بیانات

182
ت ا ن ا ی ب لہ ل ا ق ی ت ع ر کٹ ا ڈ

Upload: aijazubaid9462

Post on 16-Jun-2015

246 views

Category:

Documents


1 download

DESCRIPTION

عتیق اللہhttp://kitaben.urdulibrary.org/AllBooks.html.

TRANSCRIPT

Page 1: بیانات

بیانات

ڈاکٹر عتیق اللہ

Page 2: بیانات

بیانات

ڈاکٹر عتیق اللہ

مشموالت

آاباد کیا‘‘رات کیا یک لندن’’ 3.................................................مطالعہ یاتینو

10........................................................دیس یعل مظفر اور مسئلہ کا یفہم منٹو

20........................تناؤ کا رفاقتوں اور وںیعلاحدگ نامانوسیں م افسانوں کے یدیب سنگھ راجندر

37.....................................................مکالمہ کیا سے ادوںی یک یتھ اریست

48..........................................تینوع یک یآائرنیں م رو خواب : ناول کے پال جوگندر

54.......................................................تجربے کے تیہئ اور کیتکن: ناول اردو

Rج 61.............................................امکان کیا محض کا ناول ای ناول: چاںیپ ہہوا مو

68....................................................تیجمال یلسان اور یقیصد احمد دیرش

ی[ جب کا نیحس مجتب 77.................................................................مزاح اسلو

Page 3: بیانات

آابادیاتی رات‘‘ایک ایک کی ’’لندن مطالعہ نو

ااس پیش رو اور مروجہ اس بحث سے قطع نظر کہ’’لندن ک[ ایک رات‘‘ ناول ہے یا ناولٹ میں اسے اردو ناول کے

جس ک[ اشاعت شرر اور پریم چند کے ذریعے عمل میں،فارمیٹ کو توڑنے کے ایک تجربے سے موسوم کرتا ہوں

آائ[ تھ[۔ یوں بھ[ ناول یا افسانہ یا نظم کا فن کوئ[ ایس[ بندھ[ ٹک[ ہیئت سے عبارت نہیں ہوتا، جسے مرجح

ان مسلمہ قواعد سے انکار،پگھلا نیلم ک[ شاعری یا سکے۔ سجاد ظہیر کے افسانے یا ان کا رپورتاژ قرار دیا جا

آائے ہیں۔ مجھے سجاد ظہیر کے اس عمل کے پیچھے کا نام ہے جنہیں ہم معیاری ہ[ نہیں مثال[ بھ[ قرار دیتے

آاتا ہے۔ یہ[ وجہ ہے کہ ان کے ہر صنف[ کس[ شعوری کاوش کے بجائے ان کے تخلیق[ وفور کا دخل زیادہ نظر

تجربے میں تخیل ک[ سرگرم[ کس[ بھ[ موجود اور قائم شدہ تحدید کو التفات کے لائق نہیں سمجھت[۔ یہ سوال

بھ[ بار بار گفتگو کا موضوع بنا ہے کہ’’لندن ک[ ایک رات‘‘ کے حوالے سے سجاد ظہیر کو اپن[ مخصوص

ج� ادب میں ناول ہ[ ایک ایسا فارم ہے جس آائیڈیولوج[ ک[ اشاعت ہ[ مقصود تھ[۔ پہل[ بات تو یہ کہ تمام اصنا

میں ہزاروں ہزار پردہ داریوں کے باوجود ناول نگار ک[ زندگ[ فہم[ اور اس کا ذہن[، جذبات[ اور تہذیب[ تناظر جابجا

آاخر تک اس طرح سنبھالے اپنا اثر دکھا ہ[ جاتا ہے۔ ناول جیسے فارمیٹ میں محض تجرید کاری کو شروع سے

رکھنا بڑا مشکل کام ہے جو پڑھنے والے ک[ رغبتوں کو بھ[ قائم رکھ سکے۔ پڑھنے والے ہ[ ک[ نہیں لکھنے والے

ک[ بھ[ اپن[ کچھ ذہن[ ترجیحات اور تعصبات ہوتے ہیں، جو بغیر ارادے کے بھ[ اپن[ گھس پیٹھ سے باز نہیں

آاتے۔

آابادیات[ عہد میں ’’لندن ک[ ایک رات‘‘ کا مطالعہ اس ذہن کو سمجھنے میں بڑا معاون ثابت ہو ہمارے اس پس نو

سکتا ہے۔ جس کے خمیر ک[ تیاری میں ایک صدی سے زیادہ وقتوں ک[ کارفرمائ[ شامل تھ[۔ اگرچہ ’’لندن ک[

Page 4: بیانات

ایک رات‘‘ کے اکثر سوالات اور شبہات وہ[ ہیں جنہیں سر سید نے بھ[ محسوس کیا تھا، لیکن سر سید کے

مقتضیات، ایک جبر کا حکم رکھتے تھے۔ جن سے صر� نظر کرنے کے معن[ مزید ذہن[ پس ماندگ[ کو راہ دینے

ااۂکے تھے۔ سر سید کے سامنے ایسا کوئ[ مستحکم فلسفیانہ لائح اطلاق ہ[ سے عمل بھ[ نہ تھا، جس کے عمل

دیس ک[ علم[ اور اقتصادی نے خود نظریہ سازی ک[ تھ[۔ دور ایک محدود بساط میں انہوں انہیں سروکار ہوتا،

ترق[ ہ[ نے نہیں بلکہ روزمرہ ک[ اخلاقیات میں ایک ضابطہ بند تہذیب[ رکھ رکھاؤ نے بھ[ انہیں زیست بسری کا

آامیزی میں انہوں،ایک نیا خاکہ مہیا کیا تھا دی تھ[۔ نے اپن[ ساری زندگ[ داؤ پر لگا جس ک[ رنگ

سجاد ظہیر کے سامنے ایک مستحکم لائحۂ عمل تھا۔ ایک ایسے سامراR سے ان کا ٹکراؤ تھا جس کے پاس فوکو

فہم ک[ وہ طاقت تھ[ جو عقل، دانش اور یعن[ علم و knowledge is powerکے لفظوں میں

آاگہ[ کا دوسرا نام تھا، قدرتۂنیز جو کم علم، جاہل اور بے خبروں کو اپنے قبض تجربے ک[ بنیاد پر باخبری اور

knowledge isمیں رکھنے ک[ اہلیت رکھت[ ہے۔ ایڈورڈ سعید نے اس فقرے کو

colonisation میں بدل کر اسے استعمار پسندانہ نظام کو فروغ دینے وال[ حکمت عمل[ سے تعبیر کیا

ہے۔

’’لندن کے ایک رات‘‘ کے دوسرے باب میں انگریز مزدوروں ک[ بات چیت اور نشے ک[ حالت میں ان کے

:اہم باتوں کا سراغ ملتا ہے وہ یہ ہیں خیالات سے جن دو

انگلستان میں بھ[ تمام ترقیات کے باوجود انگریز مزدور طبقہ حاشیہ نشین ہ[ تھا۔ اس کے مطالبات کو میڈیا۔ 1

آائیڈیولوج[ کے مطابق ہ[ اپن[ راہ کا تعین بھ[ کرتا ہے۔ مسخ کر کے پیش کرتا ہے اور میڈیا پاور ک[

بیش تر انگریز مزدور انگلستان ک[ استعمار پسندانہ حکمت عمل[ سے باخبر ہیں کہ کس طرح ایک امپریلسٹ۔ 2

جل انگلستان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ و طاقت ہندوستانیوں پر جور استبداد سے کام لے رہ[ ہے اور کس طور پر اہ

Page 5: بیانات

جن وطن کو دہشت گردکیونکر ان کا یہ عمل امن پسندوں کے حق میں نا گزیر ہے۔ وہاں بھ[ میڈیا ہمارے جاں نثارا

کے طور پر ہ[ پیش کرتا ہے۔

آات[ ہے جو بے بس، غریب اور ننگے بھوکے لوگ ہیں، جن کے راؤ کو یکبارگ[ ہندوستانیوں ک[ ایک بھیڑ نظر

اردگرد گورے بندوقیں تانے کھڑے ہوئے ہیں۔ ذرا سامراجیت کا احساس جاگتا ہے اور وہ دیکھتا ہے:

دھرادھر اجمیدان میں کھڑا ہوا ہے، سارا مجمع غائب ہو گیا۔ سامنے گورے کھڑے ہیں اور چاروں طر� ا ’’وہ اکیلا

خون کے دھبے، گرم تازہ خون اور زخم[ انسان اور مردے، کوئ[ منھ کے بل پڑا ہے اور اس کے ہاتھ پیٹ کے

آانکھیں دہشت زدہ ، دیدوں سے پھٹ[ پڑت[ نیچے دبے ہوئے ہیں۔ کوئ[ چت پڑا ہے۔ اس کے سرپر گول[ لگ[ ہے۔

گردن پر میلے کرتے پر، لال لال خون کے بڑے بڑے دھبے۔ ایک زخم[،ہیں۔ منھ کھلا ہوا۔ اس کے چہرے پر

جس کے پاؤں پر گول[ لگ[ ہے اور جو درد ک[ شدت سے چلا رہا ہے۔‘‘

(1965 والا باغ ک[ لہولہان تصویر س[ کھینچ دی ہے۔ البرٹ میم[ نے )نہسجاد ظہیر نے یہاں نام لئے بغیر جلیا

The Coloniser And The colonisedآاباد کار آابادیوں کا میں نو استعماریوں اور دیس[

تفصیل کے ساتھ معروض[ اور نفسیات[ مطالعہ کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ:ےبڑ

آاباد کار، نئ[ کالونیوں کے لئے کوئ[ تہذیب[ یا آائے تھے۔ ان ’’یہ خیال ہ[ بے بنیاد ہے کہ نو اخلاق[ مشن لے کر

آاگاہ تھے کہ کا صر� ایک ہ[ مقصد تھا اور وہ تھا اقتصادی ، وہ اپن[ اس دوہری قانون[ خلا� ورزی سے بخوب[

نے اپنے لئے ایک دوسری سرزمین کو اپنا جائے مقام بنایا ہے۔ جس سے انہیں غیر معمول[ دولت حاصل ہوئ[ انہوں

نے اس کے قدیم باشندوں سے بالقوت غصب کیا ہے،کیونکہ وہ غصب ہ[ ہے۔ اور یہ سرزمین وہ ہے جسے انہوں

رقابت کے جذبے اور مذہب[ جنون وغیرہ نے انہیں اس کے لائق تھے۔ ان ک[ کاہل[، اقتصادی عدم فہم[ ،حسد و

دیا کہ تحفظ ان کے لئے ناگزیر تھا۔‘‘ قدر کم زور بنا

Page 6: بیانات

تندی بھری ہوئ[ ہے۔ وہ اپنے ہم وطنوں ک[ ناعاقبت اندیش[ اور ان ک[ کاہل[ اور راؤ کے کردار میں غصہ وری اور

اا سارے اس کے اندر گھر کر cynicism آاپس[ نفرت اور تنازعوں سے اس قدر ہلکان ہے کہ لیتا ہے وہ طنز

آاپس میں ایک دوسرے ک[ جان کے دشمن ہیں، انگریزوں کے ہندوستانیوں کو کیڑوں مکوڑوں کے برابر کہتا ہے جو

خوشامدی ہیں۔ اس کے لئے یہ احساس شدید اذیت ناک ہے کہ ہمیں بڑی حقارت کے ساتھ کالے لوگ اور نیٹیوز

black skins (1967کہا جاتا ہے اور جو غلاموں سے بھ[ بدتر سمجھے جاتے ہیں۔ فرانزفینن نے )

white masks :میں اس[ موقف کو دہرایا ہے کہ

)اور یجنلٹ[( کو موت کے گھاٹ اتار نے اور کے مقام[ کلچر ک[ خلقیت colonised آابادوں یعن[ ’’نو

کمتری بھ[ پیدا ہوا ہے۔ ان ک[ حالت ایک جنون[ ک[جاسے زمینوں کے اندر دفنانے کے باعث ہ[ ان میں احساس

آاباد کار ان کے انفرادیت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔ اس طرح ان ک[ حیثیت محض س[ ہو گئ[ ہے کیونکہ نو

معدوم ہست[ ک[ ہو کر رہ گئ[ ہے جیسے وہ انسان سے کم تر کس[ اور وجود کے حامل ایک بے جان چیز یا

ہوں۔‘‘

مپائر کای’’برٹش ا ٹام بھ[ یہ[ کہتا ہے کہ جب وہ ہندوستان میں تھا تب کا ایک کردار"لندن ک[ ایک رات"

خیال کر کے اس ک[ رگوں میں خون تیزی سے دوڑنے لگتا تھا۔ وہ ہندوستانیوں کو کالا لوگ، نگرو اور نیٹیو کہہ کر

اسے فوR میں یہ[ سکھایا جاتا تھا، "خطاب کرتا تھا۔ وہ ہندوستانیوں کو جانوروں سے بدتر سمجھتا تھا۔ کیونکہ

اا حیوانیات[ اصطلاحات آاباد کار نیٹیوز کے بارے میں مستقل Zoologicalفینن کا بھ[ یہ[ خیال ہے کہ نو

Terms رری واقع ہوئے ہیں۔ جنہیں نہ تو اخلاق ک[ تمیز ہے نہ قدروں کا،میں گفتگو کرتے تھے جو مضر اور ش

ہیں۔ باق[ سارے کالے لوگ ان حقیر جانوروں سےییآادم[ صر� گورے ہیں، جن ک[ اقدار بھ[ اعل۔ احساس

Page 7: بیانات

مماثل ہیں جن میں زہر بھرا ہوا ہے جیسے سانپ یا خون چوسنے والے حشرات الارض۔ اس طرح دیس[ باشندے ان

کے نزدیک بشریت کش معروض کا حکم رکھتے تھے۔

سجاد ظہیر نے ٹام کے لفظوں میں انگریزوں کے پھیلائے ہوئے اس مغالطے ک[ طر� بھ[ اشارہ کیا ہے کہ انہوں

انتظامیہ اور ان کے قوانین ہ[ ان کے تحفظ ک[ک[رکھا ہے۔ ان ک[ پولیس، ان نے ہ[ ہندوستان میں امن قائم کر

سے موسوم کیا ہے گویا سارے نیٹیوز کے قانون والدlaw of the father ضمانت ہیں۔ فینن نے اسے

ہمنون[ نے اسے کار باپ کا حکم بجا آاباد بچے ہیں اور نو dependency لانا ان پر فرض ہے۔ او۔

complex کاروں ہ[ سے آاباد کہا ہے کہ نیٹیوز یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مفادات کا تحفظ صر� نو

تاریک ک[جنے عہد جنہوں،ممکن ہے۔ بلکہ بعض دیس[ باشندوں کے نزدیک انگریز نجات دہندہ بھ[ تھے

سے نجات دلائ[۔ عار� جیسے کردار کے نزدیک انگریزی زبان، انگریزی تہذیب اوراوہاممحکوم[ جہالت اور

اور ہندوستان میں صاحب کہلانے ک[ خواہش سب سے بیش بہا ہے۔ احسان آاوری انگریزوں کے احکام ک[ بجا

آاپ کس[ ضلع میں مجسٹریٹ ہوئے اور ہم لوگوں نے وہاں سیاس[ جب اس سے پوچھتا ہے کہ عار� صاحب اگر

آاپ ہمارے جلوسوں پر گول[ چلانے کا حکم دیں آاپ ہمیں جیل خانے بھیجیں گے یا نہیں؟ شورش شروع ک[ تو

’ڈیوٹ[ از ڈیوٹ[‘۔ نہیں؟ عار� کا جواب تھا گے یا

قوم کے ان سجاد ظہیر نے عار� کے حوالے سے ان نوجوانوں ک[ ذہن[ حالت سے پردہ اٹھایا ہے جنہیں ملک و

نے اپنے مقاصد کا جن سے پورا محکوم ہندوستان جوجھ رہا ہے۔ انہوں،اجتماع[ مسائل سے کوئ[ غرض نہیں ہے

قبائل[ بے وقو� اور وطن کو گنوار،جلیا ہے۔ جو خود بھ[ اپنے ارباب تعین اپنے ذات[ اغراض کے ساتھ وابستہ کر

ی[ اخلاق کا تصور انگریزییگیا ہے کہ اعل کر نکمے خیال کرتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ خیال گھر تہذیب اور اعل

کم تری ک[جکر ایسے ہزاروں نوجوانوں کے احساس قوم ہ[ مہیا کر سکت[ ہے۔ سجاد ظہیر نے عار� کو مثال بنا

ی[ تعلیم پاکر بھ[ زندگ[ کا عرفان حاصل نہیں کر سکے۔ عار� کے بارے میں ان طر� بھ[ متوجہ کیا ہے جو اعل

Page 8: بیانات

آابادیات[ صارف[ سماR پر اس کا پہلے سے آاشکار نہیں کرتا بلکہ موجودہ پس نو کا تجزیہ اس عہد ک[ ذہنیت ہ[ کو

کچھ زیادہ ہ[ اطلاق ہوتا ہے۔

۔جاتا ہوا کام کرتا چلا مجنوں تھا۔ خچر ک[ طرح وہ بھ[ ایک سیدھے راستے پر لگا ’’عار� لیلائے سروس کا

گئ[ تھ[ ک[ انگریزی کپڑے اچھ[ طرح پہننا، انگریزی اس[ کے ساتھ ساتھ اس کے ذہن میں یہ بات بھ[ سما

زبان انگریزی لہجے میں بولنا، سنیما ک[ تصویروں کے بارے میں اور ہول[ ووڈ کے ایکٹروں اور ایکٹریسوں کے ذات[

ی کےٹرمعاملات، ان ک[ شادیوں اور طلاقوں ک[ تازہ ترین خبروں سے واقف رہنا اور ان پر بات چیت کرنا کلک

امیدوار کا فرض ہے۔ وہ ان لوگوں کا جانشین ہونے والا تھا، جن کو اس پر فخر تھا کہ انہیں اپن[ مادری زبان اچھ[

آات[۔‘‘ طرح بولن[ نہیں

ک[ طر� جاتا ہے، جو سماج[ assimilation راستے بتاتا ہے۔ ایک البرٹ میم[، کو لونائزڈ کے لئے دو

ک[ طر� ہےpetrifactionاور تہذیب[ طور پر پوری طرح ڈھل جانے ک[ ترغیب دیتا ہے۔ دوسرے کا رخ

جو متحجر حالت ک[ نشان دہ[ کرتا ہے۔ اسے ایک جمود ک[ کیفیت کا نام بھ[ دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ نہ تو

وہ پوری طرح غیر تہذیب[ ڈھانچے میں ضم ہو سکتا ہے اور نہ غیر تہذیب[ ڈھانچہ اسے پوری طرح ہضم کر سکتا

آاپ کو صر� اور صر� صیغۂ حاضر تک محدود کرنے پر اکتفا کر لیتا ہے۔ میم[ ہے۔ ایس[ حالت میں وہ اپنے

:کہتا ہے کہ

بیٹھتا ہے۔ وہ ساری کہ اپن[ یادداشت تک کھویی''وہ اپنے رہنماؤں کو یاد کرتا ہے نہ انہیں تسلیم کرتا ہے۔ حت

آاہستہ محو ہونے لگت[ ہیں اور پھر اس کے پاس ایک ہ[ راستہ آاہستہ چیزیں جن کا تعلق اس کے ماض[ سے تھا وہ

اا نو آاباد بچتا ہے کہ وہ نو کاروں ک[ آاباد کار کے تہذیب[ اور سیاس[ اداروں ک[ طر� رجوع کرے۔ وہ مجبور

تعطیلات اور ان کے تہوار منانے لگتا ہے۔ پھر اس کے لئے اس ک[ مادری زبان جیسے گراں قدر روحان[ ورثے ک[

Page 9: بیانات

لیتا ہے۔ دراصل اس کا لسانیات[ کار ک[ زبان کو قبول کر آاباد بھ[ کوئ[ قیمت نہیں رہ جات[۔ اس کے بدلے وہ نو

اشتباہ ، تہذیب[ اشتباہ ہے۔‘‘

جل محال، وہ اپن[ زبان سے دست بردار ہو کر جہالت کے الزام سے بچ میم[ کہتا ہے کہ اب اسے المیہ کہیں کہ قو

جاتا ہے۔

نے زبان اور تہذیب کے تعلق سے مغرب کے تہذیب[ بم Ngugi Wa Thiong'o نگوگ[ واتھیونگ او

cultural bomb جو سب سے پہلے مقام[ تہذیب[ شناخت کو تہس،کو سب سے بڑا ہتھیار بتایا ہے

نہس کرنے کے درپے ہوتا ہے۔ لوگ یہ باور کرنے لگتے ہیں کہ ان کا ماض[ محض ایک خرابہ تھا، بے مصر�، بے

آاب و گیاہ ماض[۔ ان ک[ شناخت صر� اور صر� دوسرے لوگوں ک[ زبان اور کلچر کو قبول کرنے اور ثمر، بے

آاباد یورپ ک[ اس سازش کو بھ[ یہ کہہ کر بے نقاب کرتا ہے کہ نوجان ک[ پیروی ہ[ سے ممکن ہے۔ نگوگ[ اہل

کاروں کے لئے دیس[ باشندوں پر تسلط جمانے ک[ سب سے اہم اقلیم ذہن[ قلمرو ہ[ ہے۔ ذہنوں پر قبضہ جمانے

دینے اور کے معن[ دیس[ باشندوں کے کلچر ، فن اور ادب وغیرہ کو کوتاہ قرار دینے یا اس ورثے کو تہس نہس کر

آاباد کار ک[ زبان اور کلچر کو نفیس ، ترق[ یافتہ اور مکمل ثابت کرنے کے ہیں۔ نتیجے کے اس کے برخلا� نو

طور پر عار� ایس[ نسل پروان چڑھت[ ہے جسے یہ بھ[ احساس نہیں رہتا کہ وہ اپنے ہ[ فطری اور سماج[ ماحول

آابادیات[ بیگانگ[ سے بے گانہ ہوتا جا ک[ اصطلاحcolonial alienationرہا ہے۔ جسے نگوگ[ نے نو

سے موسوم کیا ہے۔

آابادیات[ ذہن کے ہر ردینج اجتماع پہلو کو دو ’’لندن ک[ ایک رات‘‘ میں سجاد ظہیر نے نو binaryض

apposition آاپ مگن ہے۔ اس ک[ پسند کے طور پر پیش کیا ہے۔ اعظم جیسا کردار ہے جو اپن[ دنیا میں

بھ[ گوری چمڑی ہے۔ عار� جیسا موقعہ پرست ہے۔ جس انگریز لڑک[ سے اس کا واسطہ پڑتا ہے، اس کے ساتھ

Page 10: بیانات

شب بسری ک[ کوشش بھ[ کرتا ہے۔ نعیم جیسا فربہ اور کاہل مگر مجلس[ زندگ[ کا دلدادہ کردار بھ[ ہے جو ہر

منٹ ہمدردانہ فہم کے ساتھ گفتگو کرنے لگت[ ہے۔ دوسری اس انگریز لڑک[ پر ریجھ جاتا ہے جو اس کے ساتھ دو

کردار ہے، جسے ہندوستانیوں ک[ کم cynicطر� راؤ جیسا حقیقت پسند، معاملہ فہم مگر بے عمل اور

آاپس[ رقابتوں سے بڑی چڑ ہے۔ یہ[ وہ کمزوریاں ہیں جن کا فائدہ بیرون[ غاصب اٹھا عقل[، ناعاقبت اندیش[ اور

رقابت ک[ فہم ضرور ہے لیکن اس پرست[ اور حسد واوہامرہے ہیں۔ راؤ کو ہندوستانیوں ک[ غربت، جہالت،

نہ صورت حال سے متصادم ہونے اور ایک نئ[ منزل کے سراغ ک[ اس کے پاس کوئ[ کلید ہے نہ فارمولا

اسٹریٹیج[۔ جبکہ احسان اور ہیرن پال کا ذہن اپنے مشن کے تعلق سے واضح ہے۔ احسان عقلیت پسند ہے، انسان[

نفسیات ک[ باریکیوں کو خوب سمجھتا ہے اور دوسروں کے بھرم چاک کرنے میں بڑا لطف لیتا ہے۔ حالات کے

سامنے سرنگوں ہونے کے بجائے تصادم اور پھر تبدیل[ اس ک[ ترجیح ہے۔ لیکن ابھ[ وہ ہندوستان سے باہر استعمار

پسند ملک میں مقیم ہے اور اپن[ بحثوں سے دوسروں ک[ زبان گنگ کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ جبکہ ہیرن پال اپنے

جن عزیز ک[ طر � لوٹ گیا ہے۔ اپنے مقصد میں اس ک[ محویت اسے کہاں لے گئ[ ہے عشق کو تج کر اپنے وط

اور وہ کس مقام پر ہے اس کا علم خود اس ک[ محبوبہ شیلا گرین کو بھ[ نہیں ہے۔

آابادیات[ ذہن اور اس ک[ کشاکش و پہلوؤں ک[ نشاندہ[ ک[ ہےےکشمکش کے ایسے بہت س سجاد ظہیر نے نو

ج[ خاموش بھ[ اس میں تہ جو اسے تذبذب و بہہتعلیق میں بھ[ رکھتے ہیں اور جن سے چھٹکارا پانے ک[ ایک سع

آاخر میں ہیرن پال کا اپنے مشن پر نکل جانا، اس[ امید افزا موڑ ک[ طر� اشارہ کہیں کا رہتہ آات[ ہے۔ فرما نظر

کرنے کے امکان کے بھ[ متحمل ہو سکتے ہیں۔ ہے جس کے بعد ہم کس[ منزل کے سراغ اور اسے سر کرتا

Page 11: بیانات

سید علی مظفر اور مسئلہ کا فہمی منٹو

’’۔ ۔ ۔ تجزیہ نفس کرنے والے اس خو� کو بے نقاب کرتے ہیں جو سب سے بڑا خو� ہے ، انسان کے ازل[ ترین

آادم[ کا خو� جو آادم یعن[ پر اسرار فطری جس باطن کا خو�، جس میں خدا ہے ،اگر خدا نہیں ہے۔ حقیق[ نف

زمانۂ قدیم سے بن[ اسرائیل میں پایا جاتا ہے۔ تجزیۂ نفس میں چیخنے ک[ حد تک بلند ہو گیا ہے۔ اس مادر زاد

دیوانے ک[ طرح جس کے منہ سے جھاگ نکلتا ہے ، اور جو اپن[ کلائیوں کو کاٹ کا ٹ کر لہو لہان کر دیتا

آادم سے اس قدر نفرت کر تا آادم جس سے خدا ک[ ذات اب تک جدا نہیں ہوئ[۔ فرائڈ اس ہے۔ قدیم ترین حقیق[

ہے اسے محض انحرا� کے ہیبت ناک ہیولے ک[ شکل میں دیکھتا ہے خود تولید سانپوں کا ایک گچھا ، خوفناک

آادم[ ک[ منحر� تصویر ہے جو ہزاروں شرمناک برسوں سے رام ہو حد تک گرہ درہ گرہ۔ یہ تصویر رام شدہ فاسد

آادم کس[ وقت بھ[ رام نہیں ہو سکا اور رام شدہ مخلوق ہمیشہ اس سے نفرت کرت[ رہ[ ہے۔ چکا ہے۔ قدیم

جہ دل سے محترم سمجھا ہے۔ خوفناک نفرت ک[ دہشت کے ساتھ۔ مگر جو بے خو� ہیں انہوں نے اس کو ت

آادم کے قدیم ترین پیکر میں خدا تھا۔ اس کے سینے ک[ تاریک دیوار کے عقب میں نا� ک[ مہر تلے۔ پھر قدیم

آانے لگ[ اور خدا اس سے جدا ہو کر خارج[ ترین فضا میں مقیم ہو گیا۔ آاپ سے گھن آادم[ کو اپنے

آادم کو اپنا چہرہ اور اپنا سینہ اوپر کو اٹھانا ہے اور خود کو پھر سے مگر اب ہمیں واپس جانا ہے۔ اب پھر قدیم

اصیل بنا نا ہے۔ شرارت اور لا ابال[ پن کے ساتھ نہیں بلکہ اپن[ دیواروں کے درمیان خدا کے ساتھ جسم کے

جرراعظم میں خدا موجود ہے اور اس[ سے ہمارے محسوسات ک[ تاریک شعاعیں پھوٹت[ ہیں،لفظ کے تاریک ترین ب

اا پیشتر۔ عمیق ترین باطن ک[ شعاعیں اولین پیغام ک[ حامل ہمارے وجود ک[ محترم اور ازل[ بغیر اور لفظ سے کامل

آاوازیں ہماری روح کے تاریک ترین ایوانوں میں لفظ کے بغیر ،گونجت[ ہیں مگر طاقت ور حیوان[ شکلیں جن ک[

Page 12: بیانات

ترجمہ : کلام سے بھرپور ہوت[ ہیں ہمارے اپنے باطن[ مفہوم سے بھرپور۔‘‘)محسوسات اور ناول : ڈی۔ ایچ لارنس ،

مظفر عل[ سید (

اا فنا پذیر تصور آادم کے تقریب جر نو استعاروں ک[ زبان میں کیا منٹو ک[ باطن[ جستجو قدیم ترین حقیق[ ک[ از س

جرراعظم میں اس خدا ک[ تشکیل ک[ سمت راجع نہیں ہے؟ لارنس ک[ طرح کیا منٹو بھ[ وجود کے تاریک ترین ب

آاوازوں میں بھ[ ا موجودگ[ ک[ توثیق نہیں کرتا جس سے محسوسات ک[ تاریک شعاعیں پھوٹت[ ہیں ؟ منٹو ک[

تھاہ اور مہیب سکوت جاگزیں ہے۔ لارنس کے نفس باطن کا خو� ہ[ منٹو ک[ دہشت ناک تخلیق[ کائنات کا

ررک بھ[ ہے۔ منٹو کے قریب الفہم اور سہل المعن[ متن ک[ تہہ میں جو متن دیگر مخف[ ہے اس ک[ دہشت بہ مح

ظاہر متن سے پیدا ہونے والے دہشت کے احساس سے کہیں زیادہ بھیانک تاثر فراہم کرت[ ہے۔ اس[ کے پہلو بہ پہلو

درد مندی ک[ وہ کیفیت بھ[ شدت سے محسوس ک[ جا سکت[ ہے جو خو� اور دہشت ہ[ ک[ کوکھ سے نمو

جاتا ہے جو اپن[ بیشتر پات[ ہے۔ تضاد کے انہیں پہلوؤں میں وہ ایسے بہت سے سوال ،حل طلب اور مقدر چھوڑ

ردرات میں وہ دھند بھ[ تہہ نشین ہے صورتوں میں انسان[ بے حس[ اور انسان[ راک[ کو منتج ہوتے ہیں۔ انہیں مق سف

جسے ابہام سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

ممتاز شیریں نے کہیں لکھا ہے کہ :

ہیں کہ ان کے ’’منٹو کے افسانوں میں کوئ[ ابہام نہیں ، نہ کوئ[ پوشیدہ اشارے ہیں۔ نہ کوئ[ پوشیدہ گتھیاں

سلجھانے میں دقت محسوس ہو۔ وقت کے ساتھ ساتھ نئ[ تشریحیں اور تفسیر یں ہوں ، تہہ در تہہ معان[ نکالے

جہ راست نوعیت ک[ تحریریں ہیں ، جن کا پیغام واضح ہے۔‘‘ جائیں۔ یہ صا� کھل[ سیدھ[ اور برا

ج[ ما ف[ الضمیر کو ہمیشہ پیچھے دراصل ادب کا معاملہ ہ[ کچھ ایسا ہے کہ ادبیت اور ادب[ روایت کا جبر معان

آاخری تجزیے میں چیزیں کچھ ک[ کچھ شکل اختیار کر لیت[ ہیں۔ افسانوی اقلیم میں جہاں زمان دھکیل دیتا ہے۔

واضح ہوتا ہے اور جو افسانے کو ایک واحد ے میں ڈھالنےPHENOMENONاور مکان کا اکثر سارا

Page 13: بیانات

کرتا ہے۔ اس ابہام کو کم کرنے کے بجائے زیادہ شدید کرنے ک[ کے ضمن میں بالعموم ایک اہم عقب[ کردار ادا

اور بے جا ، گہان[ اور ناگہان[ مداخلتوں اور کبھ[ طر� مائل رہتا ہے جو افسانہ نگار کے داخل[ تجزیوں ،جا

کبھ[ اکتشاف[ نوعیت کے مابعد الطبیعات[ اور نفسیات[ بیانوں میں مضمر ہوتا ہے۔ افسانہ نگار کے لئے یہ فریب دینے

شعری ابہام کا درجہ رکھت[ ہے جو کردار کے کے بڑے سہارے کہلاتے ہیں۔ پھر یہ کہ اس ابہام ک[ نوعیت تو

آامادہ نہیں تھا۔ وہیں ابہام بھ[ ،ہر تفاعل سے نمو قاری کے ساتھ پاتا ہے جس کے لئے قاری ذہن[ طور پر تیار اور

لیتا ہے۔ ایک علاحدہ ذہن[ واقعے کے طور پر اپن[ جگہ بنا

آان ممتاز شیریں کے اس خیال کے بر خلا� مظفر عل[ سید کے نزدیک منٹو اتنا واضح اور اتنا دو ٹوک نہیں ہے کہ

آاپ کو دوسروں پر عیاں کر کے طمانیت کے نشے میں سرشار ہو جائے۔ منٹو تو مستقل ڈسڑب آان میں اپنے ک[

کرنے کا نام ہے۔

جب حل و عقد کو منٹو نے نام نہاد مہذب و مقطع حضرات سے لے کر یون[ ورسٹیوں کے اساتذہ اور عدلیہ کے اربا

ک[ نوعیت میں بڑا فرقdisturbanceجس طور پر ڈسڑب کیا ، اس ک[ نوعیت اور فکشن کے قاری میں

آاسودگ[ کے لئے ادب نہیں پڑھتا ہے۔ فکشن کا یہ قاری وہ ہے جو محض ذہن[ طمانیت اور جمالیات[ اور روحان[

اتفاق[ وارداتوں سے پیدا ہونے والے کشف کے بلکہ زندگ[ میں یک دم کس[ واقعے ک[ رونمائ[ اور ناگہان[ و

زندگ[ کے غیر معمول[ پن کا دل کو یک لخت صدمہ پہنچانے والے وقوعوں اور ثانیوں میں جو تجربے یا ذہن و

درک اسے حاصل ہوتا ہے۔ اس ک[ اپن[ اہمیت ہوت[ ہے اور جو تھپک[ دے دے کر سلانے کے بجائے ہماری بے

چینیوں میں اضافے کا موجب ہ[ بنتا ہے۔ مظفر عل[ سید نے جس کیفیت کو دانستہ تغافل برتنے سے تعبیر کیا ہے

جرد عمل ہے اور جس کا اثر اتنا کاری ہے کہ منٹو کو انگیز کرنا اب بھ[ ہم میں سے بہتوں اا اس[ صدمے کا ر وہ اصل

آاتا ہے۔ کیلئے مشکل نظر

ابرے معمولات ک[ روشن[ میں اس کے فکر و یہ خیال بے حد تکلیف دہ ہے کہ کس[ تخلیق[ فن کار کے اچھے

شش، اور فن کے محاسبے ک[ روش تا شب، جو شر،غال شہ وغیرہ کو بھ[ اکثر ان ہنوز قبولیت کا درجہ رکھت[ ہے۔ می یگان

Page 14: بیانات

ش[ بڑی تاخیر کے بعد کر بار ہا تختۂ مشق بنایا گیا۔ اس[ بنیاد پر مقبول پہلوؤں کو بنیاد بنا ک[ زندگ[ ک[ نا اور حال

جر معذرت کے ساتھ بلکہ با جل ناخواستہ ’’یاد گا شب‘‘ د ہے کہ ہمارے ضرور ک[ اشاعت کے لئے راض[ ہوئے۔ یہ غال

اکثر فکشن کے سمیناروں میں منٹو کا نام بڑے افتخار سے لیا جاتا ہے بلکہ اردو معاشرے کے لئے وہ ایک

status symbolکا حکم رکھتا ہے۔ بالخصوص ہندوستان میں تواب یہ خیال جڑ پکڑتا جا رہا ہے کہ

آائرن[ ) ہماری کوئ[ بھ[ زبان نہ تو غالب جیسا شاعر پید ا کر سک[ ہے اور نہ منٹو جیسا کہان[ کا ر۔ لیکن

ironyآاوازیں جامعات کے اس تعلیم[ ماحول میں بھ[ بلند ہوت[ ہیں جہاں منٹو کا داخلہ ممنوع ہے۔ (یہ کہ یہ

آاگے نہیں کس[ دباؤ کے تحت اسے شامل کر بھ[ لیا جاتا ہے تو اگر بات نیا قانون اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے

اا درست ہے کہ بڑھت[۔ مظفر عل[ سید کا یہ خیال قطع

’’ہماری یون[ ورسٹیوں میں اور سرکاری سطح پر منٹو ابھ[ تک شجر ممنوعہ ہے۔‘‘

اس میں کوئ[ شک نہیں بقول مظفر عل[ سید کہ ’’ساری زندگ[ اس پر مقدمے چلتے رہے یا چلائے جاتے رہے اور

بار کس[ نہ کس[ شکل میں اب بھ[ چل رہے ہیں۔ ان مقدموں نے اس ک[ زندگ[ اجیرن کر دی اور وہ ملول ہو کر

جرد عمل کے طور پر خود فراموش[ کو تو کبھ[ ترجیح نہیں دی۔ بار خود فراموش[ ک[ طر� لپکتا رہا‘‘۔ منٹو نے ر

رے میں چڑ چڑ ا ہٹ ،ضد اور ہٹ دھرم[ جیس[ کیفیات ضرور شامل ہو گئ[ تھیں بلکہ میں اسے البتہ اس کے روی

بے حد کم زور واقع ہوا ہے جو ینگ مین گا۔ ایک ایسا اینگری ینگ مین ک[ غصہ وری اور برافروختگ[ کا نام دوں

اور شدید دباؤ کے تحت جس ک[ ترجیح محضcompulsionsکے اجبار اور مختلف سماج[ قوتوں

آازما ہونے پر ہے۔ اس[ لئے اس نے اپنے احباب کا حلقہ بھ[ بہت محدود کر رکھا آاپ سے نبرد تھا۔ اس کے اپنے

خلق کردہ کر دار ہ[ اس ک[ انجمن سازی کے لئے کا ف[ تھے۔

اا منٹو کے ذہن[ اور روحان[ تناؤ اور نفاق ایک مستقل نا آاہنگ[ جو اندر اور باہر کے درمیان واقع تھ[ اور جو مستقل

کا بھ[ سبب تھ[ اس کے افسانوی فن میں واقع ضبط اور وحدت پر اثر انداز نہیں ہوت[۔ اس وحدت اور ضبط کو

ش اس طور پر انگیز کر تا ہے کے یہاں دکھائ[ دیت[ ہے جو خارR کے نفاق کو قائم رکھنے ک[ ا یک صورت غالب

Page 15: بیانات

ر[ عمل کو تطابق بہ شب کے اس فن کہ شعر ک[ مجموع[ صلابت متاثر نہیں ہوت[۔ میں نے ایک مضمون میں غال

عن منٹو کے فن پر بھ[ کیا جا سکتا ہے۔ گردش جس کے تھا جس کا اطلاق من و نف[ کے عمل سے موسوم کیا

آامدن[ ک[ راہیں جس پر مسدود ہوں ،تس پر مسلسل مقدمے بازی جس پر عائد کر دی جائے۔ ا س پیروں میں ہو ،

جا سکتا۔ مظفر عل[ سید نے اس[ کے ذہن[ انتشار اور روحان[ نفاق کو سوائے عذاب کے کچھ اور نام نہیں دیا

کے افسانوی فن پراس بحران ک[ چھوٹ کہ منٹو لئے منٹو کو ذات[ زندگ[ میں ناکام قرار دیا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا

نہیں پڑی۔ اس قسم کے حالات میں فن کار جذبوں کے غیر معمول[ دباؤ کے تحت لمحوں میں جینے پر کیوں

آاپ کو ایک قانع ہو جاتا ہے۔ فن[ بافت جگہ جگہ سے کھلنے لگت[ ہے۔ دراصل منٹوں تخلیق[ لمحوں میں اپنے

لیتا ہے اور اپن[ بوہیمین اسپرٹ کو پرکھنے ک[ توفیق سے بھ[ کا م لیتا ہے تاکہ افسانے ک[ مرکز پر مجتمع کر

نفاق اثر انداز نہ ہو سکے۔ تخلیق[ ہئیت اور تکنیک پر باہر کا

شض اردو شاعری جہاں تک فیض کے بیان کا تعلق ہے وہ ان ک[ فکشن ک[ جمالیات سے لاعلم[ کا نتیجہ ہے۔ فی

ک[ تاریخ کے تناظر میں عظیم شاعر ہوں یا نہ ہوں۔ البتہ ہمارے عہد کے دو تین بڑے شعر ا میں ان کا شمار کیا

جانا چاہیے۔ منٹو کے فن کے بارے میں اس[ شخص ک[ رائے کو کوئ[ معن[ دیے جا سکتے ہیں جو فکشن کے

آابادی تقاضوں اور فکشن ک[ تاریخ کے مختلف مراحل اور ادوار میں فن کے تفاعل کا علم رکھتا ہو۔ عبدالماجد دری

خیر قابل معاف[ ہیں سردار جعفری تک فکشن ک[ ماہرالقادری ،نعیم صدیق[ یا چودھری محمد حسین تو یا

منٹو کواک[ فہم کم رکھتے تھے۔ عزیز احمد سے یقینا جمالیات اور اس کے تخلیق[ تقاضوں اور تکنیک[ مطالبوں

سمجھنے میں بڑی چوک ہوئ[۔ جس عہد کا یہ قصہ ہے اس میں سوائے ممتاز شیریں کے )وہ بھ[ بعد میں ( کوئ[

اور منٹو اور فکشن ک[ فہم ک[ اہلیت نہیں رکھتا تھا ،اہلیت رکھتے تھے محمد حسن عسکری،لیکن وہ منٹو کے

آاہستہ سے پتل[ گل[ سے پھوٹ نکلے۔ لئے زیادہ وقت نہیں نکال سکے ادھر ادھر ک[ باتیں بگھاریں اور

جان ہارل[ نے پرPoems and balladsہم اپنے ادیبوں کو کیا کہیں وکٹورین عہد میں ہیون برن ک[

کم ضرر رساں قسم ک[ تنقید نہیں ک[۔ لٹن ہ[ نے نہیں رسکن جیسے سخت قسم کے اخلاق[ نقاد نے اسے

Page 16: بیانات

کو مذVenus and Adonisقطع[ بے ضرر ٹھہرایا۔ لیکن یہ وہ[ ہیون برن تھا جس نے شیکسپئیر کے

گیا تھا جو بچوں کے تھا اور باڈ لر ک[ تلخیص ک[ پذیرائ[ ک[ تھ[ جس میں ان اجزا کو نکال دیا موم قرار دیا

کو بعض اجزا کےTristram Shandyسکتے تھے۔ ڈاکٹر جانسن نے اسٹرن کے ناول اخلاق کو بگاڑ

تھا۔ اس قسم ک[ صورتیں ادیبوں کے نظریات[ اختلافات کے باعث پیش نظر ناشائستہ مبتذل اور عامیانہ تک قرار دیا

ہمیشہ پیدا ہو ت[ رہ[ ہیں۔

توجہ طلب ہے :امظفر عل[ سید کا یہ سوال یقینا

’’اس پرس[ کیوشن ک[ بہت س[ جہتیں میں اور اس میں برطانوی سرکار کے اہل کاروں کے ادب[ نظریات کے

تو چو دھری صاحب ک[ مٹھ[ میں تھے لیکن دہل[ اور علاوہ دوسرے عناصر بھ[ شامل ہیں۔ پنجاب کے اخبار

بمبئ[ کے اخبارات نے کس کے زیر اثر یہ[ پرس[ کیوشن کیوں اختیار ک[ ؟‘‘

جائے۔ میرے نزدیک جن کے اپنے کوئ[ ادب[ نظریات ہ[ نہیں تھے۔ اپن[ لیا سب سے پہلے برطانوی اہل کاروں کو

حکومت بچانے کے لئے غلط صحیح عموم[ رائے کو وہ ان معنوں میں ترجیح دیتے تھے کہ ایک چھوٹ[ س[ بات

لے۔ دوسرے یہ کہ برطانیہ میں سرکاری کہیں بتنگڑ نہ بن جائے اور احتجاR ، بغاوت ک[ شکل نہ اختیار کر

اا ساڑھے چار سو پانچ سو برس پران[ ہے۔ میں جان میتھیوز کو ایک سرکار مخالف ء۱۷۱۹احتساب ک[ تاریخ تقریب

تھا۔ ہمارے یہاں فرخ سیر پر پھبت[ کسنے کے الزام میں جعفر ز ٹل[ کو اپن[ جان گیا جرم میں پھانس[ پر لٹکا دیا

تھا اور بدر الاسلام عباس[ بدایون[ کو انگریزوں کے خلا� ایک نظم لکھنے پر سول[ ک[ سزا سے ہاتھ دھونا پڑا

ء میں سخت سزا کا سامنا کر ناپڑا۔۱۸۱۰ ء میں اور ولیم کوبے کو۱۷۰۳ ڈفو کو بھگتن[ پڑی تھ[۔ ڈینیل

Puritansہ[ کے سخت خلا� تھے بالکل اس[ طرح جیسے ہندو اور مسلم بنیاد پرستوں ک[ ہمارے تو تھیڑ

آائ[ ہے۔ سرکاری خردہ گیری اور حر� گیری ک[ ان مثالوں ک[ ایک لمب[ فہرست ہے جن کا تعلق دور میں بن

ویں صدی میں اینگلو امریک[ عدلیوں۲۰سابق سوویت روس ، ہنگری ، چیکوسلو یکیہ ،رومانیہ اور البانیہ سے ہے

آازادی میں یولیسس ،روتھ،لیڈی چٹر لیز لوور اور دی لیڈیز ڈائریکٹری پر جو مقدمات چلے ان سے یوروپ[ ادب میں

Page 17: بیانات

قانون کے تحت ہماریHicklinاظہارکو زبردست تقویت مل[ جب کہ لیڈی چٹر لیز لوور ک[ فروخت پر اس[

دی جسے یونائیڈ اسٹیٹس نے بہت پہلے منسوخ کر دیا تھا۔ منٹو کو ان برطانوی سپریم کورٹ نے پابندی لگا

آابادیات پر نافذ کر رکھا کے۲۹۲تھا۔ ہندوستان[ پینل کو ڈ دفعات کا سامنا تھا جنہیں حکومت برطانیہ نے اپن[ نو

تحت ہر وہ تحریر و تصنیف احتساب ک[ مستحق قرار دی جا سکت[ ہے جو فحش ،ناشائستہ ،تہذیب و اخلاق

کے مقررہ معیاروں کے خلا� ہو یا جو شہوت انگیز ہو یا جس سے سوسائٹ[ کے کس[ طبقہ یا گروہ کے مذہب[

جذبات کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ لیکن ہمارے عدلیہ نے اس نکتے ک[ طر� توجہ نہیں ک[ کہ عقائد و

پاکستان میں منٹو کے تقسیم وطن سے قبل جن تین افسانوں )کال[ شلوار ،دھواں اور بو( اور ٹھنڈا گوشت پر

مقدمات چلے وہ اپنے پورے متون کے تناظر میں بحیثیت عام اور مروR مفہوم کے فحش نہیں تھے۔ محض بعض

کہ گیا پر غور نہیں کیا یات[ تفصیلات ک[ روشن[ میں انہیں احتساب کے لائق ٹھہرایا گیا تھا۔ اس امرئجز

اا قاریانہ تاثر ک[ نوعیت کیا ہے ؟ جب ہندوستان میں لیڈی چٹرلیز اا ان ک[ ادب[ قدو قیمت کیا ہے ؟ مجموع مجموع

آانند نے اپن[ Rلو ور پر مقدمہ چل رہا تھا تب ملک راexpertرائے میں یہ دلیل دی تھ[ کہ ناول ہذا ایک اہم

لیکن تھیم کے لحاظ سے ناشائستہ انکار کیا نے اسے فحش ماننے سے تو ادب[ کارنامہ بلکہ کلاسیک ہے۔ انہوں

جن قدر بھ[ رکھتا ہے۔ اس[ نسبت سے بھ[ ٹھہرایا۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ ہر ادیب اپن[ ایک میزا

ابعد بھ[ پیدا ہو جاتا ہے۔ فیصلوں اور ترجیحات میں بھ[ کہیں کم کہیں زیادہ بے حد زیادہ

ء میں ارسکاٹن گولڈول کے ناول کا بھ[ ذکر۱۹۵۱ دسمبر /۱۶منٹو نے چچا سام کے نام ایک خط بابت مورخہ

فحاش[ کے الزام میں مقدمہ بھ[ چلا تھا۔ پاکستان جیس[ اسلام[ ’’گوڈز لٹل ایکڑ‘‘ پر کیا ہے۔ جس کے ناول

مملکت میں منٹو اپنے فحاش[ کے الزام کو عین ممکنات میں سے بتاتا ہے لیکن اسے اس بات پر سخت حیرت

تھ[ کہ چچا سام ک[ امریک[ جمہوریت کو کیا ہو گیا ہے۔ بعد ازاں گولڈ ول بری بھ[ کر دیا جاتا ہے۔ منٹو اس

آاخری سطور ک[ تعریف کرتے ہوئے انہیں پر عقیدت مندانہ سلام بھ[ پہنچاتا ہے اور جج کو غائبانہ طور فیصلے کے

Page 18: بیانات

آابادیات[ عدلیہ ان سطور بہت س[ کتابیں مرگھٹ ک[ راکھ لے تو ہ[ کو اپن[ میز ان بنا دہراتا بھ[ ہے۔ اگر پس نو

بننے سے بچائ[ جا سکت[ ہیں۔

دینے پر پڑھنے والوں میں خواہ مخواہ ہوں کہ ایس[ کتابوں کو سخت[ سے دبا ’’میں ذات[ طور پر محسوس کرتا

دیتا ہے۔ حالاں کہ انہیں شہوت پسندی ک[ ٹوہ لگانے ک[ طر� مائل کر تجسس اور استعجاب پیدا ہوتا ہے جو

اصل کتاب کا یہ منشا نہیں ہے مجھے پورا یقین ہے کہ اس کتاب میں مصنف نے صر� وہ[ چیز منتخب ک[ ہے

جسے وہ امریک[ زندگ[ کے کس[ مخصوص طبقے کے متعلق سچا خیال کرتا ہے۔ میری رائے میں سچائ[ کو

ادب کے لئے ہمیشہ جائز قرار دینا چاہیے۔‘‘

تین سو روپے ک[ سزا دینے والے جج ک[ رائے تھ[ کہ ’’سچائ[ کو اور مشقت تین ماہ قید با کو ) جب کہ منٹو

ادب سے ہمیشہ دور رکھنا چاہیے (

آازادی کا نقیب تھا۔ حلقہ ارباب مظفر عل[ سید کے اس خیال سے میں پوری طر� متفق ہوں کہ منٹو فن کار ک[

آاہنگ[ ضرور تھ[ لیکن محض حلقے کے رکن بننے پر منٹو زیادہ سے زیادہ ذوق کے ساتھ منٹو یا راشد ک[ ذہن[ ہم

اعجاز بٹا لوی بن سکتا تھا اور راشد ک[ شخصیت یوسف ظفر اور قیوم نظر سے زیادہ گہری اور گمبھیر نہیں بن

آازادانہ سکت[ تھ[۔ اس عہد میں جو فن کا ر ان دونوں تحریکات کے بین بین چلے ان ک[ تخلیق[ صلاحیتوں ک[

اپنے تجربات کے سلسلے کو بر قرار و قائم رکھا۔ نما ہو ئ[ اور انہوں نے زیادہ بہتر طور پر وسطح پر نشو

منٹو ،راشد اور مجید امجد ہ[ نہیں اختر الایمان کو بھ[ اس[ زمرے میں شامل سمجھنا چاہیے۔ ترق[ پسند تحریک

آا جب ذوق دونوں سے قبل ایک ایس[ نسل وجود میں آازادیاں عزیز چک[ تھ[ جسے ذہن و اور حلقۂ اربا ضمیر ک[

میں تھ[۔ البتہ ترق[ پسند تحریک نے تھیں اور جو روایت ک[ رسم[ پیروی کے برخلا� نئے امکانات ک[ جستجو

بین الاقوام[ سطح پر ادیبوں کے مابین باہم[ روابط اور ان کے مسائل ک[ فہم کے لئے ایک راہ ضرور دکھائ[۔

آاداب کا گہراوروایت شکن[ کے دعا ی کے باوجود لسانیات شعری کے لحاظ سے اہم ترق[ پسند شعرا کلاسیک[

نے قوم[ اور بین الاقوام[ سیاس[ مسائل اور انسانیت کش[ جیسے موضوعات کو بنیاد بنا شعور رکھتے تھے۔ انہوں

Page 19: بیانات

اختیار نہیں کر شعر کے موضوعات[ کینوس کو نہایت وسیع بھ[ کیا۔ حلقے نے خارج[ مسائل سے پہلو تہ[ تو

صورتوں میں اصرار داخل[ غواص[ پر ہ[ تھا۔ اس[ باعث ان کے تجربات میں ک[ لیکن ان کا اپن[ بیش تر

کہیں کہیں سریت ایک حاوی کیفیت کے طور پر محیط ہو جات[ ہے۔ حلقے نے ہ[ نا دھند ،افسر دگ[ ،اور

راست زبان کو ادب[ زبان کے طور پر قایم کیا اور نئے اسالیب کے لئے راہیں بھ[ ہم وار کیں۔ ہیئت ک[ طر� خاص

توجہ کے باوجود میرا ج[ نے لوک روایت ،کلاسیک[ ادبیت کے شعار فرانسیس[ علامت[ شاعری کے میلان اور ذہن[

گرہوں اور اعمال کے تعلق سے نئ[ نفسیات[ تحقیقات کے ایک وسیع تناظر سے اپن[ تخلیق[ سرگرم[ کو نئے معن[

فراہم کرنے ک[ سع[ ک[۔ ایک لحاظ سے ممتاز شیریں ،حسن عسکری اور انتظار حسین کے حوصلوں کو تازہ دم

علاحدہ ج[ اور ان کے حلقے ہ[ سے ملتا ہے۔ تھوڑے بہت انسان[ نفس اور کردار ک[ جو رکھنے کا سراغ میرا

محسوس ہو ت[ ہوئ[ شناخت منٹو کے یہاں دستیاب ہے اسے میرا ج[ سے ذہن[ قربت کا نتیجہ بھ[ کہا جا سکتا

ہے۔ محض داخل[ غواص[ کا عمل یا نفسیات[ اور مابعد الطبیعات[ نیز سیاس[ و سماج[ مسائل پر انحصار کے

آازادیوں ک[ فضا معن[ ان لا محدود امکانات پر قد غن لگا میں نمو پاتے ہیں۔ دینے کے تھے جو بالعموم ذہن[

جب ذوق ہر دو تحریک سے وابستہ فن کاروں کے یہاں موضوعات ک[ جو تحدید و تکرار ترق[ پسند اور حلقہ اربا

الایمان نے اس سے دہ چند دوری برقرار رکھ[۔ ادب[ پر محسوس ک[ جا سکت[ ہے منٹو ،راشد اور اختر نمایاں طور

تجربات ک[ تاریخ بھ[ یہ[ بتات[ ہے کہ تجربہ کرنے والے اکثر نقصان میں رہتے ہیں۔ ان کے بعد ک[ نسلیں اپنے

وقت کا فاصلہ بصیرتوں اور وجدان کچے پکے تجربات سے کامیابیوں کا فن سیکھت[ ہیں یا ں کے ناکام یاؤپیش رو

ش[ کو جس طو ر آازاد پر حساس تر بناتا ہے۔ اس حساسیت سے تجربہ کرنے وال[ نسل اکثر محروم رہت[ ہے۔ حال شاور

شا شل اور میر الایمان کو زیادہ بہتر ج[ اور ترق[ پسند شاعری کے ناکام تجربات نے راشد اور اختر کے تجربات نے اقبا

وصف منٹو حقیقت اور زندگ[ سے بہ باطن ہ[ نہیں بہ ظاہر تناظر فراہم کیا۔ مسائل ک[ نوعیت مختلف ہونے کے با

تھے۔ میرے نزدیک دونوں تحریکات سے اس کا ایک ایسا بھ[ اتنا ہ[ قریب تھا جتنا کہ ترق[ پسند فکشن نگار

معنوی رشتہ ضرور تھا جو بعد اور یگانگت کے خطرات اور امکانات ک[ فہم کا زائدہ تھا۔ مظفر عل[ سید بھ[

یہ[ کہتے ہیں کہ:

Page 20: بیانات

سرکاری ادارہ کس[ سچے ’’منٹو کس[ بھ[ ادب[ تنظیم ک[ پیدا وار نہیں تھا نہ کوئ[ سماج[ یا ادب[ اشاعت[ یا

حلقۂکر سکت[ ہے اور یہ فریضہ اداا ادیب کو جنم دے سکتا ہے۔ ادب[ اور فکری تنظیم ایک تربیت[ کردار یقینا

آاز اد بحث کے ذریعے ضرور انجام دیا‘‘۔ ارباب ذوق نے اپن[

جب ذوق کے ساتھ ترق[ پسند تحریک کے نام کا اضافہ ضرور کرنا چاہوں راست گا۔ جس کے نا میں یہاں حلقہ اربا

اثر نے منٹو کو محض لفظوں کے جنگل میں گم ہو نے سے بچا لیا۔ مظفر عل[ سید کا یہ خیال بھ[ درست ہے کہ

باری علیگ ک[ صحبتوں اور روس[ ادب کے تراجم نے اس کے ذہن کو حقیقت فہم[ کے ایک نئے اسلوب ک[

دیا تھا۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تحریک طر� پہلے ہ[ یعن[ ترق[ پسند تحریک سے قبل ہ[ مائل کر

آا۱۹۳۲سے قبل انگارے ک[ اشاعت ) بیل اور پوس ک[ رات جیسے چک[ تھ[۔ کفن ، پد ما ، دو (بھ[ عمل میں

چکے تھے۔ پریم چند اپنے بعض اداریوں اور مضامین میں گور ک[ ، ٹالسٹائے افسانے پریم چند کے قلم سے ادا ہو

چکے تھے۔ خود اختر حسین رائے پوری کا مقالہ ادب او رپشکن وغیرہ کے بدلتے ہوئے محاورے ک[ طر� توجہ لا

چکا تھا۔ گویا منٹو کے لئے حقیقت کو نئے آا اور زندگ[ ، تحریک سے پہلے بنگال[ اور پھر اردو میں منظر عام پر

طرز احساس کے ساتھ انگیز کرنے اور افسانوی تکنیک کو مختلف طور پر برتنے کا ہنر اس[

phenomenon ک[ دین تھا۔

میں ’ہتک‘ ک[ تعریف ک[ ہے وہ ان ک[ فکشن ک[ تنقیدی فہم ک[ کرشن چندر نے جن الفاظ میں اور جس دور

نے سوگندھ[ ک[ معصومیت اور عورت پنے ک[ طر� جو اشارہ کیا ہے۔ اس[ میں ’ہتک‘ بہترین دلیل ہے۔ انہوں

ک[ گنجانیت کا راز بھ[ مضمر ہے۔ ’ ہتک‘ ک[ افسانوی تکنیک انفرادیت ہے جس نے اس افسانے کو ایک

مختصر رزمیے میں بدل دیا ہے۔ بو، دھواں اور ہتک ک[ جزئیات[ تفصیلات میں اجمال اور تلازموں کے بہترین

جیسے چقماق کے چھوٹے دیے ہوں۔ اور بھرelectronsموقعیت[ عمل نے اکثر و بیش تر جملوں میں جیسے

آاپس میں خود بخود ٹکرا رہے ہوں۔ مظفر عل[ سید نے یہ رہے ہوں اور روشنیوں کے فوارے چھوڑتے جا چھوٹے ذرات

کہہ کر کہ۔ ۔ ۔ افسانہ نگار محض اپن[ سر گذشت نہیں سناتا ناقابل تصدیق سچ[ کہانیاں نہیں کہتا، لیکن اس

Page 21: بیانات

طرح سناتا ہے کہ کس[ تصدیق ک[ ضرورت محسوس نہیں ہوت[ اور نہ کس[ خارج[ شہادت ک[ ، سید عابد عل[

آاغا،رشید جہاں اور انتظار حسین کا کاف[ و دیا ہے۔ شاف[ جواب فراہم کر ،اوپندر ناتھ اشک وزیر

مظفر عل[ سید ک[ طرح میرا بھ[ یہ[ خیال ہے کہ منٹو ک[ دنیا کو محدود کہنے والوں نے یا تو منٹو کو پوری

طرح پڑھا نہیں ہے اگر پڑھا ہے تو وہ فکشن ک[ فہم رکھنے والے قاری نہیں ہیں۔ جن افسانوں کا حوالہ سید

صاحب نے دیا ہے ان کے علاوہ بھ[ ایک اور بھری پری کائنات موجود ہے جس میں تنوع ہ[ تنوع ہے۔ میں تنوع

آاپ جنہیں خاکے محض موضوعات کے حوالے سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ اس ک[ تکنیکوں میں بھ[ بڑا تنوع ہے۔

کہتے ہیں جنہیں خطوط کے نام سے موسوم کرتے ہیں وہ منٹو کے افسانوی فن ہ[ ک[ کرشمہ سازی ہے۔ رام

پہلوان ، یزید، گورکھ سنگھ ک[ وصیت ،جانک[ ،باسط، دودا کھلاون ، موتری، سڑک کے کنارے ، خوشیا،

آایا ، گیا ، شریفین اور آانکھیں، تق[ کاتب ، کتے ک[ دعا ، ہار تا چلا، شاردا، بلونت سنگھ مجیٹھا آایا شیر شیر

دوڑنا وغیرہ ایسے افسانے ہیں جو تکنیک اور کردار سازی میں ہتک ہ[ ک[ طرح توجہ طلب ہیں۔

جہاں تک سمر سٹ مام کا تعلق ہے وہ دوسری سے چھٹ[ دہائ[ تک انگریزی کا مقبول عام فکشن نگار رہا ہے

بھ[ تھا موپاساں کے یہاں ایک بے دردانہcynicاس نے تھوڑا بہت موپاساں کا بھ[ اثر قبول کیا تھا لیکن وہ

فہم ضرور قایم رہت[ ہے جو اس ک[ غیر جذباتیت ک[ دلیل ہے۔ مام کے یہاں غیر جذباتیت سگ خوئ[ تک پہنچ

اسلوب میں ہر جگہ ضبط وار تکاز کو بر قرار رکھتا جات[ ہے۔ منٹو کے تھیم کتنے ہ[ دماغ پاش ہوں، وہ اظہار و

صاحب نے منٹو ک[ نثر ک[ جس کٹیل[ خوب[ کا ذکر کیا ہے وہ البتہ فلابیر اور موپاساں ک[ یاد دلات[ ہے۔ مظفر

راق[ جس کے ایک ایک مسام میں ہے۔ یہ[ وہ نثر ہے جسے فکشن ک[ مثال[ نثر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور خل

رچ[ بس[ ہوئ[ ہے۔

رصہ ہیں لیکن جرس مزاح،درد مندی ا ور سبک طنز منٹو کے اسلوب کا بھ[ خا اوہنری ک[ س[ انسان دوست[ ،ح

ل[ ہے جو اکثر مام کے تھوڑی س[ زہر خند اور واسوخت ک[ اس صورت نے تحت المتن میں جگہ ض۔ رور بنا

آاواز میں لعن طعن ک[ شکل اختیار کر آائرن[ یہاں اونچ[ لیت[ ہے۔ بالخصوص چچا سام کے خطوط میں سیاس[

Page 22: بیانات

بار پاکستان اور امریکہ کے اقتصادی ،اخلاق[ ،سیاس[ اور تہذیب[ کو جس طور پر منٹو نے نمایاں کیا ہے اور بار

پس ماندگ[ پر کیا جا افتراق کو نمایاں کیا ہے ،اس کا اطلاق پوری نام نہاد تیسری دنیا ک[ اقتصادی بدحال[ و

جت حال پیش کر دیتا ہے۔ سکتا ہے۔ منٹو ،بقول مظفر عل[ سید ،اپدیش نہیں دیتا،اسباب نہیں بتاتا صر� صور

یا اوہنری یا موپاساں یا یہ خیال اور بحث کوئ[ معن[ نہیں رکھت[ کہ منٹو نے کوئ[ بڑا ناول کیوں نہیں لکھا۔ پو

چیخف سے کس[ مغرب[ نقاد نے اس قسم کا سوال نہیں کیا۔ کیا یہ سوال قایم کیے جا سکتے ہیں کہ ن.م.راشد

ش یا یا اختر شب الایمان نے غزل کیوں نہیں لکھ[ ؟ یا یہ سوال کہ مجروح ش[ نے کوئ[ نظم کیوں نہیں لکھ[؟ غال فان

لکھنا ہ[ تھا ؟ وغیرہ وغیرہ یہ تمام سوالات بے محل بلکہ لا یعن[ ہیں۔ کوئ[ ایک مکمل مرثیہ تو کو

کہ اپنے قریب[ معاصر ین سے منافرت برتنا چاہیے۔ لیکن یہ کوئ[ کلیہ نہیں ہے۔ ہیر لڈ لارنس نے یہ ضرور کہا تھا

رکھا ہے۔ اس کا تجزیہThe anxiety of influence(1973)بلوم نے اپن[ تصنیف کا نام ہ[

تحلیل نفس[ ک[ بنیاد پروان چڑھنا بڑا مشکل ہو تا ہے۔ بیٹے کو اپن[ جگہ بنانے کے لئے باپ کو ’ مخالف ‘کے

جاتا ہے جب ہ[ وہ اپنے انفراد کو قایم کر سکتا ہے بالعموم شاعر اپنے ماض[ کے بڑے پر دیکھنا لازم[ ہو طور

دم بھرتے ہیں بلکہ ا س شاعر سے پوری قوت کے ساتھ متاثر ہوتے ہیں۔ وہ نہ صر� اسے عقیدت مندانہ محبت کا

سے منافرت بھ[ کرتے ہیں ،اس سے خو� بھ[ کھا تے ہیں۔ بلوم کہتا ہے کہ منافرت اور خو� کا یہ رویہ ہ[ پس

و انکار کے عقب کے لئے اکساتا ہے تاکہ اس ک[ اپن[ انفرادیت ک[ راہیں روشن ہو سکیں۔ دراصل شاعر کو رد رو

اا تمام اہم متون انکار کے عقب ہ[ میں اقرار بھ[ چھپا ہو تا ہے۔ کوئ[ ایک متن ہ[ نہیں بلکہ تاریخ ادب کے تقریب

تہ بہ تہ روایت کے تسلسل کے ساتھ ایک دوسرے متون پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ کہیں اثر کاری ک[ نوعیت

اات کے تجربے انتہائ[ غیر محسوس اور غیر شعوری ک[ بلکہ لاشعوری ہو ت[ ہے۔ اور کہیں شعوری ہر متن جو قر

رتا ہے تخلیق کا رکے وجدان کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس کے ذرات جا بجا ہانٹ کرتے ہیں اور دیگر متونزسے گ

نہ عقیدت کو۔ منافرت کو کلیہ بنایا جا سکتا ہے اور جاتے ہیں۔ اس بنیاد پر نہ تو پے میں سرایت کر کے رگ و

Page 23: بیانات

منٹو کوئ[ پیغام نہیں دیتا۔ اگر کوئ[ یہ سوال کرتا ہے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ادب ک[ تخلیق[ نفسیات

ہ[ سے ناواقف ہے۔ منٹو ک[ خلق کردہ عورت بھ[ کوئ[ پیغام نہیں ہے۔ وہ تواس[ طرح مخلوق ہے جس طرح کہ

باسط ہے ،بابو گوپ[ ناتھ ہے ،شنکر اور ودوا پہلوان ہے۔ اس کے ہر کردار میں کوئ[ خام[ ضرور ہے۔ وہ کبھ[

انکشا� بن جاتا ہے اور کبھ[ سوال۔ داخل[ ہ[ نہیں اکثر خارج[ جبر بھ[ اس کے کردار کو مخدوش کرنے کا

ا آائرن[ کے تاثر کو گہرے معن[ بھ[ عطا کر تا ہے اور یہ چیز منٹو کے تقریبا ہر موجب بن جاتا ہے۔ تضاد ہ[

ہے۔ کار افسانے کے اسلوب میں جو ہر ک[ طرح بر سر

Page 24: بیانات

رفاقتوں اور حدگیوںاعل نامانوس میں افسانوں کے بیدی سنگھ راجندر

تناؤ کا

آاخرtypesترق[ پسند افسانہ نگاروں نے اپنے کے سینے حوصلے سے بھر دینے ک[ سع[ ک[ تھ[ کہ انھیں بال

آاپ میں پیراڈکس ک[ عبرتناک مثال بن گئے ہیں۔ راجندر ایک چو مکھ[ جنگ لڑنا ہے۔ ایسے کردار اکثر اپنے

سنگھ بیدی نے جس انسان پر فوکس کیا ہے وہ عام ہے، نزدیک ہے لیکن ایک محسوس ترین فصل کا حامل بھ[

ہے۔ انھوں نے کرشن چندر کے مضبوط کاٹھ[ کے انسان ک[ باطن[ دراڑوں پر نگاہ ڈال[ ہے۔ کرشن چندر نے اس

مسلح اور شاطر دشمنوں کے پر بہ یک وقت کئ[ محاذ کھول دئیے تھے۔ ان سے قبل پریم چند نے اپنے کرداروں کو

بیچ چھوڑ دیا تھا۔ مگر انھیں جنگ کے اصول سکھائے تھے نہ بلند حوصلگ[ کا درس دیا تھا۔ وہ خو� زدہ اور

کمزور ہیں، ان ک[ حدود متعین ہیں، ان ک[ راہ مبہم، پریم چند کبھ[ کبھ[ ان کا نفسیات[ تجزیہ ضرور کرتے ہیں

آاپ کے نفس اور فطرت و اور اپن[ اہمیت، کائنات کے پس منظر میں اپن[ خودی، اپنے وجود لیکن کردار خود اپنے

اا ’’پوس ک[ رات‘‘، ’’مس حت[ کہ اپن[ قدر کا احساس کر پاتے ہیں نہ سراغ لگا پاتے ہیں۔ کہیں کہیں مثل

پدما‘‘ اور ’’کفن‘‘ وغیرہ میں ایک دوسری ہ[ دنیا بس[ بس[ دکھائ[ دیت[ ہے۔ یہاں دھارے ایک دوسرے کو

کاٹتے بھ[ ہیں۔ کہیں کہیں اپنے اناء اور اپنے ہونے کا ہلکا سا شعور بھ[ روشن ہو تا ہے۔ لیکن مجموع[ طور پر

پریم چند کا انسان پس ماندہ ہے اور سارا دکھ یہ ہے کہ وہ معاش[ سطح پر ہ[ پس ماندگ[ کا شکار نہیں ہے بلکہ

آاتا ہے اور پورا افسانہ ذہن[ طور پر بھ[ پس ماندہ ہے۔ وہ اگر باغ[ ہے تو اس قدر کہ سارا جلال اس میں سمٹ

یا میلوڈرامٹک شکل اختیار کر لیتا ہے یا پھر اسsensationalانتہائ[ سطح[ جذباتیت کا شکار ہو کر

آاسان[ اور بڑی سہولت کے ساتھ قربان کر دیتے ہیں۔ پریم چند کے کے کردار فرسودہ اخلاق[ قدروں پر خود کو بڑی

Page 25: بیانات

کردار خواہ وہ اپنے حقوق کے لیے لڑیں یا مشترکہ خاندان کے لازم[ تناؤ سے گزریں، کس[ بھ[ جنگ کے بعد

جب ان ک[ موت واقع ہوت[ ہے تو وہ موت فطری محسوس نہیں ہوت[ بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے اسے ان پر مسلط

کیا گیا ہے اور اس طور پر وہ ناگہان[ کم خود کش[ کے متراد� زیادہ ہے۔ پریم چند انھیں یہ سبق نہیں دے سکے

کہ کب جبر ظلم بن جاتا ہے اور برداشت گناہ۔ مزاحمت ک[ موت بہر حال سپردگ[ ک[ موت سے کئ[ درجہ بلند

ہے۔

بیدی نے پریم چند سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ کہیں کہیں یہ گمان بھ[ ہوتا ہے کہ پریم چند کے کرداروں نے

آاشتکا‘‘ وغیرہ کہانیوں میں پریم اا ’’گرہن‘‘، ’’من ک[ من میں‘‘، ’’دیوالہ‘‘ اور ’’منگل ایک نیا جنم لے لیا ہے۔ مثل

آائ[ ہے۔ نیم متوسط اور نچلے کے اپنے اوہام اور شکوک، تنازعے،طبقےچند کے دکھ[ دل ک[ پکار عود کر

شکایتیں، محبتیں اور نفرتیں۔ ان میں اور ان کے علاوہ دیگر چند کہانیوں میں مشترک ہیں۔ لیکن بیدی اپن[

آاگیں تعطلات، غیر متوقع اور وقت ک[ الٹ پلٹ، نفسیات[ توضیحات اور علامت[cutsدرمیان[ ساعتوں میں رمز

تلازموں سے اس طور پر کام لیتے ہیں کہ پریم چند کے افسانے کا مجموع[ اسٹرکچر بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایک

آاخری لمحوں میں ادراک ک[ غیر معمول[ قوت کا مطالبہ کرتا ہے اور اس لحاظ سے پریم چند ک[ اچھا افسانہ اپنے

ارخ اس آاسودگ[ پسند طبیعت نتیجے ک[ افسانویت کو قائم رکھنے سے قاصر دکھائ[ دیت[ ہے۔ بیدی کے افراد کا

نواح میں باطن ک[ طر� ہے اور وہ اپن[ خودی سے ایک نئ[ نہج سے متعار� ہوتے ہیں کہ ایک نئے اخلاق[ سیاق

میں انھیں ایک مختلف طور پر زندگ[ کرنا اور زندگ[ ک[ تعذیب جھیلنا ہے۔ یہ رشتے مختلف ہیں اور ان کا سارا

پس منظر ہ[ مختلف ہے۔ زندگ[ نہ تو اتن[ سادہ رہ[ کہ پریم چند ک[ نظر اس ک[ ساری مکاریوں اور پہلوداریوں

رصہ بنا سکے اور نہ اتن[ مستقیم کہ پہل[ نظر میں اس کے سارے انسلاکات اور اس ک[ ساری کو اپن[ فہم کا ح

آاگہ[ حاصل ہو جائے۔ بیدی نے پریم چند ک[ خلقت کو تربیت نہیں دی ہے بس انھیں ایک پیچیدگ[ سے

دوسرے جہنم میں جھونک دیا ہے۔ اس جہنم کے مسائل پریم چند کے جہنم سے مختلف اور پیچیدہ ہیں۔ پریم

Page 26: بیانات

نفسیات[ زلزلوں چند کے افراد نے صعوبت پائ[ تھ[ تعذیب نہیں۔ انہوں نے جسمان[ عذاب جھیلے تھے۔ ذہن[ اور

سے ان کا گزر کم ہ[ ہوا تھا۔

نیم متوسط درجے کے خاندان ان ک[ بیدی کے یہاں رشتوں ک[ ساری منطق ہ[ بدل گئ[ ہے۔ متوسط اور

اقتصادی بد حال[، ان ک[ جذبات[ کشاکشیں، ان ک[ شیطان[ مگر فطری ہیجانات، وقت و حالات ک[ ستم

آاواز، ظریفیوں کے مابین اپن[ انفرادیت ک[ جستجو، خارR کے ایک مختلف دباؤ اور اس کے سامنے باطن ک[ اپن[

ناچ، اتفاقات ک[ ہمیشہ یک طرفہ عمل وابستگ[، واہمے کا تانڈو متداول اخلاق[ قدروں سے ذہن و ضمیر ک[ نا

داری، یہ ہیں بیدی کے افسانوی فینو مینا کے چند پہلو نیز یہ کہ حقیقت کے المناک پہلو انھیں کبھ[ نہیں

بھولتے۔ پریم چند نے اپنے المیے ک[ حدود، مختلف رکھ[ تھیں۔ ان کے کردار اپنا سراغ نہیں لگا پائے تھے۔ ان

کا جسم )مگر نصف( ان ک[ سب سے بڑی مملکت تھا۔ عزت نفس کا مسئلہ تھا مگر ایک خاص حد رکھتا تھا۔

انا کا احساس تھا مگر اس کا راستہ سوکھے ہوئے شکم سے ہو کر جاتا تھا۔ عظیم انسان[ المیوں اور پسپائیوں کے

بجائے پریم چند ک[ مخلوق کا مسئلہ جس قدر اجتماع[ تھا اس[ قدر ذات[ بھ[ تھا۔ پریم چند نے انھیں بھرپور

زندگ[ جینے کا درس نہیں دیا تھا۔ بیدی نے بھ[ بھرپور زندگ[ جینے کا درس نہیں دیا ہے اور وہ ان نا مانوس

آاگاہ بھ[ نہیں ہیں۔ جنھیں پہلے بھ[ بھوگا گیا تھا مگر انھیں کوئ[ نام نہیں دیا گیا علاحدگیوں اور رفاقتوں سے

آاباد کرتے ہیں۔ تھا۔ بیدی اپن[ پہل[ سطح پر ایک دوسرے سے وابستہ اور ایک دوسرے میں شامل افراد ک[ بستیاں

انھیں خوابوں کا حوصلہ دیتے ہیں یقین ک[ چمک دکھاتے ہیں حت[ کہ ان کے سینے دھڑکنے لگتے ہیں۔ ان کے

آاتے ہیں اور پھر دوسرے ہ[ مرحلے پر بیدی ک[ آانے لگت[ ہے۔ وہ اپن[ زندگ[ جینے کے درپے نظر آانچ مساموں سے

آاتا ہے۔ زخموں کے وہ جانبدار فطرت بیدار ہو جات[ ہے جسے زندگ[ ک[ نامانوس علاحدگیاں رقم کرنے میں لطف

ارخ موڑ لیتا ہے۔ اختیار دھرے رہ آان میں تقدیر کا دھارا اپنا آان ک[ کھرنڈ چھیلنے میں جسے تسکین ملت[ ہے۔

جاتے ہیں اور بیدی ک[ نگاہ انسان ک[ کوتاہیوں، مجبوریوں پر مرکوز ہو جات[ ہے۔ انسانوں سے بھرے پرے معاشرے

طاقت[، روحان[، نظری یا ماورائ[ سطح پر نہیں بلکہ میں ایک فرد ک[ بے بس[، علاحدگ[، بے گانگ[ اور نا

Page 27: بیانات

آائرن[ کا احساس دلانے لگت[ ہے۔ بیدی خارR کا کردار مان کرunderstoodواقع[ سطح پر ایک عظیم

آادم[ کو توڑ ت[ بکھیرت[ رہت[ ہیں بیدی چلتے ہیں۔ وہ تمام قوتیں جو باہر سے اثر انداز ہوت[ ہیں اور اندر ہ[ اندر

انھیں نام نہیں دیتے بلکہ نتائج کے ذریعے ان تک پہنچنے اور انھیں جاننے ک[ ترغیب دیتے ہیں۔

ااردو افسانے ک[ تاریخ میں بیدی سے قبل کس[ نے انسانوں کے مابین نامانوس علاحدگیوں اور رفاقتوں ک[ طر�

اشارہ نہیں کیا تھا اور نہ کس[ نے انھیں مسئلہ بنایا تھا۔ انسان[ وابستگیوں ک[ منطق سیدھ[ اور ستواں نہیں ہوت[۔

اپرانے لفظ بے ایک رشتہ کبھ[ کبھ[ بغیر کس[ سبب دوسرے رشتے پر اثر انداز ہو جاتا ہے اور پران[ وفاداریاں،

اوقات ہو کر رہ جاتے ہیں۔ انسان[ شرکتیں اپن[ تمام نیک نیت[ کے باوجود مکمل نہیں ہوتیں۔ ان میں بہ ظاہر ایک

استقلال ایک استحکام کا شائبہ ہوتا ہے۔ وہ رفاقتیں ہمیں اپنے اٹوٹ پن کا یقین دلات[ ہیں اور ہم اس خارج[ مدن[

اا ہر انسان ک[ اپن[ ذات کا سیاق اپن[ تخلیق نظم کو انسانیات ک[ سب سے بڑی عطا گرداننے لگتے ہیں۔ اصل

آاگاہ ذات کے لیے مسئلہ بن[ کردہ اخلاقیات پر آاگاہ و نیم منتج ہے۔ معاشرے ک[ متداول اخلاقیات ہمیشہ ایک

واقع[ اور محسوس سطح پر اخذ کیا ہے۔ گویا یہ مسئلہ محض مذکورہ رہت[ ہے۔ بیدی نے اس مسئلہ کو بے حد

جر نو اپنے تجربے ک[ کوکھ سے جنم آادم[ بھ[ از س آاگاہ ذات ہ[ سے وابستہ نہیں ہے بلکہ ایک عام آاگاہ و نیم بالا

آاہستہ بے خبری سے با خبری ک[ حدود میں داخل ہوتا ہے اور کبھ[ یکایک اس پر آاہستہ لے سکتا ہے۔ وہ کبھ[

آاجاتا ہے۔ حقائق ک[ نئ[ سطحیں اس پر ارخ اس کے سامنے بلوغت کے دروازے واہو جاتے ہیں۔ چیزوں کا ایک نیا

روشن ہو جات[ ہیں۔ سچ کے سارے جھوٹ اور جھوٹ کے سارے سچ اس پر منکشف ہونے لگتے ہیں۔ زندگ[

آاسان بھ[ مشکل بھ[۔ اپنے طور پر جینا یا اپن[ فطرت کے مطابق ایک دوسری زندگ[ کا روپ دھارن کر لیت[ ہے۔

زندگ[ کرنا رشتے بنانا یا رشتے قائم کرنا تہذیب[ تناسب کے مناف[ سمجھا جاتا ہے۔ اپن[ شناخت اپن[ سزا ہے۔

آاہنگ[ س[ قائم کر رکھ[ ہے۔ اس ک[ بنا کرداروں کا اپنا تخلیق بیدی نے اپنے کرداروں کے مابین جہاں ایک نا

کردہ طریق رسائ[ بھ[ ہو سکتا ہے۔ اپن[ فطرت ک[ کوئ[ خام[ بھ[ باہم[ غلط فہم[ یا دوسرے ک[ ذات پر

مکمل اعتقاد و اعتماد بھ[ کہیں اپنے طور پر جینے کا عمل انسان کو ایک ساتھ کئ[ رشتوں سے کاٹ دیتا ہے اور

Page 28: بیانات

آاگہ[ ک[ ایک روشن لکیر اس طور پر نمودار ہوت[ ہے کہ انسان کو ایک وہ کمزور محض ہو کر رہ جاتا ہے۔ کہیں

نئ[ راہ لینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ بیدی نے علاحدگیوں کے المیے بیان نہیں کیے ہیں بلکہ اپن[ پوری رفتار کے

آاپ جگہ بنا لیتا ہے اور ایک نقطہ آاپ ہ[ ساتھ اس تناؤ کو پیش کیا ہے جو انسان[ رشتوں اور رفاقتوں کے مابین

آاہستہ پھیل کر پوری انسان[ سائیک[ اور رابطوں پر محیط ہو جاتا ہے۔ آاہستہ

مل کر ایک ترکون بناتے ہیں۔ کلکارن[ کا مسئلہ امبو ہے۔ امبو کا مسئلہ ’’من ک[ من میں‘‘ مادھو کلکارن[ اور امبو

مین میڈ سوسائٹ[ جہاں عورت دیوی بھ[ ہے اور داس[ بھ[، مرد کا حصہ انصا� ہے اور عورت رحم، مرد جلال

اور غضب ہے، عورت جمال اور معاف[ ہے۔ گھر کے اندر وہ کلموہ[ حالاں کہ اسے مہیلا بھ[ کہا گیا ہے اور مہہ

آانند ہے۔ جس کا ایک آانند ہ[ کے معن[ پوجا کے ہیں اور وہ جو عبادت کے لائق ہے۔ وہ جو ایک طاقت ہے،

آائے ہیں۔ وہ[ خفیف سا تبسم تخلیق کا ایک لازوال سرچشمہ ہے اور جس ک[ ذہانت کا لوہا رش[ من[ مانتے

عورت کبھ[ رانو بن کر حالات ک[ دھری پر بے محابا گردش کرنے پر مجبور محض دکھائ[ دیت[ ہے۔ کبھ[ امبو

بن کر بد نصیب، خانماں برباد، سوت کہلانے لگت[ ہے۔ کلکارن[ ایک کم فہم، رسوم ک[ ماری ہوئ[ وہم پرست

عورت ہے۔ امبو کو اس ک[ بیوگ[ نے زندگ[ کو ایک دوسرے انداز سے سمجھنے وال[ نگاہ عطا ک[ ہے۔ اس کے

دائیں بائیں کوئ[ نہ تھا وہ اکیل[ تھ[ اس لیے قدم قدم پر اسے اپن[ سوچ سے کام لینا پڑتا ہے۔ کوئ[ بھ[ سہارا یا

آادم[ ذمہ داریوں سے بچنا چاہتا ہے۔ چاروں طر� سے کٹا آادم[ کو کمزور اور کاہل بنا دیت[ ہے۔ سہارے ک[ امید

معاملہ فہم ہوتا ہے۔ وہ خطرناک بھ[ ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ انسان[ حساس، دوربین اور ہوا انسان بے حد

اغراض ہ[ انسان کو ایک دوسرے سے وابستہ کر رکھتے ہیں کہ انسان اپن[ انفرادیت میں بے بس اور بے احتیاR و

لے اپنے نفس کو مارنے لگے، خواہشیں پروان نہ چارہ ہ[ ہے۔ لیکن جب کوئ[ اپنے کو مرکوز و محدود کر

ااچڑھائے، ضرورتوں ک[ ایک حد قائم کر لے تو ایسا انسان خطرناک بھ[ ہو سکتا ہے۔ مطلق اور خود کارواقعت

شعور ہے۔ مادھو اس کا ہمدرد بن جاتا ہے اور یہ یہ نہیں ہے۔ وہ بے بس اور تنہا ہے اور با بھ[۔ امبو ک[ حد

ہمدردی جو ایک مرد ک[ ہمدردی ہے امبو ک[ زندگ[ امبو ک[ طاقت بن جات[ ہے۔ کلکارن[ کا غضب اور مادھو

Page 29: بیانات

ااکے لیے موت۔ مادھو ک[ ہمدردانہ فہم اس کا فیٹل فلا ہے جو تعظیم کے قابل ہے۔ تحسین کے لائق ہے۔یقین

االیکن مادھو مکر سے بعید ہے معاملہ فہم[ سے عاری۔ اگر وہ کلکارن[ کے ساتھ مکر سے کام لیتا تو بہتیقین

دیر اور دور تک وہ امبو کا ساتھ دے سکتا تھا۔ کلکارن[ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں جانت[ کہ مادھو اس کا حق

ہے مگر مادھو نے جس طور پر اپنا سراغ لگایا ہے وہ اس[ کے مطابق زندگ[ جینا چاہتا ہے۔ اس کا سراغ اس کا

اپنا اندرون[ دباؤ اور اندرون[ کش مکش ہے۔ ایک مستقل تناؤ کے بیچ اس کا وجود ہچکولے کھا رہا ہے۔ کلکارن[

نہیں کر سکتا تھا مگر مکر کے ذریعے دھوکے اور دھند میں ضرور رکھ سکتا تھا۔ امبو سےeducateکو وہ

آاتا ہے کلکارن[ کے باب میں اس ک[ ضرورت نہ تھ[۔ اور یہ شرافت ہ[ کلکارن[ اور اس وہ جس شرافت سے پیش

کے بیچ ایک فصل[ خط کھینچ دیت[ ہے۔

جان[ سیشن افسانہ ہے۔ پرسادی رام ایک بڑے عرصے تک اپن[ کیفیت کے اصل نا اا ایک ’’چھوکری ک[ لوٹ‘‘ اصل

معلوم جز کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ ایک خاص عمر اور اس عمر کا جذبات[ تناؤ اسے حقیقت کے اس

آاگاہ کرتا ہے جو بعد ازاں اس کے ’’معلوم‘‘ کا حصہ بننے پر تذبذب کے ایک دوسرے تجربے حیرتناک پہلو سے

کا تذبذب اور حیران[ نا معلوم کے تذبذب اور حیران[ سے قدرے کم تر ہے۔ سے دوچار کراتا ہے۔ البتہ یہ ’’معلوم‘‘

آاگہ[ پرسادی کے تصور کو تبدیل کر دیت[ ہے، ایک تجربہ اپنے پیش رو تجربے سے متصادم ہوتا ہے۔ صر� ایک

آاپ سے ایک نیا تعار� ہوتا ہے۔ حیات و کائنات سے ایک نئے حقیقت ک[ ایک نئ[ سطح اجاگر ہوت[ ہے۔ اپنے

آاگہ[ کا باب بہت پہلے وا ہو چکا ہے۔ وہ اپن[ ارد تعلق ک[ راہ پیدا ہوت[ ہے۔ پرسادی رام کے بالمقابل رتن[ پر

آاہنگ ک[ تلاش میں سرگرداں بھ[ دکھائ[ دیت[ ہے۔ اپن[ لوٹ کے بعد وہ پرسادی رام گرد ک[ نا آاہنگیوں میں ایک

آاگاہ بھ[ آاپ سے کے تناؤ کو سمجھ نہیں پات[۔ لیکن پرسادی رام ہ[ وہ ہے جس نے ماض[ میں برقت اسے اپنے

آات[ کیا ہے اور اس کے لیے ڈھال بھ[ بنا ہے۔ اس[ لیے شادی کے کچھ دنوں کے بعد جب وہ اپنے گھر لوٹ کر

بے تحاشا پرسادی رام کو چومت[ ہے، پیار کرت[ ہے اور ساری رات اسے پیار سے بھینچت[ رہت[ ہے۔ پرسادی ہے تو

اا اس ک[ عدم شناخت کا نتیجہ ہے۔ اس[ عدم شناخت کے باعث رام ک[ بے نام س[ جذبات[ کشمکش اصل

Page 30: بیانات

پرسادی رام کے دل میں رتن[ کے تئیں شکوک و وسوسے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ رتن[ )جو کہ غیر ذات بھ[ ہے( اور خود

رہا ہے۔ اس[ لیے اپن[ کے مابین رسم[ فصل کو کوئ[ نام نہیں دے پاتا جو بہر حال ان دونوں کو علاحدہ کر

نامانوس علاحدگ[، پر سادی رام کا ایک ایسا جذبات[ مسئلہ بن کر ابھرت[ ہے جس سے رتن[ ک[ شادی کے بعد

ہ[ چھٹکارا ملتا ہے۔

میں علاحدگیوں کا کرب ہے۔ قبل از وقت اسے دوسرے لفظوں اور کرب درجہ بندیوں سارا کا بابو کے دان‘‘ ’’تلا

جات[ ہے اور اس شناخت کا سرچشمہ سکھ نندن ہے۔ دونوں ہم عمر اور ہم سایے ہیں۔ اپن[ سطح ک[ شناخت ہو

آاگہ[ کے فصل کو بابو ایک جست میں طے نہیں کر آاہستہ مگر قبل از وقت وہ دو آاگہ[ اور نا آاہستہ لیتا بلکہ

محسوس کرتا ہے۔ اگر سکھ نندن ک[ رفاقت اسے میسر گھروں، دو افراد کے مابین واقع ہونے والے خط تنسیخ کو

آات[ تو اسے اپن[ کم حدود اور اپنے ماں باپ ک[ بے بضاعت[ کا احساس اتن[ جلد نہ ہوتا۔ بیدی کا فن شیشہ نہ

دان‘‘ میں بیدی نے بڑی سلیقگ[ اور باریک[ کے ساتھ افسانوی گرا� خلق کیا ہے۔ سکھ گری کا فن ہے ’’تلا

نندن ہ[ نہیں بابو ک[ ماں کا بھ[ یہ المیہ ہے کہ وہ بابو کے اصل تنازعے کو سمجھنے وال[ نگاہ سے محروم ہے

آاگہ[ بابو ایک ٹائپ طبقے سے وابستہ ہونے کے باوجود اپن[ انفرادیت کے راز کو پا لیتا ہے اور یہ انفرادیت اس ک[

آاگاہ ہے جس نے اسے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ با بو کا المیہ یہ ہے کہ وہ معاش[ جبر ک[ اس مطلقیت سے نا

ہے جس ک[ تاریخ صدیوں پران[ ہے۔ فرق اتنا ہے کہ ماض[ میں تقدیر کا نام دے کر اپن[ پسماندگ[ ،پسپائ[ اور

کمتری کو قبول کر لیا جاتا تھا مگر جدید صنعت[ فروغ کے ادوار میں انا کے انکشا� نے ان وجوہ کا عرفان بھ[

سےtransitionکرایا ہے جو معاش[ عدم مساوات کے پس پشت کام کر رہے ہیں۔ معاشرہ جب تغیری دور

دان‘‘ کے گوبر ک[ مصیبت گزرتا ہے تو اس سے وابستہ نسلوں کو بہر حال بڑے نقصانات بھوگنا پڑتے ہیں۔ ’’گؤ

پاتا۔ دان‘‘ کے بابو کا عذاب اس[ تغیری دور کا لازم[ نتیجہ ہے۔ بابو اپنے خارR سے مفاہمت نہیں کر اور ’’تلا

جل برداشت بوجھ میں بدل دیتا ہے۔ سارا طبقات[ اہ اس کا ذہن[ اور جذبات[ عذاب اس ک[ زندگ[ کو ایک ناقاب نتیجت

تفاوت اور عدم مساویت اس کے لاشعور میں اس وقت بھ[ کام کرت[ رہت[ ہے جب وہ نزع کے عالم میں ہوتا ہے۔

Page 31: بیانات

آانکھیں کھول کر دیکھ سکتا تھا۔ ’’دو تین دن تو بابو نے پہلو تک نہ بدلا ایک دن ذرا افاقہ سا ہوا صر� اتنا کہ وہ

آانکھ کھل[ تو اس نے دیکھا، سکھ[ اور اس ک[ ماں دروازے کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ سیٹھان[ نے ناک پر

آاR ان دوپٹہ لے رکھا تھا۔ در اصل وہ دروازے میں اس لیے بیٹھے تھے کہ کہیں بو نہ پکڑ لیں۔ مگر بابو نے سمجھا

غرور ٹوٹا ہے۔ اس نے دل میں ایک خوش[ ک[ لہر محسوس ک[۔‘‘ لوگوں کا

بابو اور اس کے والدین کے درمیان نفسیات[ سطح پر، نسل[ فصل کا مسئلہ ضرور موجود ہے،لیکن معاش[ جبر ک[

اہمیت بھ[ کم نہیں ہے۔ بابو ک[ ماں اور سادھو رام ک[ فہم کا محور غیر مبدل ہے۔ ان ک[ فہم کو ایک خاص

معاشرت[ دباؤ نے منقبض کر رکھا ہے۔ بابو ک[ داخل[ کشمکش اس ک[ ماں ک[ فہم سے قسم کے معاش[ اور

بعید ہے اور خود بابو اپن[ شناخت کو کوئ[ نام نہیں دے پاتا۔ یہ باہم[ علاحدگیاں قاری کے نزدیک ایک فکر

انگیز جواز بھ[ رکھت[ ہیں مگر خود ان افراد کے لیے نامانوس ہیں جن سے وہ بذات خود دوچار ہیں۔

صحت اور گوری اس کے سامنے ’’ہڈیاں اور پھول‘‘ میں بیدی کا کرافٹ بے حد مضبوط ہے۔ ملم ک[ کاٹھ دار

توانا کتا کس[ مریل س[ کھجیل[ کتیا سے محبت کا دم بھر رہا ہو۔ ایک ہڈیوں کاڈھانچہ۔ جیسے ایک تندرست و

ملم کے مسلسل زد و کوب اور اس ک[ طبیعت سے نالاں ہو کر اپنے مائکے بھاگ جات[ بعد ازاں وہ[ گوری جو

ہے۔ واپس لوٹنے پر ایک تنومند بھرے بھرے سے جسم وال[ گوری بن جات[ ہے۔ تندرست و توانا کتیا اور ایک

مسلسل ہجر بھوگا ہوا ملم اس کھجیلے اور مریل کتے کا روپ دھارن کر لیتا ہے جس سے محلے ک[ ساری کتیائیں

آاٹھ گز دور بھاگت[ ہیں۔ تاہم ملم ک[ سخت[ میں ایک نہایت نرم گوشہ بھ[ ہے کہ وہ گوری ک[ مفارقت زیادہ آاٹھ

دن تک برداشت نہیں کر سکتا۔

آایا ہوں۔ جنڈ ک[ ’’گوری ایک دفعہ تو بول، دیکھ میں کتن[ دھوپ میں، کتن[ دور سے پاپیادہ تیری سمادھ[ پر

آاواز بن کر کہت[ ہے۔ میں مرے ہو عارض[ پیار نہیں کرت[۔ ملم کہتا ں سے انسان کا ساؤچتکبری چھانو موت ک[

ج[ لے۔ میں نے رنڈوے ہو کر بہت دکھ پایا ہے۔‘‘ ہے۔ گوری ایک دفعہ تو

Page 32: بیانات

ااس عجیب سائیک[ کو برہنہ کر دکھایا ہے جو دوسروںو غریببیدی نے ملم ک[ فطرت کے حوالے سے انسان ک[

آادم[ اسے درگزر کے لیے ہ[ نہیں خود اپنے لیے بھ[ ایک معمہ ہے۔ وہ جو کچھ کہ حاصل ہے قدرت میں ہے،

قیمت کم ہو جات[ ہے اور وہ جو دور ہے، رسا سے باہر ہے اسے ’’حاصل‘‘ ک[ قدر و کرتا ہے اس کے نزدیک

مسخر کرنے کے درپے ہوتا ہے۔ بیدی کے لفظوں میں۔

آائ[ تو ملم اس ک[ جوان[ اور خوبصورت[ ک[ بے طرح پاسبان[ کرنے لگا۔ ’’جب اس )ملم( ک[ بیوی دلہن بن کر

شبہ ک[ عادت ابھ[ تک باق[ تھ[۔ اس وقت کہ وہ اسے دروازے میں بھ[ کھڑی دیکھتا تو پیٹنے لگتا۔ یہ شک و

ادبل[ ہو گوری کا جسم توانا اور بھرا ہوا تھا۔ وہ اسے کہتا رہا مجھے ایک پتل[ نازک عورت پسند ہے اور جب وہ

گئ[ تو کہنے لگا مجھے تم س[ مریل عورتوں سے سخت نفرت ہے۔‘‘

اور یہ[ مریل س[ عورت جب اپنے میکے چل[ جات[ ہے تو ملم کے لیے اس ک[ مفارقت سوہان جان بن جات[ ہے۔

آاتا ہے اور اس کے دکھ کو شدید کر جاتا ہے۔ کبھ[ وہ کھونٹ[ پر کبھ[ اسے گوری کا کوئ[ دکھ بھرا گیت یاد

لٹکے ہوئے اس چٹلے کو اتار کر بڑی بے اختیاری کے ساتھ پیار کرتا ہے جسے گوری اپنے ساتھ لے جانا بھول گئ[

آانکھوں سے لگاتا اور زار و قطار تھ[۔ کبھ[ گوری کے دوپٹے کو اپن[ چھات[ سے بھینچنے لگتا ہے۔ کبھ[ اسے

رونے لگتا ہے۔

ییسین چھجے پر کھڑے ملم کو دیکھ رہے تھے۔ مٹ[ کے تیل ’’رات کے نو ساڑھے نو بجے کا وقت تھا، میں اور

کے لیمپ ک[ روشن[ میں ملم نے ہمارے دیکھتے دیکھتے سب کپڑے اتار دیے اور ننگا کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے

آامد ک[ اور اس چار پائ[ پر جس کے نیچے شراب ک[ خال[ بوتلیں اور کہیں سے اپن[ بیوی ک[ سرخ صدری بر

گیا۔‘‘ ڈھکنے پڑے رہتے تھے۔ وہ اکیل[ صدری پہن کر سو

یہ[ وہ مقام ہے جہاں بیدی کے کرداروں کے سارے عیب درگزر کرنے کو ج[ چاہتا ہے۔ ملم ک[ پیچیدہ سائیک[

خود ملم کے لیے ناقابل ادراک ہے۔ اس کا ایک عمل جہاں نفرین کے قابل ہے وہاں دوسرا اس کے لیے ہمدردی

Page 33: بیانات

دیتا ہے۔ ہمیں اس کے عیب بھ[ بھلے معلوم ہونے لگتے ہیں، اس ک[ خطائیں عزیز، ان کا کوئ[ فیٹل پیدا کر

سا معلوم ہوتا ہے۔ جس کے پیچھے نہ تو کس[ بدنیت[ کا دخل ہوتا ہے۔ فلا،اس ک[ بدبخت[ کا سارا عمل خود کار

اا معصوم ہوتے ہیں اور اپن[ خطاؤں کے نہ کوئ[ فوری منفعت کے حصول کا سرکش جذبہ کام کرتا ہے۔ وہ طبع

آاسودگ[ بہم پہنچات[ ہے۔ وہ نامانوس علاحدگ[ جو ملم اور گوری آاگیں باوجود ہمیں ان ک[ رفاقت ایک تجسس

اسے اپن[ اصل فطرت کے تعار� سے باز بھ[ موجود ہے جو کے درمیان جگہ بنا لیت[ ہے اور جو خود ملم کے اندر

رکھت[ ہے۔ قاری کے لیے ذہن[ کرب کا سبب بن[ رہت[ ہے۔ ایک لمبے ہجر ک[ واردات ملم کو گوری کے نزدیک

دیت[ ہے اور وہ اس ک[ شدید ضرورت محسوس کرنے لگتا ہے۔ اسے کھونے سے پانے ک[ اہمیت کا احساس کر تر

ہوتا ہے۔ مگر اپن[ طبیعت کے اس بنیادی نفاق کو وہ سمجھ نہیں پاتا جس کے باعث وہ دولخت ہو گیا ہے۔ اس[

آاخر گوری ک[ واپس[ پر آاگہ[ بال سرکش حصے سے دوبارہ جوڑ اسے پہلے کے سخت و نامانوس علاحدگ[ سے نا

دیت[ ہے کہ افسانہ پھر اپن[ ابتدا ک[ راہ لیتا ہے۔ ۔

’’گھر میں بازار میں‘‘ میں نامانوس علاحدگ[ بڑے ستم ظریفانہ شکل اختیار کر لیت[ ہے۔ یہ ایک نو بیاہتا جوڑے

ک[ کہان[ ہے۔ درش[ خود کو ایک اچھ[ بیوی ثابت کرنا چاہت[ ہے۔ وہ اپنے شوہر رتن کو معاش[ سطح پر پریشان

نہیں کرنا چاہت[۔ اس[ لیے کچھ عرصے تک اپن[ خواہشات کو دبائے رکھت[ ہے اور رتن ک[ خوشنودی کے لیے

آاہستہ ورش[ یہ محسوس کرنے لگت[ ہے کہ رتن کو کس[ بات ک[ کوئ[ پروا ہ[ آاہستہ ج[ جان سے لگ[ رہت[ ہے۔

کر برسات[ کوٹ یا جھومر خرید نہیں ہے۔ دفتری کاموں سے اسے اتن[ فرصت نہیں کہ وہ ورش[ کے ساتھ بازار جا

آاتا ہے تو اسے ناگوار گزرتا ہے۔ اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ سکے۔ جب رتن خود ہ[ جھومر خرید کر لے

’’مرد کبھ[ بھ[ عورت ک[ فرمائش پر زیور خرید نا پسند نہیں کرتے بلکہ ان کو اپنے لیے سجانے کو خریدتے

ہیں۔‘‘

آارزو مند ہے اور جس کے لیے وہ خود رتن سے یہ وہ[ درش[ ہے جو ایک معمول[ قسم کے جھومر خریدنے ک[

ورش[ کے ہاتھوں میں پیسے رکھ کر اپن[ فرضدپیسے مانگنا نہیں چاہت[ بلکہ رتن سے یہ توقع کرت[ ہے کہ وہ خو

Page 34: بیانات

شناس[ کا ثبوت دے۔ مگر جب رتن ایک دفعہ اپن[ تمام نقدی نکال کر درش[ کے قدموں میں ڈال دیتا ہے تو

درش[ اسے اپنے لیے سب سے بڑی گال[ سمجھت[ ہے جیسے اسے کس[ نے بیسوا کہہ دیا ہو۔

دو ایک سال بیت جانے پر بھ[ رتن اور درش[ کے مابین علاحدہ کرنے وال[ باریک س[ لکیر جوں ک[ توں قائم

رہت[ ہے۔ رتن یہ سمجھ ہ[ نہیں پاتا کہ درش[ کا اصل نفسیات[ مسئلہ کیا ہے۔ اس کے اندر کون س[ گرہ ہے جو

آاخر درش[ اپنے تناؤ سے رتن کے سامنے یہ کہہ کر آاہستہ اس ک[ پوری سائیک[ پر محیط ہو چک[ ہے اور بال آاہستہ

چھٹکارا پا لیت[ ہے کہ وہ بیسوا )جس کا ذکر رتن نے بڑی حقارت کے ساتھ درش[ سے کیا تھا( کس[ گرہستن

سے کیا بری ہے؟

’’رتن لال کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ مشکوک نگاہوں سے اس نے درش[ کے چہرے کا مطالعہ کرتے ہوئے

کہا:

ااس جگہ اور اس جگہ میں کوئ[ فرق نہیں؟ درش[ نے اس[ طرح بپھرے ہوئے کہا۔ ’فرق تو تمھارا مطلب ہے۔ ۔ ۔

کم ہوتا ہے۔‘‘ کیوں نہیں۔ ۔ ۔ یہاں بازار ک[ نسبت شور

اس موڑ کے بعد وہ سارا تناؤ جو درش[ کا تھا رتن ک[ تقدیر بن جاتا ہے۔ اور ایسا ہونا ایک فطری امر ہے۔ کیوں کہ

آاہستہ جگہ بنات[ چل[ جات[ ہے۔ اس ک[ گنجائش دونوں ہ[ آاہستہ رتن اور درش[ کے مابین جو نا مانوس علاحدگ[

فراہم کرتے ہیں۔ دونوں ہ[ اپنے درمیان[ تفاوت کے ذمہ دار ہیں۔ درش[ ک[ سوچ یک طرفہ ہے اور وہ ایک جھوٹے

جت دگر کے ساتھ بھرم کے ساتھ اپنے طور پر اپنے اندر زندگ[ جینے کے درپے ہے۔ وہ نہیں جانت[ کہ کس[ بھ[ ذا

اپنے نج ک[ رفاقت ایک خاص حد ک[ رفاقت ہوت[ ہے۔ وہ نہ تو مکمل سپردگ[ ہوت[ ہے اور نہ مکمل سپردگ[

آاہستہ درہم برہم ہونے لگتا ہے اور وہ اپنے کرب میں قطع[ آاہستہ آاخر ممکن ہے۔ درش[ کا مکمل سپردگ[ کا بھرم بال

اا معصوم اور صابر ہے۔ لیکن وہ جو اس کا اپنا کلچر ہے۔ اس کے مطابق وہ اپنے آانے لگت[ ہے۔ وہ طبع تنہا نظر

شوہر سے بھ[ متوقع ہے کہ رتن وہ کردار ادا کرے جو اس کے ذہن میں مجرد تصور کے طور پر تہہ نشین ہے۔ جب

Page 35: بیانات

کہ رتن کا مسئلہ بڑی حد تک معاش[ ہے۔ وہ اپن[ نئ[ نویل[ دلہن کے سامنے حقیقت بیان[ سے کام نہیں لیتا۔

آاگاہ نہیں کرتا۔ وہ یقینا آامدن[ اتن[ قلیلااپنے اصل مسئلے سے درش[ کو ایک فرض شناس شوہر ہے لیکن اس ک[

ہے کہ وہ اپنے گھر ک[ ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتا۔ درش[ رتن ک[ حدود کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ اپنے

بھ[ و ہ مرد ک[ ضرورت کا نام دیت[ ہے۔ دیکھا جائے تو دونوں کو بیسوا سمجھنے لگت[ ہے حت[ کہ جھومر کو

__یہ ہے کہ وہ مستقل ایک ایلوژن میں ج[ رہے ہیں۔ حقیقت کےflawغلط فہم[ کے شکار ہیں۔ دونوں کا

سے ایک دوسرے میں شریک ہو کر جینے ٹوک اور واضح انداز ادراک سے انھیں کوئ[ دلچسپ[ نہیں ہے اور نہ دو

ک[ ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اشیا ان کے رشتوں کے تقدس کو مسخ کرت[ ہیں۔ ان ک[ معصومیتوں کے درمیان

ایک بڑی طاقت بن جات[ ہیں۔ دونوں ک[ علاحدہ علاحدہ انفرادیتیں ایک دوسرے کو ایک دوسرے ک[ تفہیم سے

آاخر میں ایک تنا ور مسئلے ک[ آاخر اہ ایک معمول[ سا ایک بے نام سا جذبات[ کومپلیکس باز رکھت[ ہیں۔ نتیجت

آاپس میں جوڑنے وال[ کڑیاں بکھر جات[ ہیں۔ بیدی نے کہان[ کا اختتام ایک شکل اختیار کر لیتا ہے اور انھیں

آاغاز ہ[ ہے، ایک ایسا مقام جہاں ساری وضاحتیں ایسے موڑ پر کیا ہے جو اختتامیہ بھ[ نہیں ہے بلکہ افسانے کا

رتن میں ہے۔ بے معن[ اور سارے جواز غیر متعلق معلوم ہوتے ہیں۔ وہ سلاست جو درش[ میں ہے اور وہ سادگ[ جو

پختہ ہے اور یہ[ ناپختگ[ ان کے مابین ایک بے ان ک[ سب سے بڑی کمزوری بھ[ ہے دونوں ک[ دنیا دارانہ فہم نا

نام س[ علاحدگ[ ک[ لکیر کھینچ دیت[ ہے۔

’’جب میں چھوٹا تھا‘‘ میں ضمیر متکلم )نندی( ک[ داخل[ حقیق[ فطرت پر استاد نے بڑی چالاک[ سے ایک

رلمع چڑھا رذب م رلمع غیر محسوس طور پر نندی پر اس قدر محیط ہو جاتا ہے کہ اسے قائم رکھنے مہ دیا تھا اور یہ م

آازادی کو بھ[ قربان کر دیتا ہے۔ بلکہ وہ اپن[ فہم اپن[ سوچ اپن[ فکر سے کام نہیں لیتا کے لیے وہ اپن[ حقیق[

یہ[ وجہ ہے کہ اس ک[ غیر مشروط حوالگ[ اس کے لیے تشنج کا سبب بن جات[ ہے اور ایک روز وہ کروندوں اور

حقارت کے ساتھ پھاڑ دیتا ہے۔ سنگاڑوں کے لیے پیسے چرا کر اپنے نشان کو

Page 36: بیانات

’’اب قرنطین سے باہر وہ سبز خاموش سپاہ[ مجھے دیکھ کر مسکرائے تھے میری جرات ک[ داد دیتے تھے میرا دل

آاسمان ک[ طرح کھل رہا تھا۔‘‘ بے پایاں

آاپ سے تعار� ہوتا ہے۔ اسے اگرچہ ’’جب میں چھوٹا تھا‘‘ کے پراٹا گونسٹ کا پہل[ بار اس چوری کے بعد اپنے

آازادی کے کیا معن[ ہیں۔ لکڑی کے بڑے بڑے آاپ کا سراغ بھ[ یہیں سے ملتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ اپنے

لٹھوں کو پان[ میں دھکیل دینے اور پھر ان پر منہ کے بل لیٹ کر ہاتھ اور پاؤں کو چپو ک[ طرح چلانے میں جو

یا کس[ اور بچے کو دی جات[ ہے۔ شانت[ اور طمانیت ملت[ ہے وہ اس سزا سے کم ہے جو ایسا کرنے پر بالمکند

سوماں کا مٹ[ میں کھیلنا پھر اسے تعجب خیز نہیں گزرتا۔ یہ خود یافتگ[، حقیقت ک[ ایک نئ[ سطح کا سراغ،

آاتا ہے۔ لیکن ان[ سیشن یہاں مکمل نہیں ہوتا۔ مکمل اس وقت اس کہان[ کو ان[ سیشن کہانیوں کے ذیل میں لے

ہوتا ہے جب نندی کو یہ علم ہوتا ہے کہ بابا نے بھ[ بچپن میں کبھ[ چوری ک[ تھ[ اور انھوں نے اپن[ ماں کے

آاR تک اعترا� نہیں کیا ہے۔ دراصل نندی کے ضمیر ک[ تربیت استاد اور فرسودہ اخلاق[ اقدار کے سامنے اس کا

مارے ہوئے معاشرے کے حق میں ہے لیکن اس ذات کے لیے نقصان کا سودا جو ابھ[ خود پر منکشف ہوئ[ ہے نہ

آازادانہ طور پر اپنا سراغ ہ[ لگایا ہے۔ نندی کا باپ جو کم و بیش ایسے ہ[ تجربات سے جس ک[ شخصیت نے

گزر چکا ہے۔ نندی کے حقیق[ تناؤ کو سمجھ لیتا ہے اور وہ نا مانوس علاحدگ[ جسے نندی کوئ[ نام نہیں دے

سکا تھا۔ اس کا عرفان پہلے مرحلے میں خود اس کے چوری کے عمل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنے اندر

ظاہر کر کے اسے ضمیر کے اس پر ایک ربط محسوس کرتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں نندی کا باپ اپنے جھوٹ کو

میں بابو کے دان‘‘ ناقابل برداشت تناؤ سے نجات دلاتا ہے کیونکہ وہ ایک معلوم فہم بھ[ رکھتا ہے مگر ’’تلا

رلت والدین ک[ رسائ[ اس فہم تک ممکن نہیں تھ[ کہ وہ جس طبقے سے متعلق ہیں اس میں ایک محکومانہ جب

ثت میں ملت[ ہے۔ اس[ وجہ سے بابو کے والدینابھ[ بڑا طاقتور کردار ادا کرت[ ہے اور جو گو یا انہیں اپن[ ور

آانکھوں کے سامنے اس کو مرتا ہوا بروقت بابو کے کرب کا ازالہ نہیں کر پاتے اور بڑی بے چین[ کے ساتھ اپن[

دیکھتے ہیں۔ نندی کا باپ نندی کو بچا لیتا ہے مگر بابو کا باپ بابو کو بچانے میں ناکام ثابت ہو تا ہے۔

Page 37: بیانات

ان کا باپ نہیں سمجھ پاتا نہ ہ[ زینو کے اصل ’’دوسرا کنارہ‘‘ میں سندر اور اس کے بھائیوں کے اصل کرب کو

نے سمجھا۔ ان سب کے درمیان بھ[ ایک نامانوس نفسیات[ مسئلے کو ’’زین العابدین‘‘ کے افسانے کے ’’میں‘‘

علاحدگ[ کا م کر ت[ رہت[ ہے ان میں مشترک نسب نما ک[ کم[ ہے۔ اپن[ زندگ[ جینے کے انداز کو دوسرے

پر عائد کرنے ک[ ضد ہے۔ ان ک[ رفاقتیں مشترک قدر سے عاری ہونے کے باعث عارض[ اور جھوٹ[ معلوم ہو ت[

ہیں۔ رفاقتیں دیر اور دور تک اس[ وقت تک قائم رہ سکت[ ہیں اور رہت[ ہیں جب تک ان میں معروض[ تطبیق ک[

وہ لڑکا جس کے بارے میں بیدی نے لکھا ہے : کا گنجائش موجود ہے ’’معاون اور میں‘‘

ہوا لڑکا ایک خود دار انسان ہے۔ کس[ ’’بہت کچھ استفسار کے بعد مجھے یہ پتہ چلا کہ میرے مقابل کھڑا

ناجائز بات کو نہیں مانتا اس لئے دو تین جگہ جہاں بھ[ اس نے کام کیا اپن[ خود داری کو ٹھیس لگنے سے

دیا۔ اب وہ عرصے سے بیکار تھا۔‘‘ چھوڑ

آایا ہے اور جس ک[ خاموش[ یہ ظاہر کر ت[ ہے کہ آازادانہ فطرت لے کر رل[ طور پر یہ[ لڑکا )پتمبر لال ( جو کہ جب

اا نفسیات[ نہیں ہے بلکہ وہ وہ اپنے معاشرے ک[ اخلاقیات سے سخت نالاں ہے۔ اس ک[ غصہ وری کا سبب قطع

استحصال[ قوتیں ہیں جنہوں نے مجبور نوجوانوں سے ان ک[ محنت ہ[ خرید نہیں ک[ ہے بلکہ ان کے ذہن، ان

آازاد روش کو بھ[ محکوم بنا روز ک[ خدمات کا جواب مدیر کے لیا ہے۔ پتمبر لال ک[ شب و ک[ فکر اور ان ک[

آامیز الفاظ ہیں کہ یہ مکر

جل برداشت بوجھ ’’ایک معاون رکھ کر میں نے اپنے رسالے پر جو رولین منازل طے کر رہا ہے۔ ایک ناقاب کہ عمر ک[ ا

ڈال دیا ہے۔‘‘

ایک اپن[ سخت کوش[ اور انتھک خدمات کو جو لال ان نوجوانوں میں سے ہے جن کا نصیب محنت ہے اور پتمبر

کم وہ اپنے اندر اپنے طور پر اوقات ایس[ ڈھال بنائے رکھتے ہیں جن سے ان ک[ انا کا تحفظ قائم رہ سکے۔ کم از

آاخر میں کر سکیں۔ لیکن پتمبر لال کو بسر آاخر اپن[ مسلسل خدمات کا جواب چیلنج ک[ صورت میں ملتا ہے۔

Page 38: بیانات

اپن[ ٹوٹن کے لئے کوئ[ مرہم تلاش نہیں کرتا۔ بلکہ ضمیر ک[ طمانیت سے جب وہ بالکل ٹوٹنے لگتا ہے تو پھر

آان میں قطع تعلق کر لیتا ہے آان ک[ کے مابین بہر حال ایک کارو باری ’’معاون اور میں‘‘ سرشار ہو کر مدیر سے

’’زین العابدین‘‘ کے میں اور زینو میں کوئ[ کارو باری اشتراک نہیں تھا۔ ان ک[ رفاقت میں ایک رشتہ تھا مگر

نفسیات[ ربط ہے۔ زینو خود ایک نفسیات[ مسئلہ ہے جس ک[ تفہیم افسانے کے ’’میں‘‘ کے نزدیک بہت مشکل

ہے زینو ک[ سائیک[ جیس[ جو کچھ بھ[ ہے۔ اس کے بچپن کے حالات ک[ زائیدہ و پروردہ ہے۔ زینو کے کردار

میں الجھاؤ بھ[ ہے ٹیڑھ بھ[۔ وہ خود اپن[ معمول[ سے معمول[ حرکات کو کوئ[ نام نہیں دے پاتا۔ اکثر مقامات

آات[ ہیں۔ ہمیں وہ اس ک[ پوری میں عزیزtotalityپر اس کے عیب محترم اور اس ک[ خطائیں معصوم نظر

آاہستہ ہے۔ افسانے کے ’’میں‘‘ کو یہ علم ہ[ نہیں ہوتا کہ زینو اپن[ کمزوریوں ،اپن[ تمام غلط کاریوں کے باوجود

آاہستہ اس کے جسم کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ زینو اس ک[ عادت ہے ،اس کا سوال ہے ، اس کا موضوع ہے۔

ک[ ایک عادت ہ[ نہیں بن چکا تھا۔ بلکہ اس کا استاد،اس کا ہدایت کا ر تھا۔ ’’میں‘‘ معاون بھ[ افسانے کے

نہیں کر پاتے جنھوں نے ان کے فریب حدود سے تجاوز راک[ ان پ دونوں اپن[ عادت سے مجبور ہیں لیکن انا

’’میں‘‘ پریہ راز وا ہو تا ہے۔ افسانے کے درمیان لمب[ لمب[ فصیلیں کھینچ دی ہیں۔ زینو کے چلے جانے کے بعد

باپ نہ بیٹا ، بہنوئ[ ہے نہ ’’جب ہم اپنے اردگرد غور سے دیکھتے ہیں تو محسوس کر تے ہیں ،نہ کوئ[ کس[ کا

سالا،ماموں ہے نہ بھانجا گویا سب رشتے ناطے ٹوٹ چکے ہیں۔‘‘

ا· ’’معاون اور میں‘‘ کے ’’میں‘‘ اور ’’زین العابدین‘‘ کے ’’میں‘‘ کو جہاں اپن[ انا سے پرے ہونا تھا نہ ہوئے نتیج

کاروباری انہیں ایک بہت بڑے جذبات[ صدمے سے دوچار ہونا پڑتا ہے ’’۔ معاون اور میں‘‘ میں بہ ظاہر ’’میں‘‘ کا

اا معاون ک[ رفاقت ، اس کا خمیازہ ایک حد تک اہمیت ض۔ رور رکھتا ہے لیکن یہ[ کل حقیقت نہیں ہے۔ اصل

جس ذات، اس ک[ خودی مدیر کا مکتب تھا۔ معاون ک[ علاحدگ[ پر یہ عیاں ہوتا ہے کہ وہ مدیر کے لئے احسا

’’بے کار خدا‘‘ کے مراری ک[ طرح دنیا نا گزیر تھا۔ اگر مدیر کاروباری منفعت کو ذہن میں رکھتا تو کس قدر

عیوب کے ساتھ قبول کر اور معاشیوں کو اپن[ تمام غلط کاریوں ، بد داری کا ثبوت دے سکتا تھا۔ مراری نے نتھو

Page 39: بیانات

لیا تھا لیکن مدیر اور زین العابدین کا مسئلہ خود ان ک[ تربیت یافتہ ذات بھ[ تھ[۔ اور اس ذات کے اپنے مطالبے

بھ[ تھے۔ یہ[ مطالبے ایک کمزور لمحے میں ان پر اتنے محیط ہو جاتے ہیں کہ ان سے چشم پوش[ برتنا ان کے

اا نا مانوس ہیں کہ کردار ایک خاص فہم رکھنے کے باوجود بس میں نہیں رہتا۔ اس قسم ک[ علاحدگیاں بھ[ قطع

جر کیوں تھا ؟ اور پھر یکا یک دوسرے سے علاحدگ[ کے تھا تو محض ہیں۔ انہیں کوئ[ عزیز اپنے اعمال میں مجبو

طرفہ عمل ہے۔ ایک رفیق کا فوری لمحات[ عمل ، دوسرے کے لئے کیا معن[ ہیں ؟ اور پھر یہ کہ ہر رفاقت ایک دو

آازمائش[ لمحوں میں دوسرے پر کوئ[ ذمہ داری عائد نہیں ہوت[؟کیا قطع[ اور حتم[ کیسے بن جاتا ہے ؟ کیا ایسے

ایک بہت بڑا شکایتوں سے بھرا پرا ماض[ ہوتا رفاقتیں یک لخت ٹوٹ سکت[ ہیں؟ ہر علاحدگ[ ک[ پشت پراواقعتا

ایک لمحے کا عمل ہے دوسرے کے نزدیک اس کا بہت بڑا ماض[ ایک بہت بڑا ہے۔ ایک رفیق کے نزدیک جو

جرد عمل ہے۔ جتنا حیرت خیز ہے اتنا ہ[ منطق[ اور متوقع بھ[ ہے۔ انوہ اجو عمل ہے اصلا پس منظر ہے۔ اور ر

بے نام س[ ہوت[ ہے۔ اس ذیل میں معنوں میں علاحدگیاں ہ[ اجنب[ نہیں ہوتیں بلکہ رفاقتیں بھ[ بڑی نامانوس اور

جیسے افسانے غور ‘‘اور ’’صر� ایک سگریٹ‘‘ ’’لاجونت[‘‘ اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ اور ’’ٹرمینس سے پرے

طلب ہیں۔

ہندوستان[ عورتtypical‘‘بھ[ ’’گرہن‘‘ ک[ ہول[ اور ’’ہڈیاں اور پھول‘‘ ک[ گوری ک[ طرح اس ’’لاجونت[

ی[ خیال کرت[ ک[ مثال ہے جسے مرد کا تسلط عزیز ہے اور مرد کے بغیر جو اپنے وجود کو غیر محفوظ بلکہ بے معن

شوہر ک[ لاتیں اور گھونسے ہے مرد ک[ خدمت ،غلام[ اور خوش نودی اس کے نجات کے ذرائع ہیں۔ بھوکوں مرنا

کھانا تس پر رات میں بستر ک[ طرح بچھ جانا ، اپن[ ہڈیوں ک[ دشمن، اپن[ رسموں ک[ غلام ،وہ[ کبھ[ ہول[

لال اتن[ فہم نہیں رکھتا کہ لاجو کے اصل دکھ کو جان سکے بن جات[ ہے ،تو کبھ[ گوری۔ لاجونت[ کا سند ر

کے بعد ک[ دیوی کے اس کرب کو وہ لاجو کے اغوا سے قبل لاجو ک[ سپر دگ[ کو کوئ[ اعزاز دے سکا نہ اغوا

آانسوؤں کے اندر آابادیاں اندر سے کتن[ کچھ خال[ ہیں ؟ اس کے آاگ سمجھ سکا کہ بھری بھری یہ کون س[

آاہوں میں کیس[ چیخیں پیوست ہیں ؟ وہ تو سندر لال ہ[ ک[ پران[ لاجو ہو جانا چاہت[ تھ[ موجزن ہے ؟اس ک[

Page 40: بیانات

اا جو گاجر سے لڑ پڑت[ اور مول[ سے مان جات[۔ لاجو ک[ باز یافت کے بعد سندر لال کا تکلف اس کے لئے قطع

وہ جیس[ کہ سندر لال کے لئے پران[ لاجو نہ رہ[ تھ[۔ اس[ طرح سندر لال بھ[ اب وہ سندر لال نامانوس تھا اور

نہ رہا تھا۔ دونوں ک[ رفاقتوں کے مابین ایک نامانوس س[ علاحدگ[ جگہ پا لیت[ ہے اور اس علاحدگ[ کو دونوں

کوئ[ نام نہیں دے پاتے۔

’’کون تھا وہ ؟‘‘

رماں‘‘۔ ۔ ۔ پھر وہ اپن[ نگاہیں سندر لال کے چہرے پر جمائے اج لاجونت[ نے نگاہیں نیچ[ کرتے ہوئے کہا۔ ’’

کچھ کہنا چاہت[ تھ[ لیکن سندر لال ایک عجیب س[ نظروں سے لاجونت[ کے چہرے ک[ طر� دیکھ رہا تھا

لال نے پوچھا : لیں اور سندر آانکھیں نیچ[ کر اور اس کے بالوں کو سہلا رہا تھا۔ لاجونت[ نے پھر

’’اچھا سلوک کرتا تھا وہ ؟‘‘

’’ہاں‘‘

’’مارتا تو نہیں تھا ؟‘‘

سندر لال ک[ چھات[ پر سرکاتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں‘‘ اور پھر بول[ ’’وہ مارتا نہیں تھا ، پر لاجونت[ نے اپنا سر

آاتا تھا۔ تم مجھے مارتے بھ[ تھے پر میں تم سے ڈرت[ نہیں تھ[۔ ۔ ۔ اب تو نہ مارو مجھے اس سے زیادہ ڈر

گے ؟‘‘

آانسو آانکھوں میں آائے اور اس نے بڑی ندامت اور بڑے تاسف سے کہا۔ ’’نہیں دیوی ! اب سندر لال ک[ امڈ

نہیں۔ ۔ ۔ نہیں ماروں گا۔ ۔ ۔‘‘

آانسو بہانے لگ[۔ ’’دیوی!‘‘لاجونت[ نے سوچا اور وہ بھ[

Page 41: بیانات

را بہ ظاہر ایک عام س[ گھریلو عورت ہے۔ مدن بھ[ ایک عام سا ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ ک[ اندو کچھ کچ

آادم[ ہے۔ اندو را آاپ شوہر اور کچھ پک اس بوڑھے باپ کے اوپر لٹا دیا تھا۔ اور اس کے بہن بھائیوں اور نے سارا اپنا

پور سے اس تھا کہ اسے ایک ایس[ عورت مطلوب تھ[ جو پور کچھ بچا تھا۔ مدن کے لئے وہ کم تر لوٹ سے جو

وہ جب چاہےۓک[ ہو ،اس کے اوقات میں لمحہ لمحہ جیت[ ہو۔ وہ جب چاہے شکن شکن بستر میں ڈھل جا

اس ک[ دائم المریض، سوکھے ٹھونٹھ ک[ طرح ماں ٹوٹے ،بنے ،بکھر جائے۔ وہ بدن نہیں جو مدن کے باپ کو

پھڑکتا ہو۔ چاروں طر� زندگ[ تا پا سر ک[ صورت میں ملا تھا۔ ایسا جسم جو ریشے ریشے سے بولتا ہو،پھوٹتا ہو

ک[ قوتیں س[ بکھیر دے ، صر� بچے ہ[ پیدا نہ کرے بلکہ بار بار مدن کو ایک نقطے میں سمیٹ کر اپن[

کوکھ میں ا گائے۔ اور بار بار باہر نکالے تاوقتیکہ اس ک[ تکمیل نہ ہو جائے ،مدن کو ہریش چندر ک[ بیٹ[ نہیں

آادم ک[ بیٹ[ اندو ہنسنے لجانے اور آان میں بچھ جانے وال[ تھ[۔ اور اندو اپنے شوہر کے دکھوں کو درکار آان ک[

بانٹنے میں اتن[ کھو گئ[ کہ اسے یہ بھ[ خیال نہیں رہا کہ اس کے پا س مدتوں کا ایک اور خزانہ بھ[ ہے اور

اس کے جسم سے مس ہو کر لخت لخت ایک پہاڑ بھ[ ہو تو جس پر مدن اور صر� مدن کا حق ہے۔ دکھوں کا

کب جب لمحے برسوں میں بدل گئے اور عمریں اپنے زوال ک[ کا عرفان ہوا بھ[ تو ہو جائے۔ اسے اپنے اس جادو

راہ لینے لگیں۔

بول[۔ ۔ ۔ ’’یاد ہے شادی ک[ رات ، میں نے تم سے کچھ مانگا تھا ؟‘‘ اندو

’’ہاں‘‘۔ ۔ ۔ مدن بولا۔ ۔ ۔ ’’اپنے دکھ مجھے دے دو۔‘‘

کچھ نہیں مانگا مجھ سے۔‘‘ ’’تم نے تو

مانگتا ؟ ’’میں نے ؟‘‘ مدن نے حیران ہو تے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ ۔ ’’میں کیا

کچھ مانگ سکتا تھا وہ سب تم نے دے دیا۔ میرے عزیزوں سے پیار،ان ک[ تعلیم ،بیاہ شادی۔ ۔ ۔ یہ میں تو جو

پیارے پیارے بچے۔ ۔ ۔ یہ سب کچھ تم نے دے دیا۔‘‘

Page 42: بیانات

کر پتہ چلا ،ایسا نہیں۔‘‘ ’’میں بھ[ یہ[ سمجھت[ تھ[‘‘ اندو بول[۔ ۔ ۔ ’’لیکن اب جا

’’کیا مطلب ؟‘‘

اندو نے رک کر کہا۔ ۔ ۔ ’’میں نے بھ[ ایک چیز رکھ ل[۔‘‘ ’’کچھ نہیں‘‘ پھر

’’کیا چیز رکھ ل[ ؟‘‘

اندو کچھ دیر چپ رہ[ اور پھر اپنا منہ پرے کر تے ہوئے بول[۔ ’’اپن[ لاR ، اپن[ خوش[ ،اس وقت تم بھ[ کہہ

دیتے۔ اپنے سکھ مجھے دے دو۔ تومیں۔ ۔ ۔‘‘ اور اندو کا گلا رندھ گیا۔

اور کچھ دیر بعد وہ بول[۔ ۔ ۔ ’’اب تو میرے پاس کچھ نہیں رہا۔‘‘

اندو کو اس[ بات ک[ خوش[ تھ[ کہ اس نے اپن[ لاR رکھ ل[۔ یہ اس کا کلچر تھا۔ اس ک[ تربیت ،اس کا

ری ،خدمتواس کے عزیزوں ک[ نگہداشت ، کنبہ پر ایمان تھا۔ اس نے یہ مفروضہ قائم کر لیا تھا کہ مرد اور

ہان پڑھ ہے لیکن بیدی نے اس گزاری اور گھریلو الجھنوں سے اپنے خدا کو دور رکھنا ہ[ عورت کا دھرم ہے۔ اندو

اس کا ایک ایک لفظ تاب ک[ سوجھ بوجھ بھر دی ہے۔ جب وہ کس[ ناگہان[ واردات سے گزرت[ ہے تو میں بلا

عورت کے بجائے ایک ایس[ ذات میں بدل ہو جاتا ہے۔ اور پھر وہ ایک معمول[ س[ گھریلو کاریوں سے معمور

آاگاہ بھ[ اور جس نے محض اپنے شوہر ک[ خوشنودی ک[ خاطر اپن[ ذات کے رحساس بھ[ ہے، جات[ جو

یا وہ تھا کچھ اس نے کیا دیا ہے۔ شاید اسے یہ علم نہ تھا کہ یہ جو مطالبوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ پرے کر

اپنا کلچر تھا اور کلچر کے مطابق اس کا برتاؤ ا س ک[ مجبوری تھ[۔ اس وسیلے سے وہ کر رہ[ تھ[ وہ اس کا

آاپ روحان[ طمانیت پات[ ہے۔ سارے گھر بھر ک[ دادو تحسین وصول کرت[ ہے۔ مگر وہ جس کے لئے اس نے اپنا

فنا کر دیا تھا اسے وہ پوری طرح سمجھ سک[ نہ ا س کے وجود میں سرایت کر سک[۔ اس نے اپنے کرم سے دیوی

ااوہ مدن ک[ نظروں میں کا درجہ ضرور پا لیا تھا اور کیا خبر تھ[ کہ کو پوجا کے لائق بھ[ تھ[ لیکن اندوواقعت

آائ[ تھ[ مگر اس کے اب اس کا مقام طاق تھا اور وہ بھ[ طاق نسیان جو مدن کے جسم کا حصہ بننے کے لئے

Page 43: بیانات

بہترین استعمال محض خدمت تھا۔ وہ خدمت جس نے ایک روز اسے دیوی لئے اپنے شباب کے بہترین لمحوں کا

دیوی بننے سے انکار تھا اور اندو نے اپن[ ساری زندگ[ ک[ خوشیاں قربان کر کو دیا تھا۔ لاجونت[ ک[ لاجو بنا

رسم اس ک[ نسائیت پر ایک الزام بھ[ غیر عورتوں کے ساتھ مدن ک[ راہ و کے دیوی کا لقب حاصل کیا تھا پھر

لیا کہ روح ک[ عظمت کو پا نے میں اس کا جسم کئ[ بر س پیچھے رہ گیا ہے اور تھا۔ اس نے محسوس کر

کوئ[ بھ[ لمب[ س[ لمب[ جست اس درمیان[ فصل کو پاٹ نہیں سکت[۔

آاR فرصت مل[ تھ[۔ اور وہ بھ[ اس وقت جبکہ چہرے پر ’’شادی کے پندرہ برس گزر جانے کے بعد اندو کو

آائ[ تھیں۔ ناک پر ایک سیاہ س[ کاٹھ[ بن گئ[ تھ[ اور بلاؤز کے نیچے ،ننگے پیٹ کے پا س کمر جھائیاں ابھر

تین تہیں دکھائ[ دینے لگ[ تھیں۔ اس سے پہلے کہ مدن اندو ک[ طر� ہاتھ بڑھاتا ، اندو خود پر چرب[ ک[ دو

دیکھنے لگا۔ اس نے کیا کھویا کیا پایا ہ[ مدن سے لپٹ گئ[ پھر مدن نے ہاتھ سے اندو ک[ ٹھوڑی اوپر اٹھائ[ اور

آانکھیں بند لیں۔ کر ہے ! اندو نے ایک نظر مدن کے سیاہ ہوتے ہوئے چہرے ک[ طر� پھینک[ اور پھر

آانکھیں سوج[ ہوئ[ ہیں۔‘‘ ’’یہ کیا ؟‘‘ مدن نے چونکتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ ’’تمہاری

را نے۔‘‘ ’’یونہ[‘‘ اندو نے کہا اور بچ[ ک[ طر� اشارہ کرتے ہوئے بول[۔ ’’رات بھر جگایا ہے اس چڑیل می

ایک لفظ نہیں کہت[۔ الٹے ساری رات اپنے خمیازے پر روت[ رہ[ ہے لیکن مدن سے شکایت کا یہ ہے وہ اندو جو

آاپ پر کڑھت[ ہے کہ اس نے مدن کے دکھ تو بانٹ لیے لیکن سکھ نہیں دے سک[۔ وہ مدن کے بوڑھے باپ اپنے

اپن[ بیوی ک[ کم[ تک نہیں کھلت[۔ مدن ک[ بہن اور بھائ[ دھن[ رام ک[ اتن[ سیوا کرت[ ہے کہ دھن[ رام کو

آاتا۔ پس اگر اسے یاد نہیں رہتا تو کو اپنے ج[ جان سے لگا کے رکھت[ ہے کہ انہیں اپن[ ماں کا دھیان تک نہیں

آاخر بے گانہ وار ثابت ہوت[ ہے۔ انہیں خود یہ کہ مدن اس کا شوہر ہے اور وہ مدن ک[ بیوی ہے۔ دونوں ک[ رفاقت بال

کر احساس ہوتا ہے یہاں پہنچ کر شادی کا بندھن محض مشین[ بستگیوں کا بعد میں جا وااپن[ علاحدگیوں اور نا

ان میں ایک میکنزم احساس دلاتا ہے۔ رشتے کس طرح ایک مقام پر پہنچ کر غیر محسوس بن جاتے ہیں اور نوع کا

Page 44: بیانات

آاتا ہے۔ اس میکنزم کو سا ’’ٹرمینس سے پرے‘‘ میں جب اچلا اور موہن جام توڑنا چاہتے ہیں تو ان ک[ رفاقتوں در

آاخر انہیں مراجعت پر مجبور کر دیتا ہے۔ اچلا، موہن جام میں ایک تناؤ سا پیدا ہونے لگتا ہے۔ اخلاقیات کا دباؤ بال

آاہ سر د بھرکر ک[ کم[ رام گدکری )اچلا کا شوہر ( کے پیار سے پورا کرنے پر مجبور ہے اور موہن جام کے لئے

سے رخصت لینے کے علاوہ اور کوئ[ راستہ نہیں۔ اچلا

جت حال سے گزرتے ہیں۔ ایک بیوی اپنے شوہر کے ’’صر� ایک سگریٹ‘‘ میں یہ باہم[ رشتے بڑی عبرتناک صور

شادی شدہ بیٹ[ کیلئے اپنا باپ لئے اجنب[ ہے ، باپ اپنے بیٹے کے لئے عجوبہ، بیٹا، باپ کے نزدیک بے گانہ اور

اا پریم چند آاتا ہے۔ وہاں ایک بیوی کا واسوخت ہے اور یہاں بے وقعت۔ مع ک[ کہان[ ’’شکوہ شکایت‘‘ کا خیال

توں کے مدار پر گردشرپہنچتا ہے کہ سارے رشتے ضرو ایک باپ ک[ اپن[ اجنبیت ک[ دہائ[۔ وہ اس نتیجے پر

آاپ کس[ ک[ کم[ کو پورا کرتے ہیں نا ہیں۔ جب زائد ہونے لگتے ہیں تو غیر متعلق۔ گزیر کرتے ہیں۔ جب تک

دیتے ہیں۔ امکانات سے عاری باپ، بیٹے کے لیے حشو ہے اور ہمارے اپنے امکانات دوسروں کے لئے ہمیں عزیز بنا

کے سنت رام کا المیہ یہ ہے کہ ا س نے یہ مفروضہ قائم کر لیا شوہر بیوی کے لیے۔ مگر ’’صر� ایک سگریٹ‘‘

آاہستہ سارے گھر بھر کے لئے غیر ضروری ہوتا جا رہا ہے۔ ا س ک[ وفاداری کا کوئ[ صلہ ہے نہ آاہستہ ہے کہ اب وہ

بے لوث[ کا کوئ[ انعام۔ حت[ کہ اپنے بیٹے ک[ ایک سگریٹ پ[ لینا اس کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔ وہ اپنے

خیالات کے دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے اور یہ کامپلیکس اس قدر فروغ پاتا ہے کہ اس ک[ سوچ محدود ہو کر

رہ جات[ ہے۔ بس ایک ہ[ تکرار کہ وہ سارے اپنوں کے لیے غیر ضروری اور زائد ہو گیا ہے۔ جب کہ اس کے بیٹے

آاتا ہو۔ اس کے اپنے کے اندر اپنے باپ کے لیے کوئ[ ایسا جذبہ نہیں جس سے اس ک[ تکریم پر کوئ[ حر�

حاصل، نفع و اپنا ایک نج ہے ، ذات کا ایک دائرہ ہے جس کے اپنے صر� و مسئلے ،اپنے غم ہیں۔ اس کا

نقصان ہیں۔ اس ک[ خاموش[ کے اپنے اسباب ہیں اس ک[ بے توجہ[ ک[ اپن[ وجوہ ہیں۔ سنت رام کے دل میں

اپنے باپ ک[ رفاقت کے تناؤ کو سمجھ نہیں دیا تھا۔ بیٹا چور تھا، جس نے اسے حقیقت ک[ فہم سے دور کر

Page 45: بیانات

پاتا۔ بلکہ باپ میں شکوک پیدا کرنے ک[ گنجائش بھ[ خود فراہم کرتا ہے۔ جب کہ دونوں ایک دوسرے کے لئے

انتہائ[ محترم ،انتہائ[ معزز، انتہائ[ محب[ ہیں۔

اپنا موضوع بنایا ہے۔ وہاں افسانہ نے پیچیدہ راہ اختیار کر ل[ ہے۔ وہ بیدی نے جہاں کہیں رشتوں ک[ بے حرمت[ کو

جاتا ہے۔ اس ضمن میں ’’دیوالہ‘‘ سلیس اور سادہ نہیں رہ جاتا اور اندر ہ[ اندر الجھتا اور الجھاتا چلا پھر اتنا

‘’’لاروے‘‘ اور ’’ایک باپ بکاؤ ہے‘‘ جیسے افسانے ’’باری کا بخار‘‘ ’’کش مکش‘‘ ’’ایک عورت‘‘ ’’غلام[‘

خصوص[ طور پر مطالعے کے لائق ہیں۔

Page 46: بیانات

مکالمہ ایک سے یادوں کی تھی ستیار

آا ء ک[ ہے۔ سرما۱۹۷۶۔ ۷۷یہ بات ردت میں کم[ گئ[ تھ[۔ موہن سنگھ پیلیس کے کاف[ ہاؤس میں ک[ ش

ٹیرس میں بیٹھنے ادیب اور فن کار چاروں طر� ک[ بند کھڑکیاں اب تازہ ہواؤں کے لئے کھلنے لگ[ تھیں۔ زیادہ تر

جادھر جرنلسٹوں ک[ ہاؤ روروں کے درمیان محبت و ہو، ادھر شاعروں ، کویوں اور لگے تھے۔ آامیز جھڑپیں۔ مص نفرت

شاعری،، رودادیں ،تنازعے ،مجادلے، مناظرے ، سیاست کاف[ پر کاف[ ،سگریٹ پر سگریٹ، شکایتیں ، بحثیں،

کہا ہے۔ کون کس خیمے میں ہے جدیدیت، ترق[ پسندی ،نیا،پرانا،کہاں کیا چھپا ہے ،کس نے کس کے لئے کیا

یں کو چیرت[ ہوئ[ دور کونے میں ایکئاس گہماگہم[ میں سگریٹ کے دھو ، کس لاب[ کا بول بالا ہے۔ اور

اا رابندر ناتھ ٹیگور ک[ ڈاڑھ[ یاد کر بڑھات[ ہوئ[ لہلہا رہ[ تھ[۔ جسے دیکھ پینگیںسے ڈاڑھ[ ہوا آا مع گئ[۔

ایک ناگزیر حصہ بن کر رہ گئ[ تھ[۔ چہرہ کیا تھا ، صر� ڈاڑھ[ تھ[۔ میں نے بان[ سے پوچھا جو شخصیت کا

کیا وہ[ دیوندر ستیار تھ[ ہیں۔

آائے ہیں۔ کل دوستوں نے انہیں بہت تنگ کیا ، اس[ لئے خاموش بیٹھے ہیں۔ چلو ’’ہاں ابھ[ ابھ[ پنجاب سے

سے کچھ چہلیں ہو جائیں۔‘‘ دیو گرو

مرنج مگر چھیڑ چھاڑ سے باز نہیںںبان[ مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ مطالعے کے جو یا ، بے نیاز، مرنجا

گئے۔ آاتے تھے۔ کنور سین ان کے داہنے ہاتھ تھے بلکہ ایک تازیانہ ،جس طر� باگ موڑ دی مڑ

ابھ[ پچھلے سال، اسے نمستے ‘کیوں بھائ[ کیا ہم سے بھ[ ناراض ہو۔ یہ عتیق ہے ،عتیق جانتے ہو نا دیو گرو’

آایا ہے۔ رل[ ہ[ د

Page 47: بیانات

نے ذکر کیا تھا۔ یہ دونوں ’’تناظر‘‘ نکالنے والے ہیں۔ اور کہو کیسے ہو؟ ‘بلراR ورما ہوں جانتا ہا ں۔ ہاں

دیوندر ستیار تھ[ سے دو گھنٹے گفتگو ہو ت[ رہ[۔ بالکل ان کے افسانوں ک[ زبان میں، یہ نئے دیوتا یا ہرے رنگ

ل[ ہے اور اب اس ستیارتھ[ نے اپنے اندر بڑی گہرائ[ میں اپن[ جگہ بنا ک[ چڑیا والے ہ[ ستیارتھ[ تھے۔ مگر

مستقل اپن[ جڑوں ک[ تلاش میں رہتے ہیں۔ لاہور ان ک[ سب سے بڑی کمزوری بن چکا تھا۔ ان کے وہ دشمن

انہیں ناموں کا بھ[ انہیں بے حد عزیز تھے جن سے ماض[ میں انہیں بڑی شکایت تھ[ ، بلکہ اکثر ان ک[ زبان پر

آاسان[ سے دشمن کہہ سکتے ہیں۔ آاR کے محاورے میں بڑی ورد زیادہ رہا کرتا تھا جنہیں ہم

’بان[! یہ تم نے کیا کہا ‘میں کیوں کس[ سے ناراض ہو نے لگا۔ انسانیت دکھ[ ہے۔ تم بھ[ بہت دکھ[ ہو،

آاپ سے بھ[ خفا نہیں ہوتا‘۔ میرے یار‘ میں جانتا ہوں۔ میں تو اپنے

نہیں ہوتا ‘ کیا منٹو سے بھ[ نہیں‘۔ میں نے بیچ ہ[ میں ستیار تھ[ ک[ بات کاٹ دی۔ ’ منٹو نے ’ ترق[ ’کیوں

آاپ ہ[ تھے جس پر آاپ نے نئے دیوتا منٹو پسند‘ لکھ[ اور یہ ترق[ پسند نے بڑے تیکھے وار کئے تھے اور پھر

پر تھ[‘۔ جیس[ کہان[ لکھ[ جو منٹو

اگر ’عتیق ! میں نے بھ[ کوئ[ گہرا اثر نہیں لیا تھا۔ اور مجھے امید ہے کہ منٹو پر بھ[ اس کا زیادہ اثر نہیں ہو تا

نہیں دیتے‘۔ ہمارے درمیان کچھ ہمارے احباب اسے ہوا

آاپ خفا نہیں ہوئے ؟‘ ’تو کیا

ایک الگ مزہ ہے۔ پیار ،محبت اور دوست[ ،اس سے پک[ ہو ت[ ہے۔ میں سچ بتاؤں ’ار ے دوست خفا ہونے کا

بھ[ مجھے بہت عزیز تھا۔ میں ناراض نہیں تھا ہاں لیا کر تا تھا۔ ورنہ منٹو اس کے بعد جھوٹ مو ٹ ہ[ منہ بنا

آاR کا ستیارتھ[ تو تھا نہیں۔ شاید اس[ لئے نئے دیوتا بھ[ لکھ پیار بھری خفگ[ ضرور تھ[ ،جوان[ کا زمانہ تھا۔

پایا ‘۔

Page 48: بیانات

آاپ نے منٹو ک[ بڑی منت سماجت ک[ تھ[ تاکہ اس ک[ خفگ[ ناراضگ[ دور ہو جائے۔‘‘ ’’سنا ہے

ہے۔ اسے بگڑنے میں دیر نہیں لگت[۔ منٹو کتنا ہ[ بڑا فنکار کیوں نہ ہو۔ کہیں کہیں بہت ’دوست[ بنتے بنتے بنت[

تھے۔ کس[ ک[ بڑائ[ یاcomplexesچھوٹا ہو جاتا تھا۔ معا� بہت مشکل سے کرتا تھا۔ اس کے اپنے

میر ایک جینون فن کار، کیا تا پا بھ[ منٹو بہت پیار ا تھا۔ سر خود ک[ ہنسائ[ اسے بالکل گوارہ نہیں تھ[۔ پھر

کیا منٹو‘۔ اور ج[ کیا میرا

’اور کیا دیوندر ستیارتھ[‘۔ بان[ نے لقمہ دیا۔

’ہاں اور کیا؟ میں ،ہم سب فطری انسان ہیں‘۔

دیوندر ستیارتھ[ فطری انسان کتنے ہیں۔ اس کے بارے میں تو مجھ سے زیادہ ان کے احباب ہ[ کچھ بتا سکتے

ان ک[ سب سے بڑی کمزوری ہے۔ natureضرور ہے کہ فطر ت ہیں۔ مگر اتنا

آاپ اس ایک شام میں نے ان سے دریافت کیا ‘ گرو آاپ ک[ کہانیوں میں قطع[ پلاٹ ہو ا کرتا تھا، دیو! پہلے تو

رن دیوتا ک[ بنت پر بھ[ بہت محنت کیا کرتے تھے۔ کم از آاپ ک[ ا ، جشن ،وارث لا، ستلج پھر بپھرا ،کم

آاپ ک[ کہانیوں میں پلاٹ دھندلا راہا دو،پرانے ہل اور نئے دیوتا جیس[ کہانیوں سے یہ[ تاثر ابھرتا تھا۔ مگر اب

آاپ کے سوانح اور فطرت ک[ رنگا آاپ ک[ کہان[ میں رنگ[ کا عنصر حاوی ہوتا گیا ہے۔ کیا ایسا نہیں لگتا کہ

جا رہا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے ‘۔

’دوست ! جوں جوں میں بوڑھا ہو تا جا رہا ہوں ،ماض[ کے کھٹے میٹھے دن پانو ک[ زنجیر سے بنتے جار ہے ہیں۔

اپنے ماض[ کو اور وہ ساری وارداتیں میرے خوابوں سے اتر کر میرے پنوں پر بکھرت[ جات[ ہیں۔ کبھ[ کبھ[ تو

آا ماض[ کیا جاتا ہے۔ وہ[ لاہور سے امرتسر تک کے ہزاروں ہزار میلوں کے فاصلے کو یاد کر کے مجھے رونا

Page 49: بیانات

آائ[۔ میں نے ایک کہان[ شروع کر ’پتہ ہے پچھلے دد لکھنے‘پل کنجری ’رکھ[ ہے۔ ہفتوں سے مجھے نیند نہیں

چار پانچ صفحوں میں پوری ہو جائے گ[۔ مگر یہ بڑھت[ جار ہ[ ہے اور میں اس کے اندر اور بیٹھا تو سمجھ رہا تھا

اندر اترتا جا رہا ہوں‘۔

آاR تک رو رہ[ ہیں۔ ’’گھر ک[ طرح کہان[ کا بھ[ پچھواڑا ہوتا ہے۔ اچھا مت[ ک[ لہریں ہماری بھول پر

آانے ک[ بجائے شہر یا رکے دماغ پر درویش ک[ چھاپ رہت[۔ کاش دست گیر ک[ باتوں میں

گہرائ[ میں ڈبک[ لگائیں۔ ناٹک تو ہوتا ہ[ رہے گا۔ ہم کہیں تو

رتن کٹوری گھ[ جلے ،چولھے جلے کسار

کے مورکھ بھرتا ر گھونگھٹ میں گوری جلے، جا

آاگا نتھ کا ڈھانپ۔ تم گاؤ گے اور ہم سنیں گے راگ دیش۔ موت[ کہاں گرا؟ گوری اداس ہو گئ[۔ کون کہے ران[

جا۔ جا۔ ۔ ۔ من ک[ تلیا سوکھ[ پڑی ہے ایک بوند برسا آا اب کے ساون گھر

صبح ک[ چائے سب کو جگائے۔ ۔ ۔ جاگو ! جاگو! جاگو!

میں کھو جاؤ۔ جاؤ سپنوں ک[ دنیا رات کا پیالہ سب کو سلائے سو

آاس پاس، گھاٹ پڑا کالا سپنا، موسم ،ہریالا پیلا ملتا۔ ناگ ،سب ساتھ،

آانکھ اوٹ ،پہاڑ اوٹ کارواں ک[ وہ[ بات۔

آاپ کو معا� کر کیا آاتا۔ دیں؟ کہاں لکھو ہم اپنے گے شلا لیکھ؟کوئ[ پتھر نظر نہیں

آاگے فائلوں کے ڈھیر پڑے رہے۔ گونگے بہرے مہاوت کے

Page 50: بیانات

رفو کر تے کرتے کون جانے دنیا سے جاتے وقت وہ کس کس ک[ چادر کے گھاؤ بے سلے۔عل[ امام مارا گیا

چھوڑ گیا۔

کنار سلسلہ ہے جو پیدا اور لاہور سے وابستہ کھٹ[ میٹھ[ یادوں کا ایک نا چکا ہے کہ لاہور جیسا کہ عرض کیا جا

نے بیس ہانٹ کر تا رہتا ہے۔ پہلے یہ لے قدرے دھیم[ تھ[ ، اب کاف[ تیز ہو گئ[ ہے۔ انہوں دیوندر ستیارتھ[ کو

اس سے جڑی برس پہلے یہ بات کہ[ تھ[ کہ ان سے ماض[ اور وہ بھ[ تقسیم وطن کے اردو گرد کا ماض[ اور

ہو جاتا ہے اور وہ کبھ[ ہوئ[ بھل[ بری زندگ[ بھلائے نہیں بھولت[۔ تقسیم وطن ک[ واردات کا زخم جب تب ہرا

کے مو سموں کے جشن منانے لگتے ہیں۔ کبھ[ وہاں کے کھیتوں کھلیان میں اپنے ذہن کدے میں سرحد کے پار

آانکھوں میں چمک پیدا ہو جا ت[ ہے۔ کبھ[ قصیدہ کبھ[ دوڑ نے بھاگنے لگتے ہیں۔ کبھ[ ہوک اٹھت[ ہے کبھ[

کہ لفظوں سے ان ک[ گرفت ہوں اب میں دیکھ رہا ہوا ہے۔ مگر مرثیہ۔ یہ[ رنگ ان کے تازہ افسانوں میں رچا بسا

میں تناؤ تو ہے مگر بکھر اؤ زیادہ ہو گیا ہے۔ ایک ساتھ اتن[ زیادہ یادوں کا دباؤ کہ ڈھیل[ ہو ت[ جا رہ[ ہے۔ یادوں

آاتا ہے۔ کہیں سوانح کا کہیں یادداشت ناموں جیسے ساغر چھلکنے لگے۔ پڑھنے والے کو کہیں انشائیہ کا لطف

memoirsکا ،کہیں ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری رعایت تمام چیزوں کو بہ یک وقت

ی[باندھ دیت[ ہے۔ تک ایک صورت مقام بھ[ بہت دیر بار ٹوٹ جاتا ہے ، مکان یا کہ زمانے کا سلسلہ بھ[ بارحت

آاتا ہے۔ میں قائم نہیں رہتا۔ مگر لاہور بار بار عود کر

گندھار۔ دیو۔ دیو تیرے رنگ ہزار۔ میں کون؟مان کا،’’ہیلولاہور

آاسمان۔ ہم قربان!کتھا سرکس عر� صدیوں پہ پھیلا فاصلہ سنت نگر وشنو گل[۔ گھوڑا اسپتال کہاں جھک گیا

کا ؟

کہاں کا ؟ لاہور کا ،اور

Page 51: بیانات

دارد۔ اس کے باوجود نگنبد۔ دیوگندھار کا ایک نام۔ امریان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرپٹ میدان،گھوڑا ‘نیلا سپنے میں دیکھا

آاواز ! میں ہوں اپن[ شکست ک[

مسافر ،گھر کا رستہ بھول گیا۔ ۔ ۔ ۔ نگری نگری پھرا

بشیر احمد ایڈیٹر ’’ہمایوں‘‘ نے اس کتاب کا دیباچہ خانہ بدوش‘۔ ۔ ۔ ۔ امرت یان ک[ کتاب۔ میاں میں ہوں

ہاں کر سمندر کے کنارے بیٹھ کر قلم کا سفر طے کرنا مناسب سمجھا۔ ہاں لکھنے کے لئے لاہور سے کراچ[ جا

آازادی سے سات برس پہلے اب کون سا الاپ شروع کیا جائے۔ لاہور سے چھپ[ تھ[ یہ کتاب۔

میری تیری اس ک[ بات ،ایک اور سوغات امرت یان ک[ ایک کتاب گائے جا ہندوستان!

آایا!‘‘ یاد الخاموش[ نیم رضا!۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دشت کو دیکھ کے گھر

ایک خط شہر ہے۔ جہاں گیر اور نور جہاں کا شہر۔ نورجہاں نے خود دیوندر ستیارتھ[ کے لئے لاہور شہروں کا

میں شاہ جہاں کو یہ شعر لکھا تھا۔

جت جن برابر خریدہ ایم جاں دادہ ایم و جن دیگر خریدہ ایم لاہور را بہ جا

آاگرہ اور لاہور میں سمر قند اور بخار ا،مغلوں نے دہل[ آاباد کر بسائے تھے۔ ان شہروں کو انہوں نے اپنے ذہنوں میں

Rرکھا تھا۔ انہیں کا عکس ان کے منصوبوں میں دکھائ[ دیتا ہے۔ خواہ وہ دلکش باغ جیس[ شکل میں ہو کہ تا

آاہنگ[ ک[ محل یا لال قلعہ ک[ شکل میں۔ ہر جگہ وہ[ نفاست ،ذوق جمال ک[ تسکین کا سامان ،تہذیب[ خوش

جستجو۔

یی تو آائے ’’ارے بھئ[ یہ میں نہیں کہتا ‘ یہ دعو لاہور والے ہ[ نہیں۔ ادھر سارے مشرق[ پنجاب والے بھ[ کر تے

آاپ لوگوں نے نہیں سنا ‘ نئیں ایسا شہر لاہور دیاں ہیں ۔ )کوئ[ شہر لاہور ک[ برابری نہیں‘‘‘ستیارتھ[ نے کہا کیا

یی تو ہر زبان پر چڑھا ادھر کیا ادھر۔ کس[ کا بس ہو تو ہوا ہے۔ تقسیم کے بعد بھ[ کیا کر سکتا( اور ان کا یہ دعو

Page 52: بیانات

یہ محاورہ تقسیم کر دے ’’جیڑا لاہو ر نئیں دیکھا او جنمائ[ نئیں‘‘)جس نے شہر لاہور نہیں دیکھا گویا وہ پیدا ہ[

نہیں ہوا۔ (

را اور موہن جو داڑو ہوں یا دیوندرستیارتھ[ کے لئے اس دھرت[ کے عظیم تہذیب[ ورثے ناقابل تقسیم ہیں۔ خواہ وہ ہڑپ

کس[ بھ[ علاقے ک[ لوک روایت اور اس ک[ رنگا رنگ وراثت یعن[ ہماری زبان یا کھجوراہو، ایلورہ اجنتا ہو کہ اردو

جمع کر نے میں صر� کیا ہے۔ وہ شناخت۔ دیوندر ستیارتھ[ نے اپن[ عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ لوک گیتوں کو

آاغوش میں پلنے بڑھنے والے معصوم دیہاتیوں اور قبائلیوں کے ساتھ ان کے غموں بست[ بست[ گھومے ہیں۔ فطرت کے

آازادم کے مصداق ہزاروں کو اور خوشیوں میں شریک ہوئے ہیں۔ ایک بنجارے ک[ طرح ،بندہ عشقم و ازہر دو جہان

جن س کے سفر طے کئے ہیں اور وہ جہان اندر جہان بھ[ دیکھے ہیں جو میر تھے۔ دیگر‘ کے لفظوں میں ’ جہا

آافاقیت اسے ڈھونڈ ھ نکالنے آافاقیت چھپ[ ہوئ[ ہے، یعن[ انسان[ روح کہ ستیار تھ[ نے ان عوام[ نغمات میں جو

اس تکنیک میں وہ اپنے میں لوک گیتوں کو پرو پرو کر بات کہ[ ہے اور نے اپنے افسانوں ک[ سع[ ک[ ہے۔ انہوں

ان کے ضمیر کے تہ کدوں سارے معاصرین سے مختلف ہیں۔ لاہور ک[ طرح یہ لوک ورثہ بھ[ ان ک[ یادداشت اور

ج[ قریب و بعید ک[ یادوں کے ساتھ لوک گیتوں میں مضمر خواب اور خواہشیں، ملنے میں محفوظ ہو گیا ہے۔ ماض

اور بچھڑنے ،کے سکھ اور دکھ کے ننھے منے جذبے، انسان[ بنیادی نیک[ اور معصومیت کے احوال انہیں تہ

ررک اس طرح یکے بعد دیگر کئ[ کدوں میں گھل مل گئے ہیں۔ ایک یاد دوسری ک[ اور دوسری، تیسری ک[ مح

آاگیں تجربہ بھ[ انگیخت ہو جات[ ہیں۔ یہاں یاد یادیں بر ماض[ عذاب ہ[ نہیں ہے بلکہ ایک خوش کن اور راحت

اپنے سارے پھیلاؤ کے باوجود اکائ[ میں دیکھتے ہیں۔ ا س طرح ان کے ہے۔ اس توسط سے ستیارتھ[ وقت کو

آاتا ہے جس گزشتہ بیس پچیس برسوں میں لکھے ہوئے افسانوں میں مصوری کا وہ عمل اپن[ حاوی صورت میں نظر

آاپ اسے مونتاژ بھ[ کہہ سکتے ہیں۔ کولاژ بھ[، اور اسمبلاژ بھ[۔ فن[ تکنیک کے کے ایک سے زیادہ نام ہیں۔

آاوری آاوری، باز آازاد تلازمہ خیال یا نفسیات[ اصلاح میں یاد آاوری سےanamnasisلحاظ سے اور خواب

بھ[ یاد کر سکتے ہیں۔

Page 53: بیانات

تجربات اور وارداتیں ایک واحدے میں ڈھل جات[ ہیں یا ان کے بکھراؤ اس تکنیک میں بیک وقت کئ[ گوناگوں

اا برقرار رکھنے ک[ سع[ ک[ جات[ ہے۔ ستیارتھ[ کے افسانوں میں ماض[ ک[ یادیں اور لوک گیت کے تاثر کو ارادت

انہیں ذہانت کے ساتھ ربط دیا جا سکتا ہے مگر بہ بظاہر ان میں کوئ[ باہم[ تال میل مربوط ہیں یا بہ باطن تو

یا یہ کہیے کہ کم سے کم دکھائ[ دیتا ہے۔ دکھائ[ نہیں دیتا

جوڑ سے کس[ بندھ[ ساتویں دہائ[ تک کے افسانوں میں پلاٹ ،کردار اور تکنیک بالکل واضح ہے۔ کہان[ جو ڑ

آادھا ادھورا کہیں نہیں چھوٹتا۔ ستیارتھ[ نے ان افسانوں میں لوک گیتوں کے لئے ہے۔ سلسلہ بہت کم ٹوٹتا ہے

اا ہرے رنگ پلاٹ میں ایس[ گنجائشیں نکال[ ہیں کہ وہ سلسلے کے تحت از خود نمایاں ہوتے ہوئے نظر آائیں۔ مثل

رور ہے، وہ کٹھمنڈو میں پیدا ہوئ[، بچپن کے نام ک[ ایک لڑک[ ہے جس کا ء میں صوفیا ۱۹۵۵ک[ گڑیا باپ مص

آایا تھ[ جو اسے انڈونیشیا ئ[ لوک گیت سنایا کر ت[ تھ[۔ سات برس ابتدائ[ برسوں میں اس ک[ ایک انڈونیشیائ[

ک[ عمر سے اسے نیپال[ لوک گیت سننے کا موقع ملا۔ صوفیا خود بھ[ بہت اچھ[ مصور ہے۔ اسے بھ[ مختلف

رطوں میں پروان چڑھنے والے لوک گیت بے حد پسند ہیں وہ خود بھ[ اپنے دوستوں کے درمیان لوک گیت سنات[ خ

دوسری اجنب[ بولیوں کے گیت بڑے چاؤ سے سنت[ ہے۔ ہے اور

میرے ساتھ[ نے اس شرط پر ایک ڈوگری لوک گیت پیش کر نا منظور کیا کہ صوفیا ایک انڈونیشیا ئ[ لوری سنائے

اور ایک نیپال[ لوک گیت جس میں نیپال ک[ روح بول رہ[ ہو۔

منظور ہے‘‘ صوفیا نے وعدہ کیا ’’ہاں ہاں

میرے ساتھ[ نے وہ گیت سنایا جس میں کوئ[ بھگت اپنے بھگوان سے شکایت کرتا ہے۔

تیرے نام ؟ کری جہاں ہر یا میں کئیاں

گھراں جو رو ، بنائ[ لیندی کامے!

Page 54: بیانات

آایاں دھارا ڈنگر ے گ[ چھڈی

آاں کھڈیاں منو

نہوئ[ دھوئ[ لگیاں رسوئ[

آاؤ نائ[ منوئے دے مامے! Rر ا

تیرے نامے !‘‘ جہاں کراں ہر یا! میں کئیاں

میں جورو، مجھے غلام بنائے رکھت[ ہے۔ ڈھور، ڈنگروں کو سامنے نام جپوں ؟ گھر ’’ہے ہری ! میں کس طرح تیرا

آاR منے کے ماموں دھوکر رسوئ[ کا کام شروع کر نہا وال[ پہاڑی چھوڑا )اب جورو کہت[ ہے( منے کو کھلاؤ دو۔

آانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ہے ہری ! میں تمہارا نام کیسے جپوں!۔ ۔ ۔ گیت کا مفہوم بتایا گیا تو نے ہمارے ہاں

قسم ک[ جل پری جب بیاہ کر ہنست[ رہ[۔ میں نے سوچا کہ نیلے لباس وال[ یہ جدید تک کھلکھلا دیر صوفیا

غلام نہیں بنائے گ[ جتنا کہ ڈوگری گیت میں ایک شوہر ک[ تصویر پیش کر کرے گ[ تو شاید اپنے شوہر کو اتنا

تے وقت کس[ لوک کوی نے دکھانے ک[ کوشش ک[ تھ[‘‘۔

یہذا ایک واضح سیاق و سباق رکھتا ہے۔ یہاں ستیار تھ[ نے تمام چیزوں کو ایک مرکز پر جس سمیٹنے ک[ کوشش اقتبا

آاپ محسوس کریں گے کہ افسانہ نگار اپن[ افسانوی اہلیت طور کا بہتر سے بہترcompetencyک[ ہے۔

چاہتا ہے۔ مگر اہلیت ک[ بھ[ اپن[ حدیں ہیں۔ ستیارتھ[ نے ان حدوں کو کبھ[ توڑنے استعمال کرنا و اظہار پر

ک[ سع[ نہیں ک[۔ انہیں کے معاصرین میں عزیز احمد،حسن عسکری ،ممتاز شیریں، منٹو،بیدی اور عصمت

چغتائ[ نے اپنے انفراد کے نقش کو جس طرح نمایاں کیا ہے وہ صورت ستیارتھ[ کے یہاں بہت کم نمایاں ہوت[

پر انتشار ک[ صورت اجاگر ہوت[ ہے۔ وہ ان کے گزشتہ افسانوں کے بعد کے افسانوں میں جس طور۷۰ہے۔ تاہم

آات[ اور یہ[ چیز کے بعد کا افسانہ پل کنجری۷۰ان کو دوسرے افسانوں سے ممتاز بھ[ کرت[ ہے۔ میں نظر نہیں

اس[ نوعیت کا افسانہ ہے اس میں بھ[ ان کا پاشان یا تری افسانے میں سوتر دھار بنا ہوا ہے۔ پاشان یا تری کون

Page 55: بیانات

اور ان کے نشانات میں رچ بس جانا چاہت[ ہے۔ ہے ؟سوائے ستیارتھ[ کے ،جس ک[ روح تاریخ کے مختلف ادوار

آاغاز ان لفظوں سے ہوتا ہے۔ بلکہ رچ[ بس[ ہوئ[ ہے۔ پل کنجری کا

آاR پھرپاشان یاتری کو تاR محل کے سامنے ریت کے گھروندے بناتے دیکھا۔ ۔ ۔ موہن جوداڑو کو سر اٹھائے پر ’’

آاتا ہے۔ کھجوراہو بغل میں دبائے۔ ۔ ۔ ہمیں تو موہن جوداڑو اور کھجوراہو میں بھ[ تاR محل نظر او ر

بانو، کیا دیو یان[۔ اندھا ہاتھ[ سنے گا تو ہنس دے گا پل ک[ طر� میں چہرہ کیا کہانیاں، ہتھیلیوں پر گھٹنوں

کھل[ رہے گھر ک[ کھڑک[۔

جے ہو! جے ہو ! پل کنجری تیری جے ہو۔‘‘

آاپا۔ ۔ ۔ یہ[ تو میں کہہ رہ[ تھ[۔ آائینے کے سامنے بصرے ک[ حور،بانو ’’کہان[ میں پل کنجری۔ جیسے

ااٹھ[؟ملتان سے،جہاں مورا کنجری کا جنم ہوا۔ واہ آاندھ[ کہاں سے آانکھ کا پان[ سوکھنے نہ پائے۔‘‘ دیویان[ کہ

آانکھ کا جادو۔ ری موراں !تیری

رات بھرتھرکت[ رہ[ موراں:

وچوں کوئ[ کوئ[ لنگھ دا‘‘ک’’عشقے دی گل[

جہ نور اور رنواس میں موراں۔ ۔ ۔ آایا کو مہاراجہ کے خزانے میں

گھنگھرو ک[ جھنکار ،سکہ تیرے نام کا واہ ری موراں!

گھوڑے نہیں ہاتھ[ بیچ کر سوئے اوتار اور شہریار۔ ان ک[ زبان پر بچپن کا گیت:

اٹکن بٹکن دہ[ چٹاکن

اگلا جھولے، بگلا جھولے

Page 56: بیانات

ساون میں کریلا پھولے

رفو گر امام عل[ ک[ اور بات جس کے لئے درویش ک[ بات پتھر ک[ لکیر، شلا لیکھ پر درویش کے ساتھ تین

بندر۔ یہ تصویر دیکھتے دیکھتے وہ سوئ[ میں دھاگا پروتا اور کپڑے کے گھاؤ سیتے ہوئےگنگناتا:

پیسے کا لوبھ[ فرنگیا

دھوئیں ک[ گاڑی اڑائے لئے جائے

درویش نے کہا تھا۔‘‘ ’’گھاٹ پر جانے سے پہلے جوتے مت اتارو‘‘

اپنے دماغ ہ[ میں سہ[ ایک سلسلے میں پرونا آاپ ایک سے زیادہ بار پڑھیں۔ تب بھ[ کہان[ کو اس اقتباس کو

آاتا ہے۔ ہر پیرا گرا� میں بات کا رخ بدل جاتا ہے۔ بات جملوں میں نہیں کہ[ گئ[ ہے بلکہ فقروں کا مشکل نظر

رہا ہے۔ پوری کہان[ سے جو تاثر ابھرتا ہے وہ اس[ بیان کر تواتر ہے۔ افسانہ نگار اشاروں اور کنایوں میں اپنا تاثر

رد عمل ہے۔ جسے اپنے ذہن سے جھٹکنا ستیارتھ[ کے بس میں نہیں۔ تقسیم کے کرب اور تقسیم کے المیے کا ر

یادوں ک[ جھڑی س[ لگ[ ہوئ[ ہے۔ مگر افسانہ نگار کو پھر بھ[ تھوڑا بہت انہیں باندھنے ک[ اہلیت ہے۔ جب

رورانہ اسمبلاژ کو لاژ کا عمل دخل زیاد ہ ہو گیا ہے۔ فرق بس اتنا و کہ ادھر پانچ دس برسوں کے افسانوں میں مص

ہروکا م ہے کہ کولاژ میں ارادہ کام کر تا ہے اور جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ستیار تھ[ کے یہاں محض ایک

آاپ بنات[ ہوئ[ جا رہ[ ہے۔ ان کہانیوں میں ستیارتھ[ کے مختلف نام بھ[ تواتر کے ساتھ کر رہ[ ہے۔ جو اپن[ راہ

ستیہ کام وغیرہ، ایک ازل[ مسافر۔ آاتے ہیں۔ پاشان یاتری کے علاوہ امرت یان اور

دائرہ ‘دائرے میں ایک سیدھ[ لکیر۔ ’’دائرہ در

امرت یان کا ایک نام ستیہ کام۔ وقت کروٹ بدلتا ہے کہو اب کون س[ تصویر دیکھو گے ؟

Page 57: بیانات

ہان کہ[ سرگوشیاں نام ،تیرا میرا ‘کتھا سرکس جو ڈراتا ہے ،خود اپنے سے پوچھتا ہے۔ کیا تمہیں،قلم قبیلہ،نام۔

آاتا ؟کہیں موسم خراب نہ ہو جائے ،کویتا ک[ ماں! ہنسنا نہیں

آارزو۔ گفتگو میں جستجو ،جستجو میں

آارزو میں کتھا سرکس۔ ہم چشم دید تماشائ[۔ بس یہ[ سوچتے رہتے ہیں کہ زندہ رہنے کا کیا مقصد ہے! اس کے

آائے تو برا کیا ہے۔ باوجود!وجود مفت ہاتھ

آاواز میں۔ ۔ ۔ سڑک پر چلا رہا ہے اخبار کا ہاکر۔ ۔ ۔ ۔ پنچم سے بلند

ہ[ رہا۔ کبھ[ کبھ[ کتھا سرکس اداس ہو جاتا ہے۔ صبح کا تازہ اخبار نام۔ ۔ ۔ ویت نام۔ ۔ قصہ ادھورا نام تیرا میرا

آاپ میں گم ہیں۔‘‘ آایا۔ ہم جانتے ہیں،ہم کیا ہیں۔ ایک نہ ایک معصوم سوال۔ کیا ہم اپنے آاR نہیں

باہر کا طویل تر سفر ہے۔ جہاں اور اس اقتباس میں گزشتہ اقتباس سے زیادہ بکھراؤ ہے۔ یہ پاشان یا تری کا اندر

آاتے ہیں۔ جیسے مختلف رنگوں ک[ تصویروں کو گڈ مڈ کر کے کس[ کینوس پر جو ڑ ٹھہراؤ کے لمحے کم ہ[

کا نام دیا جاتا ہے۔anacoluthonدیا جائے۔ تحریر میں اس طرح ک[ صورت کو نحوی بے قاعدگ[

کوئ[ مضائقہ نہیں مگر کتھا سرکس ‘ پل افسانے میں اگر اس قسم ک[ صورت کہیں کہیں پیدا ہو جا ت[ ہے۔ تو

ایک سال اورجے امرت شان میں ریزہ خیال[ اپن[ انتہا پر ہے۔ ادھر ادھر سارے بکھرے کنجری ‘ کفن، ایک سو

صلاحیت ہوئے سروں کر جوڑ کر چلنے کا کام قاری کا ہے۔ وہ جوڑ کر کیسا پیکر بنا تا ہے۔ یہ اس ک[ اہلیت اور

پر مبن[ ہے۔

ستیارتھ[ کو اب صر� اپنے سوانح پر دھیان دینا چاہئے کہ وہ اب بھ[ لکھ رہے ہیں اور سوچنے کے عمل سے

کس[ نہ کس[ حد تک جڑے ہوئے ہیں۔

)یہ مضمون ستیارتھ[ کے انتقال سے پہلے لکھا گیا تھا(

Page 58: بیانات

نوعیت کی آائرنی میں رو خواب: ناول کے پال جوگندر

’’خواب رو‘‘ کا تھیم جوگیندر پال کا مرغوب ترین تھیم ہے، جسے انہوں نے افریق[ کہانیوں سے لے کر

آامدورفت‘‘ اور ’’کھلا‘‘ تک کے اکثر طویل و مختصر افسانوں میں برتا ہے۔ یہ تھیم، دراصل ان کا اور ان ک[ ’’

آادم[ جسمان[ سطح پر ہ[ اپن[ سر زمینوں معاصر نسلوں کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ ہجرت بالجبر ہو کہ بخوش[،

سے علاحدہ نہیں ہو جاتا بلکہ اس کا پورا ذہن[ اور تہذیب[ وجود ہ[ علاحدگ[ کے عذاب سے دوچار ہوتا ہے۔

آاب و ہوا، ایک نیا جائے وقوع مہیا کرتے ہیں اور وہ بہ باطن ایک کہیں دوسرے اجنب[ دیس اس کے لیے ایک نئ[

مسلسل تنہائ[ کے گہرے غار میں اترتا چلا جاتا ہے اور کہیں اپنے ہ[ دیس میں اسے ایک بالجبر زندگ[ کرن[

پڑت[ ہے۔ اسے جب اپن[ ہ[ قوم شک و شبہ ک[ نگاہ سے دیکھت[ ہے، اس ک[ تہذیب اور اس کے عقائد کو

جھٹلانے کے نت نئے بہانے تلاش کرت[ ہے، روزگار کے باب اس پربند کر دیے جاتے ہیں اور محض ذلت، بھوک،

خو� اور بے یقین[ اور یکے بعد دیگرے ہجرت کے دکھ اس ک[ تقدیر کے دوسرے نام بن جاتے ہیں تب اسے

اپنے پیروں تلے زمین کا بالشت بھر ٹکڑا بھ[ دھوکا معلوم ہوتا ہے۔ وہ کسے اپنا وطن کہے، کسے اپنا رفیق ، کسے

اپنا رہنما۔

جوگندر پال نے اس مسئلے کو ایک تلخ ترین حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس حقیقت کا ایک سراغ انتظار

حسین کے فن میں ملتا ہے۔ ان کے اکثر افسانے اور بالخصوص ان کا ناول ’’بست[‘‘ اس[ تھیم کا دوسرا عنوان ہے۔

انتظار حسین اور جوگندر پال کے فن[ برتاؤ میں قطبین کا فرق ہے۔ مگر بعض اعتبار سے دونوں میں بلیغ مماثلتیں

ج[ بھ[ پائ[ جات[ ہیں۔ دونوں معاصر ہیں، دونوں مہاجر، فن ک[ حدود میں دونوں تجربہ پسند، جہاں تک ادائیگ

Page 59: بیانات

تھیم اور تلفیظ)ڈکشن( اور ماض[ فہم[ کا تعلق ہے دونوں کے احساس و ادراک کے طرز میں ترجیح ک[ بنا ایک

دیتے ہیں وہاں دوسرے ک[ ضد پر قائم ہے۔ یہ[ سبب ہے کہ انتظار حسین جہاں فاصلے کو وسیع سے وسیع تر کر

جوگندر پال فاصلے ک[ ہمیشہ ایک حد قائم کر لیتے ہیں۔ حال جوگندر پال کا مرغوب صیغہ ہے اس[ نسبت سے

ان ک[ افسانوی دنیا کا سارا کا سارا تناظر انتہائ[ قریب ترین اور سامنے کا محسوس ہوتا ہے۔ جہاں کہیں انہوں نے

ماض[ ک[ طر� نگاہ ک[ ہے۔ نگاہ ہر بار لوٹ کر اپن[ پتل[ میں جذب ہو جات[ ہے۔ انتظار حسین ک[ طرح

ماض[ بعید سے نت نئے رشتے نہیں قائم کرت[۔ باوجود اس کے دونوں کا کرب اور دکھ یکساں ہے۔

آاپ میں ڈوبنے کے بجائے دوسروں میں ڈوب کر آاگے جست لگائ[ ہے۔ انہوں نے اپنے جوگندر پال نے ایک قدم

جغ زندگ[ پایا ہے کہ وقت یا سیاست ک[ ماری ہوئ[ خلقت جہاں کہیں بھ[ ہے اس سے ان کا درد کا رشتہ سرا

جر مشترک ہے جسے پال نے اپن[ اکثر کہانیوں کا تھیم بنایا ہے۔ ہے۔ یہ[ وہ قد

آائرن[ آائرن[ ہے۔ اور یہ آاخر تک ایک anachronistic’’خواب رو‘‘ میں شروع سے

perspective]ک[ کوکھ سے جنم لیت[ ہے۔ جہاں وقت ہ[ گڈ مڈ نہیں ہو گیا ہے۔ بلکہ مقامات ک

جل خواب سے زیادہ نزدیک ہے۔ خواب جل حقیقت سے کم عم وحدتیں بھ[ تہس نہس ہو گئ[ ہیں۔ یہ صورت عم

میں وقت ک[ رو کا اپنا رخ اور اپن[ رفتار ہوت[ ہے۔ جس طرح کس[ چیز کے یکایک غیاب میں چلے جانے کا

کوئ[ جواز واضح نہیں ہوتا اس[ طرح یکایک کس[ چیز یا واقعے ک[ رونمائ[ ک[ پشت پر بھ[ کوئ[ صا�

آانکھوں سے اوجھل ہوتا ہے۔ اور صورت دکھائ[ نہیں دیت[۔ بہت کچھ دکھائ[ دینے کے باوجود بہت کچھ

آانکھیں نہیں ہوتیں بلکہ داخل[ بینشں ہوت[ ہے۔ چوں کہ سارے مشاہدے اور تجربے دیکھنے وال[ ہماری خارج[

ک[ اساس ہ[ داخل[ بنیشں پر ہوت[ ہے۔ اس لیے اس کے ردہائے عمل بھ[ ہماری روزمرہ ک[ زندگ[ سے قطع[

مختلف ہوتے ہیں۔

اگتھ گئے ہیں کہ ایک کو دوسرے جوگندر پال کے ناول ک[ ساخت میں خواب اور حقیقت ایک دوسرے میں اتنے

علاحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ قیاس بھ[ مشکل ہے کہ خواب کہاں تک خواب ہے۔ اور حقیقت کس حد تک

Page 60: بیانات

حقیقت ہے۔ پال نے دونوں کو ایک دوسرے میں ضم کر دیا ہے۔ ایک لکھنؤ محض خواب ہے اور دوسرا حقیقت،

آائرن[ جو دوسرا حقیقت ہے وہ بھ[ محض ایک خواب ہے۔ جوگندر پال نے دیوانے مولوی صاحب کے حوالے سے

کے اس تضاد کو بڑی فنکارانہ چابک دست[ کے ساتھ ابھارا ہے۔ جو تلخ بلکہ انتہائ[ تلخ بلکہ ضرب کار اور

حوصلہ شکن ہے۔

دیوانے مولوی صاحب ان لاکھوں انسانوں میں سے محض ایک ہیں۔ جنہوں نے ایک نئ[ مملکت کے خواب

دیکھے، اس خواب کو اپنے ذہنوں میں مدتوں رچایا اور بسایا اور جب اس ک[ تعبیر ان ک[ تقدیر بن[ تو وہ ہکا بکا

تھیں، اجالے اگر داغ داغ تھے تو ان کے رہ گئے۔ یہاں اگر سحر، شب گزیدہ تھ[ تو اس ک[ وجوہ کچھ اور

اسباب بھ[ قطع[ مختلف تھے۔ اسباب خواہ کچھ ہوں، وطن عزیز ک[ تقسیم ایک زندہ حقیقت کے طور پر عمل

آا کے رہ[۔ میں

جوگندر پال نے دیوانے مولوی صاحب ک[ صورت میں ان ہزاروں لاکھوں معصوم انسانوں ک[ زندگ[ اور ان ک[ ذہن[

جت حالات ک[ ترجمان[ ک[ ہے۔ جنہیں تقسیم کے بھیانک نتائج کا احساس تھا نہ اس و جذبات[ کیفیات اور صور

بات کا علم کہ اپنے پیروں تلے ک[ مٹ[ کو تج دینے کے بعد ک[ صورت کتن[ غیر متوقع ہو گ[۔ المیہ اور وہ بھ[

اا نیک انسانوں کو اس غیر متوقع صورت کا احساس بھ[ بھیانک المیہ یہ کہ مولوی صاحب جیسے حساس اور طبع

نہیں ہے۔ کیوں کہ وطن عزیز تو اب بھ[ ان ک[ یادداشت میں محفوظ ہے۔ جو ان کا معمول ہے، ان ک[ عادت

ہے ان ک[ شناخت ہے اس سے بچھڑنے کے معن[ اپن[ شناخت کھو دینے کے ہیں۔ ا ور شناخت کھودینا اپنے

آائرن[ یہ کہ مولوی صاحب اپنے تئیں لکھنؤ ہ[ میں بسر کر رہے ہیں اور ان کے حواس سے منقطع ہو جانا ہے۔

حواس بھ[ خبطہیں۔

مولوی صاحب انہیں لوگوں میں سے ایک ہیں۔ جنہوں نے ایک نئ[ مملکت کا نعرہ بلند کیا ہو یا نہ کیا ہو بہ باطن

آان میں اپنے تہذیب[ اور آان ک[ آاخر ایک نئے ملک ک[ ولادت ہو گ[۔ اور انہیں انہیں یہ یقین ہ[ نہیں تھا کہ بال

موروث[ اثاثوں، روز مرہ ک[ معمول[ اشیا، قریب و دور کے رشتوں ، عزیزوں اور پرکھوں ک[ قبروں اور دیگر ان تمام

Page 61: بیانات

حوالوں کو خیر باد کہہ دینا پڑے گا جن سے ان ک[ ذات اپن[ پہچان قائم کرت[ تھ[۔ خوشیوں کا اپنا طور تھا۔

دکھوں ک[ اپن[ لذت تھ[۔ مولوی صاحب کے علاوہ اور ہزاروں ہزار افراد ہیں جنہیں ہجر ت کے اس شدید کرب

یلہ سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ مگر خیر ہو زندہ یاد آاباد، ان کا دہل[، ان کا امروہہ ، ان کا ا داشتوں ک[ کہ ان کا حیدر

آاباد اور ان کا لکھنؤ ان ک[ سانسوں میں رچ بس گیا ہے۔ وہ[ گل[ کوچے وہ[ دکانیں، وہ[ شور، وہ[

آاباد وحدتوں کو ریزہ ریزہ نہیں کر آاداب، وہ[ انداز گویا مملکتوں کو قطع کرنے والے خطوط ذہن ک[ سکوت ،وہ[

سکے۔

بقول جوگندر پال:

آاتے جاتے رہتے ہیں مگر مقامات ہمیشہ وہیں مقام کیے رہتے ہیں‘‘۔ ’’لوگ

مگر حقیقت تو کچھ اور ہ[ ہے۔ مولوی صاحب اپنے خواب میں مست ہیں۔ ان ک[ محبوب بیوی اچھ[ بیگم بھ[

ان ک[ دیوانگ[ سے پوری طرح واقف ہیں۔ مگر وہ یہ بھ[ جانت[ ہیں کہ نیندوں میں بسر کرنا خواہ کتنا ہ[ فریب دہ

رفاک ترین عمل سے اس ک[ مدت اور اس کا نقصان کم ہ[ ہے۔ مولوی صاحب کا پودا عمل ہو، حقیقت کے س

آاب و ہوا، جہاں ک[ مٹ[ ک[ خوشبو، جہاں کے نشوونما اب ایک ایس[ سرزمین میں لگا دیا گیا ہے۔ جہاں ک[

آاداب قطع[ مختلف ہیں۔ اس منطقے میں نہ تو ان ک[ زبان کو سمجھنے اور برتنے والے ہیں نہ ان ک[ تہذیب کے

جب زندگ[ کے قدر شناس ہیں۔ وہ تو وہاں کے قدیم باشندوں پر بس تھوپ دیے گئے ہیں۔ آادا اور ان کے

اچھ[ بیگم نہیں چاہتیں کہ مولوی صاحب کے ارد گرد جو التباس ک[ چادر تن[ ہوئ[ ہے۔ اس میں چاک پیدا ہو

جت حال ک[ کڑواہٹوں اور ظلمتوں کو انگیز نہیں کر پائیں گے۔ اچھ[ بیگم ان جائیں کیوں کہ مولوی صاحب حقیق

جن عزیز ،اچھ[ بیگم کو ان ک[ نیندیں ان کا طویل ترین مسلسل خواب ک[ محبت ہیں اور وہ اچھ[ بیگم ک[ جا

یرت[ کہ مولوی صاحب کا بلکہ ان کا پاگل پن بھ[ عزیز ہے کہ پاگل پن ان کے بہت سے غموں کا دافع ہے۔ ح

Page 62: بیانات

ربو کے حق میں ایک رحمت ربو ک[ دیوانگ[ کو ا آادم[ بھ[ اپنے ا چھوٹا صاحبزادہ اسحق مرزا جیسا حقیقت پسند

قرار دیتا ہے۔ اس کا یہ خیال بھ[ کم عبرت ناک نہیں کہ:

’’جو مہاجرین اپنے چھٹے ہوئے مقامات ک[ دید کو ترستے رہتے ہیں انہیں زبردست[ پاگل پن کے ٹیکے لگا دیئے

آازاد ہو کر وہ اپنے اولین جائیں۔ ایک لمحے ک[ چبھن ہ[ تو ہے، جس کے بعد سرکاری شعبوں کے ضابطے سے

مقامات پر ہنستے کھیلتے بسر کرنے لگیں گے۔‘‘

جمgeneration gapیہاں دونوں نسلوں کا فرق واضح ہے۔ ایک مولوی صاحب ک[ صورت میں جو تقسی

جض پاکستان ہے۔ یحق مرزا ور ہاشم عل[ ک[ شکل میں جن کا مؤلد ار وطن سے قبل ک[ پیداوار ہیں۔ ا ور دوسری اس

آاخر کس[ نہ کس[ لمحے پر ٹوٹنا ہ[ تھا۔ دیوانے مولوی آاخر ایک حد ہے۔ اس لمب[ نیند کو بال خواب ک[ بھ[

صاحب کے ساتھ بھ[ خواب شکن[ کا حادثہ ہو کر رہا۔ تقسیم کے بعد وہ اپنے لکھنؤ میں بھ[ کہاں سکون سے

تھے۔ کبھ[ کس[ جگہ مقام[ اور غیر مقام[ کے مابین تلواریں چل جات[ ہیں۔ کہیں خنجر زن[ ک[ وارداتیں،

کہیں لوٹ مار، چوری ڈکیت[ اور کہیں بم کے دھماکے۔ مولوی صاحب کے نزدیک اس ساری افراتفری اور خلفشار

آائرن[ ہے آابادی کا توازن بگاڑ دیا ہے )کتن[ بڑی کے پیچھے ان سندھیوں اور پنجابیوں کا ہاتھ ہے جنہوں نے مقام[

کہ مولوی صاحب خود اس الزام کے مورد ٹھہرتے ہیں( ایک دن نواب محل کے پائیں باغ میں ایک طاقتور بم کا

دھماکہ ہوتا ہے اور چشم زدن میں مولوی صاحب کا ہرا بھرا خاندان تہس نہس ہو جاتا ہے۔ ان ک[ دکھ درد ک[

ریا زندہ درگو رہو جاتے ہیں۔ جیسے شریک بیوی اچھ[ بیگم، نواب بیٹا، بہو چاند ب[ ب[ اور ان ک[ لاڈل[ نواس[ ثر

کوئ[ یکایک کس[ بھیانک خواب سے دو چار ہو اور چیخ مار کر بستر سے اٹھ جائے۔ مولوی صاحب بھ[ یک دم

نیند سے چونک پڑے۔ اب انہیں پتہ چلا کہ وہ ف[ الواقعہ کراچ[ ہ[ میں ہیں۔ جیسے وہ ابھ[ ابھ[ لکھنؤ سے

آائرن[ تو مولوی صاحب ک[ بحال[ ہوش کے آائرن[ کو رفع نہیں ہونے دیا ہے۔ آائے ہیں۔ جوگندر پال نے اس کراچ[

بعد بھ[ برقرار ہے۔ اس معن[ میں کہ مولوی صاحب کے لیے ان ک[ چہیت[ بیوی، نواب مرزا، چاند ب[ ب[ اور ننھ[

ریا اب بھ[ لکھنؤ میں ان ک[ واپس[ کے منتظر ہیں۔ ایک خواب کے بعد یہ دوسرا جو پہلے سے بھ[ س[ جان ثر

Page 63: بیانات

آاغاز یہ ہے کہ اب تو وہ عزیز از جان افراد خانہ بھ[ ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو زیادہ بھیانک خواب کا

چکے ہیں، جنہیں ان ک[ دیوانگ[ بھ[ عزیز تھ[، جو ان کے بے لوث درد مند تھے جو ان کے صحیح معن[ میں

آائرن[ کے اس پہلو کو بڑی فنکاری اور چابک دست[ کے ساتھ ابھارا ہے۔ رفیق و شفیق تھے۔ جوگندر پال نے

جت حالات کا بشری نقطۂ نظر سے جائزہ لیا ہے یہ نقطۂ نظر ہ[ ان کے ناول کا پلاٹ ہے۔ جوگندر پال نے تمام صور

جت حالات کے شکنجے میں وہ پھنسے جس میں ظالم نہ تو ظالم ہے اور نہ مظلوم اتنا مظلوم۔ کیوں کہ جس صور

آاہستہ ایک پورے اجتماع کو کس[ نا معلومdestinyہوئے ہیں وہ ان ک[ آاہستہ ہے۔ جو

catastropheک[ طر� کھینچے لیے جا رہ[ ہے۔ بلکہ اسے ایک وسیع تر ironical

situationکہنا زیادہ درست ہو گا۔ جس میں ساری ک[ ساری خلقت دو مختلف دھڑوں میں بٹ گئ[ ہے۔

اور دونوں دھڑے ایک ہ[ تصویر کے دو رخ ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے غلط، ایک دوسرے کے دشمن، ایک

دوسرے کے مقابل و متقابل۔

بوالعجب[ ہ[ ہے کہ اتنے بہت سے برسوں کے بعد بھ[ سندھ[ اور مہاجر کے مابین تہذیب[ دوئ[ برقرار ہے۔ اس یہ

دوئ[ نے ہ[ تفرقوں ک[ گہری خلیجیں پیدا کر دی ہیں۔ جہاں فاصلہ ہے وہاں شکوک ہ[ پروان چڑھتے ہیں اور ہر

آائرن[ کو اجاگر جت حال ک[ آاسیب بن جاتے ہیں۔ جوگندر پال نے اس صور دو فریق ایک دوسرے کے حق میں

پال ایک کے حق میں ہے۔ جوگندرironicalضرور کیا ہے اور چوں کہ ہر دو فریق ک[ پوری سیچویشن ہ[

جد فن ہے جو دوسرے کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے بلکہ اس زبردست تضاد کو نمایاں کر کے دکھانا ہ[ ان کا مقصو

جت حال ک[ ہر سطح پر قائم ہے۔ بشری باہم[ عدم فہم[ ہ[ اس بے حس[ ک[ زایدہ ہے جس ایک مخصوص صور

جرس تمیز ہ[ کو معطل کر دیا ہے۔ جح نے انسان[ رشتوں ک[

یحق مرزا یحق مرزا بھ[ ہے جو دیوانے مولوی صاحب جیسے مہاجر کا چھوٹا لڑکا ہے۔ اس جت حالات میں اس اس[ صور

آاہنگیوں کا گہرا شعور ہے اس نے تمام نفرتوں اور مخالفتوں کے باوجود ایک سندھ[ لڑک[ سے شادی کو موجود نا

کر ل[ ہے اور اس رشتہ زوجیت سے پوری طرح مطمئن بھ[ ہے۔ نواب مرزا ک[ فیکٹری میں اکثریت سندھ[ کارکنان

Page 64: بیانات

شہزادی ک[ ہے۔ حکیم جمال الدین )مہاجر( کا بیٹا ہاشم عل[ بھ[ قدرے ترق[ پسند واقع ہوا ہے، اس ک[ بیٹ[

یحق مرزا ک[ ایک سال[ کلثوم ک[ آامدید کہتا ہے۔ اس ایک سندھ[ سے شادی رچا لیت[ ہے اور وہ دونوں کو خوش

یحق یرت[ کہمرزاشادی کس[ پنجاب[ سے ہوت[ ہے۔ اس کا عزیز تر ین یار غار یاور فقیر محمد ایک پنجاب[ ہے۔ ح

غریب طبقے میں بھ[ اس[ طرح کے رشتے پروان چڑھ رہے ہیں۔ جیسے عزیز جو کہ مہاجر ہے اس ک[ بیوی کا

آاہنگیوں کے مظہر ہیں اس[ فضا میں نشوونما پا تعلق ایک سندھ[ خاندان سے ہے۔ یہ رشتے جو نئ[ رفاقتوں اور نئ[

رہے ہیں۔ جہاں نفرتوں نے ایک کو دوسرے کا نقیض بنا دیا ہے۔

آاخر میں نمایاں ہوتا ہے۔ مولوی صاحب کے نواب محل میں جب آائرن[ کا سب سے عبرت ناک پہلو ناول کے اس

بم دھماکہ ہوتا ہے۔ اور ان کے بیش تر عزیز و اقارب اس حادثے ک[ نذر ہو جاتے ہیں۔ ایسے بحران[ حالات میں ان

اا سندھ[ ہے۔ کا باورچ[ سائیں بابا ہ[ ان ک[ ڈھارس بنتا ہے۔ جو نسل

ریا ملبے ک[ قبر میں دفن تھے اور ان کے اپنوں کے نواب بیٹا اور چاند ’’ان ک[ اچھ[ بیگم اور ب[ ب[ اور چہیت[ ثر

بجائے ایک غیر شخص، ان کا باورچ[، جس کے ہم ذاتوں کے باعث یہ بلا نازل ہوئ[ تھ[ انہیں سہارا دینے کے

آائے تو محبوب سا لگتا ہے لیے ان ک[ طر� بڑھ رہا تھا۔ جب اور کوئ[ نہ ہو اور دشمن ہ[ سہارا دینے کے لیے بڑھ

آا جاتا ہے، سو دیوا نے مولوی صاحب بھ[ اور اس[ ک[ بغلوں میں سر دے کر پھوٹ پھوٹ کر رو دینے سے چین

آا لگے اور اتنا روئے کہ ان کے ہوش و حواس بہ حال ہونے لگے‘‘۔ بے اختیار سائیں بابا کے سینے سے

ی[ ہ[ ہے آائ[ تھ[۔ وہ سلم ی[ تھ[ جو سندھ[ گھرانے سے دوسری طر� باقیات میں سے ان ک[ چھوٹ[ بہو سلم

جن خانہ ہے۔ جس نے مولوی صاحب اور ان کے بچے کھچے چھوٹے بڑے افراد کو اپنے سینے جو بڑوں میں تنہا خاتو

سے لگا رکھا ہے۔ اس ک[ مادرانہ شفقت اور احساس ذمہ داری تمام مغالطوں ک[ دافع ہے۔ انسان دراصل اپن[

کلیت میں انسان ہ[ ہے۔ جوگندر پال انسان ک[ بنیادی نیک[ اور معصومیت کو برحق ، اس ک[ وحشت ناک[،

آائرن[ یہ آاز اور اس ک[ بدی کو طویل عرصہ رواں کا محض ایک کمزور ترین لمحہ قرار دیتے ہیں۔ اس کے حرص و

جت حال کہ انسان، بشری فہم سے عاری ہوتا جا رہا ہے اسے اپن[ ضدوں، اپن[ سائیک[ ک[ پیچیدگ[ اور اپن[ صور

Page 65: بیانات

آاہنگیوں کا شعور ہ[ نہیں ہے جس کے باعث وہ اپن[ سر زمین پر ہ[ کس[ اجنب[ ک[ طرح لخت[ اور نا ک[ دو

زندگ[ بسر کرنے پر مجبور ہے۔

جوگندر پال نے ایک نہایت ہ[ نازک ترین مسئلے کو اپنے ناول کا موضوع بنایا ہے، قدم قدم پر ان کے بہک جانے

آا ہوئے ہیں۔ وہ انہ[ کا کا ڈر تھا مگر جس کامیاب[ بلکہ فن کارانہ کامیاب[ کے ساتھ وہ اپنے موضوع سے عہدہ بر

حصہ ہے۔ ان کے تجربے میں بڑی گہرائ[ ،پختگ[ اور صلابت ہے۔ ناول نگار کا فن وہاں اپنے عروR پر ہوتا ہے

ٹوک ہو نیز اس کا نقطۂ نظر اس کے فن میں ایک دوسرے ک[ جہاں ناول نگار اپنے نقطۂ نظر میں واضح اور دو

آاہنگ اور لمحہ سکوت ک[ ایک تکمیل ک[ صورت میں حل ہو جائے۔ ’’خواب رو‘‘ اس[ فن[ ارتکاز، دھیمے

شکیل ترین صورت ہے۔

Page 66: بیانات

تجربے کے ہئیت اور تکنیک: ناول اردو

ناول ادب ک[ ایک اہم ترین صنف ہے۔ ہمارے یہاں ناول ک[ تاریخ زیادہ سے زیادہ سو سوا سو برسوں اور مغرب میں

ڈھائ[ تین سو برسوں پر محیط ہے۔ تاہم یہ سوال جوں کا توں قائم رہتا ہے کہ ناول کے خصوص[ فن میں کون س[

ہئیت یا کہان[ ادا کرنے ک[ کون س[ تکنیک معیاری کہ[ جا سکت[ ہے یعن[ شاعری ک[ شعریات کے علاوہ

رون کیا جا سکتا ہے۔ شاعری محض اسلوب کے نام رتب یا مد فکشن ک[ اپن[ افسانویت کیا ہے یا اسے کس طرح مر

پر زندہ رہ سکت[ ہے، اس کے پاس لفظوں کو بے قاعدہ ، بے اصولے طریقے سے برتنے اور لفظوں کے نئے معنیات[

قرینے خلق کرنے کے اپنے جواز ہوتے ہیں۔ جب کہ فکشن میں زبان کے اندر اور اندر چھپے ہوئے لامحدود تخلیق[

اور تخئیل[ امکانات کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ لیکن زبان کے قواعد کو شاعری کے مقابلے پر توڑنا کم ہ[

ممکن ہوتا ہے۔ شعور ک[ رو ک[ تکنیک کے تحت مغرب ک[ مثالوں میں تو یہ ٹوٹ پھوٹ بہت نمایاں دکھائ[

ج� عطف جت ضمیر اور نہ حرو دیت[ ہے۔ لیکن ہمارے یہاں کس[ بھ[ ناول نگار نے نہ تو اوقا� ، نہ واوین، نہ اشارا

جل اقتباس ک[ رو میں حذ� کرنے ک[ سع[ ک[ اور نہ ہ[ کاcapital lettersوغیرہ کو ذہن[ و فطری عم

رور ہمارے یہاں قائم ہو سکتا ہے جس کے تحت اسما ک[ تخصیص متعین ک[ جائے۔ و ضمائرء کوئ[ تص

یا بے ربطیاں یا پر سکوت وقفے ضرور واضح ہو جاتےpausesتھوڑے بہت فقروں اور جملوں کے درمیان فطری

ہیں مگر اس عمل میں بھ[ )فہیم اعظم[ کے ناول جنم کنڈل[ کے استثنا کے ساتھ( شدت کم سے کم ہے۔

لغات سے چھیڑ چھاڑ یا لفظوں کے نئے قرینے وضع کرنا تو بہت دور ک[ بات ہے، مروجہ لغات کے علاوہ انہ[

ئن کا استعمال ضرور کیا گیا ہے جو عوام میں رائج ہو چکے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شاعری زمان وانئے قر

مکان کا ایک دھندلا سیا ق و سباق رکھنے کے باوجود اسے اپنے لیے شرط کے طور پر قبول نہیں کرت[۔ شاعری

Page 67: بیانات

میں کئ[ زمانوں کا سفر لمحوں میں طے کر لیا جاتا ہے اور اس منطقے میں زبان جو اندر سے دھند قائم کرت[ ہے،

چوند کرنے وال[ ہوت[ ہے۔ اس کے برعکس فکشن میں زبان کا عمل کئ[ دوسرے باہر ک[ روشنیوں سے زیادہ چکا

آازادیاں اور کھل کھیلنے کے مواقع فراہم کرت[ تکنیک[ مقاصد کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ اس[ لیے شاعری جس قدر

ہے ، فکشن ک[ فطرت سے بعید تر ہے۔ شاعری میں زبان اپنے بہترین تخلیق[ جوہر کے ساتھ وارد ہوت[ ہے جب کہ

آاگیں اور اکثر مبہم فکشن میں تخلیق کے اس جوہر ک[ کم[ کو اس میں نمو پانے والے واقعات و کردار کے رمز

ار کرتے ہیں۔situationsاور غیر یقین[ رشتے ا ور علامت[ معنویتوں سے بھری ہوئ[ اور ان کے سیاق و سباق پ

ان ذیل[ حقائق کے باوجود ناول ک[ ہئیت اور تکنیک ک[ معیار بندی ایک مشکل تر عمل ہے۔

حجم کے لحاظ سے اگر عزیز احمد کے طویل افسانوں کے علاوہ ہاؤسنگ سوسائٹ[ ایک ناول ہے تو ندی یا پان[

کو کیوں محض ایک ناولٹ قرار دے کر ناول کے زمرے سے الگ رکھا جا سکتا ہے۔ ناول تو لہو کے پھول بھ[

جر جہاں دراز بھ[ ایک نوعیت میں دستاویزی ہے۔ جو اپنا مواد ہے جس ک[ اپن[ ایک دستاویزی حیثیت ہے اور کا

سوانح سے اخذ کرتا ہے اور حجم میں کئ[ اہم ترین ناولوں سے ضخیم بھ[ ہے بسیط بھ[۔ ان ک[ نسبت کیا گیان

بیچ کو ہم ناول میں شمار نہیں کریں گے۔ عبداللہ حسین کے ناولے سنگھ شاطر یا ندا فاضل[ کے دیواروں ک

آاخری ڈیڑھ دو سو صفحات میں شعریت کوٹ کوٹ کر بھری ہے لیکن واقعات[ رو میں یہ حصہ ضرورت باگھ کے

سے زیادہ طویل ہو گیا ہے، تاہم یہ بھ[ ایک اہم ناول ہے اور ابتدائ[ دو ڈھائ[ سو صفحات پر مشتمل تاریخ و

آاگ کا دریا‘‘ ناول ک[ تاریخ میں ایک اہم ترین واقعہ ہے۔ تہذیب اور فلسفوں ک[ انضمام[ جز رس[ کے باوجود ’’

اسباب و علل کے قطع[ سلسلے کے مطابق لکھے گئے ایک چارد میل[ س[ ، مکان ، گھروندہ، یا شب گزیدہ یا

دو گز زمین جیسے ناولوں کا اپنا ایک مقام ہے تو اس[ قطعیت سے بے دردانہ انحرا� ک[ مثالوں میں سنگم،

جن وجود یا خواب رو جیسے ناولوں کا اپنا ایک فن[ کردار ہے۔ کوئ[ ناول جیسے عل[ پور کا ایل[، گھروندہ، کاروا

)شہاب( ایک چادر میل[ س[)رانو( یا مکان)نیر ا(کس[ ایک کردار کے تلازمے سے زندگ[ ک[ حیرتوں ، المناکیوں

اور بوالعجبیوں کو اس[ طور پر اخذ کرتا ہے کہ فن اور زندگ[ کے مابین فکشن ک[ گہری یا دھندل[ س[ لکیر بھ[

Page 68: بیانات

آاخر شب کے ہم سفر کے بے شمار کرداروں کے جھرمٹ بھ[ محو ہو جات[ ہے۔ تذکرہ، بست[، اداس نسلیں اور

جن افتاں و خیزاں کے مظہر ہیں، جہاں اندیشہ و امکان ک[ کوئ[ لکیر اپنے عمل و ردہائے عمل کے ایک ایسے جہا

ریال اور اتنا وسیع ہے اور اس رطح نہیں دکھائ[ دیت[۔ گویا ناول کا فن اپن[ ہئیت میں اتنا س سیدھ[، صا� اور مس

روع اور تغیر پذیر ہیں کہ انہیں کس[ ایک عنوان کے تحت اخذ کرنا کچھ کم دقت طلب ک[ تکنیکیں اتن[ متن

نہیں۔

ایک معن[ میں تو ہر ناول ایک نیا تجربہ ہے کہ مواد کو جذب و قبول کرنے اور ایک دوسرے قالب میں ڈھالنے کے

موہوم ہ[ سہ[ اس کے کچھ اپنے طریقے اور قرینے ہیں۔ دوسرے معن[ میں اگر کوئ[ صنف اپن[ ہئیت کے بعض

آانے والے معیار و اصول سے عاری ہے جیسے نظم، افسانہ اور خود ناول تو وہ بادی مخصوص اور صا� پہچان میں

اا برتنا اتنا ہ[ دشوار گزار ہو گا۔ گزشتہ چار پانچ دہوں میں لکھے النظر میں جتن[ سہل دکھائ[ دے گ[ اس کو عمل

ہوئے ناول اس لحاظ سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں کہ ان میں کس[ ایک خاص ہئیت، کس[ ایک خاص اسلوب

آازمانے سے بالعموم اجتناب برتا گیا ہے۔ بلکہ وہ تکنیکیں جو خاص[ مروR ہو چک[ یا کس[ ایک خاص تکنیک کو

نے بالتکرار استعمال کیا تھا، نئ[ نسلوں نے انہیں یا تو التفات کےروؤںتھیں اور جنہیں ہمارے قریب ترین پیش

لایق کم سمجھا یا اپنے ادراکات پر بھروسہ کر کے انکار و اقرار کے اپنے حدود قائم کیے اور اپن[ ترجیحات ک[

طر� زیادہ توجہ دی۔ ان برسوں میں جو ہئیت و تکنیک کے تجربے کیے گئے انہیں واضح طور پر دو شقوں میں

تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

اصولوں کے مطابق اخذ کیا گیا ہے اورstructuralوہ ناول جن میں پلاٹ کو بنیادی تنظیم[ اور ساخت[

جن میں زمان اپن[ رو کے اعتبا ر سے ایک فطری رفتار رکھتا ہے اور جو ناول کو ایک خاص خارج[ نوع ک[ ہئیت

جت سوس، زمین، خوابوں جش بہاراں، چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو، دش آانگن ، تلا کا سویرا، دارا بھ[ مہیا کرتا ہے۔ جیسے

رنت اب ووس[ ہئیت پسندوں ک[ اصطلاح میں پلاٹ ک[ یہ یعن[ قصہ و کہان[fabulaشکوہ اور غالب وغیرہ، ر

کو معن[ کے دو علیحدہhistoire ا ور recitسے مختلف معن[ ک[ حامل ہے۔ روس[ ہئیت پسند

Page 69: بیانات

کس[ بھ[ متن / بیانیہ میں واقعات ک[ سلسلہ وار تنظیم سے عبارت ہےrecitعلیحدہ خانوں میں رکھتے ہیں۔

وہ سلسلہ ہے جس میں زمان کے مطابق واقعات اپن[ حقیق[ صورت میں واضح ہوتے ہیں۔histoireجب کہ

ظاہر ہے ناول کا فن زمان کے اس سلسلے اور واقعات ک[ رونمائ[ ک[ اس ترتیب ک[ نف[ کرتا ہے جو فکشن اور

جن غزل، فرار،کس[ دن اور نا دید ہ[ نہیں مکان اور فائر ایریا کے پلاٹ میں بھ[ فینتیس[ کے رد پر استوار ہے۔ ایوا

ی[تنظیم کا جچا تلا تصور کارفرما ہے کہ گیان سنگھ شاطر اور مدار میں بھ[ زمان ک[ رو معین اور واضح س[حت

ہے۔ کیا اس معین اور واضح صورت کے باوجود ہم ان ناولوں کو من و عن تاریخ وار کہہ سکتے ہیں۔ یعن[ جن میں

حقیق[ وقوعوں کو تاریخ[ ترتیب کے ساتھ جگہ دی گئ[ ہو۔ ظاہر ہے یہ بھ[ ہمارا ایک بھرم ہ[ ہے۔ ان ناولوں میں

میں وقت ک[ باطن[interior analysisبھ[ راوی جو کہیں ظاہر اور کہیں مخف[ ہے، داخل[ تجزیوں

رو کے مطابق عمل کرتا ہے یا یہ کہیے کہ ذہن ک[ نفسیات[ منطق ک[ کارکردگ[ وقوعات[ منطق کو رد کرت[ ہے اور

یہ عمل ناول میں بڑی خاموش[ اور اکثر غیر محسوس طور پر جاری رہتا ہے۔

دوسری شق ان ناولوں سے عبارت ہے جن میں خارج[ بنت ک[ ذمہ داری قاری کے سر منڈھ دی جات[ ہے۔ ناول

کے عادی قاری کے لیے مختلف انمل پارچوں کو اپنے ذہن میں اپنے طور پر جوڑتے ہوئے چلنا ایک معمول کا حکم

جR ہوا پیچاں، خوش بو بن کر لوٹیں گے۔ بیانات اور خواب رو جیسے ناول واضح طور رکھتا ہے۔ خوشیوں کا باغ، مو

امضمنوں کے جماؤ میں بے ترتیب[ ، اعمال وepisodesپلاٹ ک[ روایت[ تنظیم سے گریز مختلف

کے سیاق و سباق ک[ تفصیلات کے کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ بیان ، اکثر فقروں اور وقوعوں ک[ معروضات

جد زبان سے انحرا� ک[ مثالیں بھ[ مہیا کرتے ہیں۔ غضنفر کے ناول پان[ میں طریق کار تکرار اور کہیں کہیں قواع

ہیں لیکن تمثیل کے اندر جو علامت[ رو ہے اس کا سلسلہ ناول کے عادیadoptedتمثیل[ اور اکثر کردار

حسین تارڑ اپنے ناول فاختہ کو ایک طویل بساط پرمستنصر قاری کے لیے رسم[ نوعیت ہ[ رکھتا ہے۔ اگر غضنفر یا

سکت[ تھ[۔ حالاں کہ اس قسم کے ناول روایت[ خطرے میں پڑconsistencyپھیلا دیتے تو ناول ک[

consistencyہو ا پیچاں ، اپنے اس[ حجم میں جوڑ جوڑ سے Rج کے تصور کے مناف[ ہ[ ہوتے ہیں۔ مو

Page 70: بیانات

آازادانہ منطق کام کرت[ ہے اور پھر وہ اور کسا بندھا ہوا ناول ہے۔ کیوں کہ داخل[ کلام[ میں ذہن[ رو ک[ اپن[ ایک

جR ہواپیچاں، دیکھت[ ہے نہ چھو ر۔ ناول کے اندر ک[ رو پر ساجدہ زیدی ک[ گرفت مضبوط ہونے ک[ وجہ سے مو

جگہ جگہ سے لخت لخت ہونے سے بچ گیا۔ اس قسم ک[ تکنیکوں کو طویل ناولوں میں صر� اور صر� قرۃ

العین نے کامیاب[ سے برتا ہے یا علامت[ سطح پر عبداللہ حسین کا باگھ ایک کامیاب ترین مثال ہے۔ جوگندر پال

جن وصل اتنا نہیں پھیلاتے کہ اسے سمیٹنا مشکل اپنے حدود سے تجاوز نہیں کر پاتے اور انتظار حسین کبھ[ اپنا دام

آاتا ہے۔ جو بکھرنا ہ[ نہیں سمیٹنا بھ[ جانت[ ہیں، توڑت[ ہو جائے۔ خطرات مول لینے کا سودا تو قرۃ العین ہ[ کو

ہیں تو بنانے کے فن سے بھ[ واقف ہیں۔ انہیں شوخ و شنگ دریاؤں کے سفر سے زیادہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے زندگ[

جن خطر۔ مۂ سے معمور سمندروں ک[ سیاحت مرغوب ہے جہاں ہر لہر ایک لط موR ہے اور ہر موR ایک نشا

بالعموم اس قسم ک[ تکنیکیں جو پلاٹ کے خارج[ نظم کو شکست و ریخت سے گزارت[ ہیں،ان کا راوی بہ ظاہر

، ذات[، نج[، اورmemoirsیا بہ باطن خود مصنف ہ[ ہوتا ہے۔ وہ اپن[ بکھری ہوئ[ معلومات، یادوں

جم تکمیل خواہشوں، ناکام ارادوں ، آاگاہیوں، گناہوں، ناکردہ گناہوں، عد نفس[ تجربوں ، انسان[ رشتوں ک[

کامیابیوں ، اور ناکامیوں جیسے تجربوں کے اژدہام کو کبھ[ صبر اور کبھ[ بڑی بے صبری اور عجلت کے ساتھ

اہ زمانے گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔ بہ ظاہر وقت تنگ بہ باطن اس ک[ پلاٹ میں ضم کرنے ک[ سع[ کرتا ہے۔ نتیجت

جد ماض[ کبھ[ عذاب بن کر ابھرت[ ہے اور کبھ[ جذبات[ بساط ایک دور یا کئ[ ادوار تک پھیل[ ہوئ[ ہوت[ ہے۔ یا

آاسودگیوں کے درمیان طمانیت کا بہانہ، بیانات میں یکے بعد دیگر تین راویوں سے سابقہ پڑتا ہے آاہنگیوں اور نا نا

راویوں ک[ پشت پر ایک ہمہ بین و ہمہ دان راوی اور بھ[ ہے جو بیان کنندہ ہے اور عدم موجود ہے۔ لیکن ایسا تینوں

autodigetic یعن[ غائب متکلم بھ[ ہے اور heterodiegeticعدم موجود جو بہ یک وقت

بھ[۔ جسے تینوں راویوں ک[ معصومیتوں ، کمینگیوں ، ترددات اور تاملات کا یعن[ بیانیہ میں حاوی موجود کردار

بخوب[ علم ہے۔ جو چیزوں کو جتنا سلجھا تا ہے اتنا بلکہ اس سے زیادہ الجھاتا بھ[ جاتا ہے۔ چوتھے راوی ک[

شمولیت سے جہاں کہان[ کے تانے بانے بگڑنے کا ڈر لاحق تھا وہیں مصنف ایک سوتر دھار ک[ طرح بڑی خوش

Page 71: بیانات

مذ اق[ اور بغیر کس[ ذہن[ تحفظ اور شعوری کوشش کے اسے چست و درست بھ[ کر لیتا ہے۔ یہ[ صورت

خواب رو ک[ ہے۔

جر کار ہے جو بہ یک وقت کئ[ ذہنوں اور روحوں کے اندر گھس کر جر شب کے ہم سفر میں ایک سیاحت[ ذہن برس آاخ

کا گم کردہepisodeان کا مشاہدہ کرتا ہے۔ وقت جگہ جگہ سے الٹ پلٹ دیا جاتا ہے۔ ایک مضمنے

سلسلہ بہت دیر اور دور جا کر دوسرے مضمنے سے جا ملتا ہے۔ کرداروں کا اژ دہام ہے، جو جتنا واضح ہے اتنا ہ[

کے ذریعےcuts اور متواتر flash forward اور بعد کش[flashbackمبہم بھ[ ہے۔ باز کش[

فلم[ اور مصورانہ طریقے سے بہ ظاہر مختلف اور بے جوڑ ٹکڑے بڑی خوب[ سے ایک واحدے میں ڈھل جاتے ہیں۔

کو بروئے کار لاتے ہیں لیکن ان تجربوں کا دیوندر اسر اور انور سجاد بھ[ اسمبلاژ اور کولاژ ک[ مصورانہ تکنیکوں

جش رنگ چمن میں جتن[ جرautodiegeticکینوس محدود ہے۔ قرۃالعین، کا رجہاں دراز ہے، یا گرد آاخ ہیں۔

شب کے ہم سفر میں ان ک[ شمولیت اتن[ نہیں، تاہم غیاب کے پردے میں بھ[ ان ک[ گونج صا� اور بہت

صا� سنائ[ دیت[ ہے۔ چوں کہ اس گونج سے ہم جیسے قاری بخوب[ واقف ہیں اس لیے وہ اب ہمیں نہ تو نامانوس

’’میں‘‘ ان ک[ تحریروں میں ہمیشہ یہ تاثر فراہم کرتا ہے کہ اور زائد۔ قرۃالعین کا معلوم ہوت[ ہے اور نہ کہیں بے جوڑ

جت واحد ہ[ کا استعارہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک مکمل ہست[ ہے جو کئ[ ہستیوں کا حاصل جمع ہے، وہ محض ذا

یعن[ مجموع[ ذات کا نام دینا زیادہaggregate of the selfجسے لسانیات ک[ اصطلاح میں

آاگ کے دریا جیسے ناول شکن تجربے نے جو مثال قایم درست ہو گا۔ قرۃ العین کے انہ[ تجربات اور بالخصوص

اگلا بہت اگلا قدم ہے۔ جس میں تاریخ ،اء اس کا یقینا ۱۹۸۴ک[ تھ[ فہیم اعظم[ کا ناول ’’جنم کنڈل[‘‘

سیاست ، فلسفہ اور مذہب اور ان سے وابستہ تصورات، روایات اور وارداتیں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو جات[ ہیں۔

ایک کے بعد ایک مختلف ضمائر کے اشارے ذہن میں کردار نہیں کردار کے ہیولے کھینچ دیتے ہیں۔ اور وہ بھ[

ایک دوسرے سے اجنب[۔ جن ک[ داخل[ یا باہم[ گفتگوئیں، تناقضات و تضادات اور مختلف علم[ اور تلمیح[

کنایوں سے معمور ہوت[ ہیں۔ کہیں خواب گون[ ک[ گہری گاڑھ[ دھند کے پس نظر سے پھوٹتے ہوئے خود

Page 72: بیانات

کے جمگھٹے ، لفظ[ تلازماتallusionکلامیے، بحث مباحثے، تکرار، تاریخ[ و نیم تاریخ[ اسماء اور

ک[ بے ہنگم رو، شکوک ہ[ شکوک ، سوال ہ[ سوال جیسے کس[ لمحے ک[ کوئ[ کل سیدھ[ نہیں ہے۔ انہ[

آایا ہوا ایک لمحوں سے جوجھتا ہوا انسان[ وجود محسوس تر ہست[ کا حامل بھ[ ہے اور طوفان بلا خیز ک[ زد میں

آالودہ فقروں اور بیانوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہر باب کے کمزور تنکا بھ[۔ پورا ناول انہ[ تلازموں اور طنز و تضحیک سے

شروع میں سرئیل[ طرز ک[ تجریدی پینٹنگ کے نیچے کس[ ایک وجودی مفکر کا قول درR ہے جو اس باب ک[

یعن[ پیش سایہ افگن[ کا کام کرتا ہے۔ یہ ناول بیانیہ ک[ تکنیک کوforshadowingباطن[ فضا کے لیے

پوری طرح رد تو نہیں کرتا لیکن جز بہ جز، لمحہ بہ لمحہ انحرا� ضرور کرتا ہے۔ چمارن اور کشکول ک[ علامت

جت حال سے سابقہ پڑتا ہے جو ایک یا ایک سے زیادہ کہانیاں قاری ک[ بنیاد پر محض ایک مسلسل اور طویل صور

کے ذہن میں برانگیخت کر دیت[ ہے۔ بیان اور بیانیہ ک[ بحث سے قطع نظر فہیم اعظم[ کا یہ ناول، ناول کے فن

کو ایک نئ[ راہ ضرور سجھاتا ہے۔

تاریخ کو ناول کے فن میں ضم کرنا ہمیشہ ایک اہم تکنیک[ مسئلہ رہا ہے۔ خواہ تاریخ بادشاہوں اور شہزادوں سے

متعلق ہو، ان ادوار یا ان ادوار ک[ اہم اور نمایاں شخصیات ک[۔ تاریخ اور ناول یعن[ فیکٹ اور فکشن میں کیف و

کم کے اعتبار سے حدود قائم کرنا اور ان کا لحاظ رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔ تاریخ خود ایک رومان[ منطقہ ہے جو

جتنا نمایاں اور واضح ہے اس سے زیادہ مخف[ اور مسخ بھ[ ہے۔ ہر تاریخ[ ناول نگار تاریخ کے انتخاب میں اپنا

ایک مقصد رکھتا ہے جس سے اس کے نقطۂ نظر کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ یہ اس لیے بھ[ کہ تاریخ[ ناول نگار

میں ہوتا ہے دیکھنے والےformative processکے لیے تاریخ محض ایک خواب کا نام ہے جو ہمیشہ

آائیڈیل پر مبن[ ہے کہ وہ تاریخ کو کس طرح دیکھتا اور اسے کس طرح پیش کرنا چاہتا ک[ صوابدید بلکہ اس کے

ہے۔ جس طرح تاریخ اس کو دکھائ[ دیت[ ہے یا جس طرح اسے دیکھنا چاہتا ہے بس وہ[ تاریخ ہے اور وہ[ چیز

شکوہ، صلاح الدین ، منصور حلاR، قرۃالعین طاہرہ یا تاریخ کے اندر ناول کے موضوع کا تعین بھ[ کرت[ ہے۔ دارا

ا میر تیمور محض کردار نہیں ہیں۔ نقط ہائے نظر اور فن[ معروض[ تلازمے بھ[ ہیں۔ جن کے حوالے سے ہم ایک ان

Page 73: بیانات

شکوہ کہ[ اور ان لکھ[ تاریخ سے متعار� ہوتے ہیں۔ ان کہ[ تاریخ ہ[ ان نمونوں کا تحت المتن بھ[ ہے کہ دارا

آامرانہ ہمارے عہد کے ضمیر کے قریب تر ہے۔ منصور حلاR اور قرۃ العین طاہرہ کا المیہ یہ ہے کہ وہ مصنفہ ک[

آاخر رسن و دار آاR بھ[ زندہ ہوتے تو بال ہ[ ان ک[ تقدیر ہوتا۔ انیس ناگ[، عبدالصمد،امراؤ طارق، مملکتوں میں اگر

آائرن[ کو اعجاز راہ[، فخر زماں ، انور سجاد اور حسین الحق کے کردار اور ان کا سیاق و سباق اس عظیم انسان[

آاواز ک[ بلندی کے ساتھ نمایاں کرتا ہے۔ جو تاریخ سے زیادہ موجودہ سیاست کے بے چہرگ[ اور عوام[ بے پوری

اا ایک وسیع پیمانے پر انسان[ زندگیوں ک[ بے حرمت[ اور ب وقعت[ ہ[ نہیں تذلیل کاے حس[ پر منتج ہے۔ مجموع

ڈرامہ اندر ڈرامہ، ان ناولوں ک[ تکنیک کا خاص پہلو ہے۔ جہاں معن[ کا ایک جز گم ہے وہاں بھ[ ہیرلڈ پنٹر کے

آاگاہیاں فراہم کرتا ہے۔The pressure behind the wordsلفظوں میں ہمیں کئ[ ناگہان[

اس[ دباؤ کے تحت پلاٹ ک[ ایک خاص نوع ک[ شکل متعین ہوت[ ہے اور امیجری کے قماشات کا امکان بھ[

اس[ میں مضمر ہے،ان ناولوں کے متون کا مافیہ جتنا شعوری ہے اس سے زیادہ لاشعوری ہے۔ لاشعوری اس لیے بھ[

کہ طاقت کے مختلف زمروں اور صیغوں کا جبر اس ک[ معصومیت کو خراب و پامال کر دیتا ہے یا توڑ مروڑ دیتا

آاسان[ سے کر سکتے ہے۔ ان معنوں میں متن کے سیاس[ لاشعور کے تصور کا اطلاق ہم محولہ بالا ناولوں پر بڑی

ہیں۔

مجھے یہ کہنے میں کوئ[ تامل نہیں کہ خطوط، ڈائری ، رپورٹس، داخل[ تجزیوں،ڈرامائ[ اور امیجری سے مملو

ک[ مددallusionsجزئیائ[ تفصیلات ، خواب گوں یادداشتوں، حوالوں، اسطوری اور تاریخ[ و نیم تاریخ[

اا ہمارے نالوں کا داخل[ کینوس کاف[ وسیع ہوا ہے۔ سے یقین

عمودی یا دائیں بائیں جانب فوکس کرنے یا داخل[ کلام[،شعور ک[ رو، اور مختلف مصورانہ اور بار بار افق[ اور

یرت[ کے موسیق[ ک[ علامتوں سے بھ[ جا بجا مدد ل[ گئ[ ہے۔ پیش گڈ مڈ امیج قایم کرنے ک[ فلم[ تکنیکوں ح

آازمائے گئے ہیں۔ کردار اور کردار کے ان ہزار پہلوؤں کا بڑی دقت کے ساتھ آافرین[ کے نت نئے طریقے و پس

scansionکیا گیا ہے جو اپن[ بیش تر صورتوں میں عام انسان[ بصارتوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں

Page 74: بیانات

جیسے اکثر پاکستان کے سیاس[ ناولوں میں سارا تناظر ہ[ ایک ہولناک کردار کا روپ دھارن کرلیتا ہے۔ اس قسم

آاثار رونما ہوئے کے متنوع تجربات نے ناول ک[ ہئیت کے رسم[ پن پر کاری ضرب لگائ[ ہے اور نت نئے قالب کے

ہیں۔

Page 75: بیانات

Aج امکان ایک محض کا ناول یا ناول: پیچاں ہہوا مو

آاسان[ کے ساتھ دو شقوں میں جع بحث بنایا گیا ہے، انہیں بڑی گذشتہ پانچ سات برسوں میں جن ناولوں کو موضو

بانٹا جا سکتا ہے۔

اول وہ ناول جن میں داخلیت ک[ رو گہری ہے اور جن میں مخاطبہ اندر ک[ طر� ہے۔ اس قسم کے ناولوں میں

آاپ بالعموم بیانیہ ک[ روایت سے انحرا� کیا گیا ہے یا داخل[ رو کے شدید دباؤ کے تحت ناول نے اپن[ شکل

نوعیت ک[ ہوت[ ہے۔ autotalicبنائ[ ہے۔ خود یافتگ[ ک[ یہ صورت

اس[ شق کے تحت ان ناولوں کا بھ[ شمار کیا جانا چاہیے جن میں خود یافتگ[ ک[ صورت تو نمایاں نہیں ہے

مگر دانستہ ایس[ تدابیر کا استعمال کیا گیا ہے کہ وہ خود یافتہ معلوم ہوں، یعن[ وہ ایسا شائبہ دیں جیسے ان ک[

رسر تشکیل و تکمیل میں کس[ پیش بند ارادے کو دخل نہیں تھا۔ انور سجاد کا ’’خوشیوں کا باغ‘‘ اور دیویندر ا

میں اسمبلاژ اور کولاژ ک[ مصورانہ تکنیک کا دخل ہے۔ قرۃ العین کے ناول کا ناول ’’خوش بو بن کر لوٹیں گے‘‘

آاخر شب کے ہم سفر‘‘ میں بھ[ ا سمبلاژ ک[ صورت جا بجا نمایاں ہے مگر اسے ہم خود یافتہ ناول نہیں قرار ’’

دے سکتے۔

وہ ناول جن میں بدیعیت پر بنائے ترجیح رکھ[ گئ[ ہے جیسے غضنفر کا ناول پان[۔ اور جن میں کردار سے ہ[

تک میں استعارہ و تمثیل ک[ ہنر مندیوں کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ ان میں قدیمیات یا روایت[ اسالیب نہیں فضا

مقصد وہ اپنے عہد ہ[ سے اخذ کرتے ہیں اس اس کے معن[ وباوجوداظہار سے ایک خاص نسبت کا پتہ چلتا ہے

لیے ان کا شمار بھ[ تجربات[ ناول ہ[ میں کرنا چاہیے۔

Page 76: بیانات

اا زیادہ ہے، جن میں مخاطبہ باہر ک[ طر� ہے اور جن میں دوم وہ ناول ہیں اور ایسے ناولوں ک[ تعداد نسبت

histreographical elementدوسرے اجزا کے مقابلے میں جل[ عنوان کا حکم رکھتا ہے۔ یہ

وہ[ روایت ہے جس ک[ پہل[ خشت عبداللہ حسین، قرۃ العین حیدر، شوکت صدیق[ اور خدیجہ مستور نے

نے اس روایت کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ ان ناولوں کے ارد گرد رکھ[ تھ[۔ عبدالصمد کے ناول ’’دو گز زمین‘‘۱۹۶۰

میں مسائل ک[ نوعیت قوم[ یا اجتماع[ ہے اس قسم کے ناولوں ک[ تکنیکوں میں نمایاں فرق ہے مگر یہ تکنیکیں

ادب[ ناول کے قاری کے لیے معمول کا حکم رکھت[ ہیں۔ ان میں ہمارے حقائق و مسائل کے ذہن[ اور وجودی

آامیز ہو گئے ہیں کہ حقیقت ، فن کے قالب میں ڈھلنے کے با جود اپنے کس[ بھ[ تاثر میںوتجربات اس طرح ہم

وہ حقیقت ہ[ ہے۔

فائر ایریا‘‘ ک[ بو دور دور تک پھیل[ ہوئ[ ہو اور انھیں دو چار برسوں کے دوران آاپ ذرا سوچیں جہاں ایک طر�’’

جR ہوا پیچاں‘‘ ک[ کیا مستنصر حسین تارڑ کا آایا ہو۔ وہاں ’’مو جر عام پر ’’بہاؤ‘‘ جیسا صدیوں پر پھیلا ہوا ناول منظ

قیمت؟ ان معنوں میں کہ ناول کا فن، شاعری اور افسانے کے مقابلے پر زندگ[ کے وسیع تر تجربے، تاریخ، سیاست

اور افراد ک[ نفسیات ،ان کے عمل و ر دہائے عمل، ان ک[ توفیق و بد توفیق[، ان کے حدود اور ان کے اجبار

بھ[ اس[ وقت وغیرہ کے گہرے علم کا مطالبہ کرتا ہے۔ ناول، داخل و خارR کے تصادمات ک[ ایک معتبر دستاویز

بنتا ہے جب ناول نگار کو اپنے جذبات و احساسات کے بے محابا وفور پر قدرت حاصل ہوت[ ہے۔ اس میں یہ

دے اور جس جگہ چاہے انائے دگر میں ضم ہو صلاحیت ہون[ چاہیے کہ جہاں چاہے وہ اپن[ رفتار پر قدغن لگا

جائے، معروضیت ک[ ایک حد بھ[ اتن[ ہ[ ضروری ہے جتن[ داخلیت ک[، تب ہ[ ناول میں زندگ[ کا سارا زہر

اتر سکتا ہے، ساری چمک ڈھل سکت[ ہے، اس[ بنیاد پر ہم اسے اپنے عہدوں کا رزمیہ بھ[ کہتے ہیں۔

اا ایسا کچھ نہیں ہے یہ ناول نہیں ناول کا محض ایک امکان ہے۔ نہ تو اس میں زمان و جR ہوا پیچاں، میں یقین مو

مکان کا کینوس وسیع ہے، نہ زندگیوں کا اژدحام ہے۔ نہ ذہن[ اور نفسیات[ کشاکشوں اور کشمکشوں کو اپنے

آاتے ہیں ان ک[ شخصیت و تناظرات میں ایک مناسب مہلت تک پھیلایا گیا ہے۔ جن افراد کے نام درمیان میں

Page 77: بیانات

جت کردار کے محض چند جذبات[ پہلوؤں تک تو ہماری رسائ[ ہوت[ ہے۔ علاوہ اس کے ہم ان کے دیگر متعلقا

زندگ[ سے کم ہ[ واقف ہوتے ہیں۔ میں یہاں پلاٹ ک[ بات نہیں کروں گا۔ کیوں کہ پلاٹ ک[ ایک ہزار تعریفیں

لوں میں، بالخصوص وہونا ہیں ، اور ناول نگار اپنے طور پر کہان[ بیان کرتا ہے یا کوئ[ روداد رقم کرتا ہے۔ جدید

ناول جنہیں تجربات[ کہا جاتا ہے اور جن میں کہان[ کہنے ک[ منطق روایت[ ہئیتوں، سانچوں اور طریقوں کو بے

دردی سے توڑت[ ہوئ[ دکھائ[ دیت[ ہے۔ ان میں پلاٹ ناول ک[ گہری ساخت میں پروان چڑھتا ہے بلکہ بیش تر

اوقات پلاٹ سازی ک[ ذمہ داری کا بار قاری کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اتنا ہ[ نہیں ہر قاری کے اسباب و علل اور محرکات

و عوامل کے اپنے پیمانے ہوتے ہیں، نیز اپن[ فہم، اپنے علم اور اپنے تجربے کے مطابق وہ پلاٹ کو بنتا ہے۔ اس

: سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ اس معن[writerly قسم کے پلاٹ کو رولاں بارتھ کے لفظوں میں مصنفانہ

آاپ ایک مصنفانہ ناول بھ[ کہہ سکتے ہیں مگر ہے یہ محض ایک ناول کا امکان۔ جR ہوا پیچاں‘‘ کو میں ’’مو

جR ہوا پیچاں‘‘ کو اس معن[ میں تو تجربات[ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کس[ نئ[ تکنیک سے ہمیں متعار� کراتا ’’مو

آازاد تلازمۂ خیال کا استعمال کیا گیا ہو اب ہے، کیوں کہ داخل[ کلام[ ک[ تکنیک، خواہ اس میں شعور ک[ رو یا

اا استعمال کر اا بلکہ معمول ہمارے لیے قطع[ نامانوس نہیں رہ[۔ اکثر ٹھیٹھ حقیقت پسند ناولوں میں بھ[ اسے جزو

آاخر شعور ک[ رو کا نمونہ کہا جائے۔ لیا جاتا ہے۔ دراصل ہمارے ناولوں میں ایسا کوئ[ ناول نہیں ہے جسے اول تا

اس قسم کے ناولوں میں بلا شبہ ایک سے زیادہ تکنیکوں کا استعمال کیا گیا ہے۔

اکثر ناول نگار ابواب ک[ تقسیم میں زمان یا مکان کو سیدھ[ منطق کے ساتھ بروئے کار نہیں لاتے۔ ابواب کے

جاتا ہے۔ اس طرح بہ ظاہر بے تعلق[ میں کرتا رادرمیان طویل سکوت بیز وقفوں کو قاری اپن[ بصیرتوں کے مطابق پ

اا ہر ناول میں اس قسم ک[ صورت موجود تحت اندر تحت ایک تعلق ک[ راہ پیدا ہو جات[ ہے۔ قرۃ العین کے تقریب

جR ہوا پیچاں‘‘ چھ ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب اپنے سابقے اور لاحقے سے کٹا ہوا ہے۔ مگر ابواب اتنے ہے۔ ’’مو

آاگے ک[ طر� بڑھ آاسان[ کے ساتھ اپنے ذہن کدوں میں ایک دوسرے سے جوڑ کر چھوٹے ہیں کہ انہیں ہم بڑی

جاتے ہیں۔

Page 78: بیانات

جR ہوا پیچاں‘‘ میں ابواب ہ[ نہیں، ایک ہ[ باب میں تواتر کے ساتھ منظر بدلتے جاتے ہیں۔ بڑی سرعت سے ’’مو

مضمنے کے ہ[ میں دوسریepisodeایک سیاق دوسرے سیاق میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایک مضمنہ یعن[

اس[ لفظ سے ملت[ جلت[ وارداتیں رقم برگ و بار پھوٹ پڑتے ہیں۔ کہیں کوئ[ ایک لفظ، رعایت کا کام کرتا ہے اور

ہوت[ چل[ جات[ ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ رعایت ،تطابق کے ساتھ مغائرت ک[ صورتیں بھ[ نکالت[ ہے

آازاد اور اس طرح ایک دوسرے سے متضاد اور موافق انسلاکات کا سلسلہ تابہ دیر قایم رہتا ہے۔ اس[ تکنیک کو ہم

تلازمۂ خیال سے تعبیر کرتے ہیں۔ ساجدہ زیدی نے اپنے ناول میں اس تکنیک کو بڑی کامیاب[ سے برتا ہے۔ بنیادی

پہلا قدم ہے۔ ا س[ سبب ان میں خفیف ترین طور پروہ ایک شاعرہ ہیں۔ افسانوی ادب کے میدان میں یہ ان کا

لمحے کو ایک طویل مدت تک پھیلانے یا کس[ صدمے کو کچھ دیر اپنے اندر سنبھالنے اور ٹھہرانے یا

sustainکرنے ک[ صلاحیت کم سے کم ہے۔ جس طرح شاعری میں چھوٹے چھوٹے جذبوں ک[ رفاقت ایک

اا اس قسم کے تجربوں کا عادی ہوتا ہے لطیف ترین سیاق مہیا کر دیت[ ہے اور شاعری سننے یا پڑھنے والا قاری تقریب

اس لیے اسے نہ تو وہ اجنب[ محسوس ہوتے ہیں اور نہ گراں بلکہ عین اس ک[ توقع کے مطابق ہوتے ہیں۔ ناول کے

قاری کا مسئلہ دوسرا ہے وہ تعمیم اور تجزیہ چاہتا ہے وہ ایک ضخیم ناول میں تو اس طرح کے شعری وقفوں، شاعرانہ

جم تحمل کو برداشت کر سکتا ہے۔ مگر ایک بیانات، خود کلام[ ک[ صورتوں اور ناول اور ناول نگار کے جا بجا عد

آاخر تک جذبات[ ہیجان ک[ ایک ہ[ سطح کو برقرار رکھنے سے ناول بہت س[ مختصر ناول میں شروع سے

کشادگیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ ساجدہ زیدی کے ناول ک[ کمزوری بھ[ یہ[ ہے کہ جہاں وہ بے حد کامیاب

ہیں وہاں ناول اپن[ کلیت میں ناکام ہے۔ کیوں کہ پورا ناول اس[ قسم ک[ ایک طویل ترین جذبات[ گفتار و اظہار کا

اا ساجدہ ک[ جذبات[، سلیس اور دل و دماغ کو پوری شدت کے ساتھ مسحور کرنے وال[ نمونہ بن گیا ہے۔ یقین

جز اظہار ہمارے ذہنوں کو بے حد متاثر کرتا ہے۔ مگر المیہ یہ کہ ناول محض اس عنصر ہ[ کو زبان اور بے محابا طر

مسلسل برقرار رکھنے کا نام نہیں ہے۔ ناول کا فن اب پہلے سے زیادہ علم، زیادہ تجربے اور زیادہ تحمل و انہماک

کا مطالبہ کرتا ہے۔

Page 79: بیانات

اا یہ ایک طویل جR ہوا پیچاں‘‘ جیسا کہ عرض کر چکا ہوں محض کس[ ایک تکنیک پر قایم نہیں ہے۔ مجموع ’’مو

ہے۔ مصنفہ نے کہیں خطوط، کہیں ڈائری، کہیںinterior monologuingداخل[ کلام[

memoires اور کہیں اپن[ یادوں allusions، Philosophication مختلف مشعرات

کے سہارے اسے ایک داخل[ تسلسل عطا کرنے ک[ ضرور کوشش ک[ ہے ،مگر اس کوشش کے باوجود پورے

آازاد کیوں نہ ہو ناول میں بڑی یکساں روی ہے، تکرار ہے، لفظوں کا بے جا صر� ہے۔ ناول کا فن کتنا ہ[ سیال اور

بعض صنف[ تقاضوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے اور یہ تقاضے وہ ہیں جنہیں بہ و جوہ ریکارڈ نہیں کیا جا

سکتا۔ ہر ناول کے ساتھ اس کے تقاضے بھ[ بدل جاتے ہیں۔

ساجدہ زیدی نے ا پنے ناول کا عنوان میر تق[ میر کے اس شعر سے اخذ کیا ہے:

آائ[ جR ہوا پیچاں اے میر نظر آائ[ پھر مو آائ[ زنجیر نظر شاید کہ بہار

آارزوؤں، ان ک[ محرومیوں ، زنجیر ک[ استعارات[ معنویت کو ذہن میں رکھیں تو راویہ، صوفیہ، اور زینو ک[ ننھ[ من[

مجبوریوں اور ان ک[ پابستگ[ کو بخوب[ سمجھا جا سکتا ہے۔ ہر ایک کا اپنا ایک محبس ہے۔ ان میں سے ہر ایک

ی[ متوسط طبقے ک[ نمائندہ ہے اور اس[ نسبت سے اس ک[ زندگ[ میں ہل چل ہے ،پیچ و تاب ہے، یقین[ و اعل

آاگے، اور ان کے دونوں بے یقین[ کا کہرام مچا ہوا ہے۔ قرۃ العین کے ابتدائ[ افسانوی مجموعہ ، ستاروں سے

ابتدائ[ ناولوں کے نسوان[ کرداروں میں بھ[ اس قسم ک[ رومان[ اداسیوں اور پر تکلف کشمکشوں نے زیادہ بار پایا

ہے۔

ساجدہ زیدی نے اس زندگ[ کے محض چند پہلوؤں ہ[ ک[ طر� لطیف اشارے کیے ہیں۔ انہوں نے قرۃ العین ک[

ہو گیا ہے ، کہیں طرح وقت کو ایک زبردست کردار کے طور پر حاضر و ناظر جانا ہے۔ جو کہیں اندھا اور بہر ا

پیچھے ک[ طر� دوڑ رہا ہے، کہیں بر� ک[ طرح جم جاتا ہے، کہیں وہ صر� ایک واہمہ ک[ شکل اختیار کر

Page 80: بیانات

آاگے نکلنے کا دکھ اور موت کے تصور سے حیات و لیتا ہے۔ کہیں مر جاتا ہے۔ وقت کے تیزی کے ساتھ روند کر

کائنات ک[ بے معنویت کا شدید تر احساس تما م چیزوں کو واہمے میں بدل دیتا ہے۔

آارزؤں اور مختلف رشتوں کو بہت سے نام دینے مصنفہ نے زندگ[ اور موت کے درمیان پروان چڑھنے وال[ محبتوں ،

ک[ کوشش ک[ ہے۔ ان میں مردو عورت کا رشتہ ہ[ نہیں ہے بلکہ عورت کا عورت سے رشتہ بھ[ ہے۔ عصمت نے

بہت پہلے بڑی بلا خوف[ کے ساتھ اس رشتے کے جنس[ پہلو کو اپنا موضوع بنایا تھا۔ ساجدہ کا پیرایہ بڑا مہذب

راویہ اور زینو کے رشتے ک[ نوعیت اردو ناول میں پہل[ مرتبہ ایک لطیف تجربہ بلکہ ایک نازک ہے۔ راویہ اور صوفیہ یا

مسئلہ بن کر ابھرت[ ہے۔ یہ[ پہلو اس ناول کو دوسرے ناولوں سے ممتاز بھ[ کرتا ہے۔ ساجدہ نے ایک طر� اس

آائرن[ کے تاثر کو ابھارنے ک[ کوشش ک[ ہے جو عورت اور مرد کو دو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیت[ ہے۔ سوشل

قدغن نہیں لگائ[ جات[ بلکہ ایک عورت کے لیے کس[ دوسری عورت جہاں عورت اور مرد کے مابین رفاقتوں ہ[ پر

کا لمس اور ایک مرد کے لیے کس[ دوسرے مرد کا لمس بھ[ اخلاق[ تقاضوں کے خلا� سمجھا جاتا ہے۔

ی[ متوسط طبقے میں مرد عورت کے لیے اخلاق[ ضابطے بھ[ مختلف تھے۔ مرد جہاں و جاگیرداری معاشرے اور اعل

آازاد ہے وہاں عورت، عورت سے رشتہ قایم کرنے پر مجبور ہے۔ حالاں کہ راویہ ک[ زندگ[ میں اس ک[ بہن صوفیہ

کے بعد راہیل نام کا ایک مرد بھ[ واقع ہوتا ہے مگر جس شدت سے راویہ اسے چاہت[ ہے راہیل میں اس شدت ک[

کم[ ہے۔ صوفیہ اپنے غموں میں گرفتار ہو جات[ ہے اور راہیل کس[ دوسری لڑک[ سے شادی رچا لیتا ہے پھر راویہ

وہ ہے زینو دونوں ایک دوسرے کے ک[ زندگ[ میں راہیل سے بھ[ زیادہ قوی ہست[ کے طور پر اگر کوئ[ ابھرتا ہے تو

لیے ایک جان دو قالب ہیں۔ ایک دوسرے کے رفیق، ایک دوسرے کے شریک ، روز و شب کے ساتھ[، وصل و

ہجر کے ہم راز۔ ان ک[ دوست[ اور ان ک[ رفاقت کو ایک سے زیادہ نام دیے جا سکتے ہیں۔ مگر اصل مسئلہ نہ تو

رفاقت ہے اور نہ باہم[ انس۔ بلکہ وہ مفارقت ہے جس ک[ طر� خود ساجدہ نے اشارہ کیا ہے۔

Page 81: بیانات

’’ہر چند کہ محبت کس[ بھ[ عنوان ہو انسان کو رشتہ زندگ[ میں پروت[ چل[ جات[ ہے۔ لیکن ......... شاید

اپن[ مکمل معنویت کے ساتھ دوام اسے بھ[ نہیں ...... کہ زماں ک[ گزر گاہ کو تو اسے بھ[ عبور کرنا پڑتا

ہے۔‘‘

آا جاتا ہے اور کبھ[ ایک ک[ محبتیں دوسرے ک[ محبتوں کو محو آاڑے کبھ[ موت بن کر وقت اس محبت کے

کر دیت[ ہیں۔ گویا انسان بہ یک وقت ایک سے زیادہ انسانوں سے محبت کر سکتا ہے۔ خواہ وہ مرد و عورت کے

جR ہوا پیچاں میں راویہ اور زینو کا رشتہ بھ[ اس[ نوعیت کا ہے۔ راویہ راہیل کے مابین رشتۂ محبت ہ[ کیوں نہ ہو۔ مو

از جان رکھت[ ہے اور زینو،روایہ کے ساتھ اصغر کا ساتھ بھ[ نباہت[ ہے اگرچہ وہ اپنے ا ور ساتھ زینو کو بھ[ عزیز

اصغر کے رشتے کو کوئ[ نام دینے سے قاصر ہے۔ وہ کہت[ ہے:

آاواز ہے...... میں عورت ہوں ....... وہ مرد ہے....... مجھے مرد ک[ ’’وہ )یعن[ اصغر( میرے لاشعور ک[

خواہش تھ[ یہ جاننے ک[ کہ مرد کا قرب کیا ہوتا ہے...... ہم متوسط طبقے ک[ لڑکیاں مردوں سے کتن[ دور

رکھ[ جات[ ہیں......یہ[ دوری میری خواہش بن گئ[۔‘‘

آات[ ہے۔ باوجود اس کے زینو جس ک[ آاخر یہ خواہش اصغر اور زینو کو ایک دوسرے کے جسمان[ قرب تک لے بال

پات[ بقول اصغر اس نے ڈیوڈ سے بھ[ وفا نہیں ک[ تھ[۔ پہل[ رفیق و شریک راویہ تھ[ ، اصغر سے وفا نہیں کر

آات[ رہت[ اا راویہ ک[ وہ ذات ہے جو بار بار زینو اور اصغر،زینو اور ڈیوڈ کے درمیان مانع اس بے وفائ[ کا سبب غالب

اا بیگانہ وار ہے۔ ایک ہے۔ زینو اصغر ک[ کم زوری بن جات[ ہے مگر زینو اس ک[ رفاقتوں ک[ شدت سے تقریب

انسان[ درد کا رشتہ ضرور ہے جو زینو کو اصغر سے علاحدہ نہیں ہونے دیتا۔ ناول کے پورے سیاق میں راویہ ہ[ وہ

ہست[ ہے جو ایک ایک کر کے اپنے تمام احباب سے بچھڑت[ چل[ جات[ ہے اور دوسروں ک[ طرح اپنے خلا کو

ار نہیں کرت[۔ اس ضمن میں راویہ کا زینو سے درR ذیل مکالمہ جو مکالمے سے کس[ اور امکان یا ہست[ سے پ

زیادہ داخل[ کلام[ ہے توجہ طلب ہے:

Page 82: بیانات

آاشکار کر دیت[ ہے...... رفاقت آاپ ’’خواہشات ک[ دنیا حقیق[ نہیں زینو ........ عشق ک[ دنیا بھ[ اپنا فریب

کا خواب محض تصور کے دھوکے ہیں...... شاید وہ دنیا جس ک[ تلاش میں ہم تم اور ہم جیسے بہت سے لوگ

....... ازل سے سرگرداں ہیں ....... محض واہمہ ہے ...... شاید تمہاری دوست[ و رفاقت محض میرا تصور

تھا.... شاید راہیل محض میری اندھ[ خواہش تھا...... شاید اصغر سے وابستگ[ محض تمہاری تلاش

ہے....... کچھ کر دکھانے ک[ تلاش...... ہم سب اپنے اپنے روز و شب میں جکڑے ہوئے ہیں...... راہیل

آاخر میں نے اس کے لیے ....... تمہارے لیے ........ آاواز دی ہے....... کو بھ[ اس ک[ عام زندگ[ نے

اپن[ عام زندگ[ سے کیوں رو گردان[ ک[........ اپنے خالص غموں سے کیوں غداری ک[؟؟ ........ ہاں وہ

غم جن میں زہر نہیں ہوتا .......تلخیاں نہیں ہوتیں........ زندگ[ ک[ زیادہ بڑی حقیقتیں ہیں۔‘‘

راویہ ک[ یہ فریب شکستگ[ ک[ منزل اس کے اعترا� مگر انتہائے ملال ک[ منزل ہے۔ خواب شکن[ اور التباس

شکن[ ک[ منزل ہے۔ یہ اعترا� اپنے انا اور انائے دگر کا اعترا� ہے۔ زندگ[ کو اس کے پورے وجود اور دوسرے

رشتوں کے تناظر میں دیکھنے، سمجھنے اور قبول کرنے ک[ طر� پہلا اقدام ہے۔ مگر اس ثانیے پر یہ حقیقت

آاگہ[، راویہ کے حق میں ایک نئے زہر، ایک نئے فہم[ اور زندگ[ سے نئ[ معاملت اور رشتوں کے تعلق سے نئ[

زخم کا حکم بھ[ رکھت[ ہے کہ وقت اب نہ تو پیچھے ک[ طر� مڑ سکتا ہے اور نہ اس پر کوئ[ قدغن لگائ[ جا

سکت[ ہے۔ کیوں کہ :

روز و شب واہمہ ہے......شاید واہمہ.....ۂ’’وقت ،ہر کیفیت سے بے نیاز گزر رہا ہے زینو....... سلسل

جہ روزوشب بڑی سنگین حقیقت ہے ......‘‘ نہیں ......سلسل

آاخری کلمات میں سلسلہ روز شب جو پہلے واہمہ تھا اب ایک بڑی سنگین حقیقت میں بدل جاتا ہے و ناول کے

آائرن[ ہے۔ جسے قبول کر کے ہ[ اپنے اختیار کو اور حقیقت ک[ سنگین[ کا اعترا� ہ[ زندگ[ ک[ سب سے بڑی

آازادیوں ک[ کوئ[ حد متعین ک[ جا سکت[ ہے۔ کوئ[ معن[ دیے جا سکتے ہیں، اپن[

Page 83: بیانات
Page 84: بیانات

جمالیت لسانی اور صدیقی احمد رشید

Rرشید احمد صدیق[ کو نہ تو خالص مزاح نگار اور نہ ہ[ خالص طنز نگار کہا جا سکتا ہے۔ دونوں کا لطیف امتزا

ان کے مقصد کا تعین کرتا ہے۔ اس ہر دو عمل میں ایک عالمانہ وقار اور عالمانہ شان پائ[ جات[ ہے۔ وہ فلسف[

نہیں ہیں مگر فلسفیانہ مغالطے ضرور پیدا کرتے ہیں۔ فقرہ بازی اور فقرہ سازی سے طبع[ لگاؤ ہے۔ مگر اکثر تصنع

اا یہ[ فقرے اا فان آان اور تکلف کا دباؤ ان فقروں کو عوام کے بجائے خواص ک[ گفتگو کا موضوع بنا دیتا ہے۔ اور پھر

جب فکر جب حیات ہے اور ایک اسلو مجلس[ تہذیب کے روح رواں بن جاتے ہیں۔ رشید صاحب کا اپنا ایک اسلو

بھ[۔ جس پر مشرق[ اخلاقیات کا نقش گہرا ہے۔ وہ بات کس[ ک[ اور کہیں سے بھ[ شروع کریں اپن[ تربیت کا

رنگ اور تربیت کے رنگ سے ذرا بچے تو عل[ گڑھ کا رنگ اس میں ضرور شامل کر دیتے ہیں۔ وہ اخلاق پرست

سے زیادہ اخلاق مند تھے اور ان قدروں کو عزیز رکھتے تھے جن سے بشریت کا وقار بلند ہوتا ہے اور زندگ[ ک[

حرمت محفوظ۔ ترق[ پسندی کو قبولیت نہیں بخش[ مگر ایسے قدامت پسند بھ[ نہ تھے کہ انہیں اپنے عہد کے

تقاضوں کا علم و احساس ہ[ نہ تھا۔ انہیں بعض صالح روایات پر مضبوط اعتقاد تھا، تاہم وہ روایت[ نہ تھے کم از

آا رہے ہیں۔ آابادی کو ہم سمجھتے یلہ شر ا کم اس حد تک نہ تھے جس حد تک اکب

رشید صاحب ک[ ملفوظ[ وراثت انشائیہ ، خاکہ، تنقید اور خطبات پر مشتمل ہے۔ انشائیہ ان ک[ داخل[ ترغیب

آازادیوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ خاکہ اپنے رفقا کے نزدیک و دور نیز دوء ہے، جس میں وہ زیادہ سے زیادہ ذہن[

آاب معاصرین ک[ شخصیات کو محیط ہے، جن کے ذکرو فکر کو وہ اپنے ایک مثالوں کو چھوڑ کر ان فضلیت م

اوپر قرض خیال کرتے تھے کہ بہر حال رشید صاحب اگل[ شرافت کے نمونے تھے اور قرض ک[ رعایت کو دیکھتے

آاخر ایک دن خدا کو انہیں منہ بھ[ دکھانا تھا۔ یہ ایک علیحدہ گفتگو ہے ہوئے عاقبت ک[ انہیں فکر تھ[ اور بال

Page 85: بیانات

آائ[ اور کہ ان کے اسماء الرجال کے محضر پر کندن جیسے عام[ شخص کے دستخط ک[ گنجائش کیسے نکل

جن عز جن رفتہ و صاحبا جض ابد سے صدائے و کیوں کر ہم نفسا بلند نہیں ک[ )اگرچہ رشید احمداحتجاRجاہ نے معر

صدیق[ ک[ بیش تر تحریریں دوستوں ک[ فرمائش پر لکھ[ گئ[ ہیں( تنقید، ان ک[ پیشہ ورانہ ضرورت تھ[، جسے

دیا ہے مگر سوائے فریب نظر کے وہ ان کے فوری تاثرات ک[ رمق ، چمک نے دیدہ زیب اور سامعہ نواز ضرور بنا

بہت دیر اور دور تک ہماری رہنمائ[ نہیں کر سکت[۔ پتہ نہیں یہ ہماری بے بصری ہے کہ رشید صاحب ک[

آاتے ہیں۔ سب سے محروم[۔ جہاں تک خطبات کا تعلق ہے،وہ ایک سراپا استاد بن کر مخاطبہ کرتے ہوئے نظر

اندیشوں سے معمور یہ[ خطبات ہیں۔ اس نواح میں زیادہ دردمندی، فکر اور زندگ[ کے تلخ و شیریں تجربات او ر

آاہنگ بھ[ وہ ایک رقیق القلب بزرگ استاد کا فرض نبھاتے ہوئے طنز کے کئ[ حربے استعمال کرتے ہیں، تھوڑا سا

جق گل۔ وہ بلند ہو جاتا ہے، کہیں لعن ہے کہیں طعن،کہیں صلاح ہے، کہیں اصلاح ، کہیں برق دم ہے کہیں ور

آاہنگ، ذکاوت اور جامعیت کے امین ہیں تو اس سسیروئ[ کلام یا سترہویں صدی کے کردار نگاروں کے نثری

ciceronian sentenceآاخری فقرے تک اصل خیال، ارادہ کے اثر سے بھ[ بری نہیں جس میں

جض میں رہتا ہے۔ یہ چیز رشید صاحب کے انشائیوں اور شخصیت نگاری کے نمونوں میں برقرارجالتواءاور مفہوم معر

ہے۔ ان جملوں ک[ ساخت ستم ظریفانہ ذہانت سے تونگر ضرو ر ہے۔ لیکن صنعت گری یا انشائے مرصع ک[ وہ

رل[ ایک اہم کردارeuphuismنظیر جو یوفیت نے قائم ک[ تھ[ یا سقراط ک[ وہ جملہ سازی جس میں تع

جق سخن سے قطع[ میل نہیں کھات[۔ ادا کرت[ ہے۔ رشید صاحب کے مذا

۔ حاج[ صاحب شعر کہتے ہیں اور بسکٹ بیچتے ہیں۔ شعر اور بسکٹ دونوں خستہ۔ ۱

آاقا۲ آاR کل خود ۔ عل[ گڑھ میں نوکر کو آاقا ئے نام دار بھ[ کہتے ہیں اور وہ لوگ کہتے ہیں جو آاقا ہ[ نہیں

کہلاتے ہیں یعن[ طلبہ۔

۔ دیوتاؤں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جسے عزیز رکھتے ہیں اسے دنیا سے جلد اٹھا لیتے ہیں۔ دیویوں کے۳

بارے میں سنا ہے کہ وہ جس کو عزیز رکھت[ ہیں اسے کہیں کا نہیں رکھتیں۔

Page 86: بیانات

مذہب ہم ہندوستانیوں کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ۔ چارپائ[ او ر۴

۔ ارہر کا کھیت دیہات ک[ زنانہ پارلیمینٹ ہے۔ کونسل اور اسمبل[ کا تصور یہیں سے لیا گیا ہے۔ ۵

۔ ہندوستان[ کسان کو دیکھتے ہوئے یہ بتانا مشکل ہے کہ اس کے بال بچے مویشیان ہیں یا مویشیان اس کے بال۶

بچے۔

آامیز کیا گیا ہے کہ ہم بغیر ارادے اس قسم کے جملوں سے شروع ہونے وال[ عبارتوں میں مبالغہ اتنے وثوق کے ساتھ

جالتوا جض میں ڈال دیتے ہیں۔ اس طرح کے تحیر ز ا فقرے ذہن[ پیشءکے اپنے تعقل کو کچھ وقفوں کے لیے معر

کا بھ[ کام کرتے ہیں۔ ا ور کئ[ چھوٹے چھوٹےmental : foregroundingمنظری

climaxesآاخری جملے پر پہنچ کر یہ پتہ چلتا ہے کہ رشید احمد صدیق[ کا کے بعد پیراگرا� کے عین

آاخری جملہ ہ[ وسیع الذیل کلائمکس کا حکم بھ[ رکھتا ہے۔ قصد کس سمت اور کس ک[ طر� تھا۔ دراصل

نکاح مشتبہ ہے۔ اتنا بیان دے کر حاج[ صاحب نے داڑھ[ کو اس طرح تکان دی کہ ایک ایکنظریۂ ’’اسلام کا

اکر سر کے خط استوا پر جا کر ختم ہوئیں اورۂ بال باہمہ و بے ہمہ ہو گیا۔ پیشان[ پر شکنیں پڑن[ شروع ہوئیں تو

آانکھیں شاہ نامۂ فردوس[ بن گئیں۔‘‘

لفظ اپنے انفراد سے نہیں کس[ جملے، مصرعے یا فقرے میں اپنے استعمال سے پہچانا جاتا ہے۔ لفظ کے مطالب

جق معن[ کے ضمن و معن[ جہاں دیگر لفظوں کے تال میل سے اپن[ تعبیر میں مختلف ہوتے جاتے ہیں وہاں تخلی

میں لکھنے والے کا نقطہ نظر بھ[ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ا س طرح طنز و مزاح ک[ تحریر میں مصنف کس[

ایسے خاص ہنر کو بروئے کار لاتا ہے کہ اخذ کردہ مطالب بڑی سرعت کے ساتھ اپنے ان فوق المعن[ سلسلوں میں

گم ہو جاتے ہیں جو اپنے خصوص میں عموم سے علاقہ رکھتے ہیں اور ہم ان کے اطلاقات کے معروض بھ[ جا بجا

آاسان[ کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔ رشید احمد صدیق[ ک[ تحریروں میں اس قسم ک[ صورتیں اور موقع بہ موقع بڑی

Page 87: بیانات

تضاد، تناقض، مشابہت اور مغائرت قائم کرنے کے دوران نمایاں ہوت[ ہیں۔ اور خیال ک[ تدریج[ صورتوں ک[ ترتیب

کو یکسر الٹ پلٹ دیت[ ہیں۔

آاگے بڑھ رہے تھے جیسے پیکر کوہ کس[ ناگ کے فشار آاغوش میں راستہ ’’ہاں تو ہم موڑ پر اس تیزی کے ساتھ

خشک اور خنک منظر، حسن و شباب کا تصور، اور تصویر سردی بڑھت[ جات[ تھ[، نشیب سے گہرا اور ابر ک[

فضائیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ دیکھتے دیکھتے زمان و مکان جسم و جان پر برودت س[ مستول[ ہو گئ[ اور سارا

ماحول ایک المناک دھند میں تبدیل ہو گیا۔‘‘

sub-textدراصل جنہیں ہم معن[ معدوم کا نام دیتے ہیں۔ وہ[ پیرے ماشیرے ک[ اصطلاح میں تحت المتن

کا جواز بھ[ رکھتے ہیں۔ اظہار ک[ منطق ہ[ کچھ ایس[ ہے کہ وہ کبھ[ مکمل، مکمل بہ معن[ مکمل موافق بہ

خیال نہیں ہوتا اور جسے ہم خیال کہتے ہیں وہ بھ[ خود ہمارے ذہن میں ایک نا مکمل ابلاغ ک[ صورت ہوت[

ہے۔ ادائیگ[ سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ رہ جاتا ہے اور جو رہ جاتا ہے تحریر میں وہ[ جو� اور وقفے قاری کو نئ[

رقفات کے لیے پیرے ماشیرے سکوتیے اور وقفے جیسے متن کاری کے لیے اکساتے ہیں۔ ان غیر تکنیک[ مگر متن[ تو

الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ سکوتیے صر� خارR کے اجبار ہ[ کا نتیجہ نہیں ہوتے بلکہ داخل[ و

لسان[ جبر، نیز لکھنے والے کے نقطۂ نظر کا جبر بھ[ انہیں قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک نقاد اس

جہ نشست ہوتے جبر اور ان اسباب کا پتہ لگانے ک[ سع[ کرتا ہے۔ جو متن کے اندر ہ[ اس کے اپنے لاشعور میں تہ

ہیں۔ یوں بھ[ ظرافت کے باب میں لفظوں کے کھیل ک[ اپن[ جگہ اہمیت ہے۔ اس طرح مزاح نگار کہیں جبر کے

تحت اور کہیں پوری دانست کے ساتھ تسلسل کو توڑتا اور تخیل کو مغالطے میں ڈالے رکھتا ہے کہ قاری ک[ توقع

شکن[ بھ[ اس کے بہت سے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے۔

جر مطلب: ایک طر� رشید صاحب ک[ جملہ سازی کا فن ہے۔ ا ور دوسری طر� ان ک[ ادائیگ[ میں وہ آامدم برس

سکوتیے اور وقفے ہماری توجہ کے مستحق ہیں جو متعلق ہونے کے باوجود ایک ایسا تناظر ہمارے ذہن کو مہیا کر

دیتے ہیں جو شاید رشید صاحب کا مدعا و منصب ہو سکتا ہے مگر متن کے سیا ق میں وہ غیر موجود ہوتا ہے۔

Page 88: بیانات

رشید صاحب کا ایک معرو� ترین انشائیہ ہے بظاہر مزاح میں یہاں صر� ایک مثال پر اکتفا کروں گا۔ ’’چارپائ[‘‘

جہ دار اور فعال بنا دیا بہ باطن طنز ک[ ایک بہترین مثال جس میں ڈرامائیت اور فنتاسیہ نے مل کر مزاح کو بہت ت

ہے۔ اس[ لیے بعض حضرات کے نزدیک چارپائ[، خالص مزاح کا ایک نادر نمونہ ہے۔ جیسے پطرس ک[ سائیکل

جعفری ک[ مسدس بعنوان موٹر۔ مگر چارپائ[ میں جو رعایتیں قائم ک[ گئ[ ہیں ، جن مشعرات : محمد یا سید

allusionsکا استعمال کیا گیا ہے، جن سیاس[ تلازمات ک[ طر� اشارے کیے گئے ہیں۔ ان سے یہ[ ظاہر

آاگاہیوں کو بھ[ وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ ہوتا ہے کہ انہیں اپنے قاری ک[ تربیت بھ[ مطلوب ہے اور وہ اس ک[

ہے۔ objective correlativeچارپائ[ محض ایک

ابنائ[ ک[ گئ[ ہو ، ااس ک[ ایک قصبات[ چارپائ[ جیسے ہندوستان[ برگشتہ نصیب مسلمان ک[ چرمرات[ ہڈیوں سے

جیسے پوری ایک قوم ک[ نفسیات ، اس ک[ معاشرت اس ک[ بے حال[ و بد حال[، اس ک[ بے حس[ و

caricatureکسمپرس[ کا مرثیہ ہو، مرثیہ نہ سہ[ طربیہ، طربیہ نہ سہ[ چربہ :

’’چارپائ[ ہ[ کھانے کا کمرہ بھ[ ہوت[ ہے۔ باورچ[ خانے سے کھانا چلا اور اس کے ساتھ پان سات چھوٹے بڑے

آا پہنچیں۔ سب اپنے قرینے سے بیٹھ گئیں۔ بچے ، اتن[ ہ[ مرغیاں ، دو ایک کتے، بل[ اور بے شمار مکھیاں

جر دستر خوان ہیں۔ ایک بچہ زیادہ کھانے پر مار کھاتا ہے، دوسرا بد تمیزی سے کھانے پر، تیسرا جب خانہ صد صاح

کم کھانے پر ، چوتھا زیادہ کھانے پر اور بقیہ اس پر کہ ان کو مکھیاں کھائے جات[ ہیں۔ دوسری طر� بیوی مکھ[

اڑات[ جات[ ہے اور شوہر ک[ بد زبان[ سنت[ اور بد تمیزی سہت[ جات[ ہے۔ کھانا ختم ہوا۔ شوہر شاعر ہوئے تو ہاتھ

دھو کر فکر سخن میں چارپائ[ ہ[ پر لیٹ گئے۔ کہیں دفتر میں ملازم ہوئے تو اس طرح جان لے کر بھاگے جیسے

آادم[ ہوئے تو اللہ ک[ یاد میں قیلولہ کرنے لگے۔ بیوی بچے بدن دبانے اور بد آاگ لگ[ ہے اور کوئ[ مذہب[ گھر میں

دعائیں سننے لگے۔‘‘

رشید احمد صدیق[ ک[ تحریروں میں لطافت اور ذکاوت انہ[ مہین مہین اخفائ[ شقوں سے قائم ہوئ[ ہے اور یہ

پڑھنے والے کے ذہن کو تابہ دیر بر انگیخت رکھت[ ہیں۔ مصنف ہ[ نہیں قاری بھ[ جہاں ذرا سا چوکا وہیں اس کا

Page 89: بیانات

اا یعن[ فقرہ بہ فقرہ اور جملہ بہ جملہ اپنے وہ مجتمع اور مرتب تاثر تہس نہس ہو جاتا ہے، جسے اس نے تدریج

تجربے اور فہم کا حصہ بنایا تھا۔ اس معن[ میں رشید احمد صدیق[ ک[ عبارتوں اور بالخصوص طویل عبارتوں میں

آاخری جملہ یا جملے کا موخر جزو ہماری حیرتوں کو ایک نئ[ نظم ایک نئ[ ترتیب سے دوچار کراتا ہے اور یہ[

آاخری جزو اکثر ان کے طنز کے اسلوب کا تعین بھ[ کر دیتا ہے کہ اپنے قصد و ہد� میں اس ک[ نوعیت کیا ہے۔

یمعیل خاں مرحوم کے بارے میں لکھتے ہیں: نواب محمد اس

آافرینند عہد تھے اس لیے ان ک[ کشمکش ایسےۂ ’’مولانا ان ہستیوں میں تھے جو اپنے عہد سے بڑی تھیں، وہ

جۂ عہد ہوتے اور ہماری تاریخ، ہماری تہذیب اور ہمارے علوم کا اعتبار و افتخار تھے، اس کا لوگوں سے رہت[ جو زایئد

آاR ہو رہا ہے جب وہ ہم میں نہیں رہے کیاکیاجائے ایسا احساس بھ[ ایسے ہ[ وقت ہوتا ہے۔‘‘ احساس

اس اقتباس کے مؤخر جملہ پر غو ر فرمائیں، یہاں طنز میں عبرت کا پہلو بھ[ مضمر ہے یعن[ ہم بہ حیثیت مجموع

رطل ہو چک[ ہو، بصارتیں معدوم اور جحس مع کس قدر خود اپن[ مذمت و ملامت کے مستحق ہیں۔ جیسے ہماری

سماعتیں کند۔ رشید احمد صدیق[ ایسے لمحوں میں بڑے سکوت مگر پورے اعتماد کے ساتھ طعن وتشنیع سے

آاواز کو پوری بلندی کے ساتھ سن لیتے ہیں محسوس کر لیتے بھ[ گریز نہیں کرتے کہ تحت المتن میں ہم ان ک[

ہیں۔

آالہ ہوت[ ہے۔ وہ وقوعے جو یکایک اور بے ساختہ نمو پاتے ہیں اور جو بالعموم مزاح نگار کے لیے زبان بہت بڑا

معمول کے رد پر منتج ہوتے ہیں، وہ[ مزاح نگار کے لیے مواد کا بہترین مخرR بھ[ کہلاتے ہیں۔ اس[ طرح ان کے

typeو داخل ، محسوس و Rجیسے شاعر اور مولوی وغیرہ یا دیگر پیشہ ور افراد اور ان کے کردار کے بعض خار

کم محسوس خصائص جو شاید کس[ دوسرے کے لیے اتن[ توجہ کے لائق نہ ہوں مگر ایک مزاح نگار ان میں

ابعد کے جن پہلوؤں کا مشاہدہ کر لیتا ہے وہ نتیجہ ہوتا ہے اس ک[ باریک بین[ اور غیر معمول[ حساسیت کا۔ طنزیہ

جو چیزوں کو ان کے تمام تضادات و تناقضات کے ساتھ دیکھنے اور محسوس کرنے ک[ صلاحیت رکھت[ ہے۔

Page 90: بیانات

وہ رول الذکر نوعیت کے ساتھ بعد نوعیت سے بھ[ اکثر فائدہ اٹھایا ہے۔ مگر ان دونوں صورتوں کو رشید صاحب نے ا

جک حقیقت کا طرز اور زبان کو قطع[ تہذیب[ جس چیز نے نہایت جلا بخش[ اور کاری بنایا ہے وہ ان کا اپنا ادرا

میںdiscourseنفاست کے ساتھ برتنے کا عمل ہے۔ جب یہ دونوں چیزیں کس[ مزاح نگار کے مخاطبے

مشمولات ک[ صورت اختیار کر لیت[ ہیں، وہاں طنز خود اپن[ حدیں قائم کر لیتا ہے اور مزاح اپن[ حد سے تجاوز

جد ادب سے پرے نہیں جاتا۔ یہ وصف رشید صاحب ک[ اپن[ توفیق ہے، اور جو اس نکتے سے کرنے کے باوجود ح

آالودہ ہو کر دشنام بن جاتا ہے اور مزاح، مسخرگ[ ک[ تعمیل۔ آاگاہ ہیں کہ طنز کن چیزوں سے بخوب[

آاپ دیکھیں گے کہ محلہ نہیں سارے قصبے ک[ ’’برسات ک[ سڑی گرم[ پڑ رہ[ ہو۔ کس[ گھریلو تقریب میں

عورتیں خواہ وہ کس[ سائز، عمر، مزاR یا مصر� ک[ ہوں، رونق افروز ہیں،اور یہ بتانے ک[ ضرورت نہیں کہ ہر

جت خیر ضرور ہوں گے۔ کتن[ زیادہ عورتیں کتن[ کم عورت ک[ گود میں دو ایک بچے اور زبان پر پانچ سات کلما

آا جات[ ہیں، اس کا اندازہ کوئ[ نہیں کر سکتا ، جب تک چارپائ[ کے بعد کس[ یکہ اور تانگے پر ان جگہ میں

کو سفر کرتے نہ دیکھ چکا ہو۔ یہ اللہ ک[ مصلحت اور ایجاد کرنے والے ک[ پیش بین[ ہے کہ ہانکنے والے اور

اا غش کھا کر گھوڑے دونوں ک[ پشت سواریوں ک[ طر� ہوت[ ہے، اگر کہیں یہ سواریوں کو دیکھتے ہوتے تو یقین

جن رشید ص (۸۶گر پڑتے۔‘‘)چارپائ[: مضامی

جش نظر یکے بعد مزاح ک[ دوسری صورت ملاحظہ فرمائیں، اس اقتباس میں موقع ک[ مناسبت بلکہ نزاکت کے پی

ہلے دھیم[ اور مزاح کا دیگرے کئ[ ڈرامائ[ مشابہتوں سے کام لیا گیا ہے۔ یہاں عبرت کا نقش معدوم ، طنز ک[

آاخری جملے پر ہے جہاں پہنچ کر سارے جستہ جستہ تاثرات ایک وسیع الذیل تاثر میں ڈھل اسر اونچا ہے۔ سارا زور

جاتے ہیں۔ وہ معاشرت جس ک[ تصویر گہرے، تیکھے رنگوں سے چارپائ[ میں کھینچ[ گئ[ ہے، اس کے

آانت‘‘ میں حکیم صاحب کے تانگے سے اس طور پر نمایاں کیا گیا ہے۔ دوسرے رخ کو ’’شیطان ک[

آاپ کو محفوظ خیال کر سکتا تھا نہ دوسروں کو جو ’’حکیم صاحب کے تانگے پر بیٹھ کر کوئ[ شخص نہ اپنے

سڑک پر چل رہے ہوں یا دکان پر بیٹھے ہوں۔ چال جیسے کڑی کمان کا تیر، تیور جیسے کس[ دیہات[ تھانے کا

Page 91: بیانات

تھانیدار۔ کس[ کو نہیں معلوم کس وقت یہ سڑک چھوڑ کر کس[ دکان میں داخل ہو جائے گا، یا تانگے سمیت،

بالا خانے پر چڑھ جائے گا۔ گومت[ سے متصل سڑک پر اس بے پناہ رفتار سے چلا جا رہا تھا جیسے رفتار کا ریکارڈ

مستقیم سے ذرا انحرا� ہوۂ قائم کرنے کے لیے کوئ[ شخص سمندر کے کنارے ریت پر موٹر چلا رہا ہو۔ جاد

جائے تو یہ تانگہ اپن[ مشمولات کے ساتھ دریا میں جا رہے۔ لکھنؤ میونسپل بورڈ نے سڑک اور دریا کے درمیان

آاڑ نہیں قائم ک[ ہے۔ اس فروگذاشت کا جو شخص ذمہ دار ہو اسے حکیم صاحب کے اس تانگے پر سوار کوئ[

بنک روڈ ک[ طر� ہانک دینا چاہیے۔‘‘ کر کے ریور

اس اقتباس میں تخیل، مشاہدے، ادراک اور معاملہ فہم[ ک[ خصوصیات و اہلیت ایک درست توازن کے ساتھ کار

فرما ہے۔ ان تمام خصائص کو ایک خاص لسان[ جمالیت سے ادا کرنا اور طویل تر عبارتوں میں بھ[ ارتکاز اور

آاسان کام نہ تھا۔ صلابت کے جوہر کو قائم رکھنا اتنا

اس لسان[ عمل ک[ دوسری بہترین صورت ان کلمات، فقروں اور جملوں میں دکھائ[ دیت[ ہے جو چست[ و

یعن[ لفظneologismبرجستگ[، جامعیت اور ذکاوت کے جوہر سے مالا مال ہیں۔ رشید صاحب کو

آاتا ہے جیسے محاربۂ الیکشن گڑھنے، نئ[ ترکیبیں وضع کرنے، نامانوس لاحقے اور سابقے لگانے کا ہنر بھ[ خوب

آارٹ یا گھاگھیات اور گھاگھس وغیرہ۔ مبالغہ جو کہیں فنتاسیہ بلکہ افسانوی غلو اور افسانوی التباس یا بھبھوتیائ[

جر آامادہ کرتے ہیں، کبھ[ زی کا تاثر بھ[ پیدا کرتا ہے، ان کلمات ک[ روح ہے۔ یہ کلمات کبھ[ بے اختیار ہنس[ پر

جس حیرت کو کاف[ دیر تک برانگیخت رکھتے لب خفیف سے تبسم کے لیے اکساتے ہیں اور کبھ[ ہمارے احسا

جہ حکمت اور ضابطہ اخلاق و عمل جنہیں مسلمات اگر ک[ مانند ہیں، کہیں پار ہیں ،کہیں یہ کلمات دانائ[ کے

و کلیات ک[ طرح رہنما اصول کے طور پر اخذ کیا جا سکتا ہے اور کہیں محض لفظ[ الٹ پھیر، من ک[ موR اور

جن دل کھینچ لیت[ ہیں اور ہمارے تخیل صر� خوش طبع[ کا نمونہ۔ مگر یہ صورتیں بھ[ وہ ہیں جو بے محابا دام

جر صورت یہ بھ[ عزیز ہیں اور وہ بھ[ عزیز۔ کو مسلسل حرکت میں رکھت[ ہیں۔ ہمیں بہ

جت خلق سے عاری ہو وہ عمر ۱ ہے۔ رائیگاں۔ جو عبادت خدم

Page 92: بیانات

جب علم صحت مند ہے وہاں کا معاشرہ معتبر و مستحکم ہے۔ ۲ ۔ جہاں طال

۔ اگر انسان کو بد ترین دشمن ک[ تلاش ہو تو اس کو اپنے عزیزوں میں مل جائیں گے۔ ۳

۔ نشاط بری چیز نہیں ہے بلکہ نشاط سے مغلوب یا اس کا محتاR ہونا بزدل[ اور کم مائیگ[ ہے۔ ۴

۔ خدا نے اپن[ نجات انسانوں کے سپرد نہیں ک[ ہے بلکہ انسانوں ک[ نجات انسانوں کے سپرد ک[ ہے۔ ۵

آات[ ہے وہ جلد ہ[ خود افسانہ بن جات[ ہے۔ ۶ ۔ جو قوم صر� افسانے کہنے سننے پر اتر

جز بیان ک[ نمائندہ تو ہیں ہ[، مگر ان کا پورا سیاق ان کے کشید کیے ہوئے یہ مثالیں رشید صاحب کے اپنے طر

آافریدہ ہے۔ زائیدہاخلاق[ نقطہ نظر کا و

دوسری مثالیں ملاحظہ فرمائیں جو محض خوش وقت[ کا نمونہ ہیں مگر ادراک ک[ تیزی اور نگاہ ک[ باریک[ ان سے

بھ[ مترشح ہے۔ یہ کم نہیں ہے کہ جب بھ[ ہم انہیں دہراتے ہیں تھوڑے وقتوں کے لیے ہ[ سہ[ حقیقت کے تئیں

آاپ کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہماری ہوش مندی معطل ہو جات[ ہے اور ہم اپنے

آاR تک کس[ دھوب[ کو میلے کپڑے پہنے نہیں دیکھا اور نہ اس کو خود اپنے کپڑے پہنے دیکھا، البتہ۱ ۔ میں نے

اپنا کپڑا پہنے ہوئے اکثر دیکھا ہے۔

جر انقلاب پیدا ہونے لگے تھے لیکن جس وقت میں نے ان کو چھوڑا ہے تو وہ سر بہ کف۲ ۔ میری زندگ[ میں شاع

تھے اور انقلاب سر بہ گریباں!

آاخری جائے پناہ ہے۔ فتح ہو یا شکست وہ رخ کرے گا ہمیشہ چارپائ[ ک[ طر�۔ ۳ ۔ چارپائ[ ہندوستانیوں ک[

آاب و ہوا، تمدن و معاشرت، ضرورت اور ایجاد کا سب سے بھرپور نمونہ ہے۔ ۴ ۔ چارپائ[ ہندوستان ک[

جد راہ نہ پردہ ہے نہ پیانو۔ ۵ رسس عورت ک[ فطرت ہے اور پاسبان[ اس ک[ عادت، ان کا س ۔ تج

Page 93: بیانات

آارٹ یا اس ک[ عریانیوں پر ختم ہو جات[ ہیں، ارہر کے کھیت ک[ خوش فعلیاں ۔ ہائیڈ۶ پارک ک[ خوش فعلیاں

اکثر واٹر لو پر تمام ہوت[ ہیں۔

۔ موت کا وقت معین ہے مگر موکل کا نہیں۔ ۷

اا توجہ دینے ک[ ضرورت ہے، جو فنتاس[ کے ساتھ رشید صاحب ک[ تخیل کے اس خاص عمل پر تاکید

خصوصیت رکھتا ہے۔ رشید صاحب اپنے انشائیوں ہ[ میں نہیں بلکہ اپنے مرقعوں میں بھ[ اکثر حقیقت کو بڑی

نیک نیت[، اور سادہ دل[ سے مسخ کر کے یا اسے بڑی حد تک گھٹا بڑھا کر کچھ اس طور پر پیش کرنے ک[

جر تصویر ایک کاغذی پیرہن میں اپنے خالق ک[ شوخ[ تحریر کا عبرت ناک نمونہ بن کوشش کرتے ہیں کہ ہر پیک

جاتا ہے۔ اسے عبرت ناک کہیں یا مضحکہ خیز، بہر حال وہ بار بار ہماری مروجہ لسان[ ساختوں کو توڑتے ہیں،

صورتیں بناتے ہیں پھر بگاڑتے ہیں۔ اس طرح ک[ توڑ پھوڑ سے انہیں بڑی لذت حاصل ہوت[ ہے۔ یہ مسوکیت ہے نہ

اا: سادیت بلکہ فنتاس[ ک[ وہ صورت ہے جو حقیقت سے ایک مختلف طور پر متعار� کرات[ ہے۔ مثل

’’مغالطے ک[ تحقیق و تفتیش میں میرے پاس وہ[ مواد ہے جو سودا کو اپنے گھوڑے کے سلسلے میں دستیاب ہوا

تھا۔ فرق صر� اس قدر ہے کہ ان کے گھوڑے پر شیطان سوار ہو کر جنت سے نکلا تھا اور بڑی تحقیقات سے یہ

آایا ہے۔‘‘ آامد ہوا کہ مغالطہ خود شیطان پر سوار ہو کر دنیا میں نتیجہ بر

یل[ ، بہ شکل سینٹ کلاویز وارد ہیں بس ’’خلفشار کم ہوا۔ دیا سلائ[ جلائ[ گئ[ تو دیکھتے ہیں کہ حاج[ بلغ الع

مسلط ہیں،جس طرح سارے ہندوستان پر یوں کہہ لیجئے کہ ایک ڈاڑھ[ اور کمل پر حاج[ صاحب اس طور پر

آاشنا ہوں گے کہ ف[ یونین جیک۔ جہاں تک حاج[ صاحب کے چلنے کا تعلق ہے۔ بہت کم لوگ اس راز سے

الحقیقت ڈاڑھ[ اور مکمل حاج[ صاحب پر مسلط نہیں ہوتے بلکہ خود حاج[ صاحب ڈاڑھ[ اور کمل پر مسلط

ہیں۔‘‘

Page 94: بیانات

ان اقتباسات میں صر� زبان سے گڑھنے ہ[ کا کام نہیں لیا گیا ہے بلکہ جیسا کہ پہلے ہ[ عرض کیا جا چکا

ہے ، حقیقت سے وابستگ[ کے ایک نئے طور ک[ جھلک نمایاں دکھائ[ دیت[ ہے۔ رشید صاحب شدت سے

آاباد ہے حقیق[ دنیا اس کے مناف[ ہے۔ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ذہن میں جو ایک معیاری اور مثال[ دنیا

چاروں طر� حسن، نظم اور یگانگت کا فقدان ہے۔ نتیجہ اس مایوس[ ک[ صورت میں نکلتا ہے جو انہیں فنتاسیہ

کے لیے اکساتا ہے اور وہ حقیقت کے تخیل[ متبادلات پیش کرنے لگتے ہیں۔ گویا وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ

انسان[ ذہن میں یہ قوت ہے کہ وہ کس[ وجود کے تجربے ہ[ کا تصور نہیں کرتا بلکہ تخیل[ متبادل بھ[ خلق کر

سکتا ہے کیوں کہ ہر حقیقت ایک سے زیادہ متبادلات ک[ حامل ہوت[ ہے۔ اس[ طرح رشید صاحب ایسے لمحوں

میں جہاں بعض معائر کو مسترد کرتے ہیں وہاں بعض نئے معائر ک[ بنیادیں بھ[ فراہم کرتے ہیں۔

Page 95: بیانات

یی جب کا حسین مجتب مزاح اسلو

آاہستہ ہنسنا اور مسکرانا بھولتے جا رہے آاہستہ میں ہ[ نہیں ہمارے اکثر معاصرین کو یہ شکایت ہے اور بجا ہے کہ ہم

جرد عمل کا نام ہے، لیکن ہمارا معاملہ یہ ہے کہ اب ہمیں ہنس[ ک[ بات پر بھ[ ہیں۔ ہنس[ ایک فطری عمل و ر

ہ[ غائب ہونے لگے تو اسےعنصرپڑتا ہے۔ جس قوم کے روز مرہ سے ہنس[ کا کر ہنسانا دوسرے کو گدگدی چلا

شانزوفرینیا جیسے نفسیات[ عارضے سے کوئ[ نہیں بچا سکتا۔ جہاں تک میرا سوال ہے میں یہ سوچ سوچ کر اکثر

غصہ کیوں بھرا ہوا ہے۔ ہم ذرا ذرا س[ اہم اور غیر اہم، متعلق اور غیر جاتا ہوں کہ ہم میں اس قدر غم و بہت ملول ہو

معافیوں اور معذرتوں کے تمام متعلق باتوں کا جواب لاتوں سے کیوں دینا چاہتے ہیں۔ ایک ذرا سا دھکا لگتا ہے اور

آادھ تھپڑ نہیں تو گالیوں کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔ میں تو یہ[ کہوں گا اور بہ اصرار اور جواب میں ہمیں ایک

جس مزاح یا کہا sense of humour بالتکرار کہنا چاہوں گا کہ وہ قیمت[ نعمت جسے عر� عام میں ح

آائرن[ یہ کہ ہمیں اس محروم[ کا کوئ[ احساس بھ[ نہیں ہے کیونکہ ہم اس سے محروم ہو،جاتا ہے چکے ہیں۔

جس مزاح کو گنوا جس مزاح ک[ محروم[ کے معن[ میرے نزدیک بے حس[ ہ[ کے ہیں۔ جو قوم ح بیٹھت[ ہے اس ح

رائ[، بے رحم[ اور صحیح پسندی خود ،قبت اندیش[ ،تشکیک عاکا کردار عجلت پسندی ، ہٹ دھرم[، نا

مہمل بن کر رہ جاتا ہے۔ ججیسے خاصوں کا تابع

جس مزاح کو موضوع بناتے ہوئے ایک سوال اور میرے ذہن پر بار بار دستک دے رہا ہے کہ ی[ حسین ک[ ح مجتب

ہمارے ادب ہ[ میں نہیں دیگر اہم ترق[ یافتہ زبانوں میں بھ[ مزاحیہ ادب کے سوتے کیوں خشک ہوتے جا رہے ہیں؟

آاخر تکجویں صدی کے بعد ہ[ سے مزاحیہ ادب مسلسل زوال پذیر ہے۔ بیسویں صدی کے ربع17انگریزی میں

اا موت واقع ہو انسان، نظریہ، تاریخ اور مصنف ک[ یکے بعد چک[ ہے۔ خدا، پہنچتے پہنچتے مزاح ک[ تقریب

Page 96: بیانات

اا اب مزاح کا نمبر ہے۔ بعض جدید ہندوستان[ زبانوں کے ادب میں لعن طعن اور طنز و دیگرے اموات کے بعد غالب

اس میں ابتذال ک[ وہ سطح،جاتا ہے تعریض نے غیر معمول[ فروغ پایا ہے، لیکن جسے مزاح اور ظرافت کا نام دیا

جو ہمارے بازاری بے فکرے اور نکمے لوگوں کا کھاجا ہے۔ بعض صوبائ[ زبانوں کے،نمایاں دکھائ[ دیت[ ہے

مزاح نگاروں میں مسابقت کا میلان اس قدر حاوی ہے اور قارئین کے لئے لذت کے سامان فراہم کرنے ک[ ایس[ ہوڑ

نٹ میں کوئ[ فرق نہیں رہ گیا ہے۔ ظاہر ہے اردو ک[ لسان[ تہذیب کے تکلفات اور اس لگ[ ہے کہ مزاح نگار اور

اکھل آازادی کے ساتھ ک[ وضع ک[ اپن[ ایک ایس[ روایت رہ[ ہے جس کے باعث مزاح نگار ایک حد تک ہ[

رنن کے اشتراک ک[ جو مثال قائم ک[ ہے اور کھیل سکتا ہے۔ کم از کم ہمارے مقتدر مزاح نگاروں نے تفکر اور تف

اس کا سلسلہ پطرس بخاری، رشید احمد صدیق[ اور،جو ہمارے مزاح ک[ ایک مستحکم روایت بن چک[ ہے

حسین تک پہنچتا ہے۔ یب[تمشتاق احمد یوسف[ سے ہوتا ہوا مج

ی[ حسین بہت حساس واقع ہوئے ہیں۔ شخصیت فہم[ ، جس گہرے نفسیات[ درک اور باریک بین[ کا مطالبہ مجتب

کرت[ ہے اور بالخصوص ایک مزاح نگار کو جس طور پر بڑے وثوق اور بڑے اعتماد کے ساتھ اسے دلچسپ اور توجہ

ی[ کے خاکے، گروہ[ خیز یں ترجیحات کے حامل ہیں۔ البتہہ یا انفرادی کردار انstockبنانا پڑتا ہے۔ مجتب

آاہنگ کوجدیتا ہے۔ یہ[ پاس آابگینوں کو ٹھیس لگنے کا ڈر انہیں بے حد محتاط بھ[ بنا احتیاط جہاں طنز کے

راہ نکالنے میں انہیں ایک خاص سطح سے بلند نہیں ہونے دیتا وہیں مزاح کے لئے گنجائش پیدا کرنے یا بے خطر

ادب کے مقابلے میں و بڑی کشاکشوں سے بھ[ گزرنا پڑتا ہو گا۔ یہ[ وجہ ہے کہ خالص کشتگان شعرایقینا

گفتار میں بڑا فرق ہے۔ تاہمئ قہر ساماں کے خاکوں میں قلم ک[ رفتار اور شوخجرواں اور دانش ورانج عہدجبالانشینان

ی[ کے بلیغ جملوں اور ایس[ عبارتوں سے خال[ نہیں ہوت[، جن میں ظاہر اور باطن کا تضاد کوئ[ بھ[ تحریر مجتب

محال کو راہ نہ دیتا ہو یا دونوں سطحوں کے مابین کس[ متوقع معن[ یا منشا کے فریب میں مبتلا کرنے وال[جقوم

جہت برقرار نہ ہوت[ ہو۔ اس قسم ک[ عبارتوں میں پہل[ سطح پر جس نف[ یا اثبات ک[ کیفیت سے ہم دوچار ہوتے

نف[ ک[ صورت میں اثبات یاجہیں، دوسرے ہ[ لمحے اس ک[ ضد سے واسطہ پڑتا ہے، پھر ضد ک[ ایک اور ضد

Page 97: بیانات

ی[ حسین کے یہاں واقع ہوت[ ہے۔ گویا ہاں اور نہیں کا یہ فریب طنز ہ[ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ مجتب

آامیزش اسے ایک متوازن کیفیت میں بدل دیت[ ہے۔ مزاح ک[

آاR کا اخبار پڑھ رہے ہیں۔ وہ[ فسادات، وہ[ آاپ آاپ پندرہ دن پرانا اخبار بھ[ پڑھیں تو یوں لگتا ہے جیسے ’’اگر

دھاڑ، سیاست دانوں ک[ وہ[ بدعنوانیاں اور کارستانیاں، حادثے، زنا، اغوا اور ڈکیت[ کے ویسے ہنگامے ، وہ[ مار

آادم[ یوں ہ[ بلاوجہ ہ[ واقعات۔ بری خبروں میں بھ[ اتن[ یکسانیت پیدا ہو گئ[ ہے کہ اگر کس[ روز پچاس ساٹھ

آاگیا نہیں مر (؟جاتے تو لگتا ہے کہ یہ دن تو بس یونہ[ ضائع ہو گیا۔‘‘)کیا نیا سال

’’کس[ نے سچ کہا ہے کہ استاد اور طالب علم ک[ عمروں میں کم از کم پندرہ برس کا فرق ضرور ہونا چاہئے ورنہ

اتنا ہ[ ایک طالب علم کو جوان جات[ ہے۔ جوان عورت کا بوڑھا شوہر جتنا بھلا لگتا ہے، تعلیم خطرے میں پڑ

استاد برا لگتا ہے۔‘‘)پروفیسر عل[ محمد خسرو(

آازادی مل[ ہوئ[ ہے کہ وہ جتن[ چاہیں پارٹیاں بدلیں۔ جب ج[ چاہے اپنے نظریات بدل دیں۔ ’’سیاست دانوں کو یہ

آازادی کے بعد سیاس[ پارٹیوں ک[ حیثیت ’ٹ[ پارٹیوں‘ ک[ س[ ہو گئ[ ہے کہ چائے پ[ ل[ اور یہ[ وجہ ہے کہ

آازادی کے بعد وہ کتن[ پارٹیاں دوسری پارٹ[ ک[ طر� چلے گئے۔ بعض لیڈروں کو تو اب یہ بھ[ یاد نہیں رہا کہ

بدل چکے ہیں۔ ایک زمانے میں لیڈر کس[ پارٹ[ میں شامل ہوتا تھا تو اس پارٹ[ کے کارکن ک[ حیثیت سے ہ[

اس کا جنازہ اٹھتا تھا۔ اب لیڈر کے جنازے کو کندھا دینے والے ایک ہ[ پارٹ[ کے لوگ نہیں ہوتے بلکہ مخلوط

آازادی(ججنازے نکلتے ہیں۔‘‘ )یوم

ااس ک[ مثال[ ریاست میں دوسرے شہریوں پر افلاطون کے بارے میں ہم خوب واقف ہیں کہ مزاحیہ شعرا کو بھ[

مسرت ہے۔ ہنسنے ہنسانے ک[ اجازت نہیں تھ[۔ کیونکہ مزاح )طربیہ( ک[ مسرت خیزی، اس کے نزدیک کینہ توز

اور ہنس[ کا ایک حد سے بڑھنا متشدد ردعمل کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ )افلاطون کا موخر بیان کس[ حد تک غور

Page 98: بیانات

)ادب( کو ہر سطح پر استدلال کے وقار اور حکم ران[ کو طلب ہے( افلاطون یہ بھ[ کہتا ہے کہ مزاحیہ شاعری

متضاد کیفیات ہیں، دونوں ک[ یکجائ[ انسان ک[ خود ضبط[ الم ک[ جو دو برقرار رکھنا چاہئے۔ کیونکہ طرب و

ی[ حسین کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان کے مخاطبوں میں طرب و ک[ قوت کو کم زور کرت[ ہے۔ مجتب

رنن جیس[ متضاد کیفیتوں ک[ یک جائ[، الم یا تفکر و ضبط[ کو کہیں اور کبھ[ کم زور نہیں کر ان ک[ خود نف

پات[۔ ان ک[ طبیعت میں گہری سنجیدگ[ اور اخلاص کا جو عنصر ہے وہ ان ک[ تحریروں میں اس قدر یکساں

روی کے ساتھ قائم رہتا ہے کہ اس میں تفنن ک[ راہ نکالنا اور وقت ک[ یکساں روی سے پیدا ہونے وال[ اکتاہٹ

ی[ حسین ہ[ کا کمال فن ہے۔ افلاطون نے مزاحیہجسے تھوڑی دیر کے لئے چھٹکارا پانے ک[ مہلتیں فراہم کرنا، مجتب

ج� نقد بناتے ہوئے اس قسم کے لمحوں کے ورود کو استدلال کے وقار کو ٹھیس شاعری میں المیہ پہلوؤں کو ہد

آاہیں بھر رہا تھا، اچانک ہنس[ کا فوارہ چھوڑ آانسو بہا رہا تھا، پہنچانے سے تعبیر کیا ہے کہ وہ[ شخص جو ابھ[

جس مزاح دیتا ہے ی[ حسین کے ح اور یہ تمام اعمال وہ ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم جذبے کے غلام ہیں۔ مجتب

رہا تھا، یک محظوظ ہو ابھ[ ہنس رہا تھا، نظر یہ بھ[ کہا جا سکتا ہے کہ وہ[ شخص جوج کے تفاعل کے مد

آاہیں بھرنے لگتا ہے یا آازاد روی اور گہری سنجیدگ[ اختیار کر لخت لیتا ہے۔ یہ جذبے ک[ غلام[ نہیں جذبے ک[

ی[ حسین نے ایک جگہ ل ا ہے:کھجذبے ک[ یک جہت[ پر قدغن لگانے کا عمل ہے۔ مجتب

’’سچا مزاح وہ[ ہے جس ک[ حدیں سچے غموں ک[ حدوں کے بعد شروع ہوت[ ہیں۔ زندگ[ ک[ ساری تلخیوں

ہنسنے کے لئے جس قدر ،سکتا ہے آادم[ قہقہے لگا لینے کے بعد جو اور اس ک[ تیزابیت کو اپنے اندر جذب کر

اتنے گہرے شعور ک[ ضرورت شاید رونے کے لئے نہیں، گہرے شعور اور ادراک ک[ ضرورت ہوت[ ہے

ہوت[۔‘‘) قصہ مختصر(

تفکر اور تفنن یا ہنسنا اور رونا دونوں اعمال نہ تو ایک دوسرے کا ضمیمہ ہیں اور نہ تکملہ بلکہ ایک دوسرے ک[

ضد ہیں۔ اور تخلیق[ سطح پر ضدوں کو اس طور پر مجتمع کرنا کہ ان ک[ دولخت[ ایک جمالیات[ واحدے میں

Page 99: بیانات

آاسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے مزاح نگار کو اپنے شعور ک[ ایک خاص سطح پر تربیت کرن[،ڈھل جائے کوئ[

پڑت[ ہے۔ یہ کس[ فلم یا ٹیل[ وژن سیریل کے فلیش بیک یا فارورڈ فلیش ک[ تکنیک سے زیادہ مشکل کام ہے۔ مزاح

نگار کو تخلیق[ لمحات کے دوران ہ[ اپن[ تحریر کو ایڈیٹنگ سے گزارنا پڑتا ہے تب ہ[ وہ وقت ک[ الٹ پھیر کو

مختلف کیفیتوں کو ایک ایس[ وحدت میں ڈھال ایک فطری روکا احساس دلانے میں کامیاب ہو سکتا ہے اور دو

کہہ سکتے ہیں۔ پوپ کا خیال ائمیکس کے روایت[ تصور کا ردلیا تنزل یا اینٹ[ ک bathosجسے ، سکتا ہے

تھا کہ اینٹ[ کلائمیکس ک[ وہ شکل قابل گرفت ہے جس کا مقصود مزاح ہوتا ہے۔ عظمت کے بعد ایک دم زوال

دردمندی یا ترحم کے جذبات کو برانگیختہ،کا رونما ہونا، مضحکہ خیز صورت حال سے تو دوچار کر سکتا ہے

ی[ حسن اور ی[ حسین اور یوسف[ کا فن پوپ کے اس کلیے ک[ نف[ پر استوار ہے۔ یوں تو مجتب نہیں کر سکتا۔ مجتب

مشتاق احمدیوسف[ کے لسان[ استعمالات اور چیزوں کو دیکھنے اور انہیں اپنے فن میں سمونے، سمیٹنے اور انہیں

مختلف لیکن دونوں کو ضدوں یا دو،تقلیب کے ساتھ ایک خاص وضع دینے کے طریقوں میں بڑا فرق ہے تحریف و

بڑی قدرت حاصل ہے۔ کرنے اور افسانے کو ڈرامہ بنانے پر حالات کو یکجاجکیفیتوں اور صورت

ی[ حسین نے راجندر سنگھ بیدی ک[ رقیق القلب[ اور حس عدا مزاح کو ان ک[ شخصیت کے ایک ایسے بجمجتب

ی[ حسین کا شمار کر کا نام دیا ہے جو کم ہ[ انسانوں کا خاصہ ہوتا ہے۔ ان کم انسانوں میں میرا خیال ہے مجتب

آاپ کو ضرور بچا سکتے ہیں۔ بیدی کے بارے میں ان کے کے بیدی کا ثان[ تلاش کرنے ک[ زحمت سے ہم اپنے

ی[ حسین ک[ ذات پر کیا جا سکتا ہے۔ آاسان[ خود مجتب ان خیالات کا اطلاق بہ

جادھر سےی’’بات دراصل یہ ہے کہ بیدی صاحب ہمیشہ جذبوں ک[ سرحد پر رہتے ہیں اور س کنڈوں میں سرحد کو

جادھر عبور کرلیتے ہیں۔ ان ک[ ذات اادھر سے آاپ نے کبھ[ یہجھٹپٹےاادھر اور کا وقت ہے۔ برسات کے موسم میں

آاسمان پر دھلا دھلایا سورR چھما منظر دیکھا ہو گا کہ ایک طر� تو ہلک[ س[ پھوار پڑ رہ[ ہے اور دوسری طر�

آاپ اس منظر میں نہیں بیدی چھم چمک رہا ہے۔ اس منظر کو اپنے ذہن میں تازہ کر لیجئے تو سمجھئے کہ

دم سورR اس[ طرح چمکتا ہے اور اس[ صاحب ک[ شخصیت میں دور تک چلے گئے ہیں۔ ان ک[ ذات میں ہر

Page 100: بیانات

رہ[ ہوت[ ہے۔ ایسا منظر شاذونادر ہ[ دکھائ[ دیتا ہے اور یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ طرح ہلک[ س[ پھوار پڑ

میں شاذونادر ہ[ دکھائ[ دیت[ ہیں۔‘‘ بیدی صاحب جیس[ شخصیتیں بھ[ اس دنیا

ی[ ک[ شخصیت ہ[ نہیں ان ی[ حسین کے نام سے بدل دیں تو مجتب آاپ اس اقتباس میں بیدی کے نام کو مجتب

ی[ حسن نے عزیز قیس[ کے خاکے میں آاسان ہو سکت[ ہے۔ مجتب کے فن ک[ گرہ کشائ[ ک[ راہ بھ[ ہمارے لئے

ی[ کا ان ک[ شخصیت کے دردمندانہ پہلو کو ان ک[ ایک خاص شناخت کے نام سے یاد کیا ہے۔ جیسا کہ مجتب

آاہستہ روی کے ساتھ پہلے وہ عزیز قیس[ ک[ حساس اور گداز طبیعت کا ذکر کرتے ہیں۔ پھرجطریق کار ہے، بڑی

مجسمے کا نام دیتے ہیں بعد ازاں دوسرے ہ[ لمحے میںunfinished انہیں ایک اندر سے ترشے ہوئے

دیتے ہیں۔ استدلال بھ[ ایسا رنگ چڑھا )ایپ[ سوڈ( کے حوالے سے اپنے بیان پر استدلال کا ایک اسطوری مضمنے

حیرت کو نم ناک کرنے کے لئے کاف[ ہے۔ بات تفنن سے شروع ہوت[ ہے اور ختم ہوت[ ہےججو قاری ک[ چشم

آاپ کو سوچنے پر مجبور تفکر پر۔ گویا بقول یوسف[ پخت ہے۔‘‘ نہ کرے نا ’’وہ مزاح کہ جو

’’میں عزیز قیس[ کا بڑا احترام کرتا ہوں کیونکہ وہ بڑا دردمند اور حساس دل رکھتے ہیں۔ اٹھارہ سال پہلے میں نے

‘‘اب مجسمہunfinished ’’یہ شخص تو بالکل پتھر کا مجسمہ ہے اور وہ بھ[ انہیں دیکھ کر کہا تھا

آاتے ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ مجسمہےبھ[ مجھے عزیز قیس[ کبھ[ کبھ[ پتھر کے مجسم ک[ طرح نظر

اندر سے ترشا ہوا ہے باہر سے نہیں۔‘‘

میں نے اپنے بچپن میں ایک قدیم یونان[ کہان[ پڑھ[ تھ[ کہ پتھر کا ایک مجسمہ شہر کے چوک میں عرصہ سے

کرتا تھا مگر وہ نہ گم صم کھڑا تھا۔ وہ اس کے پاس سے گزرنے والوں ک[ سرگرمیوں کا چپ چاپ جائزہ لیا

نہ رو سکتا تھا۔ ایک دن ایک بڑھیا کا اکلوتا بیٹا مرگیا۔ بڑھیا پاگل ہو گئ[ اور پتھر کے اس مسکراتا تھا اور

Page 101: بیانات

اور بڑھیا کے اس پاگل پن کا جواب دینے مجسمے سے لپٹ کر کہنے لگ[ بیٹا کچھ تو بولو، خاموش کیوں ہو؟

آانسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ آانکھوں سے کے لیے پتھر کے مجسمے ک[

آادم[ کس طرح رو آاخر پتھر کا آائ[ تھ[۔ سکتا ہے مگر عزیز قیس[ کو مجھے اس غیر فطری کہان[ پر ہنس[

دیکھتا ہوں تو مجھے یہ جھوٹ[ کہان[ بالکل سچ[ معلوم ہوت[ ہے۔‘‘

ی[ حسین ک[ سب سے بڑی کمزوری ان ک[ طبیعت،کمزوری جسے ان ک[ طاقت بھ[ کہا جا سکتا ہے، مجتب

کر چلناایک مزاح نگار کے لئے کچھ کم تکلیف دہ نہیں ہوتا۔ ایک لمب[ پریکٹس کے ک[ نرم[ ہ[ ہے جسے نبھا

ی[ حسین نے اندرون[ تخلیق[ بعد اذیت برداشت کرنا ان کے لئے ہنس[ کھیل بن گیا ہے۔ قیاس کہتا ہے کہ مجتب

ی[ صاحب مجھے کہنے ک[ اجازت دیں تویہ کم کا لفظ بھ[ دباؤ کے تحت کم ہ[ خاکے لکھے ہیں اور اگر مجتب

اس لائق تھے اور ہیں کہ ان پر خاکہ لکھنے کے معن[ اپنے قلم کواکچھ زیادہ ہ[ ہے۔ بعض حضرات تو یقینا

اہم حضرات ک[ غیر آازمائش میں ڈالنے کے تھے یا اپنے قلم کو کچھ زیادہ ہ[ عزت بخشنے کے تھے۔ بعض غیر

ی[ حسین ہ[ سے غیر معمول[ شہرت بھ[ مل[۔ جو اپن[ زندگ[ میں ہ[ مردن[ کے عالم میں بسر معروفیت کو مجتب

جن اللہ سے کم طاقت نہیں رکھتا۔ میں نے عرض کیا،رہا ہو کر ی[ حسین کا قلم قم باذ تھا کہ اس کے لئے مجتب

ی[ حسین ک[ سب سے بڑی کمزوری ان ک[ طبیعت کا گداز ہے جسے ان ک[ شخصیت کے خاص جوہر،مجتب

کہ ہےکا نام دینا زیادہ درست ہو گا۔ پچھلے پچاس برسوں ک[ ان ک[ تحریروں کا دفتر اس امر ک[ تصدیق کرتا

کرنے ک[ کوشش نہیں ک[۔ اختیار نے اپنے اس گداز اور اس نرم[ اور اس اخلاص کے جوہر سے کہیں فرار انہوں

آانا ایک عموم[ س[ بات ہے۔ مزاح نگار کے اندر اگر تھوڑا بہت بھ[ بے دردی کا مزاح میں طنز کے لمحوں کا در

آاتش آاتش کو اور زیادہ مشتعلجعنصر ہے تو وہ بے دھڑک ی[ حسین نمرود میں کودنے سے بھ[ دریغ نہیں کرتا۔ مجتب

آاتش کرنے کے بجائے ایک ایسے گر آاگ گل گلزار میںجسے کام لینا جانتے ہیں کہ نمرود میں کودے بغیر ہ[ وہ

Page 102: بیانات

آاباد کا جو۔ بدل جات[ ہے آابادیوں کے بارے چار سو اور مینار ذکر کیا، چار اس سلسلے میں حیدر برس، کچھ حیدر

ہمارا قیام اور دیس سے جانے والے بتا، وغیرہ جیسے انشائیوں میں مزاح کا رنگ نہ صر� میں، قیام الدین کے گھر

گہرا اور دیرپا ہے بلکہ رشید احمد صدیق[ کے عل[ گڑھ اور مشتاق احمد یوسف[ کے کراچ[ اور ماض[ ک[ طر�

آاباد تو کراچ[، ی[ حسین کا حیدر اات بھ[ رکھتا ہے۔ مجتب نکل جائیں تو سرشار کے لکھنؤ سے نظر بازی ک[ جر

آاباد کے لندن، شکاگو اور ٹورنٹو ہ[ میں نہیں دوبئ[ ،مسقط اور سعودی عرب میں بھ[ جلوہ فگن ہے۔ حیدر

آاباد کو اپنے تمام مہاجرین میں ناسٹلجیا ک[ وبا عام ہے۔ اس کا علاR بھ[ انہیں معلوم ہے کہ جہاں جاؤ حیدر

بریانیوں اور بگھارے بینگنوں، کھٹ[ بھاجیوں اور گوشت اور مچھل[ کے دوستوں اور دشمنوں ،قورموں اور کبابوں،

ی[( دوزخ کیا جنت اور کیا اچاروں کے ساتھ لے جاؤ۔ پھر ’ ملک[ ہیں ہم وطن سے سارا جہاں ہمارا‘ )بقول مجتب

آاباد کو ی[ کے ان مشاہدات میں بڑا تنوع ہے۔ انہوں نے جس بے تکلف[ اور بلاتحفظ[ کے ساتھ حیدر بلاشبہ مجتب

آاباد ایک زندہ اور، رقم کیا ہے متحرک ہست[ کے طور پر ہمارے ذہنوں میں گشت کرنے لگتا ہے۔ یہ بات اس حیدر

آات[ ہے جس ک[ دھجیاں انہوں نے دہل[ کے جنگل[ جانور اور حضرت خواجہ حسن نظام[ دہل[ پر کم ہ[ صادق

ایک عجیب وغریب ٹیل[ فون[ بات چیت، پردہ فاش ریل[ سے گریباں چاک ریل[ تک، کے نام ایک خط،

المزاح اور جامعہ سے ظالمیا تک کے علاوہ مختلف اوقات میں مختلف مواقع پر خوب و الطنز الفریب اور ہمارا

ی[ حسین نے یہاں کے موسموں ک[ کج[ اور سخت[، یہاں کے انتظامیہ ک[ بے حس[، ارباب بکھیری ہیں۔ مجتب

عقد ک[ غفلت شعاری، سڑکوں ک[ خستہ حال[، سیاست ک[ پارہ صفت[ اور نیتاؤں ک[ موقع پرست[ کو حل و

ج� ملامت بنایا ہے۔ طنز نے کہیں تعریض ک[ حدوں کو چھولیا ہے تو کہیں غم ک[ کیفیت غصے میں جابجا ہد

آاباد کے دہل[ ک[ طرح واسوخت پر بھ[ اترج وہ دل جلے عاشقان بدل گئ[ ہے۔ کہیں کہیں تو آاتے ہیں۔ حیدر

آاڑے ہاتھوں لیا ہے تاہم جب ک انتظامیہ کو بھ[ انہوں آاتا ہےوئ[نے کئ[ جگہ آابادی شخصیت درمیان یا حیدر

آاباد ک[ مجلس[ زندگ[ کا یا ان پکوانوں کا جو ہمارے ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے حق میں کچھ زیادہ ہ[ مفید حیدر

ی[ کے لئے لمحۂ راحت سے کم حیثیت نہیں رکھتے۔ دہل[ ک[ سخت و، مطلب ہیں درشت زندگ[ کے تناظر مجتب

کا نام دے سکتے ہیں۔ comic relief میں اسے ہم

Page 103: بیانات

میرے تصور میں چار مینار کس[ ترنم اور ڈرامہ بازی کے بغیر دونوں ہاتھوں سے مشاعرہ لوٹنے لگتا تھا تو ’’جب شاذ

آانے لگت[ تھ[۔ کے مینار کچھ اور اونچے ہو جاتے تھے۔ عثمانیہ یونیورسٹ[ ک[ عمارت کچھ اور بھ[ پر شکوہ نظر

نوبت پہاڑ ہمالیہ ک[ طرح اونچا دکھائ[ دینے لگتا تھا۔ دکن دیس ک[ سانول[ شاموں کا حسن کچھ اور بھ[ نکھر

آاتا تھا۔‘‘ )شاذ تمکنت(

یںڑتحسین ک[ وہ بوچھا و رہے ہیں، جس پر داد لطف ک[ بات یہ ہے کہ شاذ اپن[ غزل دہل[ کے مشاعرہ میں سنا

آاباد نہال ہو آاباد کا حیدر آاباد کا جو ذکر کیا"جاتا ہے۔ اس ضمن میں پڑت[ ہیں کہ حیدر کے دو اقتباسات"حیدر

آاباد سے دور آاباد ہ[ میں نہیں حیدر آاباد والے حیدر دیسوں میں بھ[ پیٹ پر جان فدا کرنے ملاحظہ فرمائیں کہ حیدر

کے لئے کتنے اتاؤلے ہوتے ہیں۔

آابادی کھانے کھائے ہیں کہ خود ’’ہم نے کہا یار آائے ہوئے بیس دن ہو گئے۔ ان بیس دنوں میں اتنے حیدر لندن میں

آاباد میں بھ[ پچھلے تیرہ برسوں میں نہ کھائے ہوں گے۔ کھلانا ہ[ ہو تو انگریزی کھانا کھلاؤ۔ میں تو انگریزی حیدر

آابادی پردیس میں ملیں اور کھانا کھانے کے لئے ترس گیا ہوں۔ مجید بولا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دو حیدر

آائیں۔‘‘ بگھارے بینگن بیچ میں نہ

دن کے قیام کے لئے اپنے دوست مسرور خورشید کے یہاں پہنچے تو پیرس میں ہم چار، ’’لندن تو خیر لندن ہے

ریا! م انہوں آابادینے جاتے ہ[ اپنا ریفریجریٹر کھول کر دکھایا کہ بھ یں نے اس میں پورے ایک ہفتہ کے لئے حیدر

یہ یہ رہے بگھارے بینگن، ایک ہفتہ رہو۔ یہ رہ[ نہاری، تم صر� چار دن کیوں رہتے ہو؟ کر رکھ دیئے کھانے پکا

خدا یہ رہ[ کھچڑی اور یہ رہ[۔ ۔ ۔ ، ہم نے اپنے اور ان کے منھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، رہ[ دہ[ ک[ چٹن[،

آابادی کھانوں کا ذکر نہ کیجئے آا کے لئے اب حیدر آابادی تہذیب اب صر� مجھے ابکائ[ رہ[ ہے۔ کیا حیدر

رہ گئ[ ہے۔‘‘ پکوان میں ہ[ اٹک کر

Page 104: بیانات

ی[ حسین کا فن صر� اور صر� خوش[ بانٹنے سے عبارت ہے۔ اس میں عبرت کے اپنے مقامات ہیں جہاں مجتب

ہوہ ہے تھوڑی س[ برہم[، تھوڑی س[ تنقید ہے تھوڑی س[ عیب جوئ[ تاہم پردہ داری زیادہ ہے پردہ دری تھوڑا سا شک

ی[ کو کوئ[ دلچسپ[ نہیں ہے۔؛ کم کیونکہ زندگ[ خود اتن[ اذیت ناک ہے کہ اسے اور اذیت ناک بنانے میں مجتب

ی[ کا مزاح زندگ[ کو اس ک[ تمام تر خامیوں ،کج رویوں اور بد قبول بنانے میں ہماریجہیئتوں کے ساتھ قابل مجتب

مدد کرتا ہے۔ وہ ہمیں بار بار اپن[ بھول[ ہوئ[ ہنس[ ک[ یاد دلاتا ہے کہ زندگ[ کا سب سے صحت بخش اسلوب

آاگے نکل جائے اور ہماری زبان پر محض یہ بھ[ یہ[ ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو آاگے اور کہ وقت تیز رفتاری سے بہت

شعر چپک کر رہ جائے۔

زندہ رہنے کے تھے جتنے اسلوب

آائے زندگ[ کٹ گئ[ تب یاد

***

Page 105: بیانات

رکر کے ساتھ مصنف ک[ اجازت اور تش

ان پیج سے تبدیل[، تدوین اور ای بک ک[ تشکیل: اعجاز عبید

پرو� ریڈنگ: جویریہ مسعود، اعجاز عبید

آائ[ فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ آارگ، کتابیں ڈاٹ فری ڈاٹ کام ک[ مشترکہ250اردو لائبریری ڈاٹ

پیشکش

http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com, http://kutub.250free.com