے کے عمل کوکہتے ہیں کہ مغلوں میں

زرکا یہ آانکھوں میں سلائی پھروادیتے تھے مغلوں کے دور میں ایسے واقعات بہت ہوئے ہیں می اپاہج بنادینا مقصود ہوتا تھا ان کی

شعر اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

Page 52: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

رک پا جن کی اکحل جواہر تھی خا شہاں کہ

آانکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں اانہی کی

ز کے زمانہ میں اس طرح کے واقعات کو تاریخ کا حصہ بنتے دیکھتے ہیں اسی کی طرف یہ زرکے زمانہ سے پہلے اورمیر ہم می

اا زر کا شعر اشارہ کررہا ہے یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض محاورے تاریخی واقعات سے بھی رشتہ رکھتے ہیں مثل محاورہ اورمی

’’احسان لیجئے جہاں کا مگر احسان نہ لیجئے۔شاہجہاں کا۔‘‘

یہ کہاوت ہے اورکسی وجہ سے شاہ جہا ںکے زمانہ میں رائج ہوئی ہے اسی طرح ’’نادر گردی مرہٹہ گردی‘‘ اورجاٹ گردی بھی

آاتی ہے بری صورت حال کوکہتے ہیں مگران کا تعلق تاریخ سے ہے جب انتظام باقی نہ رہے مگربہرحال محاورہ کے معنی میں

رت کا تعلق تاریخ کے حقائق سے توہے۔ اس صور

( انگاروں پرPوٹنا، انگارے بچھانا، انگاربھرنا، انگار ے مارنا۔۱۰۶)

آاگ ہی کی ایک صورت ہے اورتکلیف دہ صورت ہے وہ ہاتھوںپہ انگارے رکھنا ہویا انگاروں پرچلنا شدید عذاب کی ایک انگارہ

صورت ہے موت کے بعد قبر کے انگاروں سے بھرنے کے معنی بھی یہی ہیں کوئی اپنی قبر کوبھرے یا دوسرے کی بات ایک

آادمی کو دیا جاتا ہے وہ قبرمیں دفن کرنے کے بعدہی شروع ہوجاتا ہے ہی ہے مسلمانوں میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ جوعذاب

آاگ سے ہے دوزخ سے ہے اس لئے قبرمیں بھی انگار روں کا ہونا شدید عذاب سے گذارنا اورچونکہ مسلمانوں میںعذاب کا تعلق

آارامی اور ذہنی کوفت کے ساتھ وقت گذارنا ہے۔ ہے انگاروں پر لوٹنے کے معنی بھی سخت بے

آادمی کچھ کرنہیں پاتا اوربے انتہا ابرا ہوتا ہے کہ آادمی کے حق میں اتنا سماج کا رویہ بھی کبھی کبھی ایک حساس یامجبور

ذہنی کوفت اورجسمانی اذیتوں کے ساتھ وقت گذارتا ہے ۔

ساوپری پرائے ، بھوت پریت۔۱۰۷) )

یہ محاورہ بھی اس معنی میں اہم ہے کہ سماجی تواہم پرستی اوران دیکھی باتوں سے خوف کی طرف اشارہ کرتا ہے ہم یہ کہتے

ہیں ہوئے دیکھتے ہیں کہ وہ اوپری پرائے کے بہت قائل ہیںاوپری پرائے کاڈررہتا ہے۔

(اوکھلی میں �ردینا۔۱۰۸)

امسل سے کوٹا جاتاہے اوکھلی ایک کونڈی کی طرح رصہ کوکہتے تھے جس میں کسی شئے کو ڈال کر اوکھلی لکڑی کے اس ح

امسل رکھے رہتے تھے اوردھان ہوتی ہے اب سے کچھ دنوں پہلے تک گاؤں اور قصبوں کے گھروں میں اوکھلی بنی ہوتی تھی اور

ابھوسی الگ ہوجاتی تھی اب ایسی کسی جگہ کے لئے یہ محاورہ اس میں کوٹے جاتے تھے جس میں چاول الگ ہوجاتے تھے۔

Page 53: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

رش نظر آادمی اپنے سماجی رشتوں اورضرورتوں کے پی آانے لگی جہاں تکلیف کی باتیں ہوں اور استعمال ہونے لگایا یہ کہاوت کام

آاتا ہے کہ جب اوکھلی میں سردیاہے تومسلوں سے کیا ڈرنا ۔ اان کوبرداشت کرلیتا ہے اوریہ کہتا نظر

( اونچی ناک کرنا یاہونا، نیچی ناک کرنا یاہونا۔۱۰۹)

آابروکی علامت ہے اسی لئے ناک کٹنا بے عزت رورکے گرد گھومتاہے ناک عزت و یہ محاورہ سماجی امتیاز اوربے امتیاز ی کے تص

آادمی سراونچا کرے چلتا ہے تواس کی ناک بھی اونچی ہوتی ہے اگرسرنیچا کرکے چلتا ہے توناک آاتا ہے ہونے کے معنی میں

بھی نیچی ہوتی ہے اس سے مراد فخر وناز کا اظہار کرنا ہے یا عاجزی اورانکسار کو پیش کرنا ہے سراورناک کے محاورے انسان

ااس میں یہ اونچ نیچ ایک اعتبار ی یا اختیاری صورت ہے۔۔ کی یا ہماری زبان کی سماجی نفسیات کوپیش کرتے ہیں اور

( اہلے Zہلے پھرنا، خوش خوش ہونا۱۱۰)

آاتا ہے تواہلے گہلے پھرنا کہتے ہیں یہ دہلی کا محاورہ ہے اورجب انسان کسی کامیابی یاخوشی کے موقع پر خوش خوش نظر

اس کی شخصی خوشی کا اظہارہے ۔

 ( ایرے غیرے۔۱۱۱)

آادمیوں کوکہتے ہیں انسانی نفسیات میں اپنے ادورپرے کے آاشنا یا سماجی نفسیات کی طرف اشارہ کرنیوالا ہے محاورہ غیرنا

آاشنا لوگوں کواپنے قریب پسند نہیں آاج بھی ہے اسی لئے وہ نا بیگانے یاقریب اور دورکے لوگوں کی تقسیم بہت واضح رہی ہے اور

آاشنا اجنبیوں کا ہی توذکرکرتا ہے۔ کرتا۔ سیاست یا تجارت کے رشتوں کی بات دوسری ہے ورنہ’’ ایرے غیرے‘‘ کہہ کروہ نا

( ایسی تیسی میں جائے یا جاؤ۔۱۱۲)

آاوازوں آاوازوں میں کرتا ہے ۔ سیٹی بجاتا ہے یا دوسری طرح کی آادمی اپنی ذہنی حالتوں اورنفسیاتی کیفتیوں کا اظہار ان الفاظ یا

رصہ آاوازوں کا ح سے اپنی مختلف ذہنی کیفیتوں کی طرف اشارہ کرتاہے۔ ایسی تیسی ہونا اول فول بکنا اسی طرح کے حملوں یا

ہے۔

( ایک منہ ،یا ایک زبان ہونا ۔ ہزارمنہ اورہزار زبانیں ہونا۔۱۱۳)

ایک منہ اورایک زبان ہونے ہی کا ایک دوسرا رخ ہے جتنے منہ اتنی زبانیں یہ بھی اسی سلسلے کا محاوہ ہے۔ اصل میں ایک زبان

آادمی اپنی بات الگ کے ہونا کے یہ معنی بھی ہیں کہ سب ایک سی بات کہیں مگر سماجی معاملات میں ایسا ہوتا نہیں ہر

آادمی ہونگیں اتنے ہی ان کے منہ ہوں گے ان سوچتا اور الگ کہتا ہے منہ سے مراد چہرہ نہیں ہے بلکہ لب وزبان ہے اب جتنے

Page 54: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

کی زبانیں ہونگیں اوران کی الگ الگ باتیں ہونگیں اسی سے سماج میں الجھنیں پیدا ہوتی ہیں کہ کوئی کچھ کہتا ہے توکوئی

کچھ کہتا ہے اوریہی ذہنی خلفشار اورگفتگو میں مقصدیت کے لحاظ سے انتشار کاباعث ہوتا ہے۔

( اینڈااینڈا پھرا نا، ڈوPنا۔۱۱۴)

اہلا گیلا پھرنے ہی کوکہتے ہیں اوراس میں شخصی نفسیات کوزیادہ دخل ہوتا ہے اورجماعت کوکم لیکن اینڈی بیڈی باتیں کرنا

دوسری بات ہے یہ وہی صورت ہے جس کو ہم اوٹ پٹانگ بات کرنا کہتے ہیں یا غلط سلط باتیں کرنے کا رویہ جوسماجی

آادمی کی چال بلکہ خود جانورکی چال آاتا ہے اس لئے کہ طورپر بہت لوگوں میں ہوتاہے۔ اینڈی بینڈی چال بھی اسی مفہوم میں

آاہستہ خرامی کا مطلب الگ ہے اوراینڈی بینڈی چال اس کی ذہنی حالتوں کوظاہر کرتی ہے۔ تیز چلنا ایک الگ مفہوم رکھتا ہے

دوسرے ہی معنی رکھتی ہے۔

‘‘ ب ’’ ردیف 

 

( بات اٹھانا، بات اPٹنا یا اPٹ دینا، بات بنانا، بات اونچی کرنا، بات نیچی ہونا، بات کا بتنگر بنانا، بات بات میں۱)ب�را ملنا، جتنے منہ اتنی ہی باتیں ذکرکرنا، اعتراض کرنا،بڑھ Zئی بات بات کچھ بھی نہ تھی۔ بات کا �راپانا، بات کا

۔بات بدPنا، بات بڑھنایابڑھانا، بات بڑی کرنا، بات بگاڑنا یابگاڑدینا، منہ �ے نکلی بات کوٹھوں چڑھتی ہے ، باتPگانا، بات میں �ے بات نکاPنا، بات نہ کرنا وغیرہ۔

گفتگو ہمارے معاشرتی رویوں کا بہت بڑا حصہ ہے ہمارے بہت سے معاملات ومسائل بات چیت کے غلط رخ یا رویہ کی بدولتآاخر ہمارے معاشرتی رویہ ہیں جن کی بگڑجاتے ہیںاور بات ہی سے سنورتے ہیں کہا سنی، گالی گلوچ ،برا بھلا،لڑائی جھگڑا، تناتنی

آاگے بڑھتی ہے غلط رخ پر بنیاد اکثر بات چیت سے پڑتی ہے ہم کہیںنہ کہیں گفتگو کے طریقہ سلیقہ میں غلط ہوجاتے ہیں بات آاجاتی ہے بلکہ بات کا بتنگڑبن جاتاہے۔

ہم غلط طورپر اپنی بات کا پچ بھی کرتے ہیں یعنی اپنی بات کو بڑا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس میں غلط اورصحیح مناسب اور نامناسب کی حدود کو اکثرنظر انداز کرجاتے ہیں اوربات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے بہرحال ہماری معاشرتی

اورسماجی زندگی میں جوپریشانیاں ذہنی الجھنیں شکر رنجیاں اور)دوستانہ تعلقات کا بگاڑ( اورعزیزانہ رشتوں میں گرہ پڑنا یہ سبآاتے بھی نہیں بعض جلدی میں غلط سلط بات گفتگو کے الفاظ سلیقہ اورطریقہ پر قابو نہ رھنا ہوتا ہے بعض لوگوں کو صحیح الفاظ

ابری ہوجاتی ہیں اوربات کو بڑھ کر جہاں ابرا یہ ہوتا ہے کہ اپنی غلطی پر اڑجاتے ہیں اوردس باتیں اور کہہ جاتے ہیں اوراس سے زیادہ آادمی کے بس میں ہو تا بھی نہیں نہیں پہنچنا چاہیے وہاں پہنچ جاتی ہے اورپھر سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے ۔بات کو سنبھالنا ہر

Page 55: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

درگذر کرنا ایک اچھا رویہ ہے لیکن مناسب حدتک ہی برداشت کرنا چاہےئے نامناسب حدتک بات کو پہنچانا یوں بھی صحیحنہیں ہوتا۔ توازن برقرار رکھنا چاہئے۔

االجھتی ہے کہ بات کا سرا نہیںملتا کہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ اصل مسئلہ کیا تھا، اورکیوں کبھی کبھی بات اتنی پھیلتی بگڑتی اوراسمٹانا یا معاملہ راس سے بھی بات الجھتی ہے اوراس کا رسرا پکڑنے کی کوشش ہم اکثر کرتے بھی نہیں تھا اورکیسے تھا، بات کا

آانا مشکل ہوجاتا ہے۔ سے اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ باہر رت حال کا تجزیہ کرنا ایک بہت ضروری امرہے جس سے ہم بہ حیثیت مجموعی سماج کو سمجھنا ماحول کا جائزہ لینا اورصور

ابرا ہونا بڑی بات ہوتی ہے۔ معاملہ کے تقاضوں کا خیال کرنا مسئلے کے ضروری پہلوؤں پر نظر رکھنا بات خوبصورتی کے ساتھ عہدہ کے بے تکے پن سے بچنا سچ یہ ہے کہ بہت سی سماجی برائیوں سے بچنا ہے اوربہت سی الجھنوں سے نجات پانے کی کوشش

ہے۔( بارہ باٹ کرنا یاہونا۔۲)

آادمی کچھ کرنہیں پاتا سارا کنبہ بارہ باٹ آاوری مشکل ہوجاتی ہے اور بارہ باٹ کرنا تیتربترکرنے کو کہتے ہیں جس کے بعد جمع ہوگیاہے۔

(بارہ بانی کا ہوجانا ۔۳) ہرطرح سے صحت مندہوجانا یہ بھی دیہات میں اکثربولا جاتا ہے صحت مندی کے لئے بھی اورکھیت کی اچھی پیداوارکے لئے بھی

اا دیہاتی یہ کہتے ہیں کہ ذرا اب رفتہ رفتہ محاورات غائب ہورہے ہیں یہ محاورات بھی دیہات اورقصبات تک محدود ہوگئے ہیں۔ مثلسی محنت کرلو وقت پرپانی دو اور کھادڈالو توتمہارے کھیت بارہ بانی کے ہوجائیں گے۔

ااس سے نسبت رکھنے والے اب یہ ظاہر ہے کہ شہر کا معاشرہ جب ’’کھیت کیا ر‘‘ کی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتا تو محاورے بھی اس کی زبا ن میں داخل نہیں ہیںبالکل اسی طرح جیسے بہت سے شہری محاورے جوپڑھے لکھے اورملازمت پیشہ

طبقہ میں رائج ہیں وہ ان لوگوں کی زبان میں شامل نہیں جوکھیتی باڑی اورمحنت مزدوری سے تعلق رکھتے ہیں اب جیسے )دھیلی( پاولا کمانا یا پکڑنا محنت مزدوری کرنیوالوں کا محاورہ ہے۔ جو لوگ باقاعدہ تنخواہ لیتے ہیں ان کا محاورہ یہ نہیں ہوسکتا روپیہ کےآادمی آانے کو کہتے ہیں یہ محاورہ اس وقت کی یاددلاتا ہے جب ایک آانے چار آاٹھ مقابلہ میں )دھیلی( اور’’دھیلی‘‘ میں ’’پاولا‘‘

آانے ملتے تھے اس طرح سے محاورات میں نہ صرف یہ ہے آانے روز ہوتی تھی اوروہ بھی کاریگر کی عام مزدور کو چار آاٹھ کی مزدوری آامدنی ہوتی تھی اس کی محنت کا جومعاوضہ کہ طبقاتی ذہن کی پرچھائیاں ملتی ہیں بلکہ ایک وقت میں ایک خاص طبقہ کی جو

ملتا تھا محاورے میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوتا تھا۔ آاج بھی ہمارے یہاں روٹی، روزی، روزگارسے لگاہواکہنے والے موجود ہیں اوریہ بھی کہتے ہیں کہ اس زبان اس فن یا اس کام کا تعلق

آامدنی کے حصول کا کوئی ذریعہ ہوتا ہے لیکن یہ الفاظ بتارہے ہیں امراد روپیہ پیسہ یا راس سے ان کی روٹی روزی سے جوڑدیا جائے رہاس کا تعلق اس وقت کی مزدوری سے ہے جب محنت کا معاوضہ پیسوں میں نہیں روٹیوں میں ادا کیا جاتا تھا اورروز کی روٹی ک

Page 56: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

کہا جاتا تھا روزی دراصل روز ینے کو کہتے تھے یعنی روزانہ جوکچھ ملازم یا مزدور کو ادا کیا جاتا تھا وہ اس کی روزی ہوتی تھیآاٹا ہی دیا جاتا تھا اوربازار سے جب آاٹا پیسنے والی کو پیسوں کے بجائے مزدوری میں آانے روز ایسا بھی ہوتا تھا کہ آانے روزدو چار ررہ ااس کے بدلہ میں روزم چیز منگائی جاتی تھی توروٹی بنوالے، جو، باجرا، چنے اورگیہوں کچھ بھی دوکان پر بھیج دیا جاتا تھا اور

آاجاتی تھی۔  کے استعمال کی چیزآاٹا مانگتا تھا‘‘ جوایک محاورہ ہے اور ایسا ہوتا تھا کہ صبح کے وقت جو عورتیں عام طور پر گھروں میں چکی ’’فقیر مٹھی دومٹھی آاٹا، مٹھی بھراناج، یامٹھی بھرچنے ،یہاں تک ااسے دے دیتی تھیں مٹھی بھر آاٹا آاٹے میں سے ایک مٹھی پیستی تھیں اپنے گھر کے

کہ مٹھی بھر دانے خیرات یا مزدور ی کے طورپر دےئے جاتے تھے۔ ہمارا معاشرہ بدل گیا لیکن اس دوریا کسی بھی دوریا کسی بھی‘ معاشرے سے تعلق رکھنے والے محاورے ہم عہد یا معاصر

سچائیوں کی نمائندگی اب بھی کرتے ہیں۔( بازار کے بھاؤ پیٹنا۔۴)

یہ دیہات وقصبات میںبولا اجانیوالا محاورہ ہے مغربی یوپی میں یہ پیٹنا بولا جاتا ہے اورلغت المحاورات میں ’’پ‘‘ کے زبرکے ساتھآاتا۔ بازار سے متعلق اردو میں بہت محاورہ ہیں بازار لگنا بازار میں کھڑے پیٹنا بھی ہے۔ لیکن بھاؤکے ساتھ ’’پٹنا‘‘ عام طورپر نہیں

کھڑے بیچ دیتابازاری میں کھڑے ہونا،گرم بازاری ہونا یا بازار سرد ہونا، اتوار کا بازار، پیر کا بازار، منگل کابازار، ہفتہ کابازار عام طورسے اس خاص بازار کوکہتے ہیںجوکسی خاص دن لگتا ہے اسی سے روزے بازار کا محاورہ نکلا ہے ۔ بازار کارنگ بھی ہمارے

آارہا ہے۔ ز کا شعر یاد محاورات میںسے ہے اوربازارکی چیز بھی غالب

آائے اگر ٹوٹ گیا اوربازارسے لے رل اچھا ہے رسفا رمرا جام جام جم سے تو

( بازاری ہزاری یا بازارکی مانگ ، بازاری عورت، بازارکی زبان، بازاری رویہ ، باز ار مندا ہونا۔۵)

یہ سب بھی ہمارے محاورات کا حصہ ہیں اوراس سے پتہ چلتا ہے کہ بازار اس میں بکنے والی چیزیں بیچنے اور خریدنے والے

لوگوں کا رویہ زبان اورانداز بیان ہمارے معاشرے کو کس طرح متاثرکرتا رہا ہے۔ بازاریوں بھی ہمارے معاشرتی اداروں میں سے ہے

اورایک بڑا ادارہ ہے۔

( بازی دینا یا کرنا، بازی کھانا، بازی Pگانا یابدPنا، بازی Pے جانا۔۶)

یہ سب ایسے کھیلوں سے متعلق محاورے ہیں جومقابلہ کے لئے ہوتے ہیں اورکچھ نہ کچھ ’’بدکر کھیلے جاتے ہیں جوا‘‘

اسکی نمایاں مثال ہے۔ جوقمار بازی یا جوا کھیلنے ہی کی ایک صورت ہے یہ اور اس طرح تتربازی ہمارے معاشرے کی وہ

رلے بازی بیت بازی ، بازی کے لفظ کے آاج کرکٹ میں گیندبازی اورب آاتا ہے کھیلنے کی روشیں ہیں جن کا ذکر ہماری زبان پر

Page 57: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ساتھ کچھ دوسری معاشرتی روشوں کا اظہار ہے بیت بازی ایک اورطرح کا مقابلہ ہے۔

( بازی ہارجانا۔۷)

مقابلہ میںشکست کھاجانا، یعنی وہ بازی ہارگیا اوراس کے دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔ بازی لگانے کے معنی شرط لگانے کے

بھی ہیں جان کی بازی لگانا بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہوجانا جس کوشش میں کامیابی نہ ملے اس کو بھی بازی

ہارنے کا پہلوچھپا ہوتاہے۔

( بال بال بچ Zیا ، بال بال دشمن ہوZیا ہے ۔ بال بال Zنج موتی پرونا، بال بال احسان مند ہے۔۸)

بال بال کئی محاوروں کا بے حداہم جز ہے جیسے بال بال بند جانا یعنی قرض میں مبتلا ہونا اوربری طرح قرض میں گھر جانا

آانے کے ہیں میرے اورنقصان کے درمیان بال برابر فرق رہ گیا اسی کو بال بال جب کہ بال بال بچنے کے معنی خطرہ سے نکل

آاگے بڑھانا اوراس میں آاراستہ کرنا ہے یہ سجانے کے عمل کو بچناکہتے ہیں بال بال گنج موتی پرونا گویا موتیوں سے بالوں کو

طرح طرح کے تکلفات برتنا ہے۔

بارہ ایران سولہ سنگھار میں یہ بھی داخل ہے کہ بال بال موتی پروئے جائیں بال بال احسان مند ہونا بھی بے حد احسان مند

 ہونے کوکہتے ہیں کچھ لوگ شریف ہوتے ہیں وہ کسی کے احسان کوبہت مانتے ہیں۔

( بامن )برہمن( کی بیٹی کلمہ پڑھے یا بھرے۔۹)

آادمی کا تقوی ٹوٹ جاتا ہے برہمن کی لڑکی کلمہ پڑھنا یہی معنی رکھتا یعنی کسی اچھی چیز کو دیکھ کر بڑے سے بڑے

ہے۔

 ( بانٹیا یا بانٹے۔۱۰)

رصہ رصہ تقسیم کرنا حق دینا اسی لئے جس کا کوئی حق نہیںہوتا ح بانٹیا کی جمع بانٹیے ہے۔ اصل میں بانٹیے کے معنی ہیں ح

ااسے کہا جاتا ہے کہ تیراکیا ’’بانٹیا‘‘ اوراپنے حصے حق پر لگنے کارجحان ہمارے معاشرے میں بہت ہے۔ اورجس کا نہیں ہوتا

رصہ نہیں سمجھتے اس سے کہتے ہیں کہ تمہارا کیا بانٹیا یعنی تم بولنے کا حق نہیں رکھتے یہ بندربانٹ محاورہ وہ حق وہ ح

رصے کی تقسیم بددیانتی کے ساتھ ہوتی ہے کہ وہ بھی ہمارے معاشرے کا ایک رویہ ہے۔ میں بھی شامل ہے کہ وہاں حق ح

ساچھلنا۔۱۱) ( بانسوں

ااچھلتے تھے رانگ لگانا یوں بھی بازی گر جب اوپر چھلاننگ لگاتے تھے تولچک دار بانس کے سہارے بہت اونچائی تک چھل

مطلب یہاں بڑھ چڑھ کر باتیں بنانے سے بھی ہیںجوسماج کا ایک عام رویہ ہے۔

Page 58: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

بازاری ہزاری یا بازارکی مانگ ، بازاری عورت، بازارکی زبان، بازاری رویہ ، باز ار مندا ہونا۔

یہ سب بھی ہمارے محاورات کا حصہ ہیں اوراس سے پتہ چلتا ہے کہ بازار اس میں بکنے والی چیزیں بیچنے اور خریدنے والے

لوگوں کا رویہ زبان اورانداز بیان ہمارے معاشرے کو کس طرح متاثرکرتا رہا ہے۔ بازاریوں بھی ہمارے معاشرتی اداروں میں سے ہے

اورایک بڑا ادارہ ہے۔

( بازی دینا یا کرنا، بازی کھانا، بازی Pگانا یابدPنا، بازی Pے جانا۔۶)

یہ سب ایسے کھیلوں سے متعلق محاورے ہیں جومقابلہ کے لئے ہوتے ہیں اورکچھ نہ کچھ ’’بدکر کھیلے جاتے ہیں جوا‘‘

اسکی نمایاں مثال ہے۔ جوقمار بازی یا جوا کھیلنے ہی کی ایک صورت ہے یہ اور اس طرح تتربازی ہمارے معاشرے کی وہ

رلے بازی بیت بازی ، بازی کے لفظ کے آاج کرکٹ میں گیندبازی اورب آاتا ہے کھیلنے کی روشیں ہیں جن کا ذکر ہماری زبان پر

ساتھ کچھ دوسری معاشرتی روشوں کا اظہار ہے بیت بازی ایک اورطرح کا مقابلہ ہے۔

( بازی ہارجانا۔۷)

مقابلہ میںشکست کھاجانا، یعنی وہ بازی ہارگیا اوراس کے دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔ بازی لگانے کے معنی شرط لگانے کے

بھی ہیں جان کی بازی لگانا بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہوجانا جس کوشش میں کامیابی نہ ملے اس کو بھی بازی

ہارنے کا پہلوچھپا ہوتاہے۔

( بال بال بچ Zیا ، بال بال دشمن ہوZیا ہے ۔ بال بال Zنج موتی پرونا، بال بال احسان مند ہے۔۸)

بال بال کئی محاوروں کا بے حداہم جز ہے جیسے بال بال بند جانا یعنی قرض میں مبتلا ہونا اوربری طرح قرض میں گھر جانا

آانے کے ہیں میرے اورنقصان کے درمیان بال برابر فرق رہ گیا اسی کو بال بال جب کہ بال بال بچنے کے معنی خطرہ سے نکل

آاگے بڑھانا اوراس میں آاراستہ کرنا ہے یہ سجانے کے عمل کو بچناکہتے ہیں بال بال گنج موتی پرونا گویا موتیوں سے بالوں کو

طرح طرح کے تکلفات برتنا ہے۔

بارہ ایران سولہ سنگھار میں یہ بھی داخل ہے کہ بال بال موتی پروئے جائیں بال بال احسان مند ہونا بھی بے حد احسان مند

 ہونے کوکہتے ہیں کچھ لوگ شریف ہوتے ہیں وہ کسی کے احسان کوبہت مانتے ہیں۔

( بامن )برہمن( کی بیٹی کلمہ پڑھے یا بھرے۔۹)

آادمی کا تقوی ٹوٹ جاتا ہے برہمن کی لڑکی کلمہ پڑھنا یہی معنی رکھتا یعنی کسی اچھی چیز کو دیکھ کر بڑے سے بڑے

ہے۔

Page 59: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

 ( بانٹیا یا بانٹے۔۱۰)

رصہ رصہ تقسیم کرنا حق دینا اسی لئے جس کا کوئی حق نہیںہوتا ح بانٹیا کی جمع بانٹیے ہے۔ اصل میں بانٹیے کے معنی ہیں ح

ااسے کہا جاتا ہے کہ تیراکیا ’’بانٹیا‘‘ اوراپنے حصے حق پر لگنے کارجحان ہمارے معاشرے میں بہت ہے۔ اورجس کا نہیں ہوتا

رصہ نہیں سمجھتے اس سے کہتے ہیں کہ تمہارا کیا بانٹیا یعنی تم بولنے کا حق نہیں رکھتے یہ بندربانٹ محاورہ وہ حق وہ ح

رصے کی تقسیم بددیانتی کے ساتھ ہوتی ہے کہ وہ بھی ہمارے معاشرے کا ایک رویہ ہے۔ میں بھی شامل ہے کہ وہاں حق ح

ساچھلنا۔۱۱) ( بانسوں

ااچھلتے تھے رانگ لگانا یوں بھی بازی گر جب اوپر چھلاننگ لگاتے تھے تولچک دار بانس کے سہارے بہت اونچائی تک چھل

مطلب یہاں بڑھ چڑھ کر باتیں بنانے سے بھی ہیںجوسماج کا ایک عام رویہ ہے۔

آاجانا )اوردفاع میں ہوابھرجانا( باؤٹا اڑانا، باؤ ڈنڈی پھرنا، باؤباندھنا، باؤبندی، باؤ بھری کھال ، باؤبھڑکنا، باؤ پر

یادہوائی پھرنا، باؤ کے Zھوڑے پر �وارہونا، باؤPی دینا۔

ااسی کو ہندوی میں باؤ کہا جاتا ہے اورکہیں کہیں دونوں کو ایک ساتھ جمع بھی کردیاجاتاہے باؤ فارسی میں ہوا کوکہتے ہیں

آاوارہ گردی کرنا لوگوں کے پاس جب کام نہیں ہوتا تووہ یونہی مٹرگشت کرتے پھرتے ہیں جیسے باد ہوائی پھرنا ہواؤں کی طرح

ااردو کا ایک شعر جو اسی مفہوم اس سے سماج میںبے کارلوگوں کے وقت ضائع کرنے کے مشغلوں کی طرف اشارہ کرنا ہوتاہے

 کو ظاہر کرتا ہے یہاں پیش کیا تا ہے۔

تیرے کوچہ میں یونہی ہے ہمیں دن سے رات کرنا

ااس سے بات کرنا  کبھی اس سے بات کرنا کبھی

ابلبلے کے خول میں ہوا بندہوتی ہے مگرکتنی دیر کے لئے باؤ ہندی ہوا کوبند کرنے کا عمل ہے اورہوا بند ہونے والی چیز نہیں ہے

یعنی یہ ایک بے اعتباری بات ہے۔سماج میں ا س طرح کی باؤ بندی ہوتی رہتی ہے اسی کی طرف اس مصرعہ میں اشارہ ہے

باؤ بندی حباب کی سی ہے۔

 یا یہ مصرعہ

مٹھی میں ہوا کوتھا منا کیا

ااس کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ توباؤ بھری کھال ہے۔ یہ ایک طرح کی بیماری ہے ۔لیکن اس کا آادمی جوبلاوجہ موٹا ہوتا ہے وہ

Page 60: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آاتے ہیں باؤ بھڑکنا ، راطلاق انسانی رویوں پر بھی ہوتا ہے اوریہ سماج کا مطالعہ بن جاتا ہے اسی کے ذیل میں یہ محاورے بھی

باؤڈنڈی پھرنا۔ وغیرہ۔

( باہر کاہونا باہر کرکے ، باہرکرنا، باہر کی بو ، باہر کی پھرنے واPی ، باہر والا، باہرواPی۔۱۳)

شہری لوگوں میں یہ رویہ ہوتا ہے۔ کہ وہ باہر کے لوگوں کوپسندنہیں کرتے نہ ان کی زبان کو پسند کرتے ہیں نہ ان کے

طورطریقوں کو ان کے نزدیک وہ سب باہرکی باتیں ہیں اسی لئے وہ کسی کی بات کوباہرنہیں جانے دیتے اوریہ کہتے ہیں کہ یہ

محاورہ اس طرح استعمال ہوتاہے کہ گھر سے نکلی کوٹھوں چڑھی یعنی کوئی بات اس گھرسے باہرنکلنی نہیںچاہیے۔

آانے والی ابویعنی باہر سے باہر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ نکال کر باہر پھینک دینا اور فالتوںسمجھنا نفرت کا اظہار کرنا باہرکی

روش کو اختیار کرنا یا اس کی خواہش کرنا یہ اوراس طرح کے محاورات شہری نفسیات کو سمجھنے میں بہت معاون ہوتے ہیں

دہلی والے اپنی تہذیب اپنے رسم ورواج اوراپنے محاورے پر بہت ناز کرتے تھے اسی لئے وہ باہر کے لوگوں کی کسی بات کو

رن جات کا لفظ استعمال ہوتا تھا جس کے معنی ہوتے ہیں کہ لوگ ادم بیرو اپنے لئے پسند نہیں کرتے تھے۔ اوران کے یہاں مر

آاتے تھے کہ تم تودلی کی ہو باہر کی نہیںہو۔ اسی لئے ان کی زبانوں پر اس طرح کے فقرہ

باہرپھرنے والی عورت ان کے خیال سے عزت کے لائق نہیں ہوتی تھی ایک خاص طبقہ پردہ پر بہت زور دیتا تھا وہ دہلی سے

باہر بھی تھا مگر ایک خاص طبقہ تھا سب نہیں جوباہرکی پھرنے والی عورت کوبھی براسمجھتا تھا اوراس پر طنز کرتا تھا ۔

اگردوقدم بھی چلنا ہوتا تھا۔ تو ڈولی استعمال ہوتی تھی۔ اور تانگے میں سفر کیا جاتا تھا توپردے باندھے جاتے تھے اورعورتیں

اپنے گھر کے دروازے سے نکل کر تانگے یا ڈولی تک پردہ کرواکے جاتی تھیں اسی لئے باہر پھرنے والی بہت بری نظر سے

دیکھی جاتی تھی۔

( بیتی بجنا، بیتی بند ہوجانا، بیتی دکھانا۔۱۴)

آاداب شناسی کی دانت منہ میں رہتے ہوئے بھی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ ہنسنا ہو یا بولنا ہر ایک میں ایک تمیز داری اور

ضرورت ہوتی ہے بہت کھل کر ہنسنا پسند نہیں کیا جاتاتھا ۔اسی لئے ٹھٹھے مارنایا لگانا اچھے معنی میں استعمال نہیں ہوتا

آاداب تھے۔ کھاتے وقت یہاں تک کہ دانت دکھانے کو بھی عورت کے لئے پسند نہیں کیا جاتاتھا۔ یہ اس وقت کے معاشرتی

ابرا سمجھا جاتا تھا۔دانتوں کا سوتے میں رگڑنا بھی منحوس سمجھا جاتا ہے۔ دانت دکھانے کا دانتوں کا بجنا بھی بہت

آاتا ہے کہ ذرا سی دیر میں دانت دکھادےئے۔ محاورہ بھی برائی کے معنی میں

بتسی بند ہوجانا دوراپڑنا، اس میں ایک افسوس ناک صورت کی طرف اشارہ ہے کوئی طنز نہیںلیکن بتسی دکھانے میں ہے کہ

Page 61: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اکھلا رہنا تمیز دار ی کے خلاف ہے۔ ااس کا منہ کھلا رہتا ہے اورمنہ

( بجلی پڑے، ٹوٹے یا Zرے۔۱۵)

یہ عورتیں کے کوسنے ہیں اورعورتوں کی زبان میں گالیا ںاتنی شامل نہیں ہوتیں جتنے کوسنے شامل ہوتے ہیں یہ ہمارے معاشرے

ا اس پر بجلی رصے بہت ہوتے تھے کہ آاسمان پر بجلی چمکتی ہے۔ لیکن پہلے اس طرح کے ق رزنظر ہے کا مزاج اورعورتوں کا اندا

گرگئی جس کے معنی یہ ہیںکہ اچانک وہ ایک المناک انجام سے دوچار ہوا عورتیں اپنے کوسنون میں اس طرح کے جملوں

آانے بیمار پڑنے اورگھرکے برباد ہونے کا مفہوم شامل رہے۔ کوشامل رکھتی تھیں۔ جس میں نقصان پہنچنے موت

( بجرگ پڑنا۔۱۶)

آاشنا ہونا۔ ہندوؤں میں عورت کا مرد ہندوی محاورہ ہے۔ اور’’ویوگ‘‘ سے بنا ہے ۔جس کے معنی ہوتے ہیں۔ جدا ہوجانا یہ فراق

اجدا ہوناویوگ کہلاتا ہے۔ وہی بجوگ ہے یعنی تیراشوہرتجھے چھوڑکر چلا جائے مرجائے یا کسی بھی وجہ سے دونوں کے سے

آاپسی اختلافات بڑھ جاتے ہیں۔ تب بھی بجوگ پڑنا اجدائی واقع ہوجائے جوبہت بڑا کوسنا ہوتا ہے۔ خاندانوں میں جب درمیان

کہتے ہیں یہ بھی گویا خاندان کے لئے ایک تکلیف دہ بات ہوتی ہے ۔

( بچن بدہونا، بچن دینا۔۱۷)

االٹ پلٹ اوچن سنسکرت کا لظ ہے جوہندوی میں بچن ہوگیا ہے اوراسی سے یہ محاورے بنے ہیں اپنی بات کا پابند ہونا اوراسے

راس کے نہ کرنا ایک طرح کا اخلاقی رویہ ہے بچن بدکہہ کر اسی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ وچن دینا وعدہ کرنا کہ ہم

پابند ہیں اورایسا کریں گے یہ اخلاقی رویہ ہے جوسماج کی بڑائی کو ظاہر کرتا ہے۔ اوراس برائی کو بھی کہ عام لوگ اپنی بات

ارخ پھیردیتے ہیں۔ اور اپنے وعدہ کو نبھانے کے بجائے ذرا سی دیر میں بات بدل دیتے ہیں اورمسئلے کا

( بدPگام ہونا۔۱۸)

راس سے مراد انسان کی طبیعت بدتمیز ہونا ، سرکش ہونا، زبان کا قابو میںنہ رکھنا ، یہ گھوڑے کی مناسبت سے ہے لیکن

ردعمل پر قابو رکھتا ہے۔ اورکردار ہے کہ وہ کس حدتک اپنی زبان اپنی طبیعت اوراپنے عمل اور ر

آاتا ہے بدذوقی، بدشوقی کی کمی صحیح مزاق کا فقدان بدکلامی وغیرہ اسی سلسلے بدمزاج اوربدمزاجی بھی اسی ذیل میں

راطلاق ہوتا ہے۔ ران محاورات کا موقع بہ موقع استعمال اور رز گفتگوکے اعتبارسے رزعمل طر کے محاورے ہیں ان میں طریقہ کارطر

سبری Zھڑی۔۱۹) سبرے دن، سبرا وقت ، )

ابری آادمی کو کوئی قابونہیں ابرانہیںکرتا ۔ برائی کا سبب توبری گھڑی ہوتا ہے جس پر آادمی ہم سماجی طورپر یہ سمجھتے ہیں کہ

Page 62: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ابرے دن ہوتے ہیں۔ جب ایک لمبا دور کسی تکلیف مصیبت یا پریشانی کے عالم میں گزر ساعت بھی اسی کوکہتے ہیں اوروہی

ابرے دنوں سے بچائے یا کسی بچے کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ بری گھڑی۱ ابرا وقت نہ لائے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ

ااس سے معاشرتی طورپر ہماری ابری ساعت ہے ابرا وقت ہے ابرے دن ہیں کی پیدا ئش ہے بات وہی ہے کہ برائیوں کی ذمہ دار

کرتے ہیں کسی باتInterpreteسماجی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہم حالات کوکس طرح سمجھتے اورکس طرح انہیں

کا مطلب نکالتے ہیں۔

( بڑی چیز ، بڑی روٹی، بڑا کھانا، بڑے Zھرکی بیٹی، بڑا نام، بڑا بولا۔۲۰)

ران محاورات پر غور کیا جائے توبڑی چیز بڑا، بڑی بات سبھی سماجی امتیازات کوظاہر کرتے ہیں۔ بڑا کھانا اوربڑی،ر وٹی غریب

گھرانوں کے مقابلہ میں بڑے خاندانوں ہی سے مل سکتی ہے بڑا مال بھی ہے یعنی دولت اوربہت اچھا کھانا۔

ااسے بڑے رتحال کا اظہار ہے۔ جب وہ کسی چھوٹے درجہ کے خاندان میں بیاہی جائے ۔تبھی تو ااس صور بڑے گھرکی بیٹی

گھرکی بیٹی کاطعنہ دیا جائے گا طنز کیا جائے گا اونچ نیچ کا تصور اس سے جڑا ہوا ہے۔ بڑبولا اس شخص کوکہتے ہیں جو

بہت بڑھ چڑھ کر باتیںکرتا ہے۔

( بسم اPلہ کرنا ، بسم اPلہ کا Zنبد ہونا، بسم اPلہ کی برکت ۔۲۱)

رائے ااسے ہم مل یی دار ہو جس کا ذہن بالکل مکتبی ہو۔ آادمی کے لئے کہاجاتا ہے جومذہب کا دعو بسم اللہ کا گنبد ہونا جاہل

مکتبی کہتے ہیں اوریہ بھی طنز کرتے ہیں کہ یہ توبسم اللہ کے گنبد میں رہتے ہیں ویسے بسم اللہ پڑھ کے کھانا ایک طرح کا

مذہبی اور تہذیبی رویہ ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے۔ کہ بسم اللہ کیجئے یعنی شروع کیجئے اللہ کے نام کے ساتھ۔

بسم اللہ کی برکت کے معنی بھی یہی ہیں کہ بسم اللہ پڑھ کے کوئی کام کروگے توبرکت ہوگی ظاہر ہے کہ یہ محاورہ مسلمانوں

کا اپنا ہے۔ اوران کی مذہبی فکر سے گہرے طورپر متاثرہے۔ اورہمارے سماجی عمل اکثر مذہب دھرم خاندانی بزرگوں کے اثر

آاتے ہیں۔ بسم اللہ ہی غلط ہوگئی اس کے معنی ہوتے ہیں کہ کام کی شروعات غلط ہوگئی۔ اورصوفیوں کے اثرات سے بھرے نظر

یہی۔۲۲) Pب� ا سبغ )

راس کے معنی یہ ہیں کہ ہم دوسروں کی طرف سے خوامخواہ بھی دشمنی کے جذبات بیر بغض رکھنا ہمارا یک محاورہ ہے۔ اور

رض الہی بھی اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ ان کی خوشی سے ناخوش ہوتے ہیں۔ یہ خدا واسطے کا بیرکہلاتا ہے۔ اوراسی کو بغ

آاتی ہیں کہ اختلاف بھی ان کے یہاں بسااوقات بلاوجہ اور بے سبب راس سے معاشرے کی اپنی کچھ برائیاں سامنے کہتے ہیں۔

Page 63: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ہوتا ہے۔

( بغل کا دشمن، بغلی Zھونسا ہونا۔۲۳)

راس سے امنادی( یابغل میں کتاب اور منہ پر جہالت بغل کے ساتھ بہت سے محاورے ہیں مثلا بغل میںبچہ شہر میں ڈھنڈورا)

مرادیہ ہے کہ بھی اورنہیں بھی بجا بے خبری ہے۔

اس سے فائدہ اٹھاکردوسرے ہمیں دھوکے دیتے ہیں۔اوردوست بن کر دشمنی اختیار کرتے ہیںوہی لوگ بغلی گھونسا ثابت ہوتے

ہیں یا بغل کے دشمن سمجھے جاتے ہیں یہ کہاجاتا ہے کہ لوگ بغل میں گھوس کر نقصان پہنچاتے ہیں یہ بھی مکاری

دغابازی اوردھوکہ دھڑی کی ایک صورت ہے۔

( بغل Zرم کرنا۔۲۴)

امعانیقہ کرنا گلے ملنا یہ بھی آاغوش ہونا۔ اور ایک ساتھ ہم خواب ہونا۔ بغل گیر ہونا۔ ایک دوسرے سے ایک دوسرے سے ہم

ہمارے لئے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا اظہار کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ مبارکباد کے وقت بھی ہم گلے ملتے ہیں۔ یہ بھی

رگلہ مندیوں کا خاتمہ کردیتاہے۔ رملنا شکوہ شکایت اور سمجھا جاتا ہے کہ گلے

( بکھیڑا، بکھیڑے میں پڑنا،بکھیڑنا۔۲۵)

یہ خالص ہندوستانی محاورہ ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں الجھنوں میں گرفتارہونا جھگڑے میں پڑنا۔ اختلافات کا بڑھنا اسی

لئے کہا جاتا ہے۔ کہ ہم اس بکھیڑے میں پڑنا نہیں چاہتے۔

( بڑی چیز ، بڑی روٹی، بڑا کھانا، بڑے Zھرکی بیٹی، بڑا نام، بڑا بولا۔۲۰)

ران محاورات پر غور کیا جائے توبڑی چیز بڑا، بڑی بات سبھی سماجی امتیازات کوظاہر کرتے ہیں۔ بڑا کھانا اوربڑی،ر وٹی غریب

گھرانوں کے مقابلہ میں بڑے خاندانوں ہی سے مل سکتی ہے بڑا مال بھی ہے یعنی دولت اوربہت اچھا کھانا۔

ااسے بڑے رتحال کا اظہار ہے۔ جب وہ کسی چھوٹے درجہ کے خاندان میں بیاہی جائے ۔تبھی تو ااس صور بڑے گھرکی بیٹی

گھرکی بیٹی کاطعنہ دیا جائے گا طنز کیا جائے گا اونچ نیچ کا تصور اس سے جڑا ہوا ہے۔ بڑبولا اس شخص کوکہتے ہیں جو

بہت بڑھ چڑھ کر باتیںکرتا ہے۔

( بسم اPلہ کرنا ، بسم اPلہ کا Zنبد ہونا، بسم اPلہ کی برکت ۔۲۱)

رائے ااسے ہم مل یی دار ہو جس کا ذہن بالکل مکتبی ہو۔ آادمی کے لئے کہاجاتا ہے جومذہب کا دعو بسم اللہ کا گنبد ہونا جاہل

مکتبی کہتے ہیں اوریہ بھی طنز کرتے ہیں کہ یہ توبسم اللہ کے گنبد میں رہتے ہیں ویسے بسم اللہ پڑھ کے کھانا ایک طرح کا

Page 64: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مذہبی اور تہذیبی رویہ ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے۔ کہ بسم اللہ کیجئے یعنی شروع کیجئے اللہ کے نام کے ساتھ۔

بسم اللہ کی برکت کے معنی بھی یہی ہیں کہ بسم اللہ پڑھ کے کوئی کام کروگے توبرکت ہوگی ظاہر ہے کہ یہ محاورہ مسلمانوں

کا اپنا ہے۔ اوران کی مذہبی فکر سے گہرے طورپر متاثرہے۔ اورہمارے سماجی عمل اکثر مذہب دھرم خاندانی بزرگوں کے اثر

آاتے ہیں۔ بسم اللہ ہی غلط ہوگئی اس کے معنی ہوتے ہیں کہ کام کی شروعات غلط ہوگئی۔ اورصوفیوں کے اثرات سے بھرے نظر

یہی۔۲۲) Pب� ا سبغ )

راس کے معنی یہ ہیں کہ ہم دوسروں کی طرف سے خوامخواہ بھی دشمنی کے جذبات بیر بغض رکھنا ہمارا یک محاورہ ہے۔ اور

رض الہی بھی اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ ان کی خوشی سے ناخوش ہوتے ہیں۔ یہ خدا واسطے کا بیرکہلاتا ہے۔ اوراسی کو بغ

آاتی ہیں کہ اختلاف بھی ان کے یہاں بسااوقات بلاوجہ اور بے سبب راس سے معاشرے کی اپنی کچھ برائیاں سامنے کہتے ہیں۔

ہوتا ہے۔

( بغل کا دشمن، بغلی Zھونسا ہونا۔۲۳)

راس سے امنادی( یابغل میں کتاب اور منہ پر جہالت بغل کے ساتھ بہت سے محاورے ہیں مثلا بغل میںبچہ شہر میں ڈھنڈورا)

مرادیہ ہے کہ بھی اورنہیں بھی بجا بے خبری ہے۔

اس سے فائدہ اٹھاکردوسرے ہمیں دھوکے دیتے ہیں۔اوردوست بن کر دشمنی اختیار کرتے ہیںوہی لوگ بغلی گھونسا ثابت ہوتے

ہیں یا بغل کے دشمن سمجھے جاتے ہیں یہ کہاجاتا ہے کہ لوگ بغل میں گھوس کر نقصان پہنچاتے ہیں یہ بھی مکاری

دغابازی اوردھوکہ دھڑی کی ایک صورت ہے۔

( بغل Zرم کرنا۔۲۴)

امعانیقہ کرنا گلے ملنا یہ بھی آاغوش ہونا۔ اور ایک ساتھ ہم خواب ہونا۔ بغل گیر ہونا۔ ایک دوسرے سے ایک دوسرے سے ہم

ہمارے لئے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا اظہار کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ مبارکباد کے وقت بھی ہم گلے ملتے ہیں۔ یہ بھی

رگلہ مندیوں کا خاتمہ کردیتاہے۔ رملنا شکوہ شکایت اور سمجھا جاتا ہے کہ گلے

( بکھیڑا، بکھیڑے میں پڑنا،بکھیڑنا۔۲۵)

یہ خالص ہندوستانی محاورہ ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں الجھنوں میں گرفتارہونا جھگڑے میں پڑنا۔ اختلافات کا بڑھنا اسی

لئے کہا جاتا ہے۔ کہ ہم اس بکھیڑے میں پڑنا نہیں چاہتے۔

Page 65: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ابلہاری جانا۔۲۶)  ابل جانا ، ابل )

ابل جانا۔ ابل ااسی کو ہمارے معاشرتی رویوں کا ایک خاص انداز ہے یعنی صدقہ ہونا قربان ہوجانا ، جان دینا، جان نچھاور کرنا

ابلہاری جانا کہتے ہیں۔

( بندوق بھرنا ، بندوق Pگانے کاندھے ہونا۔۲۷)

بندوق بارود ی ہتھیارہے اورحیرت ہے کہ ہم نے بارود سے متعلق بہت کم سوچا اوراسی نسبت سے ہمارے یہاں بارود ی ہتھیار

وں پرمحاورے بہت کم ہیں۔ ایک زمانہ میں بندوق میں بارود بھری جاتی تھی ایسی بندوقوں کو توڑے داربندوق کہتے تھے۔

آامادہ ہونا۔ اسی سے بندوق بھرنا محاورہ بنایعنی لڑنے کی تیاری کرنا مقابلہ پر

اان کی نالی دوسرے کے کندھے پر رکھ دی جاتی اان کونہیں سنبھال سکتاتھا آادمی اکیلے اتنی بڑی بڑی بندوقیں ہوتی تھیںکہ

آانے لگا مراد یہ ہے کہ وہ اپنا فیصلہ خودنہیں کرسکتے دوسروں کے تھی یہیں سے گانے کاندھے بندوق ہونا محاورے کے طورپر

اچھپانا بندوق چلانے کا عمل ہے کہ بندوق کا پچھلا حصہ اگرکاندھے سے ایک خاص اندازسے مشورہ پر کرتے ہیں ۔ بندوق کو

نہ لگایاجائے اورچھاتی کاسہارانہ دیا جائے توبندوق ایک دم سے دھکالگاتی ہے۔

آاتا زیادہ سے زیادہ ہم یہ اچھپانے کا عمل کہا جاتا ہے ۔محاورہ کے طورپر یہ زیادہ کام نہیں ااس سے بچنے کے لئے ہی بندوق کو

اا ہی گولی چلادی جائے گولی مادینا سامنے کی بات ہے لیکن ہم بیزاری کے کہہ سکتے ہیں کہ یہ تیارہونے کا عمل ہے کہ فور

طورپر بھی یہ کہتے ہیں کہ اسے گولی مارو اور اس کا ذکر بھی نہ کرو۔

( بوٹی بوٹی پھڑکتی ہے۔ بوٹی بوٹی کرڈاPنا، بوٹیاں چبانا، بوٹیاں چیلوں کوڈاPنا، بوٹی بوٹی تھرکنا۔۲۸)

ردعمل اورغصہ کے اظہار کے طورپر کہتے ہیں کہ تیری بوٹیاں چبالوں گا اس لئے کہ کچا گوشت کھانا وحشت یہ شدید ر

روں کو کھلادینا ایک بہت ہی المناک انجام ہے مرنیوالے کے ساتھ وبربریت کی علامت ہے۔ بوٹیاں یا بوٹی بوٹی کرکے چیل کو

روں کو شدید غصہ اور انتقام کا سلوک کرناہے قدیم زمانہ میں غلاموں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا تھا اوران کی بوٹیاں چیل کو

کھلائی جاتی تھیں۔

ہم اس سے اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بہت محاوروں کے پس منظر میں تاریخی واقعات اور روایات موجود ہیں۔ بوٹی بوٹی

تھرکنا یا پھڑکنا دوسری بات ہے اس سے مراد ایک ایسی شخصیت ہوتی ہے بلکہ اکثر نوعمر کے لڑکے اورلڑکیاں ہوتی ہیں جن

اچستی چالاکی اورشوخ مزاجی زیادہ ہوتی ہے ۔ اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی توبوٹی تھرکتی ہے۔ میں سے

س�نا ۔۲۹) آانا، بوPیاں بوPنا، بوPیاں �ننا، بول ( بول اٹھنا، بول بالا ہے۔ بول بالا ہونا ، بول جانا، بوPنے پر

Page 66: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یہاں بنیادی طورپر لفظ بول کی اہمیت ہے۔ اوراس سے پتہ چلتا ہے ۔کہ ایک ایک لفظ کے کتنے معنی اورکتنے

Shadesہیںاوربات میں سے بات اورنکتے میں سے نکتہ کیسے پیداہوتا ہے۔ بول بات چیت کے لئے بھی کہتے ہیںمیٹھے

بول اچھی بات چیت کے لئے بھی کہتے ہیں جومحبت اورپیار سے کی جائے اسی طرح سے طنزوتعریض سے جوبات کی

آاتی ہے اسے تلخ گفتگو گویا کڑوے بول کہتے ہیں جب کسی کی بات رکھ لی جاتی ہے اورلہجہ میں سختی اور کرختگی

جاتی ہے مان لی جاتی ہے سرائی جاتی ہے۔ تواسے بول بالا ہونا کہتے ہیں اور جب رعدکی جاتی ہے۔ تواس کو نیچا ہونا کہتے

ہیں۔

طرح طرح کی باتیں کرنے کو بھانت بھانت کی بولیاں کہا جاتا ہے بول اٹھا اچانک کسی بات پر بول پڑنے کو کہتے ہیں

آاواز پیدا ہونا۔ بڑبولا کبھی کبھی چھت ٹوٹنے لگتی ہے ۔تواس کے لئے بطور استعارہ چھت بول جانا یعنی کڑیوں کے ٹوٹنے کی

آاسمان کے قلابے ملانا‘‘ یہ سب باتیں ہمارے سماجی رویوں اور معاشرتی روشوں کی آاچکا ہے اوراپنے لئے’’ زمین اس سے پہلے

نشاندہی کرتی ہیں۔

الی کے۳۰) سکھلنا، بھاگ Pگنا، ب سبھوت کی Pنگوٹی۔ بھاگ جاZنا یا ( بھاگ پھوٹنا، بھاZتے کی Pنگوٹی، بھاZتے

بھاZوں چھینکاٹوٹنا۔

ہمارا معاشرہ ایک تقدیرپرست معاشرہ ہے کہ ہم تدبیر پر بھروسہ نہیں کرتے اپنی کوشش یا اجتماعی کوشش کے نتیجے پر ہمارا

یقین نہیں ہوتا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جوکچھ ہوا ہے یا ہونا ہے وہ قسمت کی وجہ سے ہوا ہے تقدیر میں یونہی تھا اس لئے ہوا

ہے ۔اس کوکسی تدبیر کسی منصوبہ بند کوشش اورکاوش سے وابستہ کرکے نہیں دیکھتے یہ ہماری بنیادی سوچ ہے کہ ہم

Efforts کوششوں پربھروسہ نہیں کرتےChancesکو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اسی وجہ سے بھاگ قسمت اورتقدیر

رلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنا اکھلنا اچھی قسمت ہوجانا ب آانا بھاگ کالفظ بہت لاتے ہیں بھاگ پھوٹنا یعنی بدقسمتی کا پیش

اچانک ایسی صورت کا پیدا ہوجانا جوفائدہ پہنچانے والی ہو۔

راس سے ہم اس فریم ورک کا حال معلوم کرسکتے ہیں جس کے ساتھ ہماری سماجی نفسیات’ ہمارے معاشرتی رویوں میں

آاتے ہیں کہ ہم نے تواس کے ہاتھ پیلے کردےئے شریک ہوجاتے ہیں اسی لئے ہم لڑکی کو رخصت کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے نظر

آاگے کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ ہیں۔ اب جو تقدیر جو نصیب یعنی ہم

ابرے مواقع سے بھی گذرتے ہیں جہاں قدرت بظاہر ہمیں کرتی ہےDisfavourیا Favourہم اپنی زندگی میں اچھے

Page 67: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

لیکن پورے معاشرے نے غلطی یہ کی کہ ہربات کو تقدیر کے حوالہ کردیا اورحالات ماحول نے انسانی روش اوررویوں پر نظرنہیں

آادمی بددیانت بہت ہے یہاں تک کہ قرض لیا ہوا واپس نہیں دینا چاہتا جو ایک طرح کا سماجی عیب ہے۔ رکھی ہمارے یہاں

آادمی کچھ دے گا تونہیں اسی کو بھاگتے کے دوسرے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جن کا قرض ہوتا ہے جوکچھ ملے وہی لے لو یہ

آادمی کسی لائق نہیں ہے اوراس کے پاس ابھوت کی لنگوٹی کہتے ہیں۔ اصل میں یہ ظاہرکرنا ہوتا ہے کہ وہ لنگوٹی یا بھاگتے

 کرتا پاجامہ بھی ہیں صرف لنگوٹی ہی لنگوٹی ہے۔ وہی توچھینی جاسکتی ہے۔

ستوPی۔۳۱) س پرا، بھری بھ ستولا، بھرا ( بھرابھ

مغربی یوپی میں ایسے بھربتون کہتے ہیں دوسرے محاورے جواس سلسلے کے ہیں وہ وہاں رائج ہیں دہلی ہی میں رائج ہیں۔ بھرا

آاتا ہے جس میںچیزیں بھی ہوں اورپیسے بھی اس لئے کہ ہمارے یہاں اتنی بھی ہوںاورپیسے بھی اس لئے کہ اپرا گھرکے لئے بھی

ہمارے یہاں اتنی غربت رہی ہے کہ بعض اوقات گھڑے پرپیالہ بھی نہیں ہوتا تھا توعورتیں کہتی تھیں کہ ہم نے روٹی پر روٹی رکھ

کے کھائی یعنی ہم اتنے غریب نہیں ہیںکہ ہمارے یہا ںدوروٹیاں بھی نصیب نہ ہوں اب ایسے خالی گھروں کے مقابلہ میں جن

کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تھا بھراپراگھر مال ودولت کے اعتبار سے بڑا گھر کہلاتاتھا اورجب کبھی لڑکی کو یا کسی عزیز

کو بہت کچھ دیکر رخصت کیاجاتا تھا توکہاجاتا تھا کہ ابھی توپھرتبول یا بھربتوں کے بھیجاتھا۔

ابھرم باقی رہنا۔۳۲) سکھل جانا، ( بھرم

راس طرح کیا جاتا ہے کہ جیسے وہ اپنی جگہ پر ایک حقیقت ا ان کو ظاہر ہمارے ہاں بہت باتیں اصل حقیقت نہیں ہوتیں بلکہ

اکھل جاتی ہے او ربھرم باقی نہیں رہتا اس کو دہلی میں ایک راس میں واقعتا کوئی بنیاد نہیں ہوتی توجلدی ہی وہ بات ہوں لیکن

آادمی اپنے بھرم کو باقی رکھ سکے کہ سماج کے لئے وہ بڑی اکھل گئی اور اورمحاورے سے بھی ظاہر کیاجاتا ہے کہ پول پیٹی

بات ہوتی ہے۔

( بھرے کوبھرتا ہے۔۳۳)

آادمی یہ سمجھتا ہے۔ کہ یہ محاورہ بھی ہمارے سماج کی سوچ ہے اورہوت نہ ہوت کے نتیجے میں پیداہوئی کہ ضرورت مند

کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے اورملتا اسے ہے کہ جسے ضرورت نہیں ہے اس کے یہ معنی میں متحقق ہوں مجھے ملنا چاہیے

ہیں کہ بھرے کو بھرا جاتا ہے ہم اکثررشتہ داروں کے لبوں پر شکایت دیکھتے ہیں کہ وہاں توبھرے کو بھرا جاتا ہے۔یہ سماجی

شکایت ہے یہا ںتک کہ یہ شکایت خدا سے بھی ہوتی ہے۔

رمہ پن بھی زیادہ تھا اورنہ انصافی بھی اسی کی وجہ سے کچھ لوگوں کے پاس ہوتا تھا اورکچھ لوگوں کے پاس ہمارے یہاں نک

Page 68: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

راس نہ ہوت کے خود بھی ذمہ دارہوتے تھے۔ لیکن سمجھتے یہ تھے کہ یہ سب توہماری بالکل نہیںہوتا تھا۔ بعض حالتوں میں وہ

ابرائی ہے ہمارا کوئی قصور نہیں اوراپنے رشتہ داروں پر اپنا حق تصور کرتے تھے پھر شکوہ شکایت کرتے تھے۔ تقدیر کی

( بہشت کاجانور، بہشت کا میوہ، بہشت کی قمری ، بہشت کی ہوا۔۳۴)

آائیڈیل ہے کہ وہاں راحتیں ہیں بہشت مسلمانوں میں اوراس سے پیشترعیسائیوں اوریہودیوں میں موت کے بعد کی زندگی کا ایک

آارام کایہی اس میں محل ہیںبہتی ہوئی نہریں پھل دار درخت ہیں اور چہکتے ہوئے پرندے ہیں ہمارے ہاں سکون وراحت

احور جنت کوثر تصوربھی ہے جو صحرا نشیں قوموں کا ہوتا ہے اس سے بہت سے محاورے ہمارے ہاں جیسے بہشت کی قمری

آادم وحوا کا بہشت میں قیام یہ سب اسی تصورکا نتیجہ ہے جس کا اثرمسلمان تہذیب پر رر ممنوعہ، وتسنیم ، شجر طوبہ ، شج

آاتی ہے انگریزی بہت گہرا ہے۔ اس کا اثر عیسائی تہذیب پر بھی ہے مگر اتنا نہیں فردوس گم گشتہ کی بات وہاں پر زبانوں پر

پیرا ڈائس ویگینڈنظمیں اسی کی طرف اشارہParadisevaigaincdکے مشہو رشاعرملٹن کی نظم پیراڈائس لوسٹاور

کرنے والی شعر ی تخلیقات ہیں۔

( بیٹی کاباپ۔۳۵)

اان میں ایک بڑی وجہ بیٹی کے ساتھ اس ہمارے یہاں بیٹی ہونے پرخوشی کا اظہارنہیں کیاجاتااس کی بہت سی وجوہات ہیں

کی سسرال والوں کا رویہ ہے جو ایک بیٹی والے باپ کے لئے بے حد تکلیف کی بات ہوتی ہے۔

ااس کی کمزوری اخلاقی ہو یا رشتوں کی نزاکت کے باعث ہو یا مالی اعتبار سے ہو۔ یا بے ہمارا سماج کمزور کودباتا ہے چاہے

سہارا ہونے کے لحاظ سے یہاں تک کہ اگراس کے گھرمیں بیٹی ہے تویہ بھی کمزوری ہے۔ اوراس کوبھی موقع بہ موقع دامادا

کرتے رہیں گے ناجائز دباؤ ڈالتے رہیں گے۔Exploitاس کے گھروالے برابر

( بے چراغ کرنا ، بے چراغ ہونا۔۳۶)

چراغ خوشی کی علامت ہے اس لئے کہ وہ اندھیروں کو دورکرتا ہے۔ اورروشنیوں کوپیدا کرتا ہے۔ یہ بڑی بات ہوتی ہے۔ اسی لئے

بیٹے کو اندھیرے گھرکا چراع کہتے ہیں۔ دعاء دی جاتی ہے۔ چراغ روشن مراد حاصل اوربے چراغ ہوجانا اس کے مقابلہ میں

محروم ہوجانا ،بے حد نقصان کی حالت میں ہونا ویران ہوجانا ،گھرکے گھربے چراغ ہیں شہر کا شہر بے چراغ ہے۔ اردو کا

ایک شعرہے۔

رل ویراں میں داغ ایک روشن ہے اس طرح د

ااجڑے نگر میں جیسے جلے ہے چراغ ایک

Page 69: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ببسوPے۔۳۷) ( بیس

ہمارے معاشرے میں غیرشہری یا دیہاتی طبقہ بیس تک ہی گنتی جانتا تھا اوردوبیسی یعنی چالیس تین بیسی یعنی ساٹھ اسی

امراد اس کا ایک حصہ ااس سے ربسوے کہتا تھا اور نسبت سے وہ وہ کھیت کو بھی بسوں میں تقسیم کرتا تھا۔ اسی لئے بیس

ااس معاشرے کے اپنے ماحول سے تعلق رکھتا ہے۔ جوکھیت کیارسے ہوتا تھا ۔ یہ معاشرے کے ایک خاص دور کا پیمانہ ہے۔ اور

اجڑا ہوتا تھا۔

( بیل منڈھے ہونا یا چڑھنا، بیل پڑنا، بیل بدھنا۔۳۸)

بیل منڈھے چڑھنا، بیل کے سہارا لینے کے عمل کوکہتے ہیں اس لئے کہ بیل تیزی سے بڑھتی ہے مگرسہارا چاہتی ہے اگر سہارا

رگرپڑتی ہے اوربرباد ہوجاتی ہے کسی منصوبے یا تدبیر کے کامیاب ہونے کو بڑی بات اورتقدیرکی خوبی خیال نہیں ملتا تووہ

کیاجاتا ہے۔ اسی لئے جب کوئی کام ہوجاتا ہے تویہ خیال کیا جاتا ہے۔ کہ بس تقدیر کی خوبی ہے کہ بیل منڈھے چڑھ گئی

ہمارے ہاں مددکرنیوالے توہوتے نہیں غلط سلط مشورہ دینے والے ملتے ہیں رکاوٹوں سے بچ نکلنا یا ان پر قابوپانا بڑی بات ہوتی

آاگے بڑھتی ہیں انہیںبیل بدھنا کہتے ہیں یعنی وہ ہے۔ تبھی گھریلوماحول میں اسے بیل منڈھنا کہتے ہیں ۔جوچیز یں تیزی سے

بیل کی طرح پروان چڑھتی ہے یہ لڑکیوں کے لئے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ توبیل کی طرح بڑھتی ہیں۔

( بے نمک ہونا۔۳۹)

(کوبھی کہتے ہیں اوراس سے کئی محاورے نکلے ہیں۔ نمک حلال اورنمک حرام اوردہلی میںSaltنمک ہمارے ہاں سالٹ )

ایک حویلی ایسی ہے جس کونمک حرام کہتے ہیں اورنمک کھانے کا معنی احسان مند کے ہیں۔ کسی کی نیکی خدمت

اوربھلائی کا خیال کرنے کے ہیں۔ کہ ہم نے تواس کا نمک کھایا ہے بے نمک سالن کے معنی بے مزہ ہونے کے ہیں۔ یہاں تک

رن بے نمک کہتے ہیں جہانگیر نے کشمیر کے لئے لکھا ہے کہ جس شخص کے رنگ میں ہلکی ہلکی ملاہت نہیں ہوتی حس

رتے کہ حنش ہم نمک نمی دارد۔‘‘ کہ کشمیرمیں نمک نایاب ہے یہاں تک کہ اس کے حسن میں نمک نہیں ہے ’’ح

( بیوی کا دانہ یاکونڈا، بیوی کی صحنک یا نیاز بیوی کی فاتحہ۔۴۰)

دل مقبول کے نام کی فاتحہ دی جاتی ہے۔ اسے گھروں ہہ بنت رسو آاتا ہے کہ حضرت فاطم مسلمان گھرانوں میں یہ دستور چلا

کی زبان میں بی بی کی صحنک یا بی بی کے کونڈے کہا جاتا ہے کونڈا مٹی کی بڑی تغاری کوکہتے ہیں۔ جب فاتحہ کے

ااس میں کچوریاں پوڑے میٹھے)گلگلے ( اورکھیرپکاکر اس پر نیاز دی جاتی ہے تواس کو کونڈابھرنا کہتے ہیں یہ محاورے لئے

ہماری معاشرتی زندگی اورگھریلو ماحول کی ایک خاص تصویر پیش کرتے ہیں اوران کے ساتھ جو رسم وابستہ ہے ان محاوروں

Page 70: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ااس کا بھی اظہار ہوتا ہے۔  سے

( بیوی کا غلام ہونا۔۴۱)

اب سے کچھ زمانہ پہلے تک جب بڑے گھروں کی بیٹی رخصت کی جاتی تھی تواس کے ساتھ غلام اورباندیاں بھی دی

آائندہ خدمت کے لئے ہیں رفتہ رفتہ جاگیر داریاں ختم ہوگئیں تویہ رسم بھی ختم ہوئی اب بیوی کے سامنے بول جاتی تھیں کہ یہ

ااس غلام کی طرح ہوتاہے جسے اپنے مالک یا ملکہ کی طرح بی بی کے سامنے بھی نہیں سکتا بھیگی بلی بنا رہتا ہے یعنی

راس سے ہمارے معاشرے کی ذہنی روش کا پتہ چلتا ہے۔ کہ شوہر کے بولنے کی جرات بھی نہ ہو وہ گویا بیوی کا غلام ہے۔

آاقا بن جائے اورشوہر مقابلہ میں وہ بیوی کو کوئی درجہ نہیں دیتا تھا۔ اوریہ اس کی مخالف ایک صورت تھی کہ بیوی اس کی

آائے ۔یہ صورت حال معاشرہ پسند نہیں کرتاتھا۔ تبھی توطنزا کہا گیا کہ بیوی کا غلام ہے۔ اس کا غلام نظر

‘‘ پ ’’ ردیف 

( پابوس ہونا۔۱) اان محاوروں سے ہوتا ہے جو قدموں سے نسبت کے ساتھ ہماری زبان ہمارے یہاں قدموں کا بہت احترام کیا جاتا رہا ہے اس کا اندازہ

ادھول ہونا۔ قدموں پر نچھاور ہونا قدم چومنا قدموں کوبوسہ دینا میں رائج ہیں اوررائج رہے ہیں۔ پیر دھونا پیر دھودھوکر پینا۔ پیروں کی قدم بوس ہونا قدم چھونا قدم رنجہ فرمانا یا قدومیمنت )مبارک قدم( قدموں کی برکت قدم گاہ وغیرہ اس سے معاشرے میں احترام کےرن دین کے ساتھ اورخاص تقاضوں کی نشاندہی ہوتی ہے یہ ہندایرانی تہذیب کا ایک مشترک رویہ سمجھا جانا چاہیے ہمارے ہا ںبزرگاآاج بھی برتا جاتا ہے کہ ان کے قدموں کو چھوتے ہیں ہندوؤںمیں پنڈتوں کے لئے کہتے ہیں ’’پالا طورسے صوفیوں کے ساتھ یہ رویہ اان پر نچھاور ہوتے ہیں جب کسی سے دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں تویہ کہتے ہیں گن مہاراج‘‘ یعنی ہم حضورکے قدم چھوتے ہیںاورآاپ کے قدموں کی خاک ہوں یاخاک کے برابر بھی نہیں ہوںاس لیے ظاہرہوتا کہ وہ تواس کے قدموں کی دھول کے برابر ہے یا میں تو

آاتا ہے۔ زب کاشعر یاد  ہے کہ ہمارا معاشرہ کس طرح سوچتا سمجھتا اورکرتا رہا ہے۔ غال کرتے ہو مجھ کومنع قدم بوس کس لئے

آاسمان کے بھی برابرنہیں ہوں میں کیا آاسمان کو قدم بوسی کی اجازت ہے تومجھے کیوںنہیں ہے یعنی

( پاپ چڑھنا، پاپ ہونا، پاپ کرنا، پاپ �ے بچنا، پاپ کاٹنا، پاپ کھانا ۔۲) ران جیسے محاورے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سماج کچھ باتوں کوگناہ قصوراور بڑی خطاؤں کے دائرے میں رکھتا ہے اور انہیں پاپ کہتا ہے ہندوؤں میں بڑے قصور کے لئے مہاپاپ کہا جاتا ہے اوراسی نسبت سے قصور کرنے والے کوپاپی یا مہاپاپی کہہ کر یاد کیا جاتا

Page 71: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ہے پاپ چڑھنا پاپ کے وارد ہونے کو کہتے ہیں ایسا کرنا توپاپ کرنا ہے۔ اوراس سے بچنا چاہیے کہ ہم سے کوئی پاپ ہوجائے پاپآاتا ہے کہ اپنے دفع کرو پاپ کاٹو۔ کا ٹنابھی اسی ذیل میں

( پاپڑبیلنا ، پاپڑپیٹنا۔۳) پاپڑہندوستان کی کھائی جانے والی اشیاء میں ایک خاص قسم کی غذا ہے جوباریک روٹی کی طرح تیارکیا جاتا ہے پھرتل کر کھایا

آادمی تھک جاتا ہے چونکہ روٹی پکانے کے مقابلہ میں پاپڑبیلنا ایک مشکل کام ہے دیر طلب ہے ۔اور بہت سے پاپڑتیا رکرنے میں جاتا ہے۔ اسی لئے تھکادینے والے کاموں کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اتنے دنوں پاپڑبیلتا رہا کہ پاپڑچکلہ بیلن سے تیارہوتا ہے۔

سروں ، پاپوش پرمارنا ،پاپوش �ے یاپاپوش کی نوک �ے، پاپوش کی برابر �مجھنا۔۴) ( پاپوش بھی نہ مااجوتا صرف ایک ضرورت کی چیز نہیںہے اس کی ایک غیرمعمولی اجوتی یا اجوتے کوکہتے ہیں اورہمارے معاشرے میں پاپوش

اجوتے مارنازبان اجوتے کے نام کے ساتھ ہماری زبان میں داخل ہیں اجوتی اور سماجی حیثیت بھی ہے اسی لئے بہت سے محاورے اجوتے کھانا دوسروں کے درمیان ذلیل ہونا۔ اجوتا ہمارے ہاں ایک سماجی درجہ رکھتا ہے بہت نیچا سے ذلیل کرنا اصل میں

درجہ اسی لئے جب کسی کوذلیل کرنا ہوتا ہے توجوتے کی نوک پررکھنا کہتے ہیں۔ توجوتا ایک طرح کی سماجی سزا ہےآادمی کی نسبت سے خدمت کرنا جوتیاں سیدھی کرنا ہیں کہ ہم نے فلاںکی جوتیاں سیدھی کیں یعنی اس کی ادنی اوربڑے

سے ادنی خدمت سے کوئی گریز نہیں کیا۔( پا�اپڑنا، پا�اپلٹنا۔۵)

اان کے مطابق آاتے ہیں ااس پر جونشانات ہوتے ہیں اورسامنے پاسا چوسرکی ایک خاص طرح کی گوٹ ہوتی ہے پھینکا جاتا ہے تو چال چلی جاتی ہے اوراس معنی میں پانسہ پورے کھیل پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اورکھیل کا دارومدار پانسہ پڑنے پر ہوتا ہے اسی کوسماجی طورپر ہم زندگی میں استعمال کرتے ہیں اوریہ سمجھتے ہیں کہ اگر پانسہ غلط پڑا ہے تویہ ہماری بدقسمتی ہے

اوراگرصحیح ہے تویہ خوشی کی بات ہے اوراچھی قسمت کی علامت ہے۔( پال ڈاPنا۔۶)

ردے کے درمیان رکھنا تاکہ وہ تیا رہوجائیں اس کو ایک سماجی محاورے کے طورپر استعمال کرنا ایک طرح آاموں کولحاف اور گآام کوکہتے ہیں آام ڈال کا پکا بھی ہوتا ہے اورپال کاپکا اچھے اورتازہ آاتا ہے کہ کیا ان کی پال ڈالوگے سے طنز کے معنی میں

امستعد ہو۔ آادمی کے لئے بھی ڈال کا پکا استعمال ہوتا ہے جوعقل مند ہوچاق چوبند ہو اورہر طرح کہ یہ ڈال کا پکا ہے اورایسے اس سے ہمارے اس رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ محاوروں کی صورت میں ہم اپنے عام تجربوں کوخاص معنی دیتے ہیں۔جس سے

ہماری سوچ کے سفرکاندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے بات کوکہاں سے اٹھایا اورکہاںپہنچایا۔ (پانی پانی کرنا، پانی پانی ہونا، پانی پڑنا، پانی پھرجانا ،)کون کتنے پانی میں ہے( پانی توڑنا پانی ڈاPنا، پانی۷)

آانکھوں کا پانی ڈھل Zیاہے( پانی رکھنا یا بھرنا ،پانی چھونا،پانی پی پی کرکو�نا، دکھانا، پانی دینا ، پانی ڈھلنا )

Page 72: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

پانی پی کرذات پوچھنا، پانی کا بتا�ا یا بلبلا وغیرہ۔ پانی ہماری ضرورت کی چیز ہے اگرپانی نہ ہوتوزندگی بھی نہ ہوبہت محاورے پانی پرہیںمثلا گہرے پانی پیٹھ ،گہرے پانی میں

آایا ہے اوراس مفہوم کے ایک رخ کو ظاہرکرتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے کون کتنا تجربہ اگراتر کردیکھو ۔یہیں سے یہ محاورہ کارہے کون کتنا بھرم رکھنے والا ہے۔ کون کتنا لائق ہے یاکتنا پیسہ والا ہے پانی پلانا ثواب کا کام ہے اورپیاسے کوپانی پلانا

آاب کوثر پلائیں د کو اسی لئے ساقی کوثر کہاجاتا ہے ۔کہ وہ میدان حشر میں پیاسوں کو آانحضرت اوربھی زیادہ ثواب کا کام ہے آاسانی سے چل جائے پانی اچھری چلانے سے پہلے پانی اس لئے لگایا جاتاہے کہ چھری گے۔پانی لگانا جانوروںکی گردن پر

ااس جانور کے لئے ہوتاہے جس کو ذبح کرنے سے پہلے پانی پلایا جاتاہے۔پانی دینا پودوں کوسینچنا پانی پی دکھانا بھی راسی طرح سے اپنی ااسی کو کوسنے بیٹھ گئے۔ پانی پی کر ذات پوچھنا بھی کرکوسنا طنز کرنا ہے یعنی جس نے پانی پلایا

رش فکر کا اظہارہے کہ جس کے گھر کاپانی پی لیا اب اس کی ذات کیو ں پوچھتے ہو۔یعنی اس سے چھوت چھات ایک رو برتنے کی بات کیوں کرتے ہو پانی پانی ہونا شرمندہ ہونا یعنی ندامت کے پسینے میں ڈوب جانا ہے اورپانی پانی کرنا شرمندہ کرناآانکھوں کا پانی مرجانا یا ڈھل جانا دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ ہے کہ میں نے سارا چٹھا سنا دیا اوراسے پانی پانی کردیا ہے آاتا ہے کہ پکانے کے عمل میں یعنی لحاظ یا س نہ رہنا ہے اورکمینہ پن اختیار کرنا۔ پانی چھوڑنا عورتوں کی زبان میں اس لیے پانی کی مقدار کا کم اورزیادہ ہونا یا پکتے وقت پانی چھوڑنا پانی کا بتاسا بلبلے کوکہتے ہیں اس طرح سے پانی سے وابستہ

تصورات ہماری معاشرتی فکر کا اک اہم حصہ رہے ہیں۔ساکھاڑنا، پاؤں جمنا یاجمانا، پاؤں پڑنا، پاؤں باہرنکاPنا، پاؤں ملنا ، پاؤں ٹپکنا، پاؤں پسارنا ،۸) ساکھڑنا، پاؤں (پاؤں

پاؤں پر �ررکھنا پاؤںمیں ٹوپی پگڑی یاڈوپٹہ ڈاPنا پاؤں پاؤں چلنا یا پیادہ ہونا۔

آاتے ہیں جو انسان کے اہم تجربات میں سے ہیں اس کی اہم ضرورت ہے وہاں نہ پاؤں کے ساتھ جہاں چلنے کے محاورات

چلنے کے ساتھ بھی بہت سے محاورات وابستہ ہیں مثلا پیڑ توڑکربیٹھنا پیر کی کیفیات کو ظاہرکرتے ہیں ضرورت کو ظاہر کرتے

ہیں بیٹھنے کے علاوہ پیروں کے جمنے اور ٹہرے کے بارے میں محاورات انسانی کردار اورسماجی ضرورت کی طرف نئے نئے

اا قدم جمانا، قدم جمنا جیسے ہم دوسرے لفظوں میں پیر جمنا، اورپیر جمانا، کہتے ہیں یہ پہلوؤں سے اشارہ کرتے ہیں مثل

آاتے ہیں۔پامردی اوربہادری مستقل مزاجی کی طرف اشارہ کرنے والے محاورے ہیں جن کے مقابلہ میں قدم اکھڑنا اورقدم اکھاڑنا

آائے یا اکھاڑدےئے گئے سرپر پاؤں رکھ اان کے پاؤں اکھڑگئے ۔اکھڑتے ہوئے نظر رت حال ہے کہ جنت میں کے خلاف ایک صور

آامیز صورت ہے ان محاوروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیروں کے بارے کر بھاگے۔ بھاگ کھڑے ہونے کی ایک نئی عجیب اورمبالغہ

میں کیا کیا سوچتے ہیں اورکس طرح سوچتے ہیں۔

Page 73: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آاگے بڑھنادوقدم چل کر ٹہر گئے یا دودم چل قدم سے متلق کچھ دوسرے محاورے بھی ہیںجیسے دوقدم کا فاصلہ یا قدم قدم

آاج کے دورکا محاورہ کہ انہوںنے اپنے قلم یااور قلم کی حرکت کو کبھی رکنے نہیں دیا مستقل طورپر کام کر تودیکھویا پھر ہمارا

رل تحسین صورت ہے پاؤں میں سررکھنا ڈوپٹہ رکھنا، انتہائی احترام کا اظہار کرنا مگر مقصد یہ کرتے رہے جوایک بڑا سماجی قاب

ہوتا ہے کہ قصورمعاف کردیا جائے خطا درگذرکردی جائے چونکہ دوپٹہ پگڑی، اورٹوپی کسی بھی شخص کااظہارعزت ہوتاہے

آاپ ہمیں عزت دیں بخشیں اورہمارے قصور کودرگذرکریں یہ ایک سماجی طریقہ رسائی ہے۔  اورمقصد اس عمل سے یہ ہے کہ

( پاؤں پاؤں پھونک پھونک کررکھنا۔۹)

آاتا کہ کل تک جب راستہ پر خطر ے تھے آاج اس حدتک سمجھ میں نہیں احتیاط سے قدم اٹھانا اور خطرات کاخیال رکھنا

آادمی مشکلات قدم قدم پر خطرہ تھا دھوکہ بازی تھی ٹھگی اورڈکیتی کا اندیشہ تھا دوستوں اوررشتہ داروں کی طرف سے بھی

میں گھرجاتا تھا اس وقت قدم پھونک پھونک رکھنا اپنے معنی اورمعنویت کے اعتبار سے انسان کے سماجی رویوں کی طرف

اشارہ کرتاہے۔

( پاؤں پھیرنے جانا۔۱۰)

اا یہ محاورہ خاص طورپردہلی کی تہذیبی زندگی سے وابستہ ہے اوریہاں کی بعض رسمیں اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں مثل

پاؤںپھیرنے جانا، بچہ پیداہونے سے پہلے )نواں مہنہ( شروع ہوتے وقت لڑکی سسرال سے میکے جاتی ہے پھر ایک دودن بعد اپنی

رلہ نہاکر لڑکی میکے آاجاتی ہے۔ منشی چرنجی لال نے اسکے مقابلہ میں لکھا ہے کہ بچہ پیدا ہونے کے بعد چ سسرا ل واپس

جاتی ہے کہ یہ بات توضرور ہے لیکن اس کوپاؤں پھیرنا نہیں کہتے ۔چلہ نہاکر میکے یا کسی قریبی رشتہ دار کے گھرجانا وہ

دہلی میں الگ معنی میںاستعمال کیا جاتا ہے۔

( پاؤں پیٹ پیٹ کرمرنا، پاؤں پیٹا،پاؤں پٹخنا۔۱۱)

آادمی کوئی کام کرنا نہیںچاہتا اورناخوشی کے اظہارکے یہ دوسری طرح کے محاورات ہیںاورفرد کے رویہ سے تعلق رکھتے ہیںجب

لئے قدم اس طرح اٹھاتا ہے جیسے وہ پاؤں پٹخ رہا ہے پاؤں پیٹ رہا ہے اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ اظہارناخوشی کررہا ہے۔

ناخوشی کے ساتھ زندگی گذارنا اورذہنی تکلیفیں اٹھاتے رہنا پاؤں پیٹ پیٹ کرمرنے یاجینے کوکہتے ہیں بات وہی ناخوشی میں

مبتلا رہنے کی ہے۔

( پاؤں میں مہندی Pگاہونا یا Pگنا۔۱۲)

عورتوں کا محاورہ ہے کہ مہندی وہی لگاتی ہیں اورپیروں میں جب مہندی لگائی جاتی ہے توچلنا پھرنا بندہوجاتا ہے یہاں تک

Page 74: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ااس کو اتار دیجائے اس کے بعد بھی ہاتھ پیروں کودھویا نہیں جاتا تاکہ مہندی رچ جائے کہ وہ مہندی خشک ہوجائے۔ اور

آانا جانا ممکن نہیںہوتااسی لئے طعنہ یا طنز کے طورپرکہا جاتا ہے کہ ایسا بھی کیا ہے کہ بہرحال جب مہندی لگی ہوتی ہے تو

آادمی اپنا حق یہ سمجھتا ہے کہ جب بھی وہ یادکرے آاپسی معاملات میں آاسکتے کیا پیروں کو مہندی لگی ہے۔یعنی آاپ نہیں

آاتا تواس سے شکایت ہوتی ہے شکوہ کیا جاتا ہے اور اس کااظہار مقصود ہوتا ہے آانا چاہیے اور اگروہ نہیں یا موقع ہوتودوسرے کو

کہ تم خوامخواہ کی بہانہ بازی کررہے ہو یہ کوئی جائز بات نہیں ہے۔

( پتھر بر�نا، یاپتھراؤ کرنا، پتھرپڑنا۔۱۳)

پتھربرسناگاؤں والوں کی اصطلا ح میں اولے پڑنے کوکہتے بھی ہیں ’’اولوں‘‘ سے فصل کا ناس ہوجاتا ہے وہ تیار ہوتب اورنہ ہو

تیار تب بھی نقصان دہ ہوتے ہیں اسی لئے جب کوئی کا م خراب ہوجاتا ہے تویہ کہتے ہیں کیا تمہاری عقل پہ پتھراؤ پڑگئے

تھے یعنی وہ کام نہیں کررہی تھی تم سوچ نہیںپارہے تھے پتھر برسانا پتھراؤ کرنا ہے یہ سزا دینے جنگ کرنے اور احتجاج کرنے

آاج بھی ہے قدیم زمانہ میں اورخاص طورپر یہودیوں کے یہاں پتھر مارکر ہلاک کرنا کی ایک صورت ہے پتھراؤ کرنے کا رواج

ایک سخت سزا تھی بعض جرائم کے سلسلے میں دی جاتی تھی اسلام میں وہ منقطع ہوگئی۔

آادمی کوبھی پتھرکہتے ہیں بے حس ہونے کی ایک صورت یہ بھی پتھربے حس وہلاکت ہونے کی علامت ہے اسلئے کہ بیوقوف

ابرے حالات پر پسیجے بھی نہیں تواسے بھی پتھر آادمی کسی کے دکھ درد کو محسوس نہ کرے اس کا دل کسی کے ہے کہ

آانکھیں آانکھیں پتھراناکہتے ہیں کہ آانکھیں تھکن کاشکار ہوجاتی ہیں اس عمل کو بھی دل کہا جاتا ہے انتظار کرتے کرتے

پتھراگئیں۔

( پتھرچھاتی پردھرنا یا دل پرپتھر رکھنا۔۱۴)

بے صبرکرنا اورایسے معاملات میں جہاں کسی شخص کے لئے صبروضبط کا مظاہرہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے وہاں یہ کہتے ہیں

کہ دل پر پتھررکھ کر یہ کام کیا یا اس کا فیصلہ کرنے کے لئے دل پر پتھررکھنا پڑاوغیرہ ۔پیٹ سے پتھرباندھنا انتہائی بھوک کے

عالم میں بھی صبروضبط سے کام لینا اورکسی سے اظہارنہ کرنا پیٹ سے پتھر باندھنا کہلاتا ہے اورمشکلات برداشت کرکے

جب کوئی کام کیا جاتا ہے توبھی یہ کہتے ہیں کہ ہم نے پیٹ سے پتھر باندھ کر یہ کام کیاہے۔یہ یا ایسے کاموں کے لئے

توپیٹ سے پتھرباندھنا ہوتا ہے یعنی سختیاں جھیلنا اور مشکلات برداشت کرنا۔

سمردے اکھیڑنا۱۵) سپرانے )

ااکھیڑنا کہلاتا ہے یہ امردے اان کا ذکر باربار زبان پر لانا گڑے غیرضروری باتوں کو بار بار دہرانا جن کا وقت بھی گذرچکا اور

Page 75: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ہم کسی کی نیکی کو یادنہیں کرتے اس کے احسانات کو بھول جاتےہماری سماجی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی

ابرائی کو بار بار دہراتے ہیں۔بلکہ بھولی بسری باتوں کو بھی ضرورسامنے لانا چاہتے ہیں اس محاورہ میںایک طرح کا طنز ہیں اور

اوراس سماجی روش کی طرف اشارہ ہے کہ ہم اچھائیوں کا اعتراف کرنے میں بے حد بخیل ہیں اورکمزوریوں ،عیبوں، برائیو ںکو

طرح طرح سے سامنے لاتے ہیں۔

آاتیں۔۱۶) آانکھیں کام ہیں (پرائی

آانکھوں اوراپنے ذہن کی روشنیوں اور اپنے علم کے ذریعہ ہماری آاجاتی ہیں اور دوسرے لوگ اپنی آانکھیں بھی اپرائی کام توخیر

آانکھوں سے ہی کام لینے پر آادمی اپنی مددکرسکتے ہیں ۔ اورکچھ لوگ کرتے بھی ہیں مگر محاورہ کا مقصد یہ ہے کہ

ابوجھ کی روشنی میں فیصلہ کرے اوراپنے اسوجھ اکثرمجبور رہنا پڑتا ہے اور یہی بہتر بھی ہے کہ اپنی عقل سے کام لے اپنی

ارادے کی مضبوطی کے ساتھ قدم اٹھائے ورنہ دوسروں کا مشورہ ان کی رہنمائی اورعقل گاہ گاہ گمراہی کا باعث بھی بن جاتی

ہے کہ لوگ ہمیں دوست بن کر بھی توفریب دیتے ہیں۔

اپرائے شگون کے Pئے اپنی ناک کیوں کٹواتا ہے۔۱۷) )رحرص کا رشتہ رکھنے کی وجہ سے محض لاگ کے طورپر کرتا ہے آادمی کا حال کچھ عجیب ہے بہت سے کام وہ دوسروں سے

کہ تم ایسا کرتے ہوتوہم ایسا کریں گے اورایسی صورت میں یہ بھی نہیںسوچتا کہ جوکچھ میں دوسرے کی مخالفت کے طورپر کررہاراس محاورے کی طرف اشارہ ہے کہ ہوں وہ خود میرے لئے نقصان کی بات ہے ۔ بہت بڑے نقصان کی بات ہے اسی کی طرف

پرائے شگون کی وجہ سے اپنی ناک کیوں کٹواتے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیکھا دیکھی کام نہیں کرنا چاہیے اپنی عقل سے بھی کام لینا چاہیے اس میں ایک بات اوربھی قابل لحاظآادمی اس کی وجہ سے بے عقل اور وہمی ہوجاتا ہے اوروہ شگون لینا ہے جو تواہم پرستی کی ایک صور ت ہے اورقابل تعریف نہیں ہے

ابرے بھلے اورنفع ونقصان کے بارے میں بھی نہیں سوچ پاتا۔ ہے اور اپنے سدوربھاZنا۔۱۸) اپرچھاوا ںپڑنا، پرچھاویں �ے بچنا یا )

آادمی کی عقل خبط رتحال کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پرچھاواں پڑنے سے بھی پرچھاواں پڑنا بھی اسی طرح کی ایک نفسیاتی صورآادمی پر چھائی بھی پڑگئی توکھانے پینے کی ہوسکتی ہے اس کی جڑبنیادتوہمارے ہاں چھوت چھات کے تصور میں ہے کہ اگرکسی آادمی کی آائے ہیں اوریہیں سے یہ خیال پیدا ہوا کہ برے آادمی کا اپنا وجودناپاک ہوگیا ہم ایسا سوچتے اورسمجھتے کوئی شئے یا پھر آادمی کی پرچھائیں بھی بری ہوتی ہے ہمارے معاشرتی رویوں میں موقع بہ آادمی کاا خلاق تباہ ہوجاتا ہے یعنی برے پرچھائیںپڑنے سے موقع اس صورت حال کو دیکھا اور پرکھا جاسکتاہے کہ وہ نفسیاتی طورپر اپنے سماجی رویوں میں جائز اورنہ جائز حدود کا خیال

ادوربھاگنا بن گیا۔ آادمی کا عام ذہن ہے اورہمارے معاشرے کی کمزوری ہے اسی سے پرچھاویںسے بچنا یا نہیں رکھتے یہ

Page 76: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

( پردہ ڈاPنا یا اٹھادینا ، پردہ پوشی، پردہ داری، پردہ ہونا۔۱۹) پردہ ہمارے معاشرے میں ایک غیرمعمولی رجحان ہے مسلمانوں کا ایک خاص طبقہ اپنی عورتوں کو پردہ کرواتا ہے یہاں تک کہ اس

آاواز کا بھی پردہ ہے ۔ میں یہ مبالغہ برتتا ہے کہ عورت کے لئے تو پردہ ایک حدتک ہندوؤں میں بھی رائج رہا ہے اور اب بھی ہے مگر اس شدت کے ساتھ نہیں ہے جومسلمانوں میں پردہ داری کیآاتی ہے تووہی تمام مبالغہ ااس کا رواج کم ہوگیا ہے لیکن مسئلے مسائل کی صورت میں اب بھی جب گفتگو رسم ملتی ہے اب

اچھپانا بھی داخل ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ گھر کی بات باہر نہ احتیاط اورشدت کی پرچھائیاں اس گفتگو میں ملتی ہیں۔ باتوں کو نکلے یہ رجحان ہمارے قدیم معاشرے میں اوربھی زیادہ تھا کہ لوگ خواہ مخواہ کی باتیں کرتے ہیں اور دوسروں کی کوئی کمزور ی

اان کو معلوم ہوجاتا ہے تووہ اس کو بری طرح اڑاتے ہیں مشہور کرتے ہیں اسی لئے وہ کوئی مجبوری یا کسی شکرنجی کا حال اچھپانا بھی ضروری ہوتا ہے کہ آاتا ہے کہ گھرسے نکلی کوٹھوںچڑھی یا منہ سے نکلی بات پرائی ہوجاتی ہے بعض باتوں کو محاورہ دوسروں کی ان باتوں کا پہنچنااچھا نہیں لگتا ہے کہ را زداری ہماری سماجی ضرورتوں کا تقاضہ ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم

کتنی بات ضرورت کے تحت کرتے ہیں اورکتنی بات غیرضروری طورپر ۔ران سے موقع بہ موقع ہماری سوچ رصہ ہیں۔ اور اس طرح پردہ داری ہو پردہ نشینی ہو پردہ گیری ہو یہ سب ہمارے معاشرتی رویوں کا ح کا اظہا رہوتا ہے راز درون پردہ جیسی ترکیبیں بھی اسی ذہنی رویہ کی طرف اشارہ کرتی ہیںپردہ ہے پردہ عام طورپر ہمارے گھروں میں

بولا جا تاہے۔( پلیتھن نکاPنا یانکلنا۔۲۰)

گھریلو سطح کی زبان کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کے لفظوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ محاورے چیوں کا محاورہ ہے پیلتھن نکالنازر کا مشہور شعر ہے اوربازاری زبان کی طرف اشارہ زیادہ سے زیادہ مکے یامکیاں لگانا ہے جس سے دوسرا ادھ مرا ہوجائے میر تقی می

کرتا ہے۔

ہاں پلیتھن نکل گیا واں غیرری لگائے جاتا ہے۔ امک اپنی

سپھوٹ ڈاPنا۔۲۱) سپھوٹ پڑنا یا ہونا، )

اپھوٹ پیدا کرنا اختلاف کو جنم دینا ہندوستان میں ہمارے معاشرے کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم اپھوٹ کے معنی ہیںٹوٹ

آاپسی ذرا سی بات پر خفا ہوجاتے ہیں اوراپنے تعلقات میں تلخی شکررنجی یا اختلافات کی صورت پیدا کرلیتے ہیں اورہمارے

اپھوٹ پڑنا کہتے ہیں۔ بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو ااسی کو آاجاتاہے میل جول یا اتحاد میں فرق

ااستواری سکھاپڑھاکر غلط سلط مشورہ دے اختلافات پیدا کرتے ہیں اوردلوں میں پھوٹ ڈال دیتے ہیں۔جس سے تعلقات میں

Page 77: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آاہنگی ختم ہوجاتی ہے۔ یاہمواری باقی نہیں رہتی ہم

سپھول کی چھڑی بھی نہیں Pگائی ۔۲۲) سپھول نہیں پنکھڑی ہی �ہی، سپھول کی جگہ پنکھڑی، سپھول کھیلنا، )

اپھولوں کی سیج ، پھولوں میںملنا، پھول پان۔ سپھوPوں کا اپھولوں کی چھڑی ، گہنا۔

پھو ل ہماری دنیا کا ایک بہت ہی خوبصورت قدرتی تحفہ ہے یہ ہماری سماجی رسموں میں بھی شریک ہے خوشی کے موقع پر

اپھولوں کا گلدستہ پیش کیا جاتا ہے ہار پہنائے جاتے ہیںپگڑی میںلگائے جاتے ہیں۔ خاص طور سے پھولوں کا استعمال ہوتا ہے ۔

بعض مغل بادشاہ اپنے ہاتھ میں گلاب کا پھول رکھتے تھے اکبر جہانگیر اورشاہ جہاں کی ایسی تصویریں ملتی ہیں جن میں

رن لطیفہ میں بھی اورہماری سماجی زندگی سے ان آاتے ہیں۔ اورفنو گلاب کا پھول ان کے ہاتھ میں ہے۔پھول دواؤں میں بھی کام

کا ایک واسطہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی شاعری کے علاوہ اپنے محاوروں میں پھول کو شامل رکھتے ہیں جس کا اندازہ مندرجہ بالا

محاوروں سے بھی ہوسکتا ہے پھول سونکھنا یا پھول سونگھ کر جینا انتہائی کم خوراک ہونا ہے۔ پھول چننا یا موتی چننا خوشی

کے موقع پرہوتا ہے۔

دلہن کی سیج پر پھول بچھائے جاتے ہیں پنکھڑیوں کی بارش کی جاتی ہے اورخوشی کے موقع پر پھولوں کے گہنے پہنے جاتے

ہیں۔ دلی میں توگرمی کے موسم میں پھولوں کے اس طرح کے ہار بکتے ہیںجوعورتیں اپنے جوڑے میں لگاتی ہیں۔یاکانوں میں

پہنتی ہیں۔یاہاتھوں میں پہنتی ہیں۔جنوبی ہندوستان میں توفردور عورتیں بھی عام طورسے پھول پہنتی ہیں یہیں سے محاورے

رل قدر ہوتا ہے اورمحاورے میں یہ کہتے ہیں پھول تشبیہیںاستعارے اور تمثیلیں پیداہوئی ہیں۔ پھول کاچھوٹے سے چھوٹا حصہ قاب

نہیں پنکھڑی صحیح بے حد اچھا سلوک کرنا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کبھی پھولوں کی چھڑی بھی نہیںماری تمام ترنازبردار

یاں کیں وغیرہ پھولوں میں تکنا بے حد ہلکا پھلکا ہونا ہے پھول پان بھی اسی صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

( پیرپھیرنے جانا۔۲۳)

زبنے ایک موقع رر تشکر اس کے ہاں جانے کے موقع پر بھی استعمال ہوتاہے جیسے غال آامد کے سلسلے میں بطو یہ کسی کی

آانے کی طرف اشارہ ہے۔ علاوہ بریں دہلی میں آانا دینا تھا۔ ہاں ملاقات کی غرض سے کسی کے پرکہاتھا کہ مجھے ان کا ایک

آاتی ہے اسے پاؤں پھیرنابھی اسرال سے میکے نوے مہینے یہ ایک خاص رسم ہے جوکسی بچے کی پیدائش سے پہلے لڑکی س

بولتے ہیں اس لحاظ سے خاص طورپر اس کے محاورے کی تہذیبی اہمیت ہوجاتی ہے۔

( پیرناباPغ۔۲۴)

ااسے پیرنا بالغ کہتے ہیں یہ مذاق اڑانے کا آائے توطنز کے طورپر ابڑھاپے تک عقل نہ آادمی کو پیربوڑھے کوکہتے ہیں اورجب کسی

Page 78: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اجلتا ایک اور محاورہ ہے کہ بوڑھا اوربچہ برابر ہوتا ہے یہاں ایک طریقہ ہوتا ہے وہ بوڑھے ضرور ہیں مگرپیرنا بالغ ہیں اس سے ملتا

آادمی بچوں جیسی باتیں کرنے لگتا ہے ۔۔ آاتی ہیں اور اان کمزوریوں کی طرف اشارہ ہوتا ہے جوبڑھاپے میں عود کر

( پیندی کاہلکاہونا، پیندی کے بل بیٹھ جانا۔۲۵)

اادھر رہتا ہے۔ اوراس طرح مستقل مزاجی رادھر کبھی آادمی مستقل طورپر جم کرنہیں بیٹھتا کبھی یہاں کبھی وہاں کبھی جو

ااس کوپیندی کاہلکا ہونا کہتے ہیں پیٹ کا ہلکا ہونا ایک دوسری صورت ہے اوراس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ کسی نہیںہوتی

بات کا ہضم نہیں کرسکتا بلکہ کہہ ڈالتا ہے۔ وہ پیٹ کا ہلکا کہلاتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہمارے ہاں مستقل مزاجی ایک بڑی

آادمی کا ہلکا پن کہا جاتا ہے یہاں تک کہ ااسے آادمی مستقل مزاجی سے کام نہیں لیتا اورکسی بات پرنہیںجمتا صفت ہے اورجو

جوبات گمبھیرنہیں ہوتی اسے بھی ہلکی بات کہاجاتا ہے۔

( پیوندہماری اوقات ہے۔۲۶)

آاجاتی ہے۔ اس میں آادمی پیوندلگے ہوئے کپڑے پہنتا ہے اور کبھی کبھی توپیوند پرپیوند لگانے کی ضرورت پیش غریبی میں اکثر

ااس کا سوشل اسٹیٹس بن جاتا ہے۔ بعض پھل وپھول پیوند لگاکر ہی آادمی کی مالی حیثیت بھی شریک رہتی ہے۔ اوروہی کسی

آام یا پیوندی بیر وغیرہ۔ ااس کا سماجی رتبہ سے کوئی تعلق نہیں ہے جیسے پیوندی تیار کئے جاتے ہیں۔ وہ اک الگ طریقہ ہے اور

‘‘ ت ’’ ردیف 

(تاک Pگانا، تاک میں رہنا۔۱)زر کا مصرعہ ہے۔ تاک کے معنی ہیں دیکھنا تکنا ہم بولتے ہی ہیں کہ وہ دیر تک تکتارہا تاک جھانک اسی سے بناہے میرتقی می

تاکنا جھاکنا کھجونہ گیاآاتا ہے کہ یعنی جب موقع ملا دیکھ لیا نظر ڈال لی چوری چھپے دیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس سے سماجی رویہ سمجھ میں

اچھپے کچھ نہ کس طرح بعض سوالا ت خیالات اور تمنائیں ہمارے دل سے الجھی رہتی ہیں اورہم ان کے نظر بچاکر یا چوری آاتی رہتی ہیں۔ ااردو شاعری میں حسن وعشق کے معاملات کے لئے اس طرح کی باتیں اکثر گفتگو میں کچھ کرتے رہتے ہیں

( تاPی ایک ہاتھ �ے نہیں بجتی۔۲) یہ ایک قدرتی عمل بھی ہے لیکن ہم نے اس کوایک سماجی عمل کے طورپر دیکھنے اورپرکھنے کی کوشش کی اوربظاہر کیا کہ

آادمی پرنہیں ہوتی وہ عمل دوطرفہ ہوتا ہے اوردوسرا کوئی کسی بات کی ذمہ داری بشرطیکہ اس میں خرابی کاکوئی پہلو ہو کسی ایک شخص یافریق بھی اس میں شریک رہتاہے شرکت کا پیمانہ جوبھی ہوجتنا بھی ہو۔

بلعارفانہ ۔۳) ( تجاہ

Page 79: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

جان بوجھ کر انجان بننا۔ تجاہل کے معنی ہیں لاعلمی ظاہر کرنا اورجانتے بوجھتے ہوئے ظاہرنہ کرنا جو ایک مکار ردعمل ہوتا ہےاورسماج میں اس کی بہت مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ لوگ جانتے ہیں کچھ ہیں لیکن یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ نہ واقف ہیں۔

(تعزیہ ٹھنڈا ہوجانا۔۴) تعزیہ دراصل اظہار ملال ہے بعض طبقوں میں تعزیہ اندھے کنوؤں میں پھینک دےئے جاتے ہیں بعض دریا میں بہادےئے جاتے ہیں ایسا بھی ہوتا انہیں سفید چادروں میں لپیٹ کر کسی تنہا جگہ میں رکھ دیا جاتا ہے۔ بہرحال جب تغیریہ دلالی کی رسمیں ختم

ااسے تعزیہ ٹھنڈا کرنا کہتے ہیں۔ اا ہوجاتی ہیں تومحاورت(تقدیر پھرنا، تقدیر کاPکھایوں تھا، تقدیر کابناؤ، تقدیر کاپلٹاکھانا، تقدیر کا دامن، تقدیر کاکھیل۔۵)

ہمارا معاشرہ تدبیر منصوبہ بندی اورکاوش میں اتنا یقین نہیں رکھتاجتنا تقدیر کو اسے بھروسہ ہوتا ہے یہ مشرقی قوموں کا ایک عام رویہ ہے۔ اورہندومسلمانوں میں نسبتازیادہ ہے۔ کہ وہ ہربات کو تقدیر سے منسوب کرتے ہیں چنانچہ تقدیر سے متعلق بہت محاورات ہیںآاکر سوچنا سمجھنا نہیں اان سے باہر آاتے رہتے ہیں کہ ہم غیبی فیصلوں کو مانتے ہیں اور آاتے رہتے ہیں۔ اوراس لئے جو ہماری زبان پر رقسمت کا لفظ بھی استعمال چاہتے اوپر دےئے ہوئے محاورات کا مطالعہ اسی نقطہ نظر سے کرنا چاہیے تقدیر کالفظ بدل کرکبھی

رقسمت کا بننا اوربگڑنا کہا جاتا ہے۔ رقسمت کا کھیل رقسمت کا لکھا ہوتا ہے آانچ ، تلوار Zرجانا، تلوار میان �ے نکلی پڑتی ہے۔ تلواروں کی چھاؤں میں۔۶) ( تلوار کومیان میں رکھنا ، تلوار کی

تلوار جسے تیغ بھی کہا جاتا ہے وسطی عہدکا ایک بہت معروف اورممتاز ہتھیار رہا ہے قدیم زمانہ کی تلوار ایک خاص طرح

کی ہوتی تھی جسے کھانڈاکہتے تھے جہاں ’’ل‘‘ کو ’’ڑ‘‘ سے بدلا جاتا ہے وہاں تلوار کا تلفظ ’’ترواڑ‘‘ ہوجاتا ہے ۔جولوگ

زل کامصرعہ سپاہی پیشہ خاندانوں کے افراد ہوتے ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ تلوار وں کی چھاؤں میں پلے بڑھے ہیں اقبا

ہے۔

تیغوں کی چھاؤں میں ہم پل کرجواں ہوئے ہیں۔

آاب وتاب اوردھار ، تلوار کا میان سے تلوارچلنا، تلوارکاکسنا یعنی اس کی لچک دیکھنا تلوار کاپانی، اس کی دھار ، اس کی

ااس زمانہ کی زندگی میںعام تھیں ان میں تلوار کے نکلنا یا میان میںرکھاجانا یہ سب تلوار کے استعمال سے متعلق باتیں ہیں تو

گھاٹ اتاردینا بھی تھا۔ ہمارے ہاں اردومیں محبوب کی بھوں کو تلوار سے تشبیہ دی جاتی ہے اس سے بھی تلوار سے ذہنی

اورسماجی رشتوں کا پتہ چلتا ہے۔

( تمہارے منہ میں کبھی شکر یا Zھی کھانڈ۔۷)

آاتے ہیں شکرہویا پھر شکر وہ میٹھاس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے پسند یدہ اشیاء ہیں گڑکھانڈ اورراب بھی اسی ذیل میں

اسی لئے اس طرح کے محاورے بھی ہیں گڑنہ دبے گڑجیسی بات کہہ دےئے گڑاورگھی کا ایک ساتھ استعمال دیہات کی

Page 80: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

سطح پر بہت پسند کیا جاتا ہے شکرانہ میں خاص طورپر گھی اورکھانڈ یا گھی اورشکراستعمال ہوتے تھے دیہات میں لال شکر

آاتا تھا اوراس کے نیچے چاول ہوتے تھے۔ اورشہروں میںگھی اورپورا خاص طورپر استعمال میں

آاتی ہے اوریہ کہاوت ہے تمہارے بہرحال جب ہم ان امور پر غورکرتے ہیں توگھی اور شکرکی سماجی حیثیت اورمعنویت سامنے

آائے اب بھی ایسے ااسی کی طرف اشارہ کرتی ہے اوراس سے مراد ہوتی ہے کہ تمہارا کہنا پورا ہوااورمرداد بر منہ میں گھی شکر

رر خوشی ہے۔ موقع پرایسی کہاوت اور بولی جاتی ہے اورمیٹھا ئی کھلانے یا کھانے کا وعدہ کیا کہاجاتا ہے۔ مقصد اظہا

بتنکا کردینا۔۸) بتنکا (تنکے کا احسان ماننا ، تنکے کا �ہارا ، تنکے کو پہاڑکردکھانا،

تنکا لکڑی کا چھوٹے سے چھوٹا اورکم سے کم درجہ کاحصہ ہوتا ہے اس سے جانوراپنا گھونسلا بناتے ہیں اورجب گھانس

آاتے ہیں دیہات میں اس طرح کے مکانات چھپرااور پھونس کے جھونپڑے ، ٹٹیاں اور چھپر بنتے ہیں تب بھی گویا تنکے ہی کام

چھپریاں اب بھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں سرکٹیاں بھی اسی کی مثالیںپیش کرتی ہیں اورسرکنڈے بھی تنکے کے سے وابستہ

کہاوتیں اورمحاورے کمزوری بے ثباتی اورکم سے کم درجہ کی طرف اشارہ کرتے ہیںسوکھ کرتنکا ہونا انتہائی کمزورہوجاناہے تنکا

تنکا بکھر جانا گھاس پھونس کی چھپری یا چھپروں کا ہوا میں اڑجانا ہے یا باقی نہ رہنا ہے۔

اب اس کے مقابلہ میں تنکے کا احسان ماننا ہماری سماجی زندگی کا ایک دوسرا رخ ہے عام طورپرلوگ دوسرے کی ہمدردی

محبت اورخلوص کا بدلہ تودیتے ہی نہیں بلکہ احسان بھی نہیں مانتے جب کہ احسان توچھوٹے سے چھوٹا بینک عمل میں

زق کامصرعہ ہے۔ جس کا دوسروں کو شکر گذارہونا چاہیے ذو

ارنے احسان مانوں سرسے میں تنکا اتارے کا

تنکے کاپہاڑکردکھانا ایک تیسری صورت ہے کہ اس کا بھی ہماری سماجی زندگی سے ایک گہرا رشتہ ہے۔ کہ بات کوکچھ

آاگے بڑھا دینا ایک اس طرح بڑھا چڑھاکرپیش کیا جاتا ہے کہ تنکے کا پہاڑبنادیا جاتا ہے۔ بات کا بتنگربتانا اوربات کو بہت

دوسری صورت ہے داڑھی میں تنکا ہونا ایک اور صورت حال کی طرف اشارہ ہے کہ جو دراصل کسی غلطی یا نقصان پہنچانے

کا مرتکب ہوتا ہے اسے احساس تورہتا ہے کہ میں نے جرم کیا ہے میں قصور وار ہوں اس کا کوئی ایکشن یاریکشن اس کی

طرف اشارہ بھی کردیتا ہے اسی کو چورکی داڑھی میں تنکا کہتے ہیں۔

آاتا آانکھوں کا شہتیر بھی نظر نہیں آانکھ میں تنکا دیکھتے ہیں اوراپنی ایک اور محاورہ بھی اسی سلسلے کا ہے دوسروں کی

جس کے معنی ہیں کہ اپنی عیب داریاںکوئی نہیںدیکھتا اوردوسروںکی بات پر اعتراض کرتے ہیں اورعیب لگاتے ہیںاس طرح تنکے

Page 81: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

سے ہم رشتہ بہت سے محاورے ہماری سماجی فکر کا مختلف پہلوؤں سے اظہار کرتے ہیں اورہماری سوچ پر روشنی ڈالتے

ہیں۔

( تن من وارنا۔۹)

(جب کسی سے اپنی مکمل وفاداری اور ایثار وقربانی کی باتBody and Soulتن من کے معنی ہیں جسم وجان )

کی جاتی ہے توکہا جاتا ہے ہم تن من سے تمہارے ساتھ ہیں کبھی کبھی تن من دھن بھی کہتے ہیں من ہندی لفظ ہے اس

اروح کے ہیں اس لئے اس کاکسی عمل میںساتھ ہونا بڑی بات ہوتی ہے جب یہ کوئی کہتا ہے کہ میں تم پرتن من وار کے معنی

آاتا بھی ہے ۔ کرتا ہوں توگیتوںیا سب کچھ قربان کردینا چاہتاہے توگویا سب کچھ قربان کردینا چاہتاہے گیتوں میں تن من وارنا

سپھوPے نہ �مانا۔۱۰) سپھوPے ( تن من میں

اپھولا نہ سمانا بھی محاورہ ہے لیکن زیادہ تر اپنے من میں پھولانہ سمانا بولا جاتا ہے۔ اپنے تن من کی کچھ خبرنہ رہی تن من میں

آاتا ہے صرف تن کے ساتھ بھی بہت سے لفظ اورلفظی ترکیبیں یعنی میں بالکل غافل ہوگیا یہ بھی ہماری زبانوں پر اکثر

آاتی آاتے ہیں جیسے تن پوشی تن پرستی تن دہی تن ڈھانپنااگرغورکیا جائے تویہ لفظی ترکیبیں محاورے کے ذیل میں ررمحاورہ بطو

آاتے ہیں تن ہیں اوران سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ محاورے کیوں اور کیسے بنتے ہیں اورلغوی معنی سے مجازی معنی تک کیسے

آاپ کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دینا ہے اورتن دہی محنت ومشقت برداشت کرکے اگرکوئی کام پرستی اپنے وجود کو یا اپنے

کیاجاتا ہے تواسے تن دہی کہتے ہیں۔

( تنگ حال ہونا، تنگ وقت ہونا ، تنگ ہاتھ ہونا۔۱۱)

آامدنی اور اخلاص ااس طبقہ کی جو کم یہ محاورات دراصل ہماری سماجی زندگی کا منظر نامہ پیش کرتے ہیں خاص طورپر

کے ساتھ اپنے زندگی کے دن گذارتا ہے اسی کو تنگی ترشی کہتے ہیں۔ یا ہاتھ کا تنگ ہونا بھی اسی کی طرف اشارہ ہے

اوراس کا ذکراکثر ہوتا ہے کہ اس کا ہاتھ تنگ رہتا ہے یاوہ تنگ حالی میں اپنا وقت گذارتا ہے تنگ وقت ہونا محاورے کی ایک

دوسری صورت ہے یہاں پیسہ مراد نہیں ہوتا بلکہ وقت کا کم رہ جانا مراد ہوتا ہے جیسے نمازکا وقت کم ہورہا ہے۔ تنگ ہونا

آاتا ہے اوریہ ہماری سماجی روش ہے کہ جب تکلیف کی حالت میں ہونا ہے اورتنگ کرنا دوسروں کو پریشان کرنے کے معنی میں

ہم دوسروں سے کوئی ناچاقی یا اختلاف یا خودغرضانہ اختلاف رکھتے ہیں توان کو طرح طرح سے ستاتے اور پریشان کرتے ہیں

 اسی کو تنگ کرنا کہا جاتا ہے کہ اس نے مجھے تنگ کررکھا ہے۔

( تازہ کرنا۔۱۲)

Page 82: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آادمی بھول گیا تھا اسے پھر یاددلایا ویسے ہم نئے سرے سے کسی خیال کو زندہ کرنا ہے جیسے غم تازہ کرنا کہ جس غم کو

’’تازہ‘‘ بہت چیزوں کے لئے بولتے ہیں جیسے تازہ کھانا’’ تازہ روٹی‘‘ ’’تازہ گوئی‘ اور تازہ روئی )تازہ خیالی ، تازہ دم ہونا )نئی

بات کہنا( تازہ کاری )نیاکام کرنا( وغیرہ۔

( تیوری بدPنا یا چڑھانا تیوری میں بل ڈاPنا تیوری کا بل کھلنا۔۱۳)

رصے کوکہتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ ہمارے جذبات واحساسات آانکھوں کے درمیان کے ح تیوری انسان کی پیشانی اوردونوں

آانکھ بھون چڑھاتے ہیں ناخوشی اورناپسندیدگی کا اظہارکرتے ہیں اسی کوتیوری چڑھانا آائینہ ہوتا ہے ہم گفتگو کرتے وقت کا

ااردو کا ایک مصرعہ ہے جس سے سماجی رویہ کی نقش گری ہوتی ہے۔ کہتے ہیں

تیوری چڑھائی تم نے کہ یہاں دم نکل گیا

آاج کل ان کے تیوربدلے ہوئے ہیںExprotionتیوری کوتیوربھی کہتے ہیں اوراس کے معنی میں شامل رہتے ہیں جیسے

جس کا یہ مطلب ہے کہ نظریں بدل گئیں ہیں اگرناگواری ختم ہوگئی تواسے تیوری کا بل کھلنا کہتے ہیں یہ تیوری کے ہر بل

پڑنے کے مقابلہ میں ہوتا ہے۔

‘‘ ٹ ’’ ردیف 

( ٹاپاتوڑنکل جانا۔۱)  امرغیاں خریدنے والے ایک خاص طرح کا گھیرے دار جال رکھتے تھے وہ ٹاپاکہلاتا تھا وہ لوگ ٹاپے والے کہہ کریادکئے جاتے تھے۔ا اس ٹاپے میں پھنس جاتی تھیں توپریشان ہوتی تھیں اوراس سے نکلنا چاہتی تھیں اسی مشاہدہ امرغیاں گھر کے ماحول سے نکل کر

سے یہ محاورہ بناہے۔ یعنی مصیبت میں پھنسنا اورپھرنکلنے کی کوشش کرنا۔( ٹاPم ٹول )ٹال مٹول( کرنا۔۲)

رزفکر ہے کہ ہم بات کوسلجھاتے وقت ہرقدم اس معنی میں ایک اہم محاورہ ہے کہ ہماری یہ ایک عام سماجی روش اورمعاشرتی طر ااٹھانے اور تدبیر کرنے کے بجائے ٹال مٹول کرتے رہتے ہیں اپنے معاملہ میں بھی اوردوسروں کے معاملہ میں بھی یہ ایک طرح کاآاج کے معاشرے میں بھی سماجی عیب ہے کہ معاملات کونمٹاؤ نہیں ٹالتے رہو اورکوئی نہ کوئی غلط سلط بہانہ بناتے رہو ہم

شہری وہ معاشرہ ہویا قصباتی معاشرہ یہی ٹال مٹول کی صورت دیکھتے ہیں خود بھی اس سے گذرتے ہیں اوردوسروں کے لئے بھیپریشانیوں کاسبب بنتے ہیں۔

سکھل جانا۔۳) اچا ہونا، ٹانکے ( ٹانکاٹوٹ جانا ، ٹانکے کاک ٹانکاہماری معاشرتی سماجی اورگھریلو زندگی کا ایک اہم حوالہ ہے یہاں تک کہ بہت اہم سطح پر ہم ٹانکا ٹہپا کہتے ہیں پھٹے

Page 83: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اپرانے کپڑے میں ٹانکا لگانا اوراسے جوڑنا ہماری ایک تمام سماجی ضرورت ہے اسی لئے یہ کام گھریلو طورپر کیا جاتا ہے کپڑوں کےرچاٹانکا ہوتا ہے اجوتی میں ٹانکا موچی لگاتاہے اب ک آاتی ہے۔ علاوہ چادر، بستر ، لحاف میں ٹانکا لگانے کی ضرورت پیش

رکاٹانکا لگانا بھی اورموتی ٹانکنا بھی باریک نکائی بھی اس طرح رصہ ہے اورپ توجلدی ٹوٹ جاتا ہے کہ وہ بھی ہمارے محاورے کا حسے یہ محاورے ہماری گھریلو زندگی کے اپنے اندازاورماحول کو پیش کرتے ہیں۔

( ٹسرٹسررونا، ٹسوPے بہانا۔۴) اصل میں رونے کے لئے ایک طنزیہ محاورہ ہے جوسماجی رد عمل کو ظاہر کرتا ہے کہ پہلے سوچا نہیں سمجھانہیں اب ٹسرٹسر

رورہی ہے اورٹسولے بہارہی ہے دہلی میں ’’ٹ ‘‘کے نیچے کسرا لگاتے ہیں اورٹسوے کہتے ہیں۔سٹکر دیکھنا۔۵) سٹکر )

ااسے گھر یلوسطح کی ٹکرٹکر دیکھنا ررنامرادی کے ساتھ کسی دوسرے کی طرف دیکھتا ہے تو رس محرومی اورتصو آادمی احسا جب آانکھوں میں اان کی اان کے جذبات واحساسات کی تصویر کہتے ہیںاس کے یہ معنی ہیں کہ ہم دوسروں کی نظروں کوپہنچانتے ہیں

اس کا خاص انداز سے ذکر کرتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ کوئی کسی سے ہمدردی کرتا ہے یا نہیں کرتا یہ الگ بات ہے ۔سٹکرکھانا۔۶) سکرPگنا، سٹ اکر سٹ )

دیہاتی زبان میں روٹی کوکہتے ہیں اورطنز کے طور پر ٹکرلگنایا ٹکڑکھانا بھی بولتے ہیں ٹکٹرلگنے میںیہ طنز چھپاہوا ہے کہ پہلے

آاگئے یعنی نخرے کرنے لگے برائی کااظہار بھوکے مرتے تھے کھانے کو نصیب نہیں ہوتا تھا اب کھانے کو ملنے لگا تویہ انداز

کرنے لگے اسی کوقصباتی زبان میں روٹیاں لگنا کہتے ہیں ۔

ابری طرح توڑدینا پھاڑدینا اورضائع کردینے کا عمل ہے سزا کے طورپر بھی پہلے زمانہ میں ٹکڑے ٹکڑے کردینا کسی چیزکو

آاگے بڑھاکر بوٹی بوٹی کردینا یا قیمہ کردینا بھی کہا جاتا ہے اورقدیم زمانہ کی ٹکڑہے ٹکڑ کردینے کا رواج تھا۔ جس کو اور

راشارہ کرنا مقصود چاہے نہ ہوکہ جب لوگ اسے جانتے بھی نہیں مگر قدیم زمانہ کی روایت کسی نہ سزاؤں کی طرف اس سے

کسی سطح پر اس میں موجو دہے اورتاریخ پرروشنی ڈالتی ہے۔

(ٹکساPی بوPی، زبان، ٹکساPی بول چال ، ٹکساPی محاورہ ، ٹکساPی باہر۔۷)

رکے مانے جاتے ہیں ان کی دارالعرب سکے ڈھالنے رکے رائج کئے جاتے ہیںاورکھرے س ٹکسال اصل میں بادشاہ کی طرف سے س

رکہ یا ٹکسال قراردیاجاتاہے۔ رکہ سرکاری ٹکسال کانہیں ہوتا ہے اسے کھوٹا س کی جگہ کو کہتے ہیں اورجوس

اادھر کی بولی کا اثر ظاہر رادھر شہری کی بولی جوبات چیت یا محاورہ مستند ہوتا ہے اس کوٹکسالی کہا جاتا ہے اورجس سے

آاس پاس کی ااسے ٹکسال باہر کیا جاتاہے۔دہلی والے جامع مسجد کی سیڑھیوں اوراس کے ااس کوپسند نہیںکیا جاتا ۔ ہوتا ہے اور

Page 84: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

رل دہلی ہے یا جامع زر نے ایک موقع پرکہاتھا کہ میری زبان ان کے لئے یامحاورہ اہ زبان ہی کو سند مانتے تھے چنانچہ میر تقی می

اان کے نزدیک پسند مسجد کی سیڑھیاں اس کے معنی یہ تھے کہ مردم بیرون جات یعنی دہلی شہر سے باہر کے لوگوں کی زبان

آاس پاس سنا جاتا تھا۔ نہیں تھی ٹکسالی زبان یا ٹکسالی محاورہ وہی کہلاتا تھا جوجامع مسجد کی سیڑھیوں کے

ساچھاPنا، ٹوپی بدPنا۔۸) ساتارنا ، ٹوپی پیروں میں ڈاPنا، ٹوپی ( ٹوپی

اکلاہ کی صورت میں ایک زمانہ سے ایران ، افغانستان اورمرکزی ایشیاء میں اا نئے ہیںٹوپی سرکوڈھکنے کے لئے یہ محاورات نسبت

ااس کے ساتھ پگڑی بھی ہوتی تھی ہندوستان میں جہاں تک قدیم کلچر کا سوال ہے موجود رہی ہے مگرعام طورپر تنہا نہیں

صرف کبھی ٹوپی کبھی چیز سے ڈھکتے تھے دیہات میں پگڑی رائج رہی ہے بدن پر چاہے لباس کم سے کم رہا ہو مگر سرپر

ااس کی وجہ سرکو دھوپ کی شدت سے بچانا بھی تھا۔ مدراس میں ہم دیکھتے یہی ہیں۔ پگڑی رہی ۔

پگڑی کے طرح طرح کے انداز مرہٹوں میں راجپوتوں میں اورجنوبی ہندوستان کے مختلف قبائل میں رہا ہے جس کا اندازہ ان

تصویروں سے ہوتا ہے جو مختلف زمانوں اورخاص طورپر وسطی عہد میں رائج رہی ہیں قدیم ترہندوستانی تہذیب میں سادھو

اسرپر رکھنا سنت ’’بال‘‘ رکھتے تھے اوراونچا طبقہ مکٹ پہنتا تھا )تاج کی طرح کی کوئی چیز(سرعزت کی چیز ہے اسی لئے

اسرجھکانا ہمارے ہاں خاص معنی رکھنے والے محاورات میں سراٹھانا سرکشی اختیار کرنا ہے اورسرسے ٹیک دینا دوسری طرح

آاج آاجاتے ہیں۔ سرکوڈھکنا مرد سے زیادہ عورت کے لئے ضروری تھا جیسے آاگے بڑھ کر سرگوشی تک کے محاورے ہیں جو

بھی دیکھا جاسکتا ہے ٹوپی اسی کی ایک علامت ہے اوپردےئے ہوئے محاورے ہوں یا دوسرے محاورے جو سرسے متعلق ہوں

ااترگئی۔ جیسے سرسے چادر

انہی محاوروں میں سرجھکانا ،سرپیروںپر رکھنا ،سرپر خاک ڈالنا، بھی اورہم اپنی عزت کے نشان کے طور پر شخصی خاندانی

ااسے دوسرے کے قدموں آانچل کو سرسے گرنے نہیں دیتے تھے اورجب قومی اورقبائلی وقار کے طورپر پگڑی یادوپٹہ کویا چادر اور

پررکھتے تھے تواپنی انتہائی وفاداری کااظہار کرتے تھے جسے ہم مکمل بھی کہہ سکتے ہیںدیہات قصبات اور شہروں میں جب

دوسرے کی عزت کو بڑا دکھانا چاہتے ہیں اوراپنی شخصیت کوکمتر ظاہر کرنا چاہتے ہیں تواس کے پیروں میں کوئی دوپٹہ پگڑی

راس معنی میں یہ محاورے ہمارے رر عاجزی کی سب سے بہتر صورت خیال کرتے ہیں۔ رکھتے ہیں اوراس کو اپنی طرف اظہا

سماج کے رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

‘‘ ث’’ ردیف 

Page 85: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

( ثابت قدم رہنا یا ثابت قدمی دکھانا۔۱) ران افراد یا ان ثبات کے معنی ہیں ٹکنا ،قائم رہنا لیکن قدموں کے ساتھ اس کا تصورانسانی کردار سے وابستہ ہوجاتا ہے خاص طورپر

ااکھڑنا بہرحال ایک محاورے ا اکھڑنا اورقدم قوموں کے کردار سے جوجنگ کرتی تھی اورمشکل مرحلوں سے گذرتی تھی جنگ میں پیرااکھڑجانے کے معنی ااکھڑجانے یا پیر آاتا تھا جہاں ڈٹے رہنا ضروری ہوتا تھا۔ قدم جمائے رکھنا لازمی تھا اسی لئے قدم کے طوپر وہاں راستقامت کے لحاظ سے ناپسند یدہ بات تھی اسی لئے ثابت قدم بزدلی دکھانا اوربھاگ کھڑا ہونا تھا جوبری بات تھی اورکردار کی رہنا ایک سپاہی ایک عالی حوصلہ اورمستقل مزاج انسان کے لئے ایک بہت اچھی صفت تھی جس کی تعریف کی جاتی تھی اور اس کو موقع بہ موقع سراہا جاتاتھا ۔ مثنویوں اورقصیدوں میںاس طرح کے بہت سے شعرمل جائیںگے جن میںثابت قدمی کی تعریف

آاتی ہے۔ کی گئی اوراس معنی میں وہ انسانی کردار کی خوبی اور سماجی تقاضوں کی ایک علامت کے طورپر محاورے میں سامنے  ( ثوا5 کمانا۔۲)

رزفکر کے طور پر پیش کرتے ہیں اورنیک عمل کا ہمارا بنیادی طریقہ فکر مذہبی اور اخلاقی ہے ہم ہربات کو تعبیر اورتشریح مذہبی طراخدا کی طرف منسوب کرتے ہیں اوراسی کو ثواب کہتے ہیں کہ یہ کام کروگے توثواب ہوگا یا ملے گا اگرایسا ااجرابھی ہم قدرت یا

اخدا سے وابستہ کرنے کا ایک ااس کے بدلہ یا انجام کو کیا گیا توتم ثواب کماؤ گے اس اعتبار سے ثواب کمانا نیکی کرنے اور نفسیاتی عمل جس کو ہم ثواب کمانے سے تعبیر کرتے ہیں۔

آاتا ہے اوراس سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اچھے اگردیکھا جائے توثواب کمانا ایک طرح سے مذہبی رویہ کے ذیل میں بھی برے عمل کا نتیجہ ثواب یا عذاب سے ہے۔

‘‘ ج ’’ ردیف 

( جادو Pگانا، جادو چلانا، ڈاPنا، کرنا، مارنا، جادو کاپتلا۔۱)  جادو سحر کوکہتے ہیں اورسحر کے معنی ہیں ایسی بھید وبھری رات جس کے ذریعہ عقل کو حیرت میں ڈالنے والے کام کئے جاتے ہیں ہندوستا ن میں جادوٹونے کا رواج بہت رہا ہے اسی لئے ہم یہاںمنتر کے ایک معنی جادوبھرے الفاظ لیتے ہیں اوریہ کہتے ہیں کہ

آایت کو آان کی اس نے کیا منتر پڑھ پھونک دیا ہے یہ تصوردوسری قوموں میں بھی ہے اورخود عرب بھی جادو کے قائل تھے کافر قررر عظیم کہتے ہیں ہمارے ہاں جادو ڈالنا، جادوچلانا، جادو کرنا، عام طوپر بولا جاتا ہے جیسے اس کا جادو چل گیا نعوذباللہ سح

 اس نے جادو چلا دیا جادو تووہ ہوتا ہے جو سرپر چڑھ کے بولتا ہے اردو کا مشہور شعرہے۔کیا لطف جو غیرپردہ کھولے

ادو وہ جو سر چڑھ کے بولے جارصہ کیاہے اورہم ماورائے جن چیزوں کے قائل ہیں۔ اورانہیں مافوق العادت کہتے ہیں ادو ہماری سماجیاتی سوچ کا ح اس معنی میں جارصہ ہے ایسے ہماری کہانی حقوق داستان اورشاعری کے نمونوں میں دیکھا پرکھا اور سمجھا ہندوستان میں خاص یہ انہی کا ایک ح

Page 86: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ادو کیا جاتا ہے۔ خاص موقعوں پر جا( جاZرن کرنا۔۲)

جاگرن کرنا ہندوکلچرکا ایک اہم رسمی اورمذہبی پہلو ہے کچھ خاص منتر پڑھ کر چراغ روشن کرکے اوردھیا ن گیان کے سلسلہ کوااٹھنے ااسے بھگوتی جاگرن کہتے ہیں مغربی یوپی میںجاگئے کویا جاگ اپنا کر عقیدتوں کو دل میں جگایا اورمن میں بسایا جاتا ہے

ادور ہوتی ہے آانکھیں کھلتی ہیں نیند کا سلسلہ ٹوٹتا ہے ’’جاگرن‘‘ میں دل کی غفلت کو جاگرکہا جاتا ہے جاگرمیں صرف اورعقیدیں جاگ اٹھتی ہیں اس معنی میں جاگرن کلچر’تہذیب‘ اورمذہب سے وابستہ ایک عمل ہے۔

(جال بچھانا، پھیلانا، یاڈاPنا، جال میں پھنسنا ، یاپھنسانا۔۳) جال ایک طرح کا وسیلہ شکار ہے شیر سے لیکر مچھلی تک اورمچھلی سے لیکر پرندوں تک جا ل میںپھنسایا جاتا ہے۔ جال پانی

ااس جال میں پھنس جاتے ہیں یہی صورت آاکر بیٹھتے ہیں اور میں پھینکا جاتا ہے اونچی چھتری پر لگایا جاتا ہے جہاں کبوتر ااس جال میں پھنس جاتے اچگنے کے لئے اترتے ہیں اور اان پرندوں کی ہوتی ہے جوزمین میں دانہ مچھلیوں کی ہوتی ہے اوریہی شکل

ہیں جس پر دانہ بکھیرا ہوتا ہے۔ انسان بھی فریب جھوٹ دغا اور فکر کا شکار ہوتا ہے اوران زبانی وسائل کوبھی جال ہی کے طورپراستعمال کیا جاتا ہے وہ بھی فریب

راس دام راس کا پیمانہ دن بہ دن بڑھ رہا ہے دہی کا عمل ہے جس کاسلسلہ کون جانے کب سے رائج ہے مگریہ بات برابر ہورہی ہے آاگیا۔ زب کا شعریاد فریب کے حلقوں میں برابر اضافہ ہورہا ہے اورسماج اس سے باہر نہیں نکل پایا غال

رم ہرمو ج میں ہے حلقۂ صدکام نہنگ   دادیکھیںکیا گذرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک۔

سپھولا نہیں �مانا ، جامہ زیب ہونا۔۴) ( جامے �ے باہر ہوجانا یا جامے میں

جامہ دراصل لباس کوکہتے ہیں ہم زیر جامہ اور چار جامہ بھی بولتے ہیں زیر جامہ انڈوریر کو بھی کہتے ہیں چار جامہ چار طرح

کے کپڑے جن سے تن پوشی یا جسم کی زیب وزینت کا کام لیا جاتا ہے۔ گھوڑے کے ساتھ اورزین ولگام وغیرہ کے لئے بھی

آاتا ہے۔ چارجامہ ’’تسمہ‘‘ کا محاورہ

اپھولا نہ سمانا انتہائی خوشی کے اظہار کوکہتے ہیں جو دوسرے بھی دیکھ لیں سمجھ لیں اورمحسوس کرلیں کپڑے جامہ میں

سب لوگ پہنتے ہیں اورمعاشرہ میں اسی پوزیشن کے اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں اس میں مذہب سے اپنے تعلق ووفاداری کوبھی

آادمی کے لئے وجہ زینت ااس پر زور دیتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ہرلباس ہررنگ ہروضع قطع ہر شامل رکھنا چاہتے ہیں اورایک طبقہ تو

آادمی کے اچھے لگتے ہیں لباس کا راس طرح کے ہوتے ہیں کہ ہر نہیں بنتی بعض بدن جامہ زیب ہوتے ہیں۔ بعض لباس کچھ

Page 87: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اچھا لگنا ہی جامہ زیبی کا سبب ہوتا ہے لباس کا رشتہ ہمیشہ ذاتی پسند سے زیادہ سب کی پسند کا مسئلہ رہا ہے اسی لئے

کہا جاتا ہے کھاؤ من بھاتا اورپہنے جگ بھاتا ہے۔

سچھڑانا، جان چھوڑنا ،جان۵) ( جان پر کھیلنا،جان دینا، جان پڑنا ،جان جانا، جان جھوکنا، جان چرانا، جان

س�کوھنا ، جان �ے جانا، جان �ے زیادہ جان �ے ہاتھ دھو بیٹھنا ،جان جوکھوںمیںڈاPنا، جان ہواہونا وغیرہ۔ااس کے وجو د کا باعث ہے اوراپنے وسیع مفہوم رح رواں ہے سرچشمہحیات ہے آادمی کو بہت ہی عزیز ہے وہ اس کی رو جان

اورمعنی کے ساتھ اس کی زندگی میں شریک ہے اسی لئے ہم طرح طرح سے جان کے لفظ اورمعنی کو اپنی زبان میں استعمال

کرتے ہیںاورجان کے ساتھ جومحاورے بنتے ہیں وہ ہماری سماجی فکر اورسائل کو ظاہر کرتے ہیں جیسے جان دینا ، جان

چھڑکنا، جان نہ ہونا ، جان وایمان کے برابر ہونا وغیرہ۔

( جانے کے Pچھن ہیں۔۶)

جانے کے معنی بھاگ جانے کے بھی ہیں نکل جانے اور چھوڑجانے کے بھی ہیں جان نکلنا تومحاورہ ہے جانے کے لچھن

ہیںکہ معنی ہیں کہ اس کے روپ اورروش سے اس کا اظہار ہوتا ہے کہ یہ رہنے والا نہیں ہے چھوڑکر جانے والا ہے یہ گویا ان

آاگیا۔ ز کا شعراس موقع پریاد  لوگوں کا رد عمل ہوتا ہے جوکسی نہ کسی سطح پر کچھ توقعات رکھتے ہیں غالب

ااسی کی تھی حق تویہ ہے کہ’ حق ادا نہ ہوا جان دی، دی ہوئی

سجگ جےئے ، یا جےؤ، جگت Pڑنا۔۷) )

اجگ جینے کے معنی اجگ کہتے ہیں جویگ کا ہندی تلفظ ہے اجگ جینا ہمارے ہاں کی دعا ہے ہم ایک خاص دورکو اجگ

اجگ بیتا ایک دوسرا محاورہ ہے جس اجگ جینے یا ہوئے کہ تم دوربہ دور جےؤاسی لئے ہندی میںچل جیو ہونا بھی کہتے ہیں

ردت بیتنا اردو کاشعرہے۔ کے معنی ہیں بہت لمبی م

اجدائی کے زمانہ کی سجن کیا زیادتی کہیے  

راس ظالم کی ہم پر جوگھڑی بیتی سوجگ بیتا کہ

آاگ میں تیل ڈاPنا، جلتی پرتیل چھڑکنا، جلتے کو جلانا، جی جلنا ، جی جلانا۔۸) ( جلتی

آاگ کے آاگ میں ہرچیز جل جاتی ہے اروکھ )درخت( جل جاتے ہیں بدن جل جاتا ہے جلنا شدید گرمی کا عمل ہے جس سے

ااس سے جلنا ایک استعارہ بن گیا ہے ۔ جی جلنا ، جی جلانا یعنی تکلیف دہ باتیں کرنایا آاکر ہر شے جل اٹھتی ہے قریب

اچانک جل اٹھنا بھڑک اٹھنا غصہ میں بھرجانے کوکہتے ہیں جی کا جلاوا وہ شخص چنریا بات جو مسلسل ذہنی تکلیف کا

Page 88: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

سبب ہو ان سب باتوں کا رشتہ ہماری سماجی فکر اور معاشرتی زندگی سے ہے اوپر لکھے ہوئے محاورے اسی سلسلۂ وفکر یا

آاتے ہیں۔ خیال یا دائرہ قول وعمل میں

سچھڑکنایا Pگانا ،جلے پھپوPے پھوڑنا، دل کے پھپوPے پھوڑنا جلی کٹی �نانا جل اٹھنا ا�ی۹) ( جلے پر ون یا نمک

�لسلہ کے محاورے ہیں۔

ااس سے اختلاف کرتے ہیں اسی کو جلے نال کے ہماری عام روش ہے کہ جب ہم کسی سے ناراض ہوتے ہیں توخواہ مخواہ بھی

پھپولے پھوڑنا کہتے ہیں پھولوں کاجلنا محاورہ کی ایک اور صورت ہے جس کا اظہار اس شعر سے ہوتا ہے۔

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینہ کے داغ سے

آاگ لگ گئی گھرکے چراغ سے  راس گھر کو

( جنگل میں منگل ہونا، جنگل میں مورناچاکس نے دیکھا۔۱۰)

جنگل ہماری تہذیبی زندگی کا ایک حوالہ ہے ہندوستان اب سے کچھ زمانہ پہلے تک جنگلوں سے بھرا پڑا تھا یہ جنگل طرح

آابادہونا ایسے علاقہ کو جس میں طرح کے تھے پہاڑی جنگل بھی اورمیدانی جنگل بھی جنگل پر محاورے موجود ہیں جنگل

رورویرانی کا تصوربھی ہے اس آاباد ہوجائے گا۔ جنگل کا تص کھیتی ممکن ہے کام میںلانے کے لئے کہتے ہیں کہ تمہارا جنگل

لئے جب میلے ٹھیلے لگتے تھے اورطرح طرح کی دوکانیں اورکھیل تماشہ جنگل میںہوتے تھے تواس کوجنگل میں منگل ہونا

آاباد ہوجاتے راس کا ہماری معاشرتی زندگی سے بھی ایک رشتہ ہے خانہ بدوش قبائل جنگلوں میں کچھ دنوں کے لئے کہتے تھے

تھے توبھی جنگل میں منگل ہوجاتا تھا ۔

ااس کے ہاتھ میں یہ ہواکہ وہ بھلائی آادمی ترقی کرے بڑے عہدے پر پہنچے اور عام طورپر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کوئی

ااس کواپنے وطن کو بھولنانہیں چاہے وطن والوں کے لئے بھی کچھ کرنا چاہیے، نہ ہوا تووہ مثل ہوگئی کہ جنگل میں کرسکے تو

مورناچاکس نے دیکھا خوش ہونے والے تووطن کے لوگ ہوتے ہیں انہی کے سامنے ترقتیوں کا مظاہرہ بھی ہونا چاہیے۔

س�دھر جانا ، جنم جنم کی دو�تی ، جنم جنم کا بیر ، جنم جنم کا �اتھ ، جنم میں تھوکنا۔۱۱) ( جنم

آاتا ہے کہ ایک ہی زندگی ہندوستان کے لوگ پنہ جنم میں یقین رکھتے ہیں اسی لئے یہاں محاورے میں جنم جنم کا ذکر بہت

ااس میں یہ دوستی یہ محبت پایہ پیتر قائم رہے گا اس لئے کہ ہندوعقیدہ کے مطابق ایک جنم میں لگاتارجتنی زندگیاں ہونگیں

اسدھر نا زندگی آاتی ہے جنم کے سنسکار دوسرے جنم میں بھی انسان کے ساتھ رہتے ہیں اسی لئے جنم جنم کی بات سامنے

ابرے ماحول میںہوئی تھی لیکن حالات بدل آاتا ہے اور اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ پیدا ئش توایک بہتر ہوجانے کے معنی میں

Page 89: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ابرے رویہ کی طرف عجیب انداز سے اشارہ گئے اور جنم سدھر گیا ایک اور محاورہ اسی سلسلہ کا ہے اورمعاشرہ کے اچھے

ابرے ہیں توکوئی کیا تمہارے جنم میں تھوکے گا کرتا ہے جنم میں تھوکنا مراد یہ ہوتی ہے کہ اگر تمہارے اخلاقی رویہ اتنے ہی

کیا کہے گا کہ تم کیا ہو تمہارے ماں باپ کیا تھے۔

سابھرنا۔۱۲) سامنڈنا، یا سجوبن )

ااس کا اظہار انسان کے چہرے اان کا بدلا ہوا تلفظ ہے جوانی کے زمانہ کو ’’یون‘‘ کہتے ہیں اور اجوبن سنسکرت لفظ یون

مہرے اورعضائے بدن کے تناؤ سے ہوتا ہے بعض لڑکے اور لڑکیاں اپنی جوانی کے زمانہ میں اتنے بھرپورہوتے ہیںکہ یہ کہا جاتا ہے

ررت کی بات بھی رس مس اامنڈرہا ہے یہ ایک احسا اپری ہے جوبن چھایا ہوا ہے یا پھر جوبن طوفان کی طرح اان پر جوانی پھٹتی کہ

راس پر رشک بھی کیا جاتا ہے جوانی کا ڈھل جانا بھی ایک ایسی ہی کیفیت ہے جو ڈھلتے ہوئے دن یا ڈھلتی ہوئی ہوتی ہے اور

آاثار اس پر غلبہ رات کی مدھم کیفیت کی طرح ہوتی ہے جیسے کسی پودتے درخت یا باغ کی بہار گذرگئی ہو۔ اور خزاں کے

پارہے ہوں۔

( جوڑتوڑ، جوڑتوڑ کرنا، جوڑجوڑیا جوڑجوڑکر مرجانا، جوڑجوڑکے دھرنا، جوڑجوڑ نا، جوڑچلنا، جوڑPگانا، جوڑیا۱۳)�نجوگ ۔

جوڑنا ایک دوسرے سے بلانا یا جوڑی لانا ایک دوسرے سے شادی کردینا جیسے اللہ ملائی جوڑی کہتے ہیں مگر جوڑکے ساتھردکھنا بھی ہے جوتکلیف کی ایک صورت ہے لیکن اان میں جوڑجوڑ اجڑی ہوئی ہیں ہماری سماجی زندگی سے متعلق بہت سی باتیں

اجھوٹ سچ بولتا ہے آادمی اپنی غرض پوری کرنے کے لئے طرح طرح کے جوڑ توڑ کرتا ہے جوڑتوڑ ایک طرح کا سماجی عمل ہے آاتی ہیں تعلقات کی اچھائی برائی کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔ آاسمان کے قلابے ملاتا ہے یہی سب باتیں جوڑتوڑکے زمرے میں زمین

آادمی ہے اور اپنا کام آاتے ہیں کہ وہ بہت جوڑ توڑکا آاتا۔ہاں ہم یہ کہتے نظر مگراس کا استعمال ذہنی طور پر اچھے معنی میں نہیں آاتا ہے ۔ ااسے خوب نکالنا

جوڑجوڑکر مرجانا ایک دوسرا عمل ہے جس کا تعلق پیسے کے خط اورگھٹا کرنے سے ہے جولوگ کنجوس ہوتے ہیں پیسہ اکھٹاتوکرتےآائے گا اان کے لئے کہا جاتا ہے کہ میاں جوڑجوڑ کرمرجاؤگے یعنی سب رکھا رہ جائے گا تمہارے کام نہ ہیں خرچ نہیں کرتے

ااس سے سنجوگ پیدا کرنا بھی مراد لیا جاتا ہے ۔ جبکہ جوڑے بننا شادی کے جوڑوں آاتا ہے اور جوڑجوڑنا جوڑ لگانے کے معنی میں کو ایک خاص انداز سے طے کرکے رکھتے ۔ اوران میں سجاوٹ پیدا کرنے کوکہتے ہیں جوڑی دار برابر کے ساتھی کو کہا جاتا ہے

جوڑے تقسیم ہونا بھی شادی بیاہ یا خوشی کے موقع کی ایک رسم ہے۔ جس میںجوڑے دےئے جاتے ہیں اوران کا اپنا ایک سماجیاوررسمی انداز ہوتا ہے۔

( جوZرجتے ہیں وہ بر�تے نہیں۔۱۴)

Page 90: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اگرچہ یہ بادلوں سے متعلق ایک بات ہے کہ میںبادلوں کاکڑک گرج زیادہ ہوتی ہے وہ اکثر بونداباندی بہت ہی کم کرتے ہیں یہاں اس سے ایک معاشرتی یاسماجی نتیجہ اخذکیا گیاہے کہ جولوگ زیادہ بڑھ چڑھ کر باتیں بناتے ہیں وہ کام کم سے کم کرتے ہیں اس لئےااایک نکما اور ناکارہ حصہ ہوتا ہے کہ کام کرنیوالے کو زیادہ باتیں بنانے کی ضرور ت اورفرصت نہیں ہوتی یہ توہمارے سماج کا نسبت

جس سے تعلق رکھنے والے لوگ باتیں زیادہ بناتے ہیںدیکھا جائے توباتیں بنانا اورکام کرنا ہماری سوسائٹی کے نہایت اہم مسائل ہیںآاتی ہے۔Commentاور انہی سے متعلق یہ گفتگو ہے جومحاورے کی شکل میں یا بطور کے سامنے

( جونک پتھروں میں نہیںلگی۔۱۵) جونک لگنا خود ایک محاورہ ہے ۔ جونک پانی کا ایک کیڑا ہوتا ہے جوکھال سے چمٹ جاتا ہے اورخون چوستا رہتا ہے اسی لئے

محاورہ ہے کہ وہ توجونک کی طرح لگ جاتے ہیں۔ مگرایسے لوگ توجونہایت سخت دل سخت طبیعت اور سخت مزاج ہوتے ہیںاان سے جونک کی طرح لگ کربھی کوئی فائدہ نہیںاٹھاسکتا اس لئے کہ پتھر میں جونک اان سے جونک کی طرح مزاج ہوتے ہیں

ااسے کیا ملے گا۔ اچوسے گی پتھرمیں لگتی ہی نہیں جہاں خون ہوگا وہیں توجونک ( جی ہے توجہان ہے )جان ہے توجہان ہے(۔۱۶)

راس محاورے کو جان ہے توجہان ہے کی صورت میںبھی استعمال کیاجاتا ہے یہ فرد کی اپنی اہمیت اوراس کی اپنی جائز فلاحزب۔ آادمی کی اگرصحت ہے وہ زندہ ہے اوربقول غال وبہبود سے متعلق ایک سوچ ہے۔ اس کا استعمال دوموقعوں پر ہوتا ہے ایک کہ

زب تنگ دستی اگرنہ ہو غالتندرستی ہزار نعمت ہے

یہی تندرستی جی ہے جہان ہے جہان ہے اوریہی ہزارنعمت دنیاجہان کی خوشیاں ہیں اسی طرح ہم یہ بھی سوچتے اورکہتے ہیں کہاگرہم ہی نہ ہوں گے تودنیا کا ہونا نہ ہوناہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا جی ہے گویا جہان ہے۔

) چ ) ردیف 

ساتارنا۔‘‘۱)  ساترنا یا (’’چادر چادر ہمارے یہاں احترام کی علامت ہے اور ہماری کئی سماجی رسمیں ہیں جوچادرکی اہمیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہمارے

سماجی مسائل اور معاملات میں چادر کے کیا معنی ہیں۔ چادر اوڑھانا، چادر ڈالنا ، چادر پیش کرنا۔رن دین کے مزارات پر حاضرہوتے ہیں تومزار پوشی کے لئے چادر پیش کرتے ہیں کپڑے کی چادر کے علاوہ پھولوں کی ہم جب بزرگا

چادر بھی پیش کی جاتی ہے خاص طورپر مزارات اولیاء کی مزار پوشی کے لئے پھولوں کی چادر بھی چڑھائی جاتی ہے۔اان کی وجہ چادر اترنے کے معنی ہوتے ہیں عزت کے سایہ کا ختم ہوجانا خاندان کے بعض لوگ خاندانی عزت کا سبب ہوتے ہیں

راس کے یہ معنی ہیں کہ چادر عزت سے کنبہ کا وقار بنا رہتا ہے اورجب وہ نہیں رہتے تویہ کہا جاتاہے کہ خاندان کی چادر اترگئی۔

Page 91: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ووقار کے لئے ایک علامت ہے ۔آانکھیں ہونا یاچار چشم ہونا‘‘۲) (’’چار

اان آانکھیں چار ہوگئیں یعنی آانکھیں ہونا کہتے ہیں آانکھ ملاکر دیکھتے ہیں تواس کوچار آادمی ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور جب آاپ کو آانکھوں کی ہونا۔ایک دوسرا محاورہ ہے۔ اوراس کے معنی ہیں اپنے ااس کے مقابلہ میں چار اان سے ملاقات ہوئی ۔ کو دیکھا آاجاناکہ اس سے توکتاب کو اس کی شخصیت آانکھوں کی ہورہی ہیں ’’چار چاندلگنا‘‘،خوبصورتی بری چیز سمجھنا کہ وہ توچار

 کو یا اس عمارت کو چار چاند لگ گئے،،ااس کو ’’نیوفون‘‘ کہتے ہیں تو چار چاند اجھومر یا خوبصورتی پیشانی کے باعث اگر اتنا اچھا لگتا ہے کہ ایک ہی چاند ٹپکے ،

احسن کتنا دوبالا ہوجاتا ہے چار ابرو کا صفایا مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں جب سر کے بال ، بھنوئیں، لگنے پر ااسے چار ابرو کا صفایا کہتے ہیں۔ ااسترے سے مونڈ دیا جاتا ہے تو مونچھیں اور داڑھی سب کو

ہندوؤں میں موت کی رسموں کے سلسلے میں ایک رسم یہ بھی ہے کہ میت کا بڑا بیٹا اپنی چار ابروؤں کی موڑائی یا صفائی کروا دیتا ہے یہ دہلی اور لکھنؤ کے پانکوں کی ایک ادا بھی رہی ہے کہ وہ چار ابروؤں کا صفایا کروا دیں اس معنی میں چارکا عدد ایک

ااس سے روشنی بھی پڑتی ہے۔ ’’چار چندے اگلی ‘‘ہے تہذیبی اہمیت بھی رکھتا ہے اور ہمارے معاشرے کی مختلف روشوں پر یعنی چار گنا اچھی ہے یہ بھی اسی سلسلے کا ایک محاورہ ہے ۔’’چاریار بھی‘‘ محاوراتی سطر پر استعمال ہوتا ہے۔

آانا‘‘۳) (’’ چال چلنا ،چال میں چال چلنے سے بنا ہوا ایک محاورہ ہے چال دوکانوں اور مکانوں کے ایک خاص طرح کے سلسلہ کو بھی کہتے ہیں یہ خاص طور پر

ااردو کا محاورہ بنا ۔ ممبئی میں استعما ل ہوتا ہے۔لیکن ’’چال‘‘ شطرنچ کی ایک اصطلاح بھی ہے اور شاید وہیں سے چال چلنا ااس کے معنی ہیں دوسروں کو شکست دینے کے لئے کوئی ترکیب استعمال کرنا۔ شکست دینے کے معنی راستہ روک دینا بھی

آاجانا اسی سلسلے کا محاورہ ہے یعنی دوسرے کی مکاری اور چالاکی ہے ۔ مات کرنا بھی اور مات دینا بھی یعنی ہرا دینا چال میں آاجانا کہتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تویہ دونوں محاورے ہماری سماجی زندگی میں ایککے پھندے میں پھنسنا اسی کو چال میں

آادمی کی شخصی یا خاص کردار ادا کرتے ہیں اسی کو چال بازی کہتے ہیں۔چال ڈھال ایک الگ صورت ہے جس سے سماجی پہچان ہوتی ہے۔

(چاندنی مار جانا۔۴) اصل میں ہمارا سماج توہم پرستی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو جوان اور خوبصورت لڑکوں اور لڑکیوں کو چاندنی میں کوٹھے یاکھلے صحن میں تنہا سونے نہیں دیتے اور یہ خیال کرتے ہیں اور چاند کی چاندنی ان پر جادو کردے گی۔ کوئی جن ،

لیونیٹک پاگل کو کہتے ہیں اس سے مرادLUNATICبھوت ان پر عاشق ہوجائیگا۔ کہ یہ اپنے طور پر پاگل ہوجائیں گے۔ چاندنی مار جانا اور دیوانہ ہوجانا ہے ویسے چاندنی مار جانا گھوڑوں کی بھی ایک بیماری ہے اور انسانوں کی بھی ۔

(چائیں چائیں مچانا یا Pگانا۔۵)

Page 92: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ااسے چڑھ چڑھ کے باتیں کرنا کہتے ہیں یہ آادمی بہت بولتا ہے اور چڑیوں کی طرح برابر چہکنے کی کوشش کرتا ہے تو جب رچڑھ کے باتیں کرنا۔ اسی نسبت سے ایک اور طریقۂ گفتگو ہے جس کو رچڑھ گویا سماجی طور پر ایک ناپسندیدہ عمل ہے ۔

رچڑھ باتیں کرتا ہے ۔ رچڑھ عام طور سے ناپسند کیا جاتا ہے کہ وہ بہت بڑھ بڑھ کر یا رچڑھ اان سے آادمی کچھ باتوں یا کاموں کو ناپسند کرے اور جب وہ ہوتے رہیں تو رچڑھ جانا بھی ایک نفسیاتی عمل ہے کہ

آادمی آادمی عام طور پر بدمزاج خیال کئے جاتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک چڑے ہوئے جائے اور بات نہ کرنا چاہے ایسے رچڑی باتیں کرتے ہیں ۔ رچڑی ہیں۔ اور

( چراغ بتی کرنا۔چراغ بتی کے وقت، چراغ جلے ، چراغ بڑھانا ، چراغ کو ہاتھ دینا، چراغ ٹھنڈا،۶)بغ صحری ، چراغ �ے چراغ جلتا ہے ، چراغ تلے یا سرخصت ہونا ، چرا سل کرنا، چراغ پا ہونا، چراغ Zخاموش،یا

نیچے اندھیرا۔ چراغ پر ہمارے بہت سے محاورے ہیں جو اس عمل پر روشنی ڈالتے ہیں کہ چراغ ہماری زندگی میں کیا اہمیت رکھتا ہے چراغ بتی کرنا۔ گھر کا انتظام اور کام سنبھالنا ہے تاکہ شام ہوتو کوئی چراغ روشن کردے۔ اسلئے کہ عام طو ر سے گھروں میں ایک

ااس ایک چراغ کے لئے بھی بتی اور تیل کا انتظام نہیں ہوتا تھا چراغ بتی کہاں ہی چراغ ہوتا تھا اور غربت کے عالم میں تو سے ہوتی۔بڑی بڑی وباؤں یا غارت گروں کے حملوں کے بعد کبھی کبھی ساری ساری بستی میں چراغ نہیں جلتا تھا۔جس پر

کہا جاتا تھا کہ بستیاں بے چراغ ہوگئیں۔ چراغ بجھنا ۔اولادسے محروم ہوجانا ہے اسی لئے کہاجاتا ہے کہ بیٹا گھر کا چراغ ہوتا ہے چراغ جلنا بھی محاورہ ہے اور گھر

آادمی نقصان پہنچاتا اور تباہی وبربادی پھیلاتا آاگ لگنا بھی ۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب گھر کا اپنا کوئی کے چراغ سے گھر کو ہے چراغ سے چراغ جلنا ایک شخص کی نیکی ،ذہانت اور شرافت کا اثر دوسرا شخص قبول کرے وہی چراغ سے چراغ جلتا

آادمی ہے۔ایک نے دوسرے کوبڑھایا اور دوسرے نے تیسرے کویہی گویا چراغ جلنا ہوا اور سماج کی وہ نیکی اور بھلائی کہ ایک آادمی کوئی سبق سیکھے ، کو ئی روشنی حاصل کرے۔ سے دوسرا

کبھی کبھی کوئی ایسا شخص بھی ہوتا ہے جوتمام کنبے ،خاندان ، بستی، یا شہر کے لئے شہرت یا عزت کا باعث ہوتا ہے۔زی نے کہا تھا۔ زب کے مرثیہ میں حال ااس کے لئے کہتے ہیں کہ وہ شہر کا چراغ ہے ۔ غال

شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہاادعا ہے کہ چراغ روشن ہوگا تو گویا مرادیں حاصل ہوں گی۔چراغاں ہمارے یہاں خوشی کے موقع چراغ روشن مرادحاصل ایک

اعرس کے موقع پر یہی چراغاں تو کیا جاتا ہے۔ پر بہت سے چراغ جلائے جاتے ہیں۔  ااس کو چراغاں کہتے ہیں ۔ دیوالی پر یا ااس کو رقص چراغ کہتے ہیں بعض مندروں ہندوانی رقص ایک وہ بھی ہوتا ہے جو چراغوں کی تھالی سر پر رکھ کرکیا جاتا ہے

خانقاہوں اور مزارات پر بہت سے چراغ جلانے کے لئے مینا ر بھی تعمیر کئے جاتے ہیں جسے چراغ مینار کہتے ہیں ۔

Page 93: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

(چشم پوشی کرنا ۔۷)رم بیمارجیسے ترکیبی محاورے ادور ، چش اان میں’’ چشم نمائی‘‘ ، چشم بد چشم سے متعلق ہمارے ہاں بہت سے محاورے ہیں آانکھوں کے لئے رم نیم خواب جن رم نیم بار یا چش آانکھیں ، چش رز نظر ہے خماری رم بیمار ایک شاعر انہ اندا اا چش شامل ہیں مثلآانکھوں کو زن صاحب کی زب اپنے ایک دوست اور شاگرد میر رم بیمار بھی کہا جاتا ہے۔غال اان کو محاورہ چش استعمال ہوتا ہے

آانکھوں آانکھیں یہ عام طور پر معشوقوں کی آالودیا متوالی آائی ہے کہ خمار رم بیمار کہتے تھے اس سلسلے میں یہ تشریح بھی چشااس سے ہمارے معاشرے کی تہذیبی سطح کا بھی شاعرانہ اظہار ہوتا ہے۔ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اور

آانکھوں کا اشارہ کرنا چشم نمائی کہلاتا ہے۔ ایسا ہی ایک ترکیبی رفقرہ کہنا اور ’’چشم نمائی کرنا‘‘۔طنزیہ اندازسے کوئی محاورہ انگشت نمائی سے چشم پوشی تہذیبی اعتبار سے غیر معمولی محاورہ ہے جب ہم دوسروں کی طرف سے کوئی برائیااس کو چشم پوشی اختیار ااس کو نظر انداز کرتے ہیں اور ااس پر کوئی اختلاف پیدا کرنا بھی نہیں چاہتے تو دیکھتے ہیں اور آاگے اا اس لئے اختیار کیا جاتا ہے کہ اختلافات کو اا فوقت کرنے سے بھی تعبیر کرتے ہیں یہ نہایت اہم معاشرتی رویہ ہے جو وقت

اامر کی شعوری کوشش کی جائے۔ تاکہ تعلقات میں کوئی بدمزگی یا بدنمائی پیدا نہ ہو۔ راس بڑھنے سے روکا جائے اور(چمک چاندنی۔۸)

چاندنی کے ساتھ روشنی اور نور کا تصور وابستہ ہے چمک دمک کا نہیں ایسی عورت جو بہت چمک دمک سے رہتی ہے اورااس کو ایک طرح پر فاحشہ غیر ضروری طور پر سنگار پٹار کرتی ہے وہ معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھی جاتی بلکہ

رز نظر کی ترجمانی کرتا ہے۔ رفکراوراندا عورت تصور کرتے ہیں۔اس نسبت سے یہ محاورہ ہماری معاشرتی آافتا5،چندے ماہتا5،چودہویںرات کا چاند۔۹) (چندے

آافتاب و چندے رر تعریف کہتے ہیں کہ وہ چندے ااس کو بطو اپرکشش ہوتا ہے آادمی دوسروں کی نظر بہت قبول صورت اور جو اانہیں آاویزہے۔ اور نگاہوں کو فرحت بخشنے والا ہے۔ چاہے ماہتاب ہے جس کہ یہ معنی ہیں کہ وہ چاند سورج کی طرح دل

کسی وقت بھی دیکھا جائے رات کو دن کو صبح کو شام کووہ ہروقت اور ہر حالت میںخوش منظر ہیں ، خوبصورت ہیں۔ اساحسن بیان آارائی کو سے معاشرے کی خوش ذوقی اور زبان کی خوبصورتی کا پتہ چلتا ہے۔ اور یہ بھی کہ ہمارے یہاں مبالغہ

راسی سے ہماری شاعری اور دوسرے فنون لطیفہ کی مقصدیت اور آاتی ہے۔Approachسمجھا جاتا ہے اور سامنے ااسی کی ایک خوبصورت مثال ہے۔  چودھویں رات کا چاند ہونا

( چور کی داڑھی میں تنکا۔ چورمحل، چوری اور �ینا زوری یا چوری اور �ینہ ز وری، چوری چوری ، چوری۱۰)سھپے ، چور کی ماں کوٹھی میں �ر دیوے۔ اور رووے ۔ چورنی دیدہ، چوری چنکاری یا چوری جاری۔  چ

ابرے لوگ اپنے اھپے بہت سے راس سے چوری چ چوری چکاری یا چوری جاری ہمارے بہت بڑے سماجی عیبوں میں سے ہے۔ ااس طریقہ سے سماج میں ناہمواریوں اور عیب داریوں کو رواج دیتے ہیں ایسا ساتھیوں یا غیر ساتھیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور

Page 94: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ااسے جانتے نہ ہوں۔اسی لئے ہمارے ہاں ایسے محاورے رائج ہوئے کہ چور چوری سے جاتا نہیں ہے کہ یہ لوگ اسے پہچانتے یا آادمی کی فطرت میں داخل ہوجاتا ہے تو پھر ایک ہے ہیرا پھیری سے نہیں جاتا جس کے یہ معنی ہیں کہ چوری کا عیب اگر

ااسے کہیں نہ کہیں موقع پاکر اپنے حق میں استعمال کرتاہے۔ ااس کی عادت بن جاتی ہے اور وہ اور لوگ قیافے اور سطح پر یہ قیاس سے یہ پتہ چلالیتے ہیں کہ یہ کام کس کا ہے اسی وقت کہتے ہیں کہ چور کی داڑھی میں تنکا ہے جو مجرم ہوتا ہے وہی

چھپاتا پھرتا ہے اور اپنی حرکات سے سچائی کو ظاہر کرتا ہے ۔ااس کو ایک زر نے اھپے کسی کو رکھا جاتا ہے رجب علی بیگ سرو یرصہ ہوتا جہاں چوری چ چور محل امراء کے محل کا وہ ح

اامراء کے چور محل نہیں ہوپاتے تھے۔ چورنی دیدہ ایسی لڑکی یا لڑکا موقع پر ’’فسانۂ عجائب ‘‘ میں استعمال بھی کیا ہے کہ راسی نوعیت کا محاورہ ہے کہ بیماری تکلیف یا اھپے دوسروں کو تاکتا جھانکتا رہتا ہے۔چور پکڑنا بھی کہلاتا ہے جو چوری چااسی کو چور ریہ کا اگر سبب نہیںمعلوم ہوتا تو کسی نہ کسی ذریعہ یا وسیلہ یا قیاس یہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ برائی یہاں ہے روران محاوروں سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ سماج کس طرح اپنے اندا ز پر غور کرتا ہے ، کمنٹ کرتا ہے اور پکڑنا کہتے ہیں

ردعمل پر اپنے تبصرہ کو محاورے یا ذہانت سے بھرنے کیمنٹ کی صورت میں سامنے لاتا ہے۔ کسی عمل یا ر(’’چوڑیا ں پہنانا‘‘ ’’چوڑیاں پہننا‘‘’’چوڑیاں ٹھنڈی کرنا۔‘‘۱۱)

چوڑیا ںہندوستان کی عورت کا خاص زیور ہے چوڑیاں کنچ کی بھی ہوتی ہیں لاکھ کی بھی ، سونے چاندی کی بھی، اور کمدرجہ کے کسی میٹریل کی بھی۔

اا چوڑیاں بجنا ، چوڑیاں پہنانا، چوڑیاںپہننا،اس کے علاوہ چوڑیاں بڑھانا، چوڑیوں کے ساتھ ہمارے محاورے بھی وابستہ ہیں مثلاا ران سب محاوروں کا رشتہ ہماری تہذیبی اور سماجی زندگی سے ہے۔ مثل ااتارنا، چوڑیاں توڑنا، اور چوڑیاں ٹھنڈی کرنا۔ چوڑیا ں

چوڑیا ں بجنا سہاگ کی اپنی زندگی سے تعلق رکھتاہے۔ چوڑیاں پہنانا شادی کرنے کی ایک رسم بھی ہے۔ جس طرح چادر ڈالنا ایک رسم ہے اسی طرح چوڑیاں پہنانا ہے یعنی جس

ااس کی دولہن یا بیوی بن جائیں گی۔ کے نام سے جو چوڑیاں پہنائی جائیں گی لڑکیاں یا عورتیں چوڑیاں پہننا اسی نسبت سے بیوی بننے کے لئے کہا جاتا ہے ۔ تم چوڑیاں پہن کربیٹھ جاؤ یہ مردوں کے لئے طعنے کے طور پرااس کے معنی یہ ہیں کہ وہ بزدلی کا ثبوت کہاجاتا ہے۔ اس لئے کہ چوڑیاں پہننا عورتوں کا کام ہے مرد اگر چوڑیاں پہنتا ہے تو دیتا ہے۔ اسی لئے ایک اور محاورہ بھی ہے کہ ’’بنگا‘‘ پہنادوںگی گاؤں والے چوڑی بنگڑی کہتے ہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں

ابزدل اور شکست خوردہ بنا دوں گی وغیرہ۔ کہ تجھے چوڑیاں پہنا دوںگی ران محاوروں کے مقابلے میں چوڑیاں بڑھانا یا ٹھنڈی کرنا بیوہ ہوجانے کی ایک علامت ہے۔ جب کوئی عورت سہاگن نہیں اب

راس ااس کو چوڑیاں بڑھانا کہتے ہیں اور اگر کانچ کی چوڑیاں توڑ دی جائیں تو ااتار دی جاتی ہیں تو ااس کی چوڑیاں رہتی تو ااسے بھی چراغ ٹھنڈا کرنا یا شمع ٹھنڈی عمل کو چوڑیاں ٹھنڈی کرنا کہتے ہیں۔جب چراغ اور شمع کو بجھایا جاتا ہے تو

Page 95: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

زد دہلوی کا شعر ہے۔ کرنا کہتے ہیں۔ بیخو مجھکو ہے بیخود نہ سمجھ خوب سمجھتا ہوں تجھے

شمع میرے ہی جلانے کوتو ٹھنڈی کردیزی( )بیخود دہلو

راس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ محاورہ ہماری معاشرتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی کس کس طرح ترجمانی کرتا ہے۔

(چوPی دامن کا �اتھ۔۱۲)رلو سے متعلق دو ایسی اصطلاحیں ہیں جو ایک سے زیادہ معنی دیتی ہیں اور جب وہ اپ اکرتے یاساڑی کے چولی دامن ، قمیض ،

اان اان سے بہت گہری باتوں یا رشتوں کا تعلق ظاہر کیا جاتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ دونوں ایک ساتھ استعمال ہوتی ہیںتو اقربتوں کو ظاہر کرتا سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اور اس سے مراد مرد اور عورت کا گہرا تعلق ہوتا ہے جو سماج کی باہمی

ہے ۔(چھاتیاں چڑھنا، چھاتی بھرجانا۔۱۳)

ادودھ سے بھر جاتے ہیں اور بچہ اان کا تعلق بچے کے دودھ پینے یا نہ پینے سے ہے جب پستا ن عورتوں کے خاص محاورات ہیں اور اانہیں چھاتیوں کا چڑھنا یا بھرجاناکہتے ہیں۔ ادودھ نہیں پیتا اور

سمونگ دPنا، چھاتی میں Zھونسہ مارنا، چھاتی پکنا ،۱۴) (چھاتی پر پتھر رکھنا۔چھاتی پر �انپ Pوٹنا۔ چھاتی پر سھکنا، چھاتی ٹھنڈی کرنایا ہونا،چھاتی جلنا، چھاتی پیٹنا، کوٹنا، چھاتی �ے Pگانا، چھاتی تلے رکھنا، چھاتی ٹ

سابھار کرچلنا۔ چھاتی چھلنی ہوجانا، چھاتی دبانایا Pینا، چھاتی دھڑکنا، چھاتی نکال کر یا امرد یا عورت کے لئے شخصیت کے اظہار یا سماجی افکار واعمال میں خاص کردار ادا کرتا ہے۔عورتوں کی شخصیت اھاتی یاسینہ چ

امراد عورت پن اور مردانہ وجاہت ہے اسی لئے ااس سے جمال کا اظہار ہوتا ہے اور مرد کی شخصیت میں جلال کا جس سے میں رل تحسین یا لائق تعریف باتیں خیال کی جاتیں ہیں۔ چوڑا سینہ یا بھراسینہ یا بھرابھرا سینہ قاب

چھاتی سے لگانا یا چھاتی پھٹنا یا چھاتی کے سائے میں رکھنامحبت اور شفقت کی باتیں ہیں۔ چھاتی سے لگائے رکھنا بھی اسیادعادی جاتی ہے کہ اللہ پاک چھاتی ٹھنڈی رکھے ۔ آاتا ہے چھاتی ٹھنڈی ہونا سکون ملنا ہے اسی لئے  زمرہ میں

نفرت اور دشمنی کے جذبات بھی سینہ سے وابستہ کئے جاتے ہیں ۔جیسے چھاتی پر گھونسامارنا یا چھاتی پر مونگ ڈالنا یا چھاتیامراد ہے۔ آاتا ہے ۔ چھاتی پیٹنے سے بھی یہی جلنا ، چھاتی کوٹنا ماتم کے لئے

آائرن ہونے کی ایک علامت ہے مگر عورت کے لئے نہیں ااس کے خون میں امرد کی خوبی سمجھی جاتی ہے کہ چھاتی پر بال ہونا آاتا۔ دیہات اور گاؤں کی بات الگ ہے۔ اب عام طور پر مہذب سوسائٹی میں چھاتی پر بال ہونے کا ذکر بھی نہیں

جب بہت زخم مل جائیں اور کسی طرف سے طعنہ و تشنیع برابر جاری رہے گویا تیروں کی بارش ہوتی رہے تو محاوروں کے طور پرادودھ پینے کی عمل میں عورتوں کے محاورے کے لحاظ زخم پڑنا یا چھاتی چھلنی ہونا استعمال کیا جاتا ہے۔ بچہ کی طرف سے

Page 96: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اابھار کر یا نکال کر چلنا ایک طرح کا آاتا ہے چھاتی سے چھاتی دبانا بھی شامل ہے۔ جنسی اور جذباتی روش میں بھی یہ محاورہ رز عمل ہے جس میں اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کارویہ شامل ہوتا ہے۔چھاتی چوڑی کرنے کا انداز بھی سماجی اور نفسیاتی طر

اا یہی اپنی شخصیت کا اظہار ہے۔ دراصل محاورتآانا۔‘‘۱۵) اھٹی کا دودھ یاد ( ’’چ

اان میں سے ایک چھٹی کی رسم بھی ہے جو بچے کی پیدائش سے ہمارے یہاں بچہ کی پیدائش سے متعلق بہت سی رسمیں ہیں ادھلائی کی رسم شامل ہے۔جس میں بہنوں یا نندوں کو نیگ کے طور پر اداکیا جاتا ادودھ ااس میں چھ دن بعد ادا کی جاتی ہے۔

ہے۔آاگئے بہت آاگیا یعنی اچھے دن یاد ااٹھاتا ہے تو کہتے ہیں کہ چھٹی کا دودھ یاد جب کوئی شخص مصیبت میں پڑتا ہے یا تکلیف

ااس کا تعلق سماجی رسم سے ہے۔ ادودھ ہے کہ اھٹی کا آانا زیادہ اہم نہیںہے جتنا اہم چ اپرانی بات یاد آاگئی۔ پرانی بات یاد (’’چہرہ Pکھنا۔چہرہ بندی کرنا۔‘‘۱۶)

اان کا چہرہ لکھ لیا جاتاہے اان کو خریدایا فروخت کیا جاتاہے تو اصل میں چہرہ لکھنا حیوانات سے متعلق ایک طریقہ ہے کہ جب ادم کٹی ہوئی تونہیں ہے دانت کیسے ہیں وغیرہ۔ اسی طرح چہرہ لکھنے کارواج ان لوگوں کے بارے میں بھی یعنی سینگ ہیںیانہیں

آاتے ہیں۔ رہا ہے۔ جوکسی کی ملازمت میں رصے کو کہتے ہیں یہ مرثیہ نگاری ہی کی ایک اصطلاح ہے ۔ بہرحال چہرہ لکھنا ایک طرح چہرہ بندی مرثیہ کے تمہید ی ح

کاشناخت نامہ تیارکرنا ہے جوہماری سماجی زندگی میں ایک نہایت ضروری کارگزاری ہے۔سھوٹ جانا۔‘‘۱۷) اکے چ ( ’’چھ

اھوٹ جانا استعمال ہوتا تھا۔ جس رکے چ راس سے پہلے چھ آاج بھی کرکٹ کے رشتہ سے ہمارے لئے ایک خاص لفظ ہے رکا چھ

رحس غائب ہوگئی اوسان خطاہوگئے ہوش حواس گم ہوگئے۔ یہ ایسے ااس کے پانچوں حواس اورچھٹی کے معنی ہوتے تھے کہ

آادمی دوچار ہوتاہے۔ اورکچھ سوچ نہیں پاتاکہ وہ کیاکرے رل برداشت صورت حال سے وقت کے لئے کہتے ہیں جب کسی ناقاب

اورکیا نہ کرے۔

ساڑانا۔‘‘۱۸) اھلنی میں ڈال کر چھاج میں (’’چ

چھلنی اورچھاج ہماری وہ معاشرتی زندگی کے دواہم حوالہ رہے ہیں ایک میں چھانہ جاتاہے۔ اورایک میں پھٹکاجاتاہے۔ پھٹکنے

ااسی ااڑانا مزہ اڑاناہمارے ہاں سماجی رویوں میں شامل ہے۔ ااڑانا افواہ ااڑانے کاعمل بھی ہے۔ اوربات کاعمل ایک طرح سے حواس

اان رہے ہیں۔ ایک طرف باریکیاں ااڑارہے ہیں اور’’چھلنی‘‘ میں چھ کی طرف یہ کہہ کر اشارہ کیاجاتاہے کہ’’ چھاج‘‘ میں رہ کر

ااڑارہے ہیں اوربدنامی پھیلارہے ہیں۔ نکال رہے ہیں اوردوسری طرف مذاق

Page 97: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

( ’’چہ میگوئیاں۔‘‘۱۹)

ہمارے معاشرے میں خواہ مخواہ کی باتیں کرنے کا بہت رواج ہے غیرضروری طورپربھی ہم کیمنٹ کرتے رہتے ہیں اورباتوں

کاچرچہ کرتے ہیں اسی کوچہ میگوئیاں کہتے ہیں کہ وہاں بہت چہ میگوئیاں ہوتی ہیں لوگ اپنی اپنی سوچ مزاج اورماحول کے

مطابق باتیں کرتے ہیں۔

( ’’چھوٹا منہ بڑی بات‘‘۲۰)

آادمی کواپنی حیثیت اپنے حالات اورماحول کے مطابق سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہےئے اگرایسا نہیں ہوتا اورلوگ اکثر اس ہر

آادمی کی زبان سے اچھی اان جیسے کسی اان کے منہ پر پھبتی نہیں ہے یا کا خیال نہیں کرتے توایسی باتیں کرجاتے ہیں جو

راس طرح کی یا اس امنہ اس لائق نہیں ہے کہ تم امنہ بڑی بات کرنا یعنی تمہارا نہیں لگتیں ۔اسی موقع پر کہتے ہیں چھوٹا

سطح کی باتیں کرو ۔

آاداب ورسوم کاپتہ چلتاہے۔ کہ کس کو کیا بات کرنی چاہےئے اوراگرمعاشرے کی سوجھ بوجھ کی سطح اس سے سماجی

رگرجاتی ہے توپھرکس طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔

(’’چھوئی موئی۔‘‘۲۱)

آانے لگتا ااس کو ہاتھ لگاؤ وہ مرجھایا ہوا نظر ایک پودے کا نام بھی ہے جواس اعتبار سے بہت نرم ونازک پودا ہے کہ جیسے ہی

اھوئی موئی سے نسبت رساس ہونے کی ایک صورت ہے اورایسے لوگوں کی یا ان کی طبیعتوں کی چ ہے یہ غیرمعمولی طورپر ح

ابرا مان جاتی ہیں یا ذرا ہوا چلنے یا ٹھنڈ دیتے ہیں اورایسی لڑکیوں کو خاص طورپر چھوئی موئی کہاجاتاہے۔ جوذراسی بات پر

لگنے یا گرمی کا اثرہوجانے پر بیمار ہوجاتی ہیں یہ گویا سماج کا گہرا طنز ہے جوایسے لوگوں پر کیاجاتاہے جومزاج کے بہت

نازک ہوتے ہیں۔

(’’چھینٹادینا‘‘ ’’چھینٹا پھینکنا۔‘‘۲۲)

ااسے چھینٹاپھینکنا یا دینا اچٹکی لی جاتی ہے تو ایک سے زیادہ معنی رکھتا ہے عام طورسے جب کسی پر اعتراض کیاجاتاہے یا

رچہ کہتے ہیں یہ بھی ایک سماجی روش ہے۔ لیکن چھینٹا دینے کے ایک معنی ایک خاص طرح کی رسم بھی ہے جب کوئی ب

اغسل صحت سے پہلے چھینٹا دیا جاتا ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نیم ااسے بیماری سے اٹھتا ہے اورصحت یاب ہوتاہے تو

رشفایاب ہونے والے کو چھینٹا دیتے ہیں۔ ااس سے بیماری سے کی ٹہنی کو پانی میں بھگویا جاتاہے اور پھر

Page 98: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آاتاہے اور ایک خاص وقت میں روٹی یا سالن کو پانی کا چھینٹادیا جاتاہے پکانے کے سلسلے میں بھی یہ محاورہ کام میں

ااڑانا بھی اسی سلسلہ کا ایک محاورہ ہے۔۔ پراٹھے اورچاولوں کوبھی خاص طورپر چھینٹے

ساڑانا‘‘ چیتھڑے چیتھڑے کردینا۔۲۳) (’’چیتھڑے بکھیرنا یا

رھری ہوگئے ہیں رھری ج رھس کر پھٹ گئے ہوںبالکل ج معروف محاورات میں سے ہے ’’چیتھڑے ‘‘ایسے کپڑوں کو کہتے ہیںجو گ

امراد یہ ہے کہ کسی بات کو کسی پروگرام کویا جسے مغربی یوپی میں جھیرجھیرہونا یا لھیرلھیرہونا بھی کہتے ہیں اوراس سے

یی یا دلیل کے ااس نے فلاں بات فلاں دعو رملا دینا۔کسی خیال کی شدید مخالفت کرنا کہ ابری طرح خاک میں آابرو کو عزت

آانا بہت بے عزتی کی بات ہوتی ہے اورایسے ہی موقعوں پرکہتے رت حال کا پیش ااڑادےئے سماج میں اس طرح کی صور چیتھڑے

ااس کے چیتھڑے اڑگئے۔اوربات بگڑگئی۔ ہیں کہ

اوںکی طرح منڈلانا‘‘۲۴) (’’چیل کی طرح منڈلاتے پھرنا۔یاچیل کو

آادمی کوکسی بات کا لالچ ہوتاہے تووہ اس موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ وہ کب اورکس سے کیا جھپٹ لے ۔ چیل جب

ااٹھانا سماج کا ایک رویہ بھی ہے۔ اورچیل جھپٹا بچوں کا ایک کھیل بھی ہے اورچیل کی طرح جھپٹا مارنا اورموقع سے فائدہ

روں کی طرح منڈلانا بھی کہتے ہیں جوکسی کے لالچی رکرلگاتی ہے۔ اسی لئے چیل کو جھپٹا مارنے سے پہلے منڈلاتی ہے چ

طریقہ کا کپڑا ایک طرح کا طنزہوتاہے اورہمارے زیادہ محاورے اگردیکھا جائے توطنز اورتبصرہ ہی ہوتے ہیں۔

سبلوانا۔‘‘۲۵) ( ’’چیں بوPنا یا

عجیب وغریب محاورہ ہے اورجس کے معنی ہوتے ہیں دوسرے کوبے طرح دبادینا کہ وہ پناہ مانگنے پر مجبور کردینا یہ جانداروں

اموسلادھاربارش ہوئی یا طوفانی مینہ برسا یہ اچھی اچھی کے لئے بھی بولا جاتاہے اورغیر جانداروں کے لئے بھی جیسے ایسی

ابلوادی اگردیکھا اان سے چیں اان کی خبرلی کہ وہ چیں بولنے پر مجبورہوگئے یا ابری طرح راس عمارتیں چیں بول گئیں یا انہوںنے

جائے تویہ بھی ہمارے سماجی رویوں پر بھی تبصرہ ہیں۔

رت حال کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ ااس صور کبھی اتنی ذورزبردستی ہوتی ہے کہ اچھے اچھے

(’’چیونٹی کے پرنکلے ہیں۔‘‘۲۶)

آانا آاتا رہاہے لیکن چیونٹی کے پرنکل یہ محاورہ بھی بہت دلچسپ اورمعنی خیزہے۔ چیونٹی کاذکر توہمارے روایتی قصوں میں

آاتے ہیں یہ ایک طرح پر ااس کے پرنکل آاتی ہے تو ایک بڑے طنز کا درجہ رکھتا ہے یہ کہاجاتاہے کہ جب چیونٹی کی موت قریب

خطرہ کا اعلان بھی ہے۔ لیکن اس سے ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے ہی مفہوم کو اخذکیا کہ اب چیونٹی کے بھی پرنکل

Page 99: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

راس کے معنی یہ ہیں کہ وہ نادانستہ اپنے لئے نقصان اورتباہی کے راستہ پربڑھ رہی ہے۔ ااڑنے لگی اور آائے وہ بھی

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے محاوروں میں کیا کچھ کیا گیا ہے اورکیسی کیسی صورت حال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

‘‘ ح ’’ ردیف 

( حاشیہ چڑھانا۔۱)  حاشیہ کسی عبارت کے سلسلے میں ذیل تحریروں کوکہتے ہیں بعض کتابیں حاشیہ ہوتے ہوئے بھی مستقل کتابوں کے درجہ میں

ااس کو اپنی آاجاتی ہیں۔ یہ ایک الگ بات ہے حاشیہ چڑھانا یا حاشیہ لگانا ایک طرح کامجلسی رویہ ہے کہ بات کچھ نہیں ہوتی آاتاہے۔ ااسی کو حاشیہ چڑھانا کہتے ہیں اورحاشیہ لگانا بھی کم وبیش اسی معنی میں طرف سے بڑھا چڑھا کر پیش کیاجاتاہے۔

( حاضری دینا یا حاضری میں کھڑارہنا۔۲)ااس رن دین کے مزارات بھی جانے کو حاضری دینا کہتے ہیں نوکری بجانا دہلی کا ایک محاورہ ہے رصہ ہے بزرگا آاداب کا ح یہ درباری

کے معنی بھی کسی رئیس یا ادارے کی ملازمت کو پوری توجہ اورمحنت سے انجام دینا۔اپرانے زمانے میں عبادت بھی کھڑے ہوکر ہی کہی جاتی تھی اسی لئے حاضری دینے حاضری میں کھڑا رہنا تابعداری ہے اطاعت ہے

راس سے ایک طبقہ کے سماجی رویوں کا پتہ چلتا ہے۔ کے معنی کسی کے سامنے سرجھکائے ہوئے کھڑے رہنے کے ہیں اور( حرام موت مرنا۔۳)

حرام حلال کے مقابلہ کالفظ ہے یعنی جائز کے مقابلہ میں ناجائز حرام کی کھانا حرام کی روزی حرام کا پیسہ حرام کی کمائیآاتے ہیں جب کوئی کہتا ہے کہ حرام موت مرنے سے کیا فائدہ تواس سے مراد ہوتی ہے خواہ مخواہ جان دینا بڑا سب اسی ذیل میں نقصان اٹھانا ہے۔ایسے موقعوں پر سماج والے یہ کہتے ہیں کہ وہ تو حرام موت مراہے ۔ خودکشی کے لئے بھی کہا جاتاہے کہ وہ

حرام موت ہے مگراس میں کوئی طنز یا تعریف شریک نہیں ہے ۔ جس طرح حرام موت مرنے میں ہے۔آاشنا، حرف بنانا ، حرف پکڑنا، حرف لانا۔۴) ساٹھانا، حرف آانا ،حرف ( حرف

ااٹھانا حرف بات کو کہتے ہیں اورجس طرح بات کے ساتھ بہت سے محاورے وابستہ ہیں جیسے حرف رکھنا اعتراض کرنا۔ حرف آاتا ہے حرف پکڑنا غلطی پکڑنے کوکہتے ہیں حرف لانا بھی تھوڑا بہت پڑھنے کے لائق ہوجانا۔ حرف شناسی بھی اسی معنی میں راس سے ہم یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ الفاظ کا استعمال سماج کی سطح پر کس طرح اپنے معنی اورمعنویت آاتاہے اسی معنی میں

ااس میں نئے نئے پہلو پیدا ہوتے رہتے ہیں اور نئی نئی شاخیں پھوٹتی رہتی ہیں۔ کو بدلتا رہتا ہے۔ (حشرتوڑنا یا برپا کرنا، حشردیکھنا، حشر کا دن ہونا، حشرکا �اہنگامہ ہونا۔۵)

ااٹھنا، اورہنگامہ برپا ہوناہے۔ اسی لئے حشر کے لغوی معنی کے حشر قیامت کوکہتے ہیں اورحشر کے معنی طرح طرح کے فتنے آاتے ہیں۔ راس کے ساتھ بھی بعض محاورات وابستہ ہیں اورعلاوہ محاوراتی معنی بھی سامنے محشر بھی حشر کو کہتے ہیں اور

Page 100: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ لفظوں کے ساتھ معاشرتی اورتہذیبی ماحول میں کیا کیاتصورات اورتاثرات وابستہ ہوتےرکن راہوں سے گزرتی ہے۔ حشر کا دن کیونکہ قیامت سے وابستہ ہے اس لئے رکن رن فکروخیال کی چلے جاتے ہیں۔ اورزبا

مسلمان حشر کے ساتھ فتنہ اورہنگامہ کا لفظ وابستہ نہیں کرنا چاہتے اگرچہ یہ محاورہ خود اسلامی کلچرسے وابستگی کیطرف اشارہ کرتاہے۔

سچوں کرنا، حلق دبانا۔۶) ( حلق بند کرنا،حلق ااسے خاموش کیا جاتاہے یہ ااس کا منہ دبادیا جاتاہے گلہ دبایا جاتا ہے ۔ آاواز بند کرنے کے لئے آادمی کی حلق گلے کوکہتے ہیں آارزو دبائی امجرمانہ انداز سے بھی ہوتا ہے کہ قاتل چور اورڈکیت ایسا کرتے ہیں۔ سماجی اور سیاسی زندگی میں بھی کسی کی

اا گلہ دبانا بھی کہتے ہیں۔ اور قصبہ کی زندگی میں یہ محاورہ کسی کو خاموش رکھنے کے لئے ااس کو محاورت جاتی ہے آاواز نکالی آاواز کوئی نہ سنے اس کی کوشش کی جاتی ہے حلق سے جب استعمال ہوتا ہے کہ اپنے ’’حلق چوں‘ ‘اوراس کی

آاواز نکالتے ہیں آاتی ہے اسی لئے جولوگ یا بچے روتے وقت زیادہ زور سے اابھرتی ہے حلق سے باہر جاتی ہے تووہ زیادہ قوت سے آاتا ہے۔ اچوں کرنا اورحلق دبانے کا محاورہ اان کے لئے بھی کہا جاتاہے۔ کہ وہ حلق سے روتے ہیں اسی مناسبت سے حلق

اچہ۔۷) سحورکا ب )ااس کو ’’پری رو‘‘ آائیڈیل ہے جب کسی کو بہت خوبصورت ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ تو احسن کا اور اورپری ہمارے ہاں خوبصورتی اور حآاخری لفظ طنز اور تعریض کے طورپر بھی کسی کم صورت یا بدصورت پری چہرہ ، پری تمثال اور پری کانمونہ کہا جاتاہے کہ رچہ کسی خوبصورت بچے یا بچی کے لئے یا زیادہ سے زیادہ کسی حسین مردیا احور کا ب آادمی کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن

اان کا رشتہ آائیڈیل یعنی آائیڈیل ہیں احور کے ماں باپ ہوتے یہ اپری اولاد ہوتی ہے نہ عورت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جب کہ تخلیق سے وابستہ نہیں ہوتا۔

‘‘ خ’’ ردیف 

( خار رکھنا، خارZزرنا۔۱) ااسی رفطری خوبی ہے لیکن ا اس کی اچبھنا اور شدید اذیت کا احساس پیداکرناہے۔ یہ خارکانٹے کوکہتے ہیں اورکانٹے کی خصوصیت اصورت ناگواری کا باعث ہوتی سے محاورے کے معنی پیدا ہوگئے اورخارکھانا خارکی طرح کھٹکنا اورخارگزرنا محاورات بن گئے کہ یہ

ااس کا موجود ہوناخارگزارتاہے یہ ہماری سماجی نفسیات راس معنی میں وہ خارکی طرح کھٹکتا ہے اور ابرا لگتا ہے اور آادمی ہے وہ رصہ ہوتاہے۔ رصہ ہے اور یہ احساس دلاتاہے کہ لفظ اپنے معنی کے اعتبار سے لغت کاح  کاح

امرادی معنی نہ ہوں وہ محاورہ نہیں بنتا، محاورہ ایک طرح کا ذہنی مفہوم رکھتاہے جولغوی معنی سے الگ ااس کے لیکن جب تک ااگہرا ہوتاہے ۔ ااس کا رشتہ نسبت ہوتاہے اور تہذیب وسماج سے

(خاص خاص ،خاص محل،خاص اورخاصہ وغیرہ۔۲)

Page 101: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

راس رن خاص‘‘ )لال قلعہ( اس کے معنی ہوتے ہیں ’’مختص‘‘لیکن یہ لفظ کچھ خاص معنی میں بھی استعمال ہوتاہے۔جیسے ’’دیوا کے علاوہ مغل دورمیں بادشاہوں کاجوشخض خط بناتا تھا اوربال کاٹتاتھا وہ خاصہ تراش کہلاتاتھا علاوہ بریں بادشاہ کے اپنے لئے

اان میں زینت یاکسی امیر کے لئے جوخاص کھانا تیارہوتاتھا وہ خاصہ کہلاتاتھا۔ بیگمات شاہی کو جو خطابات عطاہوتے تھے ران کے آاتے اس لئے کہ محل ،ممتاز محل جیسے خطابات کے ساتھ خاص محل بھی ہوتاتھا۔ یہ سب محاورات کے ذیل میں نہیں

جوبھی معنی ہیں وہ لغت کے اعتبار سے ہیں محاورے کے اعتبار سے نہیں۔(خاطرمیں رکھنا،خاطرمیں لانا، یانہ لاناوغیرہ۔۳)

رر خاطر کہلاتی ہیں کچھ باتیں طبیعت کے خاطر طبیعت کوکہتے ہیں جوباتیں طبیعت کے لئے ناگواری کاباعث ہوتی ہیں وہ ناگوارر خاطر‘‘ ہے آازاد کے ایک مجموعہ خطوط کانام ’’غبا اگوناں پریشانی کا باعث ہوتی ہیں وہ غبارخاطر کہلاتی ہیں ابوالکلام لئے ایک آامدید کہتے ہیں تووہ اس کی خاطر ومدارات کرتے ہیں تووہ خاطر داری کہلاتی ہے۔ اس کے معنی خیال ہم جب دوسرے کوخوش

زس رل میرانی خاطر کے بھی ہیں بقورر احباب چاہےئے ہردم رل خاط خیا

آابگینوں کو انیس ٹھیس نہ لگ جائے رب پسندہونا ہم کسی خاطر نشان ہونا دل میںبیٹھ جانا ہے۔ اسی کو دل نشیں ہونا بھی کہتے ہیں۔ خاطر خواہ کے معنی ہوتے ہیں حسرل اعتناء نہیں سمجھتے توگویا خاطر میں ااس کو خاطرمیں لاتے ہیں ۔اورجب قاب کوجب توجہ اورتحسین کے لایق سمجھتے ہیں توگویا

نہیں لاتے۔( خاک اڑانا،خاک ڈاPنا، خاک چھاننا، خاک چاٹنا، خاک ہوجانا، خاک پھاکنا، خاک میں ملنا وغیرہ۔۴)

رگرپڑجاتی ہے وہ زمین ہی کا خاک ہمارے یہاں مٹی کوکہتے ہیں جوہماری زمین کا بہت بڑا مادی عنصرہے ۔زمین میں جو چیز ااس کا اپنا وجود باقی نہیں رہا وہ راس کے معنی یہ ہیں کہ اب رصہ بن جاتی ہے۔ خاک ہوجاتی ہے یا خاک میں بدل جاتی ہے۔ ح

ادھول اڑنا ایک طرح سے ویرانی کی علامت ہے جوسرسبزی اورشادابی کی مخالف ایک صورتخاک کے برابر ہوگئے۔۔ خاک رور کے ادھول اورمٹی کے سوا کچھ نہیں توویرانی کے تص آابادی بھی ہوگی رونق اورتازگی ہوگی ۔ اگرخاک ہے سرسبزی اگرہوگی توااجڑجاتا ہے املک ااس کے بارے میں اورکیا سوچا جاسکتا ہے اسی لئے جب کوئی خاندان کوئی ادارہ کوئی بستی یا کوئی سوا

ااڑادی۔ ااڑنے لگی یا انہوںنے اپنی نالائقی سے خاک تویہ کہتے ہیں کہ وہاں تودیکھتے دیکھتے خاک ررد عمل کو پیش کرتا ہے کہ وہ اس لایق بھی نہیں ہے کہ راسی طرح سے خاک ڈالنا بھی ایک محاورہ ہے اورسماج کے عمل اورر

اس کا ذکرکیا جائے کہ خاک ڈالوکے معنی ہیں لعنت بھیجوخاک چٹکی بہت کم حیثیت دوا کو کہتے ہیں۔جب خدا کا اآارام ہوجاتاہے یاخاک کی چٹکی بھی اکسیر ثابت ہوتی ہے ردر میں ہوتی ہے توخاک کی چٹکی سے رشفاء مق حکم ہوتا ہے اور

ااسے بادہوائی پھرنا اس کے مقابلہ میں خاک پھاکنا پریشان پھرنا بادہوائی پھرنا ہے جب کہیں کسی کا کہیں ٹھورٹھکانہ نہ ہو تو کہتے ہیں۔ خاک پڑنا بے رونق بے سہارا اور بے عزت ہوجانا ہے کہ ہمارا وہ منصوبہ توخاک میں مل گیا یا دشمن کے ارادوں پر

Page 102: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

خاک پڑگئی۔(خاک وخون میں ملنا۔۵)

قتل وغارت گری کے نتیجہ میں بربادی پھیلنا موت کا منظر سامنے ہونا وغیرہ اس سے ہم اپنے محاوروں میں سماجی حالاتاان پر گفتگو یا کو بہتر صورت میں سمجھ سکتے ہیں۔Commentاورسماج کے ذہنی رویوں اور

(خام پارہ۔۶)ررنسیم میں یہ محاورہ آاوارہ ہونا ہے گلزا راس کا کسی کم عمر لڑکی کا اصل میںنادان یا بیوقوف لڑکی کوکہتے ہیں اورایک مفہوم ااسے آایا ہے خام کا ر نہ تجربہ کارکوکہتے ہیں جوغلط باتیں کرتا ہے غلط کام کرتاہے ۔ غلط فیصلہ کرتا ہے۔ تو اسی معنی میں

اااخذ کئے گئے ہیں۔ رچے کے ہیں اوراسی سے نا تجربہ کاری کے معنی محاورت خام کاری کہتے ہیں۔خام کے معنی ک(خانہ خرا5 ہونا۔۷)

بربادہونا، خانہ ویران ہونا بھی ہے اورکوسنے کے طورپر بھی کہا جاتاہے کہ تیرا خانہ خراب ہو، تیرا گھر برباد ہوجائے ہم نےابرے خیالات کے اظہار کے طورپر اس کی طرف بہت کم محاورات کا مطالعہ تبصرہ کے طورپر توکیا لیکن گالی، کوسنے یا

ااس کا خانہ خراب ہو، یہ ایک کوسنا ہے۔ رت حال بھی ہے۔ مگرتیراخانہ خراب ہویا توجہ دی ہے۔خانہ خراب ہونا ایک صورسخداکرنا۔۸) سخدا )

اخداکرکے وہ اخدا اخدا کرکے ‘‘یا بڑی کوشش خواہش اورکاوش سے کوئی کام کرنا اورنتیجہ کا انتظارکرنا ۔ جیسے ۔ ’’کفرٹوٹا،خدااسنتا ہے۔ اخدا کریہاں کون کسی کی اخدا اگزارے بھئی مانے یہ وقت

سخدابخش)اPلہ۹) سخدا کا Zھر، خدا کی پناہ، خدا ماری )اPلہ ماری( ، سخدا �ے PوPگنا، سخدا�مجھے، سخدا رکھے۔ ) سخدا کی �نوار) اPلہ کی سخدا کی اZرنہیں چوری توبندہ کی کیا چوری( یہی بخش،مولابخش( وغیرہ ۔) Pبخشی، ا

یی کرنا۔ �نوار(خدا کے Zھر�ے پھرنا ۔خدائی خوار، خدائی خرا5، خدائی دعو مسلمان تہذیب پر مذہب کا بہت گہرا اثرہے چاہے عمل پر نہ ہومگر قول پرہے اسی لئے بات بات میں وہ اللہ کا نام لیتے ہیں اور

اان کے ہاں نام بھی خداپررکھے جاتے ہیں جیسا کہ اوپر لکھے گئے محاوروں سے ہم پتہ چلا سکتے ہیں اخداکرتے ہیں اخدا راس سے بھی کرسکتے ہیں۔ خدا لگتی بات کہو خدا نہ کردہ یا خدا نہ کرے خدا محاورے حصہ بن جاتاہے ۔ اس کا اندازہ ہم کا چاہا ہوتا ہے بندے کا چاہا نہیں جب کوئی کام نہیں ہوتا توکہتے ہیں کہ اللہ کا حکم نہیں ہوا ۔ یا خدا کی مرضی اگریہیآادمی ( بالکل بدل گیا یا بالکل ہے توبندہ کیا کرسکتا ہے۔ یا اگر خدا کی چوری نہیں توبندہ کی چوری کیا یا بندہ خدا )کوئی مکر گیا خدا ماری کومحبت میں کہتے ہیں اللہ سنواری کسی بچے یا بچی کے لئے کہتے ہیں۔خداسمجھے یعنی خدا ہی اس

ز کا مصرعہ ہے۔ بات کوجانتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے جوذوقااس بت سے خدا سمجھے جو اس پر بھی نہ وہ سمجھے تو

Page 103: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

زل کا مشہور شعرہے۔ مسجد کو خدا کا گھر کہا جاتاہے اورکعبۃ اللہ کوتوخدا کا گھرکہاہی جاتاہے اقباابت کدے میں پہلا یہ گھر خدا کا دنیا کے

راس کے پاسباں ہیں یہ پاسباں ہمارا ہم زل( )اقبا

آادمی موت کی منزل سے گزرگیا خدا کوپیارا ہوا اورایسے ہی اس منزل تک پہنچ گیا خدا کے گھر جانے کے یہ معنی ہیںکہ آایا۔ رشفایاب ہوتا ہے تووہ کہتے ہیں کہ وہ خدا کے گھر سے لوٹ آادمی شدید بیماری سے جہاں سب کو جانا ہے لیکن جب آاتاہے آاتا کہ کیا ہوا اورکیوں ہوا تووہ اکثریہ کہتا ہوا نظر آادمی کی سمجھ میں کچھ نہیں ااس کو دوبارہ زندگی نصیب ہوئی۔ جب کہ خدا کی باتیں خدا ہی جانیں۔ غرضکہ خدا پہلے یا اللہ ہماری تہذیبی نفسیات میں داخل ہے اسی لئے ہم توبہ کرتے وقتآان کو اللہ کاکلام کہتے ہیں۔ اورکلام اللہ بھی ایسی توبہ کرتے ہیں اورقسم کھاتے وقت اللہ کی قسم یا قسم بخدا کہتے ہیں قر

کہہ کر یادکرتے ہیں۔اروحانی طورپر بہت بلندمرتبہ کا انسان ہوتاہے لیکن اس کا ترجمہ نہیں کرتے اوراللہ ’’خدا رسیدہ‘‘ ایسے بزرگ کوکہتے ہیں جو

کو پہنچاہوا نہیں کہتے ۔ صرف پہنچاہوا کہتے ہیں۔آانا، خلوت پسند ہونا، خلوت نشیں ہونا۔‘‘۱۰) ( ’’خلوت وجلوت،خلوت اختیارکرنا،خلوت میسر

ااس کے مقابلہ کا لفظ ہے اوراس کے معنی ہیں دوسروں کے درمیان ہونا ، انجمن خلوت کے معنی تنہائی، تنہانشینی ، جلوت آادمی کسی جلوت کا ساتھی کہتے ہیں اس کے مقابلہ میں پسند کرنا ہے جو بعض لوگوں کی اورخاص یا محفل میں ہونا جو طورپر صوفیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنا زیادہ وقت تنہائی میں گزرادیتے ہیں اوراللہ سے لو لگائے رکھتے ہیں جو )خود ایک

محاورہ ہے(آادمی تنہائی کے لمحات گزارتا ہے یا کوئی شوہر اپنی ’’خلوت کدہ ‘‘’’خلوت خانہ‘‘ ایسے کمرہ کو بھی کہتے ہیں جہاں

بیوی یا محبوبہ کے ساتھ ہوتاہے۔بن جگر پینا،خون �رچڑھنا‘‘خون �فید ہونا، خون کا پیا�ا، خون کا دشمن ہونا، خون اترنا،۱۱) ( ’’خون پینا،خو

خون �وار ہونا، خون کے بدPے خون۔ااس کے بغیر بہت سے حیوانات میں زندگی باقی نہیں رہتی ۔اسی لئے خون کا خون زندگی کا ایک بہت اہم حصہ ہوتاہے

ذکرایسے موقعوں پرہوتاہے جہاں زندگی کا سوال ہوتاہے اورموت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتاہے۔جیسے خون گرانا،خون کرنا ،قتل کرنا،خون پینا ،کسی کے ساتھ انتہائی دشمنی کا اظہار کرناہے ۔

اسی کی طرف اس محاورے میں اشارہ ہے کہ وہ اس کے خون کا پیاسا ہے اورجہاں کسی کے لئے قربانی دینے کا سوال ہوتاہےآاتے ہیں کہ جہاں تمہارا پسینہ گرے گا وہاں ہم اپنا خون بہادیں گے رلو خون گرانا کہتے ہیں یا یہ کہتے نظر یا وہاں بھی ایک چ

Page 104: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

۔ خون کے بدلے خون کامقصد بھی یہ ہوتاہے کہ خون کابدلہ خون سے لیا جائے گا۔ جہاں خون کے بدلہ میں قیمت لے لیرلعام کی صورت میں یہی جاتی ہے وہاں خون بہاکہتے ہیں۔ خون کی ندیاں بہنا یا بہادینا بے حد خون خرابہ کوکہتے ہیں قت

توہوتاتھا۔ جس گھرمیں جوان لڑکی بیٹھی ہوتی ہے وہاں یہ کہا جاتاہے کہ خون کی بارش ہوتی ہے۔ لہورونابھی ایک طرح سے آانسوؤں کی صورت میں خون بہانا ہے۔ خون پینا اور خون کے گھونٹ پینا دوالگ الگ محاورے ہیں پہلے محاورے کے معنیرروحشت میں یہ ہوتا بھی تھا اورترک ااس کی شہ رگ کاٹ کر اس کا خون پینا۔ قدیم دو ہیں دشمنی میں کسی کوقتل کرنا یا

وتاتاری سپاہی توگھوڑے کا خون پیتے تھے۔ خون پلانا انتہائی محبت کا اظہار کرنا یا ایثار وقربانی کرناہے۔آادمی کا کوئی عزیزقتل کردیا جاتاہے تواس کے سرپر گویا خون سوار ہوجاتا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ خون کے بدلے جب کسی آادمی انتہائی جوش وجذبہ کے عالم میں میں اس کا’’ خون‘‘ کردے اسی کو خون سوار کہتے ہیں اس کے علاوہ جب کوئی

کسی کا خون کردیتاہے تواس پر جنون کی سی ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے توخون سوار کہتے ہیں۔ خون پسینہ ایک کرنا انتہائی کوشش کرنے کوکہتے ہیںکہ اس مہم کو سرکرنے یا اس کام کو انجام دینے کے لئے اس نے خون

رصخاطرکے آاتاہے۔’’ خون جگر پینا ‘‘بھی خلو پسینہ ایک کردیا ۔ خون سے خون اورخون کا پانی کردینا بھی اسی معنی میں اا عشق کرنے کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں لخت جگر کھانا اور خون دل پینا پڑتاہے۔ ساتھ کسی بات کو نبھانا ہے مثل

اس سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہم محاوروں کے ذریعہ کس طرح اپنے احساسات جذبات ، سماجی رویوں ، محبتوں اورنفرتوںکا اظہار کرتے ہیں اورہمارے جذبات کی نرمی وگرمی کس طرح ہمارے اظہار میں شریک رہتی ہے۔

(خیاPی پلاؤ پکانا۔۱۲) پلاؤہمارے یہاں چاول،گوشت، یا گوشت کی یخنی سے تیارکیا ہوا ایک خاص کھانا ہوتاہے۔ اسی لئے پلاؤکھانا بھی ایک

آابادی کا شعرہے۔ محاورہ بن گیاہے۔ اکبرالہ بتائیں ہم تمہیں مرنے کے بعدکیا ہوگا

پلاؤکھائیں گے احباب فاتحہ ہوگایہاں پلاؤکھانے کے محاوراتی معنی لئے گئے ہیں یعنی لوگ مرنے والے کا غم نہیں مناتے بلکہ پلاؤپکاتے اورکھاتے ہیں۔

خیالی پلاؤدوسری بات ہے یعنی اپنے طورپر سوچنا کہ یوں نہیں تویوں ہوجائے گا ہم یہ کردیں گے وہ کرلیں گے یہ سب خیالیکہتے ہیں۔Wosjfi; tjomlomgپلاؤ ہے۔ جس کو انگریزی میں

یہ انسان کی عجیب سی حالت ہوتی ہے اوراس کی اچھی بری نفسیات اس میں شریک ہوتی ہے۔ انہیں معنی میں یہ فرد کا یا پھر سوسائیٹی کا ایک معاشرتی رویہ ہوتاہے۔ جولوگ صحیح وقت پر قدم نہیں اٹھاتے وہ صحیح فیصلہ نہیں کرپاتے وہی زیادہ

ترخیالی پلاؤپکاتے رہتے ہیں۔

‘‘ د ’’ ردیف

Page 105: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

 

(داتادے بھنڈاری کا پیٹ پھٹے۔۱) ہماری تہذیبی معاملات اور معاشرتی رویہ بھی کچھ عجیب وغریب ہیں ۔ اور سماجی نفسیات کے پیچیدہ پہلوؤں پر روشنی ڈالتے 

ہیں بھنڈاری اس شخص کو کہتے ہیں جوکسی ذخیرہ کانگہبان ہوتاہے۔ بھنڈاربڑے ذخیرے ہی کوکہتے ہیں دینے والا دیتاہے اورسب کودیتا ہے لیکن جو ذخیرہ کانگہبان ہے وہ اللہ واسطے میں یہ سوچتا ہے کہ کسی کو یوں دیا جارہا ہے کہ بہت سے لوگ دوسروںاان کے اپنے پاس سے کچھ نہیں جاتا۔ پھربھی انہیں تکلیف کا کام بنتے ہوئے دیکھ کر جلتے ہیںاورخواہ مخواہ اختلاف کرتے ہیں

پہنچتی ہے اس سے ہمارے سماج کی اخلاقی گرواٹ کا پتہ چلتا ہے۔( داددینا،دادکو پہنچنا،دادنہ فریاد۔۲)

آافریں رشعر پر جب ہم تحسین و ’’داد‘‘فارسی لفظ ہے مگرہماری زبان میں داخل ہوگیا ہے اورایک سے زیادہ محاوروں میں یہ موجود ہے ااسے داد سے تعبیر کیا جاتاہے کہ اس شعر کی بہت داد ملی۔ داددینا انصاف کرنے کو بھی کہتے ہیں اورانصاف کہتے ہیں تو

ردگیری کہہ کریاد کیا جاتاہے۔ جب کسی کرنیوالا اکثرداد گرکہلاتاہے ۔ کچہری کو داد گاہ کہا جاتاہے ۔ انصاف پیشگی کو داااسے داد فریاد کہتے ہیں اورجب کوئی کچھ نہیں بولتا اوربڑے سے بڑے ظلم وزیادتی آاواز اٹھائی جاتی ہے تو ظلم وزیادتی کے خلاف

ااس کی دادنہ فریاد اس طرح یہ محاورے سماج میں حق گذاری پر لوگ خاموشی اختیار کرتے ہیں تواس کے لئے کہا جاتاہے کہ اورحق شناسی کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ اور نہ حق باتوں کی طرف جن میں ظلم وزیادتی اورحق تلفی کا رویہ شریک رہتا ہے۔

اکشائی کرتے ہیں اب یہ الگ بات ہے کہ ہم اس پر کبھی غورکریں یا نہ کریں۔ ہمارے محاورات انہی سچائیوں کی پردہ ساٹھانا، داغ بیل ڈاPنا،داغ Pگانا، یا داغ Pگنا۔۳) (’’داغ دینا، داغ

ابرا لگتا ہے قدیم زمانہ ربہ ہوتاہے جوکسی بھی چیز پر خاص طورسے اچھے کپڑے اور کاغذپر لگ جائے توبہت داغ ایک طرح کا دھآائندہ منہ ااس کو داغا جاتاہے اوروہ داغی غلام کہلاتاتھا۔ یعنی وہ آادمی کسی کا غلام ہوتا تھا خاص طرح سے نشان سے میں جو

 دکھلانے کے لائق نہ رہتا تھا۔ اس قابل کردیا جاتا تھا۔ااسے بھی کام لگنا رش نظر خاندانی عزت کو اگرکوئی بات کوئی کام یا کوئی روش خراب کرتی یا مٹاتی تھی تو اسی حقیقت کے پی

ز دہلوی کا شعرہے۔ یا داغ لگنا کہتے تھے۔ داغ

میں اگرچاہوں توگویا رب ابھی توبہ کرلوںداغ لگ جائے گا لیکن تیری غفاری میں

آاتاہے کسی شاعر کا شعر ہے۔ داغ اٹھانا، صدمہ سے گذرنا ہے۔ داغ دیکھنا اور داغ کھانا بھی اسی معنی میں

Page 106: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

داغ دیکھے ہیں‘ داغ کھائے ہیںااٹھائے ہیں دل نے صدمے بہت داغ کے معنی جلنے یا جل اٹھنے کے بھی ہیں جواس شعرکی طرف اشارہ ہے۔

ااٹھے سینے کے داغ سے  دل کے پھپھولے جل

آاگ لگ گئی گھر کے چراغ سے اس گھر کو

ااس پر عمل ’’داغ بیل ڈالنا‘‘ ایک الگ صورت ہے جس کے معنی ہیں شروعات کرنا کسی کام کا ابتدائی منصوبہ تیارکرنا اور

کرنا اسی لئے کہتے ہیں کہ اس کام کی داغ بیل فلاں شخص نے ڈالی تھی۔ یعنی سلسلہ قائم کیا تھا۔

سشکر �ے کھانا۔۴) (دال روٹی �ے خوش ہونا، دال روٹی صبرو

یی درجہ کے سالن امتخن وغیرہ اعل آادمی کی خوراک کا ایک ضروری حصہ ہوتا تھا کباب ،قلیہ،قورمہ، دال ہمارے یہاں غریب

آانے سیر تھا اوراس سے پہلے اور بھی سستا ہوگا۔ مگرایک آاٹھ آاتے تھے۔ بکرے کا گوشت اگرچہ آادمی کو کہاں میسر غریب

ااصل مسئلہ توپیٹ بھرنا تھا۔ آاتے وہ تودال دلیاسے اپنا کام چلا لیتا تھا اس کا آادمی کے پاس اتنے پیسے کہاں سے غریب

آاج بھی لوگ کہتے ہیں کہ روکھی روٹی نہ کھاکر وہ دال سے کھاتا تھا۔ اس پر بھی خوش ہوتا تھااورخدا کا شکر ادا کرتاتھا

آارام سے کھانے دو یہ ہمیں پیٹ بھرکر مل رہی ہے یہ بھی کیا کم ہے۔ ہمیں دال روٹی

اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے تواتنی غربت تھی کہ شادی کے موقع پر دال چاول اسپیشل کھانے کے موقع پرکھلائے جاتے

اابالے جاتے تھے۔ اگر دیکھا جائے تویہ محاورے ہماری معاشی یا مالی تھے دال دیگ میں پکتی تھی اورچاول کڑھائے میں

حالت کی کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔روٹی پر روٹی رکھ کرکھانا روکھی روٹی اورخشک نوالے کی طرف اشارہ کرتے ہیں

کبھی کبھی توایک ہی روٹی ہوتی تھی اس کے مقابلہ میں اس کو خوشحالی تصور کیا جاتاتھا کہ روٹی پرروٹی رکھ کر کھانے

کا موقع مل رہا ہے۔

اس سطح پر اگرمحاوروں کا مطالعہ کیاجائے توہم ایسی تاریخی معاشرت کے بارے میںبھی بہت سی سچائیوں کو جان سکتے

ہیں اورایک زمانہ کے زبان کے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے تواس دورکی ذہنی اورنفسیاتی سطحوں اورحالتوں کوبھی

سمجھا جاسکتا ہے۔ ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے غورنہ کرنا۔

(دال میں کچھ کالا ہے،دال نہ Zلنا۔۵)

Page 107: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ا اس میں گرم مصالحہ ڈالا جاتا ہو۔ لونگیں ،سیاہ ااس میں ایسا توتھا نہیں کہ دال پکائی جاتی تھی اوروہ بھی دھوئی ہوئی دال تو

آائے جوبے چارہ دال کھارہا ہے وہ اوپر سے خرچ کرنے کے لئے مرچیں اورکالا زیرہ ، دال میں کون ڈالے کہ اتنا پیسہ کہاں سے

آاجاتی تھی توشبہ کی بات بن جاتی تھی مزید پیسے کہاں سے لائے اسی لئے دال میں کوئی کالی چیزنہیںہوتی تھی اوراگر نظر

کہ یہ کیا ہوا اورکیسے ہوا۔ اسی کو سماجی زندگی میں محاورے کے طورپر استعمال کیا گیا تواسی سے شکوک وشبہات کی

طرف اشارے ہوتے ہیں اورکہا جاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے ۔

رتحال کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ جوغربت کی صورت حال ہے اب سے کچھ زمانہ پہلے تک دوسرا محاورہ دال گلنا ایک اورصور

آاگ مانگی جاتی تھی ۔ آاگ بھی ایک بڑی نعمت تھی اورگھروں سے غریب گھروں میں ایندھن کی بڑی دشواری ہوتی تھی۔

اورکرچھی لیکرایک گھر سے دوسرے گھرجایا جاتا تھا کہ ایک دوانگارے مل جائیں اوراکثرایندھن کی کمی کی وجہ سے یہ ہوتا

تھا کہ دال پوری طرح پکتی بھی نہیں تھی اوکچی رہ جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے دال گلنا ایک محاوہ بن گیا اور جہاں

کسی کی بات نہیں بنتی تھی وہاں بھی یہ محاورہ استعمال کیا جاتا تھا۔

آانا،دام میں لانا، دامن پکڑنا، دامن پھیلانا، دامن جھاڑنا، دامن جھٹکنا، دامن �ے Pگنا۔۶) ( دام میں

نا یا لانا کسی کے جال میں پھنسنا فریب دہی کا شکار ہونا۔ یہ ہمارے سماج کا ایک رویہ ہے کہ وہ دھوکا دیکر آا دام میں

آادمی اپنی کسی ضرورت مجبوری یا سادہ لوحی کے زیر دوسروں سے کام نکالتے ہیں اوران کو مصیبت میں پھانس دیتے ہیں اور

آانا یا دام میں لانا اسی فریب دہی کے عمل کو اثر دوسرے پر اعتبار کرلیتا ہے۔ اورپھرپریشانیوں میں پھنس جاتا ہے۔ دام میں

کہتے ہیں جس کامظاہرہ ہماری معاشرتی زندگی میں صبح وشام ہوتا رہتا ہے دامن پکڑنا یا پھیلانا دو الگ الگ محاورے ہیں

دامن ہمارے لباس کا ایک بہت اہم حصہ ہوتا ہے جس سے ہم بہت سا کام لیتے ہیںچھوٹے بچے کو دامن سے ڈھکتے ہیں

عورتیں پردہ میں منہ چھپانے کے لئے اپنے دامن سے نقاب کا کام لیتی ہیںہم دوسرے کا دامن پکڑکر اس کی دیکھ ریکھ یا

نگرانی اوررہنمائی میں کوئی کام کرنا چاہتے ہیں دامن جھاڑنا یا جھٹکنا ، ذمہ داری سے دامن بچانے کا عمل ہے۔

آاتا رہنا اورپناہ لینے کی جواکثرہمارے تہذیبی رویوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ دامن سے لگ کر بیٹھنا کسی سے قریب تر

کوشش کرنا ہے دامن چاک کرنا انتہائی بے صبری بے سکون اورجوش کا اظہارکرنا ہے جس کو جنون کی حالت سے تعبیرکیا

ااردو کا ایک معروف شعرہے۔ جاتا ہے

اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے

دامن کے چاک‘ اور گریباں کے چاک میں

Page 108: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

دامن کو تارتارکرنا بری طرح چاک کردینا اوراسی کو دامن کے ٹکڑے اڑادینا بھی کہتے ہیں۔

(دانت بجنا،دانت پیسنا،دانت کاٹی روٹی ہونا، دانت دکھانا۔۷)

آادمی کپکپاتا ہے تواس کے دانت بھی کپکپانے لگتے ہیں اسی کو دانت سے متعلق مختلف محاورات ہیں سردی میں جب

رر ناخوشی کرنا اورغصہ میں بھرجانا۔ دانت بجنا کہا جاتا ہے ۔ دانت پیسناایک دوسرا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اظہا

دانت کاٹی روٹی ہونا ایک دوسری نوعیت کا محاورہ ہے۔ جس کے معنی ہیں بہت قریبی تعلق ہونا گہری دوستی ہونا۔ اس سے

اچھوت اجھوٹی اور کھائی ہوئی روٹی کو ہاتھ نہیں لگانا چاہتے ۔ ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کی

اچھات ہمارے معاشرے پربے طرح اثرانداز ہوتی رہی ہے۔ اسی لئے ہم دوسرے کے برتن میں کھانا نہیں کھاتے دوسرے کا پیا ہوا

پانی نہیں پیتے ۔لیکن کسی سے ایسا رشتہ بھی ہوتا ہے قریبی تعلق کہ اس کے دانتوں سے کاٹی ہوئی روٹی بھی کھالیتے ہیں

ایسا ہوتا بھی ہے نہیںیہ ایک الگ بات ہے مگر اس محاورے سے بہرحال گہری دوستی اور اپنائیت کے رشتہ کی طرف اشارہ

کرنا مقصودہوتا ہے۔

رےن کرنے کے لئے ان کے دانت دیکھے جاتے ہیں اسی سے یہ محاورہ بنا ہے کہ کوئی نہیں پوچھتا کہ جانوروں کی عمرکا تع

تیرے منہ میں کتنے دانت ہیں۔دانت دکھانا منہ چڑانے کو بھی کہتے ہیں اوربے مروتی اختیارکرنے کوبھی کہتے ہیں اوراسی لئے

آانے پر دانت دکھادیتے ہیں ۔کام نہیں کرتے اورذمہ داری نبھانے سے منہ موڑتے ہیں۔ طنز کے طورپر کہا جاتا ہے کہ وہ تووقت

(دانتوں میں انگلی دینا۔ دانتوں تلے انگلی کاٹنا یا دابنا ، دانتوں میں تنکا Pینا، دانت ہونا۔۸)

ردعمل کا اظہار ہے کہ یہ کیا ہوا کیسے ہوا اور دانتوں سے متعلق جو محاورے ہیں ان میں دانتوں تلے انگلی دینا یا دابنا سماجی ر

کیوں ہوا۔

زب راس کے مقابلہ میں دانتوں میں تنکا لینا ایک خاص طرح کا سماجی عمل ہے جس کا تعلق اظہار عاجزی کرنے سے ہے غال

راس کی ایک موقع پرتشریح کی ہے اورکہا ہے کہ افغانستان کی طرف کے لوگوں نے یہ رسم رہی ہے کہ جب وہ اظہارعاجزی نے

کرتے ہیں تواپنے دانتوں میں تنکا دباتے ہیں اوردوسروں کے سامنے جاتے ہیں ان کا شعرہے۔

رت قاتل بھی مانع میرے نالوں کو آائی سطو نہ

لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا

آادمی پہلے سے کسی بات کو دل میں دانت رکھنا اوردانت ہونا ایک طرح کا نفسیاتی عمل اور سماجی رویوں کا اظہارہے کہ

ٹھان لیتا ہے اورلالچ کا ایک رویہ اس کے بارے میں پیدا کرلیتا ہے کہ اگرایسا ہوجائے اورموت نکلے تومیںیہ کروں گا اس مکان

Page 109: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

دوکان کھیت زمین یا چیز پر قبضہ کروں گا یہی دانت رکھنا کہلاتاہے اوراس سے لالچ کا اظہار ہوتا ہے دانت ہونے کے بھی

یہی معنی ہیں۔

آانا، داؤں کھیلنا، داؤں پر Pگانا۔وغیرہ۹) ( داؤں پراڑنا۔داؤں پرچڑھنا، داؤں کرنا، داؤں کھاجانا، داؤں Pگنا، داؤں میں آاتے ہیں۔ اورمختلف انسانی رویوں رن کشتی گری سے متعلق محاورات ہیں جو ہماری سماجی زندگی میں بھی کا م اصل میںف

آانا داؤں جاننے کو بھی کہتے ہیں اورموقع ملنے کو بھی یہ شطرنج کے کھیل سے متعلق بھی محاورے ااداؤں کو ظاہرکرتے ہیں مثل کی ایک صورت ہے اسی لئے داؤں کھیلنا کہتے ہیں۔ جس کا مقصد دوسرے کوپھنسانا ہوتا ہے۔ جو اس طرح پھنس جاتا ہے

آاجاتاہے یا اس کا داؤں چل جاتاہے۔اسی کامیابی کو داؤں لگنا بھی وہ گویا داؤں پر چڑھ جاتا ہے اورپھنسا نے والے کو داؤں ہاتھ کہتے ہیں کہ اس کا داؤں لگ گیا بلی جب چڑیوں کو یا چوہے کو شکارکرنا چاہتی ہے توکوئی نہ کوئی داؤں کھیلتی ہے یہرت حال پر نظر رکھنے سے ہوتاہے۔ فریب دینے کا طریقہ ہوتا ہے یعنی ایک ہی بات پر زوردینا ہے جبکہ داؤں کا تعلق توصور

رکاری کرجانے کوکہتے ہیں اگردیکھا جائے توایسے محاورات سے پتہ چلتا ہے کہ محاورے طبقاتی ہوتے ہیں پہلے داؤں دینا ماان کا خاص تعلق ہوتا ہے رفتہ رفتہ وہ عمومیت اختیار کرلیتے ہیں اوران میں معنیاتی انہی طبقوں میں رائج ہوتے ہیں جس سے

اعتبار سے نئی نئی تہہ داریاں اورپہلو داریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔آاگ کریدنا، دPی بلی چوہوں �ے کان کترواتی ہے۔ یا بھیگی بلی چوہوں �ے کان۱۰) (دائیں بائیں کردینا ،دبی

کترواتی ہے۔راس کے معنی ہوتے ہیں جھگڑے کو وقتی طورپر ا ادھر کردینا یہ ایک اہم سماجی عمل ہے رادھر دائیں بائیں کرنے کے معنی ہیں اان کودائیں بائیں کردیا دوسرے معنی ہوتے ہیں پریشر کو کم کردینا۔ اس ابری طرح جھگڑرہے تھے آاپس میں نمٹانا کہ وہ دونوں

رل برداشت کڑ ااس پریشر کو ہلکا کرنا چاہتا ہے۔ قاب آادمی کی طبعیت پرجب جوکھ ہوتا ہے حالات ناساز گارہوتے ہیں تووہ لئے کہ ا ادھر کردینا چاہتا ہے خیالات یا سوالات کو بکھیردینا چاہتا ہے تاکہ ان کا دباؤ یا جماؤکم ہوجائے۔ رادھر اسی لئے بات کو

دباؤ کو کم کرنا ہماری سماجی زندگی کا ایک اہم مسئلہ ہے اس لئے کہ ہمارے یہاں متعددمحاورے دباؤ سے متعلق ہیں اسآاتا ہے۔ کو دباؤ بھی کہتے ہیں اورداب بھی وہ اس کو اپنی داب میں رکھنا چاہتا ہے داب کا لفظ رعب وداب کے ساتھ بھی

آاگ کو کریدنا ایک سماجی عمل کی طرف آاگ کو دباکر رکھا جاتا ہے یہ اس کی حفاظت کی غرض سے ہوتا ہے لیکن دبی اان پر گفتگو نہیں کی جاتی تھی انہیں اشارہ کرتا ہے وہ یہ کہ جوجھگڑے اختلافات اورالجھنیں دباکر رکھی گئیں تھیں۔ یعنی چھپایا جاتا تھا اب اگر اسے پوچھا جارہا ہے بات کو اس رخ پر لایا جارہا ہے اور ہوا دی جارہی ہے تواس عمل کو جودانستہ اور

بڑی حدتک فریب کارانہ ہوتا ہے۔ااس کا مذاق اڑاتے ہیں اس آانا چاہتے ہیں آادمی کسی وجہ سے مصیبت میں پھنس جاتا ہے تومعمولی لوگ بھی اس کے منہ جب

Page 110: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اان آانا چاہیے وہ اان کے قریب بھی نہیں اچوہے جسے رلی بچاری کہیں پھنس گئی ہے۔ اور پر تنقید کرتے ہیں یہ ایسا ہی ہے کہ براس محاورے کے ذریعہ بھی ہم سماج اور کسی معاشرے سے متعلق کے سرپر سوار ہوتے ہیں بلکہ اس کے کان کترتے ہیں۔

افراد کے عمل کو سمجھ سکتے ہیں۔(دروازے کی مٹی۔۱۱)

آامد ورفت ممکن ہوتی ہے۔ دروازے کو سجایا جاتا ہے ا اسی کے ذریعہ رصہ ہوتا ہے کہ دروازہ کسی بھی مکان کا بے حد اہم حآانیوالے کادروازے پر استقبال کیا جاتا ہے چوکھٹ کا تعلق خاص طور پر دروازے سے جانیوالے کودروازے تک پہنچایا جاتا ہے اور

ہوتا ہے اورچوکھٹ بڑے دروازے سے ہوتا ہے اورچوکھٹ بڑے احترام کی چیزہوتی ہے۔ردہ احترام بھی کیا جاتا تھا۔ ہندوؤں میں چوکھٹ کا پوجن بھی ہوتا ہے اسے تلک لگاتے ہیں قدیم قوموں میں دروازے کو سج

اان پر ہاتھی گھوڑے بنے ہوتے ہیں اوریہ بھی کہا بنددروازے کاغذوں سے سجاتے ہیں بعض قدیم گھروں پر جودروازے ہوتے ہیں اجھلتے ہیں دربان بھی دروازوں ہی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ا ان کے دروازے پر ہاتھی جاتا رہا ہے کہ

دروازے کو ویران کرنا گویا اس گھراس خاندان کی عزت لے لینا ہے اسی لئے دروازے کی مٹی ایک خاص معنی اختیارکرلیتی ہے ۔ دروازے کی مٹی لے ڈالنا اسی طرف اشارہ کرنیوالا محاورہ ہے اسے چرنجی لال نے لیولے بھی کہا ہے۔ جسے مغربی یوپی والے اپنے تلفظ کے اعتبار سے ’’لیوڑ‘‘نے بھی کہتے ہیں اور’’لیوڑے ڈالنا‘‘ مٹی کی تہوں کوبھی اٹھااٹھاکراکھاڑاکھاڑ کرلے

ا اس گھرمیں کچھ نہیں چھوڑا اور جوہاتھ لگااٹھاکر اسے جانے کے عمل کی طر ف اشارہ ہے جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہراس سے ہم اپنے معاشرے کے مزاج اوربعض سماجی رویوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ لے گئے

(دریا،دریادPی، دریامیں ڈاPنا، دریاکوکوزے میں بندکرنا، دریاکو ہاتھ �ے روکنا۔۱۲) دریاکے معنی ندی کے بھی ہیں بڑی ندیوں کے بھی اورخودسمندرکے بھی، دریااپنے معنی اورمعنویت کے ساتھ ہمارے معاشرے کی بہت باتوں میں شریک رہتا ہے اوراس سے ہم موقع بہ موقع اپنی معاشرتی روشوں اوررویوں کو سمجھنے اورسمجھانے کاکاماا دریابہنا، زیادہ پانی بہنا بھی ہے اوردولت کی فراوانی بھی۔ دریامیں ڈالنا، اس طرح کسی چیز کوپھینک دینا کہ لیتے ہیں ۔مثل واپسی کی کوئی توقع نہ رہ جائے ’’نیکی کردریا میں ڈال‘‘ ایسے ہی کسی نفسیاتی عمل اورردعمل کی طرف اشارہ ہے۔ دریااسوکھ جانا بہت مشکل پر یشانی اورقحط کے زمانے کوسمجھنے اورسمجھانے کے لئے آاتاہے۔ دریا دلی’’ بڑے دل‘‘ کے لئے

اسوکھ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس موسم میں تودریا بھی رعلم کا کوئی کنارہ دریاکو کوزے میں بندکرنا کسی بہت بڑی بات کو چھوٹی سی گفتگومیں سمیٹ لینا، علم دریاہے۔ یعنی

ااس کی فطرت ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں آاگے بڑھتا رہے گا یہی نہیں جتنا چاہو علم سیکھتے رہو۔ وہ ااترتا ہے لیکن اس کے بہاؤ کوہاتھ علم کے متعلق کیا تصورات پائے جاتے ہیں دریاکو بہاؤ سے نسبت دی جاتی ہے دریا چڑھتا

سے روکا نہیںجاسکتا جیسے مٹھی میں ہوا کو تھاما نہیں جاسکتا۔

Page 111: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آاخردریاکی روانی بھی ابراکہتے رہتے ہیں لیکن وہ روکی نہیں جاسکتیں۔ ا ان کو ہم سماج میں بعض ایسے رویہ اورروشیں ہیں کہتونہیں رک سکتی وقت کا دھارا بھی توہاتھ سے نہیں روکا جاسکتا۔

( دریامیں رہنا مگرمچھ �ے بیرکرنا۔۱۳)ااس سے ابوجھ کے ساتھ اسوجھ ابرے لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کرنا اور ہم جہاں رہتے ہیں اس ماحول کو پہنچاننا اچھے

مناسب تعلق رکھنا یہ ہمارے سماج کا ہماری زندگی کا اورہمارے معاملات اورمسائل کا ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔ جن کے درمیان ہم رہتے ہیں وہ ہمارے اپنے بھی ہوسکتے ہیں غیربھی دشمن بھی ہوسکتے ہیں اوردوست بھی یہ مشکل ہے کہآارام واطمینان سے رہیں اسی لئے یہ کہا جاتاہے کہ اان سے ہم غیریت برتیں دشمنی مول لیں اورپھر جس کے درمیان ہم رہتے ہوں دریامیں رہ کر مگرمچھ سے بیرتونہیں رکھا جاسکتا۔ مگرمچھ طاقتور بھی ہوتا ہے اورنقصان پہنچانیوالا بھی وہ گھات لگاتا ہےآادمی کے اورہمارے درمیان ااس راس ماحول میں بھی ہوسکتا ہے جہاں ہم جارہے ہوںاور ایسا ہی کوئی شخص خطرناک دشمن

مخالفت ہو۔(د�ت بد�ت دینا، د�ت درازی کرنا۔۱۴)

راسی لئے ہاتھ پیروں کے چلتے رہنے کی دعاء مانگی جاتی ہے۔ ہاتھ ہماری ذاتی ومعاشرتی زندگی کانہایت اہم وسیلۂ کارہے۔ آادمی کھڑے آاتاہے۔ ہم ایک ہاتھ سے دیتے ہیں اوردوسرے کوہاتھ سے لیتے ہیں۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ دس ہاتھ ہمارے ہرکام

ہوجاتے ہیں اورایک سے لیکر دوسرے دیتے رہتے ہیں شادی بیاہ کے موقع پر کھانا کھلاتے وقت یہ اکثر دیکھنے کو ملتا تھاآایا۔ کسی شاعر کا شعر ہے۔ راسی لئے ہاتھوں ہاتھ لینا یا دست بدست لین دین کامحاورہ سامنے

اخون بٹا دست بدست رمرا اان کی محفل میں رحنا دست بدست جیسے معشوق لگاتے ہیں

ااردوکا ایک مصرعہ ہے۔ اسی طرح ااس ہاتھ لے راس ہاتھ دے کیاخوب سودا نقدہے

اادھار دیاہے کوئی لکھا ااس نے آاتی رہتی ہے۔ مطلب یہ ہوتاہے کہ اپنے ہاتھ سے اادھار کی بات اکثرہم لوگوں کی زبان پر ہاتھ اان کے ا ان کے دست ودماغ کی بات ہے یعنی پڑھی نہیں ہوئی ۔ ایسے ہی موقع پر ہاتھ کو ہاتھ پہچاننابھی کہتے ہیں ۔یہ

سوچنے اورکام کرنے کا معاملہ ہے کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں۔ ایسے موقع پر دست وقلم بھی کہتے ہیں۔ دستآادمی دوسرے کا ااس موقع کے لئے کہاجاتاہے جب وخوددہانے خودبھی محاورہ ہے یعنی خودنوالہ توڑوبناؤ اورکھاؤ یہ ظاہرہے کہ

سہارا تکتا ہے۔ کہ کوئی دوسرا ہی سب کچھ کرے اوروہ خود کچھ نہ کرے۔ہمارے معاشرے کی یہ بہت عام کمزوری ہے ۔کہ ہم خودنہیں کرنا چاہتے ہرکام کی انجام دہی میں دوسروں کا سہارا لیتے ہیں۔

(د�ترخوان بڑھانا۔۱۵)

Page 112: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اان کودعوت دوکہ وہ کھاوے ساتھ اا اپنے دسترخوان کوغریبوں سے سجاؤ یعنی دسترخوان لگانا یا سجانا بھی محاورہ ہے۔ مثلآاتا ہے غرباء کے لئے اامراء کے لئے اچننا ۔ظاہرہے کہ یہ کھانا کھائیں دسترخوان لگانا اپنے دسترخوان پر اچھے اچھے کھانوں کا

راس کے مقابلہ میں بڑھانا کہتے ہیں جوگویا ایک دعا ہے کہ دسترخوان چھوٹا نہ ہودولت ااٹھانا نہیں کہتے نہیں۔ دسترخوان راس سے فائدہ اٹھائیںاسی لئے ہمارے یہاں چراغ کے آائے بلکہ دسترخوان بڑھتا رہے زیادہ سے زیادہ لوگ ونعمت میں کمی نہ رہاس میں بھی دعاء کایہ پہلو شامل اگل کردن کہتے ہیں اورہم چراغ بڑھانا ک آاتا۔ ایران والے چراغ ساتھ بجھانے کا لفظ نہیں

آاداب کاپتہ ارسوم و راس سے ہم اپنی سماجی نفسیات اورتہذیبی رہتا ہے کہ چراغ بجھے نہیں بلکہ اس کی روشنی پھیلتی رہے۔ چلاسکتے ہیں۔

سکھل جانا، د�ت وپا مارنا، د�وں انگلیاں د�وںچراغ۔۱۶) (د�ت Zرداں، د�واں دوا راان میں دست مال بھی ہے جورومال کو کہتے ہیں دست دینا بھی ہے دلوں پر دستک دینا دست )ہاتھ( جومحاورات بنے ہیں

آاخرالذکرکے علاوہ محاوراتی انداز کم ہیں ۔دلوں پر دستک دینا لوگوں کواپنے حال کی طرف ران میں بھی اس میںشامل ہے لیکن ااردوکے ایک شاعرکا شعرہے۔ متوجہ کرنا ہے۔

ردلوں پرہی تودستک دی ہے اب تلک میں نے اخود کو پکارا جائے را اب کہا ںجاکے بھل

رکے، ایک ہاتھ سے دوسرے ااسے ’’دست گرداں‘‘ کہتے ہیںجیسے س جوچیز ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں پہنچتی رہتی ہے رت گرداں کہا جاتاہے اب ااسے جنس کودس ہاتھ میں جاتے بولتے ہیں اسی طرح جوچیز بازار میں عام ملتی ہے اورفروخت ہوتی ہے راس کے ساتھ اورکبھی اس کے ساتھ اسی کو عام زبان میں چالوہونا کہتے ہیں ایسی ہی کوئی شخص بھی ہوسکتا ہے جوکبھی

آادمی ہے۔ کہ وہ توچالو بت شیراز۔۱۷) (دعو

دعوت کے معنی بلانے یا توجہ دلانے کے ہیں اورکسی کام کی انجام دہی کے لئے خواہش کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ اسرک طعام کرنا دعوت کرنا کہلاتاہے۔جس دعوت میں بہت سے تکلف کے سامان ہوتے ہیں ابلانا اورشری کے مقابلہ میں کھانے پر

اپرتکلف دعوت کہلاتی ہے۔ رت شیراز کہلاتی ہے۔ یعنی غریبی کی حالت وہ اادعو اور جس میں بہت سادہ کھانا ہوتا ہے وہ محاورتمیں کی جانے والی دعوت۔

آانا، دل۱۸) سبرا کرنا، دل بڑھانا، دل بھاری کرنا، دل دھڑکنا، دل بھر آانا، دل بجھنا، دل ساچاٹ ہونا، دل ساٹھنا ،دل (دل بیٹھ جانا، دل پانا، دل دھڑکنا، دل پرچوٹ Pگنا، دل پرنقش ہونا، دل پر ہاتھ رکھنا، دل دہی کرنا، دل پکنا، دل پھٹنا، دل پھیکا ہونا، دل توڑنا، دل ٹوٹنا، دل ٹھکانے Pگانا، دل جلانا، دل جلنا، دل جمنا، دل چیرکردیکھنا، دل خوش کرنا،

سدھواں اٹھنا، دل کا بخارنکاPنا، دل کا خریدار ، دل کی دل �ے دل ملنا، دل �ے Zرنا، دل برداشتہ ہونا، دل �ے

Page 113: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

بھڑاس نکاPنا، وغیرہ وغیرہ۔رت انسانی کا دل سے گہرا رشتہ ہے اوربہت سے محاورے دل ہی احساسات ،جذبات دل اعضائے رئیسہ میں سے ہے۔ جذبا

ااس کی معنی داریوں اورمعنی نگاریوں کوپیش کرتے ہیںسماج یا انسانی معاشرہ اپنی سوچ کے جومختلف اورحسیات سے وابستہ ہیںاوراان کی تصویر کشی یا عکاسی میں دل ایک نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اورایک علامتی لفظ ہے جوفکروفن دائرے رکھتا ہے

ااردو کے دوتین شعرپیش کئے جارہے ہیں اورشعروشعور کی دنیا میں اپنا ایک اہم معاشرتی تہذیبی اورنفسیاتی کردار ادا کرتا ہے یہاں رصہ اورہماری معاشرتی زندگی کا کتنا غیرمعمولی سطح پر علامتی اان سے یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ دل ہمارے وجود کا کتنا اہم ح

کردار ہے۔

رق حیات گئی دل گیا رونغم گیا ساری کائنات گئی

زر( )جگ

ااکتا گیاہوں یارب دنیا کی محفلوں سے ابجھ گیا ہو کیا لطف انجمن کاجب دل ہی

زل( )اقبا

کہتے ہو نہ دیں ہم‘ دل اگر پڑا پایاادعا پایا دل کہاں کہ گم کیجئے ہم نے م

زب( )غال

نزاکتوں کی طرف ہیں ۔کہیں کرتے اشارہ پیکروں کی طرف اورتمثیلی ناموں منظر تخیلی تجربوں ذہنی مختلف محاورے مختلف ردہ کہا جاتاہے اورضم خانہشوق قرار دیاجاتاہے۔ خوابوں کاگہوارہ کہا جاتاہے اورخیالوں کی کہیں سختیوں کی طرف دل کو پتھرک

رےرات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ متحرک تصویر جس کی دھڑکن لمحہ بہ لمحہ زمانے اور زندگی کے تغ

میری تاریخ دل کی یادیں ہیںجن کو دیر و حرم کہا جائے

زندگی کی یہی ہیں شمع و چراغ

Page 114: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

رر صنم کہا جائے جن کو شہزرعلوی( )تنوی

دل لگی کی باتیں ہوتی ہیں اس کے مقابلہ میں سنجیدگی سے کسی بات کو دل میں جگہ دینا اورمحسوس کرنا ہے دل بہاردل ہیں۔ آاتی بہت میں فارسی میں ااردو ترکیبیں جیسی اکند خوش پسنددل

وغیرہ۔۱۹) ہونا نہ دماغ ہونا، خلل میں دماغ ہونا، روشن دماغ ہونا، خاPی دماغ ہونا، دماغ ، کرنا تازہ (دماغ راس آاسمان پرہے۔ دماغ ہونے کے معنی بھی یہی ہیں ااس کا دما غ ااس کے لئے کہتے ہیں کہ آادمی کوبہت غرور ہوتاہے تو جب کسی آادمی کوکہتے کے مقابلہ میں دماغ خالی کرنا یا ہلکا کرنا ایک حدتک خلاف معنی رکھنا ہے۔ خالی دماغ ہونا انتہائی بے وقوف آاتاہے جوبالکل ہی عقل سے خارج آادمی کے لئے ابھوسا بھرا ہونا ایسے راس کے مقابلہ میں دماغ میں ہیں جس کو عقل ہوتی ہی نہیں

ہو۔زب کی موت پر جومرثیہ زی نے غال اان کو روشن دماغ کہتے ہیں حال جولوگ بہت عقلمند ہوتے ہیں یا عقل مند شمارکئے جاتے ہیں

لکھا تھا اس میں ایک شعرمیں یہ کہا گیاتھا۔

شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہاایک روشن دماغ تھا نہ رہا

زی( )حال

اکند ذہن عالی دماغ بھی ایسے ہی لوگوں کوکہتے ہیںجس کا دماغ روشن ہوتاہے اورجوغیرمعمولی سطح پرذہین ہوتے ہیں دیہات میں جاسکتا۔ لیا نہیں کام کوئی سے ااس ہے۔ طرح کی پتھر تواینٹ دماغ کا ااس یعنی ہیں کہتے دماغ کھٹل کو آادمی

آانا۔۲۰) دم میں دم سچرانا، دم ٹوٹنا، یا توڑنا دم جانا، رہ بخود دم اٹکنا، میں آانکھوں (دم اا یہ کہ فلاں کا دم تھا کہ اتنے کام ہوگئے جیسے ایک بھائی کا دم تھا یا ایک ’’دم‘‘ ہماری زبان میں بہت سے معنی رکھتا ہے مثل چچا کا دم تھا وغیرہ کہ جس کے باعث یہ سب کچھ ہوا۔ دم دلاسادینا سمجھانے بجھانے اورہمت بڑھانے کوکہتے ہیںدم خم ہونا ہمت حوصلہ اورتاب وتواں کے لئے کہا جاتا ہے۔دم مارنا حوصلہ کرنا، دم دینا مرمٹنا، مرجانا اور غیرمعمولی طورپر کسی سے محبتہے۔ کرنا ادم کر پڑھ کریا پھونک کرنا دم ۔ ہے دیتا دم پر تواس وہ کہ کرنا آاتا ہے جیسے چاولوں کو دم دیدویا پلاؤ کو کو دم دیدو یہ گرم کرنا، بھگارنا اور پکانا باورچی خانہ کی اصطلاحوں میں بھی دم دیناکرسکے۔ کام اتنا وہ کہ نہیں ادرود و دم راتنا میں اس جیسے ہے ہی ہونا خم دم بھی ہونا ادرود ادم ہے آاتا میں معنوں تینوں دم کامہمان ہوناموت سے قریب ہونا کہ وہ توکوئی دم کا مہمان ہے دم قدم کا ساتھی ہونا ہرحالت میں ساتھ دینا، دم کے دم میں یہاچرانا اپنا سانس روک لے تواس کو دم آادمی ااس نے راہ میں دم توڑدیا اوراگر آاجانا ۔ توڑنا موت کام ہوگیا۔ ذرا بھی دیرنہیں لگی دم

Page 115: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ہیں۔ کہتے آانکھوں میں دم آادمی منہ سے کچھ کہہ بھی نہ سکے۔اورخاموش رہ جائے۔ دم بخود رہ جانا، حیران اور شش در رہ جانا جب کوئی آانکھوں میں اٹکا رہا۔ یہ اس خیال پر مبنی ہے کہ آاخروقت تک اس کا دم ااس بیمارنے بہت انتظا رکیا اور اٹکنے کے معنی ہوتے ہیں۔ ہے۔ نکلتا دم کا آانکھوں میں آاخر سے سب

بھی شامل ہے رویہ اور روش بھی تجربہ اورتجزیہ بھی محاوروں کو اگراسObservationران محاورات میں ہمارے معاشرے کارد عمل کے آاتی ہیں اورایک معاشرتی جاندار کے اعتبار سے انسان کے عمل اورر رشتہ سے دیکھا جائے توبہت سی باتیں سمجھ میں ہیں۔ کرتے اشارہ طرف کی معنویت اوراپنی ہیں آاتے نظر ہوئے کھولتے بھید اپنے معنی مختلف

Zننا۔۲۱) یاتارے �مجھنا نہ رات کو رات اور دن کو دن دکھانا، آانایا نظر کوتارے (دن اا دن نکلنا صبح ہوجانا، دن گننا،وقت کو اس طرح گزارناکہ ایک ایک دن پر دن اوررات پرہمارے یہاں بہت سے محاورے ہیں مثل

زرکاشعرہے۔۔ نظررہے کہ کیا ہوا کیوں ہوا کیسے ہوا۔تھوڑاسا دن رہے یعنی جب دن کا بہت تھوڑا سا وقت باقی رہ گیا میزر  می آائی ہونے شام پیری صبح

رہا کم دن بہت اور جیتا تونہ آایا اور دن بہت کم رہ گیا وقت ختم آاگئی تونہ جیتا اوربہت کم دن رہا یعنی تجھے ہوش نہ بڑھاپے کی صبح شام ہونے کے قریب ااردو میں دن کااستعمال علامت کے طورپر ہوتاہے جیسے اچھے دن سکھ کے دن ہوتے ہیں اوربرے دن ہوگیا موقع ہاتھ سے نکل گیا رکے دینا بھی ایسے محاورات میں سے ہے جس سے مراد ہے مصیبت کا وقت گزارنا ادکھوں سے بھرے دن ہوتے ہیں۔ دنوں کو دھہوگا۔ مترادف کے دینے رکے دھ کو ردنوں گزارنا دن تووہ کام مفید ہوگا نہ کم اورکوئی ہوگا وقت پاس کے آادمی جب آانکھوں میں رات کاٹنا انتظار کرنا جاگتے ہوئے رات گزارنا ایسے رکے ہیں یہ بھی ہمارے محاورات میں سے ہیں۔ ابرے دنوں کے دھرگنا نہیں جاسکتا لیکن بیکار اان کو اان گنت ہوتے ہیں آاسمان کو تکتا رہتا ہے اسی حالت کوتارے گننا کہتے ہیں۔تارے تو عالم میں ہیں۔ ہوتی معنی اوربے جوپانی ہے۔ کرتا باتیں کی طرح اسی آادمی ہوتاتو نہیں کام کوئی جب میں وقت

ہنسنا۔۲۲) (دودومنہ ااس کی طرف ااس محاورہ کی یاددلاتا ہے۔ جس میں دومنہ ہونا۔ عام طورپر یہ محاورہ استعمال نہیں ہوتا لیکن دلچسپ محاورہ ہے اوررہا یادنہیں یہ اور کہدیا بعدکچھ ابھی کچھ کہااورکچھ دیر کے ہیں۔ بدل دیتے بات اپنی ہیں اشارہ کرتاہے کہ جب وہ چاہتے اپرفریب انداز کی طرف تواشارہ نہیں کرتا لیکن اورجان کر یادنہیں رکھا کہ پہلے کیا کہا تھا اور کیو ںکہا تھا۔ دودومنہ ہنسنا کسی اان کی ہنسی اس میں ایک نہ ایک حدتک یہ مفہوم موجود رہتا ہے کہ کسی بات پر یہاں ہنس دےئے اورکسی بات پروہاں یعنی سنجیدگی سے کوئی تعلق نہیں رکھتی کسی بات پر یہاں تبسم بلب ہوگئے اورکسی بات پر وہاں چرنجی لال نے اسی مفہوم پر

ہے ۔Rareمشتمل ایک شعر بھی پیش کیا ہے۔ جواس محاورہ کی طرح خود بھی

Page 116: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

  یہاں ٹہرے کبھی وہاں ٹہرےامنہ ہنس لئے جہاں ٹہرے  دو دو

 آانا۔۲۳) بھر دودھ بڑھانا، (دودھ

یا ہماری سماجی یا توہمارے علاقائی گیتوں میں ملتا ہے جنہیں ’’لوک گیت‘‘ کہتے ہیں آانگن کی زندگی کاعکس ہمارے گھرادودھ ادودھ پلانا شروع کیا جاتاہے تواس کو چھٹی کی رسم کہتے ہیں اس میں ااس کی عکاسی کرتی ہیں۔ جب بچہ کو رسمیں اچھڑانے کالفظ اچھڑانے کوکہتے ہیں ۔چونکہ ادودھ ادودھ بڑھانا ادھلائی کی رسم بھی شامل ہے۔ جس پر نندوں کو نیگ دیا جاتاہے ۔جاتاہے۔ کہا بڑھانا دودھ لئے اسی لگتا نہیں اچھا ادودھ کوماںکے احسانات میں بڑا درجہ حاصل ہوتاہے۔ اسی لئے ہمارے ہاں یہ رسم بھی ہے کہ ماں کے مرنے پراس کا جنازہ اٹھنےادودھ شریک بھائی ہوتے ادودھ پیتے ہیں وہ ان بچوں کے ادودھ معاف کرایا جاتاہے۔ جوبچہ کسی وجہ سے دوسری ماؤں کا سے پہلے ہے۔ ہوئی پلائی ادودھ کی اان ماں کی جن ہیں اس معنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں دودھ کا بہت احترام کیاجاتارہا ہے۔یہاں تک کہ ہندوؤں میں گائے کوردس عورتیں بھی ہوتی تھیں جومادربرہمنا گوؤں ماتا اسی لئے کہا جاتاہے کہ بچے بڑے اس کا دودھ پیتے ہیں ۔مندروں میں ایسی مق

اان کوجگت ،ماتا کہا جاتاتھا ۔ مشہورگیت ہے ۔ کہلاتی تھیں یعنی

اجگدمے ماتا جے جے جے اے جگت کی ماں تجھے ہزار بارپرنام اورسلام۔

ہے۔ پڑتی روشنی پر ااس ہیں رصہ ح کا نفسیات سماجی جوہماری حقوق کے دودھ اور ادودھ ماں سے راس

ببکنا کوڑی پھیراہونا وغیرہ۔۲۴) آادمی۔دوکوڑی کی بات کردینا، دوکوڑی کی عزت ہوجانا، دوکوڑیوں کے مول (دوکوڑی کا رول تک یہ ہمارے سکوں میں بھی داخل تھی آاتی ہے بیسویں صدی کے نصف ا رسیپ کی ایک قسم ہے اورسمندروں ہی سے کوڑی ردام کے بعدکسی شے کا مول کوڑیوں میں ادا کیاجاتاتھا دیہات اورقصبات کے لوگوں کو کوڑی کا تلفظ ’’ڑ‘‘ کے بجائے اورچھ ’’ڈ‘‘ سے کرتے ہیں ۔اورجوچیز بہت سستی اور بہت معمولی قیمت کی ہوتی ہے اسے کوڑی سے نسبت کے ساتھ ظاہر کیا جاتاہے۔ااسے ایک کوڑی دے کر خریدا جائے اس کے لئے دیہات والے کہتے ہیںیہ توکوڈی کام کا بھی نہیں اایہ تواس لائق بھی نہیں کہ مثلآادمی ہے کسی چیز کو شہر والے بھی جب سننا ظاہرکرنا چاہتے ہیںتوکوڑیوں کے مول بولتے ہیں حو یلیاں کوڑیوں کے یادوکوڑیوں کا آادمی کی مول بک گئیں جس کوبہت چالاک ظاہرکرنا چاہتے ہیںیہ طنز کے طورپر کہا جاتاہے وہ تودومنٹ میں اچھے سے اچھے دے۔ بیچ مول کے کوڑیوں یعنی کرلے کوڑیاں

Page 117: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آادمی آادمی کے لئے کہتے ہیں کہ وہ تودوکوڑی کا دوکوڑی کی بات کرنا یا دوکوڑی کی عزت ہوجانا بے عزتی کوکہا جاتاہے ایسے ہی آادمی اس بات کوپیسے کی نسبت سے بھی کہا جاتا ہے۔ ہے اسی بات کو ہم ٹکے کے ساتھ ملاکر کہتے ہیں۔ جیسے دوٹکے کا جیسے تین پیسے کی چھوکری، یاڈیڑھ پیسے کی گڑیا اس سے اندازہ ہوتاہے کہ کوڑی سے لیکر پیسے تک قیمت کا تعین کبھی ہوتازندگی سے کو ذہن ہمارے محاورے اوراس طرح کے تھا کیاجاتا استعمال طورپر پیمانے کے کے نیچ اونچ اوراسے سماجی تھا ردام کے صرف نام رہ گئے ہیں لیکن ایک آاج کوڑیاں دیکھنے کونہیں ملتیں ۔پیسے دھیلے اورچھ اورزندگی کو زمانے سے جوڑتے ہیں ۔ گئے ڈھل میں سانچے محاورات وہ سے وجہ اورکسی تھے۔ ااٹھاتے فائدے میں تعین کے درجات سماجی ہم سے ران وقت

آاباد ہونا۔ دونوں وقت ملنا ، دونوں ہاتھ تاPی بجتی ہے۔ دونوں ہاتھوں �لام کرنا۔ دونوں ہاتھ جوڑنا۔ دودو۲۵) (دونوں Zھر اچھلنا۔ س ہاتھآاتی ہے۔ اور ہاتھ انسانی زندگی میں کارکردگی کی ایک اہم علامت ہے وہیں سے داہنے ہاتھ اور بائیں ہاتھ کی تقسیم بھی عمل میں ہونا دوسری طرح کے یا دودوہاتھ ہاتھ جوڑنا ہاتھ ہے ۔ دونوں تواس کا دایاں ہاتھ کا کھیل ہے۔یایہ تومیرے یہ یہ کہا جاتا ہے کہ راس آاداب کہتے ہیں محاورے ہیں جب دونوں ہاتھ جوڑکر سلام کیاجاتا ہے تواس کے معنی انتہائی احترام کے ہوتے ہیں اوردست بستہ کیا۔ اظہار کا اورمعذرت بیزاری تعلقی بے سے طرف اپنی یعنی جوڑدےئے ہاتھ دونوں میں مقابلہ کے ’’تالی دونوں ہاتھوں ہی سے بجتی ہے یعنی ذمہ داری کسی بھی برائی کے لئے دوطرفہ ہوتی ہے۔ غلطی پرکوئی ایک نہیں ہوتا دوسری طرف سے بھی اکثرغلطیاں ہوتی ہیں۔ سماجی جھگڑوں میں اس طرح سے فیصلے زیادہ بہتر اور بے کار ہوتے ہیں جس میں دونوںااجڑجائیں۔ دونوں وقت ملنا شام کے وقت کے طرف کا بھلا ہوا محاورے کے اعتبار سے دونوں گھرمیں جائیں یہ نہیں کہ دونوں گھرہے۔ مصرعہ مشہور کا ااردو ہے جاتا کہا لئے

ہیں ملتے وقت دونوں اب چلئے رز بیان ہے اورسماجی فکرپربھی اثرانداز ہواہے کہ جب دن رات مل رہے ہوں توکوئی دوسرے درجہ کی مگریہ ایک طرح کا شاعرانہ اندا بات نہ کہنی چاہئے یا کرنی چاہئے یہ وقت احتیاط کا تقاضہ کرتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب دن گزرجا تاہے شام

زر کا یہ شعر اشارہ کرتاہے۔ آادمی کو وقت کے گزرنے کا احساس زیادہ شدت سے ہوتاہے جس کی طرف می ہوجاتی ہے تو

زر آائی می صبح پیری شام ہونے تونہ جیتا اوربہت دن کم رہا۔

آارہا ہے۔ اردو کا یہ مشہور شعربھی یاد

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

اعمر یونہی تمام ہوتی ہے

Page 118: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ا اچھل رہا آادمی کسی بات پر خوشی کا اظہار کرتا اوربے طرح کرتا ہے توکہتے ہیں کہ اس کا دل دودوہاتھ جب

آامیز صورت ہے ااچھلنا بھی کہتے ہیں جوایک نعرہ رےوں ااچھل رہا ہے ویسے بل ہے یہاں ہاتھ پیمانہ ہے یعنی بہت

رصہ ہے عام گفتگو میں اورمحاورات میں بھی جہا ںمبالغہApproachمگرمبالغہ ہماری سوچ اورذہنی کا ح

Preserveہوجاتاہے۔

آانا۔۲۶) (دھبا،دھباPگنا،دھبا

رباہماری سماجی لغت کانہایت اہم لفظ قراردیا جاسکتاہے یہ لفظ بعض مواقع پر داغ کے ساتھ استعمال ہوتاہے دھ

رباکسی چیز پر اور داغ دھبا کہلاتاہے۔ اسی سے دھبے کی سماجی نوعیت اور اہمیت کا اظہار ہوتاہے۔ کہ دھ

ااس آانا بولتے ہیں تو ربا لگتایا دھبا آاتاہے، لگتاہے۔ یا لگایا جاتاہے۔تووہ داغ کاحکم رکھتاہے۔ اور عام طورپر جب دھ

ربا پڑگیا خاندان کو دھبالگ گیا یعنی خاندان بے عزت امراد داغ لگنا ہی لیا جاتاہے۔ اورکہتے ہیں کہ دھ سے

 ہوگیا۔

سدھجی ہونا۔۲۷) سدھجی ساڑنا،دھجیاں Pگنا، دھجیاں ہونا، سدھجیاں ساڑانا، سدھجیاں سدھجی ، )

اا یہ کہنا رحس ہونے یا بے قدر ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مثل یہ سب محاورے اپنی مختلف صورتوں میں بے

ادھجی ہوگئے یا وہ دھجیاں لگائے پھرتا ہے۔ یا ادھجی ااس کے کپڑے کہ وہ کپڑا کہا ں ہے ذرا سی دھجی ہے یا

دھجیوں کو بھی وہ تہہ کرکے رکھتا ہے یعنی اسی طرح کے کپڑے کہیں ریزوں کی طرح تہہ کرکے رکھے جاتے

ران میں تودھجیاں لگی ہوئی ہیں۔  ہیں

رد عمل اورمعاشرتی سطح پر جوسوچ بنتی رہتی ہے اورہمارے کمینٹ ) راس سے ہم سماجی ر

Commentsسے گزرتی ہے۔ اس کا اظہار ہوتاہے کپڑا ہماری سماجی زندگی کی ایک نہایت اہم جزء)

ہے اس کا پہننا اوڑھنا اوراچھا اوربرا ہونا بھی قیمتی اوربے قیمت ہونا بھی دوسروں کی تو جہ کا مرکز بنتا ہے۔ اس

کا اظہار اس کہاوت سے بھی ہوتاہے’’ کھائیے من بھاتہ پہنے جگ بھاتا‘‘یعنی دوسروں کی نظر بے اختیار لباس

آادمی کی شخصیت شعور اورذاتی حیثیت کا تعین کیاجاتاہے۔ کی طرف اٹھتی ہے اوراسی کی حیثیت کے مطابق

ادھرم �ے کہتاہوں۔۲۸) ادھرم Pگتی کہنا، ادھرم کرنا، )

ررفطرت سمجھتے ہیں اسی لفظ کاتلفظ بودازم ااس کوقانون قدرت اوردستو ادھرم ہندواپنے مذہب کو کہتے ہیں اور

رما ہے ۔اور بود مذہب کی مذہبی کتاب کو ’’دھم پد‘‘کہہ کر یادکیاجاتاہے۔ دھرم کر و، مہاتماگوتم بدھ میں دھ

Page 119: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ادھرم کرو کہتے آاتے ہیں وہ کے لفظ میںاب چاند گرہن کے موقع پر نیچ قوم کے جولوگ خیرخیر ات مانگنے

ہیں۔ دھرم کی کہنا اس سے مراد ہے دیانت دار ی کے ساتھ ایمان کی بات کہنا ۔دھرم لگتی کہنا بھی ایمان

راس کے معنی یہ ہیں امورت ہے کسی بہت بڑے مہاتما یا سادھو سنتھ کو کہا جاتاہے داری کی بات ہے۔ دھرم

آاریہ اورہندایرانی ران میں ہندومسلمان دراوڑ، کہ یہ محاورے کلچر ،عقیدہ ،خیال کئی دائروں سے تعلق رکھتے ہیں۔

ادھرم سے کہتا ہوں یعنی خدا کو حاضروناظر کلچر کے اثرات کو موقع بہ موقع جگہ بہ جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔

کرکے کہتا ہوں۔ یا قسم کھاتا ہوں۔دھرم سوامی نام بھی رکھے جاتے ہیں۔ مگرزیادہ ترمذہب کے بڑے نمائندوں کو

دھرم سوامی کہا جاتاہے۔ دھرم داس ،دھرم نارائن ،دھر م پال جیسے نام ہندوؤں میں عام ہوتے ہیں۔

سدھرے اڑانا۔۲۹)  )

آانا سخت سزا دینا اوراذیت ابری طرح پیش راس کے معنی ہوتے ہیں مغربی یوپی میں یہ محاورہ عام ہے اور

ااڑانے ادھرے ادرے مارکر سزا دی جاتی ہے اور یہاں بھی ادرے سے بناہو۔ عربوں میں پہنچانا،ممکن ہے یہ لفظ

میں سزا ایزاپہنچانے کا تصور شامل رہتا ہے۔

ااڑانے کو بھی شامل کیا ہے۔  ’’چرنجی لال ‘‘نے ا س کے مفہوم میںدھجیاں

اتا، دہلیزکا کتا، دہلیزنہ جھانکنا۔۳۰) سک (دہلی کا

ااس کا نام تک ذلت کے ساتھ لیا جاتاہے ہم اپنی سماجی زندگی میں کتا اگرچہ ایک وفا دار جانور ہے لیکن

رتا کہہ کر پکارنا اک رتا کہنا یا اک ااس کا نام لیتے ہیں۔ بلکہ کتے کو بے عزت سمجھتے ہیں۔ اوربے عزتی کے ساتھ

ہماری سماجی زبان میں ایک طرح کی گالی ہے۔ ’’کتے بلی کی زندگی گزارناہے، بے عزت ہوکر جینا ہے اسی

ااسے مفت خور ، بے عزت اور گرا پڑا قرار دیتے ہیں۔ ’’کتے بھونکنا‘‘ ویرانی لئے جسے ’’دہلی کا کتا‘‘ کہتے ہیں

آاسیب زدہ اکتے روتے ہیں۔اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اان گلیو ںمیں آاتاہے۔ اور جب یہ کہتے ہیں کہ کے لئے

آاجاتی ہیں۔ اوراسی کو آاسمان سے بلائیں اترتی ہیں تووہ کتوں کو نظر ہے۔ اس لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جب

دیکھ کر روتے ہیں۔ اسی لیے کتے بلی کارونا منحوس خیال کیا جاتاہے۔ یہ ہمارے سماج کی تواہم پرستی ہے

ابرے کا پتہ چلالیتے ہیں۔ اوراس پر اپنے رد عمل کا اوریہ بھی واقع ہے کہ کتے بعض چیزوں کو سونگھ کر اچھے

اظہار کرتے ہیں۔

اکتے کے گلے آاتی ہے۔ ابراکردار جس میں کوئی تبدیلی نہیں ادم ہونا،یعنی اس کا اپنا ایک کردار ہے ، کتے کی

Page 120: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

پٹہ باندھنا ،یعنی ’’تابعدار بنانا، کتے کی طرح دم ہلانا ‘‘یعنی عاجزی اورخوشامد کا اظہار کرنا۔

ااسے تشبیہہ دیتے ہیں توکہتے ہیں رتاہوناکسی کام کا نہ ہونا اسی لئے کہتے ہیںاوردھوبی کے کتے سے اک گلی کا

آایا ادھوبی کا کتا گھرکا نہ گھاٹ کا،دہلیز نہ جھانکنا، دہلیز پر کھڑا ہونا، اس کے یہ معنی ہیں کہ ادھر کوئی کہ

بھی نہیں ۔ دروازے پر کھڑا بھی نہیں ہوا۔ مانگنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ اصل میں دروازے پر جانا اس کی

راس کی طرف ہمارے فارسی اوراردو لڑیچرمیں برابر اشارے راشارہ ہوتا ہے کہ کسی سے کچھ مانگنے گیاہے طرف

آاتے رہے ہیں۔

(دہلی کے PیوPے ڈاPنا۔۳۱)

آانے جانے سے ’’لیور‘‘ آادمی کے بار بار یہ عجیب وغریب محاورہ ہے ’’لیور‘ مٹی کی تہوں کوکہتے ہیں اگرکسی

آانے جانے کی زیادتی کا اندازہ ہوتاہے اچھانہیں سمجھا جاتا۔اردو کا ااکھڑجائیں اورمٹی کی تہیں باقی نہ رہیں تو

مشہور مصرعہ ہے۔

آاناجانا قدر کھودیتا ہے ہرروز کا

آاتا۔ اس سے ہم سماجی رویوں کاپتہ چلا مگرکسی فرض کی ادائیگی یا ضروری کام سے جانا اس حکم میں نہیں

آادمی کی بھی خواہ مخواہ اپنا اوردوسرے کا وقت ضائع سکتے ہیں کہ وقت کی بھی کوئی قدروقیمت ہوتی ہے اور

کرنا، اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

سدھندکاپساراہونا۔۳۲) )

ادھواں گھٹنے کی وجہ سے آانکھوں کی کمزوری کے باعث ہو یا آانا ہے خواہ وہ آانکھوں سے نہ نظر ادھندکاپھیلارہنا

ادھندپھیل جانے کی وجہ سے ہم جب نہیں دیکھ سکتے تودھوکا کھاجاتے ہیںفریب میں مبتلا ہوجاتے ہیں ہو یا

ادھندلکا‘‘اسی سلسلے کا ایک بہت معنی خیزلفظ ادھندکا بسارا‘‘کہتے ہیں۔’’ اسی لئے دھوکہ یافریب کویعنی ’’

رت حال صاف نہیں ہے۔ ہے دھندلکا چھایا ہوا ہے یعنی صور

ادھن کرنا۔۳۳) ادھن )

اپھٹ کریں اپھٹ ادھن کریں لوگ کابگاڑو اپنا ادھن مبارک باددینا ،بہت مشہور فقرہ ہے کام سنوارو ںاپنا

ادھن کرنا ذورذور بولنا ادھن ادھن دولت کو بھی کہتے ہیںاورخوشی کے اظہار کو بھی خواہ مخواہ لوگ’سماج میں

بیکارباتیںکرناہے۔

Page 121: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

’’دھن‘‘ سوار ہونا کسی چیز کا بے حدشوق ہونا۔ اوراس کے لئے مارے مارے پھرنا جیسے ہم داستانوںمیں

اادھر ہونے کا رادھر اورذراسی بات میں ادھن کا پکاہونا اپنی بات پر اڑے رہنا اورذرا اسی دیرمیں دیکھتے ہیں۔

آاگ آاگ جلاتے ہیں وہ ااس کے خلاف ہونا دھونی زمانہ سادھوسنت جہاں بیٹھ جاتے ہیں وہاں جوعام رویہ ہوتاہے

اان کے ’’ہون‘‘ کی علامت ہوتی ہے۔

ااسے دھونی ’’رمانا‘‘ کہتے ہیں اوراس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ جس میں خوشبو دار چیزیں بھی ڈالی جاتی ہیں

ایک جگہ دھیان گیان کے خیال سے بیٹھ گئے اور دوسری باتوں سے اپنا رشتہ منقطع کیا تواس کو دھونی رمانا

کہتے ہیں کہ وہ تووہاں دھونی رماکر بیٹھ گئے یہ ہندوروایت سے وابستہ محاوروں میں ہے۔ اورہمارے سماج

پرہندومذہب کے اثرات کا اظہارکرنے والی ایک روایت کی طرف اشارہ کرتاہے۔

(داہنے اوربائیںہاتھ �ے ایک �اتھ کھانا حرام ہے۔۳۴)

ابرے جائز ناجائز مناسب یا مناسب کو مذہبی اندازسے پیش دایاں ہاتھ سے کھانا کھانا حرام ہے ہم لوگ اچھے

کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ داہناہاتھ ہمارے خیال میں عزت واحترام کی ایک علامت ہے اوربہت قدیم زمانے سے

راس پر زوردیا جاتا ہے داہنے ہاتھ سے کھاؤ داہنے ہاتھ سے لکھو یا داہنا ہاتھ ملاؤ یا پھر داہنے ہاتھ سے سلام

کرووغیرہ اس کے مقابلہ میں بائیں ہاتھ سے کھانا ایک طرح کا سوئے ادب یا بدتمیزی خیال کی جاتی ہے

راشارہ اسی کی طرف کرنا ہوتا ہے۔ لیکن ہم اوردونوں ہاتھ ایک ساتھ ملا کرکھانا ایک بہت ہی بے تکی بات ہے

 کہتے ہیں کہ یہ حرام ہے۔

راس سے ہماری اپنی معاشرتی فکر کا اندازہ ہوتا ہے اور مذہب پراس کے اعتماد واعتقاد کا کہ وہ ہربات کو حلال

آاب دست لیتے ہیں اس لئے کہ کھانا دائیں ہاتھ سے وحرام کے دائرے میں تقسیم کردیتی ہے ہم بائیں ہاتھ سے

Leftکھاتے ہیں اس میں کوئی برائی نہیں لیکن کچھ لوگ بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے ہوتے ہیں )

Handerا ان کی فطری مجبوری ہوتی ہے اس کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ہمارا ایک عام رویہ ہے کہ (یہ

Overہم ایسے معاملات کو الگ الگ خانوں میں رکھ کرنہیں دیکھتے انہیں تعمیم )

simplificationکی منزل سے گزارتے ہیں جب کہ فرق وامتیاز کا باقی رکھنا ضروری ہوتاہے۔)

(دھنیے کی کھوپڑی میںپانی پلانا۔۳۵)

ایک خاص طرح کا محاورہ ہے اورہمارے مشرقی مزاج کی نمائندگی کرتا ہے ’’دھنیا‘‘ ایک بہت چھوٹا

Page 122: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

سااندرسے کھوکھلا بیج ہوتاہے۔ وہ اگردوٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے تواس کا ایک ٹکڑا وہ کوئی سا بھی ہو

دھنیے کی کھوپڑی کہلاتاہے ۔اس میں کوئی چیز بھری توجاسکتی ہے۔ مگراس کی مقدار کچھ بھی نہیں

ہوگی۔ اوراس میں پانی پلانا حددرجہ کی بخیلی بلکہ دوسرے کے ساتھ ایک سطح پر ذلیل سلوک ہے جوہرگز نہ

ہونا چاہیے۔

استھرے برتن میں ہونا پیاسے کو پانی پلانا بہت بڑا ثواب ہوتا ہے ۔پانی کی مقدار بھی زیادہ ہونی چاہئیے اورصاف

ااسے دھنیے کی ااس میں بخیلی شامل ہوتی ہے۔ تو ابرا سلوک ہوتا ہے اور چاہیے اسی لئے جب کسی کے ساتھ

کھوپڑی میں پانی پلانا کہتے ہیں۔

سدھواں دھار بر�نا۔۳۶) )

آاگ سے ہے ادھوئیں کا لفظ عوامی معاشرت میں بڑی اہمیت رکھتا تھا اس لئے کہ دھویں کا تعلق ہمارے ہاںپانی

ردس سمجھی گئی ہے اسی لئے مسلمانوں کے بعض مذہبی کا موں آاگ پرستش کا عنصر بھی رہی ہے اورمق اور

ا لوبان جلانا جوتیجے کی رسم میں ہوتا ہے۔ یعنی خوشبوکے لئے وہ کام کیا میں بھی دھواں شامل رہتا ہے۔ مثلا

ابھوت پریت کا اثر دورکرنے کی غرض سے دھونی دی جاتی ہے جہاں جاتا ہے مگردھوئیں کے ساتھ اسی لئے

مویشی باندھے جاتے ہیں وہاں بھی دھونی دینے کا رواج رہا ہے اوراب بھی ہے۔

آاگ مانگ آاگ موجود ہے اور’’چولھا ‘‘جل رہا ہے ایک کے گھرسے ااٹھتا ہے توپتہ چلتا ہے کہ ادھواں گھر سے

ادھواں اٹھنا بھی محاورہ بنا ۔ ادھواں گھٹنا‘‘ کردوسرے کے گھرمیں چولہا جلایا جاتا تھا ۔ اس طرح سے ’’

ااسے دھواں دھار بارش کہتے ااٹھانا بھی یہاں تک کہ جب بارش بہت ذور سے پڑتی ہے یا برستی ہے تو اوردھویں

اس طرح سے ہم اپنے محاوروں کے ذریعہ ایسی معاشرتی نفسیاتی تہذیبی اور اس زندگی کو پیش کرتے ہیں ہیں۔

جوہم موسموں کے تحت گزارتے ہیں۔

سدھوپ میں بال �فیدکرنا۔۳۷) )

بالوں کا سفید ہوجانا بہت سے تجربوں سے گزرنا ہے بہت سی معلومات حاصل کرنا ہے ۔ اوردقت سے بہت

کچھ سیکھناہے ہمارے ملک میں اسی لئے اس کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے کہ کوئی شخص زیادہ عمر کا ہے

کہتے ہیں یعنی اس کی زیادہ عمر کا احترام کرتےSenior Citizenانگریزی میں بھی اسے سینئرشہری

ہیں۔

Page 123: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اعمر کو عقل سے اورتجربہ سے نسبت دی جاتی ہے۔ اسی لئے گاؤں کے لوگ اعمرسے اور بالوں کی سفیدی کو

کا نشان سمجھے جاتے ہیںMaturityبڑے بوڑھوں کو ’’بدمنئر‘‘بڑے سروالا کہاجاتا ہے۔ اورسفید بال

اسی لئے ہمارے یہاں روایتی طورپر لوگ اپنی عمر کو اپنی بڑائی کا نشان بھی خیال کرتے ہیں۔ اورکہتے ہیں کہ

اان کی سفیدی سے ہماری عمر ہماری عقل اورہمارے تجربہ کا پتہ ادھوپ میں سفید نہیں کئے یعنی ہم نے یہ بال

چلتا ہے۔ اورجب کسی کی عقل کی کمی اورعمرکی زیادتی کو ظاہر کرنا ہوتا ہے توکہتے ہیں کیا تم نے یہ بال

دھوپ میں سفید کئے ہیں اس سے ہمارے محاوروں کا ہماری زندگی ہماری معاشرت اورہمارے تہذیبی رشتوں

سے وابستی کا اظہارہوتا ہے۔

اٹی۔۳۸) (دھوکے کی ٹ

اپرفریب صورت ، مکاری اوردغابازی کا طریقہ’’،ٹٹا‘‘، ٹٹی،گھاس پھونس کے پردے کوکہتے ہیں جوگھروں کے

اپھوس کے جھونپڑے بھی ہوتے تھے جب ٹٹی رکے اورگھاس رچے پ سامنے عام طورپر لگایا جاتا تھا ۔ایسے ہی ک

ااسے ٹٹی کی اوٹ اچھپا یا جاتا تھا ۔یعنی اس کی کوشش کی جاتی تھی تو کے ذریعہ کسی دھوکے بازی کو

رواس لئے کہ میں فریب دینا کہتے تھے ممکن ہے یہ طریقہ خاص طورسے شکار کرنے کے موقع پر اختیار کیا جاتا ہ

زق نے اپنے ایک شعر میں ٹٹی کی اوجھل )اوٹ ( شکار کرنے کی بات کی ہے اورکہا ہے۔ ذو

کرتی ہے قصد ٹٹی کی اوجھل شکار کا

زق( )ذو

خط نکلنے پر بھی گیسومیں پھنسے مرغ نظر

دھوکے کی ٹٹی تیرے عارض کا سبزہ ہوگیا

)نامعلوم(

ساڑانا۔۳۹) ساڑانایاخاک سدھول )

ااڑتی رہتی ہے بچے کھیل میںبھی مٹھیاںبھربھرکرہوا میں اچھلتے ہلکی باریک مٹی کوکہتے ہیں جوہوا کے ساتھ

آایاکہ اورخاک اڑاتے رہتے ہیں جب تیز ہوا چلتی ہے توخاک بے طرح اڑتی ہے اسی سے ہمارے یہاں یہ محاورہ

اان لوگوں کے لئے کہا جاتا ہے اورکہا جاتا رہا ہے جو دوسروں کی ادھول کی طرح اڑادیا یہ عام طورسے خاک

محنت کوبرباد کرتے ہیں اورخاندانی اثاثہ کو اپنی بیوقوفیوں سے برباد کردیتے ہیں اس میں زمین وجائیداد بھی

Page 124: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ادھول سے مطابق بھی بہت ہوسکتی ہے زروزیور بھی ہوسکتا ہے اورعزت ووقار بھی اسی لئے ہمارے یہاں خاک

سے محاورات ہیں۔

اتا، دہلیز نہ جھانکنا۔۴۰) ( دہلیز کا ک

آادمی دہلیز گھرکی چوکھٹ کوکہتے ہیں ایک زمانہ میں یہ ہمارے یہاں بڑی اہمیت کی بات ہوتی تھی کہ کوئی

آاج بھی چوما ادوکان کی چوکھٹ کو ااسے سلام کرے ہندوجاٹیوں میں اچومے۔ اور آاکر بزرگوں کی چوکھٹ کو

جاتا ہے اورگھرکی چوکھٹ کو سلام کیا جاتا ہے۔

اان کے ااس کی پرواہ نہیں کرتے صوفیوں کی خانقاہوں کے ساتھ یہ رویہ عام مسلمانو ںمیں بھی موجود ہے جولوگ

آاکر بھی نہیں پھٹکتے اس کے مقابلہ میں جو لئے کہاجا تا ہے کہ وہ کبھی دہلیز بھی نہیںجھانکتے یعنی کبھی

رتا کہتے ہیں اب اس لفظ کا استعمال آادمی بے غیرتی کے ساتھ کسی کے دروازے پر پڑارہتا ہے اس کودہلیز کا ک

ہمارے یہاں کم ہوگیا ہے ۔ گاؤں والے اپنے تلفظ کے مطابق اس کو دہلیج کہتے ہیں۔

( دہلی کے PیوPے ڈاPنا، یاPے ڈاPنا۔۴۱)

آادمی جواپنی غرض کے لئے کسی کے دروازے کے چکرلگا تا رہتا ہے اس کے لئے کہتے ہیںکہ وہ اسی طرح وہ

ااسے دہلیز کے لیولے لے ڈالتاہے ’’لیوڑ‘‘ دراصل بدن یازمین پر الگ سے جومٹی یا میل کچیل جم جاتا ہے تو

ااسی کو ہٹادینے کے ہیں۔ لیورکہتے ہیں اوریہاں لیوڑے لینے کے معنی

ہمارے جغرافیائی حالات کا اثرہماری سوچ پرکس طرح مرتب ہوتا ہے اورہماری جومعاشی اورمعاشرتی زندگی ہوتی

رفکر اورہماری زبان کس طرح کے اثرات قبول کرتی ہے۔ راس سے ہماری ہے

سدھوم ہونا۔۴۲) سدھوم مچانا، سدھوم ڈاPنا، )

آاوازیں ادھوم مچانا خوشی کے ساتھ ادھام حواشی سے تعلق رکھنے والی لفظیات میں سے ہے اسی لئے ادھوم ادھوم

ادھوم ادھوم مچ گئی سارے شہرمیں ااس کی نکالنے کو بھی کہتے ہیں کسی اچھی خبر کی شہرت کو بھی کہ

ادھام ہورہی ہے یعنی خوشیوں کا ماحول ہے ۔ باجے تاشے بج رہے ہیں زمینداروں جاگیرداروں ادھوم مچ رہی ہے

بڑے بڑے ساہوکاروں بادشاہوں اورنوابوں کے یہاں جب خوشی کے جشن منائے جاتے تھے توعام طورپر سارے

ران لفظوں سے بنے ہوئے محاورات کے ذریعہ ہم ماضی میںگزاری ادھام کا ماحول ہوتا تھا۔ ادھوم شہریا علاقے میں

رت حال ہوتی ہے آاج بھی یہ صور جانیوالی اپنی معاشرتی اورتاریخی زندگی کے کچھ پہلوؤں سے واقف ہوتے ہیں اور

Page 125: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ااس کا ذکر اچھا لگتا ہے۔ ااس سے لطف لیتے ہیں اور تو

سدھونس کی چلنا۔۴۳) آانا، سدھونس میں سدھونس دینا، )

رقارے کوکہتے ہیں اورنقارہ شہرت واقتدار اورانتظام کی ایک علامت کے اعلان کے بھی ادھونس دیہاتی زبان میں ن

ہیں اسی لئے نوبت ونشان بادشاہی حکومت کی نشانیاں ہوتی ہیں۔نوبت نقارہ ہی کوکہتے ہیں۔

یہاں سے گزرکر دھونس ایک نئے معنی اورنئے پس منظر کے ساتھ ہمارے محاورہ میں استعمال ہوتا ہے اورجب ہم

ااس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ کوئی شخص زبردستی اپنی بات منوانا چاہتا ہے اوراپنی بات دھونس دینا کہتے ہیں تو

کا پریشر ڈالنا چاہتا ہے۔

دیہات والے بھی دھونس دینے کواسی معنی میں استعمال کرتے ہیں شہرکے عام لوگوں کی زبان پربھی یہ محاورہ

ابرے لوگوں کا رویہ کیا کیا شکلیں ااس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سماج میں اچھے آاتا ہے اور اسی معنی میں

ا ان کے اثرات کی آاجانا انہی سماجی رویوں اور اختیار کرتا ہے تودھونس دینا دھونس نہیں لینا یا دھونس میں

طرف اشارہ ہے۔

(دھینگادھینگی کرنا۔۴۴)

رےاکرنا جوعام لوگوں کا امشتی کرنے کوبھی کہتے ہیں اوریہ اسی طرح کا ایک عمل ہے جیسے دھول دھ دھینگا

شیوہ ہوتا ہے کہ وہ ذراذرا سی بات پر لڑنے جھگڑنے کے لئے تیا رہوجاتے ہیں ۔ یہاں ہم ایک بار پھراس طرف توجہ

دینے پر مجبور ہوتے ہیں کہ محاورات دراصل ہمارے سماج کے رویوں کا مطالعہ ہے کیونکہ وہ عام زبان میں ہے

رصہ ہے اس لئے اس کا احساس نہیں ہوتا کہ ہمارے سماجی رویوں کے کون کون سے اورعوامی بولی ٹھولی کا ح

کرتے ہیں۔۔Commentپہلو ایسے ہیں جوہمارے محاورے جن پر روشنی ڈالتے ہیں اور

(دیدنہ شنید۔۴۵)

دونوں لفظ فارسی کے ہیں ’’دیدن‘‘ کے معنی دیکھنا اور شنیدن کے معنی سننا عام طورپر اس زمانہ میں پڑھنے

آادمی تمام تر بھروسہ اپنی معلومات کے لئے دیکھنے پر کرتا تھا یا سننے پر اسی لکھنے کا رواج بہت کم تھا

آاتا۔ اس سے ہم اپنے آاتے تھے کہ نہ کہیں دیکھا نہ سنا لکھنے پڑھنے کا ذکرہی نہیں لئے لوگ یہ کہتے نظر

گزرے ہوئے زمانہ کی تہذیبی فضاء کو جان سکتے ہیں اوریہ بھی کہ فارسی کے اثرات ہماری زبان پر اس طرح

مرتب ہوئے ہیں کہ ہم نے فارسی محاوروں کا ترجمہ کیا ہے ’’دیدوشنید‘‘ فارسی محاورہ ہی ہے دیکھا نہ سنا اس

Page 126: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

راس امر کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ فارسی اثرات کوہم نے اپنی زبان اپنے بیان اوراپنے کا ترجمہ ہے جس سے

آاج کل انگریزی خیالات اورلفظیات کو جذب فکری رویوں میں اسی طرح ایک زمانہ میں جذب کیا ہے جیسے

کرتے ہیں۔

(دیدہ دPیر،دیددPیری، دیدہ دھوئی، دیدہ ریزی، دیدہ ہوائی ہونا، دیدے کا پانی ہونا، دیدے کی۴۶)

صفائی دیدے نکاPنا۔

آانکھوں کا ہمارے خیالات آاتا ہے اور آانکھوں کے معنی میں دیدہ دیکھے ہوئے کوکہتے ہیں لیکن اردو میں دیدہ

آاجاتی آادمی میں جب ایک طرح کی بے حیائی ہمارے سوالات اور چہرے کے تاثرات سے بہت گہرا رشتہ ہے۔

آادمی دیدہ دلیر کہلاتا ہے ااسے دیدہ دلیری کہتے ہیں اورایسا ہے اوروہ اپنی کسی بری بات پر شرماتا بھی نہیں تو

آانکھوں کی شرم وحیاء ، غیرت اور عورتوں میں ایک اور محاورہ بھی رائج ہے دیدہ دھوئی یعنی اس نے اپنی

آانکھوں کا پانی ڈھل جانا بھی کہتے ہیں۔ پاسداری بالکل ختم کردی اسی کو

اادھربھی دیکھ لیا ’’ہوائی دیدہ یا دیدہ ہوائی‘‘ عورتوں کا محاورہ ہے اوراس کے معنی غیرسنجیدہ طرز نگاہ ہے کہ

رادھر بھی دیکھ لیا لیکن سوچ سمجھ سے کوئی واسطہ نہ رکھا۔ اسی لئے ایسے لڑکے اورلڑکیوں کو جواپنی ذمہ

راس کو ’’دیدہ ہوائی‘‘ کہتے اادھر کی باتوں میں دلچسپی کا اظہارکرتے ہیں رادھر ادوررہنا چاہتے ہیں اور داریوں سے

 ہیں۔

ااس کے معنی ہیں بہت دیکھ بھال کریاکسی تحریر کو پڑھنے اورسمجھنے میں ’’دیدہ ریزی‘‘ فارسی ترکیب ہے اور

آاتا ہے جس معنی محنت شاقہ برداشت کرنا جوکم ہی لوگ کرپاتے ہیں۔ دیدے کی صفائی ‘‘اسی معنی میں

آادمی ہوتا ہے اسے نہ آانکھیں دکھانے کو کہتے ہیں اورجو بہت گھٹیا آایا ہے ’’دیدے نکالنا‘‘ میںدیدہ دھوئی

دیدہ کہتے ہیں یعنی اس نے کچھ دیکھا ہی نہیں۔

(دیواریں چاٹنا،دیوار کھینچنا، دیوارڈھانا، دیوار کے بھی کان ہوتے ہیں، دیوار قہقہہ ہونا، دیوار۴۷)

ساٹھنا، دیوار کوٹھے چڑھنا۔ ساٹھانا، دیوار

آائی ہیں تاریخ میں بھی سچ یہ ہے کہ دیوار دیوار سے مطابق بہت سی روایتیں ہمارے مذہبی لٹریچر میں بھی

ہماری معاشرتی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ چینیوں نے منلولوں کے حملے روکنے

آاج بھی یاد کیا جاتا ہے کے لئے ایک بہت لمبی دیوار بنائی تھی جوپندرہ سوکوس تک جاتی تھی۔ اس کو

Page 127: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اجوج‘‘ قوم کے لوگ کسی اجوج ما اورتعمیری لحاظ سے دنیا کے سات عجائبات میں گنا جاتا ہے۔ اسی طرح’’ یا

راس ملک کے درمیان اان کے اور قدیم ملک میں گھس کرتباہی مچانا چاہتے تھے روایت کچھ اس طرح ہے کہ

سیسہ کی دیوار کھڑی کردی گئی تھی جس سے وہ گزرکر اندرنہ جاپائیں اوروہ ملک ان کی تباہی سے محفوظ

رہے۔

اجوج اس دیوار کو صبح سے شام تک چاٹتے ہیں جس سے وہ پتلی ہوجاتی ہے اوروہ یہ خیال کرکے کہ اجوج ما یا

ہم کل اسے ضرور ختم کردیں گے یہ کہہ وہ چلے جاتے ہیں رات کو پھر دیوار اپنی جگہ پر اسی طرح بھاری

ااسے ’’دیوار قہقہہ‘‘ بھرکم ہوجاتی ہے۔ آایا ہے اور اس کے علاوہ ایک دیوار کا اورتصورہے جو ’’الف لیلہ‘‘ میں

کہتے ہیں۔ کہ جواس کے اوپر چڑھ کر دوسری سمت دیکھتا ہے وہ بے طرح ہنستا ہے اورہنستے ہنستے گرکر

مرجاتا ہے اوریہ نہیں بتلا سکتا کہ ادھر ہے کیا۔

رر شہر کہتے ہیں گھریلو سطح پر دیوار کے اپنے ایک معنی ااسے دیوا رصا رسے بھی وابستہ ہے اور دیوار کا تصورح

ررپردہ ہوتی ہے اوراس کے ذریعہ گویا گھرکا تصورقائم ہوتا ہے۔ کوٹھے دیوار چڑھنا عورتوں کا محاورہ ہے ہیں وہ دیوا

اوراس ماحول کی طرف اشارہ کرتا ہے جب کہ گھرکی دیوار سے باہر جھانکنے کی بھی اجازت نہیںہوتی

اورکوٹھے دیوار چڑھنے کواس لئے منع کیا جاتا تھا کہ کوٹھے دیوارمیں اس طرح ملی ہوتی تھیںکہ یہاں سے وہاں

آانا جانا کوئی مشکل بات نہیںہوتی تھی مگراسے عام طورسے پردہ دار عورتوں کے لئے اچھا نہیں سمجھا اور وہاں

جا تاتھا۔

دیواریں پردہ کا بھی کام دیتی ہیں اوررازداریوں کا بھی احتیاط اتنی بڑھتی جاتی تھی کہ بات کرنے کا وقت بہت

اسن لے۔ اسی لے کہا جاتا تھا کہ دیواروں کے بھی آادمی نہ آاہستہ اس لئے بولا جاتا تھا کہ کوئی پاس پڑوس کا

آادمی جھانکتا ا ادھر رہادھر کان ہوتے ہیں۔ کوٹھے دیوار جھانکنا بھی محاورہ ہے اوراس کا مطلب یہ ہوتا ہے ک

ابرا سمجھا جا تھا اسی لئے جب کسی لڑکی کی پھرے یہ اچھا نہیں لگتا کنواری لڑکیوں کے لئے تویہ اوربھی

راس لڑکی کوکوٹھے دیوار نہ دیکھا۔ تعریف کی جاتی تھی تویہ کہا جا تاتھا کہ کسی نے

ااٹھانا گھرکی تعمیری ضرورت کے لئے بھی ہوتا ہے اوردیواریں کھڑی کرنا گھرکی تعمیری دیوار اٹھنا یا دیوار

آاتا ہے۔ ضرورت کے طورپر بھی استعمال ہوتا ہے دیوار کھڑی کرنا مشکلات اورمصیبتیں پیدا کرنے کے معنی میں

اورکہا جاتا ہے کہ میرے سامنے مشکلات کی دیواریں کھڑی کردی گئیں ہیں۔

Page 128: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

‘‘ ڈ ’’ ردیف 

کرنا۔۱)  بال ایک ایک کا ڈاڑھی )اان میں کیا کس کی وضع ہمارے یہاں مذاہب میں اپنی اپنی جووضع قطع رکھناچاہا اوراپنے ماننے والے طبقات میں اس کو رائج کیا قطع کے علاوہ ڈاڑھی کو بھی ایک سماجی حیثیت حاصل ہے۔ ڈاڑھی عزت ووقار اوربڑی حدتک تقدس کی علامت ہے اسی لئے ڈاڑھی پکڑنا اورڈاڑھی میں ہاتھ ڈالنا بے عزتی کی بات سمجھی جاتی ہے۔ اورکسی ذلیل کرنے کے لئے کہا جاتاہے کہ میں تیریراس سے ہم اپنے ماحول کی تہذیبی قدروں کوسمجھ سکتے ہیں ڈاڑھی نوچ لینے کے بھی یہی ڈاڑھی کے ایک ایک بال کردوں گا ۔ ہے کرنا عزتی بے یعنی ہیں کے کردینے بال اوربال ہیں معنی

کاٹوٹا۔۲) پکا،ڈال کا ڈال )آاتاہے آاتا رہتا ہے اورتعریفوں کے ساتھ آام‘‘ ایک مشہور پھل ہے قدیم زمانہ سے سنسکرت اورہندی لڑیچرمیں اس کا ذکر ہمارے ہاں ’’آام ملنے آاموں کے باغ لگائے جانے لگے تووہ آاموں کے جنگل ہوتے تھے جب آاموں کے باغ کے علاوہ ایک سطح پر ہمارے ہاں لگے جوڈال پر پک کرتیارہواورجس کو ڈال سے توڑکر کھایا جاسکے اس لئے کہ تازگی اسی پھل میںہوتی ہے ایسے پھل بھی ہوتےآام توعام طورسے پال میں دبائے جاتے ہیں اورپسندکئے جاتے ہیں ایک ہیں جنہیں پال میں دباکر یا کوئی دوا چھڑک کرپکایا جائے ۔ آام مٹکے آام کی یاکسی بھی پھل کی لذت اور لطف کچھ اورہی ہوتا ہے۔ اسی لئے ڈال کا پکاکہتے ہیں ویسے ڈال کے پکے ہوئے ہے۔ پر گرجاتا توشاخ کو چھوڑکرزمین ہے پکتا وہ ہیں کہ جب بھی کہتے آام کا میںٹپکے محاورے اور اس کو ہے ہوتا بھی کا رل تعریف اورخوش مزہ سمجھا جاتا ہے اسی لئے ڈال کا ٹوٹا ااس کے مقابلہ میں وہ پکا پھل جسے ڈال سے توڑا جاتاہے وہ زیادہ قابآادمیوں کی شخصیتوں راطلاق اان کی قدرومنزلت کا ذکر بھی ہوتا ہے اورپھلوں کا آادمیوں کے کردار اور کہتے ہیں اوراسی نسبت سے جاتاہے۔ پرکیا

کہنا۔۳) چوٹ کی ڈنکے ) ’’ڈنکا ‘‘ہمارے دیہاتی قصباتی اورشہری سماج میں ایک خاص معنی رکھتا ہے ڈنکے کی چوٹ کہنا ڈنکا بجنا جیسے محاورےامنادی کروادیتے تھے تاکہ سب کو خبرہوجائے اس ہمارے یہاں ایک خاص معنی رکھتے ہیںہم کسی بات کا اعلان کروانے کے لئے کو’’ ڈھنڈھورا‘‘ بھی کہتے تھے ڈنکا پیٹنا بھی اسی سے نکلا ہے اورڈنکاپیٹنابھی دونوں شہرت دینے اورشہرت پانے کا عمل ہےااس کی شہرت ہوتی ہے اسے ڈنکا بجنا کہتے ہیں مگروہ صرف ابرائی کے معنی ہیں۔ جس بات کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور مگرجاتاہے۔ بولا پر موقعوں ہی ایسے ہے رہا بج ڈنکا کا شہرت کی اان آاتا۔ نہیں میں معنی برے راسی اان کے ساتھ ڈھول بجتا ہوتا تھا یا دوسرے باجے تاشے بجتے تھے آاتی تھیں تو دہلی میں ملکہ زینت محل جب محل سے باہر آاج شہرت پانے اور شہرت دینے کے ذریعہ میڈیا کی وجہ سے دوسرے ہوگئے تواب ڈنکے کا اان کو ڈنکا بیگم کہا جاتا تھا۔ لئے راشارہ کرتا ہے اورڈھول بجنا بھی یہ ادور ہوتا گیا ’’ڈھول پیٹنا‘‘بھی اسی مفہوم کی طرف لفظ محاورہ میں رہ گیا مگر معاشرہ اس سے

Page 129: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ہمارے تمدن کی ایسی یادگار وں میں سے ہے جن کو ہم بھولتے جارہے ہیں مگر ہمارے محاوروں کے ذریعہ گویا یہ حالات اوریہ ہوگیا ہے۔Preserveماحول

( ڈوبتے کوتنکے کا�ہارا )بہت ہوتا ہے( ڈو5 مرنا۔۴)

ااس کا ڈوبناہمارے ایسے الفاظ میںسے ہے جوسماجی حقائق میں سے روشنی ڈالتے ہیں دیہات قصبات کے لوگ ’’ڈوبے ڈھیری‘‘ کہتے ہیں جس کے معنی ہیں

آاتاہے۔اسی طرح گھرڈوب گیا اصورت میں بھی رقم ڈوبنے کاذکر ااسے رقم ڈوب جانا کہتے ہیں نقصان کی آاتی تو اادھارکی رقم واپس نہیں رصہ ختم ہوگیا۔ جب ہاتھ ق

ااردوکا ایک مصرعہ ہے۔ آاتاہے۔ آاتاہے یاپھربہہ جانے کے معنی میں تباہی کے معنی میں

ایسا برساٹوٹ کے بادل‘ ڈوب چلا میخانہ بھی

ڈوبتے کوتنکے کا سہارا ایسے ہی موقعوں پر بولا جاتا ہے جب شخصی وجود خطرہ میں پڑگیا ہو اورسہارا ملنے کی کوئی صورت نہ ہو ۔ دوسروں کے غیرمخلصانہ

آاتی ہے اسی لئے کہا جاتا آادمی کو بڑی بات نظر ابرے وقت میں کوئی کمزور سے کمزورسہارا بھی آادمی کسی پراعتماد بھی نہ کرسکتا ہوایسے رویوں کی وجہ سے

اا وہ سہارا کچھ نہیں ہوتا ایک نفسیاتی عمل ہوتا ہے اوربس۔ ہے کہ ڈوبنے کو تنکے کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے بلکہ واقعت

آانا۔۵) (ڈھاک کے تین پات ، ڈھائی دن کی بادشاہت ، ڈھائی Zھڑی کی

راس کا اپنا ڈھاک ہمارے اپنے علاقہ کے معروف درختوں میں ہے جس کے جنگل کے جنگل کھڑے رہتے تھے اور’’سٹیوکے پھول‘‘ ڈھاک ہی کے پھول ہوتے ہیں۔

آاتے تھے گوشت اسی میں رکھ کردیتے تھے اور’’پھول‘‘ اور’’ہا ر‘‘وغیرہ انہی پتوں آاتے ہیں ڈھاک کے پتے سودا سلف کے کام خاص رنگ ہوتا ہے یہ داؤں میں کام

میں رکھ کردےئے جاتے تھے لیکن ڈھاک نے ہمیں ایک عجیب محاورہ دیا اوروہ ڈھاک کے تین پات رہ گئے اس لئے کہ ڈھاک کے تین ہی پات ہوتے ہیں اور

ہمارے معاشرہ میں کچھ ایسا ہے کہ اکثرکوششیں نکام ہوتی ہیں اورکوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا ایسے ہی موقع پرڈھاک کے تین پات کہتے ہیں ۔

سچننا۔۶) الو Pہو پینا یا پلانا ،ڈیڑھ اینٹ کی مسجد (ڈھائی چ

آاتا تھا۔ اورکہتے تھے کہ رلو کا لفظ بہت اچ رلو ہاتھ کے پیمانے کوکہتے ہیں اب اس کا ذکر بھی اوردوربھی ختم ہوا ورنہ دیہات وقصبات میں بعض محاورات میں اچ

رلو پانی میں ڈوب مرو۔ اچ ڈیڑھ

آاتے ہیں۔ جیسے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا یا ڈھائی گھڑی کی، بننا، تجھے بن جائے ڈھائی ڈھائی گھڑی کی۔ یہ ڈیڑھ اورڈھائی بھی محاوراتی ، کلمات میں

عورتیں کو سننے کے طورپر محاورہ استعمال کرتی تھیں۔

’’ڈھائی دن کو جھونپڑا‘‘ دہلی کے خاص محاوروں میں ہے اس اعتبار سے ڈھائی چلو لہوپینا یا پلانا اس طرح کا محاورہ ہے جس میں ایک خاص انداز سے

معاشرتی فکر اورپیمانہ کا اظہار کیا جاتا ہے۔

آاتا مطلب ڈھائی گھڑی یا ڈھائی دن نہیں ہوتا ایک خاص مدت ہوتی ہے جس کی ناپ کا پیمانہ ڈھائی کومقررکیا جاتا ہے ۔ڈھائی دن کی بادشاہت اسی ذیل میں

ہے۔

(ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے۔۷)

ااٹھ گیا یا سایہ دیوار بھی ’’چھاؤں‘‘ ہمارے یہاں سایہ کوکہتے ہیں اورسایہ سرپرستی محبت اور عارضی حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے جیسے باپ کا سایہ سرسے

آایا ۔سایہ میں پڑا رہنا نکمے پن کو کہتے ہیں اپنا مارتا ہے توچھاؤں میں بٹھا تاہے ہاتھوں چھاؤں کرتا ہے۔ میسر نہ

آاتی ہے ادھوپ اسی چھاؤںکو ہم اپنے دن رات کے تجربہ کی روشنی میں چلتی پھرتی چھاؤں بھی کہتے ہیں کہ ابھی چھاؤں ہے توابھی دھوپ ہے اورجہاں جہاں

ابرے دن بھی گزرجاتے ہیں ظاہر کرنے کے ا ان کے’’ پینترے ‘‘بدلتے رہتے ہیں اچھے وہ بھی ہمیشہ نہیں رہتے اور وہاں وہاں چھاؤں توہوتی ہی ہے یہ الگ بات ہے کہ

ادھوپ چھاؤں کہا جاتا ہے۔ لئے چلتی پھرتی

ارچانا، ڈینگ مارنا۔۸) (ڈھونگ آاتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں آادمی اس طرح کی باتیں کرتا یا کام کرتا ہوا نظر ڈھونگ خواہ مخواہ کی بات کوکہتے ہیں اورجو

Page 130: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آاتا ہے اور ’’ڈینگ مارنا‘‘ ہوتی اس کو ڈھونگ رچانا کہتے ہیں کہیںکہیں یہ محاورہ ڈھونگ باندھنے کی صورت میں بھی سامنے آاتا ہے اس کی ایک اور شکل ہے یعنی جھوٹی سچی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا۔یہ وہی ہے جوہوا باندھنا کے معنی کے طورپر

غالب کا مصرعہ ہے۔ ہم بھی مضموں کی ہوا باندھتے ہیں(ڈھیل دینا، ڈھیلی ڈورچھوڑنایا کرنا، )ڈورڈھیلی کرنا(۔۹)

نظرانداز کرنا ہے اسی لئے محاورے کے طورپر کہا جا تا ہے کہ اس نے ڈھیل دے رکھی ہے ڈھیل دینا دراصل پتنگ بازوں کیآازاد چھوڑدیا اسی لئے ڈورڈھیلی کرنا اورڈھیلی ااسے ااسے اپنے کنٹرول میں نہیں رکھا بلکہ اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ

آازادی دینے کوکہتے ہیں جس میں نرمی برتنے کا مفہوم شامل ہے۔ اس سے ہمارے تہذیبی رویوں کو بھی سمجھا چھوڑنا غیرضروری زش نے توایک موقع پر یہ بھی کہا ہے ۔ جاسکتا ہے کہ ہم انتظام میں ایک گونہ سختی اورباقاعدگی کو ضروری سمجھتے تھے جو

ادرے ہاتھوں میں رہی ہے حکومت کی لگام اکھر ااس میں خلل پڑنے کا باعث ہوجاتا ہے اسی لئے زندگی یعنی حکومت کے لئے سختی لازمی ہے اورانتظام میں ذراسی بھی ڈھیل دینا اپل صرا ط کا سفر کرنا قرار دیا جاتا ہے جس کے لئے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ پگڈنڈی ہے جوتلوار سے زیادہ تیز اوردھار سے زیادہ کوآادمی ایسے گہرے کھڈمیں گرجا تا ہے کہ آاجاتی ہے تو باریک ہے اور ذرا سی توجہ اگرراستہ سے ہٹ جاتی ہے اورپیروں میں لغزش

وہاں سے واپسی نہیں ہوتی۔

٭٭٭

) ذ ) ردیف

اان کا مطالعہ باقاعدہ طورپر یہاں پیش نہیں کیا ’’ذ‘‘کے محاورہ کل چھ ہیں لیکن بہت معمولی طورپر شامل کئے گئے ہیں اس لئے اان کی ااسی سے ااس طرف منتقل ہوتا ہے کہ تمام حرفوں سے بننے والے الفاظ ایک ہی سی نوعیت نہیں رکھتے اور گیا ۔اس سے ذہن

اان کے استعمال میں بھی۔ آاتا ہے اور تعداد میں بھی فرق

‘‘ ر’’ ردیف 

(رات تھوڑی ہے �انگ بہت ہے۔۱)  سانگ ہمارے یہاں دیہاتی ڈرامہ بھی ہے جو ایک طرح سے ’’سوانگ‘‘ ڈرامہ ہوتا ہے یعنی گیتوں بھرا تماشہ اس کے علاوہ سانگااسے کہتے ہیں کہ یہ کیا سانگ بھرنا بھی محاورہ ہے لباس وضع قطع تبدیل کرنا۔ نمود ونمائش کے لئے جب ایسا کیا جا تاہے تو

راس کو سانگ کرنا واربھرنا بولتے ہیں اوراسی نسبت بھراہے یاوہ بہت ’’سانگ ‘‘بھرنے کا عادی ہے یعنی جھوٹی سچی باتیں کرتا ہے

Page 131: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

سے کہا جاتا ہے کہ ابھی توبہت سا’’سانگ ‘‘باقی ہے اوریہ بھی کہ رات تھوڑی ہے اورسانگ بہت ہیں۔ چونکہ پچھلی صدی عیسوی تک ہمارے یہاں سانگ ڈرامہ کا رواج بہت تھا اورکبھی کبھی توصبح ہوجاتی تھی اوران کا سلسلہ

راس محاورہ میں اشارہ کیا گیا ہے اورمراد یہ لی گئی ہے کہ وقت تھوڑا ہے کام بہت ہے۔ ختم نہیں ہوتا تھا اسی طرف (راجا اندرکا اکھاڑا۔۲)

راجا اندردراصل موسم کا راجا ہے۔ موسم کے ساتھ طرح طرح کے کام گیت ’’سنگیت‘‘ اورکھیل تماشہ ہوتے ہیں تماشہ کرنیوالی’’راس سے ایک طرح کی منڈلیاں‘‘ ہوتی تھیں وہ اکھاڑے کہلاتے تھے ہم اکھاڑا صرف کشتی ہی کے اکھاڑے کو سمجھتے ہیں

راندر کے اکھاڑے کی پریاں اورراجا غلط فہمی ہوتی ہے ۔ راجا اندرکا اکھاڑا پر یوں کے غول پر مشتمل ہوتا ہے اورکہا جاتا ہے راجہ اندر وہ شخص ہوتا ہے جس کے پاس بہت سی حسینائیںجمع ہوںاسی لئے مذاق کے طورپر یا طنزیہ انداز میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ

راندر بنے رہتے ہیں یہ محاورہ ہویا مذکورہ محاورہ دونوں سانگ وسنگیت سے متعلق ہیںدونوں کی ایک سماجی حیثیت ہے۔ راجا آانا، را�تہ یا ر�تہ ناپنا۔ راہ Pگانا، راہ پیدا کرنا وغیرہ۔۳) (را�تہ یا ر�تہ بتانا یا دیکھنا را�تہ پر

رستہ ہمارے لئے زندگی میں کوئی بھی کام کرنے کی غرض سے ایک ضروری وسیلہ ہوتا ہے۔ چاہے وہ چلنے کا راستہ ہو چاہے کامراس کے بارے میں سوچنا سمجھنا بھی ہوتا ہے اوردوسروں کی مددبھی درکار ہوتی ہے راس کو جاننا بھی پڑتا ہے کرنے کا سلیقہ طریقہ جوہمیں راستہ بتادیں طریقہ سکھلادیں وقت پرمناسب مشورہ دیدیں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ کوئی راستہ بتلائے اس لئے کہ اگرراستہ

غلط ہوگیا تومنزل بھی غلط ہوجائے گی اورمقصد پورا نہ ہوگا۔آادمی دوسروں کی اچھائیوں سے بھی واقف ہوتا ہے اوربرائیوں سے بھی کہ لوگ کچھ بتلانا نہیں چاہتے اور خود غرض لوگ غلط یہیں راستہ بتاتے ہیں یعنی مکاریوں سے بھرا کوئی مشورہ دیتے ہیں راستہ بتانا یا راستہ دکھانا صلاح ومشورہ دینا خلوص کی بات ہوتی ہےآادمی کبھی ٹالتا ہے کبھی بہانے بازیاں کرتا ہے کبھی مگر اسی میں ساری بدخلوصیاں انتقام کا جذبہ یا مکاری بھی شامل ہوتی ہے ابوجھ سے کام نہ اسوجھ رت حال کو سامنے لاتا ہے تاکہ جس کو غلط راستہ پر ڈالنا مقصد ہے وہ اپنی اپرفریب صور بہت دلچسپ اور

لے سکے۔رتحال کی طر ف اشارہ کرتے راستہ سے متعلق جومحاورے ہیں اورجن کے اوپردرج کیا گیا ہے وہ اسی دھوپ چھاؤں جیسی صور

راس سے آانا، راستہ سے بھٹکے جانا، راستہ بھول جانا یا بھلادینا سب اسی سلسلہ کے محاورے ہیں اور ہیں ۔راستہ نکالنا ، راستہ نکل رت حال سے کیا رشتہ ہے اوروقت وحالات اورماحول کا ہماری سماجی صورت حال سے اورماحول کیا رشتہ ہم اندازہ کرسکتے ہیں۔ کہ ہمارے محاوروں کا ہماری سماجی صور

ہے اوروقت وحالات اورماحول کے ساتھ ا س میں کیا تبدیلیا ںہوتی رہتی ہیں راستہ کو راہ بھی کہتے ہیں اوریہ محاورے ’’راہ‘‘ سے بھی وابستہ ہیں۔سدہائی ، رام کی کہانی، رام کی مایا ، رام Pیلا، رام کی بچھیا وغیرہ۔۴) سPوٹ،رام (رام رام کرنا )رام رام جینا( رام نام کی

آادمیوں کے نام’’ رام‘‘ کے نام پر رام کی مذہبی اورتہذیبی شخصیت ہمارے معاشرے میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ اورہندومعاشرے کی ایک سائیکی میں داخل ہے۔ گاؤں کے اورابرائیوں کا ایک علامتی کردار خیال کیا جاتا ہے’’ راون کی سیتا ‘‘’’راون کی نگری‘‘ یا راون کی لنکا اسی رکھے جاتے ہیں ’’راون‘‘ رام کے مقابلہ میں ایک دوسرا کردار ہے جس کو

نسبت سے محاوروں میں داخل ہوتی ہے۔امفت کامال ہے بڑی چیز ہے تم جتنی بھی چاہویہ دولت ’’رام ‘‘کویادکرنا نیکیوں کے سرچشمے کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے جیسے ’’رام رام کرو‘‘ رام بھلی کرے گا رام نام کی لوٹ

تمہاری بن سکتی ہے ۔

Page 132: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مصیبت کے وقت میں رام کی دہائی بھی دی جاتی ہے اورمصیبتوں بھری کہانی کو’’رام کہانی‘‘ کہا جاتا ہے ’’رام کتھا‘‘ بھی رام کہانی ہی ہے مگر اس کا مفہوم کچھ دوسرا ہے رامامحرکات کے ذریعہ محاوروں سے متعلق آانیوالے محاورے اس طرح اشارہ کرتے ہیں کہ ہماری زبان اورمحاوروں کے سرچشمہ میں کہاں کہاں میں کہاں کہاں ہیں اورکن سماجی کے نام پر

مفہوم ومعنی کے سلسلہ پیدا ہوتے ہیں۔یہ سب ’’رام کی مایا ‘‘ہے اسی معنیاتی سلسلہ کی طرف اشارہ کرنیوالے محاورہ ہے۔سر�تم یا افلاطون کا �الا۵) )

اا ڈھائی ہزار برس پہلے ایک فلسفی گزرا ہے جو’’ارسطو‘‘کا اان میں ایک افلاطون کا کردار بھی ہے جویونان کا تقریب ااترجاتے ہیں ذہنوں پر چھاجاتے ہیں۔ بعض کردار عوام کے دلوں میں رم حکمت اوردینی مسائل میں بھی رہنمائی کرتا رہا ہے ہمارے عوام کے دلوں میں یہ فلسفیانہ مسائل توکیا اترتے وہ افلاطون کو ایک بہت بڑی چیز استاد تھا۔ اس کا فلسفہ ہمارے یہاں عل

اان نفسیاتی رویوں سے رربرائی استعمال کرتے ہیں وہ افلاطون ہورہا ہے خود کو افلاطون کا سالاسمجھتا ہے یا افلاطون بناکر پھرتا ہے افلاطون کو ااسے بطو سمجھتے ہیں اوردوسروں کے لئے کوئی تعلق نہیں لیکن ہماری زبان ہمارے ذہن اورہمارے زمانے کے عام لوگوں کے پاس یہی تصورہے۔ ورنہ عام لوگ افلاطون کوکیا جانیں۔

آاتا ہے ویسے ہمارے یہاں بڑا پہلو ان رر مثال ارستم قدیم ایران کا ایک پہلوان تھا بہت بڑا بہادر جس کی حیثیت اب ایک اساطیری کردار کی سی ہوگئی ہے اوربہادری میں اس کانام بطو اورطاقتور سمجھتے ہیں اس کو’’ رستم زمان‘‘ خیال کرتے ہیں ’’گاماں ‘‘پہلوان کا خطاب ’’رستم‘‘ ہند تھا اب یہ ایک الگ بات ہے کہ افلاطون کی طرح رستم کا حوالہ بھی عوام کیرد بھی نہیں کیا جاسکتا آاسانی سے ر رہ عوام میں پڑی ہوئی بات کو آاپ کو’’ رستم کا سالا‘‘ سمجھتے ہیں افوا آاتا ہے کہ وہ بڑے رستم زماں بنے پھرتے ہیںیا پھراپنے زبان پر طنزکے طورپر

آائی ہوئی بات اس کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ ہماری سائکی میں اترگئی ہے نفسیات کا رصہ بن جاتی ہے اورجیسا کہ روزاشارہ کیا گیا ہے جومحاورہ میں کہ وہ توہمارے محاورہ کا حرصہ ہے۔ اجزبن گئی وہ تاریخ نہیں ہے افسانہ ہے لیکن سماجی سچائی کا ح

(رس مارے ر�ائن ہو۔۶) ’’رس‘‘ کا لفظ ہندی میں بہت بامعنی لفظ ہے اس کے معنی ’’لطف ولذت‘‘ کے بھی ہیں جذبہ واحساس کے بھی ،مشروبات )پینے( کی چیز میں اور مسموعات میں بھی یعنی جوہمآاواز’’ رس بھرا لہجہ‘‘ ایساپھل جس کا عرق میٹھا اورخوش ذائقہ ہوتا ہے وہ بھی رسال رسیلا اوررس بھرا کہلاتا ہے’’ رس بھری‘‘ ہمارے سنتے ہیں جیسے کانوں میں ’’رس گھولنا‘‘ رسیل

یہاں ایک پھل بھی ہے۔ ہندی میں مختلف جذبوں کو’’رس‘‘ کہتے ہیں جیسے ہانس سے ’’رس‘‘ وی رس نشر نگار رس یہاں اس محاورے میں ’’رس‘‘ کورساس کہا گیا ہے رسائن کے معنی ہیں۔ دوا علاج

ادکھ راس محاورے کے معنی ہوئے کہ اگروہ رس کا چھینٹا ماردے اچھی بات کہہ دے توجی خوش ہوجائے اورایسا محسوس ہوجیسے کسی رکھلائی پلائی جانیوالی اشیاء کی غرض سے ااردو میںمستعمل نہیں مگربہت اچھا ہے۔ درد کی دوامل گئی یہ خالص ہندوی محاورہ ہے

ا�ی جل Zئی پربل نہیں نکلا)Zیا(۔۷) ا�ی جل Zئی پربل نہیں جلا، یا ر (ررےوں کا تصورپہلے زمانہ میں نہیں تھا وہ اب کی بات ہے ایک اہم سماجی محاورہ ے ’’رسی‘‘ ایسے میٹریل سے بنائی جاتی ہے جوگل بھی جاتا ہے اورجل بھی جاتا ہے لوہے کی رس

آاتے تھے۔ اس مشاہدہ سے یہ محاورہ اخذکیا گیا کہ رسی جل گئی مگر بل نہیں گئے۔ اوراس کا اطلاق رسی جل بھی جاتی تھی تواس کے بل راکھ میں بھی نظر ایسی صورت میں اگررآاداب کو پسند کرنے کا طریقہ وہی رہتا ہے تویہ کہا جاتا ہے کہ رسی جل گئی آادمی دولت مندنہیں رہتا یا بااقتدار نہیں رہتا مگراس کے ناز نخرے یا ادب و ایسے موقعوں پر ہوتا ہے جب

مگربل نہیں گئے طورطریقے وہی رہے جونوابی کے زمانہ کے تھے یا افسری کے زمانہ کے تھے۔(رفوچکر ہونا۔۸)

اان دونوں سے جومحاورہ بناہے اس کے معنی غائب ہوجانے کے ہیں لفظی اعتبار سے غیرمعمولی محاورہ ہے کہ رفو اورشئے ہے چکر کچھ اور رفو کا چکر سے کوئی تعلق نہیں جب کہ ااسے رفو چکر ہونا کہتے ہیں یعنی آادمی سے متعلق کوئی کام کیا جا تاہے اوروہ اس سے پہلوتہی کرتا ہے۔ اوروہاں سے غائب ہوجاتا ہے تو اورعام طورسے استعمال ہوتا ہے جہاں کسی

کسی ذمہ داری سے بچنا اورغیرذمہ داری کے ساتھ نکل جانا۔(رکابی مذہب ہونا۔۹)

آادمیوں میں یہ دستور تھا کہ ایک ہی برتن میں سب کھاتے تھے یا پھرروٹی پر رکابی کھانے کی پلیٹ کو کہتے ہیں اورپلیٹ میں کھانا کھانا بڑی بات سمجھا جاتا تھا عام طورپر غریب اان کی خوشامدیں طرح طرح سے آاتے تھے اور رکھ کرکھاتے تھے اب جن لوگوں کے یہاں رکابی میں رکھ کر کھانے کا رواج ہوتا تھا اوراچھے لوگ سمجھے جاتے تھے ان سے لوگ قریب

کرتے تھے ایسے ہی لوگ خوشامد ی نہ کہلاکر رکابیہ مذہب کہلاتے تھے یعنی ان کا مقصد خوشامد ہے اوراس خوشامد کے طورپر یہ ان کے مذہب کی بھی تعریف کرنے لگیںگے۔رت حال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارے سماج میں لوگ مذہب کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں سمجھتے تھے بلکہ جیسا موقع ہوتا تھا اس کے مطابق مذہب اختیارکرلیتے اس صور

تھے ۔راسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے ’’جہاں دیکھا توا برات وہیں گزاری ساری رات‘‘ یعنی جہاں اپنا کام بنتا دیکھا وہیں کے ہورہے اورانہی کی ااردو میں ایک دوسری کہاوت ہے جو

سی بات کرنی شروع کردی۔(رگ پٹھے �ے واقف ہونا،رگ وریشہ میں پڑنا۔۱۰)

Page 133: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یہ محاورہ حکیموں یاپہلوانوں کاہونا چاہیے ۔ اس لئے کہ رگ پٹھوںسے واقف ہونا انہی کا پیشے کا تقاضہ ہے۔ لیکن ہماری سماجی زندگی میں بھی یہ محاورہ داخل ہے اوراس سے یہاچھپانا چاہتا ہے اسی کا جواب سماج کے دوسرے افراد کی آاپ کو طرح طرح کے نقابوں میں آادمی اپنے ظاہر کرنا مقصود ہوتاہے کہ میں ان سے اچھی طرح واقف ہوں۔ خوب جانتا ہوں۔

اچھپ سکتے ۔ داغ کا مصرعہ ہے۔ آاتاہے کہ وہ ہم سے نہیں طرف سے یہ وہ ہم سے بھی چھپیں گے وہ کہاںکے ایسے ہیں

آاتے ہیں کہ ہم توان کے رگ وریشے سے یارگ پٹھوں سے واقف ہیں یعنی ایک ایک بھیدجانتے ہیں۔ اوراسی لئے لوگ یہ کہتے نظر اچھپائے جاتے ہیں۔ مصلحتیں اسی میں ہوتی ہیں مگرعزیز وں رشتے داروں ملنے جلنے والوں یہاں تک۔ کہ پاس پڑوس والوں کی یہ اگردیکھا جائے توشخصی ، جماعتی یا خاندانی راز

خوشی اورخواہش رہتی ہے کہ وہ ایک ایک بات کو جانیں یہ ہمارا معاشرتی انداز نظر ہے ایک حدتک اورخاص خاص موقعوں پر یہ ضروری بھی ہوسکتا ہے لیکن معاشرہ میں اس رویہ کیعمومیت اچھی بات نہیں ہوتی۔

(رنگ چڑھنا، رنگ جمنا یا جمانا ، رنگ دیکھنا رنگ پھیکا پڑنا، وغیرہ۱۱)ااس کا الگ الگ ہونا فطرت کی دین ہے جنگلوں کارنگ پھولوں پھلوں رنگ ہمارا ایک تہذیبی لفظ ہے مختلف تہذیبی رویوں کے ساتھ رنگ وابستہ بھی ہوتے ہیں۔ رنگوں کا احساس اور کا رنگ پتھروں اورپانیوںکا رنگ ہمیں قدرت کی رنگا رنگی کا احساس دلاتا ہے رنگ بکھرنا رنگ پھیلنا رنگ اڑنا رنگ پھیکاپڑنا جیسے محاورے رنگ ہی سے وابستہ ہیں بعض محاورے

ااس کے ذہنی رویوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ ہماری معاشرتی زندگی اور رنگ جمانا ایسا ہی ایک محاورہ ہے کہ دوسروں میں اپنی کوشش خواہش اورعمل سے اپنے بارے میں ایک احساس پیدا کرنا۔ رنگ جمنا بھی اسی صورت کی طرف اشارہ کرتاہے

ااردو کا مشہور مصرعہ ہے ’’رنگ کے اور’’رنگ پھیکا پڑنا‘‘ بھی اوریہ بھی کہ ہم نے یہ رنگ بھی دیکھے ہیں یعنی ان کے یاکسی کے بارے میں ہماری نظرمیںیہ سب باتیں بھی ہیں بدل‘‘ جانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

آاسماں کیسے کیسے بدلتا ہے رنگ اس کا پہلا مصرعہ ہے۔

رن چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا زمییعنی زمانہ میں کیا کیا انقلاب ہوتے ہیں اورزندگی میں کیا کیا رنگ دیکھنے پڑتے ہیں۔ کن کن حالات سے گزرنا ہوتا ہے۔

(رنگ رPیاں منانا ، رنگیں مزاج ہونا۔۱۲)ااس سے مراد شوقین مزاج لیتے ہیں زندگی گزارنے کے کچھ مختلف طریقہ ہیں۔ سنجیدہ مزاج لوگوں کے کچھ ہم رنگیں طبیعت بھی کہتے ہیں مزاج بھی کہتے ہیںرنگین مزاج بھی اور

اورطریقہ ہوتے ہیں شوقین مزاج لوگوں کے کچھ اور وسائل کا فرق اس میں بہت کچھ دخل رکھتا ہے۔ مال دار لوگ یا جاگیردار اورزمین دار خاندانوں کے افراد اکثرعیش اورمزے اڑاتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں اسی کو ’’رنگ رلیاں منانا‘‘کہتے ہیں اب اس میں جاگیریں جائدادیں تباہ ہوجاتی ہیں خاندان مفلس ہوجاتے ہیں یہ ایک الگ بات ہے اور اس پر غیرسنجیدہ افراد

اورامیرزادے کوئی توجہ نہیں دیتے کہ کل کوکیا ہوگا۔ابرے نتیجے کیا نکلتے ہیں۔ راس سے ہم اپنے معاشرتی رویوں کا پتہ چلاسکتے ہیں کہ زندگیاں کیسے گزاری جاتی ہیں اوران سے اچھے

سروح نکلناوغیرہ۔۱۳) سروح نکاPنا ، سروح تھرانا یا کانپنا، سروح بھٹکنا، )ردی روت ہے جوبھیدوبھری ہے وہ کیا ہے اورکیانہیں ہے یہ کوئی نہیں جانتا مگراسی کے سہارے ہم زندہ رہتے ہیں اوراسی کے تقاضہ ہمیںاپنی ما اروح‘‘ ہمارے جسم میں وہ جوہر یاق ’’

ااسے روحانی طریقہ فکرکہتے ہیں۔ اروحانی اخلاقی اورمذہبی سوچ بنتی ہے جس سے نسبت کے ساتھ ہم ضرورتوں سے اوپراٹھاتے ہیں ہماری ایک انسانی اوراروح بدن سے نکل گئی تونہ کچھ تکلیف ہے نہ راحت ہے نہ زندگی ہے نہ قیام ہے نہ بقا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہمارا اروح کے ساتھ ہے ہمارا خوف دہشت تکلیف اورراحت سب

اگل سکتی ہے۔ اسی سے ہمارے بہت سے محاورے بنے ہیں۔ اروح ہے جونہ کٹ سکتی ہے نہ بدن یا جسم ناشورہے )فنا ہونیوالا ہے( اورباقی رہنے والی ااس کو سکون نہیں مل رہا ا س سے ایک خیال یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ مرنے کے بعدانسان کی روح بھٹکتی ہے مسلمان یہ اروح کے بھٹکنے کے معنی ہیں کہ انسان کا ذہن بھٹک رہا ہے

سمجھتے ہیں کہ وہ جنت یا دوزخ یا اعراف میں چلی جاتی ہے تصورات ہیں جو اعتقاد ات میں بدل گئے مگراس میں کوئی شک نہیں کہ روح کا ہم سے تعلق ہمارے بدن اورہماریررانا انتہائی آاگے بڑھ کر سماجیات کا ایک گہرا رشتہ ہے جس کی طرف مذکورہ محاورات اشارہ کرتے ہیں روح تھ ااس سے زندگی کے معاملات سے اس کا رشتہ انسانی نفسیات کا اور

خوفزدگی ہے سراسیمگی اورپریشانی کا عالم ہے۔بنقازملنا۔۱۴) (روغ

راس کا روغن ایک فرضی آاتاہے اورپھرواپس چلا جاتاہے۔ رادھر ااڑکر آابی پرندہ ہے۔ ایک خاص موسم میں رن قازملنا ایک عجیب وغریب محاورہ ہے ’’قاز‘‘جیسا کہ ہم جانتے ہیں ایک روغرنقاز ملنا ایک محاورہ بن گیا ہے اور اس کے معنی ہیں جھوٹ سچ بول کر یاخوشامدکرکے دوسروں کو بیوقوف بنانا اوریہی صورت حال بات معلوم ہوتی ہے خاص طورپر اس لئے کہ کہ روغ

ہمارے سماجی رویوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

Page 134: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

سرونگ میں بسنا، رونمائی دینا ، روتی صورت یا شکل رومال پر رومال بھگونا۔۱۵) سرونگ (رونگٹے یاروئیںکھڑے ہونا، ارونگٹے کھڑے ہونا سنسنی خیز ہونے کی ایک صورت ہوتی ہے جوایسی بعض محاورے سماجی زندگی سے اتنا تعلق نہیں رکھتے جتنا ان کا رشتہ ہمارے شاعرانہ طرز فکر سے ہوتا ہے

اان کے مظالم کی کہانیاں سنکر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں ۔ یاروم روم میں سنایا باتوں کو سن کر جوانتہائی دکھ درد والی ہوتی ہیں ہم جذباتی طور پر محسوس کرتے ہیں۔ جیسے آانکھیں نمک آامیز صورت کو پیش کرتے ہیں جیسے میری آائینہ دار ہوتے ہیں۔ اورتشبیہہ واستعارہ کی مبالغہ مرارونگٹا رونگٹا میرا حسان مندہے یا اس طرح کے محاورے شاعرانہ حیثیت کے

ااگلے گایہ ایک طرح کی شاعری ہے عمل ہے اوراس معنی میں محاورہ معاشرت کے اس تہذیبی پہلو سے رشتہ رکھتا ہے جس کا تعلق آاگ کھائے گا انگارے کی ڈلیاں بنی رہیں۔ یا ارونمائی دینا رسم ہے ’’دلہن کو منہ دکھائی دی جاتی ہے‘‘ اوردولہا کو سلامی اس طرح کے محاورے اوربھی ہیں جس کا تعلق بڑی حدتک ہماری سوچ سے ہماری شعروشعور سے ہے رق اعتراض ہوتا ہے ۔ ’’روتی صورت‘‘ یا مشکل رل گرفت یا لائ ہے طرز اظہار سے ہے ۔ تشبیہوں استعاروں سے ہے سماج کے کسی رویہ پر روشی ڈالنے سے نسبتا کم ہے جوہمارے لئے قاب

رت حال کی طرف اشارہ بھی ہے۔ رز بیان بھی ہے۔ اورایک صور ارونا ہے یہ ایک شاعرانہ اندا بھی ایسے ہی محاوروں میں ہے رومال پررومال بھگونا یعنی بہت ببلونا، ریت کی دیوار کھڑی کرنا۔۱۶) (ریت

راس سے مراد ایک بے تکی اوربے بنیاد بات کو اٹھانا اوراس پر زوردینا ریت ایک طرح کی شاعری ہے اس لئے کہ ریت جمتانہیں ہے۔ بکھرتا رہتا ہے ریت کی دیوارکھڑی ہوہی نہیں سکتی ریت کی دیوار کھڑی کرنا ہے۔

اامرت ریت پانی نہیں ہوتا پانی کو بھی ’’بلونے‘‘ سے کوئی فائدہ نہیں کہ جتنا چاہے پانی کو بلو نے کا عمل کرو نتیجہ کچھ نہیں۔ دیوتاؤں نے سات سمندروں کو’’بلوکر‘‘ بھلے ہی ادھول اٹھنے یا دھول اڑنے کے کوئی نتیجہ نہیں ہوگا اسی بے نتیجہ بات کی طرف اس محاورے میں اشارہ آادمی تونہیں نکال سکتا چہ جائیکہ ریت کو ’’بلویا‘‘ جائے ۔سوائے نکالا ہو

 کیا گیاہے۔ااس کے کچھ معنی بھی ہیں یا نہیں ۔ اتکی باتیں کرتے ہیں اوریہ نہیں دیکھتے کہ جوکچھ وہ کہہ رہے ہیں یاکررہے ہیں رش نظررہا ہے کہ لوگ بے سماج کا رویہ یہاں بھی پی

اان کے معنی کو زندگی کے مسائل ومعاملات سے جوڑکر دیکھیں توہم بہت کچھ نتائج اخذ کرسکتے ہیں۔ ریت کے ساتھ اوربھی محاورے ہیں جیسے’’ اگرہم محاورات پرنظر ڈالیں اور ریت مٹی ہونا‘‘ ریت کی طرح بکھرنا ریت کو مٹھی میں تھامنا اب یہ ظاہر ہے کہ زندگی کے تجربہ ہیں روزمرہ کے مشاہدہ ہیں کہ انسان کے نیک اعمال بھی اچھے کام بھی گاہ گاہ

ابوجھ کوبھی نہ سمجھی کوبھی جسے بے تدبیری کہنا چاہیے۔۔ اسوجھ ابرے نتائج پیدا کرتے ہیں اس میں تقدیر کو بھی دخل ہوسکتا ہے اورتدبیر کو بھی آاجانا۔۱۷) (ریوڑی کے پھیرمیں

’’ریوڑی‘‘ تل اورشکرسے بنی ہوئی ایک مٹھائی ہے اس کے لئے شکر کا قوام تیا رکرنا اورپھر اسے ایک خاص ترکیب اورعمل کے ذریعہ اس مرحلہ تک لانا جہاں اس سے ریوڑیاں بن جائیںااس بات کے معنی سمجھ سکتے ہیں کہ’’ ریوڑی‘‘ کے پھیرمیں پڑنا کس ایک محنت طلب اور دشوار مرحلہ ہوتا ہے جن لوگوں نے شکر کے قوام سے ’’ریوڑیاں‘‘ بنتی دیکھی ہیں وہ آاج کل ریوڑی کے پھیرمیں پڑا ہواہے۔ راس محاورے سے تعبیر کرتے ہیں کہ وہ تو طرح کے پیچیدہ عمل سے گزرنا ہے جس کو سب سمجھ بھی نہیں سکتے عام طورپر دشوار عمل کو

(ریشم کے Pچھے۔۱۸)اگداز شے ہے خوبصورت بالوں کوبھی ریشم کے لچھے کہتے ہیں اوراسی طرح سے خوبصورت اپرکشش نرم اور ’’ریشم کے لچھے‘‘ ایک خاص طرح کا شاعرانہ انداز ہے ریشم خوبصورت باتوں کو بھی اگرہم اس سچائی کو سامنے رکھیں تویہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ محاورے ہمارا شعوربھی ہیں اوران کا تعلق شعریت سے بھی ہے کہ محاوروں میں تشبیہہ استعارہ اورکنایہ

اان کا تعلق گاہ گاہ ہماری شعری حیثیت سے ہوتاہے۔ جوکام کرتے ہیں

‘‘ ز ’’ ردیف 

( زارزاررونا‘ زاروقطاررونا‘ زارونزار۔۱) ااسے ’’زاروقطار‘‘ رونا کہاجائے۔ آانسوبہیں تو آانکھوںسے رز نظرہے کہ بے اختیار یہ بھی ایک طرح کی شاعری ہے یا شاعرانہ اندا

ااسی سے ’’زار زار‘‘ اورقطار‘‘ کوشامل کرتے ہوئے زار وقطار رونا کہا گیا ہے۔ جیسے رریدن ‘‘کے معنی فارسی میں رونے کے ہیں ’’زاآانسوبہ رہے ہوںاورمسلسل رونے کاعالم ہو۔ ’’گریہ بے اختیاربھی ‘‘کہتے ہیں یعنی جب رونے پر کوئی قابونہ ہو اورعالم بے اختیاری میں آاپ کو سنبھال بھی نہ سکے راس میں تاب وتواں نہ رہے وہ اپنے آادمی کوکہتے ہیں جب ’’زارونزار‘‘ اس کے مقابلہ میں بہت کمزور

آاتے ہیں۔ اان کی حالت توبہت ہی زار ہے وہ زارونزار ہورہے ہیں۔یا ’’زارونزار‘‘ نظر کہ ( زبان بدPنا پلٹنا ،زبان بگڑنا ، زبان بندکرنا، زبان بندہونا، زبان بندی کرنا، زبان پرچڑھنا ، زبان پکڑنا ، زبان تڑاق۲)

Page 135: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

پڑاق چلنا، زبان چلنا ، زبان درازی کرنا، زبان چلائے کی روٹی کھانا، زبان دا5 کے کچھ کہنا ، زبان داں ہونا۔ زبان دینا، زبان روکنا، زبان �مجھنا، زبان نکاPنا ، زبان دینا، زبان روکنا، زبان �مجھنا، زبان نکاPنا، زبان �نبھاPنا، زبان کو Pے Zئی، زبان کا چٹخارے Pینا، زبان کے نیچے زبان ہے۔ زبان میں کانٹے پڑنا، زبانی جمع خرچ کرنا، زبانی منہ بات

سZدھی �ے کھینچ Pینا، وغیرہ وغیرہ۔ بھسنا‘زبان Z ہونا، زبانااس کا ہمارے ذہن ہماری زندگی سے گہراتعلق ہوتا رت گویائی کی علامت ہے ہم جو کچھ کہتے ہیں اورجتنا کچھ کہتے ہیں زبان قو

ہے۔ دوست ودشمن تواپنی جگہ پرہوتے ہیں لیکن تعلقات میں ہمواری اورناہمواری میں بہت کچھ زبان کے استعمال کو دخل ہوتاہےرفقرہ کہاجائے کس طرح کہا جائے اورکس موقع پر کہاجائے۔ کہ کون سا

آاجاتاہے کہہ اھوہڑ)بدسلیقہ( ہوتے ہیں اورالفاظ کے چناؤ میں احتیاط نہیں برتتے جومنہ میں لوگ زبان کے استعمال میں عام طورپر پاان کے ہاں ہوتا ہی نہیں یہی تکلیف کا باعث بن جاتاہے ابرے استعمال پرنظر داری کا رویہ جاتے ہیں زبان روکنے اورزبان کے اچھے

رگرہ پڑجاتی ہے یہ زبان کے صحیح اورغلط استعمال سے ہوتا ہے ۔ ابرے ہوجاتے ہیں دلوں میں ردل اوراچھے آادمی محفل میں باتیں کرتا ہوا زیادہ اچھا لگتا ہے اوراپنی میٹھی زبان کے استعمال میں لب ولہجہ کو بھی دخل ہوتاہے اورشیریں بیان

زبان کی وجہ سے پسند کیاجاتا ہے خوش لہجہ خوش گفتار ہونا خوش سلیقہ ہونا بھی ہے۔اھردارپن ہوتا ہے ایسے لوگ اکھڑ کہلاتے ہیں یہ کہنے کی اب یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگوں کی زبان اورلہجہ میں بے طرح ک

ران محاوروں پرغور کیا جائے جو زبان اور ضرورت نہیں کہ زبان کااکھڑپن ذہنی ناگواری دلی طور پر ناخوشی کا باعث ہوتا ہے۔ اگر اجداگانہ بات ہے آاجاتی ہے۔ اب یہ رز بیان سے متعلق ہے تو ہماری سماجی زندگی کی بہت سی نارسائیوں کی وجہ سمجھ میں طر

ابرے نتائج کی طرف ااس کے اچھے اان محاوروں میں اشارے موجود ہیں یہ گویا ہمارے کہ ہم غور وفکر کے عادی نہیں ہیں زبان کے استعمال اور

اان سے بھی کوئی فائدہ اٹھانا نہیںچاہتے ۔ یہ بہر حال ہمارے سماجی رویہ کی بات ہے لیکن ہم نے آائینہ داری کرتے ہیں۔ ہم اپنے تبصرے ھیں جو ذہنی تجزیوں اور معاشرتی تجربوں کی آاگئے۔ لوگوں کو کہا رسر راس سے زبان کے تہذیبیاتی مطالعہ کے بعض نہایت اہم پہلو می اس کا احساس کیا اور محاورات میں اپنے محسوسات کو محفوظ کردیا ۔ یہ بڑی بات ہے اور آاوازیں صحیح طورپر اپنی زبان سے ادا نہیں کرسکتے بعض لوگ برابر بولے جاتے ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ ان جاتاہے کہ ان کی زبان ٹوٹی نہیں یعنی یہ دوسری زبان کے الفاظ یا

آاس پاس کے لوگوں سے بہت خطرے میں رہتے ہیں ان کو بتیس دانتوں کے بیچ میں رہنے والی زبان سے تشبیہہ دیتے ہیں کچھ لوگ اپنی بات کہنا کی زبان تالوسے نہیںلگتی بعض اپنے آاتے ہیں۔ چاہتے ہیں وہ یہ کہتے نظر

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوںادعا کیا ہے کاش پوچھو م

زب( )غالآاتے ہیں۔ زغ کی طرح یہ کہتے نظر بعض لوگوں کواپنی زبان دانی پرفخر ہوتاہے اوروہ دا

زغ ااردو ہے جس کانام ہمیں جانتے ہیں دا ادھوم ہماری زباں کی ہے سارے جہاں میں

آاورکہلاتے ہیں بعض لوگوں کی زبان میں بہت تلخی اورکڑواہٹ ہوتی ہے وہ کڑوی زبان والے کہلاتے ہیں اسی طرح زبان کے بارے غرض لوگ اپنے سامنے کسی کوبولنے نہیں دیتے وہ زبان اان پرتبصرہ دوسروں کی طرف آاتے ہیں اور میں بہت سے محاورات کا لمباسلسلہ ہے جس میںکسی نہ کسی لحاظ سے زبان کا اپنا اسلوب اظہارطریقہ گفتگواورزبان پر قدرت کے پہلوسامنے

ااردو کا ادوردیا جاتاہے رن استعمال کا ہوتا ہے اورلطف زبان پر احس سے ہوتا ہے اورایسے ہی فقرہ زبان کے بارے میں ہمارے یہاں بہت ملتے ہیں یہ شاعری میں توزیادہ کھیل ہی زبان کے شعرہے۔

Page 136: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

رت صہبا صحیح مگراے شیخ یرم احر رن بیاااس کا مزہ نہیں جاتا تری زبان سے

آاتی رہتی ہے ۔ راس طرح بیان کی داد دیتے ہیں زبان وبیان کی بات توہماری زبان پر بہت سے شعروں کوہم زبان کی خوبصورتی کے اعتبار سے زبان کا شعرکہتے ہیںاورگفتگوریختہ میں ہم سے نہ کر

 یہ ہماری زبان ہے پیارےزر( )می

(زبانی جمع خرچ کرنا۔۳)اان میں زبانی جمع خرچ اس معنی میں بے حداہم ہیںکہ جمع اورخرچ صرف ’بہی کھاتہ‘ کی چیز نہیں ہم دلوں میں بھی ہماری زبان میں جوسماجی حیثیت رکھنے والے محاورے ہیں آاتے ہیں کہ کوئی کہیں سمجھ لے اورکوئی کہیں اوریعنی ایک دوسرے کے عمل کو پیش رب دوستاں دردل اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے ہم یہ کہتے بھی نظر حساب رکھتے ہیں‘‘ حسا

نظر رکھو اورکسی نے ہمارے ساتھ نیکی اورخوش معاملگی برتی ہے توہم کوبھی برتنی چاہےئے۔اھلانہ دیں تومعاشرہ میں نیکیاں بڑھتی رہیں۔ ہم اسی کو ہماری ایک سماجی کمزوری یہ ہے کہ ہم دوسروں کی نیکیوں کا حساب نہیں رکھتے اگریہ بھی ذہن میں رکھیںاوردل سے ب

ابرائیاں بڑھ جاتی ہیں۔۔ بعض لوگ کچھ کرنے کے عادی نہیں ہوتے بس کہنے سننے کی حدتک ہی ان کا بھلادیتے ہیں نتیجہ میں اچھا سلوک اوراچھا معاملہ کم سے کم ہوجاتاہے اوریی کرتے ہیں مگر عمل کبھی نہیںکرتے۔ اان کے یہاں توبس زبانی جمع خرچ ہے، وہ محض کہتے ہیں دعو معاملہ رہتا ہے ایسے لوگوں کے لئے کہا جاتا ہے اورصحیح کہا جاتا ہے کہ

بزچ ہوجانا۔۴) بزچ کرنا، )یرصہ لیتا ہے کہ ہم کبھی کبھی غیر ضروری طورپر دوسروں کے پیچھے پڑتے ہیں یا پیچھے لگ جاتے ہیں اوریہ خیال نہیں یہ ہماری سماجی ’’برائی ہے جس میں شخصی مزاج بھی ح

آادمی پہلے ناگواری کے ساتھ لیتا ہے اورپھرناقابل برداشت کرتے کہ دوسرا ہماری وجہ سے پریشان ہورہا ہے بلکہ اپنے ارادے اپنی خواہش اورخوشی کے زیر اثرزچ کرنا کہتے ہیں اس رویہ کو ااس کا کوئی مقصد ہوتا بھی نہیں ۔ قرار دیتا ہے اورٹھکرادیتا ہے۔ واقع یہ ہے کہ پریشان کرنے کے علاوہ

سکریدنا، زخموں پرخاک ڈاPنا، زخم پہنچانا، یا پہنچنا، زخم۵) سھڑکنا، زخم ہرا ہونا، زخم تازہ ہونا، زخم کھانا، زخموں کو (زخم Pگنا، زخم Pگانا، زخم پر نمک چساٹھاناوغیرہ۔

رذہنی وجود سے بھی زخم لگتابھی ہے گہرابھی ہوتا ہے بھرتا بھی ہے’’ لہو‘‘رونا اورخشک ہونا زخم سے متعلق بہت سے محاورے ہیں جن کا رشتہ ہمارے جسمانی وجودسے بھی ہے اورااس کے معنی اورمعنویت میںنئی گہرائی اورگیرائی )وسعت( پیدا بھی زخموں سے وابستہ ہے ان تجربوں کو انسان نے یا ہمارے معاشرے میں اپنی نفسیات اورسماجی عمل سے وابستہ کیا

ہوگئی۔راس پر ہم غورنہیں کرتے۔ زخم لگنا یا زخم لگانا زخم دوسروں کا عمل ہمارے لئے اورہمارا عمل دوسروں کے لئے تکلیفوں کا باعث بنتا ہے ہماری اپنی غلطیاں بھی اس میںشامل ہوتی ہیں

ااس پر ااسے ریکارڈ کیا یرصہ بنتا ہے بڑی بات یہ ہے کہ ہم نے ردعمل کا ح پہنچانا ، زخم اٹھانا زخموں کو پالنا اورزخموں کا ہرا ہونا ہماری نفسیات اوردوسروں کے عمل اوررCommentافہ اخلاقیات مذہب اورروایت ہمیں روشنی رن فلس راس کے باوجود نہیں کی کہ قانو ااس سے بچنے اوربچانے کی کوشش نہیں کی اور کئے اب یہ سماجی برائی ہے۔ کہ

اان کی اان سے کوئی سبق لینے کے بجائے آاگاہ کررہا تھا نتائج سامنے تھے لیکن ران نشیب وفراز یا موڑدرموڑراستوں سے ادورتک اوردیر تک انسان کے معاشرے کو دکھلارہے تھے اور تجربہ طرف سے غفلت کو زیادہ پسندیدہ عمل قراردیا گیا وہی ہوا اوروہی ہورہا ہے۔

سدورہے ، زمین یا دھرتی پھٹ جائے۔۶) آا�ماں آا�مان کا فرق ہونا، زمین پرپاؤں رکھنا، زمین کوپکڑنا، زمین دیکھنا ، زمین �خت بملانا، زمین سقلابے آا�مان کے (زمین اورمیں �ماجاؤں زمین کا پاؤں کے نیچے �ے �رک جانا، زمین کا پیوند ہوجانا، زمین میںگڑجانا، زمین ناپنا۔

اا زندہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے وہ کھیتی کرتا ہے توزمین چاہےئے راستہ چلتا بھی ہے توزمین ہی کے ذریعہ ممکن ہے مکان بھی زمین پر بنتے ہیں کارخانے بھی زمین غالباان میں زمین مسافر خانہ بھی غرضکہ انسان کی ہزار ضرورتیں زمین سے ہی وابستہ ہیں مرنے کے بعد بہت سی قومیں زمین ہی میں گاڑھتی ہیں ۔ زمین سے متعلق بہت سے محاورات ہیں

راس آادمی جو رملانا، ایسی باتوں کوکہتے ہیں جس کا کوئی سرپیر نہیں ہوتا اورایسا اقلابے آاسمان کے آاسمان ایک کردینا بھی ہے یعنی بہت ہنگامہ برپا کرنا یا حدبھرکوشش کرنا۔ زمین ااس کی بات پر کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ طرح کی باتیں کرتا ہے و معاشرے میں جھوٹا فریبی اور دغاباز سمجھا جاتا ہے

اان فاصلوں کو نظر میں نہیں رکھتا کہ وہ جوکچھ کہہ رہا ہے وہ صحیح بھی ہے آادمی آاسمان کوقلابے ملانا جھوٹی باتیں کرنا ہوتا ہے کہ آاسمان میں بہت فاصلہ ہیں اسی لئے زمین زمین

اان کے لئے طنزکے طورپر کہا جا تا ہے۔ کہ وہ توزمین پر پاؤں نہیںیا نہیں زمین پرپاؤں نہ رکھنا یہ توخیرممکن ہی نہیں لیکن جولوگ بڑے نازنخرے سے بات کرتے ہیں رکھتے۔

اان کا پاؤں زمین سے نہیں لگتا یا ا ان کے راستہ میں توفرش فروش بچھے ہوتے ہیں اور امراد ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ اب اس سے دوباتیں

Page 137: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

بچھاتے ہیں ۔زیادہ نازونزاکت والے انسان کوبھیRed Carpetنہیں پڑتا اب بھی شادی بیاہ کے موقع پر سرخ رنگ کا قالین رھل جاتے ہیں یہ فرش زمین پرکیوں پاؤں رکھنے لگے۔ رش مخمل پربھی چ رر طنز کہتے ہیں کہ ان کے پاؤں توفر بطو

آاسمان ااس کے لئے سخت ہوگئی اور اکن ہوجاتا ہے توکہتے ہیں زمین ااس کا ماحول بہت تکلیف دے اور مایوس جب انسان کے لئے آاسمان میں اس کے لئے کوئی آاسمان کے نیچے پناہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ زمین ااسے زمین پر جگہ ملتی ہے اورنہ ادوریعنی نہ آایا ہے آادمی کو نیچا دکھانا ہے اورغالبایہ پہلوانوں کے فن سے جگہ نہیں ہے ۔ زمین پکڑی نہیں جاسکتی اورزمین دیکھناکسی کشتی کے فن میںکسی کو زمین پر گرادینا یا زمین پکڑوادینا بھی بڑی کامیابی کی بات ہوتی ہے۔ اسی لئے زمین پرما تھا ٹیکنا

اابھرتا ہے اورماتھا ٹیکنے کا بھی۔ ررعاجزی ہے اسی سے فرشی سلام کا تصور اظہا زمین ہمیشہ ہمارے پاؤں کے نیچے ہے اوراسی طرح بے حد مصیبت اورپریشانی کے عالم میں یہ کہتے ہیں کہ پاؤں کے نیچے سے

زمین نکل گئی یعنی اس کا کوئی موقع نہ رہا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا رہے اوراپنی کوشش پراعتماد کرسکے۔ زمین کا پیوندہوجانا مرجانا اورزمین میں دفن ہوجانا مرنے والوں کے لئے کہا جاتاہے جواظہار کا ایک شاعرانہ سلیقہ ہے پیوندیوں بھی ہمارے معاشرے

اورسماجی زندگی کا ایک خاص عمل تھا اوراکثرغریبوں کے کپڑوں میں پیوند لگے رہتے تھے اورعورتیں کہا کرتی تھیں بی بی پیوندتوہماری اوقات ہے۔

اادھر پھرنا جس کا کوئی مقصدنہ ہو اسی پرطنز سے کہا جاتا تھا کہ وہ توزمین ناپتا پھرتا ہے یا جاؤ زمین ناپویعنی رادھر زمین ناپنا کچھ بھی کرویہاں سے ہٹ جاؤ زمین میں گڑجانا حدبھرشرمندہ ہونا اوریہ محسوس کرنا کہ وہ اب منہ دکھلانے کے لائق نہیں ہے

ااس میں سماجا آادمی کی یہ خواہش کرنا کہ کسی طرح زمین پھٹ جاتی اوروہ اسے توزمین میں گڑجانا چاہےئے یا اسی حالت میں تا۔

اان کی ہمارے معاشرتی زندگی میں جومعنویت ہوتی ہے محاوروں کے یرسیات محاوروں میں جومعنی پیدا کرتی ہیں اور ہماری سماجی حران سماجی حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ راس طرح کے محاورے اامور کی طرف ذہن منتقل ہوتاہے۔ اور اانہی مطالعہ سے

(زنانہ کرنا۔۷)یرصہ اورکچھ خاص طبقوں کی نمائندگی کرنیوالے محاورے ہیں مسلمانوں اورایک مردانہ ہونا، ہماری معاشرتی زندگی کے ایک خاص ح حدتک ہندوؤں سکھوں اورخاص طورپر راجپوتوں عورتوں کا انتظام الگ کیا جاتا تھا جومردوں سے الگ ہوتا تھا ایسا اب بھی کیا جاتا

ہے مگرپابندی کم ہوگئی ہے۔ اسی کوزنانہ کرنا کہتے ہیں۔ ’’زن‘‘ کے معنی فارسی میں عورت کے ہیں اسی سے ہمارے ہاں زنانہ لباس زنانہ محاورہ اورزنانہ زیورات جیسے الفاظ استعمال ہوتےراس کے مقابلہ میں مردانہ لفظ استعمال ہوتاہے۔ اورمحض مردانہ کہہ کرمکان کا وہ حصہ مراد لیا جاتاہے جہاں مردوں کا اٹھنا ہیں

ااسی کومردانہ کہتے ہیں۔ اجلنازیادہ ہوتا رملنا بیٹھنا اوررلی پنجابی زبان میں زنانی عورت کو بھی کہتے ہیں اورزنخہ ہجڑوں کوکہا جاتا ہے زناخی وہ عورت جس میں’’ ہجڑہ پن‘‘ ہویہ لفظ د

اورلکھنؤمیں رائج رہاہے۔

Page 138: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

بہلانا، زنجیر کھڑکانہ۔۸) (زنجیرکرنایا پکڑنا، زنجیر راس کو بیڑی ڈالنا بھی کہتے ہیں۔ بیڑی پہنانا بھی۔ زنجیر سے متعلق بہت سے محاورے ہیں پیروں میں زنجیرڈالدی یعنی قیدکرلیا۔

زرکاشعرہے۔ ’’زنجیرکرنا ‘‘فارسی محاورے کاترجمہ ہے۔ جہاں زنجیر کردن کہا جاتا ہے می

آائی دیوانے کی خبرلو بہار اگر زنجیر کرنا ہے توکرلو۔

ہے۔ بھی فریادکرنا لئے کے انصاف امراد سے ہلانے زنجیر ہے بجانا اکنڈی کی دروازے کھڑکانہ زنجیر یا زنجیرہلانا زنجیرنہیں میں پاؤں مرے چکرہے ایک

راس کا ذکرکیا ہے جنون شدید جذبہ کے عالم میں ذہن پرطاری ہوتاہے اوردل ودماغ اھوما کرتا ہوں یہ جنون کا عالم ہوتاہے اورشاعروں نے اسی معنی میں یعنی قیدکی حالت میں بھی برابرگہے۔ کوملتی دیکھنے کیفیت یہ بھی میں جانوروں رہتے نہیں قابومیں

ہونا۔۹) تلخ زندZی یا آانا تنگ �ے (زندZی ااس سے بھی تنگ ہوجاتاہے اورمعاشرے کے رویہ کو اس میںاکثر دخل ہوتا ہے یا پھرشدید آادمی ایک نفسیاتی کیفیت ہے جوانسان پرطاری ہوتی ہے زندگی جوعزیز ہوتی ہے پیاری ہوتی ہے ہے۔ ہوگئی تواجیرن زندگی میری کہ ہے اورکہتا ہے۔ ہوتا پریشان کر دیکھ نہ علاج کوئی آادمی میں جس ہے ہوتی بیماری

کاوقت۔۱۰) (زوال آاتاہے۔ رگراوٹ کازمانہ ادھندلکا چھاجانے کا ماحول شروع ہوجاتا ہے ۔قوموں کی زندگی میں جب اسورج کے ڈوبنے سے پہلے کا وقت زوال کا وقت کہلاتا ہے جب سایہ ٹہرنے لگتے ہیں ہے۔ رشتگی ہم سے تاریخ کی اورقوموں سے سماج کی محاورے راس یہی اور ہے ہوتا وقت کا زوال تووہ ہیں بچھڑجاتی میں کاموں اپنے اوروہ

بخشناوغیرہ۱۱) زورمارنازور زورپکڑنا، زوردینا، زورچلنا، (زورپڑنا، راس بات کا بہت زورشورہے۔ آاج کل ادو میں زورکے ساتھ بہت سے محاورے بنتے ہیں اس میں زور وشورہونا بھی ہے راسی سے زوردار لفظ بناہے۔ زور داری بھی ار ’’زور‘‘قوت کوکہتے ہیںراصرار کرنا زورچلنا آاج کل کانگریس کا زورہے یاپھرفلاں پارٹی کا زورہے زوردینا کسی بات پر ااس کی طرف متوجہ ہے۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ راس سے پتہ چلتا ہے کہ عوام زیادہ ترگیاہے۔ کہا میں مصرعہ راس جیسا ہے جاتا کوکہا قابوپانے

پر گریباں ہے آاخرزورچلتا تو بھی ہمارا ااس نے بہت زورمارا یعنی اپنی بات یا اپنے معاملہ پر زوردیا۔’’ زورداری‘‘ سے زورپکڑنا جیسے بارش نے زورپکڑا اورسماجی طورپر یہ کہتے ہیں کہ مخالفت نے زورپکڑا دشمنی نے زورپکڑا ٹوٹنا بھی شامل ہے۔’’ اورزور ااس میں زوربڑھنا ردعمل کو پیش کرتے ہیں اور ر رفقرہ ہیں جومعاشرتی عمل ااس کی بات توزوردار ہے یہ سب ہمارے سماجی یا ’’زورداری‘‘ دکھائی کہا ہے۔ مصرعہ یہ شاعرکا زی نثارنام جیسے ہے دینا طاقت کو ‘‘کسی زوربخشنا

نثار ‘‘ہے زوربخشا وہ’’ ررکرارنے حید اپنازور دکھاتا ہے اگردیکھا جائے تویہ سب محاورے سماجی نفسیات کوپیش کرتے ہیں۔ ’’زوردکھانا‘‘ اپنے زیادہ طاقتور ہونے کواپنی بات چیت یا عمل کو پیش کرنا وہ خواہ مخواہ

ہوا۔۱۲) بجھا زہرمیں پینا، �اZھونٹ کا زہر ہونا، زہرا5 زہرچڑھنا، زہرپلانا، پینا، زہر زہرکھانا، ، ساZلنا (زہر زہرہلاکت پیدا کرنیوالی یا ہلاکت دینے والی شے کو کہتے ہیں اورسماجی زندگی میں تلخیاں پیدا کرنیوالی یانفسیات کو بگاڑنے والی کسی بھی بات کو زہرسے تشبیہہ یا نسبت دیتےااس کوزہرمارکرنا کہتے ہیں زبردستی کسی سے کوئی بات منوانا یا کسی بات پر صبرکرنا زہر جیسے گھونٹ پینا کہا جاتاہے۔ زہردیکرمار رل نخواستہ کرتا ہے آادمی باد ہیں جوبات یا جوشئے

ااسے بھی زہر مارناکہتے ہیں۔۔ زہرکا مز ہ چکھنا یازہر چکھنا بھی اسی طرح کا محاورہ ہے زہرہونا توسکتے ہی ہیں مگرناگواری کے عالم میں اگرکوئی چیز کھائی جاتی یا پی جاتی ہے ااس کو زہرکھانا کہتے ہیں میرے دشمن اس بات پر زہرکھاتے ہیں ’’زہراب ہونا‘‘ بھی اورزہر لگنا بھی کہ اس کی بات مجھے زہرلگتی ہے جب کوئی کسی پربہت رشک یا حسدکرتا ہے تو پانی میں زہرملنا ہے یا کسی بھی پینے کی شے کا’’زہرناک ‘‘یا حدبھرتلخ ہوجانا ہے جیسے چائے کا گھونٹ بھی مجھے زہراب ہوگیا‘‘ یا یہ شراب نہ ہوئی زہراب ہوا ایسے شربت کوبھیہوں۔ سمجھتا اب توزہر میں ’’زہر میںبجھا‘‘ ہوا ہونا بھی زہر جیسی کیفیت کو اپنے ساتھ رکھنا جیسے زہر میں بجھے ہوئے نشترزہرمیں بجھے ہوئے تیورزہرمیں بجھے ہوئے تیرجب کسی ہتھیار کو اس غرض سے زہررملا ہوتاہے اورزہریلے بول کہتے ہیں میں بجھایا جاتا ہے کہ اس کا زخم پھراچھا نہ ہو تووہ جنگ کا نہایت اذیت ناک طریقہ ہوتاہے انسانی نفسیات کے اعتبار سے بول بات میں بھی زہر

Page 139: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

کرتاہے۔ ادا کردار علامتی ایک طورپر غیرمعمولی لئے گفتگوکے اورہماری ہے بھی استعارہ سماجی ایک زہر میں معنی راس

کو۔۱۳) اپنے دینا زیب کرنا۔ تن زیب )ھیں۔ آاتے نظر کہتے یہ ہم اور ہے محاورہ ایک دینا‘‘ ’’زیب ویسے ہے، ہوتا بھی کرنا‘‘ تن ’’زیب اور دینا زیب مقصد ایک کا پہننے لباس

کہیے قدراچھا جس اسے ہے دیتا زیب آاپ کو زیب نہیں دیتی اوراچھا لگنے والی شے کودیدہ زیب کہتے ہیں ’’تن زیب‘‘ ایک کپڑے کا نام بھی ہے اورایسے اورجب بات غیرموزوں اورنامناسب ہوتی ہے توکہتے ہیں کہ یہ بات کہلاتاہے۔ تن زیب وہ ہے پھبتا لباس پر بدن کے آادمی اورجس ہے لگتا پراچھا جوجسم ہیں کہتے زیب‘‘ تن کوبھی’’  لباس

ااس کوپازیب کہتے ہیں۔ آاتاہے اورایک ایسے زیور کو جوپیروں میں پہناجاتاہے اورپیروں کو سجاوٹ بخشتا ہے ’’زیبائش‘‘ سجاوٹ کے لئے

‘‘ س’’ ردیف 

ہوکرنکلنا۔۱)  دھار رکھنا،�ات کر سھپا چ تاPوںمیں �ات یا پردوں، �ات ) سات کا عددہماری تہذیبی زندگی اورتاریخی حوالوں میں خاص اہمیت رکھتا ہے اس میں مذہبی حوالہ بھی شامل ہیں ۔ ہم ساترس قزح )دھنک( کے سات رنگ کہتے ہیں۔ سات ستارے آاسمان کہتے ہیں سات بہشتیں کہتے ہیں ۔ سات سمندرکہتے ہیں قوراس کو اگرہم محاورات میں دیکھتے ہیں توہمیں اس کا مزید احساس ہوتاہے کہ رفکرکاحصہ ہیں کہتے ہیںیہ سب گویا ہماری سماجی سماجی زندگی سے سات کا عددکس طرح جڑا ہوا ہے کوئی چیز تالوںمیں بند کی جاتی ہے توایک سے زیادہ تالے لگائے جاتے ہیں کہتے ہیںلیکن محاورے کے طورپر سات تالوںمیں بندکرنا کہتے ہیں اوراس طرح کہتے ہیں اوراس طرح پردوں کے ساتھ سات پردےااس سے سماجی فکر کو سمجھنے میں کہتے ہیں۔ مقصدتاکید اورزیادہ سے زیادہ توجہ کی طرف ذہن کو منتقل کرانا ہوتا ہے اور۔ ہے مددملتی ااس کے محاوروں میں شامل ہونے آاتی رہتی ہے اور اجزبن جاتی ہے تووہ ہمارے لسانی حوالوں میں جب کوئی بات ہماری نفسیات کا کے یہ معنی ہیں کہ وہ ہماری نفسیات میں گہرا دخل رکھتی ہے اصل میں لٹریچر کا مطالعہ سماجی نقطہ نظر سے یا ایک معاشرتی ڈکشنری کے طوپر نہیں ہوتا ورنہ محاورہ صرف زبان کا اچھا قدیم رویہ نہیں ہے جوفرسودہ ہوچکا ہو یہ صحیح ہے کہ ہم شہری زبانلیکن محاورہ سماج کو اہمیت ہے زبان میں ضرور محاورے کی اورطبقاتی نہیں دیتے قصباتی اہمیت زیادہ میں اب محاورے کو سمجھنے کے لئے اورمختلف سطح پر محاورے استعمال اس کے رواج اورسماج سے اس کے رشتہ کے بارے میں جتنی معلومات۔ ہوسکتی نہیں سے رویہ اورادبی پہلو لسانی دوسرے کسی لٹریچرکے شاید وہ ہے ہوسکتی سے محاوروں  ہمیں اامور کو سات کے دائرے میں لالاکر رکھنا سات دھار ہوکر نکلنا یہ ایک اہم بات ہے اوراس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم بہت سے زیادہ پسند کرتے ہیں زیادہ ترچشمے ایک دھارے میں پھوٹتے ہیں یا ایک سے زیادہ دھاروں میں مگر سات دھارے ہمارے روایتیرزفکر کو ظاہر کرتے ہیں اس لئے کہ دھاروں کے ساتھ سات کا عدد ضروری نہیں ہے۔ لیکن تہذیبی نقطہ نظر سے سات دھاروں انداہے۔ رکھتا اہمیت تصوربڑی کا

بازکرنا۔۲) (�از آالہ موسیقی کو کہہ سکتے ہیں ’’باز‘‘ کے معنی ہیں کھولنا یا دوبارہ حاصل ہونا جیسے ساز کا لفظ فارسی ہے ’’ساز ‘‘ کسی بھی

Page 140: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

بناتے راسم فاعل بھی رملا کر یافت‘‘ اسی معنی میں دوبارہ پاجانے کے عمل کو کہتے ہیں۔ ’’ساز‘‘ کسی لفظ کے ساتھ ’’باز ادو پر اثرات کی نمائندگی کرتا ہے اسی طرح ’’باز‘‘ کا لفظ بھی اسمن ساز ،تاریخ ساز یہ فارسی زبان کے ار ہیںجیسے گھڑی ساز ، ارلے باز‘‘ یہاں تک کہ ’’تگڑم باز‘‘ اب یہ جب کسی لفظ کے ساتھ ملادیا جاتا ہے تواسم فاعل بن جاتاہے جیسے ’’پٹہ باز‘ ‘ ’’براس معاملہ میں دوست یا دشمن راس نے ران دولفظوں کو ملاکر ایک نئے معنی نکالے گئے یعنی ’’سازش‘‘ کہ عجیب اتفاق ہے کہ جاتاہے۔ بن محاورہ ایک والا رکھنے رشتہ گہرا سے زندگی سماجی ہماری یہ سے اعتبار راس کرلی۔ باز ساز ساتھ کے لفظوں کا معاملہ عجیب ہے یہ طرح طرح کے معنی دیتے ہیں بعض معنی ذہن کو علمی بڑائی اورادبی خوبصورتی کی طرف لے جاتےکافرق آاسمان زمین میں معنی لیکن ہیں۔ ہوتے وہی الفاظ ہیں ظاہرکرتے کو بدصورتیوں اورعملی ذہنی کی سماج اوربعض ہیں

ہے۔ استعمال سماجی کا زبان اوریہی رشتےConntation of the Wordsپیداہوجاتاہے باہمی کے الفاظ یعنی اان کے رشتوں کو سمجھنے میں یہ صورت حال بہت مدددیتی ہے۔ اوراس سے اورمعنیاتی سلسلے محاورات کو اورعام زبان کے ساتھ ہے۔ جاسکتا سمجھا طرح اچھی کو کردار سماجی کے زبان  کسی

بننا۔۳) �اکھ یا رہنا جاتی �اکھ )راس کے معنی ہیں اعتبار ،اعتبار سیاسی بھی ہوتا ہے اورسماجی بھی علمی ساکھ ہماری زبان کے اہم سماجی الفاظ میں سے ہے اورااس پر اعتماد کرتے ہیں اسی کو’’ ساکھ بھی ہوتا اورکاروباری بھی ہم تحریروں سے زیادہ زبان پر اعتبار کوضروری خیال کرتے ہیں اور بننا ‘‘کہتے ہیں ساکھ باقی رہنا کہتے ہیں‘ اوراگریہ اعتبار ختم ہوجاتاہے چاہے ایک فرد پر سے ختم ہو چاہے ایک جماعت پر سے یادکان اور ادارے سے بہرحال ساکھ باقی رہنا بڑی بات ہے اورسماجی نقطہ نظر سے اس محاورے کو سماجی رشتوں کے ساتھااس کے معنی غیرمعمولی طورپر اہم ہوجاتے ہیں۔ ساکھ جاتی رہنے کو بھی اسی روشنی میں دیکھاجانا جوڑکر اگر دیکھا جائے تو

چاہیے۔سھونک کرپیتا ہے ، �انپ مرے نہ لاٹھی۴) سھونک پ س�ونگھ جانا،�انپ کا کاٹا ر�ی �ے ڈرتا ہے ،چھاچھ کو پ (�انپ

کرو۔ پیٹا کو Pکیر Zیا نکل �انپ جانا، کررہ مار پھن طرح کی �انپ ، ٹوٹے سانپ جس کی بہت سی قسمیںاورنسلیں ہیں ہماری زندگی کا کئی اعتبار سے ایک اہم حوالہ ہے۔ وہ جانداروں میں سب سے زیادہادم کو آاپ کو سمیٹ لیتا ہے اور اگل کنڈے‘‘کھا کر اپنے ااس کے کاٹے کا مشکل ہی سے علاج ہوتا ہے۔ سانپ’’ زہریلا ہوتا ہے اور اپنے منہ میں لے لیتا ہے یہ گویا ابتدا کو انتہا سے ملانا ہے وہ بغیر پیروں کے دوڑسکتا ہے یہ ایک عجیب وغریب صفت ہے وہ اپنےاا ’’کالا سانپ‘‘ ،’’ بین پر سہارے پر سیدھا کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس طرح کی کچھ خوبیاں ہیں جوسانپ کے کردار میں شامل ہیں مثلہے۔ ہوتی کشش غیرمعمولی میں آانکھوں کی سانپ ہے آاتا کھنچاچلا پر آاواز کی اوراس ہے کرتا‘‘ رقص آائینہ میں ہم انسان کے کردار کو سانپ سے متعلق بہت سے محاورے ہیں جوسماج کی روش وکشش کو ظاہر کرتے ہیں اوراس ااس کا عمل اور رد عمل کیا ہوتا ہے اوراس کا ہمارے فکر وخیال سے سماجی طورپر کیا رشتہ بنتا سمجھ سکتے ہیں کہ کس وقت اچپ ہوجاتا ہے اورلاجواب ہونے کے عالم میں پہنچ جاتا ہے اسن کر آادمی کسی بات کو اا جب اا سانپ سونگھ جانا، مثل ہے ۔ مثل

Page 141: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

زر کا استادانہ شعر تواسے سانپ سونگھنا کہتے ہیں جب کوئی موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے توسانپ نکل جانا کہتے ہیں شاہ نصیہے۔

زر پیٹاکر ابتاں میں نصی رف رل زل خیاگیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹاکر

ااس سے کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہوتا سانپ اسود ہوتا ہے اور لکیرپیٹنا یوں بھی وقت گذرجانے پر کسی کام کو کرنا ہے جو بے آاپ نقصان پہنچائے مگر خود نقصان میں نہ پڑیں اگرخود ہی نقصان میں مرے نہ لاٹھی ٹوٹے ایک بہت اہم بات ہے کہ دشمن کو ۔ اٹھاگئے اورنقصان پڑگئے میں خطرے ہی خود توگویا گئی ٹوٹ لاٹھی میں مارنے اورسانپ پڑگئے اھن ااس نے پ آائی اور ااس کے سامنے کوئی چیز اھن مار کر رہ جاتا ہے جہاں سانپ خاص طورپر کالا سانپ کاٹتا نہیں ہے صرف پپلٹنا ضروری ہے سانپ کے دانت سیدھے نہیں ہوتے وہ پلٹ کر ڈنک مارتا ہے اگر پلٹ نہیں سکتا ماراجب کہ کاٹنے کے لئے اھن پھیلائے ہوتا ہے توپلٹ نہیںسکتا اسی لئے کاٹ نہیں سکتا اوریہیں سے یہ محاورہ پیدا ہوا توڈنک بھی نہیں مارسکتا اورجب وہ پ

اھن مارتا ہے۔ کہ وہ سانپ کی طرح پنکاPنا۔۵) نہ (�انس

آادمی سانس بھی احتیاط سے لیتا ہے بلکہ سانس لینا زندگی کی سب سے اہم ضرورت ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہے۔ سے میں اشعار بہترین کے سلسلہ ہے۔اس شعر کا زر می لیتا نہیں

کام بہت ہے نازک کہ آاہستہ بھی سانس لے کا گری شیشہ گہہ کار راس کی  آافاق رم سادھنا بھی کہتے ہیں سانس نہ لے یہ بڑی دھمکی ہوتی ہے۔ جس کے لئے سانس روکنا صوفیوں کا عمل بھی ہے جس کو وہ د

زب نے شعرکہا تھا۔ غال

دھمکی میں مرگیا جونہ باپ نبرد تھارر مرد تھا رعشق نبرد پیشہ طلب گا

یعنی جس میں ہمت نہیں ہوتی حوصلہ نہیں ہوتا وہ دھمکی میں مرجاتاہے بلکہ دوسروں کی غضبناک نگاہوں کا مقابلہ بھی نہیںنکالو۔ مت دیکھوسانس کہ ہیں بھی اورکہتے ہے جاتا رک سانس کا ااس اور کرسکتا

۔۶) پڑجانا (�ایہ

Page 142: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

پرچھائی ہیں کہ کس کی اورکہتے ہیں۔ میں رکھتے ازمرے راسی پرچھائیوں کو ہیں اوربھیدوبھراسمجھتے اپراصرار بہت ہم سایہ کو ہے۔ مصرعہ کا نسیم رر گلزا ہے اثرہوجانا کا اھوتوں ب ہوجاناجن سایہ پڑگئی

اٹھنا سرسے سایہ کیجئے ہوتودوڑدھوپ سایہ آاتی اپر کے پرایہ کا سایہ پڑگیا ہے تواس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے ۔ہمارے یہاں تواہم پرستی کہ ذیل میں جوباتیں یعنی اگراواان میں سایہ پڑنا بھی ہے نظر لگنے سے سایہ پڑنے تک تواہم پرستانہ خیالات کا ایک سلسلہ ہے جس میں لوگ عقیدہ رکھتے ہیں ہیں آاتی رہتی ہیں اورسماج کے مطالعہ میں مدددیتی ہیںسایہ سرسے اٹھنا یتیم ہوجانا بزرگوں کی سرپرستی اورطرح طرح سے یہ باتیں سامنے کا۔ اورعنایت مہربانی

Pہربہرہے۔۷) کی چیز (�ب اصل میں ہمارے معاشرے میں کمی بہت تھی غریب طبقہ کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ گھڑے پرپیالہ بھی نہیںرت حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں جیسے میں نے روٹی پہ روٹی رکھ کے کھائی جس کایہ مطلب ہے کہ راس صور کئی محاورے آاتی تھی اورروٹی پرروٹی رکھ کر کھانا تومعاشرتی طورپر بعض خاندانوں میں اتنی غربت ہوتی تھی کہ ایک ایک روٹی مشکل سے میسر روٹی کا ۔ روکھی ہے رہا یرصہ ح ایک کا زندگی معاشرتی ہماری بھی بھگوکر کھانا میں پانی ٹکرے تھا سوکھے ہونا خوش حال ہوگی۔ آاتی میں یرصہ ح کے کسی کسی روٹی ہوئی اچپڑی پیسے گھی، تھا آاتا میسر سے مشکل بھی سالن ہے آاتا تک ذکراب افنڈوے کی روٹی گھی چپڑی یعنی دم کی ہوئی کچھڑی اورفنڈوے کی دیہات کی ایک مثل ہے جاڑا لگے یا پالالگٹے دم کھچڑی اجوار باجرہ اورفنڈوے کی روٹی کھاتے تھے آاتی تھی وہ چنے روٹی کے لئے ترستے تھے اورجن لوگوں کو گیہوں کی روٹی میسر نہیں اچپڑی روٹی ہوتوکیا کہنا لوگ یہ کہتے ہوئے سنے جاتے تھے سیاں )سوئیاں( ہوں پرکھیلا )اکیلا( ہو۔اب آائیڈیل تھا کہ اگروہ گھی اوریہ اان کے حالات توبہت اچھے ہیں پیسے میںپیسہ اورچیز میں چیز ہے یعنی پیسہ بھی پاس ہے اورضرورت کی چیزیں بھی کہتے ہیں کہ

بھی پہلے زمانہ میں نہ پیسہ ہوتا تھا نہ ضرورت کی چیزیں ہوتی تھیں۔ہونا۔۸) س�بکی )

ہوئی۔ اسبکی اان کی ہیں کہ اسی لئے کہتے ہیں ہونے کے پربے عزت ایک سطح ہونے کے معنی اسبکی والی لیکن معاشرہ میں نقشہ ناک اسبک ہیں جیسے ہلکے کوکہتے رک سبہیں۔ کہتے کررونا اسبک اسبک جسے ہے ہوتا انداز خاص ایک کا رونے کے اسبکنابچوں

پیشانی۔۹) �تارہ ہونا‘ میں Zردش �تارہ چمکنا، ب�تارہ )رستارے کوکہتے ہیں ہمارے معاشرے میں ستاروں سے قسمت کو وابستہ راس کے مقابلہ میں ’’سیارہ‘‘ گھومنے والے اان ستاروں کوکہتے ہیں جو اپنی جگہ پر رہتے ہیں آاسمان کے ستارہ ااس کی قسمت کا ستارہ گردش میں ہے خوش قسمت ااس کے مقابلہ میں یہ کہ ااس کی قسمت کا ستارہ چمک رہا ہے اور کیاجاتاہے۔ اسی لئے قسمت کا ستارہ کہتے ہیں اوریہ بھی کہ راس لئے کہ ہمارا ایک معاشرتی تصوریہ بھی ہے کہ جوکچھ قسمت میں لکھا ہے وہ ہماری پیشانی میں منقش ہے۔ اسی لئے قسمت آادمی کی پیشانی کو بھی ستارہ پیشانی کہا جاتا ہے کی برائی کا ذکرکرتے ہوئے اپنی پیشانی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ستارہ جبیں کے معنی بھی یہی ہیں کہ اس کی قسمت کا ستارہ چمک رہا ہے ۔ ہم لڑکیوں کانام مہہ جبیں رکھتےوالی۔ پیشانی چاندجیسی یعنی ہیں

یاترا۔۱۰) بہ یاترا � )لکھاہے۔ نے احسن میر کہ جیسا پاٹھا ساٹھا یا یرترا یرترابہ س جیسے ہے جاتا کیا اشارہ طرف کی ااس یا جاتاہے لیا فقروںمیں سماجیاتی یہاں ہمارے اکثر رحساب کا اعمر

رسن کا چودہ کہ یا پندرہ برس  دن کے امرادوں راتیں کی جوانی

Page 143: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ہیں۔ موجود شمار شامل بھی میں رلاچھٹی اورچ بھی میں ادودھ کے چھٹی ہے عددشامل بھی میں چھماس چھٹے کافرق بیس انیس ہیں طورپرکہتے کے محاورے یا ٹوٹنا۔۱۱) �تم توڑنا، ب�تم )

سماج کے ظالمانہ رویہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اسی لئے ستم کرنے کو ستم توڑنا کہا جاتا ہے اس سے سماج کے محسوسات کا پتہ چلتا ہے وہ کس طرح اعمال کو دیکھتا اوراپنےہے۔ کرتا تبصرہ پر اس سے اعتبار کے محاورے

ہوجانا۔۱۲) سZم ب�ٹی )اگم ہونا کہا جاتا ہے۔ محاورہ زبان میں جو تبدیلیاںکرتا ہے اورزبان کے استعمال کے سلسلہ میں رسٹی اسم رہ جانا بول نہ سکنا محاورہ میں اگم آادمی کا حیرت یا خوف کی وجہ سے اچپ سادھنا جونئے پہلومحاورے کے باعث پیدا ہوتے ہیں وہ سماجی لسانیات کے سلسلہ میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں اورزبان کے سمجھنے کے معاملہ میں اس سے بڑی مددملتی ہے آاتاہے۔ میں ذیل اسی

کہنا۔۱۳) س�ست و (�خت تا ہے محبت کی زبان کچھ اورہوتی ہے نفرت کی زبان کچھ اوراسی طرح طنز کی زبان اور تعریف کی زبان میں فرق ہوتا ہے ۔ ناراضگی میں آا ہماراسماجی رویہ گفتگو میں اکثر سامنے آاتی ہے اورمغنیاتی سطح میں بھی اس پر غورنہیں اسست کہا جاتا ہے اورخوشی میں اچھی اچھی باتیں کی جاتی ہیں اس سے لب ولہجہ بھی بدلتا ہے الفاظ میں بھی تبدیلی سخت وارا بھلا اسست کہنا بھی اسی سلسلہ گفتگو کا ایک خاص انداز ہے جس میں ب کیا جاتا ورنہ سماج کے بہت سے ذہنی رویہ زبان کے استعمال میں خود کو واضح کردیتے ہیں۔ سخت و

یرصہ کے عالم میں ہوتا ہے مگرناراضگی کی ایک دوسری سطح ہے ۔ آاتا ہے جوغ کہا جاتا ہے ڈرانہ دھمکانا اس ذیل میں پررکھنا۔۱۴) آانکھوں �ر آانا، �ے آانکھوں �ر ہونا، میں آانکھوں �ر چڑھنا، آانکھوں �ر )

ہیں۔ رکھتے تعلق سرسے جو ہیں محاورات کچھ ایسے سرچھپانا سرجھکنا، ، سرجھکانا لئے اسی ہے چیز کی احترام میں معاشرے سرہمارے آانکھوں میں رکھنا جیسے آانکھوںپیارکرنا، آانکھوں سے آانکھ رکھنا آانکھیںدیکھنا آانکھوں سے لگانا آانکھیں ہماری معاشرتی زندگی کی اعضائی علامتوں میں بڑی علامت ہے۔ سرکے ساتھ آانکھوں رکھنا جس کے معنی ہیں بہت احترام اور محبت سے رکھنا جیسے آاتے ہیں جیسے سر آانکھیں ایک ساتھ آانکھوں ہی سے متعلق ہیں ۔ بعض محاوروں میں سر بہت سے محاورے راس کے مقابلہ میںسرپر چڑھنا بے ادبی آانا آانا یعنی بڑے احترام وعزت اورعقیدت کے ساتھ آانکھوں سے آانکھوں پر رکھی جاتی ہے سر اان کی بات توسر آانکھوں پر رکھا یا آایا سر آاپ کا خط موجودہے۔ بھی میں چڑھنے پر آانکھوں سر پہلو یہ کا ادبی اوربے ہے

ااپڑرکھنا۔۱۵) �رپرچھ ڈاPنا، �رپرخاک )رل احترام نہیں ہے کہ وہ پیروں کے نیچے رہتی ہے روندی جاتی سرپر خاک ڈالناانتہائی افسوس کی علامت ہے خاک مٹی کوکہتے ہیں دھول مٹی ایک عام ذہن کے لئے اس معنی میںقابہے۔ کرنا ررملال اظہا ڈالنا خاک سرپر لئے اسی ہے کرتی آالود اورگرد ہے اینٹھتی سے ادھول ہے کرتی میلا اورانہیں ہے بیٹھتی پر چیزوں تودوسری ہے اڑتی ساتھ جب اورہوا کے ہے مٹھی بھر خاک بھی یہ کہیے کہ ایک بے قیمت شئے ہے اسی لئے مشت خاک بھی بے قیمت شے ہی کوکہتے ہیں سرپر رکھنا اپنی جگہ عزت دینے اوراحترام پیش کرنے کوکہتے ہیںاان کا بوجھ سرپر رکھا جانا زیادہ اولاد کی صورت میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے اورسماجی نقطہ نظر سے اس تصور رپررکھنے کے معنی ہیں ذمے داریوں سے دبارہنا اور ا مگرسرپر چھآاتی ہیں مگرکسی زمانہ میں توغریبوں کے رپر یا چھپریاں شہروں اورقصبوں میں کم دیکھنے میں ا رپر رکھا ہوا ہے اب توچھ ا کی بے حد اہمیت ہے کہ اس کے سرپر قرض یا فرائض کا چھاان مکانوں میں چھت کی جگہ چھپریا چھپر یاں ہی ہوتی تھیں اوران پر پھونس بھی نہیں ہوتا تھا۔ مندرجہ ذیل محاورات کو بھی اسی ذیل میں رکھنا چاہیے اورمختلف فکری زاویوں سے کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جیسے ’’سرپر ہاتھ رکھنا ‘‘پرورش یا تربیت کرنا ہے سر سے سایہ اٹھ جانا بزرگوں کی محبت اور سرپرستی سے محروم ہونا ہے سرپر ناچنا ایک طرح سے بے عزتیآادمی کو کسی خاص معاملہ میں اپنی نارسائی اورناکامی کا احساس بھی کرنا ہے ’’سرپر ہاتھ دھر کر رونا ‘‘یا سرپکڑکر رونا رنج وغم کا ایسے موقعوں پر غیر معمولی اظہار ہے جب شدت سے شامل ہو سرپھرا ہونا‘ سرپھرنا‘ سرچکرانا جیسے محاورات بھی سرہی سے متعلق ہیں اورہماری سماجی زندگی سے گہرارشتہ رکھتے ہیں سرپھرا ہونا غیرمعمولی جوش وجذبہ رکھناہے۔ مختلف بہت دوسروں کو سماجی سوچ سے اان کی سوچ ہیں انسان وغریب عجیب ہیں آادمی توسرپھرے وہ بھئی ارے کہ ہیں سنتے ہوئے یہ کہتے ہم کو دوسروں لئے  اسی

آادمی اپنے سرپیرکا اس میں ہم ان محاورات کو بھی شامل کرسکتے ہیں جیسے سرکھپانا‘ سرجوڑنا‘ سرجوڑ کے بیٹھنا‘ سرجھاڑمنہ پھاڑ‘ سرتوڑکوشش انتہائی کوشش کوکہتے ہیں جس میں کچھ خیال نہیں رکھتا سرجھاڑمنہ پھاڑ‘ایسے شخص کو کہتے ہیں جوبے تکے انداز سے رہتا ہے کبھی بالوں میں کنگھانہیں کرتا اپنے ہاتھ منہ کا خیال نہیں کرتا اوربے سرپیر کی باتادو کا مشہور محاورہ ہے جوکہاوت کا درجہ رکھتا ہے اثرکے تحت جھومنا بھی ہے اب تونہیں مگراب سے کچھ پہلے تک بعض عورتوں کے سرپر یہ کہا کہتے ہیں ’’سرسے کھیلنا ‘‘ارہے۔ کھیلتی سرسے وہ اور ہیں گاتی گیت ڈومنیاں سامنے کے ان ا کہ ہے ہوتا حال کا ان ہی اورتب ہیں آاتے بخش اللہ سرماموں کے اان کہ تھا جاتا سرسفید ہونا سفید بال ہوجانا عام طورسے سفید بال ہونے کے معنی یہ ہوتے تھے کہ اس عورت یا مرد کی عمر کا فی ہوچکی ہے اورزیادہ عمر کے معنی ہیں زیادہ تجربہ اسی لئے یہ بھیہے۔ موجود تجربہ اور عمر میری پیچھے کے اس ہیں کئے نہیں سفید میں دھوپ بال یہ نے میں کہ تھا تا جا کہا ااس کے سرہے معنی اس سلسلہ میں سرسنہرا ہونا جب کسی اچھے کام کی ذمہ داری کسی کے سرہوتی ہے اوروہ اسے خوبصورتی سے انجام دیتا ہے تویہ کہتے ہیں کہ اس کا سہرا کسی تعریف وتحسین عزت وعظمت کا سلسلہ میںمستحق فلاں شخص ہے۔ ویسے ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ ’’سربڑا سردار کا پیربڑا گنوار کا‘‘ یعنی جوعقلمندباشعور اورخوش نصیب

Page 144: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ہیں۔ ہوتے بڑے پیر کے ااس ہے ہوتا گنوار گاودی اورجو ہے‘‘ ہوتا سربڑا کا اس ہے’’ ہوتا یرصوں کو اپنی سوچ میںشامل رکھا ااس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے اپنے وجود کو یا انسانی وجود کے مختلف ح اعضائے جسمانی میں بہت سے عضوایسے ہیں جومحاورات میں شامل ہیں ہے۔٭ بھی پیٹ اورتن ہیں پیربھی ہاتھ ہے بھی زبان ہے بھی گردن میں اس ہے بنایا وسیلہ کا اظہار میں اورتجربوں مرحلوں مختلف کے سوچ اپنی کو اوران ہے

چلنا۔۱۶) بل �رکے چلنا، �ر�ے )اگڈلیاں چلنا کہتے ہیں امحاورات میں ہے جوسماجی نفسیات کو پیش کرتے ہیں پیروں سے چلنا الگ بات ہے اورگھٹنوں سے چلنا ایک دوسری بات ہے جسے سرکے بل چلنا بھی ان آاؤں گا یا آاتا ہے کہ میں توسر کے بل چل کے وہاں جوبچوں کے لئے ہوتا ہے مگرسرسے یا سرکے بل دینا ویسے توعجیب سی بات ہے لیکن محاورے کے طورپر یہ انتہائی احترام کے لئے گا۔ جاؤں

باندھنا۔۱۷) کفن (�ر�ے آادمیوں میں یا قوموں میں جان دینے کا جذبہ بہت شدت سے ہوتا ہے وہی یہ ’’سرسے کفن باندھنا‘‘ تہذیبی محاورات میں سے ہے اوراپنی معنویت کے لحاظ سے غیرمعمولی ہے۔ بعض کہاہے۔ نے زب غال ہوں۔ تیار لئے کے دینے جان ہروقت یعنی ہوں‘‘ رہتا باندھے کفن سرسے میں’’ کہ ہیں بھی کہتے

ہوںمیں جاتا ہوئے باندھے کفن سرسے واں آاج کیا گے لائیں اب وہ میں کرنے قتل میرے عذر ہو۔ فکرنہ کی دفن کفن کے ااس کو بعد کسی کے ہونے شہید تاکہ تھے رہتے باندھتے کفن سرسے اپنے وہ تھے لیتے حصہ میں جہاد جولوگ کہ ہے رہا بھی دستور یہ غالبا

ہونا۔۱۸) �ردرZریبان ڈاPنا، میں �رZریبان )تا ہے یعنی سرجھکا کر سنجیدگی سے کسی بات کولینا اوراپنی نارسائی یا غلطی کا اعتراف کرنا۔ سماج کے رویوں کا ہم محاورات میں آا رر محاورہ ااردو فارسی دونوں زبانوں میں بطو یہ جومطالعہ کرتے ہیں اس کا اندازہ اس محاورے پر غورکرنے سے ہوتا ہے کہ ہم بااعتبار فرد یا بااعتبار جماعت دوسروں کے لئے یا پھرخود اپنے لئے کیا رویہ اختیار کرتے ہیں سرگریبان میںہے۔ کرتا اشارہ طرف کی روش اسی ڈالنا

ہونا۔۱۹) (�رنیچا ر کرتا ہے اورجس کی گردن گھمنڈ اورغرور کے ساتھ تنی رہتی ہے اس کو کبھی ذلیل بھی ہونا پڑتا ہے اسی کے لئے ہمارے یہا ںمحاورہ ہے غرور کا سرنیچایعنی رب آادمی بہت تک یعنی جو۔ ہے ہوتا بھی عزت بے بہت وہی ہے کرتا گھمنڈ جوبہت

سکتا۔۲۰) کا �سرال )راس کے ساتھ رہا ہے۔ اس پر بھی مشرقی ااس کی قبائلی زندگی سے لیکر مہذب شہری زندگی تک ایک وفادار پالتوجانورکی حیثیت سے آادمی کا وفادار ہے اور اکتا‘‘ایک جانور ہے جو ’’ آادمی کی سماجی حیثیت کو برائی سے یاد کیا گیا ہے جو’’جوائی‘‘ آایا اس محاورے میں بھی ایسے کسی اقوام نے اس کو کوئی عزت نہیں دی اوراس کا ذکر ہمیشہ ذلت کے ساتھ

لگے۔ رہنے جاکر یہاں کے بیوہ اپنی ہوکر بھائی یا پڑجائے جاکر میں اسرال س سے حیثیت کی گھربھائی )داماد بہن کے کہ ہے کہاوت یہ لئے اسی کے کتا۔ ’’جوائی‘‘ گھر کے اکتا‘‘اورساس ’’

Pینا۔۲۱) �نبھالا ) قوموں کے لئے بھی یہ کہا جا تا ہے کہ انہوںنے سنبھالا لیا یعنی زوال کی حالت میں ہوتے ہوئے بھی وہ کچھ سدھر گئیں یعنی انزق کا شعر ہے اوراس محاورے کے کے حالات کچھ بہترہوگئے بیمار کا سنبھالینا وقتی طورپر ہی سہی صحت کا بہتر ہوجانا ہے۔ ذوہے۔ ظاہرکرتا کو پہلوؤں مختلف

سنبھالا تیرے لیا نے محبت رر بیما  تواچھا جائے سنبھل سے سنبھالے وہ لیکن

آاگئے۔ کے قریب ترکی کو مرد بیمار کہا جا تاتھا سنبھالا لیتا ہے اسء ۱۹۲۰اس میں سنبھلنا سنبھالنا اورسنبھالا لینا تینوں چاروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے محاورے کس طرح ہماری زندگی ہماری تاریخ اورہماری سماجی زبان کو پیش کرتے ہیں اورایک حوالہ

Page 145: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ہیں۔ دیتے  کاکام ہونا۔۲۲) نچھاور یا ہونا نثار یا جانا‘ صدقے �ے �وجان ہونا‘ عاشق �ے �وجان )

آاتا ہے آاتا ہے یا صدقے کرنا ہمارے یہاں صدقے قربان ہونا محاورہ ہے صدقہ ایک مذہبی اصطلاح بھی ہے جس کے ساتھ صدقہ دینا یعنی کسی کی جان کی حفاظت یا مال کی حفاظت کے خیال سے خیرات کرنا ۔ ہم اس عمل کو طرح طرح سے دھراتے ہیںاا جب ڈومیناں گاتی تھیں توان کورواں پھیر کرکے روپے پیسے دےئے جاتے تھے وار پھیراس شخص کے لئے ہوتی تھی جس کی مثل جان کا صدقہ دینا منظور ہوتا تھا یہی صورت اس وقت ہوتی تھی جب بھگنیں بدھاواپیش کرتی تھیں یعنی مبارک باد کے لئے گاناتھا۔ ہوتا شامل میں مفہوم کے کرنے صدقہ یا دینے صدقہ بھی دلوانا پیسے کو فقیر سے ہاتھ کے کسی ناچنا  اور

تا تھا دہلی میں اب بھی دستور ہے کہ اگرکوئی بیمار ہوتا ہے تواس کے نام پر جانور قربان کیا جاتا ہے آا قربان کرنا بھی اسی معنی میں ادودھ دریاؤں میں بہانہ یا تالابوں اورپوکھروں کے کناروں پر جانور ذبح کرنے کو صدقہ کے مفہوم میں شامل کرتے تھے ہندوؤں میں ہیں۔ کہتے چڑھانا ابلی کو راس ہے جاتا کیا قربان بھینا‘‘ میں’’ بنگال ہے ہوتا ایسا میں راجستھان بھی اب اریہ کہتے تھے انسان کی اپنی عربوں میں جس اوٹنی کوایسے کسی مقصد کے لئے’’نحر‘‘کیا جتا تھا خاص طریقے سے کاٹنا توبلتھے قربان کئے جاتے بھی یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچے تھی ۔ قدیم قوموں میں اس کا دستوررہا ہے قربانی بھی دی جاتی تھیں۔ جاتی کھلائی کو ؤں کو چیلوں کرکے بوٹیاں کی اان اور تھا عام سلوک تویہ ساتھ کے اورباندیوں غلاموں آاپ کو صدقہ وقربان کیا جاتا تھا۔ اورمحاورے کے استعما ل کے وقت ااس پر اپنے ہمارے یہاں جس سے محبت کی جاتی ہے ہے۔ جاتی کی بات کی ہونے وقربان صدقہ سے سوجان

بدکھانا۔۲۳) چراغ کو س�ورج ) اسورج ہماری دنیا کی سب سے روشن تابناک اور حرکت وحرارت سے بھری ایک قدرتی سچائی ہے نورانی وجود ہے اسی لئے اس کی پوجا کی جاتی ہے اورقدیم قوموں کے زمانے سے اب تک ہوتی رہی ہے چراغ اس کے مقابلے میں انسان کی اپنی ایجاد ہے جسنہیں۔ مقابلہ کوئی سے سورج کا سماجی طورپر جب کسی ادنی بات یا ادنی دلیل کو کسی بڑی بات یا بڑی دلیل کے مقابلہ میں سامنے لا یا جاتا ہے تواس عمل کو

آاتا ہے ۔ رر نسیم میں ایک موقع پر یہی محاورہ اسورج کوچراغ دکھانا کہا جا تاہے ۔گلزا

آاگے فروغ پانا اان کے سورج کو چراغ ہے دکھانا

س�وPی پرچڑھانا ، �وPی دینا۔۲۴) )ااڑانا اوراندھے کنویں میں پھینک دینا نیز ہاتھی کے پیروں سے کچلوا دینا اورزندہ دیوار میں اان میں پھانسی دینا گردن موت کی سزاؤں میں ایک سے ایک اذیت ناک سزا موجود ہے

اسولی پر چڑھانے کی سزا دی گئی تھی اس سزا یی کومشرقی رومی سلطنت کی طرف سے اسولی دینا‘‘ رومیوں کی طرف سے دی جانے والی سزا ہے حضرت عیس اچنوادینا بھی ہے۔ ’’آادمی سولی پر لٹکایا رلٹاکر اس کے ہاتھ پیروں میں کیلیں ٹھوک دی جاتی تھیں اس کے سرسے کانٹے دار زنجیر باندھ دی جاتی تھی۔ اوراس طرح سے وہ آادمی کو میں سولی یا صلیب پر

Page 146: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

جاتاتھا جس کوموت کی سزا دینی ہوتی تھی۔راس المناک انجام کے ساتھ وابستہ خیال ہی سولی دینے کے محاورے کو بامعنی بناتا ہے یعنی اذیت ناک سزا دینا سخت نقصان پہنچانا ہم محاوروں کی یی کے ادومیں حضرت عیس ارآانے کے بعداس محاورے کے مروج تاریخ پر بھی اگرغور کریں توبہت سے محاورے یہ بتلاتے ہیں کہ وہ کب رائج ہوئے کیوں رائج ہوئے مغربی قوموں کو جوبیشتر عیسائی تھیں ہندوستان

ہونے کا زیادہ امکان ہے اورمروج ہونا رواج پانے کوکہتے ہیں۔( �ونے کا نواPہ کھانا‘ �ونے میں Pدی پھندی ہونا۔۲۵)

سونا ہمارے ہاں کا اورپوری دنیا کا سب سے قیمتی دھات ہے اسی لئے سونے کو بے حد پسند کیا جاتاہے اورعورتیں سونے کا زیورپہن کربہت خوش ہوتی ہیں اوراس پر دوسرے رشک کرتے ہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ’’سونے میں لدی پھندی‘‘ رہتی ہیں یا یہ محاورہ کہ سونے کانوالہ کھائی سے دیکھے قہر کی نظر اس موقع پر ’’سینی ‘‘شیرپر کی نظر بھی کہتے

ہیں۔آانا۔۲۶) آانا یا ہاتھ Pگ جانا‘�ونے کی ڈPی ہاتھ ( �ونے کی چڑیا ہاتھ میں

سونے کی چڑیا بہت قیمتی شے کو کہا جاتا ہے اوراگروہ قیمتی شے یا خاندان یا زمین کسی کو مل جائے توکہتے ہیں کہ سونے کی چڑیا ہاتھ لگ گئی اوراس سے پھرایک مرتبہ یہ سوچاجاسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں سونے کی کیا اہمیت ہے دولت کی دیوی یعنی لکشمی کی پوجا توکی جاتی ہے دولت کوبھی پوجا جاتا ہے اور خاص طورپر سونے کویاروپیہ

آاتا رہا ہے۔ پیسے کو ایک محاورہ اوربھی ہے اب تک استعمال میں آائے )یہاں جھونا کوئی دھات نہیںہے( بلکہ آائے وہ سوناجھونا لیکر سونے کے سہرے بیاہ )شادی( ہو جس کے معنی ہیں کہ شادی تمہارے لئے خوشیوں کا باعث ہواورجو دلہن گھرمیں

امحمل کہتے ہیں۔ ’’سونے کی کٹوری لئے بیٹھنا‘‘۔ سونے کا قافیہ ہے جس کے اپنے الگ سے کوئی معنی نہیں ایسے کسی بھی لفظ کوتابع ااچھا لتے جانا آاتا ہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ توسونے کی ڈلی ہاتھ میں لئے بیٹھا ہے سونا آادمی کو کوئی ہنر ہاتھ آانا ‘‘، سونے کی کٹوری لئے بیٹھنا‘ جس ’’سونے کی ڈلی ہاتھ

ااچھالتے جائے یعنی کسی کی دولت یا مال کو کوئی خطرہ نہیں وہ پوری بھی ایک محاورہ ہے۔ یعنی وہاں چورچکاراٹھائے گرے یا ڈکیتی کرنے والے بالکل نہیں ہے چاہے کوئی سونا طرح حفظ وامان میں ہے۔

امراد کوئی ایسا اہم قول ہے بات ہے یا حکیمانہ نکتہ سنہرے حرفوں میں لکھنا یا سونے کے حروف میں لکھنا بھی سونے کی اہمیت یا قدروقیمت کو ظاہر کرنے والا محاورہ ہے جس سے ہے جس کو سونے کے حرفوں میں لکھا جانا چاہیے سونے کا ملمع ہونا یا کیا جانا کم قیمت دھات پر سونے کا ملمع کیا جا تا ہے یعنی اوپر سے وہ بالکل سونے کی چیز معلوم ہوتی ہے

جبکہ وہ دراصل سونے کی چیز نہیں ہوتی بلکہ اس پر سونے کا پانی چڑھا ہوتا ہے جب کسی کو خوش حالی کی دعا دینی ہوتی ہے توکہا جاتا ہے کہ تم سونے کی کٹوری میں پانیپیوسونے کے برتنوں میں کھانا کھاؤ۔

س�ہاگ رات۔۲۷) )اسرال میں اسہاگ یعنی شوہر کا ساتھ‘ عورت کے لئے بہت خوش قسمتی کی بات ہے اسی لئے دعا دی جاتی ہے کہ سہاگ رہے‘ تراسائیں جیوے‘ تیرے سروالے کو اللہ رکھے ۔ س

ااس پر دولہا دلہن کو اوردونوں طرف کے سمندھانوں کو مبارک باد دی جاتی ہے اوراس میں کوئی شک نہیں کہ گذاری جانے والی پہلی رات‘ اس کے لئے سہاگ رات کہلاتی ہے‘ اور ہمارے سماجی رشتوں کا قیام اسی رشتہ سے وابستہ ہوتا ہے جس کی خوبصورت یاد اورنشانی سہاگ رات سے وابستہ ہوتی ہے۔

اسہاگ سے محروم ہونیکے اسہاگ اترنا اس کے مقابلہ میں بہت بدقسمتی اورنخوست کی بات ہوتی ہے بعض قومیں سرکے بال اتروادیتے ہیں رنگیں کپڑے چوڑیاں اورزیورات توعام طورپر اسہاگن کے لئے جو سہاگ سے محروم ہوگئی ہو بہت ہی المناک بات ہوتی ہے یہی سہاگ اترنا بھی ہے۔ بعد عورتیں اتاردیتی ہیں ایسے موقعوں پر جوایک

اسہاگ‘‘ سے محروم قدیم قوموں میں آائیڈیل ہے کہ تم بوڑھہ سہاگن ہو یعنی بڑھاپے تک سہاگ قائم رہے’’ ہمارے یہاں عورتوں کوایک دعا یہ بھی دی جاتی ہے جوہمارے سماج کا اتنی بڑی بات سمجھی جا تی تھی کہ بیوہ ہوجانے والی عورت کو اس کے شوہر کے ساتھ زندہ دفن کردیا جاتا تھا یا ستی کی رسم کے مطابق زندہ جلا دیا جاتا تھا مصرمیں بادشاہوں

کی موت کے بعداس سے وابستہ بیویاں اورباندیاں زہرملاکر ماردی جاتی تھیں۔آانا۔۲۸) ( �یپی جیسا منہ نکلنا یا نکل

آانا کہتے ہیں اس سے ہم اپنے آادمی کے چہرے پر ذرا بھی گوشت دکھائی نہ دے صرف کھال اور ہڈیاں رہ جائیں تواس حالت کو سیپی جیسا منہ نکل کمزورہوجانے کوکہتے ہیں جب آادمی بھی اپنی بات کو سمجھنے اورسمجھانے کے ئے تشبیہات کا سہارا لیتا ہے سیپی سماج کی شاعرانہ روش کو سمجھ سکتے ہیں شاعر توتشبہیں اوراستعارے پیدا کرتے ہی ہیں عام

سے دبلے پتلے منہ کو تشبیہہ دینا اسی فکری عمل کا نتیجہ ہے جس سے کسی معاشرے تہذیبی مزاج کو سمجھا جاسکتا ہے۔بب زفاف۲۹)  ( �یج چڑھنا ، ش

آاپسی طورپر جنسی روابط جس کے لئے ایک شادی ہوجانے والے جوڑے کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے دراصل شادی شدہ ہونے کوکہتے ہیں شادی کے معنی ہیں عورت ومرد کے رر تعلق کرنے کا موقع مل جاتا ہے اسی لئے ان کی جائے ملاقات کو سیج چڑھنا کہتے ہیں یہ تعلق زندگی کا سب سے اہم رشتہ ہے کہ سارے واسطے اسی ایک تعلق اورخلوت میںاظہارب کے مرکزی دائرے کے گرد گھومتے ہیں اگرسیج کا یہ رشتہ درمیان میں نہ ہو توباقی رشتے بھی جوخون سے تعلق رکھتے ہیں اورنسل سے وابستہ ہیں باقی نہ رہیں اورقائم ہی نہ ہوں’’ ش

Page 147: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آاتا ہے مزید ملاحظہ ہو سہاگ رات ۔ زفاف‘‘ بھی جسے دلی والے’’ تخت کی رات‘‘کہتے ہیں اسی ضمن میں رل ادب سے اوربہت سے لفظ طبقہ عوام سے ۔ رل علم سے تعلق رکھتی ہیں بعض اہ بعض الفاظ محاورے اورلفظی ترکیبیں اہ

( �ید ھیاں چڑھنا۔۳۰)ااس کے خلاف بات کہی گئی ہے اوراس اس اعتبار سے ایک اہم محاورہ ہے کہ سیدھ اور سیدھی قدیم ہندوتہذیب کا ایک مقدس مرحلہ ہے یعنی گیان حاصل ہونا جب کہ یہاں بالکل

ااس رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ سچائیاںاوراچھائیاںکس طرح اپنے معنی بدل دیتی ہیں اوربات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہیں۔ سے سماج کے آادمی ہے یابندہ ۔ہندوکلچرمیں سادھنا ‘دھیان‘ گیان کی ایک صورت ہے آاتا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ سدھایا ہوا اسدھانا ہماری زبان میں تربیت کرنے کے معنی میں ’’سیدھانا‘‘ یا ابرے اسی لئے ایک خاص طبقہ کے لوگ ’’سادھو‘‘کو کہتے ہیں جو ہندوکلچرمیں ایک بہت اہم روحانی تربیت کی طرف اشارہ کرتا ہے مگر سیدھا کرنا ایک ٹیٹرپی میڑھی چیز کو یا

ااس سے غائب ہوتا ہے۔ یرےدھی کا مفہوم آاتا ہے اورس ارست کرنے کے لئے کردار کو د�یدھی انگلیوں Zھی نکاPنا یا �یدھی انگلیوں Zھی نہیں نکلتا ہے۔

ااس کے ااس میں لازمی طورپر شریک رہتے ہیں ااس کے ایک مرادی معنی بھی محاورے کے ساتھ زندگی کا جوتجربہ شریک رہتا ہے محاورے میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے لیکن بغیر محاورہ بنتا ہی نہیں یہاں بھی وہی صورت ہے کہ یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ وہ کچھ اس طرح کے لوگ ہیں یاایسی عادتوں والا ایک شخص ہے کہ اس سے سیدھے سادھے

طریقے پر کام نہیں لیا جاسکتا کوئی نہ کوئی تگڑم بازی یا مکاری اپنے عمل میں شامل کرکے کام نکالا جاسکتا ہے۔اس سے ہم سماجی مطالعہ میں مددلے سکتے ہیں کہ معاشرے کی صورت اور اس کا طریقہ رسائی کیا بنتا ہے ؟ کیوں بنتا ہے اوراس کا اظہار کس طریقہ پر ہوتا ہے۔

آائے گا وہ توایک پیچیدہ عمل ہے دودھ نکالو پھر گرم کرواس کے ادودھ نہیں نکل سکتا توگھی کیسے نکل دودھ نکالنا بغیر انگلیوں کوموڑے ہوئے ممکن نہیں ہوتا اوراگرسیدھی انگلیوں بعد اس کوبلونے کے لئے خاص طرح کے برتن اوررہی کا استعمال کروپھرکچا کبھی نکلے گا اوراس میں سے گرم کرکے چھاجھ الگ کی جائے گی تب گھی نکلے گا توسیدھی

انگلیوںکہاں نکلا ۔ دودھ نکالنے سے لیکر گھی نکالنے تک بہت سے مرحلوں سے گذرنا پڑتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس کام کوکرنے یا اس مقصد کو حاصل کرنے کی غرضسے کئی مشکل ترکیبیں اختیار کرنی ہونگیں سیدھی انگلیوں گھی نہیں نکلتا۔

( �یرکو �وا�یر موجودہے۔۳۲)یری فریب زبردستی سے اپنا کام نکالنا چاہتا ہے اوریہ سمجھتا ہے کہ اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا کہ اس کے پاس طاقت زیادہ ہے فریب کرنے یا فریب کی صلاحیت آادمی مکار

ابرے مووجودہیں۔ ابرے ہو توتم سے زیادہ اور موجودہے ایسی صورت میں یہ کہتے ہیں کہ اس ہوش میں نہ رہو سیر کو سواسیرموجودہے یعنی اگرتم آاتے رہتے ہیں اوراس پہلو کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ابرائی کوبرائی سے ختم کرنے کا عمل بھی سماج کا ایک ایسا عمل ہے جس کے حوالہ سامنے

( �یلا کرکے کھانا۔۳۳) ’’سیلا‘‘ کے معنی ہیں بھیگا ہوا اسی لئے نم خوردہ شے کو’’ سیلا‘‘ کرنا یا ہونا کہتے ہیں غریب معاشرے میں کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ سوکھے ٹکڑے پانی میں بھگوکرکھائے

اا اسی ضرورت کی طرف اشارہ کرتاہے۔ اس کوٹھنڈا کرکے کھانا بھی کہا جاتا ہے مراد یہ ہے کہ بے جاتے تھے اورنمک کی ڈلی ساتھ رکھی جاتی تھی ’’سیلے‘‘ کرکے کھانا غالبآاداب کا لحاظ رکھنا یہ بھی ہے صبرے پن کا اظہار نہ کروگرم گرم کھانے سے منہ جلتا ہے۔ میدے کونقصان پہنچتا ہے یہ توایک طبعی بات ہوئی لیکن تہذیب وشائستگی اورکھانے کے کہ گرم گرم کھانے پرایک دم سے ہاتھ نہ ڈالا جائے اورضرورت کے مطابق ٹھنڈا کرکے کھایا جائے سماجی حیثیت سے کسی بھی کام کو سلیقہ سے اورمناسب وقت دیکھ کرانجام دینا

زیادہ بہتربات ہوتی ہے اورجلدبازی کوشیطان کاکام خیال کیا جاتا ہے۔( �ینہ ابھارکرچلنا۔۳۴)

آاتی ہیں سرجھکاکرچلنا شرافت اورتابع داری کی علامت داری اوربڑائی کی شناخت کاخیال کیا جاتا ہے اسی لئے کہتے یہ سماجی رویہ ہے اوراس کے ذیل میں انسان کی اخلاقی روشیں رذہنی اورنفسیاتی حالت کا پتہ چلتا ہے سینہ کے ابھارصنفی علامتیں اابھارکر چلنے کے بھی ہیں جس سے انسان کی ہیں کہ وہ بازار میں سراٹھاکر اورسینہ تان کرچلتا ہے یہی معنی سینہ رر شباب بھی کہا جاتا ہے اس سے ہماری معاشرتی زندگی کے اشارات کوسمجھا جاسکتا ہے کہ کس بات کو ہم کس آاثا رن شباب‘‘ میں ظاہرہوتے ہیں اسی لئے انہیں ہیں جو’’ عنفوا

طرح ظاہر کرتے ہیں اب یہ الگ بات ہے کہ مہذب طبقہ کا سلیقہ اظہار کچھ اورہوتا ہے۔ درمیانی طبقہ کا کچھ اور اورنچلے طبقے کا کچھ اوراسی کے مطابق الفاظ کا چناؤ عمل میںآازادنہیں ہوتے بلکہ ذہنی حالتوں کے تابع ہوتے ہیں اورذہنی حالتیں سماجیات کی پابند ہوتی ہیں۔ آاتا ہے الفاظ

( �ینہ بہ �ینہ۔۳۵)امراد’’ دل‘‘ ہی ہوتا ہے اس لئے کہ جذبات واحساسات کا مرکز سینہ نہیں دل ہوتا ہے کسی ااس سے ادو شاعری میں جب سینہ کا ذکرکیا جاتا ہے تو اار امراد’’ دل‘‘ ہے اور سینہ سے یہاں

بات کا اس اعتبار سے ذکرکہ وہ ابھی سینہ بہ سینہ ہے اس معنی میں ہوتا ہے کہ اس کا حال کچھ خاص لوگوں ہی کو معلوم ہے سب کو نہیں۔ابھی تک ہے یہ راز سینہ بہ سینہ ہے( �ینہ �پرہونا۔۳۶)

آادمی سینہ سپرکے معنی ہیں مقابلہ کے لئے تیارہونا یامقابلہ کرنا سپر ڈھال کو کہتے ہیں تیغ یعنی تلوار کے ساتھ ڈھال کا ہونا ضروری تھا کہ تلوار کا وار ڈھال پر ہی روکا جاتا تھا اورجب

Page 148: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

غیرمعمولی طورپر اپنی بہادری کوظاہر کرتا تھا تووہ خودیا اس کے بارے میں کوئی دوسرا شخص یہ کہتا تھا کہ وہ ہمیشہ سینہ سپر رہے ہیں اس سے ایک زمانہ کی تہذیبی فضاء کا اندازہرر حقیقت کے کیا معنی رہے ہیں۔ ااس کے ساتھ زبان اظہا ہوتا ہے کہ انسانی معاشرتی کا ذہن اور

( �ینہ زوری کرنا۔۳۷)زورزبردستی کرنے کوکہتے ہیں یہ بھی ہمارا ایک سماجی رویہ ہے کہ ہم خواہ مخواہ اوربیشتر غیرضروری طور پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں اسی کوسینہ زوری کہا جاتا ہے۔

( �ینے �ے Pگانا۔۳۸)نا اوراچھا سلوک کرنا اس لئے کہ انسان ملتا ہے باتیں کرتا ہے معاملہ کرتا ہے مگرہرایک کو اپنے سینہ سے نہیں لگاتا دل سے قریب نہیں کرتا سینہ آا رر محبت کرنا اپنوں کی طرح پیش اظہا

سے لگا نے کے مفہوم میں دل سے قریب کرنا اوردل میں جگہ دینا شامل ہے۔

(0)‘‘ ش’’ ردیف(1) 

( شاJ درشاJ ہونا۔۱)  کئی پہلونکلنا یا نکالنا شاخ دراصل کوئی معاملہ مسئلہ یا مقدمہ بھی ہوتا ہے درخت کی ڈالی یا شاخ تواپنی جگہ ہوتی ہی ہے

ااس کے علاوہ کوئی اورشاخ کا یہ انداز قدرتی طورپر ہوتا ہے کہ شاخ میں سے شاخ نکلتی رہتی ہے اورایک پہلو کے مقابلہ میں یا آاتا رہتا ہے ہمارے سماجی معاملات ہوں یا گھریلوں مسائل کاروبار سے متعلق کوئی بات ہو یا اس کا تعلق انتظامی دوسرا پہلو سامنے

امور سے ہو شاخ درشاخ ہوتے رہتے ہیں بات میں سے بات اور نکتہ میں سے نکتہ ہماری عام گفتگومیں بھی نکلتا رہتا ہے۔بJ زعفران۔۲) ( شا

زعفران ایک خوشبودار شے ہوتی ہے جس کااپنا پودا بھی ہوتا ہے اور کشمیرمیں اس کی کاشت کی جاتی ہے ۔یہ کہاجاتا ہے کہرخ ااسے شا آادمی خوش مزاج ہوتا ہے اورہنسنے ہنسانے کی باتیں کرتا رہتا ہے آاتی ہے اسی لئے جوہر زعفران کا کھیت دیکھ کر ہنسی

 زعفران کہا جاتا ہے۔( شاخسانہ نکاPنا یا نکلنا۔۳)

کسی بات کے ایسے پہلو یا نتیجے نکلنا جوپہلے سے نظر میں نہ ہوں شاخسانے نکلنا یا نکالنا کہا جاتاہے اورہماری معاشرتیااس میں لوگوں زندگی میں ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں اورلوگوں کو اس کا شوق ہوتا ہے کہ وہ نئے نئے نتیجے نکالتے رہتے ہیں اور

آاخربات کا بتنگڑبنانا بھی توہمارے معاشرے کا ایک سماجی ہوسماجی رویہ ہوتا ہے اسی طرح شاخسانے نکالنا ہمارے آاتاہے کولطف معاشرے کا خاص انداز ہے سورج کا ڈھنگ ہے ۔

بی مرگ ہونا۔۴) ( شادآادمی کی حرکت قلب بند ہوجائے کہ اس پر موت طاری ہوجائے انسان ایک جذباتی جاندار ہے وہ ایک وقت میں اتنی خوشی ہونا کہ

اروے آادمی کی بوٹیاں چیل ک اتنا ناراض ہوتا ہے کہ دوسرے کا خون کرجاتا ہے یہاں تک کہ خون کو پی لیتا ہے جگرچبا لیتا ہے زق۔ رل فرا کوکھلا دیتا ہے اتنا مہربان ہوتا ہے کہ اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے عشق کرتا ہے توجنگل جنگل صحراصحرا بھٹکتا ہے بقو

پھرتے تھے دشت دشت دیوانے کدھرگئےوہ عاشقی کے ہائے زمانے کدھرگئے

Page 149: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

انسان کی جذباتیت کا ایک پہلو جومحاورہ بن گیا وہ یہ بھی ہے کہ اپنی غیرمعمولی حیثیت کے زیراثر اتنا خوش ہوتا ہے کہ اسیرسیات پر روشنی ڈالی گئی ہے جواس کے معاشرتی لمحہ پر مرمٹتا ہے اس محاورے میں ایک طرح سے انسان کے جذبات اورح

روشوں پراثرانداز ہونیوالی سچائی ہے۔آانا، شامت �رپرکھیلنا، یاشامت اعمال ہونا۵) ( شامت

ہرعمل اپنا نتیجہ رکھتا ہے اگرعمل اچھا ہوگا تونتیجے بھی اچھے ہوں گے اگرعمل خراب ہوگا تونتائج بھی برے نکلیں گے یہ ہماریآاناکہتے ہیں اور اردومیں شامت کے معنی ہی برے نتیجے کے ہیں کسی مصیبت کےسماجی مذہبی اورتہذیبی سوچ ہے۔ اسی لئے برے عمل کے نتیجے کو شامت

زب کاشعرہے۔ آانا کہتے ہیں غال پھنسے کو شامت آائی اچپ تھا مری جوشامت گدا سمجھ کے وہ

ااٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے  اٹھا اوراعلم ٹوٹنا۔۶) ااباس کا ( شاہ ع

اعلم‘‘اٹھائے جاتے ہیں ان میں ایک خاص اعلم‘‘ نکالنا ہوتا ہے یہ محرم کی سات تاریخ کی رسم ہے اس تاریخ کو محرم کے ’’ رس محرم کا ایک نہایت اہم مرحلہ’ تعزیہ داری اورمجالاعلم‘‘ ہوتا ہے مشک اس بات کی علامت ہے کہ وہ حضرت عباس کا علم ہے امشک لٹکی ہوتی ہے یہ حضرت عباس کا’’ اعلم‘‘وہ ہوتا ہے جس میں اوپر کی طرف ایک چھوٹی سی ’’

رل بیت پرپانی بند کیا گیا تھا تووہی دریائے فراط سے پانی مشک بھرکر لائے تھے اوردشمنوں کا مقابلہ کیا تھا۔ احرم کہلاتے تھے اورکربلا میں جب اہ رقہ جوساعلم‘‘ چڑھانا شیعوں کے یہاں ایک مذہبی رسم بھی ہے جومنت کے اعلم‘‘ خاص طورپر احترام کا مستحق قراردیا جاتا ہے اورحضرت عباس کی درگاہ واقع لکھنؤپر’’ حضرت عباس کا ’’

طورپر ادا کی جاتی ہے۔رل بیت کے نہایت ہی فداکار تھے حضرت رامام حسین کے چھوٹے بھائی تھے مگران کی ماں دوسری تھیں حضرت عباس حضرت امام حسین کے بڑے وفادار اوراہ حضرت عباس حضرت

آاتا ہے جوایک بددعا ہے اوربدترین سزا خیال کی جاتی ہے جسے ہم کہتے ہیں جھوٹے پرخدا کی مارپڑے۔ اعلم‘‘ کے ساتھ ٹوٹنے کا محاورہ بھی اس کے’’ عبا( شرع میں رخنہ ڈاPنا‘شرع پرچلنا۔۷)

ربدعت کہا جاتا ااسے مولویوں کی نظرمیں اادھر ہوجاتی ہے تو رادھر ااس کا احترام بہت کیا جاتا ہے اورذرا سی بات امراد ہے شرعیت اسلامی دستور اورقانون اورمذہبی قانون اسی لئے شرع سے ہے اورمذہب پسند طبقہ اسے شرع میں رخنہ ڈالنا کہتا ہے ’’رخنے ڈالنا‘‘ خود بھی محاورہ ہے اوراس کے معنی ہیں الرچیس پیدا کرنا روکاوٹیں کھڑی کرنا اس سے ہمارے معاشرتی طبقہرن الفاظ میں اس کا ذکر کرتے ہیں الفاظ کا چناؤ ذہنی رویوں کاپتہ دیتا رھرک کے ذہنی رویوں کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کن باتوں پر ذور دیتے ہیں اورکن رویوں کو کس طرح سمجھتے ہیں اورپ

ہے۔رل زبان اجازت نہیں دیتے وہ ہمیشہ جوںکا توں آاجاتی ہے جس کا تربیتی ڈھانچہ توڑنے کے اہ ااسے بدلا نہیں جاتا وہ روزمرہ کے دائرے میں محاورے میں الفاظ کی جونشست ہوتی ہے رن شرعیت کی پابندی کرنا جس کو ہم اپنے سماجی رویوں رہتاہے یہ محاورے کی ادبی اورسماجی اعتبار سے ایک خاص اہمیت ہوتی ہے شرع پر چلنا ایک دوسری صورت ہے یعنی قانو

میں بڑی اہمیت دیتے ہیں۔( شرم �ے پانی پانی ہونا۔۸)

ردعمل کا پتہ چلتا ہے ایک عجیب بات یہ راس سے معاشرے کے عمل ور رر ندامت کرنے سے متعلق محاورے بھی ہیں اان میں اظہا ہمارے ہاں جن محاوروں کی خاص تہذیبی اہمیت ہے ہے اوراس سے سوسائٹی کے مزاج کو سمجھنے میں مددملتی ہے کہ ہماری زبان میں شکریہ سے متعلق محاورے کیا ہوتے شکریہ کا لفظ بھی قصبات اوردیہات کی سطح پر موجودنہیںرر شرمندگی کے لئے ایک بہت پرکشش اوربامعنی ہے ہندی میں بیشک ابھاری ہونا کہتے ہیں مگردیہات وقصبات کی سطح پراس لفظ کی پہنچ بھی نہیں ہے اس کے مقابلہ میں اظہا

آاتا ہے اوروہ ہے شرم سے پانی پانی ہونا۔ محاورہ ساٹھانا، شوشہ نکاPنا۔۹) ( شوشہ

یررن ادو رسم الخط میں ف اار راملا کے اعتبار سے زیادہ واضح اورزیادہ صحیح ہو راس کے معنی ہوتے ہیں حرف کی شکل کو ایک ایسی صورت دینا جو راصطلاح ہے یہ تحریرونگارش کی ایک ادومیں جومحاورہ بنا ہے اس کی سماجی اہمیت بہت ہے لوگوں کی یہ اار کتابت کی بہت سی نزاکتوں کا خیال رکھا گیا ہے اس میں شوشہ لگانا اورشوشہ دینا بھی شامل ہے اس سے

عادت ہوتی ہے کہ وہ بات بات میں اعتراض کرتے ہیں اورنئے پہلو نکالتے ہیں اسی کوشوشہ نکالنا بھی کہا جاتا ہے ۔ شوشہ نکالنا بات چیت سے تعلق رکھتا ہے اورشوشہ لگانا تحریرسےمطلب اعتراض کرنا اورکمزوریاں دکھانا ہوتا ہے۔ تحریر یاتقریرکی اصطلاح یا تصیح پیش نظر نہیں ہوتی جس سے ہمارے معاشرتی رویوں کا اظہارہوتا ہے۔

Page 150: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

بشکارکرنا۔۱۰) بشکارہونا، )اان کے پروں سے اپنے بدن ااس نے ہزارہابرس پہاڑوں اورجنگلوں میں گذارے ہیں وہ جانوروں کا شکارکرتا تھا اورانہی سے اپنا پیٹ پالتا تھا راسی کے سہارے رشکارانسان کا قدیم پیشہ ہے

اان کی کھال پہنتاتھا۔ اان کی ہڈیوں سے اپنے لئے زیوراورہتھیار تیار کرتا تھا اور کو سجاتا تھا ردن میں جانورطرح طرح سے شریک تھے اب سے کچھ دنوں پہلے تک بھی شکارکاشوق بہت تھا۔ شکارپارٹیاںنکلتی ااس کے تم ااس کے شکارکی تاریخ ہے اور انسان کی قدیم تاریخ

آاتا تھا اور اس میں کیا کچھ اہتمام ہوتا تھا اس کا بھی ہماری اابھیجاجاتا تھا تاریخ میں بادشاہوں کے شکار کاذکر تھیں نشانہ بازساتھ ہوتے تھے اورشکار تقسیم کیا جاتا تھا اورتحفتامرتب ہوتا رہا ہے یہاں تک کہ شکارکرنا اورشکار ہوجانا ایک خاص محاورہ بن گیا جس سماجی زندگی میں شکار جن جن اعتبارات سے حوالہ بتا رہا ہے اسی کااثرزبان اورمحاورات پربھی

آابھی جاتے ہیں۔ آاجانا بہرحال یہ بھی ہماری سماجی زندگی ہے کہ ہم طرح طرح سے فریب دیتے ہیں۔ اورفریب میں کے معنی ہیں فریب دینا اورفریب میں ( شکل بگاڑنا‘ شکل بنانا ‘شکل �ے بیزارہونا۔۱۱)

آادمی اپنی شکل وصورت سے پہچانا جاتاہے اورہم دوسروں سے متعلق اپنے جس عمل ورد عمل کا شکل یعنی صورت ہماری تہذیبی اورمعاشرتی زندگی کا ایک اہم حوالہ ہے اسی لئے کہ ابت تراشی بھی شامل ہے ایک اساسی علامت ہے۔ ران فنون کی جس میں رن شاعری میں صورت کی اہمیت بنیادی ہے اوروہ رن تصویر اورف اظہارکرتے ہیں اس میں صورت شامل رہتی ہے فااجاڑصورت کہتے ہیں یہ وہی منحسوس صورت ہے جس کے لئے ہم اپنے محاورے میں کہتے ہیں کہ اس کی شکل میں نحوست ااجاڑکا لفظ لاتے ہیں آاباد والے صورت کے ساتھ حیدر

زب کا ایک مشہور شعرہے۔ برستی ہے۔ غالاویوں کواسد چاہتے ہیں خوب ر

آاپ کی صورت تودیکھا چاہےئےااس معنی میں شکل سے متعلق محاورے آاتا ہے اور امنہ دکھانا منہ دکھائی جیسی رسمیں اورمحاورے بھی ہمارے ہاں بھی طنزومزاح کے طورپر بھی صورت شکل کا حوالہ اکثر امنہ دیکھنا

رز بیان ہماری زبان اورشاعری کے نہایت اہم حوالوں میں سے ہے۔ یا محاوراتی انداسپوری۔۱۲) بشکم �یر ، شکم ( شکم پرور،

ااس کی زندگی کا مدار ہے۔ پیٹ کا تعلق رشکم ہے۔ یعنی پیٹ بھرنا ہرجاندار کا ضروری ہے کہ اسی پر آانیوالے الفاظ ہیں جس میں بنیادی علامت پیٹ سے متعلق مختلف محاورات میں تخلیق سے بھی ہے اورہم’’ حمل‘‘ سے لیکر بچے کی پرورش تک بدن کی جن علامتوں کوسامنے رکھتے ہیں ان میں پیٹ بہت اہم ذہینی حوالوں کا درجہ رکھتا ہے پیٹ سے ہونا پیٹرشکم ’’پوری‘‘ کا مفہوم اس سے تھوڑا مختلف ہے یعنی رشکم سیر ہوا۔ رشکم سیر ہوکر کھایا یا رشکم ناگزیر طورپر شریک رہتا ہے اسی لئے کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ رہنا جیسے محاورے ابری چیزوں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جوبہت کھاتے ہیں اورخودغرضانہ انداز سے دوسروں سے چھین کریا ان کا حق ابری طرح اچھی چیزوں سے یا صرف پیٹ بھرنا اچھی طرح یا اان کے معنی اورمعنویت کو اپنی سماجی زندگی سے جوڑکر ران محاورات پر غورکریں اور مارکرکھاتے ہیں ایسے لوگ شکم پرور کہلاتے ہیں۔ اورزندگی بھرشکم پروری کرتے رہتے ہیں اگرہم

ااس کی دعوت دیتے ہیں۔ دیکھیں تویہ پتہ چلتا ہے کہ یہ معمولی محاورے ہمیں کس طرح سوچنے سمجھنے پر مجبورکرتے ہیں یا سشگون کرنا، شگون ہونا۔۱۳) )

آاگئی صبح صبح ہی کسی ایسے شخص کی شکل اشگون لینے کے عادی ہیں ’’کو ا‘‘ بولا ’’بلی‘‘ سامنے اشگون ہمارے ہندوستانی معاشرے کا ایک اہم سماجی رویہ ہے ہم ہربات سے ادو کا ایک شعرہے جوشگون لینے کی روایت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اار دیکھی جوہمارے معاشرے میں منحوس سمجھا جاتا ہے

جس جگہ بیٹھے ہیں بادیدۂ غم اٹھیں ہیںآاج کس شخص کا منہ دیکھ کے ہم اٹھیں ہیں

افال نکالتے رن حافظ سے اس طرح سے شگون لینا یا شگون ہونا خوشی غم کسی کام کرنے کے ارادے سے گہرا تعلق رکھتا ہے ہم استخارہ کرتے ہیں فال نکالتے ہیں یہاں تک کہ دیوا ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا ایشائی مزاج شگون لینے اور شگون دیکھنے سے کیا رشتہ رکھتا ہے۔

رن نو روزمنانے کے سلسلے میں وہ ہندوؤں میں شبھ گھڑی شادی کرنے سے پہلے دیکھی جاتی ہے مغل حکومت کے زمانہ میں بھی اس طرح کا رواج موجودتھا یہاں تک کہ جش نجومیوں سے پوچھتے تھے اورلباس کا رنگ طے کرتے تھے۔

اطیورکی اڑتی سی ایک خبرہے زبانی ادوکے اسی رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اار زب کا یہ مصرعہ غال

بھلنا۔۱۴) (شگوفہ چھوڑنا، شگوفہ کرل فن اور اصحاب فکر کی نگاہوں نے آاویز سیرت ہوتی ہے جس کی اپنی خوبیوں کواہ شگوفہ’’ کلی‘‘ کوکہتے ہیں’’ کلی‘‘ کی پھول کے مقابلہ میں الگ اپنی پرکشش صورت اورایک دل

 سراہا ہے۔رھلے رن ک اپراسرار یت کو اپنے شاعرانہ انداز کے ساتھ پیش کیا ہے سنسکرت اورپراکرتوں میں اس کا ذکر کنول کے ادکھلے یاب شاعروں نے طرح طرح سے اس کی خاموشی دل کشی اور

Page 151: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

آایا ہے۔ پھولوں کی تصویر کشی کے ساتھ اان کے چٹکنے کے ساتھ اس کے حسین فارسی میں خاص طورپر گلاب کی کلی کے ساتھ اردومیں گلاب کے علاوہ چمبیلی کے مختلف رنگ رکھنے والے پھلوں کی کلیوں اور

عکس پیش کئے گئے ہیں یہ بھی ہماری تہذیب کا ایک علامتی پہلو ہے۔ ااردومیں شگوفہ کے ساتھ ایک دلچسپ محاورہ بھی ہے یعنی شگوفہ چھوڑنا یعنی ایسی دلچسپ بات کہنا کہ جومحفل کو پرمسرت بنادے اوراس میں کوئی ایسا پہلو بھی ہو

راس سے ہم اپنی معاشرتی زندگی میں محفل نشینی کے اندازوادا کوبھی سمجھ سکتے ہیں اورگفتگو کے اس معاشرتی اسلوب کو بھی جس میں جودلچسپ جھوٹ کا درجہ رکھتا ہو۔ آاتا ہے ہم سب دلچسپ گفتگو نہیں کرپاتے لیکن دلچسپ گفتگو سے لطف لیتے ہیں جوہمارے تہذیبی رویوں میں سے ہے۔ شگوفہ چھوڑنا

( شہد�امیٹھا، شہد Pگاکر چاٹو، شہدPگاکے اPگ ہوجانا۔۱۵)رمرت ہے رشہدہماری مشرقی تہذیب میں ایک عجیب وغریب شے ہے کہ وہ پھولوں کا اپنا ایک ایسا جز ہے جس کو بے حد قیمتی کہا جاسکتا ہے یہ دواہے بلکہ ایک سطح پر ا ہی ز ہ

د میں جس ش کو بھی رکھا جائ گا و عام حالت میں صدیوں تک گلن سڑن اورخراب ےکا تریاق اوراصلی ش ے ہ ے ے ہ ہے

۔ون س محفوظ ر گی ہے ے ے ہیں اوربعض ایس روی بھی ذب روی آت ذیبی‘‘ رویوں میں داخل اس میں م د’’ ت ہماری سماجی زندگی میں ش ے ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ

یں ایس موقع ادت نام مگراس س فائد کوئی ن l کسی آدمی ک پاس کوئی ش وت مثال یں ےجو الئق تحسین ن ہ ہ ے ہے ہ ہ ے ے ہ ہ

ار ساتھ ی د لگاؤ اور چاٹو یعنی اس تلخی کو برداشت کروک تم wس ش یں ک اب ا ت ہپربطور| طنز ومزاح ی ک ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ہ

د میں بھگولینا بھی اسی معنی میں آتا وا انگلی کوش ۔دھوک ہے ہ ہے ہ ہ۔( شیخ چلی۱۶)

نصیرالدین ک یں ایک خاص طرح کا سماجی کردار مwال� ےمسلمانوں ک اپن معاشر کا محاور اور اس ک معنی ہ ے ہے ہ ے ے ے

یں س ی مسلمان کلچر میں آیا اس طرح کا ہےنام س بھی اسی طرح کا ایک کردار ترکوں میں موجود اور و ہ ے ہ ہے ے

ماری داستانوں میں بھی اس ین اوربیوقوف wوجھ بجھکڑکی صورت میں بھی موجود ک و حددرج ذ ہکردار ب ہے ہے ہ ہ ہ ہ ہے

’’ شیخ چلی‘‘ جس کا مثالی نمون ’’ فسان آزاد‘‘ میںفوجی کا کرداراسی طرح کا کردار یں ہطرح ک کردارآ گئ ہے ہ ۔ ہ ے ے

ہے۔ونا، شیخی مارنا، شیخی میں آنا۱۷) ۔( شیخی بگھارنا، شیخی ک�رکری ہ

ندوستان میں شیخ کا تصور شعب ک سربرا س ت معززآدمی کو ت تھ یاپھرب ے’’شیخ ‘‘عرب میں سردار قبیل کوک ہ ے ہ ہ ہ ے ے ہ ہ

ےمتعلق جیس شیخ االدب‘ شیخ االمنطق‘ شیخ الحدیث‘ شیخ الجامع‘ کسی کالج یا یونیورسٹی ک صدر|اعلی� ے ہے

یں ا جاتا ی بھی خطابات ند‘ شیخ السالم‘ اورشیخ العرب‘ بھی ک یں عالو بریں شیخ ال ت ۔کوبھی ک ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ ے ہیں اوران یں جوسماجی زندگی میں بھی اپن اثرات رکھتی ہندوستان میں شیخ سید مغل اورپٹھان چار اونچی ذات ے ہ ہ

ارکرناشیخی مارنا‘ l شیخ ک ساتھ لوگوں ن شیخی بگھارناشیخی کا اظ یں مثال وگئ ہس کچھ سماجی روی وابست ے ے ہ ے ہ ہ ہ ے

مار یں اور ئ ےشیخی میں آناجیس محاور بھی اپن معاشرتی تجربوں اورخیالوںکی روشنی میں پیدا کرد ہ ہ ے ے ے ے ے

ت شیخی مارتا بڑھ چڑھ کر باتیں کرتا l و اپن خاندان ک بار میں ب یںمثال ہےسماجی روی اس ک دائر میں آت ہے ہ ے ے ے ہ ہ ے ہ ے ہ

wس |س طرح ک فقر ا مارا ایک سماجی روی ا ی ک شیخی جتانا‘ ت شیخی بگھارتا بات و ہیا اپن معامل میں ب ے ہے ہ ہ ہ ہے ہ ہے ہ ہ ے

ہے۔ک خالف ایک رد|عمل ےیں۱۸) ۔(شیربکری ایک گھاٹ پانی پیت ہ ے

یں و wس کی خوراک رن جیس جانور ا ا سف��اک بھی بکری بھیڑ ادر بھی اور ب انت ہشیرپھاڑکھان واال جانور جوب ہ ے ہ ہ ے ہے ہ ہے ے

تا wن کو اٹھال جاتا اوران کا خون پی لیتا جتنا گوشت خودکھانا چا wن پرحمل کرک ا wن کو دیکھتا ا ہےجب بھی ا ہ ہے ہے ے ے ہ ہے

یں ک شیر اوربکری ایک ساتھ ر ک ی صورت بھی ممکن ن ہکھالیتا باقی دوسر جانوروں ک لئ چھوڑجاتا ظا ہ ہ ہ ہے ہ ہے ے ے ے ہے

وتی ک wس ک انتظام کی خوبی ی ی خیال کیا جاتا ک بادشا کا رعب وداب اورا یں اورایک گھاٹ پانی پئیں ی ہر ہے ہ ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ

ے۔کوئی ظالم کسی کمزور اورمظلوم کون ستاسک ہا اوراسی س ی محاور بنا ک شیراوربکری ایک نوں میں رچا بسا چال آر مار ذ ہی آئیڈیل جوصدیوں س ہے ہ ہ ے ہے ہ ہ ے ہ ے ہے ہ

یں ۔گھاٹ پانی پیت ہ ے۔( شیش محل کا کتا۱۹)

وتا بھی تھا ک کسی خاص حص میں چھوٹ بڑ شیش لگاکر آراستگی کی wمراء ک محالت میں ےشیش محل ا ے ے ے ہ ہ ے

ت پسند کی جان والی چیز تھی ۔جاتی تھی اوری ب ے ہ  ہ

‘‘ � wت ت اچھا لگتا تھا مگر’’ک زار شکلوں میں نظر آتا تھا ی بھی لوگوں کو ب ی ش یا شخص ےشیش محل میں ایک ۔ ہ ہ ہ ے ہ

Page 152: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یں اوراپنی حدوں یںدیکھ سکت ب طرح اس ک پیچھ بھاگت �� میں کسی غیر کت کون ہکی مصیبت ی ک و محل ے ے ے ے ے ہ ے ے ہ ہ ہے ہ

wن کو یں و ا wت نظر آت ی ک wت یں اب شیش محل میں ایک کت کواپن چاروں طرف ک رنکال کردم لیت ہس با ہ ے ے ہ ے ے ے ہ ے ہ ے

یں س ایک دلچسپ محاور بن گیا یں ایک ط|لسم بندی میں بند جا تا ی wس بھگات تا توو سار ا ہبھگانا چا ے ہ ہے ہ ے ے ے ہ ہے ہ

ونا و ایک شاعران محاور اورداستانوںکی فضاء کو پیش کرتا ہے۔شیش محل کا کتا ہے ہ ہ ہ ہ۔( شیش میں ا-تارنا۲۰) ے

wنڈیلی جاتی اس ک عالو wس برتن کوبھی جس س شراب| جام میں ا یں اورشراب ک ا ت ہشیش آئین کوبھی ک ے ہے ے ے ہ ے ہ ہ ہ

وا اگرکسی ہےشیش کا ایک ط|لسمی تصوربھی ک پریوں کوشیش میں قید کیا جاتا اسی س محاور پیدا ہ ہ ے ہے ے ہ ہے ے

وتا اورکسی ن کسی طرح اس مشکل پر قابوپالیا جاتا تواس شیش میں اتارنا ےآدمی س معامل کرنا مشکل ے ہے ہ ہے ہ ہ ے

یں آتیں مگرکسی ن کسی ترکیب یں پریاں کسی ک قابومیں ن یں داستانوں میں پریوں ک کردار آت ت ہک ہ ے ہ ے ے ہ ے ہ

wس قابومیں کرلیا wتارلیا ‘‘یعنی ا یں شیش میں ’’پری کوا ت یں بھی قابومیں کیا جاتا تواس ک ےاورطریق س ان ے ہ ے ہ ے ہے ہ ے ہ

ن زبان اورادب میں مار ذ انیوں کا یں ک ط|لسماتی ک م ی نتیج بھی اخذکرسکت یں آتا اس س ہجوقابومیں ن ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ۔ ہ

یں م اپن محاورات میں بھی دیکھ سکت ۔جواثر اس ہ ے ے ہ ے  ہے

وتا wن پر عمل درآمد ل کچھ باتیں سوچتا ا ن پ وتا ذ نی ارتقاء کا دخل ہےزبان ک آگ بڑھن میں سماج ک ذ ہ ہے ے ہ ہ ہے ہ ہ ے ے ے ے

یں اورو محاورات ک سانچ میں کچھ ڈھلت wس سوچ یا اس عمل ک لئ الفاظ تراش جات یں س پھرا ےاورو ے ے ہ ہ ے ے ے ے ے ہ

ےیں اورایک طرح س یںPreserveہ ۔وجات ہ ے ہونک دینا، شیطان۲۱) ( شیطان ا-ٹھانا، شیطانی لشکر، شیطان سرپرا-ٹھانا، شیطان کا کان میں پھ-

وجانا ونا‘ شیطان ر ، شیطان ۔کی آنت شیطان کی خال ، شیطان کی ڈور ، شیطان ک کان ب ہ ہ ے ہ ے ہwرائی ا خیراور شر بھالئی اورب wرائی کاایک عالمتی نشان جوقوموں کی نفسیات میں شریک ر ہے’’شیطان ‘‘ب ہ ہے

wرائیو ںکا مجسم ی اسی کا ایک نتیج شیطان کا تصوربھی ک و ب ہےمعاشر میں مختلف اعتبارات س موجود ر ہ ہ ہ ہے ہ ہے ہ ے ہ

wرائی کا سرچشم شیطان کی ذات ہے۔اور بداعمالی کا دیوتا خیر کا خدا وند یزدان| پاک اورب ہ ہےی wس کی ذم داری شیطان پرڈالدی جائ گی اورکسی ن کسی رشت کو شیطان wرائی کر گا ا ہاب آدمی جوبھی ب ے ہ ے ہ ے

wس ک wس ک سرپر سوار ا یں گ ک شیطان ا ےکو سامن رکھا جائ گا اگرکوئی ب طرح غص کرتا توی ک ہے ے ہ ے ہ ہ ہے ہ ے ے ے

ت یں اگرکسی س کوئی برائی وجودمیں آتی توک یں گ ک و توشیطان وگا توک wرا ےسرچڑھا اگرکوئی آدمی ب ہ ہے ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ہے

ت wس برائی کا ذم دارآدمی توک وتا ک ا ےیں ک شیطان موجود اس ن کروائی ی برائی کروادی اگری معلوم ہ ہے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہے ے ہے ہ ہ

رنسبت شیطان کی طرف جاتی ک انسان کی ی ایک فطرت ہیں ک آدمی کا شیطان آدمی یعنی برائی کی ہ ہے ہ ہے ہ ہ

مارا تا بلک کسی دوسر ک سرڈالتا ی یں کرنا چا wس تسلیم ن وتا لیکن ا ہاورمزاج ک و ذم دار خود ہ ہے ے ے ہ ہے ہ ہ ے ہے ہ ہ ہ ہ ہے

تا اتنی فلسفیان طورپرشیطان ک وجود پر جنم دیا اورشیطان س نسبت مار سامن آتا ر ےسماجی روی آئ دن ے ہ ہے ہ ے ے ہ ے ہ

ی تھی و دوسروں س کردی wس اپن س کرنی چا wرائیوں کو پیش کیا جس کی نسبت ا ت سی ب ےک ساتھ ب ہ ے ہ ے ے ے ہ ے

بوں ن بھی اپن طورپر اس تصور کو ایسی سوچ اور ےمذ ے ۔میں داخل کرلیاApprochہ۔( شین قاف۲۲)

ج اورمختلف لفظوں ک تلفظ ک اعتبار س ایک ایسی زبان جس کو مختلف لوگ بولت wردwو زبان اپن لب ول ےا ہے ے ے ے ہ ہ ے

یں جس کا اس میں ایس حروف موجود یں ہاورالگ الگ بولیوں وال اپنی سماجی ضرورت ک لئ استعمال کرت ے ۔ ہ ے ے ے ے

’’ث‘‘ ذ’’ص‘‘ض‘‘ظ،ع، غ اور ف جیس یں یں سکت ی ن مار عام لوگ کر ۔تلفظ ے ۔ ہ ے ہ ہ ے ہیں اس پر بھی’’ شین‘‘ کو چھوٹ ’’س‘‘ س بدل دینا ی ن ماری دیسی زبانوں میں موجود ےاس لئ ک ی حwروف ے ہ ہ ہ ہ ہ ے

wرا لگتا اسی لئ جب ت ب نا ب نا اورقلم کو ’’کلم‘‘ک ےاور’’قاف‘‘ کو چھوٹ ’’کاف ‘‘س اورمwنشی ‘کو ’’منسی‘‘ ک ہے ہ ہ ہ ے ے

ہے۔کوئی شخص بولت وقت شین قاف کی دwرستگی کا خیال رکھتا ا جاتا ک ے ہتواس کی تعریف کی جاتی اورک ہے ہ ہے۔

wردwو سوسائٹی کا ذیبی معیار مگرا مارا ایک ت ہےاس کا ’’شین قاف‘‘ درست ی زبان لفظیات اورتلفظ س متعلق ہ ہ ے ہ ہے

ونا ایک محاور یں اوراسی لئ شین قاف دwرست یں ک و ’’شین قاف ‘‘کی درستگی پر زوردیت ہر زبان وال کا ن ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ے ہ

ہے۔

‘‘ ص ’’ ردیف 

Page 153: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

۔صاحب سالمت(۱) م بڑوں کو بھی سالم م حص�� ت ا ذیبی رویوں اوررسموں کا ایک ب مار ت ہسالم ہے ہ ہ ہ ہ ے ہ

ت وں کوسالم ب یں برابر والوں کو بھی اوراپن س چھوٹو ںکوبھی بادشا ہکرت ہ ے ے ہ ےیں وکر کورنیش بجاالت اں سات بار زمین بوس یں کیاجاتا و ہساد طریق پرن ے ہ ہ ۔ ہ ہ ہ

وتا |شاط کا سالم یں مwجرا ارباب| ن ہے۔جس درباری سالم ک سکت ہ ہ ے ہہ ےwس محاور ک طورپراستعمال کرت یں اورا ت ےم سالم مwجرا ایک ساتھ بھی ک ے ے ے ہ ے ہ ہ

تا السالم علیکم گویا wس ک ساتھ جwڑا ر wمراء کا سالم اورتسلیمات ا ہےیں آداب ا ہ ے ہے ہ’’ صاحب‘‘ سالمت‘‘ یں کرسکتا و ہبرابری کا سالم چھوٹا طبق باقاعد سالم ن ہ ہ ہ ہے

وتا wس کا اثرسالم پر بھی مرتب مار معاشر میں جو اونچ نیچ ا تا ہے۔ک ہ ہے۔ ے ے ہ ہے ہwس کو احترام ک طورپر بھی م ا ے’’صاحب ‘‘کا لفظ مالک ک معنی میں آتا ہ ہے ے

اں شریف مار یں جو ی معنی یں سکھ��وں میں’’ صاحب‘‘ ک و ہاستعمال کرت ے ہ ہ ہ ے ۔ ہ ےیں عام طور پر صاحب انگریزوں کو ت یں اسی لئ و گرودارصاحب ک ہک ے ہ ہ ے ہ ے

زادیوں ک لئ بھی صاحب کا ل بیگمات اورش |س س پ یں ا ت ر ےصاحب ک ے ہ ے ہ ے ہ ہے ے ہغال ک زمان میں گھرکی خواتین کو بھی ’’صاحب‘‘ ا وتا ر ےلفظ استعمال ے زب ہے۔ ہ ہ

ا کرت تھ اب ی ایک طرح کا محاور ۔لوگ ک ہے ہ ہ ے ے ہونا( ۲) ۔صاحب� نسبت ہ

یں ک اس شخص کو فالں صوفی وت wس ک معنی ی |صطالح اورا ہصوفیا ن ا ہ ے ہ ہ ے ہے ہنچا اسی لئ فارسی میں وحانی فیض پ wاں س ر ےخانواد س نسبت اس کو و ہے ہ ے ہ ہے ے ے

رت رکھتا ت ش ا گیا جوب ہے۔ی مصرع ک ہ ہ ہ ہ ہے گرچ خو ردیم نسبت است بزرگ ہ

ونا ماری نسبت بڑی اس معنی میں صاحب نسبت یں لیکن م چھوٹ ہاگرچ ہے ہ ہ ے ہ ہہے۔ایک سطح پر محاور بھی ہ

۔صاف ا-ڑانا‘ صاف انکارکرنا‘صاف جواب دینا‘ صاف نکل جانا( ۳)م جس ہماری سماجی عادتوں کمزوریوں یا برائیوں میں س ایک بات ی بھی ک ہ ہے ہ ے ہ

ی م ن سنا یں جیس wن دیکھی کرت wس کی ا ت ا یں چا ہبات کوسننا یا جاننا ن ے ہ ے ہ ے ے ہ ہم دانست انجان بنت وتا یں اوری سب کچھ جان کر مار علم میں ن یں یا ےن ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہے۔ ے ہ ہ

یں م اپن سماجی رویوں ک مطالع میں مددل سکت |س س ۔یں ا ہ ے ے ہ ے ے ہ ے ہر کرتا یعنی ذم وم کو ظا |س مف وم س قریب ترا ہصاف نکل جانا بھی اسی مف ہے ہ ہ ے ہ

مارا معاشرتی مزاج بھی ی ہے۔داریوں س بچ نکلنا اور ی ہ ہ ےونا( ۴) ، صبح خیز ۔صبح خیز،صبح خیز ہ ے

وتا اورعام طورپر ی التا ی عبادت کی غر ض س ہصبح کواٹھن واال صبح خیز ک ہے ہ ے ہ ہے ہ ےوتا وحانی کیف wہےخیال کیا جاتا ک صبح کی عبادت میں زیاد لطف اورر ہ ہ ہ ہلیکن یہے

ی تھی اسی س صبح ک ابتدائی حص�� میں |شار کرر ےعجیب بات ک جولفظی ترکیب اتنی نیکیوں کی طرف ا ے ے ہ ہ ہ ہے

یں کیونک قافل عرب میں رات ک وقت سفر وت یں جوقافلوں ک ساتھ وت ےچوری چکاری کرنیوال ی و لوگ ے ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ے

وت ےکرت تھ اورصبح ک قریب ی سوجات تھ اسی وقت اس طرح ک چوری چکاری کرنیوال مصروف| عمل ہ ے ے ے ے ہ ے ے ے

مار ادیبوں ن بھی استعمال کیا ہے۔تھ اس ے ے ہ ے ےی اوراپن خاص ‘‘ یں صبح خیز دراصل ’’صبح خیز ےفسان عجائب میں ایک س زیاد مثالیں دیکھی جاسکتی ہے ہ ے ہ ہ ے ہ

وم ک ساتھ ہے۔مف ے ہ۔( صبح شام کرنا۵)

نی تکلیفوں اورکرب واضطراب ک عالم کو اپن اندرسمیٹ ت سی پریشانیوں ذ یں جوب wردwو ک ایس محاورات ےا ے ے ہ ہ ہ ے ے

Page 154: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

وچکی ا جاتا جس کی زندگی توقعات ختم ونا بھی ی ایس مریض ک لئ ک wن میں’’ صبح وشام ‘‘ یں ا ہوئ ہے۔ ہ ے ے ے ہ ہے ہ ہ ے ہ

یں ک اس ت ی موقعوں پر ک یں ایس وک اب ی صبح س شام یا شام س صبح کر گا یا ن نا مشکل ہوں اوری ک ہ ے ہ ہ ے ہ ے ے ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ

ا |س طرح ک ی یا بڑھاپ ک بعدجب زندگی ک خاتم کا وقت آتا تومی ک الفاظ میں ا ور ہکی تو’’صبح شام ‘‘ ے زر ہے ہ ے ے ے ہے ہ ہ

ہے۔جاتا ون آئی میر ے صبح پیری شام ہ

ا ت دن کم ر ہتونا چیتا اورب ہا وئ ک |ضطراب اورب چینی ک عالم کی طرف اشار کرت ہے۔غالب ن صبح کرنا شام کا اسی ا ہ ے ہ ے ہ ے ے ے

ائی ن پوچھ ائ تن ہ کاو|کا و|سخت جانی ہ ے ہےصبح کرنا شام کا النا جwوئ شیرکا ہے

برکا پھل میٹھا ، صبربڑی چیز۶) Pہے۔( صبرپڑنا، صبرلینا، صwس ک بنیادی الفاظ میں شامل کیا جاسکتا |س طرح داخل ک و ا ماری زبان میں کچھ ا ے’’صبر‘‘عربی لفظ مگر ہ ہ ہے ہ ہے

ماری ونا یا صبروشکر کرنا یں ک صبرکرناصبرس کھانا ب صبر |س بات س بھی سمجھ سکت م ا |س ہ ا ہ ے ے ہ ہ ے ے ہ ے ہے

وا نظرآتا ہے۔اخالقیاتی فکر کا ا یک جwزبنا ہو معامالت کی اونچ نیچ اوردیانت ک ےمعاشر میں چا و گھریلو معاشر یا سرکارودربار بازار س تعلق رکھتا ہ ے ہے ہ ہ ہے ے

یں من م لڑت جھگڑت مار معامالت کا ایک جwز بن گیا اس پر مار معاشر کا ایک مزاج اور ہساتھ بددیانتی ے ے ہ ہے ے ہ ے ے ہ

وتا اگری صورت مستقل طورپر ر توزندگی میں ذرا بھی تواضح باقی ن ر اسی لئ صبرکرن کی ےموٹاؤ پیدا ے ہے ہ ہے ہ ہے ہ

وتا ا جاتا ک صبر بڑی چیز یا صبر کا پھل میٹھا ہے۔بات کی جاتی صبرس کام لین کا مشور دیاجاتا اوری ک ہ ہے ہ ہے ہ ہ ہے ہ ے ے ہے

یں اورجوآدمی ب صبر پن کا وتی ماری نفسیاتی تسکین ک لئ ت پسند ی سب باتیں ےیا الل کو’’ صبر‘‘ب ے ہ ہ ے ے ہ ہ ہے ہ ہ

ا ک الل یں قرآن ن خود بھی ایک موقع پر ک وت م کسی ن کسی طرح معترض ارکرتا اس پر ہاظ ہ ہے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہے ہ

ہے۔صبرکرنیوالوں ک ساتھ ےنا۷) ونا‘صحبت ن ر ۔( صحبت اٹھانا‘ صحبت داری ‘صحبت گرم ہ ہ ہ

یں اوربرابر وسکت wس میں بڑ لوگ بھی شامل یں ا ت wر لوگوں ک ساتھ بیٹھن اٹھن کو ک ہصحبت اچھ ب ے ہ ے ہ ے ہ ے ے ے ے ے

۔وال بھی پڑھ لکھ بھی اورغیر پڑھ لکھ بھی اپن بھی بیگان بھی ے ے ے ے ے ے ےwس س زیاد اچھ لوگوں کی یں سیکھتا اپن گھرک ماحول س بھی سیکھتا اورا ےانسان صرف کتابوں س ن ہ ے ہے ے ے ے ہ ے

ل تک ایس لوگ قدرکی نگا س دیکھ جات تھ جواچھ ےصحبت اٹھاتا تب سیکھتا اسی لئ کچھ زمان پ ے ے ے ے ہ ے ے ہ ے ے ہے ہے

ماری زبان ک محاور وت تھ اوراسی صورت حال کی طرف صحبت ک متعلق وئ ےلوگوں کی صحبت اٹھائ ے ہ ے ے ے ہ ے ہ ے

ذیبی صورت حال کا ایک ماری سوچ اورت |س معنی میں محاور یں ا وئ نظر آت ہاشار کرت ہ ہ ہ ے ے ہ ے )چھوٹاMiniature ہ

ن کو مائل کرتا مار ذ ہے۔سا مرقع( جوایک وسیع ترپس منظر کی طرف ہ ے ہ ہےوجانا ، ب تعلق قراردیا جانا۸) ۔( صحنک س ا-ٹھ جانا،غائب ے ہ ے

ماری زبان میں ’’صحن ‘‘آنگن کو وتا ویس اتی زبان میں صحنک ایک برتن جوعام برتنوں س بڑا ہماری دی ے ہے ہ ے ہے ہ ہ

وئ حص� ک معنی میں یں گھرک ساتھ و انگنائی ک معنی میں آتا اورکسی بڑی عمارت ک ساتھ کھل ت ےک ے ے ہ ے ے ہے ے ہ ے ہ ے ہ

ا جائ یعنی صحن ےجیس جامع مسجد کا صحن ک ہ ور مصرع Courtyardے wردو کا مش ہے۔ا ہ ہwٹھ جاؤں گی میں صحنک س ے اری ا

وںگی یں کی ن ر یں ک میں توک ۔اس ک معنی ہ ہ ہ ہ ہ ےنا۹) ۔(صل� علیVک ہ

زار سالم اسی wن پر نا بھی یعنی ا یں‘ ان میں صل| علی� ک ہبعض محاور خاص مسلمان کلچر س رشت رکھت ہے ہ ہ ے ہ ے ے

زار درود وسالم اسی لئ جب کسی کی ت دل س ا جاتا یعنی ےلئ مسلم معاشر میں صل علی� محم ک ہہ ے ہ ہے ہ دد ے ے

ا جاتا غال کا شعر wس صل| الل ک ت اچھ الفاظ میں یادکیا جاتا توا wس ب ہے۔تحسین کی جاتی اورا زب ۔ ہے ہ ہ ے ہے۔ ے ہ ے ہےwس شوخ کی نخوت کیا رنگ ‘ ا ہے دیکھئ التی  ے

یں ت م صلº الل ک ر بات پ ہاس کی ے ہ ہ ہ ہ ہیں ار س تعلق رکھت یں اورایک خاص کلچرک اظ ی ن ک معنی بھی ی ۔نام خدا ک ہ ے ے ہ ے ہ ہ ے ے ہ

نانا۱۰) ۔( صلXواتیں س-یں دردولیکن یں نماز اورصلو�ا ک معنی ’’ صالت‘‘ ک معنی ن ک معنی میں آتا جب ک نانا برابھال ک wہصلو�ات س ے ۃ ہ ے ہ ہے ے ے ہ

Page 155: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

wس کو وتا ک صلوا جواچھ س اچھ معنی میں آتا ا |س س wس کا انداز ا ہےزبان کیا کیا رنگ اختیارکرتی ا ے ے ے ۃ ہ ہے ہ ے ہ ہے

wر معنی میں اور ب تکلف استعمال کیاجاتا ہے۔ب ے ےماری زبان کو بی روایت بھی شامل یں ک کلچر جس میں مذ نچ سکت م اس نتیج پر بھی پ ہا س س ہے ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ے

ن اور زبان اس وتا لیکن زمان اورزندگی ذ |س کا ادبی علمی اورعوامی کردار اس س متعین ےمتاثرکرتا اورا ہ ہ ہے ہ ے ہے

نچ جاتی یں پ یں س ک یں ک ا س کارخ بدل جاتا اور زبان ک ہے۔جگ جگ اس طرح بھی متاثر کرت ہ ہ ے ہ ہے ہ ہ ے ہ ہ۔( صندل ک چھاپ من پرلگنا، صندل کی سی تختی، صندل گ-ھنا۱۱) ہ ے ے

یں وت ندوستان میں پیدا وتی اس ک درخت جنوبی ہصندل دراصل ’’چندن‘‘ جوایک خوشبودار لکڑی ے ہ ہ ے ہے ہ ہے

یں ی صندل گ|ھس ندوستان ک لوگ پنڈت اپن ماتھوں پرقشق لگات wن کا خاص تعلق جنوبی ندوکلچرس ا ہاور ہ ے ہ ے ے ہ ہے ے ہ

wس کو خوشبودار بنان اکوی کالی داس ک زمان میں عورتیں اپن بدن کی سجاوٹ ک لئ اورا ےکر لگایا جاتا م ے ے ے ے ے ہ ہے

wس پر چندن لگاتی تھیں چندن کی لکڑیوں س بعض خوبصورت آرٹیکل تیارکئ جات تھ ا بٹن میں ےکی غرض س ا ے ے ے ۔ ے

ا را رشت ر مار کلچر س ’’چندن ‘‘کا صدیوں س ایک گ ہے۔بھی چندن شامل کیا جاتا تھا اس طرح ہ ہ ہ ے ے ے ہ|س ک عالو صندل ر کرنا اورسرخ روئی کا نشان ا ہ’’چندن‘‘ ک چھاپ من پرلگانا اپن کردار کی خوبیوں کو ظا ے ہے ہے ہ ے ہ ے ے

ہکی تختی بھی خوبصورتی اور وجودکی پاکیزگی کوظا کرتی اوراس س ی بھی پت چلتا ک بعض محاورات کو ہے ہ ہ ے ہے

ماری زبان ک بولن والوں ن کس حدتک شاعران طریق رسائی کو اپن سامن رکھا بعض ہے۔تراشن میں ے ے ہ ہ ے ے ے ہ ے

|س ک wگلنا‘‘، بعض محاور ا یں جیس آگ کھانا اور انگار ’’ا ر کرت ائی مبالغ آمیز صورتوں کو ظا ےمحاور انت ے ے ے ۔ ہ ے ہ ہ ہ ے

wن ک منعی اورمعنویت کو سمجھا جاسکتا یں اوراسی پس منظر میں ا وت ہےمقابل میں سماجی تلخیوں کا نتیج ے ہ ے ہ ہ ہ

ونا وئ تیروں مقابل میں شیروشکر ربجھ یں جیس ز وتی ر ۔بعض محاوروں س زندگی کی خوشگواریاں ظا ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ے

ارکرنا اسی طرح صندل دجیس میٹھ بول ک کرخوشی کا اظ ش ونا دجیس تیروں ک مقابل میں شیروشکر ۔ش ہ ہہ ے ے ہ ۔ ہ ہ ے ے ہ

یںک م ی نتیج اخذ کرسکت ر کرتا اوراس س ات اوراستعاروں کو ظا ہکی تختی’’صندل ‘‘کا چھاپ شاعران تشبی ہ ے ہ ہ ہ ے ہے ہ ہ ہ ہ

یں اگرچ محاوروں پر اس وئ ار ک مختلف سلیقوں کو محاور اپن اندر سمیٹ ہمار طریق فکر اور طرز|اظ ہ ے ہ ے ے ے ے ہ ہ ے ہ

ہے۔رشت س کم نظر ڈالی گئی ے ے ۔(ص-ورت حرام۱۲)

wجاڑ صورت یاپھرصورت حرام صورت ک یں جیس ی صwورت اور’’مسورکی دال‘‘ یا ا ت س محاور ےصwورت پرب ہ ے ہ ے ے ہ

ا ر صورت پر پھٹکاربرستی اس محاور نی تلخیوں کا اظ wجاڑمنحوس یا ’’حرام‘‘ کالفظ استعمال کرنا ذ ےساتھ ا ہے ہے۔ ہ ہ

وتا شیطان کی سی ’’تھوپڑی‘‘ بیل جیسا من وغیر محاورات اسی جذب کا ار ہس بھی اسی صورت| حال کا اظ ہ ہ ہے ہ ہ ے

wس ک روی میں شامل ونا ا اس کی شکل س بیزار وک wس حدتک ناراض یں ک کوئی شخص دوسر س ا ار ہاظ ے ہ ے رہ ہ ے ے ہ ہ ہ

ے۔وجائ ہ

.‘‘ ض’’ ردیف 

ونا،(۱)  دباندھنا، ضدپوری کرنا، ضد بحث میں پڑنایاضدی ہض�۔ضدچڑھنا

|س س یں اورا ت عام لفظو ں اورزبان پر آنیوال کلمات میں س ا ںک ب ےمار ہ ے ے ہ ے ہ ے ہwس پر اڑجانا ٹ دھرمی اوربالوج کسی روی کواپنانا اورا وتا ک ’’ضد‘‘ ر ہظا ہ ہ ہ ہے ہ ہم معامالت کو سمجھن ک ےمار معاشر کی عام کمزوری یا عیب داری ے ہ ہے۔ ے ے ہ

وئ ’’بدگوئی ،بدکالمی‘‘ ارخیال ن کرت ےبجائ اورمناسب لفظوں میں اظ ہ ے ہ ہ ےیں اورغلط طورپر غیر دانش یں اس س تلخیاں بڑھتی ہاوربداندیشی اختیارکرت ے ۔ ہ ے

یں م بچوں کی سی ’’ضد‘‘کا محاور بھی اختیار کرت ہمندان روی سامن آتا ے ہ ہ ہے ے ہ ہےجوایک صورت| حال کی طرف اشار جس ک پس منظر میں عقل وشعور کی ہے۔ ہ

وتا ار ہے۔کمی کا اظ ہ ہےض|دبحث میں پڑنا بھی خوا مخوا کی باتوں پرزوردین اورغیرضروری دالئل کو ہ ہ

ی چلی جاتی wلجھتی وتا اوربات سلجھن ک بجائ ا ی کا نتیج ہےسامن الن ہ ے ے ے ہے ہ ہ ہ ے ے

Page 156: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یں |س س اوربڑھتی یں اور سماجی الجھنیں ا ماری سماجی گر ۔اور ہ ے ہ ہنچنا( ۲) نچانا اور ضرب پ ۔ضرب ا-ٹھانا، ضرب لگانا، ضرب پ ہ ہ

یں ک نچان ک سلسل میں کام آت نچن یاپ ہی محاور عام طورپر تکلیف پ ہ ے ے ے ے ہ ے ہ ے ہیں لیکن ضرب المثل یا ضرب المثال ہعربی زبان میں ضرب ک معنی مارن ک ے ے ے

وتا یںک و ف|قر اب باربار استعمال |صطالح جس ک ی معنی ہےایک علمی ا ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ہےہے۔اورایک مثالی صورت بن کرر گیا ہ

‘‘ ط ’’ ردیف 

ونا(۱)  نا، طاق پررکھنا، طاق ہطاق بھرنا، طاق پررکھا ر ہندووان رسم جومسلمانوں میں یں ایک ہے’’طاق بھرنا‘‘ دراصل کوئی محاور ن ہ ہ ہے ہ ہوتا مسجد ک ماری ملکی رسموں میں ی ک wس کا شمار ی ک ےبھی آگئی اورا ہے ہ ہ ہ ے ہ ہ ہے۔

وتا ار| عقیدت ہے۔طاق بھر جائیں یا مندرک مطلب اظ ہ ہ ے ےی ا|س ہے۔چیزوں کی بھینٹ دینا قدیم زمان س انسانی معاشر کی ایک رسم ر ہ ے ے ے

میں چوڑیا ں چڑھانا چوٹیاں شاخوں میں باندھ دینا بالوں کو بھینٹ دینا زیوراتماری ہبھینٹ کرنا اورمیٹھائیاں چڑھانا یا روپ پیس چڑھاو ک طورپر نظر کرنا ے ے ہ ے

یں پانی م دریاؤں کو بھی بھینٹ دیت اں تک ک ہعمومی رسموں میں شامل ی ے ہ ہ ہ ہےیں اسی طرح مندروں مسجدک طاق ےک تاالبوں اورکھیتوں کو بھی بھینٹ دیت ہ ے ے

یں تیل دیا جاتا ی زیاد ترعورتوں کی یں چراغ چڑھائ جات ہبھر جات ہ ہے ہ ے ے ۔ ہ ے ےl‘‘نسوانی رسم یں ک خالصتا ت یں ’’طاق بھرنا توی ک ہے۔رسمیں ہ ہ ے ہ ہ ہ

wھول جانا دھیان ن یں ب وت |س ک معنی ہطاق پررکھنا اس س بالکل مختلف ا ہ ے ہ ے ہے ےیں چھوٹ بڑ طاق اں چیزوں کو رکھن جس میں پیس بھی شامل مار ی ےدینا ے ہ ے ے ہ ے ہ ۔

یں wن پر رکھ کرکبھی گھرک لوگ بھول بھی جات تھ ی ہی کام میں آت تھ اورا ے ے ے ے ے ہےس طاق پررکھن کا محاور بھول جان اورفراموش کردین ک معنی میں ے ے ہ ے ے

یں اور ایک ) ت طاق محل کوبھی ک ون لگا ہاستعمال ے ہ ۔ ے ے(عددکوبھی جیسSingleہون کا محاور بناک و اپن اپن کام یں س ’’طاق‘‘ ےایک تین پانچ سات اور نو ی ے ہ ہ ہ ے ہ ے ہ

نرمندی میں طاق یعنی ب جوڑ منفرد راوراپنی ہے۔میں ما ہے ے ہے ہ ہ۔طالع چمکنا ( ۲)

تا اوراسی ک | نجوم میں ستاروں کا رشت انسان کی قسمت س بھی جwڑار ےعلم ہے ہ ے ہہےمطابق جنم پتری تیارکی جاتی جس میں پیدائش ک وقت جوستار مل ر ے ے ہے۔

یں ونیوال ر کیا جاتا اورآئند زندگی پر جwو اس ک اثرات wن کو ظا یں ا ہوت ے ہ ے ہ ہے۔ ہ ہ ے ہیں wن کی طرف اشار کئ جات ۔ا ہ ے ے  ے

ونا، نکلنا اب کسی کی پیدائش ک وقت جوستار یں طلوع ے’’طالع‘‘ ک معنی ے ہ ہ ےیں ی وت یں جوقسمت ک ستار الت |س ک طالع ک ی ا یں و وت ہنکل ر ہ ے ہ ے ے ۔ ہ ے ہ ے ہ ہ ے ہ ہےالت یں اورن مبارک بھی اسی لئ طالع مسعوداورن مسعودک وسکت ےمبارک بھی ہ ہ ے ہ ہ ے ہ

یں |ن لفظوں کا استعمال بھی کرت یں و ا wردومیں جولوگ ادبی زبان بولت ہیں ا ے ہ ہ ے ہماری سوچ کا ایک انداز ذیبی ماحول کا ایک حص� اور مار ت ہے۔اوری ہ ہے۔ ہ ہ ے ہ ہ

ونا( ۳) ۔طباق سامن ہ ہر کو انسان ک حwسن خوبصورتی اور بدصورتی ک سلسل میں بڑی ےم چ ے ے ے ہ ہ

یں کبھی ٹکیاں سامن قرار ت یں کبھی چاندک ت یں کبھی پھول ک میت دیت ہا ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ے ہ

Page 157: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ت گول ر ب یں ایسی لڑکیاں یا عورتیں جن ک چ ت یں کبھی آئین رخ ک ہدیت ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ےwن ک لئ یں ا وت لک ر مقابل میں lبڑ چ ےوت اور جن ک نقش ونگار نسبتا ے ہ ے ہ ے ہ ہ ے ہ ے ے ے ہ

یں ا جاتا ک و طباق س من والی لڑکی یا عورت ۔ک ہ ہ ے ہ ہ ہے ہا کرتی ت تھوڑی عمرمیںپرد کروا دیاجاتا تھا اس وقت عورتیں ک ہجب لڑکیوں کوب ہ ہیں کروایا گیا ی بھی سماجی وگیا اب تک اس کو پرد کیوںن ہتھیں ک طباق سا من ہ ہ ہ ہ ہ

ماری معاشرتی روں میں اب تک دیکھن کو ملتا اور ہروی جوقصبوں چھوٹ ش ہے ے ہ ے ہے ہا رکرتا ہے۔سوچ کا اظ ہ

۔( طباقی کتdا۴)یں � ک چاٹن ک لئ رکھ دیا جا تا اب توایسا ن wس کو کت ندوؤں میں جس تھالی میں کھایا جاتا ا اں ہمار ہے ے ے ے ے ے ہے ہ ہ ے ہ

ت تھ جوگویا سماج کی wس طباقوکتا ک ا جوکتا ی کام کرتا تھا اورا ےوتا لیکن اس کا ایک عام دستور ضرورر ے ہ ے ہ ہے ہ ہ

wدھر |دھر ا التی تھیں جن کو ا ہطرف س ایس کرداروں کا ایک طنز کا درج رکھتا تھا ایسی عورتیں بھی’’ طباقو‘‘ ک ہ ے ے

وتا تھا ۔کھان پین کا اللچ ہ ے ے۔( طبق ا-لٹ جانا۵) ہ

wن کا یں اور ا و دونوں میں آسمان وزمین ک طبقات داخل ویا فلسف اورسائنس س متعلق بی فکر ہماری مذ ے ہ ے ہ ہ ہ ہ

یں زمین ک بھی طبق تا خود قرآن ن آسمان کو سات طبقوں س وابست کیا ہذکرموقع ب موقع آتا ر ے ے ۔ ہے ہ ے ے ہے ہ ہ

وگئ سماجی اں محاور بھی چود طبق روشن مار ا جاتااور ےاورزمین وآسمان ک طبق مالکر چود طبق ک ہ ہ ہے ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ے

یں مثال پڑھ لکھ لوگوں کا طبق کاریگروں م طبقات کی تقسیم ک قائل ہطورپر بھی اورمعاشی طورپر بھی ے ے ہ ے ہ

یں ۔کاطبق جس میں مزدوراور کم درج ک دستکار سبھی شریک ہ ے ہ  ہ

ل| شعروادب اوراصحاب| فلسف وتصوف کوبھی طبقات میں م ن ا ہامیروں کا طبق سیاست پسند وں کا طبق ہ ے ہ ہ ہ

یں ک طبق اور م انداز کرسکت ‘‘ اس س ہتقسیم کیا اور طبقا الصوفی ’’طبقا الشعرائ‘‘ ’’طبقا الملک ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ۃ ۃ ہ ۃ ہے

یں طبق یں ی محاور بھی اسی کی طرف اشار کرت ماری معاشرتی زندگی میں کس طرح داخل ر ہطبقات ہ ے ے ے ہ ہ ہے ہ

ونا یا طبقاتی wلٹ پلٹ اں طبق بھی اورسبق بھی طبق الٹ جانا یعنی زمین کا ا ونا و ہالٹ جانا چود طبق روشن ہ ہے ہ ہ ہ

یں آیا اورآنکھوں ک وتی ک اورکچھ نظرن وجانا اورمراد وجانا زمین س آسمان کا روشن م م بر ےتقسیم کا در ہ ہ ہے ہ ہ ے ہ ہ ہ

۔آگ اندھیرا چھاگیا ے۔( طبیعت آنا، طبیعت الجھنا، طبیعت بگڑنا، طبیعت بھرجانا، طبیعت لگنا۶)

wس س مراد انسان کی اپنی مزاجی کیفیت ’’دل‘‘ اور’’جی‘‘ توج وغیر مثال طبیعت ہطبیعت عربی لفظ اورا ہ ہے ے ہے

رانا بھی دل یں طبیعت ل ت وجان کوک یں اورطبیعت آنا دل آن یا عشق یں جوجی لگن ک ی معنی ہلگن ک و ہ ے ہ ے ہ ے ہ ے ے ہ ہ ے ے

ا جاتا عالم| فطرت کو بھی طبیعت س نسبت دی جاتی وجان ک لئ ک ان کیفیت پیدا ون اوروال ہےک خوش ے ہے ہ ے ے ے ہ ہ ہ ے ہ ے

وم وابست wس پر اگرنظررکھی جائ تولفظوں ک ساتھ کیا گیا مف یں ا ت ہاورطبیعات عالم| فطرت ک عمل کوک ہ ے ے ۔ ہ ے ہ ے

یں wن ک معنی میں کیا کیا تبدیلیاں آتی نچ کر ا یں اورخودمحاور میں پ ۔وت ہ ے ہ ے ۔ ہ ے ہت بڑا ہاس معنی میں اگردیکھا جائ تولفظ ک لغوی معنی س لیکرشعری ،شعوری ادبی اورمحاوراتی معنی تک ب ے ے ے

ہے۔فرق آجاتا ۔( طرار بھرنا، طرارا آنا۷) ے

انیوں عام گفتگو م اس ک ی ک سلسل میں ی محاور آتا بھی اور رنوں یں اور ت رن ‘‘کی دوڑکو ک ہطرار ’’ ے ہ ہے ہ ہ ے ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے

wس ک مقابل میں طرارا آنا رن‘‘ طرار بھرن لگاا یں ک ذراسی دیرمیں ’’ ےیا شعروشاعری میں سنت اوردیکھت ے ے ے ہ ہ ہ ے ے

wس تو’’طرارا‘‘ آجاتا غص� آنا توایک بات لیکن طرارا آنا زبان کا ہےغص� آن ک معنی میں آتا ک ذراسی بات پر ا ہ ہے ے ہ ہے ے ے ہ

ماری wس کا یں اورا |س س پت چلتا ک محاور تشبی اوراستعار زبان میں کیا لطف پیدا کرت ہحwسن اورا ہ ے ہ ہہ ہ ہ ہے ہ ے ہے

ہے۔سماجیات س کیا رشت ہ ےونا طرح دینا ،طرح نکالنا۸) ۔( طرح دار، طرح ڈالنا، طرح دار ہ

یں خاص وت ماری ادبی اورسماجی زندگی میں’’ طرح داری‘‘ ک معنی یں طرز| انداز اورادا ہ’’طرح‘‘ ک معنی ے ہ ے ہ ہ ے

یں کسی وت ت آتا تھا طرح ڈالنا ک معنی ل ب اں اب س پ مار ادیبوں ک ی ہانداز رکھنا معشوق طرح داری ے ہ ے ۔ ہ ے ہ ے ہ ے ے ہ

wس رواج دینا شاعری میں جب کوئی مصرع غزل لکھن ک لئ مشاعروں ک سلسل ےانداز|ادا کو اختیارکرنا اورا ے ے ے ے ہ ۔ ے

Page 158: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یں طرح وت یں طرح دین ک معنی نظر انداز کردین ک بھی ت ونا ک ہمیں دیا جاتا تواس طرح دینا یا طرح ے ہ ے ے ے ے ہ ے ہ ہ ے ہے

یں ت ۔نکالنا بھی کسی نئ اسلوب کو رواج دین کوک ہ ے ہ ے ے۔( ط-رفت العین میں۹) ہ

l میں بھی l فانا |س کی طرف اشار کرتا ک کوئی کام آنا یں ی عربی لفظ اورا ت ہطwرف العین پلک جھپکن کوک ہے ہ ہے ہ ہ ے ہ ے ۃ

وم کو العین عربی کا لفظ اسی مف وجائ طرف تا ک ی کام گھڑی کی سیت )ساعت میں( ہوجاتا یا جی چا ۃ ۔ ے ہ ہ ہ ہے ہ ہے ہ

رکرتا ہے۔ظا ہ۔( طرف معجون۱۰)  ہ

وں طرف معجون ہعجیب قسم کی طبیعت یا سوچ کا عجیب وغریب انداز یا پھرایسی تحریرجس میں فکری الجھاؤ ۔ ہ

یں ت �ی نسخ ک مطابق تیارکرد دوا کوک یں ایک طب م جانت التی معجون جیسا ک ہیا طرف معجون مرکب ک ے ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ

یں جیس معجون’’ سورجان‘‘ یامعجون فالسف ی د اوردوسری بعض جڑی بوٹیا ںکوٹ کرڈالی جاتی ہجس میں ش ہ ے ہ ہ

یں wٹھات م علم وفن کی کن کن باتوں س محاور پیدا کرن میں فائد ا یں ک ۔محاور اس طرف اشار کرت ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ےوتا وتا اورسب کی طرف س وتا سب ک لئ وتا سب کا یں ہے۔محاور کسی ایک کان ہ ے ہے ہ ے ے ہے ہ ہ ہ ہ

ونا، طشت چوکی۱۱) ۔( طشت ازبام ہماری ماری اپنی بھاشا یاقریبی عالقوں کی بھاشاؤںس اں محاوروں کی طرف ایک بڑی تعداد توو جو ہمار ی ے ہ ہے ہ ہ ے ہ

م ن ایک خاص یں ی ایک فطری عمل ک یں جوفارسی س آئ یں کچھ محاور و بھی وئ ےزبان میں منتقل ہ ہ ہے ہ ہ ے ے ہ ہ ے ۔ ہ ے ہ

ی میں س ایک محاور ونا ان یں طشت ازبام ر اثرات قبول کئ ہےدورمیں فارسی ادب اورزبان س گ ہ ے ہ ۔ ہ ۔ ہ ے ے ہ ے

وجانا ی ونا اورسب کو خبر یں رازفاش wس ک معنی ہجوفارسی ک ادبی اورلسانی اثرات کی نمائندگی کرتا ا ہے ہ ہ ہ ے ہے ے

رت wن کی ش ماری برائیوں کا ذکراورا ت ک خوامخوا یں چا م ی ن ہماری سماجی نفسیات کا بھی ایک حص� ک ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہ

wن یں ا wری طرح پھیالت یں کرتا اوربرائیوں کو ب ہپھیل یوں بھی معاشر کا ی ایک مزاج ک نیکیوں کا کوئی ذکرن ے ہ ہ ہے ہ ے ے

ی یں کچھ ایسا مارا سماجی رو ی ن یں غلط مگر یں ی بات اچھی ن ہے۔کو’’ طشت ازبام‘‘ کرت ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ ےwس پر بیٹھ کروضوکرنا اور وضو ک پانی کو ایک تی تھی اورا ذب گھروں میں ایک چوکی ر مار م ےعام طورپر ہ ہ ے ہ

ن کا ذکر آتا ےطشت میں جمع کرن کی گھریلوروش ایک خوبی تصورکی جاتی تھی اسی لئ طشت چوکی بچھ ر ہ ے ے ے

|س محاور قراردیا گیا |س کوئی محاور قراردینا مشکل اگرچ مخزن المحاورات میں ا ہے۔تھا مگرا ہ ے ہ ہے ہ ے ۔ونا۱۲) ۔( طفل� مکتب ہ

اں قرآن کاکوئی سپار یا پھرپورا قرآن پاک بچ وتی ج یں اورمکتب ابتدائی درج کی درس گا ت ےطفل| بچ کوک ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ

وتی ی وتی عمربھی اس وقت بچپن کی منزل س گذر ر ت ابتدائی تعلیم کی منزل رحال ی ب یں ب ہےپڑھت ہ ہ ے ہے ہ ہ ہ ہ ہ ے

| ک اعتبار س وتا ک و عقل اورعلم نا وت اسی لئ جب کسی کوی ک یں |س میں داخل ن ےبڑی عمرک لڑک ا ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے ے ہ ہ ے ے

یں آتا ا جاتا اورجس آدمی کو جس عالم یا مولوی کوکچھ ن wس طفل|مکتب ک ی ابتدائی سطح کا آدمی توا ت ہب ہے ہ ے ہے ہ ہ

ال تا ہے۔و مالئ مکتبی ک ہ ے ہ۔( طنطن دکھانا۱۳) ہ

یں ت |س طنطن ک |سی لئ ا وتا اورا ار مقصود ادری اوربڑائی کا اظ |س میں غص ب وتی اورا ہطناؤکی کیفیت ے ہ ہ ے ے ہے ہ ہ ہ ہ ہے ہ

مار یں ی بھی ایک طرح س ت طنطن دکھالت وتا ک و ب ن وال کی طرف س ایک طنزچwھپا wس میں ک ےاورا ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہے ہ ے ے ے ہ

م بات وتی اوراس اعتبار س ایک ا ۔سماجی عمل اور رویوں پرایک تنقید ہے ہ ے ہے ہونا۱۴) ۔( طورب طور ہ ے

وتا اب اگرکسی وتا اچھا ڈھنگ |س س مwراد سلیق یں اورا ت اجاتا اسی لئ طورب طورک ہےطورطریق کوک ہ ہے ہ ہ ے ہ ے ہ ے ے ہے ہ ہ

|س محاور م ا یں ت ونا ک wس طور ب طور wکی نظر آتی توا وجاتا اوربات ب ت ےوج س ب ڈھنگا پن پیدا ہ ہ ے ہ ہ ے ے ہے۔ ے ہے ہ ے ے ہ

یں کس طرح نظر رکھتا مار انسانی رویوں جومعاشرتی روی بن جات یں ک معاشر ہےس انداز کرسکت ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ے

ہے۔اورگفتگو کی جاتی ۔( ط-وطی بولنا۱۵)

انیوں کا ایک کردار بن وتی و طوط کی طرح ک ت خوبصورت ہ’’طوطی‘‘ ایران کا ایک پرند جس کی آواز ب ے ہ ہے ہ ہ ہے ہ

ار ک ت خوش آوازی س بولتا اورب ار آتا توایران ک پرند اورخاص طورپر ’’طوطی‘‘ ب ےجاتا جب موسم ب ہ ہے ے ہ ے ے ہے ہ ہے

wس کی ا یعنی ا wس کاطوطی بول ر یں ک ا ت وتی توک رت wس کی ش ہےآن کا اعالن کرتا وقت آتا اورا ہ ہ ہ ے ہ ہے ہ ہ ہے ہے ے

وئی ار آئی ہے۔زندگی میں ب ہ ہ

Page 159: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

۔(طوفان ا-ٹھانا، طوفان ا-ٹھنا۱۶)و جwھوٹ بول واورو دانست عمل وجانا جس میں کسی فردیا کسی جماعت کا عمل شریک ہغیرصورت| حال کا پیدا ہ ہ ہ ہ

wس کو طوفان کھڑا کرنا ’’طوفان wن صورت حال پیدا کی جاتی ا ہےکر فریب دیکر سازشیں کرک جوپریشان ک ے

نگام برپا کردیا wٹھادیا wس ن طوفان ا یں ک صاحب ا ت ۔اٹھانا‘‘ ک ہ ہ ے ہ ہ ے ہنگام بڑھتا جاتا اس وتا ک و صحیح فیصل کرسک اسی لئ و یں ن ن وتی ذ ہےعام پبلک ک پاس زبان ہ ہ ہ ے ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہ ے

ی کرتا طوفان آنا غیرمعمولی م محاور اورسماج کی نفسیات اورعمل ورد عمل کی نشاند ت ا ہےاعتبارس ب ہ ہے ہ ہ ہ ہ ے

یں wس کا رشت سماجی عمل س ن ہے۔صورت| حال لیکن ا ہ ے ہ ہے۔( طومارباندھنا۱۷)

نا ’’طومار‘‘ باندھن ک ذیل میں آتا wس پر زوردیت ر ہےکسی بات کو کسی خاص غرض ک تحت آگ بڑھانا اورا ے ے ہ ے ے ے

وںن توخوا مخوا الزامات یا پھرتعریفو ںکا طومار باندھ دیا یں ک ان ت ۔اورک ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ۔( طویل کی بال بند رک سرپڑنا۱۸) ے ے

‘‘ ایک خاص |راد ک طورپر کرنا ’’طویل ہکسی کی ذم داری کسی دوسر پرڈال دینا اوری کام بدنیتی س یا ا ے ے ے ہ ے ہ

وں ک ساتھ گھوڑوں کی ایک بڑی یںامیروں راجاؤں اوربادشا ت ‘‘ ک wھڑسال کو’’طویل |صطالحی لفظ اورگ ےا ہ ہ ے ہ ہ ہے

یں ت ندوستان میں’’گھڑسال‘‘ ک ت تھ wس کو طویل ک اں و باندھ اوررکھ جات تھ ا تی تھی ج ۔تعدادر ہ ے ہ ہ ے ے ہ ہ ے۔ ے ے ے ہ ہ ہیں لیکن لوگوں کا روی کچھ اس wس کابندر س کوئی رشت ن وتی تھی ا wری کوئی بات |س س متعلق اگراچھی ب ہا ہ ہ ے ہ ے

‘‘ کی بال بند ک سرپر ’ ’طویل wس ک سرپر رکھ دیا اسی س ی محاور بن گیا ک وتا ک اس کا الزام ا ےطرح کا ے ہ ہ ہ ے ے ہ ہے ہ

|س کو یں ا ا جس کا اس س کوئی تعلق ن را یا جار wس کا ذم دار ٹ ہیعنی ذم دارکوئی اور اورکسی دوسر کو ا ے ہے ہ ہ ہ ے ہے ہ

ئی نا چا ے۔بھی سماجی نفسیات اورطریق فکر وعمل کا ایک نمون ک ہ ہ ہ ہ

‘‘ ظ’’ ردیف 

ر داری برتنا( ۱)  رداری کرنا، ظا ۔ظا ہ ہش wوپری خوبصورتی برتنا جس کا کوئی تعلق دلی خوا ری اورا ہکسی عمل میںظا ہwوپر دل ت س لوگوں میں ملتا ک و ا |س طرح کا روی سماج ک ب و ا ےس ن ہ ہ ہے ے ہ ے ہ ہ ہ ے

wن کا دل ودماغ اپنی نیکی اورنیک یں لیکن ا ت کچھ کرت نظر آت ۔س ب ہ ے ے ہ ےیں ت ر داری برتنا ک وتا اس کو ظا یں wس میں شریک ن شوں ک ساتھ ا ۔خوا ہ ے ہ ہ ۔ ہ ہ ے ہ

ردار بیگ کا کردار کچھ اسی انداز س ےمولوی نذیراحمد ن اپن ناول میں ظا ہ ے ےیں ت کچھ اورحقیقت میںکچھ بھی ن ر ب ۔تراش ک و بظا ہ ہے ہ ہ ہ ہ ہے ہ

‘‘ ع’’ ردیف 

ہ۔عاقبت بگاڑنا، عاقبت کاتو ش(۱) ہمسلمانوں کا عقید ک موجود زندگی ک بعدایک اور زندگی آئ گی جس کو و ے ے ہ ہ ہے ہ

م نیکی ی اورتیاری ی ک یں تیاری کرنی چا م کوی wس ک لئ یں ا ت ہعاقبت ک ہ ہے ہ ے ہ ہ ہ ے ے ہ ے ہ|سی کو عاقبت wس ک بندو ںک ساتھ اچھا سلوک کریں ا ےکریں خدا س ڈریں اورا ے ےوتا wس کا ایمان ڈانواڈول وتا ا ا جاتا اورجب انسان کا عمل خراب ہکوتوش ک ہے ہ ہے ہ ہwس ک نتیج میں و خودبرا یں ک ا wس ک ساتھ اتنا براسلوک کرت ہ یا دوسر ا ہ ے ہ ہ ے ے ے ہے

یں ت wس عاقبت بگاڑنا ک ۔وجاتا توا ہ ے ہ ے ہے ہمیت رکھتا اورو اکثراسی حوال س ت ا ےمسلمانوں میںعاقبت یا آخرت کا تصو�رب ہ ہ ہے ہ ہwس ک خالف ی وتا یاا |س ک حق میں wن کا عمل کس حدتک ا یں اب ا ہسوچت ے ہے ہ ے ہ ے

ہے۔ایک الگ بات ۔ع-بور دریائ شورکرنا( ۲) ے

Page 160: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ت تھ ےانگریزو ںک زمان میں ایک سزاتھی جس کو کال پانی بھیجنا بھی ک ے ہ ے ہ ےت تھ |کوبار بھیجن کو ’’کاالپانی ‘‘بھیجنا ک ے۔اورجزائرانڈمان ن ے ہ ے

نا ، عقل چرن جانا، عقل چکر میں پڑنا، عقل( ۳) ےعقل جاتی ر ہکاپودا، عقل کا دشمن

ی پریشانی بڑھتی وتی اتنا ہےآدمی سار کام عقل س کرتا عقل جتنی کم ہ ہے ہ ہے ے ےوجاتی وتا ک عقل خراب وتا دوسروں کی وج س ایسا ہےاورکام خراب ہ ہ ہے ہ ے ہ ہے ہ

یں ک عقل ت |سی کو ک یں کرپاتا ا ہآدمی غلط سوچن پر پڑجاتا یاکوئی فیصل ن ہ ے ہ ۔ ہ ہ ہے ےی ن ک معنی بھی ی ہچکر میں پڑگئی یا عقل کو چکر میں ڈال دیا عقل جاتی ر ے ے ہ ۔یں ک کیا ت یں توک ہیں اورجب طنز ک طورپر کسی کی ب عقلی کا ذکرکرت ہ ے ہ ہ ے ے ے ہ

یں اری عقل کو گدھ چرگئ اری عقل چر ن گئی یا تم ۔تم ہ ے ے ہ ہے ے ہwن باتوں کو جان یں اورا م سماجی عمل اوررد|عمل کو سمجھ سکت |س س ہا ے ہ ے

وتی یں یں جن لوگوں کو عقل بالکل ن یں جوکم عقل لوگوں کوپیش آتی ہسکت ہ ہ ہ ےwن کو عقل یں یعنی ا ا جا تا ک و تو عقل ک پور wن ک لئ طنز ک طورپر ک ہا ے ے ہ ہ ہے ہ ے ے ے

wر نتیج یں اورب یں اورجولوگ جان جان کر عقل ک خالف باتیں کرت ہبالکل ن ے ہ ے ے ہا جاتا wن کو عقل کا دشمن ک یں ا ہے۔بھگت ہ ہ ے

۔عقل کا پتال( ۴)وئ wن کی تعریف کرت وتی توا ےاب اس ک مقابل میں جن لوگوں کوعقل زیاد ہ ے ہے ہ ہ ہ ے

ا جاتا ک و توعقل کا پتال ہے۔ک ہ ہ ہے ہوجانا، عقل ک گھوڑ دوڑانا( ۵) ۔عقل کا چراغ گل ے ے ہ

یں ان ک لئ یں لیت اوربیوقوفیاں کرت ےاب جو لوگ عقل س بالکل کام ن ے ہ ے ے ہ ےتا وگیا اورجو شخص عقل کی باتیں سوچتا ر ان کی عقل کا چراغ گل اجاتا ک ہک ہ ہ ہے ہ

مار وسطی زمان میں گھوڑ کی بڑی تا ے و گویا عقل ک گھوڑ دوڑاتا ر ہ ے ہ ہے ہ ے ے ہ ہےیں ت س محاور بھی میت تھی اسی لئ گھوڑ پرب ۔ا ہ ے ے ہ ے ے ۔ م ی بھی سوچ سکت ہ ےاس س ہ ہ ے

ماری زندگی wن چیزوں کی طرف اشار کیا گیا جو wن باتوں کا حوال آتا اورا مار محاوروں میں زیاد ترا ہیں ک ہے ہ ہے ہ ہ ے ہ ہ ہ

wس زمان کی تصویر کسی ن |س دور|زندگی اورا نوں پر پڑتا تھا ا مار ذ wرا اثر wن س کوئی اچھا ب ہمیں داخل تھیں اورا ے ہ ے ہ ے

ونا اس کی طرف اشار کرنیواال محاور ک عقل بالکل مار سامن آتی تھی عقل کی دwم بھی ہکسی حدیث س ہے ہ ہ ہ ۔ ے ے ہ ے

ون کی طرف اشار wس ک ن wدی ک پیچھ جوعقل س متعلق ایک اورمحاور اورا wن کی عقل گ یں یا ا ہے۔ن ہ ے ہ ہ ے ہے ہ ے ہے ے ے ہے ہلdت لگانا، علت لگالینا، علت میں پڑنا۶) ۔(ع�

وسکتی جوآدمی کواپن پیچ یں کوئی بھی ایسا سماجی کام یا برائی ت ےع|ل�ت محاور میں عیب داری کوک ہے ہ ہ ے ہ ہ

وا wس ع|لت میںپڑا یں ک اس ن تواپن ساتھ ی علت لگارکھی یاو ا ت wس ک لئ ک wلجھا دیتی ی ا ہوپیچاک میں ا ہ ہے ہ ے ے ہ ہ ے ہ ے ے ہ ہے

wس شراب پین کی لت لگی یں مثال ا ت ے یا پھرکون ی علت اپن ساتھ لگائ علت کو مختصر طورپر لت بھی ک ے ہ ے ہ ے ے ہ ہے

wس کو مقدم بازی کی لت تھی ی علت یا برائی ک معنی میں وا یا ا ےوئی یا و جwوئ بازی کی لت میں پڑا ہ ہ ہے ہ ے ہ ہے ہ

یں وت ۔استعمال ہ ے ہ۔( عمربھر کی روٹیاں سیدھی کرلینا۷)

اں اکثر وبیشتر مار یں و ت یں اورجس اخالقی توازن ک وت ت مت لوگ ب ہمار معاشر میں نکم اورکم ے ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ے ے ے ہ

wرا غلط و اچھا ب یں ک جیس بھی ہانفرادی اوراجتماعی رویوں میں مفقود اسی لئ لوگ کوئی ایسا حیل ڈھونڈت ے ہ ہ ے ہ ے ہے۔

وجائ اسی کو روٹیاں سیدھی کرنا توایس لوگوں ک لئ اوربھی بڑی بات اب و wن کی گذر ہاورصحیح مگر ا ہے ے ے ے ے ہ

ویا ب غیرتی س جوبھی حرب کام آئ ے۔فریب س ہ ے ے ہ ے۔( عمر پٹ لکھوانا۸) ہ

یں جاسکتی اسی لئ یں اب عمر بھر ک لئ توکوئی دستاویز معقول سطح پر لکھی ن ت ےدستاویزلکھوان کوک ہ ے ے ہ ے ہ ے

ارا کام و جوتم یں ک کیا عمر بھر کا پٹ لکھوا کر الئ ت wن ک لئ طنزی طورپر ک یں ا وتی ہجس کی عمریں زیاد ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ے ہ ہ ہ

Page 161: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

وتا ر ہے۔برابر ہوجانا۹) ۔( عمر کا پیمان بھرجانا یا لبریز ہ ہ

م بات یں ی اس وقت کی ایک ا ت وجانا ک وجاتی تواس عمر کا پیمان بھرجانا یا لبریز ہجب آدمی کی عمر ختم ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہے ہ

وراخ کردیا جاتا تھا اس س پانی رس رس wے جب وقت کو پیمانوں س ناپا جاتا تھا ک کٹور میں ایک باریک ساس ے ہ ے ہے

وجاتا تھا توو ی سمجھت تھ ک اتنا وقت گذرگیا اں تک ک و و کٹورا یا پیمان لبریز تا تھا ی ہکر کٹور میں بھرتا ر ے ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے

|س س ی سمجھ میں آتا ک وگیا ا ہاس س زندگی کو ایک پیمان قرار دیکر ی محاور بنا یا گیا ک عمر کا پیمان لبریز ہے ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے

یں اوران ک معنی اورمعنویت کیا wن ک پس منظر میں کیا سچائیاں موجود یں اورا ہے۔محاور کس طرح بنت ے ہ ے ہ ے ے۔( عمل بیٹھ جانا یا عمل پڑھنا۱۰)

اں معاشر میں حسن عقید ت ک طورپر ی بھی خیال پایا جاتا ک فالں عمل پڑھن س اورایک خاص ےمار ے ہ ہے ہ ے ے ہ ے ہ

یں آت ی بھی ی ن وت نظر یں یا وت ت مشکل ر ب یں جو بظا ہوقت پر اس کو بار بار پڑھن س و کام بن جات ے ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ے

یں اورعمل پڑھن واال wلٹ جات ےخیال کیا جاتا ک بعض عمل پڑھن میں کیسی غلطی یا خرابی کی وج س ا ہ ے ے ہ ے ہ ہے

ل ی باتیں اکثرسنن میں آتی وگیا پ وجاتا اب تواس کا رواج کچھ کم ےکسی ن کسی تکلیف یا نقصان کا شکار ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ

ے۔تھیں اورلوگ عمل پڑھت نظر آت تھ ے ےونا۱۱) وجانا یا ۔( ع-نقا ہ ہ

انیاں اورداستانیں گھڑکر اس طرح ک اس ن ک اں تک ک ا ی ی س پرندوں س دلچسپی لیتا ر ےآدمی شروع ہ ے ہ ہ ہے ہ ے ے ہ

یں جیس رخ اورسیمر یں مگر اپن طورپر عجیب وغریب کردار یں ئ جو واقع ن ےکردار پرندوں میں بھی پیدا کرد ہ ے ہ ہ ے ے

یں ایس اتھیوں کو لیکر اڑجات یں اورجن ک بار میں خیال کیا گیا ک و اپن پنجوں میں ت بڑ ےپرند جو ب ہ ے ہ ے ہ ہ ہے ے ے ہ ے ہ ے

یں اورپھرو wن ک اپن وجودکو جالکر بھسم کردیت wن س گیت ا یں اورا ہپرند بھی فرض کئ گئ جوگیت گات ہ ے ے ے ے ہ ے ے ے ے

یں ۔اپنی راکھ س جنم لیت ہ ے ےم وجاتا ما ‘‘ک نام س ایک ایس فرضی پرند کا تصور بھی ہ’’قفس‘‘ اسی طرح کا ایک فرضی پرند ’’ ہے ہ ہ ے ے ے ہ ہے ہ

مااب بھی اس کا l یں غالبا نشا )فرعون( اپن سرپر ایک پرند نشان بنائ رکھت یں ک قدیم مصری ش ہدیکھت ہ ے ے ہ ے ہ ہ ہ ہ ے

یں’’ عنقا‘‘ایک ما رکھ جات مایوں اورلڑکیوں ک نام ظل| مار معاشر میں موجود لڑکوں کانام ہتصو�ر ے ے ہ ے ہ ہے۔ ے ے ہ

وجاتی یں بھی اسی لئ جوچیز غائب ہایسا پرند جس کا تصورچین میں خاص طور پر پایا جاتا ک و بھی اورن ے ہ ہے ہ ہ ہے ہے ہ

یں ی ن یں ملتی ی یعنی ک ور یں و توعنقا ت ۔ اس کو محاور ک طورپر ک ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ے ہےوئی کرنا، عیب ڈھونڈنا، عیب لگانا۱۲) ۔( عیب ج-

یں کرت بلک یں دیکھت اس کی نیکیوں پر نظرن م آدمی کی خوبیاں ن ہمار معاشر کی ایک بڑی کمزوری ی ک ے ہ ے ہ ہ ہ ہے ہ ے ے ہ

و تی ک جیس بھی ممکن یں اورکوشش ی ر ہخوا مخوا بھی اس ک کردار میں طرح طرح ک عیب نکالت ے ہ ہے ہ ہ ۔ ہ ے ے ے ہ ہ

یں س یں ن ک وں و ک ےعیب تالش کئ جائیں یا عیب تراش جائیں اورجوخرابیاں یا خامیاں کسی میں ن ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ے

ت عام اورغال ک اس مصرع ذیبی روی جو ب مار معاشر کاو غیرانسانی اورغیرت ہڈھونڈکرنکالی جائیں ی ے زب ہے ہ ہے ہ ہ ہ ے ے ہ ہ

ہے۔میں اسی سچائی کی طرف اشار ہیں ت wرا ک ‘ ک اچھو�ں کو ب وتی آئی ہ ے ہ ہ ہے ہ

مار ماری کن ک|ن باتوں کی طرف یں ک ی ن اس نقط س کیا م ن اپنی زبان اوراپن ادب کا مطالع ےسچ ی ک ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ رہ ے ے ہ ہ ہے ہ

یں مار محاوروں میں موجود اوتوں اور ماری ک ۔اشعار ہ ے ہ ہ ہ(۱۳) ۔( عیش ک بند عیشی بند )عیش ا-ڑان وال ے ے ے ے ے

مار یں اسی لئ وت ومگر آرام پسند ضرور ویا ن ےمار معاشر میں ایک بڑی کمزوری ی ک و عیش پسند ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہ ے ے ہ

یں عیش یں اوراسی طرح عیش کرن پر بھی ک و توعیش کرر ت محاور موجود ون پر ب ۔اں آرام کرن یا ہ ہے ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ے ہ

یں یعنی الت ‘‘ ک ’’ عیشی بند یں و یں اورخوش نظر آت ت رحالت میں مطمئن ر ی لوگ جو یں ایس wڑار ہا ے ہ ے ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہے

و ویا ن رحالت میں عیش کرنا کچھ یں تو ۔ان ہ ہ ہ ہے ہ ہونا۱۴) ونا، یا عین میں ۔(عین غین ہ ہ

|دھر ادھر کی بیکارکی باتیں سوچنا اورذراسی دیر میں اپنی توج بدل یں ا یں اوران ک معنی ہی دوالگ الگ محاور ہ ے ہ ے ہ

وجانا ذراسی دیر یں غائب یں اور’’غین‘‘ک معنی ت وتا ’’عین‘‘ آنکھ کوک ی روی ہدینا غیرسنجید لوگوں کا ی ہ ے ہ ے ہ ہے ہ ہ ہ ہ

ونا جوں کا عین میں التا ونا ک وجانا عین غین نی طور پر غائب وئ ذ وت ہمیں توج بدل جانا اورآدمی کا موجود ہے۔ ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہ

ی ک ا تھا ی بھی ی تھا اوراسی طرح لگ ر ونا و توعین میں ایسا ونا عین میں ی اور اسی جیسا ےتوں بالکل و ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ

Page 162: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

م وتا ک ر wس جیسا سی س ی عین میں کا محاور بھی بنا اس س ی بھی ظا یں یعنی بالکل ا ی ہمعنی بھی ی ہ ہے ہ ہ ہ ے ہے ہ ہ ے ہ ہ

یں کئ محاور بھی تراش ےن عربی الفاظ کو اپن سانچ میں ڈھاال اوراپنی زبان میں صرف عربی لفظ داخل ن ہ ے ہ ہے۔ ے ے ے

۔یں ہ

‘‘ غ’’ ردیف 

ونا، غارت کرنا( ۱)  ۔غار ت ہوں دمیں را زنی اورغارت گری بھی مختلف عالقوں اور گرو اں وسطی ع ہمار ہ ہ ہ ے ہ

اں جرائم پیش کا لفظ آتا اوراس مار ہےن بطور| پیش اختیار کرلی اسی لئ ہ ہ ے ہ ے ہ ےیں جوطرح طرح ک جرائم میں وت ےس مراد و لوگ و ذاتیں اورقبائلی گرو ہ ے ہ ہ ہ ہ ے

وئ آت تھ wن ک غول ک غول کبھی غارت گری کرت یں ا وئ نظر آت wلجھ ےا ے ے ہ ے ے ے ہ ے ے ہ ےاں تک ک رات کو پچاس وپچاس کوس تک رو ںاوربستیوں پرٹوٹ پڑت تھ ی ہش ہ ے ے ہ

|س محاور میں یں جلتا تھا ک لوٹ مارکرنیوال ن آجائیں ا ےکسی بستی میں چراغ ن ہ ے ہ ہےاسی صورت| حال کی طرف اشار ی لفظ دراصل غارت گر جیس مغربی ہے ہ ہے ہ

یں زکا حرف ل میں بدل جاتا اس اعتبار س ی ت ہیوپی ک لوگ غارت غورک ے ہے ۔ ہ ے ہ ےیں ک بعض محاور ن کی ضرورت ن اں ی ک ی وگیا اورمحاور بن گیا ےغارت غول ہ ہ ے ہ ہ ہ ۔ ہ ۔ ہ

یں اورتاریخی سچائیوں کو اپن ےاس وقت کی صورت| حال پر روشنی ڈالت ہ ےیں ت ۔اندرسمیٹ ر ہ ے ہ ے

۔غازی مرد( ۲)وئی تھی یں جس میں حضو ن شرکت فرمائی ت wس جنگ کو ک ‘‘ ا ہ’’غزو ے در ہ ے ہ ہ

ہجیس غزو بدر، غزو خندق اور غزو احد رفت رفت ی تصورایسی جنگوں کا ترجمان ہ ہ ۂ ۂ ۂ ےیں اوران میں شرکت ر کی جاتی یں یا ظا وتی بی مقاصد ک لئ ہبن گیا جو مذ ہ ہ ہ ے ے ہ

ادر ت ب یں اسی لئ غازی کا لفظ مسلمانوں میں ب الت ہکرنیوال غازی ک ہ ے ہ ے ہ ےبی جنگ میں حص� لین وال ک لئ آتا اوراپن نام میں بھی احترام ک ےاورمذ ے ہے ے ے ے ے ہ ہ

یں جیس غازی مصطفی ےطورپر اس کو شامل کیا جاتا یا دوسر شامل کرت ہ ے ے ہےنا محاور اوراس ک معنی ےکمال پاشا یا غازی امام الل خان وغیر غازی مرد ک ہے ہ ہ ہ ہ

وتا ک ی مسلم کلچر ر |س س ظا ب ک لئ لڑنیواال انسان ا ادر آدمی مذ ہیں ب ہ ہے ہ ہ ے ے ے ہ ہ ہہے۔رکھن واال خاص محاور ہ ے

۔غائب غ-لd کردینا، غتر ابودکرنا( ۳) ہہےمار عام محاورات میں س جب آدمی کسی بات یا کسی سچائی کو چwھپانا ے ے ہ

wدھر ک مسائل میں یا باتوں |دھر ا wس پر طرح طرح س پرد ڈالتا اورا تا توا ےچا ہے ہ ے ہے ہwس غائب wلجھاتا اوراس طرح سچ پر پرد ڈال دیتا توو ا ےمیں اصل بات کوا ہ ہے ے ہے۔

وتا جوو سچائی کو یں اوری گویا عام آدمی کا طرز عمل ت ہغل کردینا ک ہے ہ ہ ہ ے ہ ہ’’غترآلود‘‘ کرنا یں ی شریک نظر آت ھپان ک لئ اختیار کرتا اس میں سب w۔چ ہ ے ہ ہے ے ے ے

ی میں آتا ہے۔بھی غائب غل کردین ک معنی ہ ے ے ہ۔غپ شپ کرنا( ۴)

م چا دوکانوں وتا اں اکثرلوگوں کو باتیں کرن اورباتیں بنان کا شوق ہےمار ہ ہے ہ ے ے ہ ے ہےک پھٹ پر بیٹھ کر باتیں کریںیا کسی پارک میں یا بیٹھک میں یا چوپال میں جب ے ےلوگ بیٹھ کر باتیں کریں گ توادھر ادھر کی ضروری اورغیر ضروری باتیں بھی

ار انیاں لطیف چٹکل حکایتیں روایتیں شعروشاعری اخبار اشت ہونگیں قص ک ے ہ ہ ے ہ

Page 163: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ونگیں اسی کوغپ شپ ت کم ہسبھی کچھ تواس میں آجائ گا اورکام کی باتیں ب ہ ےیں اورغپ شب لڑانا بھی اور نچلی سطح پر اترکر گپ بازی کرنا یا گپ ت ہکرنا ک ے ہ

م سماج کی نچلی سطح انکنا بھی آتا اس س ہمارنا بھی گپ ک ساتھ گپ ے ہے ہ ےیں wس بھی سمجھ سکت وتا ا نسی مذاق کا جوڈھنگ ۔پربات چیت اور ہ ے ے ہے ہ ہ

وجانا۵) ۔( غٹ پٹ ہواتھا یعنی انگریزی ک ےغٹ پٹ دراصل گٹ پٹ جوخودایک محاور اوری انگریزوں کی آمد ک زمان میں رائج ہ ے ے ہ ہے ہ ہے

التا تھا اس کو عوام ن غٹ پٹ بنالیا جبک ٹ اورغ ایک ہبول ’’بولنا‘‘ اوراسی انداز کو اختیار کرنا’’ گٹ پٹ کرنا‘‘ ک ے ہ

ی صورت اوراسی امرکی طرف اں بھی ی اں پانی پین ک ساتھ غٹ غٹ کرنا آتا ی مار یں آت مگر ہےساتھ ن ہ ہ ہے ے ے ہ ے ہ ے ہ

یں یں اورو ان نچت ہایک اشار ک تلفظ کس طرح بدلتا اورخاص طورپر ایس الفاظ میں جو عوام ک درمیان پ ہ ہ ے ہ ے ے ہے ہ ہے ہ

یں ۔اپن انداز س استعمال کرت ہ ے ے ے۔( غدرمچانا۶)

وم کچھ اوربھی یں لیکن اردو میں اس کا مف ت وم میں شامل غدر غداری کو ک ہے’’غدر مچنا ‘‘بھی اسی مف ہ ہ ے ہ ہے ہ

نا تا یعنی بدنظمی چھین جھپٹ اورکوئی انتظام ن ر ی زیاد درپیش نظر ر ۔اورو ہ ہ ہے ہ ہ فتوں کء۱۸۵۷ہ اں کچھ ے میںجوی ہ ہ

ماری زبان ک اس محاور میں بدل گئی اب ےلئ بدنظمی دیکھن کو ملی تھی اورتاریخ کا ایک حص� بن گئی و ے ہ ہ ہ ے ے

یں ک اس گرو یا اس گرو ن بدنظمی بدانتظامی ت ےجب بھی ی ک ہ ہ ہ ہ ے ہ تLawlessہ ے اللیس کو پیدا کردیا اس کو ی ک ہ ہ

ہیں ک غدر پھیال دیا غدر مچادیا ایسا یں۱۹۷۴ہ ت مثالیں مل جاتی وا تھا اورتاریخ میں اس کی ب ۔ء میں بھی ہ ہ  ہ

یں کچھ سماجی رویوں س کچھ خاص طرح ک اداروں س جب ےمحاوریں کچھ تاریخی واقعات س متعلق ے ے ہ ے

یں ۔محاوروں کی لفظیات اورپس منظر پر غورکیا جاتا تب ی سچائیاں سامن آتی ہ ے ہ ہے(۷) وتی ہے( غرض کا باؤال، )اپنی غرض باؤلی ہ

ی اورانسانی بحیثیت ایک وتی ر ی و ایک ک بعددوسر پر اثرانداز اں جوبھی سماجی صورت حال ر ہمار ہ ے ے ہ ہے ہ ہ ے ہ

و یاز مین جائداد کا یا ا پیس کا معامل ون کی صورت میں خود غرضی اختیار کرتا ر ہفرد اورایک خاندان کا رکن ہ ے ۔ ہ ے ہ

یں اورخود ذم ت ہحقوق وفرائض کا خود غرض افراد اپنی مقصد براری ک لئ دوسروں پر ذم داری ڈالنا چا ہ ے ہ ہ ے ے

|سی طرح جب ا یں یں خود کچھ پت ن یں ک جیس ان یں اوراس طرح کا روی اختیار کرت ت ۔داریوں س بچنا چا ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ے

وتی توصحیح وسفارش س خوشامد درآمد س یا پھر زور زبردستی س اپنا کام نکالنا ےکسی س غرض وابست ے ے ہے ہ ہ ے

تا ک و اپنا کام نکالنا چا یں بلک اپنی غرض کا باؤال اورجیس بھی ا جاتا ک و باؤال ن اسی لئ ک تا ہچا ہے ہ ہ ے ہے ہ ہے ہ ہ ہ ہے ہ ے ۔ ہے ہ

ر سیدھ سادھ مگر اپنی غرض ک پیچھ باؤل یں اوربظا ےاس ک افعال اس طرح اپن مسائل کو حل کرت ے ے ے ے ہ ہ ے ے ے

وم رکھتا ی مف ’’ غرض ک یار‘‘ بھی ی یں ت نا چا ہے۔بنار ہ ہ ہ ۔ ہ ے ہ ہ۔( غرd بتانا ،غرd کرنا۸) ہ ہ

‘‘ ب معنی غرور وتکبر بھی آتا ک و اپن خاندان wردو محاورات میں ’’غر� یں لیکن ا ت ےویس توچاند رات کو غر� ک ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے

ان wدھر ک ب |دھر ا یں ا وت ت غرور کرتا یا پھر غر بتاتا جس ک معنی رت پر ب ےاپنی مالزمت یا اپنی تعلیم وش ہ ے ہ ے ہ ے ہے ہ ہے ہ ہ

۔کرناوتا توو غر� بتا تا مجھ ے چاند ہے ہ ہ ہے ہ

یں ک عام طورپرلوگوں م اپن معاشر ک مزاج کو جان سکت |س س ہی مصرع اسی محاور کو پیش کرتا ا ہ ے ے ے ے ہ ے ہے ے ہ ہ

تا ۔کا روی دوسروں ک ساتھ کیا ر ہے ہ ے ہونا۹) ۔( غسل کی حاجت ہ

ون مبستر ون یا عورت س بی طورپر بدخواب |س س ی مراد لیا جاتا ک مذ ےی ایک خاص طرح کا محاور اورا ہ ہ ے ے ہ ہ ہ ہے ہ ے ہ ہ

وسکتا لیکن مسلمانوں میں وجاتا اس طرح کا مسل دوسری قوموں میں بھی موجود ہےک بعد غسل واجب ہ ہ ہے ہ ے

تمام کیا جاتا ہےخاص طورپر اس کا ا و توپاکی حاصل کرن ک لئ ہ ےاورخیال رکھا جاتا ک اگرایسی کوئی صورت ے ے ہ ہ ہے

ے۔غسل کرلیا جائونا، یاغش کھاکر گ�رجانا۱۰) ۔( غش ہ

ونا یا کسی وسکتا اورکچھ خاص حاالت میں جیس خون کو دیکھ کر طبیعت پرغشی طاری ہی کمزوری میں ے ہے ہ ہ

وش وحواس اوراپن وجانا ہخوفناک منظر س غیرمعمولی تاثرلینا یاپھر کسی ک حwسن وجمال پر ب طرح عاشق ے ۔ ہ ے ے ے

Page 164: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یں وت التا جس ک معنی وش کھودینا غش آجانا ک یں اورکمزوری ک باعث ت ونا ک نا جس غش ہمیں نار ے ہ ے ہے ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ے ہ

ونا ۔غشی طاری ہ۔( غصd پینا، غصd تھوک دینا ،غصd دالنا، غص آنا۱۱) ہ ہ ہ ہ

تی و بغض ونفرت ہماری انسانی عادتوں فطری کمزوریوں اورسماجی رویوں میں جوبات بطور| خاص شامل ر ہے ہ ہ

تا و شدیدجذباتی عمل یں ر wن ک پس منظر میں موجود غص میں آدمی کو اپن اوپر قابون ہحقارت بھی اورا ہ ہ ے ہ ہے ے ہے

اں تک ک غص� میں آدمی خودکشی بھی وجاتا ی wس کی نفسیات میں عدم توازن پیدا تا ا ہاوررد| عمل کا شکارر ہ ہ ہے ہ ہے ہ

ہے۔کرلیتا اوردوسر کوقتل بھی کردیتا ے ہےا اں غص کو کم کرن ک لئ ی بھی ک مار ی ار اسی لئ ی کا اظ ہ’’جگر‘‘چبانا اورخون پین کا عمل بھی غص� ہ ے ے ے ہ ہ ے ہ ے ہے ہ ہ ہ ے

ہے۔جاتا ذرا غم کھا ٹھنڈا پانی پی غص� تھام ی محاور گلزار| نسیم میں غص� تھامن س متعلق شعر اس طرح آیا ے ے ہ ہ ہ ہ ہےیں غص تھا من س ے تھمتا ن ے ہ ہ

و میر سامن س ےچل دwور ے ے ہیں غص تھوک دو یا غص پی جاؤ اگردیکھا جائ توان محاوروں میں جذبات ےاسی میں اس طرح ک محاور شامل ہ ہ ہ ے ے

ہے۔ک لحاظ س غص� کا آنا بھی شامل ہ ے  ے

اں سمجھ میں آن والی یں wھوت بن جانا محاور بھی دیا مگراس کا استعمال عام ن ےچرنجی الل ن غص میں ب ہ ہے ہ ہے ہ ہ ے

وا نظر آتا تا بھوت بنا یں ر ہے۔بات ک شدید غص� کی حالت میں آدمی آدمی ن ہ ہ ہ ہ ہ ہےونا۱۲) ۔(غضب آنا یا ٹوٹنا ، غضب توڑنا، غضب میں پڑنا، غضب ہ

wن اور تبا کرن والی یں اورجب کوئی بیحدپریشان ک ونا بولت یں اورغضناک ت ےغضب غیرمعمولی غص� کو بھی ک ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ہ

یں جیس کوئی ک ک دلی میںنادرشا درانی کیا آیا ی ت ونا یا غضب آنا ک رنازل ہصورت پیش آتی تواس کو ق ہ ہ ہے ے ہ ے ہ ہ ہ ہے

وتا کیاغضب ت wردوزبان میں غیرمعمولی صورت حال ک لئ ب ئ ک غضب آگیا ویس بھی غضب کا استعمال ا ہےک ہ ہ ے ے ے ہ ے ہ

ہے۔کاگانا تھا کیا غضب کی آواز پائی یاکیاغضب کاحافظ ہ ہےیں اقبا ن اپن شعرمیں غضب کیا محاور استعمال کیا ت عام ہے۔غضب توڑنایاغضب ٹوٹنا یا غضب ڈھانا ی ب ہ ے ے زل ہ ہ ہ

ہ تون ی کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کردیا ےی توایک راز تھا سین کا ئنات میں ہمیں  ہ

۔( غ-الم کرنا یا غ-الم بنانا۱۳)ین آمیز اوردوسری قوموں کی ماتحتی کی طرف اشار کرتا ہے۔غالم کا لفظ انسان یا گرو انسانی ک لئ تو ہ ہے ہ ے ے رہ

ونا بھی اسی کی ا زرخرید غالم ا اورصدیوں تک ر ہانسانوں کو غالم بناکر خریدوفروخت کرن کا رواج بھی ر ہے ہ ہے ہ ے

بھی غالم بنائ گئ اورمصر ک بازار میں بیچ گئ تھ غالم بناکر رکھنا کسی ےطرف ایک اشار حضرت یوسف ے ے ے ے ے ا ہے ہ

نا و توان کی مرضی کا غالم اس امر کی طرف اشار کرتا ہےشخص کو نوکروں س بدتردرج دینا اوری ک ہ ہے ہ ہ ہ ہے ہ ہکےیں ش یا خوشی ن ہے۔اس کی کوئی خوا ہ ہ

اتھی گھوڑوں ک بازار لگت تھ اسی ےجس طرح مختلف اشیاء اوربھیڑبکریوں ے ے ہہطرح عورتوں مردوں اوربچوں ک لئ بھی بازار لگت تھ اب ی الگ بات ک ہے ہ ے ے ے ے

ت کی اقبا ن اسی طرف اشار ہتاریخ میںو وقت بھی آیا جب غالمو ںن بادشا ے زل ہ ے ہا وئ ک ۔کرت ہے ہ ے ہ ے

ی ہ جب عشق سکھاتا آداب خود آگا ہےی نشا یں غالموں پر اسرار| ش ہکھلت ہ ہ ے

ر الل ن ایک موقع پرلکھا ہےجوا ے ہ"There is none to defend slavery now a days But greate plato held

that it was necessary".یں کرتا لیکن عظیم’’ افالطون‘‘ ی مایت ن |س کا ترجم ی آج کوئی غالمی کی ہا ہ ہ ہے ہ ہ

Page 165: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اں غالم غالمی اوراسی ک ساتھ مار ےسمجھتا تھا ک ی ضروری اسی وج س ہ ے ہ ے ہ ہے ہ ہیں ت محاور موجود ۔کنیزوں باندیوں ک متعلق ب ہ ے ہ By Tese cover of Indiaے

ےغالم خرید بھی جات تھ اورتحف ک طورپر پیش کئ جات تھ کنیزوں ے ے ے ہ ے ے ےذیب‘‘ میں توغالموں ک ی صورت بھی ’’رومی ت ےاورباندیوں ک ساتھ ساتھ بھی ی ہ ہ ےیں وتا تھا ان کی بوٹیا ںچیل کوؤں کو کھالئی جاتی تھیں ان wرا سلوک ت ب ہساتھ ب ۔ ہ ہی کی ولی جیسی سخت سزا بھی رومیوں wس ہوحشی جانوروں س لڑایا جاتا تھا ۔ ےwن کی بدسلوکی اورظالمان روی تاریخ کی المناک ہایجاد اپن غالموں ک ساتھ ا ہ ے ے ہے

انیوں میں س ہے۔ک ے ہ۔غ-الم مال( ۱۴)

التی تھی وتی تھی و غالم مال ک ت سستی مگرمضبوط اور پائیدار ہجوچیزب ہ ہ ہیں ت الت تھ اب بھی ک ہامیروں ک محل میںکچھ خاص راست غالم گردش ک ے ہ ے۔ ے ہ ہ ے

wن حاالت کا مطالع کرن ک وئ یعنی ا ےماضی کی غالم گردشوں س گذرت ے ہ ے ہ ے ےیں اورغالموں نیز باندیوں س متعلق ےدوران جوتاریخ ک صفحات میں موجود ہ ے

۔یں  ہ۔غ-المی کا خط لکھنا)خط�غالمی لکھ دینا(( ۱۵)

اں یں ی ار جاتا ک خط ک معنی یں جب آدمی کوئی شرط ت wس وقت ک ہا ہ ے ہ ہے ہ ہ ے ہوئی تومیں خط ارگیا یا میری بات غلط ثابت ہتحریر یا دستاویز ک اگرمیں شرط ہ ہ

اں تک آتی مار معاشر میں توبات ی وجاؤں گا ہغالمی لکھ دوں گا یا آپ کا غالم ے ے ہ ہوگیا توتم کان ناک دیکر ارا جھوٹ ثابت ا رگئ یا تم ہتھی ک دیکھو اگرتم شرط ہ ے ہ ہ

م وجاؤگ اس س ار کان کاٹ جائیں گ یا ناک یعنی تم ب عزت ہآؤگ یا تم ے ے ہ ے ے ے ے ہ ےمار معاشر میں بات کی پچ کیس نبھائی جاتی تھی یا یں ک ےانداز لگا سکت ے ے ہ ہ ہ ے ہ

wس پر زور دیا جاتا تھا قبائل معاشر میں ی باتیں زیاد دوردراز انداز میں یا دعوں ہا ہ ےن مار ی محاور ایک خاص دورک ذ ہک ساتھ کی جاتی تھی اوراس طرح ے ے ہ ے ہ ے

یں ۔وکردار کوپیش کرت ہ ےوں، یا غالمی میں دینا( ۱۶) ۔غالمی میں دیتا ہ

wس ک مطابق انکساری یںاورسوچن کا جوڈھنگ ا اں گفتگو ک جوآداب ےمار ہے ے ہ ے ہ ے ہےبرتنا آداب| گفتگو کاحص� جب کسی لڑک کارشت بھیجا جاتا تولڑکی والوں ک ہے ہ ے ہے ہ

وں تا ا جاتا ک میں اپن بیٹ کو آپ کی غالمی دینا چا ہاحترام ک خیال س ی ک ہ ے ے ہ ہے ہ ہ ے ےمار ساتھ رشت داری کو قبول ہیعنی ی میر لئ بڑ اعزاز کی بات ک آپ ے ہ ہ ہے ے ے ے ہ

ےکرلیں اب ی الگ بات ک اس لڑکی ک ساتھ جس کو کنیز یا باندی بناکردیا جاتا ہ ہے ہم ی انداز وتا اس س ی س کوئی اچھا سلوک را ل میں مشکل wہ سس ہ ہ ے ہے ہ ے ہ ہے

م تا اسی لئ ت فرق ر ن اورکرن میں ب اں ک مار یں ک ہکرسکت ے ہے ہ ہ ے ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ےم سماجی طورپر کوئی عیب یں کرت اوربات کو پلٹنابھی ہدوسروں پر اعتبار ن ے ہ

یں کرت ے۔خیال ن ہ۔( غم غلط کرنا۱۷)

wس ک ےآدمی جب غموں س گذرتا توایک س زیاد تعیناتی اورسماجی تجربوں س بھی گذرتا جس میں ا ہے۔ ے ہ ے ہے ے

وجائ ی wس ک غموں میں شریک wس خواری کرن واال مل جائ اورا l کوئی ا یں مثال ت ہحاالت وخیاالت شامل ر ے ہ ے ے ے ے ہ ے ہ

وتا ک و غموں پر مت عقل وشعور یا کسی خیال عقید ک مطابق وتا اوری آدمی ک اپن حوصل اپنی ہبھی ہ ہے ہ ے ہ ہ ہ ے ے ہ ہے ہ

مت س کام ل یں ی صبرکرن اور ت یں جب دوسر ی ک ت ے۔صبرکر جس غم کھا نا ک ے ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ے ہ ے ےwس ک مقابل میں جب آدمی اپن غم ک احساس کو کم کرن ک لئ سیر وتفریح کرتا یا آج کل ک حاالت ےا ہے ے ے ے ے ے ہ ے

Page 166: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یں یعنی و ت wس غم غلط کرنا ک یں توا ہمیںزیاد ٹی وی دیکھتا یا کچھ لوگ پڑھن لکھن س زیاد دلچسپی لیت ہ ے ہ ے ہ ے ہ ے ے ے ہے ہ

وتا بشرطیک آدمی wدھر کرن کی کوشش کرتا ی سماج کا ایک اچھا روی |دھرا ہاسطرح اپن غم ک احساس کوا ہے ہ ہ ہ ہے ے ے ے

وجائ مثال لوگ جوئ شراب تماش بینی اوریار باشی ےکوئی دوسرا غم ن خریدل اورکسی نئی مصیبت میںمبتال ن ے ہ ہ ے ہ

یں وجات ۔ک عادی ہ ے ہ ے۔( غوزیں لڑانا۱۸)

یں لیکن باتیں کرنا یں باتیں سب کرت ت س محاور باتیں کرن ک ڈھنگ اوررویوں س متعلق اں ب ہمار ے ہ ے ے ے ے ے ہ ہ ے ہ

یں دیکھت خوا مخوا یںآتا اس میں موقع ومحل کی مناسبت دیکھنا بھی شامل جوعام طورپر لوگ ن ہسب کو ن ہ ے ہ ہے۔ ہ

ادری اوربڑائی ک طرح طرح س موقع ےکی باتیں کرنا اپنوں کی تعریف میں زمین وآسمان ک قالب مالنا یا اپنی ب ے ہ ے ے

یں اورڈینگ ت ایسی باتوں کو ڈینگ مارنا بھی ک ماری سماجی عادتوں میں شامل لونکالنا ی سب ہب موقع پ ے ہ ہے۔ ہ ہ ہ ہ

ہانکنا بھی اس ک لئ ’’چرنجی الل‘‘ ن ایک محاور غوزیں مارنا بھی شامل کیا جواجنبی محاور ممکن ی ہے ہے ہ ہے ہ ے ے ے ہ

ون کا ذکرکرنا ت سی لڑائیوں معارکوں میں حص لین اورکامیاب وب وا اوراس کا مطلب ہے۔غزو مارنا س نکال ے ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ہیں اورگپ شپ وجات wوٹ پٹانگ باتیں کرن ک عادی ہاس س سماج ک اس روی کا پت چلتا ک لوگ کس حدتک ا ے ہ ے ے ہ ہے ہ ہ ے ے

یں جاتی وتا ک اس کی برائی پر کبھی اس کی توج ن ۔انکن میں اس حدتک یقین ہ ہ ہ ہے ہ ے ہ۔( غیرت س مرجانا، یاغیر ت کھاک ڈوب مرنا۱۹) ے ے

wٹھا لیتا تکلیفیں برداشت کرلیتا اورکبھی شکایت بھی ہے۔غیرت شرافت پرمبنی جس ک تحت آدمی نقصان ا ہے ے ہے

وجاتا بلک ایک طرح س ڈوب مرتا وجاتی توحیاء وشرم س پانی پانی یں کرتا اوراگراس س کوئی غلطی ےن ہ ہے ہ ے ہے ہ ے ہ

وتوڈوب مر یا یں ک اگرغیرت ت یں اوری ک اں لوگ طعن بھی دیت مار یں دکھال سکتا ہ ک پھرکسی کو من ن ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہے

وتا توڈوب مرتا ۔کوئی غیرت مند ہیں آدمی کوئی بات اپنی عملی wس کا انداز کرسکت ی ا میت دی جاتی ر م سماج میں کن باتوں کو ا | س س ہا ے ہ ہے ہ ہ ہ ے

wس پر زورضروردیتا و ا و یا ن رکھتا ہے۔زندگی میں شامل کرتا ہ ہ ہوجانا(۲۰) وجانا ، یا )حالت غیر ہ( غیرحالت ہ

وتا مار اورمعاشر کی اس نفسیات کا علم وگئی اوراس س مزید ت خراب یں ک حالت ب وت |س ک معنی ہا ے ے ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ے

یںک اگرکسی مرضی کسی تکلیف کسی پریشانی ہ ک و غیرکوکس بر اورکتن بڑ معنی میں استعمال کرت ہ ے ے ے ے ہ ہ ہے

یں ت ونا ک ن ک بجائ غیر wس خراب ک وتی توا ۔کی وج س حالت خراب ہ ے ہ ہ ے ے ے ہ ے ہے ہ ے ہ

‘‘ ف’’ ردیف 

۔فاتح پڑھنا( ۱)  ہوئ شخص کویادکیا جاتا تودwعا ک ساتھ یا دکیا جاتا ےجب کسی مر ہے ے ہ ے

وح کو wالتی اورچاروں قل پڑھ کرمرنیوال کی ر ’’الحمد‘‘ جوسور فاتح ک ے ہے ہ ہ ہ ۔ ہےاں فاتح دین کا بھی رواج اورایس موقع پربعض مار نچایا جاتا ےثواب پ ہے ے ہ ہ ے ہ ہے۔ ہاورفاتح کا کھاناپکتا غریبوں میں تقسیم کیا جاتا wالیا بھی جاتا ہے۔عزیزوں کو ب ہے ہ ہے۔

ار| ب تعلقی کرنا ےلیکن سماج میں اس کا ایک دوسرا تصوربھی ابھرآیا اورو اظ ہ ہے ہہاورایک طرح س لعنت بھیجنا ک اس پر فاتح پڑھ لو یعنی اس ذکر کو ختم کرلو ہ ےیں ک مقدس معنی کس طرح سماجی روی ک ساتھ م سمجھ سکت ےاس س ہ ہ ہ ے ہ ے

یں صلوا بھی اسی کی ایک مثال ک اس ک ےغیر متبرک معنی میںبدل جات ہ ہے ۃ ہ ےوگئ مار اپن محاور میںلعنت ومالمت ک یں لیکن ود وسالم ک wےمعنی در ہ ے ے ے ے ہ ہ ے

۔یں ہ۔فاخت ا-ڑانا( ۲) ہ

ت کم یں جاتا آدمی اس س ب تا لیکن پاال ن ہفاخت ایک پرند جوآبادیوں میں ر ے ہ ہے ہ ہے ہ ہرو یں ش wڑائ بھی جات یں اورا اں کبوتر پال بھی جات مار وتا ہمانوس ہ ے ے ہ ے ے ہ ے ہ ہے ہ

یں اڑاتا مگرخلیل خاں ایک wڑان کا رواج عام فاخت کوئی ن ہںقصبوں میں کبوترا ہ ہے۔ ے

Page 167: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یں اورحماقت کی باتوں میں ایک ی ہفرضی کردار جوحماقت کی باتیں کرت ہ ے ہےwڑانا ب وقوفی کا عمل یں اس طرح س فاخت ا ہےبھی ک و فاخت اڑات ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہے

یں ک اس طرح ک م ک سکت وتا ےاورمحاور میں اسی کی طرف اشار ہ ہ ے ہہ ہ ہے ہ ہ ےیں وت ۔محاور خاص حاص کرداروں ک نمائند ہ ے ہ ہ ے ے

۔فارسی کی ٹانگ توڑنا( ۳)وتا ک و اپن محاور ری آبادی کا ایک خاص روی ےزبان ک معامل میں ش ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ ے

یں ر قراردیت یں اوردوسروں کی بولی کو ٹکسال با ۔اورروزمر پر زوردیت ہ ے ہ ہ ے ہک کالم ک لئ جامع مسجد کی سیڑھیاں ا تھا ک می ن ایک موقع پر ک ےمیرتقی می ے ے زر ہ ہ ے زر

لی ل| د ہے۔یں یا محاور ا ہ ہ ۂ  ہلی ک کچھ خاص محل کی زبان کو مستند قراردیا اس س ء الل خاں ن د ےانش ہے ے ے ہ ے ہ زالی کی رائ اورترجیحات کا پت چلتا فارسی وال بھی ل| د ےزبان ک معامل میں ا ہے ہ ے ہ ہ ہ ےیں ک م اردwو والوں میں غال کوی دیکھت ی سوچت تھ اورخاص طور پر ہایسا ہ ے ہ زب ہ ے ے ہل| زبان ک مقابل میں یں اورا wرا سمجھت ندوستان ک فارسی والوں کو ب ےو ے ہ ہ ے ے ہ ہ

ا ی و ماحول جب عام فارسی جانن والوںک لئ ک یں ی ت کم تردرج دیت ہب ے ے ے ہے ہ ہ ہ ے ہ ہیں ۔جاتا ک و فارسی کی ٹانگ توڑت ہ ے ہ ہ ہے

۔فارغ خ�طی لکھوانا( ۴)یں اوری ایسی دستاویز ی ت ج میں فارخطی بھی ک |س کو عام لوگ اپن لب ول ہا ہ ے ہ ہ ہ ے

ا جاتا جس ک ذریع کسی کو آزاد کردیا جاتا و چا قرض کی ہےتحریر کو ک ہ ہے۔ ہ ے ہے ہوتی ک |س س مwراد ی ا ویا نکاح وشادی بیا ک بار میں ہادائیگی س متعلق ہے ہ ہ ے ۔ ے ے ہ ہ ے

یں ت |سی کوفارغ خطی لکھنا ک ی ا یں ر ۔wاس کی ذم داری اب کوئی ن ہ ے ہ ہے ہ ہ ہونا ۔فاق مستی ہ ہ

wن ت مغلوں ک آخری دورمیں ی صورت| حال اوربھی زیاد تکلیف د اورپریشان ک ہندوستان میں غربت وافالس ب ہ ہ ے ہے ہ ہا جاتا وجات تھ اوراسی حالت کوفاق مستی ک ی ک عادی وت تھ اورلوگ ان ی اکثرخاندانوں میں فاق ہے۔ر ہ ہ ے ے ہ ے ہ ے ے ہ ہ ہے ہ

ہے۔ایک سطح پر عیش| امروز س تعبیر کیا جاتا ےونا ، یافرد باط�ل قرار دیا جاتا۶) ۔( فرد� باطل ہ

یں اورکوئی ضروری حساب وسکتی ا جا تا اس میں صلح نام کی شرطیں بھی ہ’’فرد‘‘دستاویزی تحریر کو بھی ک ہ ہ ہے ہwس ک باعث ی بھی ممکن ک کوئی جعلی ر ک معاشر میں جو بددیانتی موجود ا ہکتاب بھی اب ی ظا ہے ہ ے ہے ے ہ ہے ہ ہ

۔دستاویز تیار کرلی جائ یا کسی صحیح تحریر کو فردباطل قرار دیا جائ یعنی جھوٹی دستاویز ے ے۔(فرزند|نا خلف۷)

یں لیکن یں لڑکیاں اپنا حص ل سکتی وت ہمار خاندانوں میں ماں با پ یا باپ داداکی و|راثت ک حق دار بیٹ ے ہ ہ ے ہ ے ے ے ہیں شادی بیا یا دوسر خوشی ک موقعوں اپنا حق یا نیگ وصول کرتی ا ک و معاف کردیتی ور ےایسابھی دشوار ے ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہ

یں وتی شرعی ن l وتا اورنیگ کی حیثیت اخالقی اوررسما ۔یںجب ک اصولی طورپر ی حق اپنی جگ پرقائم ہ ہے ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔(فرشت خاں۸) ے

وسکتا جواپن آپ کو دوسروں ک مقابل میں زیاد بڑی چیز ہسماج کاایک خاص کردار کوئی ایسا شخص بھی ہ ے ے ہے ہوسکتا ک الل واسط میں لوگ اپن کئی رشت دار عزیز یا پڑوسی کو اس طرح کاکردار ثابت ےرکھتا ی بھی ے ے ہ ہ ہے ہ ہ ہے

|س طرح کی مصنوعی کردارک ایک خاص ت فرشت خواں سمجھتا ی کردار یاا یں ک و تواپن آپ کوب ت ےکراناچا ہ ہے ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہی کرتی ہے۔سطح پرنفسیاتی روی کی نشاند ہ ہ

۔(فرشت دکھائی دینا۹) ےوسکتا ک کوئی آدمی اپن ساد پن یں ی بھی ت ہویس تو فرشت استعار ک طورپر ایک نیک اوربھل آدمی کوک ے ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ے ے ے ہ ے

اجاسکتا ک آ پ کو و توطنزک طورپر ی بھی ک ہکی وج س کسی بڑ آدمی ک بار میں اچھا خیال رکھتا ہے ہ ہ ے ہ ے ے ے ے ہیں ی فرشت دکھائی دیت ۔توسب ہ ے ے ہ

یں یا قربانی ک جانور ل فرشت دکھائی دیت یں ک موت س پ |س طرح ک خیاالت بھی رائج ر اں ا ےمار ہ ے ے ے ہ ے ہ ہ ہے ے ہ ے ہماری سماجی زندگی میں موقع ب موقع کا مات |س طرح ک خیاالت اورتوا یں ا ت ہکوفرشت چھwریاں دکھات ر ہ ہ ے ہ ے ہ ے ے

یں ۔رفرما نظرآت ہ ے

Page 168: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

۔(فرشت ک پرجلنا۰۱) ے ےیں و غیبی یں جن کا خارج میں کوئی وجود ن ت سی ایسی مخلوقات ک قائل م ب ہفرشت ایک غیبی مخلوق ہ ہ ے ہ ہ ہے ہ

یں اورفرشت بھی مسلمان wن میں دیوی دیوتا بھی م ن ایک وجود ک ساتھ مانا ا یں جن کو ےقوتوں کی عالمتیں ہ ہے ے ے ہ ہیں جبری wن میں جبری یں ا ت مwقرب فرشت یں جوخwداک ب ود اورعیسائی قومیں چارایس فرشتوں کی قائل الی ہ ال ہ ے ہ ے ہ ے ہ‘‘عزرائیل موت کافرشت نچان واال فرشت ’’میکائیل رزق پ یں ہےخدا کا پیغام ل کر انبیاء اوررسو ک پاس آت ہ ہے ہ ے ہ ۔ ہ ے ے دل ے

یں wن کو یاد کرت یں اورحضرت ک ا ت احترام کرت م فرشتوں کا ب ۔اوراسرافیل قیامت کا ہ ے ہہ ۔ ہ ے ہ ۔ہیں یعنی و پرندوں کی طرح ’’پروں ‘‘ک ساتھ وت یں اس میں پربھی لگ ےعرب جوفرشتوں کا تصور رکھت ہ ہ ے ہ ے ہ ے

یں wن ک نزدیک بازوؤں وال یں اسی لئ فرشت ا اں جاسکت اں س و یں ی wڑسکت ۔ا ہ ے ے ے ے ہ ے ہ ے ہ ہ ےبعد اس یں ا ںکا محاور بھی ن یں اسی لئ فرشتوں ک پر گننا شاید ی یں ۔ندوستان میں دیوی دیوتاؤں ک ’’پر‘‘ن ہ ہ ہ ے ے ہ ہ ے ہ

wن ک یں آت ی ا ےک ی ک فال ں آدمی تواتنا عقلمند اورغیر معمولی طورپر الئق ک جوفرشت کسی کو نظرن ہ ے ہ ے ہ ہے ہ ہ ےارطنزک طورپرکیا جاتا ی غیرمعمولی صwورت مگر اس میں اظ ت ے’پر‘گ|ن لیتا ی نظرداری اورخبرداری کی ب ہ ہے ہ ہ ہ ہے

ہے۔یں مارسکتا یعنی اتنی پرد داری اں فرشت پرن l و یں مثال وئ ایک دو محاور اوربھی ہفرشت ک ’’پر‘‘کا تصورکرت ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ے ے

اں جان میں اسی س ملتا جلتا ی محاور بھی ک و نچ سکت یں پ اں ن ر داری ک فرشت بھی و ےیا پابندی اورپ ہ ہ ہے ہ ہ ے ے۔ ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہl اس محاور کی بنیاد ی خیال جو فارسی ک ایک شعرمیں آیا ک معراج کی یں اورغالبا ہتوفرشتوں ک پر جلت ہے ے ہے ہ ہ ہ ے ےوںن اپنا ساتھ اس نچ کر ان اں پ ی� تک ساتھ ر لیکن ی ک ساتھ تھ اور سدر المنت ےشب میں جبرائی حضوراکرم ہ ہ ہ ہے ہ ۃ ے ے د ال

یں دیا ک اس س آگ جانا ان ک لئ سوئ ادب تھا ۔لئ ن ے ے ے ے ے ہ ہ ےے اگر یکسر مwوئ برتر پرم ے

فروغ تجلی بسوزد پرمےاگرمیں ایک سر|مwوبھی اورآگ بڑھوں توتجلیات کا فروغ میر پاؤں کوجال د گا ے ے

ذیبی فضاء ر کی ت ندوستان س با اں صاف صاف پت چلتا ک بعض محاور اپنی بنیادی فکرک اعتبارس ہی ہ ے ہ ے ے ے ہ ہے ہ ہwردwوزبان میں الفاظ اورتصورات میںبین ایشائی عناصرکوجمع یں ک جس طرح ا ہاورعقائد و اعمال س نسبت رکھت ہ ے ے

wن کا عکس محاورات میں بھی آتا ۔کیا اسی طرح ا ہے ہےذیبی روایتوں س بھی اورجس طرح مار سماجی شعور س اورت وتا ےنیزی ک محاور تجرب س بھی پیدا ہ ے ے ہ ہے ہ ے ہ ہ ہ ہ

توں س واقف میں تاریخ ک مختلف مرحلوں سلسلوں اورج یں جو ےشعرلطیف اورفنون| لطیف ک مختلف نمون ہ ے ہ ہ ے ے ہ ےیں ۔کرت ہ ے

۔( فر ش س عرش تک۱۱) ےہی فارسی ترکیب اورایک طرح ک محاوراتی معنی رکھتی فرش زمین اورعرش آسمان درمیان میں و تمام ہے ے ہے ہا جاتا ک ہمادی دنیا یا مختلف عناصر س متعلق و ماحول جو خالء میں موجود ایسی صورت میں جب ی ک ہے ہ ہ ۔ ہے ہ ے|س دنیا میں افق س تاب افق وتی ک ا wس س ی مراد وگئ توا ہفرش س عرش تک ک تمام اسرار منکشف ے ہ ہے ہ ہ ے ے ہ ہ ے

|س صورت حال یں اکثر صوفیاء ک ذکر میں ا وگئ ےجوچکھ و ایک بھیدوبھری دنیا اورو سب بھید منکشف ہ ے ہ ہ ہے۔ ہ ہےیں بیان کا ایک خاص شاعران اسلوب اورصوفیان طرز| ادا ہے۔کی طرف اشار کیا جاتا ویس ی کوئی محاور ن ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے ہے  ہ

(۱۲Vdفرشی حق )ہ۔تا یں جس کا و حص�� جس میں پانی بھرار ت یں بلک ایک اصطالح ایس حق کو فرشی حق ک ہی بھی محاور ن ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ے ہے ہ ہے ہ ہ ہ

وتی ت لمبی وتا جس کی نالی ب |س ک مقابل میں پیچواں ایک دوسری طرح کا حق تا ا |کار ہے فرش پرٹ ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے ہے ہ ہےی صورت فرشی سالم wدھر گھمایا بھی جاسکتا ی |دھر ا wٹھاکر محفل میں ا تی اس کو فرش س ا ہاوربیچ دربیچ ر ہے۔ ے ہے ہ

یں ی بھی محاور ک ت wس فرشی سالم ک ت جھک کریا زمین کوچھwوکر جوسالم پیش کیا جاتا ا ےکی بھی ک ب ے ہ ہ ے ہ ے ہے ہ ہ ہے|صطالح ذیبی ا ہے۔بجائ ایک اصطالح معاشرتی اورت ہ ہے۔ ے

۔( فرعون� ب سمان۱۳) ےوتا ہمسلمانوں میں بعض ایس کرداروں کا بھی روایتی طورپر بطور|محاور یاکسی شعرمیںبطور| تلمیح استعمال ہ ے

’’ ارسطو‘‘ کا ر| اخالقیات تھا ی ت بڑا فلسفی طبیب اورما wن میںس افالطون ایک کردار جواپن زمان کا ب تا ا ہر ہ ہ ے ے ہے ے ہے ہ|س کا ذکر بطور| فلسفی اورحکیم آتا ایک اردو محاور میں جب ی wستاد بھی تھا اسی لئ علمی کتابوں میں ا ہا ے ہے ے

یں التاکسی ت عقل مند سمجھتا اورکسی کو خاطر میں ن وا یعنی اپن آپ کو ب اجاتا ک و بڑا افالطون بنا ہک ہے ہ ے ہے ہ ہ ہ ہے ہی صورت ’’فرعون‘‘ ک ساتھ یں مانتا ی ہے۔کی بات ن ے ہ ہ

م فرعون کا ذکرحضرت ا جاتاتھا wن ک لقب ک طورپر فرعون ک وں کو ا ہو م|صرکابادشا تھا اورم|صر ک بادشا ہ ے ے ہ ہ ے ہ ہت بڑا بادشا تھا اس یں ک و توب یں اوری سمجھت wس ک حوال س کرت ہموسی ک زمان میںجو فرعون تھا ا ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ے ے ے ے ے

ت تھا ت تھا الؤ لشکر ب ہک پاس سازوسامان ب ۔ ہ یں جو اپن روی میں فرعونیت ے وت ہلیکن کچھ لوگ ایس بھی ے ہ ے ہ ےیں ی گویا الت ’’ فرعون‘‘ ب سامان ک یں و وت یں یاخود پسند وت ت سف��اک ب باک اورب رحم یں ب ہرکھت ہ ے ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ے ے ہ ہ ے

Page 169: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

wس پر کمینٹ ہے۔تاریخی اور روایتی تصورات ک ساتھ اپن سماجی کردار کو سمجھن کی کوشش اورا ہے ے ے ےوجانا۱۴) ۔( فرنٹ ہ

wس فرنٹ ونا، اسی لئ جب فوج اپن مقابل س لڑتی توا یں سامن wس ک معنی ےفرنٹ انگریزی لفظ اورا ہے ے ے ے ہ ے ہ ے ہےا جاتا ہے۔پر دشمن کا مقابل کرنا ک ہ  ہ

مارا ساتھ چھوڑکر وگیا اور وگئ یعنی و مخالف wس ک معنی دوسر wردwو میں محاور ک طورپر ی لفظ آیا توا ہا ہ ہ ے ہ ے ے ہ ے ہت س ایس وکر ی ب یں آتا لیکن محاور میں شامل اتی زبان میں ن ےبھاگ گیا ویس فرنٹ کا لفظ قصباتی یادی ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے

یں ک لفظوں کو م ی نتیج بھی اخذ کرسکت یں اس س ی ناواقف نچ گیا جو انگریزی س بالکل ہگھروں میں پ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہہے۔اپنان پھیالن اورمحفوظ کرن میں محاور ایک خاص کردار ادا کرتا ہ ے ے  ے

۔( فراٹ بھرنا۱۵) ےwس ت تیز دوڑتا توا ر|نوں ک دوڑن س تعلق رکھتا اسی لئ جب کوئی جانور ب ےدوڑن کا و خاص انداز جو ہے ہ ے ہے ے ے ے ہ ہے ہ ےیں اب دوڑنا ایک محاوراتی لفظ خود بھی آدمی ایک معامل میں تیز دوڑتا یعنی تیزی س ت ےفراٹ بھرنا ک ہے ہ ہے۔ ۔ ہ ے ہ ے

وتا ک |س طرح منتقل ن ا اں پھر ذ رنوں کی طرح فراٹ بھرن لگا ی ن تو wس کا ذ یں ک ا ت ہآگ بڑھتا توی ک ہے ہ ہ ہ ۔ ے ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ہے ےانی میں د کو زندگی میں تجرب اور تجزی س گزارتا تھا تواس کبھی شعرمیںال تا تھا کبھی ک ہانسان اپن مwشا ے ے ے ے ے ہ ےنی روی کی شکل د ایک ذ wس کا مشا نچ کر ا ا ںپ wس محاور میں التا تھا اوری ہکبھی لطیف ک طور پر اورکبھی ا ہ ہ ہ ہ ہ ے ے ے ے

ہے۔اختیا رکرلیتا اورسماجی حیثیت میں بدل دیتا ہے۔( فساد کی جڑ۱۶)

یں دنگا فساد کرنا فتن پھیالنا خوا مخوا جھگڑوں کا ت م ک wردwو میں دنگا کرنا اسی لئ ہ’’فساد‘‘ ک معنی ا ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہے ےو یا پھر عالمی سطح پر قرآن میں فتن پھیالن یا وکنب قبیل کی سطح پر ےسلسل شروع کرنا ی گھریلوں سطح پر ہ ہ ے ے ہ ہ ۔ ہ

ہے۔فساد ک اسباب پیدا کرن کو قتل س زیاد شدید بات بتالیا ہ ے ے ےا جاتا نگام پیدا کرن کو فساد برپا کرنا ک می کشمکش یا ہےعام طورپر سماج میں بدنظمی کھینچاتانی با ہ ے ے ہ ہ

م معاشر ک مزاج wس بات کوسبب قرار دیا جاتا اس س یں یا ا یں ان وت ےاورجوبات جولوگ اس کا سبب ے ہ ے ہے ہ ہ ے ہوتا ار wس ک عمل اوررد|عمل یا پھر اصل سبب یا بنیاد کو دریافت کرن کی کوشش یا صالحیت کا اظ ہے۔ا ہ ہ ے ے

نا۱۷) ۔( فقر بازی کرنا فقر ک ہ ہ ہی ب بنیاد ب تکی غیرسنجید موقع ب موقع فقر کسن کی عادت ڈال لیت ےبعض لوگ محفل نشینی ک باعث یون ے ے ے ہ ے ے ہ ے

wچھالنا بھی اوربعض موقعوں پر اس کی صورت فقر تراشی کی بھی یں فقر ا ت wس فقر اڑانا بھی ک ہیں ا ے ہ ے ہ ہ ے ہوسکتا ی موقعوں پر بوال جاتا موقع ومحل ک لحاظ س تھوڑا فرق بھی ہےوجاتی فقر لگا نا بھی ایس ہ ے ے ہے ہ ے ہ ہے ہ

وتا یں ۔لیکن سماجی روی ک لحاظ س اس ک مزاج ومعیار اورمقصدیت میں کوئی فرق ن ہ ہ ے ے ے ہہ۔( فقیرکردینا، فقیری لٹکا، فقیری نسخ۱۸)

یں اورایس شخص ک بھی جس ن درویشی اختیارکرلی ت غریب اوربھوک ننگ آدمی ک بھی ےفقیر ک معنی ب ے ے ہ ے ے ے ہ ےوجانا اتھ ار اور پیس ٹک ک لحاظ س بالکل خالی وجانا ب س ہے۔مگرزیاد تر محاوروں میں فقیر کردینا فقیر ہ ہ ے ے ے ے ہ ے ہ  ہزادی یا بڑ آدمی کا اپن آپ کو فقیر لکھنا زاد یا ش وتا اب کسی ش wھوک ننگ فقیر ایک ساتھ استعمال ےب ے ہ ے ہ ہے ہ ے ے

ر کرت وتا اس محاور ک دو رخ جن کی طرف اوپر اشار کیا گیا ی ظا ر کرن ک لئ ےعاجزی وانکساری ظا ہ ہ ہے ہ ے ے ہے ہ ے ے ے ہلوؤں س کرتا ہے۔یں ک سماج زبان کا استعمال کن کن معنی اورپ ے ہ ہ  ہے۔اورکس طرح سوچ کی سطح بدل جاتی  ہ

|س یں اورا wن فقیروں میںآجاتا جودwھونی رامائ پیت یں جوعام طور پرا ت ہفقیر کا لٹکا ایس کسی شوق کو ک ے ے ہے ہ ے ہ ےیں ۔طرح نش کرت ہ ے ہ

ونا۱۹) ونا، فلک بوس ۔( فلک سیر ہ ہی سب محاور فلک س متعلق ونا ی ےآسمان پر چڑھنا ، آسمان کی سیر کرنا، آسمانوں کوچھونا دراصل آسمان پر ے ہ ہ

اجا wرا ک wردو شاعری میں آتا آسمان کو ب اڑ یا عمارتیں فلک ایک کردار ک طورپر بھی ا یں مثال فلک بودمیں پ ہبھی ہے ے ہ ہا جاتا ہے۔تا دشمن قرا ردیا جاتا اسی طرح فلک کو بھی انسان کی عافیت کا دشمن ک ہ ہے ہے

ونا۲۰) ۔( فنافی الل ہ ہ‘‘ یعنی الل کی مرضی اwس ی قریب قریب اسی معنی میں رائج ’’فنافی الل wردو میں ہصوفیوں کی اصطالح ا ہ ہے ہ ہے

wس ماد�ی دنیا اوراس ک عالئق س انکار کردینا wس کی محبت میں خودی ک تصورس گزرجانا اورا ش اورا ےکی خوا ے ے ے ہوکر آدمی نچ کرنا اس میں گم |حال کوپ یں اور جب اس صورت ی ن اں کوئی موجود نا ک الل ک سوا ی ہاوری ک ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ

|عالی wس کی حقیقت ا یعنی اب میں الل ک تصو�راورا ےحقیقت وجو دکوتسلیم کرتا توو گویا اب بقایا الل کوجان ر ہ ہے ہ ہ ہ ہےل| خانقا ک ی ماحول اور ا یں ی محاور ایک طرح س خانقا وں میرا اپنا کوئی وجود ن ا ےک افراد ک ساتھ جی ر ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ے ے

وحانی تصورات کی ترجمانی wہے۔فلسفیان ر ہ۔( فوجداری۲۱)

یں بلک قانون کی نگا میں جwرم کرنا یں جواس ک لفظی معنی ہقانون کی ایک اصطالح مقصد فوج رکھنا ن ہ ہ ے ہے ہ ہے

Page 170: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ہاورمجرمان کارروائیوں میں حص� لینا مثال مارپیٹ قتل وغارت چوری ڈکیتی وغیر اس کو انگریزی میں ہے ہ ہCriminalیں ک فوجداری کیس بن گیا یا فوجداری ک سپرد کردیا یا فوجداری میں چال گیا اس ک ت ےکیس ک ے ہ ہ ے ہ

یں اورکس کی نوعیت ک الت یں و دیوانی ک کیس ک وت یں اورمالیات س متعلق وت ےمقابل میں جوکیس ہ ے ہ ے ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہwس دیوانی یا فوجداری میں منتقل کیا جاتا ر ہے۔پیش نظر ا ے

۔( فی نکالنا۲۲)یں میں فنا فی الل میں فی اسی معنی میں wس ک معنی ہےی عجیب وغریب محاور ’’فی ‘‘عربی کالفظ اورا ہ ہ ے ہے ہے ہ ہ

یں یا اختالف رائ کی سی صورت کو پیداکرن ک معنی میں ت ےلیکن محاور میں فی نکالنا اعتراض کرن کو ک ے ے ہ ے ہ ے ےیں ربات میں فی نکالت ۔ی محاور آتا جیس و تو ہ ے ہ ہ ے ہے ہ ہ

|س ک مرادی یا محاوراتی معنی پر غور کیا جائ توپت چلتا ک لفظ ک wردو میں ا ےاس لفظ کی عربی اصلیت اورا ہ ہے ہ ے ےئت اورمعنوی توسیعات میں کتنی بڑی تبدیلیاں ر wس کی ظا ون تک ا ہےایک زبان س دوسری زبان میں منتقل ہ ے ہ ے

نچ جاتی اں تک پ ا ںس ک یں اوربات ک ہے۔آجاتی ہ ہ ے ہ ہ(۲۳( ونا ۔( ف�ٹ (Fitہ

ونا اور فٹ کرنا اورفٹ نظر آنا اwس وتا فٹ wردو میں ایک س زیاد معنی میںاستعمال ہانگریزی کالفظ لیکن ا ہے ہ ہ ے ہےیں ت نمایاں مثالیں ۔کی ب ہ ہ

‘‘ ق ’’ ردیف 

۔قابو چڑھنا، قابومیں آنا ، قابو میں کرنا( ۱) یں یں اورفارسی س ماخوذ ی معنی میں آت ہی سب محاورات قریب قریب ایک ے ہ ے ہ ہ

وتا یں اورمطلب ت ہےفارسی میں ’’قابو یا فتن‘‘ یا قابو حاصل کردن یا شدن ک ہ ہ ے ہوم ک ساتھ استعمال ےتسل�ط پانا ی اچھ خاص وسیع دائر میں اور وسیع ترمف ہ ہ ے ے ہ

ہے۔وتا ہہبڑی مشکل س حاالت پر قابوپایا سوتدبریں کیں تب و قابوچڑھا وغیر وغیر اwس ہ ہ ے

و چا غم ک چا کمزوری ی غص� ک باعث ونا چا ہےک مقابل کا محاور قابو ے ہے ہ ے ہ ے ہ ہے ہ ہے ہ ہ ےوگیا ی محاور ےک دل ک ساتھ بھی ب قابو کالفظ آتا جیس میرادل ب قابو ہ ہ ے ے ہے ے ے ےیں اوری ک آدمی اپن جذب رکرت wتار چڑھاؤ کو ظا ےسماجی رشتوں اورجذباتی ا ے ہ ہ ہ ے ہ

نی عمل رد|عمل کو کس طرح پیش کرتا ہے۔اپن احساس اورذ ہ ے۔قارور ملنا، یا قارور دیکھنا( ۲) ہ ہ

|صطالح بھی یعنی بیماری ک عالم میں بیمار ک اپن ےی محاور ایک طبی ا ے ے ہے ہ ہ|س اعتبار س دیکھنا ک اس کا معائن کرنا اوری دیکھنا ک ہپیشاب یا قارور کوا ہ ہ ہ ے ے

ی ل طبیب کی نظر یں پ وتی ہبیماری کیا کتنی اب ی باتیں مشین ک ذریع ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ہے ہےاں س آگ بڑھ کر ی محاور میں آئی توی محاور بناک ان کا ہکام کرجاتی تھی و ہ ہ ہ ہ ے ے ہ ۔

|س س ایک بار پھری یں ملتیں ا یں ملتا طبیعتیں ن یں ملتا یعنی مزاج ن ہقارور ن ے ۔ ہ ہ ہ ہن کی سطح پر ابھرتی ک ایک فن ک محاور لفظیات زبان ک مختلف ےبات ذ ے ے ہ ہے ہ

ہے۔استعمال اورموقع ومحل ک لحاظ س کس حدتک بدلتی ے  ے۔قاضی ، قاضی الحاجات قاضی ق�دو ، قاضی گ�ل ن کرسکا( ۳) ہ ہ ہ

یں جونکاح خوانی کا رجسٹررکھتا اورنکاح ت ہے’’قاضی‘‘ ایک ایس آفیسر کوک ہ ے ہ ےتا اس ک عالو مسلمانوں ک wس ک پاس ر ےپڑھاتا اوراس کا ریکارڈ ا ہ ے ہے ہ ے ہے

ےدور|حکومت میں قاضی کوکچھ خاص طرح ک قانونی اختیارات بھی حاصل تھ ےوتا تھا ایک بڑا ہاورکچھ مقدمات کا فیصل بھی اس ک اختیارات کی حدود میں ے ہ

التا تھا محاور قاضیوں س متعلق عجیب وتا تھا جوقاضی القضا ک ےقاضی ے ہ ۃ ہوگئ اوراب ور ونا ی روایتا مش ونا ،جونپور کا قاضی l قاضی قدو یں مثال ےوغریب ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ

Page 171: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ت وتا ک و اپن آپ کو ب wس میں طنز شامل ا جاتا اور ا ہنمون ک طورپر ک ے ہ ہ ہے ہ ہے ہ ے ےت بڑی چیز سمجھتا ۔بڑ خاندان اورب ہے ہ  ے

وگیا اسی طرح ی ور ی معامل جونپور ک قاضی کا ک و اپنی مکاری میں مش ہی ہ ہ ہ ہ ہے ے ہ ہاوت ک جب میا ںبیوی راضی توکیا کر گا قاضی اسی طرح قاضی توکوئی گل ہک ے ہ ہwس کیا واسط قاضی کا پیاد یں کرتا و تونکاح پڑھا دیتا باقی معامالت س ا ہن ہ ے ے ہے ہ ہی ک و کونسا قاضی کا پیاد یعنی قاضی ک پیاد کی بھی ایک ےمعمولی سپا ے ہے ہ ہ ہ ہ

ن ادنی درج کا وا ش وتی تھی آخرتوو قاضی کا بھیجا میت ہزمان میں بڑی ا ہ ہ ہ ہ ہ ہ ےوتا تھا ی ۔سپا ہ ہ

ہاسی طرح قاضی ’’ماری حالل‘‘ یعنی کوئی چیز ذبح کئ بغیر مرجائ توو جائز ے ےوگئی ی سماج کی طرف س یں ر جاتی مگر قاضی اگرک د توو بھی جائز ےن ہ ہ ہ ے ہہ ہ ہ

یں ۔قاضی ک کردار پر پھبتیاں ہ ےونا، یاقافی بندی کرنا ۔قافی تنگ ہ ہ ہ

ی اب یں ک شعر میں قافی ردیف کی پابندی کی جار |صطالح اور اس ک معنی ی ہےی محاور شاعری کی ا ہ ہ ہ ہ ہ ے ہے ہ ہت یں جس ک قافی ب ت ونا ایس قافی ک استعمال کو ک یں ی الگ بات اسی طرح قافی تنگ ہشعراچھا یا ن ہ ے ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ہے

wس باندھا جاسکتا ی ی س ا وں جیس شاخ شاخ کا قافی مشکل س ملتا اورمشکل وں یان ملت ہمشکل ے ے ہ ہے ے ہ ے ہ ے ہ ہت یں ک قافی تنگ اورجب کوئی دوسر آدمی کو ستاتا توک ت ےایس موقع کو سماجی محاور ک طورپر ک ہ ہے ے ہے ہ ہ ہ ے ہ ے ے ے

یں پاتا wس ن قافی تنگ کررکھا و بیچار کچھ ک ن ۔یں ک ا ہ ہہ ہ ہ ہے ہ ے ہ ہ۔( قائل معقول کرنا۵)

د یں ک اپنی بات صرف منوائی ن جائ اورغیرضروری طورپر زورن دیا جائ بلک دلیلیں ثبوت وشوا |س ک معنی ی ہا ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہ ےمار وجائ اوردل س کسی بات کو تسلیم کرل نی طورپر اوردل س مطمئن ےپیش کئ جائیں تاک دوسرا ذ ہ ے ے ے ہ ے ہ ہ ے

|س محاور میں اس بات کی طرف اشار کیا گیا تاک خوا مخوا کی یں اسی لئ ا ہمعاشر کا ی عام روی ن ہ ہ ہے ہ ے ے ہے ہ ہ ہ ےے۔باتوں پرزور ن دیا جائ  ہ

wردو زبان کی |س س ا wردو میں محاور ک طورپر ذیل میں آیا اورا یں لیکن ا ےقائل معقول دونوں عربی لفظ ہے۔ ے ے ہہے۔قوت| آخذ )جذب کرن کی قوت( کا پت چلتا ہ ے ہ

۔( قبال ل ڈالنا ، قبال ل لینا۶) ے ے ے ےیں کسی زمین وجائداد مکان یادوکان ک کاغذ لکھوالینا ا|س یں اورقباال لکھوان ک معنی ت ے’’قباال‘‘ دستاویز کوک ہ ے ے ہ ے ہ

یں قانونی طورپر قبض حاصل کرلینا مگراس س وت یںجس ک معنی ت ےکومحاور ک طورپر قبال لینا بھی ک ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ے ے ےیں س ی سمجھ میں آتا ہےمرادلی جاتی فریب دغا دھوک اورمکاری س قبض حاصل کرن کی کوشش کرنا اوری ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہے

وتا توکیا کیا مکاریاں اورجعل سازیاں کرتا ہے۔ک معاشر جب بددیانتی پر مائل ہے ہ ہ ہ۔(قبرکھودنا۷)

ی میں قبرتیار کرن کا رواج بھی یں ان یں جوقومیں اپن مردوں کودفن کرتی ت ہےقبرکھودنا قبرتیارکرن کوک ے ہ ہ ے ہ ے ہ ےوخاندان ی وبربادی کاسامان کرنا و اپن لئ ہلیکن قبرکھودنا محاور ک طورپر دوسر معنی میں آتا یعنی تبا ے ے ہ ہ ہے ے ے ےwس ن تواپنی یا اپن خاندان کی قبرکھوددی ا جاتا ک ا و طنز ک طورپر ک ت س لوگوں ک لئ و یا ب ےک لئ ے ہ ہے ہ ے ۔ ہ ے ے ے ہ ہ ے ےی کا سامان کردیا ی محاور بھی معاشر پر اس کی غلط روشوں نچا اورتبا wن ک مفاد کوسخت نقصان پ ےیعنی ا ہ ہ ہ ہ ے

۔اور کارکردگیوں ک اعتبار س ایک طنز یاطنز ی تبصر کا درج رکھتا ہے ہ ہ ہ ے ے۔( قبرک م-رد ا-کھاڑنا۸) ے ے

م قبرک مرد l جب یں کھودی جاتی لیکن محاورتا اں ایک مرتب دفن کرن ک بعد دوبار قبرن ےمسلمانوں ک ے ہ ہ ہ ے ے ہ ہ ےیں سمٹت یں بقول شخص خاندانی جھگڑ ساری عمربھی ن یں تواس س معامالت کو سامن الر ت ےاکھاڑنا ک ہ ے ہ ہے ے ے ہ ے ہ

رایا یں اورپچھلی باتوں کو ن د wن پر پرد پڑ ر یں ک ا ت م اپنی نفسیاتی مجبوریوں ک تحت ی ضرور چا ہلیکن ہ ہ ے ے ہ ہ ے ہ ہ ے ہاجاتا ک و یںاسی لئ اس طرح کی باتوں کون پسندید طورپر ک ہجائ اس میں خاندانی رشتوں پر چھائیاں پڑتی ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ے

یں رات یں یعنی پرانی باتوں کو بار بار د wکھاڑت ۔توقبرک مرد ا ہ ے ہ ہ ے ے ےونا۹) ۔( قبرمیں پاؤں لٹکائ بیٹھا، یاقبرک کنار ہ ے ے ے

نچ جانا جس ک بعد آدمی خود wس عمر کو پ ونا یا ا یں یعنی موت س قریب ی معنی wن دونوں محاوروں ک ایک ےا ہ ہ ے ہ ہ ےم توقبرمیں پیر لٹکائ بیٹھ تا ک ےکو زندگی س دوراورموت س قریب سمجھتا اسی لئ اپن لئ خود بھی ک ے ہ ہ ہے ہ ے ے ے ہے ے ے

یں یں ک قبرمیں پیر لٹکائ بیٹھ ت ہیں اوردوسرا بھی کبھی کبھی طنز ک طورپر ک ے ے ہ ہ ے ہ ے پھربھی اس طرح کی باتیں ہر بات کوطعن اورطنزک طورپر ت عام قریب قریب مار معاشر میں طعن دینا اورطنزکرنا ب یں ےکرت ے ہ ہے ہ ہ ے ے ہ ہ ے

Page 172: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

وتا ی ا ںبھی ایسا یں ی ہے۔استعمال کرت ہ ہ ہ ہ ےی۱۰) ۔( قبل حاجات ،قبل گا ، قبل گا ہ ہ ہ ہ ہ

خ wذیبی لحاظ س بھی مسلمان قبل کی طرف ر بی اعتبارس اورت م عالمت مذ ہقبل مسلم کلچر میں ایک ب حدا ے ہ ے ہ ہے ہ ے ۂخ دفن wر |س ک عالو اپن مرد قبل یں ا ت یں اپن لئ قابل| احترام لوگوں ک لئ قبل وکعب ک ۂکرک نماز پڑھت ے ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ے ے ے ے ہ ے ے

بی یں اس س قبل کی مذ اتھ اٹھاکرقسم کھات یں قبل کی طرف وکر مانگت رخ یں دعائیں بھی قبل ہکرت ے ے ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ۂ ہ ےیں ت l قبل حاجات ک یں اس پر محاورتا وتی ان کی ضرورتیں پوری وتا جس ک ذریع میت کا انداز ذیبی ا ہاورت ے ہ ہ ہ ہ ہ ے ہے۔ ہ ہ ہ ہ

ا گیا ہے۔فارسی کا ایک شعر جس میں روپ پیس ک لئ ک ہ ے ے ے ے ہےولیکن خداکی قسم تم عیبوں کوچھپان وال اورحاجتوں کوپورا یں �وں تم خدا ن ( ا سون چاندی ک سک ے)ترجم ے ہ ہ ے ے ے ہ

و ۔کرنیوال ہ ے|شار کرتا wردو کا محاور اسی کی طرف ا یں ا ت واک قاضی الحاجات دولت اورزر زمین کوبھی ک |س س معلوم ہا ہ ہ ے ہ ہ ہ ے

) ی نیز قبل متمنداں )امیدوار ان کاقبل ۔ قبل گا اورقبل گا ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہے۔( قحط پڑجانا۱۱)

مدردی خلوص اوراپنائیت ک جذب التا ہغل� کی کمی اورخوراک ک طورپر کام آن والی اشیاء کا فقدان قحط ک ے ہ ہے ہ ے ے ہیں ی مراد لیت wس س ب مروتی اورب توج یں اورا ت | الفت بھی ک wس قحط غم ت کمی آجاتی توا ۔میں جب ب ہ ے ہ ے ے ے ہ ے ہ ے ہے ہ

۔( قدنکالنا۱۲)مارا مار خوبصورت محاورات میں س اور ا جاتا اور l قدنکالنا ک ونا محاورتا ہبچوں کا قد ک اعتبار س بڑا ہے ے ے ہ ہے ہ ہ ے ےی وتا ی ایس ار اں اظ ہمعاشر محاور تراشن یا کلمات کو خوبصورت محاور میںڈھالن کی صالحیتوں کا ی ے ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ے ے ہ

ہے۔محاورات میں س ےونا، قدم چومنا۱۳) ۔( قدم اٹھاکر چلنا ،قدم بڑھانا، قدم ب قدم چلنا، قدم بوس ہ ہ

اتھوں یں یا wس ک قدموں س متعلق یں اورانسان کی زندگی ک بیشتر کام یا ا ت ہ’’قدم‘‘ آدمی ک پیر کو ک ہ ے ے ے ہ ے ہ ےیں جیس قدم شریف قدم رسو حضرت| آد ک وت اتھ یا قدم عالمت ک طورپر بھی استعمال ےس اسی لئ ام دل ے ہ ے ہ ے ہ ے ے

وت یں اورمقدس نقوش وآثار میں شمار بی عالمتیں اتما گوتم بدھ ک قدموں ک نشانات جومذ ےقدم کا نشان م ہ ہ ہ ے ے ہl قدم بڑھانا، قدم رکھنا یں مثال رکرت م لفظی محاوروں س ظا ہیں زندگی ک مختلف اعمال اوراقدامات کو ے ہ ے ہ ے ۔ ہی مار چلن پھرن اورعمل وردعمل کی نشاند ہقدم اٹھانا، قدم مالنا نشان قدم چراغ| نقش قدم وغیر ی سب ے ے ے ہ ہ ہ

یں اورقدم چومنا قدموں کوبوس یں اسی ذیل میں آت یں واپسی ک لئ اٹھن وال قدم بھی ہکرنیوال محاور ہ ے ہ ے ے ے ے ہ ے ےیں جوسماج ک انداز|نظر اورطرز|عمل کی ر کرنیوال محاور ونا قدموں ک احترام کو ظا ےدینا قدموں کی خاک ہ ے ے ہ ے ہ

رنکالنا، قدم قدم جانا، قدم گاڑنا، قدم مارنا، وغیر وغیر یں جیس قدم با وت وئ محسوس ہ۔نمایندگی کرت ہ ہ ے ۔ ہ ے ہ ے ہ ےدی کرنا۱۴) ننا، قرآن اتھ رکھنا، قرآن کا جام پ ۔(قرآن ا-ٹھانا، قرآن رکھنا، قرآن پر ہ ہ ہ ہ ہ

یں قرآن حفظ کرن کا بھی مسلمانوں میںایک یں اورمسلمان اس آسمانی صحیف جانت ت ےقرآن کتاب الل کوک ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہیں کرسکت توناظر پڑھت یں اورحفظ ن ت س مسلمان اپنافرض سمجھت ےزمان س رواج ناظر پڑھنا توب ہ ے ہ ہ ے ے ہ ہ ۔ ہے ے ےر کرن ک لئ و خدا وتا توی ظا یں جب قسم کھانا نچات یں اس کا ثواب پ وا دیت ہیں بیمار کوقرآن کی ے ے ے ہ ہ ہے ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ہ

وتا ک قرآن کا احترام ر یں اس س ظا اتھ رکھت یں قرآن پر ہرسول کوحاضرناظر جان کرقسم کھار ہے ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ہےبی طرز تا قرآن س متعلق زیاد ترمحاور مسلمانوں عقید اورمذ ن میں کس طرح ر ہمسلمان فرق ک ذ ے ے ہ ے ہے ہ ہ ے ے

یں جوکسی یں لیکن بعض محاور و بھی وتا ک محاور عام ر یں اوراس س ظا ہعمل س تعلق رکھت ہ ے ہ ے ہ ہے ہ ہ ے ہ ے ےیں ذیبی یا کاروباری زندگی س تعلق رکھت بی ت ۔خاص طبق کی مذ ہ ے ے ہ ہ ے

۔( قرح پڑجانا۱۵) ہوتی یں زخم پڑجانا جوایک صورت س جسمانی تکلیف وت wس ک معنی ہے۔فن| طب کی اصطالح اورا ہ ے ہ ے ہ ے ہے

۔( قرع ڈالنا، قرع پڑنا، قرع پھینکنا۱۶) ہ ہ ہی پھینکا جاتا یں اورکھیلت وقت پانس ت ہی چوسر کھیل س متعلق ایک اصطالحی لفظ قرع دراصل پانس کو ک ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہے ے ہ

یں قرع اندازی جھگڑ معامل میں فیصل کرنا یا فیصل wس س فال ک طورپر بھی کچھ باتیں اخذکی جاتی ہ اورا ہ ہ ے ہ ہ ے ے ہےwس کا وں جس ک حق میں قرع نکل آتا اسی کوحق دیدیا جاتا یا ا وجاتا ک اگرزیاد امیدوار نچنا ممکن ہےپرپ ہے ہ ے ہ ہ ہ ہے ہ ہ

۔نمبرآجاتا ہےہ۔( قرض ا-تارنا، قرض لینا قرض اٹھانا، قرض دینا، قرض� حسن وغیر۱۷) ہ

وتا ک اس س قرض لیکر اورو ہماری سوسائٹی میں شخصی طورپرقرض لین کا روی عام بنئ کا سودا تنا ے ہ ہے ہ ے ۔ ہے ہ ے ہوتا ایس عالم میں عزیز یں ی بیچنی پڑتی اورقرض ادا ن وجاتا ک و چیز ن رکھ کر اتنا ےبھی کسی چیز ر ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہے ہ ہ

یں ی س قرض لیا جاتا قرض اٹھانا قرض دینا اسی سلسل ک محاورات نچان ک لوگوں ۔رشت داروں یا جان پ ہ ے ہ ۔ ہے ے ہ ے ہ ہم ی سمجھ لیں گ یں بھی کر گا تو یں ک ی واپس ن ن میں رکھ کر کسی کو قرض دیت ےبعض لوگ ی سوچ اور ذ ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ہت کم اس لئ ک |س کا رواج آج کی سوسائٹی میں ب یں مگرا ت wس کی مددکی اس کو قرض| حسن ک م ن ا ہک ے ہے ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ہ

Page 173: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

تا ک میرا اراد قرض ادا کرن یں پس ک یں ک واقعتا قرض ادا کر گا یا ن وتی بھی ن ےقرض لین وال کی نیت ی ہ ہ ہے ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ےمار سماجی تعلقات کوپرکھن کا ایک پیمان قرض بھی رحال ۔کا ب ہے ہ ے ے ہ ہ ہے

۔( قرقی بٹھانا،ق-رقی بھیجنا۱۸) اس کی زمین وجائداد س اس وصول کیا جاتا یں کرپاتا توقانونی چار جوئی ک ذریع ےجب کوئی شخص قرض ادا ن ے ہ ے ہ ہ

ے سرکار اپنا قرض اسی طرح وصول کرتی اور امالک کو قرق کروالیتی اسی سلسل میں قرقی آنا، قرق ہے۔ ہے ہےم اپن سماج کی اسڈی ) یں اوراس ذریع س بھی وت ےونا، قرقی بیٹھنا وغیر محاور استعمال ہ ے ہ ہ ے ہ ے ہ ے(کرسکتStudyہ

۔یں ہwس کی واپسی کا ا جاتا جوقرض ن دیں ا ی لوگوں ک لئ ک ند )ن دین واال( ی ایس اں ایک لفظ نا د ہمار ی ہے ہ ے ے ہ ے ہ ے ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ

ے۔خیال ن رکھیں آخر لڑائی جھگڑ اورقرقی کی نوبت ن آئ ہ ے ہ ( قسمت ا-لٹ جانا، قسمت بازی ، قسمت پھرنا، قسمت کا پھیر، قسمت کا دھنی، قسمت کا۱۹)

ہ۔لکھا وغیر وغیر ہیں غیبی علم غیب کا فیصل غیبی قوت کی کارفرمائی اس وت یں اورتقدیر ک معنی ی ہقومیں تقدیر کو مانتی ر ہ ے ہ ے ہ ہ

ماری سوسائٹی میںایک ہکی وج س ے ت نظر آتSuper Strutcuerہ م ی ک تا اور میش موجود ر نی سطح پر ےذ ے ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہتا ی جو قدرت واال چا وتا و یں آتا اور wس کا کیا دھرا بھی کام ن ہے۔یں ک آدمی کی عقل بھی ناقص اورا ہ ہے ہ ہ ہ ہے ہ ہ

ی سوچتی وئی کوئی انسانی زندگی مجبورا ی ہےحاالت کی ناسازگاریوں اورشخصی طور پر نارسائیوں میں گھری ہ ہوتا اس کو ی وتا و تی ک جوتقدیر کا لکھا ی ر ہے۔یا سوچ سکتی مشرقی قوموں کی سطح عام طورس ی ہ ہ ہے ہ ہ ہے ہ ہ ے ہےےمان کر چلن میں سب س بڑی برائی ی ک آدمی پھر دوسر ک عمل اورسلسل عمل وردعمل کو سمجھن س ے ہ ے ے ہ ہے ہ ے ے

بی نظام فکر س وابست کرلیتا تا اورپور معامل کو تقدیر ک سپرد کرتا اوراپن مذ ہے۔بھی قاصرر ہ ے ہ ے ہے ے ہ ے ہے ہےقسمت ک کھیل، قسمت کا دھنی، قسمت کی یاوری بدقسمتی وغیر وغیر جومحاور یا محاوراتی انداز کی ہ ہ ے

یں اں تک تقدیری معامالت کو غیرضروری تعمیم س ہترکیبیں اردومیں رائج یں ج ےو سب اپنی نظام فکر کا نتیج ہ ہ ہ ہ(Over simpleicationہے۔گذارا گیا )

۔( قصائی کا پالd قصائی ک کھونٹ باندھنا، قصائی کی نظر دیکھنا۲۰) ے ےر ک قصائی کی نظر wن کا گوشت بیچتی ظا ہ’’قصابی‘‘ مسلمانوں میں ایک قوم کا پیش و جانور کاٹتی اور ا ہے ہ ہے ہ ہے ہ

ونا و اگردیکھ گا توسخت اورکرخت نظر س ونا ایک مخالف دشمن یا قاتل ک قبض میں ےیا اس ک گھرپر ے ہ ہے ہ ے ے ہ ےی جانا وگی اس کو توکٹ ہدیکھ گا سلوک کر گا توبرا سلوک کر گا جوگائ یا بکری قصائی ک کھونٹ بندھی ہ ے ے ے ے ے ےاجاتا وتا اورجس کبھی بھی قتل کیا جاسکتا اس ک لئ ک رطرح نقصان میں ہ ایسی صورت میں جوآدمی ے ے ہے ے ہے ہ ہ ہے

ا اس کی طرف اشار وتا ر وتا اور ہ ک و قصائی ک کھونٹ بندھا اس س معاشر میں جوظالمان سلوک ہے ہ ہ ہے ہ ہ ے ے ہے ے ے ہ ہ ہےوتا ہے۔کرنا مقصود ہ

ونا۲۱) قصd درقص ونا ونا، قص مختصر ہ( قصd پاک کرنا ،قصب پاک ہ ہ ۔ ہ ہ ہ ہ  ہانی وا ک انیوں میں سمیٹا مارا پورا کلچر قصوں ک را رشت اوردیکھا جائ تو ماری زندگی س گ انی کا ہقص ک ہے ہ ہ ہ ے ہے ہ ہ ے ہ ہ ہ

ا یں و رام ک یں قص� کو مختصر کردیا جاتا اورک یں ک وتی قص� درقص بھی داستان درداستان بھی ک ہمختصربھی ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہماری زندگی ن مار ذ یں ک قص کا اپن مختلف اسالیب ک ساتھ م انداز کرسکت ہنی بن جاتی اس س ہ ے ہ ے ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہے

یںان ک لفظ ومعنی میں بھی م قص ک بار میں جومختلف محاور ماری زبان س کیا رشت اسی کو ےاور ہ ے ے ے ے ہ ہے ہ ے ہیں ۔دیکھ سکت ہ ے

وگئی قص� کو تا کردیا گیا یا قص� وا اوربات ایک طرف وئی قص سمٹ گیا جھگڑا ختم ونایعنی بات ختم ہقص� پاک ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہوا ۔کو تا ہ ہ

ی ، قضائ عمری۲۲) ۔( قضا ادا کرنا، قضا پڑھنا، قضا عندالل ، قضا وقدر ، قضائ ال ے ہ ے ہیں تواس م قضا وقدر بولت ماری زبان میں شامل یا وتی ک و ہ’’قضا‘‘ کا لفظ عربی اوری دیکھ کر حیرت ے ہ ہے ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہے

ی س رشت وتا قضائ ال یں یں جس س انسان ک اپن اراد کاکوئی تعلق ن ہس تقدیر کا فیصل مراد لیت ے ہ ے ۔ ہ ہ ے ے ے ے ۔ ہ ے ہ ےوجیس موت حادث قضائ ےوتا یعنی خدا کی مرضی و مرضی جس کا تعلق کسی ک دکھ بھر واقع س ہ۔ ے ہ ے ہ ے ے ہ ہے ہ

و نماز کا وقت گذرجاتا تا وں اوررات کو آدمی ادا کرنا چا وئی یں جوزندگی میں قضا ت wن نمازوں کو ک ہےعمری ا ہ ہ ہ ہ ہ ے ہیں وتا روز اگرن ی لفظ استعمال یں روزوں ک ساتھ بھی ی ت ونا ک وتواس قضا یں کی گئی ہاورنماز ادا ن ہ ہے ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ے ہ ہ

یں ت ونا ک ۔رکھا گیا تواس روز قضا ہ ے ہ ہ ہ ےبی عقائد اوراعمال س یعنی سماج ک ایک وتا ک ان محاوروں کا رشت مسلمانوں ک مذ ر ےاس س ی ظا ہے۔ ے ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے

یں و یںک جوباتیں سماج کی نفسیات کا حص� بن جاتی نچت م اس نتیج پر پ ہخاص طبق س اوراس س ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہے ے ےیں ۔محاوروں میں بدل جاتی ہ

۔( قلعی کھل جانا ، قلعی کھولنا۲۳)ت و اس ک ملمع کاری ک ےمار سماج میں بات کوچھپانا اوردوسر ا نداز س پیش کرنا جس میں نمودونمائش ہ ے ہ ے ے ے ہ

Page 174: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

وجاتا تواس قلعی ر �اری کا روی ظا ےیں اسی کو قلعی کرنا سمجھ لیں اسی لئ جب بات کھل جاتی اورمک ہے ہ ہ ہ ہے ے ہر کرتا توقلعی کھولنا یا قلعی اتارنا بھی یں اوراگرکوئی دوسرا آدمی بات کوکھولتا اورملمع کاری کو ظا ت ہےکھلنا ک ہ ہ ے ہ

ا جاتا یعنی اصل حقیقت کھول کرسامن رکھ دینا ۔ک ے ہے ہ۔( قلم بنانا، قلم ا-ٹھاکر لکھنا، قلم پھیرنا، قلم چالنا، قلمدان دینا۲۴)

وتی زیر| حکم اورزیر یں تواس س مراد ت م’’ قلم رو‘‘ ک ہےتحریرنگارش تصویر حکومت کی نشانی جب ہ ے ہ ے ہ ہ ہےذیبی عالمتوں میں س بھی ک خدا ن قلم ک ذریع انسان بی اورت التا قلم مذ ند ک ہحکومت اسی لئ قلم رو ے ے ہ ہے ے ہ ہ ہے ہ ہ ے

یں جانتا م ن انسان کو قلم ک ذریع تعلیم دی اور و باتیں سکھالئیں جوو ن ہکو تعلیم دی چنانچ قرآن میں آیا ک ہ ہ ہ ے ے ہ ہ ہے ہی س وابست یعنی و مقدس تختی جس پرقدرت ک قلم ن تمام دنیا کی ےتھا لوح محفوظ کا تصوربھی قلم ے ہ ہے ہ ے ہ

ئ گئ اس کا تعلق ا ک و لکھ د ےتقدیر لکھ دی جوازل س ابدتک ک لئ قرآن ن اپن احکامات ک لئ ک ے ے ہ ہ ہے ہ ے ے ے ے ہے ے ے ےیں کاغذ کی ایجادس ےبھی قلم س ’’بھوج پتر‘‘ مٹی کی تختیاں یا لکڑی کی تختیاں بھی تحریر ک لئ کام آتی ر ہ ے ے ہے۔ ےی ذریع ی تختیوں اور’’بھوج پتروں‘‘ پ لکھا جاتا تھا جن کو آج بھی میوزیم میںدیکھا جاسکتا تحریرقلم ک ل ان ہپ ہ ے ہے ہ ہ ے ہ

یں وت ۔ممکن اورتصویر بھی قلم بیشک الگ الگ ہ ے ہ  ہےیں جیس قلم اٹھان کی ضرورت قلم برداشت لکھنا قلم ت س محاوراتی الفاظ اورکلمات اں قلم ک ب ہمار ی ے ے ہ ے ہ ے ہ ے ہیں اورپڑھن لکھن ذیبی تاریخ کو بھی جان سکت م قلم کی ت نا اس س ےچالنا قلم توڑدینا یا قلم کی زبان میں ک ے ۔ ہ ے ہ ہ ے ہ

میت کوبھی اورتحریر کی خوبی اورخوبصورتی کا ذکربھی قلم ک رشت س کیا جاتا ہےک معامل میں قلم کی ا ے ہ ے ہ ہ ےیں ت یں خوش قطعی اورخوبصورت تحریر کو ک وت ۔جیس خوش قلم مرصع رقم جس ک معنی ہ ے ہ ہ ے ہ ے ے

ونا۲۵) و الل پڑھنا، قل ۔( قل ہ ہ ہونا دراصل قل wردو ک محاورات میں س قل و الل پڑھا جانا ا ونا‘‘ یا قل ہ’’قل ‘‘قرآن پاک کا لفظ اور’’قل ہے۔ ے ے ہ ہ ہ ہے

ا یں فاتح کی دعائ خیر ذوق ن اپن ایک مصرع میں ک ی اورقل پڑھ جان ک معنی ہے۔پڑھا جانا ہ ہ ے ے ۔ ے ہ ہ ے ے ے ہوا ہ ال سا قیاپیال ت توب کا قwل ہ ے ہ

و الل پڑھنا بھوگ لگنا ی ر گیا آنتوں کا قل ی کا اراد ترک کردیا اب توپینا پالنا م ن توب وئی اور ہےیعنی توب ختم ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ہیں اسی ت یں ان کی آواز کو’ ’قراقر ‘‘ک ہچونک بھوک ک وقت پیٹ میں آنتیں ایک خاص طرح کی حرکت کرتی ے ہ ہ ے ہwس امر کی طرف اشار یں اورا ر ک ی محاور مسلم معاشر س تعلق رکھت ا جاتا ظا وا الل پڑھنا ک ہکو قل ہ ے ے ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہے ہ ہ ہ

یں م ن فارسی وعربی س بھی اپن خاص ماحول ک مطابق محاورات اخذ کئ یں ک ۔کرت ہ ے ے ے ے ے ہ ہ ہ ےرٹوٹ پڑنا۲۶) ونا، ق ر نازل ر کی نظر دیکھنا، ق ر توڑنا، ق ۔( ق ہ ہ ہ ہ ہ

یں مسلمانوں میں لڑکیوں کا بھی ت ر محبت کوک ر ک مقابل میں آتا م ا جاتا اوری لفظ م ر غص� کوک ہق ے ہ ہ ہے ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ہونا اسی لئ جب کوئی غیر معمولی مصیبت آتی تواس ر غضب ناک ر پر رکھا جاتا ق ہےاورلڑکوں کانام م ے ہے ہ ہ ہے ہ

ر ٹوٹ پڑ و یا خدا کا ق ی نازل رال ا جاتا ک تم پر ق یں کوست وقت بھی ک ت ر آسمانی ک ی یا ق ر ال� ے۔کوق ہ ہ یہ ہ ہ ہے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہر| ی یا ق ر ال یں اسی کو ق وت ی نقصان اورتکلیف کا باعث ر آندھی طوفان سیالب زلزل اول برسناسب ہظا یہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ہے ہ

ہے۔آسمانی س تعبیر کیا جاتا ےونا ، قیامت کا منظر ، قیامت کی گھڑی۲۷) ۔( قیامت آنا، قیامت اٹھانا، قیامت توڑنا، قیامت ہ

ا اوری یں قرآن ن اس کو ساعت بھی ک ت ونا ک م جwز جس کو حشربرپا ہقیامت مسلمانوں ک عقائدکا ایک ا ہے ہ ے ہ ے ہ ہ ہے ہ ےیں ا ک ی گھڑی کب آئ گی اس کا علم سوائ خدا ک کسی کون ۔بھی ک ہ ے ے ے ہ ہ ہے ہ

اڑروئی ک وجائ گی پ س س ن رش ت ےقیامت ک تصو�رک ساتھ ایک طرف توی خیال وابست ک قیامت آن پر ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہے ہ ہ ے ےوجائیں گ اسی ک ساتھ مسلمانوں میں ی تصوربھی پایا جاتا ہےگالوں کی طرح اڑجائیں گ زمین آسمان ت وباال ہ ے ے ہ ہہ ے

یں سزا اورجزا وگا ان wس دن تمام انسانوں ک اعمال کا حساب کتاب وگا اورا ہک قیامت کا دن ایک الکھ برس کا ہ ے ۔ ہ ہےدی جائ گی اسی لئ انگریزی میں اس ے یں یعنی یوم الحساب جب کوئی بات کسیDay of judejmentے ت ہک ے ہ

l قیامت وجاتی تواس کو محاوروں میں ڈھال لیا جاتا مثال ہےانسانی گرو طبق قوم یا ملت کی نفسیات میں داخل ہے ہ ہ ہwلٹ پلٹ ربات کو ا ونا ونا اسی طرح قیامت برپا ونا، قیامت گذرنا پریشانیوں میں ب طرح مبتال ہآنا، مصیبت نازل ہ ہ ے ہ

یں ی نظر آت ۔وجانا اس معنی میں قیامت کا تصوراور اس س متعلق دوسری کسی زبان میں کم ہ ے ہ ے ہذیب مار اپن معاشر کی بات اوراس س ت ہفارسی میں ایک دومحاور مل جائیں تودل مل جائیں ی ے ہے ے ے ے ہ ہ ے

ہے۔ومعاشرت ک مزاج کو سمجھن میں مددملتی ے ے

( قید لگانا ،قیدمیںرکھنا، قیدمیں عائد کرنا۲۸)م دوسروں کو کسی بھی وج س اپنا پابند ا اورآج بھی ماری معاشرتی زندگی کا ایک حوال ر ے’’قید‘‘ ہ ہ ہے ہے ہ ہ ہ

یں مثال غالم بنانا، باندی بنانا ، نوکر ک آگ چاکر رکھنا ایک ایک بات س انسان کی ت ےاورمحکوم بناکر رکھنا چا ے ے ہ ے ہوتی صدیوں تک محکوموں ک بار میں جوقاعد قانون بنات ر و بھی اسی کی طرف ر ہامتیاز پسندی ظا ہے ے ہ ے ے ہے ہ ہ

یں ۔اشار کرت ہ ے ہ

Page 175: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

wن س بدسلوکی کرتا ی بات اگرایک ہآدمی مجرموں کو بھی قید میں ڈالتا قید میں رکھتا اورسزا ک طورپر ا ہے ے ے ہے ہےیں یں ر ئیں لیکن و حدیں باقی ن ونی چا وسکتی تواس کی اپنی کچھ اخالقی حدیں ضرور ہحدتک جائز بھی ہ ہ ہ ہ ہے ہ

وگئ ک اس ن قید میں ڈال رکھا قیدی بنارکھا وغیر وغیر ہ۔اوراس طرح ک تصورات عام ہ ہے ہے ے ہ ے ہ ےذیبی رویوں کا بھی پت چلتا اورقاعد قانون کی روش پربھی روشنی پڑتی ہے۔اس س سماج ک تاریخی اورت ہ ہے ہ ہ ے ے

‘‘ ک ’’ ردیف 

۔کاٹ چھانٹ کرناہےکاٹناکم کرنا درست کرنا، تبدیلی کرنا جیس معنی میں آتا لیکن سماجی طورپر ےت وقت تی ی ک آدمی بات ک وم میں خاص طرح کی کتربیوت شامل ر wس ک مف ےا ہ ہ ہ ہ ہ ےےدانست طورپر اپنی طرف س کوئی بات بڑھادی کوئی کم کردی کسی کا رخ بدل ہ

نچ جاتی اس یں پ یں س ک ج میں تبدیلی آن س بھی بات ک ہےدیاخود لب ول ہ ہ ے ہ ے ے ہ ہنی جذباتی ہپس منظر میں اگردیکھا جائ توکاٹ چھانٹ ک عمل میں ذ ے ے

یں وجات ۔اورسماجی روی شامل ہ ے ہ  ہ۔کاٹ کرنا( ۲)

یں جس ک حامی اس ت نی گرو بندی کا شکارر ےم عام طورس گرو بندی یا ذ ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ہwس کی ناروا مخالفت وتا ا یں اورجس س اختالف ہےکی ب جا حمایت کرت ہ ے ہ ے ےیں ک و اس کی بات کی کاٹ کرتا ت یں اسی کوکاٹ کرنا ک ہے)ناجائز( کرت ہ ہ ہ ے ہ ہ ے

م سچائی اوراچھائی پراتنی ذیبی رویوں کا پت چلتا ک مار ت ہاس محاور س ہ ہے ہ ہ ے ہ ے ےتی ی ماری طبیعت اپن اورغریت کی طرف مائل ر یں رکھت جتنی ہنظرن ہے ہ ے ہ ے ہ

ماری گھریلو زندگی اورآئینی معامالت میں اس کو زیاد ی وتا ہسیاست میں تو ہ ہ ہہے۔دخل

۔کاٹ کھانا، کاٹ کھان کودوڑنا( ۳) ےنچان کوبھی یں اوردانتوں س کانٹن یا زخم پ ت ےکاٹ کھانا ڈنک مارن کو بھی ک ہ ے ے ہ ے ہ ےwن تجربوں کی ہےایک طرف بچھو یا سانپ کا کاٹنا دوسری طرف کت کا کاٹنا یا ا ے ہےم کاٹ کھانا wر رد| عمل یا روی کوبھی ہروشنی میں سماجی طورپر دوسروں ک ب ہ ے ےیں یں اورکاٹ کھان کو دوڑتا اس ک جارحان روی کی طرف اشار کرت ت ۔ک ہ ے ہ ہ ہ ے ہے ے ہ ے ہا یں ک وتا ی جس معقول روی ن ت لوگوں کا روی کچھ اسی طرح کا ہسماج میں ب ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ

ر کیا جاتا ہے۔جاسکتا محاور میںاس کی طر ف اشار کرک صورت| حال کو ظا ہ ے ہ ےیں )بدن میں(( ۴) ون یں یا ل ہکاٹو توخون ن ہ ہ

وتا ہےانسان کی صحت وعافیت کا دارومدار جسمانی صحت وتندرستی پر ہہےاورتندرستی لوگوں میں خون ک دوڑن پھرن ک عمل س وابست انسان کبھی ہ ے ے ے ے ے

وتا اوراسی نسبت س کمزوری کا بھی کبھی ےکبھی خون کی کمی کا شکار ہے ہوجاتا اوری وتی ک آدمی کا خwون خشک ہکبھار ایک دم س کوئی بات ایسی ہے ہ ہ ہے ہ ے

ائی غمناک حالت ک باعث اس ک بدن میں شت انت وتا ک ڈرخوف د ےمحسوس ے ہ ہ ہ ہے ہی گویا یں بدن میں و ن یں ک کاٹو تول ت ی موقع پر ی ک ا ایس یں ر ہخون ن ۔ ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہ

ہے۔محاور میں ایک طرح کا شاعران انداز|فکر شامل کرنا ہ ے۔کاٹھ کا الو، کاٹھ کا گھوڑا، کٹھ پتلی( ۵)

ی ک یںنکلتا رات وتا ی عام طورپر دن میں ن ےالو ایک چکوتری کی نسل کاجا نور ہ ہ ہ ہے ہیں کیوں ب وقوف ر آتا منحوس سمجھا جاتا معلوم ن ےوقت اپن آشیان س با ہ ہے ہے ہ ے ہ ے

Page 176: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ندومایتھولوجی میں و لکشمی کی سواری بھی ہےبھی خیال کیا جاتا جبک ہ ہ ہ ہے۔یں ت یں تواس الو ک م بیوقوف سمجھت ہاسی لئ جب کسی کو ے ہ ے ہ ے ہ ’’ ے ےاوراسی س

wلو بھی و جو التا یعنی ا ت بیوقوف سمجھا جاتا و کاٹھ کا’’ الو‘‘ک ہالو‘‘ بنان کا محاور بھی نکال جو آدمی ب ہے ہ ہ ہے ہ ہے ہ ے

ائی گیا گذرا قراردینا و کسی زند ش کو لکڑی یا کاٹھ س نسبت دینا اس انت و تراش گیا ہےلکڑی س گھڑا گیا ہ ے ے ے ہ ہ ہ ہ ے

وتا ائی چwست وچاالک وتا اس ک مقابل میں کل کا گھوڑا انت یں وتا مگردراصل ن ہجیس کاٹھ کا گھوڑا ک بس و ہ ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے

وگا کٹھ پتلی لکڑی کی گڑیا وش مندی اوربیوقوفی ک معامل میں کیا رد| عمل ہ اس معنی میں سماج کا عقل ہ ے ہ ہے

وئ دکھال یا جاتا اسی لئ کٹھ پتلی کا ناچ ےوتی جس تماش ک طورپر طرح طرح س ناچت اورحرکتیں کرت ہے ے ہ ے ے ے ے ہ ے ہ

تا اس کو مذکور محاوروں س سمجھا جاتا یں اورروی ر ت ہے۔بھی ک ے ہ ہے ہ ہ ہ ے ہیںکٹتا۶) ۔( کاٹ ن ہ ے

وتا اس میں جدائی میںگذاری جانیوالی ساعتیں اور گھڑیاں زنجیر ک حلق بن ت کٹھن ہمشکل وقت گذارنا ب ے ہے ہ ہ

یں کٹت ایک گیت یں جو کاٹ ن ۔جات ہے ے ہ ے ہ ےیںکٹت ے دکھ ک دن کاٹ ن ہ ے ے

ا کاٹنا پتھرکاٹنا بھی اور دکھ ک وتی اس میںلکڑیاں کاٹنا بھی لو ےکاٹنا ایک محنت طلب اورتکلیف د صورت ہے ہ ہے ہے ہ ہ

یں جودکھوں ر کرت یں اوراحساس کی اس شدت کو ظا ہدن گذارنا بھی ی محاور اسی کی طرف اشار کرت ے ہ ہ ے ہ ے ہ

ن اورجwدائی ک دن رات گذارن میں آدمی محسوس کرتا ہے۔کوس ے ے ے ہ۔( کاجل کی کوٹھری۷)

wر نتائج کی طرف الن والی ر اچھی اور در حقیقت ب وتا لیکن کچھ باتیں بظا ےکاجل آنکھوں ک لئ وج زینت ے ہ ہے ہ ہ ے ے

یں ممکن آنکھوں میںزیاد کاجل لگان کو یں ان کو محاور ک طورپر کاجل کی کوٹھری س تشبی دیت ےوتی ہ ہے ہ ے ہہ ے ے ے ہ ہ

یں محاوروں میں جو شاعران انداز نظرپایا جاتا اس کی ایک ت ہےبھی مذاق ک طورپرکاجل کی کوٹھری بنادینا ک ہ ہ ے ہ ے

ہے۔مثال ی محاور بھی اورخوبصورت مثال ہے ہ ہو۸) و بھوج- ۔( کاج-

wس ک مقابل میں کمزور چیز اس ک نزدیک قابل| قدر ےمارا معاشر مضبوطی اورپائداری کو پسندکرتا اورا ہ ے ہے ہ ہ

وتی اسی لئ اس ایک ایسی لفظی ترکیب ک طورپر پیش کیا جاتا جس س اس کی یں ےاورالئق|تحسین ن ہے ے ے ے ہ ہ

ی کا جوبھوجوسا و کیا کام د گا اورکس کام آئ گا محاور بھی وک و توخود وتی ر ہکمزوری اورناپائداری ظا ے ے ہ ہے ہ ہ ہ ہ ہ ہ

وا Commentاکثرایک د چھپا مار معاشر کا مشا ہے۔وتا اوراس میں ہ ہ ہ ہ ے ہ ہے ہ۔( کاٹا چھنی۹)

یں جس میں آدمی ایک دوسر پراعتراض اور الزام وارد کرتا ت نی کشمکش کوکاٹا چھنی ک ےآپسی اختالف اورذ ہ ے ہ ہ

وتا گھریلو جھگڑوں میں ی بات اکثردیکھن کوملتی ک خوا مخوا بالضرورت ایک تا ی سماج کا ایک روی ہر ہ ہ ہے ے ہ ہے ہ ہ ہ ہے ہ

لو سامن الیا جاتا جس یں بات اور ب بات اختالف کا کوئی پ wچھال جات یں جمل ا ہےدوسر پرفقر کس جات ے ہ ے ہ ے ے ے ہ ے ے ہ ے

|دھر تا ا یں ر وتا بھی توو سامن ن یںآت بنیادی مسئل اگرکوئی ون میںن ہکی وج س گھریلو جھگڑ بھی ختم ہ ے ہ ہے ہ ہ ے ہ ے ہ ے ے ہ

وتی ون کی بڑی وج ی جھگڑوں ک ختم ن یں اوری تی wدھر کی باتیں دل ودماغ کوگھیر ر ہے۔ا ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ےاں کٹاچھنی محاور بنا کج مار ی یں طنز کرنا اعترا ض کرنا اسی س ندی کا لفظ اوراس ک منعی ہےکٹاکش ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہے ہ

یں جو سماجی زندگی پراثر ماری عام سماجی روش ی بھی اسی سلسل کی باتیں می کٹ حجتی ہبحیسی کج ف ہ ہ ہے ہ ہ

یں وتی ۔انداز ہ ہی ، کارخان پھیالنا، کار�خیر۱۰) ۔( کارخان ال ہ یہ ہ

wس اجاتا آدمی اپن لئ جوکام کرتا اورا اں کارک مار ی یں اورخوشی کی تقریب کوبھی ت ے’’کار‘‘کام کوک ہے ے ے ہے ہ ہ ے ہ ہ ے ہ

یں دستکاری یا صنعت کاری یا پھرساد کاری ک لئ جوکوئی خاص ت wس کاروبارک ےپیش ک طورپر اختیارکرتا ا ے ہ ہ ے ہ ے ہے ے ہ

wس کارخان یں زمین وآسمان اور ان ک درمیان جوکچھ جتنا کچھ ا ت ہمرکز قائم کیا جاتا اس کارخان ک ے ہے ہے ے ہ ے ہ ہ ے ہے

ی ک مقابل میں ایک اورمحاور آتا جس شیطان کی کارگا کی صورت میں پیش کیا جاتا ا جاتا اوران ی ک ہےال ہ ے ہے ہ ہ ے ہ ہے ہ ہ

ےی محاور ممکن انگریزی ک محاور ے ہے ہ (Devils workshop ہ وی بھی ممکن )شیطان کی کارگا ہ کا ترجم ہے ہ ہ ہن توشیطان کی کارگا اس کا یں ک اس کا ذ ت ہےم ک ہ ہ ہ ہ ے ہ وگا Directہ ہانگریزی ترجم His mind is adevils workہ

shopماری زبان دوسری زبانوں س جواستفاد کیا اس میں انگریزی زبان یں ک م انداز کرسکت ہےاس س ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے

Page 177: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ہے۔بھی شامل ن، کاغذکی کشتی، کاغذکی ناؤ،۱۱) ہ( کاغذ، کاغذسیا کرنا، کاغذکاپٹاباز، کاغذی آدمی، کاغذی پیر ہ

۔کاغذلکھ دینا، کاغذتیارکرنا، کاغذکا پیٹ بھرناار آگ بڑھتا اورتحریر کا ن تقدیرس زیاد تحریرک س ذیبی ایجاد انسان کا ذ ماری سب س بڑی ت ہےکاغذ ے ے ہ ے ہ ے ہ ہے ہ ے ہ

ل تحریریں مٹی کی تختیوں اورلکڑی کی پٹیوں مار پاس کاغذاور قلم کاغذکی ایجاد س پ ےسب س بڑا وسیل ہ ے ہے۔ ے ہ ہ ے

ےپرلکھی جاتی تھیں مگرکاغذ کی ایجاد ک بعد صورت حال بدل گئی اوربڑ پیمان پرتحریریں کاغذپرلکھی جان لگیں ہ ے ے

و‘‘ یا رقع ی لکھا جاتا ’’شق وتا و بھی کاغذپر د یا تحریری وعد ون لگ جومعا ہبیاضیں کتابیں اوردفترتیار ہ ہ ہے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ ے ے ہ

یں ت وتی اس کو کاغذلکھ دینا بھی ک ہیا عام خط پتر سب کا تعلق تحریرس قانونی مسئل میں لکھا پڑھی ے ہ ہے ہ ہ ہے ے

یں ت س محاورات موجود اں ب مار ی ۔اوراس س متعلق ہ ے ہ ہ ے ہ ےیں عام تحریریں کاغذکرن کا غذ لکھن الت ی احکامات فرامیم ک ا جاتا بادشا ےعدالتی کاغذات کودستاویزیں ک ے ہ ے ہ ہ ہے ہ

یں ۔اورکاغذ تیارکرن ک انداز میں بھی زیرگفتگو آتی ہ ے ےوتا پھٹ جاتا گل جاتا جل جاتا اس لئ ناپائداری کوبھی کاغذک سلسل میں کئی محاور ےکاغذنرم ونازک ے ے ے ہے ہے ہے ہے ہ

ن‘ تحریراورکاغذکی نسبت س بھی کئی محاور یں جیس کاغذکی ناؤ کاغذجیسی کایا کاغذکا پرز کاغذی پیر ےآت ے ہ ہ ے ہ ے

ا و لکھ کر دیا کاغذکا پیٹ بھرگیا صفح ک یں جیس کاغذکال کرنا کاغذسیا کرنا کاغذکا پیٹ بھرنا ک جوچا ےآت ہ ہ ہ ہ ہ ے ے ہ ے

یں نزکائی‘اورنرمائی وت یں ان میں رنگ وگئ کاغذک پھول بھی خوبصورتی کی طرف اشار کرت ہصفح کال ے ہ ہ ے ے ے ہ ے ہ

ا جاتا اس س معلوم اں تک ک نرم چھلک وال باداموں کوکاغذی بادام ک وتی ی یں وتی مگراپنی خوشبون ےتو ہے ہ ے ے ہ ہ ۔ ہ ہ ہے ہ

مار زمان کا کیا کیا رشت اورکس کس طرح ماری زبان اور ن مار ذ ماری زندگی ہے۔وتا ک کاغذ س ہے ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ہے ہونا، کاال لباس، کاالمن نیل۱۲) ، کاال من اڑ، کاال توا، کاال خون ، کاال من ے( کاال ،کاال آدمی، کاالپ ہ ہ ہ ہ ہ

ہاتھ پاؤں، کالک کاٹیکا لگانا، کاالدھن ، کالی کوٹھری ،کاال سانپ ، کاال سمندر، کالی بال، کالی

۔بھینس، کالی زبان، کالی رات کرنایں اورایشائی عورتوں ک بال وتی وتا حیثیتوں کا رنگ بھی آنکھوں کی پتلیاں کالی ے’’کاال‘‘ رات کا رنگ بھی ہ ہ ہے ہ

ونا کال خون ک مقابل میں ایک الگ وجاتا خون سفید یں بڑھاپ میں البت کال بالوں کا رنگ سفید وت ہکال ے ے ہ ہے ہ ے ہ ے ہ ے ہ ے

وتی ا جاتا تواس س مراد بری باتیں ہمحاور اورکاال خون بیجار اور بر خون کی عالمت کال بول جب ک ے ہے ہ ے ہے ے ہے ہ

یں جیس کال بھینس کی قربانی یا بھینٹ پیش کی جاتی ت ہے۔یں کالی مالی، موت کی دیوی کوک ے ے ے ۔ ہ ے ہ ہک و کال آدمی ون لگا یں اسی لئ ی محاور استعمال الت ندوستانی کال آدمی ک ےانگریزوں ک مقابل میں ہ ہ ہے۔ ے ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہ ے

ت تھ ان جزیروں میں بھیجن یں کرت کاال پانی انگریزوں ک زمان میں انڈمان نکوبار ک جزیروں کوک ےس بات ن ے ے ہ ے ہ ے ے ہ ے

اں بھیج دیا جاتا تھا مجرموں کو تنگ کوٹھریوں میں ۔کی جس کو سزا دی جاتی تھی اس کاال پانی دیا جاتا تھا اورو ہ ے

ت تھ ’’ کاال لباس‘‘ غم کا wس کال کوٹھری ک وتا تھا ا وا کابھی کوئی انتظام ن ے۔رکھا جاتا تھا جن میں روشنی و ے ہ ے ہ ہ ہ

ا ی بدنامی کوک یں روسیا نت اں غم| حسین منان کی غرض س محرم میں شیع کاال لباس پ ہلباس شیعوں ک ہ ہ ے ہ ہ ے ے ہ ے ہے

ئ اتھ پاؤں نیل کرد و ک آدمی ک اتھ پیر ممکن ی کسی زمان میں سزا ک طورپر کیاجاتا ےجاتا کاال من نیل ے ے ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ہے ہ ے ہ ہے

ون کی عالمت بھی اسی لئ شیوجی کونیل کنٹھ ےجائیں اور اس بستی س نکال دیا جائ ویس نیال رنگ امر ہے۔ ے ہ ے ے ے ے

یں و بھی یں بعض میل ٹھیلوںک موقع پر یا پھرعرس کی تقریب ک سلسل میں جو چھڑیاں گاڑی جاتی ت ہک ہ ہ ے ے ے ۔ ہ ے ہ

ندوؤںمیں دیوتاؤں کا رنگ روپ نیال رکھا ر نیل رنگ کا اسی لئ یں مدراس ک قریب سمندر گ وتی ہنیلی ے ہے ے ے ہ ے ۔ ہ ہ

ہے۔جاتا نیال گنڈا بیماریوں اوربری نظرک اثرات س محفوظ رکھن ک لئ بطور تعویزگل میںباندھا جاتا ے ے ے ے ے ے ہےوتا تواس ت کاال یں اوراگراس کا رنگ ب ت wس کالی بھینس ک وتا ا ر کرنا مقصود ہےجس کو بدصورت عورت ظا ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہ

وتا ی کردار داستانوں میں پیش کیا ئت بھی ون ک عالو بد ہکوکالی بلی ک کریادکیا جاتا کاال دیوبدصورت ہے ہ ہے ہ ے ے ہ ہے ہہ

ا یا وتا اس کل مو یں جیس منحوس قرادینا ت و کلچڑی ک ا کسی کالی پیلی گئی گزری لڑکی کی ہجاتا ر ے ہے ہ ے ہ ے ہ ہ ہے ہ

ی ک کر یا دکیا جاتا ہے۔کل مو ہہ ہت کال رنگ کو بھور ک یں ب ت ےجورات ب چینی تکلیف اورانتظار میں گذاری جاتی اس رات کا لی کرنا ک ے ے ہ ہ ے ہ ے ہے ے

ور التا و بھی مش ت کال رنگ واال آدمی کاال بھجنگ ک یں ب ت ہےرنگ س تشبی دی جاتی تواس کاال بھونگ ک ہ ہ ہے ہ ے ہ ہ ے ہ ے ہے ہ ے

م اپنی زندگی میں کال رنگ س کیا نی طورپر یں ک ذ م انداز کرسکت ےک کال سانپ پربجلی گرتی اس س ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہے ے ہ

یں اس میں آتا یں بچ ایک گیت گات ہے۔کیا باتیں منسوب کی ہ ے ے ۔ ہ کاال کاال گ|ر گیا

Page 178: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اماں ماریں گی

یں ک مفت میں ت انڈی سرپررکھن ک محاور کوبھی شامل کیجئ ک و بدنامی مول لین کو ک ہاسی میں کالی ہ ے ہ ے ہ ہ ے ے ے ے ہ

ی وتا اورکوئی حرف پڑھ ل انڈی کون اپن سرپر رکھ کاال اکھشربھینس برابر ایسا آدمی جوبالکل جا ہی کالی ہے ہ ہ ے ے ہ ہ

ی ک ا جاتا ک کاال اکھشر بھینس برابر کاال کلوٹا بھی کا ل ا جاتا اس ک واسط ک یں سکتااس ک لئ ک ےن ہ ے ہے ہ ہے ہ ے ے ہے ہ ے ے ہ

ہے۔سلسل میں ایک محاوراتی کلم ہ ےونا، کام پ لگانا، کام چالنا، کام تمام کرنا، کام چڑھانا یا۱۳) ے( کام بگڑنا، کام آنا، کام پڑنا، کام کا ہ

نا، کام میں کام نا، کام س کام ، اپن کام س کام ر ہلگانا، کام چمکنا، کام دینا، کام س جات ر ے ے ے ہ ے ے

وجانا ۔نکالنا، کام میں النا، کام ہیں لیکن اردو میں صبح س شام یں فارسی میں غرض ک ندی زبان میں جذب انبساط ک بھی ے’’کام‘‘ ک معنی ہ ے ہ ے ہ ہ ے

ی س محاور بھی نکل یں ان وت یں اورو طرح طرح ک ت یں ان کوکام ک تی ےتک آدمی کی جومشغولیات ر ے ے ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ہ

ونا بھی ہے۔یں جیس کام بنانا، یا کام بننا، کام پڑنا وغیر اسی میں کام نکالنا بھی کامی آدمی ہ ہے ہ ے ہے( کان ا-ڑ جانا، پھٹ جانا، کان کھول کرسننا، کان بند کرنا، کان ایٹھنا، اکھاڑنا، کان پھوڑنا،۱۴) ے

ونا، کان پڑی آواز سنائی ن دینا، کان پکڑک ا-ٹھادینا، ےکان بھرنا، کان پرجوں ریگنا، کان کا کچا ہ ہ

۔کان پھوٹ جانایں ک ت وتا توی ک ت شور یں جب ب ہاگردیکھا جائ توی سب محاور سنن توج دین اورتوج ن دین س متعلق ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے ے ہ ہ ے ہ ے ے ہ ے

یں ت تا توی ک یں جب کوئی دوسروں کی راز کی باتیں سننا چا یں دیتی کان پھٹ جات ہکان پڑی آواز سنائی ن ے ہ ہ ہے ہ ہ ے ے ہ

یںرینگتی wس ک کان پر جوں ن یں ا ت یں لیتا توک تا اورکوئی اثر سنن کا ن یں چا ا اگرسننا ن ہک کن سنیاں ل ر ے ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ہے۔ ہ ے ہ

wری wڑدیتا جب کوئی کسی ک خالف اچھی ب ا جاتا ک و ایک کان سنتا دوسر کان ا یں چلتی ی بھی ک ےیا جوں ن ہے ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ

نن ک لئ کان کی پاپڑی )بنا گوشت( یں زیور پ ت وتا توایس کان بھرنا ک تا اورمطلب ورغالنا ےباتیں ک ے ے ہ ہ ے ہ ے ہے ہ ہے ہ

اجاتا wن کوکان بندھنا اوری پیش کرنیوال کو کندھاک یں ا ہےاوردوسر بیرونی حص میں جوشگاف پیدا کئ جات ہ ے ہ ہ ہ ے ے ہ ے

یں ت یں لیتا اس کان کا کچا ک ہجوآدمی دوسروں کی باتوں پرجلدی س یقین کرلیتا اورسوجھ بوجھ س کام ن ے ہ ے ہ ے ہے ے

یں ک سنت سنت کان پک گئ کان کی بیماری کا ت ےاورجب کوئی بات سنت سنت طبیعت اوب جاتی تب ی ک ے ے ہ ہ ے ہ ہ ہے ے ے

یں اورمحاور ک طورپر بوال جاتا ک و ت لی میں گڈی یاپتنگ کوک یں کنکوا د ت ہنام کھیڑ کنپھیڑنکلنا ک ہ ہے ے ے ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہے

ہے۔توکنکو اڑاتا یعنی ادھر ادھر کی باتیں کرتا ہے ے۔( کانٹانکالنا، کانٹا چبھنا ، کانٹوں پرلوٹنا، کانٹوں کا بچھونا، کانٹوںکی بیل، کانٹ بچھانا۱۵) ے

ت ماری زبان اور زندگی میں ب بھتا و wیں اسی س کانٹ کی قول بنا لیکن جوکانٹا چ ت ہکانٹاترازو کو بھی ک ہ ہ ہے ہے ے ے ہ ے ہ

نچنا کاٹا لگنا کوئی ایسی تکلیف جو مسلسل چwبھن ی ک جنم داتا مثال کانٹا چھبنا تکلیف پ ہس محاورات کا ی ک ۔ ہے ہ ے ہ ہ ے

ے۔کا احساس پیدا کرت ب آرامی اوربیچینی س رات یا وقت گذارنا کانٹ بچھانا کسی ک لئ عملی دشواریاں پیدا ےکانٹوں پر لوٹنا ب ے ے ہے ے ے ہ

التا ک میش میری را میں کانٹ بچھائ یا پھرمشکالت س بھری زندگی کو کانٹوں کا بچھونا ک ہکرنا اس ن تو ہے ہ ے ے ے ہ ہ ہ ے ہے۔

وتی بیل خوبصورت چیز لیکن اگرخوبصورتی ک ساتھ اس میں ےاس طرح کی مالزمت توکانٹوں کا بچھونا ہے ہے۔ ہ

یں دوسروں ک راست س مشکالت دورکرن کو کانٹ ت وں تواس کانٹوں کی بیل ک لو موجود ےتکلیفوں ک پ ے ے ہ ے ۔ ہ ے ہ ے ہ ہ ے

یں ی مراد لیت یں اورکانٹ چبھن س بھی ی ت ۔ٹانا ک ہ ے ہ ے ے ے ہ ے ہ ہیں ی سماج کی طرف ت وں تواس کانٹوں کا تاج ک وئی و تکلیفیں جڑی ر عزت کی ہکانٹوں کا تاج جوچیز بظا ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہ

وگئ ونا ی سنکرتواس ک کان کھڑ ونا کسی بات یا خطر کا احساس را طنز کان کھڑ ےس گویا ایک گ ہ ے ے ہ ہے ہ ہ ہ ے ہے ہ ے

ی کسی موقع یا واقع کی طرف یں ممکن ک ی محاور ایس ہبعض جانور خطر ک موقع پر کان کھڑ کرلیت ہ ے ہ ہ ہ ہے ہ ے ے ے ے

ا ہے۔اشار کرر ہ ہ۔( کت کی موت مرنا۱۶) ے

و ا ور و بدرو ت خراب یں جوب ت � کا کفن اس کپڑ کو ک ت بری حالت میں جان دینا اوراسی نسبت س کت ہب ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ے ے ہ

مار سماج میں روایتی طورپر کت کو کتنا برا سمجھا جاتا ک اس س وابستگی کو وتا ک ےاس س انداز ہ ہے ے ے ہ ہ ہے ہ ہ ے

یں کت کی ت ونا بری زندگی کوک یں بلی کی زندگی ت ت ب عزتی کی نظر س دیکھتا اسی لئ ک ےسماج ب ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ے ہے ے ے ہ

ا جاتا دھوبی ک کت ک ساتھ ایک اورمحاور ون اوربک بک کرن ک لئ ک ہطرح بھونکنا بھی بری طرح ناراض ے ے ے ہے ہ ے ے ے ے ہ

ر کرتا ا نکم پن کو ظا ہے۔وابست اور ب انت ہ ے ہ ے ہے  ہ

Page 179: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

وتا کت یں وتا مگراس کی وفاداری کا ذکربھی اچھ الفاظ میں ن ت وفادار ےدھوبی کا کتا گھرکا ناگھاٹ کا کتا ب ہ ہ ے ہے ہ ہ

یں سمجھی جاتی ونا اچھی بات ن ۔کی طرح وفاداری کا پٹا گل میں ہ ہ ےونا۱۷) ونا یا کچا کنب ۔( کچا ساتھ ہ ہ ہ

wس کا کچا ساتھ یعنی اس ک بچ اس الئق وتا ک ا ےجب کسی آدمی کا اپنا کنب چھوٹ چھوٹ بچوں پر مشتمل ے ہے ہ ہے ہ ے ے ہ

وجائ یا مرجائ اوراس وجائیں ی ایس موقع پر بوال جاتا جب کوئی آدمی شدید بیمار یںک اپن پیروں پر کھڑ ےن ے ہ ہے ے ہ ہ ے ے ہ ہ

یں ک اس کاتوکچا ساتھ ت وں توخاص طور پرک ۔ک بچ چھوٹ ہے ہ ہ ے ہ ہ ے ے ےیں توڑک ت م جب چا ا جاتا جس مار سماج میں اکثر اس تعلق ک لئ ک ے’’کچادھاگا ‘‘یعنی کمزوررشت ہ ے ہ ہ ے ہے ہ ے ے ے ہ ہ

ا یں ک جب چا وئ سنا جاتا ک ی رشت کوئی کچا دھا گا ن ت یں اسی نئ ی بھی لوگوں کوک ہپھینک دیت ہ ہے ہ ہ ہ ہ ہے ے ہ ے ہ ہ ے ۔ ہ ے

یں ن اور زندگی س ان ک تعلق کا احساس کرسکت م اپن سماجی رشتوں کا ذ ۔توڑک پھینک دیا اس س ہ ے ے ے ہ ے ہ ے ےونا، کچیا جانا۱۸) ۔(کچاکرنا، کچا ہ

وا اور ت کچا یں ک میں اس ک سامن ب ت وجان کوک ونا شرمند ا جاتا اورکچا ہکچا کرنا شرمند کرن کوک ہ ے ے ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہے ہ ے ہ

میت پر روشنی ڈالتا اورزبان میں موقع ن کا رشت محاور کی لسانی اورمعاشرتی ا ماری زندگی اورذ ہےاس س ہ ہ ہ ہ ہ ے

یں اس پر محاورات کا استعمال اورلفظ ومعنی کا چناؤ ہومحل ک لحاظ س لفظ کس طرح اپن معنی بدلت ے ے ے ے

وجاتا م ہے۔غیرمعمولی طورپر ا ہ ہری ک کت۱۹) ری لگانا، کچ ے( کچ ے ہ ہ

ری میں و لوگ م کودیا کچ وںن ری کا تصوران یں اس لئ ک کچ وئ ہی محاور انگریزوں ک آن ک بعد رائج ہ ہے ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ے ے ے ہ ہ

یں الت ری ک کت ک ی کچ یں ی یں اوررشوتیں ل ل کر اپنا کا م چالت وت یں جو کم درج ک وت ہبھی ے ہ ے ے ہ ہ ہ ے ے ے ہ ے ہ ے ہ ہ ے ہ

یں ت ری میں آت جات ر وتا جوروز کسی ن کسی سلسل س کچ ری ک چکر لگانا ان لوگوں کا کام ہکچ ے ہ ے ے ہ ے ہ ہ ہے۔ ہ ے ہ

یں مقدم باز بھی اورگئ گذر وکیل بھی وت ۔اوران میں جھوٹ گوا بھی ے ے ہ ہ ے ہ ہ ےری لگانا وں اوروکیلوں کوادھر ادھر منع کرنا ’’کچ ری کا ساماحوال پیدا کرنا اوراپن گوا ری لگانا گویا کچ ہکچ ہ ے ہے ہ ہ

وسکتا ہے۔وا‘‘ ویس ی بندرکی حکایت س ماخوذ محاور بھی ہ ہ ے ہ ے ۔  ہ

۔( کرکری کرنا ، کرکرادینا۲۰)یں کوئی چیز اگر ریت یا ن ک ونا اس ک معنی عزت میں کمی آن اور وقار باقی ن ر ہب عزتی کرنا یا ب عزتی ے ے ہ ہ ے ے ہ ے ے

وسکتی یں کھان پین کی کوئی بھی ش ت ونا ک وجاتی تواس کرکرا ہے۔مٹی کی وج س کچھ خراب ہ ے ے ے ۔ ہ ے ہ ہ ے ہے ہ ے ہ۔( کروٹ بدلنا۲۱)

یں اوراس میں وجات نچ کر اس ک معنی دوسر wدھر کروٹ لینا ایک عام حرکت لیکن محاور میں پ |دھر س ا ہا ے ہ ے ے ہ ہ ہے ے

یں ت ون کا تصور آجاتا اسی لئ انقالب| زمان کو بھی کروٹ بدلنا ک ۔انقالب رونما ہ ے ہ ہ ے ہے ے ہونا، کشید کاڑھنا۲۲) نا یا ۔( کشید خاطرر ہ ہ ہ ہ

وجائ تواس کو کشید یں اوراگراس میں ایک طرح کا تناؤ یا کھچاؤ پیدا ت ہایک گون ناراضگی کوبشکررنجی ک ے ہ ہ ے ہ ہ

وتا اں اس س مر اد لمبا قد یں قدک ساتھ بھی کشید آتا و یں یاپھرکشیدگی س تعبیر کرت ت ہے۔خاطرک ہ ے ہ ہے ہ ے ہ ے ے ہ ے ہ

ا ت رواج ر لی میں اس کا ب یں اوریعنی پھول پتی کاڑھنا د ت ہے۔اس کو کشید کاری بھی ک ہ ہ ہ ہ ے ہ ہونا، )چٹیل میدان(۲۳) ۔( کف� دست میدان ہ

یں ی ایک طرح کا شاعران ت ونا ک wس کف| دست دیدان وں توا ریالی یا درخت بالکل ن ہجس میں جھاڑیاں ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ہ

وتی بس دورتک یں ی اس زمین ک ٹکڑ میں کوئی چیز ن وتا ایسا یں تھیلی میں کچھ ن ہانداز|بیان ک جس ہ ے ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ہے

وتا ی میدا ن ہے۔میدان ہ ہ۔( کفران� نعمت، کفرتوڑنا، کفربکنا، کفرکاکلم بولنا۲۴) ہ

ی خیال کیا جاتا اسی لئ مسلمانوں ک عام طبق میں کفر کا ہ’’کفر ‘‘اسالم ک مقابل میں ب دینی اورگمرا ے ے ہے ہ ے ہ ے

یں کفر ب ک خالف سمجھت یں مذ بی ک معنی میں آتا اورو ایس کلمات کو جن ہاستعمال ب دینی اورالمذ ے ے ہ ہ ے ہ ہے ے ہ ے

یں اگرآدمی خدا کی نعمت کا اچھ عمل کا اچھ خیاالت ت وجانا ک ےکی باتیں کافران خیاالت’’ کفربکنا‘‘ اورکافر ے ہ ے ہ ہ ہ

یں و کفر کو اں کفر ک معنی دوسر ک ا جاتا صوفیوں ک وتا تواس کوکفران| نعمت ک یں ہکا قدردان ن ۔ ہ ے ے ے ہ ے ہے۔ ہ ہ ہ

وم میں آتا یعنی کافروں جیسی باتیں کرنا یں کفر ک کلمات بولنا عام مف ۔عین ایمان تصورکرت ہے ہ ے ہ ے۔( کالم الل اٹھانا۲۵) ہ

ارکرنا قرآن اٹھانا یں اورقرآن کودرمیان میں رکھ کر قسم کھانا گویا اپنی سچائی ونیکی کا اظ ت ہےقرآن| پاک کوک ہ ہ ے ہ

Page 180: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

رکرتا ک و قرآن کو سب س زیاد احترام کی ہبھی اسی معنی میں آتا اورمسلمان کلچرک اس روی کو ظا ے ہ ہ ہے ہ ہ ے ہے

یں حلف اٹھانا بھی قرآن کو درمیان میں رکھ کر یں اورالل ک ساتھ کالم الل کی قسم کھات ہنظر س دیکھت ے ہ ے ہ ہ ے ے

ی ک معنی میں آتا ہے۔قسم کھان ے ہ ےادت(۲۶) ۔( کلم ، کلم کا شریک، کلم گو،کلم کی انگلی، )انگشت� ش ہ ے ہ ہ ہ

یں ک اس ن وجان ک بھی ےکلم بھی مسلم کلچر کی خاص عالمتوں میں س کلم پڑھن ک معنی مسلمان ہ ہ ے ے ہ ے ے ہ ہے ے ہ

wس ک سچ رسول کی اں کلم س مراد کلم توحید یعنی خدا کی وحدانیت کا اقرار کرنا اورا ےکلم پڑھ لیا ی ے ہے ۂ ے ہ ہ ہ

نچایا جاتا ی wس کا ثواب مرن وال کی روح کو پ نچایا جاتا اور ا ی دینا کلم پڑھ کر ثواب بھی پ ہصداقت پر گوا ہے ہ ے ے ہے ہ ہ ہ

ذیبی نفسیات میں داخل بی اورت ہے۔باتیںمسلمانوں ک کلچراور ان کی مذ ہ ہ ےی جیس کسی کو دwودھ یں ی ایسا م کلم ک شریک بھائی یں ک ت ےکلم کا شریک مسلمان آپس میں ک ہے ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ

ونا کلم یں رکھتی کلم گو ن قراردیا جاتا اورچیزوں کی شرکت کلچر ک اعتبار س بڑ معنی ن ہشریک بھائی یا ب ہ ہ ہ ے ے ے ہے ہ

یں ک و مسلمان اورکلم پریقین رکھتا ت تعریف کرتا اوردوسر ی یں ک و ب ہپڑھنا جس ک ایک معنی توی ہے ہ ہ ہ ہ ے ہے ہ ہ ہ ہ ہ ے ہے

۔ ہےا یں اوراس کا ترجم کلم کی انگلی بھی ک ت ادت ک لی انگلی کو انگشت ش اتھ کی پ ن ہےکلم کی انگلی دا ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ

وتا ک نماز میں کلم کو یں ایسا بھی ادت کی انگلی اٹھات ہمسلمان نماز پڑھت وقت جب حضو کانام آتا توش ہ ہے ہ ہ ے ہ ہے در ے

وں ک ی دیتا یں اورمیں گوا وں ک الل ک سوا کوئی مالک ومختار ن ادت دیتا ا جاتا ک میں ش رایا جاتا اورک ہد ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہے ہ

ی کا نشان ادت کی انگلی اوپر اٹھائی جاتی جواس گوا یں ی اس وقت ش wس ک رسو ہمحمد الل ک بند اورا ہے ہ ہ ہ دل ے ے ے ہ

ی کلم کی انگلی بھی ہے۔بن جاتی ی ہ ہ ہے۔۔( کلنک لگنا ، کلنگ کاٹیکا لگانا۲۷)

ار لگادینا سوائی کا اشت wر پرلگانا بدنامی اورر یںنشان ’’کاال نشان ‘‘چ یں کاال اورانک ک معنی اں کل ک معنی ہےی ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ہ

یں ی مار محاوروں میں جوسماجی روی اور رسمیں موجود ر ہکلنک کا ٹیکا لگانا یا لگنا بھی اسی معنی میں آتا ہ ہ ے ہے۔ہ

وتا لومود ی کی طرف اشار کرتا دل میں ب عزتی آبروئی یارسوائی کاکوئی پ ہے۔کلنک کا ٹیکا ان ہ ہ ہے ے ۔ ہے ہ ہ۔( ک-لھیا میں گڑپھوڑنا۲۸)

تھیلی مار سماج کی شاعری جومحاور میں کسی ن کسی صورت میں سامن آتی جیس ہاصل میں ے ہے ے ہ ے ہے ے ہ

وتی اسی طرح ’’کلیا میں گڑپھوڑنا‘‘ بھی کوئی ایسی بات کرنا یا اس کی ہےپرسرسوںجمانا، ناممکن سی بات ہ

ہے۔طرف اشار ہہ( کلیج ا-چھلنا، کلیج بڑھ جانا، کلیج پھٹنا، کلیج ٹوٹنا، کلیج تھام کریا مسوس کرر جانا، کلیج۲۹) ہ ہ ہ ہ ہ ہ

وجانا، کلیج میں رکھنا، ونا، کلیج دھڑکنا، کلیج دھک س ونا، کلیج جالنا، کلیج چھلنی ہٹھنڈا ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ

ہ۔کلیج پھوٹنا وغیر ہیں جس انگریزی میں ت ماری عام زبان میں ’’جگر‘‘کوک ےکلیج ہ ے ہ ہ ی خونLeverہ م عضو ک ی ایت ا ا جاتا ی ن ہک ہ ہے ہ ہ ہ ہے ہ

ت س محاورات وجاتی اب ی عجیب بات ک پیٹ ک بار میں ب ون س صحت تبا ےبناتا اوراسی ک خراب ہ ے ے ہ ہے ہ ہے ہ ہ ے ے ہ ے ہے

ےیں اسی طرح کلیج ک بار میں بھی جس ک ساتھ دل کو بھی شامل کرلیا جاتا اورطرح طرح س کلیج ک ہ ے ہے ے ہے ے ے ہ ہ

ا جاتا مت وحوصل ک لئ ک ونا یں کلیج وم معنی تسلیاں اوردعائیں وابست کی جاتی ہےساتھ نئ مف ہ ے ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہکلیج ےیں ک کلیج پکڑکرر گیا تی وتا اورعورتیں عام طورپر ک ہپکڑکرر جانا کسی بری خبرسانح اور حادث کا رد|عمل ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ

ا جاتا کلیج اتھ میں لینا تسلی وتشفی کرنا عمل ک لئ ک ہیعنی ایسی حالت میں صبر کرنا مشکل کلیج ہے ہ ے ے ہ ہ ہے

وتی کلیج بھوننا دل جالن یں اس میں غم زد آدمی کی اپنی کوشش بھی شامل ی ےتھامن ک معنی بھی ی ہ ہے ہ ہ ہ ہ ے ے

یں ک اس ن میرا کلیج بھون کر رکھ دیا ت ۔کوک ہ ے ہ ہ ے ہنوں بھتیجوں ، بھانجیوں اوراپنی بچیوں کوبھی یںویس عورتیں اپن س کم عمر ب ت ہکلیج کی بوٹی اپنی اوالد کوک ے ے ے ہ ے ہ ہ

و کلیج مسوس کر ر جانا ار ار کرنا جس کا دwکھ ناقابل| اظ ت دکھ بھری حالت کا اظ یں کلیج من کو آنا ب تی ہک ہ ۔ ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ ہ ہ

وتا اورغم زدگی اورتکلیف د حالت میں یں ی دل ک ساتھ بھی استعمال ت ی دل میں پیچ وتاب کھان کوک ہدل ہے ہ ے ہ ہ ے ہ ے ہ

اری ونا جیس الل پاک تم ونا کسی کی طرف اطمینان اورتسلی وم میں شامل کلیج ٹھنڈا ہصبر کرنا اس ک مف ہ ے ہ ہ ہ ہے ہ ے

ی ون اوراطمینان میسر آن ارا کلیج ٹھندارکھ کلیج میں ٹھنڈک پڑنا کبھی سکون ہآس اوالد کی طرف س تم ے ے ہ ہ ے ہ ہ ے

تی یں جس میں آدمی کی ایرشا)مرضی( شامل ر ت ون ک لئ ک ا جاتا یا آرزو پوری ۔ک لئ ک ہے ہ ہ ے ہ ے ے ے ہ ہے ہ ے ےوتا کلیج دھک س ر جانا کوئی ون ک معنی کلیج میں زخم پڑجانا اورن خوشی کا حدس بڑھنا ہکلیج چھلنی ے ہ ہے ہ ے ہ ہ ے ے ہ ہ

Page 181: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

و ک ی بات سنکر تومیرا کلیج دھک س ر گیا کلیج کابلیوں ائی حیرانی اورتکلیف کا سبب ہایسی خبرسننا جوانت ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ

ونا wچھلنا‘‘ خوف وخطر کا شدید احساس ۔’’ا ہ ہوگیا کلیج کی وم میں آتا ک دل ٹکڑ ٹکڑ ونا بھی اسی مف وتا کلیج ٹکڑ ٹکڑ اں کلیج س مراد دل ہی ۔ ہ ے ے ہ ہے ہ ہ ے ے ہ ہے ہ ے ہ ہ

یں کلیج کی بوٹیا ںصدق ک طورپر چیل کوں کو کھالنا ب رحمی کا سلوک ت ون کوک ونا باعث| راحت ےٹھنڈک ے ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہ

مار ا جس کاعکس ت کم درج بلک ذلیل سطح کا سلوک کرنا رومیوں میں ی رواج ر ےکرنا سخت سزادینا اورب ہ ہے ہ ہ ہ ہ ہ

ہے۔اس محاور میں آیا ےیںتوپت چلتا مار پیش نظر ر وم اورمعنی ک اعتبار س لواپن مف م اس پرغورکریں اورمحاور ک مختلف پ ہاگر ہ ے ہ ے ے ہ ے ہ ے ے ہ

مار مار محاور میں ذیب اورتاریخ س کیا تعلق اورکس طرح ماری ت ے ک محاور کا زبان ک رشت س ہ ے ے ہ ہے ے ہ ہ ے ہ ے ے ہ ہے

یں وت وئ محسوس نی رشت اورجذباتی تعلقات ابھرت ۔فکری روی ذ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہونا کلیج پرگھونسا مارنا کلیج پرسانپ ہاسی ضمن میں ان محاوروں کو بھی شامل کیا جاسکتا کلیج کی پھانس ہ ہ ہ ہے

اتھ دھرک دیکھنا کلیج س دwھواں اٹھنا وغیر وغیر ہ۔لوٹنا کلیج پر ہ ے ے ے ہ ے۔( کمرباندھنا ، کمرپکڑک ا-ٹھنا، کمرٹوٹنا، کمرتوڑنا، کمرسیدھی کرنا، کمرکا ڈھیال۳۰) ے

۔کمرکامضبوط، کمرکھولنا وغیر ہی سیدھا کھڑا ار پر ہکمرانسان ک بدن کی بناوٹ اورکساوٹ میں ایک خاص کردار ادا کرتی انسان کمرک س ے ہ ے ہے ے

ونا بدن کی خوبصورتی اورموزونیت ونا بھی اس کی کمرپربھی منحصر کمر کا پتال ہوسکتا اس کا کشید قامت ہے ہ ہ ہے ہ

تی کمرس متعلق محاور wٹھا یا جائ یا سرپر کمر اس میں شامل ر وتا و چا کمرپر ا ےمیں اضاف کا باعث ے ہے ہ ے ہے ہ ہے ہ ہ

یں کمرکسنا کمرباندھنا ذیبی روش معاشرتی تقاضوں اورآپسی رویوں پرروشنی ڈالت ماری ت یںاوری ت wردومیں ب ہا ے ہ ہ ہ ہ ہ

کمرکا ڈھیال و ون ک معنی میں آتا کمرسیدھی کرنا تھوڑا سا آرام کرنا جس س راحت کا احساس پیدا ۔تیار ہ ے ہے ہے ے ے ہ

یں آسکتا وگی توکام کرن میں بھی باقاعدگی اورپھرتیال پن ن ہجسمانی کمزوری اس لئ ک کمراگرڈھیلی ے ہ ہ ے

م ایسا کریں گ کمر ٹوٹنا اس ک مقابل میں ہکمرمضبوط کرنا اس ک خالف ایک عمل یعنی پکاراراد کرنا ک ے ے ہ ہ ہ ہے ے

وجانا کمرتوڑنا دوسر کومایوس کردینا اس ک سلسل س ونا اوراحساس| محرومی کا شکار ےبالکل مایوس ے ے ے ہے ہ ہ

یں جیس کمرکھولنا جب آدمی ےکچھ اورمحاور ہ ہے کو ختم کردیتا اورایک ریٹائرڈ آدمی جیسی زندگیactive lifeے

یں ت wس کمرکھولنا ک ۔گذارتا توا ہ ے ہ ے ہے۔( کنار کرنا، کنار کشی کرنا۳۱) ہ ہ

ت یںک بی بی کنار کرو یعنی تعلق کم کرو کبھی لوگ ک تی نظر آتی ر کرنا اکثرعورتیں ی ک ونا ب تعلقی ظا ےالگ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ

wس ن کنار کشی اختیار کرلی ی سماجی روی اوراس معنی میں ک دوری یا علیحدگی اختیار ہیں ک اسی وج س ا ہے ہ ہ ہ ے ے ہ ہ ہ

یں عورتیں کنار کرنا اوری معاشرتی انداز| نظر ت ہکرو مرد عام طورس کنار کشی ک ہ ہ ے ہ ہ م ے ایت ا ہکو پیش کرنیواال ن ہ

ون ک معنی سمندر کی طرح ونا محاور بنا ب کنار م کنار یں اوراسی س ت ےمحاور کنار بغل کوبھی ک ے ہ ہ ے ہے ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ہے ہ

ورمصرع و اقبا کا مش ی ن یں جس کا کوئی کنار وئ wدھر تک پھیل |دھر س ا یں جوا ہے۔وت ہ ہ زل ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ے ہ ے ہ|نار کر |نار کریا مجھ ب ک م ک ے یامجھ ے ہ ےوجانا۳۲) ۔( کنار کنار چلنا، کنار لگانا، کنار لگنا، کنار ہ ے ے ے ے ے

یں ملتا ریگستانوں صحراؤں ہاکثرراست دریاؤں ک ساتھ ط کیاجاتا تھا اس لئ ک جنگل زیاد تھ ان میں راست ن ہ ے ہ ہ ے ے ے ہ

یں تھیں بیٹائیں تھیں اسی لئ دریاک کنار ل ن وتی سڑکیں پ ےاوردشت وکو میں بھی راست کی تالش ممکن ے ے ہ ے ہ ہے ہ ہ ہ

|س دورزندگی کی طرف اشار کرتا جب انسان دریاؤں ک ساتھ ساتھ وتا تھا ی گویا ا ےکنار راست ط کرنا آسان ہے ہ ہ ہ ے ہ ے

یں وئی تھی جوپانی ک دیوتا یں حضرت خضر س مالقات ۔چلتا تھا اورو ہ ے ہ ے ہےکنار لگنا اچھ معنی میں بھی آتا یعنی ناؤ اپنا سفر ط کرک کنار آلگی اورسفر ختم کرن کی وج س اس ے ہ ے ے ے ے ہے ے ے

یں ک و توکنار لگ گئ کنار لگانا ختم کرن کو بھی ت ےزندگی ختم کرن س بھی تعبیر کیا جاتا اسی لئ ک ے ے ے ہ ہ ہ ے ہ ے ہے ے ے

وجانا کنار کا وجانا الگ یں اوری ایک س زیاد معنی میں آتا ک ایک ایک کرک سب سار لگ گئ کنار ت ےک ہ ہ ے ے ے ے ہ ہے ہ ے ہ ہ ے ہ

وا درخت یں کنار پر کھڑا یں ک اب عمر کا کوئی بھروس ن ونا ایک الگ محاور اوراس ک معنی ی ہےدرخت ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ے ہے ہ ہ

ی گرپڑیگا ۔کبھی بھی کنار ک ڈھ جائ ک ساتھ خود ہ ے ے ے ے ے۔( کن انکھیوں س دیکھنا۳۳) ے

وتا ار بھی ہےدیکھن کا عمل بھی عجیب وغریب اس س اپنائیت جھلکتی اوراجنبیت بھی اپن پن کا اظ ہ ہ ے ہے ے ہے ے

ر کیا جاتا آنکھیں لڑان س اورآنکھیں ےاورغیریت کا بھی اسی لئ دیکھن ک عمل کو گھورن س ظا ے ہے ہ ے ے ے ے ے

Page 182: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ہےدکھاجھپکان مٹکان س تعبیر کیا جاتا آنکھیں پھاڑنا پھاڑکر دیکھنا اورطرح کا عمل آنکھیں چرانا کچھ اور آنکھ ہے ہے ے ے ے

ہےلگنا اس س مختلف صورت آنکھ لگ جانا ن لگن ک مقابل میں ایک اور صورت حال کو پیش کرتا آنکھیں پھیر ے ے ہ ہے ے

ونا ایک الگ تجرب ہےلینا ایک اورعمل اسی طرح آنکھوں میں سمانا الگ آنکھوں میں پھرنا الگ آنکھوں دیکھا ہ ہ ہے ہے ہے

ےن آنکھوں س دیکھنا ن کانوں س سنا ایک اورتجرب مڑمڑکردیکھنا دیکھن کا ایک الگ اانداز کن انکھیوں س ہے ے ہے ہ ے ہ ے ہ

یں ک دیکھن کی روش دیکھن ک انداز اوراسلوب ک بار میں م ی انداز کرسکت اس س ےدیکھنا اورعمل ے ے ے ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہے۔

wس محاورات میںمحفوظ کردیا ا اور ا ۔مارا معاشر کس کس طرح سوچتا اورالگ الگ باتوں کو سمجھتا ر ے ہے ہ ہ ہ۔( کند ناتراش۳۴) ہ

وگئ یعنی ایک ایسا wس ک معنی انگھڑک یں اورجب اس ک ساتھ ناتراش مل گیا توا ت ےکند لکڑی ک ٹکڑ کوک ہ ے ے ے ہ ے ہ ے ے ہ

ذیب وشائستگی ک بار میں نقط نظر معلوم م سماج کا ت و اس س ذیب ن سیکھی ہشخص جس میں تمیز ت ے ے ہ ہ ے ہ ہ ہ

ذب جن کی ا جاسکتا یعنی غیرم یں کند ناتراش ک یں جن یں اس طرح ک لوگ سماج میں ملت ر ہکرسکت ہے ہ ہ ہ ہ ہے ے ے ہ ے

و وئی ۔تربیت ن ہ ہ ہ۔( کنگھی چوٹی۳۵)

یں اوراس ت وتی اسی کو کنگھی چوٹی ک wن کی ضرورت ہزیبائش آرائش بناؤ سنگھارجوعورتوں کا شوق اور ا ے ہ ہے ہ

یں ی ن وتی رحال اپن معاشر س مغربی معاشر میں چوٹی ۔کا تعلق ب ہ ہ ہ ہ ہے ے ے ے ہ۔( کنواں کھودنا، کنؤوں میں بانس ڈالنا، کنوئیں میں جھاکنا، کنوؤں میں جھکانا۳۶)

اتھی کو زند پکڑن یا گرفتارکرن ک لئ بھی کنواں وتا لیکن شیرکو یا ےکنواںکھودنا پانی حاصل کرن ک لئ ے ے ے ہ ہ ہے ہ ے ے ے

اں س گذرتا تواس کنوؤیں یا گڈھ اتھی و ہےکھودا جاتا اوراس پر گھانس پھونس ڈالدیا جاتا اورجب شیریا ے ہ ہ ہے ہے

اتھیوں کی مددس پکڑا جاتا وئ شیروں یا ہے۔میںجاگرتا اورپھر اس کو پل ے ہ ے ہ ے ہےئ کنویں م ن کنویں میں بانس ڈالواد اری تالش میں تو یں ک تم ت ےکنوؤں میں بانس ڈالنا ، تالش کرن کوک ے ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ے

یں وچک یں بیشتر کنویں بند یں یں اب کنویں باقی ن ہجھاکنا یا جwھکانا بھی تالش کرنا مگراچھ معنی میں ن ے ہ ہ ہ ہے ہ ے ہے

ی تھا کھاری باولی یں پتھرواال بھی کبھی کنواں لی میں الل کنواں، ڈھوال کنواں اندراکنواں اس کی مثالیں ہد ہ ہ

یں مگربستی یں کھاری باولی اب ن ہےاورحضرت نظام الدین اولیا کی درگا س متعلق باولی بھی بڑ کنویں ہ ہ ے ے ہ

ہے۔حضرت نظام کی باولی موجود اورگذر زمان کی یاددالتی ے ے ہے۔( کوٹھ والیاں۳۷) ے

یعنی طوائف کی وم رکھتا یں اورباالخان بھی اپنا ایک اصطالحی مف ت ہے۔کوٹھاایک خاص معنی میں باال خان کوک ہ ہ ہ ے ہ ہ

ت تھ جس کو رقص کافن بھی آتا تھا گان بجائ اوررقص ک ساتھ اپن ائش گا طوائف گان والی عورت کوک ےر ے ے ے ۔ ے۔ ے ہ ے ہ ہ

۔موسیقی ک فن کو پیش کرن کا کام ڈومیناں بھی کرتی تھیں مگرو عورتوںکی محفلوں میں گاتی بجاتی تھیں ہ ۔ ے ے

د وتا تھا درگا قلی خان سرساالر جنگ اول ن ع ہویس ڈومنی کا اصطالحی لفظ طوائف ک لئ بھی استعمال ے ہ ہ ے ے ے

لی کی اس وںن د لی نام کی کتاب میںملتی ان لی کا سفرکیا تھا اس کی روداد مرقع د ی میں جود ہمحمد شا ے ہ ہے ہ ہ ہ

ا ۔وقت کی طوائفوں کوڈومنی ک ہالتی تھیں جن ک پاس وتی تھیں ڈیر دار طوائفیں و طوائفیں ک ےطوائفیں بڑی مالدار اورڈیر دار بھی ہ ہ ہ ۔ ہ ہ

ت تھ انگریز جب wن کو نوچنا ک وتی تھیںاوران ک لئ رقص وسرود کاکام بھی کرتی تھیں ا ےنوعمرلڑکیاں بھی ے ہ ے ے ہ

یں الل بی بی ک ک پکارت تھ نی رابط پیدا کیا توو ان وںن طوائفوں س ذ ے۔ندوستان میں آئ اوران ے ے ہہ ہ ہ ہ ہ ے ے ہ ے ہوں کی بھی طوائفیں wمراء اورصاحب ثروت لوگ جات تھ بادشا ہطوائف ک کوٹھ پران ک درج ک مطابق ا ے۔ ے ے ہ ے ے ے

وئی داغ ت اثرانداز wردوشاعری اورادبی شعور پر ب ذیب ا وتی تھیں طوائف ک کوٹھ کی ت ہےمحبوب شخصیتیں ہ ہ ہ ے ے ہ

یں ت یں عام زبان میں طوائف کوکوٹھ والی ک ۔کی شاعری میں تواس کی ب طرح جھلکیاں ملتی ہ ے ہ ے ہ ے ز۔( کوچ گردی کرنا۳۸) ہ

م کوچ گردی ایک خاص ا جاتا اسی لئ جب یں اورطوائف ک کوٹھ کو بھی کوچ ک ت ہکوچ گلی محل کو ک ہ ے ہے ہ ہ ے ے ہ ے ہ ے ہ

یں تواس س مراد طوائف ک کوٹھ پر آنا جانا اسی لئ اقبا ن فرنگیوں ک ت ن میں رکھ کر ک وم کو ذ ےمف ے زل ے ہے۔ ے ے ے ہ ے ہ ہ ہ

لی کی زبان میں عام استعمال میں آتا ہے۔لئ کوچ گرد کالفظ استعمال کیا گلی کوچ د ہ ہ ہ ے۔( کودوں دالنا ، کودوں۳۹)

ل زمان میں پیس کی کمی تھی یں پ ت وتا اس کو کودوں ک ت معمولی قسم کا اناج ےمشرقی یوپی میں ایک ب ہ ے ہ ہ ے ہ ہے ہ ہ

ل تک ی سسٹم کافی رائج تھا اوراب بھی ہاس لئ چیزوں ک بدل میں اناج دیا جاتاتھا دوسری جنگ عظیم س پ ے ہ ے ہ ے ے

Page 183: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

م ن توکچھ ر کرتا ک ت کم درج کا اناج اس لئ کودوں دیکرپڑھنا اس کو ظا ےدیکھن کو مل جاتا کودوں ب ہ ہ ہے ہ ے ہے ہ ہ ہے ے

یں کوڑیوں ک م کوڑیوں ک حوال س بھی کرت ار وئی جس کا اظ ی بات یں ی و یں دیا مفت پڑھ ےبھی ن ہ ے ے ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ۔ ہ ے ہ

wس کوڑیوں ک مول س نسبت دی جاتی کوڑیاں بھی سک یا ت سستی مل جائ ا ےمول خریدنا ، یعنی جوچیز ب ہے ے ے ے ے ہ

یں ۔پیس ٹک ک طورپر چلتی تھیں اوردوسری جنگ| عظم تک چلتی ر ہ ۔ ے ے ےونا بڑی بات تھی اوراسی س ی محاور بھی نکال پیس یں جب پیس پاس ہی محاور اس دورزندگی کی یاددالت ہے ہ ہ ے ہ ے ہ ے ے ہ

و نابھی اتھ کا میل پیس پیس کو محتاج اؤ یا پیس تو ہدیکھا یا پیس کامن ن دیکھو پیس پانی کی طرح ن ب ے ے ۔ ہے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ہے

میت وتا اورسماج میں پیس کی ا ماری سماجی حیثیت کا بھی تعین ہاسی سلسل کا محاور اوراس س ے ہے ہ ہ ے ہے ہ ے

۔کابھی ے( کورا کورابر تن کورا رکھنا کورا ر جانا کورا سر کور بال رکھنا کور استر س۴۰) ے ے ۔ ے ۔ ۔ ہ ۔

ونڈنا ، کوڑا کرنا کوڑا مارنا ۔سرم- ۔و ک و توابھی تک بالکل کورا جولوگ یں جس کا استعمال ابھی ن کیا گیا ت ہےکورا ایسی کسی ش یا برتن کو ک ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ے

لی میں یں د ی کور وت ان کو بھی کورا ک کر یاد کیا جاتا ک اس معامل میںبالکل یں ہپڑھ لکھ یا عقل مند ن ہ ے ہ ہ ہ ہے ہہ ے ہ ہ ے ے

ےکورا رکھنا بھی محاور جس س مراد کسی ش کواٹھاکر رکھنا کسی ش کا استعمال ن کرنا اوراس ہ ے ۔ ے ہے ے ہے ہ

یں ک سر میں وت لی والوں کا خاص محاور اور اس ک معنی نا کورا سراور کور بال د ہحفاظت س رکھ ر ہ ے ہ ے ہے ہ ہ ے ہ ے ے

نا ۔تیل ن لگانا سنگار پٹارک بغیرر ہ ے ہیں کیا جاتا کور استر س سرمونڈنا یعنی بری طرح سرمونڈائی کرنا بیوقوف بنانا الٹ ےجس کو اچھا خیال ن ے ے ے ہ

ہے۔استر س حجامت بنانا یا کھنڈ استر س سرمونڈنا بھی قریب قریب اسی معنی میں آتا ے ے ے ے ےور مار گھریلومعاشر میں و تعریف ک الئق بات نظیر اکبرال آبادی کی مش اں تک کور برتن کی بات ہج ہ ہے ے ہ ے ے ہ ہے ے ہ

ہے۔نظم ے وا کیا بات کور برتن کی ہ

ہکوڑا مارنا یا کوڑ لگانا سزا دینا اور کوڑوں س مارن کی طرف اشار کرتا قبائلی زندگی اورقدیم عرب میں ی ہے ہ ے ے ے

لی میں گھوڑ کو کوڑالگانا جس معنی میں آتا اسی معنی میں کوڑ کرنا بھی آتا ت عام تھی د ہے۔سزا ب ے ہے ے ہ ہنگا۴۱) یں کوڑیوں ک بھاؤ بھی م ہے۔( کوڑی ک تین تین بکنا کوڑی ک کام کان ہ ے ۔ ہ ے ۔ ے

یں یعنی اس کی قیمت توایک کوڑی بھی ی ن ونا، جس کی گویا کوئی قیمت ت سستا ہکوڑی ک تین تین بکنا، ب ہ ہ ہ ے

ائی کم قیمت قرار دینا مغربی یوپی میں کوڑی کوڑی کو نگا ی بھی کسی ش کو انت یں ی اس میں بھی م ہےن ہ ے ہ ہے ہ ہ ہے ہ

وتا ل میں ’’ر‘‘ استعمال ہے۔’’ڈ‘‘ س لکھا جانا د ہ ہ ہے ے۔( کولھوکابیل ، کولھوکاٹ کرموگری بنانا، کولھوک بیل کی طرح پل�نا۴۲) ے

وتا یعنی یں کھڑا اں س چلتا و تا اسی لئ ج ی دائر میں چکر لگاتا ر ہےکولھوں کا بیل آنکھیں بند کئ ایک ہ ہ ہے ے ہ ے ہے ہ ہ ہ ے

ا تھا ی کولھوک کچھ بیل س کم وتی اسی لئ موالنا حال ن ایک موقع پر ک یں ےاس ک سفر کی کوئی منزل ن ے ہ ہ ے زی ے ہ ہ ے

یں یں یں ک و اں س چل تھ و ج یں ۔ن ہ ہ ے ہ ے ے ے ہ ہے۔ ہیں کسی بڑی چیز کو قربان کرک چھوٹی چیز وت لی کا محاور اوراس ک معنی ےکولھوکاٹ کا موگری بنانا ی د ہ ے ہ ے ہے ہ ہ ہ

را طنز خیال کیا رحال بیوقوفی کی عالمت اورنفع نقصان کو ن سمجھنا اسی لئ اس ایک گ ہحاصل کرنا جو ب ے ے ہے۔ ہ ہے ہ

ہے۔جاتا ۔( کولھومیں پلوادینا۴۳)

ت سخت تھیں مثال سولی دین کی سزا آنکھیں نکلوان ل زمان میں سزائیں ب ےب حد شدید اورعبرت ناک سزا پ ے ہ ہ ے ہ ہے ے

ل زمان میں زند انسانوں کو کولھوؤں میں ڈال دین اور ےکی سزا بوٹیاں چیل کوؤں کو کھالن کی سزا اسی طرح پ ہ ہ ے ہ ے

wن چیزوں کی طرح جوکولھومیں ڈال کر پلوائی جاتی تھیں انسان ک وجود کو ریز ریز کردین کی سزا ی آج ہپھرا ے ہ ہ ے

ت المناک واقعات ماری تاریخ ک ب ہبھی محاور کی صورت میںاپن ب حد تکلیف د احساسات ک ساتھ زند اور ے ہ ہے ہ ے ہ ے ے ے

یں ک محاوروں میں کس طرح تاریخی حقائق کو آنیوالی م انداز کرسکت ہکی طرف اشار کرتی اس س ہ ے ہ ہ ے ہے ہ

وتا ہے۔نسلوں ک لئ محفوظ کردیا ایک چھوٹا جمل محاور کی شکل میں تاریخ کا مرقع ہ ے ہ ہے ے ے۔کو قاف ،قاف س قاف تک ے بہ

ذیب اورانسانی معاشر ک ارتقاء ماری تاریخ ت اڑوں کا اڑوں کا و سلسل جو قاف کی شکل میں پایا جاتا پ ےپ ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ

یں جس کی طرف ت اڑی سلسل کو ک یں کو قاف ،قاف کی شکل ک پ ہس خاص خاص مراحل س تعلق رکھت ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ے ے

Page 184: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ور ہاوپر اشار کیا گیا ی شمالی ایران کا و عالق جو آگ جاکر جنوب مشرقی روس س مل جاتا اسی کا مش ہے ے ے ہے ہ ہ ہ ہے۔ ہ

اڑ ا گیا اور کو قاف کی ی تعریف کی گئی ک و سون کا ایک پ اڑ بھی ک اڑکو سون کا پ ر آرمینا اس پ ہےش ہ ے ہ ہ ہے ہ رہ ہے ہ ہ ے ہ ہے ہ

قاف ک ایک کنار س وا ک کو وم ی وئ اسی معنی میں’’قاف تاقاف‘‘ کا مف ےجو تمام روئ زمین کو گھیر ے ے رہ ہ ہ ہ ہ ہے۔ ے ہ ے ے

ہے۔لیکر دوسر کنار تک جس میں ساری دنیا آجاتی ے ےیں یا سمجھی جاتی تھیں اسی لئ حسین عورتوں کو کو قاف کی پریاں وتی ت خوبصورت قاف کی عورتیں ب رہکو ے ہ ہ ہ رہ

انی وداستانوں میں ان کا ذکر بطور خاص آتا تھا ی گویا ایک وقت میں کو قاف س متعلق ماری ک ت تھ اور ےک رہ ہ ہ ہ ے ے ہ

ندوی کلچرمیں مار خواب وخیال جس طرح ہمار تصورات تھ اوراس کی خوبصورت عورتوں ک بار میں ے ہ ے ے ے ے ہ

نی تصویروں کا یں اسی طرح فارسی واردو میں روایتی حسن اورنسوانی کشش کو اورسماج کی ذ وتی ہاپسرائیں ہ ہ

ماری نظرمیں پھرجاتا ہے۔مرقع ہیں سوئ گا۴۵) یں جائ گا یا ن ۔( کوئی کسی کی قبرمیںن ے ہ ے ہ

ذیب میںموت س متعلق اپن خیاالت و سواالت کی ایک عالمت خاک لحد مزار سنگ| لحد لوح| مزار ماری ت ہےقبر ے ے ہ ہ

یں وئ زاروں برس کی روایت کو اپن اندر سمیٹ یںاور ۔کفن کا فوروغیر موت کی رسومات س متعلق ہ ے ہ ے ے ہ ہ ے  ہ

م یں قبروں پرجاکر یں اورتاج محل بھی مقبر بنیادی طورپر قبر کی روایت س متعلق | مصر بھی مقبر ہاحرام ہ ے ہے ہ ہ ہ

نچتی قبرمیں جوراحت مارا ی بھی خیال ک فاتح درود مرد کوپ یں یں خوشبو دار چیز جالت wھول چڑھا ت ہےپ ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ے

وا ک کوئی کسی کی قبرمیںن یں س ی محاور پیدا وتا ی وتا و مwرد ک اپن اعمال ک مطابق ہیا عذاب ہ ہے ہ ے ہ ے ہ ہے ہ ے ے ے ے ہ ہے ہ

وگا ی کا نتیج ۔سوئ گا یعنی دنیا میں جو خود کریگا قبرمیں ثواب یا عذاب ال ہ ہ ہ ےا جاتا ک اس ک اعمال اس ک ساتھ اورمیر اعمال وں گ ی جو ک ےرایک ک اپن اعمال قبرمیں اس ک ساتھ ے ے ہ ہے ہ ہ ے ہ ے ے ے ہ

اں مسلمانوں ک عام عقید ک مطابق انسان کا اعمال نام اس ک ساتھ ی ج wس س مراد قبر ےمیر ساتھ ا ہ ے ہ ے ہ ہے ہ ے ے

۔وگا نیکی بھی اوربدی بھی ہیں۴۶) یں پوچھتا ک تیر من میں کتن دانت ۔( کوئی ن ہ ے ہ ے ہ ہ

یں لیکن ی محاو ایک ت س محاورات وابست wن س ب یں اورا ر میں خاص کردار ادا کرت ر م ہدانت انسان ک چ ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہ ے

رآدمی ایک دوسر س ب تعلق اورکوئی کسی ک ذاتی معامل یا مسئل س ےخاص طرح کا سماجی محاور ک ہ ہ ے ہے ے ے ے ہ ہ ہے ہ

یں وت ت س مسائل غیرضروری بھی یں ب یں رکھتا ک ی پوچھ ک تیر من میں کتن دانت ہکوئی دلچسپی ن ے ہ ے ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ

یںکوئی دوسرا کیوںچھیڑ اورغیرضروری طور پردوسروں ک معامالت میں دخل د ے۔ان ے ے ہ۔( کھڑ گھاٹ د-ھلوانا۴۷) ے

یں جانا جس ک ی تا ک میر کپڑ ابھی دھودو مجھ ک ہدwھوبیوں کامحاور اورایس طبق ک لئ جوی ک ے ۔ ہے ہ ے ے ے ہ ہے ہ ہ ہے ے ے ہ ے ہے ہ

یں اس لئ ک دھوبی ک گھرک کپڑ بھی ی ن یں نئ کپڑوں کا توسوال یں یںک اس ک پاس اورکپڑ ن ےمعنی ے ے ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ے ے ہ ہ

م ی |س س یں ا ا جاتا ک و دھوبی ک گھرک ی ک لئ درمیانی طبق میں ی ک وئ اوران یں دwھل وت ہغنیمت ہ ے ہ ے ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے ے ہ ے ہ ے ہ ے ہ

مار محاوروں میں جھلکتی ماری معاشرتی زندگی کس طرح یں ک ہے۔انداز کرسکت ے ہ ہ ہ ہ ے ہہے۔( کھوٹا پیس یا کھوٹا بیٹا وقت پر کام آتا ۴۸) ہ

ل زمان میں توپیس وتا اورپ ونا یوں بھی مشکل ترین نمائندگی کرتا پیس ماری سماجی فکرکی ب ہی محاور ہ ے ہ ہے ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ

وتا تھا اورآدمی کا جی و سکون کا باعث ی کیوں ن ونا چا و ناالئق |سی طرح بیٹا ہکامیسر آنا بڑی بات تھی ا ہ ہ ہ ہ ہے ہ

ی وقت پرکام آت وا ک ی کھوٹا پپس اورکھوٹا بیٹا تا تھا ک و اس کی بھی تعریف کر اسی لئ ی محاور رائج ےچا ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ے ہ ہ ہ

۔یں ہ۔( کھونٹ ک بل کودنا، کھونٹ س باندھنا۴۹) ے ے ے ے

اں جانور یامویشی زندگی میں یں ج م محاورات میں س اور اس گھریلو زندگی کی طر ف اشار کرت ت ا ہی ب ہ ے ہ ہے ے ہ ہ ہ

یں باندھا جائ وا اگر جانور کو کھونٹ س ن یں اسی لئ کھونٹ س بندھنا یا باندھنا کا محاور رائج ت ےداخل ر ہ ے ے ۔ ہ ہ ے ے ے ہ ے ہ

|دھر ادھر نکل جائ گا اورکوئی اس کو پکڑل گا یں بھی ا ۔گا توو ک ے ے ہ ہر ہعالو بریں کھونٹ س لگنا بھی محاور اورو بھی جانورکی وفاداری ک معنی میں آتا ک جب جانور جنگل با ہ ہے ے ہ ہے ہ ے ے ہ

وتا |ن کا کھونٹا اں ا یں ج وت یں جاکر کھڑ یں توو ہے۔س گھر یا گھرکی طرف آت ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ے ےwچھلتا ار پر کودتا یا ا وتا اورو اسی س ارا وا ک جانور کواپن کھونٹ کا بڑا س اں س ایک اورمحاور پیدا ہےی ے ہ ہ ہے ہ ہ ے ے ہ ہ ہ ے ہ

ہجیس کوئی آدمی اپن سرپرست یا خاندان ک بزرگ ک بل بوت پر غلطیاں بھی کرجاتا اوری خیال کرتا ک ہے ہ ہے ے ے ے ے ے

نچن گی اس ک مقابل میں قصائی ک کھونٹ س یں پ ےمیر بڑ اس کو نمٹالیں گ اورمجھ کوئی تکلیف ن ے ے ہ ے ے ہ ہ ے ے ے ے

Page 185: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یں بھی کھل یں ایک محاور بھی اسی سلسل کا ک تم ک ےبندھن ک معنی تکلیف اٹھان اورچھری تل جان ک ہ ہ ہے ہ ہ ۔ ہ ے ے ے ے ے ے

یںدیکھا wرا وقت ن ویعنی تم ن اچھا ب یں ۔بندھ ن ہ ے ہ ہ ےیں گئی۵۰) ۔( کھیل ا-ڑکرمن میں ن ہ ہ

یں کی نی تربیت حاصل ن ۔یعنی کھان پین کو کچھ بھی دیکھا اورکوئی تجرب یاذ ہ ہ ہ ے ےیں۵۱) ۔( کیل کایا کیلی کا کھٹکا ن ہ

wس کی طرف اشار کرن ک لئ ی محاور ذیل میں یں یعنی محفوظ جگ ا اں کسی بات کا خوف وڈر یا اندیش ن ہی ہ ے ے ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ

ت عام ہے۔ب ہ

‘‘ گ’’ ردیف 

۔گاڑھی چھنdنا( ۱) اں بھنگ مار ی ہی نش کرنیوالوں کا محاور اوراس کا تعلق بھنگ پین س ے ہ ہے ے ے ہے ہ ہ ہیںسمجھا گیا و م نوشی ک مقابل میںادنی درج کانش تھا ۔پین کو کبھی اچھا ن ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ےا ان کو بھنگی ک اں تک ک الت تھ ی ہاسی لئ جولوگ بھنگ پیت تھ و بھنگڑک ہ ہ ے ے ہ ہ ے ے ے

یں اسی ت ون کوک ندی زبان میں منتشر وجانا ہجان لگا بھنگ کردینا یا بھنگ ے ہ ے ہ ہ ہ ےہے۔لئ بھنگ کردی گئی برخاست کردی گئی منتشر کرن ک معنی میں آتا ے ے ۔ ے

ت تھ و ی نش وتا سادھو سنت بھی جو جنگلوں میں ر ت شدید ہبھنگ کا نش ب ہ ہ ے ے ہ ہے ہ ہ ہوتا تھا گاڑھی ی ادنی اورچھوٹ طبق میں رائج ت ہکرت تھ مگربیشتر ی نش ب ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ےیں ک بھنگ کو باریک کپڑ میں چھانا گیا ی اس س و اورزیاد ہچھننی ک ی معنی ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہ

ری دوستی ب تکلفی ک ساتھ وجاتی تھی اور جب کسی س گ ےنش والی ے ہ ے ہ ےت تھ ک آج کل توان ک غضب ک ےتعلقات بڑھت تھ تواس بھی گاڑھی چھننا ک ے ہ ے ے ہ ے ے ے

یں خوب گاڑھی چھنتی ۔تعلقات ہے ہ۔گالیوں کا جھاڑباندھنا(۲)

م دوستی ی اورآج بھی ماری معاشرتی زندگی میں ب طرح رائج ر ہگالی ہے ہے ہ ے ہیں نفرت وحقارت ک ساتھ بھی وت یں اورخوش ےاورمحبت میں گالیاں دیت ہ ے ہ ہ ے

یں اسی کوگالیوں ہگالیوں کی بوچھارباندھی جاتی اور ب تحاش گالیاں دی جاتی ہ ے ہےیں ذو کاشعر ت ہے۔کا جھاڑباندھنا ک زق ہ ے ہ

وکرجھاڑلپٹاتھا ہ ن جھاڑا غیرکو جوتجھ س ے ہےمجھی پرگالیوں کا جھاڑتون بدگماں باندھا

وکھ سوکھ کانٹ دار بڑ بڑ پودوںکوبھی wیں اورر ت ۔’’جھاڑ‘‘درخت کو بھی ک ے ے ے ے ے ہ ے ہ گانٹھ باندھنا، گانٹھ پڑنا، گانٹھ جوڑنا ، باندھنا ،گانٹھ کا( ۳)

۔پورا ،گانٹھ کا بھرا، گانٹھ کا پیسا، گانٹھ کا کھوٹا، گانٹھ کھولنارارشت ن وزندگی س گ ماری عام زبان کا ایک ایسا لفظ جو سماج ک ذ ہگانٹھ ہ ے ہ ے ہے ہیں و گر س بھی یں اورجو محاور گانٹھ س متعلق ت ےرکھتا گانٹھ گر کو ک ہ ہ ہ ے ے ہ ے ہ ہ ہے

ی و ونا، گر باندھنا ،گر میں رکھنا، گر پڑنا سب ہمثال گر| دینا گر لگانا گر دار ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔ ہ ہذب طبق گانٹھ کو یں کیونک م یں جوایک ک سوا گانٹھ ک ساتھ آت ہمحاور ہ ہ ۔ ہ ے ے ے ہ ے

یں کرتا اسی لئ گانٹھ ک ساتھ آنیوال محاور گر اں گفتگو میں النا پسندن ہاپن ے ے ے ے ہ ہ ےیں گر لگانا شاعری کی اصطالح اورایک مصرع پر دوسرا ہک ساتھ آت ۔ ہے ہ ہ ے ے

گر کوئی دوسرا شخص لگاتا گر کھولنا بات یں ت ن کو گر لگانا ک ہمصرع ک ہے ہ ۔ ہ ے ہ ہ ے ہ ہیں ک اس ن اس گر کوکھوال یادل میں جوگر ت ہکا رمزپاجانا اسی لئ ک ہ ے ہ ہ ے ہ ے ہے

wس وتا توا ہےپڑگئی تھی اس کو اپنی تدابیر یا اپنی گفتگو س دwورکیا ’’پیا ‘‘پاس ہ ے

Page 186: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یں ک و کسی کی اپنی گر یا گانٹھ میں کسی استاد کا شعر ت ہے۔ک لئ ک ہے ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ےر ے دل کا کیا مول بھال زلف چلیپا ٹ ہ

ر وتوسودا ٹ ےتیری کچھ گانٹھ|گر میں ہ ہ ہwستاد ونا شاعری میں ا ونا پیس کا کسی کی اپنی گانٹھ گر میں ہےگانٹھ کا پورا ہ ہ ے ہ

ی گا نٹھ کا لفظ آنا اس بات کی عالمت اں س ی ک ہےوں ہ ہ ے ہک ی لفظ کبھی اچھی ہ ہ

یں ۔سوسائٹی میں بھی رائج تھا مگرسنجید موقعوں ک لئ ن ہ ے ے ہونا۴) ۔( گ-دگ-دی کرنا، گ-دگ-دی اٹھنا، گ-دگ-دی دل میں ہ

ونا اورخوش کرن کی تدبیر کرنا ش پیدا کرنا خو ش یں جوخوا ت ےاصل میں گدگدی ایک خاص بدن کی حالت کوک ہ ہ ہ ے ہ

ونا ش ہےبھی شامل اسی لئ بچوں یا بڑوں ک گدی گدی کی جاتی اوردل میں گدگدی اٹھن ک معنی خوا ہ ہ ے ے ہے ے ے ہے

ندی میں محاور ’’گدگدکرنا‘‘ ان انداز کی طرف ل آئ ش جو آدمی کو ایک سطح پروال ہبچوں جیسی معصوم خوا ہ ے۔ ے ہ ہ ہ

ونا ہے۔ اوراس ک معنی بھی جی میں خوش ہ ے ہے۔( گراں گذرنا، گراں بار۵)

وتا و یا اورکوئی سماجی مجبوری اس ک لئ جو آدمی تکلیف اٹھاتا پریشان ہےیاربوجھ گراں بھاری قرض ہ ہے ے ے ہ ہ

ونا طبیعت پر یں بوجھ یعنی گراں بار ت ہاوراپن دل پرایک طرح کا بوجھ محسوس کرتا اس کو گراں باری ک ہ ے ہ ہے ے

وتی گراں گذرن ک معنی کوئی حرکت کوئی ےگرانی یعنی ایک طرح کا بوجھ اورناخوشگوار صورت| حال پیدا ے ہے ہ ہے

کسی شاعر کا شعر ہے۔بات یا کوئی اشار کنای برالگنا ہے۔ ہ ہیں ہ و بات سار فسان میں جس کا ذکرن ہ ے ہ

ت ناگوار گذری ہو بات ان کو ب ہماری انفرادی یا معاشرتی مار محاور کس طرح یں ک م ی انداز کرسکت ی گراں گذرنا بھی اس س ہی ے ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہے۔ ہ

یں ۔الجھنوں کوپیش کرت ہ ےونا۶) ۔( گردش میں ہ

یں اورانسان ک حاالت کو فیور) وت ےگردش کا تعلق بنیادی طورپر ستاروں س جب ستار غیرمناسب ہ ے ہ ے ہے ےFavourیں یعنی پریشانی اورمصیبت ک یں ک آج کل اس ک ستار گردش میں ت یں آت توک وئ نظرن ے(کرت ہ ے ے ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ے

یں ایک علم نجوم ک ب اعتبار اوردوسر علمی اورفکری باتوں کومحاور یں اس س دوباتیں سمجھ میں آتی ہدن ے ہ ے ہ ے ہ

رسطح ک معامالت مار محاوروں کا رشت زندگی ک وگا ک اں ی اشار کرنا غیرضروری ن ےک دائر میں النا ی ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے

ا ہے۔خیاالت اورسواالت س ر ہ ےونا، گردن پھنسانا، گردن پھیرنا، گردن۷) ونا، گردن پرسوار ونا،گردن پرخون ہ( گردن پر بوجھ ہ ہ

اتھ ڈالنا، گردن ناپناوغیر ہ۔جھکانا، گردن کوڈورا ، گردن مارنا، گردن مروڑنا، گردن میں ہمیت رکھن واال وجودکا حص� انسان کی گردن تو اس معامل میں ہگردن حیوانی یاانسانی وجودمیں غیرمعمولی ا ہے ہ ے ہ

ی کی کسی ن کسی سطح ت س محاور گردن م کردار ادا کرتی سرس نسبت رکھن وال ب ہاوربھی زیاد ا ہ ے ے ہ ے ے ے ہے ہ ہ

یں مثال گردن اونچی کرنا سراونچا کرنا گردن جwھکانا سرنیچا کرنا گردن کاٹنا یا کٹوانا قتل کئ ےپر تعلق رکھت ہے ہے ہ ے

ونا آدمی س معمولی درج کی یں گردن پر سوار ی ت قریب سرکٹن ک معنی بھی ی ہجان ک معنی س ب ے ہ ہ ہ ے ے ہے ہ ے ے ے

ت معمولی درج کی چیز وا اس اورمجھ ب میر لئ مصیبت بنا ہمحنت لینا اوراس ک لئ مصیبت کھڑ کرنا ہ ے ے ہ ے ے ۔ ے ے ے

مصرع ا گردن مارنا بھی قتل کردین ک معنی میں آتا اورگردن اڑانا بھی ہسمجھ کر کام ل ر ۔ ہے ے ے ہے ہ ےتی ک قاتل کی اڑادوگردن ہ شرع ک ہے ہ ہ

یں رکھ سکت اسی لئ ان کی رنا بچوں ک لئ آتا شروع شروع میں بچ اپن سرکو گردن سبنھال کر ن ےگردن ٹ ے ہ ے ے ہے ے ے ہ

ار چمپکلی ،گلو بندا ورجگنوبھی نایا جاتا ی میں پ ارا دیا جاتا گنڈا تعویذ نیال دھاگا گردن اتھ کا س ہگردن کو ہے ہ ہ ہے ہ ہ

یں ی ک زیور ۔گردن ہ ے ہوتا گردن چھڑانا وم دوسرا وتا مگرگردن پکڑن کا مف اتھ ڈالنا محبت اورب تکلفی کی وج س ہےگردن میں ہ ہ ے ہے ہ ے ہ ے ہ

ےلڑائی جھگڑ س نمٹنایا قرض ک ے ونا گردن پھسانا یا پھنسوادینا غیرضروری اور غیرمعقول ذم ے ہبوجھ س ادا ہ ے

وجانا یا کردینا گردن ناپناسخت سزا دینا اوربرا سلوک کرنا سخت انتقام لینا ہے۔داریاں عائد ہے ہےگردن پکڑنا کسی کو ذم داری نبھان ک لئ جائز یا ناجائزطورپر سختی س آماد کرنا ک آخرمیں ن اس کی ہ ہ ے ے ے ے ہ

Page 187: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

لوؤں مار سماجی رویوں ک ایک س زیاد پ ہگردن پکڑی جب قابومیں آیا اس طرح گردن س متعلق محاور ہ ے ے ے ہ ے ے

مارا معامل کرن کی یں اورغیروں س م دوسروں کو کس طرح دیکھت یں ک یں اوری بتالت ےکوسامن الت ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ے

تی ہے۔سطح غلط یا صحیح طورپر کیا ر ہ۔( گڑیوں کا بیا ، گڑیوں کاکھیل۸) ہ

وتا کپڑ کی گڑیاں یں جوگھرآنگن س متعلق اں گڑیاں سماجی زندگی کا و رخ پیش کرتی مار ی ےاصل میں ہے ہ ے ہ ہ ہ ے ہ

یں بچوں ک کھیلوں میں اورخاص طورپر وت ےبنانا توگھرکی عورتوں کا ایک ایسا کام تھا جس س بچ خوش ہ ے ہ ے ے

یں اس ۔بچیوں کی گھریلو دلچسپیوں میں گڈاگڑیا ان ک چھوٹ چھوٹ زیور لباس زندگی س شوق پیدا کرت ہ ے ے ے ے ے

ہےمیںگڈاگڑیا کا بیا بھی جس میں گھریلورسوموں کی نقل کی جاتی کوئی گڈ کی ماں بنتی توکوئی گڑیا کی ے ہے ہے ہ

م مارا معاشر جس کی ایک چلتی پھرتی تصویر یں ی وتی ہاسی طرح لین دین اور بری چیز کی رسمیں ادا ہے ہ ہ ہ ہ ہ

وتا اورگھرکی بچیوں کو یں نقل اتارنا یوں بھی بچوں کا دلچسپ مشغل ہےگڈوں اورگڑیوں ک کھیل میں دیکھت ہ ہ ہ ے ے

وتا ہے۔تواس کا خاص طورپر شوق ہ۔( گل ک�ھالنا، گ-ل کھلنا۹)

م یں اورغم ک موقع پربھی چنانچ میت پھول خوشی ک موقع پربھی کام آت ہمار کلچرمیں پھول کی بڑی ا ہ ے ہ ے ے ہے ہ ے ہ

لی اں تک ک د یں ی یں برسی ک موقع پربھی پھول بھینٹ کئ جات یں ک قبروں پرپھول چڑھائ جات ہی دیکھت ہ ہ ہ ے ے ے ہ ے ے ہ ہ ے ہ

ت ک زمان میں بھی رائج تھی ب تکلف اورغیر ذم داران زندگی التی اورقدیم بادشا ہمیں تیج کی رسم پھول ک ہ ے ہ ے ہ ہے ہ ہ

wس پر حیرت کریں ک وں اورا یں گل کھالنا انوکھی بات کرنا جس س لوگ پریشان ت wڑانا ک ہگذارن کوگلچھڑ ا ہ ے ہے ہ ے ہ ے ے

یں ’’گلزار|نسیم‘‘ میں گل بکاولی ک اڑائ جان پر نسی ن لکھا ت ی کسی واقع کو ک گل کھلنا ایس وگیا ےی کیا زم ے ے ے ہ ے ہ ہ ے ۔ ہ ہ

ہے۔وا وا wل ہے دیکھا توو گ ہ ہ ہ

وا ی گل ک|ھال ہےکچھ اور ہ ہھری پھیرنا یا چالنا ،گالکاٹنا کھنڈی چ-ھری س ذبح کرنا۱۰) ۔( گل پرچ- ے ے

ت یں اسی کوچwھری پھیرنا ک ےجن قوموں میں جانوروں کو ذبح کرن کا رواج و جاندار کا گال چھری س کاٹت ہ ہ ے ے ہ ہے ے

ی محاور بن گیا اورکسی پر ظلم وزیادتی اورن انصافی کرن کوگل پرچwھری ا جاتا ی |س چھری چالنا بھی ک ےیں ا ے ہ ہ ہ ہے ہ ے ہ

ی کام جب بھونڈ انداز س کیا جاتا اور بدتمیزی رواد رکھی جاتی یں جس ک معنی گال کاٹنا اوری ت ہےچالنا ک ے ے ہ ہے ے ہ ے ہ

ندوؤں ن ایس قبیلوں یں یں ی محاور مسلمان قوموں میں رائج ر ت ے تواس کھنڈی چھری س ذبح کرنا ک ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ے ے ہے

یں تلوار س گردن اڑادی جاتی اں جانور ذبح کئ جات یں جس ک ی وسکت ہےمیں اس طرح ک محاور رائج ے ۔ ہ ے ے ہ ے ہ ے ہ ے ے

یں جاتی ی فرق جوچھری یا تلوار س گردن کاٹن میں ہے۔کاٹی ن ے ے ہے ہ ہونا۱۱) ار ۔( گل پڑنا، گل کا ہ ہ ے ے

یں جواپنی ذم داری دوسروں پر ڈالتا پھرتا اورانھیں مشکالت ت ہے۔’’گل پڑنا‘‘ کسی ایس شخص ک عمل کو ک ہ ہ ے ہ ے ے ے

وجانا کسی مصیبت کا یا ار اجاتا ک ی خوا مخوا کی مصیبت گل آپڑی گل کا ہمیں پھنسا تا اسی لئ ک ہ ے ے ہ ہ ہ ہ ہے ہ ے ہے

ونا ار ہے۔مشکل کام کا مستقل طورپر گل کا ہ ہ ےیں رکھتا بلک ہارایک خوبصورت ش گل کا زیور لیکن محاور میںاس کا استعمال زیب و زینت س تعلق ن ہ ے ہ ہے ے ہے ے ہ

ہے۔مشکالت ومصائب س رشت رکھتا ہ ہجن میں پڑنا آدمی ک لئ ناخوشگوار ی بلک نا گواریے ے ےہے۔بڑھتی

ہاس س پت چال ک زبان ک استعمال اورسماجی سطح پر جوکسی معاشر کی ے ہ ہ ےاں ا ںس ک یں اوربات ک وتی الفاظ کیا کیا معنی اختیار کرت ہنفسیاتی سطح ے ہ ہ ے ہے ہ

ت کچھ اسی معنی میں آتا گل میں زنجیرپڑنا ایک نچ جاتی گل منڈھنا ب ےپ ہے ہ ے ہے ہےطرح س پھنس جان ک معنی میں آتا اس لئ ک جانور کو اس ک گل میں ے ہ ے ہے ے ے ےےرسی ڈال کر کھونٹ س باندھا جاتا زنجیر اس ک بعد کی بات اوراس س ہے ے ہے ے ے

اتھوں یا پیروں ہزیاد سخت اور بری بات اور زنجیر کرنا بھی محاور اورگل ے ہے ہ ہے ہکا شعر یں میر ت ہے۔میں زنجیر باندھن کو ک ز ہ ے ہ ے

Page 188: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ار آئی دوان کی خبرلو ہ ب ہwس زنجیرکرنا توکرلو ہےا ے

یداں ، گنج قادوں ،گنج کوخدا ناخن ن د( ۱۲) ے۔گنج ش ہ ے ہوتا خزان ک معنی میں بستی یا wردو زبان میں کئی معنوں میں استعمال ےگنج ا ہ ہے ہ

ےمحل ک معنی میں اورسر ک بال اڑجان ک معنی میں عام طورس جب کسی ے ے ے ے ےیں تواس س مراد اس ک سرک بال اڑن کی طرف اشار کرنا ت ہکو گنجا ک ے ے ے ے ہ ے ہ

وتا ہے۔مقصود ہیں ک کسی عیب دار آدمی کو اگر کوئی ہگنج کو خدا ناخن ن د اس ک معنی ی ہ ہ ے ے ہ ےیداں اس ی نقصان کر گا گنج ش اتھ آگیا توو اپنا وگئی کوئی موقع ہقوت حاصل ے ہ ہ ہ ہ

ئ ت س لوگ دفن کرد ونیوال ب ید اں کسی جنگ میں ش یں ج ت ےجگ کوک ے ے ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ہیں ۔جات ہ ے

ا جاتا ک و مصر ہگنج قارون، قارون ایک کالسیکی کردار جس ک بار میں ک ہ ہے ہ ے ے ہے اس کا خزان اونٹوں پر لدکر ہک کسی بادشا کا وزیر مالیات تھااوراتنا مالدار تھا ک ہ ہ ے

ا توی بھی جاتا ک اس کی چابیاں اتنی تھیں ک و اونٹوں پر لد کر ہجاتا تھا اورک ہ ہ ہے ہ ہےجاتی تھیں ی مبالغ اورداستانی انداز میں پیش کیا گیا لیکن قدیم زمان ک ہ ہے ہے ہ ہ

ا وں ک ساتھ ان ک خزانوں کا بھی ذکر آتا جیس خسرو پرویز ک لئ ک ہبادشا ے ے ے ہے ے ے ہےجاتا ک اس ک پاس سات خزان تھ ایک کانام گنج شائیگاں تھا دوسر کانام ے ہ ے ہ ہےماری روایتوں کو محفوظ کرت ےگنج رائیگاں وغیر اس س ی پت چال ک محاور ہ ے ہ ہ ہ ے ہ

یں مار سماجی حافظ کاحص� بن جات ۔یں اورمحاورات میں ڈھل کر ی روایتیں ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ہانا( ۱۳) ۔گنگاجمنی، گنگان ہ

|س مقدس ندوستان کا مقدس دریا ممکن دارڑوں ک زمان میں بھی ا ےگنگا ہ ے ہے ہے ہون لگی اوراس wس کی پوجا ولیکن آریاؤں ک دورمیں تورفت رفت ا ےخیال کیا جاتا ہ ہ ہ ے ہبی تقدس وابست ا جان لگا اس س نگا ک ساتھ پاکیزگی اورمذ ر گنگ ک رم ہکو ہ ے ہ ے ے ہ ے ہ ہےوگیا اور اسی لئ گنگا کا پانی اس تقدس کی ایک عالمت بن گیا اسی لئ پھول ۔ ے ہان کا مطلب یں گنگامیں ن یں اوربھجن پیش کئ جات ےگنگا میں پھینکیں جات ہ ۔ ہ ے ے ہ ےوگئی توجب بڑ کام سمٹ wس کی روح پاک ےی سمجھا جاتا ک آدمی کا بدن اورا ہ ہ ہے ہالئ یعنی ساری الجھنوں ا جا تا ک تم توگنگا ن یں تومحاور ک طورپر ک ےجات ہ ہ ہے ہ ے ے ہ ے

یں یں اورآزاد ر طرح پاک صاف وگئ اب ۔اور ذم داریوں س فارغ ہ ہ ہ ے ہ ے ہاں گنگا اورجمنا دونوں ایک یں ج ت ہال آباد ک قریب و مقام جس کوپریاگ ک ہ ے ہ ہے ہ ے ہ

ت دwورتک پانیوں ک دھار ایک دوسر ک ساتھ یں اورب ےالگ ندیاں مل جاتی ے ے ے ہ ہم ن ایک محاور یں اسی کو چان جات یں اوردونوں ک الگ الگ رنگ پ ےچلت ے ہ ہ ے ے ہ ے ۔ ہ ے

ذیبی خصوصیت بن گئی ندوستان کی ایک ت اجو ذیب ک ہمیں بدل دیا اورگنگا جمنی ت ہ ہ ہیں ت ۔اردو کوبھی اس ک مل جل کردار کی وج س گنگاجمنی زبان ک ہ ے ہ ے ہ ے ے ے

ونا( ۱۴) دا دا کرنا یا گوشت س ناخن ج- ۔گوشت س ناخن کاج- ہ ے ےت مشکل اور ناممکن wردو میں عام طورپر ب ونا ا ہگوشت س ناخن کاجدا کرنا یا ہ ے

ک ایک شعرمیں اسی کی طرف اشار ملتا یں غالب ت ہے۔بات کوک ہ ے ز ہ ے ہ

Page 189: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ےدل س مٹنا تیری انگشت| حنائی کا خیالوجانا ہوگیا گوشت س ناخن کا جwدا ے ہ

) زب)غالر ک اب اس محاور کا جوانداز و مسلم کلچر س وابست کرتا ویس جس اٹوٹ رشت کی طرف ہاب ظا ے ہے ہ ے ہ ہے ے ہ ہے ہ

ڈی اورخون کا ب ندوعام طورپر اپنی زبان میں گوشت ذیب کا ایک مشترک عنصر ےاشار موجود و ایک ت ہ ہ ہے۔ ہ ہ ہے ہ

یں کرت ے۔تکلف ذکر ن ہونا۱۵) ۔( گوشمالی دینا، گوشمالی کرنا یا ہ

ت ترکیبی الفاظ wردومیں فارسی کی نسبت ب یں ا ت ’’ گوش‘‘ فارسی میں کان کوک ہسزادین ک معنی میں آتا ہ ے ہ ہے ے ے

وش حلق بگوش گوش سماعت سنن واال کان کان اینٹھنا کان پکڑنا کان یں جیس گوش ےگوش ک ساتھ آت ہ ہ ے ہ ے ے

wن کو عام طورس گوش مالی ک تحت رکھا جاتا عجیب یں اورا ہےمروڑنا ی سب کان ک ذریع دی جانیوالی سزائیں ے ے ہ ہ ے ہ

اتھ پاؤں توڑدینا وغیر ہ۔بات ک سزاؤں کا اور عضاء س وابست زیاد کاٹ لینا کان کاٹنا دانت توڑنا پیٹ پھاڑنا ہ ہ ہے ہ ے ہ ہے۔( گھاٹ گھاٹ کاپانی پینا۱۶)

یں وتا یا پھرکپڑ دھوت اں س کشتیوں میں سفر شروع یں ج ت ہگھاٹ دریاک ایس حص یاکنار کوک ے ے ہے ہ ے ہ ہ ے ہ ے ے ے ے

ہغرضیک گھاٹ کا رشت ر گذرس بھی اوردریا ک ایس کنار س بھی جس کا جانوروں اورانسانوں کا واسط ے ے ے ے ہے ے ہ ہ ہ

و گھاٹ گھاٹ کا پانی پینازیاد س زیاد wن س گذرممکن وں اورا ت اں دریا ب ری بات ک اس طرح ج ہپڑتا ظا ے ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہے ہ ہے

یں ۔دریائی سفر ک تجرب کی طرف اشار کرتا اس میں دوسر تجرب بھی شامل ہ ہ ے ہے ہ ہ ے۔( گونگ کاخواب۱۷) ے

یں ک آدمی جن باتوں کومحسوس کرتا جان wس ک معنی ی یں کرپاتا ا وتا مگرو اس بیان ن ہےخواب دلچسپ ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہے ہ

وتا ایک اورمحاور بھی اسی معنی میں آتا اور و گونگ یں کرپاتا توو گونگ کا خواب ےلینا و ان کو بیان ن ہ ۔ ہے ہ ہے ہ ے ہ ہ ہ ہے

یں کرسکتا آپ ان لفظوں کو بدل کر گونگ کی ےکاگڑ یعنی و گڑکا مز توجان گیا مگر اپنی زبان س بیان ن ہ ے ہ ہ ہے

ماری عوامی زندگی میں گڑایک آئیڈیل مٹھائی تھی خوشی ک موقع پر گڑکی ڈلیاں یں مگر ےمٹھائی بھی ک سکت ۔ ہ ہ ے ہہ

اوت گڑن د گڑجیسی بات ک د یعنی یں ایک اورک ت ےبانٹی جاتی ھیں اوراس محاور میں گڑبٹنا یا گڑباٹنا ک ہہ ے ہ ہے ہ ہ ے ہ ے ے

ت اچھی شخصیت مراد ت تھ تواس س ب ا و گڑکی بھیلی جب ک ذیبی عالمت تھایا ر اں گڑایک ت ہان عوام ک ی ے ے ے ہ ہ ہے۔ ہ ہ ہ ے

ج کی اں گڑایک اچھی بات ایک اچھا ل ت نظرآت تھ ک اس کا کیا و توگڑکی بھیلی ان ک ی ہلیت تھ اوری ک ہ ہ ے ہے ہ ہے ہ ے ے ے ہ ہ ے ے

و ی گڑ کھٹا اوری میٹھا ت وئی تم ک ت تھ ک ی کیا بات ہے۔عالمت تھا اورجولوگ اپنی بات بدلت تھ ان س ک ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ے ہ ے ے ےونا یا دیکھنا۱۸) ۔( گھرپھونک تماشا ہ

لو اس محاور میں اسی wس ک کردار کا ایک کمزور پ ر خوشی کا کام کرنا سماج کا اورا ہاپنا گھرلٹاکر کوئی بظا ہے ہ ے ہ

wس گھرپھونک تماشا ےپر طنز کیا گیا ک اگرگھرلٹاکر اپنا سب کچھ برباد کرک کوئی خوشی حاصل کی جائ توا ے ے ہ ہے

م محاور یں اوری محاور اپنی معنویت ک اعتبار س ا ت ہے۔ک ہ ہ ے ے ہ ہ ہ ے ہ۔( گھرچڑھ کرلڑنا۱۹)

یں جیس برات چڑھنا اں چڑھن ک معنی سماجی طورپر کافی وسیع مار ی ےاصل میں ی گھرچڑھنا محاور اور ہ ے ے ہ ے ہ ہے ہ ہ

ولی پرچڑھنا اورگھرپرچڑھ کر آنا تیاری س آنا اگرکوئی آدمی اسی نیت س آیا ک و گھرپر آکر wہالم پر چڑھنا س ہ ہے ے ے

ا جاتا و روز گھرپر چڑھ کر آتا ہے۔لڑ گا توایس موقع ک لئ ک ہ ہے ہ ے ے ے wردو کا مصرع  ے ہے۔ا ہہے ی خان جنگ بھی لڑتی روز گھر چڑھ کر ہ ہ

یں و سماجی فکر نقط نظر جذب واحساس ہم محاوروں ک الفاظ میں معنی ک اعتبارس توتبدیلی دیکھت ہ ہ ہ ے ے ے ے ہ

مار ی کرتی اوراسی نسبت س محاوروں ک ساتھ ی ک ک ونیوال آ وفغاں کی نشاند ےاورقدروب قدر ہ ہ ہے ہ ے ے ہے ہ ہ ے ہ ے

یں وئ ر طورپر جwڑ ۔سماجی روی گ ہ ے ہ ے ے ہ ہہے( گھرکاٹ کھان کودوڑتا ۲۰) ے

ی اس لئ ک گھربنیادی یونٹ جس س معاشر بنتا ونا بھی چا یں ت س محاور وابست ہےگھرک ساتھ ب ہ ے ہے ہ ے ے ہ ہ ہ ہ ے ے ہ ے

وتا اور محبت کا رشت بھی گھرکو وتا راحت وآرام کا رشت بھی گھرس قائم ہآدمی کاپالن پوسن بھی گھرمیں ہے ہ ے ہ ہے ہ

تا لیکن اگرگھر ک راچھی چیز س اچھی بات س سجانا چا وتا اور آدمی اپن گھر کو ےدیکھ کرجی خوش ہے ہ ے ے ہ ے ہے ہ

وتا ائی میںبھی اکثری ی گھرکاٹ کھان کو دوڑتا تن ہے۔ساتھ کوئی ٹریجڈی یاتکلیف د بات کا رشت جڑجاتا توو ہ ہ ہ ہے ے ہ ہے ہ ہوجاتا تواس گھرس وتا توایک ایک چیز اس کی آنکھوں پھرتی گھرکسی وج س ویران ےگھرس آدمی دور ے ہے ہ ے ہ ہے ہے ہ ے

Page 190: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ور مصرع یں اردو کا ایک مش ت وجانا ک ہے۔گھروندا ہ ہ ہ ے ہ ہے جوگھرکوآگ لگائ و اپن ساتھ چل ے ہ ے

ہےگھرکو آگ لگنا بھی محاور اردو کای مصرع اس کی طرف اشار کرتا ہ ہ ہ ہے ہے اس گھرکو آگ لگ گئی گھر ک چراغ س ے

گھر میںگھس کربیٹھ جانا ی بھی گھرس متعلق محاور وا ی کا باعث ی گھرکی تبا ہےیعنی گھر کا اپنا خاص آدمی ہ ے ہ ۔ ہ ہ ہ

ونا یں گھرگھسنا خان نشیں یں اوردشمنی کرر یں ک دشمنی کرنیوال گھرمیں گھس بیٹھ وت ہاس ک معنی ہ ہ ہے ہ ے ے ے ہ ہ ے ہ ے

ےالگ بات ی آدمی ک الگ الگ رویوں اور ہ رکرتا way of lifeہے ہے۔کو ظا ہے۔( گھرکا بھیدی لنکا ڈھاو۲۱)

نچاتا وتا و زیاد نقصان پ یں ک جوخاندانی حاالت س واقف اوت اوراس ک معنی ی ور ک ہے۔مش ہ ہ ہ ہے ہ ے ہ ہ ہ ے ہے ہ ہیں جیس گھر کا راست لو یں اورسمجھ سکت ہم مندرج ذیل محاوروں کو بھی گھرس نسبت ک ساتھ ل سکت ے ہ ے ہ ے ے ے ے ہ ہ

وگئ وغیر وگئ گھرتال پڑگئ یا گھرگھرک ب چراغ ہ۔گھرکا فرد گھر کانام ڈبونا گھر ک گھر بند ے ہ ے ے ے ے ے ہ ے۔( گھرمیں ڈالنا۲۲)

التا ہے۔کسی عورت کو گھر میں رکھ لینا اوربیوی ک طورپر رکھنا گھرمیں ڈال لینا ک ہ ےونا۲۳) ۔( گھمسان کا رن پڑنا، گھمسان کی لڑائی ہ

وا لڑائی اب بھی وئی خون خراب ت جنگ یں گھمسان کا رن پڑا یعنی ب ت ون کو ک ت بڑ پیمان پر لڑائی ک ہب ہ ہ ہ ۔ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ے ہ

وتی نوں میں دلوں میں زیاد ہے۔وتی لیکن اب ذ ہ ہ ہ ہے ہونا۲۴) ۔( گھن چکر ہ

یں wری طرح چکر کھانا یا چکروں میں پھنسنا گھن ک معنی گھن ک ۔یعنی ب ہ ے ے ے۔( گھنگرو بولنا۲۵)

وجا تا ل سانس خراب لی والوں کا خاص محاور اوراس وقت ک لئ بوال جاتا جب موت س کچھ پ ہےد ہ ے ہ ے ہے ے ے ہے ہ ہ

یں اس کا انداز گھنگرو بولن س ٹ آجاتی لفظ محاور میں کس طرح اپن معنی بدلت ےاوراس میں گھرگھرا ے ہ ہ ے ے ہ ہے ہ

ہے۔وتا ہم محاوروں یں اس کو وم کی ترسیل ک لئ ایک خاص کردار ادا کرت و استعار محاور کنای گفتگو اور مف ہتشبی ہ ے ے ے ہ ہ ہ ہ ہ ہہ

یں ۔ک لفظیاتی استعمال میں بھی دیکھ سکت ہ ے ے۔( گھن لگ جانا۲۶)

وتی جوکتابوں کا غذوں اور لکڑیوں کو لگتی اسی طرح ک کیڑ کی ایک اورنسل ہےجس طرح کا کیڑا دیمک ے ے ہے ہے ہ

ن دل یں اوراناجوں کو لگتا اورغذا کاضروری حص� کھاجاتا اسی بات کو آگ بڑھاکر ذ ت ہجس کو گھن ک ے ہے ہ ہے ہ ے ہ

ی لی سی تیزی وطراری اورچمک دمک باقی ن ر یں یعنی و پ ۔اوردماغ ک لئ بھی گھن لگنا استعمال کرت ہ ہ ہ ہ ہ ے ے ے۔( گھوڑی چڑھنا۲۷)

میت رکھن والی ایک صورت ذیبی ومعاشرتی زندگی میں غیرمعمولی ا ت سی قوموں کی ت ونا ب ےگھوڑ پر سوار ہ ہ ہ ہ ے

ی گھوڑامول میت رکھتی تھی اورایک سپا ہ ایک زمان میں گھوڑ کی سواری فوجی عالمت ک لئ غیرمعمولی ا ہ ے ے ے ہ ہے

کا ایک شعر وجاتا تھا سودا اں نوکر ہے۔لیکر کسی بھی رئیس جاگیر دار یا صاحب ریاست ک ی ز ہ ہ ےامیں حضرت سود س کیوںڈالواں ڈول ے ک زا ہ

ولیک گھوڑامول یںنوکر ےپھر جاک ہ ہ ہے ےاںسواری ک گھوڑ رکھ جات تھ اورتحف ک طورپر بھی پیش کئ جات تھ تاریخ میں ےعام طورپر رئیسوں ک ے ے ے ہ ے ے ے ے ے ہ ے

ت یں مثال رستم ک گھوڑ کانام رخش تھا امام حسی ک گھوڑ کودwلدل ک ئ گئ ےبعض گھوڑوں ک نام بھی د ہ ے ے ان ے ے ہ ے ے ے ے

میت کا انداز ذیبی زندگی میں گھوڑ کی ا ماری تاریخی اورت اران پرتاپ ک گھوڑ کوچیتک اس س ہتھ اورم ہ ے ہ ہ ے ے ے ہ ہ ے

ہے۔وتا ہونا بطور| تقریب ل گھوڑی پر سوار ل پ وتا تھا توگھوڑی چڑھن کی رسم ادا کی جاتی تھی یعنی پ ہجب بچ کچھ بڑا ہ ے ہ ے ہ ہ

وتا ان کا ار میت کا اظ ذیبی ا یں اس کا رواج اس س رسموں کی ت یں ک لی میں آج بھی ک ہےمنایا جاتا تھا د ہ ہ ہ ہ ے ہے ہ ہ ہ

ذیب کی تاریخ کو اپن اندر سمیٹا ےتاریخی اورسماجی پس منظر سامن آتا اوری بھی ک محاور میں کس طرح ت ہ ے ہ ہ ہے ے

ونا بھی محاور اوراس س مراد لین دین رسوم ے اورزبان کا سماج س رشت جوڑا گھوڑ جوڑ س شادی ہے ہ ہ ے ے ے ہے ہ ے ہے

ذیب وتاریخ کا سماجی ماری ت ہوآداب ک ساتھ شادی کرنا اگرمحاور کو سرسری طورپرن لیا جائ تومحاور ہ ہ ے ہ ے ہے۔ ے

Page 191: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یں ت ائی کوشش کوک ۔زندگی اورمعاشرتی ماحول کا جیتا جاگتا عکس پیش کرتا گھوڑ کھولنا انت ہ ے ہ ہ ے ہے۔نا، گھونگھٹ کی دیوار۲۸) ۔( گھونگھٹ کھولنا، گھونگھٹ اٹھانا، گھونگھٹ ر ہ

تا ر پر ایک لمبا سا خوبصورت دوپٹ پڑار ن ک چ ذیب میں عورتیں جب اپنی سسرال جاتی تھیں تودل ہندوستانی ت ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ

ا ہتھا اس ک ایک پلو نقاب ک طورپر استعمال کیا جاتا تھا من دکھائی رسم ک موقع پر گھونگھٹ اٹھایا جاتا تھا دول ے ہ ے ے

وتا تھا ان ت تھ جن مردوں کا احترام ملحوظ لی مرتب دیکھتا تھا تواس گھونگھٹ اٹھانا ک ر پ ن کا چ ہجب اپنی دل ے ے ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ

ت تھ تا تھا تواس ک لئ ک یں ر تی تھی اورجب گھونگھٹ باقی ن میش عورت گھونگھٹ نکال ر ےک سامن ے ہ ے ے ہ ہ ۔ ہ ے ہ ہ ے ے

۔گھونگھٹ اٹھ گیاوری درواز ک سامن ایک اورسنگین دیوار بنائی گئی لی میں الل قلع ک ال ہےد ے ے ہ ہ ے ہ ہیں اسی کانام’’ گھونگس‘‘ بھی پڑگیا تھا ت ۔اس کو بھی گھونگھٹ کی دیوار ک ہ ے ہ

۔گھی ک چراغ جالنا یا گھی ک چراغ جلنا ، گھی ک گھونٹ پینا( ۲۹) ے ے ےذیبی حوال یں بلک ت ی ن ات اورقصبات کی زندگی کا ایک غذائی حوال ہ’’گھی ‘‘دی ہ ہ ہ ہ ہ ہ

ون میں بھی گھی ا اور ہبھی گھی کو ایک زمان س بڑی نعمت خیال کیا جاتا ر ہے ہ ے ہ ہےہےآگ پرڈاال جاتا اوری خیال کیا جاتا ک دیوتاؤں کو گھی پسند اوراس کی ہ ہے ہ ہے

نچتی اس کی ایک اور صورت گھی ک چراغ ےخوشبو آگ میں جل کر ان کو پ ہے ہائی خوشی کی عالمت گھی ک چراغ جلنا بھی مسرتوں س ےجالنا بھی جوانت ے ہے ہ ہے

ار ہے۔بھر کسی خوشی ک موقع یا تقریب کا اظ ہ ے ےوتا تھا اسی ہگھی کبھی میسر آتا تھا توغریب آدمی کی زندگی میں یادگار موقع

ت تھ ک اس کودیکھ وتی تھی توک ت خوش آنیوالی بات ہلئ جب کوئی دل کو ب ے ے ہ ہ ہ ے۔کر اس کی بات سن کر میں ن گھی پی لیا ے

ےشکران پرباریک شیریا بور ک اوپر گھی ڈاال جاتا تھا بیا برات ک موقع پر ہ ۔ ے ے ہمانوں کو تواضع ک طورس زیاد س زیاد گھی پیش کیا جاتا تھا اسی لئ ےم ہ ے ہ ے ے ہ

وتا تھا اس کو بھی گھی س نسبت دی جاتی تھی اورپیار محبت ت اچھا آدمی ےجوب ہ ہاں مار ی ا جاتا تھا ک و توگھی یا گھی کا ساگھونٹ گھی پر ہک طورپر ی ک ے ہ ہے۔ ہے ہ ہ ہ ہ ے

یں یں نکلتا یا کھائیں گ توگھی س ن l سیدھی انگلیوں گھی ن یں مثال ت محاور ہب ے ے ہ ہ ے ہیں گھی دودھ سب س اچھی غذا ےتوجائیں گ جی س یا سار مز ایک گھی میں ہ ے ے ے ے

ت تھ ک و توگھی دودھ پر پال ہے۔سمجھی جاتی تھی اوری ک ہ ہ ے ے ہ ہیں آتا( ۳۰) اتھ ن ۔گیا وقت پھر ہ ہ

ہی وقت کی قدر وقیمت کا احساس دالتا ک جو وقت گذرگیا و گذرگیا جو وقت ہ ہے ہیں ت استعمال کرت م ب یں آسکتا وقت وا و کسی قیمت پر واپس ن ہضائع ے ہ ہ ہ ہ ہ

و اس wرا وقت مصیبت کا وقت خوشی کا وقت کوئی بھی وقت ہجیس اچھا وقت ب ےمیت کا ور شعر وقت کی ا وتی میرحس کا ی مش میت ہک اپن معنی اوراپنی ا ہ ہ زن ہے ہ ہ ے ے

ہے۔احساس دالتا

یں ہ سدا دور’ دورا د|کھا تا نیں اتھ آتا ن ہگیا وقت پھر ہ

‘‘ ل ’’ ردیف 

یں مانتا(۱)  ۔الت ،التوں کا بھوت باتوںس ن ہ ے ہےالت مارنا ٹھوکر مارنا اور ذلت آمیز سزادینا التیں کھانا ایسی سزاؤں کو

یں التیں رسید کرنا بھی التیں وتی ت تکلیف د نی طورپر ب ہبرداشت کرنا جوذ ہ ہ ہ ہ ہے

Page 192: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

وم میںآتا اٹھت جوتا بیٹھت الت بھی ذلیل س ذلیل سزا برداشت ےمارن ک مف ے ے ہے۔ ہ ے ےوم میں آتا ہے۔کرن ک معنی میں آتا یا سزا دین ک مف ہ ے ے ہے ے ے

wراسلوک کرن ک مترادف جس میں ذلت wچھل کرالت مارنا جان جان کر ب wچھل ا ہےا ے ےیں ک یں مانتا اس ک ی معنی ہآمیز روی شامل التوں کا دیویا بھوت باتوں س ن ہ ہ ے ہ ے ہے ہوتا و سخت سلوک اوربری سزا ک بغیررا راست پر wری عادت کا انسان رہجو ب ے ہ ہے ہ

یں آتا ۔ن ہ۔الٹھی پونگا کرنا( ۲)

اتھاپائی و وتا ہعام لوگوں ک لڑن جھگڑن کی عادت میں ی بھی شامل ہ ہ ہے ہ ہ ے ے ےونا بھی شامل اورالٹھی پونگابھی ی wن ک جھگڑوں میں جوتاپیزار یں ا ہکربیٹھت ہے ہ ے ہ ے

وتا لی میں خاص طور پر استعمال ہے۔آخری محاور د ہ ہ ہمار طبقاتی روی بھی زیربحث آت ےان محاورات س پت چلتا ک محاوروں میں ہ ے ہ ہ ہے ہ ے

وتا نوں اور زندگیوں س وتا اس کا تعلق ان ذ ہےیں طبقوں کا اثر زبان پرکیا ہ ے ہ ہے ہ ۔ ہم طبقاتی کردار شامل ن رکھیں توالگ الگ یں اگر ہجن س ان ک روی بنت ہ ہ ے ہ ے ے

wن کی زندگی میں ملتا اورجس کا تذکر ان کی زبانوں میں ا ہطبقوں کا جوروی ہے ہ ہوجاتا ہے۔پرآتا اس کو سمجھنا مشکل ہ ہے

وتا( ۳) یں ۔الٹھی مار پانی جدا ن ہ ہ ےہےجب پانی پر الٹھی ماری جاتی توپانی پھٹ ضرو رجاتا مگرالگ الگ دو حصوں ہےد کا حص بھی لیکن محاور ک طورپر مار مشا وتا ی بات یں ےمیں تقسیم ن ے ہے ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ

مار طبقاتی اور ساجی روی کی ایک شناخت بھی بن جاتا ک چھوٹ طبق ہی ے ہ ہے ہ ے ہ ہوتی مگرو ایک دوسر س لڑت وتی گالی گلوچ ےمیں روز لڑائی ے ے ہ ہے ہ ہے ہ

وت ی محاور اسی طرف اشار کرتا ک الٹھی مارن س یں یںمگر الگ ن ےضرور ے ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ہ ہنا ایک ساتھ سفر کرنا میں توایک ساتھ ملکر ر وتا یں ہےپانی دوٹکڑ ن ہے ہ ہ ہے ہ ہ ے

وت دیر ےاورلڑائی جھگڑا توبالکل اتفاقی بات ی عوامی روی ک ان میں جھگڑا ہ ہ ہے ہ ہ ہےوت ے۔لگتی اورن صلح ہ ہ ہے

۔الحول بھیجنا یا پڑھنا( ۴)ہے’’الحول‘‘ عربی کا لفظ اورایک بڑا کلم جس کی طرف ی لفظ اشار کرتا ہ ہ ہے ہ ہےیں ک ی مسلمانوں ک ایک پڑھ لکھ طبق کا نچت م اس نتیج پر پ ہاس س ے ے ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ے

وگیا اس کا پس منظر ک عربی ک اس ماری زبان میں شامل ےمحاور جو ہ ہے ہے ہ ہ ہے ہیں اسی وجات ن س غائب ہفقر س جوالحول میں موجود شیطانی خیاالت ذ ے ہ ے ہ ہے ے ہ

ن کا خلفشار اور طبیعت کا ا جاتا ک الحول پڑھو یا الحول بھیجو توذ ہلئ ک ہ ہے ہ ےوگا جودراصل شیطانی وسوسوں کی وج س نقش الحول تعویذ ہےانتشار ختم ے ہ ہ

ہے۔ک طورپر باندھا جاتا ے۔( الل انگارا ،سرخ انگارا۵)

ی ایک طرح کا استعار بھی سرخی سرخ روئی د تو اں صبح وشام کا مشا مار ی ونا‘‘ انگارا ہے’’الل انگارا ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ہ

ائی غص کی بھی ہکانشان بھی خون کی عالمت بھی اوراس ک معنی میں خطر کی عالمت بھی اورانت ہ ہے ہ ے ہے ہے

وگئیں انگارا آگ کا حص� بھی اوراس کی عالمت بھی آگ کھائ ےعالمت اس کی آنکھیں غص� ک باعث الل انگار ہے ہ ہ ہ ے ہ ہے

ی وتی ایسا وتا اس کی سوچ اوت اس کی طرف اشار کرتی ک جیسا آدمی کا روی ہگا انگار اگل گای ک ہے ہ ہے ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے ے

wس سلسل عمل وردعمل کوی محاور اوررد| عمل سامن آتا ا ی اس کو جواب ملتا وتا اورایسا ہاس کا عمل ہ ہ ہے ے ہے۔ ہ ہے ہ

ہے۔خوبصورتی س پیش کرتا اوراس میں ایک طرح کا شاعران مبالغ شامل ہ ہ ہے ے۔( الل پیلی آنکھیں کرنا یا نکالنا۶)

Page 193: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

و یا وت غص یں ری سطح پر لفظ وبیان شریک ن یںجس میں ظا ار ہآنکھیں آدمی ک جذبات وخیاالت کا و اظ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے

وجا تا اسی لئ غص وتا جتنا آنکھوں ک ذریع یں ار الفاظ س بھی اتنا ن |س کا اظ و غیریت ا ہمحبت اپنائیت ے ہے ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ہ

یں ی ایک طرح کی لفظی تصویر ت ر کرت وقت آنکھوں میں سرخی آجاتی جس آنکھیں الل پیلی کرنا ک ہظا ہ ے ہ ے ہے ے ہ

یں توپوری تصویر آنکھوںمیں پھرجاتی اس |ن لفظوں س گذرت م ا یں اورجب ہےکشی جس ک رنگ متحرک ہ ے ے ہ ۔ ہ ے ہے

یں ان کی بامعنی بلک یں ک محاور میں معاشر ک جو مختلف روی اورسوچ ک طریق م ی انداز کرسکت ہس ہ ہ ے ہ ے ے ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ے

یں مار محاوروں میںبھی مل جاتی ماری شاعر ی کی طرح ۔معنی خیز تصویریں ہ ے ہ ہ۔( لبوں پر جان آنا۷)

ون ک عالم میں ونا جوموت س قریب تر ونا یا و حالت ی معنی میں آتا موت س قریب ونا، ایک ےلب| دم ے ہ ے ہ ہ ہ ے ہے ہ ہ

م کس طرح وتی ک مار سماجی رویوں کی عکاسی ہوتی اگردیکھا جائ تواس طرح ک محاوروں میں ہ ہے ہ ے ہ ے ے ۔ ہے ہ

یں یں اورکن الفاظ میں اپنی بات کو پیش کرت ۔سوچت ہ ے ہ ے۔( لٹک کرچلنا۸)

wس وتا اوربعض عورتوں ا ll اں ’’قدرتا ےچال میں ایک خاص طرح کا انداز اور اداپیدا کرنا جو بعض لوگوں ک ی ہے۔ ہ ہ ے

ت وتا لٹک غیرضروری ش کو بھی ک یں ی شاعران انداز بھی ےانداز دکھان کی غرض س اپن اندر پیدا کرتی ہ ے ہے ہ ہ ہ ہ ے ے ے

یں بلک ایک طرح کا سماجی اں ی شاعران انداز ن یں توایک طرح کی لٹک ی یں ان wن کا مقصد کوئی ن ہیں جیس ا ہے ہ ہ ہ ہ ہے۔ ہ ہ ے ہ

یں وی ضروری ن رموقع ک لئ صحیح اوردwرست رسماجی تبصر ۔تبصر ہ ہ ہ ے ے ہ ہ ہ ہے ہ۔( لٹوریوں والی۹)

اجاتا بعض یں اس ک لئ ی ک یں اورلٹوں کی شکل میں بکھر ر ہے۔ایسی لڑکی یا عورت جس ک بال کھل ر ہ ہ ے ے ہ ے ہ ے ے

یں مگری سماج کی طرف س ت یںان کو بھی لٹوریا ک یں اورکھلی چھوڑدیت ےمرد بھی لمبی لمبی لٹیں رکھت ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ے

وتا لڑکی ک لئ ار شامل وتی بلک اس میں ایک حدتک ناپسندیدگی کا اظ یں |تعریف بات ن ےکوئی قابل ے ہے ہ ہ ہ ہ ہ

وتا wبالی پن کی طرف اشار مقصود وتی صرف اس ک الا یں ہے۔ناپسندیدگی اس میںن ہ ہ ے ہ ہونا۱۰) ۔( لٹو ہ

ت چھوٹی سی کیل پر گھومتا اوراس زمین ونا شدت س تعلق|خاطررکھنا ، لٹو اپنی ب ہےلٹو کی طرح گھومنافریفت ہ ے ہ ہ

وتا جس فریفت نی اعتبار س کسی شخص یا بات پر ب طرح مائل یں چھوڑتا اب جوآدمی دلی طورپر یاذ ہکو ن ے ہے ہ ے ے ہ ۔ ہ

اس ا ور wس پرب طرح لٹو اجاتا ک و توا ونا ک یں اس حالت کو عوامی محاور میں لٹو ہے۔ونا ک سکت ہ ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ے ہ ے ہہ ہ

یں ک و شاعران انداز ک جمل تر طور پر سمجھ سکت ن ک طریق رسائی کو زیاد ب م عوامی ذ ےمحاور س ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ے

وتا یں توان کا انداز کیا ہے۔بھی تراشت یا بولت ہ ہ ے ے۔لچھ دارباتیں کرنا( ۱۱) ے

wن میں لطیفوں چٹکلوں شاعران جملوں ہعام باتوں کو دلچسپ بنان ک لئ ا ے ے ےارا لیا جاتا تواس ےاورروایتوں حکایتوں کا جب ب تکلف انداز س گفتگو میں س ہے ہ ے ےیں اوراس ک ذریع نکت میں س نکت اور بات میںس ت ےلچھ دار باتیں کرنا ک ہ ے ہ ہ ے ۔ ہ ے ہ ے

ذب طبق کی مار معاشر ایک خاص طرح ک م وتا ی ہبات پیدا کرنا مقصود ہ ے ے ے ہ ہ ہے ہخ کو wذیبی ر ماری سوسائٹی ک ایک خاص ت وتا اوراس طرح ہزندگی میں داخل ے ہ ہے ہ

ہے۔پیش کرتا ۔لڈو باٹنا ، لڈودینا، لڈوکھالنا ،لڈوملنا، لڈوپھوٹنا( ۱۲)

اں دستور ک جب کوئی مار یں وت ہی محاور خوشی ک موقع پراستعمال ہے ہ ے ہ ہ ے ہ ے ے ہیں گھروںمیں جاڑوں کا ہخوشی یا مبارک باد کا موقع آتا تولڈوتقسیم کئ جات ے ے ہے

تلوں ک لڈوبورک لڈو گوندھنی ک یں ےموسم آن پر لڈوبناکر رکھ جات ے ے ۔ ہ ے ے ےی من میں اں تک ک جب آدمی من یں ی مار معاشر میں رائج ر ہلڈووغیر ہ ہ ہ ہے ے ے ہ ہ

ی دل میں ی من میں دل wس ک من ا جاتا ک ا وتا تواس ی ک ہخوش ہ ے ہ ہے ہ ہ ے ہے ہیں ۔لڈوپھوٹ ر ہ ہے

ذیب ماری ت یں لیکن لڈوکا ت یں ک میٹھائیاںتوب م ی انداز کرسکت ہاس س ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ے

Page 194: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

را رشت اورمحاور میں اس ک جومختلف ےس ایک گ ے ہے ہ ہ یں و یShadesے ہآئ ہ ہ ےیں ک معاشرتی فکراورسماجی سوچ ک محاوروں س کیا رشت ر کرت ہے۔ظا ہ ے ے ہ ہ ے ہ

۔لڑائی مول لینا، لڑائی باندھنا(۱۳)یں و ذراسی بات مار عوامی سماج ک عام روی ہلڑائی جھگڑا یا لڑائی بھڑائی ہ ہ ے ے ہاں لڑائی مار ی یں ی صلح بھی کرلیت یں اب ی الگ بات ک جلد ہپر لڑبیٹھت ے ہ ہ ے ہ ہ ہے ہ ۔ ہ ے

یں اس میں لڑائی کرنا ت س محاور بھی wس س متعلق اسی نسبت س ب ہاورا ے ے ہ ے ےی لڑپڑنا لڑبیٹھنا بھی عام محاور ہے۔توخیر ہ ہ ہے

یں لی جاتی ہلڑائی مول لینا ایک خاص طرح کا محاور اس لئ ک لڑائی مول ن ہ ے ہے ہوجائ تواس س جواب میں لڑائی رطرح لڑائی جاری رکھن پر آماد ےلیکن آدمی ے ہ ہ ے ہیں یں ک ضرورت کوئی ن ت اسی کو لڑائی مول لینا ک رحال انگیز کیاجاتا ہکو ب ہ ہ ے ہ ہے۔ ہ

ےتھی ب ضرورت جھگڑ کھڑ کئ اورلڑائی مول لی گئی کبھی کبھی آدمی جھگڑا ے ے ےیں ک ی صاحب یا صاحب توخوا مخوا ت وتا اس وقت بھی ک ہلو طبیعت کا ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ہے ہ

یں ۔لڑائی مول لیت ہ ے۔لڑ فوج نام سردار کا( ۱۴) ے

یں چا و محنت ومشقت کاکام وت ی لوگ ہاصل میں کام کرنیوال توکچھ اور ہے ہ ے ہ ہ ےو یا میدان مارنا اس میں ساری و ملک فتح کرنا ہویا ایثار وقربانی پیش کرنا ہ ہ

یں مگرنام امیر سردار فوج لشکر ک سپ ہزحمتیں تولشکریوں ک حص� میں آتی ے ہ ہ ےوتا ی معاشر کی بڑی ستم ظریفی مگرتاریخ ہےساال ریا پھرقوم ک لیڈرکا ے ہ ہے ہ ے

ہے۔اسی طرح بنی اوری اسی پر طنز ذو کا مصرع ہ زق ہے ہ ہے

وتلوار کا ا دھار کاٹ نام ہ سچ ک ے ہے  ہیعنی کام کسی کا نام کسی کا

یں(۱۵) وئ ۔الل لگ جانا الل لگ ہ ے ہ ے ۔ےم اپن لباس میں قیمتی چیزیں شامل کرن یا جزو لباس بنان کا شوق رکھت ے ے ے ے ہ

یںلیکن سماج کا عام روی ی ک خوا ی کرسکت ہیں ی کام صرف بڑ لوگ ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہیں اس کی طرف یں تعریفیں کرت یں پسند کرت ہمخوا کسی کوترجیح دیت ے ہ ے ۔ ہ ے ہ

تا یں اسی ک جواب میں کوئی سماجی طنز ک طورپر ک ہےس بڑائیاں مارت ہ ے ے ہ ے ےیں یعنی ایسی کون سی بڑائی یا تحفگی کی بات جس ہے۔اس میں کیا الل لگ ر ہ ہے

ا ا اوردوسر کا انکار کیا جار ہے۔کی وج س اس کو پسند کیا جار ہ ے ہے ہ ے ہ۔( لفاف ک-ھل جانا۱۶) ہ

ےخطوں کولفاف میں بند کرک بھیجا جاتا خاص خاص طرح ک دعوت نام یا پیغامات بھی لفافوں میں بندکئ جات ے ہ ے ہے ے ہ

وجانا وجانا کچھ تفصیالت کا معلوم ر وجاتی اورلفاف کھل جانا بھید کا ظا وئی بات ہیں اب و بات چھپی ہے ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ

ہ۔وغیرکھانا۱۷) ۔( لقمان کوحکمت س�

اں ایک عالمتی کردار اورعقل وحکمت ک لحاظ س لقمان کی شخصیت ایک پیغمبران کردار مار ہلقمان ے ے ہے ہ ے ہ

وئ صاحب| علم نچن ائی درج پر پ wردومیں لقمان کا ذکربھی انت ےرکھتی جس کا ذکرقدیم لٹریچر میں بھی آتا ا ہ ے ہ ے ہ ہے ہے

اڑکو جوناممکن بات اسی wلٹی گنگاپ یں ک ا ت ی ک شخص کی حیثیت س آتا لیکن جس طرح ک ہےوحکمت ہ ہ ہ ے ہ ہے ے ے ہ

ی صورت سماج کی طرف س بعض لوگوں ک عقل پر طنز ک ہطرح لقمان کوحکمت سکھانا بھی ایک ایسی ہے ے ے ہے۔ ہ

یں ک لقمان کو بھی حکمت سکھالدیں ۔و تواپن آپ کواتنا عقل مندسمجھت ہ ہ ے ے ہ

Page 195: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مار wن کا ذکر یں اورا ت س کردارغیرقوموں اورغیرملکوں س تعلق رکھت وتی ک ب ےی دیکھ کرحیرت ہ ۔ ہ ے ے ے ہ ہ ہے ہ ہ

اس س اردو زبان اوراردو والوں ک وں ماری سماجی نفسیات کا حص� ےمحاوروں میں اس طرح آیا جیس و ے ۔ ہ ہ ہ ہ ے ہے

ہے۔دائر وفکر وخیال کی وسعت کا پت چلتا ہ ہونا، لکیرپٹنا، لکیرکھینچنا۱۸) ونا، لکیر کا فقیر ۔( لکیرپر فقیر ہ ہ

ت م ن ب وسکتا ٹیڑھا بھی مختصربھی اور طویل بھی اس س یں خط سیدھا بھی ت ہ’’لکیر ‘‘خط یا الئن کو ک ے ہ ے ہے ہ ہ ے ہ

وائی بھی )ائرالئن( خطو ط فکر نی )ریلو الئن( بھی اورخطو ط| wن میں خطو ط کی آ یں ا ہےس تصورات لئ ہ ہے ے ہ ہ ے ے

یں ی کو گتن بھی یں ان ۔بھی یعنی سوچ کا انداز بچ لکیریں کھینچت ہ ے ہ ہ ے ے ۔ ہےیں ت یں اب انسان اگر ایک بات پرجم جاتا تواس لکیر کا فقیر ک wن ک بعض کھیل بھی لکیروں س متعلق ہا ے ہ ے ہے ہ ے ے

یں کیا جبک زندگی بدلتی زمان بدلتا ی ن وکر سوچنا گوارا ہےیعنی ایک مرتب جو کچھ سوچ لیا اس س الگ ہ ہے ہ ہ ہ ہ ے ہ

و کرر جائ توبدلت ی بند کرد اورلکیر کا فقیر یں اگرانسان سوچنا یں اورسواال ت بدلت ےحاالت وخیاالت بدلت ے ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ے

وگا و لکیر پیٹتا ر جائ گا |س کا حشر کیا ۔وئ سماج اورماحول میں ا ے ہ ہ ہ ے ہ( للوپتوکرنا۱۹)

ت عامیان سطح پر اس میں و زبان استعمال کی گئی جواب محاوروں میں تور اتی انداز کا محاور اورب ہی دی ہے۔ ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ

ج اس س پت یں خوشامدان زبان ول یں اورلل�وپٹوک معنی ت ری زبان س نکل گئی للو زبان کوک ہگئی لیکن ش ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ

محاور یں یں اوراس عام زبان کا حص� بنادیت ت نچلی سطح کو بھی چھوت مار محاور زبان کی ب ےچال ک ۔ ہ ے ہ ے ۔ ہ ے ہ ے ے ہ ہ

ت س ماری زبان ک ب wس میں میت اورا ماری زبان ک لی بڑی ا ےکی ہ ے ہ ہے ہ ے ے یںShatesہ وجات ۔ محفوظ ہ ے ہ۔( لمب سانس بھرنا۲۰) ے

یں اس سلسل کا ایک ت ر سانس لیتا تواس لمب لمب سانس لینا ک ر گ ہجب ’’آدمی دکھ‘‘ ک عالم میں گ ہ ے ہ ے ے ے ہے ے ہ ے ہ ے

ماری عوامی یں جو لو ت س ایس پ ہاورمحاور لمب پڑنا بھی یعنی چل جانا تشبی استعار مجاز اورکنای ک ب ہ ہ ے ے ہ ے ہ ہ ہہ ے ہے ے ہ

وتا ک زبان چا شاعری اورانشاء یں میں احساس بھی ن wن کا یں اورا ہےزبان میں محاور ک وسیل س آگئ ہ ہ ہ ہ ہ ے ے ے ے ے

تا ئ عامیان محاوروں میں آئ اس کا اپنا جنس برابر کام کرتا ر وناچا ہے۔پردازی کی اعلی� سطح پر استعمال ہ ے ہ ے ہ ہ۔( لنگوٹی میں پھاگ کھیلنا۲۱)

اں تک وت تھ ی یں اں تک ک ان لوگوں ک پاس سترپوشی ک لئ کپڑ بھی ن ا ی ت غریب ملک ر ہندوستان ب ے ے ہ ہ ے ے ے ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ

مار ملک والوں میں یں اس پر بھی وتا جس س و اپنی سترپوشی کرت ےک لنگوٹی و چھوٹ سا چھوٹا کپڑا ہ ہ ے ہ ے ہے ہ ے ہ ہ

ہےایک رجحان ی پایا جاتا یں اسی موقع پر سماج کا ی ہ ہک و جب بھی موقع آتا اپنی حیثیت س زیاد خرچ کرت ہ ے ہ ے ہے ہ ہ

ائی غریبی میں یں ’’پھاگ کھلنا‘‘’’رنگ رلیاں‘‘ مناتا یعنی انت ہطنز سامن آتا ک و جو لنگوٹی میں پھاگ کھیلت ہے ہ ے ہ ہ ہے ے

اںتک ک قرض ل لیں ی رنگ رلیاں منائیں اورخرچ اخراجات کا خیال ن کریں ی تا و من چا wن کا جی چا ۔بھی ا ے ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہ

۔دوسروںس مانگ لیں ے۔( ل-ول-وبنانا۲۲)

نسی مذاق میں بھی اور طعن اور تضحیک میں بھی وتا اور اں ناموں کو بگاڑا جاتا ی الڈوپیار میں بھی ہمار ی ہ ہے ہ ہ ہے ہ ے ہ

یں احمق بیوقوف اب کسی کو wس ک معنی ی نام الل س اللوبنااوراللو کو’’للو ‘‘لولو کردیا ا ۔’’لولو‘‘ ایک ایسا ہ ے ے ہے ہ

رکر یں جوی ظا نسی مذاق میں اس ک ساتھ و سلوک کرت یں یعنی wڑان کی غرض س لولو بنات ےم مذاق ا ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ے ے ے ہ

ار اوراس میں غیرسنجید ت احمق اس اعتبارس ی محاور سماج ک ایک روی کا اظ ہک ی آدمی توب ہے ہ ہ ے ہ ہ ے ہے ہ ہ ہ

ہے۔اورغیرمخلصان طریق عمل کی طرف اشار ہ ہ  ہ

وجانا۲۳) ا الٹھ ۔( لو ہ ہلی میں لو کی ایک الٹھ بھی ی ایک تاریخی حقیقت ایک اس س عوام س اورخاص طور وجانا د ت سخت ےب ے ہے ہ ہے ہے ہ ہ ہ

ی ت ی سخت جب کوئی چیز ب ت یں ب وجان ک لی ک عوام ن ایک نئ معنی نکال لئ اورو سخت ہپر د ہ ہ ہ ہ ے ے ہ ہ ے ے ے ے ہ

لی وال یں د ت یں الٹھ مینار کی شکل جیسی کسی ش کو ک ت وجانا ک ا الٹھ وجاتی تواس لو ےسخت ہ ہ ے ہ ے ۔ ہ ے ہ ہ ہ ے ہے ہ

یں ت ۔قطب مینار کو قطب کی الٹھ ک ہ ے ہ۔( لو ک چن چبانا۲۴) ے ے ہے

وتی ی وتا جس کو کرن میں تکلیف زیاد ی ت سخت اورمشکل کام کرنا چن چبانا بھی ایک مشکل کام ہب ہ ہ ے ہے ہ ہ ے ہ

مار معاشر کا گویا ایک عام تجرب اس کو مبالغ ک طرز پر آگ بڑھایا بلک غلوکاانداز ہاورراحت برائ نام ی ے ے ہ ہے ہ ے ے ہ ہ ے

ی جولو ک کام ونا چا wن لوگوں میں زیاد رائج ر ک ی محاور ا اب ی ظا ےپیدا کردیا ک ی تولو ک چن چبانا ہے ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہے۔ ے ے ہے ہ ہ

Page 196: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

تھیاروں اوزاروں س زیاد واسط رکھت تھ ے۔اور اس ک ے ہ ہ ے ہ ے۔(لو کی چھاتی اورپتھرکا جگرکرلینا۲۵) ہے

یںپتھربھی م استعاراتی انداز ک سکت wس اں تک بطور| تشبی آیا ا ت بڑی آزمائش س گذرنا ، چھاتی یاسین ی ہب ے ہہ ہ ے ہے ہہ ہ ہ ے ہ

ت بری بات کو ی حال لو کا ک و سخت بھی اوربھاری بھی جب کسی ب وتا ی وتا اورب حس ہسخت ہے۔ ہ ہ ہے ہے ہ ہے ہ ے ہے ہ

وگا جوب حد ضبط ی آدمی یں کرسکتا کوئی خاص رنیچر کا آدمی ن ر ک وتا اس ک لئ ظا ےبرداشت کرنا ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہ ے ے ہے ہ

ی برداشت کرسکتا وو ہے۔اورحدس زیاد صبر رکھتا ہ ہ ہ ےوسین ایک کرنا۲۶) وپانی ایک کرنا، یا ل ۔( ل ہ ہ ہ

یں ک ت wٹھانا اورتکلیفیں برداشت کرک کسی کام کو انجام دینا اسی لئ ک ر بھر محنت کرنا زحمت ا ہی بھی ہ ے ہ ے ہے ے ہ ہ

ت کم قیمت چیز wس ک مقابل میں پانی یا پسین ب و ب حد قیمتی ش اورا وپسین ایک کردیا ل ہےاس ن تول ہ ہ ہ ے ہے ے ے ہ ۔ ہ ہ ے

و پانی کرنا و پسین ایک کردیا اسی کو ل یں رکھی ل ہمگراس ن محنت ومشقت برداشت کرن میں کوئی کسراٹھان ہ ہ ۔ ہ ے ے

یں ت ۔ک ہ ے ہوجانا۲۷) و خشک ۔(ل ہ ہ

یں ت وناک وخشک wس حالت کو ل شت یا شدید نقصان ک خیال س آدمی سکت میں آجاتا ا ہجب خوف ود ے ہ ہ ہ ہے ہ ے ے ہ

و سفید یں اس ک مقابل میں جوایک نفسیاتی تجرب یا تجزی ل ون ا جاتا ک کاٹو توبدن میں ل ہاوراسی ک لئ ک ہے ہ ہ ہ ے ۔ ہ ہ ہ ہے ہ ے ے

ونا ایک سماجی روی پر تبصر اوری عام طورس اپنوں کی ب مروتی اورب تعلقی کی شکایت ےونا خون سفید ے ے ہ ہے ہ ہ ہ ہ

وگیا یعنی کسی کو کسی س کوئی جذباتی تعلق یا ویا خون سفید ا جاتا ک آج کل توعزیزوں کا ل ےوتی اورک ہے ہ ہ ہ ہے ہ ہے ہ

ا یں ر ۔خلوص| خاطر ن ہ ہوتا اوراس پر ایک طرح ہےی محاور شاعران انداز رکھتا لیکن اس میں آپسی تعلقات میں ب مروتی روی کا تذکر ہ ہ ہ ے ہے ہ ہ ہ

ہے۔کا طنزی تبصر ہ ہونا۲۸) و کا پیاسایاخون کا پیاسا ۔( ل ہ سہ

یں ک دشمنی میں کسی ن مقتول آدمی کا جگر چبالیایامخالف کوقتل ےم تاریخ میں اس طرح ک واقعات پڑھت ہ ہ ے ے ہ

ہےکرک اس کا خون پی لیا اسی پس منظر میں ی محاور سامن آیا ک و تواس ک خون کا پیاسا جوبھی جانی ے ہ ہ ے ہ ہ ۔ ے

یں ترکوں اور’’تاتاریوں‘‘ کی خون آشامیوں کا ی حال تھا ک و اپن گھوڑوں ت وتا اس خون کا پیاسا ک ےدشمن ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ہے ہ

ون گاف کرک ان کا اپنی پیاس بجھان ک لئ خون پی لیت تھ ی بھی خون کا پیاسا ےکی گردن کی رگ میں ش| ہ ہ ے ے ے ے ے ے

ونا بھی یں ان میں خون کا پیاسا وگئ ہے۔کی ایک صورت محاورات میں تاریخ ک جوروی محفوظ ہ ہ ے ہ ہ ے ہےو کا جوش مارنا۲۹) و ک س گھونٹ پینا، ل و کا جوش، ل ۔( ل ہ ے ے ہ ہ

wس کویادکرنا خون کا جوش مارنا تمام ان طورپر ملنا یا ا ہےکسی س تعلق خاطراور اپنائیت ک جذب ک تحت وال ہ ہ ے ہ ے ے

م اورمضبوط خیال کیا جاتا اسی لئ خون کا جوش مارنا محاور بن گیا ۔رشتوں میں خون کا رشت زیاد ا ہ ے ہے ہ ہ ہوں وں دیکھتا و ک س گھونٹ پینا یا دین وال روی کو برداشت کرنا ک میں ی سنتا |س ک مقابل میں ل ہا ہ ہ ہ ہے ہ ے ے ے ے ہ ہ ے

مار جوحسیاتی اورجذباتی وتا محاور میں ایت مجبوری کا عالم وں جوایک ن ےاورخون ک س گھونٹ پیتا ہ ے ہے ہ ہ ہ ے ے

یں ی محاور اسی کی یں توعجیب عجیب صورتیں سامن آتی م ان کا تجزی کرت یں اورپھر وت ےتجرب شامل ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہ

یں ۔طر ف اشار کرت ہ ے ہونا۳۰) یدوں میں داخل و لگاک ش ۔( ل ہ ہ ے ہ

|س طرح کی کرت ت لیکن ایکٹنگ ا یں چا ےی سماج ک اس روی پر ایک تنقید ک عام طورس لوگ کچھ کرنا ن ے ہ ہ ے ہ ہے ہ ے ہ

ونا یدوں میں داخل ولگاک ش ی ک انگلی کٹاک یا ل ت کچھ کیا ی وںن ب یں ک ان ہیںاور دعوی� داراس امر ک بنت ہ ے ہ ے ہ ہ ہے ہ ے ہ ہ ہ ے ے ہ

وا ک برائ نام کچھ کیا جائ اوراس کاپورا کریڈٹ لیا جائ ے۔محاور پیدا ے ے ہ ہے ہ  ہ

ان ک ذریع فریب دھوک اوردکھاوٹ کا روی یںجس کوکنڈم کیا جانا چا ک ت سی روشیں ایسی ہمار سماج کی ب ہ ہ ے ہ ہے ہ ہ ے ہ

را طنز و اسی معاشرتی سچائی کی طرف اشار کرتا |س محاور میں جوگ ہے۔بنتا اوراقلیت کمزور پڑجاتی ا ہ ہ ہے ہ ے ہے ہے ( لیک پیٹنا۳۱)

ولکیر پیٹنا ۔مالحظ ہ ہ۔( لیکھا ڈیوڑھا برابرکرنا یا لیکھا جوھکا برابرکرنا۳۲)

ت کچھ کرک معامل کو برابرکردین کی ی کو تصویر کشی ک لوگ باتیں بناکرتھوڑا ب ےاصل میںی بھی سماجی روی ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ

وتا ک ایک محاور ایک زیاد ’’ لیکھا جوکھا برابرکردیا‘‘ محاور ایسا بھی وتا ہکوشش ک لئ ی محاور استعمال ہ ہ ہے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے ے

Page 197: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

|س محاور ک یں ا لو ابھرآت وتا اورعالقائی یاطبقاتی طورپر اس ک استعمال پر نئ پ ےمعنی میں استعمال ے ہ ے ہ ے ے ہے ہ

ی صورت ہے۔ساتھ بھی ی ہ۔( لین ک دین پڑنا۳۳) ے ے ے

وتا اں کچھ لین اورکریڈٹ پان کا موقع وجاتی اورج wس کی کچھ اور |حال ا وجاتا توصورت ہجب معامل کچھ گڑبڑ ے ے ہ ہے ہ ہے ہ ہ

یں ت اں اپن پاس س دین اورنقصان اٹھان کی صورت پیش آتی اسی کو لین ک دین پڑجانا ک ۔ و ہ ے ہ ے ے ے ہے ے ے ے ے ہ ہے

‘‘ م ’’ ردیف 

ماتھارگڑنا، ماتھا مارنا( ۱)اس لئ ک ماتھا پیشانی ک معنی میں آتا ار عاجزی کرنا ہےماتھارگڑنا اظ ے ہ ے ۔ ہ

ار عاجزی ک ےاورپیشانی جھwکانا زمین پر ٹیکنا ‘خاک پر ملنا یا چوکھٹ پر رگڑنا اظ ہہے۔لئ ایک عالمتی عمل ک طورپر آتا ے ے

۔ماتھا ٹھنکنا( ۲)وتا ونا جوگویا سماجی شعورکا نتیج ل کسی خطر یاکسی بات کا انداز ہےپ ہ ہ ہ ہ ے ے ہ

وا تھا ک ی ٹھنکا تھا اورایسا احساس ل ا جاتا ک میراماتھا پ wس ک لئ ک ہاورا ہ ۔ ہ ے ہ ہ ہے ہ ے ےو نیواال ہے۔ایسا کچھ ہ

۔مارا مارا یامار مار پھرنا( ۳) ے ےہکسی کی تالش جستجو یا کسی کام کی غرض س پریشان پھرنا ک کسی طرح ی ہ ے

ت دنوں ا جاتا ک و اس کی تالش میں ب وجائ اوربات بن جائ اسی لئ ک ہکام ہ ہ ہے ہ ے ے ے ہ۔تک مارا مارا پھرا

۔مارت مارت گٹھر کردینا( ۴) ے ےت رواج جس س معاشر کی شدت پسندی کی اں جسمانی سزا کا ب ےمار ے ہے ہ ہ ے ہک جس میں آدمی دوسر کو اس بری طرح مارتا ک اس کا وتا ہطرف اشار ہے ے ہ ہے۔ ہ ہ

وتا اپن آپ کو سمیٹتا ک ہسارا وجود ایک گٹھری کی طرح سمٹ کر مجبور ہے ے ہے ہوجائ ے۔شاید اسی طرح کچھ بچاؤ ہ

۔ماں کا د-ودھ( ۵)ہےمار معاشر میں دwودھ کو جوماں پالتی اوالد پرایک بڑا حق تصورکیا جاتا ہے ے ے ہاں یں دwودھ پالئیاں رئیسوں ک ی وتی ن ہاس لئ ک اس کی کوئی اورقیمت تو ے ہ ہ ہ ے

وتا تھا جوان ک دودھ میں ت بڑا حق ےرکھی جاتی تھیں توان کا بھی اس بچ پر ب ہ ہ ہا جاتا ک ماں س دودھ بخشوالو یا ی ک اگرتم وتا تھا اسی لئ اب تک ک ہشریک ہ ے ہ ہے ہ ے ہ

مار وتا ک اس س معلوم یں بخشوں گی ےن ایسا ن کیا تومیں دودھ ن ہ ہ ہے ہ ے ۔ ہ ہ ےت تا اوراس میں دwودھ کا حق ب ت واضح ر ہسماجی رشتوں میں حق کا تصور ب ہے ہ ہ

ہےبڑی بات سمجھی جاتی اوری خیال کیا جاتا ک ماں ک قدموں میںجنت ے ہ ہے ہ ہےی اوراس ی ایک یں ماتا ک چرنوں میں سورگ جنت بات ی ت ندوک ہےاور ہ ہے ہ ہے ہے ے ہ ے ہ ہمار معاشر میں روایتی طورپر ماں کو کتنا بڑا درج دیا جاتا وتا ک ر ہس ظا ے ے ہ ہ ہے ہ ہ ے

ہے۔وتا( ۶) یں ۔ماں ک پیٹ س لیکر کوئی پیدا ن ہ ہ ے ے

’’ ع|لم‘‘ ایک اس حاصل کرنی پڑتی یں ملتی رچیز پیدائشی طورپر ن ہےانسان کو ے ۔ ہ ہنرمندی اورفنکاری بھی کسی کو ی ش ہایسی ہے ے مBy birthہ یں آتی اس س ہن ے ہ

ت سی باتوں ک یں ک آدمی کو سماجی زندگی میں ب ےی بھی سمجھ سکت ہ ہ ہ ے ہ

Page 198: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یں مل د کرنا پڑتا ساری اچھائیاں قدرت کی طرف س ن ہحصول ک لئ جدوج ے ہے ہ ے ے۔جاتیں

۔( مال ا-ڑانا یا مارنا۷)میت رکھتی wن س اشار ملتا ک جوچیز زندگی میں جتنی ا یں اس امر کی طرف ا ت سار محاور ہےمال پرب ہ ہ ہے ہ ے ہ ے ے ہ

ونا مال بامعنی ش بھی آتا ذوق کا مصرع wڑانا، مال حاصل کرنا، ماال مال l مال ا ی اس کا ذکر آتا مثال ۔اتنا ہے ہ ہے ے ہ ہے ہیں مwفلس ک غرض مال کا قول ےسب گھٹادیت ہ ے

ونا مال ت سا مال ونا یعنی ب ونا مال کی گٹھری اتھ آنا یا دولت حاصل ۔فریب اوردغابازی س مال ل لینا مال ہ ہ ہ ہ ہ ے ے

یں ی محاور بھی اسی ذیل میں آت یں اں ’’پاس‘‘ یا نزدیک ک ‘‘ ک معنی ی �� ت ’’پل ‘‘ ب �� ۔اس ک ’’پل ہ ے ے ہ ۔ ہ ے ہ ے ے ہے ہ ے ے۔( مٹرگشت کرنا۸)

یں ک و ت ہب تکلفی س ملن مالن یا کسی جگ کی سیر کرن ک لئ گھومن پھرن کو مٹرگشت کرنا ک ہ ہ ے ہ ے ے ے ے ے ہ ے ے ے ے

لوؤں پربھی نظر رکھی وتا ک محاورات میں بعض ایس پ یں اس س واضح ی مٹرگشت ک لئ نکل جات ہتویون ے ہ ہے ہ ے ہ ے ے ے ہ

یں مٹر گشت کرنا اسی ذیل وت مار معاشر میں قابل توج یں محاورات میں سمویا جاتا جو ہجاتی اوران ے ہ ہ ے ے ہ ہے ہ ہے

ہے۔میں آتا اورایک اچھا خوبصورت محاور ہ ہے ( مٹی خراب کرنا ، مٹی ڈالنا، مٹی ڈالوانا ، مٹی عزیز کرنا ، مٹی پلید کرنا،مٹی میں م�ٹی یا۹)

۔ماٹی میںماٹی ملنا ماری ی یں ک و وت ت س حوال زمین اورمٹی س وابست نی اورزمانی وفاداریوں س متعلق ب ہماری زندگی ذ ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہ

یں اورخاک س بھی ایس بچوں م مٹی س تعبیر کرت ی کو ت بڑی ماد�ی حقیقت اورزمین ےزندگی کی ایک ب ے ہ ے ے ہ ہ ہے ہ

وجانا جب کوئی چیز وجانا گویا مٹی ک برابر یں م|ٹی ت ت موئی مٹی کی نشانی ک یں ر ہےکو جن ک ماں باپ ن ہ ے ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ے

ش یں کسی کوشش خوا ت وجانا ک wس مٹی ائی عاجزی اختیار کر توا وجائ یا انت ہقیمت س ب قیمت ہ ے ہ ہ ے ے ہ ے ہ ے ے

یں ک و سب ت وجانا یا مٹی میں مل جانا م|ٹی مل جانا موت آن کو بھی ک ونا بھی مٹی ہاورسعی تدبیر کاناکام ہ ہ ے ہ ے ہے ہ ہ

wن کا کیا ذکر ۔مرگل گئ مٹی میں م|ل گئ اب ا ے ےوئی ت مٹی پلید اں ان کی ب یں و ت ونا ک ون کو مٹی پلید یں اورذلیل ت ونا یاکرنا ذلیل کرن کوک ہمٹی پلید ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ے ہ

ونا پڑا ۔یعنی ذلیل ہا جاتا وتا تواس کی زندگی کی مشکالت اورتکلیفوں کو دیکھ کری ک وتا اوربیمار ت مصیبت میں ہےجب آدمی ب ہ ہ ہے ہ ہے ہ ہ

ے۔ک الل ان کی مٹی عزیز کرل یعنی ان کی مشکل آسان کرد ے۔ ہ ہیں ونیوالی قبرمیں مٹی ڈالت ہمٹی دینا دفن کرن ک بعد مسلمانوں میں ی رواج ک سب مٹھیاں بھربھر کرتیا ر ے ہ ہ ہے ہ ے ے

یں مٹی کی ت یں نشان قبرکو باقی رکھن ک لئ کچھ لوگ قبروں پر مٹی ڈلوات ر ت ہاسی کو مٹی دینا ک ے ہ ے ے ے ے ہ ے ہ

وتا اردو کا ایک مصرع یں انسان دفن وتی و اں کی مٹی ہے۔کشش کا تصوربھی موجود ک ج ہ ہے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہےاں کا خمیرتھا یں پ خاک ج نچی و ہ پ ہ ہ ہ

وم میں آتا ہے۔مٹی میں مٹی ماٹی میں ماٹی ملنا بھی اسی مف ہ۔( مٹی کا مادھو۱۰)

یں جو بھی کا م کرتا بیوقوفوں یں ک و توبالکل مٹی کا مادھو یعنی اس بالکل عقل ن ت ہےبیوقوف آدمی کوک ہے ہ ے ہے ہ ہ ہ ے ہ

ہے۔کی طرح کرتا ۔( مٹی ک مول بیچ ڈالنا۱۱) ے

ی کم قیمت پربیچ ڈالن ت وگیا مٹی ک مول بکنا یا بیچنا ب ےمٹی میں مٹی مل گئی آدمی خاک تھا اورخاک کا حص ہ ہ ے ہ ہ

ت wٹھانا ک التا جناز اٹھان کو مٹی ا مرد ک کفن دفن کا انتظام کرنا مٹی سنگوانا ک یں م|ٹی سنگوانا ت ےکو ک ہ ے ہ ہے ہ ے ے ۔ ہ ے ہ

wس کو عاشقی کی باتیں یں ک و گل وبلبل کی شاعری اورا ت wردو پر اعتراض کرینوال ی تو ک ہےیں عام طور پر ا ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہ

اں کی عوامی اورعمومی ہیں اگراردو کو اس ک محاوروں اوراس ک روزمر ک اعتبار س دیکھا جائ توو یقینا ی ہ ے ے ے ہ ے ے ہ

ی س آیا ر عام زبان wس ک لفظوں کا ذخ ہے۔زبان اورا ے ہ ہ رے ے ہے۔( مجذوب کی بPڑ۱۲)

’’ مجذوب‘‘ کسی ایس شخص کو التا wلٹی سیدھی بکواس کرنا ب معنی اورالیعنی باتیں کرنا مجذوب کی بڑک ےا ہے ہ ے

نگم پن کی باتیں کرتا ی آدمی ب تکی اورب و ایسا وش وحواس میں خلل پڑگیا یں جس ک ت ہے۔ک ہ ے ے ہ ہ ہ ے ہ ے ہ

Page 199: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

۔( م-جرا کرنا۱۳)اں مارا بھی سالم مجرا طوائفوں ک ی یں ک ان س ت ہ’’مwجرا ‘‘ بامعنی سالم آتا اسی لئ عام زبان میں ک ے ہے ہ ے ہ ہ ے ہ ے ہے

اں مجرا اس کا مطلب ک رقص وسرود کی محفل یں یعنی آج ان ک ی ت ہےمجرا رقص کی محفل کو ک ہ ہے ہے ہ ے ہ ے ہ

|س یں ی محاور بھی ا ت یں اورلکھنؤ وال سالم پیش کرن کو مجرا بجاال نا ک ت ہدرباری سالم کو بھی مجرا ک ہ ہ ے ہ ے ے ہ ے ہ

ی کرتا وں کی نشاند ذیبی رو مار ت ہے۔اعتبار س ہ رے ہ ے ہ ے( مرچیں لگنا، مرچیں سی لگ جانا۱۴)

وو سامن آجائ تواس کو وئی ونا اوربات بھی و جس میں اس کی اپنی کوئی کمزوری چھwپی ےکسی بات پر خفا ے ہ ہ ہ ہ ہ

یں ک میری بات س اس ک کیس مرچیں لگیں ی سماج کا ایک تبصر ک سچی بات کوئی سننا ت ہمرچیں لگنا ک ہے ہ ہ ے ے ے ہ ہ ے ہ

تا یں چا ۔ن ہ ہہ( مPرد کی صورت ن دیکھنا۱۵)

اں یں دیکھی ی ا جاتا ک اس ن مرد کی صورت بھی ن وتی اس ک لئ ک ائی پاکیز کردار ہجوعورت یا لڑکی انت ہ ے ہ ہے ہ ے ے ہے ہ ہ ہ

یں وت و ورن مرد توماں باپ بھی ۔مرد س مراد و شخص جس س جنس وجذب کا کوئی تعلق ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ہے ہ ےڈیاں اکھیڑنا یا گڑ مرد اکھیڑنا۱۶) ردوں کی ے( م- ے ہ

یں دعا درود س یا دکرنا بھی اوربعض ایس ا اس میں ان ذیبی روی ر مارا جوت ےمرن والوں س متعلق ہے ے ہ ہے ہ ہ ہ ہ ے ے

l ایسی باتوں کو یاد کرنا یں مثال ی کرت مار سماجی رویوں کی نشاند یں جو ہمحاور بھی مردوں س متعلق ے ہ ے ہ ہ ے ے

ا جاتا وں گڑھ مwرد اکھاڑنا ک لو موجود wرائی ک پ ہے۔جن میں ب ہ ے ے ہ ہ ےwن باتوں کو بھwال یں ک ا یں کرپات اسی لئ ی سوچت م اپنی معاشرتی کمزوریوں کا کوئی عالج تالش ن |س لئ ک ہا ہ ے ہ ے ے ہ ہ ہ ے

ا جاتا ک و گڑ مwرد اکھیڑتا یا wن کا کوئی ذکر کرتا توی ک wن پر خاک ڈالدی جائ اوراگر ا ہےدیا جائ اورا ے ے ہ ہ ہے ہ ہ ہے ے ے

وتا ک خوامخوا کی باتیں ن کی جائیں یا پھرتکلیف دین والی باتوں کو یادن ڈیاں اکھیڑتا مقصد ی ہمwردوں کی ے ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہے ہ

یں ماری سماجی زندگی کا عمل اوررد| عمل دونوں سامن آت ۔کیا جائ ان محاورات س ہ ے ے ہ ے ے۔۔( م-رد کا مال۱۷) ے

wس کی زمین وجائداد کو کسی ن کسی م مwرد کا مال کوا ی گھ|ناونا عمل ی ک ت ہمار سماجی عمل کا ایک ب ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ

یں wن ک مال س محروم کردیت یں اورجوقوم فریب ودغا دھوک یا زبردستی کرک زندوں کو ا ان لوٹ لیت ہب ے ے ے ے ہ ہ ے ہ ہ

ی یں ی یں بیو کا حق چھین لیت وگا اسی لئ لوگ یتیموں کا مال کھا جات مارا سلوک کیا ہتومwردوں ک ساتھ ہ ے ہ ہ ے ے ہ ہ ے

یں ک کیا مwرد کا مال ت التا اورجب کوئی آدمی ’’دیکھتی آنکھوں‘‘ بددیا نتی کرتا تودوسر ک ےمwرد کا مال ک ہ ہ ے ہ ے ہے ہے ہ ے

ہے۔سمجھ رکھا ۔مرزا پھویا( ۱۸)

ت نازک مزاج ہجوبچ اپن ماں باپ یا بڑوں ک الڈ پیار اور ناز برداری کی وج س ب ے ہ ے ے ہت یں یعنی روئی کا ب ت یں ان کو مرزا پھویا ک وجات ہاور تحریر یا نازک مزاج ہ ے ہ ہ ے ہ

ہے۔ی چھوٹا سا اورنازک ساپھویا ایسا پھویا جس عطرس بسایا جاتا ے ے ہwری بات مار معاشر میں غیرضروری نزاکت نازک مزاجی ب ےسماجی طورپر ے ہےسمجھی جاتی اوراسی پرایک طنز اوراس دورکی یادگار جب رئیسوں ک ہے ہے ہے

یں ی ن ۔بچ ناز نخر ک عالو کچھ جانت ہ ہ ے ہ ے ے ہ۔م-رم-روں کا تھیال( ۱۹)

لکا قریب ت وتا ب وا ایک آئیٹم ہمwرمwر کھیلوں کی طرح چاول س تیا رکیا ہ ہے ہ ہ ے ےوتا ت بڑا ہےقریب ب وزن اب اگرمwرمwر ایک تھیل میں بھرلئ جائیں تو تھیال ب ہ ہ ے ے ے ے

ر موٹا تاز اوربھاری بھرکم وتا و آدمی جوبظا یں |س میں وزن کچھ بھی ن ہمگر ا ہ ہ ہ ہیں ت wس مwرمwروں کا تھیال ک ۔وتا ا ہ ے ہ ے ہے ہ

وتی( ۲۰) یں ۔مرن کی فرصت ن ہ ہ ےوتی مگر آدمی اپن لئ کوئی یں ےموت ک لئ فرصت وفراغت کی کوئی شرط ن ے ہ ہ ے ے

وتا wسی ک لئ قابل| قبول ان بھی ایسا جوا ی لیتا اورب ان تالش کر ہےن کوئی ب ہ ے ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ

Page 200: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ان بھی ک مرن کی بھی انوں میں س ی ب ی ب یں ایس ےکسی دوسر ک لئ ن ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ے ے ےوں وا ت ضروری کسی کام میں لگا وتا ک میں ب ر ی کرنا یں ظا ہفرصت ن ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ

وں اس وقت تواگر فرشت موت آجائ تواس س بھی تا ےاوراس کو پورا کرلینا چا ے ۂ ہ ہوں تا |س وقت میں جینا چا یں ا ہمعذرت کرلوں گا ک فی الوقت مجھ فرصت ن ہ ہے ہ ے ہ

یں وں مجھ مرن کی بھی فرصت ن تا ۔اپنا کام سمٹانا چا ہ ے ے ہ ہ۔مسجد میں اینٹ الٹ کررکھنا( ۲۱)

یں ک مسجد ک احترام میں یا |س ک معنی ی ےمسلمان عورتوں کا محاور اورا ہ ہ ہ ے ہے ہwس |س لئ ک ا ی ا یں برتنی چا ی یا بدیانتی ن wس ک کام میں کوئی بھی ب توج ہا ے ے ہ ہ ہ ے ےوت ر وتی مطلب ک سماج میں کچھ لوگ ایس بھی ت شدید ہےکی سز ا ب ے ہ ے ہ ہے ہے ہ ہ

ی میں دیانتداران ر اسی پر ب ک کاموں میں مقدس فرائض کی انجام د ہےجو مذ ہ ہ ے ہم ل عورتوں میں توا ہی تنبی کی گئی ی الگ بات ک عورتوں میں خاص طورپرجا ہ ہ ہے ہ ہہ ہ

wن میں wسی ک رشت س اس طرح ک تصورات بھی ا وتی اورا ےپرستی زیاد ے ہ ے ہے ہ ہیں وت ۔زیاد ہ ے ہ ہ

وا ( ۲۲) ہے۔مشعل ک نیچ س نکال ہ ے ے ےنڈ یا بجلی ک ت دلچسپ جب تک گیس ک ےایک طرح س نیا محاور مگرب ے ہ ے ہے ہ ہے ہ ے

ی س کام لیا جاتا تھا wس وقت تک زیاد ترمشعلوں یں آت تھ ا ۔بلب ن ے ہ ہ ے ے ہوت تھ جو دوسروں کو روشنی د|کھالت ےاورجwلوسوں ک موقع پر مشعل بردار ے ے ہ ے

ی بات ک چراغ تل اندھیرا اس ت تھ ی بالکل و ےتھ لیکن خود اندھیروں میں ر ہ ہے ہ ہ ے ے ہ ے۔کا ی مطلب لیا جاسکتا ک زمان ک ساتھ گھوما پھرا اوتجرب کار ہے ہ ہے ے ے ہ ہے ہ

۔مشعل لیکر ڈھونڈھنا( ۲۳)ہےتالش اورتجسس س بھی روشنی وچراغ اورمشعل کا عملی اوراشاراتی رشت ہ ے

ا جاتا ک و اس کو تالش کرن ک لئ مشعل لیکر نکال اقبال ےاسی لئ ی بھی ک ے ے ہ ہ ہے ہ ہ ےور شعر اوراسی عمل کی طرف اشار ہے۔کا مش ہ ہے ہ

ے آئ عwشاق گئ وادائ مردا لیکر ے ےخ| زیبا لیکر wیں ڈھونڈ چراغ| ر ۔اب ان ہ

۔( م�صری کھالنا۲۴)l بھیجی بھی ےمصری خاص طرح کی مٹھائی برف جیسی شفاف ڈلیوں والی مٹھائی ی خوشی ک موقع پر رسما ہ ہے

مار ا جاتا میٹھائی کھالنا یا مٹھائی باٹنا ےجاتی اورکھ|الئی بھی جاتی اچھی باتوں کو مصری کی ڈلیاں بھی ک ہ ہے ہ ہے ہے

ار کرنا ہے۔معاشر میں خوشی کا اظ ہ ےوجانا۲۵) ۔( مطلع صاف ہ

یں آتا وتا توچاند نظر ن یں اگرمطلع غبار آلود یا ابرآلود ت اں چاند نظرآتا مطلع ک ہآسمان ک کنار کو ج ہے ہ ہ ے ہ ہے ہ ے ے

یں ک مطلع ت یں اسی لئ ک م نئ چاند کو صاف صاف دیکھ سکت ون کی صورت میں ہاورمطلع ک صاف ہ ے ہ ے ہ ے ے ہ ے ہ ے

ا جاتا وتا اورایس آدمی ک لئ ک یں ی محاور خاص طورپر بھی استعمال ہصاف غبار کا پرد یا ابرکا ٹکڑا ن ے ے ے ہے ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہے

ا جا تا ک یں اس ک لئ ک یں کرتا اوردماغ س سوچتا ن وتا جودل س محسوس ن یں ن میں کچھ ن ہ جس ک ذ ہ ے ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ے ہے

ن اں تومطلع صاف و بالکل خالی الذ ہے۔و ہ ہ ہے ہ۔( معرک کا آدمی۲۶) ے

التا یں کسی اور مقابل کو بھی اب جو آدمی مقابل کی سکت رکھتا و معرک آدمی ک ت ہےمعرک جنگ کو بھی ک ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ہ

وسکتا غیرمعمولی آدمی کو بھی معرک کا آدمی یں وگا و معمولی آدمی ن ر ک جو آدمی معرک کاآدمی ہاب ی ظا ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہ

ا جاتا ہے۔ک ہ

Page 201: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ہ۔( مغز کھانا، مغزچٹ کرجانا، مغز کو چڑھنا، مغزک کیڑ جھڑنا یا مغزکی کیل نکلنا وغیر۲۷) ے ےیں یں اوراپنی باتوں س دوسروں کو پریشان کرت وت اں بعض لوگ غیرضروری باتیں کرن ک عادی ہمار ی ے ے ہ ے ہ ے ے ہ ے ہ

wس محاور ک طورپر وتا ا وجاتی ی وقتی طورپر وجاتی یا ختم wن کی سوچ بچار کی قوت کم ےجس س ا ے ے ہے ہ ہ ہے ہ ہے ہ ے

یں جب کوئی دوا خوشبو یا بدبو ب طرح دماغ کو ت یں ک و توخوا مخوا مغز خالی کرنا یا مغز چٹ کرنا ک ت ےک ۔ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ

یں ت wس مغزکو چڑھنا ک ۔متاثر کرتی توا ہ ے ہ ے ہےwس ک دماغ میں توکیڑا کاٹتا اورجب ا جاتا ک ا wس ک لئ ک ہےجوآدمی الٹی سیدھی اورغلط سلط باتیں کرتا ا ے ہ ہے ہ ے ے ہے

wس ک غلط روی کو کنڈم کیا جاتا تواس دماغ wس کی احمقان باتو ںکو سامن الیا جاتا اورا ےکسی طریق س ا ہے ہ ے ہے ے ہ ے ہ

یں ت ۔ک کیڑ جھاڑنا یا جھڑنا ک ہ ے ہ ے ےیں ک اس ک مغز میں کیل ٹھونک دی ی ایک طرح کا استعاراتی انیاں ملتی ہماری داستانوں میں اس طرح کی ک ے ہ ہ ہ ہ

wسی کا رد|عمل کیل نکالنا ی دونوں یں ٹھوکتی مگر کیل دینا بھی ایک عمل اورا وتا مغز میںکبھی کیل ن ہبیان ہے ہے ہ ہے ہ

یں خ wماری سماجی فکروں کا ایک ر یں جو انیوں اورداستانوں میں سامن آنیوال عمل ۔ک ہ ہ ہ ے ے ہ۔( مالحظ کا آدمی مالحظ واال۲۸) ہ ہ

نا ہلحاظ ایک طرح کی روی کی خوبی ک آدمی ’’لحاظ پاس‘‘ رکھ یعنی معامل کرت وقت آدمی کو ی خیال ر ہ ے ہ ے ہ ہے ہ

م تا اسی لئ ی ک ی کون شخص کس مزا ج کا اورمعامالت میں کس طرح کی خوبصورتیاں برتنا چا ہچا ے ہے ہ ہے ہے ہ ہ ے ہ

ا جاتا ک اں تک ک ک یں ک و لحاظ پاس کاآدمی اس کی آنکھوں میں لحاظ ی ت ہایس لوگوں ک بار میں ک ہے ہ ہ ہ ہے ہے ہ ہ ہ ے ہ ے ے ے

wن کو بدلحاظ قرار دیا یں کرت ا wن باتوں کا لحاظ ن ی س مل سکتا اورجولوگ ا wدھارتولحاظ وال آدمی ےقرض ا ہ ہے ے ہ ے

مار سماجی رویوں کو یں اس معنی میں ی محاور wس کی آنکھ میں ذرا شرم لحاظ ن ا جاتا ک ا ےجاتا اورک ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہے ہ ہے

ہے۔ان کی نفسیات اورمعامالت ک ساتھ پیش کرتا ےوا۲۹) ۔( منجھدار میں پڑا ہ

ت دریا یا ندی کا ےمنجھدار ب اؤMainہ تا اوردریا ک چڑھاؤ اورپانی ک تیزب wرقوت انداز س ب وتا جوزیاد پ ہدھارا ے ے ہے ہ ے ہ ہے ہ

وتا ر نا مشکل ہے۔کی وج س جس میں ٹ ہ ہ ے یں پات اسی لئ منجھدار ہ ےاوراس س کشتی یا تیراک بھی اکثر گذرن ے ہ ے

اں ایک گیت ی ا جاتا wس منجھدار میں پھنسنا ک یں اوردوسر لفظوں میں ا ت ہمیں پڑنا مصیبت میں پڑن کوک ۔ ہے ہ ے ے ہ ے ہ ے

یں ۔ک بول پیش کئ جات ہ ے ے ے  نیا پٹری منجھدار ست

ےسگھیری کون لگائ پار۔( منکاڈھلنا یا ڈھلکنا۳۰)

ار سرگردن پر یں اوراسی ک س ت wس ’’منکا‘‘ ک روں کا سلسل ا ےسرس لیکر کمر تک گردن میں جوم ہ ے ہ ے ہ ے ہے ہ ہ ے

ا جائ ک اس یں ک موت کا ذکر کرن ک بجائ ی ک ہسنھلتا موت ک قریب ’’منکا‘‘ ڈھل جاتا اس ک معنی ی ے ہ ہ ے ے ے ہ ہ ہ ے ہے ے ہے

یں ت یںاورک ار عام لوگ کس طرح کی باتیں پسند کرت ہکا منکا ڈھل گیا اوری ایک طرح کا سماجی طرز اظ ے ہ ہ ے ہے ہ ہ ہے

یں ن وال یں ک سب سماج میں ر م ی سمجھ سکت ۔ک اس س ہ ے ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہ۔( مPن کا میال یا کھوٹا۳۱)

ویا مزاج کی خرابی اوردل کا کھوٹ آدمی کی طبعی یا ا جاتا اورطبیعت کا میل ہمن طبیعت دل اورمزاج کوک ہے ہ

ا جاتا wغزرکھنا ک ہے۔مزاجی کیفیت کی برائی کی طرف اشار کرتا اسی کو من میں بیروب ہ ہے ہوجانا۳۲) ۔( من ک چیت ہ ے ے

لی میں بوال جاتا اورپرانی دلی ک عالق میں اس سناجاسکتا مغربی یوپی میں بالکل ہےی محاور خاص د ے ہ ے ہے ہ ہ ہ

وجانا اس ک لئ من ک وجانا یا کوئی کامیابی حاصل ش ک مطابق کوئی کام وتا دل کی خوا یں ےاستعمال ن ے ے ہ ہ ے ہ ہ ہ

ا جاتا وجانا ک ہے۔چیت ہ ہ ے۔( منگنی دینا۳۳)

لی کا خاص محاور اوراس ک بجائ مانگ کی چیز مغربی یوپی l دیدینا ی د ےکوئی ش کسی ک مانگن پرعاریتا ے ے ہے ہ ہ ہ ے ے ے

وتا ہے۔میں استعمال ہ۔( من مارنا، من مارک بیٹھ جانا۳۴) ے

وتا ک التا ی مجبوری کا صبرکرنا نا من مارنا ک ون پر صبرکرک بیٹھ جانا یا بیٹھ ر ش پوری ن ہاپنی دلی خوا ہے ہ ہ ہے ہ ہ ے ے ہ ہ ہ

اس لئ آدمی اپنی مجبوریوں کو تسلیم کرلیتا سماجی نفسیات کو ایک یں سکتا وبھی ن تا مگرکچھ یں چا ہےجی تون ے ۔ ہ ہ ہ ہ

Page 202: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ہخاص ماحول میں کھول کر دیکھا جائ تو ی محاور جو ایک تصور بھی اور تصویر بھی ایک زند حقیقت کی ہے ہ ہ ے

تا نظر آتا ہے۔صورت میں سامن آتا اور انسان ی ک ہ ہ ہے  ے

ی ی س ی تول یون ۔ تری مرضی اگر یون ہ ہ ے ہ ہے۔( من اترجانا یا ذرا سا من نکل آنا۳۵) ہ ہ

ت یا محرومی برسن لگتی اسی ر اترجاتا اس پر کمزور ی نقا wس کا چ وتا توا ہےجب آدمی دwکھ س دوچار ے ہ ہے ہ ہ ہے ہ ے

وسکتا دوسر محاوروں کی یں ی کسی دکھ تکلیف ک باعث بھی ت ےکو ذرا سا من نکل آنا یا من اترجانا بھی ک ہے ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ہ

ن ک کیا یں ک بات ک م ی سمجھ سکت ار کا ایک حص یا انداز اور اس س ےطرح ی بھی سماجی طریق پر اظ ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہے ہ ہ ہ ہ

یں یں جو عام زبان میں برت جات ر ۔کیا طریق وسلیق ہ ہے ے ے ہ ہ ہوجانا، من بنوانا،۳۶) ہ( من آنا، من باندھ ک بیٹھنا، من بگاڑنا، من بگڑنا، من بنانا، من بندکرنا، من بند ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ

ن پر چڑھنا وغیر ہ۔من ڈھانپنا، من بھرانا، من بھردینا، من بوال، من بولی، من بولتی مورت ، م- ہ ہ ہ ہ ہ ہ ےمwن س ہ ہ

یں اس میں من چڑھنا من چڑھا یں جوسماجی رویوں اور معاشرتی نفسیات کوپیش کرت ت س محاور ہمتعلق ب ہ ہ ے ہ ے ے ہ

ونا ک و ناز نخر کرسک من آنا من کی ایک بیماری بھی اورخوا مخوا دوسر ت عزیز ےونا یعنی کسی ک لئ ب ہ ہ ہے ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ے ے ہ

یں ک و خوامخوا میر مwن آتا من کی کھانا بدترین شکست کو ت ہک مدمقابل آن کی کوشش بھی اسی لئ ک ہے ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ے ے

wردwوکا یں ا ت مwن ڈھانپنا، چھwپان کوبھی ک ارقبول کی سوائی ک ساتھ اپنی wن کی کھائی یعنی رwیں ک آخرم ت ہک ے ہ ے ہ ۔ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ

ور شعر ہے۔ایک مش ہے لحدمیں کیوں ن جاؤں من چھwپائ ہ ہ

وں ہبھری محفل س اٹھو ایا گیا ےیں سکتا حکم ک من ا میرا مwن زبردستی بند کردیا گیا اب میں کچھ ک بھی ن یں ر ہمیں من دکھان ک الئق ن ہ ہے ہ ہہ ہ ہ ہ ے ے ہ

ار|خیال بھی ن کرو من دیکھی بات یعنی سچ بات کسی ک من پر ن ک کرکوئی بھی ہہبندرکھو یعنی زبان مت کھولواظ ہ ہ ے ہ ہ ہ

وتا بات کو بدل دیت یں جیسا موقع یں ک و تومن دیکھ کی بات کرت ت ےجھوٹی سچی بات ک دینا اسی لئ ک ہے ہ ہ ے ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ہہ

ن من بوال بیٹا ی گویا محبت ک رشت پیدا کرتا یا محبت س کسی کو اپنابنانا من بولی مورت ایسی ہیں من بولی ب ے ہے ہ ے ہ ہ ہ ہ ۔ ہ

ویعنی ی وئی من س بول ر ہتصویر جو رکھی ہ ے ہ ہومwن دکھائی شادی کی ایک رسم جس مwن رونمائی Life Like ہ ے ہے ہ ہ

یں ن کا من دیکھن والیاں کوئی ن کوئی تحف یا روپی پیس پیش کرتی ل دل ل پ یں اورجس میں پ ت ۔بھی ک ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہ۔( من توڑجواب ،من توڑنا، من پھیالنا، من پسارنا۳۷) ہ ہ ہ ہ

ی بات کا رخ وجاتا توخود ہسخت جواب دینا، دلیلوں ک ساتھ جواب دینا آدمی دوسروں کی بات کو سنکر چپ ہے ہ ے

تا توپھر سخت جواب دین پربھی اور اگر بات کوٹالنا یا یں چا ےبدل دیتا لیکن اگر برداشت کرنا ن ہ ہ تا aviodہے ہےکرنا چا ہ

یں دراصل من ت ج میں اورجس انداز میں جواب دیتا اس کو من توڑجواب دینا ک وجاتا اورجس لب ول ہآماد ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ہے ہ ہ

ت ھیں ک اں ی بھی ک مار نچ گی اسی لئ �ڑیاایسی کوئی چیز مارنا جس س سخت ضرب پ ہتوڑنا من پرتھپ ے ہ ہ ہ ے ہ ے ۔ ے ہ ے ہے ہ

تا یا اس طرح پیش آتا تومیں اس کا من توڑدیتا من توڑجواب بھی اسی جذب کی ترجمانی کرتا ہے۔مجھ س ک ہ ہ ہ ہ ےاتھ ا جاتا ک ساری عمر توفالں ک سامن اتھ پسارنا اپن لئ کچھ مانگنا اسی لئ ک اں دامن پسارنا ہمار ے ے ہ ہے ہ ے ہے ے ے ہ ہ ے ہ

ا اردو کا مصرع اتھ پھیالر ا یعنی ہے۔پسارر ہ ہے ہ ہ ہے ہاتھ ن دامن پسارئی ے۔ پھیالئی ن ہ ہ ہ ے

wس ک مقابل ہمن پسارنا بھی اسی معنی میں آتا یعنی اپن لئ کچھ طلب کرنا اورعاجزی ک ساتھ طلب کرنا ا ے ے ے ے ہے ہ

wن کا من ار کرنا من چڑھنا بھی ناراضگی ک معنی میں آتا جیس ذراسی بات پرا ہمیں من پھیالنا ناخوشی کا اظ ے ہے ے ہ ہے ہ ہ

ہے۔چڑھ جاتا نا۳۸) ۔( من درمن ک ہ ہ ہ

مارا ونا بھی محاور نا اس سلسل میں من درمن نا ، صفائی س ک ہے۔ہکسی ک سامن ب جھجھک کوئی بات ک ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ے ے

یں اور اگر ایک یں عیب نکالت wرائیاں کرت یںب ت ت کچھ ک م پیٹھ پیچھ تو ب ہمعاشر کچھ اس طرح کا ک ے ہ ے ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ہے ہ

ار| خیال میں ن اور اظ ار ا لیا جائ تو کیڑ نکالت ھیں لیکن کسی ک مwن در من یعنی سامن کچھ ک ہمحاور کا س ے ہ ے ہ ہ ے ے ے ے ہ ہ

ی تمدنی روش سامن آتی ماری ی یں اس محاور میں ہے۔کترات اور گھبرات ے ہ ہ ہ ۔ ہ ے ے۔(من دیکھ کرر جانا۳۹) ہ ہ

وتا اورتمنا کی صورت میں بھی اردو کا شعر ہے۔ی حیرت کی صورت میں بھی ہے ہ ہ

Page 203: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ہ ذرا دیکھ ا محوآئین داری ےیں م دیکھت ہتجھ کس تمنا س ے ہ ے ے

۔من زوری کرنا ہالتا مگر من زورگھوڑا دوسری بات یعنی ایسا گھوڑا نا مwن زوری ک نا اورزور داری ک ساتھ ک ہےیعنی غلط باتیں ک ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ

یں ت وتا بدتمیز آدمی کو بھی من زور گھوڑا ک ۔جس کو لگام دینا مشکل ہ ے ہ ہ ہے ہن میں دانت ن پیٹ میں آنت۴۱) ۔( م- ہ ہ

ائی صورت| حال کی طرف اشار کرنیواال محاور یعنی جب کسی طرح طاقت باقی ن wڑھاپ کی انت ہضعیفی اور ب ۔ ہے ہ ہ ہ ے

|س میں بڑھاپا اور پایا ن| عwمر شریک ت ا یں ک وکیاسکتا ی محض کمزوری کون ی تواب ہے۔ر ے ہ ہ ہ ہے ہ ہنگھنیاں بھرجانا۴۲) ۔( من میں گھ- ہ

یں ا جاتا ک و تومن میں گھنگھیاں بھر بیٹھ اں بھی چپ ر اس ک لئ ک وو اں بات کرن کا موقع ہآدمی ج ے ے ہ ہ ہ ہے ہ ے ے ہے ہ ہ ے ہ

ا رمن اور ت ضروری عضو کھانا پینا وغیر غص اور پیار اپنائیت اورغیریت کا اظ مارا ب من یں یں ر ی ن ہاور بول ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ ۔ ہ ہے ہ ہ

میت بھی اگرآدمی بات ن کرسک تواس وتا اسی لئ من کی ایک سماجی اورمعاشرتی ا ی ک ذریع ےزبان ہ ہے۔ ہ ہ ے ہے ہ ہ ے ہ

یں من س م دیکھت یں وجاتی اس کا انداز کرنا کوئی مشکل بات ن ےکی سماجی حیثیت کس حدتک مجروح ہ ہ ے ہ ۔ ہ ہ ہے ہ

یں و آدمی بھی کیا جو ن من ن ک کتن رخ کو پیش کرت ماری معاشرتی زندگی اورسماجی ذ ہمتعلق محاور ہ ہ ہ ے ے ے ہ ہ ے

ے۔س بول ن سرس کھیل ے ہ ے ے۔( موت کا پسین آجانا۴۳) ہ

ون س یعنی آخری سانس لین س ’’ دم حق‘‘ ےزندگی کا آخری وقت آجانا اس سلسل میں ی بھی ایک تجرب ک ے ے ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ

ا جاتا وجاتی اس کو موت کا پسین آنا ک ل مرن وال کو پسین آتا خاص طور پر ماتھا یا پیشانی نم آلود ہےپ ہ ہ ہے ہ ہے ہ ے ے ے ہ

wردwو کا ایک شعر ہے۔اہ پسین موت کا آیا ذرا آئین توالؤ ہ

ےم اپنی زندگی کی آخری تصویر دیکھیں گ ہم ن زندگی کی سچائیوں اورواقعاتی صورتوں کو بھی محاوروں میں شامل وتا ک ار ےاس س ایک بات کا اظ ہ ہ ہے ہ ہ ے

wس ایک نئی معنویت ےکیا محاوروں میں اپن س متعلق صورت| حال کو ن ک محفوظ کیا بلک معنیاتی طورپر ا ہ ہے ہ ہ ے ے ہے

ہے۔س آشنا بھی کیا ےورک لڈو۴۴) یں، موتیوں س من بھرنا، موتی چ- ۔( موتی کوٹ کوٹ کربھر ے ہ ے ہ ے

wس کی مار معاشر میں دولت وثروت عزت اور عظمت کی ایک عالمت اسی لئ اچھ آدمی کو ا ےموتی ے ہے ے ے ہ

ا جاتا یں پنجابی زبان میں توموتیاں والوںیا موتیاں والیاں ک یر یا موتی س تشبی دیت م ہےخوبیوں ک باعث ہ ہ ے ہہ ے ے ہ ہ ے

ا ونا بڑ انعام بڑ عطی بڑی خوبیوںکو ک ہموتیوں میں تول دینا موتیوںس من بھردینا یا موتی کوٹ کوٹ کر بھر ہ ے ے ہ ے ہ ے

ی موقع پر آتا اورموتی ا جاتا سون کا نوال بھی ایس ہےجاتا موتیوں کا نوال اچھ س اچھا کھانا کھالن کوک ہ ے ہ ے ہے ہ ے ے ے ہ ہے

ی تصورات کا آئین دار ہے۔چwور ک لڈو بھی ایس ہ ہ ے ے۔( موچھوں ک کونڈ کرنا۴۵) ے ے

اں نذرونیاز کی غرض س کھاناپکانا اور تقسیم کرنا جس ایک مقدس رسم ک طور پر انجام دیا جاتا ہےمار ی ے ے ہے ے ہ ے ہ

ا ہایسا خوشی ک موقع پر بھی کیا جاتا اوراسی کو خوشیوں بھر مبالغ ک طورپر موچھوں ک کونڈ کرنا ک ے ے ے ہ ے ہے ے

وتا اوربطوررسم اس کیا جاتا ار کا ایک موقع ون پر خوشی ک اظ ہے۔جاتا جوبچ ک جوان ے ہے ہ ہ ے ے ہ ے ہ ہے۔( مول لیک چھوڑدینا۴۶) ے

وتا م ن احسان کرک چھوڑدیا مول لینا قیمت ادا کرنا وتا ک وم ی وتی یا پھر اس کا مف ہےبڑی نیت کی بات ہ ے ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہے ہ

وا یا پھر طنز ک طورپر ی تا ک ی تومیرا مول لیا ہاورقیمت ادا کرن ک بعد آدمی اپنا حق زیاد سمجھتا اورک ے ہے ہ ہ ہ ہے ہ ہے ہ ے ے

و ا جاتا ک تم ن مجھ مول تھوڑ ل لیا یعنی مجھ پر اتنا حق کیوں جتات ۔ک ہ ے ہے ے ے ے ے ہ ہے ہوتی ک ی ہجتنا زرخرید اشیاء یا غالموں پر جتایا جاتا اس س سماجی نفسیات اورمعاشرتی رویوں کی نشاند ہے ہ ہ ے ہے

ار کرتا ہے۔انسان سماج میں ر کر کس کس طرح سوچتا اورکس کس پرای میں اپنی سوچ کا اظ ہ ہ ہے ہاب۴۷) ۔( مید وش ہ ہ

یں بھی ا جاتا اورکبھی کبھی رنگت کا لفظ ن اب جیسی رنگت ک ت اچھ رنگ روپ کی لڑکیوں ک لئ مید وش ہب ہے ہ ہ ہ ے ے ے ہ

اب کی طرح ا جاتا ک و لڑکی کیا مید وش اب ک ہے۔آتا اور صرف مید وش ہ ہ ہے ہ ہ ہے ہ ہ ہ

Page 204: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ی تاثر کو ایک وں اور استعاروں س کام لیا جاتا ک و wس ک لئ تشبی و یا بدصwورتی ا اں خوبصورتی ہمار ہ ہے ے ہ ے ے ہ ہ ے ہ

wس کو وتا اور ا ت ‘‘ نرم ب یں ’’مید اب دوصفتیں رکھت یں مید ،ش مار کام آت ہےخوبصورت شکل دین میں ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ۔ ہ ے ے ہ ے

مار اعصابی نظام کو بھی ایک حد تک متاثر کرتا وتا جو ہے۔جب چھwوا جاتا تو نرمی کا ایک عجیب احساس ے ہ ہے ہ ہے

وتا اس wس میں اسی انداز گداز‘ نرمی‘ اور دل آویزی کا احساس م کسی ش کو چھwوت ھیں تو ا ہےاسی لئ جب ہ ے ے ہ ے

یں جو نظر ک ت اب‘‘ ٹوٹن وال ستار کو ک یں ’ش ا‘ لکڑی اپنا الگ احساس رکھت ےک مقابل میں پتھر‘ لو ہ ے ہ ے ے ے ہ ۔ ہ ے ہ ہ ے

wس میں ایک میں ب حد اچھی لگتی ک ا وئی لکیر ہسامن آتا اور تیزی س گذر جاتا ی چاندی جیسی چمکتی ہے ے ہ ہ ہ ہے ے ہے ے

م کسی سفید رنگ کی لڑکی یا وتی جب ماری نظر میں wس وقت بھی ٹ ا ی جھلم|ال وتی ی ٹ ہخاص جھلمال ہے ہ ہ ہ ہ ہے۔ ہ ہ

ےلڑک کو دیکھت ھیں لڑکی خاص طور پر اپنی عمر، بھول پن، سادگی یا پھر شوخی یا معصومان شرارت ک ہ ۔ ے ے

ت بھاتی اسی نسبت س جس کی ری اور صبح جیسی سفید رنگت دل کو ب ری سن wس کی سن ےاعتبار س ا ہے۔ ہ ہ ہ ے

اب سا رنگ یں مید وش ت wس ک لئ ک وتی ا ر کی خوبصورت دھوپ کی تعریف کرنی ۔صورت وشکل اور چ ہ ہ ہ ے ہ ے ے ہے ہ ہ ہ

‘‘ ن’’ ردیف 

۔ناچ ن جانوں آنگن ٹیڑھا( ۱)  ہیںآتا اورو اپن ن جانن پر طرح طرح س پرد ڈالتا نرن ےجب کسی کو کوئی فن یا ے ے ہ ے ہ ہ ہا ان بازی ک انداز س انگلی اٹھاتا تواس پر طنز ک طورس ی ک ہ اوراس پر ب ہ ے ے ہے ے ے ہ ہ ہےون کی شکایت کرتا یں اورخوا مخوا جگ ک ٹیڑھ میڑھ ےجاتا ک نانچنا توآتا ن ہ ے ے ے ہ ہ ہ ہ ہ ہے

ت دلچسپ اورمعنی خیز نمون ہے۔ ی سماج کی تنقید اور طنز کا ایک ب ہ ہ ہ ہے۔ناچ نچانا( ۲)

ےدوسروں کو اپنی غلط سلط رائ اورخیال پر عمل کرن ک لئ طرح طرح س ے ے ے ےندوستان یں اور ت محاور یں ناچ پراردو میں ب ت wس ناچ نچانا ک ہمجبور کرنا ا ہ ے ہ ۔ ہ ے ہ ے

یں’’ تگنی کاناچ نچانا را تعلق رکھت ذیبی روایت اورتمدنی ف¸ضاء س گ ہکی ت ے ہ ے ہہ‘‘اسی کی طرف اشار انگلیوں ک اشار نانچنایا نچانا بھی اسی سلسل کی ے ے ۔ ہے ہ

را رشت رکھتا مار سماجی رویوں س گ ہے۔کڑی اور ہ ہ ے ے ہ ہے۔ناخ-ن لینا( ۳)

ےویس توناخن لینا، ناخن کاٹن ک معنی میں آتا مگر محاور ک طورپر اس ک ے ے ہے ے ے ےوجس کا کردار ی یں خبرلینا جتانا ک تم ن ایسا کیا یا تم و وت ہے۔معنی ہ ہ ہ ہے ے ہ ہ ے ہ

نا( ۴) ۔ناخنوں میں پڑ ر ہ ےی کیا ایس ا جاتا ک اس کی حیثیت ےکسی بھی کم درج شخص ک لئ ک ہے ہ ہ ہے ہ ے ے ہ

یں کسی شاعر کا شعر ت ہے۔لوگ تومیر ناخنوں میں پڑ ر ہ ے ہ ے ےو بڑی چیز و ت ہ تم تواس شخص کوک ہے ہ ے ہ

یں میر ناخنوں میں ےایس دوچارپڑ ہ ے ےی ، نادرگردی ( ۵) ہے۔نادرشا ہے ہ

ربھی لی س با یں اورد لی میں رائج ر ہنادری حکم اس طرح ک محاور د ے ہ ہ ہے ہ ے ے ہےلی کو لوٹا ا نادرشا ن جب محمد شا رنگیل ک زمان میں د wن کا استعمال ر ہا ہ ے ے ہ ے ہ ہے۔ ہر ی ش wن کا شا نچی ا ت تکلیف پ |س س ب لی والوں کو ا اں قتل| عام کیا تود ہاوری ہ ہ ہ ے ہ ہ

wن کی بات wسی کی یادگار ی محاور ھیں ک ا وئی ا ر کی عزت ختم وا اورش ہبرباد ے ہ ہ ہ ہت افراتفری پھیالئی اں ب یوں ن ی ی حکم کیونک نادرشا ک سپا ہتونادر شا ہ ے ہ ے ہ ہ ہے۔ ہ

مارا |س س ا یں ت ہتھی اس لئ اس ک زمان کی صورت حال کو نادر گردی ک ے ۔ ہ ے ہ ہ ے ے ۔ی مار بعض محاور تاریخی واقعات کی نشاند وتا ک ن اس طرف منتقل ہذ ے ے ہ ہ ہے ہ ہ

یں مار معاشرتی رد| عمل کی ترجمانی کرت wن پر ۔اور ا ہ ے ے ہ

Page 205: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

۔( ناک بھوں چڑھانا۶)ی معنی میں آتا ناک پر مکھی ن بیٹھن دینا ار کرنا خود ناک چڑھانا بھی نازنخر ک ےناراضگی اورناخوشی کا اظ ہ ہے۔ ہ ے ے ہ

یں جوذراسی بات پر ناخوشی کا ت wنک مزاج آدمی کو ک ہاپنی طبیعت ک خالف کوئی بات برداشت ن کرنا ی ت ے ہ ہ ہ ے

یں جن کا تعلق انسان ی سماجی روی یں وجاتا یعنی اس کی پیشانی پر بل پڑجات ارکرتا اورچیںب جبیں ہاظ ہ ہ ۔ ہ ے ہے ہ ہ ہے ہ

ی کو اپن اندر محفوظ کیا |ن روشوں اوررویوں |ن محاورات میں ا مار ا وتا ےک اپن مزاج اور عادتوں س بھی ہ ے ہ ہے ہ ے ے ے

ہے۔یں ناک کٹوانا یا ناک کاٹ ہناک کٹنا یا ناک کاٹنا ناک ر جانا نکوبنا یا نکوبنانا بھی ناک س تعلق رکھن وال محاور ے ے ے ے ہ

یں اور’’نکوبنانا‘‘ ان ک مقابل میں قابل| اعتراض ون یا ب عزت کرن ک معنی میں آت ہلینا ی سب ب عزت ے ہ ے ے ے ے ے ہ ے ہ

ت ون کوک یں ناک کان دینا ب عزت ت ون کوک ب عزت یں ران کا عمل جس پر ی محاور روشنی ڈالت ےٹ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ے ہ ے ۔ ہ ے ے ہ ہے۔ ے ہ

وجائ تواس ےیں جب آدمی کسی بات کا وعد کر یا کسی کام ک کرن کا دعوی کر اورن کرسک ب عزت ے ہ ے ے ہ ے ے ے ے ہ ہ

وتی اوری ایک ی ذیبی رویوں کی نشاند مار ان محاوروں س قبائلی یا قدیم ت یں ت ہناک کان دیکر جانا ک ہے ہ ہ ہ ے ے ۔ہ ہ ے ہ

یں wس کی ترجمانی کرت ۔وقت میں جوسماج کی سوچ تھی ا ہ ے۔( ناک پرانگلی رکھ کر بات کرنا۷)

تا یں جس میں چھوٹ طبق کی عورتوں کا روی خاص طورس شامل ر ت ہےنازونخر س بات کرن کی ادا کوک ہ ے ہ ہ ے ہ ے ہ ے ے ے

یں ۔یا پھرزنخوں کا روی جوناک پرانگلی رکھ کربات کرت ہ ے ہونا۸) ۔( ناک کا بال ہ

wن ک لئ وج عزت ا جاتا ک و توان کی ناک کا بال ا ونا اورعزت کی نشانی سمجھنا اسی لئ ک ت عزیز ہےب ہ ے ے ہے ہ ہ ہے ہ ے ہ ہ

لو ت کا پ وم میں ایک طرح س کرا یں جاتا کیونک اس ک مف ری سطح پربوال ن ہے۔عام طورپراب ی محاور ش ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہ ہوناوغیر۹) ونا، یانام رکھنا، نام روشن ونا، نام ہ( نام ا-چھالنا یا نام ا-چھلنا،نام بدنام ہ ہ ہ

ونا اچھ معنی یں اسی لئ نام روشن ت رت وعزت کوبھی ک نام ش یں یں جونام س وابست ےی سب محاور ہ ے ۔ ہ ے ہ ہ ۔ ہ ہ ے ہ ے ہ

ات یں تم ن باپ دادا کانام خوب روشن کیا دی wر معنی میں استعمال کرت ہمیں آتا اورطنز ک طورپر اس ب ۔ ے ہ ے ے ے ے ہے

wچھلنا نام نکلنا یں نام ا یں اوران لفظوں کا تلفظ تشدید س کرت ت ہمیں نامی گرامی عزت وال آدمی کو ک ے ے ہ ے ہ ے

wچھالنا کسی کو جھوٹ سچ باتیں کر بدنام کرن ک معنی میں آتی ون ک معنی میں ک آت ھیں نام ا ےدونوں بدنام ے ے ہہ ے ے ہ

رت پان ک معنی میں آتا نام رکھناکسی پر اعتراض کرنا اوربرائی میں اس کا نام لینا و ونا ش ہیں نام ۔ ہے۔ ے ے ہ ہ ۔ ہ

ت عادت یں نام رکھن کی ب یں یا ان ت نام رکھت ہے۔دوسروں کوب ہ ے ہ ہ ے ہونا کسی کام کو دل لگا کر اورپور طورپر انجام ن دینا ایسی کسی صورت کو برائ نام بات کرنا یا ے’’برائ نام‘‘ ہ ے ہ ے

یں |ن کا کوئی سنجید مقصدن یں ا ک سب باتیں برائ نام یں ت ۔کام کرنا ک ہ ہ ہ ے ہ ۔ ہ ے ہونا۱۰) ونا، نام کا عاشق ونا، نام کی رٹ ۔( نام لیوا ہ ہ ہ

wس ک و ا التا اورجس کا کوئی ن wس ک کام آئ و نام لیوا ک ےجوشخص کسی اپن بڑ رشت دار کویا دکر یا ا ہ ہ ہے ہ ہ ے ے ے ہ ے ے

wس کا نام لینا نام ونا‘‘ بار بار کسی کو یادکرنا اورا یں ’’نام کی رٹ wس کا کوئی نام لیوا بھی ن یں ک ا ت ہلئ ک ہے۔ ہ ہ ہ ے ہ ے

ت عزیز رکھنا بقول| غال ونا کسی کو ب زب۔کا عاشق ہ ہار نام ک یں تم م توعاشق ے ے ہ ہ ہیں چلتی۱۱) ۔( ناؤ خشکی میں ن ہ

میرن اپن ایک شعرمیں دونوں لفظوں کو ایک ساتھ استعمال کیا ا جاتا میرتقی ۔’’ناؤ‘‘ کشتی کوک ہے ے ے ز ہے ہوو ے عشق کی ناؤ پارکیا ہ

|ری تو بس ڈوبی ہجوی کشتی تیں وسکتی لو یا کاغذکی ن ی کی یں چلتی اسی ک ساتھ ناؤ لکڑی ی میں چلتی خشکی میں ن ہ’’ناؤ‘‘پانی ہے ہے ہ ہ ے ہ ہے ہ

ور مصرع ہے۔اردوکا مش ہ ہیں ہ ’’ناؤ‘‘ کاغذکی کبھی چلتی ن

۔چل کیس سکتی ک کاغذ توپانی میں گل جاتا ہے ہ ہے ےے۔( ناؤ کس ن ڈبوئی خضرن۱۲) ے

یں wن کا لباس سبز اورو اکثر دریا ک کنار ملت یں اسی لئ ا ہحضرت خ|ضرپانی ک دیوتا جیسا کردار رکھت ے ے ے ہ ہے ے ہ ے ے

|س کی فریاد وجائیں توا ی ناؤ ک دریامیں ڈبون پر آماد wن کی رسائی اب اگرو ہآب| حیات ک سرچشم تک ا ہ ے ے ہ ہے۔ ہ ے

Page 206: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ی و ی ایسا وتوکس س ہکس س کی جائ اسی لئ ی محاور آتا ک ی ناؤ کس ن ڈبوئی خ|ضرن اب ی شکایت ہ ہ ے ہ ہ ے ے ہ ہ ہے ہ ہ ے ے ے

اں ر گی فارسی کامصرع wٹھن لگ تومwسلمانی ک وم جیس کوئی ک ک جب کعب س کفر ا ہے۔مف ہ ہے ہ ے ے ے ہ ہ ہے ے ہے ہwجاماندمwسلمانی ہ چوکفر از کعب برخیز زد ک

نمائی کی توقع یں اورجس ن روشنی ور وت wن لوگوں پر طنز جوکسی بات ک ذم دار wن اداروں اور ا ہی گویا ا ے ہ ے ہ ہ ے ہے ہ

wفر اٹھتا اورکعب س ک یں وتا تبھی توخ|ضرناؤ ڈبوت ہے۔کی جاتی مگران کا عمل توقع ک بالکل برخالف ے ہ ۔ ہ ے ہے ہ ے ہے۔( نخاس کی گھوڑی ، نخاس والیاں۱۳)

میت تھی تو گھوڑوں ک بازار لگت تھ عام طور پر پولیس فوج اوررئیسوں ل زمان میں جب گھوڑوں کی بڑی ا ےپ ے ے ہ ہ ے ہ

یںنخاس ی خرید جات تھ لیکن گھروں میں باندھن ک لئ گھوڑیاں خریدت تھ اوران ہکی سواری ک لئ گھوڑ ے ے ے ے ے ے ے ے ہ ے ے ے

وت تھ بازاری عورتوں کو اگر گھرمیں ت تھ جس ک معنی ایک طرح س بازاری عورت ک بھی ے۔کی گھوڑی ک ے ہ ے ے ے ے ے ہ

یں جاتا تھا اکثر بازاری عورتو ں س گھروں کی پرد نشین عورتیں |س اچھی نظر س دیکھا ن ہڈال لیا جاتا تھا توا ے ہ ے ے

وتا تھا جو رئیس ان س تعلق ےپرد کرتی تھیں ایسی عورتوں کا عمل دخل دیوان خانوں یا بیٹھکوں تک محدود ۔ ہ ہ

ی کی یں بالت تھ نخاس کی گھوڑی جیسا طنز عورتوں یں اپنی حرم سرا یازنان خان میں ن ہرکھت تھ و ان ے ے ہ ہ ہ ہ ے ے

یں نخاس نی عمل اور رد| عمل کو سمجھ سکت |س سماج ک ذ م آج بھی ا وگا جس ک ذریع وتا ہطرف س ے ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ے

یں بکت اورن بازاری اں اب گھوڑ ن ‘‘ لیکن و ی لکھنؤ ک ایک بازار کا نام ’’نخاس ہوالیاں ک معنی بھی ی ے ہ ے ہ ہے ہ ے ہے ہ ے

یں تی ۔عورتیں ر ہ ہ۔( نخر بگھارنا، نخر میں ت-لنا۱۴) ہ ہ

مار ےمار سماجی رویوں میں ایک روی نخر کرنا بھی یعنی خوامخوا ناز دکھانا اوراپنی قدروقیمت کو بڑھانا ہ ہے ہ ہے ہ ہ ے ہ

ہمعاشر میں اس طرح کا انداز آج بھی پا یا جاتا ک اوالد بیوی اورساس خوامخوا نخر کرتی نخر میں کوئی ہے۔ ہ ہ ہ ہے ہ

مار وتا ی الگ بات ک ی یں وتی نازوادادکھان کا بھی کوئی سلیق طریق نخر دکھان میں شامل ن یں ےمعقولیت ن ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہ

یں اورخوا مخوا ار کرت تا اوربیوقوف لوگ اس کا زیاد س زیاد موقع ب موقع اظ ہسماج اورمزاج میں شامل ر ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہے ہ

وتا می معامالت میں یں اس کا رواج زیاد ترعورتوں ک با ی یں نخر میں تلنا ک معنی بھی ی ہے۔نخر دکھات ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ے۔( نرغ میں آجانا۱۵) ے

انکاک معنی میں آتا یعنی جانوروں کو گھیرکر کسی ایس التا اور ےخطر میں گھ|رجانا ی لفظ ’’نرکا ‘‘بھی ک ہے ے ہ ہے ہ ہ ہ

اں ان کا آسانی ا ہمقام پر النا ج وسک اسی لئ نرغ میں پھنسنا دشمنوں ک حلق میں گھرجان کوک ہس شکار ے ہ ے ے ے ۔ ے ہ ے

مدردی ک طور پر بوال جاتا ک و بچارا خوامخوا نرغ میں پھنس گیا مشکالت یا مصیبتوں میں ار| ےجاتا اور اظ ہ ہ ہ ہے ے ہ ہ ہے

یں محاور کسی صورت| حال کو کس طرح اپن اندرسمیٹتا اس میں طرح طرح ک خطرات بھی شامل ہےگھ|ر گیا ے ہ ۔ ہ ے ۔

وتا |س کا انداز اس محاور س بھی ہے۔ا ہ ے ے ہوجانا، نسبتی بھائی۱۶) ۔( نسبت ہ

رجاتی ا جاتا اورجس کی نسبت کسی س ٹ رنا بھی ک wس ک لئ نسبت ٹ یں ا ت ون کو ک وجانا رشت ہےنسبت ہ ے ہے ہ ہ ے ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ

رال ک wوتا سس ی ک لئ استعمال وجاتی لیکن عام طورپر ی لفظ لڑکی یا عورت wس س گویا منسوب ےو ا ہے ہ ے ے ہ ہ ہے ہ ے ہ

wن کا تعلق سسwرال یں جب ا ن یا خاال ماموں یا پھوپھی اسی نسبت ک ساتھ یادکئ جات ۔رشت دار نسبتی بھائی ب ہ ے ے ے ہ ہ

ماری عام زبان میں ساال یا یں جس ت ن کو ک ن ک بھائی ب ر| نسبتی دل وجائ تو برادر| نسبتی یا خوا ہس ے ۔ ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ے

وتی اورسماجی رشتو ںک تعین ا جاتا ی گویا رشتوں کی و تقسیم جوشادی ک ذریع قائم ےسالی ک ہے ہ ہ ے ہے ہ ہ ہے ہ

|س س مددملتی ہے۔اورمطالع میں ا ے ہ( نس پھڑکنا )رگ پھڑکنا(۱۷)

یں ک کوئی ایسی رگ کٹ جانا جس س یں ’’نس کٹنا ‘‘محاور اسی س آیا جس ک معنی ت ے’’نس ‘‘رگ کوک ہ ہ ے ہے ے ہ ہ ے ہ

ن لگ wری طرح خون ب ے۔ب ے ہwترجانا غالب کا ی شعر ونا یا ا ہے۔’’نس نس میں سمانا‘‘ رگ رگ میں پیوست ہ ہ

یں قائل م ن ہرگوں میں دوڑن پھرن ک ہ ے ے ےو کیا ی س ن ٹپک توپھر ل ہےجوآنکھ ہ ے ہ ے ہ

wس ک عمل کی سزا دینا ت تکلیف د کرکسی کو ا ’’ ناسوں میں کو ‘‘نکالنا ب ی اں رگ رگ س مwراد نس نس ےی ے ہ ہے ہ ے ہ

’’ نس پھڑکنا ‘‘بھی محاور اورکسی کی یادآن اورکسی بات کا احساس ی س تعلق رکھتا ےی بھی نس نس ہے۔ ہ ہے ے ہ ہ

م اچانک وتی جس کو یں’’ نس پرنس چڑھ جانا‘‘ رگ پٹھوں میں کوئی ایسی تکلیف ت ہون کو نس پھڑکنا ک ہے ہ ہ ے ہ ے ہ

Page 207: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

وتی اورنروس یں ی تکلیف اکثر پنڈلیوں میں wس نس پر نس چڑھ جان س تعبیر کرت یں اورا ہےمحسوس کرت ہ ہ ہ ے ے ے ے ہ ے

یں جاتا اسی سلسل |س کا سبب بنتی جس کو فوری طورپر سمجھان ہسسٹم میں کوئی ایسی عارضی خرابی ا ہ ہے

ہے۔میں اردو کا ایک شعرو ر| غم تب دیکھئ کیا wتر ز ہرگ وپ میں جب ا ے ہ ے ے

ن کی آزمائش ہےابھی تونا تلخیÒ کام ود ہ|ن محاوروں س پت چلتا ک کس یں ا wترن ک بھی ی نس نس میں ا یں و اں رگ وپ میں اترن ک جومعنی ہی ہے ہ ے ہ ے ے ہ ہ ے ے ے ہ

یں اوراسی س محاور بنتا ہطرح بعض فقر اورالفاظ ایک خاص معنی کی پابندی ک ساتھ نئ معنی اختیار کرجات ے ہ ے ے ے ہ

ہے۔ونا۱۸) ونا، نش پانی کرانا، نش کرنا، نش کا عادی ۔( نش ہ ہ ہ ہ ہ ہ

وتا محاورتاکسی بھی حالت میں اگرسرشاری کی یں جواکثر شراب پین س ت مار کوک wہے۔نش دراصل کیفیت| خ ہ ے ے ہ ے ہ ہ

’’نش پانی کرنا یا کروانا‘‘ نچل شرابی کبابی طبق کا محاور یں ت ونا ک wس بھی نش ر آجائ توا ہےکیفیت میس� ہ ہ ے ہ ۔ ہ ے ہ ہ ہ ے ے

l روزشراب ونا تقریبا ت نش کا عادی یں ک ہشراب اونچ طبق میں بھی پی جاتی مگرو لوگ اس نش پانی کرنا ن ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہے ہ ے

|س س یں طبقاتی انداز|نظر کا فرق موجود ا یں ک ےپینا نش پانی کرن س ی پت چلتا ک محاورات میں بھی ک ہے۔ ہ ہ ہ ہے ہ ہ ے ے ہ ہے

یں ۔م زبان ک استعمال میں بھی طبقاتی سطح اور انداز نظر ک فرق کو سمجھ سکت ہ ے ے ے  ہ

ونا، نشیلی آنکھیں۱۹) ونا ، نش ک ڈور رن ہ( نشا ے ے ے ہ ہتا اورکسی خطر کا احساس کرک یں ر ن پر مستی وسرشاری کا غلب ن وجاتا اورذ ےجب آنکھوں س نش غائب ے ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہ ے

وش میں آجاتا تواس نش ہآدمی ے ہے وگیا لیکن جن آنکھوں ہ رن‘‘ یں ک ذرا سی دیر میں سارا ’’نش ت ونا ک ہرن ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ

ونا ایک شاعران انداز| نظررکھن واال محاور اورآنکھوں میں نش کی سwرخی کو گالبی ڈور ےمیں نش ک ڈور ہے۔ ہ ے ہ ہ ے ے ے

وتا یں توان س ایک نیا حسن پیدا محاور جب شاعران انداز اختیار کرت ا جاتا رخ ڈور ک wہے۔ یا نش ک س ہ ے ہ ے ہ ے ہے۔ ہ ے ے ے ےلنا، نصیب پھرنا، نصیب پھ-وٹ جانا وغیر۲۰) ہ( نصیب لڑنا ، نصیب کھ- ہ

و و کا ر ممکن ن ونا بظا ہق|سمت ک بار میں ایک خاص محاور جس کام کا انجام پانا یا جس س مwراد کاپورا ہ ہ ہ ہ ے ہے ہ ے ے

|س ک تونصیب کھل گئ یں ک ا ر کرت یں اوری ظا ت وجائ تواس کو قسمت کا لگنا یا نصیب کھwلناک ےم اگر ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ے ہ

ہے۔قسمت لڑگئی نصیب پھرنا یا نصیب پھwوٹ جانا بھی اسی معنی میں آتا ہرانا، نظرڈالنا، نظر رکھنا ،نظرچڑھنایا نظرمیں چڑھنا، نظروں س گ�رانا،۲۱) ے( نظریا نظریں چ-

ےنظر کھاجانا، یا لگنا، نظرمیں پھرنا، نظریا نظر وں میں سمانا ، نظرمیں کانٹ کی طرح کھٹکنا یا

بھنا وغیر ہ۔چ-مار فکروخیال ک مختلف گوشوں کی یں جو نظر ک تعلق س ت محاورات اں ب مار ی ےنظر ک بار میں ے ہ ے ے ہ ہ ہ ے ہ ے ے

ن میں کسی خیال یا مسئل کو ونا نظرمیں رکھنا ذ ش مند یں جیس نظر رکھنا کسی بات کا خوا ہنمایندگی کرت ہ ہ ہ ے ہ ے

وگئی یا نظر م پرستی کی ایک عالمت ک اس کو تونظر ماری توا وجانا ی نظر ونا چا ونا یا ن ہرکھنا ک اس کو ہ ہے ہ ہ ہ ے۔ ہ ہ ہ ہ ہ

ی معنی ھیں جو زنگ کھا گئی نچاگئی یا کھاگئی نظر کھا گئی ک و wری نظرب حد نقصان پ wن کی ب ہلگ گئی یا پھرا ے ہ ے

ا ہے۔ک ھیں کسی شاعر ن خوب ک ہ ے ےے زمیں کھاگئی آسماں کیس کیس ے

ہے۔’’نظر بچانا ‘‘اراد ک ساتھ دوسر کی طرف دیکھن میں تکلف کرنا نظریں چرانا یا نظر چwرانا بھی اسی ے ے ے ے

wس ک مقابل میں نظر س گ|رنا یا ےمعنی میں آتا نظر میں آنا یا نظرمیںچڑھنا ، پسند آن ک معنی میں آتا اورا ہ ے ہے ے ے ۔ ہے

نا یا دآنا یا دکرنا نا اورنظر میں پھرنا بھی آتا یعنی خیال ر |س ک عالو نظرمیں ر یں ا ۔گرجانا استعمال کرت ہ ہے ہ ہ ے ہ ے‘‘ ’’نظرنظر کی بات یں wن کی نظروں میں سمار ونا ک و آج کل ا ہےنظریا نظروں میں سمانا اچھا لگنا اورپیارا ۔ ہ ہے ہ ہ ہے ہ

یں ۔یعنی کون کس کی بات کو کس نقط نظر س دیکھتا اورکس کی نظر میں کس بات ک کیا معنی ہ ے ہے ے ہون ک معنی میں آتا اب اگر دیکھا جائ توکسی بھی شخص یا شخصیت بھانا ناگوار wےنظرمیں کھٹکنا یا نظرمیں چ ہے ے ے ہ

ہےک بار میں کون کیا خیال رکھتا پسند یا ناپسند کا معیار کیا اورکس ک دل میں کس بات کی کیا قیمت یا ے ہے ہے ے ے

را تعلق اورسماجی ادبی شعور یںجن کا انسانی نفسیات س گ ہے۔کس شخص کا کیا درج ی نازک سماجی رشت ہ ے ہ ہ ہ ہے ہ

wس کو محاور ک ذریع سمجھا جاسکتا یں ا ہے۔جو کلیدی کردار ادا کرت ہ ے ے ہ ےنتا ۲۲) ہے۔( نقارخان میں طوطی کی آواز کون س- ے

ل ا جاتا پ ل�ڑبازی میں کوئی اچھی بات کون سنتا اسی کونقار خان میں طوطی کی صدا ک ےشورشراب اور ہ ہے۔ ہ ے ہے اہ ہ

Page 208: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

وتا تھا اورپانچ وقت نوبت بجتی تھی چنانچ الل قلع میں اب تک نوبت خان ی محل میں بھی نقارخان ہزمان میں شا ہ ہ ہ ہ ہ ہ

اں تک ک نازیوں وگی خوشی ک موقع پر ڈھول تاش بجان کا عام دستورتھا ی اں اب تک نوبت بجتی ہموجود ج ہ ۔ ے ے ے ہ ہ ہے

یں دیتی تھی تی تھی اور کان پڑی آواز سنائی ن ۔ک جلوس ک ساتھ بھی ی صورت ر ہ ہ ہ ے ےونا۲۳) ونا، نقش برآب ۔( نقش بدیواں ہ ہ

تی نظرآتی جوآدمی بچارا گھرمیں ت کچھ ک وئی کوئی بھی تصویر جواپنی خاموش زبان میں ب ہےدیوار پر بنی ہ ہ ہ

یں یں گ|رداب بنت ریں اٹھتی یں ل زاروں شکلیں بنتی پانی پر ا جاتا تا اس بھی نقش ب دیوار ک ہبالکل چپ ر ے ہ ہ ہ ہ ہے۔ ہ ہ ے ہے ہ

واکاایک جھونکا آیا وجاتا یں مگری تماش پلک جھپکن میں ختم ریاں سجتی یں اورل یں بلبل اٹھت ہ، بھنورپڑت ہے ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ے ے ہ ے

د ن آدمی کوی ر چیز مٹتی یا بدلتی چلی گئی اسی مشا ہتوایک مرقع پانی میں سج گیا اور دوسرا جھونکا آیا تو ے ہ ہ ہ

wس ک مقابل میں نقش کلم حجر یعنی و نقش جوپتھر وتا ا ہسبق دیا ک پانی پر جو نقش بنتا و ناپائید ار ہ ہ ے ہے ہ ہ ہے ہ

وتا ک |س محاور کا استعمال پائیداری ک لئ wردwو محاورات میں ا یں مٹتا اسی لئ ا وجوکسی ک مٹائ ن ہپر ہے ہ ے ے ے ے ہ ے ے ہ

wس میں عربی wردwو کی ساخت پربھی روشنی ڈالتی ک ا وگیا ی عربی ترکیب لفظی ا ہاس کا نام تونقش کلم حجر ہے ہ ہ ہ

ی کی وج س و ایک یں اوران وگئ ندی سنسکرت وغیر بولیوں اور زبانوں ک الفاظ خلط ملط ہفارسی‘ ے ہ ہ ۔ ہ ے ہ ے ہ ہ

ہے۔کھچڑی زبان یں بیٹھت۲۴) وئ دانت پھرن ے۔( نکل ہ ے ہ ے

wن کی یں ا wن میں دانت بھی یں ا ت س محاور انسان ک بدن اوربدن ک اعضاء س متعلق ہمحاورات میں ب ہ ے ے ے ے ے ہ

ونا ’’دانت ونا ، ’’من میں دانت ن پیٹ میں آنت‘‘ ن وئ دانتا کل کل ہتعداد کافی محاوروں کو اپن اندرسمیٹ ہ ہ ہ ہ ہے۔ ے ہ ے ے

یں جو دانتوں س تعلق ک ساتھ زندگی ک مختلف مراحل ونا، دانت رکھنا کس طرح ک ی محاور ےکاٹی روٹی ے ے ہ ے ہ ے ہ

یں استعار یں تشبی ک وتا جس میں ک یں خاص طور پر بڑھاپ کی زندگی ک تجربات کا نچوڑ ہکو پیش کرت ہ ہ ہ ہے۔ ہ ے ے ہ ے

تا یں زندگی کا کوئی انوکھا تجرب شامل ر د اورک یں مشا اوت ک یں ک ہے۔ک ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔(نمک حاللی کرنا، نمک حرامی کرنا۲۵)

ت بڑی نعمت خیال کیا جاتا اسی لئ نمک ک ساتھ وفاداریوں کا تصور وابست اورجوکسی اں ب مار ی ہےنمک ہ ے ے ہے ہ ہ ے ہ

ی کسی تا ایس ان پر تیا رر wس ک لئ اپنا خون پسین ب wس کابند ب دام بن جاتا اورا ہکانمک کھاتا و ا ے ہے ہ ے ہ ہ ے ے ہے ے ہ ہ ہے

ت ت مانت تھ اورک |ن قدروں کوب ل زمان میں لوگ ا ا جاتا پ ون ک عالو نمک حالل ک ےشخص کو نمک خوار ہ ے ے ہ ہ ے ہ ہے ہ ہ ے ے ہ

یں الت وت و نمک حرام ک یں م ن آپ کا نمک کھایا جولوگ اپن آقا ک یا اپن محسن ک وفادار ن ہتھ ک ے ہ ہ ے ہ ہ ے ے ے ے ہے ے ہ ہ ے

التی الفاظ کن حاالت کن لی میں تھا جس کی حویلی اب بھی ’’نمک حرام کی حویلی ‘‘ک ی کوئی کردار د ہے۔ایسا ہ ہ ہ

wن کی مثالیں نمک س وابست محاوروں میں بھی یں ا ہخیاالت‘ اورکن سواالت ک ساتھ اپن معنی کا تعین کرت ے ہ ے ے ے

یں ۔تالش کی جاسکتی ہونا۲۶) ڑکنا اورنمک کی ڈلیا ں ۔( نمک چھ� ہ

wڑجاتی توآنکھوں کی تکلیف کی طرف اشار یں لگتی نیند ا وتی اورتمام رات آنکھ ن ہجب آنکھوں میں تکلیف ہے ہ ہے ہ

یں یں ک ساری رات میری آنکھیں نمک کی ڈلیاں بنی ر ت ۔کرک ک ہ ہ ہ ے ہ ے|س اعتبار س ی نچانا اورا نی تکلیف اورنفسیاتی اذیتیں پ ہنمک چھ|ڑکنا اورخاص طورس زخموں پر نمک چھ|ڑکنا ذ ے ہے ہ ہ ے

ی سخت عمل ک زخموں پر نمک چھ|ڑکاجائ ت ے۔زندگی میں سزادین کا ب ہ ہے ہ ہ ےن۲۷) ہ۔( ننگی تلوار یا شمیر بر ہ

ت غص وال آدمی کو شمشیر| وتی اسی لئ ب ر آتی توخطر کا سبب تی اورمیان س با ےتلوار میان میں ر ہ ہ ے ہے ہ ہ ہے ہ ے ہے ہ

رایسی چیز کو جس میں بجلی جیسی تڑپ چمک دمک موجود ویس ی ایک شاعران انداز اور ا جاتا ن ک ہبر ہے ہ ہ ے ہے۔ ہ ہ ہ

وئ ک ی مصرع بھی لکھا ادرشا ظفر ن اپنی محبوب دلنوازکی تعریف کرت یں ب ہوتوننگی تلوار س تشبی دیت ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہ ۔ ہ ے ہہ ے ہ

ہے۔wس پ چمک پھرویسی ‘ مانگ عجب اورا ن ہےشمشیربر ہ ہ ہ

۔( ن�واڑاکھینا۲۸)‘‘لئ استعمال کا ایک نمون ماری بولی ٹھولی میں ’’ اڑن |س کای تلفظ ‘‘ ک ساتھ ا wڑن ا جاتا اور’’ا |واڑابھی ک ہناؤ ن ے ے ہ ہ ے ے ہے ہ

’’ نواڑا ‘‘چھوٹی سی’’ ناؤ ‘‘جس پر یں بنگاس ’’بنگڑی‘‘ اسی طرح ناؤ س ت م پلنگ س پلنگڑی ک ے جیس ے ہ ے ہ ے ہ ے ہے

یں جو |س طرح کی کشتیاں چلتی ہبیٹھ کر کوئی بڑی ندی دریا یا سمندرپار کیا جائ ’’ جھیل ڈل‘‘ کشمیر میں ا ے۔

یں التی ۔نواڑ ک ہ ہ

Page 209: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

۔نوتیر بائیس بتانا( ۲۹) ہیں یں اوربھی اعداد وت ی ’’ نوتیر بائیس‘‘ ہح|ساب ک|تاب میں گڑبڑکرنااگرچ ہ ے ہ ہ ہ ہ

ونا یا اوتیں بنائی گئی ھیں جیس انیس کا فرق ہجس س انیس بیس محاور یا ک ے ہ ے ےیں اورحص�� کو بھی ’’بار بانی‘‘ ت ونا ’’باٹ‘‘ راست کو بھی ک ہ’’تین تیر بار باٹ‘‘ ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ

وتا ونا کھیتوں ک لئ بھی ی محاور استعمال ونا کھرا اور صحت مند ہےکا ہ ہ ہ ے ے ۔ ہ ہےاورصحت مندی ک لئ بھی کھیتوں میں اچھی پیداوار اوربدن ک لئ اچھی صحت ے ے ے

یں وت wرج بھی ذیبی حوالوں میں آتا بار ب ہمwراد لی جاتی بار کا لفظ اکثرت ے ہ ہ ہے ہ ہ ہےین بھی اور بار وفات بھی ۔اورسال ک بار م ہ ے ہ ہ ے

اں س ’’نودوگیار یں و توی ت ونا ‘‘چل جان اورٹل جان کوک ہ’’نودوگیار ے ہ ہ ہ ے ہ ے ے ے ہ ہیں اور’’د ‘‘ محرم ک ت ا‘‘ محرم کو ک ین کا نام ’’د ‘‘ تیر تیزی ایک م ےوگئ ہے ہ ے ہ ہ ہے ے ہ ہ ے ہذیبی م ن ت یں ک اعداد س بھی م انداز کرسکت |س س یں ا ت ہگیتوں کو ک ے ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ے ہ

wن کو اپنی زبان ک محاوروں میں جگ دی ہے۔عالمتوں کاکام لیا اورا ہ ے ہےے۔نوک� پان مالحظ کیجئ( ۳۰) ہ

|س اعتبار س ی ہدوکاندار وں کا محاور اورخاص طور پر جwوت فروش کا اور ا ے ۔ ے ہے ہاٹ بازار‘‘ س اوردوکانداران انداز| نظر اور طرز| |س کا تعلق ’’ ہایک محاور ک ا ہے ے ہ ہ ہے ہ

ت اچھا نمون ارکا ایک ب ہے۔اظ ہ ہ ہونا( ۳۱) ۔نوک پلک د-رست کرنا یا نوک پلک س د-رست ہ ے

ہے۔کسی کی ش کی خوبصورتی کی طرف اشار کرتا ک و نوک پلک س دwرست ے ہ ہ ہے ہ ہونا عورتوں کا اپنا محاور اورکسی ایسی لڑکی ک لئ ے’’نک س|ک‘‘ س دwرست ے ہے ہ ہ ےیں م ک سکت اں و ی و اورقبول صورت ا جاتا جو’’آنکھ ناک‘‘ س دwرست ہک ے ہہ ہ ہ ہ ہ ے ہے ہ

مار گھروں یں جن کا تعلق گھرآنگن س اورجو ت س محاور و مار ب ےک ہ ہے ے ہ ہ ے ے ہ ے ہ ہیں ۔ک عام ماحول کی طرف اشار کرت ہ ے ہ ے

۔نیزوں پانی چڑھ جانا( ۳۲)وتا ناپ کا پیمان )پیمائش( بھی آدمی ک لئ کچھ ےی سیالب ک عالم میں ے ہ ہے۔ ہ ے ہوتا نا ا جاتا اورجب مختصرک l گفتگو کولمبی بات چیت ک ا مثال ہےعجیب ر ہ ہ ہے ہ ہے ہ

ت یں زبان کو دس گز کی لمبی زبان ک ت یں یا بول بات ک ت wس دو بول ک ےتوا ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ےوتا تو و کڑ یں اورجب دwور دراز راست ت ےیں راست کو دو قدم کا راست ک ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ۔ ہ

اتھوں س ناپا جاتا رائی ک اعتبار س التا پانی کو اس کی گ ہےکوس ک ے ہ ے ے ہ ہے ہوئ پانی کا ناپ نیزوں س لیا جاتا یعنی ا جاتا اوپر چڑھت اتھ پانی ک ہےاوردو ے ے ہ ے ہے ہ ہ

یں ت ہنیزوں آکرپانی چڑھ گیا جب ک پانی کی تھوڑی مقدار کو چwلوبھرپانی ک ے ہ ہم ناپ تول ک ساد سطح پر انسانی اورسماجی پیمانوں کا انداز ہوغیر اس س ہ ے ہ ے ہ

یں ۔کرسکت ہ ے۔نیل کی سالئیاں پھیرنا( ۳۳)

wن میں اندھا کردینا بھی یں ا ی ہےانسانی زندگی میں سزائیں بھی عجیب وغریب ر ہ ہ‘‘ ن نوشا عالم یل ’’ آنکھیں نکالنا‘‘ بھی ایک عمل تھا ’’غالم قادررو wس ک لئ رہا ے ے ہ ے ے

وئی سیخیں داخل کرنابھی اس ہثانی کی آنکھیں نکال لیں تھیں آنکھوں میں جلتی ا یںک ہکا ذکر الف لیل ک ایک قص میں آیا مwغلوں میں ی سزا کیس آئی ی کچھ ن ہ ہ ے ہ ہے ہ ے ہےجاسکتا لیکن و آنکھوں میں نیل کی سالئیاں پھیر کراپن مخالف یادشمن کو اندھا ہ

ے۔کردیت تھ ے

Page 210: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

تقی میر ن اپن ایک شعرمیں بھی ایس wسی کی طرف اشار می ےمحاور میں ا ے ے زر ہے ہ ہہے۔کسی المناک واقع کی طرف اشار کیا ہ ہ

ر تھی خاک| پا جن کی wحل| جوا اں ک ک ہ شا ہ ہی کی آنکھوں میں پھرتی سالئیاں دیکھیں ہان

۔نیندا-چٹ جانا، نیندلینا، نیند حرام کرنا( ۳۴)ا یں تھوڑی دیر ک لئ سوجان کونیند لینا بھی ک ت ہنیندخوابیدگی ک عالم کوک ے ے ے ہ ے ہ ےwچٹ جانا توکوئی بھی آدمی ب آرامی محسوس کرتا اگرکسی ۔جاتا اورنیند ا ہے ے ہےا جاتا ’’نیند میں wس کو نیند حرام کرنا ک ۔ک شوروفریاد س نیند ن آسک توا ہے ہ ے ہ ے ےہےونا‘‘ ’’آنکھوں میں غنودگی آنا‘‘ یعنی نیند جیسی کیفیت عورتوںکی ایک لوری ہ

ہے۔

ہ آجاری نیندیا‘ توآکیوں ن جاےمیر مwن کی آنکھوں میں گھwل م|ل جا ے

۔نیند کا ماتا ،نیند کا دکھیا( ۳۵)ی ا ان ندی لوک گیتوں میں آتا ر نن میں آیا لیکن’’ نیند کا ماتا‘‘ wت کم س ہب ہے ہ ہ ہے ے ہ

ہے۔گیتوں کا ایک بول ے میری انکھیاں نیندکی ماتی‘ توسین میں آو ے

یں اورآرزوی ک میں سوجاؤں اورتومر خواب وئی ےمیری آنکھیں نیند میں ڈوبی ہ ہے ہ ہ ہے۔میں آئ

۔نیوجمانا( ۳۶)|س کو ’’نیو ‘‘رکھنا بھی یں ا ہ’’نیو‘‘مکانوں کی دیواریں زمین ک اندر چwنی جاتی ے

ونا یا یں’’ نیو‘‘ جمانا بھی ’’نیو‘‘ قائم کرنا بھی اسی ک ساتھ’’نیو‘‘ کا پکا ت ہک ے ہ ے ہwنیاد وتی تومکان کی ب وتا اگرنیوکمزور ونا بھی استعمال ہے’’نیو‘‘کا مضبوط ہ ہے ہ ہ|س معنی میں’’ یں ا wس ک درودیوار کمزور خیال کئ جات وتی اورا ہکمزور ے ے ے ہے ہلو یات کا ایک آثاثی پ ماری سماجی حس� wس کی مضبوطی یا کمزوری ہےنیو‘‘ اورا ہ ہ

ہے۔سوچ کی ایک بنیاد ر س جنم لینا( ۳۷) ۔نئ س� ے ے ے

تی ہےمار معاشر ک بنیادی تصورات میں ’’آواگون ‘‘کی و فالسفی شامل ر ہ ہ ے ے ے ہت م جنم جنم ک ساتھی بھی ک وا اسی لئ ےک ایک جنم ک بعد دوسرا جنم ہ ے ہ ے ہے ہ ے ہ

ےیں اورنئ جنم س مwراد اس کی خطرناک صwورت| حال اور جان لیوا بیماری کو ے ہا جاتا جس س آدمی بچ جاتا توگویا و نیا جنم لیا جاتا ہے۔بھی ک ہ ہے ے ہے ہ

م زندگی ک |س س ےاسی لئ ’’مجئ جنم‘‘ آنابھی مصیبتوں س چھwوٹ جانا ا ہ ے ہے ے ے ےےخطرات شدیدتکالیف اورسخت حاالت س گذرن ک عمل کو سماجی رویوں کی ے ے

یں ۔روشنی میں دیکھ سکت ہ ےےک گویا زندگی میں آدمی کو موت تو ایک بار آتی لیکن اپن حاالت معامالت اور ہے ہی جنم میں گذر جاتا اسی ت س جنموں س ایک ہے۔حادثات ک اعتبار س و ب ہ ے ے ہ ہ ے ےندوستان ک م خ کرنا گویا نیا جنم پانا اس کو wتری کی طرف ر ےلئ حاالت کا ب ہ ہ ہے۔ ہ ے

Page 211: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

wونرجنم‘‘ ک عقید س جوڑ سکت ھیں اس لئ ک جو قومیں ہدوبار جنم لین یا ’’پ ے ے ے ہ ے ے ہوسکتا یں اں ی محاور بھی ن wن ک یں مانتی ا ہدنیا میں’’ پونرجنم‘‘ک عقید کو ن ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ے

ندوستانی ماحول کی دین ہے۔مسلمانوں میں ی ہ ہ

‘‘ و ’’ ردیف 

ونا( ۱)  ۔وار نیار ہ ے ےوتی ر طرح کا میابی یں خ اختیار کرت wہےحاالت اور معامالت جب کوئی ایسا ر ہ ہ ہ ے

ت بڑی ت کچھ مل گیا خالف| توقع ب یں یعنی ب ت ونا ک wس وار نیار ہتوا ۔ ہ ہ ے ہ ہ ے ے ےیں جاسکتا وئی جس ک بار میں سوچا بھی ن ۔کامیابی ہ ے ے ہے ہ

رنا، )آوار گردی کرنا(( ۲) ی پھ� ی تبا ہوا ہ ہیں کوئی پروگرام wک پن ک ساتھ چلت ی ب ت ہعام طور پرلوگوں ک معامالت یون ے ے ے ے ہ ےی اں وقت گذار دیا اسی کو آوا اں وقت گذاردیا و وتا ی یں وتا کوئی منصوب ن یں ہن ہ ہ ۔ ہ ہ ہ ۔ ہ ہ

یں یعنی ب مقصد مٹرگشت اورفضول کی باتیں کرنا اسی لئ ت ی پھرنا ک ےتبا ے ہ ے ہ ہیں ت ی بکنا بھی ک ی تبا ۔آوا ہ ے ہ ہ ہ

۔ورق ب�کھرجانا ، ورق گردانی کرنا( ۳)|کھرتا اورکوئی چیزاپنی اپنی ونا، ورق بکھرنا ، جب زندگی کا شیراز ب ہےورق ورق ہ ہ

یں جیس فردوسی ن ت |کھرجانا ک wس ورق ورق ب تی توا یں ر ےجگ پر ن ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ|س طورپر لکھا نشا ایران کی شکست کو اپن شا نام میں ا ہے۔’’یثردwجرد‘‘ ش ہ ہ ے رہ ہ

ہ ن سب نام دولت ک قباد ۂ ہwود باد رطرف ب ہورق در ورق

رطرف اڑاک ل گئی اورتاریخ کا شیراز وا ہک قباد ک خاندان کا نسب نام ے ے ہ ہ ہ ے ہی وجانا بھی ی wرز wرز س پ ا جاتا پ |کھرگیا اسی کو ورق ورق بکھرنا بھی ک ہب ہ ے ے ے ہے ہ ۔

ا یں ر ہے۔صورت ک اب کچھ بھی باقی ن ہ ہ ہ ہے۔وعد وفاکرنا( ۴) ہ

م ایسا ا جاتا ک میں یا ہمار معاشر میں جب کسی بات کو زور د کر ک ہ ہے ہ ے ے ے ہ‘‘ قراردیا جاتا اورجب کوئی آدمی وعد پورا کرتا ہےکریں گ تواس ’’وعد ہ ہے ہ ے ے

اں اس س مwراد و اچھ یں ی عربی کا محاور اورو ت wس وعد وفا کرنا ک ےتوا ہ ے ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ہ ےwردwومیں وعد وفا کرنا برا راست وتا جواپنا وعد پورا کرتا ا ہکردار کا آدمی ہ ہے ہ ہے ہ

یں wن محاورات میں س جوعربی س برا راست لئ گئ ی ا ہعربی س آیا ے ے ہ ے ہے ے ہ ہے۔ ےمیت اوربڑھ جاتی ہے۔اوران معنی میں محاور کی ا ہ ے

وقت پانا، وقت کاٹنا، وقت نکل جانا، وقت پڑنا،)پیغمبری وقت( ۵)پڑنا(

تھیار اپنا توو جو وقت پرکام آئ وقت تھا ےوقت و قت کی بات وقت پڑ کا ہے ہ ہے ہ ے ہےwراوقت ن ڈال وقت کاٹنا وقت گذارنا ک معنی ےجو گذر گیا آخری وقت آنا خدا ب ے ہ ۔

wر بھل گذرجانا ےمیں آتا وقت نکل جانا وقت کا ب ے ہےیں اتھ آتا ن ہگیا وقت پھر ہیں ہسدا دور دورا دکھاتا ن

)میرحسن(

Page 212: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ونا، وقت پڑنا )پیغمبری وقت پڑنا( ہوقت بخت کا ساتھ دینا وقت وقت ک راگ ےہےوقت ایک لمح بھی اورپوری زندگی میں کوئی ایک وقت بھی ایسا آسکتا ہے ہوتی ت ہےجوساری زندگی کو متاثرکرجائ وقت کی قدروقیمت زندگی میں ب ہ ہ ے

wرا لگنا بھی یں آتا کسی بات کا اچھا یا ب اتھ ن ہاورجب وقت نکل جاتا توپھر کبھی ہ ہےلی میں اس ک لئ یں اورد ت وقت پڑنا مصیبت پڑن کو ک وتا ےوقت ک ساتھ ے ہ ہ ے ہ ے ہے۔ ہ ےےپیغمبری وقت کا محاور بھی موجود مختلف راگ الگ الگ وقتوں میں گائ جات ے ہے ہیں اسی س محاور بنا اورجوبات وقت ہےیں اوراسی س وقت وقت ک راگ ہ ے ہ ے ے ہ

ا جاتا وتی اس ب وقت کی راگنی ک یں وتی اورمناسب حال ن ہے۔ک خالف ہ ے ے ہ ہ ہے ہ ے۔ولی خنگر ، کھنگر( ۶) ہ

یں ’’گونگر‘‘ایس ت wس خنگر یا کھنگرک وتا ا ت گیا گذرا ےاصل میں جوآدمی ب ہ ے ہ ے ہے ہ ہwسی ک لئ خنگر یا و ا |کم�ا وجائ اورکوئی کام ن کر ن یں جو بڑا ت ہلڑک کو ک ے ے ہ ے ہ ے ہ ہ ے ہ ے

ہے۔کھنگرا استعمال کیا جاتانی اور فکری wسی سماج ک ذ wر لوگوں ک لئ ا م اچھ ب ہاس س کونگر ے ے ے ے ے ہ ے

ت سی سچائیاں اچھائیاں ہرد|عمل کو سمجھ سکت ھیں حقیقت ی ک سماج کی ب ہ ہے ہ ےم کس حد تک مار محاورات میں محفوظ ھیں اب ی الگ بات ک ہاور برائیاں ہ ہے ہ ۔ ے ہ

ن میں رکھت ھیں اور کب نظر انداز کردیت ھیں ۔اور کس مواقع پر ان کو ذ ے ے ہ

‘‘ ردیف ’’ 

اتھ( ۱)  ونا، اتھ نیچا ونا اتھ اونچا اتھ آنا، اتھ لگنا، ہاتھ ا-ٹھانا، ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہاتھوں ک طوط اتھ مارنا، اتھ دیکھنا اتھ د�کھانا، ونا، ا Vdےکا سچ ے ہ ہ ہ ہ ہ

اتھ س ونا، اتھ کا سچا ونا، اتھ کا تنگ ونا، اتھ کامیل ےا-ڑجانا ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔ہڑبڑاک اٹھی اتھ ن مٹھی ۔خیرات زکوV کرنا، ے ہ ہ ہ ۃ

اتھ پیروں ک استعمال س متعلق ی یں اتنا اتھ پیر جتنا کام آت ےزندگی میں ے ہ ہ ہ ے ہنی اور تجرباتی سطح کی مار معاشر کی ذ یں جو اں محاورات موجود ہمار ے ے ہ ہ ہ ے ہون ک معنی میں ونا قابو اتھ ونا اتھ لگنا حاصل اتھ آنا یں ےنمایندگی کرت ے ہ ہ ہ ہے۔ ہ ہ ہ ہ ےاتھ wس کا یں جب آدمی کسی کو کچھ دیتا تو ا اتھ ار بھی تو ہآتا ک آخر تم ہے ہ ہ ے ہ ہ ہےوتا اس اتھ نیچا wس کا وتا ک و دین واال اور جب و لیتا تو گویا ا ہےاونچا ہ ہ ہے ہ ہے ے ہ ہ ہے ہwرائی ک ساتھ وتی مگر کسی ب ےس لین دین میں ایک طرح کی اونچ نیچ قائم ہے ہ ے

اتھ س دیدینا گویا اپنی خوشی س کسی ک لئ کچھ کردینا مکاری یں اپن ہےن ے ے ے ے ہ ے ۔ ہاتھوں ک التا سخت گھبرانا اور اتھ مارنا ک ےس کوئی بڑافائد حاصل کرنا ہ ہے۔ ہ ہ ہ ے

ا جاتا ونا پیس ک لئ ک اتھ کامیل ونا ٹ طاری ت گھبرا ہےطوط اڑجانا ب ہ ے ے ے ہ ہ ہے۔ ہ ہ ہ ےیں اصل ش دوستی وفاداری یں کچھ ن ت ہےیعنی پیسا اس فال مارنا بھی ک ے ہے ہ ۔ ہ ے ہ ےاتھ کا سچا و جومعامالت میں دیانت دار ہے خلوص ومحبت اورجذب خدمت ہ ہ ہے ہ ہے ہے

یں پیس کی کمی جس کی وج ون ک معنی اتھ تنگ و ہواورلین دین کا پکا ے ہ ے ے ہ ہ ہ ہتا ہے۔س آدمی خرچ اخراجات ک معامل میں پریشان ر ہ ہ ے ے

wس میں طاقت وقوت بالکل یں ک ا وت ہاتھ ن مٹھی پر بڑاک اٹھی اس ک معنی ہ ے ہ ے ے ہ ہوجاتی یں لیکن ب اختیار لڑن بھڑن اورمرن مارن کو تیار ہے۔ن ہ ے ے ے ے ے ہ

وتا اورلطف| گفتگوبھی یں ک محاور میں طنز بھی م سمجھ سکت |س س ہےا ہ ے ہ ہ ے ہ ے

Page 213: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یں وت یں اورسماجی زندگی ک و تجرب بھی وت ہوتا اخالقی تقاض بھی ے ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ہے ہوتا ہے۔جس میں سب کا حص ہ  ہ

یں اں آئین ک ہاتھ کنگن کوآرسی کیا عورتوں کا محاور اورآرسی ک معنی ی ے ہ ہ ے ہے ہ ہے ہوتا ی محاور یا عورتوں س متعلق نوں ک اسی نام ک زیور میں آئین لگا ےک دل ہ ہ ہے ہ ہ ے ے ہ ہیں جوگھرآنگن کی ماری زبان کی اس فضاء کی طرف ل جات ہدوسر محاور ے ے ہ ے ےلوؤں کی طرف نظر رکھی جائ توزبان کا رنگارنگ دائر محاورات ہفضا اگر ان پ ے ہ ہے

یں وئ نظر آت ۔میں ریشم ک دھاگوں کی طرح لپٹ ہ ے ے ہ ے ےنا( ۲) ۔اتھ باندھ کھڑ ر ہ ے ے ہ

ےی دربار داری ک آداب میں شامل اور بادشا ک دربارمیں حاضری دین وال ے ے ہ ہے ے ہیں ی محاور بھی دراصل درباری آداب ت اتھ باندھ کھڑ ر ی ہامیرووزیر سب ہ ہ ے ہ ے ے ہ ہ

ماری سماجی زندگی ک یں ک م ک سکت ےی س تعلق رکھتا اوراس طرح ہ ہ ہ ے ہہ ہ ہے ے ہیں یں جومحاورات میں اپنا عکس پیش کرت خ w۔مختلف ر ہ ے ہ

ونا۳) اتھ پاؤںس درست اتھ پاؤں پھولنا، اتھ پاؤں بچانا ، ہ( ے ہ ہ ہوتا ک wس کام کو کرنا یا کرن کا بیڑا اٹھانا اب کام کرن ک ساتھ ی بھی ضروری اتھ ڈالنا ا ہکسی کام میں ہے ہ ہ ے ے ہے ے ہ

اتھ پیر پھwولنا یں ت اتھ پیر بچانا ک نچ جائ اسی کو ہاحتیاط برتی جائ تاک کوئی اور کسی طرح کا نقصان ن پ ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ے

غال کا شعر یں ت ون کوک ٹ طاری ہے۔گھبرا زب ۔ ہ ے ہ ے ہ ہاتھ پاؤں پھwول گئ ے الل خوشی س میر ہ ے ے ہ

wس ن ذرا مر پاؤں داب تود ا جب ا ےک ے ے ہاتھ پاؤںکی ونا مwردوں کو اتھ پاؤں میں کسی طرح کی خرابی ن ونا اور ونا ، اچھی صحت ہاتھ پاؤں س دwرست ہے ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ

ےدرستی اورقوت ک اعتبار س دیکھا جاتا اورعورتوں کو ناک نقش کی خوبی ک لحاظ س اسی لئ جب کسی ے ے ہ ہے ے ے

|س لحاظ س ی محاور یں ک و نک سک س دwرست ا ت وتا توی ک نا ہعورت یا لڑکی کو قبول صورت ک ہ ے ہے ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ

ہے۔گھرآنگن کی فضااور گھریلو سوچ س تعلق رکھتا ےاتھ پاؤں چلنا۴) وجانا، اتھ پاؤں ٹھنڈ ۔( ہ ہ ے ہ

وگا اورکیس وگئ ک اب کیا اتھ پاؤں ٹھنڈ ا جاتا ک مار خوف ک مر ون ک لئ ک شت طاری ےخوف ود ہ ہ ے ہ ے ہ ے ے ے ہ ہے ہ ے ے ے ہ ہ

یں نا ک آدمی چلتا پھرتا ر اسی لئ جب اپن لئ دعا کرت نا اس حدتک طاقت قائم ر اتھ پاؤں چلت ر ہوگا؟ ے ے ے ے ہے ہ ہے ہ ہ ے ہ ہ

اتھ پیراٹھال یں ک الل پاک چلت ت ے۔توک ہ ے ہ ہ ہ ے ہھوٹنا۵) اتھ پاؤں چ- ۔( ہ

وجائ اس لئ ک ی مرحل یں خیروعافیت س بچ کی پیدائش وت ہگھرآنگھن کا محاور اوراس ک معنی ہ ہ ے ے ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہے ہ

اتھ پاؤں چھڑال یعنی ی مرحل وتا توی دعا ایک حامل عورت کودی جاتی ک الل پاک خیریت س رحال نازک ہب ہ ے۔ ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ہے ہ ہ

ے۔نسی خوشی گذرجائ ہwن ک لواورا ماری معاشرتی زندگی ک مختلف پ wس س ےمحاور کی لفظیات اورنفسیات پراگرغورکیا جائ توا ہ ے ہ ے ے ے

ماری سوچ کا سلسل سامن آتا ہے۔بار میں ے ہ ہ ےاتھ پیل کرنا۶) ۔( ے ہ

یں شادی کردینا، ی محاور مسلمان گھرانوں وت wس ک معنی یں اورا اتھ پیل کئ جات wبٹن مل کر ہندوؤں میں ا ہ ہ ے ہ ے ہ ے ے ے ہ ہ

wبٹن کی رسم بھی مسلمان خاندانوں میں موجود وتا ا ہے۔میں بھی استعمال ہے ہاتھ جھاڑدینا۷) وجانا، یا اتھ جھاڑک کھڑا ۔( ہ ہ ے ہ

یں یں اس لئ و کچھ کربھی ن ی ن wس ک پاس توکچھ ر کر ک ا ہجب آدمی پیس ٹک س اپن آپ کو خالی ظا ہ ے ہ ہ ہے ے ہ ے ہ ے ے ے ہ

اتھ جھٹکنا یا دامن جھٹکنایا دوسر کو وگیا اتھ پیر جھاڑ کر کھڑا ی ا جاتا ک و توبالکل ےسکتا ایس موقع پر ک ہ ۔ ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہ ے

ی موقعوں اتھ جھٹکنا یا جھٹک دینا ایس ہبالکل اس کا موقع ن دینا ک و کچھ ک سک سوال کرسک مانگ سک ے ہ ے ے ے ہہ ہ ہ ہ

wردwو کا ایک مصرع ہے۔ک لئ آتا ا ہ ہے۔ ے ےے و چل جھٹک ک دامن مر دست ناتواں س ے ے ے ہ

اتھ جھٹک دیا اور اپنا دامن چھڑالیا وںن مراکمزور ۔یعنی ان ہ ے ہ

Page 214: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اتھ دانتوں س کاٹنا۸) ۔( ے ہاتھ کاٹنا افسوس کرن ک ار| حیرت کرنا اور دانتوں س یں اظ ےدانتوں تل انگلی دبانا محاور جس ک معنی ے ہ ے ہ ہ ے ہے ہ ے

wن چیزوں |ن پر غور کرن س پت چلتا ک گھریلو محاور ا یں اورا ےمعنی میں آتا ی محاور بھی گھریلو محاور ہ ہے ہ ے ے ہ ے ے ہ ہے

یں اتھ پیر wن میں یں ا یں جو بالکل سامن کی چیزیں ہس متعلق ہ ہ ے ہ یں ناخنون کو بھی ے یں اوردانت ہآنکھ ناک ہ

مار یں ک محاورات کا رشت م ی بھی نتیج اخذ کرسکت |س س یں اورزرزیور ا � ےشامل کیا جاسکتا کپڑ لت ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہے۔ ہ ے ے ہے

ن زندگی اور زمان کی خاص خاص رویوں اورحلقوں س ہے۔ذ ے ہ ہونا۹) اتھ کی لکیریں ۔( ہ ہ

اتھ کی لکیروں میں چھwپادیا گیا پا ماری پیشانیوں میں اور ماری تقدیر میں لکھا و ہے۔مارا عقید ی ک جوکچھ ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہے ہ ہ ہ

اتھ کی لکیروں س قسمت کا حال معلوم کیا جاتا ی الگ بات ک ی ہمسٹری ایک ایسا علم جس ک ذریع ہ ہے ہ ہے ے ہ ہ ے ہے

۔کس حدتک صحیح یاغلط ہےاتھی نکل گیا د-م باقی ر گئی ۱۰) ہے( ہ ہے ہ

ت تھوڑا کام باقی ر گیا اسی محاور کو ایک دوسری طرح بھی ادا وگیا اورب ت سا کام وم ی ک ب |س کا مف ےا ۔ ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہ

وت تھ پانچ وتا تھا اسی لئ دھڑی ک معنی wل گئیں یا سنگ ر گئ دھڑا پانچ سیر کا ایک باٹ ےکیا جاتا دھڑیاںت ے ہ ے ے ہ ے ہ ہے

wسی س جمع بنائی گئیں تھیں ۔سیر اوردھڑیاں ا ےوتا اس معنی یں wس ک نکلن ک بعد دwم پھنسی ر جائ ی ن اتھی نکل توجاتا مگرا ہی تخیلی محاور اس لئ ک ہ ہ ے ہ ے ے ے ہے ہ ہ ے ہے ہ ہ

و پاتا و یں لو پر روشنی ڈالتا اورو داستانی ف|کر ک ویس ن ماری سوچ ک ایک خاص پ ہمیں ی محاور ہ ہ ے ہ ہے ہ ہے ہ ے ہ ہ ہ

وجاتا ہے۔داستانوں میں ہتھیلی پرسرسوں جمانا۱۱) ۔( ہ

|س ک لئ محاور ک طورپر لیا تھیلی پر سوسوں جمانا ا و تر ترس ب نا ک و ب ت جلدی میں کام کرنا اوری چا ےب ہ ے ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ

ئی وتا اس کام ک لئ تھوڑا وقت چا یں یوں بھی کام یں ک ت تھیلی پر سرسوں جمانا چا ےجاتا جیس آپ تو ہ ے ے ہے ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہے

ئی ے۔توج اورمحنت چا ہ ہیں پالننگ منصوب بندی ت و جائ چا م جادو کرشم اورمعجز ک طورپر کوئی کام |س محاور س پت چلتا ک ہا ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہ ہے ہ ے ہ

ماری سوچ اور می اورمسائل پر نظر داری ہوسائل کی فرا یں اسی پر ی ایکApprochہ ی ن ہ کا کوئی حص ہ ہ ہ

Commentوسکتا باقی کام یں سرسوں جمتی ی توکرشم ک طورپر تھیلی پرک ہے اوری دکھانا مقصود ک ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہے ہ ہے

یں وت ۔محنت س اورمنصوب بندی ک تحت ہ ے ہ ے ہ ےوجانا۱۲) ڈیوں کی ماال ڈیاں نکل آنا یا ۔( ہ ہ ہ

ڈیاں نکل آنا بھی ڈیوں کی نماجاپانی ک ساتھ کیا جائ اس میں ہی ایک شاعران انداز ک کمزوری کا و ذکر بھی ے ے ہ ہ ہ ہے ہ ہ

|شار کرتا وتی جس کی طرف ی محاور ا وجانا بھی جسم کی ی حالت کمزوری ک باعث ڈیوں کی ماال ہے۔ اور ہ ہ ہ ہے ہ ے ہ ہ ہ ہے

وتی |س ک آئین میں سامن آئ ھیں، ی ایک صورت| حال بھی wر اور غلط یا صحیح اثرات ا ہاور زندگی میں اچھ ب ہ ے ے ہ ے ے ے

ڈیاں‘سسکیاں نکل آنا بھی اسی کمزور جwث س یا ب حد wس کا تاثر بھی تو نتیجوں کی طرف اشار کرتا ے اور ا ے ہ ہ ہے۔ ہ ہے

ہے۔دبل پتل بدن کی طرف اشار کرتا ہ ے ےلدی کی گ�ر یا گانٹھ لیک پنساری بن بیٹھا۱۳) ۔( ے ہ ہ

ا وت یا محاور ر کر تواس ک ت معمولی حیثیت پر و اپن آپ کو بڑی چیز ظا و اورب ہجب آدمی ک پاس کچھ ن ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہ ے

م ت معمولی ش اورپنساری بن جانا ایک بڑی دوکاندار ی کیونک لدی کی گ|ر ب یں ہک معنی سمجھ میں آت ہ ہے ہے ے ہ ہ ہ ہ ے ے

یں اور اپن آپ کو سب کچھ wسی پری ایک طنز ک و کچھ ن یں ا ےمعاشر میں اس طرح کی گھٹیاپن کی باتیں کرت ہ ہ ہ ہے ہ ہ ے ہ

‘‘ محاور ’’ طنزی یںی ت رکرنا چا ہے۔ظا ہ ہ ہ ہ ے ہ ہی چوکھا۱۴) ینگ لگ ن پھٹکر ی رنگ چوکھا لدی لگ ، یا ۔( ہ ہ ے ہ ے ہ

ی بھی شامل ک کسی بھی کام ہی عجیب وغریب محاور اوراس ک معنی میں سماج کی مکاری اورفریب د ہے ہ ے ہے ہ ہ

مار وجائ تر و اور نتیج ب wن میں س کوئی بھی ن وتی ا ی ک لئ جن چیزوں کی ضرورت ےکی انجام د ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ے ہے ہ ے ے ہ

یں ت ہمعاشر ک نکم اورخود غرض آدمی چا ے ہ ے ے وجائ اورکچھ ن کرنا پڑ اسی لئ دوسر ے یں ک سب کچھ ی ےی ے ے ہ ے ہ ہ ہ ہ

ی چوکھا لدی لگ ن پھٹکری رنگ چوکھا یں ک ش رکھت یں ک آپ توی خوا ت نظر آت ہلوگ طنز ک طورپر ی ک ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ے ہ ہ ے

یں ت اتی زبان میں چوکھا اچھ خاص کو ک ۔دی ہ ے ہ ے ے ہل ک پانی ن پینا۱۵) ہ( ے ہ

Page 215: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

وت ت |س طرح ک لوگ ب اں ا مار تا نکم�ا یں پینا چا ل ک پانی بھی ن تا بلک یں کرنا چا ےیعنی و آدمی کچھ ن ہ ہ ے ہ ے ہ ہے ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ

|شار یں ی ایک ایسا سماجی عیب جس کی طرف ی ک کر ا وت مگرکام کرن کو برا سمجھت یں ل ن ہیں جوکا ہہ ہ ہے ہ ہ ے ے ے ہ ہ ہ ہ

تا یں چا ل کرپانی بھی پینا ن ۔کیا گیا ک ہ ہ ہ ہ ہےونا۱۶) م خواب ونا یا م بستر ہ( ہ ہ ہ

م |س س زوجیت ک تعلق کو ا جاتا اورا ‘‘ بھی ک م خواب ہعورت مرد کا ایک ساتھ سونا اسی لئ بیوی کو ’’ ے ے ہے ہ ہ ہ ے

یں ت ونا ک م خواب ونا یا ۔بستر ہ ے ہ ہ ہ ہونا۱۷) م نوال م پیال و ۔( ہ ہ ہ ہ ہ

م مشرب م پیال ونا ’’ |س ک معنی میں ب تکلفی یں اوررا |س محاور س یاد کرت ہساتھ کھان اورپین کو ا ہ ہ ہ ے ے ہ ے ے ے ے ے

وتا وتا جو ساتھ بیٹھ کر شراب پیتا پیال س مراد جام شراب ۔‘‘شخص ہے ہ ہ ے ہ ہے ہے ہwن کی لفظیات wن میں ا یں ا یں اوررائج ر |س محاور س پت چلتا ک مختلف طبقوں ک لئ جومحاور بن ہا ہے ہ ے ے ے ے ہ ہے ہ ے ے

|شار کرتا م پیال کا لفظ اسی کی طرف ا |صطالحوں کوبھی شامل رکھا گیا ہے۔اورخاص ا ہ ہ ہ ہے۔ندی کی چندی کرنا۱۸) ۔( ہ

|س میں نکت چینی کی طرف خاص طور پر اشار کیا گیا اور و بھی |س معنی میں عجیب وغریب محاور ک ا ہا ہے ہ ہ ہ ہے ہ

ن کو مائل کرتا ک ایک طبق میں زبان ک مسئل پر ہندی ک رشت س ی اس سماجی حقیقت کی طرف ذ ے ہ ہ ہے ہ ہ ے ہ ے ہ

ندی کی چندی wس طرح اسی کو یں ا یں یوں اس طرح ن تا تھا ک یوں ن ہمحاور روزمر تذکیروتانیث پر اختالف ر ہ ہ ہ ہ ہ ے

ی کو ایک م نثر میں زیاد پسند تھ اور م قافی لفظ ا ک اں صدیوں تک ی رجحان ر مار ی ت تھ اور ہکرنا ک ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ے ے ہ

وتا ا ر ہے۔طرح کی شاعران خوبی سمجھت تھ جس س زبان پر قدرت کا اظ ہ ہ ے ے۔ ے ہنستی پیشانی۱۹) ہ(

یںاورو لوگ وسکتی مگرکوئی اچھی بات ن نا ایک مجبوری ہمعاشرتی زندگی میں آدمی کا روتی صورت بنائ ر ہ ہے ہ ہ ے

یں ایس لوگوں ک لئ یا یں جودوسروں ک ساتھ اچھ موڈ میں بات چیت کرت ےزیاد پسندید شخص قرارپات ے ے ہ ے ے ے ہ ے ہ ہ

وئی پیشانی نستی wسی کا ترجم ہےاس طرح ک اچھ موڈ ک لئ خند پیشانی کا لفظ استعمال کیا جاتا ا ہ ہ ہ ہے ہ ے ے ے ے

ترsmilingےجس انگریزی میں یں ی محاور دراصل سماجی روی کوپیش کرتا اور معاشرتی رویوں میں ب ت ہک ہے ہ ہ ہ ہ ے ہ

ہے۔صورت کو سامن التا ےنست پیٹ میں بل پڑگئ۲۰) نست ے۔( ے ہ ے ہ

ار جس س خوشی کا احساس بڑھتا اوردوسروں کو خوش رکھن کی اچھی نی کیفیت کا اظ ےایک اچھی ذ ہے ے ہے ہ ہ

وئی پیشانی نستی نس ک باتیں کرنا اور نس نا نسی خوشی ر وتا اسی لئ ار اس عمل س ش کا اظ ہخوا ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ہے ہ ے ہ ہ

یں وتی جس پرصرف مسکرایا ن نسی کی کوئی بات نستا و ت wمور کبھی کبھی آدمی ب ہاسی لئ پسندید ا ہے ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہے ہ ے

ق کچھ اور وتی ب تکلف ق نسی کچھ اور نست پیٹ میں بل پڑجائیں طنزی نست نستا ک ہہجاتا بلک آدمی اتنا ہ ے ہے ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ

نسی کا یں اور نسی ک مختلف مدارج بھی سامن آت ق بن جانا ایک اور داستانی صورت اس س ہاوردیوار ق ۔ ہ ے ے ے ہ ے ہے ہہ ہ

یں سکتا نس ن نس سکتا کوئی اور جانور ی کی سب س بڑی خوبی ک و ہے۔مقصد بھی اور ی آدمی ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہے ے ہ ہیں۲۱) ی گھربست نست ۔( ہ ے ہ ے ہ

نسی میت کوواضح کیا گیا ک نسی کی ا ہنسی س متعلق ایک اورمحاور جس میں سماجی حیثیت س ہ ہے ہ ہ ے ہے ہ ے ہ

تا اسی لئ عورتیں مردوں یں خاندان آگ بڑھتا گھربسناشادوآباد ر ن ک موڈ ک ساتھ گھربست ےخوشی ر ہے ہ ہے ے ہ ے ے ے ے ہ

wردwوک ایک قدیم شاعر کا شعر یں مگرا wکارتی ہے۔کوگھربس اورعورتوں کو گھربسی ک کر پ ے ہ ہہ ےے کون چا گا گھربس تجھ کو ہے

ےمجھ س دروپیش وب نواکی طرح ےنسلی اترجانا۲۲) ہ(

ی کی یں ان وتی ڈیوں س جوگل ک نیچ اورسین ک اوپر نسلی کی ہبچوں کی ایک بیماری جس کا تعلق ہ ہ ے ے ے ے ے ہے ے ہ ہ ہے

یں تی ن ر یں جوعام طورس قصباتی عورتیں پ ت نسلی ک ۔نسبت س ایک چاندی ک زیور کوبھی ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہ ے ےوجانا۲۳) نسی میں پھنسی یا کھنی ۔( ہ ہ

نسی گل wس ک بعد رونا آتا مغربی یوپی میں اس محاور کی ایک اور صورت بھی ’’ نسو ا ہیعنی زیاد مت ہے ہ ہے ے ہ ہ

وجانا جو پریشانی نقصان یا دشمنی کا سبب بن جائ اگردیکھا ےپھنسی ‘‘یعنی مذاق مذاق میں کوئی ایسی بات ہ

وجائ یںبات الٹی ن پڑجائ جس مwوڈ خراب نسی میں بھی احتیاط ضروری ک ۔جائ تواس س ی مراد ک ے ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ہے ہ ے ے

Page 216: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

وا۲۴) وا س باتیں کرنا، وا پر یا میں گ�ر لگانا، ونا، وا پرسوار وا بھرجانا، واکھانا، وابندھنا، ہ( ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ

وائیاں چھوٹنا، وائیاں اڑنا، ونا ، وا ک گھوڑ پر سوار ) وا س لڑتی ہس لڑتی )چلتی ہ ہ ے ے ہ ہے ے ہ ہے ے

ونا ۔وائی دید ہ ہ ہم ن کس کس طرح سوچا اور سماج میں جو غلط وا ک بار میں وتا ک |ن محاوروں پر نظر ڈالئ توانداز ہےا ے ہ ے ے ہ ہ ہے ہ ہ ے

یں کس طرح کبھی مذاق کبھی تعریف کبھی طنز اور کبھی خوبصورت انداز س یں ان ےسلط روی اختیار کئ جات ہ ہ ے ے ہ

وتا وا بازی کا انداز اختیارکرنا ونا غیرضروری طورس وا ک گھوڑ پر سوار ہے۔پیش کیا جاتا ہ ہ ے ہ ے ے ہ ہےwکی وکبھی ی کبھی و جب آدمی ب ت رتی ا جاتا جب آدمی کی نظر کسی ایک مقام پر ن ٹ wس وقت ک ےوائی دید ا ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ

وائی ’’ wڑنا پریشانی کی ایک غیرمعمولی صورت وائیاں ا ر پر وا میں گ|ر لگاتا چ ہاور غلط بات کرتا توگویا ہے ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہے

و ۔چھوڑنا‘‘ جھwوٹ بول دینا دل کو خوش کرن والی بات ک دینا جس کا کوئی سرپیر ن ہ ہ ہہ ےwدھر کی بڑائی کی باتیں سوچتا اوراپنی حقیقت |دھر ا wس س مwراد ی ک و ا وتا اورا ہےوا بھرجانا سرس متعلق ہ ہ ہے ہ ے ہے ہ ے ہ

یں کرتا ۔پر نظرن ہوحق کرنا۲۵) ۔( ہ

|س لفظ ک ذریع و اپنا عقید ہوحق درویشوں فقیروں الل والوں اورصوفیوں کا ایک نعر اورکلم ذکر یعنی ا ہ ہ ے ہے ہ ہ ہ اہ

وحق ‘‘کا ذکربھی آتا wن کی ’’ یں اسی لئ جب صوفیوں کا ذکر آتا توا ۔اوراپنا جذب دونوں کو پیش کرت ہے اہ ہے ے ہ ے ہ

وتی wس س مراد یں ی ا وا کچھ ن wس ک ماس| ی حق اورا یں و وت وحق‘‘ ک معنی ہے۔’’ ہ ے ہ ہ ے ہے ہ ہ ے ہ ے اہwردwو محاورات مختلف طبقوں ک اپن خیاالت معامالت اورمعموالت کو بھی ل ذکرکیا گیا ک ا |س س پ ےجیسا ک ا ے ہ ہے ے ہ ے ہ

یں ی ک wس کی ایک نمایاں مثال کیونک ی صوفیوں کا محاور اسی لئ لفظ بھی ان یں ی محاور ا ہپیش کرت ے ہ ے ہے ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے

ی کا ہے۔اور حال وخیال بھی ان ہوش میں آؤ۲۶) وش پکڑنا، وش اڑانا، وش اڑنا، ہ( ہ ہ ہ

وش وحواس اگرقائم ن ر تو آدمی اپن لئ یا دوسروں ک ی ضروری مرحل ت ےوش مندی زندگی کا ایک ب ے ے ہے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ

ت ت زور دیا گیا اسی لئ ک وش وحواس ک دwرست رکھن پر ب اں مار ی یں سکتا اسی لئ ی ن ےلئ کچھ کر ہ ے ہے ہ ے ے ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ے

ت وش مندی اختیار کرو ی بھی ایک محاور اورب وش ک ناخن لو‘‘یعنی وش میںآؤ یا ’’ ویا وش میں ر ہیں ک میاں ہے ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ

یں تھی ی بھی سوچا جاتا ک ذرا سی دشواری پیش آئی وش کی دارو، دوا تولقمان ک پاس بھی ن م محاور ہا ہے ہ ہ ے ہ ہے ہ ہ

یں ی خبر سنکر ت وش کھودین کو ک وش اڑنا، ’’ وش ٹھکان آلگ ہتھی اورمصیبت کا سامنا کرنا پڑا تھا ک ہ ے ہ ے ہ ہ ے۔ ے ہ ہ

وش اڑادین ک لئ توی صورت| حال کافی تھی تھوڑا سااطمینان کا سانس لینا ‘‘ یا میر وش اڑگئ ۔تومیر ہ ے ے ے ہ ے ے ہ ے

وش حواس کو سنبھالن کا موقع مال اور اب جان میں جان آئی وا تو ۔نصیب ۔ ے ہ ہول جول۲۷) ۔( ہ

ول‘‘ اں بھی جگ دی ’’ wس اپن یں گیا چرنجی الل ن ا نا بھی ن wیں س ر ک |س س با لی کا خاص محاور اورا ہد ہے ہ ہ ے ے ے ہ ہ ہ ے ہے ہ ہ

ول جول‘‘ ک معنی اضطراب وپریشانی ول آگیا لیکن ’’ یں ک ی سنکر مجھ تو ت ےخوف ک معنی میں آتا اورک ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہے ے

محاورات ایک عالق س نکل کرد یں جس ک ساتھ ی وضاحت بھی کی گئی ک نساء وعورت کا محاور ےک ہ ہے۔ ہ ہ ہے ہ ے ہ ے

ت فرق wن کا کبھی کبھی تھوڑ تھوڑ ب یں اورمختلف طبقوں ک مابین ا نچت اورپھیلت ہوسر عالق میں بھی پ ے ے ے ہ ے ے ہ ہ ے

یں میل جول ذیبی اورطبقاتی دائروں س وابست یں جوکچھ خاص ت وتا لیکن ایس محاور بھی ہک ساتھ رواج ہ ے ہ ہ ے ے ہے ہ ے

ول‘‘ ک ساتھ جب ی آتا توایک دوسر معنی دیتا اورطبق م جولی میں بھی لیکن’’ ہمیں’’ جول‘‘ کا لفظ آتا ہے ے ہے ہ ے ہ ہ ہے

|سواں تک محدود  ہے۔ن

ولی کا بھڑوابنdا۲۸) ۔( ہو یں ایک گیا گذرا آدمی جس کو اپنی عزت کا بالکل لحاظ پاس ن |س ک معنی ت نچل طبق کا محاور اورا ہب ہ ہ ے ہے ہ ہ ے ہ

یں ت اں ایس ’’قرم ساق‘‘ ک ۔فارسی میں ی ایک دشنام یاگالی ک طورپر آتا اورو ہ ے ہ ے ہ ہے ے ہولی کا سرپٹا۹۲) وگیارا ولی کا ۔( ہ سہ ہ

ی کو یں ان ی بکت نظر آت ی تبا wڑات اور اوا یں رنگ ا wچھالت ہولی میں عام طورس چھوٹ طبق ک لوگ ف|قر ا ہ ے ے ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ ے ے ہ

ت عام سطح پر شوروغل مچان واال ا جاتا یعنی ب لیار ا‘‘ ک ۔ولی ’’کا ے ہ ہے ہ ہ ہولی ک سانگ میں شریک رکھا جاتا اورذراسی بات پر جوو جان بوجھ کر غلط وتا جس ہایک شخص ایسا ہے ے ہ ے ہے ہ

wسی کو مارا پیٹا جاتا ی سب دکھاو ک طورپر وتی بلک دوسروں کی غلطیوں پربھی ا ےکرتا اس کی پٹائی ے ہ ہے ہ ہے ہ ہے

مار گھروںاور خاندانوں میں کسی بھی شخص کو جس |س س سماج کا روی سامن آتا ک پیشتر ےوتا مگرا ے ہ ہ ہے ے ہ ے ہے ہ

Page 217: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ا جاتا wس ک ا بھال ا wور اورمجبور خیال کیا جاتا غلطی کوئی کر بر wہے۔معز ہ ے ے ہےونٹ چاٹنا۳۰) ونٹ کاٹنا، یا چبانا، ۔( ہ ہ

یں آتی توو اپنا دل مسوس کرر جاتا ش رکھتا اور و میسر ن ہےآدمی کبھی بھی شدید طورپر کسی چیز کی خوا ہ ہ ہ ہ ہے ہ

|س ک مقابل میں جو خو ش ونٹ چبانابھی ا وئ الفاظ ک ساتھ یں اوربدل ت ونٹ کا ٹنا بھی ک ہاسی حالت کو ے ۔ ہ ے ے ہ ے ہ ے ہ ہ

wس کی تمناکرتا ر جاتا ک و توآدمی ا ش ن ہذائق اوراچھی چیز کھان پین ک لئ میسر آتی اگرو حسب| خوا ہے ہ ہ ہ ہ ہ ہے ے ے ے ے ہ

ماری معاشی اورمعاشرتی ونٹ چاٹتا ر جاتا ی محاور یں ملتی توو ہکاش و تھوڑی سی اورم|ل جاتی ن ے ہ ہے۔ ہ ہ ہ ہ ۔ ہ

ر کرت wس ظا وتا ا یں اورایک عام آدمی پرکسی خاص محرومی کا جواثر |شار کرت ےصورت| حال کی طرف ا ہ ے ہے ہ ہ ے ہ

داتی بھی یں ی ایک طرح کا نفسیاتی معامل بھی تجرباتی بھی اور مشا ر کرت wراثر طریق س ظا ہیں اورپ ہے ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہ

یں طنز بھی تنقید وتبصر مار سماجی رویوں پر طعن بھی وتا ک محاورات ن منتقل |س س ایک بار پھرذ ہاورا ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ے

ذیب وتعریف اورمختلف دور ک wس کی ت میں اپن معاشر ا ےبھی اس اعتبار س اگردیکھاجائ تومحاورات میں ہ ہ ے ہ ے ے

۔رویوں کا ایک جیتا جاگتا عکس نظر آئ گا ےوتا جس صرف لغت میں ماری ایک طرح س سماجی تاریخ اورالفاظ ان ک معنی خیز ربط ےادب ولٹریچر ہے ہ ے ہے ے ہ

wن کی رسائی اورنارسائی س سمجھ میں آت wن ک عمل ورد| عمل س ا یں دیکھاجاسکتا و سماجی رشتوں س ا ےن ے ے ے ے ہ ہ

wن معنوں کو ہیں اورمحاور بڑی حدتک ا ماریPreserveہ یں ہکرتا اس اعتبار س محاور صرف زبان کا حص ن ہے ہ ہ ہ ے ہے

ہے۔سماجیات کا حص ہوس لگنا۳۱) ۔( سہ

wن میں نظر لگنا بھی ک یں ا م پرستی ک انداز س سوچت ہماری ایک عام سماجی کمزوری ی ک بات بات توا ہے ہ ے ے ے ہ ہ ہے ہ ہ

یں لگتی چیزوں کو بھی لگتی مچھلی کو دودھ کو اور گوشت کو عام ی کو ن wس کی ٹوک لگ گئی نظراپن ہےا ہ ہ ے

وا کی یا پھر مکھی مچھر کی گندگی س بچایا اس کو ےطورس نظر س بچایا جاتا ی اس لئ توخیرضروری ک ہ ہ ہے ے ہ ہے ے ے

م پرستی کا عwنصر شامل معاشر ک ¸ |س میں ایک طرح س توا ےجائ لیکن آدمی کی نظر س بھی بچایا جائ ا ہ ہے۔ ہ ے ے ے ۔ ے

wس ’’راکھ وتا ک جب کوئی بچ دودھ پی کر یا گھی کھاکر گھرس نکلتا تھا توا |س س بھی |س روی کا انداز ا ےا ے ہ ہ ہے ہ ے ہ ہ

ی کا ٹکابھی لگا دیا جاتا تھا wس سیا ہچٹادی‘‘ جاتی تھی اسی طرح جب کسی بچی یا بچ کا مwن دwھالیا جاتا تھا توا ے ہ ہ ۔

|س نظر wدھر ن جان دیا جاتا تھا ک ا |دھر ا ےتاک و نظر| بد س بچ جائ لڑکیوں کوکھل بالوں اورننگ سر کوٹھ پر ا ہ ے ہ ے ے ے ے ے ہ ہ

ت تھ و چ|مٹ جات تھ ےوجائ گی عام طورپر جن یا بھwوت یا بھwوتیاں جو ویران گلیوں‘ کوٹھیوں یاگھروں میں ر ے ہ ے ے ہ ے ہ

ا جاتا تعویذ گنڈ wوپری اثر ج|س دل�ی میں اوپری اثرک |ن لڑکوں کو بھی اکثری خیال کیا جاتا ک ا ےجوا ہے۔ ہ ے ۔ ہے ہ ہے ہ

مار ایک |س معنی میں ی محاور ا یں م پرستان عالج ک طریق اسی وج س زیاد رائج ر ےجھاڑپونچھ جیس توا ہ ہ ہ ۔ ہ ہے ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ے

|شار کرتا نی رویوں کی طرف ا ہے۔خاص طرح ک سماجی طریق فکراورعوام ک ذ ہ ہ ے ہ ےیر کی کنی کھاجانا۳۲) یرا یا یرا آدمی، ۔( ے ہ ہ ہ

wری چیزوں س wس کی سیرت وصwورت کی کمزوریوں ک باعث مختلف اچھی ب wس کی خوبیوں یا پھرا ےآدمی کو ا ے

l چاند سورج کنول پھول ہےتشبی واستعار ک حوالوں س مختلف ناموں س یاد کیا جاتا یا نسبت دی جاتی مثال ہے ے ے ے ہ ہہ

ت یرا موتی اسی لئ ک ر یں اچھا آدمی لعل جوا ت wرائیوں ک اعتبار س اینٹ پتھراور کوڑا کرکٹ ک ےاسی طرح ب ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ے ے

یرا ۔یں ک و تو ہے ہ ہ ہ ہوئ یر جڑ ےیرا انگوٹھیوں میں زیورات میں اوردوسری زینت کی چیزوں میں کام آتا تخت طاؤس میں بھی ہ ے ے ہ ہے ہ

تا تھا آج برطانوی ملک یا بادشا ک تاج میں کو نور چمکتا یرا ر wور اں کی پگڑی میں بھی کو ن ہےتھ اورشا ج رہ ے ہ ہ ۔ ہ ہ رہ ہ ہ ے

وتا اسی لئ ر بھی یرا بدترین قسم کا ز وسکتا لیکن یر کی قیمت کا انداز |س س انسانی زندگی میں ےا ہے ہ ہ ہ ہے ہ ہ ے ہ ے

یں وجاتی اوراگراس کی کنی کھالی جائ توآنتیں کٹ جاتی wس س موت ۔یر کو اگر چاٹ لیا جائ توا ہ ے ہے ہ ے ے ے ہیرا پھیری کرنا۳۳) یرپھیر کی باتیں کرنا یا ۔( ہ ہ

یرپھیر کی یرا پھیری کرتا ی خاص طور پر دل�ی میں بوال جاتا اور ا جاتا ک و توبڑی ��اری اوردغابازی کوک ہمک ہے ہ ہے ہ ہ ہ ہے ہ

ہے۔باتیں کرنا عام گنا۳۴) ینگ نا یا ینگ ک ینگ لگانا، ۔( ہ ہ ہ ہ ہ

یں ی ینگ لگان ک معنی و نا wٹھانا اورخاص طور پر پیٹ کی تکلیفوں میں مبتال ر ہاس س مwراد تکلیفیں ا ہ ے ے ہ ہے ہ ہے ے

یں ی ایک طرح کا فریب دین کا عمل ونا لگان ک wہے۔جوچ ے ہ ۔ ہ ے ے

Page 218: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ائ کرنا ۔ائ ے ہ ے ہارکرنا، غال کا مصرع ہےافسوس کا اظ ہ زب ہ

ائ کیوں ائ ے روئی زار‘ زار کیا‘ کیجئ ہ ے ہ ے ےار| افسوس کرنا ایک طرح س آ وشیون وکر اس پر اظ ائ کرنا دکھ درد س پریشان ائ ہاس س پت چلتا ک ے ہ ہ ے ے ہ ے ہ ہ ہے ہ ے

ار صاف آدمی اپن رنج وغم دwکھ تکلیف اور مسرت و شادمانی ک جذبات کا اظ وتا ار| مالل ہقائم کرنا جواظ ے ے ہے۔ ہ ہ

wن کی ادائیگی کا جیس یں الفاظ اور ا ارا لیتا اور ک یں آوازوں کا س wس ک لئ ک ےوساد صورت میں کم کرتا ا ہ ہے ہ ہ ے ے ہے ہ

وتا ائ افسوس وغم اور شدید دwکھ وتکلیف ک لئ ائ وتا اور ار|خوشی ک لئ ہے۔وا وا کرنا جو اظ ہ ے ے ے ہ ے ہ ہے ہ ے ے ہ ہ ہی یا ٹھی ٹھی کرنا۳۶) ی ہ( ہ

ی کرنا‘‘یا ٹھی ٹھی ی یں لگتی تواس ’’ نسی کی آواز اچھی ن wن کی یں اورا نستی ہلڑکیاں یا عورتیں ب طرح ہ ے ہ ہ ہ ہ ے

یں مگر ٹھٹھا کرنا زیاد نسی مذاق ک wس ک معنی اں محاور کا حص�� اورا مار ی نسی ٹھٹھا یں ت ہکرنا ک ہ ے ہ ے ہے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ے ہ

نسی ک عمل کی طرف ایک اشار جس میں خاص یں جب ک ٹھی ٹھی کرنا ت ہےاورغیرضروری مذاق کرن کوک ہ ے ہ ہ ۔ ہ ے ہ ے

م کسی wس ک پیدا کرد سانچ میں ڈھاال جاتا اس س ار کو ایک خاص سلیق اور ا ہآوازوں ک ذریع طریق اظ ے ہے۔ ے ہ ے ہ ہ ۂ ہ ے

وتا آوازوں یا لفظوں میں ڈھلت لو کو جو صورت| حال کا نمایاں حص�� wر پ wس ک اچھ ب ےانسان ک عمل اور ا ہے۔ ہ ہ ہ ے ے ے ے

و کر سامن آتی ہے۔وئ دیکھت ھیں اور پھر و حقیقت‘ مصو��ر ے ہ ہ ے ے ہ

) (‘‘ ی’’ ردیفی 

ہ۔یادالل( ۱) بی جذبات کی ترجمانی کرتا اس ک معنی wن ک مذ ےمسلمانوں کا محاور اورا ہے ہ ے ہے ہ

یں لیکن محاور میں اچھ خاص خوش گوار تعلقات ک لئ یا ےالل کی یاد ک ن ے ے ے ے ہ ے ہمار اچھ تعلقات یںک |س ک معنی wن س یادالل ا ماری ا ا جاتا ک ےدالل ک ے ہ ہ ہ ے ہے ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ

۔یں ہ۔یادش بخیر( ۲)

یں ت wس کا ذکرآجا تا تویادش بخیرک ہجب کبھی کسی اپن کو یادکیا جاتا اورا ے ہ ہے ہے ےوان کلمات س پت چلتا ک سماج میں گفتگوک کچھ آداب wس کی یاد بخیر ےک ا ہ ہے ہ ے ہ ہ

نا گفتگو ک آداب کوبرتنا یں یادش بخیرک ہے۔وت ے ہ ہ ے ہ۔یادگ-داگ-انا( ۳)

نسی آتی اسی لئ ےیعنی بار بار یادآنا گدگدی کرنا ایک ایسا عمل جس س ہے ہ ے ہےہے۔’’گدگدانا‘‘ ایک دلچسپ عمل و بھی خو ش کرنیواال عمل یعنی ان کی یاد ہ ہے

ا ور ا اوردل خوش ی اچھی اچھی باتوں کا خیال آر ہے۔دل کو’’ گدگدا‘‘ر ہ ہ ہے ہ ہے۔ ہ۔یاروں کا یار( ۴)

و و یاروں کا wن کا وفادار ہجو آدمی اپن دوستوں ک ساتھ اچھا سلوک کر ا ہ ے ے ےیں اسی لئ الل کا ساتھ ون ک ون ک معنی مددگار التا اصل میں یار ہیارک ے ہ ے ے ہ ے ے ہ ہے ہwس کا وتا ا یں یں ک اس کاا لل یا ر جس کا کوئی ن ت ہبھی یار لگتا اوری ک ہ ہے۔ ہ ہ ہ ے ہ ہ ہے

وتا ہے۔مددگار الل ہ ہون ک معنی میں آتا عورتیںجب عام طریق ک خالف ونا دوستی ے’’یاری‘‘ ہ ہے ے ے ہ ہ

ا جاتا یا التا ی بھی ک یں توو ان کا یار ک ہےکسی غیرشخص س دوستی کرلیتی ہ ہ ہے ہ ہ ہ ےwس ک فعلوں س کیا تعلق یعنی دوستی بڑی چیز باقی ہےرکی یاری س کام ا ے ے ے

۔باتوں ک چکر میں کیوں پڑاجائ جوکچھ ٹھیک ہے ہے ے ے۔یاری ک-ٹ کرنا( ۵)

یں دوستی ختم کرنا اگریوں دوستی ختم وت ہبچوں کا محاور جس ک معنی ے ہ ے ہے ہ

Page 219: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

وتی جس طرح بچ� ایک خاص عمل ک ذریع دانتوں کو انگوٹھ ک ناخن یں ےن ے ہ ے ے ہ ہیں ت |س یاری کٹ کرنا ک یں اور ا یں اورپھرکٹ کرت ۔س چwھوت ہ ے ہ ے ہ ے ہ ے ے

۔یافت کی آسامی( ۶)یںپانا، روپی پیس |س ک معنی ہیافت فارسی کا لفظ اوریافتن مصدر س بنا ا ہ ہ ے ہے ے ہےwٹھایا یں جس س فائد ا ت ونا ، آسامی موقع جگ اورایس آدمی کو ک ہکا فائد ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ

وئ و جگ یا و آدمی جس س |س محاور ک معنی |س اعتبار س ا ےجاسک ا ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ے ے۔و ویا اس کی توقع ۔فائد اٹھانا ممکن ہ ہ ہ

وگ توسچ مانوگ( ۷) ے۔یقین ک بند ے ہ ہ ےwس کی بات ی ا وتا اورجوآدمی کسی پراعتماد کرتا و ہیقین اعتماد کی بنیاد پر ہے ہے ہ

ہپریقین بھی کرتا اوراس ک وعد کو سچ سمجھتا لیکن اگرکسی پر بھروس ہے ہ ے ہےوگ ا جاتا یقین ک بند یں اسی لئ ک wس کی بات کا یقین بھی ن یں توا ےی ن ہ ہ ے ہے ہ ے ہ ہ ہ

ے۔توسچ مانوگ۔یک جان دوقالب( ۸)

ی الگ ان ک بدن وتی ک ائی محبت یں جب انت ت ی قریبی رشت کو ک ت ہب ے ہ ہے ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ ہون مار سماج کا ایک آئیڈیل ک الگ الگ وجود wن کی روح توایک ی یں ا ےالگ ہ ہ ہے ے ہ ہ ہے ہ

یں اورایک ی زندگی جیت یں ایک ی انداز س سوچت ہک باوجود و ایک ے ہ ہ ے ے ہ ہ ےوت یں ے۔دوسر س کبھی الگ ن ہ ہ ے ے

۔یوم الحساب( ۹)و وگا تمام لوگ جمع ہقیامت کا دن جس ک لئ تصو�ر کیا گیا ک حشر کا میدان ہ ہ ہے ے ےی wن کا فیصل کر گا ی وں گ اورخwدا ا اتھ میں ہںگ اورسب ک اعمال نام ان ک ے ہ ے ہ ہ ے ہ ے ےیں ی مسلمانوں کا عقید تواس س ت ےیوم القیامت اسی کو یوم الحساب ک ہے ہ ہ ہ ے ہ ہے

وں گ اس طرح ک ی ک عقائد اورخیاالت کا حص ےمتعلق تصورات بھی ان ے ہ ہ ے ہیں ک محاور اگرچ عام م ک سکت یں اور ہمحاور خاص کلچر س تعلق رکھت ہ ہ ہ ے ہہ ہ ہ ے ے ہ

بی تصورات ن اور مذ ذیب طبقاتی ذ ہوتا مگربعض محاوروں کا تعلق عالقائی ت ہ ہ ہے ہوتا ہے۔س ہ ے

ی( ۱۰) ی س ی، یوں ۔یوں تو ں کرنا، یوں ہ ہ ہج میں wراسلوک کرنا ، تلخ کالمی یا ترش روئی س پیش آنا اسی لئ ب تکلف ل ہب ہ ے ے ےی ی ایک عام ی س ی یا یوں ماری ’’یوں توں‘‘ کردی یوں یں ک اس ن تو ت ہک ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہ

ی ی س یں چلو یوں ت ت توک یں چا م کاٹنا ن ہفقر اورجب دوسر کی بات کو ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ے ہے ہور مصرع ہے۔اردو کا مش ہ ہ

ی ی س ی تول یوں ہ تیری مرضی اگریوں ہ ے ہ ہےادرشا ظفر کا بھی شعر ہے۔ب ہ ہ

ی ی س اں یوں م بھی یں گ وگ تم ک ہ جوک ہ ہ ہ ے ہ ے ہی ی س اں یوں ہیوں خوشی آپ کی توو ہ ہ ہے

یں( ۱۱) اں کای ۔ی ہ ہوگا اسی لئ ایس فقر یں ونا و ی ی میں ر جائ گا جوکچھ ہیعنی دنیا کا دنیا ے ے ہ ہ ہ ہے ہ ے ہ ہ

یں کسی شاعرکا شعر و نا و ی اں کا جو یں ک ی ہے۔استعمال کئ جات ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ ے ے

wال و جتنا گھوٹ لولوگوں کا تم صاحب گ ہ چا

Page 220: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یں ر جائ گا ےاتھ خالی جاؤگ یاں کا ی ہ ہ ے ہیں توڑا ہ یوں تورشت کبھی ن ہ

یں چھوڑا اں کا و ی ہجوی ہ ہے ہ

مار محاور س کیا رشت ماری زبان کا یں ک م انداز کرسکت ہےاس لی ہ ے ے ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ےم اپنی بات سیدھ سادھ ن س کیا تعلق ماری زندگی وذ |ن دونوں کا ےاورا ے ہ ہے۔ ے ہ ہار اور خیال کی تصویر کشی ک یں لیکن اکثر جذب ک اظ ےانداز میں بھی کرت ہ ے ہ ہ ےنچان کی wس میں لسانی اورلفظی سطح پر اپنی بات کو دوسروں تک پ ےلئ ا ہ ے

ار یں ر جانا عقید کا اظ اں کا ی یں ی لوداریاں بھی پیدا کرت ہغرض س نئی نئی پ ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ےمار ےبھی اورعبرت دالن ک لئ ایک انداز| گفتگو بھی جس ک پس منظر میں ہ ے ے ے ے ہے

یں ۔سماجی ضابط عقید تصورات سب آجات ہ ے ہ ے

‘‘ محاورہ’’ میں ااردوشعروادب 

میت کی طرف اشار  ذیبی اورمعاشرتی ا ہگذشت سطورمیں محاور کی ادبی ت ہ ہ ہ ہwس wن س ی انداز کیا جاسکتا ک محاور زبان کی ساخت اورا یں ا ئ گئ ہکرد ہ ہے ہ ہ ے ہ ے ے ے

ا ہے۔کی ادبی پرداخت میں کیا خاص کردار ادا کرتا اورصدیوں تک ادا کرتار ہ ہےذیبی حلقوں میں اپنا ہجب زبان آگ بڑھتی اورپھیلتی مختلف دائروں اورت ہے ے

wس کی تزئین اورترسیل میں جوباتیں یا خوبیاں خصوصیت ہےاثرونفوذ پیداکرتی توایں ان میں تشبی استعار تلمیح اورمحاور خاص طورپر شریک ہک ساتھ حص لیتی ہ ہہ ہ ہ ے

یں شاعر مقررافسان گو اور داستان نگار تشبی س کام لیتا ایک ش تا ک ےر ہے۔ ے ہ ہ ہ ہے ہوتا ت دی جاتی توتشبی کارشت پیدا ہےوجود کو دوسری ش یا وجود س مشاب ہ ہ ہہ ہے ہ ے ےالتا یعنی و ش ایسی جیس فالں ش اورجب تشبی ہہجومثال کا رشت ک ہے۔ ے ے ہے ے ہ ہے ہ ہ

wس ش س وابست کیاجاتا توو استعار یا عالمت بن ہک رشت کومستقل طورپر ا ہ ہے ہ ے ے ہ ےہجاتی جیس سورج چاند پھول شاخ گل شمشیر ستار ما نووغیر وغیر ی ہ ہ ہ ہ ے ہے

ت سی باتیں خیاالت تصورات اور تاثرات یں استعار بھی اورجب ب یں بھی ہتشبی ے ہ ہیں توو عالمت بن جاتی و عالمت تمثیل کی وجات ہکسی ش ک گرد جمع ہے ہ ہ ے ہ ے ے

م یں تلمیح کی صورت میں سامن آتی جب ہصورت اختیارکرلیتی اورک ہے ے ہ ہے ادھر تک جڑتا چال |دھر س نی سلسل ا یں تواس کارشت یاذ ےاستعار کی بات کرت ہ ہ ہ ہ ے ہیں انفرادی سطح د س تعلق رکھن وال امور ی خیال حال تجرب اورمشا ہجاتا ے ے ے ہ ہ ہ ہ ہے۔

ذیبی ہپر بھی ایک شاعرایک فنکار ایک داستان گواپن فنکاران انداز نظراور اپن ت ے ہ ےوں اوراستعاروں تلمیحوں کواپن انتخاب اوراستعمال میں ےنقط نگا ک ساتھ تشبی ہ ے ہ ہ

ہے۔شریک رکھ سکتا یں تشبی کارشت قائم ہمحاو ایک طرح س زبان میں استعاراتی عمل جس میں ک ہ ہ ہے ے ہ

یں ی |س س ایک خاص معنی مراد لئ جات یں تلمیح کا ا یں تمثیل کا ک ہوتا ک ہ ے ے ے ہ ہ ہے ہم محاور ک طورپر’’ وت جیس یں یں عام لwغت ک تابع ن وت ےمعنی مرادی ہ ہ ے ے ہ ہ ے ہ ے ہار مقصود wس س غیرمعمولی غص اور طیش کا اظ یں اورا ت ونا‘‘ ک ہآگ بگول ہ ے ہ ے ہ ہ ہ

۔وتا ہے ہی معنی wس س و نوں میں ایک تصویریامجسم شکل اختیار کرلیتا اورا ہمحاور ذ ے ہے ہ ہwس محاور ک ساتھ روایت یا یں جوایک طرح س ا ےسمجھ اور سمجھائ جات ہ ے ہ ے ے ے

Page 221: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یں زمان ب زمان لفظ استعار تشبی وغیر اپن ےٹریڈیشن کی شکل اختیارکرلیت ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ےیں لیکن محاور یں الفاظ بھی شکل بدل دیت ت ہمعنی میں تبدیلیاں پیدا کرت ر ہ ے ہ ے ہ ے

ان| لفظ ومعنی میں ایک پتھرکی لکیر کی طرح تا و گویا ج ہاپنی جگ پرقائم ر ہ ہے ہ ہےوتا جوصدیوں تک بلک ایک ایس زمان تک جس کا تعین مشکل اپن خدوخال ہے ہ ے ہ ہے ہ

ےاورنقش ونگار کو قائم رکھتا و ٹوٹ سکتا چھوڑا جاسکتا اسی طرح س ہے ہے ہ ہےذیبی یاتشبی واستعاراتی استعمال کی ہمحاور ایک زمان کی لفظیات اورزبان ک ت ہ ے ہ ے

اس معنی میں محاور کسی بھی زبان کی یں ہبعض صورتوں کو محفوظ رکھت ۔ ہ ےwھتیاں ت سی لسانیاتی گ ہصوتیات لفظیات اورلسانیاتی مطالع میں مدددیتا ب ہے۔ ہیں زبان ک ارتقائی مراحل پر نظر یں سماج ک روی سمجھ میں آت ےکھلتی ہ ے ے ے ہ

یں وت ۔داری میں ی محاور معاون ہ ے ہ ے ہری سطح پر یں ش ماری زبان ایک ناقابل| شکست حص� ر اں محاور ہمار ہ ہے ہ ہ ے ہ ے ہ

ذیبی |ن ک مطالع س اپنی ت م ا ات کی سطح پر ہویا قصباتی سطح پر یا دی ے ہ ے ہ ہ ہیں وسکت ری رویوں اوراپن تمدنی مزاج کی ت داریوں س واقف ۔روشوں ش ہ ے ہ ے ہہ ے ہمار سامن آت wمور یں توعام طورس سیاسی واقعات اورانتظامی ا ےم اپنی تاریخ ک صفحات س س گزرت ے ے ہ ے ہ ے ے ے ے ہ

wن یں ا م گوش ایت ا ذیبی تاریخ ک ن ماری ت یں مگراس س الگ اورآگ جو وت ہیں یا جنگ وجدل ک حاالت ے ہ ہ ے ہ ہ ے ے ہ ے ہ ے ہ

ذیب وتاریخ ک ان ماری ت نی زمانی اورزمینی حوالوں س یں ادبیات کا مطالع بعض ذ ےس صرف| نظرکرجات ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ے

|ن میں قص یں ا ت وں س اوجھل ر ماری نگا ےگوشوں اورزاویوں کو پیش کرتا جوعام مطالع ک دوران اکثر ۔ ہ ے ہ ے ہ ہ ے ہ ہے

یں ت س گوش محفوظ ذیب ک مطالع ک ب ماری ت یں شعروسخن میں انیاں حکایتیں نیز روایتیں بھی ہک ہ ے ہ ے ہ ے ہ ہ ۔ ہ ہ

ذیبی مطالع ک لئ ان کو بطور|خاص یں ک ت |س دائر میں آت ےمثنویاں قصید غزلیات اردو مرثی نیز مرثی ا ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ے

ہےسامن رکھا جائ ادبی مطالع لسانیاتی مطالع کی طرف بھی التا اوراس طرح کی علمی وادبی کوششیں ہ ہ ے ے

l l مختصرا wن کا دائر نسبتا یں اگرچ تحقیق وتنقید ک مقابل میں ا ی وتی ر ہے۔برابر ہ ہ ے ہ ۔ ہ ہ  ہ

wس ک فکری زاوی روش اورواضح اں ایک محاور کی طرف اگراشار کردیا جائ توبات سمجھ میں آجائ گی اورا ہی ے ے ے ہ ہ ہ

را تعلق ایک ذیبی رشتوں س گ ماری معاشرت اور ت l ’’ساس لگنا ‘‘ایک محاور جس کا ہےوجائیں گ مثال ہ ے ہ ہ ہے ہ ے ہ

تی تھی ک ار ناخوشی کرنا چا wس پر اظ م پیش خاتون ک روی س خفا تھی اورا ہکنواری لڑکی اپنی کسی دوسری ہ ہ ے ہ ے ہ ہ

wر الفاظ میں یادکیا تھا اورشکو شکایت کی بات کو لڑائی جھگڑ کی صورت wس ن خوا مخوا ایک موقع پر ب ےا رہ ے ہ ہ ے

|س طرح کی wس ن میر خالف ا ا ک ا وئ ک ارکرت wس پر اس کنواری لڑکی ن اپنی ناراضگی کا اظ ےدیدی تھی ا ے ہ ہ ے ہ ے ہ ے

یں لگتی تھی‘‘ ۔باتیں کیوںکیں و میری ’’ساس ن ہ ہمار خاندانوں میں’’ ساس‘‘ کو بڑا درج دیا جاتا تھا اوری خیال کیا جاتا تھا ک و ہی اس لئ ک معاشرتی طورپر ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہ

م اگر یں و کا فضیتح کرسکتی کسی اور کو ی حق ن وسکتی اوراپنی ب ہجوچا ک سکتی جب چا ناراض ہے۔ ہ ہ ہے ہ ہ ہے ہ ہے ہے ہہ ہے

مار معاشر کی ایک خاص روش سامن آتی میت پر گفتگو کریں تو اراورمحاور کی سماجیاتی ا ےاس ب تکلف اظ ہ ے ہ ہ ہ ہ ے

ماری زندگی میں ر ی اورمختلف رشتوں ک جومعنی ہے اورگھریلو سطح پر جو حقوق کی سماجی تقسیم ر ہ ے ہے ہ ہے

wس پر ایک عکس ریزروشنی پڑتی ہے۔یں ا ہا محاوروں کی زبان انداز بیان زمین تا اورر ہےسماج متحرک نظرآتا وقت ک ساتھ ساتھ بدلن کا عمل جاری ر ہ ہے ہ ے ے ہے

وتا ان ک ایس سماجی حوالوں س ر wن کا رشت محاورات کی لفظی ساخت س بھی ظا ن س ا ےزمان اورد ے ے ہے ہ ہ ے ہ ے ہ ہ

تی رحال باقی ر یں ان کو سمجھن اوران پر غوروفکر کرن کی ضرورت ب ت ہبھی جومحاورات ک ساتھ وابست ر ہ ے ے ہ ے ہ ہ ے

ہے۔wن میں س ایک رشت و جولسانیات س مختلف زمان یں ا م کئی اعتبار س دیکھ اورپرکھ سکت ہمحاورات کو ہے ے ہے ہ ہ ے ہ ے ے ہ

تا و سلسل ادبیات لغت م اپنی زبان کی جس ساخت اورپرداخت س زمینی یا زمانی رشت ر ہمیں ہ ہے ہ ہ ے ہ

یں متروکات میں مارا ساتھ چھوڑدیت ت لفظ نچ ک بدل جاتا اوروقت ک ساتھ ب ہاورشعروشعور ک دائر میں پ ے ہ ہ ے ہے ے ہ ہ ے

م یں کرت زبان وادب ک رشت س جب یں استعمال ن م دوسر دورمیں ان یں اورایک دورک بعد وجات ہداخل ے ہ ے ے ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ

یں ک گذرجان وال وقت ک ساتھ اس ک سرمای الفا ظ میں یں توی دیکھت ہاپنی زبان کی لفظیات کو پرکھت ے ے ے ے ہ ہ ے ہ ہ ے

Page 222: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

رزمان ک بعد دوسر زمان میں واضح یا نیم واضح طورپر سامن یں ترک واختیار کا سلسل ےبھی تبدیلیاں آئی ے ے ے ہ ہ ہ ہ

وجائیں و دوسر طبق کی زبان س بھی نکل جائیں یں ک جوالفاظ ایک طبق کی زبان س خارج ےآتا ی ضروری ن ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہے

یں ی بھی دیکھن میں آتا ر کی زبان میںبھی شامل ن ر رکی زبان میں اپنا چلن ختم کردیں و دوسر ش ےیا جوایک ش ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ

wن کی مختلف آبادیوں ک یں و قصبوں اورا وجات ریوں کی زبان اورلفظیات س جو الفاظ ختم ذب ش ے ک م ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ہے

یں ت ۔حلقو ںمیں شامل ر ہ ے ہا ک فالں فالں محل کی زبان زیاد صحیح اورفصیح بات ایک لی ک متعلق ی ک رد ہےمیر انشاء الل خاں ن خود ش ہ ے ہ ہے ہ ہ ے ہ ہ ے ہ

نچتی ری حدود س تجاوز کرک قصبات اور قصبات س گاؤں تک پ ر تک اورش ر س آگ بڑھ کردوسر ش ہےش ہ ے ے ے ہ ہ ے ے ے ہ

یں وجات wس ک دھنک جیس حلق بھی اپن رنگوں ک ساتھ اس میں شامل ۔توا ہ ے ہ ے ے ے ے ےاعضائ جسمانی سے ےہےمارا جونفسیاتی اورعملی رشت و سماجی حقیقتوں کا ترجمان بن جاتا ہ ہے ہ ہ

wس قدرتی ماحول مار جذبات واحساسات یا ا یں ک م ی جان سکت ےاوراس س ہ ہ ہ ے ہ ہ ےر م اپن خیاالت اورحاالت کو ظا مار وجود کا حص مارا وجود یا ہس جو ے ہ ہے ہ ے ہ ہے ہ ے

م کیا اورکس wن س متعلق تبصر کرن میں wن پر گفتگو کرن نیز ا ہکئ جان اورا ے ہ ے ے ے ےمارا اپن وجود اورزمان موجود س کیا رشت |س معنی میں یں اورا ہطرح مددلیت ے ہ ے ہ ہ ے

مار تا مثال آنکھوں ک عالو ’’دل‘‘ س متعلق ےوتا اورزندگی بھر بنار ہ ے ہ ے ہے ہ ہے ہماری انسانی اورسماجی نفسیات میں کس یں ک ر کرتی اوتیں ظا ہمحاور اورک ہ ہ ہ ہ ے

یں یں اورکس کس سطح ک یںاورکس طرح ک ۔نوع ک رشت کیا ہ ے ہ ے ہ ہ ےمار یں اور مار کام میں آتی یں و مار آس پاس جو چیزیں |س ک عالو ےا ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ےوتا جو ان چیزوں میں ر wن رشتوں س بھی ظا مارا تعلق ا ہےاپن ماحول س ہ ہ ے ہ ے ے

l’’ کانٹا‘‘ یں مثال م میں ایک دوسر س رابط اور وابستگی کا سبب بنتی ۔اور ہ ے ے ے ہیں اورسخت بھی نیز ایس وت وتا نرم کانٹ بھی ےجھاڑی دار پودوں کا حص ہ ے ہ ے ہے ہ ہیں اورایسی بھی جولو کی وتی یں جن کی نوکیںمڑی ہےکانٹ دیکھن کو ملت ہ ہ ہ ے ے ےوت اورپھولوں ک یں کانٹوں ک درمیان پھول وت ےباریک کیل کی طرح سخت ے ہ ے ہ ے ہl’’ دل میں کھٹکنا ‘‘کانٹ یں مثال ےدرمیان کانٹ کانٹوں پر طرح طرح ک محاور ہ ے ے ےاں ی مصرع یادآتا ر بھر کانٹ وغیر وغیر ی wترجانا ز ہےکی طرح رگ جاں میں ا ہ ہ ہ ہ ہ ے ے ہ

ا |س موقع پر غال کا ی شعر یادآر ‘‘ا ہے۔’’زیست کی را کا نٹوں س بھرجائ گی ہ ہ زب ۔ ے ے ہ

ے ان آبلوں س پاؤں ک گھبراگیا تھا میں ےوا را کوپرخار دیکھ کر ہجی خوش ہے ہ

ہے۔یا پھری مصرع ہ ہیں یں جو دامن تھام لیت تر ہ گلوں س خارب ے ہ ہ ے

ماری ہاسی طرح ٹھیکرا’’اینٹ‘‘ پتھر اور درودیوار جاد ورا کون سی ش جو ہے ے ہ ہن جب اثرات قبول کرتا یںڈالتی اورذ نوں پر اثرن مار ذ یں کرتی ہزندگی کو متاثرن ہ ہ ے ہ ہیں مثال ی تواس س تاثرلیت یں استعار اورمحاور سب ۔ توزبان الفاظ تشبی ہ ے ے ہ ے ہ ہ ہےمار زمان ن اور مار ذ ماری زندگی یں لیکن ہlآب ورنگ اگرچ فارسی ک لفظ ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہم محاورات را واسط اسی کو جب wن کا گ لوداریوں س ا ہکی فکری اورفنی پ ہے ہ ہ ے ہ

مار وتا ک لفظ یں توانداز وئ دیکھت ےمیںمعنی درمعنی پھیلت اورسمٹت ہ ہ ہے ہ ہ ے ے ہ ے ےمار ذیب اور ماری ت ب مار مذ یں اور ےکب کب اورکن کن موقعوں پر کام آت ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ےذیبی فکر ماری ت نی طورپر کیا کیا رشت بنتا سچ ی ک ہمعاشر س ان کا ذ ہ ہ ہے ہ ہے۔ ہ ہ ے ہ

Page 223: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

وتا خیال کو جب تک ماری زبان ک طابع ت کچھ ہےاورمعاشرتی انداز نظر ب ہ ے ہ ہیںبدل سکتا حال کا تعلق خیال س |شارات وعالمتیں ن ملیںتوو حال میں ن ےالفاظ ا ہ ہ ہ

wس کی تصویر وتا اور حال ا ۔ خیال تصور ہے ہ ہےیں اس میں رقص بھی شامل اور ت ہےم فنون| لطیف ک ذریع بھی اپنی بات ک ہ ے ہ ہ ے ہ ہ

مار یں خطوط اورزاوی ےموسیقی بھی اداکاری بھی مصو�ری میں رنگ کام آت ہ ہ ہ ےار| یں اوراظ یں خیال ک خاکوں میں رنگ بھر جات ہخیال کو حال میں بدلت ہ ے ے ے ہ ے

ی یں نقاشی بت گری اورعمارت سازی کو بھی ان تیں میسر آتی ہابالغ کو نئی ج ہ ہہے۔فکری اورفنی دائروں میں رکھ کر دیکھا جاسکتا

م گیرتخلیقی فن ی ایک ی میں س اورایک بڑا اور ہشاعری بھی فنون| لطیف ہے ہ ہ ہے ے ہ ہCreativeاریت کو لفظ ومعنی کی اشاریت ک ار یا اظ ےآرٹ اس میں بھی اظ ہ ہ ۔ ہے

ا ں مراد و کیفیت ک لفظ یا لفظی ترکیب ہساتھ پیش کیا جاتا اشاریت س ی ہے ہ ہ ے ہے۔ت ک ن اورتخلیقی حس وتی لیکن انسانی ذ چانی وتی جانی پ ےمختصر رے ہ ہے ہ ہ ہے ہ

وجاتی رائیاں اوررنگارنگی پیدا ہےوسیل س اس میں نئی نئی وسعتیں گ ہ ہ ے ےمی کی طرف التی |دراک کواپیل کرتی معنی ف مار جذبات واحساسات اورا ہجو ہے ے ہ

ہے۔۔وتی جوپھر الشعوری یانیم شعوری حالتوں ہےاسی طرح عوامی سطح پر محاور ایک طرح کی شعوری کوشش ہ ہ

م وقتی صورت دیتی اسی لئ محاور وقت ک بعد زمان ب زمان مار ایک وقت ک تجرب کو ہمیں بدل جاتی ہ ہ ے ہ ے ہے ہ ہ ہ ے ے ہ ہے

اری اسلوبیات میں صرف محاور کو ماری اظ ہاور دورب دور اپنی رواجی حالت کو قائم رکھتا اوری خصوصیت ہ ہ ہ ہے ہ

تا اورایک بڑ حس�ی تجرب کو اپن اندر سموئ ےحاصل ک و اپنی لفظیات تلفظ اورساخت ک ساتھ محفوظ ر ے ہ ے ہے ہ ے ہ ہ ہے

تیں ایسی |س ک برعکس خاص طورپر محاور کی دو ج ہرکھتا جب ک شعر وشاعری اپنا اثر کم کر دیتی ا ے ے ہے ہ ہے

ت ک محاور قدیم زبان ک یں ایک لسانیاتی ج میش کام آتی مار یں جو ےوتی ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ےاپن ساتھ محفوظ رکھتاShadesہ

یں اورعالقائی wس میںدیکھ سکت م محاور پر ایک تجسس بھری نظر ڈال کر قدیم زبان کی پرچھائیوں کو ا ہ اور ے ہ ہ ہے

۔تغیرات کو بھی ماری زبان ن جوایک ملی جwلی عوامی وتا ک میںاس حقیقت کا علم ےم اپنی زبان کی تاریخ پر اگر نظرڈالیںتو ہ ہ ہے ہ ہ ہ

wس ن لی، لکھنؤ اوردوسر عالقوں کی زبان س ا ، د ےاورعمومی بھاشا پنجاب،راجستھان، سندھ، گجرات، مالو ے ے ہ ہ ہے۔

|س س زبان کی تاریخ کو بھی سمجھن میں مددملتی اوراس کی روشنی میں لسانی یں ا ہےکیا اثرات قبول کئ ے ے ہ ے

۔ساخت کو سمجھا جاسکتا اوراس ک پس منظر میں زبان ک ارتقاء کو بھی ے ے ہےوتا ان میں زبان ک ادواری اورعالقائی روی بھی ہمحاور زبان وبیان اورفکر وخیال ک مختلف سلسلوںس وابست ے ہے ہ ہ ے ے ہ

یں محاور زبان ک کچھ خاص حصوں کو محفوظ بھی کرتا اور صدیوں تک محاور ک ذریع زبان ک اس ےشامل ہ ے ہ ہے ے ہ ہ

رموقع پر محاور زبان وبیان میں کوئی حسن پیدا کر یں ک وتی لیکن ی ضروری ن ےطریق استعمال کی حفاظت ہ ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہ

ہسنجید ادبی زبان کو اب عام محاوروں ک استعمال س الگ بھی رکھا جاسکتا لیکن طبقاتی زبان میں و ہے ے ے ہ

یں محاور بھی ایک طرح کا استعار یا تشبی ذیب ک ایک خاص رخ کو پیش کرت ماری ت اور یں وت ہےاستعمال ہہ ہ ہ ہ ے ے ہ ہ ۔ ہ ے ہ

وتی یں ن اورنئی فکر کی ترجمانی محاور س ن ۔مگرو چونک منجمد صورت اختیار کرلیتا اس لئ نئ ذ ہ ہ ے ہ ہ ے ے ہے ہ ہ

تا ر صورت محاور میں موجود ر ن اورزندگی کا ایک طویل تجرب ب ہے۔مگروقت کا ذ ہ ہ ہ ہ ہر ک مختلف طبقوں کی زبان میں بھی ی بڑ ش وتا اورایک ات اورقصبات کی زبان میں بھی فرق ر دی ےش ہ ے ہ ہے ہ ہ ہ

م محض کسی ایک عالق کسی ایک طبق یا پھرکسی ایک وتا ہمحاور ک استعمال ک لحاظ س فرق اورفاصل ہ ہ ہے ہ ہ ے ے ے ے

روں یں ش ی س ک سکت ر یا بستی کی زبان کو کسی بھی بڑی زبان ک رنگارنگ دائروں کا نمائند مشکل ہش ہ ے ہہ ے ہ ہ ے ہ

ئ جاسکت جب ک بات یں قرار د ہمیں ی رجحان آتا ضرور اورپڑھ لکھ طبق ک لوگ بھی اس س ماوران ے ے ے ہ ے ے ہ ے ے ہے ہ

م وسکتی مگرو سب نگی م آ یں ان میں وت ہبالکل صاف اورواضح ک زبان ک الگ الگ رنگ اور ڈھنگ ہ ہے ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہے

ی ت تھ اورایسا لی ک لوگ اپنی زبان کو سب س اچھا ک ل تک د وں ی ممکن اب س کچھ زمان پ ہرنگ ے ے ہ ے ے ہ ے ہ ہ ے ہ ہ

ی رجحان فارسی والوں میں موجود یں تھی ی اںسند ن wن ک ل| لکھنؤ کی زبان بھی ا اں تک ک ا ہسمجھت بھی تھ ی ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ے

Page 224: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

ر وں میں بھی شیراز تر آتی خودایران ک ش میں و زیاد ب ماری مادری زبان ت تھ فارسی ہتھا ک و ی ک ے ہے ہ ہ ہ ہ ہے ہ ے ے ہ ہ ہ ہ

ان کی زبان کو زیاد صحیح اورفصیح سمجھا جاتا تھا ۔اوراصف ہ ہلی وال بھی اپن محل کی زبان ک بار میں اسی طرح کی دائر بندی ک قائل تھ میرانشاء الل خاںن دریائ ےد ے ہ ے ے ہ ے ے ے ے ے ہ

( کی زبان زیاد صحیح ارکیا ک قلع جامع مسجد ک آس پاس اوررسید واڑ )محل ہےلطافت میں اس کا اظ ہ ہ ے ے ہ ہ ہے ہ

ر کی بیرونی بستیوں کی زبان کو و محاور روزمر ندوراؤ اورش ا جاسکتا باڑ ہاوراسی کو زیاد فصیح ک ہ ہ ہ ہ ہ ہے۔ ہ ہ

ت اچھا خیال ن کرت تھ اورمردم بیرون| جات کی زبان ان ک نزدیک ٹکسالی زبان ن ہاورلطف| ادا ک اعتبارس ب ے ے ے ہ ہ ے ے

میش وسکتا اب ی الگ بات مگراس طرح کی دائر بندی یا معیار پسندی کو ہتھی ی ایک وقت کا سماجی روی ہ ہ ہے۔ ہ ہے ہ ہ ہ ۔

یں دیا جاسکتا قوموں اورطبقوں میں ی رجحان رسم ہک لئ زبان کی ترقی وترویج ک پیش| نظر صحیح قرار ن ہ ے ے ے

یں یں اورترک کرن پر راضی ن یں پسند کرت ت وتا و اپنی رسموں اور رواجوں کو چا ہورواج س متعلق بھی ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہے۔ ہ ے

وتی مگر تیز رفتار بدلتی پوری زندگی میں سوچ کا ی رتبدیلی ایک طرح کی سماجی بدعت معلوم یں ہوت ان ہے ہ ہ ہ ے ہ

یں دیتا اگرچ ی رجحان موجود مارا ساتھ ن ہے۔انداز اور دائر بندی کا ی اسلوب دیر تک اوردورتک ہ ہ ۔ ہ ہ ہ ےاوراس سہا محاور محاور بندی بامحاور ہپیشتر کم وبیش کافی شدت ک ساتھ موجود ر ہ ہ ہے۔ ہ ے

ی اس لئ ک ی تاریخ ہزبان اورروز مر کی پابندی کواسی نقط نظرس دیکھنا چا ہ ے ے ہ ے ہ ہذیب یا دوسر لفظوں میں سماجیات ) ےوت ہے(کا ایک عمل اوراس عملSocialogyہ

م باتیں اورنکت ت سی ا یں توب م لسانی ادبی اور معاشرتی تجزی کرت ہکا جب ہ ہ ہ ے ہ ہl یں مثال وت یں اورتاریخ ک عمل کو سمجھن میں معاون ہماری نظرمیں ابھرت ے ہ ے ے ہ ے ہwس کرنا )عش عش( کرنا بھی اس ذیل میں آسکتا ک تلفظ اورامال ک فرق wس ا ےا ہ ہے

م محاور کا استعمال اورلغت وتحریر میں اس کی نگارش وئ ہکو تسلیم کرت ہ ے ہ ےwس اعتبار س زبان ک سماجی رشتوں اور لسانی رابطوں یں ا ےکو سامن الت ے ہ ے ے

وتا ی ک غیرمعمولی طور پر معاون یم میں محاور ی ک ہے۔کی تف ہ ہ ے ہ ہ ہ ہآگ یں ۔م اس سلسل میں آگ س متعلق محاور کو بھی پیش| نظر رکھ سکت ہ ے ہ ے ے ہ

یں اس لئ بھی ک آگ انسانی زندگی میںپانی ک بعد سب س ت محاور ےپر ب ے ہ ے ہ ے ہوئی انسان کو یں ۔زیاد داخل آگ س بڑی ایجاد یا دریافت شاید ابھی تک ن ہ ہ ے ہے۔ ہی ن پنا دی اس کی غذائی ضرورتوں کو ہجنگل کی زندگی کی آفتوں س آگ ے ہ ےی آگ کو انسان ن اپنا خدا ی شریک ر ےایک خاص انداز س پورا کرن میں آگ ہ ہ ے ےمار مقدس صحیفوں میں اشار بھی ملت ےوند بھی قرار دیا اوراس کی طرف ے ے ہ

۔یں ہیں مختلف مواقع یں اورآج بھی یں ر ماری عبادت گا ہآتش کد قدیم زمان س ہ ہے ہ ہ ے ہ ے

ماری تی اگردیکھا جائ توجوچیز بی رسومات میں شامل ر ماری مذ ہپر آگ ے ہے ہ ہ ہماری معاشرت کا حص� بن ہزندگی میں فطری طورپر شریک یا کسی وج س ہ ے ہ ہے

یںاورجب یں سمجھن کی کوشش بھی کرت م اس ک بار میں سوچت ہگئی ے ے ہ ے ے ے ہ ہےم اس س متعلق محاورات کی بھی تشکیل ماری نفسیات کا جز بن جاتی تو ےو ہ ہے ہ ہ

وتا ماری زبان س کوئی ایسا فقر یا کلم ادا یں یا دوسر لفظوں میں ہےکرت ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ےی محاور بن جاتا اوراس یں و وئ دیکھت م معاشر میں رواج پات ہے۔جس کو ہ ہ ہ ے ے ہ ے ہ ہ

نی روی کی نمائندگی وجاتی ک و سماج ک ذ لو داری پیدا ہمیں کچھ ایسی پ ہ ے ہ ہ ہے ہ ہہکرتا ک اس خاص معامل میں اس طرح سوچا اورسمجھا گیا اورپھر و رواج عام ۔ ہ ہ ہے

۔یاسماجی فکر کاحص� بن گیا ہم ن کبھی اس یں اور ےعجیب بات ک زیاد ترمحاور سماجی رویوں پر تنقید ہ ہ ہ ہ ہ ہے

یں کی جیس ’’الٹی گنگا‘‘ wن کو پرکھن کی کوشش ن ےرشت یا زاوی س ا ہ ے ے ہ ہیں ا‘‘ ’’الٹی ماال پھیرنا‘‘ بھی اسی ذیل میں آت اڑکھویا‘‘ ’’الٹی گنگا ب ۔’’پ ہ ے ہ ہ

Page 225: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یں اس کی کئی وتی یں جوشخصی م ایسی تنقیدیں کم کرت ہاصل میں ہ ہ ے ہwس ک ت اور ا یںچا م شخصی طورپر دوسر س برا بننا ن یں ایک ی ک ات ےوجو ے ہ ہ ے ے ہ ہ ہ ہ ہماری سماجی یں کرت ک اس س ہمخالفان روی کو دعوت دینا اس لئ پسند ن ے ہ ے ہ ے ہ ہ

نا اسی لئ وتا اپن قریب ترافراد کو برا ک ےالجھنوں میں اضاف ہ ے ہے ہ یںavoidہ ہکرت ےم یں اوراتفاق اختالف میں بدلتا اسی لئ وتی ہک پھر قربت میں دwوریاں پیدا ے ہے ہ ہ ہمارا مخالفان یںک ت یں اوربات بات میں برا ک ت ہصرف اپن دشمنوں کو براک ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ہ ےم غیرضروری طورپر اپنی مخالفت یں اورتا ت |س طرح تسکین پات ر ہجذبات ا ہ ے ہ ےیں ت ی کوک م سب یں مگر برا حال ہک دائر کو بھی بڑھن س روک دیت ے ہ ہ ہ ہ ے ے ے ہ ے

ماری زبان کی تیزی یں اس طرح محاور ارا لیت ہاوراس ک لئ محاور کا س ہ ہ ے ہ ے ے ےر ناکیوں س بھی بچ جاتا مار طنز ی فقرات کی ز بھن اور wج کی چ ےمار لب ول ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہار| ت کام آتا ذکراوراپن اظ wس معنی میں محاور طنز وتعریض ک موقع پر ب ہ ا ے ہے ہ ے ہ ہے

ار وابالغ میں بھی ہخو شی ذکرومالل اور اپن ذاتی غموں یا دکھوں ک اظ ے ےےغیرمعمولی مدددیتا اورو کام کرتا جوشاعری کرتی مگر شعروشاعری س ہے ہے ہ ہے

یں ل سکت روقت ن یں و بھی یں ل سکت اورجوکام لیت ےسب لوگ کام ن ے ہ ہ ہ ہ ے ے ے ہمار جذبات واحساسات اورفکروخیال کی نمائندگی ےایسی صورت میں محاور ہ ہہےاورجذبات کی ترجمانی اس طرح کرجاتا ک بات بھی ک دی جاتی اوراس پر ہہ ہ ہے

تا ہے۔پرد بھی پڑار ہ ہیں اورسطح پر اwس ری زندگی میں زبان ک طرح طرح س تجرب کئ جات ہش ے ے ہ ے ے ہن وزندگی میں جوت ری معاشر میں ذ |مکانات کو آزمایا جاتا ش ہہک اثرات اورا ہ ہ ہ ہے ے

یں اورطرح طرح ک لوگوں س واسط پڑتا یںپیچ وخم جنم لیت وتی ہداریاں پیدا ے ے ہ ے ہ ہوت ری زبان میں نئ نئ پرت پیدا وتا اس کی وج س ش ے اورمعامل کرنا ہ ے ے ہ ے ہ ہے ہ ہ ہے

رایک بڑی آبادی ک طورپر برابر حرکت میں یں ش ت wبھرت ر لو ا ےاور نئ نئ پ ہ ۔ ہ ے ہ ے ہ ے ےتا اسی کی طرف اشار کرن واال ایک انگریزی محاور اس تحرک س ےر ہے ہ ے ہ ہے۔ ہ

وتا ہےجس میں تسلسل بھی وتAcity in the motionہ ےزبان پر جواثرات مرتب ہری زبان اس کی لفظیات اس ک محاور روز مر نیز اس ک لب wس ش ےیں ا ہ ے ے ہ ے ہلوپیدا ر وال اپنی زندگی میں امتیاز ک جوزاوی اورپ ش ج میںدیکھا جاسکتا ہول ہ ے ے ہ ہے۔ ہ ہ

wن میں و اپنی زبان کو بیشتر اپنی امتیازی روش وکشش کوسامن یں ا ت ےکرت ر ہ ہ ے ہ ےwس کی وتا جوا ذیبی روی ریت کا اپنا ت رملک کی ش ردوراور یں ی ہے۔رکھت ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔ ہ ے

ہے۔معاشرتی فکرکی نمایندگی کرتاروں کی نسبت س اپنی ادبی ور، حیدرآباد، اوربعض دوسر ش لی، لکھنؤ،ال ےم د ہ ے ہ ہ ہورمیں بیٹھ لی اور ال یں د |س کا مطالع اورتجرب کرت آئ ہاورلسانی تاریخ میں ا ہ ہ ے ے ہ ہ

لی وال لکھنؤاور حیدرآباد میں ار کرت تھ اورد ل ایران اپن امتیازات کا اظ ےکر ا ہ ے ے ہ ے ہیں وئ دیکھت ت م داغ کوی ک ی تو ۔بیٹھ کر جب ہ ے ے ہ ے ہ ہ ہ ہ

یں اں یںدیکھی زبان داں ی ک ہ دلی ن ہ ہ ہے ہ

کای شعرتواس موقع پر ب اختیاریادآتا ہے۔اور داغ ے ہ ز

Page 226: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یں داغ میں جانت wردو جس کانام ہ ا ے ہ ہےماری زباں کی اں میں دwھوم ہےسار ج ہ ہ ے

یں محاوروں میں را رشت رکھت ماری ذاتی اورمعاشرتی زندگی س گ ہمحاور ے ہ ہ ے ہ ےوتا ک ی یں ن منتقل ن مارا ذ یں ان کی طرف تی ہماری نفسیات بھی شریک ر ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ

ن منتقل مارا ذ ہماری اجتماعی یا افرادی نفسی کیفیتوں کی آئین دار اسی طرح ہ ہ ہماری اجتماعی ، انفرادی نفی کیفیتوں کی آئین دار ی اسی طرح وتا ک ی یں ہےن ہ ہ ہ ہ ہ ہرا رشت مار محاورات کا گ اتھ پیر ناک کان اورآنکھ بھوں س ہےمار اعضاء ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہ

ےمثال آنکھ آنا آنکھیں دیکھناآنکھوںمیں سمانا اورآنکھوں میں کھٹکنا ی محاور مختلف ہیں یں ایک دوسر س تضاد کا رشت بھی رکھت یں ک یںاورک ۔المعنی ہ ے ہ ے ے ہ ہ ہ

یں آنکھ اٹھانا،آنکھ اٹھانا اں پیش کئ جات ہآنکھ س متعلق کچھ اور محاور ی ے ے ہ ے ےخ wر آنکھیں ٹیڑھی کرنا آنکھ بدل کربات کرنا ۔آنکھوں کی ٹھنڈک آنکھ پھوڑٹڈا ۔

ونا استعارات اندازبیان جس ہےبدلناآنکھوں میں رات کاٹناآنکھوں کا نمک کی ڈلیاں ہم ماری شاعری س بھی اورسماجی شعور س بھی ی ب حدا ہکا تعلق ے ہ ے ہے ے ہ

یںآنکھ بدل کربات کرنا ناگواری ناخوشی اورغص ک موڈ میں ےاوردلچسپ باتیں ہ ہہبات کرنا جوآدمی اپنا کام نکالن ک لئ بھی کرتا آنکھیں اگرتکلیف کی وج ہے ے ے ے ہے

ی تواس آنکھوں وتی ر یں اوران میں برابر شدید تکلیف ےس تمام رات کڑواتی ر ہ ہ ہ ےر کرنا آنکھیں ائی شدت کو ظا یں یعنی تکلیف کی انت ت ونا ک ہکا نمک کی ڈلیاں ہ ہ ے ہ ہہپتھر انا اس ک مقابل میں ایک دوسری صورت یعنی اتناانتظار کیا ک آنکھیںپتھر ہے ہ ےےوگئیں آنکھوں میں رات کاٹنا بھی انتظار کی شدت اورشام س صبح تک اسی ۔ ہ

ن کی طرف اشار کرتا جوگویا رات ک وقت انتظار کرن وال ےحالت میں ر ے ے ہے ہ ے ہوجاناجیس میری رکرتا آنکھ لگنا سوجانا اورکسی س محبت ےکی حالت کو ظا ہ ے ہے ہ

|س کا دل کسی ہآنکھ ن لگن کی وج س میر یاردوستوں ن اس کا چرچ کیا ک ا ہ ے ے ے ہ ے ہیں ک ن م انداز کرسکت wس کی آنکھ لگی اس س ہپرآگیا اورکسی س ا ہ ہ ے ہ ہ ے ہے ے ہے

نی حالتوں کوصبح وشام کی وارداتوں کو اور زندگی ماری کتنی باتوں کو ذ ہجان ہ ےl محاور میں سمیٹا اورجب محاور شعرمیں بندھ م ن مختصرا ہک واقعات کو ہے ہ ے ہ ے

نی تجربوں کا ایک حص بن گیا مار شعور اورذ ۔گیا توو ہ ہ ے ہ ہیں اس وتا و مختلف طبقات س تعلق رکھت ہمحاور جن الفاظ پر مشتمل ے ے ہ ہے ہ ہ

ن ک مطابق الفاظ استعمال کرتا رطبق اپن اپن ماحول زندگی اورذ مارا ےلئ ک ہ ے ے ہ ہ ہ ہ ےنی وتا ن ایک سی ذ یں ن ایک ساتجرب وت ہ سب ک پاس ن ایک س الفاظ ہ ہے ہ ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ے ہے

wن کی لفظیات بھی ایک دوسر س وتی اسی لئ محاور بھی ا ےسطح ے ہ ے ۔ ہے ہیں غم والم ک مواقع س وت وتی مثال خوشی ک محاور الگ ےمختلف ے ہ ے ہ ے ے ہے ہ

ےنسبت رکھن وال محاور الگ شادی بیا س تعلق وال الگ اور شادی بیا ک ہ ے ے ہ ے ے ےl ’’بیل پڑنا‘‘ جب بد�ھاو یاڈومینوں ک گان ےرسومات س متعلق محاور جwدا مثال ے ے ے ے

ےبجان س تاے wن کو پیس دین کا ذکرخاص طورپر آتا اوری طبق اس بیل پڑنا ک ہتعلق س بات کی جاتی توا ے ہ ہ ہے ے ے ہے ے

وگئی ڈومینوں کا التا اب بدھاو کی رسم بھی ختم ہ اس موقع پر خاکروب عورتوں کا ناچ قصبوں میں بدھاوا ک ے ہے ہ ہے

ماری رسموں یں آتا اس لئ ک محاورات کا استعمال ا توبیل پڑن کا محاور اب زبانوں پر ن ہادار بھی باقی ن ر ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ہ

وگئ ماری زبان س خارج وئیں و رواج باقی ن ر توو محاور بھی ا و رسمیں ختم ےاوررواجوں ک مطابق ر ہ ے ہ ے ہ ہے ہ ہ ہ ہ ہے ہ ے

مار سماج کی رنگارنگ تاریخ پراپن انداز س یں تو ےلیکن قدیم ادب میں اورپران لوگوں کی زبانوں پرجب ی آت ے ے ہ ہ ے ہ ے

Page 227: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

یں جن میں l بعض محاور ایس کھیلوں س متعلق |فادیت کاپت چلتا مثال |ن کی ا |س س ا یں اورا ہروشنی ڈالت ے ے ے ہے ہ ے ہ ے

‘‘ پھیکن کو م بطور مثال ’’پانس ی کھیلوں میں س اور م کردارادا کرتا ’’چوپڑا‘‘ ایس ےچانس) اتفاق( زیاد ا ہ ہ ہے ے ہ ے ہے ہ ہ

یں م گذرت یں ’’پاساپلٹنا ‘‘بھی اسی سلسل س وابست ایک محاور ان محاورات س جب ہپیش کرسکت ے ہ ے ہے۔ ہ ہ ے ے ہ ے

ماری قسمت پر ستی س وابست نی روی بھی سامن آتا جوتقدیری اموریا ہے۔تومعاشر کا و ذ ہ ے ہ ہے ے ہ ہ ہ ہی اں تک ک ’’پانس پلٹنا ‘‘بھی قسمت ربات کو قسمت س وابست کرتا ی ہمارا معاشر تقدیرپرست اس لئ ہ ہ ہ ہے ہ ے ہ ے ہے ہ ہ

|س س ا ار فتح میں اور فتح شکست میں بدل گئی یں ک جنگ کاپانس پلٹ گیا یعنی ت ےس وابست چنانچ ک ۔ ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ہے ہ ے

|شار کیا گیا محاور کا ا گیا اورکس کس صورت حال کی طرف ا مار محاوروں میں کیا کچھ ک وتا ک ہانداز ہے ہ ہے ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ

وتا یں وتا صرف لغت س ن ذیب وسماج س ۔رشت ت ہ ہ ے ہے ہ ے ہ ہماری انسانی کمزوریاں بھی انسان یں اور وت ہمار زیاد ترکام معامالت اورمعموالت سماجی زندگی س متعلق ہ ے ہ ے ہ ے ہ

وتیں توو سب میں یں اس لئ ک اگرو محض انسانی خوبیاں یا کمزوریاں ہک سماجی وجودس تعلق رکھتی ہ ہ ہ ے ہ ے ے

wس کی وج تاریخ یں توی سوچنا پڑتا ا یں اورکچھ قومیں مختلف یں تھیں اگرکچھ لوگ مختلف ونی چا ہمشترک ہے ہ ہ ہ ہ ہ

م کسی تا اگر یں ان کوپیداکرن اورقبول کرن میں بھی سماج شریک ر ذیب پیش یاپھر عام سماجی روی ہ ت ہے ہ ے ے ہ ہ ے ہے ہ ہے

یں تودیکھن اورسوچن کی بات ی ک اس کا تعلق سماج س وت وت صرف شکو سنج یں ہےک شکر گذار ن ے ہ ہے ہ ے ے ہ ے ہ ہ ے ہ ہ ے

wس کا تعلق فرد س یں توپھر ا ی جیسا مزاج اورروی رکھت ی عادت ایک ت س لوگ ایک ےیاپھر ایک فرد س اگرب ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ے

ا جاسکتا یں ک یں معاشر س اس کسی انسان ک لئ ذاتی یا انفرادی ن ۔ن ہ ہ ے ے ے ہے ے ہ ہے ہم ن اپن وجود یں ک یں اس ک معنی ی یں جومحاورات میں شامل ت س عضوایس ےاعضائ جسمانی میں ب ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ے ے ہ ے

ےکویا انسانی وجود ک مختلف حصوں کواپنی سوچ میں شامل کررکھا اوران کو اپنی سوچ ک مختلف مرحلوں ہے ے

یں اورتن پیٹ بھی اتھ پیر بھی ار کا وسیل بنایا اس میں گر بھی زبان بھی ہے۔اورتجربوں میں اظ ہ ہ ہے ہے ہ ہوتا لیکن اس ک معنی وگا ک محاور ساد الفاظ میں ضرور اں اس امرکی وضاحت کردی جائ تونامناسب ن ےی ہے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ

وم wس ایک خاص معنی اورمف وتا اوربولن واال ا وت و ایک طرح ک استعار یا کنای یں ہلغت یا قواعد ک تابع ن ے ے ہے ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ے

وت یں wس ک ن ے۔ک ساتھ استعمال کرتا عام لفظی معنی ا ہ ہ ے ہے ےی اwس یںآتی لیکن محاور بنتا ہزبان میں محاور ک کثرت| استعمال کی وج س اس میں کوئی ندرت یا جد�ت نظرن ہ ہ ے ہ ے ے

wس یں ا ی ن وجاتا استعار دراصل زبان کا وج استعمال ار شامل wس میں استعاراتی یا عالمتی اظ ےوقت جب ا ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہے

ر ر ب ش ی کی وج س طبق درطبق اورش ہعام رویوں عمومی لفظیات اورانداز س قریب ترکرتا اوراستعمال ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ہے ے

ی س دائر بند زبان عوام ک یں اور استعمال wبھرت لوا ےاوربعض صورتوں میں محل درمحل کچھ امتیازات ک پ ہ ے ہ ہ ے ہ ے ہ ہ

نچتی اوراپن استعمال میں ایک انفرادیت اور اجتماعیت پیدا کرتی ہے۔درمیان پ ے ہے  ہ

وتا اوراس کی ی وتا اورسب کی طرف س وتا اورسب ک لئ وتا سب کا یں ہمحاور کسی ایک کان ہے ہ ے ہے ہ ے ے ہے ہ ہ ہ ہ

لوی ک ی میت رکھن واال پ م کردار ادار کرتی اورسب س زیاد ا ی زبان ادب اورلسانیت میں ایک ا ہعمومیت ہ ہے ہ ہ ے ہ ہ ے ہے۔ ہ ہ

ےزبان میں تسلسل کی روایت کوقائم رکھن میں ایک مسلسل اورخاموش کردار ی ک ایک دورک بعد دوسر ے ہ ہے ہ ے

ہےدورمیں اورایک دائر فکر ونظر ک بعد دوسر دائر میں محاور کام کرتا لغت کا بھی حص بنتا ادب وشعر کا ہ ہے ہ ہ ے ے ہ

ذیب وروایت کا بھی ۔بھی اورت ہیں ک کافی وشافی راعتبار س ضروری ن میت پر جو گفتگو کی گئی و ذیبی تاریخی اورمعاشرتی ا ہمحاور کی ت ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ

لوجس کی طرف راقم ن بھی اشار کیا یا تاریخی یں مثال لسانی پ وسکت لو بھی ت س پ ہےو اس میں اورب ہ ے ہ ہ ۔ ہ ے ہ ہ ے ہ ہ

وئی اس ک یں یں لیکن ی خوف|طوالت ان پر کوئی تفصیلی گفتگوممکن ن لو ک و بھی راقم کی نظر میں ر ےپ ہ ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ

یں |س کی طرف اشار کئ وسکتا راقم ن بھی موقع ب موقع ا ۔عالو محاورات کا طبقاتی مطالع بھی ہ ے ے ہ ے ہ ہے ہ ہ ہےزبان ومحاورات کی عالقائی تقسیم بھی ایک دائر وفکر وخیال بن سکتی ک کون کون محاورات کس عالق س ہ ہ ہے ہ

اتی سطح پر محاورات اپن اپن ری، قصباتی اوردی یں اوری بھی دیکھا جاسکتا ک ش ےبطور| خاص تعلق رکھت ے ہ ہ ہ ہے ہ ۔ ہ ے

میت کیا ذیبی ا یں اوران کی لسانی اورت نگ رکھت ہے۔دائر میں کیا رنگ اور آ ہ ہ ہ ے ہ  ہ

ماری شاعری اور ادب نگاری کی طرح محاور ک ماری زبان ےمحاورات کی ایک عمومی حیثیت ضرور لیکن ے ہ ہ ہے

ت کی طرف بھی اشار ل ایک اور ج یں بات کو ختم کرن س پ وسکتی تیں ہمطالع کی بھی ایک س زیاد ج ہ ے ہ ے ے ہ ہ ہ ہ ے ہ

wس ک پس منظر میں موجود کلچرکی ایک اساسی wس کی لفظیات ا ماری زبان ا وتا و ی ک ےکرنا ضروری معلوم ہ ہ ہ ہ ہے ہ

|س طرح ک حلق ج کو بھی متاثر کیا اسw کی لفظیات کواور ادبیات کوکبھی ا جس ن زبان کی فکر ی ن ےحیثیت ے ہ ے ہے۔

ار پر بھی زمان ب زمان اورحلق درحلق ذیبی پس منظر اورمحاوراتی سلیق اظ ہماری زبان اس کی لسانی ساخت ت ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ

Page 228: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

م اپنی زبان پر ذیب ولسانیات جس کا اثر ال عرب ایرانی حلق ت یں ان میں پ وئ ہدوررس اوردیر پا اثرات مرتب ہے ہ ہ ہ ۔ ہ ے ہ

یں ۔دیر تک اوردwورتک دیکھت ہ ےم عام طورپر ایران ت قدیم عجم ہسندھ گجرات اورماال بار کا عالق و عالق جس س عرب وعجم کا رشت ب ہے ہ ہ ے ہے ہ ہ ہ

ندوستان اور جنوب مغربی ایشیاء کا جو تعلق یں لیکن اس میں عراق بھی شامل اس عالق س مغربی ت ہکوک ے ہ ہے ہ ے ہ

|ن عالقوں کی وا ا ذیبی انداز| نظر پربھی مرتب اں ک شعروشعور اورت اں کی زبان ی ت قدیم جن کا اثری ہے و ب ہ ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ہے

یں دیکھنا ی ک ان یں ان میں محاور بھی شامل ہزبانوں میں جو عربی فارسی اور اردو ک الفاظ ملت ہے ہ ہ ے ہ ے ے

ےمحاوروں کا اس لسانیاتی تاریخی اور پس منظر س کیا رشت عالو بریں ترکوںمنگولین اورترک وتاتاری عالق س ہ ہ ہے ہ ے

ا قدیم ی س آئ تھ اوران کا سلسل صدیوں تک جاری ر زاروں برس پران رشت آری سینٹرل ایشاء مارا ہبھی ہ ے ے ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ

ندوستان |س پر دمیںبھی اپن اپن عالقوں س ا ہآریاؤں ک بعد اس عالق میں بسن والی قومیں اورقبیل وسطی ع ے ے ے ہ ے ے ہ ے

وگئ اں آباد ے۔آئ اوری ہ ہ ےت س حکمران خاندانوں کا نسلی رشت مرکزی ایشیاء س د ک ب یں ک وسطی ع ےم ی کیس فراموش کرسکت ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ے ے ہ ہ

ی بولیاں یا زبانیں آنیوالوں ک یں ی ا اس عالق میں ترکوں منگولین یا ترک وتاتاری زبانیں بولی جاتی ےوابست ر ہ ہ ہ ہے ہ ہ

ا |ن کا رشت باقی ر وئیں تواپنی زبانوں س ایک لمب عرص تک ا ندوستان ک عالقوں میں آکر آباد ہساتھ شمال ہ ہ ے ے ہ ے ہ

یں یا یں جواس عالق کی دین مار کچھ محاور ایس بھی وا ماری عالقائی بولیوں پر بھی مرتب ہاوراس کا اثر ہ ہ ے ے ے ۔ہ ہ ہ

یں wس ک اثرات س متاثرضرور ۔پھر ا ہ ے ےیں جن کا مرکزی ایشیاء س وابستگی رکھنا انیاں ت سی ک ماری ایسی ب یں کرسکت ک ہےم ی بھی فراموش ن ے ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ

یں ایسی صورت انیوں ک جغرافیائی ماحول میں بھی ی عالق اوران ک جغرافیائی اورتاریخی آثار شریک |ن ک ہاورا ے ہ ہ ے ہ

ونا ایک فطری عمل اس پر مزید کام کرن ےمیں محاور کا کم ازکم عالقائی محاور پران ک اثرات کامرتب ہے ہ ے ہ ہ

ہے۔اوربات کو آگ بڑھان کی ضرورت ے ےونیوالی ہماری زبان اوراس س وابست بولیوں کا سرچشم اور اس س پھوٹن والی مختلف شاخیں یا فروغ پذیر ے ے ہ ہ ے ہ

وری زبان بھی اس یںپنجابی یا ال ی یں اوران س تاثربھی لیتی ر تی ہبولیاں عالقائی زبانوں کو متاثربھی کرتی ر ہ ہ ے ہ ہ

ہے۔میں شامل لی میںبولی جان اوررواج پان والی را رشت رکھتی میواتی کھڑی بولی اورد |س س ایک گ ےراجستھانی بھی ا ے ہ ہے ہ ہ ے

یںجن یں کیا جاسکتا اوربرج ک عالق کی برج بھاشاکی بولی کوبھی ی توو بولیاں ہبولیوں کو بھی اس س الگ ن ہ ہ ہ ے ہ ے

م سرکاری ی اس میں فارسی کوبھی ایک ا وتی ر ندوستان میں اردو بنی اورصدیوں تک متاثر ہس شمال مغربی ۔ ہ ہ ہ ے

ے۔درباری انتظامی اورثقافتی حییثت س شامل رکھئ ےاں کی اپنی ی ی وتی ر wردوکی پرورش وپرداخت دکنی زبان کی حیثیت س صدیوں تک دکن میں بشمولیت گجرات ہا ہ ہ ے

ان بولیوںکا یں کرسکت اراشٹری یا مراٹھی کوبھی صرف نظر ن م م ۔بولیاں دراوڑنسل کی زبانیں تھیں جن میں ے ہ ہ ہ

wردوک محاور اورلفظیات پرجواثرات دکنی بولیوں ک تھ اس کا اثرشمالی wردون قبول کیا اور دکنی ا ےاثردکنی ا ے ے ے ۔ ے

ےند کی بولیوں میں بھی آگیا اس میں تجارت پیش لوگوں ک آن جان کو بھی دخل تھا اورفوجوں ک بھی تاریخ ۔ ے ے ے ہ ہ

ا اسی اعتبار س زبانیں ذیبی زندگی کو متاثرکرتا ر ماری ت ی تھی اس کا عمل جو ےاپن طورپر جس طرح کام کرر ہ ہ ہ ہ ے

یں وا دیکھت م اس تاثر کو زیاد آگ بڑھتا اں یں ادیبوں شاعروں اورصوفیوں ک ۔بھی اس کا تاثرقبول کرتی ر ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ے ۔ ہوں کا اثر غیرمعمولی جوشمال وجنوب میں یکساں طورپر دیکھا جاسکتا لیکن جس زمان میں دکنی زبان ہخانقا ہے ہے ہ

یں wردو شاعری کی مثالیں ن ندوستان میں ا ہمیں قدیم اردو لٹریچرک نمون سامن آر تھ اس دورمیں شمالی ہ ے ہے ے ے ے

ی ور wن میں شاعری اچھ خاص پیمان پر یں ا ی لی ک آس پاس جوزبانیں بولی جار یں ک د م ی دیکھت ہملتیں ہ ہ ے ے ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہ

ہے ان زبانوں میں پنجابی اورراجستھانی زبان ک عالو برج اور اودھی شامل ان زبانوں یا بولیوں کا شعری ادب ہ ے ہے۔

یں اورنتائج ت کچھ ل سکت م ب |ن ک مطالع س ہمسلمان قوموں کا اپنا تخلیقی ادب بھی اوربڑ پیمان پر ا ے ے ہ ہ ے ہ ے ہے۔ ے ے ۔

ی اورنئی نمود حاصل یں ک ان ک وسیل س ایک طرح اورایک سطح پر زبان آگ بڑھتی ر ہےاخذ کرسکت ہ ے ے ے ے ہ ہ ے

ی ہے۔کرر ہذیبی اثرا ت محاور میں بھی رحال لسانی یادگار اوران ک ادبی لسانی اور ت wس دورزندگی کی ب ےمحاور ا ہ ے ہے ہ ہ

یں ک م ی ک سکت یں وئ ہسمیٹ ہ ے ہہ ہ ہ ہ ے ہ یں ان بولیوں س تقابلی مطالع کا وسیل اختیارکرکPresevedے ےصورت میں ہ ہ ے ہ

یں ذیبی اورلسانی نقط نظرس کام کرسکت wردو محاورات کامزید ت ۔م ا ہ ے ے ہ ہ ہ|س نوع ک مطالع وں جس س ا ل| نظر اوراصحاب| خیرافراداس طرف توج فرما مار ا |س امرکی ک ہضرورت ا ے ے ہ ہ ہ ے ہ ہ ہے

Page 229: اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

wن کی طرف توج یں ا میت سامن آئ اوراس ک مختلف گوش جواب تک نظرداری کی روشنی س محروم ہکی ا ہ ے ے ے ے ے ہ

مار نئ لکھن وال اورسینئرادیب اس مسئل کی طرف خاطر خوا توج د کر و توقع کی جاسکتی ک ےمبذول ہ ہ ہ ے ے ے ے ہ ہ ہے ۔ ہ

یںگی ۔بات کو آگ بڑھائیں گ اورمطالع کی نئی صورتیں سامن آئیں گی اورآتی ر ہ ے ہ ے ے

ومصادر مراجع 

ء۱۸۸۶۔ مخزالمحاورات منشی چرنجی الل ۱ ذیبی ورث ڈاکٹر تنویراحمدعلوی۲ مارا ت ہ ہ ہ ۔: ڈاکٹرکامل قریشی ۳ لوی مرتب ہ بیخود د ہ ء۱۹۸۰۔ے دل�ی میری بستی میر لوگ مرتب :عظیم اختر۴ ء۲۰۰۰۔لوی ۵ یراالل فلک د ہ حرف وصدا ہ ء۱۹۲۸۔ور ۶ ہ ذو سوانح اورانشقائ ڈاکٹر تنویر احمدعلوی، مجلس ترقی ادب ال زق ء۱۹۶۳۔ر مرتب: عظیم اختر۷ ے دل�ی حرف حرف چ ہ ء۱۹۹۷۔لی کی آخری شمع مرزا فرحت الل بیگ، مرتب:ڈاکٹر صالح الدین۸ ہ د ہ ۔لوی، مرتب: ڈاکٹر خلیق انجم۹ لی مصنف: سیداحمد د | د ہ رسوم ہ ۔

لوی۱۰ لوی، مرتب: سیدضمیر الحسن د ہ دل�ی کا آخری دیدار مصنف وزیر حسن د ہ ۔ذیب مرتب: ڈاکٹر انتظار مرزا۱۱ ہ دل�ی کی ت ۔ے مرزا محمودبیگ ک مضامین کا انتخاب مرتب: ڈاکٹر کامل قریشی۱۲ ۔ذیبی وفکری پس منظر مصنف: پروفیسر۱۳ wردو شاعری کا ت لی میں ا ہ د ہ ۔

محمدحسنلوی۱۴ wردو سید ضمیر حسن د لوی ا ہ د ہ ۔ذیبی اورفکری پس منظر پروفیسر محمد حسن۱۵ wردو ادب کا ت ہ ا ۔لو شمس الرحمن فاروقی۱۶ wردو کا ابتدائی زمان وتاریخ ک پ ہ ا ے ہ ۔زاد مرزا احمد، مرتب: مرغوب عابدی۱۷ لی مصنف: ش ہ سوانح د ہ ہ ۔لوی۱۸ ہ لغات انسائ سید احمد د ۔

ئل رسا: خواج احمد فاروقی۱ wردو میگزین )قدیم دلی کالج نمبر( مرتب ہ ا ہ لیء۱۹۵۷۔ ہ د‘‘ آج کل ظفر نمبر۲ نام ہ ’’ما ہ لیء۱۹۶۶۔ ہ مطبوع پبلی کیشنز ڈویزن د ہاں نمبر۳ ہ شا ج ہ لیء۱۹۳۴۔ ہ د

شد ختم